فہرست مضامین
ہوگرالی کا آدم خور اور دوسری کہانیاں
ترجمہ: مقبول جہانگیر
پیشکش اور ٹائپنگ: انیس الرحمٰن
ڈاؤن لوڈ کریں
مکمل کتاب پڑھیں….
ملایا کے جنگلوں میں
یہ ذکر ہے ملایا کے شمال مشرقی جنگلوں کا۔ اُس زمانے میں بصیغۂ ملازمت میں ریاست ترنگا میں تعینات تھا۔۔
موجودہ تہذیب و تمدّن اور جدید ترین آسائشوں سے نا آشنا اِس ریاست میں زمانۂ قدیم کی رسمیں اور رواج رائج تھے، باشندے اگرچہ مسلمان تھے۔ اکثر قرآن کے حافظ اور صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے، تاہم ان میں بھی توہم پرستی زوروں پر تھی اور خصوصاً ربڑ کے جنگلوں میں کام کرنے والے مزدوروں میں توہمات کا مرض اِس قدر شدید تھا کہ خدا کی پناہ۔ ہر شخص نیک و بد شگون پر یقین رکھتا اور بد رُوحوں کا مرض اسِ قدر شدید تھا کہ خدا کی پناہ۔ ہر شخص نیک و بد شگون پر یقین رکھتا اور بد رُوحوں اور بھوتوں کے قِصے سبھی کی نوکِ زبان رہتے۔ درندوں کی یہاں بڑی کثرت تھی جن میں شیر اور چیتے قابلِ ذکر ہیں۔ ملایا کے جنگلوں میں پَلنے والے شیروں کے بارے میں مَیں نے سن رکھا تھا کہ پیدائشی آدم خور ہوتے ہیں۔ مجھے اِس سے پیشتر ریاست جہور میں ایک آدم خور کا سامنا کرنا پڑا تھا جسے مَیں نے نہایت صبر آزما اور کٹھن حالات کے باوجود موت کے گھاٹ اُتارا۔ آدم خوروں کی نفسیات اور عادتیں جاننے بُوجھنے کے لیے ریاضت کی ضرورت ہوتی ہے اور چونکہ میری مصروفیات کچھ اس نوعیت کی تھیں کہ دن رات کا بیشتر حِصّہ جنگل میں گزرتا تھا، اِس لیے بہت جلد جنگل کی زندگی اور یہاں کے قانون سے آگاہ ہو گیا، تاہم اکیلے دُکیلے کِسی خطرناک جگہ جاتے ہوئے اب بھی ڈر لگتا تھا۔
مَیں نے اپنے تین سالہ قیام کے دَوران مقامی باشندوں سے بھی خاصا ربط و ضبط بڑھا لیا تھا اور ان کی زبان بھی نہ صرف بخوبی سمجھنے لگا، بلکہ ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں اپنا ما فی الضمیر بھی بیان کرنے پر قادر ہو گیا۔ ملایا کے شہروں میں رہنے والے لوگوں کے برعکس جو جدید مغربی تہذیب و تمدّن کی آغوش میں آہستہ آہستہ گرتے جا رہے ہیں، دیہاتوں اور جنگلوں میں رہنے والے اپنی قدیم صفات اور اعلیٰ خوبیاں اب تک برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ توہّمات سے قطع نظر ان لوگوں میں سچائی، بہادری، محنت جفا کشی اور مہمان نوازی کی گزشتہ روایتیں اپنی اصل حیثیت میں ملتی ہیں۔ ہر شخص اپنے دین کے احکام پر چلنا فرض سمجھتا ہے اور رسولؐ سے محبت اس کا جزو ایمان ہے۔ دھوکا، فریب، عیّاری اور دھونس دھاندلی سے قطعاً نا آشنا یہ لوگ ایسی دنیا میں رہتے ہیں جس میں صدیوں سے کوئی تغیّر و تبدل نہیں ہوا۔ جو کام باپ دادا کے وقتوں سے ہوتا چلا آیا ہے، اس میں ترمیم و تنسیخ کرنے کا اختیار کسی کو نہیں۔
ریاست جہور میں کچھ عرصہ کام کرنے کے بعد اچانک مجھے کیجال کے علاقے میں ربڑ کے جنگلوں کی نگرانی اور مزدوروں سے کام لینے کے ‘عہدۂ جلیلہ، پر ایک برطانوی ٹھیکیدار کمپنی کی جانب سے مقرر کیا گیا تھا۔ کیجال میں ربڑ کے انتہائی وسیع و عریض گھنے جنگل، دلدلی میدان اور نہایت خطرناک گھاٹیاں تھیں۔ کہیں کہیں ان جنگلوں میں سَو دو سو افراد پر مشتمل ننھّی سی آبادی کے آثار نظر آ جاتے، ورنہ ہر جگہ درندوں کی حکومت تھی۔ ندیاں نالے بکثرت تھے جو برسات کے موسم میں خوب چڑھ جاتے۔ ان کا پانی ارد گرد کی بستیوں میں نہ صرف تباہی مچاتا، بلکہ درندوں کو بھی ان کی کمین گاہوں سے دھکیل کر بستیوں کی طرف بھیج دیتا۔ درندوں کے علاوہ دوسری بڑی مصیبت اَن گِنت سانپ، بچھّو، کن کھجورے اور اسی قسم کے حشرات الارض تھے جو چیونٹیوں کی طرح راستوں، پگڈنڈیوں اور پُؒلوں پر رینگتے نظر آتے تھے۔ لوگ مویشیوں کو پالنے کے بڑے شائق تھے۔ کیونکہ اِنہی کے دُودھ اور گوشت پر اُن کا گزآ رہ ہوتا تھا، لیکن بڑی مصیبت یہ تھی کہ درندے دن دہاڑے یا رات کی تاریکی میں بستیوں میں گھُس آتے اور مویشیوں کو پکڑ کر لے جاتے۔ یہاں بندوق ٹاواں ٹاواں کسی کے پاس تھی اور وہ پرانی جِسے مَزّل لُوڈنگ کہتے ہیں اور جس میں نالی کی طرف سے بارود بھر کر فائر کیا جاتا ہے۔ یہ بندوق نہایت خطرناک ہوتی ہے اگر چلانے والا احتیاط سے کام نہ لے، تو اُسی کو زخمی یا ہلاک کر ڈالتی ہے۔
اِس طویل تمہید کے بعد مَیں اپنے قِصے کی طرف آتا ہوں:
جُڑواں آدم خور ابتدا میں مویشی اٹھا لے جانے کی عادتِ بد میں مبتلا تھے۔ وہ دونوں آپس میں حقیقی بہنیں تھیں اور اُن کا باپ کیجال کے جنگلوں میں رہنے والا سب سے بڑا اور انتہائی خونخوار شیر تھا۔ اس کی قوت کا یہ عالم تھا کہ کئی من وزنی بھینس کو پنجے کی ایک ہی ضرب سے ہلاک کر ڈالتا اور پھر اُسے دانتوں کی مدد سے گھسیٹ کر میلوں دُور لے جاتا۔ یہ شیر بھینسوں کا خصوصاً دشمن تھا۔ بعض اوقات وہ دو دو بھینسوں کو ایک ہی رات میں پکڑ کر لے جاتا۔ لوگ اس کی حرکتوں سے سخت نالاں و ترساں تھے، لیکن کچھ بس نہ چلتا تھا۔ خیر تھی کہ ابھی تک اُس نے آدمی کے لہُو اور گوشت کا ذائقہ نہ چکھا تھا، ورنہ قیامت ہی برپا ہو جاتی۔۔۔ اِس شیر کو مَیں نے کس طرح ہلاک کیا، یہ داستان خاصی طویل اور دلچسپ ہے، لیکن اُسے کسی اور موقعے کے لیے اٹھا رکھتا ہوں، اس وقت جڑواں آدم خوروں کی کہانی بیان کروں گا۔
یہ شیر جب مارا گیا، تو لوگوں نے سُکھ کا سانس لیا۔ ان کے مویشی اَب محفوظ ہو گئے اور لوگ بھی آزادی سے ایک سے دُوسری بستی میں آنے جانے لگے، مگر ایک ماہ بعد مجھے پتہ چلا کہ شیرنی میدان میں آ گئی۔ یہ بات حیرت انگیز تھی، کیونکہ ملایا کی شیرنیاں اِتنی خوں خوار اور مَردم آزار نہیں ہوا کرتی تھیں۔ در اصل قِصّہ یہ تھا کہ اِس شیرنی کو اپنے دو جڑواں معصوم بچوں کی پرورش کے لیے بہرحال گوشت کی ضرورت تھی اور چونکہ وہ جنگلی جانور کا شکار کرنے کے قابل نہ تھی، اس لیے مویشیوں پر ہاتھ صاف کرنا اُسے آسان نظر آیا۔
مَیں ایک دن اس شیرنی کی تلاش میں گھوم رہا تھا کہ ایک جھاڑی کے اندر سے کچھ کھڑ بڑ کی آواز آئی۔ مَیں رُک گیا اور غور سے دیکھنے لگا۔ شیرنی تو نظر نہ آئی، مگر بھُورے رنگ کے دو ننھّے ننھّے بچّے ضرور دکھائی دیے جو یہی جڑواں بہنیں تھیں۔ میری آہٹ پا کر وہ نہ جانے کہاں غائب ہو گئیں۔ اُس کے بعد کئی ماہ تک مَیں انہیں نہ دیکھ سکا اور نہ اس دَوران میں اُن کی کوئی خیر خبر معلوم ہوئی، البتّہ شیرنی نے چار پانچ گائیں بھینسیں اور ایک دو بکریاں ہی ماری تھیں کہ وہ ایک مقامی باشندے کی مَزّل لُوڈنگ بندوق کا نشانہ بن کر زخمی ہو گئی۔ زخمی ہونے کے بعد اُس کے لیے مویشیوں کو ہلاک کرنا بھی ممکن نہ رہا اور پھر اچانک ایک روز وہ جنگل میں اُس جگہ نمودار ہوئی جہاں مزدور ربڑ کے درختوں پر کام کر رہے تھے، اُس کے ساتھ دونوں بچّے بھی تھے جو جوانی کی سرحدوں میں قدم رکھنے ہی والے تھے۔۔۔ شیرنی نے ایک مزدور کو پکڑ لیا اور گھسیٹ کر جھاڑیوں میں لے گئی۔ پھر انہوں نے دُور کھڑے ہوئے دہشت زدہ مزدوروں کے سامنے ہی لاش کو چیرا پھاڑا اور ہڑپ کرنا شروع کر دیا۔
شیرنی کا آدم خور بن جانا کوئی معمولی حادثہ نہ تھا۔ مزدوروں نے نہ صرف کام پر جانا چھوڑ دیا، بلکہ دہشت اور اور خوف کی لہر جو اُن میں پھیل چکی تھی، اُس نے عجیب افراتفری کا عالم پیدا کر دیا۔ ایک ہفتے بعد شیرنی نے دُوسرا انسانی شکار مارا اور اِس مرتبہ ایک بد نصیب عورت اُس کے ہتھے چڑھی۔ وہ اپنے بچّوں کے لیے قریبی ندّی سے پانی کا گھڑا لا رہی تھی کہ گھاس میں چھُپی ہوئی شیرنی نے اُس کا تعاقب کیا اور بستی میں پہنچنے سے پہلے پہلے ہی عورت پر حملہ کر کے اُسے ہلاک کر دیا۔ عورت کی چیخیں سُن کر کُچھ لوگ نیزے اور تلواریں لے کر دوڑتے ہوئے وہاں پہنچے اور انہوں نے دیکھا کہ شیرنی نے عورت کو چوہے کی مانند مُنہ میں دبا رکھا ہے اور اُس کے ساتھ دو چھوٹے شیر بھی اُچھلتے کودتے چلے جا رہے ہیں۔ اِس کا مطلب یہ تھا کہ شیرنی تو آدم خور بن ہی چکی، لیکن اُس نے اپنے بچّوں کو بھی ابتدا ہی سے انسانی گوشت اور خُون کی چاٹ ڈال دی تھی اور اگر ان کا صفایا نہ کیا گیا، تو یہ تینوں مل کر تھوڑے ہی عرصے میں تمام انسانی بستیوں کا صفایا کر ڈالیں گے۔
تیسرے ہفتے شیرنی نے ایک اور شخص کو ہلاک کیا، مگر لاش کو لے جانے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اُسی لمحے ایک بستی کے سو ڈیڑھ سو آدمی اپنے کندھوں پر جنازہ اٹھائے قبرستان کی طرف جاتے ہوئے جنگل سے گزر رہے تھے۔ انہوں نے خون میں لَت پَت اُس شخص کو دیکھا، تو رُک گئے۔ وہ مر چکا تھا، چنانچہ اُسے بھی چند لوگوں نے چادروں میں لپیٹا اور ساتھ لے چلے۔ شیرنی اور اُس کے بچّے قریبی جھاڑیوں میں چھُپے ہوئے یہ تماشا دیکھ رہے تھے۔ شیرنی نے جب لاش کو ہاتھ سے جاتے دیکھا، تو تڑپ اٹھی اور گرج کر جھاڑیوں سے باہر نکل آئی۔ لوگ اندھا دھُند بھاگ اُٹھے اور انہوں نے جنازہ بھی ایک طرف رکھ دیا اور درختوں پر چڑھ گئے۔ شیرنی دیر تک بے چین اور مضطرب اِدھر اُدھر پھرتی رہی، لیکن لاش کے نزدیک جانے کی جرأت نہ ہوئی۔ آخر ایک طرف کو چلی گئی۔
اگلے روز یہ قِصّہ میرے کانوں میں پہنچا۔ مَیں نے فوراً چند آدمیوں کو ساتھ لیا اور وہاں پہنچ گیا۔ مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ لاش ابھی تک اُسی حالت میں پڑی تھی اور کسی جانور نے اُسے چھیڑنے کی جسارت نہ کی تھی۔ یہ ایک بوڑھا اور نہایت عبادت گزار شخص تھا جس کے بارے میں مقامی لوگ کہتے تھے کہ وہ خُدا رسیدہ اور نہایت ولی آدمی ہے۔ اُس کی کئی کرامتیں بھی مشہور تھیں، مگر شیرنی کے سامنے اُس کی کوئی کرامت کام نہ آئی۔ در اصل اس کی موت اِسی بہانے لکھّی تھی۔ مَیں بھی اُسے جانتا تھا اور وہ خُدا رسیدہ تھا یا نہیں، اس کے بارے میں مَیں کچھ نہیں کہہ سکتا، لیکن ایک پرہیزگار اور متقی آدمی ضرور تھا۔ مجھے اُس کی لاش اٹھانے کی اِس اندوہناک موت کا صدمہ ہوا۔ بستی والے بھی اُس کا ماتم کر رہے تھے، مگر جنگل جا کر اُس کی لاش اٹھانے کی جرأت کِسی میں نہ تھی۔ جب مَیں نے دیکھا کہ شیرنی نے اسے ہڑپ نہیں کیا، تو سچّی بات یہ ہے کہ مجھے اُس شخص کے ولی ہونے میں کوئی شبہ نہ رہا، یہ کتنی عجیب بات تھی کہ لاش ساری رات جنگل میں پڑی رہی اور بھُوک سے بے تاب شیرنی اور اُس کے بچّے قریب بھی نہ پھٹک سکیں۔ مَیں نے اپنے آدمیوں سے کہا کہ لاش کو وہیں پڑا رہنے دیں، مَیں ایک رات اُس کے قریب ہی کسی درخت پر مچان باندھ کر شیرنی کا انتظار کرنا چاہتا ہوں۔
سُورج غروب ہونے سے آدھ گھنٹہ پیشتر مَیں کیل کانٹے سے لیس ہو کر مچان پر پہنچ گیا۔ شمال کی جانب سے آہستہ آہستہ کالی گھٹائیں اُمڈ رہی تھیں اور ہوا کی تیزی اور تُںدی میں ہر لمحہ اضافہ ہو رہا تھا۔ خدشہ تھا کہ اگر ہوا اِسی طرح چلتی رہی، تو مچان کا خدا حافظ ہے۔ میرے ساتھ آنے والے سب لوگ اپنے اپنے ٹھکانوں کو واپس جا چکے تھے۔ اَب میں تھا اور جنگل کی ہیبت ناک فضا جس میں تین آدم خور گھات لگائے بیٹھے تھے۔ یک لخت گھٹا تیزی سے اُٹھی اور دیکھتے دیکھتے آسمان تاریک ہو گیا۔ پھر بجلی کی کڑک اور بادلوں کی گرج کے ساتھ موسلا دھار بارش شروع ہو گئی۔ اب مجھے احساس ہوا کہ کِس مصیبت میں پھنس گیا ہوں۔ مچان سے اُترنا محال تھا۔ بارش کا پانی ننھّے ننھّے کنکروں کی مانند میرے چہرے پر آن کر لگ رہا تھا اور سردی تھی کہ بڑھتی ہی جاتی تھی۔ میرے سامنے کچھ فاصلے پر بوڑھے کی لاش پڑی پانی میں بھیگ رہی تھی اور مَیں اس حماقت پر ندامت محسوس کر رہا تھا کہ محض اپنے شوق مہم جُوئی کی خاطر ایک مسلمان بزرگ کی میّت کی بے حرمتی کر رہا ہوں اور کہیں ایسا نہ ہو کہ اِسی کی پاداش میں خدا مجھے شیرنی کا تر نوالہ بنا دے۔ یہ خیال آتے ہی میرے جسم کا رُواں رُواں فرطِ خوف سے لرز گیا۔ جسم تو پہلے کانپ رہا تھا، مگر اس بھیانک تصوّر نے میرا دل و دماغ بھی ہلا کر رکھ دیا۔ اَب مَیں خدا سے اپنے اِس قصور کی دل ہی دل میں معافی مانگنے لگا۔
بارش اور ہوا کا شور۔۔۔ الامان و الحفیظ۔۔۔ ہر طرف گھپ اندھیرا جسے کبھی کبھی بجلی کی چمک دُور کرتی تھی۔ مَیں جس درخت پر مچان کے اوپر خرگوش کی مانند دبکا بیٹھا تھا، وہ کچھ زیادہ اُونچا نہ تھا۔ کپڑے تر ہو چکے تھے اور کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ اس حالت میں اگر شیرنی نمودار ہو گئی تو مَیں فائر کیسے کر سکوں گا۔ ادھر بارش کی یہ کیفیت کہ نہ رُکنے کی گویا قسم کھا لی تھی۔
ڈیڑھ گھنٹے بعد کُچھ اُمید بندھی کہ یہ قیامت خیز طوفانِ باد و باراں رُک جائے گا۔ موسلا دھار بارش آہستہ آہستہ پھوہار میں بدلنے لگی۔ مطلع صاف ہونے لگا اور آسمان پر اِکّا دُکا تارے نمودار ہونے لگے۔ درختوں سے گرتے ہوئے پانی کی آواز کانوں میں اب بھی آ رہی تھی اور مَیں نے مدھم سے روشنی میں دیکھا کہ بارش کا پانی میرے دائیں جانب واقع ایک نشیب میں جمع ہو رہا ہے۔ یکایک یوں محسوس ہوا جیسے کوئی جانور درخت کے عین نیچے حرکت کر رہا ہے۔ مَیں نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھا، مگر کچھ نظر نہ آیا، لیکن دُوسرے ہی لمحے شیرنی کی گرج سُن کر جنگل کا چپّہ چپّہ بیدار ہو گیا اور میرا دل یک لخت اچھل کر حلق میں آ گیا۔ مَیں نے بد حواس ہو کر طاقت ور برقی ٹارچ روشن کر دی۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک قد آور شیرنی کچھ فاصلے پر کھڑی للچائی ہوئی نظروں سے لاش کی طرف گھور رہی ہے۔ ٹارچ روشن ہوتے ہی شیرنی نے سر اٹھا کر میری طرف دیکھا اور پھر گرجتی ہوئی اسی طرف آئی، لیکن وہ لنگڑا کر چل رہی تھی، غالباً اس کا دایاں پنجہ بے کار ہو چکا تھا۔ میں نے ٹارچ بُجھا دی اور رائفل سے نشانہ لیے بغیر فائر کر دیا۔ شیرنی دھاڑتی ہوئی جھاڑیوں میں جا چھُپی اور دیر تک اُس کے اِدھر اُدھر پھرنے اور غرّانے کی آوازیں آتی رہیں۔ اِس موقعے پر مَیں پڑھنے والے دوستوں کو سچ سچ بتا دینا چاہتا ہوں کہ میں جِم کاربٹ، کینتھ اینڈرسن، جے۔ اے ہنٹر یا کرنل پیٹرسن کی طرح تجربے کار اور نڈر شکاری ہرگز نہیں ہوں، وہ تو اتفاق کی بات ہے کہ مجھے رائفل سنبھالنی پڑی اور وہ بھی اِس لیے کہ جس علاقے میں میرا کام تھا، وہاں رائفل کے بغیر گزآ رہ ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ ابتدا میں ایک دو شیر مارنے کے بعد مجھے یہ خوش فہمی ہو گئی تھی کہ مَیں اچھا شکاری بن سکتا ہوں، چنانچہ اِس زعم میں آدم خوروں سے بھی دو دو ہاتھ کرنے کی جرأت ہو گئی، لیکن اَب پتہ چلا کہ یہ کام کتنے جان جوکھوں کا ہے اور شکاری کی ذرا سی حماقت اُسے کس طرح آدم خور کے پیٹ کے ایندھن میں تبدیل کر سکتی ہے۔
مَیں جس مچان پر بیٹھا تھا، زمین سے اُس کی اونچائی سات آٹھ فٹ سے زیادہ نہ تھی اور اگر شیرنی کی اگلی دائیں ٹانگ زخمی نہ ہوتی، تو یقیناً اتنی بلندی پر آسانی سے جست کر کے مجھے پکڑ سکتی تھی اور ممکن ہے کہ یہ طوفانِ باد و باراں نازل نہ ہوتا، تو وہ ایسا کر ہی گزرتی، تاہم خدا نے بال بال بچایا۔ مَیں نے شیرنی کو مزید خوفزدہ کرنے کے لیے دو فائر کیے اور یہ ترکیب کارگر ہوئی۔ چند منٹ تک گرجنے اور غرّانے کے بعد وہ دُور چلی گئی اور پھر رفتہ رفتہ اُس کی آواز معدوم ہوتی گئی۔
مجھے یقین تھا کہ اگر مَیں یہیں بیٹھا رہوں، تو صبح سے پہلے کوئی شخص میری خبر لینے نہ آئے گا۔ اور ابھی صبح صبح ہونے میں بڑی دیر تھی۔ شیرنی جا چکی تھی اور خطرہ ٹل گیا تھا، لیکن سیاہ بادل دوبارہ جمع ہو رہے تھے۔ مَیں پہلے ہی بارش میں اِس قدر بھیگ چکا تھا کہ جو کچھ مجھ پر نہ گزرتی، کم تھا۔ جوں توں کر کے مچان سے اُترا اور واپس گاؤں کی طرف چلا۔ لوگ ابھی تک جاگ رہے تھے۔ انہوں نے مسلسل فائر کی آوازیں سنی تھیں، لیکن جب پتہ چلا کہ شیرنی ابھی مری نہیں، تو غصّے اور مایوسی سے ان کے چہرے لٹک گئے۔ غصّہ اس بات پر کہ میری وجہ سے پہنچے ہوئے ایک بزرگ کی لاش بے گورو کفن جنگل میں پڑی رہی اور مایوسی یوں کہ شیرنی پھر بچ کر نِکل گئی۔ لوگوں نے اگرچہ مجھے سے کچھ نہ کہا، تاہم ان کی ناراضی کا اندازہ کرنا کچھ مشکل نہ تھا۔
اگلے روز اُن بزرگ کو نہایت عزّت و احترام سے سپردِ خاک کر دیا گیا۔ جنازے میں دور و نزدیک کی سبھی بستیوں کے مرد و زن شریک ہوئے۔ میری حالت چوروں کی سی تھی اور بلا شبہ مجھے اپنے کیے پر انتہائی ندامت اور شرم محسوس ہو رہی تھی، مگر مَیں معذرت کرنے کے سوا کر ہی کیا سکتا تھا۔ پانی میں دیر تک بھیگنے اور سردی لگنے کے باعث مجھے کئی روز تک ہلکا ہلکا بخار بھی رہا، لیکن اس دوران میں بھی میں شیرنی کی کھوج میں برابر لگا رہا۔ آخر معلوم ہوا کہ اُسے اپنے دونوں بچّوں سمیت اِس علاقے کی مشہور کیجال پہاڑی کے جنوبی حِصّے میں گھومتے پھرتے دیکھا گیا ہے۔ کیجال پہاڑی کے بارے میں لوگ عجیب کہانیاں بیان کرتے تھے۔ ایک روایت یہ تھی کہ اِس پہاڑی پر صدیوں سے پہلے کوئی بزرگ آن کر ٹھہرے تھے اور انہوں نے چِلہ کشی کی تھی۔ چِلے کے دوران میں، جس کی مُدّت چالیس روز کی تھی، اِن بزرگ نے کچھ کھایا نہ پیا، لیکن انہیں جسمانی کمزوری یا نقاہت مطلق نہ ہوئی۔ پھر لوگوں نے دیکھا کہ جنگل کے تمام جانور اپنے اپنے ٹھکانوں سے نکلے اور پہاڑی کے گرد جمع ہو گئے۔ اُن میں درندے، چرندے اور پرندے سبھی شامل تھے۔ وہ اِن بزرگ کو سلام کرنے آئے تھے، لیکن بزرگ نے آنکھ اُٹھا کر بھی ان کی طرف نہ دیکھا اور ہاتھ کے اشارے سے چلے جانے کا حکم دیا، چنانچہ سب جانور خاموشی سے چلے گئے۔ پھر لوگوں نے یہ بھی دیکھا کہ جنگلی درندے اُس پہاڑی کے گِرد ساری ساری رات پہرہ دیتے ہیں۔ بعد میں وہ بزرگ اچانک غائب ہو گئے، لیکن اُن کی برکت کا اثر ابھی تک اُس پہاڑی پر موجود ہے اور اُس کا ثبوت یہ ہے کہ جو شخص بھی اِس پہاڑی کی چوٹی پر پناہ لے، اُسے کوئی درندہ یا دوسرا جانور نقصان نہیں پہنچا سکتا۔
کیجال پہاڑی کے گرد و نواح میں تین بستیاں بڑی مشہور اور خوب آباد تھیں۔ ایک کا نام تیلوک پنجور، دوسری کا نام تیلوک کالونگ اور تیسری کو منیکوانگ کہتے تھے۔ ملائی زبان میں ’تیلوک‘ کا لفظ بستی یا گاؤں کے لیے اِستعمال کیا جاتا ہے۔ زیادہ تر باشندے جنگلوں میں درختوں سے ربڑ نکالنے، کٹائی کرنے، گھاس جمع کرنا اور اور اس طرح کے بے شمار کام کاج کیا کرتے تھے۔ نہایت صابر و شآ کر تھے۔ جو کچھ مل جاتا اُسی پر قناعت کرنے والے، فائدہ ہوتا، تو اللہ کا شکر ادا کرتے۔ نقصان ہوتا تو اُسے بھی خدا کی طرف سے کوئی بہتری سمجھ کر بھُول جاتے اور ذرا فکر نہ کرتے۔ جنگلی درندے آئے دن اُن کے مویشی اُٹھا اُٹھا کر لے جاتے، مگر ان لوگوں کو مطلق پروا نہ تھی۔ مَیں نے کئی آدمیوں کی زبانی یہ سُنا کہ یہ درندے بھی خدائی مخلوق ہیں اور انہیں بھی رزق دینا اللہ ہی کا کام ہے، لہٰذا مہینے دو مہینے میں چند مویشی اُن کی خوراک بن جائیں، تو کیا ہرج ہے۔ اِن لوگوں نے از خود جنگلی درندوں سے چھٹکارا پانے کی بھی کوشش نہیں کی۔ غالباً یہ روایت وہاں تھی ہی نہیں کہ جو تمہیں نقصان پہنچائے، اسے مار ڈالنے یا بھگا دینے کی فکر کرو۔۔۔ بس چپ چاپ ظلم سہنا اُن کی فطرت بن چکی تھی۔
کیجال کی یہ آدم خور شیرنی نہ معلوم کہاں چھُپ گئی۔ بہت عرصے تک اُس کا کوئی پتہ نہ چلا اور اس دوران میں کسی نئی واردات کا قِصّہ بھی نہ سنا گیا۔ بہرحال لوگوں نے سکون کا سانس لیا اور اطمینان سے اپنے روزمرّہ کے دھندوں میں مصروف ہو گئے، لیکن میرے دِل میں جیسے پھانس سی اٹکی ہوئی تھی۔ مَیں جاننا چاہتا تھا کہ آخر شیرنی اور اُس کے دو بچُوں پر کیا بیتی۔ کیجال کے گرد و نواح میں ایک ایک چپّہ چھان مارا، مگر اُن کا کوئی سراغ نہ ملا، البتہ بعض لوگوں نے یہ اقرار کیا کہ انہوں نے رات کے ہولناک سنّاٹے میں پہاڑی کی طرف سے شیروں کے غرّانے کی آوازیں ضرور سُنی ہیں۔
کیجال پہاڑوں کے چاروں طرف نہایت گھنا اور تاریک جنگل تھا جسے ایک برطانوی کمپنی نے خرید لیا تھا اور چند روز کے اندر اس میں کام شروع ہونے والا تھا۔ ایک دن کا ذکر ہے، مَیں اپنے دوست سے مِلنے پنجور کی طرف گیا جس جگہ مَیں رہتا تھا وہاں سے پنجور کا فاصلہ تقریباً بیس میل تھا اور گھوڑے کے سوا اور کوئی سفر کا ذریعہ نہ تھا۔ صبح کا وقت تھا اور سورج کی سنہری دھُوپ چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی۔ مَیں اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر تنِ تنہا پنجور کی طرف چل پڑا۔ راستے میں جا بجا مختلف علاقوں میں مزدور کام کرتے دکھائی دیے۔ سبھی مجھے جانتے پہچانتے تھے۔ اِن سے شیرنی اور اُس کے بچّوں کے بارے میں پُوچھتا گچھتا آگے بڑھتا گیا۔ کوئی خاص بات معلوم نہ ہوئی۔ جب پہاڑی کے دامن میں پہنچا تو دوپہر ہو چکی تھی۔ مَیں نے گھوڑا ایک ٹیلے کے پاس روکا اور اُسے گھاس چَرنے کے لیے چھوڑ دیا۔ پھر مَیں نے اپنا ناشتہ دان نکالا اور ایک طرف آرام سے بیٹھ کر کھانا کھانے لگا۔ میرا خیال تھا کہ تیسرے پہر تک پنجور پہنچ جاؤں گا۔
ابھی مَیں نے بمشکل چند ہی نوالے کھائے تھے کہ گھوڑا زور ہنہنایا اور دَوڑ کر میرے پاس آیا۔ وہ بُری طرح کانپ رہا تھا اور گردن ہلا ہلا کر ہنہناتا جاتا۔ مَیں سمجھ گیا کہ ضرور کوئی بات ہے۔ فوراً رائفل سنبھالی اور چوکنّا ہو کر اپنے ارد گرد دیکھا۔ بائیں ہاتھ پر ایک بلند ٹیلے کے ساتھ ساتھ ایک چھوٹی سی کھائی تھی اور اُس میں کسی جانور کے آہستہ آہستہ حرکت کرنے کی آواز آ رہی تھی۔
مَیں لمبی گھاس میں چھُپ گیا۔ گھوڑا پھر ہنہنایا اور یک لخت ایک طرف کو اندھا دھُند بھاگ اُٹھا اور ابھی مَیں اُسے حیرت اور خوف کی مِلی جُلی نظروں سے دیکھ ہی رہا تھا کہ کھائی میں سے غرّاتی گرجتی دو جوان اور نہایت خوبصورت شیرنیاں برآمد ہوئیں اور گھوڑے کے تعاقب میں دوڑیں۔ چشم زدن میں انہوں نے گھوڑے کو جا لیا اور اس سے پیشتر کے مَیں کچھ سمجھ سکوں، انہوں نے گھوڑے کو گھسیٹا اور جنگل میں غائب ہو گئیں۔ دیر تک مَیں پتھر کے بے جان بُت کی مانند لمبی گھاس میں بے حس و حرکت پڑا رہا۔ پھر ہمّت کر کے اُٹھا اور کھائی کی طرف چلا۔ شیرنیوں کے قدموں کے نشانات اور تازہ لید کثرت سے پڑی تھی اور جانوروں کی بڑی بڑی ہڈیوں کے انبار بھی وہاں لگے تھے۔ تعفّن اور سڑاند برداشت سے باہر تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ شیرنیاں ابھی تک مِل جُل کر رہتی ہیں اور شکار لا کر یہیں ہڑپ کرنے کی عادی ہیں۔ کھائی کے پرلے سرے پر مجھے ایک جانور کی لاش پڑی دکھائی دی اور یہ وہی بوڑھی اپاہج شیرنی تھی جس کی تلاش میں مَیں حیران و پریشان پھر رہا تھا۔ اُس کی کھوپڑی پھٹی ہوئی تھی۔ نہ معلوم کیا حادثہ پیش آیا کہ شیرنی اس بلند ٹیلے سے نیچے کھائی میں گِری۔ ایک بڑے پتھّر سے اس کا سر ٹکرایا اور وہیں مر گئی۔
گھوڑا تو ہاتھ سے جا چکا تھا، لیکن مجھے اِن جوان شیرنیوں کے ٹھکانے کا پتہ ضرور چل گیا۔ اب میرے سامنے دو راستے تھے۔ پہلا تو یہ کہ سیدھا پنجور جاؤں۔ اپنے دوست سے تمام حالات کا ذکر کروں، پھر اُسے ساتھ لے کر یہاں آؤں اور اِن دونوں شیرنیوں کو ٹھکانے لگا دوں۔ دُوسرا راستہ یہ تھا کہ پنجور جانے کے بجائے یہیں چھپ کر شیرنیوں کا انتظار کروں، ممکن ہے وہ گھوڑے کی لاش لے کر اِدھر ہی آئیں۔ دیر تک سوچتا رہا۔ آخر فطری بزدلی آڑے آئی اور مَیں یہ طے کر کے اِن موذیوں کا ٹھکانہ تو معلوم ہو ہی چکا ہے، پنجور ہی جانا چاہیے، تیز قدموں سے اپنی منزلِ مقصود کی طرف روانہ ہو گیا۔ کیجال پہاڑی اپنی پُوری عظمت اور شان و شوکت کے ساتھ میرے سامنے تھے اور جونہی میں چڑھائی طے کر کے پرلی ڈھلان پر نِکلا، پنجور کی مختصر سی خوبصورت بستی میری نگاہوں کے سامنے تھی۔
اُن دنوں پنجور میں میرے ایک انگریز دوست جنہیں مسٹر ولسن کہہ لیجئے، تعیّنات تھے اور جنگلوں کے ایڈمنسٹریٹر آفیسر کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔ سیدھا اُن کے بنگلے پر پہنچا۔ لکڑی کے بنے ہوئے برآمدے میں بیٹھے سہ پہر کی چائے پی رہے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی اٹھ کھڑے ہوئے اور نہایت تپاک سے ملے۔ آدم خور شیرنی کی داستانیں اُن کے کانوں تک پہنچ چکی تھیں اور اگرچہ انہیں شکار سے کبھی واسطہ نہیں پڑا تھا، لیکن تھے جی دار آدمی میرا قِصّہ سُن کر بہت ہنسے اور کہنے لگے:
’خدا کا شکر ادا کیجیے کہ گھوڑے ہی پر بات ٹل گئی، ورنہ وہ شیرنیاں آپ کو پکڑ کر لے جاتیں۔‘
’جی ہاں، بس معجزہ ہی ہو گیا۔‘ مَیں نے کہا: ‘مگر یہ سمجھ لیجئے کہ اَب اِس علاقے پر کوئی نہ کوئی آفت آیا ہی چاہتی ہے۔ آدم خور شیرنی تو مر چکی ہے، مَیں اُس کی لاش کھائی میں پڑی دیکھ چکا ہوں، وہ ایک بلند چٹان سے اتفاقیہ طور پر پھسل کر گری اور مر گئی۔ اُس کے دو بچّے اَب جوان ہو چکے ہیں اور دونوں مادہ ہیں۔ اُنہی نے میرے گھوڑے کو پکڑا ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ اُن کے مُںہ کو ابتدا ہی سے آدمی کے خون اور گوشت کا چسکا پڑا ہوا ہے۔ ابھی تو وہ مویشیوں کے پیچھے پڑی ہیں، چند روز بعد آدمیوں کی باری بھی آ جائے گی اور علاقہ بھی آپ کا ہے۔‘
مسٹر ولسن یہ سُن کر متفکّر ہو گئے۔ چند لمحے تک خاموش بیٹھے کچھ سوچتے رہے، پھر کہنے لگے:
’واقعی بات تو تشویش کی ہے، آج کل کام کا بڑا زور ہے اگر اِن دنوں کچھ گڑبڑ ہوئی، تو خاصا نقصان ہو گا۔ اِن درندوں کا ابھی سے کچھ انتظام ہونا چاہیے۔ آپ اِس سلسلے میں کیا کر سکتے ہیں؟’
’جناب میرے علاقے میں ابھی اَبتری پھیلی ہوئی تھی۔ اب خدا خدا کر کے کچھ سکون ہوا ہے، لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا یہ سکون عارضی ہے اور اُسے حشر میں تبدیل ہونے کے لیے زیادہ دیر نہ لگے گی۔ مَیں تو اِسی لیے آیا تھا کہ آپ حکومت کی طرف سے مجھے کیا کیا سہولتیں بہم پہنچا سکتے ہیں؟’
’سہولت تو جو آپ کہیں مِل سکتی ہے۔‘ مسٹر ولسن نے کہا۔ ‘لیکن مصیبت یہ ہے کہ یہاں کے لوگ بڑے عجیب ہیں۔ اِن سے آپ کو تعاون بمشکل ملے گا اور لوگوں کی مدد کے بغیر کوئی قدم اٹھانا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ بہرحال آپ آج یہیں آرام کیجیے، صبح میں اپنے چند نڈر کارندوں کو بلاؤں گا، ان میں سے چند لوگ نڈر ہیں اور جنگلوں سے بھی واقف۔ غالباً روپے کا لالچ کام کر جائے گا۔ شاید ان میں سے ایک آدھ شخص بندوق چلانا بھی جانتا ہو۔‘
اگلے روز علی الصّبح میں بیدار ہوا۔ مسٹر ولسن کے اردلی سے معلوم ہوا کہ صاحب دَورے پر چلے گئے ہیں اور شام تک لوٹیں گے۔ مَیں نے رائفل کندھے پر لٹکائی اور گاؤں کی سیر کے لیے نکل کھڑا ہوا۔ یہ گاؤں تین طرف سے چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں میں گھِرا ہوا تھا۔ آبادی مشکل سے چھ سو نفوس پر مشتمل ہو گی۔ مکان سب کے سب لکڑی کے بنے ہوئے تھے۔ مرد کام پر جا چکے تھے، بچے گھروں اور گلیوں میں کھیل رہے تھے اور عورتیں آپس میں گپ شپ کر رہی تھیں۔ میری طرف کسی نے توجہ نہ دی، البتہ چند بوڑھے لوگوں سے سلام دُعا ضرور ہوئی۔ ایک ڈیڑھ گھنٹہ گھوم کر مَیں بنگلے کی طرف لوٹا۔۔۔ یکایک پندرہ بیس آدمیوں کا ایک گروہ شمال کی طرف سے گاؤں کی طرف آتا دکھائی دیا۔ یہ لوگ بے وقت واپس آ رہے تھے، اس لیے مَیں وہیں رُک کر ان کا انتظار کرنے لگا۔ یقیناً کوئی حادثہ پیش آیا تھا۔
جب یہ گروہ قریب پہنچا، تو مَیں نے دیکھا کہ ان کے چہروں پر ہوائیاں اُڑ رہی ہیں اور وہ چیخ چیخ کر اپنی زبان میں ایک دوسرے سے کچھ کہہ رہے تھے۔ ان میں سے چند آدمی ایسے تھے جنہیں مَیں پہچانتا تھا اور وہ بھی میری شکل سے آشنا تھے، چنانچہ بستی کی طرف جانے کے بجائے سیدھے میری طرف آئے اور آتے ہی کہنے لگے:
’جناب، جلدی جائیے، کالونگ والی سڑک پر پندرہ فٹ لمبا اور پانچ فٹ اونچا ایک شیر گھوم رہا ہے۔ اس نے ہم پر حملہ کرنے کی کوش کی تھی، مگر خدا نے بچا لیا، ہم کام پر جا رہے تھے جناب اور ہمیں معلوم نہیں تھا کہ وہ ہمارے انتظار میں وہاں چھُپا ہوا ہے۔۔۔ اُس نے ہمیں دیکھا اور دانت نکال کر غُرایا۔۔۔‘
’شیر نہیں صاحب، شیرنی تھی، شیرنی۔۔۔‘ دوسرے نے تردید کرتے ہوئے کہا۔ ’مَیں نے اُسے غور سے دیکھا تھا، وہ شیرنی تھی۔۔۔‘
مَیں سمجھ گیا کہ انہوں نے جڑواں شیرنیوں میں سے کِسی ایک کو دیکھ لیا ہے، لیکن حیرت یہ تھی کہ دن نکلنے کے بعد بھی اُس نے اِن آدمیوں کو اُدھر سے گزرنے کی اجازت نہیں دی۔
’آؤ، تم لوگ میرے ساتھ چلو۔‘ میں نے کہا۔ ‘ڈرو مت میرے پاس بندوق ہے، مَیں اسی شیرنی کی تلاش میں اِدھر آیا ہوں۔‘
بڑی مشکل سے مَیں نے انہیں ساتھ چلنے کے لیے راضی کیا۔ اُن سب کے پاس کلہاڑیاں تھیں اور جسمانی قوّت کے اعتبار سے بھی سب خاصے ہٹّے کٹّے تھے۔ اگر چاہتے، تو شیرنی کو گھیر کر چند لمحوں میں اِس کی تکّا بوٹی کر ڈالتے۔ اس معاملے میں یوگنڈا، کینیا اور نیروبی کے جنگلی لوگ خاصے تیز ہیں۔ وہ اپنے نیزوں، برچھوں اور تیر کمانوں ہی سے شیروں، چیتوں، گینڈوں اور ہاتھیوں تک کو ہلاک کر ڈالتے ہیں۔ اگرچہ ایسی مہموں میں کئی لوگ موقعے پر مارے بھی جاتے ہیں، تاہم وہ اِس بات کی پروا نہیں کرتے، بہرحال میں اُن سب کو نصیحت کرتا اور بہادر لوگوں کے کارنامے سُناتا ہوا اسی پگڈنڈی کی طرف چلا جدھر سے یہ لوگ آ رہے تھے۔
یہاں جنگل کچھ زیادہ گھنا نہ تھا۔ زمین نرم اور دلدلی تھی اور جھاڑ جھنکار کثرت سے پگڈنڈی کے دونوں جانب اُگا ہوا تھا۔ اِن جھاڑیوں کو عبور کرنا انسان کے بس میں نہ تھا، کیونکہ تین تین انچ لمبے سوئیوں کی مانند نوکیلے کانٹے ان میں لگے تھے۔ مَیں نے ان آدمیوں سے کہہ دیا تھا کہ اونچی آواز میں گیت گاتے یا باتیں کرتے ہوئے چلیں تاکہ شیرنی اگر اب بھی یہاں موجود ہو تو اپنے آرام میں مداخلت پا کر دوبآ رہ غُرائے۔ تقریباً ڈھائی تین میل چلنے کے بعد یکایک ایک شخص چِلّایا:
’دیکھیے جناب یہ رہے، اس کے پنجوں کے نشان۔‘
مَیں نے ان نشانوں کو غور سے دیکھا اور دیکھتے ہی سمجھ گیا کہ یہ شیرنی ہے۔ مجھے ان شریف آدمیوں نے بتایا تھا کہ اُس کا قد پندرہ فٹ لمبا اور پانچ فٹ اونچا ہے، لیکن اس کے قد و قامت کا اندازہ کیا، وہ یہ تھا کہ قد دُم سے لے کر ناک تک سات فٹ لمبا اور تقریباً ڈھائی فٹ اونچا ہے اور نرم زمین پر اس کے پنجوں کے گہرے نشان بھی یہ ظاہر کرتے تھے کہ اُس کا وزن عام شیرنیوں کی نسبت کچھ زیادہ ہی ہے۔ بہرحال ہم آگے بڑھتے گئے۔ حدِّ نظر تک دونوں جانب خار دار جھاڑیاں بے حس و حرکت کھڑی تھیں۔ کہیں کہیں جنگلی چُوہوں اور نیولوں کے غول کے غول پھرتے نظر آتے، مگر ہمارے قدموں کی آہٹ پا کر چشم زدن میں غائب ہو جاتے۔ شیرنی کے پنجوں کے نشان جھاڑیوں کے ساتھ سیدھ میں مشرق کی طرف چلے گئے تھے۔ اب ہم یہ اُجاڑ اور ویران حِصّہ عبور کر کے ایک سرسبز و شاداب پہاڑی کے دامن میں داخل ہوئے جس کے پرلی طرف ایک گھنا اور ہیبت ناک ربڑ کے درختوں کا جنگل پھیلا ہوا تھا اور یہ مزدور اسی جنگل میں کام کرتے تھے۔ وہاں سے بے شمار لوگوں کے باتیں کرنے اور قہقہے لگانے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ کچھ لوگ ایک جانب لکڑی کا ایک چھوٹا سا مکان بنا رہے تھے۔ شیرنی اِسی جنگل میں کہیں چھپی ہوئی تھی، کیونکہ وہاں کام کرنے والے ایک شخص نے اُسے اُدھر جاتے دیکھا تھا۔ ان میں سے کسی کو بھی معلوم نہ تھا کہ اِس شیرنی کے منہ کو بچپن ہی سے انسانی خون لگ چکا ہے۔ بہرحال مَیں نے اس موقعے پر یہ خبر سنا کر افراتفری پھیلانا مناسب نہ سمجھا، البتّہ نِگران کو بتا دیا کہ شیرنی کا خاص خیال رکھے کہ وہ آدم خور ہے اور کِسی وقت بھی مزدوروں پر حملہ کر سکتی ہے۔ یہ سُن کر اُس کے چہرے پر دہشت کے آثار نمودار ہوئے اور پھر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ چند منٹ کے اندر اندر یہ خبرِ وحشت اثر سارے جنگل میں پھیل چکی تھی اور مزدور کام کاج بند کر کے ایک جگہ جمع ہو رہے تھے۔ غضب یہ ہوا کہ اس خبر کی تصدیق میرے ساتھ آنے والے مزدوروں نے بھی کر دی، حالانکہ ان میں سے کسی کو معلوم نہ تھا کہ یہ شیرنی اور اس کی جڑواں بہن دونوں آدم خور ہیں۔
اِس جنگل سے میرا کوئی تعلق نہ تھا۔ اس لیے مزدوروں کے یوں اچانک کام چھوڑ دینے سے مجھے تشویش ہوئی کہ جب ذمّے دار لوگوں کو پتہ چلے گا، تو مجھے قصوروار ٹھہرائیں گے۔ مَیں نے بڑی کوشش کی کہ وہ دوبارہ کام شروع کر دیں، مگر کوئی شخص ٹَس سے مس نہ ہوا، بلکہ سب اپنے اپنے گھروں کو جانے کی تیّاریاں کرنے لگے۔ مَیں نے سوچا ممکن ہے مسٹر ولسن آ گئے ہوں، وہی اس معاملے میں کوئی مناسب قدم اٹھا سکیں گے، لہٰذا پنجور واپس چلنا چاہیے، چنانچہ پنجور میں رہنے والے مزدوروں کی ایک جماعت کے ساتھ مَیں واپس ہوا اور سورج غروب ہونے کے تھوڑی دیر بعد بستی میں پہنچ گیا۔ مسٹر ولسن کے بنگلے کے سامنے مَردوں، عورتوں اور بچّوں کا ہجوم تھا اور ان میں سے بعض کے رونے کی آوازیں سنائی دیں۔ یہ دیکھ کر میرے ہاتھ پاؤں پھُول گئے اور پہلا خیال دل میں یہی آیا کہ مسٹر ولسن کو کوئی حادثہ پیش آ گیا ہے۔ مجمع مجھے دیکھ کر کائی کی طرح پھٹ گیا۔ مسٹر ولسن کا اردلی پامت دونوں ہاتھوں سے چہرہ ڈھانپے بچّوں کی طرح چلّا چلّا کر رو رہا تھا۔
’کیا ہوا؟’ مَیں نے اُسے جھنجھوڑ کر کہا: ‘مسٹر ولسن کہاں ہیں؟’
’انہیں شیر پکڑ کر لے گیا۔‘ پامت نے جواب دیا اور میرا دل جیسے نیچے بیٹھنے لگا۔
’شیر پکڑ کر لے گیا؟ کہاں؟ کس جگہ۔۔۔‘
پامت نے سسکیوں اور آہوں کے درمیان جو لرزہ خیز کہانی مجھے سنائی اُس کا خلاصہ یہ ہے:
مسٹر ولسن اپنی پرانی جیپ گاڑی میں گئے تھے۔ ان کے پاس کوئی بندوق اور پستول نہ تھا۔ شام سے پہلے پنجور کی طرف واپس آ رہے تھے کہ ایک جگہ جیپ خراب ہو گئی۔ انہوں نے اسے ٹھیک کرنے کی بڑی کوشش کی، مگر بے سُود، چنانچہ جیپ وہیں چھوڑ کر پیدل چلے۔ اندھیرا لمحہ بہ لمحہ بڑھتا جا رہا تھا۔ پنجور ابھی پانچ میل دُور تھا کہ یکایک انہوں نے دیکھا ایک شیر ( وہ شیرنی تھی جو اندھیرے کے باعث اردلی کو شیر دکھائی دی) تعاقب میں چلا آتا ہے اور اس پیشتر کے وہ بچاؤ کے لیے کسی درخت پر پناہ لیں، شیر نے جست کی اور مسٹر ولسن کو زمین پر گرا دیا اور پھر اردلی نے دیکھا کہ وہ صاحب کو مُنہ میں دبا کر چھلانگیں لگاتا ہوا ایک طرف غائب ہو گیا۔
وہ رات انتہائی ڈراؤنی اور بھیانک تھی۔ بار بار مسٹر ولسن کا چہرہ میری نظروں کے سامنے گھومتا اور ان کی باتیں یاد کر کے دل اُمڈ اُمڈ آتا۔ گاؤں کے لوگ بھی ان کی موت پر بے حد افسردہ اور خاموش خاموش تھے۔ بچّے سہمے ہوئے، عورتیں لرزاں و ترساں اور مرد حیران پریشان۔ میں علی الصبح اُٹھا، اپنا سامان تیّار کیا۔ گاؤں سے چند ہٹّے کٹّے اور جی دار لوگ جمع کیے اور مسٹر ولسن کی لاش کے بچے کھچے اجزا کی تلاش میں روانہ ہوا۔ رہنمائی کے لیے اردلی پامت کو ساتھ لیا۔ پنجور سے پانچ میل شمال کی جانب ایک جگہ جنگل کے عین وسط میں ان کی جیپ کھڑی دکھائی دی۔ کچھ فاصلے پر شیرنی کے پنجوں کے نشانات بھی واضح تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ خاصی دُور سے جیپ کے تعاقب میں چلی آ رہی تھی اور یہ حرکت شیرنی کی فطرت سے بعید ہے۔ ممکن ہے جیپ خراب نہ ہوتی، تو اسے مسٹر ولسن یا اردلی پر حملہ کرنے کا موقع نہ ملتا، لیکن جب قضا ہی سر پر کھیل رہی ہو، تو ایسے حالات کا پیدا ہو جانا کچھ مشکل نہیں۔ ذرا میری حیرت کا اندازہ کیجیے کہ جب مَیں نے جیپ کا معائنہ کیا، تو اس میں کوئی خرابی نہ تھی وہ فوراً چالو ہو گئی۔
شیرنی نے جس جگہ مسٹر ولسن کو گرایا تھا، وہاں جما ہوا خُون بڑی مقدار میں بکھرا ہوا تھا اور اُن کے کپڑوں کی دھجیاں بھی جا بجا پھیلی نظر آئیں۔ یہ منظر اتنا دل دوز تھا کہ مَیں اپنے آنسو ضبط نہ کر سکا اور اردلی پامت کی تو روتے روتے ہچکیاں بندھ گئیں۔
مسٹر ولسن کی لاش (بشرطیکہ اُسے لاش کہنا درست ہو) ڈھونڈنے میں کچھ زیادہ دقّت نہ ہوئی۔ ایک گھنی جھاڑی کے اندر اُن کی کھوپڑی، ہاتھ پیروں کی انگلیاں، چند پسلیاں، ایک ٹانگ اور آنتیں وغیرہ پڑی نظر آئیں۔ شیرنی غالباً کئی دن کی بھُوکی تھی کہ اُس نے جی بھر کر پیٹ بھرا تھا۔ مَیں نے ان اعضاء کو وہیں رہنے دیا اور اِدھر اُدھر جائزہ لے کر اندازہ کیا کہ کون سی جگہ مناسب ہے جہاں رات کو چھُپ کر مَیں شیرنی کا انتظار کروں۔ یہ تو طے تھا کہ وہ دوبارہ اِدھر ضرور آئے گی۔
تقریباً پچیس فٹ کے فاصلے پر ایک ٹیلا نظر آیا جس کے اِرد گرد جھاڑ جھنکاڑ کثرت سے اُگا ہوا تھا۔ یہ ٹیلا بہترین کمین گاہ بن سکتا تھا، چنانچہ مَیں نے اچھّی طرح دیکھ بھال کرنے کے بعد رات اس ٹیلے پر گزارنے کا فیصلہ کر لیا۔ ممکن ہے مَیں ایسی حماقت آمیز جرأت نہ کرتا، لیکن وِلسن کی دردناک موت سے میرے تن بدن میں انتقام کی آگ بھڑک اُٹھی اور مَیں ہر قیمت پر اس شیرنی کو جہنّم واصل کر دینا چاہتا تھا۔ مَیں نے گاؤں والوں کو واپس بھیج دیا اور خود پامت کے ساتھ ٹیلے کے گرد حفاظتی اقدامات کرنے میں مصروف ہو گیا۔ ارد گرد سے مزید خار دار جھاڑیاں کاٹ کاٹ کر ٹیلے کے چاروں طرف پھیلائی گئیں تاکہ شیرنی اگر اس پر چڑھنے کی کوشش کرے بھی، تو ناکام رہے۔ اس کام سے فارغ ہو کر مَیں نے شیرنی کے پنجوں کے نشانات تلاش کیے۔ معلوم ہوا کہ اپنا پیٹ بھرنے کے بعد وہ جنگل کے اندرونی حصّے میں چلی گئی۔ پنجوں کے نشان سیدھ میں چلے گئے تھے۔ پامت نے بتایا کہ دو تین میل کے فاصلے پر ایک پہاڑی چشمہ ہے اور شیرنی اپنی پیاس بجھانے وہیں گئی ہو گی۔ مَیں نے چشمہ دیکھنے کا ارادہ کیا، تو وہ کچھ پس و پیش کرنے لگا۔ غالباً ڈر رہا تھا، لیکن ہمّت بندھانے پر اور مسٹر ولسن کی سابقہ مہربانیوں کا خیال کر کے آخر چل ہی پڑا، تاہم خوفزدہ نظروں سے اِدھر اُدھر دیکھتا جاتا تھا۔ مَیں اُس کے پیچھے پیچھے رائفل سنبھالے جا رہا تھا۔
شیرنی نے چشمے تک پہنچنے کے لیے نہایت چالاکی سے کام لیا تھا۔ وہ سیدھا راستہ اختیار کرنے کے بجائے چکّر کاٹ کر وہاں تک پہنچی تھی، بہرحال ہم نے بہت جلد چشمہ تلاش کر لیا۔ چشمہ کیا تھا، ایک بلند اور سرسبز پہاڑی ٹیلے کے چند ننھّے سوراخوں سے پانی رِس رِس کر ایک نشیبی گڑھے میں جمع ہوتا جاتا تھا۔ اس گڑھے کے گِرد شیرنی کے علاوہ کئی اور جانوروں کے پیروں کے نشانات بھی دکھائی دیے پانی پینے کے بعد شیرنی نے اپنا رُخ یکایک مشرق کی طرف کر لیا تھا۔ اَب میں نے واپسی کا ارادہ کیا اور مجھے پورا یقین تھا کہ شیرنی اس جنگل میں کہیں موجود ہے اور رات کو لاش پر ضرور آئے گی۔ واپسی میں ہم ایک راستے سے گزرے اور یہاں بھی ہم نے شیرنی کے پنجوں کے نشانات دیکھے۔ کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ یہ معاملہ کیا ہے۔ شیرنی کو بیک وقت دو مختلف راستوں پر آنے جانے کی کیا ضرورت پیش آئی، لیکن جب غور سے ان نشانوں کو دیکھا، تو حیرت کا ایک نیا باب کھل گیا۔ یہ نشان اُن نشانوں سے مختلف تھے جو مَیں نے مسٹر ولسن کی لاش اور چشمے کے ارد گرد دیکھے تھے۔ یکایک خیال آیا کہ یہ اُس کی جڑواں بہن دوسری شیرنی ہو گی۔ گویا وہ دونوں یہاں جمع ہو گئی تھیں۔ ایک بار پھر مَیں ولسن کے بچے کھچے اعضاء کو دیکھنے پہنچا اب وہاں یہ بھی انکشاف ہوا کہ لاش کو دونوں شیرنیوں نے مِل کر کھایا ہے، ورنہ ایک ہی شیرنی خواہ کتنی ہی بھوکی ہو، ساری کی ساری لاش ہڑپ نہ کر سکتی تھی۔
وہ رات مَیں ساری عمر نہ بھُول سکوں گا۔ تاریک جنگل میں اس ٹیلے پر بیٹھا ہوا مَیں سوچ رہا تھا کہ اگر ان آدم خور شیرنیوں کو بچ کر نکل جانے کا موقع مِل گیا، تو اس کے کتنے بھیانک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ بستیاں ویران ہو جائیں گی اور اس علاقے میں آدم زاد ڈھونڈے سے بھی نہ ملے گا۔ ہر طرف ایک ہولناک سنّاٹا طاری تھا اور کبھی کبھی مغرب کی جانب سے مینڈکوں کے ٹرّانے کی مدھّم آوازیں سنائی دے جاتی تھیں۔ ہوا بند تھی، درختوں کے پتّے ساکن اور شاخیں بے حِس و حرکت تھیں۔ میرے پاس رات کاٹنے کا پورا سامان تھا۔ تمباکو کی تھیلی، پائپ، قہوے سے بھرا ہوا تھرماس، شکاری چاقو، ٹارچ اور طاقتور رائفل۔ وقت کاٹنے کے لیے پائپ بھَرا، لیکن ماچس کی تیلی جلاتے ہوئے ڈر لگتا تھا کہ اس کا شُعلہ روشن ہوتے ہی شیرنیاں اگر قریب ہوئیں، تو راہِ فرار اختیار کریں گی، چنانچہ دم سادھے بیٹھا رہا۔ آسمان پر مطلع صاف تھا اور تارے جھِل مِل کر رہے تھے۔ مَیں نے کلائی موڑ کر گھڑی پر نظر ڈالی، چمکتی ہوئی سوئیوں نے بتایا کہ بارہ بج کر پندرہ منٹ ہوئے ہیں۔ یکایک ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا سرسراتا ہوا میرے پاس سے نِکل گیا اور پھر ایسی آہٹ ہوئی جیسے کوئی جانور دبے پاؤں قریبی جھاڑیوں میں حرکت کر رہا ہے۔
ابتدا میں یوں محسوس ہوا جیسے یہ آواز دائیں جانب سے آئی، پھر بائیں جانب سے میرے حواس پوری طرح بیدار تھے اور اعصاب چاق چوبند۔ رائفل سختی سے تھام کر مَیں نے سر ذرا اُوپر اٹھایا اور ارد گرد دیکھا۔ آواز چند لمحے تک رُکی رہی اور پھر وہی کھڑ بڑ۔۔۔ میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ یک لخت مَیں نے تاروں کی مدھّم روشنی میں دیکھا کہ وہ دونوں شیرنیاں دائیں بائیں سے نکلیں اور مسٹر ولسن کے اعضاء کی طرف بڑھیں۔ ان کا قد و قامت ایک جیسا تھا۔ پھر ہڈیاں چٹخنے اور گوشت چبانے کی آواز سنائی دی۔ اَب میں نے ٹارچ کا بٹن دبایا اور اس کے ساتھ میری رائفل سے یکے بعد دیگرے دو گولیاں نکلیں۔ خدا کی پناہ۔۔۔ فائروں کے دھماکے، شیرنیوں کی گرج، جنگلی پرندوں اور جانوروں کی آوازوں سے گویا حشر برپا ہو گیا۔ چند لمحے تک ان بھیانک آوازوں سے جنگل کی فضا لرزتی رہی، پھر حسب معمول خاموشی چھا گئی۔ مَیں نے ٹارچ کی روشنی جھاڑیوں پر ڈالی اور دیکھ کر مسرّت کی انتہا نہ رہی کہ گولیاں نشانے پر بیٹھی تھیں اور شیرنیوں کے بھیجے اڑ گئے تھے اور اس طرح کیجال کی ان دو آدم خور شیرنیوں کا قصہ پاک ہوا۔
٭٭٭
http: //shikariyat.blogspot.com/2019/07/blog-post.html
https: //cafeadab.com/author/maqbooljahangir/
پانار کا آدم خور چیتا
(اصل مصنف: جم کاربٹ)
پانار کا آدم خور چیتا یقیناً ایسی بَلا تھی جس سے معصوم اور سیدھے سادھے انسانوں کو نجات دلانے کے لیے مجھے بڑی تگ و دَو کرنی پڑی۔ چار سو افراد کو ہڑپ کر لینے کے باوجود اس درندے کی صفتِ خوں آشامی جوان تھی اور اس کی ہلاکت خیز سرگرمیوں کا دائرہ وسیع ہوتا جا رہا تھا۔ یہ ذکر ہے 1907ء کا اور اُن دنوں مَیں کچھ زیادہ تجربے کار شکاری بھی نہ تھا۔ جنگل کا چلن اور طور طریقے سمجھنے کے لیے ایک مُدّت درکار تھی۔ سب سے پہلے جس آدم خور سے مجھے دو دو ہاتھ کرنے پڑے، وہ چمپاوت کی شیرنی تھی۔ اس کا ذکر مَیں پہلے کر چکا ہوں اور یہ بھی بتا چکا ہوں کہ انہی دنوں ضلع الموڑہ کے مشرقی علاقے پانار میں ایک چیتے کے اودھم مچانے کی خبریں میرے کانوں میں پہنچی تھیں۔ مَیں نے ارادہ کیا تھا کہ چمپاوت کے آدم خور کا قِصّہ پاک کرنے کے بعد پانار کے چیتے کی طرف توجّہ دوں گا۔ اس درندے نے واقعی بستی کی بستیاں ویران کر ڈالی تھیں۔
چیتے کے بارے میں مجھے کچھ زیادہ تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں، اس جانور کے بارے میں بہت کچھ کتابوں میں لکھ چکا ہوں۔ میرے علاوہ اور بہت سے شکاریوں نے بھی اس درندے کے متعلق اپنے چشم دید واقعات بیان کیے ہیں، لیکن پانار کا آدم خور چیتا جو چار سَو انسانوں کا خون پی چکا تھا، کسی اور ہی مٹی کا بنا ہوا معلوم ہوتا تھا۔ اُس نے جس انداز میں اپنا بچاؤ کیا اور انسانوں کو ہلاک کرنے کے ساتھ ساتھ میرے تعاقب میں بھی لگا رہا، اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ اس کی صلاحیتیں عام چیتوں کی نسبت کچھ زیادہ مختلف ہیں۔ کئی مرتبہ ایسا ہُوا کہ اس نے مجھے نہایت مکاری سے گھیرے میں لے کر مار ڈالنا چاہا، لیکن قسمت کی خوبی کہ مَیں ہر بار مَوت کے مُنہ سے بچ نکلا۔ عام چیتے کی فطرت یہ ہے کہ وہ کسی منصوبے کے تحت انسانوں یا جانوروں پر حملہ نہیں کرتا، بلکہ اچانک آن پڑتا ہے، لیکن پانار کا آدم خور چیتا اپنے شکار پر حملہ کرنے کے لیے پہلے سے منصوبے باندھتا تھا۔ اس کی یہ خاصیّت حیرت انگیز تھی۔ دوسری خصوصیت یہ تھی کہ پیش آنے والے واقعات کا پہلے سے اندازہ کر کے اپنی حفاظت کا بندوبست کر لیتا۔ خُدا ہی جانتا ہے کہ اُس میں یہ نادر حِس کیسے پیدا ہوئی۔ سچ پوچھیے تو اپنی اسی خوبی کی وجہ سے وہ اتنے عرصے تک ہلاک ہونے سے محفوظ رہا۔ اُس میں صبر و استقلال کا مادّہ بھی حد سے زیادہ تھا۔ اس مہم کے دوران میں ایک مرتبہ جب میں نے اُس کی ناکہ بندی کی، تو وہ چار دن تک اپنی کمین گاہ میں بھُوکا پیاسا چھپا رہا اور ایک لمحے کے لیے بھی باہر نہ نکلا۔ انسانوں کا گوشت کھا کھا کر اور لہو پی پی کر اُس کے قد و قامت، قوت و خونخواری میں بے پناہ اضافہ ہو چکا تھا۔ حتیٰ کہ ایک مرتبہ کسی شیر نے اس کے منہ سے شکار چھیننے کی کوشش کی، تو چیتا مقابلے پر ڈٹ گیا اور چند منٹ کے اندر اندر شیر کو لہولہان کر کے میدانِ جنگ سے بھاگ جانے پر مجبور کر دیا۔
دن کے وقت وہ شاذ و نادر ہی باہر نکلتا، لیکن رات ہوتے ہی اس کی آواز سے جنگل لرزنے لگتا۔ بندروں کا جانی دشمن تھا اور آدم خور بننے سے پہلے اس نے جنگل سے بندروں کا بڑی حد تک صفایا بھی کر دیا تھا۔ بندر بھی اس کی تاک میں رہتے اور جونہی وہ اپنے ٹھکانے سے برآمد ہوتا، چیخ چیخ کر آسمان سر پر اُٹھا لیتے۔
یہ تھے وہ حالات جن کی موجودگی میں مَیں نے پانار کے اس آدم خور چیتے سے دو دو ہاتھ کرنے فیصلہ کیا۔ چمپاوت کی آدم خور شیرنی کو ٹھکانے لگانے کے بعد جب میں اپنے گھر واقع نینی تال واپس آیا، تو پانار کے آدم خور کا تصور میرے دل و دماغ پر بیٹھا ہوا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ ایکھ دو روز آرام کر لینے کے بعد نئی مہم پر نکلوں گا۔ کیونکہ یہ درندہ الموڑہ کے مشرقی دیہاتوں اور قصبوں میں انسانی خون کی ہولی کھیلنے چمپاوت کی شیرنی سے بھی بازی لے گیا تھا۔ اسی دوران میں نینی تال کے کمشنر نے مجھے بُلوا بھیجا اور بتایا: ‘مکتیسر کے علاقے میں ایک آدم خور شیر نے تباہی مچا رکھی ہے، فوراً وہاں پہنچو اور اُس موذی کو کیفر کردار تک پہنچاؤ، ورنہ میری نوکری جاتی رہے گی۔‘ کمشنر صاحب کو انسانوں کی جان جانے کی اتنی پروا نہ تھی جتنی اپنی نوکری کی۔ حُکمِ حاکم مرگِ مفآ جات، میں تعمیل کے لیے مکتیسر روانہ ہوا اور پندرہ روز کی تھکا دینے والی تگ و دو کے بعد اس آدم خور کو ہلاک کیا۔ مکتسر سے واپس آ کر کمر کھولنے بھی نہ پایا تھا کہ الموڑہ کے ڈپٹی کمشنر میری گردن پر سوار ہو گئے۔ میں سمجھ گیا کہ وہ کس مقصد کے لیے آئے ہیں۔ انہیں اطمینان دلایا کہ جلد از جلد اس چیتے کو ختم کرنے کی کوشش کروں گا۔ کرنے کو تو میں نے اُن سے وعدہ کر لیا تھا، مگر پریشان تھا کہ یہ مہم کامیاب کیوں کر ہو گی۔ کیونکہ مجھے اس سے پیشتر الموڑہ کے علاقہ میں جانے کا اتفاق نہیں ہوا تھا اور نہ مَیں مختلف راستوں سے آگاہ تھا۔ میں نے اس مشکل کا ذکر ڈپٹی کمشنر الموڑہ سے کِیا تو انہوں نے ازراہِ کرم ضلع الموڑہ کے چند نقشے تیار کرا کے مجھے دیے جس میں دیہاتوں، گاؤں، ندّیوں، نالوں، کچی سڑکوں اور پگ ڈنڈیوں کو خوب واضح کر دیا گیا تھا۔ نقشہ دیکھنے سے معلوم ہوا کہ جس مقام پر چیتے نے ہلاکت خیز سرگرمیاں شروع کر رکھی ہیں اس مقام تک پہنچنے کے لیے دو راستے زیادہ محفوظ ہیں: ایک پتھوراگڑھ روڈ سے براستہ پانوالہ اور دوسرا دیبی دھورا روڈ سے براستہ لام گرا۔ غور و فکر کے بعد میں نے دوسرا راستہ تجویز کیا۔ ساز و سامان درست کیا اور دوپہر کو کھانا کھانے کے بعد منزل کی طرف چل پڑا۔ میرے ساتھ سامان اٹھانے کے لیے چار قُلی اور ایک میرا ذاتی ملازم تھا۔ پہلے ہی روز ہم نے چودہ میل کا فاصلہ پیدل طے کیا۔ آدھی رات کو، جبکہ آسمان پر چودھویں کا چاند روشن تھا، ہم ایک گاؤں کے نزدیک پہنچے اور ایک اسکول کی عمارت کے سامنے جا کر رُکے، یہ عمارت نہ جانے کب سے ویران اور بے آباد پڑی تھی۔ ہر طرف خود رو جھنکاڑ نظر آتا تھا۔ صحن میں چوہُوں اور حشرات الارض کے بے شمار بل دکھائی دیے۔ ہم نے وہیں ڈیرے ڈال دیے۔ چونکہ خیمے وغیرہ ساتھ لے کر نہ چلے تھے اس لیے کھُلے آسمان کے نیچے رات کاٹنی پڑی۔ صحن اندازاً بیس فٹ چوڑا تھا اور اس کے تینوں طرف دو فٹ اونچی دیوار کھچی ہوئی تھی۔ چُونکہ آدم خور کا علاقہ ابھی کئی میل دُور تھا، اس لیے میں نے بے پروا ہو کر قلیوں اور ملازم کو اس صحن میں سو جانے کی ہدایت کی، مگر انہوں نے تھوڑی دیر بعد شکایت کی کہ گرمی زیادہ ہے اور مچھّر چین نہیں لینے دیتے۔۔۔ کھانا بھی ابھی تک نہ کھایا تھا! چنانچہ قلی گئے اور اسکول کے پچھواڑے سے خشک لکڑیاں اور گھاس پھونس جمع کر کے لے آئے، الاؤ روشن کر دیا گیا۔ میرے ملازم نے تھیلے میں سے گوشت کا کچا ٹکڑا نکالا اور آگ پر بھُوننے لگا۔ میں اسکول کے اندرونی دروازے سے کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا اور پائپ پینے لگا۔
فضا پر ہیبت ناک سکوت طاری تھا اور جنگل خاموش خاموش۔ درختوں پر بسیرا کرنے والے پرندے بھی چُپ چُپ تھے، البتہ جلتی ہوئی لکڑیوں کے چٹخنے کی آواز تھی جو اس سکوت کو توڑ رہی تھی۔ بھنے ہوئے گوشت کی خوشبو نے میرے معدے میں آگ لگا دی۔ چند منٹ بعد گوشت بھن کر تیار ہو گیا اور میرا ملازم کاغذ پر وہ لوتھڑا رکھ کر تھیلے سے روٹیاں نکالنے کے لیے اٹھ کر سامان کی طرف گیا۔ اس کے ہٹتے ہی دیوار پر سے ایک چیتے نے سر اٹھایا۔ ایک لحظے کے لیے میری اور اس کی آنکھیں چار ہوئیں اور دہشت سے میرا بدن پتھر ہو گیا۔ مَیں نے اپنے آدمیوں کو آواز دینے کی کوشش کی، مگر حلق سے آواز نہ نکلی۔ چشم زدن میں چیتا صحن میں آن کودا اور گوشت کا لوتھڑا منہ میں دبا کر جدھر سے آیا تھا، دبے پاؤں اسی طرف کو غائب ہو گیا۔ میں اسی طرح بے حس و حرکت اپنی جگہ پر بیٹھا رہا۔ اتنے میں ملازم روٹیاں لے کر پلٹا، تو گوشت کا بھنا ہوا ٹکڑا غائب تھا۔ اس نے حیرت سے میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ اب مجھے ہوش آ چکا تھا، مَیں نے ہنس کر کہا:
’وہ تو چیتا لے گیا’
’چیتا؟’ اُس کے چہرے پر خوف کے آثار نمودار ہوئے۔ گھبرا کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔ پھر بولا:
’آپ مذاق کرتے ہیں صاحب، چیتا یہاں کہاں۔۔۔ ابھی تو وہ علاقہ بہت دُور ہے۔‘
مَیں اپنی جگہ سے اٹھا، حیران پریشان ملازم کا ہاتھ پکڑا اور دیوار کے اس حصّے کی طرف لے گیا جہاں سے چیتا کود کر اندر آیا تھا۔ خشک مٹی پر اس کے پنجوں کے نشان فوراً نظر آ گئے۔ ان نشانوں کو دیکھ کر ملازم کے چہرے پر ہوائیاں اُڑنے لگیں۔ بولا:
’آہٹ تو میں نے بھی سنی تھی صاحب، لیکن میں سمجھا کوئی اور جانور ہو گا۔‘
’چلو خیر کھانے کے لیے مجھے کچھ اور دے دو، گوشت کا وہ بھُنا ہوا لذیذ ٹکڑا چیتے کے مقدر کا تھا وہ لے گیا۔ صبر کے سوا چارہ ہی کیا ہے۔‘
اگلی صبح ہم اس بستی میں داخل ہوئے جس کا نام دیبی دھورا تھا۔ یہاں رک کر چیتے کے بارے میں تازہ خبریں لوگوں سے سنیں، کھانا کھایا اور رخصت ہوئے۔ چیتے کی سلطنت کی سرحدیں ابھی کچھ دور تھیں۔ شام کے وقت ڈول ڈھک کے بنگلے پر پہنچے۔ اب ہم خطرناک علاقے میں داخل ہو چکے تھے۔ ہماری آمد کی خبر بستی اور گاؤں گاؤں پھیل رہی تھی۔ میں نے محسوس کیا کہ لوگ اپنی قدیم جہالت اور سادگی کے باعث چیتے کو بد روح سمجھے ہوئے ہیں۔ اسے ختم کرنے کی تدبیریں اختیار کرنے کی بجائے چپ چاپ اپنے آپ کو اس کے حوالے کر دیتے ہیں۔ چیتے کی سرگرمیاں اس حد تک وسیع ہو چکی تھیں کہ اِکّا دُکّا آدمی کی تو ہستی ہی کیا، بیس بیس، تیس تیس افراد کی ٹولی پر اچانک آن پڑتا اور کسی نہ کسی کو پکڑ کر لے جاتا تھا۔ ڈول ڈھک کے لوگوں نے بتایا کہ چیتا آج کل اسی علاقے میں پھر رہا ہے اور پندرہ روز سے سب لوگ اپنے اپنے جھونپڑوں اور کچے مکانوں میں بند پڑے ہیں، پینے کا پانی ختم ہو چکا ہے۔ گاؤں سے باہر دو کنوئیں ہیں، لیکن وہاں تک جانے کی کوئی شخص جرأت نہیں کرتا، اِن کنوؤں پر چیتا اب تک بآ رہ افراد کو ہلاک کر کے ہڑپ کر چکا ہے جن میں چار لڑکیاں بھی شامل ہیں۔
مَیں نے ان تمام مقامات کا بغور جائزہ لیا جہاں چیتا گھومتا پھرتا دیکھا گیا تھا۔ ہر جگہ مجھے اُس کے پنجوں کے نشان دکھائی دیے۔ خیال تھا کہ بہت جلد میرا آمنا سامنا ہو گا، لیکن ایسا نہ ہوا۔ پتہ چلا کہ چیتا دن کے وقت مغرب کی جانب کوئی پندرہ میل دور ایک ویران بستی میں آرام کرنے چلا جاتا ہے اس بستی میں دس پندرہ گھر تھے۔ آبادی بمشکل پچاس ساٹھ افراد پر مشتمل ہو گی، لیکن ظالم درندے نے ان میں سے نصف افراد کو کھا لیا تھا، بقیہ اپنی جانیں بچانے کے لیے بڑی بستیوں کی طرف گھربار چھوڑ کر بھاگ گئے۔
تیسرے روز مَیں اس ویران بستی میں پہنچا، کچّے مکان اور جھونپڑے ویسے کے ویسے اپنی جگہ قائم تھے۔ ان میں ضرورت کی چیزیں جُوں کی توں پڑی تھیں۔ چارپائیاں، بستر، برتن، کھانے پینے کی چیزیں اور نہ جانے کیا اَلا بَلا۔ چند مریل سی گائیں بھینسیں اور کُتے بھی اِدھر اُدھر چل پھر رہے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ بستی والے نہایت افراتفری کے عالم میں یہاں سے راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔
اس بستی کو آنے والی ایک بڑی پگڈنڈی پر مَیں نے چیتے کے پنجوں کے تازہ نشان دیکھے، ان کی پیمائش اور درمیانی فاصلے سے اندازہ ہوا کہ ہمارے حریف کا قد دُم سے لے کر ناک تک تقریباً 9 فٹ لمبا اور ساڑھے تین فٹ اونچا ہے۔ ایک مقام پر انسانی لاش کے چند بچے کھچے اجزا بھی پڑے ہوئے تھے۔ یہ اجزا چار پانچ روز قبل کے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ چیتا کسی اور جگہ سے اپنا شکار لایا اور یہاں بیٹھ کر ہڑپ کیا۔
جنگل کے بالکل سرے پر ایک منزلہ پختہ مکان دکھائی دیا۔ ہم قریب پہنچے، تو چھوٹے سے برآمدے میں ایک بائیس تیئس سال کا نوجوان نمودار ہوا اور لکڑی کی چار پانچ سیڑھیاں اُتر کر صحن میں آن کھڑا ہوا۔ میں حیران تھا کہ اس خطرناک مقام پر یہ نوجوان تنِ تنہا کیا کر رہا ہے۔ پاگل ہے یا اسے چیتے کا ڈر نہیں۔ جب وہ قریب آیا، تو میں نے دیکھا اس کی آنکھیں سوجی ہوئی ہیں اور چہرے پر ایسے اثرات ہیں جو اس کے اندرونی رنج و غم کو ظاہر کر رہے ہیں۔ آتے ہی وہ میرے قدموں پر گر پڑا اور زار زار رونے لگا۔ میں نے اُسے اٹھایا، دلاسا دیا اور پوچھا کہ اس پر کیا افتاد پڑی اور وہ اس ویران بستی میں کیا کر رہا ہے۔ اس نے جواب میں جو دل دوز داستان سنائی، اسی کے الفاظ میں کچھ یوں تھی:
’صاحب، کیا بتاؤں یہ میری بے وقوفی کا نتیجہ ہے۔ دوسرے لوگ تو یہاں سے چلے گئے۔ انہوں نے مجھ سے بھی کہا تھا کہ یہ علاقہ چھوڑ دوں اور کسی دوسری جگہ چلا جاؤں، ورنہ چیتا تمہیں زندہ نہ چھوڑے گا۔ میں نے ان کی ایک نہ سنی۔ میں سمجھتا تھا کہ میرا مکان مضبوط ہے اور چیتا اس میں داخل نہ ہو سکے گا۔ پرسوں رات کا ذکر ہے، میں اور میری بیوی کمرے میں سو رہے تھے۔ نہ جانے کیسے دروازہ کھُلا رہ گیا۔ گذشتہ کئی راتوں سے وہ اس مکان کے آس پاس پھر رہا تھا، لیکن دروازہ بند ہونے کے باعث اندر نہ آ سکتا تھا، مگر کل رات ہماری غفلت کے باعث اسے موقع مل گیا۔ آدھی رات کا وقت تھا کہ چیتا دبے پاؤں کمرے میں آیا، اس نے میری بیوی گلا منہ میں دبایا اور گھسیٹ کر لے جانے لگا۔ اس کی چیخیں سن کر میری آنکھ کھُل گئی اور مَیں نے لپک کر اپنی بیوی کو پکڑ لیا۔ یہ سب کچھ آناً فاناً ہوا۔ چیتا کچھ گھبرا سا گیا، وہ پیچھے ہٹا اور دروازے سے باہر نکل کر غرّانے لگا۔ میں نے لپک کر دروازہ بند کر دیا۔ رات کا بقیہ حصّہ وہ برآمدے میں پہرہ دیتا رہا اور دروازہ توڑنے کی کوشش کرتا رہا۔ میری بیوی کی حالت خراب ہو گئی۔ اس کی گردن کے زخم سے خون مسلسل بہہ رہا تھا اور مجھے یقین تھا کہ وہ زیادہ دیر زندہ نہ رہے گی۔ سورج نکلنے سے کچھ دیر پہلے چیتا چلا گیا۔ میں تمام دن اپنے کمرے سے باہر نہ نکلا۔ ڈر تھا کہ چیتا آس پاس چھُپا ہوا ہو گا اور مجھ پر حملہ کر دے گا۔ میری بیوی پر غشی کی حالت طاری ہے، وہ اب آخری دَموں پر ہے، اس کے جسم سے بہت خون نکل گیا ہے۔‘
مَیں اس شخص سے صرف اتنا کہہ سکا کہ اُسے ان حالات میں یہاں نہیں رہنا چاہیے۔ بہتر یہی تھا کہ دوسرے آدمیوں کے ساتھ وہ بھی کہیں اور چلا جاتا۔ بہرحال جو ہونا تھا، ہو گیا، اب تو عورت کو بچانے کی تدبیر کرنی چاہیے۔ میں نے مکان میں جا کر اُس کی بیوی کو دیکھا۔ اس کی عُمر زیادہ سے زیادہ اٹھارہ انیس سال ہو گی۔ نہایت حسین اور صحت مند لڑکی تھی۔ زخموں کے نشان اس کی گردن پر تھے اور خون جم کر سیاہ ہو چکا تھا۔ وہ لاش کی مانند بے حِس و حرکت پڑی تھی۔ اس کی چھاتی پر ایک گہرا زخم آیا تھا۔ کمرے میں کوئی کھڑکی نہ ہونے کی وجہ سے انتہائی حبس تھا اور بے شمار مکھّیاں بے ہوش لڑکی کے زخموں پر بھنبھنا رہی تھیں۔ اس کی حالت سے ظاہر ہوتا تھا کہ بچنے کا امکان واقعی بہت کم ہے، تاہم میں نے لڑکی کے زخم دھوئے۔ اپنے بکس میں سے ایک مرہم نکال کر لگایا اور پٹیاں باندھ دیں۔ اسی اثنا میں لڑکی کسی قدر ہوش میں آ گئی اور سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھنے لگی۔ اس کے شوہر نے مختصر الفاظ میں میرے بارے میں بتایا۔
اب سوال یہ تھا کہ اُن دونوں کو محفوظ جگہ پر کیسے پہنچایا جائے۔ نوجوان نے کہا وہ یہاں سے جانے کے لیے تیار ہے بشرطیکہ میں اسے اپنی حفاظت میں لے جاؤں۔ اس کی سُسرال یہاں سے تقریباً سات میل دُور تھی۔ میں نے کہا وہ اپنا ضروری سامان باندھ لے۔ آدھ گھنٹے کے اندر اندر ہم چلنے کے لیے تیّار کھڑے تھے۔ اس کی بیوی کو چارپائی پر لٹایا گیا اور میرے ساتھ آئے ہوئی قلی باری باری اُسے کندھوں پر اُٹھا کر چلتے رہے۔ راستے میں تین مقامات پر مَیں نے چیتے کے پنجوں کے نشان دیکھے۔ ایک جگہ انسانی کھوپڑی اور سُوکھی ہوئی انتڑیاں بھی پڑی نظر آئیں۔
تیسرے پہر ہم اُس بستی میں پہنچ گئے جو ابھی تک چیتے کی خوں آشام سرگرمیوں سے محفوظ تھی۔ اس بستی کے محفوظ ہونے کی بڑی وجہ وہ ندیاں تھیں جو اُسے دونوں طرف سے گھیرے ہوئے تھیں۔ گرمی کے باعث ندیوں میں پانی کم تھا۔ چیتے کو بستی تک پہنچنے کے لیے بہرحال اِن ندیوں میں سے گزرنا پڑتا اور غالباً یہ مشقت اسے پسند نہ تھی۔ لوگوں نے لکڑی کے بنے ہوئے پُل توڑ کر ان کی جگہ رسّیوں کے پُل باندھ دیے تھے، لیکن ہمیں تین فٹ گہرے پانی میں سے گزرنا پڑا، کیونکہ زخمی عورت کی چارپائی اٹھا کر رسّی کے پل پر سے گزرنا مشکل تھا۔
اس بستی میں گرد و نواح کی کٹی آبادیوں کے ڈرے اور سہمے ہوئے لوگ جمع تھے۔ ہر خاندان کا ایک نہ ایک شخص آدم خور چیتے کا نوالہ بن چکا تھا اور سبھی لوگ اپنی اپنی کہانیاں سنانے کے لیے بے چین تھے۔۔۔ میں نے دیر تک ٹھہرنا مناسب نہ سمجھا اور انہیں بتایا کہ میں واپس ڈول ڈھک جا رہا ہوں، مجھے یقین ہے چیتا وہاں رات کو ضرور آئے گا اور میں اسے ہلاک کر سکوں گا۔ لوگ یہ سن کر حیرت زدہ گئے۔ ان کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ اکیلا شخص کس طرح اس درندے کو مار سکے گا۔ انہوں نے تو راجوں مہاراجوں اور نوابوں کو دیکھا تھا کہ وہ کس طرح اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ جنگل میں آتے ہیں اور شیروں کا شکار کرتے ہیں۔ در اصل ان کا خیال تھا کہ حکومت نے گوروں کی فوج بھیجنے کا ارادہ کیا ہے اور میں صرف حالات کا جائزہ لینے آیا ہوں۔
مَیں نے اپنے آدمیوں کو وہیں ٹھہرنے کی ہدایت کی اور خود ڈول ڈھک کی طرف واپس روانہ ہوا۔ مَیں سورج چھپنے سے پہلے پہلے اس مکان میں پہنچ جانا چاہتا تھا، لیکن ہر ممکن کوشش کے باوجود ایسا نہ ہوا۔ میں راستہ بھُول کر کہیں اور جا نکلا۔ تین گھنٹے تک جنگل میں بھٹکنے کے بعد آخر ڈول ڈھک پہنچا۔ تھکن اور خستگی کے باعث اتنا نڈھال ہو چکا تھا کہ اگر چیتا اس وقت نمودار ہوتا، تو مَیں مدافعت کرنے کے قابل نہ تھا۔ ہر طرف بھیانک سنّاٹے اور تاریکی کا راج تھا۔ ارد گرد کھڑے ہوئے درخت اس اندھیرے میں دیووں اور بھوتوں کی مانند نظر آ رہے تھے۔ آسمان پر چمگادڑیں پرواز کر رہی تھیں اور کبھی کبھار بندروں کے چیخنے کی آواز سنائی دیتی تھی۔ میں نے مکان کے اندر جا کر دیا جلایا، مٹی کے تین چار گھڑے پانی سے بھرے رکھے تھے، اطمینان سے نہایا، پھر اپنا سامان کھول کر بسکٹ کا ڈبّا نکالا، چند بسکٹ کھائے، پانی پیا اور بندوق سنبھال کر باہر برآمدے میں آ گیا۔ مشرق کی طرف سے آہستہ آہستہ روشنی پھُوٹ رہی تھی۔ میں نے اندازہ لگایا کہ ڈیڑھ گھنٹے بعد چاند اس مکان کے عین اُوپر آ جائے گا۔
نوجوان نے مجھے بتایا تھا کہ چیتا کمرے کا دروازہ توڑنے کی کوشش کرتا رہا تھا، ممکن ہے آج پھر وہ ایسا ہی کرے۔ اس وقت تک اُس کا کچھ پتہ نہ تھا کہ کہاں ہے۔ میں نے دَروازہ باہر سے بند کر دیا اور برآمدے کے ایک اندھیرے کونے میں ایسی جگہ جا بیٹھا جہاں سے میں تو چیتے کو دیکھ سکتا تھا، لیکن اسے میری موجودگی کا فوراً احساس نہ ہوتا۔ میری نظروں کے عین سامنے جھاڑیاں جھاڑیاں پھیلی ہوئی تھیں اور ان میں جنگلی چُوہے اور گیدڑ حرکت کر رہے تھے۔ آدھ گھنٹے بعد چاند کی روشنی اس حد تک پھیل گئی کہ تقریباً پچاس فٹ دُور کا منظر بخوبی نظر آنے لگا۔
یکایک مشرق کی جانب سے ایک گیدڑ چِلّایا۔ رات کے اس بیکراں سناٹے میں چلّانے والے گیدڑ کی آواز بہت دُور سے آئی تھی، لیکن معلوم یُوں ہُوا جیسے گیدڑ مکان کے پچھواڑے میں ہے۔ معمولی معمولی وقفوں سے گیدڑ چلّاتا رہا، یہ گویا اس بات کا اعلان تھا کہ کوئی درندہ جنگل میں گشت کرنے نکل آیا ہے۔ میں اپنے گوشے میں اور اچھی طرح دبک گیا۔
چیتا جب رات کو شکار کے لیے نکلتا ہے تو ایک میل کا فاصلہ طے کرنے میں تقریباً ایک گھنٹہ لگ جاتا ہے، وہ آہستہ آہستہ نہایت صبر و استقلال کے ساتھ قدم بڑھاتا اور ذرا سی آہٹ پر چوکنّا ہو کر وہیں رُک جاتا ہے۔ پھر اُس وقت تک آگے نہیں بڑھتا، جب تک ‘خطرہ، ٹل جانے کا احساس نہ ہو جائے۔ وقت چیونٹی کی طرح رینگ رہا ہے۔ مَیں اپنی جگہ بے حِس و حرکت بیٹھے بیٹھے اُکتا گیا۔ گیدڑ مسلسل چِلّا رہا تھا، خبردار کر رہا تھا کہ ہوشیار دُشمن آن پہنچا۔۔۔ دُشمن آن پہنچا۔۔۔ گیدڑ کی آواز میرے دماغ پر جیسے ہتھوڑا بن کر پڑ رہی تھی، میں دل ہی دل میں اس منحوس جانور کو گالیاں دینے لگا جو خواہ مخواہ چیخ کر میرے اعصاب کو شکستہ کر رہا تھا۔
تین بجے تھے کہ چاند اس مکان کے بالکل اُوپر آ گیا اور پھر تیزی سے مغرب کی طرف جھکنے لگا۔ گیدڑ نہ جانے کب خاموش ہوا، مجھے کچھ پتہ نہ چلا۔ شاید تھوڑی دیر کے لیے مَیں سو گیا تھا۔ آنکھ کھُلی تو ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی اور آسمان پر چمکنے والے تارے اور روشنی پھیلانے والا چاند غائب تھا۔ اُن کی جگہ گہری سیاہ گھٹا نے لے لی تھی۔ میری آنکھیں دوبارہ بند ہونے لگیں اور کوشش کے باوجود میں نیند پر قابو نہ پا سکا۔ بے اختیار اٹھ کھڑا ہوا اور برآمدے میں ٹہلنے لگا۔ ہوا لمحہ بہ لمحہ تیز ہوتی جا رہی تھی اور تھوڑی دیر بعد بوندا باندی شروع ہو گئی۔ بجلی زور سے چمکی اور میں نے دیکھا کہ ایک قد آور چیتا برآمدے کے جنوبی رُخ پر کٹہرے کے ساتھ لگا کھڑا تھا۔ غالباً اُس نے مجھے نہیں دیکھا تھا۔ مَیں اپنی جگہ پتھر کے بُت کی مانند کھڑا تھا۔ بندوق سیدھی کرنی چاہی، لیکن ہاتھ کانپنے لگے، دوسرے لمحے بجلی چمکی تو چیتا وہاں نہ تھا۔ اب میں نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنا شروع کیا۔ نیند یکدم کافور ہو گئی۔ ہلکی بوندا باندی اب موسلا دھار بارش میں تبدیل ہو چکی تھی۔ تیز ہوا کے ساتھ پانی کے چھینٹے جب میرے چہرے پر آن کر لگتے، تو یوں محسوس ہوتا جیسے برچھیاں سی چل رہی ہیں۔ بجلی کڑکتی اور بادل گرجتا رہا۔ لیکن مجھے چند قدم آگے بڑھ کر کمرے کے اندر جانے کی جرأت نہ ہوتی تھی مجھے شک تھا کہ چیتا قریب ہی چھُپا ہوا ہے اور ایسا نہ ہو کہ وہ اچانک میرے اُوپر آن پڑے۔ میں بارش تھمنے کا بے چینی سے انتظار کرنے لگا، لیکن بارش تھمنے کی بجائے اور تیز ہونے لگی، اس کے ساتھ ہَوا کے جھکّڑوں میں لمحہ بہ لمحہ تیزی و تندی آتی جا رہی تھی۔ اُونچے اونچے درختوں کی ٹہنیاں بے پناہ شور کرتی ہوئی ہل رہی تھیں۔ دفعتاً قریب ہی ایک درخت ہولناک آواز سے زمین پر گرا، پھر بے شمار پرندوں کے پھڑپھڑانے اور اڑنے کی آوازیں سنائی دیں۔ شاخوں میں چھُپے ہوئے بندر چیخ اٹھے اور پھر دفعتاً مَیں نے چیتے کے غرانے کی ہلکی ہلکی آواز سنی جو طوفانِ باد و باراں کے مہیب شور میں دب گئی تھی۔
ذرا اس شخص کی حالت و کیفیّت کا تصور کیجئے جو ساری رات نہ صرف جاگتا رہا ہو، بلکہ بارش میں بھیگا بھی ہو۔ صبح صادق کا اجالا نمودار ہونے سے کچھ دیر پہلے بادل چھٹ گئے، آسمان پر اِکّا دُکا تارے دکھائی دیے پھر غائب ہو گئے۔ میں نے گرد و پیش پر نگاہ ڈالی، پتّا پتّا بوٹا بوٹا نہایا دھویا اور نکھرا ہوا تھا۔ سرد ہَوا میں ایسا نشہ تھا کہ مَیں وہیں برآمدے میں ایک خشک جگہ پر لیٹ گیا، بندوق سینے پر رکھ لی اور آنکھیں بند کر لیں، نہ معلوم کتنی دیر سویا رہا، آنکھ اس وقت کھُلی جب کسی نے میرا شانہ جھنجھوڑا۔ بد حواسی دیکھیے کہ اٹھتے ہی میرا ہاتھ خود بخود بندوق کی طرف گیا اور چیتا سمجھ کر لبلبی دبانے ہی والا تھا کہ کسی نے شستہ انگریزی میں کہا:
’پاگل مت بنو۔۔۔ ہوش میں آؤ۔‘
کیا دیکھتا ہوں کہ میرے سامنے روڈ اوورسیر کھڑا ہے۔ معلوم ہوا وہ مجھے ڈھونڈتا ہوا یہاں تک پہنچا ہے۔ اُسے الموڑہ کے ڈپٹی کمشنر مسٹر سٹفی نے میرا پتہ بتایا تھا اور کہا تھا کہ وہ میری ضروریات معلوم کر کے حکومت کو آگاہ کریں گے۔ میں نے کہا مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں حکومت سے صرف اتنی درخواست ہے کہ اس علاقے میں لوگوں کو طبی سہولتیں بہم پہچانے کا بندوبست کیا جائے۔ بہت سے افراد ہیں جنہیں جنگلی درندوں اور آدم خور چیتے نے زخمی کیا ہے۔ اگر ان کا صحیح علاج کیا جائے تو یہ سب افراد تندرست ہو سکتے ہیں۔ اوورسیر کہنے لگا اگر میں اسی مضمون کا خط لکھ دوں، تو وہ ڈپٹی کمشنر تک پہنچا دے گا۔
وہ بیچارا ایک خچر پر سوار تھا اور بالکل تنِ تنہا۔ ایک بندوق اس کے پاس تھی۔ مجھے تعجب ہُوا کہ آدم خور چیتے کے بارے میں اُس شخص نے غالباً کچھ نہیں سُنا، ورنہ اپنی جان ہتھیلی پر دھرے کیوں پھرتا۔ میرے دریافت کرنے پر کہنے لگا:
’میں سب جانتا ہوں کہ ایک چیتا عرصۂ دراز سے اس علاقے میں گھوم پھر کر انسانوں کو ہڑپ کر رہا ہے اور اس نے کئی بستیاں ویران کر ڈالی ہیں۔ لیکن میرے فرائض کچھ اس نوعیت کے ہیں کہ اس طرف اُسے بغیر چارہ نہیں، حفاظت کے لیے میرے پاس بندوق ہے۔ مَیں نے اپنے اردلی اور قُلیوں کو چھٹی دے دی ہے، وہ بیچارے ادھر آتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ اگر اُن میں سے کوئی جان سے مارا جاتا، تو مَیں اپنے آپ کو کبھی معاف نہ کرتا۔ خیر چھوڑو اس قصّے کو، یہ بتاؤ کہ تمہاری ‘پروگریس‘ کیا ہے؟’
’رات بھر بارش میں چُوہے کی طرح بھیگتا رہا ہوں۔‘ میں نے بتایا۔ ‘چیتا اِدھر آیا تھا، لیکن اُس کی چھٹی حِس مجھ سے بھی زیادہ تیز ہے، بس ایک جھلک دکھا کر نکل گیا۔ یقیناً اس نے مجھے دیکھ لیا تھا۔‘
’چیتے نے تم پر حملہ نہیں کیا؟’ اوورسیر نے حیرت سے کہا۔ ‘ میں نے سنا وہ اتنا نڈر اور جری ہو چکا ہے کہ دن دہاڑ سے بستیوں میں آن کودتا ہے اور کسی نہ کسی آدمی کو سینکڑوں افراد کی موجودگی میں پکڑ کر لے جاتا ہے۔‘
’تم نے ٹھیک سنا ہے، لیکن ایسا درندہ شکاری کی بُو پانے کا خصوصی ملکہ رکھتا ہے۔ قدرت نے اگر ہم انسانوں کو درندوں کا شکار کرنے کی صلاحیت اور ہمت بخشی ہے، تو دوسری طرف درندوں کو بھی بعض نادر خصوصیتوں سے نوازا ہے جن کے ذریعے وہ اپنا بچاؤ کر لیتے ہیں۔ اچھا یہ بتاؤ راستے میں تمہارے ساتھ کوئی حادثہ تو پیش نہیں آیا؟ کیا تم نے اس چیتے کو دیکھا ہے؟’
’میں نے چیتے کو تو ابھی تک نہیں دیکھا، البتّہ اُس کے کارنامے سُن سُن کر کان پک گئے ہیں۔ دیبی دھورا سے گذرتے ہوئے مجھے صرف اتنا پتہ چلا کہ چند روز قبل چیتے نے وہاں نے وہاں کسی شخص کو پکڑ لیا تھا۔ میرا خیال ہے تمہیں اب لام گرا جانا چاہیے۔ اگر چیتے نے تمہیں یہاں دیکھ لیا ہے، تو وہ ادھر کبھی نہیں آئے گا۔ تم چاہو تو میں تمہارے ساتھ لام گرا جا سکتا ہوں۔‘
مَیں نے کچھ دیر غور کرنے کے بعد جانے کا ارادہ کر لیا۔۔۔ اوورسیر کے پاس ناشتے کا کچھ سامان تھا۔ مَیں نے جلد جلد ناشتا کِیا اور ایک گھنٹہ سونے کی اجازت لے کر کمرے میں چلا گیا۔ اوور سیر بھی تھکا ہوا تھا۔ وہ بھی میری طرح گذشتہ رات جنگل میں راستہ بھُول کر دیر تک بھٹکتا رہا، آخر ایک درخت پر چڑھ گیا سورج نکلنے کے بعد اُترا اور ڈول ڈھک میں آیا۔ اس دوران میں اُس خچر، جسے اُس درخت سے باندھ دیا تھا، نہ جانے کس طرح کھل کر ایک طرف بھاگ گیا۔ آخر صبح بڑی مشکل سے خچر کو تلاش کیا۔ وہ ایک کھائی کے اندر چھپا ہوا تھا۔ وہیں اوورسیر نے کیچڑ اور نرم زمین میں چیتے کے پنجوں کے نشان بھی دیکھے۔ اسے حیرت تھی کہ چیتے نے خچّر کو کچھ نہیں کہا۔
ہم دونوں ایک ڈیڑھ گھنٹہ سونے کی نیت سے لیٹے تھے، لیکن جب آنکھ کھلی تو آسمان پر سُورج نصف سفر طے کر چکا تھا۔ ہم نے مکان کا دروازہ اچھی طرح باہر سے بند کیا اور لام گرا کی طرف پیدل ہی چل پڑے۔ ہاتھوں میں بندوقیں تھیں۔ ہم آگے آگے چل رہے تھے اور خچّر ہمارے پیچھے پیچھے گردن جھکائے آ رہا تھا۔ اِدھر اُدھر کی باتوں میں وقت اور فاصلے کا کچھ احساس نہ ہوا۔ لام گرام پہنچے تو وہاں بھی ہولناک سنّاٹے کا رواج تھا۔ اوورسیر نے بتایا یہاں ہندوؤں کا ایک بڑا مندر ہے جس میں پُوجا پاٹ کے لیے گرد و نواح کے بہت سے گاؤں اور بستیوں کے افراد آیا کرتے تھے اور خاصی چہل پہل رہتی تھی، لیکن جب سے آدم خور چیتے نے اپنی سرگرمیاں شروع کی ہیں، لام گرا کی رونق مر گئی ہے۔ اب یہاں چند گھروں اور مندر کی پجاری کے سوا کوئی نہیں رہتا۔ چیتے نے اس گاؤں کے تقریباً پچیس افراد کو کھایا ہے۔
ہم سیدھے مندر کی طرف گئے۔ یہ عمارت پختہ اینٹوں کی بنی ہوئی تھی اور اس کا دروازہ بھی خاصا مضبوط اور بلند تھا۔ ہم نے دروازے پر دستک دی۔ تھوڑی دیر کے بعد قدموں کی چاپ سنائی دی۔ پھر کسی نے اندر ہی سے پوچھا:
’اس وقت کون آیا ہے؟’
میں نے اپنا نام اور آنے کا مقصد بتایا۔ چند لمحے بعد دروازہ کھُلا اور ایک اُدھیڑ عمر، لیکن صحتمند ہندو پُجاری نظر آیا۔ مجھے دیکھ کر اس کی آنکھیں حیرت اور خوف سے پھیل گئیں، لیکن جونہی اُس نے اوورسیر کو دیکھا، اُس کے چہرے پر اطمینان جھلکنے لگا۔ وہ ہاتھ جوڑتا ہوا دروازے سے باہر نکلا اور ہمارے سامنے آن کھڑا ہوا۔ اوورسیر نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے پُجاری سے کہا:
’یہ ہمارے دوست بہت اچھے شکاری ہیں۔ پانار کے چیتے کو مارنے کے لیے آئے ہیں۔ چند روز آپ کے پاس قیام کریں گے۔‘
پُجاری بڑے بڑے دانت نکال کر ہنسا اور بولا:
’آئیے آئیے صاحب، اندر آ جائیے۔۔۔ کوئی ہرج نہیں۔۔۔ کوئی ہرج نہیں۔۔۔ اگر آپ اس موذی کو مار ڈالیں، تو بڑی نیکی کا کام کریں گے۔ اُس نے تو گاؤں کے گاؤں خالی کرا دیے ہیں۔‘
وہ ہمیں مندر کی ایک کوٹھڑی میں لے گیا۔ کھانے کے لیے پُوریاں اور آلو کی باسی ترکاری لایا جو مجبوراً زہر مار کرنی پڑی، کیونکہ سخت بھوک لگ رہی تھی۔ پُجاری کو انسانوں سے زیادہ اس بھینٹ کے کم ہو جانے کا صدمہ تھا جو لوگ دیوتاؤں پر چڑھانے کے لیے لایا کرتے تھے۔ اس نے چیتے کی خونخواری کے بہت سے چشم دِید قِصّے سنائے جن میں جھوٹ زیادہ تھا اور سچ کم۔ مثلاً یہ کہ چیتا رات کو انسانی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ وہ صرف خون پیتا اور گوشت دوسرے جانوروں کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔ اسے اس وقت تک ہلاک نہیں کیا جا سکتا جب تک مندر میں ایک خاص پُوجا کا اہتمام نہ کیا جائے گا اور لوگ اتنا اتنا دان نہ چڑھا دیں گے۔ وہ بند دروازوں میں سے گزر سکتا ہے اور پُجاری کے علاوہ ہر اُس شخص کو ہڑپ کرنے پر قادر ہے جو اس کے راستے میں رکاوٹ بنے گا۔ اوورسیر یہ خرافات سنتا رہا، پھر جھلّا کر بولا:
’پنڈت جی، یہ فضول باتیں ہم سے نہ کیجیے۔ ہم ان پر یقین نہیں رکھتے۔ وہ چیتا بھی جنگل کے عام چیتوں کی طرح ہے۔ وہ نہ انسانی روپ دھار سکتا ہے نہ بند دروازوں میں سے گذر سکتا ہے۔ آپ نے لوگوں کو ڈرا ڈرا کر نہ معلوم کتنا ظلم کیا ہے۔ سب مل کر اگر چاہتے، تو گھیر کر تکّا بوٹی کر ڈالتے، مگر ان باتوں نے سادہ لوح دیہاتیوں کو ہراساں کر رکھا ہے۔ مجھے دیکھ لیجیے، اتنے دن سے انہی جنگلوں میں پھر رہا ہوں، مجھے تو اس چیتے نے آج تک نہیں کھایا، حالانکہ یہ بندوق میرے پاس ہے اور میں نے کئی دفعہ اسے ہلاک کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔‘
یہ تقریر سن کر پجاری کے چہرے پر ندامت کے آثار نمودار ہوئے۔ اُس نے بات ٹالتے ہوئے کہا:
’اگر کچھ اور کھانا چاہیں، تو لے آؤں۔۔۔ تازہ دودھ بھی رکھّا ہوا ہے۔‘
’جی نہیں، بس شکریہ۔‘ میں نے کہا۔ ‘ذرا ہمیں سستانے دیجئے۔ اندھیرا ہونے کے بعد مَیں ذرا باہر ٹہلوں گا۔ ممکن ہے چیتا ادھر آ نکلے، گاؤں میں اس وقت کتنے آدمی ہیں؟’
’پچاس ساٹھ کے لگ بھگ تو ضرور ہوں گے۔‘ پُجاری نے کہا۔ ‘کیا ان کو بُلواؤں؟’
’جی ہاں، ابھی بلوا لیجیے۔ ان لوگوں سے کچھ کہنا ہے۔‘
اوورسیر نے استفہامیہ انداز میں میری جانب دیکھا۔ مَیں نے اُسے آنکھ کے اشارے سے خاموش رہنے کی ہدایت کی۔ پجاری نے مندر کا گھنٹا بجایا اور تھوڑی دیر بعد گاؤں کے سب لوگ مندر میں جمع ہو گئے۔ مَیں نے دیکھا ہر شخص لاٹھی، کلہاڑی اور بلّم لے کر آیا ہے، لیکن خوف ان کے چہروں سے ٹپک رہا تھا۔ ان میں ہٹّے کٹے جوانوں کی تعداد زیادہ تھی۔ اوورسیر نے مختصر الفاظ میں میرا تعارف کرایا۔ پھر مَیں نے کہا:
’بھائیو، مَیں نے تمہیں صرف یہ کہنے کے لیے بُلایا ہے کہ وہ درندہ جو تمھاری بستیوں کو ویران کر رہا ہے، کوئی بھوت پریت نہیں، ایک معمولی جانور ہے جسے انسانی لہو کی چاٹ پڑ گئی ہے اگر تم لوگ مِل جُل کر ہمت سے کام لو، تو ایک ہی دن میں اُسے تلاش کر کے ہلاک کر سکتے ہو، ورنہ وہ ایک ایک کر کے سب کو کھا جائے گا۔ مَیں بھی اسی لیے آیا ہوں کہ تمہیں اس مصیبت سے نجات دلاؤں لیکن میں اس علاقے سے ناواقف ہوں، اس لیے مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے بولو، کیا تم مدد کرنے کے لیے تیّار ہو؟’
’ہم تیار ہیں۔‘ سب نے ایک زبان ہو کر جواب دیا۔
’کیا تم میں سے کوئی شخص بتا سکتا ہے کہ چیتا کہاں ہے؟’
’جناب، اُس کا کوئی ٹھکانا نہیں‘۔ ایک نوجوان نے کہا۔ ‘تین دن پہلے وہ اِدھر آیا تھا اور اس مندر کے باہر بیٹھے ہوئے ایک بوڑھے کو پکڑ کر لے گیا تھا۔ بعد میں ہم نے اس کی لاش ایک نالے میں پڑی ہوئی پائی۔ چیتے نے اسے وہاں ڈال دیا تھا، مگر اسے کھایا نہیں۔ وہ ساری رات بستی کے ارد گرد گھومتا اور گرجتا رہتا ہے۔ ہم اپنے چھپّروں اور مکانوں کے گرد آگ کے بڑے بڑے الاؤ روشن کر دیتے ہیں، اس کی وجہ سے وہ نزدیک نہیں آتا۔ کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ آگ بجھ گئی۔ وہ فوراً آیا اور کسی نہ کسی آدمی کو اٹھا کر لے گیا۔ کل بھی بارش کی وجہ سے آگ بُجھ گئی تھی اور ہم سب ڈر رہے تھے کہ چیتا ضرور آئے گا، لیکن وہ نہیں آیا۔‘
’اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس وقت بھُوک سے بیتاب ہو گا اور آج ضرور آئے گا۔‘ میں نے کہا۔ ‘اچھا، آپ لوگ اپنے اپنے مکانوں کو لوٹ جائیں، آگ کے الاؤ روشن کر دیں، لیکن آپ میں سے کوئی شخص سوئے گا نہیں، بلکہ ممکن ہو تو سب ایک ہی جگہ جمع ہو جائیں۔ مَیں اس دوران میں بستی کا چکّر لگاتا رہوں گا۔ میرا خیال ہے کہ چیتا سُورج نکلنے سے کچھ دیر پہلے آئے گا، میں اسے گھیر کر اُس طرف لانے کی کوشش کروں گا جہاں آپ لوگ جمع ہوں گے، پھر دیر کیے بغیر آپ سب لوگ اپنے اپنے ہتھیاروں سمیت ٹوٹ پڑیں۔‘
لوگوں نے آپس میں کانا پھُوسی کی، پھر ایک شخص نے سب کا نمائندہ بن کر کہا:
’جناب، وہ نہایت چالاک اور ہوشیار ہے۔۔۔ اِس طرح کبھی قابو میں نہ آئے گا، بلکہ ہمیں ڈر ہے کہ وہ آپ ہی کو ہڑپ نہ کر جائے، بہرحال ہم الاؤ روشن کیے دیتے ہیں اور یہیں مندر کے پاس جمع ہو کر رت جگا کریں گے۔‘
گھاس پھوس اور خشک لکڑیوں کے ڈھیر پہلے ہی سے موجود تھے۔ فوراً اُن کو آگ دکھائی گئی، پھر سب لوگ جن میں مرد، عورتیں اور بچے شامل تھے، مندر کے قریب سمٹ آئے۔ میں نے اوورسیر کو بھی ہوشیار رہنے کی تاکید کی، ایک جانب پہرے کے لیے اُس کی ڈیوٹی لگائی، دوسرا مورچہ میں نے سنبھالا۔ جنگل سے گاؤں کی طرف آنے والی وہ تمام پگڈنڈیاں جو روزانہ آگ کا الاؤ روشن کر کے بند کر دی جاتی تھیں، آج کھُلی تھیں اور لوگوں کی نظریں انہیں راستوں پر جمی ہوئی تھیں۔ پتّا کھڑکتا، تو سب چونک اُٹھتے۔ میں نے محسوس کیا کہ یہ سادہ اور معصوم لوگ جو دنیا کی بہت سی آسائشوں سے پاک صاف ہیں، نہ جانے کیوں یہ کڑا عذاب برداشت کر رہے ہیں۔ اسے قدرت کی ستم ظریفی کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے۔
رات کے ابتدائی حِصّے میں تو لوگ چپکے چپکے باتیں کرتے رہے، پھر آہستہ آہستہ خاموشی طاری ہونے لگی۔ سچ کہا ہے کسی نے نیند سُولی پر بھی آ جاتی ہے۔ رات کے گیارہ بجے تھے اور اکثر لوگ ہاتھ پاؤں پھیلا کر بے فکری سے سوئے ہوئے تھے۔ اوورسیر بندوق ہاتھ میں لیے مجھ سے اندازاً پچاس فٹ کے فاصلے پر ٹہل رہا تھا اور مَیں ایک پتھر پر بیٹھا جنگل میں گُم ہوتی ہوئی اس پگڈنڈی کو گھور رہا تھا جو انسانوں اور جانوروں کی عام گزرگاہِ تھی۔
ڈیڑھ بجے جبکہ ٹھنڈی ہوا کہ جھونکوں میں کچھ تیزی آ گئی تھی اور آگ کے الاؤ دھیمے پڑتے جا رہے تھے، میرے بائیں ہاتھ کچھ کھٹکا سا ہوا۔ مَیں چونک کر ادھر اُدھر دیکھنے لگا، پھر جھاڑیوں میں دو چمکتی ہوئی زرد آنکھیں نظر آئیں جو فوراً ہی غائب ہو گئیں۔ مجھے خیال ہوا شاید یہ میرا وہم تھا، لیکن چند لمحے بعد جھاڑیوں میں دوبارہ حرکت ہوئی اور ایک مہیب اور دراز قد چیتا بجلی کی مانند جھاڑیوں سے نِکلا، بے خبر اوورسیر پر حملہ کیا اور آناً فاناً اُسے منہ میں دبا کر جھاڑیوں میں گھس گیا۔ مجھے یوں محسُوس ہُوا جیسے میرے بدن کا سارا خون سمٹ کر سر میں آ گیا ہے۔ آنکھوں کے سامنے شرارے سے اُڑنے لگے۔ مَیں نے سوچے سمجھے بغیر جھاڑیوں میں فائر جھونک دیا۔ سوئے ہوئے جنگل میں فائر کا دھماکا۔۔۔ لوگوں کا غل غپاڑہ۔۔۔ چیتے کی لرزہ خیز گرج اور اوورسیر کی بے پناہ چیخیں۔۔۔ جیسے زلزلہ آ گیا۔ آدم خور اتنا نڈر تھا کہ اپنا شکار حاصل کر لینے کے باوجود وہیں جھاڑیوں میں چھُپا ہوا تھا۔ اُس نے فائروں اور آدمیوں کے چیخنے چِلّانے کی کوئی پروا نہ کی، بلکہ اطمینان سے اوورسیر کو اُدھیڑ ادھیڑ کا ہڑپ کرتا رہا۔ یہ حادثہ اتنا غیر متوقع اور ناقابلِ یقین تھا کہ میرا ذہن ماؤف ہو گیا۔ لوگ اِدھر اُدھر بھاگ رہے تھے، پھر یک لخت دھکّا سا لگا اور میں اُوندھے مُنہ زمین پر گر گیا۔ چیتے کی آواز اب میرے کانوں میں گونج رہی تھی۔۔۔ پھر یہ آواز آہستہ آہستہ مدھّم ہوتے ہوتے غائب ہو گئی۔ مجھے یوں محسُوس ہوا جیسے ایک گہرے اور تاریک غار میں نیچے ہی نیچے گرتا چلا جا رہا ہُوں۔
لام گرا میں اوورسیر کی دردناک موت نے ذہنی اور جسمانی طور پر مجھے معطل کر کے رکھ دیا تھا اور اس شخص کی موت کا باعث میں اپنے آپ کو سمجھتا ہوں۔ یہ جانتے ہوئے کہ وہ بد نصیب شخص کبھی شکاری نہیں رہا، مَیں نے اُسے ایک خطرناک مقام پر پہرہ دینے کے لیے کھڑا کر دیا تھا۔ بہرحال یہ حادثہ میرے لیے ناقابل برداشت تھا اور میں تقریباً پانچ ماہ تک اپنے گھر پر آرام کرتا رہا۔ اس مُدت میں پانار کے آدم خور چیتے نے کہاں کہاں اور کتنے افراد کو ہڑپ کیا، اس کا کوئی ریکارڈ سرکاری یا غیر سرکاری طور پر میرے پاس نہیں ہے۔ حکومت نے اس چیتے کے بارے میں نہ کبھی کوئی بلیٹن شائع کیا اور نہ ہندوستان کے اخبارات میں اس کے متعلق کوئی لفظ چھپا۔ اتنا معلوم ہے کہ ہاؤس آف کامنز میں اس کے بارے میں سوالات ضرور کیے گئے تھے جن کا جواب قطعی غیر تسلی بخش تھا۔
مَیں نے پانار کے آدم خور کو ہلاک کرنے کی مہم کا آغاز اپریل 1910ء میں کیا اور پانچ ماہ بعد یعنی ستمبر میں جب میری طبیعت کسی قدر ٹھیک ہو گئی، دوبارہ اس دشمنِ انسانیت درندے کے تعاقب میں نِکلا۔ دس تاریخ کو صُبح چار بجے کے وقت مَیں نے اُس تاریخی اور جان لیوا مہم کا آغاز کیا۔ میرا ایک ذاتی ملازم اور سامان وغیرہ اٹھانے کے لیے چار قلی میرے ساتھ تھے۔ جب ہم نینی تال سے چلے اُس وقت آسمان ابرآلود تھا۔ کبھی کبھی بجلی کوند اٹھی یا بادل گرجنے لگتا تھا۔ میرے ساتھیوں نے دبی زبان سے کہا کہ بارش ہونے والی ہے۔ سفر ملتوی کر دیا جائے، لیکن میں نے انہیں ڈانٹا اور کہا کہ خواہ اولے ہی کیوں نہ برسیں، سفر جاری رکھا جائے گا۔ ابھی ہم نے بمشکل پانچ چھ میل کا فاصلہ طے کیا ہو گا کہ بارش شروع ہو گئی۔ پہلے ہلکی ہلکی پھر موسلا دھار۔۔۔ اور سارا دن ہوئی، لیکن مَیں نے ایک لمحے کے لیے بھی نہ خود قدم روکے، نہ قلیوں کو ٹھہرنے کی اجازت دی اور غالباً شکاریوں کی دُنیا میں یہ بھی ایک ریکارڈ ہے کہ کوئی شخص سارا دن بارش میں بھیگنے کے باوجود پورے اٹھائیس میل کا فاصلہ طے کیا ہو گا۔ قِصّہ کوتاہ رات کے ابتدائی حصّے میں ہم لوگ الموڑہ پہنچ گئے۔ میرا ارادہ ڈپٹی کمشنر مسٹر سٹفی کے ہاں ٹھہرنے کا تھا، مگر اپنی مضحکہ خیز حالت پر نظر کی، تو ارادہ بدل دیا۔ ہم سب اس وقت بارش میں بُری طرح بھیگے ہوئے چوہوں کی طرح کانپ رہے تھے۔ ڈپٹی کمشنر اس حالت میں دیکھ کر کسی طرح اپنی ہنسی نہ روک سکتا، میں نے ڈاک بنگلے کا رخ کیا اور چوکیدار نے ازراہِ کرم فوراً ہی دو کمرے ہمارے لیے کھول دیے۔ خوش قسمتی سے ان دنوں وہاں کوئی اور سرکاری افسر نہ ٹھہرا ہوا تھا، ورنہ بڑی دشواری پیش آتی۔
آگ جلا کر ہم نے اپنے اپنے کپڑے سکھائے، پھر ملازم نے کھانا تیار کیا۔ کھا پی کر میں نے وہیں فرش پر اپنی اپنی چادریں بچھائیں اور چونکہ بے حد تھکے ہوئے تھے، اس لیے چند ہی لمحوں میں خراٹے لینے لگے۔ صبح آنکھ کھلی تو سُورج خاصی بلندی پر آ چکا تھا، لیکن نیند سے آنکھیں اب بھی بوجھل ہوئی جا رہی تھیں۔ میرا ملازم پہلے ہی بیدار ہو کر ناشتا تیار کر چکا تھا۔ غالباً اس نے میری آنکھوں میں نیند کا خمار دیکھ لیا تھا، اس لیے ناشتا لاتے ہوئے مسکرایا اور کہنے لگا:
’صاحب، جلدی اُٹھیے، ایک شخص بہت دیر سے آپ کے انتظار میں بیٹھا ہے۔‘
مجھے بڑی حیرت ہوئی، آخر وہ کون شخص ہے جو میرا انتظار کر رہا ہے اور سوال یہ ہے کہ اسے میری آمد کی خبر کس طرح ملی۔
’کون ہے وہ؟’ میں نے بے صبری سے پوچھا۔
’صاحب وہ اپنا نام پنوا بتاتا ہے، حُلیے سے کوئی راج مزدور دکھائی دیتا ہے اور کہتا ہے کہ وادیِ پانار کا رہنے والا ہوں۔‘
پانار کا نام ہی میرے لیے کافی تھا۔ میں نے فوراً پنوا راج (معمار) کو اپنے حضور میں حاضر ہونے کی اجازت دی۔ چند لمحے بعد نہایت مضبوط قد کاٹھ کا ایک ادھیڑ عُمر شخص اندر آیا اور جیسا کہ ہندوؤں میں رواج ہے، دونوں ہتھیلیاں جوڑ کر مجھے سلام کیا اور پھسکڑ مار کر بیٹھ گیا۔
’صاحب کے مزاج تو اچھے ہیں؟’ اس نے دانت نکال کر انتہائی انکسار آمیز لہجے میں پوچھا۔
’میرے مزاج بالکل ٹھیک ہیں اور کبھی خراب نہیں ہوئے۔‘ میں نے سنجیدگی سے جواب دیا۔ کیونکہ سچ پوچھیے تو اِن ہندوؤں کی ہیرا پھیری اور مکّاری سے مَیں خوب واقف ہو چکا تھا۔ چاپلوسی تو اس قوم کی گھُٹّی میں پڑی ہے اور جب یہ لوگ کسی کی چاپلوسی کریں، تو سمجھ لیجیے اس کی شامت بلانے کی کوشش ہو رہی ہے (ہندوستان میں اپنی عمر کا سب سے بڑا حصّہ کاٹنے کے باوجود ابھی تک اس قوم کے بارے میں میری رائے وہی ہے جو ابتداء میں تھی) بہرحال پنوا صاحب نے اپنے میلے کرتے کی بغلی جیب سے بیڑیوں کا بنڈل اور ماچس کی ڈبیا نکالی اور بیڑی سلگانے کا ارادہ فرما ہی رہے تھے کہ مَیں نے سختی سے ڈانٹا:
’یہ تمباکو پینے کی جگہ نہیں ہے۔ جس کام کے لیے آئے ہو، اس کام سے آگاہ کرو اور چلتے بنو۔‘
میرا خیال تھا اس ڈپٹ سے وہ کچھ ناراض ہو گا یا کم از کم سراسیمہ تو ہو جائے گا، لیکن اُس بندۂ خدا نے ذرّہ برابر اثر نہ لیا، بلکہ احمقوں کی طرح پھر دانت نکال دیے۔ نہایت بدتمیزی سے ہنسا اور کہنے لگا:
’میں تو سرکار کے درشنوں کے لیے آیا تھا۔ اپنے گھر کو جاتا تھا۔۔۔ میرا گھر وہیں ہے صاحب پانار کی وادی میں۔۔۔ ادھر سے گزرا، تو آپ کا سامان ڈاک بنگلے میں دیکھا۔ چوکیدار سے پوچھ کر اندر چلا آیا۔ جناب وہاں ایک آدم خور چیتے نے بڑی آفت مچا رکھی ہے۔ ہزاروں کو پھاڑ کر کھا گیا ہے اور ابھی اس کا پیٹ نہیں بھرا۔ نہ جانے دیو ہے یا کون بلا۔۔۔ میں نے سوچا شاید آپ اُسی طرف جا رہے ہوں، بڑی نیکی کا کام ہے سرکار اگر آپ اُس موذی کو ہلاک کر دیں۔ مَیں ابھی آپ کے ساتھ چلوں گا ورنہ مجھ اکیلے شخص کو تو چیتا کہیں نہ کہیں پھاڑ کھائے گا۔‘
’تُم نے اس چیتے کو پہلے کبھی دیکھا ہے؟’
’ارے نہیں سرکار۔‘ اس نے دہشت زدہ ہو کر کانوں کو ہاتھ لگایا۔ ‘ہماری کیا مجال کہ اُس جناور کے سامنے جائیں۔ وہ تو بجلی ہے بجلی۔ آج یہاں کل وہاں، پرسوں کہیں اور، بھوت ہے بھوت۔۔۔ اس کے ٹھور ٹھکانے کا بھی پتہ نہیں چلتا۔ مَیں نے سُنا کئی شکاری اُسے مارنے کے لیے آئے، مگر سبھی کو اُس نے ہڑپ کر لیا۔ کوئی بہت ہی ظالم بلا ہے سرکار۔‘
مَیں نے محسوس کیا کہ پنوا راج خاصا دلچسپ آدمی ہے اور اس کی مزیدار باتوں سے سفر کی کوفت کسی نہ کسی قدر زائل ہوتی رہے گی۔ اسے ساتھ لے ہی لیا جائے۔
’بندوق چلانا جانتے ہو؟’ یہ کہہ کر میں نے قریب رکھی ہوئی رائفل اٹھائی اور نال پنوا راج کی طرف پھیر دی۔
’اجی صاحب، اس کا منہ پرے کر لیجیے، چل جائے گی۔‘ وہ چِیخا اور اُچھل کر دُور کونے میں کھڑا ہوا۔ بے اختیار میرے منہ سے قہقہہ نکل گیا۔
’تم بہت بزدل ہوا پنوا۔‘ مَیں نے کہا۔ ‘مَیں ایسے آدمیوں کو ساتھ لے جانا پسند نہیں کرتا۔ فرض کرو کوئی موقع ایسا آ جائے کہ تمہیں بندوق چلانی پڑے، پھر کیا کرو گے؟ انسان کو اپنی حفاظت کے لیے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی چاہیے۔‘
’بات تو ٹھیک ہے صاحب۔‘ اس نے کہا۔ ‘لیکن ہم لوگ بندوق چلانا کیا جانیں۔ کببھی ہمارے باپ دادا نے چلائی ہو، تو ہم بھی چلائیں۔ ہم تو ذات کے شودر ہیں۔۔۔ نیچ لوگ ہیں۔۔۔ اگر ہمارے پاس بندوق ہوتی، تو آپ کی پناہ میں کیوں آتے؟ خود ہی اپنے گاؤں کو نہ چلے جاتے۔‘
اُس کی یہ دلیل وزنی تھی، اس لیے میں نے پنوا کو ساتھ جانے کی اجازت دیتے ہوئے بات ختم کر دی۔ وہ ایک طرف صحن میں لیٹ گیا اور میرے ملازم سے کہنے لگا:
’میں تھوڑی دیر کے لیے پلک جھپکوں گا، کہیں مجھے چھوڑ کر چلے نہ جانا، مَیں نے صاحب سے اجازت لے لی ہے۔‘
وادیِ پانار تک پہنچنے کے لیے میں وہی راستہ اختیار کرنا چاہتا تھا جو راستہ مَیں نے اپریل میں منتخب کیا تھا، چنانچہ دوپہر کے بعد جب ہم نے اپنا بوریا بستر باندھا اور روانہ ہوئے، تو پنوا سب سے پہلے مستعدی سے تیار کھڑا تھا۔ کہنے لگا:
’صاحب، آپ پہلے بھی اس علاقے میں آئے ہیں؟’
’ہاں۔‘ مَیں نے مختصر سا جواب دیا، پھر خیال آیا یہ شخص اسی جگہ کا رہنے والا ہے، ضرور چپّے چپّے سے آگاہ ہو گا، کیوں نہ اس سے راستے کی تفصیلات پوچھی جائیں، جب مَیں نے اس کُریدا، تو واقعی وہ اس سرزمین کا کیڑا نِکلا۔ بولا:
’میں پہلے ہی سمجھ گیا تھا کہ آپ وہاں تک پہنچنے کے لیے لمبا راستہ اختیار کر رہے ہیں۔ مَیں آپ کو ایک چھوٹے راستے پر لیے چلتا ہوں، بھگوان نے چاہا، تو وقت سے بہت پہلے چیتے کی سلطنت کی سرحد میں داخل ہو جائیں گے۔‘
’ایسا نہ ہو کہ ہم کہیں اور جا نکلیں‘۔ میں ذرا سخت لہجے میں کہا۔ ‘زیادہ شیخی میں آ کر ہمیں مروا نہ دینا۔‘
اس نے پھر کانوں کو ہاتھ لگایا۔ ‘سرکار، آپ کو مرواؤں گا، تو کیا میں بچ جاؤں گا؟ ایسی بات آپ دل میں بھی نہ لائیں۔ جس راستے سے میں آپ کو لے چلوں گا، وہ راستہ ہے تو چھوٹا، لیکن بہت خطرناک اور مشکل ہے۔ راہ میں کئی ندیاں نالے اور دریا پار کرنے ہوں گے اور آج کل ہے بھی برسات کا موسم ندی نالے چڑھے ہوئے ہیں۔ میری رائے یہ ہے کہ دیبی دھورا کے راستے سے جانے کی بجائے اگر آپ پتھورا گڑھ جانے والی سڑک پر چلیں تو بہت جلد منزل پر پہنچ جائیں گے۔‘
اُس کی یہ بات سن کر میں نے اپنا پرانا نقشہ نکالا جو الموڑہ کے ڈپٹی کمشنر نے پانچ ماہ قبل مجھے بنوا کر دیا تھا۔ اس میں دیکھا، تو واقعی پنوا راج کی بات درست نکلی۔ پتھورا گڑھ کا راستہ آسان بھی تھا اور قریب بھی۔ اب مجھے پنوا کی معلومات میں کوئی شک و شبہ نہ رہا۔ سارا دن خوب سفر کیا اور شام کے قریب پتھورا گڑھ کے کچھ کچے کچھ پکّے ڈاک بنگلے میں پہنچے جس کے در و دیوار پر حسرت و الم کا ایک عالم طاری تھا۔ ہر طرف جھاڑ جھنکاڑ اور لکڑیوں کے جالے نظر آتے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس نام نہاد بنگلے نے عرصۂ دراز سے کسی انسان کی شکل نہیں دیکھی۔ کہیں کہیں سانپوں کے بل بھی نظر آئے۔ چُوہے تو بے شمار تھے اور اندھیرے میں اُن کی ننھّی ننھّی سُرخ آنکھیں خوب چمک رہی تھیں۔
اِس ڈاک بنگلے میں رات کاٹنا ایک عذاب سے کم نہ تھا۔ تھکے ماندے ہونے کے باوجود میرے ساتھیوں میں سے کوئی بھی آدھ پَون گھنٹے سے زیادہ نہ سویا۔ جونہی آنکھ لگتی، کوئی نہ کوئی چُوہا چھاتی پر سے کُودتا ہوا گزر جاتا، یا پَیروں کی انگلیاں کُترنے کی کوشش کرتا۔ سانپوں کو خطرہ بھی تھا۔ پنوا راج ایک گوشے میں کمبل اوڑھے اکڑوں بیٹھا تھا۔ قریب جا کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ گہری نیند کے مزے لے رہا ہے۔ مجھے اُس کی اِس بے خبری کی نیند پر بڑا رشک آیا۔
تڑکے ہی سب اُٹھ بیٹھے۔ میرے ملازم نے جلد جلد ناشتا تیّار کیا۔ زہر مار کیا اور چل نکلے۔ چونکہ سب رات بھر کے جاگے ہوئے تھے، اس لیے صبح کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہَوا کے جھونکے نے شراب کا اثر دکھایا۔ قدم لڑکھڑانے لگے۔ خود میری کیفیت بھی یہی تھی کہ چلتا مشرق کی طرف، تو قدم اٹھتا شمال کی جانب۔ پنوا۔۔۔ ہماری رہنمائی کی اہم ذمّہ داری اپنے سر لیے مستانہ وار جھُومتا ہوا چلا جا رہا تھا۔ پتھورا گڑھ روڈ پر چند میل جانے کے بعد یک لخت وہ دائیں جانب مڑا اور ایک تنگ سی پگڈنڈی پر ہو لیا۔ اس نے مجھے بتایا کہ یہاں سے آدم خور کے علاقے کی سرحد شروع ہوتی ہے۔ کچھ دُور آگے چلے، تو یہی پگڈنڈی دو حصّوں میں اور پھر کئی میل آگے مزید دو حصّوں میں تقسیم ہو گئی۔ پنوا راج مزے مزے چلا جا رہا تھا۔ مَیں نے اپنا نقشہ نکال کر ان پگڈنڈیوں کا اتا پتا معلوم کرنا چاہا، مگر ناکام رہا، نقشے پر ان کا وجود نہ تھا۔ پنوا سے پوچھا۔ کہنے لگا:
’سرکار، پگڈنڈی کسی نہ کسی گاؤں یا بستی کو جاتی ہے۔ مَیں اِس علاقے کے چپّے چپّے سے واقف ہوں۔ آپ فکر نہ کریں۔ میرے پیچھے پیچھے چلے آئیں۔ یہ راستے آپ کو کاغذ کے بنے ہوئے اس نقشے میں نہ ملیں گے۔‘
’کیا تم کبھی راستہ بھی بھُولے ہو؟’ میرے ملازم نے اُس سے دریافت کیا۔
’کبھی نہیں۔‘ پنوا نے ہنس کر جواب دیا۔ ‘یوں سمجھو جس دن پنوا راستہ بھُولے گا، وہ اُس کی زندگی کا آخری دن ہو گا۔‘ پھر رُک رُک کر کہنے لگا۔ ‘یہ دھرتی ہمیں خود راستہ بتاتی ہے۔۔۔ ہم اُس کی آواز سُنتے ہیں۔۔۔ تم لوگوں کو اس کی آواز سنائی نہیں دیتی۔‘
مجھے اُس کی یہ فلسفیانہ بات بڑی اچھی لگی۔ مَیں نے بات چلانے کے لیے کہا:
’پنوا، اگر تم پڑھ لکھ جاتے، تو اچھے رہتے۔ تم نے دماغ خوب پایا ہے۔‘
میرے منہ سے خلافِ توقّع اپنی تعریف سُن کو وہ ٹھٹھکا، پھر رک کر میری طرف دیکھنے لگا۔ اس کی آنکھوں میں حیرت کے آثار تھے۔ ایک سادہ لوح شودر ہندو دیہاتی بھلا کیسے یقین کرتا کہ ایک بڑا افسر بھی اس کی تعریف کر سکتا ہے۔ در اصل اُسے مجھ سے اِس حسنِ سلوک کی توقع نہ تھی۔ غالباً افسروں کا زخم خوردہ تھا بیچارا۔۔۔ چند لمحے گُم سُم رہنے کے بعد وہ یک لخت میری طرف آیا اور جھُک کر میرے دونوں پاؤں پکڑ لیے، اظہارِ تشکّر کے لیے اس کے پاس کوئی اور طریقہ بھی تو نہ تھا۔
اب ہماری رفتار قدرے نرم اور سُست ہو گئی۔ راستہ ہر آن دُشوار گزار اور خطرناک ہوتا جاتا تھا۔ بے پناہ نشیب و فراز تھے، پھر جا بجا بارش کا رُکا ہوا پانی جوہڑوں اور چھوٹے تالابوں کی صورت میں ایک عظیم رکاوٹ بنا ہوا تھا۔ اس پر مستزاد دلدلیں، گھنی خار دار جھاڑیاں لمبی لمبی گھاس کے قطعے تھے۔ جن میں سے گزرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا اور چونکہ یہ تمام علاقہ آدم خور کے زیر نگیں تھا، اس لیے کوئی شبہ نہ تھا کہ وہ اس گھاس میں کہیں چھُپا بیٹھا ہو اور اچانک ہم آن پر پڑے، اس لیے ہر شخص پھُونک پھُونک کر قدم رکھ رہا تھا۔ بڑی مصیبت یہ تھی کہ ارد گرد میلوں تک پگڈنڈیاں ہی پگڈنڈیاں تھیں، لیکن کسی گاؤں یا بستی کے آثار اب تک دکھائی نہ دیے۔
سالان اور رنگ کوٹ پٹی میں سے گزرتے ہوئے سفر کے چوتھے روز ہماری مختصر سی پارٹی چاکیتی نام کی ایک بڑی بستی کے قریب پہنچی۔ یہاں کے لوگوں نے نہایت عزّت اور محبّت کے جذبات سے ہمارا استقبال کیا اور گاؤں کے تمام بچے، بُوڑھے، جوان جن میں مرد و زن سبھی شامل تھے، ہمیں ایک عجوبۂ روزگار شَے سمجھ کر گھروں سے نکل آئے اور گھیرا ڈال کر کر کھڑے ہو گئے۔ گاؤں کے نمبردار نے ہم پر کرم کیا اور ایک پختہ دو منزلہ مکان میں لے گیا۔ باتوں باتوں میں اُس نے بتایا کہ چند روز قبل دریائے پانار کے کے پرلی طرف واقع ایک گاؤں میں چیتا ایک بوڑھے کو اٹھا کر لے گیا تھا۔ یہ خبر بڑی حوصلہ افزاء تھی۔ جب مَیں نے اگلے روز دریا کو عبور کر کے سینولی جانے کا ارادہ ظاہر کیا، تو نمبردار کہنے لگا:
’جناب، آجکل دریا خوب چڑھا ہوا ہے اور اسے پار کرنا بہت مشکل ہو گا۔ دریا پر پل بھی نہیں ہے۔ آپ ایک آدھ دن یہیں ٹھہر جائیے۔ اگر اس اثناء میں بارش نہ ہوئی، تو پانی جلد ہی اُتر جائے گا، ورنہ پھر مَیں اپنا ایک آدمی آپ کے ساتھ کروں گا، وہ ایسی جگہ سے آپ کو دریا پار کرا دے گا جہاں پانی چھاتی چھاتی ہو گا۔ ویسے ہماری خواہش تو یہی ہے کہ دریا کبھی نہ اُترے، ہمیشہ چڑھا ہی رہے۔‘
’وہ کیوں؟’ میں نے حیران ہو کر پُوچھا۔
’اس لیے کہ جب تک دریا چڑھا رہے گا، چیتا اسے پار کر کے ہماری بستی میں داخل نہیں ہو سکے گا۔‘ نمبردار نے ہمیں جس مکان میں ٹھہرایا تھا، اُس کی دو منزلیں تھیں اور اوپر نیچے دو دو کمرے بنے ہوئے تھے، وہ ہمیں اُوپر کی منزل کے دو کمرے دینے کے لیے تیار تھا، لیکن میں نے کہا کہ اوپر کی منزل کا صرف ایک کمرہ میرے آدمیوں کو دے دیا جائے، میں خود نچلی منزل کے ایک کمرے میں سونا زیادہ پسند کروں گا۔ میری اِس فرمائش پر نمبردار نے کچھ کہنے کی کوشش کی، مگر میں نے گفتگو کا رُخ بدل دیا اور آدم خور کے بارے میں مختلف داستانیں سُنتا رہا۔ سورج غروب ہونے کے کچھ دیر بعد سب لوگ اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے اور گاؤں کی زندگی تاریکی اور خاموشی میں ڈوب گئی۔ میں نے اپنے سونے کے لیے جو کمرہ پسند کیا تھا، اس کا حال یہ تھا کہ اس میں نہ کوئی دروازہ تھا، نہ کوئی کھڑکی۔ ممکن ہے میں باہر صحن میں سو جاتا، لیکن کچے فرش پر پلنگ کے بغیر سونا خطرے سے خالی نہ تھا۔ سانپوں، بچھوؤں اور دوسرے بہت سے زہریلے حشرات الارض کی یہاں کثرت تھی۔ میرے ملازم نے کمرہ صاف کیا۔ صفائی کرتے ہوئے وہ دبی زبان سے گاؤں والوں اور خصوصاً اُس شخص کو گالیاں دے رہا تھا جو اس کمرے میں کبھی آن کر رہا ہو گا۔ گندے چیتھڑوں اور پھٹے پُرانے بدبو دار کپڑوں کا انبار ایک کونے میں لگا ہوا تھا، دوسرے گوشے میں مٹی کا ڈھیر نظر آیا۔ کونوں کھدروں میں لکڑیوں نے جالے تن رکھے تھے۔ میرے ملازم نے ڈیڑھ دو گھنٹے کی مشقت کے بعد کمرہ صاف کر کے میرا بستر فرش پر بچھا دیا۔ کھانا کھاتے ہی مَیں بستر پر آن گرا اور چونکہ بارہ گھنٹے کے مسلسل سفر نے ٹانگیں شل کر دی تھیں، بستر پر گرتے ہی ایسا بے خبر سویا کہ دن چڑھے آنکھ کھلی۔ کیا دیکھتا ہوں، ایک شخص پائنتی بیٹھا میری طرف گھور رہا ہے۔ اس شخص کی حالت دیکھتے ہی میرا کلیجہ اُچھل کر حلق میں آ گیا اور بدن کا ہر رونگٹا فرطِ خوف سے کھڑا ہو گیا۔
وہ بد نصیب شخص کوڑھ کے بھیانک مرض کی آخری منزلیں طے کر رہا تھا۔
اُسے دیکھ کر میرے مُںہ سے ایک لفظ بھی نہ نکلا، بلکہ مَیں بستر پر یوں سمٹ کر بیٹھ گیا جیسے میرے سامنے کوئی اژدھا آن بیٹھا ہے اور کسی بھی لمحے مجھے ڈس لے گا۔
’آپ اس کمرے میں خوب آرام سے سوئے ہوں گے۔‘ کوڑھی نے میری طرف غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔ ‘اس کمرے میں مَیں رہتا ہُوں۔ دو روز ہوئے اپنے رشتہ داروں سے ملنے ایک قریبی گاؤں گیا تھا۔ رات کو واپس آیا، تو آپ یہاں سو رہے تھے۔ مَیں نے جگانا مناسب نہ سمجھا۔‘
میں نے کچھ کہے بغیر جلدی جلدی بستر سمیٹا۔ خود ہی بغل میں دابا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔ وہ حیرت سے میری یہ حرکتیں دیکھتا رہا، لیکن کچھ نہ بولا۔ شاید وہ میرے چہرے پر نمودار ہونے والے ناگوار اثرات دیکھ کر*** کر خدا معاف کرے، ابتدا ہی سے مجھے کوڑھیوں اور جذامیوں سے کراہت رہی ہے اور یہ مرض تو گاؤں اور خصوصاً الموڑہ میں اس کثرت سے پھیلا ہوا ہے کہ بیان سے باہر۔ ہر بستی اور ہر گاؤں میں پانچ دس کوڑھی آپ کو آسانی سے مل جائیں گے اور چونکہ جہالت کے باعث یہ لوگ مریض کا معالجہ نہیں کرتے اس لیے مرض بڑھتا اور پھیلتا رہتا ہے۔ اور یُوں بھی چھُوت کا مرض ہے، ہَوا کی طرح چلتا اور ایک دوسرے کو لگتا ہے۔ کوڑھی دوسرے صحت مند لوگوں میں مِلے جُلے رہتے ہیں اور لوگ پتہ چل جانے کے باوجود کہ فلاں شخص اس مکروہ مرض میں مبتلا ہے، اس کے ساتھ کھاتے پیتے اور اٹھنے بیٹھنے کا سلسلہ ختم نہیں کرتے۔ نمبردار نے مجھے بتانے کی کوشش کی تھی، مگر اپنی حماقت کے باعث مَیں نے اُسے بات کرنے کا موقع ہی نہ دیا۔ بہرحال اب میرے لیے اس مکان میں تو کیا، گاؤں میں پل بھر کو ٹھہرنا دشوار ہو گیا۔ ہر طرف کوڑھی ہی کوڑھی نظر آنے لگے اور طبیعت اس قدر مضطرب ہوئی کہ دوپہر سے پہلے پہلے سامان باندھ کر نمبردار سے کہا کہ وعدے کے مطابق اپنا آدمی ہمارے ساتھ کر دے تاکہ وہ دریا پار کرا آئے۔ وہ سمجھ گیا کہ میں کس وجہ سے چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ اس کی پیشانی پر ندامت کی اُبھرتی ڈوبتی لکیریں مجھے صاف نظر آ رہی تھیں۔
یہاں سے جو راہبر ہمارے ساتھ چلا، وہ بھی عجیب آدمی تھا۔ قد چار فٹ چھ انچ، چھوٹا سَر جس پر سادھوؤں کی طرح لمبی لمبی جٹائیں، توند بے طرح نکلی ہوئی، ٹانگیں کمان کی طرح ٹیڑھی اور چھوٹی چھوٹی، پاؤں جوتوں سے خالی۔ نہ جانے کم بخت کون سی زبان بولتا تھا کہ دو چار الفاظ کے سوا اس بات کی کوئی بات میرے پَلّے نہ پڑتی تھی۔ بہت جلد وہ اور پنوا راج آپس میں بے تکلف ہو گئے اور پرانے یاروں کی طرح ایک دوسرے سے باتیں اور ہنسی مذاق کرنے لگے۔ گاؤں سے باہر نکلتے ہی ایک چھوٹا سا برساتی نالہ راہ میں آیا۔ یہاں رک کر مَیں نے اپنے کپڑے اُتارے اور کمر سے ایک چادر باندھ کر کاربالک صابن لگا کر کپڑے اچھّی طرح دھوئے، پھر خود نہایا۔ آسمان پر سورج چمک رہا تھا، لیکن دھوپ میں تمازت نہ تھی، اس لیے کپڑے سوکھنے میں دو گھنٹے لگے، تاہم مَیں نے یہ تاخیر گوارا کر لی۔
چلتے چلتے ایک بلند اور سرسبز پہاڑی کے دامن میں پہنچے۔ گائڈ صاحب نے ہاتھ کے اشارے سے بتایا کہ ہمیں اس پہاڑی کو عبور کرنا ہو گا۔ جُوں تُوں کر کے پہاڑی پر چڑھے اور اس کی پرلی طرف اُترے، تو اپنے آپ کو ایک حسین وادی میں پایا۔ سُورج چھُپنے میں ابھی پون گھنٹہ باقی تھا۔ اور ہمارا حال یہ تھا کہ ٹانگیں قدم بڑھانے سے عاری ہو چکی تھیں، مگر گائڈ اِدھر اُدھر آگے پیچھے دیکھے بغیر مسلسل چل رہا تھا۔ وادی کو قطع کر کے ایک بار پھر ہم نے ایک بلند اور عظیم پہاڑ کو اپنے سامنے پایا۔ اس کی چڑھائی زیادہ خطرناک اور دشوار تھی، سب لوگ ہانپتے اور تھرتھرانے لگے، مگر برہنہ پا گائیڈ پر کوئی اثر نہ ہُوا۔ وہ اسی طرح لطف لیتا ہوا چلا جا رہا تھا۔ بڑے بڑے پتھّروں اور چٹانوں پر اترتے چڑھتے ہوئے اس پر ایک بیحد پھُولے ہوئے موٹے سے بندر کا شبہ ہوتا تھا۔ میرا خیال تھا کہ دریائے پانار نزدیک ہی ہو گا، لیکن بہت جلد یہ خوش فہمی رفع ہو گئی جب گائڈ نے بتایا کہ دریا، ابھی بہت دُور ہے اور درمیان میں کئی پہاڑیاں اور بے شمار نشیب و فراز طے کرنے ہیں۔
دوسری پہاڑی جس پر ہم بکروں کی طرح اچھل اُچھل کر چڑھ رہے تھے، نہایت پھسلواں اور ڈھلوان تھی۔ اگر اس پر خود رَو مضبوط جھاڑیاں نہ ہوتیں جنہیں پکڑ پکڑ کر ہم اوپر چڑھ رہے تھے، تو یقین کیجیے کہ ہم قیامت تک اس کی چوٹی پر ہرگز نہ پہنچ سکتے اور کسی نہ کسی کھڈ میں گر کر ہماری ہڈیاں چُور چُور ہو جاتیں۔ جب ہم چوٹی پر پہنچے، تو سورج غروب ہو چکا تھا اور فضا میں اتنی ٹھنڈ تھی کہ ہمارے دانت بج رہے تھے، لیکن چونکہ شدید مشقت کے بعد یہ چوٹی سر کی تھی، اس لیے ٹھنڈ کے باوجود ہمارے جسم پسینے سے شرابور تھا اور سانس۔۔۔ اس کی آمد و رفت کا حال نہ پُوچھیے، بس یوں محسوس ہوتا تھا جیسے پھیپھڑے پھٹ کر مُنہ کے راستے باہر آ جائیں گے۔ ہماری تو یہ حالت اور اُدھر گائڈ صاحب پہلے کی طرح مستعد اور تر و تازہ آگے چلنے کو تیار۔ مَیں نے انہیں ڈانٹ کر روکا، تب رُکے اور منہ بسور کر ایک طرف بیٹھ گئے۔ جب ہمارا سانس درست ہو گیا، تو گائڈ نے پنوا سے مخاطب ہو کر کہا:
’دریا یہاں سے نزدیک ہی ہے۔۔۔ اگر۔۔۔‘
مَیں نے اسے پھر ڈانٹا۔ ‘دریا نزدیک ہو یا دور، اب ہم ایک قدم بھی آگے نہ اٹھائیں گے۔ تم نے چلا چلا کر ہمارا کچومر نکال دیا ہے۔ پہلے ہی بتا دیتے، تو مَیں کوئی اور راہ اختیار کرتا، صبح تک ہمیں آرام کرنے دو، اس کے بعد ہمیں دریا پر لے جانا۔‘
رات نہایت خوشگوار اور سرد تھی۔ پہاڑی کی چوٹی پر کمبلوں میں دبکے پڑے رہے۔ سورج کی پہلی کرن نمودار ہوتے ہی مَیں اٹھ بیٹھا۔ قُلی، مُلازم، پنوا اور گائڈ سبھی خوابِ خرگوش کے مزے لے رہے تھے۔ پہاڑ کی چوٹی طلوع ہوتے ہوئے سورج کا نظارہ ایسا دل فریب اور مسحور کُن تھا کہ مَیں اسی میں کھو گیا۔ مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے مَیں سورج کی سنہری کرنوں کے ساتھ ساتھ فضا میں تیر رہا ہوں۔ اس وقت روح کو ایسی فرحت و شادمانی نصیب ہوئی جس کا تصوّر گنجان آباد شہروں میں رہنے والے کبھی نہیں کر سکتے۔ مَیں نے اپنے ساتھیوں کو بیدار کیا۔ سب آنکھیں ملتے ہوئے اٹھے۔ میرا ارادہ تھا کہ دریا پر جا کر ناشتا کریں گے اور ممکن ہے ایک آدھ بڑی مچھلی ہی مل جائے، چنانچہ ہم پہاڑ کی دوسری طرف اُترنے لگے اور ایک وسیع و عریض میدان میں اترے جس میں قدِ آدم گھاس حدِ نظر تک پھیلی ہوئی تھی۔ مشرقی جانب ایک اور پہاڑی نظر آئی۔
’دریا کہاں ہے؟’ میں نے گائڈ کی طرف دیکھ کر غصے سے کہا۔ ‘اس علاقے میں تو کوسوں دریا کا پتہ نہیں۔ تم ہمیں غلط راستے پر تو نہیں لے آئے؟’
’نہیں صاحب، راستہ صحیح ہے۔‘ پنوا نے گائڈ کی طرف سے ترجمانی کا حق ادا کیا۔‘ میں خود اِسی راہ پر کئی مرتبہ آیا گیا ہوں۔ بس اُس پہاڑی کو پار کرتے ہی دریا ہمارے قدموں میں ہو گا۔‘
یہ سُن کر قلیوں کے چہرے لٹک گئے۔ غصہ تو مجھے بیحد آیا، لیکن پی گیا۔
پنوا نے اپنی کمر پر ایک وزنی گٹھڑی سی لاد رکھی تھی اور دائیں بغل میں ایک پرانا اوور کوٹ تھا جو نہ جانے کس طرح اُس کے پاس پہنچا۔ میرے پوچھنے پر اُس نے بتایا کہ اس گٹھڑی میں کپڑے ہیں، چند برتن اور کھانے پینے کا سامان، یہ سب چیزیں وہ اپنے رشتہ داروں کے لیے لے جا رہا ہے۔
’پنوا بھائی، اتنا بوجھ اٹھائے اٹھائے پھر رہے ہو، تمہاری کمر تھک گئی ہو گی، لاؤ کچھ چیزیں مجھے دے دو۔ میں تو خالی ہاتھ ہوں۔‘ گائڈ نے پیش کش کی۔ پنوا نے اپنا وزنی اوور کوٹ اسے دے دیا جسے گائڈ نے لپیٹ کر اپنی کمر سے باندھ لیا۔ اس نے راستے میں ہنس کر پنوا سے کہا:
’یہ کوٹ تو بہت ہی ہلکا ہے، میں تو ایک من وزن اٹھا کر کماؤں کی ساری پہاڑیاں پار کر چکا ہوں۔‘
اگر یہ شخص یہی بات کسی اور موقعے پر کہتا، تو مَیں کبھی یقین نہ کرتا، لیکن اس کی طاقت اور ہمّت کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرنے کے بعد جھٹلانا ممکن نہ تھا، بلا شبہ وہ صحیح کہہ رہا تھا۔ در اصل وہ تھا ہی پہاڑی علاقے کا باشندہ اور ان لوگوں کی عُمریں پہاڑوں پر چڑھتے اُترتے کٹ جاتی ہیں۔
خُدا خدا کر کے ہم نے تیسری پہاڑی بھی عبور کی اور اب معاً ہم دریا کے کنارے کھڑے تھے۔ دریا کیا تھا، ایک چھوٹی سی ندی تھی، لیکن برسات کے اس موسم میں یہ چھوٹی سی ندّی سمندر بن گئی تھی۔ پانی خُوب چڑھا ہوا تھا اور کناروں سے نکل دُور دُور تک پھیل رہا تھا۔ اسے پار کرنا خاصا مشکل نظر آتا تھا۔ گائڈ ایک طویل چکّر کاٹ کر ہمیں ایک ایسے مقام پر لے گیا جہاں سے دریا کا دوسرا کنارہ تقریباً پندرہ فٹ دور تھا اور اس مقام پر پانی کی گہرائی بھی کچھ زیادہ نہ تھی۔ سب سے پہلے مَیں دریا میں اُترا۔ پانی میری رانوں تک اونچا تھا۔ پیچھے چاروں قُلی، پھر میرا ملازم، آخر میں پنوا اور گائڈ دریا میں اترے۔ چند لمحے بعد مَیں نے عقب میں کسی کی چیخ سنی، مڑ کر دیکھا، تو بے چارا گائڈ اپنے چھوٹے قد کی وجہ سے گردن تک پانی میں ڈوبا ہوا تھا۔ یکایک پانی کا ایک زبردست ریلا آیا اور اُسے بہا کر اپنے ساتھ لے چلا۔ وہ مدد کے لیے چِلّایا۔ میرا خیال تھا کہ اُسے غرق ہونے سے اب کوئی نہیں بچا سکتا، لیکن فوراً ہی پنوا حقِ دوستی ادا کرتے ہوئے اس کی طرف لپکا اور گردن پکڑ لی۔ اس دوران میں وہ پانی سے لڑنے کی شدید کوشش کرتا رہا۔ آخر اُس نے گائڈ کو دوسرے کنارے پر پہنچا ہی دیا، لیکن اِس حالت میں کہ پانی کی خاصی مقدار اس کے پیٹ میں پہنچ چکی تھی، تاہم جان بچی سو لاکھوں پائے۔
میں پنوا کی اس بہادری اور جاں نثاری سے بیحد متاثر تھا اور اس شخص کے بارے میں مجھے اپنی رائے بدلنی پڑ رہی تھی۔ مَیں نے اُسے شاباش دیتے ہوئے کہا:
’بھئی تم تو بڑے جی دار نکلے۔ مَیں تو سوچ رہا تھا کہ اس کے ساتھ تم بھی ڈوبے۔‘
’اجی صاحب، اس بدمعاش سے مجھے کیا دلچسپی۔۔۔ یہ کم بخت اپنے ساتھ میرا اوور کوٹ بھی لے مرتا۔‘ پنوا نے جواب دیا۔
میرے منہ سے بے اختیار قہقہہ نکل گیا۔ پنوا کا جملہ ہندو ذہنیت کی پوری عکاسی کرتا ہے۔ وہ رات ہم نے دریا کے کنارے ہی کاٹی۔ پنوا نے بتایا کہ اس گاؤں یہاں سے پانچ میل ہے اور وہ علی الصّبح چلا جائے گا۔
صبح جب ہماری آنکھ کھلی، تو پنوا نظر نہ آیا۔ کم بخت سُورج نکلنے سے پہلے ہی کھسک گیا تھا۔ میں حیران تھا کہ اب اسے چیتے کا ڈر نہ لگا، حالانکہ وہ موذی اس علاقے میں گھوم رہا تھا، بہرحال دوپہر تک ہم سینولی گاؤں کے قریب پہنچ گئے۔ یہ تین پہاڑیوں کے درمیان گھِرا ہوا ایک حسین گاؤں تھا۔ مکان کچے، لیکن صاف ستھرے، گلیاں کوڑے کرکٹ کے ڈھیر سے پاک، آدمی ملنسار، مہمان نواز اور سیدھے سادے۔ بستی کے ارد گرد انہوں نے جا بجا قدِ آدم خار دار جھاڑیاں کثرت سے پھیلا رکھی تھیں تاکہ چیتا اندر نہ گھس آئے۔ ہمیں دیکھ کر ان لوگوں کے چہروں پر حیرت کے آثار تھے۔ تھوڑی دیر میں سبھی اپنے اپنے گھروں سے نکل آئے اور ہمارے گرد گھیرا ڈال کر کھڑے ہو گئے۔ ان میں سے اکثر ایسے تھے جنہوں نے زندگی میں پہلی بار کسی افسر یا اس کی بندوق کو دیکھا تھا۔ میں نے انہیں اپنے ملازم اور قلیوں کی مدد سے سمجھایا کہ چیتے کا قلع قمع کرنے آیا ہوں اور کیا کوئی ایسا شخص ہے جو چیتے کے بارے میں بتا سکے۔ اتنا سننا تھا کہ لوگ اپنی اپنی کہنے لگے۔ ان میں سے ہر شخص نے کسی نہ کسی موقع پر چیتے کو دیکھا تھا اور اپنی الگ داستان سُنانے کو تیّار تھا۔ معلوم ہوا کہ چھ روز قبل چیتے نے چاول کے کھیتوں میں کام کرتے ہوئے ایک آدمی کو مار ڈالا اور ہڑپ کر گیا۔ اس سے پہلے وہ اس گاؤں کے تین افراد کو کھا چکا تھا۔ یہ بھی پتہ چلا کہ چیتے نے اپنا ٹھکانہ مشرقی پہاڑوں کے اندر کہیں بنا رکھّا ہے۔ جیسا کہ میں نے بتایا اس بستی کو تین طرف سے پہاڑوں نے گھیر رکھا تھا اور ایک طرف قد آدم گھاس کا وسیع و عریض قطعہ تھا۔
چند منٹ کے سرسری جائزے ہی سے اندازہ ہو گیا کہ چیتے کو سینولی کے گرد و نواح سے بہتر کوئی اور ٹھکانہ پورے کماؤں میں نہیں مل سکتا تھا۔ یہ علاقہ اس کے لیے نہ صرف بالکل محفوظ تھا، بلکہ اس کا کھاجا بھی یہاں وافر مقدار میں موجود تھا۔ ایک ہوشیار اور تنومند چیتے کے لیے رات بھر میں پچاس ساتھ میل کا فاصلہ طے کر لینا کچھ مشکل نہیں ہوتا اور یہی وجہ تھی کہ وہ چاروں طرف پچاس پچاس میل کے علاقے میں پھیلی ہوئی بے شمار بستیوں اور گاؤں کے لوگوں پر نہایت آسانی سے حملہ آور ہوتا اور کہیں نہ کہیں سے اپنا شکار حاصل کر کے سینولی لوٹ جاتا۔ ایسا بھی ہوتا کہ وہ دن دہاڑے بستی میں آ جاتا اور اگرچہ اس کا پیٹ بھرا ہوتا، تاہم کسی نہ کسی کو اپنی عادت کے مطابق ہلاک کر کے رفوچکّر ہو جاتا۔
بہرحال میں نے تمام حالات کا بنظرِ غائر اندازہ کر کے اپنا پروگرام مرتّب کر لیا۔ دو صحت مند بکریاں گاؤں والوں سے خریدیں اور چونکہ معلوم ہو چکا تھا کہ چیتا کئی دن سے غیر حاضر ہے اور عنقریب نمودار ہو گا، ان میں سے ایک بکری کو گھاس کے قطعے کے کنارے پر درخت سے باندھ دیا اور دوسری کو گاؤں کے ایک بلند چبوترے کے ساتھ جکڑ دیا۔ میرا خیال تھا کہ چیتا اسی شب گاؤں میں ضرور آئے گا۔ یہ چبوترہ ایک وسیع مکان کا تھا جو نمبردار کی ملکیت تھا اور گاؤں کے شمالی سرے کا آخری مکان ہونے کے باعث غیر محفوظ تھا، اس لیے عرصے سے خالی پڑا تھا۔ نمبردار نے میری خواہش پر اس میں سے اپنا کاٹھ کباڑ اور بچا کھُچا سامان اٹھایا اور اسے میرے لیے خالی کر دیا۔
سُورج غروب ہوتے ہی گاؤں پر ہیبت ناک سنّاٹا اور تاریکی مُسلّط ہو گئی۔ کبھی کبھی کُتوں کے بھونکنے کی آواز سنائی دے جاتی اور پھر وہی اعصاب شکن خاموشی۔ بکریاں خلافِ معمول خاموش تھیں اور مَیں ان کے چیخنے کا بیتابی سے منتظر تھا۔ میرا دھیان اُس بکری پر لگا ہوا تھا جو گھاس کے میدان کے نزدیک بندھی تھی۔
مَیں اُس مکان میں تنِ تنہا تھا۔ اپنے آدمیوں کو گاؤں کے اندر بھیج دیا تھا۔ رات کے ٹھیک بارہ بجے، جب کہ ستاروں کی روشنی میں دھُندلا دھُندلا سا منظر آنکھوں کے سامنے تھا، مَیں نے مکان کے عقب میں ایسی آواز سُنی جیسے کوئی جانور اپنے پنجوں سے دیوار کھُرچ رہا ہے۔ جنگل میں پھیلے ہوئے وحشت انگیز سناٹے میں یہ آواز اتنی عجیب تھی کہ ایک لمحے کے لیے مجھ پر ہیبت طاری ہو گئی۔
اب مَیں نے اس عظیم خطرے کو پہلی بار محسوس کیا جو میرے سر پر منڈلا رہا تھا۔ نادان شکاریوں کی طرح مَیں نے اپنی حفاظت کا سامان کیے بغیر خود کو چیتے کے حوالے کر دیا تھا۔ پوزیشن ایسی تھی کہ وہ کسی بھی لمحے اچانک بجلی کی طرح مجھ پر آن پڑتا اور مجھے بلا شبہ مدافعت میں فائر کرنے کا موقع بھی نہ ملتا۔
چند ثانیوں کے لیے مَیں کان لگا کر یہ آوازیں سنتا رہا۔ کچھ یوں لگا جیسے چیتے کے بجائے کوئی اور جانور ہے۔ یک لخت چبوترے پر بندھی ہوئی بکری کی پتلی اور کانپتی ہوئی چیخ گونج اٹھی۔ مَیں لپک کر باہر نکلا۔ بکری کا اور میرا درمیانی فاصلہ بمشکل پچیس فٹ ہو گا۔ مَیں نے فوراً ٹارچ روشن کی، کیا دیکھتا ہوں کہ قوی ہیکل چیتا بکری کو مُنہ میں دبائے کے لیے جا رہا ہے۔ ٹارچ روشن ہوتے ہی وہ رُکا اور مڑ کر میری طرف گھورنے لگا۔ ٹارچ کی روشنی میں اس کی آنکھیں ہیروں کی مانند چمک رہی تھیں اور یوں نظر آتا تھا جیسے آنکھوں میں بجلیاں سی کوند رہی ہیں۔
مجھ پر نظر پڑتے ہی چیتے نے بکری کو مُنہ سے نکال کر زمین پر ڈال دیا اور غُرّانے لگا۔ پھر اس نے اپنے اگلے دو پنجے آگے بڑھائے، اس کا پیٹ زمین کو چھُونے لگا۔ اب وہ مجھ پر جست کرنے کے لیے بالکل تیّار تھا۔ اسی لمحے مَیں نے اُس کی کھوپڑی کا نشانہ لے کر لبلبی دبا دی۔ چیتا آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے گرا، گولی اُسے یقیناً لگی تھی۔ ایک منٹ تک زمین پر بُری طرح لوٹنے اور گرجنے غرانے کے بعد وہ اُٹھا اور چشم زدن میں نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ میں نے اس دوران میں ایک اور فائر کیا، مگر یہ فائر بے کار گیا، کیونکہ چیتا غائب ہو چکا تھا۔
تھوڑی دیر بعد اپنے حواس درست کر کے مَیں اس جگہ گیا۔ جہاں چیتے نے بکری کو مُنہ سے نکال کر ڈال دیا۔ خُون ہی خون بکھرا ہوا دکھائی دیا، لیکن فوری طور پر یہ اندازہ نہ ہو سکا کہ خُون چیتے کا ہے یا بکری کا؟ تاہم چند قدم آگے بڑھ کر جب گھاس کا معائنہ کیا، تو یہ دیکھ کر میری خوشی کی انتہا نہ رہی کہ جا بجا خون کے دھبّے پھیلتے چلے گئے تھے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ میری پہلی گولی چیتے کو زخمی کر گئی ہے آدھی رات کے وقت زخمی اور جھلّائے ہوئے آدم خور چیتے کا تعاقب کرنا محال تھا۔ مَیں نے بکری کی لاش وہیں پڑی رہنے دی اور خود گھاس کے اس قطعے کی طرف چلا جہاں دوسری بکری بندھی ہوئی بُری طرح چلّا رہی تھی۔ مَیں نے بکری کو وہاں سے کھولا اور اُسے اپنے ساتھ گاؤں کے اندر لے گیا۔ فائروں کی آوازیں سُن کر گاؤں والے بیدار ہو چکے تھے، لیکن کسی کو اپنے گھر سے باہر نکلنے کی جرأت نہ ہوئی۔ مَیں نے انہیں آوازیں دے دے کر بُلایا۔ بڑی مشکل سے دس بارہ نوجوان جمع ہوئے۔ مَیں نے بتایا کہ چیتا زخمی ہو کر فرار ہو گیا ہے اور سخت غضب ناک ہے۔ آج کی رات وہ زخم چاٹنے میں لگا رہے گا، لیکن بہتر یہی ہے کہ اُسے زیادہ مہلت نہ دی جائے اور سُورج نکلنے سے کچھ دیر پہلے گاؤں کے سب لوگ ہانکا کرنے کے لیے نکلیں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ زیادہ دُور جانے کے بجائے گھاس کے اس لمبے چوڑے قطعے میں چھُپا رہے گا۔ بولو، کیا تم لوگ ہانکا کرنے کے لیے تیّار ہو؟ میں دعوے سے کہتا ہوں کہ اگر سب لوگ ہمّت کریں، تو چیتے کو ایک دن کے اندر اندر تلاش کر کے موت کے گھاٹ اتارا جا سکتا ہے۔
رات کا بقیہ حِصّہ ہانکے کی تیّاریوں میں کٹا اور سورج نکلنے سے ایک گھنٹہ پہلے پچّیس افراد پر مشتمل ایک گروہ ہاتھوں میں لاٹھیاں، برچھے، کلہاڑیاں اور ڈھول کنستر پیٹتا ہوا چیتے کی تلاش میں روانہ ہوا۔
آدم خور چیتے کی ہیبت کا کیا ٹھکانا، میں نے محسوس کیا کہ ہانکا کرنے والے نوجوانوں کے چہروں پر خوف و ہراس طاری ہے۔ ایک دوسرے کے قدموں کی آہٹ اور لمبی لمبی گھاس کی سرسراہٹ سن کر بار بار چونک پڑتے ہیں اور ایک آدھ بار ایسا بھی ہُوا کہ جھاڑیوں کے اندر چھُپا ہوا جنگلی خرگوش نِکل کر بھاگا تو پیچھے سے آنے والے تین نوجوان چیخیں مارتے ہوئے درختوں کی طرف دوڑے۔ اُن کا خیال تھا کہ چیتا برآمد ہوا ہے۔ اس صورتِ حال نے مجھے خاصا پریشان کر دیا اور اپنی اس حماقت پر افسوس ہونے لگا کہ میں ان بے چاروں دیہاتیوں کو جو سب کے سب ہندو تھے، ہانکے پر کیوں لے آیا، لیکن بہرحال زخمی چیتے کو تلاش کر کے ہلاک کرنا ضروری تھا، کیونکہ ٹھیک ٹھاک ہونے کے بعد وہ ان باشندوں پر پہلے سے بھی زیادہ تباہی و بربادی لاتا۔
جن شکاریوں کو جنگل میں کبھی آدم خور چیتے یا شیر کے تعاقب میں نکلنے کا اتفاق ہوا ہے وہ بخوبی جانتے ہوں گے کہ یہ مرحلہ جتنا دلچسپ اور امید و بیم کی کیفیّت سے بھرپُور ہوتا ہے، اس سے کہیں زیادہ خطرناک اور جان لیوا بھی ہے۔ زخمی ہونے کے بعد درندے کے غیظ و غضب اور عیّاری کی انتہا نہیں رہتی۔ وہ اپنے بچاؤ کے لیے جان پر کھیل جاتا ہے اور اکثر شکاری یا ہانکا کرنے والے ذرا بھی بُزدلی دکھائیں، تو درندہ اُن پر بجلی کی طرح آن پڑتا ہے اور پھر چشم زدن میں کسی کی تِکّا بوٹی کر ڈالنا اس کے لیے کچھ مشکل نہیں ہوتا۔ مَیں اس زمانے میں اتنا جہاں دیدہ اور تجربہ کار شکاری نہ تھا۔ اِس میدان میں داخل ہوئے ابھی دِن ہی کتنے ہُوئے تھے اور ایک دو بار کے سوا کبھی زخمی درندے کے تعاقب میں علی الصبح ہانکے پر جانے کا اتفاق نہ ہوا تھا اور چونکہ ان گذشتہ مہموں میں مجھے کامیابی حاصِل ہوئی تھی، اس بنا پر میں کچھ زیادہ ہی بیباک اور نڈر بن گیا تھا۔ بہرحال اتنا ضرور تھا کہ پانار کا آدم خور چیتا آسانی سے میرے ہتھّے چڑھنے والا نہیں اور نہ معلوم ابھی کتنی جانیں اُس کے خونیں پنجوں اور ہلاکت خیز جبڑوں کا شکار ہونا باقی ہیں۔
ہم لوگ جُوں جُوں آگے بڑھتے، جنگل اُتنا ہی دشوار گزار اور گھنا ہوتا جاتا تھا۔ حتیٰ کہ ایسے مقام پر جا نِکلے جہاں سات فٹ اونچی جھاڑیاں راہ میں حائل ہو گئیں اور جب ہم نے ان جھاڑیوں کے اندر گھسنے کی کوشش کی، تو ڈیڑھ ڈیڑھ انچ لمبے سوئی کی مانند باریک اور تیز کانٹوں نے کپڑے تار تار کر کر دیے، بلکہ کئی آدمی لہولہان بھی ہو گئے۔ ان جھاڑیوں میں سے گزرنا انسانی طاقت سے باہر تھا اس لیے ہم مایوس ہو کر واپس چلے۔ مجھے شبہ تھا کہ مفرور چیتا انہی جھاڑیوں میں دبکا ہوا ہے۔ چند نوجوانوں نے ایک اور خشک کھائی کے اندر اتر کر مٹی کے بڑے بڑے جمے ہوئے ٹکڑے نکالے اور جھاڑیوں میں پھینکنے شروع کیے تو میرا شبہ یقین میں بدل گیا۔ موذی درندہ ہلکی آواز میں غُرّایا اور اپنی ناراضی کا اظہار کرنے لگا۔ مجھے کچھ اور نہ سوجھی، تو جھاڑیوں میں دو تین فائر جھونک دیے اور اگلے ہی لمحے جنگل کی فضا اَن گنت پرندوں اور بندروں کی چیخوں سے لرز اٹھی ان آوازوں میں چیتے کی غراہٹیں اور پھر گرج بھی شامل ہو گئی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ غضب ناک ہو کر باہر نکلنے کا ارادہ کر رہا ہے اور اس سے پیشتر کہ میں ہانکا کرنے والوں کو پناہ لینے یا بھاگ جانے کا اشارہ کروں، قد آور چیتا جس کا جبڑا خون میں لت پت تھا، جھاڑیاں چیرتا ہوا میرے دائیں ہاتھ کوئی پچیس فٹ کے فاصلے پر نمودار ہوا اور چھلانگیں لگاتا ہوا گھاس کے وسیع و عریض قطعے کی طرف بھاگا اور چند ثانیے میں نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ میرا خیال تھا کہ وہ اپنے ساتھ ایک آدھ آدمی کو پکڑ لے جائے گا، لیکن خدا کا شکر کہ اس نے ایسا نہ کیا۔ غالباً وہ اتنے آدمیوں کو اپنے قریب دیکھ کر اور فائروں کی آواز سے بد حواس ہو گیا تھا۔
میں اپنے آدمیوں کو لے کر گاؤں میں واپس آیا اور اطمینان سے ناشتا کیا۔ اب مجھے پُورا یقین تھا کہ چیتا ایک ہفتے تک اپنے زخم چاٹے گا اور اس علاقے سے نکل کر کہیں اور نہ جائے گا۔ میں نے دیکھ لیا تھا کہ اس کا جبڑا زخمی ہو چکا ہے اور غالباً وہ اپنے شکار کا گوشت آسانی سے چبا بھی نہیں سکے گا۔ بھوک اسے پناہ گاہ سے باہر نکلنے پر مجبور کرے گی۔ اپنا کھاجا حاصل کرنے کے لیے لازماً گاؤں کا رُخ کرے گا۔ اس لیے ابھی سے گاؤں کی اس انداز میں ناکہ بندی کی جائے کہ چیتے کے لیے صرف ایک راستہ گاؤں میں آنے کا کھُلا رہے اور باقی سب راستے بند ہوں۔
گھاس کا وہ قطعہ جو میرے خیال کے مطابق آدم خور چیتے کی پناہ گاہ بن چکا تھا، وسیع و عریض تھا اور گھاس کے لمبے لمبے ریشے گھنے اور ان کے کنارے اتنے تیز تھے کہ آدمی تو ایک طرف چھوٹے موٹے جانور بھی اس میں جاتے ہوئے گھبراتے تھے۔ میں نے گاؤں والوں سے کہا کہ وہ کسی تدبیر سے چیتے کو نکالنے کی کوشش کریں، مگر سب نے کانوں پر ہاتھ دھرے اور کہنے لگے کہ ہم اس بلا کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ مجھے معلوم ہوا کہ انہوں نے آپس میں بات چیت کر کے طے کیا تھا کہ آئندہ کسی کام میں میری مدد نہ کی جائے۔
یہ صورت حال میرے لیے نہایت پریشان کُن تھی۔ اتنے دن کی مشقت اور صعوبتیں اٹھانے کے بعد جب کامیابی کی منزل نزدیک آ رہی تھی تو گاؤں والوں نے سب کیے کرائے پر پانی پھیرنے کا پروگرام بنا لیا۔ سچ پوچھیے تو مجھے اُن کی جہالت اور بُزدلی پر غصّہ آنے کی بجائے ترس آتا تھا۔ ڈرانے یہ دھمکانے کا موقع ہی نہ تھا اور نہ میں ان پر اس قسم کا دباؤ ڈالنے کے حق میں تھا۔ کیونکہ میں نے ایسے بہت سے انگریز افسروں اور شکاریوں کے قصّے سُن رکھے تھے جو مقامی باشندوں کو خواہ مخواہ ڈراتے دھمکاتے، مارتے پیٹتے اور اُن سے بیگار لیتے تھے اور بعد ازاں جنگل میں کسی نہ کسی درندے کا تر نوالہ بن جاتے تھے۔ اس حادثے کی وجہ یہ ہوتی تھی کہ لوگ درندے کی خون آشام حرکتوں کے باعث پہلے ہی نالاں ہوتے، اوپر سے ان انگریز افسروں اور ان کے دیسی ماتحتوں کی ڈانٹ ڈپٹ اور مار پیٹ سے واسطہ پڑتا، چنانچہ ان لوگوں کے سینے میں انتقام کی آگ بھڑک اٹھتی اور وہ جان بُوجھ کر شکاری کو ایسی جگہ لے جاتے جہاں وہ آسانی سے آدم خور کے ہتھّے چڑھ جاتا تھا۔
میرا خیال تھا زخمی چیتا زیادہ دیر تک بھوک برداشت نہیں کرے گا۔ اور ضرور کسی نہ کسی آدمی یا جانور کی تلاش میں گاؤں کے اندر آئے گا، لیکن تین دن گزر گئے، اس کا کہیں نام و نشان بھی نہ تھا۔ میں دوسری بکری کو روزانہ باہر گھاس کے میدان کے کنارے بندھواتا اور خود ساری ساری رات ایک درخت پر بیٹھا چیتے کا انتظار کرتا رہتا، مگر اُسے تو جیسے زمین نِگل گئی تھی، کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ ماجرا کیا ہے۔ کبھی خیال آتا کہ وہ اس علاقے سے نکل کر کہیں اور چلا گیا ہے اور کبھی سوچتا ممکن وہ زیادہ خُون بہہ جانے کے باعث مر چکا ہو، بہرحال اُمّید و بیم کی یہ کیفیت حد درجہ اعصاب شکن اور حوصلہ پست کر دینے والی تھی اور میں جلد از جلد اپنے آپ کو اس کوفت سے آزاد کر لینا چاہتا تھا۔
تین راتین مُسلسل درخت پر ٹنگے رہنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ مچھّروں نے کاٹ کاٹ کر میرا چہرہ سُجا دیا اور پھر چوتھے روز صبح جب میرے آدمیوں نے مجھے درخت سے اُتارا، تو میری حالت اتنی ابتر ہو چکی تھی جیسے برسوں کا بیمار۔ ایک ہفتے تک ملیریا بخار نے دبائے رکھّا۔ اس دوران میں چیتے کی کوئی خبر نہ ملی اور کسی نہ کسی واردات کے وقوع پذیر ہونے کی اطلاع آئی، چنانچہ میرا شبہ یقین میں بدل گیا کہ آدم خور چیتا زخموں کی تاب نہ لا کر مر گیا ہے۔
ایک روز میں نے گاؤں والوں کو بُلایا اور اُن سے کہا کہ چیتے کو تلاش کریں ضرور کہیں نہ کہیں اس کی لاش مل جائے گی، لیکن چیتے کی ہیبت ان کے دلوں پر اس قدر بیٹھی ہوئی تھی کہ سب نے صاف انکار کر دیا۔ اگرچہ گزشتہ دس روز سے کوئی واردات نہیں ہوئی تھی اور ہر طرف امن چین تھا مگر سینولی کے باشندے حسبِ معمول سُورج چھپتے ہی اپنی اپنی جھونپڑیوں اور کچے مکانوں میں گھُس کر دروازے بند کر لیتے تھے اور صبح ہونے تک کوئی شخص اپنے گھر سے باہر نکلنے کی جرأت نہ کرتا تھا، رات بھر بستی پر بھیانک سناٹا طاری رہتا۔ لوگ اِس ڈر سے دِیے بھی نہ جلاتے تھے کہ ان کی روشنی دیکھ کر درندہ اسی طرف آئے گا۔
تیرھویں دن میری حالت کچھ ٹھیک ہوئی۔ بخار تو اُتر چکا تھا، لیکن نقاہت ابھی باقی تھی۔ اس موقع پر مجھے گاؤں والوں کے لیے تعریفی کلمات کہنے پڑیں گے۔ ہر شخص نے حتی الامکان میری دیکھ بھال اور تیمار داری کا فریضہ ادا کرنے کی کوشش کی اور گاؤں کے ایک بوڑھے وید نے نہایت محبّت اور شفقت سے میرا علاج کیا، لیکن سچ پوچھیے، تو مجھے اپنی صحت سے زیادہ اس مُوذی آدم خور کی فکر کھائے جاتی تھی اور میں اس کے بارے میں کچھ نہ کچھ جاننے کے لیے بے چین تھا اور کہ وہ مر گیا یا زندہ ہے اور اگر زندہ ہے، تو کہاں ہے اور اس نے اب تک کوئی واردات کیوں نہیں کی۔ بہرحال اُس روز مَیں دوپہر تک اپنے آدمیوں کی معیّت میں ادھر ادھر پھرتا رہا۔ گھاس کے قطعے کی طرف بھی گیا اور جہاں تک جا سکتا تھا، وہاں تک پہنچا، مگر آدم خور کا کہیں سُراغ نہ مِلا۔ پندرھویں روز جبکہ میں واپس جانے کا ارادہ کر رہا تھا، ایک شخص گاؤں میں آیا اُور نے یہ خبر دہشت اثر سنائی کہ مشرق کی جانب پندرہ میل دُور ایک قصبے میں گزشتہ رات اٹھّارہ سالہ نوجوان کو آدھی رات کے وقت کوئی درندہ پکڑ کر لے گیا ہے۔ یہ خبر سن کر میرے کان کھڑے ہوئے اور میں نے اس شخص کو اپنے پاس بلوایا، یہ ادھیڑ عمر سیاہ رنگ کا ایک ہندو پٹواری تھا۔ جو اپنے کسی کام سے اِدھر آیا تھا۔ مجھے دیکھ کر اس کی گھگی بندھ گئی۔ شاید وہ مجھے کوئی اور جابر و قاہر انگریز افسر سمجھ رہا تھا، لیکن جلد ہی میں نے اس کی یہ غلط فہمی دور کر دی اور اس حادثے کی تفصیلات دریافت کیں وہ اپنی گنجی چندیا اور پیشانی سے پسینہ پونچھتے ہوئے کہنے لگا:
’جناب، ہم پر تو مصیبت ہی آ گئی۔ بھگوان کے لیے آپ کچھ کریں، ورنہ یہ بلا سب کو کھا جائے گی۔ اس نے تو گاؤں کے گاؤں خالی کر دیے ہیں۔ فصلیں اجاڑ دی ہیں۔ جنگل میں لکڑی کی کٹائی کا کام مہینوں سے بند پڑا ہے، مزدور کسی طرح کام پر نہیں جاتے۔ بچّے بھُوکے مر رہے ہیں۔ عورتیں گھاس نہیں کاٹتیں، رات کو پیاسے ہی سو رہتے ہیں۔ ندّی پر جا کر پانی لانے کی ہمت بھی کسی میں نہیں آدم خور ہمارے گاؤں میں بہت دن بعد آیا ہے۔ آج کوئی ایک سال پہلے اُس نے وہاں دس بارہ آدمیوں کو پھاڑ کھایا تھا، اس کے بعد وہ دوسرے علاقوں میں چلا گیا۔ اب پھر کل رات وہ ایک بڑھیا کے نوجوان لڑکے کو پکڑ کر لے گیا۔ بے چارے کی اگلے مہینے ہی شادی ہونے والی تھی۔ بڑھیا تو صدمے سے پاگل ہو گئی ہے۔ ہر وقت روتی اور چیختی رہتی ہے۔ لڑکا آدھی رات کو پیشاب کرنے کے لیے اپنے جھونپڑے سے باہر نکلا اور لوٹ کر نہیں آیا۔ صبح اُس کی ماں نے لوگوں کو بتایا۔ ہم اُسے ڈھونڈنے کے لیے نکلے، تو جنگل میں اس کی لاش کے ٹکڑے اور خون میں بھیگے ہوئے کپڑے دکھائی دیے۔‘
’یہ بھی ممکن ہے کہ اس نوجوان کو کسی اور شیر یا چیتے نے ہڑپ کیا ہو۔‘ مَیں نے کہا۔
’نہیں جناب، یہ سب شرارت اُس چیتے کی ہے۔ کیا ہم اس کے پیروں کے نشان نہیں پہچانتے؟’
پٹواری نے جواب دیا۔ ‘وہ ابھی تک وہیں موجود ہے۔۔۔ جنگل میں گھوم رہا ہے۔۔۔ ہم نے اس کی آوازیں سنی ہیں۔‘
’اس کے باوجود تم اکیلے یہاں آ گئے؟’
’مَیں اکیلا نہیں آیا صاحب، میرے ساتھ پانچ آدمی اور آئے ہیں اور ہمارے آنے کا یہ مقصد ہے کہ گاؤں والوں کو اپنی مصیبت سے آگاہ کریں۔‘
’میں تمہارے گاؤں چلوں گا۔‘ مَیں نے فیصلہ کُن انداز میں کہا اور اپنے آدمیوں کو سامان باندھنے کی ہدایت کی۔ اگلے روز ہم سینولی سے روانہ ہوئے۔ ہمارا قافلہ نو افراد پر مشتمل تھا۔ راستہ اتنا دشوار اور خطرناک تھا کہ کئی جگہ مرتے مرتے بچے۔ ایک پہاڑی پر چڑھتے ہوئے جب خچّر تھک کر چُور ہو گئے اور ان میں سے ایک گِر پڑا، تو ہم اُتر پڑے اور پیدل چلنے لگے۔ یہ پہاڑی درّہ جس میں سے ہم گزر رہے تھے، نہایت تنگ اور اُس کے دونوں طرف خطرناک گہری ڈھلانیں مُنہ پھاڑے ہمارے منتظر تھیں۔ پٹواری آگے آگے چل رہا تھا۔ یکایک ایک موڑ پر وہ رکا اور مڑ کر خوف زدہ نظروں سے میری طرف دیکھنے لگا۔
’کیا بات ہے؟ رُک کیوں گئے؟’ میں نے پُوچھا۔
’جناب، آگے کچھ ہے۔‘ اس نے لفظ ‘کچھ’ پر زور دیتے ہوئے کہا۔ مَیں نے کندھے سے بندوق اُتار کر ہاتھ میں لے لی، اپنے ساتھیوں کو رُک جانے کا اشارہ کیا اور آہستہ آہستہ آگے بڑھا، یہاں سے چٹان کا ایک بڑا حصّہ باہر کو نکلا ہوا تھا اور قدرتی طور پر سائبان سا بنا نظر آتا تھا۔ جب میں اس پہاڑی سائبان سے آگے چند قدم بڑھا، تو دوسری طرف سے پھُوں پھُوں کی سی آواز کانوں میں آئی۔ بندوق میرے ہاتھ میں تھی اور انگلی گھوڑے پر۔ نہایت احتیاط سے قدم بڑھاتے ہوئے میں نے جھُک کر دیکھا، تین ساڑھے تین فٹ چوڑی اس پہاڑی پگڈنڈی پر ایک قوی الجثّہ اور ہیبت ناک شکل کا بکرا کھڑا جُگالی کر رہا تھا۔
کماؤں کے علاقے میں پائے جانے والے پہاڑی بکروں سے جن شکاریوں کو کبھی واسطہ پڑا ہے، وہ خوب جانتے ہوں گے کہ یہ مخلوق کیسی بلا ہے۔ کہنے کو تو بکرا ہے، لیکن تُندی، تیزی جھلّاہٹ اور مکاری میں جنگلی درندوں سے کہیں زیادہ خطرناک اور بے رحم ثابت ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کے جسم اور نوک دار سینگوں میں قوت کا بے پناہ خزانہ پوشیدہ ہے۔ سر جھکا کر بجلی کی طرح جب حملہ کرتا ہے، تو نڈر سے نڈر شکاری کا پتّہ بھی پانی ہو جاتا ہے۔ اس کا گوشت بے ذائقہ اور روکھا ہے۔ اور چونکہ اس علاقہ میں سانبھر کی ایک اچھی قِسم مل جاتی ہے، اس لیے شکاری ان بکروں کو ہلاک کرنے سے گریز ہی کرتے ہیں اور اگر یہ راستے میں مل جائے تو، تو کترا کر دوسری طرف نکل جاتے ہیں۔ پہاڑی بکرا بھی حملہ کرنے میں پہل نہیں کرتا، لیکن کوئی اس کے آرام میں مخل ہو، یا جب وہ اپنی مادہ کے ساتھ چہل قدمی کر رہا ہو، اس وقت کوئی اسے چھیڑے، تو فوراً مشتعل ہو جاتا ہے۔ اس کی کھال انتہائی سخت اور موٹی ہوتی ہے اور عام بندوق کی ایک آدھی گولی سے اس کا کچھ نہیں بگڑتا۔ بہرحال پہاڑی بکرے کو دیکھ کر مَیں پیچھے ہٹ گیا اور اپنے ساتھیوں کو اشارے سے کہا کہ نیچے اتر آئیں، آگے راستہ بند ہے۔
میرا ارادہ بکرے سے دو دو ہاتھ کرنے کا نہیں تھا، لیکن وہ نہ جانے کس موڈ میں تھا کہ دفعتاً اُچھلا اور پورے زور میں میری طرف آیا۔ میری پُشت اُس کی طرف تھی اور اگر پٹواری چِلّا کر مجھے خبردار نہ کر دیتا، تو مَیں آج یہ کہانی سنانے کے لیے زندہ نہ ہوتا، بلکہ سینکڑوں فٹ گہری کھائی میرا مدفن بن جاتی۔ پٹواری کی چیخ سُنتے ہی مَیں مُڑا اور عین اسی لمحے قوی ہیکل بکرا میرے بائیں پہلو کو مَس کرتا ہُوا آگے نکل گیا۔ میں اس وقت اتنا بد حواس اور خوفزدہ ہوا کہ فائر کرنے کی بھی جرأت نہ ہوتی اور فائر کرتا، تو یقیناً میرے ہی ساتھیوں میں سے ایک آدھ گولی کا نشانہ بن جاتا۔ اپنا وار خالی جاتا دیکھ کر بکرا پھر پلٹا اب وہ اپنے دونوں پچھلے پَیروں پر کھڑا زور زور سے پتھّروں پر کھُر مار رہا تھا۔ پھر اُس نے اپنے سینگ جھکائے اور میری طرف بڑھا۔ میں نے بندوق کے بجائے اپنا شکاری چاقو پیٹی سے نکال کر ہاتھ میں لیا اور جونہی بکرا میرے نزدیک آیا، مَیں گھٹنوں کے بل جھکا اور پُوری قوّت سے چاقو اُس کی گردن میں گھونپ دیا۔ گرم گرم سُرخ خُون کا ایک فوّارہ میرے منہ پر اُبل پڑا۔ ایک لرزہ خیز چیخ کے ساتھ کئی من وزنی بکرا لڑکھڑا کر اگلے ہی لمحے گہری کھائی میں گِر کر نظروں سے غائب ہو چکا تھا۔
آدھ گھنٹے تک میرے ہوش و حواس غائب رہے۔ خدا نے اِس موذی سے بال بال بچایا۔ جیسا کہ توقع تھی، کوئی آدھ فرلانگ نیچے اترے، تو اس کی مادہ کھڑی دکھائی دی۔ غصّے کے مارے میری حالت بری تھی، میں نے اُوپر تلے دو فائر کیے اور اسے وہیں ڈھیر کر دیا۔
اب ہم پہاڑی علاقے سے نکل کر جنگل کے ایسے حصے میں داخل ہوئے جہاں سیب سے ملتے جلتے پھلوں کے بے شمار درخت تھے۔ پٹواری نے بتایا کہ یہ پھل ریچھ کی مرغوب غذا ہے۔ اور کچھ عجب نہیں کہ یہاں ریچھ مل جائے۔ یہ سن کر میں نے بندوق سنبھال لی اور میرا ہمراہیوں نے اپنی اپنی لاٹھیاں اور کلہاڑیاں اس انداز میں تان لیں جیسے ریچھ کی تکّا بوتی کر ڈالیں گے، مگر مَیں خوب جانتا تھا کہ ان بے چاروں کی بساط کتنی ہے۔ ریچھ تو درکنار، گیدڑ اور خرگوش کی آہٹ سن کر ہی ان کی گھگی بندھ جاتی ہے۔
ایک طویل چکّر کاٹ کر ہمارا قافلہ جنگل کے شمال مشرقی حصّے میں پہنچا۔ ہر طرف ایک ہیبت ناک سنّاٹا طاری تھا اور چونکہ سُورج آہستہ آہستہ مغرب کی طرف جھُکنے لگا تھا، اس لیے فضا میں نمی بڑھ رہی تھی اور درختوں کے سائے لمبے ہوتے جا رہے تھے۔ یکایک کچھ فاصلے پر ایسی آواز گونجی جیسے کوئی شخص سسکیاں لے لے کر رو رہا ہو۔ آواز کبھی دائیں طرف سے آتی تھی اور کبھی بائیں طرف سے، سمجھ میں نہ آیا کیا معاملہ ہے۔ اندھیرا تیزی سے ہر شے کو اپنی لپیٹ میں لے رہا تھا اور گاؤں نہ جانے ابھی کتنی دُور تھا۔
آواز کبھی مدھّم ہو جاتی، کبھی تیز۔ کبھی قریب سے سنائی دیتی، کبھی دور سے آتی ہوئی محسوس ہوتی۔ عجیب معاملہ تھا۔ میں نے دیکھا کہ پٹواری خوف زدہ ہے۔ یکایک اس نے میرے نزدیک آن کر کہا:
’جناب، یہ کوئی بھُوت پریت معلوم ہوتا ہے۔۔۔ جلدی سے بھاگ چلیے۔‘
’مَیں اِس بھُوت کو دیکھے بغیر نہ جاؤں گا۔‘ مَیں نے سختی سے کہا۔ ‘تم لوگوں کو ڈر لگتا ہے، تو درختوں پر چڑھ جاؤ۔‘ یہ جواب دیتے ہی میں آگے بڑھا اور اندازے سے آواز کا رُخ معلوم کرنے کی کوشش کی، اس مرتبہ صاف پتہ چلا کہ آواز دائیں جانب سے آتی ہے۔ اب مَیں نے بلند آواز سے کہا:
’کون ہے یہاں؟ ڈرو نہیں، ہم تمہاری مدد کریں گے۔‘
چند لمحے بعد ایک درخت کی شاخیں اور پتے ہلے اور بارہ تیرہ سال کے ایک گورے چِٹے لڑکے کا چہرہ نمودار ہُوا۔ رو رو کر اُس کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں اور رنگ ہلدی کی طرح زرد۔ معلوم ہوا کہ وہ بارہ گھنٹے سے اس درخت پر پناہ لیے ہوئے ہے۔ جنگل میں اپنے باپ کے ساتھ جا رہا تھا کہ ایک چیتے نے حملہ کر دیا جو باپ کو پکڑ کر لے گیا اور لڑکے نے درخت پر چڑھ کر جان بچائی۔ وہ اس کے سوا اور کچھ نہ بتا سکا کہ چیتے نے اس کے بات کی گردن مُںہ میں دبا لی تھی اور ایک جانب بھاگ گیا تھا۔
چونکہ اندھیرا تیزی سے پھیل رہا تھا، اس لیے چیتے کی اس تازہ حرکت کا سراغ لگانے کا موقع نہ تھا، ہم نے لڑکے کو ساتھ لیا اور گاؤں میں داخل ہوئے، جگہ جگہ آگ کے الاؤ روشن تھے اور جھونپڑیوں کے اندر سے لوگوں کے باتیں کرنے کی آواز سُنائی دے رہی تھیں۔
یہ گاؤں جس میں بمشکل چالیس پچاس جھونپڑیاں تھیں، جنگل میں لکڑی کاٹنے والے مزدوروں کی ایک بستی تھی اور چونکہ قریب ہی ایک برساتی نالہ بہتا تھا، اس لیے لوگوں نے اسے آباد کر لیا تھا۔ ہمارے آنے کی خبر پا کر عورتیں، مرد اور بچّے باہر نکل آئے۔ لڑکے کو ہمارے ساتھ دیکھ کر چند عورتیں روتی ہوئی آگے بڑھیں اور اسے اپنے ساتھ لے گئیں۔
میرے ہاتھ میں بندوق دیکھ کر ہر شخص مطمئن اور خوش نظر آنے لگا اور فوراً ہی انہوں نے میرے لیے ایک جھونپڑی خالی کر دی۔ میں نے انہیں سمجھایا کہ چیتا چند گھنٹوں کے وقفے سے دو انسانی جانوں کا ہلاک کر چکا ہے اور اُن کا گوشت اُس کا پیٹ بھرنے کے لیے کافی ہے، اس لیے آپ اطمینان سے اپنے گھروں میں آرام کریں، آدم خور آج اِدھر نہ آئے گا۔
اگلے روز علی الصباح میں چند آدمیوں کی معیّت میں اس مقام پر گیا۔ جہاں چیتے نے ایک نوجوان کو مارا تھا۔ نوجوان کی بُوڑھی ماں صدمے سے پاگل ہو چکی تھی۔ اُسے دیکھ کر میری آنکھوں میں بے اختیار آنسو نکل پڑے۔ اُس کی کل کائنات یہی نوجوان تھا، مقام حادثہ پر چند ہڈیوں، خون کے خشک دھبّوں اور کپڑوں کی دھجیوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ یہاں سے بیس پچیس فٹ کے فاصلے پر ایک اُونچا اور گھنا درخت تھا۔ مَیں نے مچان کے لیے اسے مناسب سمجھا اور اپنے آدمیوں سے کہہ کر اس پر مچان بندھوایا، لیکن چیتا آسانی سے درخت پر چڑھ جاتا ہے، اس لیے مچان مجھے اس کے پنجے سے بچا نہ سکتا تھا، چنانچہ مَیں نے سیاہ خار دار جھاڑیاں اکھڑوا کر درخت کے تنے کے ساتھ دس فٹ کی بلندی تک بندھوا دیں۔ پھر گاؤں والوں سے ایک بکری خریدی اور اسے درخت سے چالیس فٹ کے فاصلے پر ایک کھلی جگہ باندھ دیا۔ بکری خاص طور پر سفید رنگ کی لی گئی تھی اور یہ اس لیے کہ اندھیرے میں اُس کی کھال چمک کر مجھے بتاتی رہے کہ وہ کہاں ہے۔
سورج غروب ہونے سے کچھ دیر پہلے مَیں نے اپنے آدمیوں کو ساتھ لیا، انہیں سمجھایا کہ وہ جنوبی جانب اُس بڑے بڑے ٹیلے پر چڑھ جائیں اور زور زور سے باتیں کریں، گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ جب میں اشارہ کروں یا وہ کوئی آہٹ پائیں، تو گاؤں میں واپس چلے جائیں۔ سیڑھی کے ذریعے انہوں نے مجھے مچان پر چڑھا دیا اور حسب ہدایت ٹیلے پر چڑھ گئے۔ سورج چھپ گیا اور جنگل کی زندگی آہستہ آہستہ بیدار ہونے لگی۔ ہزار ہا قسم کے پرندے اور جانور اپنی اپنی بولیوں میں رات کا خیر مقدم کر رہے تھے۔ مَیں جب اطمینان سے مچان پر بیٹھا، تو ہلکا سا جھٹکا لگا اور یہ دیکھ کر میرا کلیجہ لرز گیا کہ میرے آدمیوں نے درخت کی جن شاخوں پر مچان باندھا ہے، وہ سب کی سب یا تو اندر سے کھوکھلی ہیں یا حد درجہ کمزور۔۔۔ اور اگر مَیں نے ذرا زور دیا تو مچان یقیناً ٹوٹے گا اور پھر میرا جو حشر ہو گا، اس کا تصوّر ہی نہایت اذیّت ناک تھا۔ مَیں اب بڑی احتیاط سے بے حِس و حرکت بیٹھا تھا۔ بکری پہلے تو چپ چاپ کھڑی غالباً گھاس کھاتی رہی، پھر یک لخت اس کی باریک اور کانپتی ہوئی آواز جنگل کی فضا میں گونج اٹھی۔
’مَیں۔۔۔ مَیں۔۔۔ مَیں۔۔۔ مَیں۔۔۔‘ مجھے یوں محسوس ہونے لگا کہ میرے سر پر آہنی ہتھوڑوں کی بارش ہو رہی ہے۔ بکری کی دماغ پاش آواز نے میرے اعصاب شل کر کے رکھ دیے۔ پندرہ بیس منٹ چیخ کر وہ چپ ہوئی اور میں نے اطمینان کا سانس لیا۔ میرے آدمی ٹیلے پر چڑھے ابھی تک بلند آواز سے باتیں کر رہے تھے اور اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ جنگل میں کہیں چھُپا ہوا آدم خور چیتا اُن کی آوازیں سن کر ادھر آئے۔ اُسے بلانے کا واحد ذریعہ یہی انسانی آوازیں تھیں، ورنہ بکری کا چیخنا چِلّانا بالکل بے کار تھا۔ درندہ آدم خور ہونے کے بعد انسانی لہو اور گوشت کے سوا کوئی اور چیز کھانا پسند نہیں کرتا۔
گاؤں کی طرف سنّاٹا تھا یا آگ کے اونچے نارنجی اور سُرخ شعلے جلتے ہوئے الاؤ میں سے اٹھ رہے تھے۔ پھر ایک جانب سے کُتّے کے بھونکنے کی آواز آئی۔ دوسری طرف سے کسی اور کتے نے اس کا جواب دیا۔ جس مقام پر بکری بندھی ہوئی تھی، اُس سے کچھ فاصلے پر جھاڑیوں میں سے دو پرندے چیختے ہوئے نِکلے اور فضا میں چکر کاٹنے لگے۔ اب مَیں ہوشیار ہو گیا۔ پرندوں نے خبردار کر دیا کہ دُشمن آن پہنچا اور تاک میں ہے۔ میں نے سیٹی بجائی اور اپنے آدمیوں کو اشارہ کیا کہ ان کا کام ختم ہو چکا، اب وہ گاؤں میں جا سکتے ہیں۔ چند لمحوں بعد اُن کی آوازیں آنی بند ہو گئیں جس سے اندازہ ہوا کہ وہ لوگ جا چکے ہیں۔
مچان پر اُکڑوں بیٹھے بیٹھے دو گھنٹے گزر گئے۔ ایک ہی جگہ بے حِس و حرکت بیٹھے رہنے سے ہاتھ پاؤں اکڑ گئے تھے اور بازو شل۔۔۔ گردن بھی دُکھنے لگی تھی۔ مَیں نے تنے کے ساتھ آہستہ سے ٹیک لگا کر اپنے دائیں بائیں دیکھا، کچھ نہ تھا۔ مَیں نے سوچا ممکن ہے یہ میرا وہم ہو۔ لیکن میرا دل کہتا تھا کہ یہ وہم نہیں حقیقت ہے۔ آدم خور درخت کے آس پاس ہی ہے۔ بکری کی سفید کھال اندھیرے میں چمک رہی تھی۔ کبھی کبھار وہ حرکت کرتی، تو پتہ چلتا کہ ابھی صحیح سلامت ہے۔ اب میں چاہتا تھا کہ وہ خود کسی طرح بولے تاکہ چیتا اس کی طرف متوجہ ہو جائے، لیکن بکری خاموش تھی۔۔۔ بالکل خاموش۔۔۔ جیسے اس میں بولنے کی سکت ہی باقی نہ تھی۔
مجھے معلوم تھا کہ ڈیڑھ گھنٹے بعد چاند نکل آئے گا اور پھر میں آسانی سے گرد و پیش کا منظر بخوبی دیکھ سکوں گا، مگر سوال یہ تھا کہ کیا چیتا مجھے اتنی مہلت دے دے گا؟ اُس زمانے میں برقی ٹارچوں کا رواج نہ تھا اور شکاریوں کو اپنی تیز بصارت اور چھٹی حِس کے علاوہ چاند کی روشنی سے بھی مدد لینی پڑتی تھی یا پھر نشانہ ایسا بے خطا ہو کہ آواز کے رُخ پر فائر کرے اور درندے کو ڈھیر کر دے۔ چونکہ گھُپ اندھیرے میں شکاری کو بندوق کی نال بھی صحیح طور پر نظر نہ آتی تھی اس لیے اُس کے سرے پر سفید کپڑے کی ایک چھوٹی سی پٹی باندھنے کا طریقہ ایجاد کیا گیا۔ شکاری اِس پٹی کی رہنمائی میں نشانہ لے کر فائر کرتا تھا۔
جُوں جُوں وقت گزر رہا تھا، میرے دل کی دھڑکن تیز ہوتی جا رہی تھی۔ جنگل پر ہیبت ناک سناٹا طاری تھا۔ ذرا سی آواز بھی کسی طرف سے نہ آتی تھی۔ ہاں، دُور الاؤ میں جلتی ہوئی بڑی بڑی لکڑیوں کے چٹخنے کی مدھم آوازیں ضرور میرے کانوں تک پہنچ رہی تھیں یا پھر ہَوا پتّوں اور شاخوں سے گزرتی ہوئی طرح طرح کی پُر اسرار آوازیں پیدا کر رہی تھی۔
یکایک بکری چِلائی اور میری جان میں جان آئی، مگر بمشکل دو منٹ بولی ہو گی کہ پھر چپ ہو گئی۔ اب میں غور سے پَلک جھپکائے بغیر اُدھر دیکھ رہا تھا۔ میری چھٹی حِس نے بتایا کہ درندہ مجھے دیکھ چکا ہے اور مجھ پر حملہ کرنے کی تیّاریوں میں مصروف ہے۔
مشرقی اُفق پر رفتہ رفتہ روشنی پھیلنے لگی۔ چند لمحے بعد چاند نے اپنا روشن چہرہ اُوپر اُٹھا کر جنگل میں جھانکا۔ عین اسی لمحے درخت کے عقب میں کھڑ کھڑ سی ہوئی۔ میں نے دائیں ہاتھ سے تنے کا سہارا لیا اور غور سے دیکھا۔ آدم خور چیتا درخت کے نیچے کھڑا اپنے پنجوں کی مدد سے خار دار جھاڑیاں ہٹانے کی کوشش کر رہا تھا۔ ایک ثانیے کے لیے میری اُس کی نظریں چار ہوئیں اور ایسا محسُوس ہُوا جیسے دو برجھیاں میرے سینے میں اُتر گئی ہوں۔ اُس نے بکری کی طرف کوئی توجہ نہ دی اور مُسلسل کانٹے ہٹانے میں لگا رہا۔ میرے اوسان خطا ہونے لگے۔ اگر چیتا ان کانٹوں کو ہٹا کر درخت پر چڑھ آیا، تو دُنیا کی کوئی طاقت مجھے اس کا لقمہ بننے سے نہ بچا سکے گی۔ اُسے معلوم تھا کہ مجھے اس کی موجودگی کا پتہ چل گیا ہے، مگر چار سو سے زائد افراد کو ہڑپ کر جانے والا یہ آدم خور اتنا نڈر اور بے خوف ہو چکا تھا کہ اس نے میری مطلق پروا نہ کی۔ مَیں نے جان پر کھیل کر کروٹ لی اور بارہ بور کی ڈبل بیرل کی بندوق گھُما کر چیتے کی کھوپڑی کا نشانہ لیا۔ میری اس حرکت پر چیتا سخت مشتعل ہوا اور بُری طرح غرّانے اور گرجنے لگا اور پھر سامنے کی جھاڑیوں میں چھپ گیا۔
بکری دہشت زدہ ہو کر چلّانے لگی۔ پھر مَیں نے چاند کی روشنی میں دیکھا کہ قد آور چیتا بجلی کی مانند جھاڑیوں سے نکل کر بکری کی طرف لپکا۔ میں نے اس کی ہلکی سی جھلک دیکھی اور دوسرے ہی لمحے بکری نظروں سے غائب ہو گئی۔ کئی منٹ گزر گئے۔ میرا چہرہ پسینے سے تر تھا اور ہاتھوں کی انگلیاں کپکپا رہی تھیں۔ میں نے بندوق ایک طرف رکھ کر جیب سے رو مال نکالا اور پسینہ پونچھنے لگا۔ میں سمجھ رہا تھا کہ چیتا بکری کو لے گیا ہے اور دوبارہ ادھر نہ آئے گا، لیکن فوراً ہی میرے عقب میں پھر کھڑ بڑ شروع ہوئی اب مَیں نے پورے اطمینان اور سکون سے چیتے کے دل کا نشانہ لیا اور دو فائر کیے۔ آدم خور کی وہ آخری چیخ میں زندگی بھر نہیں بھُول سکوں گا۔ اُس نے مجھے پکڑنے کے لیے جست کی، لیکن کانٹوں میں اُلجھ کر زمین پر گر پڑا اور تڑپنے لگا۔ اُس کی ہولناک چیخوں اور غرّاہٹ سے جنگل کی زمین ہل رہی تھی اور درختوں پر بسیرا کرنے والے ہزار ہا پرندے بے آرام ہو کر فضا میں پرواز کر رہے تھے۔
مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ آدم خور کی ان چیخوں نے گاؤں والوں کو بھی ہلا کر رکھ دیا تھا اور وہ سمجھ رہے تھے کہ چیتا مجھے پکڑ کر لے گیا ہو گا۔ پھر مَیں نے گاؤں کی طرف سے چالیس پچاس آدمیوں کا گروہ اپنی طرف آتے دیکھا۔ سب نے اپنے اپنے ہاتھوں میں لاٹھیاں ڈنڈے اور کلہاڑیاں پکڑ رکھی تھیں۔ درخت کے نزدیک آ کر انہوں نے مجھے زندہ سلامت دیکھا، تو خوشی سے ناچنے لگے۔ مَیں نے انہیں بتایا کہ چیتے کو دو گولیاں لگی ہیں اور اب وہ قریب ہی کسی جھاڑی میں مرا پڑا ہو گا۔ جاؤ اُسے تلاش کرو۔ آدھ گھنٹے بعد میں نے لوگوں کے نعرے سُنے۔ معلوم ہُوا کہ انہوں نے پانار کے اُس آدم خور کی لاش ڈھونڈ لی ہے جس نے ایک سال کے عرصے میں چار سَو سے زائد بے گناہ افراد کو ہڑپ کر لیا تھا۔
٭٭٭
ماخذ:
http: //shikariyat.blogspot.com/2019/07/blog-post_18.html
امبل میرو کا پُر اسرار بھُوت
(اصل مصنف : کینتھ اینڈرسن)
یہ واقعہ میری طویل شکاری زندگی کے اُن عجیب اور لرزہ خیز واقعات میں سے ہے جنہیں فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اس واقعے کی صحیح پوزیشن سمجھنے کے لیے آپ کو آندھرا پردیش کے جنگلوں میں جانا پڑے گا۔ ضلع چتّوڑ میں بھاکر پت، چمالا اور مامندر کے تینوں جنگل قریب قریب واقع ہیں۔ ان کے کناروں پر بہت سے گاؤں اور بستیاں آباد ہیں۔ یہ جنگل اپنے قدرتی مناظر کے اعتبار سے جتنے حسین ہیں، اس سے کہیں زیادہ خطرناک
بھی ہیں۔ درندوں کے علاوہ یہاں ریچھ بھی پائے جاتے ہیں۔ مجھے اس طرف جانے کا بارہا اتفاق ہوا ہے، لیکن شکار کے لیے نہیں۔ مَیں جنگل کے معصوم جانوروں کو خواہ مخواہ ہلاک کرنا شکار کی اسپرٹ کے خلاف سمجھتا ہوں۔ بعض شکاریوں کا وطیرہ ہے کہ وہ درندے کو دیکھتے ہی فائر جھونک دیتے ہیں۔ البتہ آدم خور چیتوں، شیروں اور ہر اُس جانور کا دشمن ہوں جو انسان کو ہڑپ کرنے یا مار ڈالنے پر اتر آتا ہے۔ میں جنگل کی زندگی کا عاشق ہوں اور کوشش کرتا ہوں کہ جانوروں سے بَیر باندھنے کے بجائے انہیں اپنا دوست بناؤں۔ اس مختصر تمہید کے بارے میں اصل موضوع کی طرف آتا ہوں۔
ایک روز ہمارے چیتے کا پالتو بچہ اچانک مَر گیا۔ میری بیوی نے اُسے بڑے شوق سے پالا تھا۔ بچّے کی موت سے میری بیوی کو سخت صدمہ پہنچا، لیکن مَیں نے کہا، فکر نہ کرو۔ ایک دو روز تک جنگل سے دوسرا بچّہ پکڑ لاؤں گا۔ چنانچہ آندھرا پردیش کے گنجان اور سینکڑوں میل میں پھیلے ہوئے جنگلوں میں میرے آنے کی صرف یہی وجہ تھی۔ اس موسم میں مادہ اکثر بچّے دیتی ہے، اس لیے میرا خیال تھا کہ معمولی سی تلاش کے بعد کوئی بچّہ پکڑنے میں کامیاب ہو جاؤں گا اور بندوق چلائے بغیر یہاں سے چل دوں گا، لیکن کئی دن گزر گئے، بیس بیس میل جنگل میں پھرنے کے باوجود گوہرِ مقصود ہاتھ نہ آیا۔ ایک روز مجھے معلوم ہوا کہ رنگام پت کا ایک شخص تھانڈا جو گزشتہ دو ہفتوں سے غائب تھا، اس کی ہڈیاں مِل گئی ہیں۔۔۔ یہ شخص ارد گرد کے دیہات میں جنگلی بوٹیاں بیچتا اور جادو ٹونا بھی کرتا تھا۔ اس کے غائب ہونے سے بھُوت پریت کے قائل دیہاتیوں نے قیاس کیا کہ تھانڈا کو کسی بھُوت نے مار ڈالا ہے۔ تھانڈا کا تھیلا اور سامان فارسٹ گارڈوں نے ایک پہاڑی چشمے کے عقب میں پڑا پایا تھا۔ تھوڑی سی تلاش کے بعد اس کی ہڈّیاں اور گلا سڑا گوشت بھی مَل گیا۔ فارسٹ گارڈوں نے فوراً رنگام پت کی پولیس چوکی کو اطلاع بھیجی اور پولیس کی رسمی تفتیش کے بعد یہ معاملہ ختم ہو گیا۔
مَیں اسی وقت سمجھ گیا کہ ان آبادیوں پر بلا نازل ہوا ہی چاہتی ہے، کوئی آدم خور درندہ اِدھر آ نکلا ہے اور جب تک وہ پچاس ساٹھ انسانوں کے گوشت اور خون سے اپنا پیٹ نہ بھر لے گا، کہیں اور نہ جائے گا۔ بہرحال مَیں نے چیتے کے بچّوں کی تلاش کا کام تو ملتوی کیا اور کوئی نئی خبر سننے کا بے چینی سے انتظار کرنے لگا۔ آدم خور کی خبر سُن کر میری حالت بالکل اُس پہلوان کی سی ہو جاتی ہے جو کُشتی لڑنے کے لیے اکھاڑے میں اُترنے کی تیاریاں کر رہا ہو۔
مجھے انتظار کی کوفت زیادہ دیر برداشت نہ کرنا پڑی۔۔۔ اگلے ہی روز سہ پہر کے وقت پولی بونو کے مقام پر ایک عجیب حادثہ پیش آیا۔ پولی بونو گاؤں، رنگام پت سے کوئی سات میل دُور تھا۔ جنگل میں سات بیل گاڑیاں گزر رہی تھیں، جب وہ نرشیا کے قریب پہنچیں، جہاں سڑک سے کوئی دو فرلانگ ہٹ کر ایک قدرتی تالاب تھا، تو گاڑی بانوں نے تالاب میں نہانے کا پروگرام بنایا۔ انہوں نے اپنی اپنی بیل گاڑیاں ایک جگہ روکیں اور آپس میں ہنسی مذاق کرتے ہوئے تالاب کی طرف چلے۔ تھوڑی دیر بعد نہانے کے بعد وہ تالاب سے باہر نکلے اور بڑ کے درخت کے نیچے بیٹھ کر بیڑیاں پینے لگے۔ بیڑیاں ختم کر کے وہ اُٹھے اور بیل گاڑیوں کی طرف جانے لگے، وہ ایک دوسرے کے پیچھے چَل رہے تھے، لیکن جب وہ گاڑیوں پر بیٹھے، تو دفعتاً انہیں احساس ہوا کہ ان کا ایک ساتھی غائب اور تعداد میں سات کے بجائے وہ چھ رہ گئے ہیں۔ انہوں نے سوچا شاید پُتّو رفع حاجت کے لیے کہیں رُک گیا ہے، وہ دیر تک انتظار کرتے رہے۔ لیکن وہ نہ پلٹا، تو انہیں سخت تشویش ہوئی۔ سورج آہستہ آہستہ مغرب کی طرف ڈھل رہا تھا، تھوڑی دیر بعد جنگل تاریکی میں ڈوب جائے گا، وہ دوبارہ گاڑیوں سے اُترے اور اِدھر اُدھر پھیل کر اپنے ساتھی کو آوازیں دینے لگے۔
’پُتّو۔۔۔ پُتّو۔۔۔ ارے کہاں چلے گئے؟ پُتّو۔۔۔ پُتّو۔۔۔‘
اس چیخ پکار کا کوئی جواب نہ مِلا۔ پُتّو نہ جانے کہاں غائب ہو گیا تھا۔ تالاب پر دوبارہ جانے کی ہمّت کسی میں نہ تھی۔ وہ طرح طرح کی قیاس آرائیاں کر رہے تھے۔ پُتّو کو کسی بَد روح نے پکڑ لیا ہو گا، ناگ دیوتا نے ڈس لیا ہے اور یہ بھی تو ممکن ہے کہ اسے کسی شیر یا چیتے یا ریچھ ہی نے مار ڈالا ہو۔ تالاب پر جانے کے لیے کوئی آمادہ نہ تھا۔ مایوس ہو کر انہوں نے پُتّو کی بیل گاڑی وہیں چھوڑی اور اپنی اپنی گاڑیاں تیز دوڑاتے ہوئے گاؤں کی طرف روانہ ہو گئے۔ پُتّو کے بیل اپنے مالک کی راہ تکتے رہے۔ آدھی رات کو جب اوس پڑنے لگی، تو بیل سردی سے کانپنے لگے اور اپنے مالک کا خیال چھوڑ کر وہ بھی گاؤں کی طرف چل پڑے۔ اور صبح چار بجے وہ پُتّو کے گھر تک پہنچ گئے۔
اس روز گاؤں والے دن بھر جنگل میں پھر کر پُتّو کی تلاش کرتے رہے۔ مگر بے سود۔ کسی شیر یا چیتے نے اسے کھایا ہوتا، تو اس کی ہڈّیاں یا بچا کھچا گوشت ملتا یا اس کو کوئی کپڑا ہی نظر آتا، لیکن سمجھ میں نہ آتا تھا کہ بد نصیب گاڑی بان کو آسمان کھا گیا ہے یا زمین نکل گئی ہے۔
پُتّو کی پراسرار گم شدگی پر قیاس آرائیاں جاری تھیں کہ دو دن بعد پھر ایسا ہی حادثہ پیش آیا۔ اس مرتبہ گاؤں کا ایک بنیا غائب ہوا، وہ رنگام پت سے تیرہ میل دُور ایک دوسرے گاؤں میں اناج اور ضرورت کا دوسرا سامان لے کر جا رہا تھا۔ اس نے سامان گدھوں لاد رکھا تھا۔ پولی بونو کے مقام پر اس نے کھانا کھایا اور آگے چل پڑا۔ ساتویں میل پر جنگل میں بانس کاٹنے والے ایک لکڑہارے نے اسے کنوئیں میں سے پانی نکال کر پلایا، اس کے بعد وہ بنیے کو دوبارہ کسی نے نہ دیکھا۔ اس کے گدھے جنگل میں بھٹکتے ہوئے پائے گئے۔ سامان بدستور ان کی پشت پر لدا ہوا تھا۔
چوتھے روز پولی بونو کا وہ لکڑ ہارا بھی غائب ہو گیا جس نے بنیے کو پانی پلایا تھا۔ وہ دن بھر مزدوروں کے ساتھ جنگل میں کام کرتا رہا اور سورج ڈوبنے سے تھوڑی دیر پہلے جب سب گاؤں کی طرف چلے، تو لکڑہارا مزدوروں میں شامل نہ تھا۔۔۔ تلاشِ بسیار کے باوجود اس کا کوئی سراغ نہ مِلا۔ البتّہ ایک درخت کے قریب اس کی کلہاڑی اور سفید پگڑی پڑی مل گئی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ لکڑہارے نے سر سے پگڑی اُتار کر رکھّی اور اس کے بعد ہی وہ غائب ہو گیا۔
اس قسم کے پُر اسرار واقعات پے درپے رونما ہوئے۔ تو بھاکر پت، چمالا اور مامندر کی آبادیوں میں سنسنی پھیل گئی اور لوگ اعلانیہ کہنے لگے کہ یہ کسی درندے کا کام نہیں، بلکہ کوئی بھُوت ہے جو انسانوں کی اٹھا کر لے جاتا ہے۔ درندہ اگر ایسی حرکت کرتا، تو اس کے پنجوں کے نشان، خون کے دھبّے یا کھائی ہوئی لاش کے کچھ حِصّے تو مِلتے۔ مگر ان میں سے کوئی نشان نہ پایا گیا۔ لوگوں نے گاؤں سے باہر نکلنا چھوڑ دیا۔ اکیلا دُکیلا آدمی تو جنگل کا رُخ کرنے کی جرأت ہی نہ کرتا تھا۔ اگر کہیں جانا ضروری ہوتا، تو لوگ چار چار پانچ پانچ کی ٹولیوں میں جاتے اور ایک دوسرے کو تنہا ہرگز نہ چھوڑتے تھے۔ یہ صورتِ حال محکمہ جنگلات کے لیے بڑی نازک تھی۔ افسروں نے پولیس کو خبردار کیا، پولیس کے کچھ آدمی آئے، انہوں نے بھی جنگل کا کونا کونا چھان مارا، مگر معمولی سا سراغ بھی نہ مِل سکا۔۔۔ بھلا بھُوت پریت سے پولیس کا کیا واسطہ؟ بستیوں کے وہ لوگ جن کا گزارہ ہی جادو ٹونے پر تھا، بے چارے دیہاتیوں کو مسلسل ڈرا رہے تھے کہ اگر اتنا روپیہ دان نہ کیا گیا، اتنی بکریوں کا بلیدان نہ کیا گیا تو اتنی شراب نہ پیش کی گئی، تو یہ نادیدہ بلا ایک ایک کر کے سب کو ہڑپ کر جائے گی۔۔۔ ایک جادُوگر نے تو یہاں تک کہا کہ گاؤں والے کسی بچّے کی قربانی دے دیں تو یہ بلا ٹل جائے گی۔ جب مجھے معلوم ہوا کہ اس سے پہلے بھی یہ لوگ اس قسم کی قربانیاں دیتے رہے ہیں، تو میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ جس جادُوگر نے یہ رائے دی تھی اس کا نام کرشناپا تھا۔ مَیں نے پولیس کے دفعدار سے کہا کہ اس منحوس جادُوگر کو حوالات میں بند کیا جائے اور اگر گاؤں کا کوئی بچّہ گم ہو، تو کرشنا پھانسی پر لٹکا دیا جائے، لیکن پولیس نے میرے مشورے پر عمل نہ کیا۔ آخر جس بات کا مجھے کھٹکا تھا، وہ ہو کر رہی، چند روز بعد چندراگری کے مقام پر نو سال کا ایک اچھُوت لڑکا گُم ہو گیا۔
چندراگری ایک خوبصورت اور چھوٹی سی بستی رنگام پت سے چھ میل دُور واقع ہے۔ یہاں پیر کے روز بازار لگتا تھا اور ارد گرد کے گاؤں اور آبادیوں سے لوگ خرید و فروخت کے لیے آتے تھے۔ نو سالہ ادیراج بھی اپنی ماں کے ساتھ وہاں آیا اور پھر اس کا پتا نہ چلا۔ بچّے کی گمشدگی پر ماں دیوانی ہو گئی اور اسے کئی روز تک تلاش کرتی پھری۔ آخر یہ معاملہ پولیس کے علم میں لایا گیا۔ پولیس کے سب انسپکٹر نے سب سے پہلے کرشناپا جادُوگر کے مکان کی تلاشی لی۔ اسے شبہ تھا کہ بچّے کو اغوا کر کے بلیدان کر دیا گیا ہے اور شاید اس کے خون آلود کپڑے، ہاتھ، پاؤں اور انتڑیاں وغیرہ مل جائیں، کیونکہ جادو ٹونے کے معاملات میں انسانی اعضا جادوگروں کے بہت کام آتے تھے، لیکن پوری چھان بین کرنے کے باوجود لڑکے کا کوئی پتا نشان نہ ملا۔ پولیس انسپکٹر کو کرشناپا پر بہرحال شک تھا، اس کا دل گواہی دیتا تھا کہ واردات میں اس بدمعاش کا ضرور ہاتھ ہے۔ چنانچہ وہ اسے ہتھکڑی لگا کر چوکی پر لے گیا اور ایک ہفتے تک اس سے اِقبالِ جرم کرانے کی کوشش کرتا رہا، مگر جادوگر نے کچھ نہ اُگلا۔ مایوس ہو کر کرشناپا کو چھوڑ دیا، لیکن اس تاکید کے ساتھ کہ وہ پولیس کی اجازت کے بغیر اپنے گھر سے باہر نہیں جائے گا۔ کرشناپا نے چوکی سے نکلتے ہوئے پولیس انسپکٹر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا:
’لومڑی خواہ کتنی چالاک ہو، مگر گیدڑ کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔‘
یہ کہہ کر وہ چلا گیا اور انسپکٹر کئی دن تک سوچتا رہا کہ ان الفاظ کا آخر مطلب کیا ہے۔ اگلے روز رنگام پت اور پولی بونو کے درمیانی علاقہ کی رہنے والی ایک عورت غائب ہو گئی۔ اس کا خاوند صبح سویرے مویشیوں کو چرانے جنگل میں گیا۔ بہت سے لوگ اپنے اپنے مویشیوں کو لے کر جاتے تھے۔ دوپہر کو اس عورت نے خاوند کے لیے روٹی تیار کی اور ایک برساتی نالے کے کنارے کنارے چلتی ہوئی پیپل کے ایک درخت تک جا پہنچی۔ نالا اس مقام پر تیس فٹ گہرا تھا۔ اس کے بعد عورت کا پتہ نہ چلا۔ بھُوک کے باعث بیتاب ہو کر خاوند اپنی عورت کو دل میں بُرا بھلا کہتا گھر پہنچا، تو اس کی چھوٹی لڑکی نے بتایا کہ ماں تو بہت دیر ہوئی روٹی لے جا چکی ہے۔
خاوند نے یہ سُنا، تو فوراً پُر اسرار بھُوت کی کہانیاں اس کے ذہن میں گونجنے لگیں۔ اس نے چند اور آدمیوں کو ساتھ لیا اور بیوی کی تلاش میں نالے تک جا پہنچا۔ پیپل کے بڑے درخت سے آدھ میل دُور مٹّی کے برتن ٹوٹے پائے گئے جن میں وہ روٹی لے کر گئی تھی، لیکن خود اس کا کوئی سراغ نہ ملا۔
مَیں ان دنوں اپنے ایک ہندو دوست ویوا کے ساتھ ناگا پٹلا کے فارسٹ بنگلے میں ٹھہرا ہوا تھا۔ ناگا پٹلا، پولی بونو جانے والے راستے پر رنگا پت سے ایک میل دُور واقع ہے اور قریب ہی دریائے کلیانی بہتا ہے۔ ان تمام واقعات کی اطلاع مجھے بنگلے کے چوکیدار سے ملتی رہتی تھی۔ میں سوچتا تھا کہ یہ معاملہ کیا ہے، لیکن عقل کام نہ کرتی تھی۔ اس دوران میں چوکیدار نے مجھے بے شمار کہانیاں سنا ڈالیں جن میں حقیقت کم اور جھوٹ زیادہ تھا۔ ایک رات چوکیدار ہمارے پاس بیٹھا حسب معمول گاؤں والوں کے قصّے بیان کرتا رہا تھا کہ دریا کی طرف سے چیتے کے گرجنے کی آواز سنائی دی۔
’صاحب، یہ چیتا بول رہا ہے۔‘ چوکیدار نے سہم کر کہا۔
’ہاں ہمیں معلوم ہے۔ خاموش رہو۔‘ ریوا نے اسے ڈانٹ دیا:
’جاؤ، اپنی کوٹھڑی میں۔۔۔‘
چوکیدار کے جانے کے بعد میں نے دیوا سے کہا: ‘چیتے کی آواز سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اس وقت سخت بھوکا ہے اور کسی شکار کی تلاش میں گھوم رہا ہے۔‘
دیوا کے چہرے پر دہشت کی علامات نمودار ہوئیں۔ اس نے بنگلے کی چار دیواری کا جائزہ لیا اور بولا: چیتا ان دیواروں کو آسانی سے پھلانگ کر اندر آ سکتا ہے، ہمیں آج اندر کمرے میں سونا چاہیے۔‘
ہمارے بستر اندرونی کمرے میں بچھا دیے گئے۔ چیتا معمولی معمولی وقفوں کے بعد آدھی رات تک بولتا رہا۔ کمرے کے اندر حبس بہت تھا اور چوہے مسلسل پریشان کر رہے تھے۔ کچھ فاصلے پر ایک موٹا سا چوہا چند لمحے تک چُوں چُوں کرنے کے بعد یکایک خاموش ہو گیا۔ چوہے کی آواز میں ایسا کرب تھا کہ دیوا کہنے لگا:
’یہ چوہا اس طرح کیوں چیخ رہا تھا؟’
شاید کسی سانپ نے اُسے منہ میں دبوچ لیا ہے۔‘ میں نے جواب میں کہا۔
دیوا سانپ سے بے حد ڈرتا تھا، وہ فوراً بستر سے اُٹھا:
مَیں تو برآمدے میں جاتا ہوں۔ اَب مجھ سے یہاں سویا نہیں جائے گا۔‘
ہم نے اپنے اپنے بستر اٹھائے اور برآمدے میں جا کر لیٹ گئے اور تھوڑی دیر بعد آنکھ لگ گئی۔ پَو پھٹنے سے کچھ دیر پہلے دفعتاً میری آنکھ کھلی۔ میری چھٹی حِس کسی انجانے خطرے کا اعلان کر رہی تھی۔ مَیں نے جلدی سے سرہانے رکھی ہوئی ٹارچ روشن کی اور رائفل اٹھا لی۔ دیوا بے خبر سو رہا تھا۔ معاً ایسی آواز آئی جیسے کوئی شخص دیوار کھُرچ رہا ہے۔ مَیں نے روشنی اِدھر اُدھر پھینکی تو آواز یک لخت بند ہو گئی۔ میں دبے پاؤں اُٹھا اور رائفل سنبھال کر برآمدے سے باہر آیا۔ ٹارچ بُجھا دی اور ایک ستون کے پیچھے چھُپ کر کھڑا ہو گیا۔ دُور کہیں جنگلی مور چیخ رہا تھا۔
می۔۔۔ آ۔۔۔ او۔۔۔ می آ۔۔۔ او۔۔۔ او۔۔۔ پھر کسی ہرن نے جواب دیا، ای او۔۔۔ ای او۔۔۔
چند منٹ بعد پھر دیوار کھُرچنے کی آواز کان میں آئی۔۔۔ یہ اتنی واضح اور صاف تھی کہ کوئی شبہ نہ رہا۔ کوئی جانور اپنے پنجے دیوار پر تیز کر رہا تھا۔ مَیں پنجوں کے بل چلتا ہوا آواز کی بڑھا۔ ابھی چند قدم ہی چلا ہوں گا کہ پیچھے سے دیوا کے کھانسنے کی آواز آئی اور پھر فوراً ہی چیتے کی غرّاہٹ فضا میں بلند ہوئی اور وہ دوڑتا ہوا جنگل میں غائب ہو گیا۔
صبح ہم نے اس کے پنجوں کے گہرے نشان دیوار کے آس پاس دیکھے۔ چوکیدار کی حالت بڑی خراب تھی، کیونکہ وہ بیرونی کوٹھڑی میں رہتا تھا اور رات کو اکثر دروازہ کھُلا چھوڑ کر ہی سو جاتا تھا۔ چیتا اگر چاہتا، تو اس رات بڑی آسانی سے چوکیدار کا گلا دبا سکتا تھا، لیکن میرے بروقت بیدار ہو جانے اور اٹھنے کے باعث وہ ایسا نہ کر سکا۔ ناشتے کے بعد مَیں نے دیوا کو ساتھ لیا اور جنگل میں ٹہلنے نکل گیا۔ تھوڑی دیر بعد ہم پیپل کے اس درخت کے نیچے کھڑے تھے جہاں چند روز پہلے وہ عورت غائب ہوئی تھی جو اپنے شوہر کو روٹی دینے جا رہی تھی۔ چیتے کے پنجوں کے نشان دریائے کلیانی کے بائیں کنارے پر دُور تک پھیلے ہوئے تھے۔
ان نشانوں سے ظاہر ہوتا تھا کہ چیتا غیر معمولی طور پر قوی ہیکل اور بڑی جسامت کا ہے۔ مزید ایک میل دُور مختلف جانوروں کے نشان بھی گیلی ریت پر دکھائی دیے۔ ان میں مادہ ریچھ، اس کے دو بچّوں، پھول دار ہرن، سانبھر اور جنگلی سور کے پیروں کے نشان نمایاں تھے، لیکن مجھے جن نشانوں کی تلاش تھی، وہ کہیں نہ تھے۔ میں شیر کی تلاش میں تھا اور یہ کتنی حیرت کی بات تھی کہ جنگل کے تمام جانور پانی پینے دریا پر آتے تھے، مگر شیر اِدھر کا رخ نہ کرتا تھا۔ ہم یہاں سے رنگام پت کی طرف گئے۔ چوپال میں بہت سے لوگ بیٹھے اس پُر اسرار کے بلا کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے۔ ہمیں دیکھ کر وہ چُپ ہو گئے۔ جب دیوا نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ میں جنگل کے اس بھُوت کو فنا کرنے آیا ہوں، تو انہوں نے حیرت اور خوف کی مِلی جُلی نظروں سے مجھے دیکھا۔
’آپ اسے کبھی نہیں مار سکتے۔‘ ایک شخص نے دبی زبان سے کہا۔
’کیوں؟ کیا وہ بہت طاقت ور اور چالاک ہے؟’ دیوا نے پوچھا۔
گاؤں کے مُنصف نے کھنکھار کر جواب دیا: اُس سے لڑنا آدمی کے بس کی بات نہیں۔ ان بندوقوں اور رائفلوں کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا، اس کے پیروں کے نشان بھی نہیں ہوتے، وہ پانچ آدمیوں کو اٹھا کر لے جا چکا ہے اور کوئی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکا۔ معمولی کیڑے سے لے کر بڑے اژدہے تک اور چوہے سے لے کر شیر تک، ہر جانور کی صورت اختیار کر سکتا ہے، وہ پانی میں بھی غائب ہو جاتا ہے اور ہوا پر بھی قابو رکھتا ہے۔ اگر ہم اس جنگل کو چھوڑ کر کہیں اور نہ جائیں گے، تو وہ ہم سب کو ایک ایک کر کے کھا جائے گا۔ صدیوں سے ایسا ہی ہوتا چلا آیا ہے۔‘
مُنصف کی تقریر سُن کر گاؤں والوں کے چہرے اور زرد ہو گئے اور بڈھے مُنصف کی تائید میں سر ہلانے لگے۔ مجھے ان جاہل لوگوں پر غصّے کی بجائے ترس آنے لگا۔ مَیں نے مُنصف سے کہا:
’تعجب ہے کہ آپ اتنے سمجھدار اور عمر رسیدہ ہونے کے باوجود ان بے ہودہ باتوں پر یقین رکھتے ہیں۔۔ ایسا کوئی بھُوت پریت دنیا میں موجود نہیں جو انسانوں کے گوشت اور خون پر گزارا کرتا ہو۔ مجھے شک ہے کہ یہ کسی آدم خور شیر یا مکّار چیتے کی حرکت ہے۔‘
’آدم خور؟’ بڈھے منصف کے بے جان لبوں پر پھیکی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ ‘صاحب، میں نے بہت سے آدم خور درندے دیکھے ہیں اور مجھے خوب معلوم ہے کہ وہ لوگوں کو کس طرح شکار کرتے ہیں۔ جب میں آپ کی طرح جوان تھا، تو امبل میرو کی کھائی کے پیچھے ایک آدم خور نے مجھ پر حملہ کر دیا۔ میرے ہاتھ میں کلہاڑی تھی۔ میں نے اس سے شیر کی کھوپڑی زخمی کر دی، وہ بھاگ گیا اور دوبارہ نظر نہ آیا۔ یقیناً وہ مر گیا ہو گا، لیکن یہ معاملہ آدم خور کا نہیں۔ میں جانتا ہوں کہ آپ بہت بڑے شکاری ہیں اور ان جنگلوں میں کئی مرتبہ شیروں اور چیتوں کو مار چکے ہیں۔ آپ نے کوئی ایسا شیر یا چیتا بھی دیکھا ہے جو اپنے پنجوں کے نشان مٹی پر نہ چھوڑتا ہو؟ لاش کو گھسیٹ کر نہ لے جاتا ہو اور خون کے دھبّے کہیں دکھائی نہ دیتے ہوں؟ اگر یہ آدم خور شیر یا چیتا ہے، تو ہمیں اس کا سراغ اَب تک کیوں نہیں ملا؟ جنگل کے اندر، نالے کے کنارے یا دریا کی گیلی ریت پر اس کے پنجوں کے نشان کیوں نہیں پائے گئے؟ چیتا ہمیشہ لاش کو گھسیٹ کر دُور لے جاتا ہے، ہمیں ایسا بھی کوئی نشان نہیں دکھائی دیا، پھر یہ بھی سوچیے کہ آدم خور درندہ ہمیشہ رات کی تاریکی یا شام کے جھٹپٹے میں آدمیوں پر حملہ کرتا ہے، لیکن اس مرتبہ دن کی روشنی میں عین دوپہر کے وقت پانچ افراد غائب ہوئے۔ دن دہاڑے ایسی حرکت آدم خور درندے کی فطرت سے بعید ہے۔ آپ کے پاس ان سوالوں کا کوئی جواب نہ ہو گا، لیکن میں ان کا جواب دے سکتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ ہمارا واسطہ ایسے بھُوت سے ہے جو ہر بھیس میں آ سکتا ہے۔ مَیں آپ کو یہی مشورہ دے سکتا ہوں کہ اسے مارنے کا خیال چھوڑ کر اپنے گھر چلے جائیں، ورنہ وہ آپ کو بھی ختم کر دے گا۔‘
حقیقت یہ ہے کہ میرے پاس ان باتوں کا کوئی جواب نہ تھا۔ ہم دونوں خاموشی سے ناگا پٹلا کی طرف لوٹ آئے، لیکن بڈھے منصف کے الفاظ مسلسل میرے کانوں میں گونج رہے تھے۔ ایسی عجیب و غریب اور ناقابلِ یقین صورت حال سے کبھی واسطہ نہ پڑا تھا۔ مَیں جتنا سوچتا، اتنی ہی اُلجھنیں سامنے آتی تھیں۔۔۔ بھُوت پریت کے وجود کو عقل تسلیم کرنے پر تیار نہ تھی اور آدم خور اگر ایسی حرکتیں کرتا، تو اپنا نشان ضرور چھوڑ جاتا۔ کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ یہ ہے کیا بلا؟ تمام واقعات کا اچھّی طرح جائرہ لینے کے بعد جو حقائق میرے سامنے آئے وہ یہ تھے:
1۔ پانچوں افراد پُر اسرار طور پر موت کا شکار ہوئے۔
2۔ ہر شخص دوپہر یا سہ پہر کے وقت غائب ہُوا۔
3۔ اِن حادثوں کو کسی نے بچشمِ خود نہ دیکھا۔
4۔ غائب ہونے والا ہر فرد تنِ تنہا تھا۔
5۔ البتہ بنیے کے ساتھ اس کے گدھے بھی تھے جو بول نہیں سکتے، لیکن انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا، وہ اطمینان سے جنگل میں گھاس چرتے رہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ وہ خوف زدہ نہ تھے، ورنہ ضرور اِدھر اُدھر منتشر ہو جاتے۔
6۔ شیر یا چیتے کے علاوہ یہ کسی جنگلی بھینسے یا ہاتھی کی حرکت نہیں ہو سکتی، کیونکہ اس علاقے میں یہ دونوں حیوان نہیں پائے جاتے، ہاں ریچھ کا امکان ہے، لیکن ریچھ انتہائی بے وقوف اور بے ڈھب جانور ہے، وہ انسان کو اس ہوشیاری سے ہلاک کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا اور ضرور اپنے پیچھے کوئی نشان چھوڑ جاتا۔ ایک لمحے کے لیے فرض کر لیجیے کہ ریچھ ہی ذمّے دار ہے، تب بھی وہ لاشوں کو گھسیٹ کر غائب نہیں کر سکتا تھا۔ وہ آدمیوں کو ہلاک کرنے کے بعد موقع پر ہی چھوڑ جاتا ہے۔
اس مسئلے پر دیوا کے ساتھ مَیں دیر تک بحث کرتا رہا، لیکن کسی رُخ سے بھی اس معاملے کی تہہ تک پہنچنا مشکل بلکہ نا ممکن نظر آتا تھا، تاہم مَیں نے فیصلہ کر لیا کہ خواہ کچھ ہو، میں یہ راز بے نقاب کر کے رہوں گا۔
اسی روز دوپہر کو ہم دونوں کیل کانٹے سے لیس ہو کر جنگل میں نکلے۔ اَن دیکھی بلا کے تصوّر سے میرا دل دھڑک رہا تھا اور دیوا کی کیفیّت بھی یہی تھی کہ پتّا کھڑکتا، تو وہ سہم کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگتا۔ پہلے مشرق کی طرف چار میل دُور نرشیما کے چشمے تک گئے کہ شاید کسی کا شیر کا نشان مِل جائے، مگر وہاں چیتے کے پنجوں کے تازہ نشان دکھائی دیے۔ وہاں سے ہم دریائے کلیانی کی طرف آئے اور یہاں پھر ہم نے چیتے کے نشان دیکھے، لیکن یہ نشان اُن نشانوں سے بالکل مختلف تھے جو اس سے پہلے ہم دیکھ چکے تھے۔ اَب یہ حقیقت کھل کر سامنے آ گئی کہ اس علاقے کے گرد و نواح میں شیر نہیں، دو بڑے بڑے چیتے موجود ہیں اور شاید اس بھی زیادہ ہوں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ان میں سے ایک چیتا آدم خور ہو؟ مگر پھر وہی سوال سامنے آتا تھا کہ اگر یہ حرکت چیتے کی ہے، تو وہ اپنے شکار کو موقعے پر ہی کھانا شروع کر دیتا ہے، مگر ان وارداتوں میں سے کوئی بھی ایسی نہ تھی جس سے پتا چلتا کہ چیتا ذمّے دار ہے۔
اگلے روز علی الصباح ہم سات میل پیدل چل کر پولی بونو پہنچے اور گھنٹوں لکڑہاروں سے سر کھپانے کے باوجود اصل بات کا علم نہ ہو سکا۔ ہر شخص بھُوت کو ذمّے دار ٹھہراتا تھا۔ ہم نے پولی بونو کا چپّہ چپّہ دیکھا اور آخر شمال مشرق کی طرف ایسے مقام پر پہنچے جہاں ایک کھائی کے نزدیک دو قدرتی تالاب بنے ہوئے تھے۔ کھائی والے تالاب کو مقامی لوگ امبل میرو کہتے تھے اور یہی وہ مقام تھا جہاں سب سے پہلے تھانڈا غائب ہوا تھا۔ یہاں سے رنگام پت کی طرف دو جُڑی ہوئی پگڈنڈیاں جاتی تھیں جن کی شکل انگریزی حرف وائی (Y) سے ملتی تھی۔ ہم اس میں سے ایک پگڈنڈی پر چل پڑے۔۔ اور ایک میل دُور چلنے کے بعد پہلی بار ہمیں شیر کے پنجوں کے نشان دکھائی دیے۔
یہ نشان اگرچہ کئی دن کے تھے، لیکن بہرحال ثابت کرتے تھے کہ شیر آس پاس موجود ہے۔ اسی راستے پر ہم نے چیتے اور چرخ کے پنجوں کے نشان بھی دیکھے۔ دیوا نے خیال ظاہر کیا۔ ممکن ہے کسی چرخ نے ان افراد کو ہلاک کر کے غائب کر دیا ہو، مگر مَیں نے اسے رد کر دیا۔ چرخ نہایت ڈرپوک جانور ہے۔ انسان کو ہلاک کرنا تو کُجا، اسے دیکھتے ہی بھاگ نکلتا ہے اور ہمیشہ شیر یا چیتے کا بچا کھچا شکار کھاتا ہے۔ بڑی ہمّت کی تو کسی گاؤں گوٹ میں داخل ہو کر شیر خوار بچّوں کو اُٹھا کر لے گیا یا مُردار پر مُنہ مارا، اس کی پہنچ بس یہیں تک ہے۔
سورج غروب ہونے کے بعد جب ہم بنگلے پر واپس پہنچے، تو تھکن اور بھُوک کے باعث بُرا حال تھا۔ جنگل میں اٹھارہ میل گھُومنا آسان کام نہیں ہے۔ کھانا کھاتے ہی ایسے سوئے کہ دوپہر کو آنکھ کھُلی۔ ابھی ہم چائے پی رہے تھے کہ ایک شخص بنگلے پر آیا اور کہنے لگا کہ وہ پولی بونو سے آیا ہے۔ وہاں امبل میرو کے ایک پہاڑی ٹیلے پر بہت بڑا شیر دیکھا گیا ہے۔ شیر کو دیکھتے ہی اس جنگل میں کام کرنے والے سب مزدور ایک جگہ جمع ہو گئے اور انہوں نے ٹھیکیدار سے صاف صاف کہہ دیا کہ وہ اس وقت تک کام پر نہ جائیں گے جب تک شیر کا قصّہ پاک نہیں ہو جاتا۔ ٹھیکیدار نے در اصل ہمیں بُلانے کا پیغام بھیجا تھا۔ ہم جلدی جلدی تیار ہو کر اس شخص کے ساتھ پولی بونو روانہ ہو گئے۔ ٹھیکیدار سے ملاقات ہوئی۔ وہ سخت بد حواس تھا۔ کام رُک جانے سے اس کا ہزاروں روپے کا نقصان ہو رہا تھا۔ مزدوروں کے تیور بتا رہے تھے کہ وہ کسی صورت کام پر نہیں جائیں گے کیونکہ اَب انہیں یقین ہو چکا تھا کہ جنگل کا پُر اسرار بھُوت اس شیر کے سوا اور کوئی نہیں ہے۔ مَیں نے ٹھیکیدار کو دلاسا دیا، مزدوروں سے بات کی اور ان سے وعدہ کیا کہ شیر کو مارنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔ سمجھانے بُجھانے سے مزدور راضی ہوئے اور انہوں نے کام شروع کر دیا۔ وہ رات ہم نے وہیں گزاری۔ اگلے روز دوپہر کے وقت مزدوروں کے انچارج نے سیٹی بجا کر روٹی کھانے کے وقفے کا اعلان کیا۔ انہیں روزانہ ایک گھنٹہ اس مقصد کے لیے دیا جاتا تھا۔ اس عرصے میں مزدور چاول اور کڑھی کھا کر امبل میرو تالاب میں منہ ہاتھ دھوتے، کچھ دیر سستاتے، پان کھاتے، بیڑیاں سُلگا لیتے، بعض مزدور سو بھی جاتے تھے۔ ایک گھنٹہ گزر جانے کے بعد انچارج نے پھر سیٹی بجائی۔ مزدوروں اپنی اپنی کلہاڑیاں سنبھال لیں اور بانس کے درخت کاٹنے لگے، لیکن وہ مزدور، جس نے ایک روز پہلے شیر کو دیکھا تھا، نہایت خوفزدہ اور بد حواس تھا، وہ بار بار اِدھر اُدھر دیکھتا اور پھر درخت پر کلہاڑی سے اُلٹے سیدھے ہاتھ مارنے لگتا۔
اس سے صرف پانچ فٹ کے فاصلے پر کچّے بانسوں کا ایک گھنا جھُنڈ تھا۔ دفعتاً اس جھُنڈ میں ہلکی سی جنبش ہوئی۔ مزدور نے فوراً اُدھر دیکھا اور پھر کلہاڑی اس کے ہاتھ سے چھُوٹ گئی۔ کچّے بانسوں کے اس جھنڈ میں وہی شیر اپنی زرد زرد چمکدار بھُوکی آنکھوں سے مزدور کو گھُور رہا تھا۔ دہشت سے مزدور کی گھگھی بندھ گئی، وہ ایک قدم پیچھے ہٹا اور اس کے ہٹتے ہی شیر سمجھ گیا کہ شکار ہاتھ سے نکلا جاتا ہے، اس نے وہیں سے جست کی اور عین مزدور کے اوپر جا پڑا، لیکن اس شخص کی زندگی کے کچھ دن ابھی باقی تھے۔ اس کے حلق سے ایک لرزہ خیز چیخ نکلی، فوراً ہی دوسرے مزدور چیختے چلّاتے اُدھر لپکے اور شیر گرجتا غرّاتا چشم زدن میں نظروں سے اوجھل ہو گیا۔
مَیں اور دیوا اس وقت پولی بونو کی بائیں پگڈنڈی کے چوتھے میل پر اس شیر کی تلاش میں گھوم رہے تھے کہ مزدوروں کا ایک گروہ لاٹھیوں سے مسلّح دوڑتا ہوا آیا اور اس حادثے کی اطلاع دی۔ ہم فوراً ان کے ساتھ موقعے پر پہنچے اور سب سے پہلے اس مزدور کو دیکھا، وہ ہوش و حواس کھو چکا تھا، اس لیے کوئی بیان نہ دے سکا، البتہ اس کے ساتھیوں نے بتایا کہ دائیں طرف پگڈنڈی کے نویں میل پر یہ حادثہ پیش آیا۔ میں اس شیر کے پنجوں کا نشان دیکھنے کے لیے بے تاب تھا، چنانچہ جب ہم نو میل کا فاصلہ طے کر کے اس جگہ پہنچے تو شام کے ساڑھے چھ بج رہے تھے اور سورج چند منٹ کے اندر اندر غروب ہونے ہی والا تھا، لیکن ہمیں اندھیرے کی کوئی فکر نہ تھی، کیونکہ ہمارے پاس نہایت طاقتور برقی ٹارچیں موجود تھیں۔
لمحہ بہ لمحہ بڑھتی ہوئی تاریکی کے باوجود ہم نے کچّے بانسوں کے جھنڈ میں پنجوں کے نشانات صاف دیکھ لیے، لیکن یہ اندازہ نہ ہو سکا کہ نشان شیر کے ہیں شیرنی کے۔۔۔ بہرحال یہ راز اَب کھُل چکا تھا کہ امبل میرو کا بھُوت کون ہے؟ اور کس نے پانچ افراد کو ہلاک کر کے غائب کیا ہے۔ اَب سوال یہ تھا کہ ہم کیا کریں؟ رائفلیں ہمارے پاس موجود تھیں، لیکن آدم خور کو پھانسنے کے لیے کوئی بکری یا گدھا ہمارے پاس نہ تھا۔ دیوا کی رائے یہ تھی کہ ہم آج کے بجائے کل یہاں آئیں، مگر اس اندھیرے میں بارہ میل پیدل چل کر بنگلے تک پہنچنا میرے لیے ممکن نہ تھا۔ برقی ٹارچیں کہاں تک ساتھ دیتیں اور یہ بھی خدشہ تھا کہ اس خطرناک جنگل میں کم از کم دو چیتے اور ایک آدم خور شیر موجود ہے، ہماری جان کس حد تک ان کے رحم و کرم پر ہو گی۔
جب میں نے دیوا اور ساتھ آنے والے مزدوروں سے کہا کہ میں رات کو یہیں چھُپ کر آدم خور کا انتظار کروں گا، تو خوف سے ان کی آنکھیں پھیل گئیں۔ دیوا نے مجھے سمجھانے کی کوشش کی، مگر مَیں نے اسے ڈانٹ دیا اور کہا: ‘اگر تم ڈرتے ہو تو بے شک چلے جاؤ۔‘ چنانچہ اس نے بھی سرِ تسلیم خم کر دیا۔ ہم نے امبل میرو تالاب کو معائنہ کیا۔ یہاں چاروں طرف کچّے بانسوں کے گھنے جھُنڈ تھے جن میں چھُپنا سخت خطرناک تھا۔ مچان باندھنے کا وقت نہ تھا۔ ابھی میں اس فکر میں گم تھا کہ کیا تدبیر کی جائے، کچھ فاصلے پر برگد کے پرانے درخت پر نظر پڑی۔ اس کی شاخیں زمین تک پہنچ رہی تھیں۔ درخت یقیناً سو ڈیڑھ سو برس پُرانا تھا اور اس نے کافی وسیع جگہ گھیر رکھّی تھی۔ کوئی اور موقع ہوتا تو مَیں اس پُر شکوہ اور قدیم درخت کا نہایت دلچسپی سے معائنہ کرتا، لیکن آدم خور سے دو دو ہاتھ کرنے کے شوق میں درخت کی طرف توجہ دینے کی مہلت نہ ملی۔ مَیں اس کی شاخیں ایک طرف ہٹا کر اُوپر کی طرف ایک موٹی شاخ پر ڈیرا جمانے کا فیصلہ کر لیا۔۔۔ دیوا سے کہا کہ وہ رائفلیں ان ٹہنیوں کے اندر پھنسا دے، اور درخت پر چڑھ کر خاموشی سے بیٹھ جائے، کھانسنے یا سگریٹ پینے کی بھی کوشش نہ کرے۔ مَیں نے ٹارچ کی روشنی میں دیکھا کہ درخت کے عظیم تنے میں بڑے بڑے سوراخ بنے ہوئے ہیں۔ دیوا ان سوراخوں کو دیکھ کر دبی زبان سے بول اُٹھّا:
’ان میں سانپ ہوں گے، کیا یہاں بیٹھنا ضروری ہے؟’
’خواہ ان میں شیر ہوں، تمہیں یہیں بیٹھنا ہو گا۔‘ میں نے جواب دیا اور وہ خون کے گھونٹ پی کر چپ ہو گیا۔ در اصل مَیں آج دیوا کو بھی سزا دینا چاہتا تھا، کیونکہ اس نے اپنی بہادری کی ڈینگیں مار مار کر میرا ناطقہ بند کر رکھّا تھا۔ دیوا کے قریب مَیں نے ایک دلیر مزدور کو ٹارچ دے کر بٹھا دیا اور خود زمین پر تنے کے ساتھ لگ کر اس طرح بیٹھ گیا کہ میرا منہ جنگل کے رُخ تھا، دیوا اور مزدور میری طرف پیٹھ کیے بیٹھے تھے اور ان کی نظروں کے سامنے تالاب تھا۔ بارہ بارہ بور کی شاٹ گنیں ہمارے پاس تھیں اور مزدور تیز دھار کلہاڑی سے مسلّح تھا۔ شیر تالاب کی طرف آتا، تو اسے ہم تک پہنچنے کے لیے لازماً پانی کے اندر سے گزرنا پڑتا تھا اور اگر وہ جنگل کی طرف سے آتا، تو مَیں ٹارچ کی روشنی میں اسے دیکھ سکتا تھا۔ ہمارے ہوش و حواس اور اعصاب کی بیداری و چستی کا کڑا امتحان تھا کہ ہم گھپ اندھیرے میں آدم خور کے پیروں کی آہٹ سن سکتے ہیں یا نہیں، کیونکہ ہمیں بخوبی احساس تھا کہ حریف ہم سے کہیں زیادہ چالاک، قوی اور نڈر ہے۔
پرندے اپنے اپنے گھونسلوں میں پناہ لے چکے تھے۔ جنگل پر ہُو کا عالم طاری تھا۔ آدھ گھنٹہ گزر گیا۔ مغرب کی طرف سے اُلّو کے ہُو ہُو کی آواز سنائی دی۔ اس موقع پر اُلّو کا بولنا مجھے تو بُرا نہ لگا، لیکن دیوا کے دل پر جو کچھ گزری ہو گی، وہ میں خوب سمجھتا تھا۔ ہندو ہونے کے باعث وہ اُلّو کی آواز کو برا شگون سمجھتا تھا۔ تھوڑی دیر بعد تالاب میں چھُپے ہوئے مینڈکوں نے اپنا راگ چھیڑ دیا۔ امبل میرو تالاب اندازاً ساٹھ فٹ لمبا اور تیس فٹ چوڑا ہو گا۔ شمال کی جانب یہ تنگ ہوتا چلا گیا تھا، آخر میں پانچ سو فٹ اونچی پہاڑی اور تین طرف جنگل تھا۔ تھوڑے فاصلے پر گھاس میں چھُپا ہوا کوئی چھوٹا سا جانور مٹّی کریدنے لگا اور پھر یک لخت رُک گیا۔
پانچ منٹ گزر گئے۔ دیوا نے آہستہ سے سیٹی بجائی۔ یہ خبردار رہنے کا مخصوص اشارہ تھا۔ مَیں نے گردن موڑ کر تالاب کی طرف دیکھا اور رائفل کندھے سے لگا کر لبلبی پر انگلی رکھ دی۔ پانی کے اندر چپکے چپکے کوئی جانور حرکت کر رہا تھا۔ میرا دل دھڑکنے لگا، لیکن میں سانس روکے اُدھر دیکھتا رہا۔ تاروں کی مدھم روشنی میں سیاہ رنگ کا بھدّا اور بے ڈول جانور تالاب کو عبور کرتا ہوا ہماری طرف آ رہا تھا اور یہ جانور آدم خور کے سوا اور کون ہو سکتا ہے۔ مَیں نے بائیں ہاتھ سے ٹارچ کا بٹن دبا دیا۔ تیز روشنی کی لمبی سی لکیر شیشے سے نکلی اور آگے بڑھتا ہوا جانور فوراً رُک گیا۔ اس کی گہرے سبز رنگ کی آنکھیں حیرت سے میری طرف تک رہی تھیں اور اس کے چہرے پر حماقت آمیز آثار تھے۔ اس نے بڑا سا سر گھما کر اِدھر اُدھر دیکھا اور پھر یک دم فُوں فُوں کی آوازیں حلق سے نکالنا اور اُچھلتا ہوا ایک جانب بھاگ گیا۔ اس منحوس چرخ کو دیکھنے کے بعد میرا خون کھول ہی رہا تھا کہ دیوا کی دبی دبی ہنسی سنائی دی، پھر وہ بولا:
’شیر نے اپنی آمد سے پہلے چرخ کو ہمارے استقبال کے لیے بھیجا ہے۔‘
’خدا کے لیے دیوا، چپ رہو۔‘ میں نے جھلّا کر کہا۔ ‘تم نے دیکھا نہیں کہ چرخ تالاب پار کیے بغیر بھی اِدھر آ سکتا تھا۔‘
میرے اِن الفاظ پر دیوا کو سانپ سونگھ گیا۔ چند لمحے بعد چرخ کے چیخنے کی آواز پھر سنائی دی۔ اس مرتبہ لکڑہارے نے زیرِ لب چرخ کو گالی دی اور مجھ سے کہنے لگا:
’صاحب آپ نے اس بدمعاش کو بچ کر جانے ہی کیوں دیا، اَب وہ چیخ چیخ کر شیر کو خبردار کر رہا ہے۔ جنگل کے یہ سب جانور ایک دوسرے کے دوست ہیں اور کبھی ہمارا ساتھ نہیں دیتے۔‘
وقت چیونٹی کی رفتار سے گزر رہا تھا۔ مَیں نے گھڑی پر نگاہ کی، رات کے پورے بارہ بجے تھے۔ اَب میری آنکھیں تالاب اور جنگل کا منظر کچھ فاصلے تک بخوبی دیکھ سکتی تھیں۔ یکایک چرخ پھر نمودار ہوا۔ اس مرتبہ وہ چیخے چِلّائے بغیر نہایت مضطرب ہو کر چکّر کاٹ رہا تھا۔ جب وہ ہماری بُو پاتا، تو اپنی پچھلی چھوٹی اور اگلی بڑی ٹانگوں کے سہارے نہایت مضحکہ خیز انداز میں اُچھلتا ہوا تالاب کی طرف جاتا، مگر چند ثانیے بعد وہاں سے پلٹ کر کسی اور طرف نکل جاتا۔ وہ دیر تک اسی طرح دوڑتا بھاگتا رہا اور ہم دم بخود یہ تماشا دیکھتے رہے۔ جب چوتھی مرتبہ چرخ تالاب کے نزدیک گیا تو دوسرے کنارے سے اچانک شیر غرایا۔ شیر کی آواز سُن کر چرخ وہیں پتھّر کے بُت کی مانند بے حس و حرکت ہو گیا۔ البتّہ اس کے لمبے کان آہستہ آہستہ ہِل رہے تھے۔ چند ثانیے اس حالت میں رہنے کے بعد دفعتاً وہ پلٹا اور بڑی تیزی سے جھاڑیوں اور خشک ٹہنیوں میں گھُستا ہوا نہ جانے کہاں غائب ہو گیا۔
شیر دوبارہ ہلکی آواز میں غُرّایا اور پھر اس کی آواز سنائی نہ دی۔ در اصل چرخ نے اسے ہماری موجودگی سے آگاہ کر دیا تھا۔ اَب میں سوچ رہا تھا کیا شیر ‘تفتیش’ کے لیے اِدھر آئے گا؟ شاید وہ اپنے تجسّس کو تسکین دینے کی خاطر تالاب کو عُبور کرنے کی کوشش کرے۔ بہرحال مجھے انتظار کرنا چاہیے۔ مینڈکوں نے ایک بار پھر ٹرّانا شروع کر دیا اور چند لمحوں بعد مجھے یوں محسوس ہونے لگا جیسے مینڈکوں کی آوازیں برچھیوں کی طرح میرے سینے میں اُتر رہی ہیں۔
مغرب کی طرف لمحہ بہ لمحہ جھکتے ہوئے سورج کی زرد کرنوں میں یہ کھنڈر عجب ڈراؤنا منظر پیش کر رہے تھے۔ میں ایک پتھّر پر بیٹھ کر سانس درست کرنے اور پسینہ سکھانے لگا۔ معاً میری چھٹی حِس بیدار ہوئی اور اس نے خطرے کا اعلان کیا۔ میں نے بھری ہوئی رائفل کے ٹریگر پر انگلی رکھ دی اور چاروں طرف دیکھنے لگا۔ مجھے اپنی قوتِ سماعت پر بڑا اعتماد تھا اور اسی کی بدولت کئی مرتبہ میری جان بچی تھی۔ میں نے اپنے دائیں جانب گھنی جھاڑیوں میں ہلکی سی کھڑکھڑاہٹ کی آواز سن لی تھی اور اب میں بے حس و حرکت اپنی جگہ بیٹھا آنکھیں گھما کر اُدھر ہی دیکھ رہا تھا۔ میں نے نگاہوں ہی نگاہوں میں جھاڑیوں کا فاصلہ ماپ لیا تھا۔ وہ مجھ سے تیس گز دور تھیں اور ان میں چھپا ہوا آدم خور نہایت مکّاری سے میری طرف بڑھ رہا تھا۔ وہ اپنی فطرت کے مطابق مجھے بے خبری میں دبوچ لینا چاہتا تھا۔
اب وہ مجھ سے بیس گز دور تھا۔۔۔ پندرہ گز۔۔۔ بارہ گز۔۔۔ دس گز۔۔۔ یکایک اس نے اپنا سر اٹھایا اور میں نے دیکھا کہ وہ شیرنی ہے۔ پھر جبڑا کھول کر وہ آہستہ سے غرائی، میں نے اس کے چمکتے ہوئے لمبے دانت دیکھے اور اس سے پیشتر کہ وہ مجھ پر چھلانگ لگائے، میری گولی اس کا جبڑا توڑتی ہوئی گردن میں سے نکل گئی، لیکن کس بلا کی قوّت اس کے اندر کام کر رہی تھی۔ وہ زخمی ہونے کے باوجود اندھا دھُند میری طرف جھپٹی، لیکن مجھ سے صرف دو گز کے فاصلے پر آن کر گری اور پھر دہاڑتی گرجتی الٹے قدموں بھاگی۔ میں نے یکے بعد دیگرے تین فائر کیے۔ اس کی گردن سے ابلتا ہوا خون صاف غمازی کر رہا تھا کہ وہ کدھر گئی۔
مجھے اتنا یاد ہے میرے نشانے خالی نہیں گئے اور شیرنی آگے جا کر یقیناً گر گئی ہو گی، لیکن میری کیفیت یہ تھی کہ بدن تھر تھر کانپ رہا تھا اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ میں بے ہوش ہونے ہی والا ہوں۔ میں گرتا پڑتا اور جھاڑیوں میں سے لہولہان ہو کر اس درخت تک پہنچ گیا جہاں میرے ساتھی موجود تھے۔ انہوں نے شیرنی کے گرجنے اور فائروں کی آوازیں سن لی تھیں اور اب یہ سوچ رہے تھے کہ آیا انہیں میری تلاش میں نکلنا چاہیے یا نہیں۔ در اصل وہ یہ سمجھ چکے تھے کہ زندہ نہیں واپس آ سکوں گا۔ انہوں نے مجھے سنبھالا اور ابھی ہم ایک فرلانگ گئے ہوں گے کہ میکٹوش اور دوسرے دو آدمی بھاگتے ہوئے ہماری طرف آتے نظر آئے۔ انہوں نے بھی فائرنگ کی آوازیں سن لیں تھیں۔ میکٹوش نے مجھے زخمی دیکھا تو وہ یہی سمجھا کہ آدم خور نے مجھے چبا ڈالا ہے اور میں کوئی دن کا مہمان ہوں۔ میں نے تسلی دی اور سارا قصّہ سنایا۔ چند لمحے آرام کرنے کے بعد ہم سب پھر قلعے کی طرف چلے اس مرتبہ میکٹوش آگے آگے تھا اور پیچھے گاؤں والے لالٹینیں لیے چل رہے تھے۔ شیرنی کے جسم سے جا بجا گرا ہوا خون ہماری رہنمائی کر رہا تھا۔ جس مقام پر اس نے مجھ پر حملہ کیا، وہاں سے صرف ساٹھ گز دور جھاڑیوں میں خون بہت زیادہ مقدار میں دیکھا گیا اس سے پتہ چلا کہ زخمی شیرنی یہاں رکی تھی۔ میکٹوش اندھا دھند آگے بڑھ رہا تھا۔ کئی مرتبہ میں نے اسے روکنے کی کوشش کی، مگر بے سُود۔ جھاڑیوں میں سے راستہ بناتے ہوئے اس کے کپڑے بھی چھلنی ہو رہے تھے چہرے بازوؤں اور ٹانگوں پر بے شمار خراشیں آ چکی تھیں۔
ایک جگہ وہ اچانک رُکا اور پھر پیچھے ہٹ کر چند پتھّر اٹھائے اور جھاڑی کے اندر پھینکنے لگا۔ غالباً آدم خور شیرنی اس کے اندر چھُپی ہوئی تھی۔ پھر وہ رائفل تان کر آگے بڑھا اور میں نے ٹارچ روشن کی۔ اسی لمحے زخمی شیرنی نے کروٹ لی اور میکٹوش کے اوپر چھلانگ لگائی، لیکن چند فٹ کے فاصلے پر ہی آ کر گر پڑی اور جبڑا کھول کر غرانے لگی۔ ہمارے ساتھی لالٹینیں پھینک کر بھاگ نکلے، لیکن اب ہمیں اس زخمی اور معذور شیرنی سے کوئی خطرہ نہ تھا، کیوں کہ وہ مرنے ہی والی تھی، مجھے حیرت تھی کہ تین گولیاں کھانے کے باوجود وہ اتنی دیر تک زندہ کیسے رہی۔ میکٹوش نے چند لمحے تک شیرنی کو غور سے دیکھا اور پھر اس پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔
اور اس طرح چیتل درُوگ، ہوس دُرگا اور ہوللکر میں تباہی مچانے والی آدم خور شیرنی اپنے انجام کو پہنچ گئی جس نے نہ جانے کتنے انسانوں کو ہڑپ کیا تھا اور جن میں نوجوان اور بھولا بھالا شکاری ٹاڈ بھی شامل تھا، لیکن میں اس بات پر حیران ہوں کہ وہ دونوں الگ الگ فطرت رکھنے کے باوجود اکٹھے ہی شکار کو کیوں نکلتے تھے۔ بنگلور روانہ ہوتے وقت میں نے لوگوں کو کہہ دیا کہ اب کوئی واردات ہو تو فوراً مجھے اطلاع کی جائے لیکن کئی مہینے گزر گئے اور وہاں سے کوئی خبر نہ آئی، تو مجھے اطمینان ہوا۔
٭٭٭
ماخذ:
http: //shikariyat.blogspot.com/2019/07/blog-post_55.html
ویت نام کے آدم خور
دنیا میں شیروں کی نسلیں آہستہ آہستہ غائب ہوتی جا رہی ہیں اور آجکل یہ جانور افریقہ، بھارت مشرقی پاکستان، ملایا اور ہند چینی کے علاقوں میں محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ افریقہ اور بھارت میں شیروں کے شکار کرنے والے بہت سے شکاریوں نے اپنے اپنے تحیّر خیز تجربات بیان کیے ہیں اور ان ملکوں میں پائے جانے والے شیروں پر کتابیں لکھّی ہیں، لیکن ہند چینی کے وسیع و عریض گھنے جنگلوں میں بہت کم شکاریوں کو شکار کے لیے جانے کا موقع ملا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں خطرناک دلدلی میدان کثرت سے ہیں جنہیں عبور کرنا آسان نہیں۔ اسی لیے ہند چینی کے شیروں کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ملتیں ! حالانکہ یہاں کا شیر طاقت، ہوشیاری، پھُرتی اور درندگی کے اعتبار سے دوسرے خِطّوں میں پائے جانے والے شیروں سے پیچھے نہیں۔ شیر ہند چینی کے ہر علاقے میں موجود ہے اور اس کی دو قسمیں مشہور ہیں: ایک رائل ROYAL دوسری مارش MARSH۔ مارش انگریزی میں دلدل کو کہتے ہیں اور چونکہ یہ شیر زیادہ تر دلدلی خِطّوں میں رہتا ہے، اس لیے اسے مارش کہتے ہیں۔ مرکزی ویت نام کے جنگلوں میں بھی یہ شیر پایا جاتا ہے اور ندّیوں سے مچھلیاں پکڑ پکڑ کر کھانا اس کا محبوب مشغلہ ہے۔ شیر کی اونچی چھلانگ اتنی زیادہ نہیں، جتنی لمبی چھلانگ۔ وہ سولہ سے بیس فٹ تک چوڑی ندّی ایک ہی جست میں عبور کر جاتا ہے، بلکہ بعض اوقات تیس فٹ تک چھلانگ لگا سکتا ہے۔ مَیں نے خود دیکھا ہے کہ شیر ایک پہاڑی ٹیلے پر کھڑا تھا، نیچے سے ایک بکرا گزرا۔ شیر نے چھلانگ لگائی اور بکرے کو دبوچ لیا۔ میں نے بعد میں یہ فاصلہ ناپا، تو تیس فٹ نکلا۔ ایک عجیب بات یہ ہے کہ شیر آرام کر رہا ہو، تو زیادہ بھاری اور سُست نظر آتا ہے، لیکن خطرے اور شکار کے وقت اس کا جسم چُست اور ہلکا ہو جاتا ہے۔ اس کی قوت چھاتی اور اگلے دو پیروں میں چھپی ہوئی ہے۔ وہ دائیں پنجے کی ایک ہی ضرب سے کئی من وزنی بیل کو آسانی سے پرے پھینک دیتا ہے۔ شیر کے پنجے اور دانت اس کا دوسرا بڑا ہتھیار ہیں جن سے وہ شکار کو اُدھیڑ ڈالتا ہے۔
ہند چینی کا شیر ناک سے لے کر دُم تک ساڑھے چھ فٹ لمبا اور ساڑھے تین فٹ اونچا ہوتا ہے بعض علاقوں میں سات سات فٹ لمبے شیر بھی دیکھے گئے ہیں۔ اس کا وزن ساڑھے تین سَو پونڈ سے لے کر پانچ سو پونڈ تک ہے، لیکن مَیں نے انہی جنگلوں میں ایک ایسا شیر مارا جس کی لمبائی سات فٹ دو انچ اور وزن 570 پونڈ سے زائد تھا۔ اس شیر نے انسان پر کبھی حملہ نہیں کیا، البتّہ وہ پالتو بھینسوں، بیلوں اور بکریوں کا جانی دشمن تھا۔ رات کو چپکے سے بستی میں آتا، آگ کا چلتا ہوا الاؤ پھلانگ کر کسی باڑے سے بکری یا گائے کو منہ میں دبا کر لے جاتا۔ اس کی قوت کا اندازہ یوں کیجیے کہ وہ موٹی تازی کئی من وزنی بھینس کو نہایت آسانی سے پانچ چھ میل دور گھنے جنگل میں گھسیٹ کر لے جاتا تھا۔ ایک روز اس نے حسبِ عادت بَیل کو ہلاک کیا اور جنگل میں لے گیا۔ مجھے اس حادثہ کی اطلاع ملی، تو میں اُسی وقت جنگل کی طرف روانہ ہو گیا اور تھوڑی سی کوشش کے بعد بیل کی لاش ڈھونڈ لینے میں کامیاب رہا۔ شیر لاش میں سے ابھی کچھ کھانے بھی نہ پایا تھا۔ غالباً اُسے موقع ہی نہ ملا ہو گا۔ بہرحال مَیں نے اس کی فطرت کا اندازہ کرتے ہوئے بَیل کی لاش گاڑی پر لدوائی اور اسی جگہ پر لا کر رکھی دی جہاں شیر نے بَیل کو ہلاک کیا تھا۔ شیر کی جرأت اور نڈر پن ملاحظہ ہو کہ وہ جھاڑیوں میں چھُپا ہوا یہ تماشا دیکھتا رہا اور اس نے بستی تک ہمارا تعاقب کیا۔ وہ یہ معلوم کرنا چاہتا تھا کہ ہم لاش کہاں لے جا رہے ہیں۔
یہ ذکر سوئی لُک گاؤں کا ہے جو سائے گون سے 75 میل دُور جنگل کے بیچوں بیچ واقع ہے۔ اس شیر کی ہلاکت خیز سرگرمیاں ان دنوں عروج پر تھیں اور وہ آئے دن کسی نہ کسی جانور کو پکڑ کر لے جاتا تھا۔ کئی مرتبہ وہ دن کے وقت سینکڑوں لوگوں کی موجودگی میں آ جاتا اور آدمیوں کے چیخنے چلّانے کے باوجود اپنا شکار مُنہ میں دبا کر بھاگ جاتا۔ اس بیل کو بھی شیر نے صبح صبح بہت سے کسانوں کے سامنے ہلاک کیا تھا۔
میں خود ایک درخت پر رائفل لے کر بیٹھ گیا اور اپنے آدمیوں کو ہدایت کی کہ وہ دُور دُور ہٹ جائیں۔ شیر بَیل کی لاش سے تیس چالیس فٹ دُور جھاڑیوں میں چھُپا ہوا تھا۔ کئی مرتبہ اس نے سر باہر نکال کر ارد گرد دیکھا، لیکن جونہی میں فائر کرنے کے لیے نشانہ لیتا، وہ دوبارہ جھاڑیوں کے اندر چلا جاتا۔ اس نے اسی طرح دو گھنٹے گزار دیے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ بیل کو دوبارہ لے جانے کے لیے بے چین ہے۔ بہت دیر تک جب اس کا چہرہ نظر نہ آیا، تو مَیں نے خیال کیا کہ وہ مایوس ہو چکا ہے، لیکن اس نے مکّاری سے کام لیا اور اور چُپکے چپکے لمبا چکّر کاٹ کر اس درخت کی عین پشت پر آن پہنچا جس پر میں بیٹھا تھا۔ میرا خیال تھا کہ شیر دس فٹ اونچی چھلانگ نہیں لگا سکے گا، لیکن اپنی غیر معمولی قوت کے باعث وہ کامیاب ہو گیا اور اس سے پیشتر کہ میں خبردار ہوتا، شیر کا دایاں پنجہ میری رائفل پر پڑا اور رائفل میرے ہاتھ سے چھُوٹ کر فضا میں اڑتی ہوئی دُور جا گری۔ شیر اب غصے سے بُری طرح دھاڑ رہا تھا۔ مَیں جان بچانے کے لیے درخت کی اونچی شاخوں پر چڑھ گیا۔ چند لمحے گرجنے کے بعد شیر نے بَیل کو کھانا شروع کر دیا جب تک وہ پیٹ بھرتا رہا، مَیں بے بس ہو کر اُسے دیکھتا رہا۔ جب اس کا پیٹ بھر گیا، تو وہیں بیٹھ کر سستانے لگا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اُسے میری موجودگی کی ذرّہ برابر پروا نہیں۔ میں لرز رہا تھا کہ اگر سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے گھر واپس نہ پہنچا، تو اپنا خاتمہ یقینی ہے۔ جنگل میں حشرات الارض کثرت سے تھے اور کسی بھی لمحے کوئی زہریلا سانپ مجھے ڈس کر موت کے منہ میں بھیج سکتا تھا۔
ابھی مَیں اسی کشمکش میں مبتلا تھا کہ ایک کسان اپنے مویشیوں کو لے کر ادھر نکلا۔ اس نے شیر کو نہیں دیکھا، لیکن شیر نے اسے دیکھ لیا، مگر کچھ نہ کہا اور نہ اپنی جگہ سے ہلنے کی ضرورت محسوس کی۔ مَیں نے کسان کو آواز دی، تو وہ رُک گیا۔ جلدی جلدی اسے سارا قِصّہ سُنایا اور رائفل تلاش کرنے کی ہدایت کی، لیکن شیر کی ہیبت سے وہ تھر تھر کانپ رہا تھا۔ مَیں کنکھیوں سے دیکھا، شیر اپنی آنکھیں بند کیے آرام کر رہا تھا۔ جان پر کھیل کر مَیں خود درخت سے اُترا اور رائفل کی تلاش کی۔ شیر کا دھڑ کا ہر آن لگا ہوا تھا۔ خدا خدا کر کے رائفل میں ایک جھاڑی اٹکی ہوئی نظر آئی۔ رائفل ہاتھ میں آتے ہی شیر اپنی جگہ سے اٹھا اور جھاڑیوں میں گھس گیا اور میں ہاتھ ملتا رہ گیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ شیر کی چھٹی حس کچھ زیادہ ہی طاقتور ہے جو اسے خطرے سے فوراً خبردار کر دیتی ہے۔
تین روز بعد پتا چلا کہ موذی اس مرتبہ سوئی لگ کے میئر کا گھوڑا اٹھا کر لے گیا ہے۔ میئر نے مجھے بلایا اور اس کا قصّہ پاک کرنے کو کہا۔ ہم دونوں ہتھیار لے کر شیر کے سراغ میں روانہ ہوئے۔ دن کے بارہ بجے تھے کہ ہم نے گھوڑے کی کھائی ہوئی لاش کے بچے کھچے حصے ایک جگہ پڑے پائے۔ شیر کے پنجوں کے نشان بھی جا بجا دکھائی دیے، لیکن شیر کا کہیں پتا نہ تھا۔ یکایک میئر کا کُتّا بھونکنے لگا۔ اب تو ہمیں یقین ہو گیا کہ شیر آس پاس موجود ہے۔ واقعہ یہ تھا لیکن اس کی کھال کا رنگ گھاس سے کچھ اس طرح مل گیا تھا کہ نظر نہ آتا تھا۔ میں نے فوراً نشانہ لیا اور فائر کر دیا۔ گولی شیر کی گردن میں لگی۔ ہولناک گرج کے ساتھ وہ اُچھلا اور ایک طرف بھاگا۔ میں نے دو فائر اور کیے اور شیر وہیں ڈھیر ہو گیا۔
یہ شیر ابھی آدم خور بننے نہ پایا تھا، اس لیے آسانی سے ہلاک ہو گیا، ورنہ آدم خور ہونے کے بعد جب تک ساٹھ ستّر آدمی ہڑپ نہ کر لیتا، ہر گز نہ مارا جاتا۔ میں جس زمانے کا ذکر کر رہا ہوں، ان دنوں سائے گون کے گرد و نواح میں پانچ آدم خوروں نے اپنی خون آشام سرگرمیوں سے بڑی دہشت پھیلا رکھّی تھی۔
ہند چینی کے جنگلوں میں رہنے والا شیر شاذ و نادر ہی آدم خور بنتے ہیں اور برسوں بعد ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شیر یا شیرنی کسی خاص حادثے کے باعث مردم خوری پر اتر آئے۔ ورنہ یہ درندے انسانوں کو تنگ نہیں کرتے۔ عورتیں اور بچے کھُلے بندوں بے خوف و خطر ندّی نالوں پر نہانے اور پانی بھرنے جاتے ہیں۔ اگر راہ میں شیر سے آمنا سامنا ہو جائے، تو شیر فوراً راستہ چھوڑ دیتا ہے۔
لوگوں کے پاس آدم خوروں سے نجات حاصل کرنے کا جادو ٹونے کے سوا اور کوئی ذریعہ نہیں ہوتا۔ جونہی کسی آدم خور کی سرگرمیوں کا آغاز ہوتا ہے اور وہ چند دن کے اندر اندر دس پندرہ آدمی ہڑپ کر جاتا ہے۔ بستی والے بھاگے بھاگے ‘جادوگر’ کے پاس جاتے ہیں۔ جو کچھ وہ طلب کرتا ہے، اسے دیتے ہیں اور وہ ‘جنگل کی بد روح’ سے لڑنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ رائفل یا بندوق تو جادوگر کے پاس ہوتی نہیں، کچھ انوکھی تدبیریں اور عجیب سے ہتھکنڈے ضرور جانتا ہے جن کی مدد سے وہ آدم خور کو ہلاک کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے، لیکن اس کارنامے کے عوض وہ لوگوں سے اس قدر غلّہ، کپڑا اور دوسری چیزیں لے لیتا ہے کہ وہ کئی برسوں کے لیے کافی ہوتی ہیں۔
یہ عجیب بات ہے کہ ہند چینی کے کسی بھی جنگل میں اگر کوئی شیر آدم خور بن جائے، تو وہ اپنے قریب رہنے والے دوسرے شیروں کو بھی آدم خور بنا دیتا ہے۔ آہستہ آہستہ ان کا ایک گروہ تیار ہو جاتا ہے اور پھر یہ آدم خور سارے علاقے میں تباہی اور بربادی پھیلانا شروع کر دیتے ہیں اور ایک ایسے سٹیج پر پہنچ جاتے ہیں جہاں ان کے لیے کوئی خوف اور کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ وہ دن دہاڑے بستیوں پر آن پڑتے ہیں اور باری باری اپنا انسانی شکار منہ میں دبا کر جنگل میں بھاگ جاتے ہیں۔ ایک دو مہینوں میں بستیاں اجاڑ اور ویران ہو جاتی ہیں۔ لوگ دُور دراز علاقوں میں پناہ حاصل کرتے ہیں۔ اس قسم کے نازک حالات میں جادوگروں کا جادو بھی کام نہیں آتا اور بعض اوقات جادوگر ہی شیر کا نوالہ بن جاتا ہے۔
چند سال ہوئے مجھے ضلع ہوںگ ڈو کے ایک گاؤں مُوئی میں جانا پڑا۔ مَیں در اصل مُوئی قبیلے کی تاریخ مرتب کر رہا تھا اور اس سلسلے میں بہت سی معلومات جمع کر چکا تھا۔ موئی قبیلہ ہند چینی کے ان قدیم قبیلوں میں سے ایک ہے جس کے بارے میں بے شمار پُر اسرار کہانیاں متمدّن ہیں اور مہذّب دنیا میں مشہور ہیں۔ مُوئی لوگ قطعی وحشی ہیں اور ہزار ہا سال سے جنگلوں کے باسی ہیں۔ موجودہ دَور کی کوئی چیز ان کے پاس ہے نہ وہ اس کا استعمال جانتے ہیں۔ بہادر اور جنگجو لوگ ہیں۔ تیر کمان اور نیزوں کے ذریعے شیر ہلاک کر سکتے ہیں، لیکن آدم خوروں سے بہت خوف کھاتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ بد روحیں ہیں جنہیں صرف جادوگر ہی مار سکتا ہے۔ اس جہالت کے باعث وہ مسلسل آدم خوروں کا تر نوالہ بنتے چلے جاتے ہیں۔
اسی سال پانچ آدم خوروں نے ضلع ہوںگ ڈو کے مرد اور عورتوں کو ہڑپ کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ ان میں دو شیر اور دو شیرنیاں عمر رسیدہ تھیں اور ایک شیر ذرا کم عُمر کا، لیکن انتہائی طاقتور اور مکّار تھا۔ یہ درندے آدم خوری پر کیسے اتر آئے، اس کی کہانی بڑی دلچسپ ہے۔ اس سال خلافِ معمول بارش نہیں ہوئی۔ گھاس سُوکھ گئی، پھُول، پتّے اور پودے مُرجھا گئے اور ندّی نالے سوکھ گئے۔ جنگلی جانور اور درندے پیاس سے بیتاب ہو کر انسانی آبادیوں اور بستیوں میں آنے لگے۔
ایک روز دوپہر کے وقت یہ پانچوں شیر اور شیرنیاں گاؤں کے نزدیک آ گئے۔ ایک شیر نے بھینس پر حملہ کر دیا۔ بھینس نے بچنے کی بڑی کوشش کی، مگر شیر نے اسے گرا لیا۔ اتنے میں چند آدمی ہاتھوں میں نیزے کلہاڑیاں لیے موقع پر پہنچ گئے۔ ان کا خیال تھا کہ درندے انہیں دیکھ کر بھاگ جائیں گے، مگر ایسا نہ ہوا، شیرنیاں اور شیر مزید طیش میں آ گئے اور آدمیوں کو دبوچ کر انہوں نے چشم زدن میں تکّا بوٹی کر ڈالی۔ بھُوکے درندوں نے پہلی مرتبہ انسانی لہو اور گوشت کا ذائقہ چکھّا اور تھوڑی دیر بعد وہاں کھوپڑیوں، انتڑیوں، بچے کھچے گوشت اور ہڈیوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ پانچوں درندے کھا پی کر بانسوں کے جھُنڈ میں آرام کرنے چلے گئے۔ یہ جھُنڈ موئی سے دو میل دُور تھا۔
اِس بھیانک حادثے کی خبر شام تک دُور دُور پھیل گئی۔ باشندوں میں ہیجان پیدا ہونے لگا، لیکن اس وقت تک انہیں معلوم نہ تھا کہ درندوں نے آدمیوں کر ہڑپ کر لیا ہے۔ وہ تو یہی سمجھے ہوئے تھے کہ غیظ آلود درندوں نے چند آدمی مار ڈالے ہیں اور جنگل میں بھاگ گئے ہیں۔
گرد و نواح کی بستیوں سے جتنے آدمی جمع ہوئے، ان میں سے ہر ایک کے پاس کوئی نہ کوئی ہتھیار ضرور تھا، لیکن بانسوں کے جھنڈ میں جانے کی جرأت کسی میں نہ تھی۔ درندے بھی خلافِ معمول جھنڈ میں اتنی دیر تک رُکے رہے۔ ورنہ اپنی فطرت کے مطابق وہ شکار ہلاک کر کے کہیں اور چلے جاتے ہیں ان کے غرّانے اور ہانپنے کی آوازیں صاف سنائی دے رہی تھیں۔ ان لوگوں نے اسی سوچ بچار میں بہت وقت گزار دیا کہ کیا کِیا جائے۔ آخر کچھ لوگ ہمّت کر کے آگے بڑھے اور چیختے چلّاتے جھنڈ کی طرف چلے۔ ان کی دیکھا دیکھی دوسروں کو بھی جوش آیا اور پھر سب کے سب گلا پھاڑ کر چیخنے لگے۔ درندے اس ہنگامے سے گھبرا گئے۔ جھُنڈ سے غرّاتے ہوئے برآمد ہوئے اور مختلف اطراف میں بھاگ نکلے۔ اس اثنا میں کچھ لوگوں کی نظر انسانی ہڈیوں اور گوشت پر جا پڑی۔ اسے دیکھتے ہی سب کے حواس گم ہو گئے۔ تاہم انہوں نے یہ اجزا کپڑے میں لپیٹے اور گاؤں میں لے گئے اور جادوگر کو سارا قِصّہ کہہ سنایا۔ معاملہ پانچ آدم خوروں کا تھا، اس لیے جادوگر بھی سوچ میں پڑ گیا۔ آخر اس نے لوگوں کو مشورہ دیا کہ وہ کچھ روز کے لیے بستی چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں۔ اس وقفے میں وہ آدم خوروں کو فنا کر دے گا۔
جادوگر کے اس مشورے پر کچھ لوگوں نے فوراً عمل کیا، اپنی جھونپڑیاں خالی کر دیں اور سامان اور مویشی لے کر بہت دور چلے گئے۔ کچھ لوگوں نے جو بعض مجبوریوں کے تحت بستی چھوڑ کر نہیں جا سکتے تھے۔ آدم خوروں سے دو دو ہاتھ کرنے کی تدبیریں سوچیں اور سُوئی لُک کے میئر کو سارا قِصّہ سنایا، میئر نے اگلے ہی روز میرے پاس اپنا آدمی بھیجا۔ میں اُسی وقت وہاں پہنچ گیا۔ میں نے پہلے وہ جگہ دیکھی جہاں درندوں نے آدمیوں کو ہلاک کر کے ان کے لہو اور گوشت سے پیٹ بھرا تھا۔ پھر وہ جھنڈ دیکھا جہاں انہوں نے آرام کیا۔ بستی کا ہر فرد میری آمد پر خوش تھا اور بار بار رائفل پر لوگوں کی نظریں جاتیں۔ جب میں نے انہیں بتایا کہ وہ ہتھیار ہے جس سے دور کھڑے ہوئے درندے کو مارا جا سکتا ہے، تو تعجّب سے ان کی آنکھیں پھیل گئیں۔ میں نے انہیں یقین دلانے کے لیے بانس منگوایا اور ایک آدمی سے کہا کہ وہ یہ بانس فلاں جگہ جا کر گاڑ دے۔ مَیں نے بانس کے درمیانی حِصّے کا نشانہ لیا اور لبلبی دبا دی۔ گولی لگتے ہی بانس دو حِصّوں میں تقسیم ہو گیا اور اس کا ایک حِصّہ علیحدہ ہو کر دُور جا گرا۔ یہ تماشا دیکھ کر ان جنگلیوں پر اتنی دہشت طاری ہوئی کہ بیان سے باہر۔۔۔ وہ پرے ہٹ کر مجھے خوف زدہ نظروں سے دیکھ رہے تھے اور کئی آدمیوں نے مجھے بڑا زبردست جادوگر سمجھ کر میرے سامنے گھٹنے ٹیک دیے اور ہاتھ جوڑ جوڑ کر سلام کیا۔ ان جنگلیوں سے چونکہ مجھے کام لینا تھا اور ان کی ہمّت بندھانی ضروری تھی، اس لیے میں نے کچھ اور ‘کارنامے‘ بھی پیش کیے۔ آسمان پر بگلوں کی ایک قطار اڑتی ہوئی جا رہی تھی۔ مَیں نے اپنی رائفل اُونچی کی اور دو فائر کیے۔ چشم زدن میں دو بگلے پھڑپھڑاتے ہوئے زمین پر آن گرے۔ اب تو ان لوگوں کے خوف کی انتہا نہ رہی۔ معاً سب کے سب زمین پر گر پڑے اور میرے پَیروں میں لوٹنے لگے۔
بستی کے کئی آدمیوں کا بیک وقت درندوں کا شکار ہونا معمولی بات نہ تھی۔ ہر شخص غم و اندوہ میں غُصّے کی تصویر بنا ہوا تھا۔ رات کے وقت ہر گھر سے عورتوں اور مردوں کے رونے کی مِلی جُلی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ یہ آوازیں ایسی لرزہ خیز اور ڈراؤنی تھیں کہ میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ چند لمحوں کے لیے مجھے یوں محسوس ہوا جیسے دُور کسی ویرانے میں بہت سی بد روحیں بین کر رہی ہیں۔ جادوگر تمام رات آگ کے الاؤ پر طرح طرح کے منتر پڑھتا اور اُچھل پھاند کرتا رہا۔ اس شخص کا حُلیہ بڑا عجیب اور پُر اسرار تھا۔ سر تا پا سیاہ چمکدار جسم، غالباً کوئی روغن مل رکھّا تھا۔ زرد آنکھیں، گلے میں ہڈیوں کی لمبی مالا، سر کے بال عورتوں کی طرح گندھے ہوئے اور چہرے پر خون سے طرح طرح کے نقش و نگار بنے ہوئے۔ بڑی بھیانک شکل تھی۔ جب وہ جوش میں آ کر اپنے سفید دانت کٹکٹاتا، تو میری ریڑھ کی ہڈّی سرد ہو جاتی۔
الاؤ کے گرد بہت سے آدمی خاموشی سے بیٹھے جادوگر کی طرف پلک جھپکائے بغیر دیکھ رہے تھے۔ جادوگر نے واقعی ان پر سحر کر دیا تھا۔ مَیں سوچ رہا تھا کہ جادوگر اِن لوگوں کو بیوقوف بناتا ہے۔ تھوڑی دیر بعد جنگل کی طرف سے شیر کی گرج سنائی دی۔ مَیں چوکنّا ہو گیا اور رائفل مضبوطی سے تھام لی۔ سب لوگ اپنی اپنی جگہ بے حِس و حرکت بیٹھے تھے۔ شیر کی آواز سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ آہستہ آہستہ اِس کی طرف آ رہا ہے۔ جادوگر اور تیزی سے اُچھلنے کُودنے لگا۔ اب وہ اونچی آواز سے منتر پڑھ رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد ایک جوان شیر جھاڑیوں میں سے برآمد ہوا اور آہستہ آہستہ چلتا ہوا جادوگر سے دس فٹ کے فاصلے پر آن کر رُک گیا۔ شیر کی چال دیکھ کر مجھے کچھ ایسا معلوم ہوا جیسے کوئی نادیدہ قوّت اُسے اپنے ساتھ لا رہی ہے۔ اس کی چمکدار زرد آنکھوں سے حیرت اور خوف کا اظہار ہوتا تھا۔ اس میں شیروں کی خونخواری اور چُستی بھی نہ تھی۔ اس وقت وہ ایک معصوم بھیڑ یا بکری کی مانند نظر آتا تھا۔
مَیں دم بخود اپنی جگہ دبکا ہوا زندگی کا سب سے حیرت انگیز تماشا دیکھ رہا تھا۔ یہ بات میرے وہم و گمان میں نہ تھی کہ سائنس کے اس دَور میں، جبکہ انسان خلا کی تسخیر کر رہا ہے، ہند چینی کے گھنے جنگلوں میں ایسے جادوگر موجود ہیں جو جادو کے زور سے وحشی درندوں کو قابو میں لا سکتے ہیں۔
میرے خیال میں یہ بھی ہپناٹزم کی کرامت تھی۔ جادوگر نے دفعتاً آگ کے الاؤ میں سے لوہے کی ایک لمبی سلاخ نکالی۔ سلاخ آگ میں تپ کر سُرخ ہو رہی تھی۔ پھر وہ شیر کی طرف بڑھا۔ میرا بدن دہشت سے پسینے میں تر تھا اور دل کی دھڑکن گویا بند ہونے والی تھی۔ شیر بے بسی اور بے چارگی کی تصویر بنا اپنی جگہ کھڑا تھا۔ جادوگر کو قریب آتے دیکھ کر وہ غرّایا اور کچھ ایسا انداز اختیار کیا جیسے اس پر حملہ کرنے والا ہے، لیکن دوسرے ہی لمحے جادوگر اس کے سر پر پہنچ چکا تھا۔ اب مَیں نے دیکھا کہ جادوگر کی آنکھیں انگاروں کی طرح چمک رہی تھیں۔ سلاخ اس کے دائیں ہاتھ میں تھی۔ بائیں ہاتھ سے اس نے شیر کی گردن پکڑ لی اور پھر گرم گرم سلاخ چند ثانیوں کے اندر اندر شیر کی آنکھوں میں گھونپ دی۔ خدا کی پناہ!۔۔۔ شیر کی ہولناک گرج، اس کا تڑپنا، چیخنا اور لوگوں کا دہشت سے چِلّانا، ایک عجیب منظر تھا۔ شیر درد سے چیختا، غرّاتا ہوا جنگل میں بھاگ گیا۔ اب وہ بالکل اندھا ہو چکا تھا۔ سب لوگ گھٹنوں کے بَل جھُکے ہوئے زور زور سے چِلّا رہے تھے غالباً وہ بھی منتر پڑھ رہے ہوں گے۔ جادوگر کا اتنا رعب مجھ پر غالب آیا کہ مَیں بھی گھٹنوں کے بَل جھُک کر اناپ شناپ بکنے لگا۔ شیر کے جانے کے بعد جادوگر منتر پڑھتا رہا اور جب صبح کے آثار نمودار ہوئے، تو سب لوگ اپنی اپنی جھونپڑیوں کی طرف چلے گئے۔
اس تماشے کا مجھ پر بڑا اثر ہوا۔ اب مَیں بھی جادوگر کا قائل ہو چکا تھا۔ اس قسم کے شعبدوں کے سامنے بھلا رائفل کی کیا حیثیت تھی اور حیران کُن بات یہ کہ کئی دن تک درندوں کے بارے میں کوئی خبر سننے میں نہ آئی اور نہ کسی نے اس اندھے شیر کو جنگل میں پھرتے دیکھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ایک شیر کو سزا ملنے سے بقیہ درندوں نے عبرت پکڑ لی ہے اور اپنا ٹھکانا چھوڑ کر کہیں اور چلے گئے ہیں۔ جادوگر نے لوگوں سے کہا تھا کہ اگر اب کوئی واردات ہوئی، تو وہ دوسرے شیر کو بُلا کر اندھا کر دے گا۔
لوگ نڈر ہو کر جنگلوں میں آنے جانے لگے اور رفتہ رفتہ بستیوں میں وہی گہما گہمی شروع ہو گئی۔ اس دوران میں جادوگر کو لوگوں نے خوش کر دیا۔ اس کے گھر کے آگے غلّے، کپڑے اور برتنوں کا انبار لگ گیا۔ جادوگر نے بعد میں یہی چیزیں گاؤں کے اُن لوگوں میں تقسیم کر دیں جو بہت نادار اور مفلس تھے۔ اس سخاوت سے مَیں بھی متاثر ہوا۔ مجھے افسوس تھا تو صرف اِس بات کا کہ رائفل کے جوہر دکھانے کا موقع نہ ملا، بہرحال میں روز جنگل جاتا اور اندھے شیر کو ڈھونڈنے کی کوشش کرتا، لیکن وہ کہیں دکھائی نہ دیا۔
ایک رات کا ذکر ہے، آسمان پر چاند نکلا ہوا تھا۔ ایک جھونپڑی میں سے کوئی عورت نکلی اور کسی کام سے دوسری بستی کی طرف چلی جو زیادہ سے زیادہ آدھ میل دور ہو گی۔ راستہ جنگل میں سے گزرتا تھا۔ ابھی اس نے بمشکل ایک فرلانگ کا فاصلہ طے کیا تھا کہ ایک درخت کے پیچھے سے کوئی جانور جھپٹا اور عورت کو مُنہ میں دبا کر دوبارہ اسی جگہ غائب ہو گیا۔ عورت نے جان بچانے کی کوشش کی اور بستی والوں کی مدد کے لیے پکارا، لیکن بروقت کوئی آدمی وہاں نہ گیا۔ البتّہ بہت سے لوگوں نے عورت کی چیخیں ضرور سُنیں جو رات کے گہرے سناٹے کو چیرتی ہوئی ان کے کانوں تک پہنچ گئی تھیں۔ پندرہ بیس منٹ بعد چند آدمی ہاتھوں میں جلتی ہوئی مشعلیں لیے وہاں پہنچے، تو انہوں نے عورت کے کپڑوں کی دھجّیاں اِدھر اُدھر جھاڑیوں میں اٹکی ہوئیں پائیں۔ کچھ فاصلے پر تازہ خون بھی بکھرا ہوا تھا، لیکن لاش کا کہیں پتا نہ تھا۔
اگلے روز صبح سویرے بستی کے بہت سے آدمی جنگل میں لاش ڈھونڈنے نکلے، لیکن انہیں جلد معلوم ہو گیا کہ لاش کا ملنا دشوار ہے۔ یہ ظاہر تھا کہ عورت کو درندے نے ہلاک کیا ہے اور اب وہ اُسے ایسی جگہ گھسیٹ کر لے گیا تھا جہاں قدِ آدم اور نہایت گھنی خار دار جھاڑیاں کثرت سے تھیں۔ ان جھاڑیوں کے اندر گھُسنا انسانوں کے بس کی بات نہ تھی۔ تاہم ان لوگوں نے سخت مشقّت کے بعد کلہاڑیوں اور لمبے لمبے چاقوؤں کی مدد سے انہیں کاٹا، راستہ بنایا اور آخرکار لاش پا لینے میں کامیاب ہو گئے۔ سر ایک طرف پڑا تھا اور دھڑ کا آدھا حِصّہ درندہ ہڑپ کر چکا تھا۔ ابھی یہ لوگ بقیہ حِصّہ کپڑے میں باندھ ہی رہے تھے کہ سَو گز کے فاصلے سے شیر کے غرّانے کی آواز آئی۔ آدم خور کی آواز سنتے ہی یہ سب لوگ ڈر کر واپس گاؤں میں آ گئے اور جادوگر کو سارا قِصّہ سنایا۔ اس نے کیا جواب دیا، یہ مجھے معلوم نہ ہو سکا۔ غالباً اس کا جادو روز روز نہیں چلتا تھا۔
آہستہ آہستہ آدم خوروں نے اپنی سرگرمیاں شروع کر دیں اور دو ہفتوں کے اندر اندر بارہ افراد ان کے پیٹ میں پہنچ گئے۔ ایک رات پھر جادوگر نے الاؤ روشن کیا اور منتر پڑھے، لیکن ساری رات گزر گئی، کوئی درندہ نہ آیا۔ صبح کے وقت جبکہ تماشائی اونگھ رہے تھے اور جادوگر بھی تھک گیا تھا، قریب کی جھاڑیوں سے ایک شیر اور شیرنی دبے پاؤں نکلے اور جادوگر پر آن پڑے۔ اس سے پہلے کہ لوگوں کو کچھ پتا چلے، دونوں درندوں نے جادوگر کو وہیں چیر پھاڑ کر برابر کر دیا اور اپنا اپنا حصّہ مُنہ میں دبا کر جدھر سے آئے تھے اُدھر چلے گئے۔ جادوگر کے مارے جانے سے لوگوں کے حوصلے بالکل پست ہو گئے اور انہوں نے وہاں سے چلے جانا ہی بہتر سمجھا۔ دس میل دور مشرق کی طرف ایک دریا بہتا تھا۔ ان لوگوں نے، جن کی تعداد دو ہزار سے زائد تھی، دریا عبور کیا اور ایک وادی کے اندر نئے سرے سے جھونپڑیاں بنا لیں۔ پرانی آبادی میں ابھی ایک ڈیڑھ ہزار لوگ باقی تھے جن میں زیادہ تر عمر رسیدہ، بیمار اور ایسے افراد شامل تھے جو چل پھر نہیں سکتے تھے۔
روزانہ رات کو پانچوں درندے، اندھے شیر سمیت، بستی پر دھاوا بولتے، کسی نہ کسی جھونپڑی کو گرا کر اس میں گھُس جاتے اور اپنا شکار پکڑ کر وہیں کھانا شروع کر دیتے۔ ایک مرتبہ مَیں نے اُونچے سے درخت پر رات کاٹنے کا فیصلہ کیا۔ مچان باندھنے کے لیے کوئی آدمی نہ ملتا تھا۔ مَیں نے ایک مضبوط اور محفوظ شاخ پر سرِ شام ہی ڈیرا جما لیا۔ مجھے یقین تھا کہ درندے معمول کے مطابق اِدھر ضرور آئیں گے، لیکن ایسا نہ ہوا۔ انھوں نے مغرب کی طرف پانچ میل دور ایک دوسری بستی پر دھاوا بول دیا۔ پہلے مویشیوں پر حملہ کر کے تین چار کو مارا، پھر آدمیوں کی باری آئی۔ مجھے اگلے روز وہاں کے ایک باشندے نے بتایا۔
’ان کی تعداد پانچ تھی۔ وہ سُورج چھُپنے کے تھوڑی ہی دیر بعد گاؤں کی طرف آئے۔ راہ میں مویشیوں کا باڑا تھا۔ انہوں نے پہلے چاروں طرف چکّر لگایا۔ درندوں کو دیکھ کر جانوروں میں خوف و ہراس پھیل گیا، وہ باڑا توڑ کر باہر بھاگے اور درندوں نے ان پر حملہ کر دیا۔ اتنے میں بستی کے دس بارہ آدمی وہاں پہنچ گئے۔ مَیں نے دیکھا کہ ان میں دو شیروں اور دو شیرنیوں کے علاوہ پانچواں شیر اندھا ہے وہ سب کے پیچھے تھا۔ درندوں نے ہمیں آتے دیکھا، تو چھلانگیں لگاتے ہوئے ہماری طرف آئے، لیکن ہم درختوں پر چڑھ گئے۔ البتہ دو آدمی ان کے قابو میں آ گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے درندوں نے انہیں ہلاک کر دیا۔ سب نے اطمینان سے پیٹ بھرا اور چلے گئے۔‘
ان نازک حالات میں پانچ آدم خوروں کا مقابلہ مجھ اکیلے کے بس کی بات نہ تھی۔ مَیں نے اپنی بھائی جارج کو بُلوایا جو اُن دنوں سائے گون میں رہتا تھا۔ جارج کے آنے سے پہلے مَیں نے چام نامی ایک مقامی شکاری کی خدمات بھی حاصل کیں۔ چام، لمبا تڑنگا، نہایت تجربے کار، نڈر اور بہادر شکاری تھا۔ شیر کے ساتھ دست بدست جنگ میں وہ اپنا بایاں بازو گنوا چکا تھا، لیکن قدرت نے اس کی تلافی یوں کی کہ دائیں ہاتھ میں بے پناہ قوّت بھر دی۔ ایک لمبا، چمکدار پھل کا خنجر اس کی کمر میں ہر وقت بندھا رہتا اور اس خنجر سے اس نے نہ جانے کتنے درندے ہلاک کیے تھے۔ اس کے جِسم کا کوئی حِصّہ ایسا نہ تھا جس پر زخم کا نشان نہ ہو۔ چام میں ایک حیرت انگیز بات مَیں نے دیکھی کہ اُس کے اور شیر کے چہرے میں بڑی مشابہت تھی۔ اس کا بچپن اور جوانی افریقی وحشیوں اور جنگلیوں کی زبان سیکھی اور شکار کھیلنے کا قدیم فن حاصل کیا۔ وہ انگریزی بھی بول سکتا تھا۔ اس نے مجھے بہت سے انگریزی اور آسٹریلین شکاریوں کی داستانیں سنائیں جن کی وہ افریقہ میں رہنمائی کر چکا تھا۔
تیسرے روز جارج آن پہنچا۔ اس کے ساتھ دو ملازم بھی تھے۔ اس دوران میں آدم خور مزید دو عورتوں کو ہلاک کر چکے تھے۔ آدم خور شکار کی تلاش میں رات کے پچھلے پہر آئے۔ گاؤں کی ایک ایک جھونپڑی کا معائنہ کیا۔ بانس کی بنی ہوئی جھونپڑیوں کو وہ گھاس کے تِنکے سمجھتے اور روندتے ہوئے نکل جاتے۔ ایک بڑی سی جھونپڑی میں، جس کے چاروں طرف موٹے بانسوں کی دیوار تھی، دونوں عورتیں سو رہی تھیں۔ آدم خوروں نے اس کا ایک چکّر لگایا اور ایک جگہ زور لگا کر دیوار توڑ ڈالی۔ اب عورتیں بچ کر کہاں جا سکتی تھیں؟ شیروں نے انہیں دبوچ لیا اور معمول کے مطابق وہیں پیٹ بھر کر اپنے ٹھکانے کی طرف لوٹ گئے۔
ہم نے اس جھونپڑی کے باہر پانچوں آدم خوروں کے پنجوں کے نشان دیکھے۔ عورتوں کی اوجھڑیاں، بچا کھچا گوشت اور ہڈیاں بھی پڑی تھیں۔ یہ منظر اتنا دہشت انگیز تھا کہ جارج تھر تھر کانپنے لگا، لیکن چام چُپ چاپ کھڑا تھا، اس کے چہرے پر کوئی تاثّر نہ تھا، البتّہ آنکھوں کی چمک بڑھی گئی تھی اور دایاں فولادی ہاتھ خنجر کے دستے پر مضبوطی سے جما ہوا تھا۔ ہمیں بہت جلد پتا چل گیا کہ بستی ابھی پوری طرح خالی نہ تھی، بلکہ بہت سے مرد اور عورتیں یہاں موجود تھے۔ غالباً یہ بے چارے دریا تک جانے کی ہمّت نہ کر سکتے تھے اور یہ جاننے کے باوجود کہ ایک روز آدم خوروں کا لقمہ بن جائیں گے، یہیں رہنے پر مجبور تھے۔ مَیں نے ان سب کو ایک بڑی سی جھونپڑی میں جمع کر دیا اور سمجھا دیا کہ کوئی شخص شام کے بعد باہر نکلنے کی کوشش نہ کرے۔ جھونپڑی کے چاروں طرف خشک گھاس اور لکڑیوں کے بڑے بڑے ڈھیر جمع کیے گئے اور سُورج غروب ہی انہیں آگ لگا دی گئی۔ اب آدم خور یہ آگ پھلانگ کر جھونپڑی کے اندر نہیں جا سکتے تھے۔ ہم نے اپنے لیے یہ انتظام کیا تھا کہ جھونپڑی سے دائیں بائیں پچاس پچاس فٹ کے فاصلے پر دو گڑھے کھدوائے۔ ان گڑھوں کی گہرائی پانچ فٹ اور لمبائی چھ فٹ تھی۔ ان کے چاروں طرف خار دار جھاڑیاں اِس انداز میں پھیلا دی گئی تھیں کہ نزدیک سے دیکھنے پر بھی پتا نہ چل سکتا تھا کہ یہاں گڑھا ہو گا۔ دائیں گڑھے میں جارج اور اس کے دونوں ملازم اور بائیں گڑھے میں چام اور مَیں اپنے اپنے ہتھیار سنبھال کر بیٹھ گئے۔ مجھے پورا یقین تھا کہ آدم خور آج رات دوبارہ اِدھر آئیں گے۔
آگ کا الاؤ دھڑ دھڑ جل رہا تھا اور اس کے شعلوں کی سُرخ روشنی میں دُور کا منظر صاف نظر آتا تھا۔ ارد گرد کے درختوں پر بسیرا کرنے والے پرندے خاموش تھے۔ البتہ بہت دُور سے کسی ریچھ کے چِلّانے کی مدھّم آواز کانوں میں آ رہی تھی۔ مُوئی گاؤں کے مغرب کی جانب ایک اور جنگل پر ریچھوں اور ہاتھیوں نے قبضہ کر رکھّا تھا۔ ایک ہی جنگل میں ریچھوں اور ہاتھیوں کا گھُل مِل کر رہنا بڑی عجیب بات تھی، کیونکہ مَیں نے کبھی نہیں سُنا کہ کسی ہاتھی نے ریچھ کو مارا ہو یا کسی ریچھ نے یہ علاقہ چھوڑ کر کہیں اور جانے کی کوشش کی ہو۔ چام نے میرے کان میں کہا:
’آدم خوروں کے آنے سے پہلے آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں جو ریچھ کی آواز سُن کر مجھے یاد آیا۔ آپ شاید یقین نہ کریں، لیکن میں جو بیان کروں گا، اس کا ایک ایک لفظ سچ ہے۔ مَیں اپنے ایک دوست کی فرمائش پر شہد جمع کرنے کے لیے اس جنگل میں گیا۔ میرے پاس اس خنجر کے سوا کچھ نہ تھا۔ میں نے اپنا جسم ایک موٹے کمبل میں چھُپا رکھّا تھا اور بارہ فٹ اونچی بانس کی بنی ہوئی سیڑھی میرے کندھوں پر رکھی تھی اس جنگل میں شہد کی مکھّیوں کے چھتّے کثرت سے ہیں۔ اس کے علاوہ جنگلی پھلوں کے بے شمار درخت بھی ہیں اور یہ ساری چیزیں ریچھ کی پسندیدہ غذا ہیں، اس لیے ریچھوں نے وہاں رہنا شروع کر دیا تھا۔ شیروں کو اُدھر جانے کی جرأت نہیں ہوتی تھی، کبھی کوئی بھولا بھٹکا شیر اُدھر جا نکلتا، تو یہ ریچھ مِل جُل کر اس پر ہلّہ بول دیتے اور پھر ان کی مدد کے لیے ہاتھی بھی آ جاتے۔
صبح کا وقت تھا۔۔۔ مزے مزے میں چلا جا رہا تھا کہ مَیں نے ایک درخت پر بہت بڑا چھتّہ دیکھا جو ابھی تک ریچھوں کی یلغار سے محفوظ تھا۔ چھتّے کی اونچائی زمین سے تیس فٹ ہو گی۔ بہرحال مَیں نے درخت کے تنے کے ساتھ سیڑھی لگائی۔۔۔ کمبل اپنے گرد اچھّی طرح لپیٹا اور مُنہ چھُپا کر اُوپر چڑھنے لگا۔ ابھی مَیں نے سیڑھی کے آخری ڈنڈے پر قدم رکھّا ہی تھا کہ ایک طرف سے دو ریچھ آئے۔ اُن کے پیچھے پیچھے ایک ہتھنی جھومتی جھامتی چلی آ رہی تھی اور ہتھنی کے ساتھ اس کا چھوٹا سا بچّہ بھی تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ جانور ‘تفریح‘ کے لیے اِدھر آئے ہیں۔
مَیں نے جلدی سے درخت کی شاخوں اور پتّوں میں چھُپنے کی کوشش کی، مگر ریچھ اور اس کی مادہ نے مجھے دیکھ لیا اور وہ دوڑتے دوڑتے فوراً اپنے پچھلے پَیروں کے بل کھڑے ہو گئے اور چیخنے لگا ہتھنی بھی رُکی اور سونڈ اُٹھا کر اُوپر دیکھنے لگی۔ مَیں نے دل میں سوچا کہ آج تو بے موت مرے۔۔۔ فرار کی کوئی راہ میرے سامنے نہ تھی۔۔۔ اُوپر شہد کی ہزار ہا مکھّیاں بھنبھنا رہی تھیں اور نیچے ہتھنی اور ریچھ راستہ روکے کھڑے تھے۔ چند لمحوں بعد دونوں ریچھ درخت کے نزدیک آ گئے اور اُنہوں نے اس کے گرد چکّر لگایا اور سیڑھی پر چڑھنے کی کوشش کرنے لگے، مگر مَیں ان کی پہنچ سے باہر تھا۔ دفعتاً چھتّے سے ایک زنّاٹے دار آواز میں مکھّیاں اڑیں اور ریچھوں سے چمٹ گئیں۔ کچھ مکھّیوں نے ہتھنی اور اس کے بچے پر بھی حملہ کر کے انہیں درخت سے پرے ہٹنے پر مجبور کر دیا اور ابھی مکھیوں نے میری طرف توجہ نہ کی تھی شاید اس لیے کہ مَیں بے شاخوں کے سہارے بے حس و حرکت و بکا بیٹھا تھا۔ موقع پا کر مَیں نے چھتّہ توڑ دیا اور اچھی مقدار میں شہد اس ڈبّے میں جمع کر لیا اور جسے میں اپنے ساتھ لایا تھا۔
مکھّیوں کے بروقت ’حملے‘ کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہتھنی اور ریچھ گھبرا کر ایک طرف بھاگ اُٹھے۔ مَیں نے تھوڑی دیر انتظار کیا اور پھسلتا ہوا درخت کے تنے سے زمین پر اُترا، سیڑھی اٹھائی اور جدھر سے آیا تھا، ادھر چل پڑا۔ ابھی مَیں بمشکل دس پندرہ قدم ہی چلا تھا کہ ایک درخت کے عقب سے ریچھ اور اس کی مادہ برآمد ہوئے اور انہوں نے راستہ روک لیا۔ مَیں نے جان بچانے کے لیے شہد کا ڈبّا ان کی طرف پھینک دیا۔ یہ تدبیر کارگر ہوئی۔ وہ ڈبّے کی طرح جھپٹے اور شہد چاٹنے لگے۔ مَیں الٹے پاؤں ایک چکّر کاٹ کر اُن کی نظروں سے اوجھل ہو گیا اور ایک جھاڑی میں پناہ لی، لیکن شیر کے غرّانے کی آواز سُنی، تو ہوش اڑ گئے۔ ایک قوی ہیکل اور جوان شیر جھاڑیوں میں پڑا سو رہا تھا میری آہٹ سے اس کی آنکھ کھل گئی۔ میرے اور اس کے درمیان پندرہ فٹ کا فاصلہ تھا۔ اس نے میری طرف نگاہِ غلط انداز ڈالی اور انگڑائی لیتا ہوا جھاڑی سے نکلا اور اُسی طرف چلا جدھر سے مَیں آیا تھا۔ مَیں سمجھ گیا کہ اب اس کا ریچھوں سے آمنا سامنا ہو گا۔ آپ مجھے بیوقوف کہہ سکتے ہیں، کیونکہ فوراً ہی مَیں بھی شیر کے تعاقب میں چلا اور موقع پاتے ہی ایک درخت پر چڑھ گیا۔ شیر کی بُو پا کر ریچھوں کے جوڑے نے اِدھر اُدھر دیکھا۔ پھر جنگل کے بادشاہ پر اُن کی نظر پڑی جس کی دُم آہستہ آہستہ گردش کر رہی تھی۔ میں نے محسوس کیا کہ شیر کا ارادہ جنگ کرنے کا نہ تھا، لیکن ریچھوں نے غالباً اسے شیر کی کمزوری سمجھا اور غرّاتے، دانت دکھاتے آگے بڑھے۔ شیر نے دائیں بائیں دیکھا، اُونچی اونچی جھاڑیاں دونوں طرف کھڑی تھیں۔ اتنے میں ریچھ شیر کے نزدیک پہنچ گئے۔ شیر ایک لمحے کے لیے اس صورتِ حال سے خوف زدہ ہوا، لیکن فوراً ہی اس نے جھلّا کر دایاں پنجہ نَر ریچھ کی کھوپڑی پر رسید کیا۔ ریچھ قلابازیاں کھاتا ہوا دور جا گِرا اور اس کا چہرہ خون سے تر ہو گیا۔ اتنے میں اس کی مادہ شیر پر جھپٹی اور دونوں گتھم گتھا ہو گئے۔ شیر کی گرج سے جنگل کی زمین کانپ رہی تھی اور اُدھر ریچھ بپھرے ہوئے چیخ رہے تھے۔ نر ریچھ اگرچہ شیر کے پہلے ہی وار سے شدید زخمی ہو چکا تھا، لیکن چند سیکنڈ بعد ہی وہ دوبارہ شیر پر حملہ آور ہوا۔ تین چار منٹ تک ان کی ایسی خونریز جنگ ہوئی کہ تینوں خون میں نہا گئے۔ مجھے اس روز ریچھوں کی قوّت اور طیش کا صحیح اندازہ ہوا۔ تاہم شیر کا مقابلہ اُن کے بس کی بات نہ تھی۔ شیر لہولہان ہونے کے باوجود اس وقت تک اپنی جگہ سے نہ ہٹا جب تک اس نے اپنے نوکیلے پنجوں اور دانتوں سے نر ریچھ کی بوٹیاں نہ اڑا دیں، پھر وہ ہانپتا ہوا ایک طرف چلا، لیکن مادہ ریچھ نے اُس کا پیچھا نہ چھوڑا۔
مَیں درخت پر بیٹھا تماشا دیکھ رہا تھا کہ مادہ ریچھ نے ایک عجیب سی حرکت کی، وہ مُنہ اوپر اٹھا کر چند لمحوں تک چیختی رہی جیسے کسی کو مدد کے لیے پُکار رہی ہو، پھر دوڑتی ہوئی ایک طرف غائب ہو گئی۔ شیر جھاڑیوں میں بیٹھا اپنے زخم چاٹ رہا تھا۔ اس نے ریچھ کو بُری طرح مارا تھا۔ ریچھ کی لاش مجھے صاف نظر آ رہی تھی۔ میرا خیال تھا کہ مادہ ریچھ برادری والوں کو بُلانے گئی ہے۔ ان کا قاعدہ ہے کہ کوئی ریچھ حادثے کا شکار ہو کر مر جائے، تو دوسرے ریچھ فوراً وہاں پہنچ کر انسانوں کی طرح روتے اور بَین کرتے ہیں، پھر لاش اٹھا کر ایک خاص جگہ لے جاتے اور دفن کر دیتے ہیں۔
دفعتاً ہاتھی کو چنگھاڑ سے جنگل تھرّا اُٹھا۔ آواز میرے دائیں جانب سے آئی تھی۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک دیو پیکر ہاتھی جھومتا ہوا نمودار ہوا۔ اس کے پیچھے پیچھے مادہ ریچھ چلی آ رہی تھی۔ شیر جھاڑیوں میں بیٹھا خاموشی سے ہاتھی کو دیکھتا رہا۔ مادہ نے مُردہ ریچھ کو اچھّی طرح سونگھا اور قریب ہی بیٹھ گئی۔ ہاتھ مسلسل چنگھاڑتا ہوا درختوں کے گرد چکّر لگا رہا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ شیر کو جنگ کے لیے للکار رہا ہے۔ عین اس وقت شیر جھاڑیوں میں سے غرّاتا ہوا نکلا اور ہاتھی کی پیشانی پر اپنے پنجے گاڑ دیے۔ ہاتھی درد سے بیتاب ہو کر گھُوما اور اس نے زبردست جھٹکے سے شیر کو فضا میں اُچھال دیا۔ شیر کمر کے بل زمین پر گرا اور دوبارہ نہ اُٹھ سکا۔ ہاتھی اپنے حریف کی طرف دوڑا اور اس کی ٹانگ سونڈ میں پکڑ لی، پھر اپنا کئی من وزنی پَیر اس پر رکھ کر آناً فاناً شیر کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا۔ حریف کے اس طرح مارے جانے پر مادہ ریچھ خوشی سے چھاتی پیٹنے لگی، پھر میرے دیکھتے دیکھتے ہاتھی نے نہایت آرام سے ریچھ کی لاش سونڈ میں پکڑی اور گھنے جنگل میں چلا گیا۔۔۔‘
چام کی زبانی یہ واقعہ سُن کر مجھے واقعی بڑی حیرت ہوئی۔ جنگل کی دُنیا بڑی نرالی ہے اور یہاں اس قسم کے واقعات پیش آنا کوئی عجوبہ نہیں۔ البتّہ بہت کم شکاری ایسے ہیں جو اپنی آنکھوں سے یہ تماشے دیکھتے ہیں۔ چام نے میری دلچسپی کو بھانپ لیا اور کئی واقعات سنائے۔ رات آہستہ آہستہ بھیگتی گئی آگ کا الاؤ مدھّم ہوتا گیا، لیکن آدم خوروں کا کہیں پتا نہ تھا۔ جارج نے تین مرتبہ سیٹی کے مخصوص اشارے سے مجھے بتایا کہ وہ انتظار کرتے کرتے تنگ آ گیا ہے۔ مَیں نے جواب میں اُسے سمجھایا کہ صبح ہونے سے پہلے گڑھے سے نکلنا خطرناک ہے۔
’ممکن ہے آگ کی وجہ سے درندے اِدھر نہ آتے ہوں۔‘ چام نے کہا۔ ‘بہرحال، الاؤ اب سرد ہونے والا ہے ہمیں ہوشیار رہنا چاہیے۔‘
میں نے گردن کو جنبش دی اور آنکھیں بند کر لیں، کیونکہ جنگل کی خنک ہَوا نے مجھ پر نیند کی کیفیت طاری کر دی تھی۔ بمشکل آدھ پَون گھنٹے سویا تھا کہ پے در پے فائروں آواز کی آواز نے مجھے بد حواس کر دیا۔
’کیا تم نے گولی چلائی؟’ مَیں نے چام سے پوچھا۔
’نہیں جناب، میرے پاس رائفل کہاں ہے؟’ اس نے جواب دیا۔ ‘گولیاں دوسری جانب سے چل رہی ہیں۔‘
چاروں طرف گھُپ اندھیرا تھا۔ یکایک جھونپڑی کی جانب سے عورتوں کے چیخنے اور پھر شیر کے غرّانے کی آواز سنائی دی۔ مَیں نے ٹارچ روشن کی، تیز روشنی کی لکیر اندھیرے کو چیرتی ہوئی چاروں طرف گھومنے لگی۔ مَیں نے دیکھا کہ ایک شیرنی اور دو شیر جھونپڑی کے قریب کھڑے ہیں اور چوتھی شیرنی ان سے کچھ فاصلے پر ایک عورت کی ٹانگ مُنہ میں پکڑے گھسیٹ رہی ہے۔ یہ بد نصیب عورت غالباً بیہوش ہو چکی تھی یا مر گئی تھی۔ روشنی ہوتے ہی شیرنی نے عورت کی ٹانگ چھوڑ دی اور بھاگ کر اپنے ساتھیوں سے جا ملی۔ ان کی آنکھیں انگاروں کی طرح دہک رہی تھیں۔ دوسرے ہی لمحے مَیں نے رائفل سیدھی کی اور فائر کر دیا۔ گولی آگے کھڑی ہوئی شیرنی کی کھوپڑی میں لگی اور وہ وہیں گِر کر تڑپنے لگی۔ مَیں نے تین فائر اور کیے، لیکن اتنی دیر میں تینوں آدم خور جھاڑیوں میں پناہ لے چکے تھے اور ان کی گرج سے سویا ہوا جنگل بیدار ہو گیا تھا۔
دوسری طرف سے جارج نے درندوں پر فائرنگ شروع کر دی تھی۔ آدم خور ہمارے سامنے والی جھاڑیوں میں چھُپے ہوئے تھے، اس لیے گولیاں ہمارے سروں پر سے گزر رہی تھیں۔ اس اندھا دھند فائرنگ کا نتیجہ یہ نکلا کہ اُس شیرنی کے علاوہ جسے مَیں نے مارا تھا، بقیہ آدم خور گرجتے دھاڑتے رفوچکّر ہو گئے۔ صبح کا اجالا پھیلتے ہی ہم گڑھوں سے برآمد ہوئے۔ سب سے پہلے چام نے شیرنی کا معائنہ کیا۔ گولی اس کی کھوپڑی میں پیوست تھی۔ اس نے جس عورت کو گھسیٹا تھا، وہ مر چکی تھی۔
جارج نے بعد میں بتایا کہ اُس نے اپنے گڑھے کے قریب ایک شیر کو کھڑے دیکھا اور اُس پر گولی چلائی، لیکن شیر بچ کر بھاگ نکلا، جارج کے ملازموں کا خیال تھا کہ یہ وہی اندھا شیر ہو گا جو سب سے پہلے آیا تھا۔ بہرحال رات بھر جاگنے کا صلہ ایک شیرنی کی صورت میں ملا۔ ہم نے اس کی لاش سارے گاؤں میں گھمائی اور دریا پار رہنے والے بھی اسے دیکھنے کے لیے آئے۔ اب انہیں اطمینان تھا کہ جادوگر کے علاوہ بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو اِن درندوں کو مار سکتے ہیں۔
اگلے ہفتے میں کوئی حادثہ پیش نہ آیا۔ اِس دوران میں ہم نے آدم خوروں کے رہنے کی جگہ کا سرگرمی سے جائزہ لیا، مگر کامیابی نہ ہوئی۔ چام کا خیال تھا کہ وہ اکٹھے نہیں رہتے، بلکہ ان کے ٹھکانے الگ الگ ہیں اور وہ شکار کے وقت ایک جگہ جمع ہوتے ہیں۔ اس نے مجھے بتایا کہ ہند چینی کے جنگلی باشندے اِن درندوں کو ہلاک کرنے کے مختلف طریقے کام میں لاتے ہیں۔ اگر ہم بھی ان طریقوں پر عمل کریں، تو ناکامی کی کوئی وجہ نہیں۔
ان میں سے پہلا طریقہ یہ تھا کہ شیر کے مخصوص راستوں اور گزرگاہوں پر ایک گہرا گڑھا کھودا جاتا اور اس کے اندر لوہے کی نوکیلی سلاخیں گاڑنے کے بعد وہ گڑھے کا مُنہ بانسوں، شاخوں اور نرم مٹّی سے ڈھانپ دیتے۔ شیر ادھر سے گزرتے ہوئے اچانک گڑھے میں گِر جاتا اور لوہے کی سلاخیں اس کے جسم میں پیوست ہو کر شیر کا خاتمہ کر ڈالتیں۔ اِس میں شک نہیں کہ یہ طریقہ بہت اچھّا تھا، لیکن اکثر ایسا ہوتا کہ بعض ایسے افراد گڑھے میں گِر جاتے جنہیں اس کی موجودگی کا علم نہ ہوتا۔۔۔ چنانچہ لوگوں کو خبردار کرنے کے لیے گڑھے کے گرد و نواح میں درختوں کے تنے پر مخصوص نشان لگا دیے جاتے تھے۔
دوسرا طریقہ ‘کمر توڑ’ کہلاتا ہے۔ رسّوں کے ذریعے کِسی درخت پر لکڑی کا بڑا شہتیر لٹکا دیتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی کِسی جانور کی لاش باندھ دی جاتی ہے۔ شیر شکار کی تلاش میں ادھر آ نکلتا ہے اور لاش کو دیکھتے ہی اُسے چھُونے کی کوشش کرتا ہے۔
فوراً ہی اُوپر سے شہتیر گرتا ہے اور شیر کی کمر توڑ دیتا ہے۔
تیسرا طریقہ نہایت حیران کُن اور زود اثر ہے۔ ایک مضبوط کمان درخت سے باندھ دی جاتی ہے اور نہایت نوکیلے سرے کا ہلکا نیزہ اس میں اٹکایا جاتا ہے۔ یہ نیزہ ذرا سے اشارے پر بندوق سے نکلی ہوئی گولی کی طرح کمان سے چھُوٹتا ہے اور درندے کے جسم میں کھُب جاتا ہے۔ ایسی کمانیں شیر کی گزرگاہوں پر نہایت چابکدستی اور فن کارانہ مہارت سے لگائی جاتی ہیں اور جونہی شیر زمین پر پڑی ہوئی ڈور پر پَیر رکھتا ہے ڈور اُلجھ کر تن جاتی ہے اور نیزہ کمان سے آزاد ہو جاتا ہے۔ کمان کی اونچائی اور شیر سے اس کا فاصلہ طے کرنے کے بعد ہی پھندا لگایا جاتا ہے۔ نیزہ شیر کی گردن یا پیٹ میں جا لگے، تو فوراً مر جاتا ہے، لیکن ٹانگ یا کندھے پر لگے، تو فوراً نہیں مرتا، بلکہ کئی روز بعد سِسک سِسک کر جان دیتا ہے۔
یہ تمام ترکیبیں عموماً غیر آدم خور شیروں کے مارنے کے لیے آزمائی جاتی ہیں، لیکن آدم خوروں کے شکار میں انہیں زیادہ کام میں نہیں لایا جاتا، کیونکہ آدم خور اپنی ہوشیاری اور چالاکی کے باعث اِن پھندوں میں نہیں آتا۔ البتّہ آدمی اور عورتیں ان کے ذریعے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ چونکہ گاؤں تقریباً خالی پڑا تھا اور ہزاروں افراد دریا پار رہنے لگے تھے، اس لیے اِن تدبیروں پر عمل کرنے میں کوئی حرج نہ تھا۔ چام نے چند آدمیوں کو گڑھے کھودنے، کمانیں اور نیزے تیار کرنے اور درختوں پر شہتیر لٹکانے کی ہدایات دیں۔ دو دن کے اندر اندر ہم نے ان تمام مقامات پر، جہاں آدم خوروں کے نمودار ہونے کا امکان تھا، گڑھے تیّار کرا دیے، درختوں پر کمانیں لگوا دیں اور کئی شہتیروں کے مچان بھی بندھوا دیے جو ذرا سے اِشارے پر نیچے آن پڑتے تھے۔ چام نے تیسرے دن چند مَریل مویشی پکڑ کر ہلاک کیے اور ان کی لاشیں درختوں سے لٹکا دیں۔ اب ہم بے صبری سے نتائج کا انتظار کرنے لگے۔
سب سے پہلے اندھا شیر گڑھے میں گرا اور گرتے ہی مر گیا۔ کئی سلاخیں اس کے گردن کے پار ہو گئی تھیں اس راستے پر کچھ دُور ہٹ کر ایک اور گڑھا بھی بنا ہوا تھا، لیکن اس میں کوئی درندہ نہیں گرا، جس گڑھے میں اندھا شیر گرا تھا، اس کے چاروں طرف نرم نرم مٹّی پر پنجوں کے تازہ نشانات بھی دکھائی دیے جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ چاروں اِدھر سے گزر رہے تھے کہ یہ حادثہ پیش آیا، اپنے ساتھی کا یہ حشر دیکھ کر وہ یقیناً خبردار ہو گئے تھے، کیونکہ تین دن اور گزر گئے، دوسرا حادثہ نہ ہوا، دو مقامات پر کمانوں سے نیزے بھی نکل گئے تھے، لیکن آدم خوروں کو زخمی کرنے کے بجائے یہ نیزے سامنے کے درختوں میں پیوست تھے۔ غالباً چام نے فاصلے کا اندازہ غلط کیا تھا۔ جارج اِس صورتِ حال سے سخت نالاں تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ طریقے شکار کی رُوح کے خلاف ہیں۔ ہمیں کم از کم شیروں سے چوہوں اور گیدڑوں کا سُلوک نہیں کرنا چاہیے۔ یہ سُن کر مجھے بھی ندامت ہوئی اور مَیں نے چام سے کہہ دیا کہ درختوں سے شہتیر اتروائے اور گڑھوں کا مُنہ بند کر دے۔ ہم اپنی رائفلوں سے آدم خوروں کا مقابلہ کریں گے۔
اس روز دوپہر کے وقت ہم جنگل میں گھوم پھر کر ان جگہوں کا معائنہ کر رہے تھے جہاں ہم نے پھندے لگائے تھے کہ چام نے ہمیں ایک درخت کے پیچھے چھُپ جانے کا اشارہ کیا۔ ہم درخت کی آڑ میں کھڑے ہو گئے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ دو شیر اور ایک شیرنی آگے پیچھے چلتے ہوئے جھاڑیوں میں سے گزر رہے ہیں۔ وہ ہم سے تقریباً ڈیڑھ سو فٹ دُور تھے۔ مَیں جارج کی طرف مُڑا، وہ بے حس و حرکت کھڑا آدم خوروں کو دیکھ رہا تھا۔ مَیں نے اس کی پیشانی پر پسینے کے قطرے نمودار ہوتے دیکھے۔ چام زمین پر اُکڑوں بیٹھا تھا۔ اس نے خنجر کمر سے نکال کر ہاتھ میں پکڑ لیا۔ ہمارے دائیں ہاتھ‘V’ کی شکل کا بارہ فٹ لمبا اور دس فٹ گہرا خونیں گڑھا تھا جس کی تہہ میں تیز اور نوکیلی سلاخیں گڑی ہوئی تھیں۔
آدم خور ہماری موجودگی سے بے خبر ہو کر اس گڑے کی طرف آ رہے تھے جوں جوں وہ نزدیک آتے گئے، میرے دل کی دھڑکن تیز ہوتی گئی۔ اَب وہ ہم سے صرف تیس فٹ کے فاصلے پر تھے۔ دونوں شیر بڑی جسامت کے اور نہایت طاقت ور تھے۔ شیرنی اگرچہ قد میں چھوٹی تھی، لیکن جسمانی قوّت میں بھی وہ بھی شیروں کا مقابلہ کر رہی تھی۔ جارج نے یک لخت رائفل اٹھائی اور نشانہ لینے کے لیے تھوڑا سا پیچھے ہٹا اور کسی شاخ میں الجھ کر اس طرح گِرا کہ رائفل چل گئی۔ دھماکا ہوتے ہی آدم خور گرجے اور انہوں نے ہماری طرف دیکھا۔ مجھ پر اتنی دہشت طاری ہوئی کہ کوشش کے باوجود میں فائر نہ کر سکا۔ چشم زدن میں وہ تینوں چھلانگیں لگاتے ہوئے ہمارے سروں پر آ گئے۔ چام نے چیتے کی مانند جست کی اور اگلے شیر سے گتھّم گتھّا ہو گیا۔ مَیں نے دیکھا کہ اس نے شیر کی گردن پر خنجر سے وار کیا۔ شیر زخمی ہو کر گرجتا ہوا ایک طرف بھاگا اور گڑھے میں گِر گیا۔ اس نے چام کو بھی زخمی کر دیا تھا، لیکن ہزاروں داؤ پیچ جاننے والا ایک بازو کا یہ نڈر آدمی ذرا نہ گھبرایا۔ اس نے آگے بڑھ کر اپنا خون آلود خنجر دوسرے شیر کے پیٹ میں گھونپ دیا۔ جارج اَب سنبھل چُکا تھا۔ اس نے میرے ہاتھ سے رائفل چھینی اور دُور کھڑی ہوئی شیرنی کو نشانہ بنایا۔ دو گولیوں میں شیرنی ڈھیر ہو گئی۔ تیسرا شیر ابھی تک چام سے لپٹا ہوا تھا اور دونوں میں خونریز جنگ ہو رہی تھی۔ چام کا جسم لہولہان ہو چکا تھا، لیکن اس نے ہمّت نہ ہاری۔ جارج کو رائفل سے نشانہ لیتے دیکھ کر وہ چیخا: ‘صاحب! فائر نہ کرنا، مجھے اس لڑائی میں مزا آ رہا ہے۔‘
کاش! جارج اس کی بات نہ مانتا اور شیر کو گولی مار کر ختم کر دیتا، کیونکہ اگلے ہی ثانیے وہ دونوں لڑھک کر گڑھے میں جا گرے۔ چند لمحوں تک شیر کی چیخوں سے جنگل لرزتا رہا۔ تھوڑی دیر بعد ہم دونوں بھائیوں نے گڑھے میں جھانک کر دیکھا، بہادر چام آدم خور کی لاشوں میں دبا ہوا تھا۔ اور ایک سلاخ اس کی کمر کو چھیدتی ہوئی پیٹ سے نِکل آئی تھی۔ اس کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں اور چہرہ خون میں لت پت تھا لیکن نے اپنا خنجر ابھی تک مضبوطی سے پکڑ رکھّا تھا۔
٭٭٭
ماخذ:
http: //shikariyat.blogspot.com/2019/07/blog-post_91.html
سدا رام اور شیر
جب پہلے پہل میں نے اُسے دیکھا، تو وہ بہت کم عُمر تھا۔ غالباً ایک سال کا۔ چھوٹے سے ٹیریر کُتّے کی مانند اِدھر سے اُدھر دوڑ رہا تھا، لیکن تھا بہت پیارا اور خوبصورت۔ پہلی نظر ہی میں مجھے اس سے محبت ہو گئی۔ شاید اس لیے کہ اس میں شیروں والی کوئی بات نہ تھی۔ کم سِنی کے باعث وہ بے حد شریر اور چُلبلا تھا اور اُس کی یہی ادائیں مجھے بھا گئیں۔
اُن دنوں مَیں کالا گڑھ فارسٹ ڈویژن میں جو بھابر ترائی کے وسیع و عریض علاقے پر مشتمل ہے، ایک ایسے مُوذی شیر کے تعاقب میں پھر رہا تھا جسے مویشیوں کو اٹھا لے جانے کی بُری عادت پڑی ہوئی تھی۔ اس شیر کی ان غیر شریفانہ حرکتوں کے باعث گرد و نواح کے باشندے سخت نالاں اور ہراساں تھے اور اُن کی ہر ممکن کوشش اور تدبیر اِس بدمعاش شیر کو پھانسنے کے سلسلے میں بے اثر اور بے سُود ثابت ہو رہی تھی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ شیر نہایت چالاک اور مکّار تھا۔ کامل تین برس وہ مجھے جھکائیاں اور اڑن گھاٹیاں دیتا رہا اور کسی طرح ہاتھ نہ آیا۔ میں بھی اپنا چَین اور آرام حرام کر کے اُس کے پیچھے پڑا ہوا تھا۔ مگر وہ ہر مرتبہ جُل دے کر نِکل جاتا اور مَیں ہاتھ ملتا رہ جاتا۔ تاہم اِس تگ و دو اور آنکھ مچولی کو یہ فائدہ ضرور پہنچا کہ مَیں جنگل کی زندگی کے بعض ایسے گوشوں اور جانوروں کی فطرت کے ایسے رُخوں سے آگاہ ہو گیا جو پہلے میرے علم میں نہ تھے۔ اِس اعتبار سے مویشی اٹھا لے جانے والا یہ شیر میرے شکریے کا خاص طور پر مستحق ہے۔ سرما اور گرما کی کِتنی راتیں مَیں نے درختوں اور مچانوں پر اِس مُوذی کے انتظار میں کاٹیں، ان کا کوئی شمار نہیں، لیکن قدرت کی ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ یہ شیر بالکل اتفاقیہ طور پر کسی اور شکاری کی گولی کا نشانہ بن گیا۔ یہ شکاری در اصل سانبھر کی تلاش میں نکلا تھا اور اس نے شیر کو سانبھر سمجھ کر فائر کیا اور یُوں اس کا قِصّہ پاک ہوا۔
بہرحال اس کم سِن شیر کی داستان بیان کرتا ہوں جو میرا محبوب تھا، لیکن میرے ہی ہاتھوں مارا گیا۔ جیسا کہ مَیں نے بتایا، اُسے پہلے پہل اس وقت دیکھا تھا جب یہ ایک سال کا تھا۔ مَیں پکھرو ندی کے کنارے ایک محفوظ مقام بیٹھا تھا اور انتظار کر رہا تھا اُسی شیر کا جو کسی اور شکاری کے ہاتھوں سانبھر کے دھوکے میں مارا گیا۔ پکھرو ندی کچھ پڑی نہ تھی اور اس طرح کے بے شمار نالے ندّیاں کماؤں ہلز کے جنوبی حِصّے میں پھیلی ہوئی تھیں۔۔۔ ہمالیہ کی ترائی کے یہ جنگل جن کی شہرت اپنے جانوروں کے باعث دنیا بھر میں ہے، بلا شبہ شکاریوں کی جنت ہیں۔ ڈیڑھ ہزار میل لمبے یہ جنگل آسام، برما اور نیپال تک پھیلے ہوئے ہیں جن میں بے شمار وادیاں، پہاڑ، میدان اور دریا نظر آتے ہیں۔ گھنے جنگلوں کے اس لامتناہی سلسلے میں اَن گنت واقعات اور حادثات دفن ہیں۔ دوسری طرف ان کی سرحدیں کشمیر تک پہنچتی ہیں۔ اِس طرح ان کی کُل لمبائی ساڑھے تین ہزار میل سے بھی زائد ہے۔ ان کا مشرقی حِصّہ خصوصاً بے حد گھنا اور دشوار گزار ہے۔
میں اپنی کمیں گاہ میں چھپا ہوا شام کے اس حسین اور دل فریب منظر سے لُطف اندوز ہو رہا تھا، لیکن ساتھ ساتھ اس شیر کا انتظار بھی کر رہا تھا جس کے بارے میں شبہ تھا کہ ادھر سے ضرور گزرے گا۔ پکھرو ندی جنوب کی طرف بل کھاتی ہوئی اور سینکڑوں پیچ و خم کاٹتی شمال کی طرف پھیلے ہوئے عظیم پہاڑوں کے دامن میں گم ہو جاتی تھی۔ ڈوبتے سورج کی سنہری رقص کرتی ہوئی کرنوں میں تھوڑا سا پانی چاندی کے چمکتے ہوئے تار کی مانند نظر آتا تھا اور سورج۔۔۔ دور مغرب میں ایک پُر شکوہ پہاڑ کی چوٹی کے عین اُوپر چمک رہا تھا، لیکن لمحہ بہ لمحہ اس کا چہرہ سُرخی مائل ہوتا جاتا تھا۔
میرے چاروں طرف گہرا اور پُر ہیبت سکوت طاری تھا۔ جنگل کی فضا سُورج غروب ہونے کا منتظر ہوتی ہے اور جونہی سورج آخری سلام کر کے مغرب کے دامن میں منہ چھپا لیتا ہے، یک لخت فضا پرندوں اور چرندوں کی مِلی جُلی بولیوں سے کانپ اٹھتی ہے اور پھر جنگل کی زندگی بیدار ہونے لگتی ہے۔
سورج چھُپنے میں ابھی کچھ دیر تھی، لیکن شمال کی جانب سے آنے والی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے دَم بہ دَم تیز ہوتے جا رہے تھے۔ مَیں نے اپنے بدن پر کمبل اچھی طرح لپیٹ لیا اور رات کا سامنا کرنے کی تیاری کرنے لگا۔ اعشاریہ 470 کی دو نالی رائفل میرے سامنے پڑی تھی جسے میں پلک جھپکتے ہی اٹھا کر نشانہ لے سکتا تھا۔ پانی سے بھری ہوئی بوتل اپنے اور قریب رکھ کر میں نے اپنے اِس ‘گھونسلے‘ کو مزید محفوظ بنانے کے لیے چند شاخیں نئی ترتیب سے چنیں اور ابھی کارتوسوں کی پیٹی کو ہاتھ لگایا ہی تھا کہ ندی کے پار ملگجے اندھیرے میں یک لخت ہاتھیوں کی چنگھاڑ سنائی دی۔
میرا جسم جیسے پتھّر کا ہو گیا اور میں غور سے ندی کے پار تکنے لگا۔ ہاتھیوں کا ایک غول مجھ سے تقریباً ایک سو بیس فٹ دور ندی عبور کر رہا تھا، مگر خدا کا شکر کہ انہوں نے اِدھر کا رُخ نہ کیا، جدھر مَیں بیٹھا تھا اور چونکہ ہوا اُن کی طرف سے میری جانب چل رہی تھی، اس لیے اُن کے جسموں سے اٹھتی ہوئی بو میرے نتھنوں تک آسانی سے پہنچ رہی تھی۔ ہاتھوں کی بصارت اگرچہ زیادہ تیز نہیں ہوتی۔ تاہم سونگھنے کی حس بڑی قوی ہے اور کچھ عجیب نہ تھا کہ اگر ہوا کا رُخ ان کی طرف ہوتا، تو وہ ضرور طیش میں آ کر ادھر ہی آ جاتے۔
ایک ایک کر کے تمام ہاتھی اس پار آ گئے اور لمبی گھاس میں ایک دوسرے کے قریب قریب کھڑے ہو کر سونڈیں ہلانے لگے۔ میں نہایت دلچسپی اور دِل جمعی سے اُن کی یہ حرکتیں دیکھتا رہا۔ کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ ہاتھیوں پر کیا آفت ٹوٹی کہ انہوں نے ندّی پار کی اور اس کنارے پر آ کر رُک گئے۔ پھر مَیں نے دیکھا کہ وہ آپس میں کھیل رہے ہیں۔ اُن کا کھیل کیا تھا، یہی کہ وہ اپنی سونڈ میں ندّی کا پانی اور کیچڑ بھرتے اور ایک دوسرے پر اُچھالتے۔ دیر تک وہ اِسی طرح شرارتیں کرتے رہے اور میں اِس تماشے میں ایسا محو ہوا کہ اپنے تن بدن کا ہوش بھی نہ رہا۔ معاً یوں محسوس ہوا جیسے میری ران میں کسی کیڑے نے کاٹا ہے یا سوئی سی چُبھی ہے۔ اس وقت میں مہاتما بُدھ کی طرح گویا آسن جمائے اس انداز میں بیٹھا تھا کہ ذرا حرکت کرتا تو جسم سے لپٹا ہوا کمبل کھُل جاتا، چنانچہ مَیں نے کوئی حرکت کیے بغیر آنکھیں جھکا کر اپنی ران کی طرف دیکھا اور پھر رُوح کھینچ کر حلق میں آ گئی۔ سیاہ رنگ کا ایک ناگ بالکل میرے آگے پڑے ہوئے کمبل کے ایک حِصّے پر بیٹھا پھن پھیلائے مستی میں جھُوم رہا تھا۔ اس کی زبان بار بار باہر نکلتی اور سُرخ سُرخ آنکھوں سے چنگاریاں برستی نظر آتی تھیں۔ اِس کوبرے کو اپنے اتنے قریب پا کر میری جو حالت ہوئی، وہ بیان سے باہر ہے۔ جسم اور دماغ کی ساری قوت بے کار ہو گئی اور سوائے اس کے کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ قضا آن پہنچی۔
مَیں جنگلی سانپوں کے بارے میں بہت کچھ جانتا تھا اور طرح طرح کے قِصّے کہانیاں بھی سُںی تھیں جب لوگ سانپ کی دہشت کا ذکر کر کے خوف زدہ ہوا کرتے تھے، تو میں اُن کی بزدلی پر ہنسا کرتا تھا، مگر اب احساس ہوا کہ سانپ کی دہشت کیا ہوتی ہے۔ بہرحال اتنا ضرور تھا کہ اگر بے حس و حرکت بیٹھا رہوں، تو شاید جان بچ جائے اور سچ پوچھیے تو خون ہی خشک ہو چکا تھا۔ جسم میں حرکت کرنے کی قوت ہی باقی نہ رہی تھی۔ میں پتھّر کے بے جان بت کی مانند اُسی طرح بیٹھا رہا۔
ایک ایک لمحہ۔۔۔ ایک ایک ثانیہ، صدیاں بن کر مجھ پر گزر رہا تھا۔ میرا جسم بالکل سُن ہو چکا تھا، کوبرا اُسی طرح میرے قریب بیٹھا جھُومتا رہا۔ اس کی لمبائی دس فٹ کے لگ بھگ تھی۔ یکایک وہ اور آگے بڑھا، اب میری ٹانگوں پر اُس کا پورا بوجھ پڑ رہا تھا۔ یہ بوجھ میرے لیے ناقابل برداشت تھا۔ کہہ نہیں سکتا کہ میں نے اپنی چیخ کس طرح روکی۔ غالباً قدرت کو ابھی میری زندگی منظور تھی۔ میں نے درد کی شدّت سے آنکھیں مُوند لیں۔ سانپ جا چکا تھا، لیکن میرا چہرہ پسینے سے تر تھا اور نہ صرف چہرہ بلکہ پورا جسم اور کپڑے بھی پسینے میں بھیگ چکے تھے۔ میں موت کی سرحدوں کو چھُو کر ایک بار پھر زندگی کی طرف لوٹ آیا تھا۔
ندّی کے مغربی کنارے پر کچھ دُور بانس کے درختوں کا ایک گھنا جھُنڈ شمال کی جانب میلوں تک پھیلا ہوا تھا۔ ہاتھی اس جھُنڈ میں چلے گئے تھے اور اب بانس کے نرم نرم پودے چبا کر اپنی بھوک مٹا رہے تھے۔ گاہ گاہ درختوں کے ٹوٹنے اور انہیں روندے جانے کی آوازیں بھی سنائی دیتی تھیں۔ بانس کے جنگلوں اور گنّوں کے کھیتوں کو اجاڑنا ہاتھیوں کا من پسند شغل ہے اور ایک بار وہ اس مشغلے میں لگ جائیں، تو پھر جنگل کی خیر نہیں۔۔۔ میں شیر کی طرف سے اب مایوس ہو چکا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ جنگل کے جس حصّے میں ہاتھی داخل ہو جائیں، وہاں اوّل تو شیر موجود ہی نہیں ہوتا اور اگر ہو بھی تو راستہ چھوڑ کر کسی اور حصے میں چلا جاتا ہے۔ بعض اوقات ہاتھی جنگل کے بادشاہ کا احترام کرتے ہوئے خود ہی اُس طرف نہیں جاتے جدھر وہ آرام کر رہا ہو۔
ہاتھی اور شیر کی جنگ جنگل کی زندگی میں کبھی کبھار ہی دیکھنے میں آتی ہے، ورنہ دونوں جانور ایک دوسرے کا سامنا کرتے ہوئے کتراتے ہیں اور بہت کم ایسے خوش نصیب لوگ ہیں جو اپنی آنکھوں سے ان کو لڑتے دیکھیں۔ دھول کنڈ کے کسی شیر کا قصّہ میں نے سنا تھا کہ اس نے ایک کم سن کو ہاتھی ہلاک کر دیا تھا۔ اس ہاتھی کا مرنا تھا کہ جیسے حشر برپا ہو گیا۔ دیکھنے والے کہتے ہیں کہ ہاتھیوں میں اتنا اشتعال پھیلا کہ خدا کی پناہ، پہلے تو انہوں نے جنگل کا وہ حصّہ برباد کیا جہاں یہ واردات ہوئی تھی، پھر اُس شیر کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے جس کے تیز پنجوں اور نکیلے دانتوں نے ہتھنی کے بچّے کی کھال اُدھیڑ دی تھی۔ شیر اس صُورتِ حال سے سخت پریشان ہوا اور دھول کنڈ سے نکل کر مورگتی جنگل میں پناہ لی۔ مگر غیظ و غضب میں بھرے ہوئے ہاتھی وہاں بھی پہنچ گئے۔ اب شیر کے لیے مقابلہ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا، لیکن بے سُود۔ ہاتھیوں کے سامنے اس کی کوئی پیش نہ گئی اور دیکھنے والوں کا بیان ہے کہ انہوں نے شیر کے ٹکڑے اڑا دیے تھے۔
اِس قِصّے کے علاوہ ایک ہاتھی اور دو شیروں کی لڑائی کا ایک اور ناقابلِ فراموش واقعہ میرے علم میں ہے۔ یہ واقعہ اُس زمانے میں بہت مشہور ہوا تھا اور ہندوستان کے اکثر اخباروں نے اس کی تفصیلات بھی شائع کی تھیں۔ بعد ازاں شہرہ آفاق شکاری جم کاربٹ نے بھی اپنی کتاب جنگل لور (JUNGLE LORE) میں اس کا ذکر کیا۔ یہ لڑائی ترائی بھابر کے علاقے میں ایک جگہ تانک پُورہ کے مقام پر ہوئی تھی جس میں شیروں نے ہاتھی کو مار ڈالا تھا۔ تانک پُورہ کے دو مچھیروں نے اپنی آنکھوں سے یہ جنگ شروع سے آخر تک دیکھی جب کہ وہ شام کے وقت مچھلیاں پکڑ کر گاؤں واپس آ رہے تھے۔
ایک نالے کے قریب سے گزرے ہوئے ان مچھیروں نے پرلی طرف لمبی لمبی گھاس میں دو شیروں کو کھڑے دیکھا۔ مچھیروں کی سِٹّی گم ہو گئی اور وہ جلدی سے جھاڑیوں میں چھُپ گئے۔ حالانکہ ان کا اور شیروں کا درمیانی فاصلہ ایک سو بیس فٹ سے بھی زائد تھا۔ مچھیروں کا ارادہ تھا کہ جب شیر یہاں سے چلے جائیں گے، تو وہ جھاڑیوں سے باہر نکلیں گے۔ چند لمحے بعد انہوں نے دیکھا کہ نالے کے اِس کنارے سے جدھر یہ مچھیرے چھُپے ہوئے تھے، ایک قوی ہیکل ہاتھی جھُومتا ہوا برآمد ہوا۔ اس کے بیرونی دانت خاصے بڑے تھے۔ مچھیروں نے اس ہاتھی کو اپنے قریب پایا، تو تھر تھر کانپنے لگے کیونکہ وہ اسے بخوبی پہچانتے تھے اور یہ ہاتھی اپنی بد دماغی اور مستی کے باعث اُس وقت تک کئی افراد کو ہلاک کر چکا تھا۔ وہ اپنے علاقے میں کسی دوسری ذی رُوح کو قدم رکھنے کی اجازت نہ دیتا اور اگر کوئی ایسا کرتا تو اس کی سزا موت تھی۔ اس ہاتھی نے ابھی چند روز پہلے طیش میں آ کر ایک فارسٹ بنگلا بھی توڑ پھوڑا ڈالا تھا۔
مست ہاتھی نے جب نالے کے پرے کنارے پر شیروں کو سینہ تانے کھڑے دیکھا تو جوش میں آ کر سونڈ اٹھائی اور بُری طرح چنگھاڑا۔۔۔ گویا توپ کی آواز تھی جس سے جنگل کی زمین اور فضا کانپ اٹھی۔ ہاتھی کا خیال تھا کہ شیر اُس کی ایک ہی للکار سن کر راہ فرار اختیار کریں گے، مگر ایسا نہ ہوا۔ جواب میں دونوں شیر بھی باری باری غرّائے اور گرجے اور ان کی آنکھیں شعلے برسانے لگیں۔ یہ دیکھ کر ہاتھی کے غیظ و غضب کی انتہا نہ رہی وہ اپنی ہولناک چنگھاڑ سے آسمان پر اٹھاتا ہوا، شیروں کی طرف بڑھا اور اُدھر شیر بھی پیچھے ہٹنے کے بجائے ہاتھی کی طرف لپکے۔ پہلے شیر نے جست کی اور ہاتھی کی پشت پر چڑھ گیا اور اپنے پنجے اس کے بدن میں گاڑ دیے۔ ہاتھی نے پشت پر جمے ہوئے شیر کو سونڈ میں پکڑنا چاہا، مگر پہلے شیر نے دوبارہ اس کی سونڈ پر حملہ کیا۔ ہاتھی لٹّو کی مانند چکّر کھانے لگا۔ اس کی لرزہ خیز چنگھاڑ اور شیروں کی ہیبت ناک گرج سے زمین لرز رہی تھی۔ درختوں پر بسیرا کرنے والے پرندے گھبرا گھبرا کر اپنے اپنے آشیانوں سے نکلے اور آسمان پر پرواز کرنے لگے۔ مچھیروں نے دیکھا کہ بھاگنے کا موقع اچھا ہے، تو جھاڑیوں سے چھپتے چھپاتے نکلے اور اندھا دھند تانک پورہ کی طرف دوڑے لیکن تانک پورہ میں شیروں کے گرجنے اور ہاتھی کے چنگھاڑنے کی آوازیں مچھیروں سے پہلے پہنچ چکی تھیں اور چونکہ یہ بستی خاصی بلندی پر تھی اور وہاں سے جنگل کا منظر بخوبی نظر آتا تھا، اس لیے سبھی لوگ ایک جگہ جمع ہو کر اس جنگ کو دیکھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس اثنا میں مچھیرے بھی ہانپتے کانپتے وہاں پہنچ گئے اور انہوں نے اعلان کیا کہ دو شیروں نے مَست ہاتھی پر حملہ کر دیا ہے اور لڑائی زور شور سے ہو رہی ہے۔
تانک پورہ کوئی چھوٹا گاؤں نہ تھا، بلکہ خاصا بڑا قصبہ تھا جس کی آبادی کئی ہزار نفوس پر مشتمل تھی۔ یہاں پولیس کی چوکی بھی قائم تھی اور ایک ریٹائرڈ انگریز افسر مسٹر ماتھسن بھی رہتا تھا جس کا بنگلا اس مقام سے قریب ہی تھا جہاں لڑائی ہو رہی تھی۔
یکایک ان لوگوں کو محسوس ہوا کہ ہاتھی اور شیروں کی مِلی جُلی آوازیں لمحہ بہ لمحہ نزدیک آتی جا رہی ہیں۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ لڑتے لڑتے تانک پورہ تک آن پہنچے ہیں۔ اب کیا تھا، پُوری بستی میں بھگدڑ مچ گئی اور ہر شخص اپنے گھر میں پناہ لینے کے لیے دوڑا۔ سُورج غروب ہو چکا تھا اور رات کی تاریکی سرعت سے پھیلتی جا رہی تھی۔ لوگوں نے مشعلیں روشن کر دیں اور پولیس کو مدد کے لیے بلایا۔ پولیس نے ان درندوں کو تانک پورہ سے بھگانے کے لیے ہوائی فائر کیے، لیکن بے سود کئی گھنٹے گزر گئے۔ چیخیں اٹھتی رہیں اور جنگل اُسی طرح لرزتا رہا۔ مسٹر ماتھسن کا بیان ہے کہ لڑائی ساری رات ہوتی رہی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ فریقین میں سے کوئی بھی ہار ماننے کے لیے تیار نہیں۔ سورج کی پہلی کرن نمودار ہوتے ہی گاؤں والے دھڑکتے دلوں کے ساتھ بلند پہاڑی پر جمع ہوئے۔ اب انہیں صرف شیروں کے گرجنے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ پھر انہوں نے کئی سو فٹ نیچے دور ایک پہاڑی کے دامن میں عظیم الجثّہ ہاتھی کو پڑے ہوئے دیکھا۔ وہ غالباً مر چکا اور دونوں شیر، جو خود بھی خون میں لت پت تھے اور بری طرح نڈھال، قریب ہی جھاڑیوں میں بیٹھے فاتحانہ انداز میں گرج رہے تھے۔ تھوڑی دیر بعد شیروں نے نگاہیں اٹھا کر پہاڑی پر کھڑے لوگوں کو دیکھا اور پھر اپنے اپنے راستے پر لنگڑاتے ہوئے چلے گئے۔
بعد ازاں ایک ریونیو آفیسر نے ہاتھی کی لاش کا معائنہ کیا۔ اس کا بیان ہے:
’شیروں نے ہاتھی کو اس بُری طرح نوچا اور چیرا پھاڑا کہ دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ وہ خون کے جمے ہوئے تالاب میں پڑا تھا۔ اس کی سونڈ جسم سے الگ ہو چکی تھی دونوں کان چرے ہوئے اور اُدھڑے ہوئے تھے۔ پیٹ سے انتڑیاں اور غلاظت نکل کر چاروں طرف بکھر گئی تھی۔ شیروں نے اُس کی دونوں آنکھیں بھی نکال ڈالی تھیں۔‘
شیروں کا بعد میں کوئی سراغ نہ مل سکا۔ نامعلوم مر گئے یا زندہ بچے، تاہم انہوں نے اس مَست ہاتھی سے تانک پورہ کو نجات دلا دی۔ یہ در اصل نر و مادہ کا جوڑا تھا اور چونکہ یہ اُن کے ملاپ کا موسم تھا جس میں ہاتھی نے مداخلت کی تھی، اس لیے وہ اسے سزا دینے پر تُل گئے۔ ویسے بھی اس قوی ہیکل ہاتھی کو ہلاک کرنا اکیلے شیر کے بس کی بات نہ تھی۔ اس کے بیرونی دانتوں کا وزن ہی نوّے پونڈ سے زائد تھا۔ اس سے اس کی جسامت کا اندازہ کر لیجیے۔
اس لمبی تمہید کے بعد میں اپنی داستان کی طرف آتا ہوں۔ میں کہہ رہا تھا کہ بانس کے جنگل میں ہاتھیوں کی ڈار کے گھسنے سے مجھ پر مایوسی کی حالت طاری ہو گئی۔ اس کا مطلب یہی تھا کہ میں جس شیر کی تلاش میں ہوں، وہ اس جگہ موجود نہیں۔ میں نے کمین گاہ سے نکل کر اپنے کیمپ تک جانے اور آرام سے سونے کا ارادہ کر لیا اور اس مقصد کے لیے اپنا سامان جمع کرنے لگا۔ ابھی تک میرے کانوں میں درختوں کے ٹوٹنے اور پَودوں کو روندنے کی مدھّم آوازیں آ رہی تھیں۔۔۔ مگر۔۔۔ یک لخت یہ آوازیں یوں تھم گئیں جیسے کبھی گونجی ہی نہ تھیں۔ جنگل کی فضا پر ایک عجیب اور پُر اسرار سکوت طاری ہو گیا۔ نہ کوئی پرندہ بولتا تھا اور نہ کسی چرندے کے حرکت کرنے کی آواز آتی تھی۔
یہ سکوت جو آنے والے کسی خطرے کی صریحاً نشان دہی کرتا تھا، چند منٹ ہی رہا اور پھر میں نے سنا کہ ہاتھی اپنی سونڈیں چابک کی مانند لپیٹ لپیٹ کر زمین پر مار رہے ہیں۔ اس طرح اُن کے سانس کے ساتھ جو آواز نکلتی تھی وہ اس بات کا ثبوت تھی کہ انہوں نے اپنے آس پاس شیر کی موجودگی محسوس کر لی ہے۔ میں پوری طرح ہوشیار اور چوکنّا ہو گیا۔ میرا اندازہ غلط تھا، فوراً ہی شیر کی طویل غرّاہٹ بلند ہوئی جس سے فضا تھرّا اٹھی۔ آواز نر کی تھی اور پوری قوت سے نکل رہی تھی لیکن مجھے اندازہ نہ ہو سکا کہ آ کدھر سے رہی ہے اور شیر حقیقت میں ہے کس طرف۔۔۔ جنگل میں اس قسم کی آوازیں شکاری کو اکثر دھوکا دیتی ہیں اور بعض اوقات اناڑی یا مبتدی قسم کے شکاری ان کے فریب میں مبتلا ہو کر بے خبری میں درندے کا کھاجا بن جاتے ہیں۔ آواز کی صحیح سمت کا سراغ لگانا خاصا مشکل فن ہے جو اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتا جب تک شکاری اپنی زندگی کا خاصا بڑا حصّہ جنگلوں میں بسر نہ کرے۔ ایک عام شخص شیر یا چیتے کی قریب سے آتی ہوئی آواز سن کر دہشت کے مارے پیلا پڑ جاتا ہے۔ اُسے بالکل یوں محسوس ہوتا ہے جیسے درندہ چند گز کے فاصلے پر جھاڑیوں میں چھُپا بیٹھا ہے، لیکن حقیقت میں وہ وہاں سے کئی فرلانگ یا میل بھر دُور ہوتا ہے۔ اسی طرح مشرق کی جانب سے سنائی دینے والی آواز حقیقت میں مغرب سے آتی ہے۔ بات یہ ہے کہ قدرت نے جس طرح انسان کو اپنی جان کی حفاظت کے گر سکھائے ہیں، اعلیٰ ذہنی و جسمانی صلاحیتیں ودیعت کی ہیں، اسی طرح اس نے جانوروں کی حفاظت کے لیے بھی کچھ عجیب داؤ پیچ اور نرالے طور طریقے وضع کر دیے ہیں۔ درندوں کا پیٹ چونکہ جنگل کے دوسرے جانوروں کے لہو اور گوشت ہی سے بھرتا ہے اور وہ گھاس پات کھا نہیں سکتے، اس لیے ان کی غذا کا انتظام بھی قدرت نے اپنے ذمّے لے رکھا ہے اور شکار پانے میں سب سے بڑی مدد درندے کو اپنی آواز ہی سے ملتی ہے۔ مثال کے طور ایک سانبھر یا کالا ہرن شیر کی آواز سنتے ہی چوکڑیاں بھرتا ہوا جنگل کے اس حصّے کی طرف جاتا ہے جسے وہ اپنے لیے محفوظ سمجھتا ہے۔ سانبھر نے شیر کی آواز سے یہ اندازہ کیا ہے کہ وہ مشرق کی طرف ہے، لیکن آواز اُسے دھوکا دیتی ہے اور ٹھیک اس جگہ جا نکلتا ہے جہاں شیر اُس کی آمد کا منتظر ہے۔
بہرحال شیر دوبارہ گرجا اور اب اس کی آواز اس علاقے کی سب سے اونچی پہاڑی سے ٹکرا کر واپس آئی اور یوں سنائی دیا جیسے چاروں طرف شیر ہی شیر گرج رہے ہیں۔ چار پانچ منٹ تک وہ مسلسل بولتا رہا اور میں ہر بار آواز صحیح سمت معلوم کرنے کی کوشش کرتا آخر اتنا اندازہ ہوا کہ وہ شمال مشرق میں ہے اور یہ اندازہ کرتے ہی میری انگلیاں رائفل پر سختی سے جم گئیں۔۔۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ شیر ندّی کو عبور کرنے کے ارادے سے اسی طرف چلا آ رہا ہے جہاں میں اُس کے انتظار میں چھپا بیٹھا تھا۔
ہاتھیوں کی لگاتار چنگھاڑ سن کر شیر نے اپنا رخ بدل لیا تھا اور اور اب اُس کا میری طرف آنا ممکن نہ تھا۔ میں دل ہی دل میں ہاتھیوں کو کوسنے لگا کہ ان کی وجہ سے یہ رات بھر اکارت گئی اور اتنی محنت خواہ مخواہ ضائع ہوئی۔ اب میں اس انتظار میں تھا کہ ہاتھی جنگل میں ذرا اور دور چلے جائیں تو میں یہاں سے نکلوں اور کیمپ میں جا کر آرام کروں، کیونکہ طبیعت سخت بدمزہ ہو چکی تھی، لیکن یہ آرزو بھی پُوری نہ ہوئی۔ ہاتھیوں نے گویا طے کر لیا تھا کہ وہ اپنی جگہ سے نہ ہلیں گے اور اس کی معقول وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ وہ ابھی تک اپنے آس پاس شیر کی بُو پا رہے تھے۔
رات کے آٹھ بج گئے اور معاملہ جُوں کا تُوں تھا۔ مشرقی پہاڑی کے عقب سے چاند اپنی تمام رعنائیوں کو جلو میں لیے جلوہ گر ہوا اور آہستہ آہستہ اوپر اٹھنے لگا۔ قریب ہی کسی درخت سے کوئی پرندہ خوشی سے چہچہایا۔۔۔ ٹوک۔۔۔ ٹوک۔۔۔ ٹوک۔۔۔ ٹوک۔۔۔ اس کے ساتھی ہی دفعتاً ایک سانبھر چلّا اٹھا: دھانک۔۔۔ دھانک۔۔۔ دھانک۔۔۔ سانبھر کی آواز خطرے کا الارم بن کر جنگل میں گونج رہی تھی۔ وہ دیر تک اسی طرح چیختا اور جنگل کے دوسرے باسیوں کو بتاتا رہا کہ خطرہ سر پر آن پہنچا، اپنی اپنی حفاظت کے لیے کمربستہ ہو جاؤ۔ چند لمحوں کے لیے سانبھر چُپ ہوا، تو شمال مشرق سے خوفزدہ چیتل پکار اٹھے: تاؤں۔۔۔ تاؤں۔۔۔ تاؤں۔۔۔ ان کے ساتھ ہی کوئی اور جانور اپنی بھاری، لیکن بھرّائی ہوئی آواز میں تال دے رہا تھا: ہا۔۔۔ ہا۔۔۔ ہا۔۔۔ ہاہاہا۔ پھر سُؤر بھی بول اٹھے اور مَیں نے ان میں سے ایک کو بے تحاشا ندی کی طرف بھاگتے دیکھا۔ سؤر جس انداز میں بھاگا تھا، وہ انداز مجھے خبردار کر دینے کے لیے کافی تھا۔ یقیناً شیر اسی حِصّے میں آن پہنچا ہے۔ چاند کی تیز روشنی میں مجھے ندّی اور اُس کا نواحی علاقہ بخوبی نظر آ رہا تھا اور میں اچھی طرح دیکھ سکتا تھا کہ جنگلی سؤر ندی کے عین بیچ میں پناہ لیے ہوئے ہے۔ پھر چند اور سؤر چیختے چلّاتے جھاڑیوں میں سے برآمد ہوئے اور اپنے پیش رَو کی تقلید میں ندی کی طرف لپکے اور جلد جلد گدلے پانی میں اُتر گئے، بقیہ اُس طرف بھاگے جدھر چار فٹ اونچی گھاس اُگی ہوئی تھی۔
مجھ سے تیس فٹ کے فاصلے پر ایک بڑے سے سیاہ رنگ کے چٹانی پتھّر کی ایک محفوظ آڑ میں بھینس کا وہ بچھڑا بیٹھا اطمینان سے جُگالی کر رہا تھا جِسے میں نے شیر کو پھانسنے کے لیے باندھا تھا۔ جنگلی سؤر عام حالات میں اُسے دیکھ پاتے، یا اُس کی بو پا لیتے، تو کبھی جِیتا نہ چھوڑتے، مگر اس نازک وقت میں انہوں نے بچھڑے کی طرف کوئی توجہ نہ دی اور اپنی جان بچانے کی فکر کرتے رہے۔ ندّی کے بیچوں بیچ پناہ لینا اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا تھا کہ سؤروں نے کسی دو ٹانگوں والے درندے کی اپنا تعاقب کرتے دیکھ لیا ہے اور یہ ٹانگوں والا درندہ شیر کے سوا کون ہو سکتا ہے۔ سُؤروں کی ہوشیاری دیکھیے کہ انہوں نے پناہ لینے کے لیے وہ جگہ منتخب کی جہاں پانی تھا اور پھر چاند کی روشنی اچھی طرح ندّی پر پڑ رہی تھی۔ انہوں نے سوچا ہو گا کہ شیر جنگل کے اندھیرے سے نکل کر روشنی میں آنے کی جرأت نہ کرے گا اور اگر روشنی میں آ جائے، تو ندّی کے اُترنے کو اُس کا جی نہ چاہے گا۔
یکایک شیر پھر بولا اور اس مرتبہ چیتل ہرنوں کا ایک چھوٹا سا گروہ میرے دائیں جانب سے برآمد ہوا اور قلانچیں بھرتا ہوا دوسری جانب گھنی گھاس میں غائب ہو گیا۔ یہ چیتل اِس برق رفتاری سے دوڑے کہ میں حیران رہ گیا۔ اب جنگل کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک اُودھم مچ گیا کہ بادشاہ سلامت اپنا پیٹ بھرنے کے لیے آن پہنچے اور رعایا کے کسی نہ کسی کمزور فرد کا خون چوس کر ہی ٹلیں گے۔
مَیں اپنی جگہ پوری ہوشیاری اور ذہنی بیداری کے ساتھ بیٹھا شیر کی ایک جھلک دیکھنے کا منتظر تھا، مگر شاباش ہے اس درندے کے استقلال اور صبر و استقامات کو کہ بھُوکا ہونے کے باوجود اور ارد گرد شکار کی کثرت دیکھنے کے بعد بھی اُس نے احتیاط کا دامن چھوڑنا پسند نہ کیا۔ وہ پھُونک پھُونک کر قدم بڑھا رہا تھا۔ اب میں نے اپنی پشت پر ایک عجیب سی سرسراہٹ سُنی۔ مڑ کر دیکھنے کا موقع نہ تھا ضرورت، کیونکہ میری ذرا سی بے احتیاطی اور غیر ضروری جنبش شیر کو خبردار کر دینے کے لیے کافی تھی۔ غالباً کوئی چھوٹا جانور تھا۔ تاہم میں نے گردن موڑ کر دیکھا، ابتدا میں کچھ نظر نہ آیا، لیکن اس کے حرکت کرنے کی آواز کانوں میں برابر آ رہی تھی، پھر وہ اُچھل کر میرے سامنے کسی قدر دائیں جانب آ گیا، مگر پلک جھپکتے ہی فوراً گھاس میں جا چھپا۔ مَیں اس کی جسامت کا اندازہ نہ کر سکا۔ ممکن ہے خرگوش ہو یا کوئی سیہہ۔ خیال آیا شاید ریچھ ہو، لیکن ایسے وقت میں کسی اکیلے دُکیلے ریچھ کا وہاں آ نکلنا ممکن نہ تھا۔ بہرحال یہ جانور کوئی بھی ہو، تھا نہایت ہوشیار اور چالاک، کیونکہ وہ میری موجودگی سے باخبر ہو چکا تھا اور اپنے آپ کو ظاہر کیے بغیر آہستہ آہستہ گھاس میں حرکت کرتا ہوا ندّی کی طرف بڑھ رہا تھا۔
جنگل کے تمام جانوروں کی فطرت یہ ہے کہ وہ اپنی حفاظت سے کبھی غافل نہیں رہتے۔ درندے، چرندے ہمیشہ تاریک اور محفوظ مقامات ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چرندے اس لیے کہ اپنی جان بچائیں اور درندے اس لیے کہ دوسروں کو شکار کریں۔ جانوروں کی اِس اُچھل پھاند اور سرگرمیوں سے میں تنگ آ چکا تھا اور بڑی بے چینی سے شیر کا منتظر تھا کہ وہ کب کھُلی جگہ قدم رکھتا ہے، لیکن ایک گھنٹہ اور گزر گیا، اُس کا کہیں پتہ نہ تھا۔ اب میرے اعصاب جواب دینے لگے اور طبیعت بُری طرح جھنجھلانے لگی۔ غالباً اس کی وجہ یہ تھی کہ گھاس میں پھُدکتا ہوا وہ جانور ابھی تک میری نگاہوں سے اوجھل تھا اور میں جاننا چاہتا تھا کہ یہ ہیں کون ذاتِ شریف جو اِس پُر اسرار انداز میں ندّی کی جانب تشریف لے جا رہے ہیں۔ ایک دو ثانیے کے لیے گھاس میں سے اُس کی جھلک دکھائی دی، مگر صحیح سے اندازہ نہ ہوا کہ وہ کس جسامت کا ہے اور جانوروں کے کس گروہ سے تعلق رکھتا ہے۔
میرے لیے مزید انتظار کرنا دشوار ہو گیا۔ ہاتھی اب خاصی دُور جا چکے تھے اور شیر کے اِدھر آنے کا کوئی امکان نہ تھا، چنانچہ میں نے اپنا سامان سمیٹنا شروع کیا اور سب کچھ اپنے تھیلے میں بند کر کے اٹھ کھڑا ہوا، لیکن میری نگاہیں ساٹھ فٹ کے فاصلے پر جمی ہوئی تھیں جہاں لمبی لمبی گھاس زور زور سے ہل رہی تھی اور کچھ اس قسم کی آواز اُٹھنے لگی تھی جیسے کُتیا کے پلّے آپس میں کھیل رہے ہوں، اور پھر گھاس میں سے چار جانور برآمد ہوئے۔ تین چھوٹے چھوٹے اور ایک بڑا۔۔۔ چونکہ وہ ایسی جگہ کھڑے تھے جہاں چاند کی روشنی اچھی طرح نہیں پہنچ رہی تھی، اس لیے پہلی نظر میں یوں معلوم ہوا کہ یہ لکڑبگے ہیں اور غالباً کوئی مادہ اپنے تین بچّوں کو لے کر مٹر گشت کے لیے نکلی ہے۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ لکڑبگے ایسے تو نہیں ہوتے۔۔۔ اُن کی چال ہی کچھ اور ہوتی ہے۔۔۔ ریچھ بھی نہیں۔۔۔ اور یہ نہ سُور ہیں۔۔۔ چند ثانیوں کے لیے میرا ذہن ماؤف ہو گیا۔۔۔ جانور میرے سامنے تھے اور میں انہیں شناخت نہیں کر سکتا تھا۔۔۔ اب مَیں نے خوب غور سے دیکھنا شروع کیا اور جونہی وہ چاروں کسی قدر کھُلی جگہ میں آئے جہاں روشنی تھی تو بے اختیار میرے منہ سے ہلکی سی چیخ نکل گئی۔ خدا کی پناہ! میں بھی کتنا احمق ہوں کہ انہیں پہچان نہ سکا۔ یہ نہ چرخ تھے، نہ ریچھ، نہ خرگوش۔۔۔ نہ جنگلی سُؤر۔۔۔ بلکہ ایک خوبصورت اور جوان شیرنی تھی۔ جو اپنے تین بچّوں کو لے کر جنگل میں تفریح کر رہی تھی۔
میں کئی منٹ تک بُت بنا کھڑا ان بچّوں اور شیرنی کو دیکھتا رہا اور اپنے آپ کو مطلق بھُول گیا۔ شیرنی نہایت سکون سے بیٹھی تھی اور تینوں بچّے کبھی آپس میں کھیلتے اور کبھی اپنی ماں سے لپٹنے لگتے۔ مَیں نے دیکھا، ان میں سب سے چھوٹا، بچہ بے حد شریر ہے وہ نہ صرف اپنے بڑے بھائیوں سے کشتی لڑتا، بلکہ ماں کو بھی بُری طرح تنگ کر رہا تھا جب وہ اس کی پشت پر چڑھنے کی کوشش کرتا تو شیرنی ہلکا سا ہاتھ مار کر اُسے پرے پھینک دیتی۔ پندرہ بیس منٹ یہی تماشا ہوتا رہا۔ آخر شیرنی وہاں سے اٹھی اور آہستہ آہستہ چلتی ہوئی میری طرف آنے لگی۔ مَیں پھر اپنی کمیں گاہ میں دَبک گیا۔ موقع ایسا تھا کہ میں نہایت آسانی سے اس شیرنی کو نشانہ بنا سکتا تھا، مگر اُس کے بچّوں کا خیال کرتے ہوئے اِس حرکت سے باز رہا اور ویسے بھی میری اِس شیرنی سے کوئی عداوت نہ تھی۔
کچھ فاصلے پر آ کر شیرنی رُک گئی اور منہ اوپر فضا میں اٹھا کر فضا میں کچھ سونگھنے لگی۔ میرے دل کی دھڑکن اور تیز ہو گئی۔ کیا شیرنی نے بچھڑے کی بُو پا لی ہے؟ اگر ایسا ہے تو وہ ضرور اس پر حملہ کرے گی۔۔۔ پھر مجھے کیا کرنا چاہیے۔۔۔ میں شیرنی پر فائر کر دوں۔۔۔؟ اِسی فکر میں گم تھا اور کوئی فیصلہ نہ کر پایا تھا کہ شیرنی یک لخت مڑی اور ندی کے کنارے کنارے چلنے لگی۔ دونوں بچّے اُس کے پیچھے پیچھے دوڑ رہے تھے، لیکن تیسرا اَب بھی اپنی شرارت سے باز نہ آیا۔ وہ ماں کو پریشان کرنے کے لیے خاصا پیچھے رہ گیا تھا۔ ایک لمبا چکّر کاٹ کر شیرنی، اور اُس کے بچّے اب بالکل میرے قریب آ گئے تھے۔ میرا اور ان کا درمیانی فاصلہ ساٹھ فٹ سے زیادہ نہ تھا۔ شیرنی خلافِ معمول بڑی طاقت ور اور جسیم تھی۔ اس کا قد میرے اندازے کے مطابق دُم سے لے کر ناک تک نو فٹ سے بھی کچھ نکلتا ہوا تھا۔ غیر ارادی طور پر مَیں نے اُس کی گردن کا نشانہ لیا، مگر پھر رائفل جھُکا لی۔ دل نہیں چاہتا تھا کہ اِس بے گناہ شیرنی کو ہلاک کر کے اپنے درندہ پن کا ثبوت دوں اور اُس کے کم سِن بچّوں کو لکڑبگوں کے مُنہ کا تر نوالہ بننے کے لیے جنگل میں تنہا چھوڑ دوں اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض ظالم اور سنگ دِل شکاری ایسی حرکتیں کرتے ہیں، لیکن یہ شکار کی روح کے خلاف ہے۔
شیرنی اَب ندی کنارے بیٹھ گئی اور بچّے پھر اس سے پیار کرنے لگے۔ کبھی وہ اُس کی پیٹھ پر چڑھ جاتے اور کبھی اسے محبّت سے چاٹنے لگتے۔ ماں بھی انہیں پیار سے چاٹنے لگتی۔ ماں بھی انہیں پیار کی نظروں سے دیکھتی اور باری باری سب کو چاٹتی۔ تینوں بچّے ایک ایک سال کے تھے، لیکن انہیں شکار مارنے اور اپنا پیٹ بھرنے کے لیے ابھی مزید تربیت کی ضرورت تھی۔ شیرنی کے بچے پانچ سال کی عمر میں پورے بالغ اور جوان ہو جاتے ہیں۔ پھر انہیں اپنی ماں کا سہارا لینے کی ضرورت نہیں رہتی۔ اس دوران میں شکار پر جھپٹنے اور پکڑ کر لے جانے کا فن اچھّی طرح سیکھ لیتے ہیں۔ ابتدائی تین سال ماں کی نگرانی اور حفاطت میں گزرتے ہیں، وہ ایک لمحے کے لیئے بھی اکیلا نہیں چھوڑتی۔ پیدا ہونے کے بعد پانچ ماہ تک وہ ماں کے دودھ پر پلتے ہیں، پھر ان کے جبڑوں میں اتنی قوت آ جاتی ہے کہ کُچلا ہوا گوشت کھا سکیں۔ یہ گوشت ماں انہیں اپنے دانتوں سے کچل کر کھلاتی ہے۔ آہستہ آہستہ یہ چھوٹے جانوروں اور پرندوں کو خود مار کر ہڑپ کرنے لگتے ہیں۔ پہلے پہل خرگوش، گیدڑوں اور موروں وغیرہ کی باری آتی ہے، پھر چیتل ہرن ان کا نوالہ بنتے ہیں۔۔۔ اور آخر میں بڑے جانور سانبھر، نیل گائے اور دوسرے مویشی اس دوران میں اگر آدمی کا خون اُن کے منہ کو لگ جائے تو پھر نہ کسی جانور کا گوشت انہیں پسند آتا ہے، نہ لہو۔۔۔ ہر وقت اور ہر لمحے آدمی کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔
شیرنی اپنے بچّوں کو شکار کھیلنا جس طرح سکھاتی ہے، وہ طریقہ بے حد دلچسپ ہے۔ وہ کوئی چھوٹا سا جانور مارتی ہے اور اسے اپنے منہ میں دبا کر چلتی ہے۔ بچے حسبِ معمول اُس کے ساتھ ساتھ دوڑتے ہیں اور ماں کے منہ سے جانور کی لاش چھیننے کی کوشش کرتے ہیں لیکن شیرنی انہیں پرے ہٹاتی رہتی ہے۔ بچّے بھوک سے بے تاب ہوتے ہیں اور ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ ماں انہیں کھانے کیوں نہیں دیتی۔ جب شیرنی بچّوں کو خوب بے تاب کر دیتی ہے تو یک لخت جانور کی لاش زور سے فضا میں اُچھالتی ہے۔ بچّے تیر کی مانِند لاش کی طرف جھپٹتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے ننھّے دانتوں اور پنجوں سے اُدھیڑ ڈالتے ہیں۔ اس مشق کے بعد بچّے اِس بات کے عادی ہو جاتے ہیں کہ جونہی وہ کسی شے کی ‘حرکت’ دیکھیں تو فوراً اس پر ٹوٹ پڑیں، خواہ وہ کسی درخت کی شاخ ہو یا ہوا سے ہلتے ہوئے پتّے یا کوئی چھوٹا جانور۔
ایک گھنٹہ گزر گیا۔ چاند اب میرے سر پر چمک رہا تھا اور اس کی روشنی بھینس کے بچھڑے پر اس انداز میں پڑ رہی تھی کہ شیرنی ذرا بھی گردن گھُماتی، تو اسے دیکھ لیتی۔ اُدھر بچھڑے کو بھی شیرنی کی موجودگی کا پتہ چل گیا تھا اور اس میں بے چینی اور اضطراب کے آثار نمودار ہونے لگے تھے۔ اس سے پہلے وہ مزے سے کان ہلا ہلا کر جگالی کرتا اور آنکھیں جھپکا رہا تھا، لیکن درندے کی قربت کا احساس ہوتے ہی بے حِس و حرکت ہو گیا۔ شیرنی اپنے دونوں اگلے پنجے ریت پر پھیلائے آرام سے بیٹھی تھی اور اُس کے بچے اسی طرح شوخیاں اور اٹھکیلیاں کرتے پھر رہے تھے۔ مجھے ڈر تھا کہ اگر انہوں نے بچھڑے کو دیکھ لیا تو ضرور اس پر حملہ کر دیں گے اور ایک بار تو شیرنی کا بڑا بچّہ اُس کے نزدیک پہنچ ہی گیا تھا کہ ماں نے ہلکی سی غرّاہٹ کے ساتھ اسے واپس بلا لیا۔ تیسرا اور چھوٹا بچّہ جو سب سے زیادہ شریر تھا، مسلسل بھاگ دوڑ کر رہا تھا۔ غالباً اُس کے نتھنوں میں بچھڑے کی بو پہنچ رہی تھی۔ یک لخت وہ اُچھلتا ہوا سیدھا میری طرف آیا۔ میں نے گھبرا کر رائفل تان لی۔ وہ مجھے سے صرف چھ فٹ کے فاصلے پر آن کر رُک گیا اور اپنی چمکدار زرد زرد آنکھیں نیم وا کر کے بڑی حیرت سے مجھے گھورنے لگا۔ اگرچہ مَیں نے شاخوں اور خار دار جھاڑیوں سے یہ کمیں گاہ خاصی محفوظ بنا لی تھی اور کوئی جانور آسانی سے میرا سراغ نہ پا سکتا تھا، لیکن شیرنی کا یہ شریر بچّہ مجھے دیکھ چکا تھا، پھر وہ منہ کھول کر ہلکی آواز میں غرّایا۔ میں اپنی جگہ اور دبک گیا۔ جانتا تھا کہ شیرنی کو پتہ چل گیا، تو جان پر کھیل جائے گی، مگر بچّوں پر آنچ نہ آنے دے گی۔
دفعتاً کسی درخت کی ہلتی ہوئی شاخ کا سایہ زمین پر پڑا اور بچے کی توجہ اس طرف ہو گئی۔ وہ بلّی کے انداز میں اُس سائے پر جھپٹنے کے لیے دبے پاؤں آگے بڑھا۔ اُس کے کان کھڑے تھے اور دُم آہستہ آہستہ گردش کر رہی تھی۔ شاخ پھر ہلی اور اور ساتھ ہی سایہ بھی۔۔۔ دوسرے ہی لمحے شیرنی کا شریر بچّہ چھلانگ لگا کر سائے پر جھپٹا۔ وہ دیر تک اسی طرح سائے کو پکڑنے کی کوشش کرتا رہا اور میری موجودگی یکسر فراموش کر بیٹھا۔ اتنے میں اس کی ماں غرّائی اور بچہ تیزی سے اُس کی طرف بھاگا اور جب وہ بچھڑے کے قریب سے گزرا تو بچھڑے نے ڈر کے مارے کوئی حرکت کی۔ غالباً اُن نے کان ہلائے تھے۔ اس کی یہ حرکت شیرنی کے بچّے کو روکنے کے لیے کافی تھی۔ وہ رک گیا اور بچھڑے پر غرّانے لگا۔ بچّے کی آواز سنتے ہی شیرنی نے نہ جانے کیونکر اندازہ کر لیا کہ کچھ گڑبڑ ہے۔ وہ فوراً اٹھی اور بچّے کی طرف آئی۔ میں سمجھ گیا کہ بچھڑا ہاتھ سے گیا۔ اس وقت بھی چاہتا، تو گولی چلا کر شیرنی کو ختم کر سکتا تھا، لیکن طبیعت آمادہ نہ ہوئی اور میں چپ چاپ بیٹھا رہا۔
شیرنی نے اپنے بچّوں کو پیچھے کیا اور خود نہایت وقار سے قدم بڑھاتی ہوئی بچھڑے کی طرف گئی۔ اس کی آنکھیں یاقوت کی مانند سُرخ تھیں اور ان میں بے پناہ چمک تھی۔ شیرنی کو اپنے قریب پا کر بچھڑے کے حلق سے نہایت ڈراؤنی آواز نکلی۔ عین اُسی لمحے نہ معلوم مجھے کیا ہوا۔ میں نے تالی بجائی۔ بچھڑے کی طرف بڑھتی ہوئی شیرنی یکدم یُوں رُک گئی جیسے زمین نے اس کے پاؤں پکڑ لیے ہوں۔ ایک لحظے کے لیے اُس نے گردن گھما کر میری کمین گاہ کی طرف دیکھا اور پوری قوت سے گرجی۔ میرا کلیجہ لرز گیا اور جسم برف کی مانند سرد۔ اس وقت اگر فائر بھی کرنا چاہتا تو نہ کر سکتا تھا۔ اتنا یاد ہے کہ میں نے رائفل کا دستہ سختی سے بھینچ لیا تھا، لیکن کانپتے ہوئے ہاتھوں پر قابو پانے کی کوئی تدبیر میرے پاس نہ تھی۔
شیرنی خوب گرج رہی تھی۔ دھاڑ رہی تھی۔۔۔ اس کا غیظ و غضب قابل دید تھا۔ ہر گرج سے اس کے غم و غصّے کا اظہار ہوتا تھا کہ اس کی آرام اور تفریح میں مداخلت کیوں کی گئی ہے۔ میں نے بڑی مشکل سے رائفل کندھے سے لگائی اور شیرنی کی کھوپڑی کا نشانہ لیا، مگر فوراً ایک ہولناک گرج شیرنی کے حلق سے نکلی اور میرے ہاتھ کانپنے لگے۔ اب مجھے یہاں سے نکل بھاگنے کی سُوجھی، مگر ایسا کرنا صریحاً موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا وہ یقیناً میرا پیچھا کرتی۔ مجھے اپنی حماقت پر انتہائی غصّہ آ رہا تھا کہ میں نے شیرنی کی توجہ خواہ مخواہ بچھڑے سے ہٹا کر اپنی طرف مبذول کرائی۔
میں نے تیسری بار اس کے سر کا نشانہ لیا۔۔۔ مگر بزدلی کہیے یا شیرنی کے بچّوں کی محبت کہ میری انگلی لبلبی نہ دبا سکی۔ وہ میرے سامنے سینہ تانے بہادری کی تصویر بنی کھڑی للکار رہی تھی، لیکن مجھ میں اس کا سامنا کرنے کی ہمّت نہ تھی۔ کاش یہ بچے اس کے ساتھ نہ ہوتے۔۔۔ معاً شیرنی کے تینوں بچّے بچھڑے کی طرف لپکے اور عین اُسی لمحے میری رائفل نے یکے بعد دیگرے دو گولیاں اگل دیں۔ یہ فائر میں نے ہوا میں کیے تھے اور ان کا نتیجہ اچھا نکلا۔ شیرنی سراسیمہ ہو گئی اور چند لمحے بعد وہاں سوائے میرے اور سیاہ بچھڑے کے کوئی نہ تھا۔
مجھے شیرنی اور اس کے تین بچّوں سے واقعی عشق ہو گیا۔ جی ہاں۔۔۔ عشق۔۔۔ وہ بھی ایسا کہ میں انہی کی تلاش میں شب و روز مارا مارا پھرتا۔ بڑی مشکل سے ہزار آفتوں اور مصیبتوں کے بعد ان کی صورتیں دکھائی دیتیں لیکن جونہی وہ مجھے دیکھتے، شرما کر بھاگ جاتے۔ میں اس کی اسی ادا پر مر مٹا تھا۔ میں نے کئی بار ان کی تصویریں اتارنے کی بھی کوشش کی، مگر کامیابی کی کوئی صورت نہ نکلی۔ میں جتنا ان کی طرف کھنچتا تھا وہ اتنا مجھ سے دور ہٹتے تھے۔ گویا وہی معاملہ تھا۔
صد عشق و ہزار بدگمانی
مجھے سب سے زیادہ دل چسپی، بلکہ محبّت شیرنی کے تیسرے بچّے سے تھی۔ حالات کی ستم ظریفی نے پورے پانچ برس تک مجھے اس کا دیوانہ بنائے رکھّا، لیکن ایک روز مجھے اس بچّے کو، جو اُس وقت تک بالغ اور پورا شیر بن چکا تھا، موت کے گھاٹ اتارنا پڑا۔ یہ داستان جتنی عجیب ہے، اتنی ہی دلدوز اور دلخراش بھی۔۔۔
بھارا پور رینج میں رامجی والا فارم کے نزدیک دامک نام کے جنگل میں یہ ناقابل فراموش حادثہ پیش آیا۔ دامک جنگل اپنے حسین مناظر اور خوش نما محلِ وقوع کے باعث خاص اہمیّت رکھتا ہے۔ کہتے ہیں کالی داس کے شہرہ آفاق ڈرامے شکنتلا کی ہیروئن شکنتلا اپنے باپ کے ساتھ یہیں کسی آشرم میں رہتی تھی۔ مغلوں کے دَور حکومت میں بھی دامک جنگل میں بادشاہ اور اُمرا آن کر شکار کھیلتے تھے، حتیٰ کہ انہوں نے اس کا نام ‘شکار گاہ’ رکھ دیا۔
اپریل کا مہینہ تھا کہ مَیں پھرتا پھرتا رامجی والا کی طرف آ نکلا۔ یہ راجپوتوں کی بستی تھی، انتہائی مہمان نواز، بہادر اور شریف لوگ۔ انہوں نے میری خاطر تواضع میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھّی۔ بستی پر ایک عمر رسیدہ راجپوت ٹھاکر امیر سنگھ کا بڑا اثر تھا۔ یہ شخص راجاؤں کی اولاد میں سے تھا اور بے حد غریب، مگر حکومت کا دبدبہ اور شان و شکوہ اُس کی صورت سے ٹپکتا تھا۔ بستی کا ہر شخص اس کا احترام کرتا اور سب لوگ ٹھاکر کو بھائی صاحب کہہ کر پکارا کرتے تھے۔ بھائی صاحب عُمر کی خاصی منزلیں طے کر چکے تھے اور اُن کی جسمانی حالت بھی قابل رحم تھی۔ زبان میں کسی قدر لکنت، دائیں ہاتھ میں رعشہ اور چال میں لڑکھڑاہٹ تھی، لیکن اپنے جنگل کے چپّے چپّے اور گوشے گوشے سے اچھی طرح آشنا۔ اُن کا دعویٰ تھا کہ آنکھوں پر پٹی باندھ کر جنگل کے کسی بھی حِصّے میں لے چلو، وہ وہاں مٹّی اور جھاڑیوں کو چھُو کر بتا دیں گے یہ کونسا مقام ہے۔ اس عُمر میں بھی سیر و شکار سے ان کی دلچسپی قابل رشک تھی اور ایک ٹانگ کمزور ہونے کے باوجود وہ مِیلوں پیدل چل سکتے تھے۔ درندوں کے پنجوں کے نشان دیکھتے ہی بتا دیتے کہ نر ہے یا مادہ۔ کتنی عمر کا ہے، کہاں سے آیا ہے اور کدھر گیا ہے، قد کتنا ہے اور وزن کس قدر۔۔۔ دامک جنگل میں رہنے والے سبھی جانوروں سے اُن کی خوب جان پہچان تھی۔ بھائی صاحب کو وحشی جانوروں کے قدموں کے نشان دیکھ کر اُن کے بارے میں صحیح صحیح اندازہ کرنے کی بڑی مہارت حاصل تھی اور اس فن کو انہوں نے باقاعدہ سائنس بنا دیا تھا۔
وہ اپنی سادہ اور چھوٹی سی جھونپڑی میں رہتے تھے اور میں اُن سے وہیں ملا۔ گفتگو کے دوران میں انہوں نے جنگل کے تمام جانوروں کا تذکرہ کیا اور مختلف شیروں کی نشاندہی کی کہ ان میں کون شریف ہے اور کون شریر۔ مَیں نے اُن سے شیرنی اور اس کے بچّوں کے بارے میں پوچھا، محض یہ دیکھنے کے لیے بھائی صاحب کی معلومات کہاں تک صحیح ہوتی ہیں۔ انہوں نے ان کے بارے میں تفصیلاً بتایا اور بلا شبہ تمام باتیں ٹھیک تھیں۔ قِصّہ یہ تھا کہ شیرنی کی اِن تین اولادوں میں دو شیرنیاں تھیں جن میں سے ایک کو تو کِسی شکاری نے ہلاک کر دیا، دوسری اپنے نر کی تلاش میں نہ جانے کہاں نکل گئی۔ تیسرا اور سب سے چھوٹا بچّہ زندہ ہے اور قوی ہیکل شیر بن چکا ہے۔
’جناب، اُس نے گاؤں والوں کو سخت پریشان کر رکھّا ہے۔‘ بھائی صاحب نے منہ بنا کر کہا۔ ‘ایسی حرکتیں کرتا ہے جو کسی شیر کے شایان شان نہیں ہیں۔ بھیڑ بکریوں یا گایوں کو اٹھا کر لے جانا بھلا کہاں کی شرافت ہے؟ یہ جنگل سانبھروں اور چیتل ہرنوں سے پٹا پڑا ہے۔ وہ چاہے، تو زندگی بھر اُن کے لہو اور گوشت سے اپنا پیٹ بھرے، لیکن نہ جانے اُسے کیا ہو گیا ہے کہ ہمیشہ پالتو جانوروں کو پکڑ کر لے جاتا ہے۔‘
بھائی صاحب کی زبانی اپنے محبوب شیر کے یہ کرتوت سُن کر مجھے سخت صدمہ ہوا، مگر کچھ نہ کہا۔ بھائی صاحب کی تقریر جاری تھی:
’بڑا اچھّا ہوا کہ آپ آ گئے، اَب اِس بدبخت کا قِصّہ پاک ہو جائے گا۔ کوئی گڈریا اپنے مویشیوں کو جنگل میں چرانے نہیں لے جاتا اور جانوروں کی صحتیں خراب ہو رہی ہیں۔ اگر آپ کہیں، تو میں کل صبح آپ کے ساتھ چلوں اور دکھاؤں کہ وہ کیسی حرکتیں کرتا ہے۔‘
میں نے حامی بھر لی۔
اگلے روز علی الصباح مَیں، بھائی صاحب اور ایک گڈریا جنگل میں نکلے۔ گڈریے نے چند بھینسوں اور گایوں کو ساتھ لے لیا تھا اور میں نے اسے دلاسا دیا تھا کہ ‘اگر شیر نے کوئی شرارت کی تو میں اُسی وقت اُسے گولی مار دوں گا۔‘
بھائی صاحب بار بار اِس بات پر زور دیتے تھے کہ اگر اس شیر کو مارا نہ گیا، تو یہ ایک دن ضرور آدم خور بن جائے گا۔ میرے پاس انہیں جھٹلانے کی کوئی معقول وجہ نہ تھی، کیونکہ بہرحال اُن کا تجربہ کہیں زیادہ پختہ اور معلومات نہایت ثقہ تھیں۔ اِس کے علاوہ میں زبانی طور پر بھی یہ اقرار کر چکا تھا کہ اِس شیر سے لوگوں کو نجات دلا دوں گا، لیکن دل عجب مخمصے میں گرفتار تھا۔ بھائی صاحب نے گاؤں سے سے کچھ فاصلے پر شیر کے قدموں کے نشان دکھاتے ہوئے کہا:
’دیکھیے یہ نشان اُسی کے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ بدمعاش رات کو یہاں پھرتا رہا ہے۔‘ میں نے اِن نشانوں کو غور سے دیکھا اور شیر کے بارے میں اندازہ لگانے کی کوشش کی۔ میرے حساب سے اُس کا قد نو فٹ سے زائد نہ تھا اور وزن تین سوا تین سو پونڈ کے لگ بھگ اس موقعے پر مَیں نے بھائی صاحب کو قائل کرنے کی حماقت کی اور کہا:
’ٹھاکر صاحب، یہ شیر تو ابھی بہت کم سن ہے، اس کا وزن بھی کچھ زیادہ معلوم نہیں ہوتا۔ مارنے کے بجائے اگر اُسے کسی اور جنگل کی طرف بھگا دیا جائے، تو کیسا رہے؟’
بھائی صاحب کے لبوں پر یہ بات سُن کر طنزیہ مسکراہٹ نمودار ہوئی کہنے لگے:
کرنل صاحب آپ بھی تجربہ کار آدمی ہیں۔ جنگلوں کی بُو باس سے واقف ہیں۔ سینکڑوں شیروں اور چیتوں کو ٹھکانے لگا چکے ہیں۔ میں بوڑھا آدمی، کج زبان، اب آپ سے کیا بحث کروں۔۔۔ لیکن یہ دیکھ لیجیے کہ میری عمر بھی انہی جنگلوں کی آب و ہوا میں گزری ہے اور مَیں نے بھی گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہے۔ جب بازوؤں کی اِن مچھلیوں میں دَم تھا تو ہتھیار کے بغیر شیروں کے منہ میں ہاتھ ڈال دیتا تھا، اس درندے کی فطرت کو خوب سمجھتا ہوں۔ بے شک یہ شیر قد میں بھی چھوٹا ہے اور وزن کا ہلکا بھی، لیکن ہے بہت مکّار اور ہوشیار۔ اگر مویشیوں پر اسی طرح ہاتھ صاف کرتا رہا تو بہت جلد گڈریوں اور پھر ندی سے پانی لانے والی عورتوں کو ہڑپ کرنا شروع کر دے گا۔ میرے ہاتھ میں رعشہ ہے، بندوق چلا نہیں سکتا۔ ورنہ بھگوان کی سوگند خود اس کو گولی مارتا۔‘
صبح سے دوپہر اور دوپہر سے شام ہو گئی، لیکن شیر کہیں دکھائی نہ دیا۔ بھائی صاحب کا کہنا تھا کہ وہ اتنا ہوشیار ہے کہ دن میں بستی کے آس پاس نہیں رہتا بلکہ دس پندرہ میل دُور نکل جاتا ہے، لیکن رات ہونے پر آ جاتا ہے اور پچھلے پہر اکثر اس کی آواز سنائی دیتی ہے۔
شام کو سُورج چھپنے سے کچھ پہلے ہم بستی میں واپس آئے۔ بھائی صاحب نے میرے لیے اپنی پالتو گائے سے دودھ گرم کیا۔ چائے پلائی اور پھر سبزی پکانے کی تیاری کرنے لگے۔ میں کھانا کھا کر بستر پر لیٹ گیا اور لیٹتے ہی بے خبر سو گیا۔ اگلے روز تڑکے ہی آنکھ کھُل گئی۔ بھائی صاحب پوجا پاٹ سے فارغ ہو گئے تھے۔ میں نے بھی فجر کی نماز ادا کی، پھر بھائی صاحب کے ہاتھ کی بنی ہوئی چائے پینے لگا۔ اتنے میں وہ گڈریا بھی آ گیا جو گزشتہ روز ہمارے ساتھ جنگل میں گیا تھا۔ اس کی اُتری ہوئی صورت دیکھتے ہی میں کھٹکا ضرور کوئی حادثہ پیش آیا ہے، بھائی صاحب کے استفسار پر اس نے بتایا کہ شام کے وقت جب کہ وہ مویشیوں کو لے کر بستی کی طرف آ رہا تھا کہ ایک شوخ گائے، بھاگ نکلی، اس کا خیال تھا کہ گائے اِدھر اُدھر گھوم پھر کر واپس آ جائے گی، مگر وہ ابھی تک نہیں آئی۔ بھائی صاحب نے فکرمند ہو کر میری طرف دیکھا پھر گڈریے سے کہنے لگے:
’تو نے ہمیں اسی وقت کیوں نہ بتایا۔ رات بھی شیر بول رہا تھا۔ تیری گائے کو بھلا چیرے پھاڑے بغیر چھوڑا ہو گا؟’ میں نے گڈریے کو دلاسا دیا، پھر جلد جلد کپڑے پہنے، رائفل سنبھالی اور گائے کو ڈھونڈنے کے ارادے سے چلا۔
مَیں اس مہم کو جتنا مشکل اور دشوار سمجھے ہوئے تھا، یہ اتنی ہی آسان اور اور سہل ثابت ہوئی۔ بستی کے مشرق میں صرف ڈیڑھ میل کے فاصلے پر سال کے درختوں کا جھنڈ تھا، گائے زخمی حالت میں وہاں پڑی تھی اور شیر سامنے ہی لمبی گھاس میں چھپا ہوا غرّا رہا تھا۔ غالباً ہماری آمد سے چند منٹ پہلے ہی اس نے گائے کو دیکھا اور حملہ کیا۔ میں نے اپنے ساتھیوں کو درختوں پر چڑھ جانے کا اشارہ کیا، پھر خود بھی ایک درخت پر چڑھا۔ یہاں سے مجھے شیر کی کھوپڑی صاف نظر آ رہی تھی اور اس سے پیشتر کہ وہ راہ فرار اختیار کرے، میری رائفل نے شعلہ اُگلا اور گولی کا شیر بھیجا پھاڑتی ہوئی نِکل گئی۔
بستی کے لوگ جب خوش خوشی اس کی لاش اٹھا کر لے جا رہے تھے، تو کسی کو خبر نہ تھی کہ میرے دل پر کیا گزر رہی ہے۔
میری عمر اِس وقت 61 سال کی ہے اور مَیں 1920ء سے شکار کھیل رہا ہوں۔ اس چالیس برس کی مہماتی زندگی میں یُوں تو بے شمار حادثے اور عجیب عجیب واقعات سامنے آئے ہیں، لیکن ایک حادثہ ایسا ہے کہ ابھی تک اس کے زخم میرے کلیجے پر تازہ ہیں، کبھی تنہائی نصیب ہو اور پرانی یادیں دل و دماغ میں ہجوم کریں، تو سب سے پہلے سدا رام کا ہنستا مسکراتا چہرہ مجھے دکھائی دیتا ہے۔ اگرچہ میری اور اس کی عمر میں بڑا فرق تھا۔ تاہم ہماری مثالی دوستی پر لوگ رشک کرتے تھے۔
آئیے آپ کا تعارف بھی سدا رام سے کرا دوں۔
وہ دُبلا پتلا ادھیڑ عمر کا لمبا آدمی تھا۔ ہمیشہ صاف سُتھرے کپڑے پہنتا، افیم گھول کر پیا کرتا اور جب بھی کسی کاغذ پر اسے دستخط کرنا ہوتے تو نام کے نیچے ‘نمبردار’ لکھنا کبھی نہ بھُولتا۔ بستی کا ہر فرد سدا رام سے محبّت کرتا تھا، کیونکہ سدا رام ہر ایک کے دُکھ سُکھ میں شریک ہوتا۔ اُس کی کسی سے دشمنی نہ تھی۔ وہ دشمنی کرنا سرے سے جانتا ہی نہ تھا۔ ہندو گھر میں جنم لینے کے باوجود مسلمانوں سے بھی اسی پیار اور محبّت کے ساتھ ملتا جس کا مظاہرہ اپنے ہم قوموں سے کرتا تھا، بلکہ یوں کہیے کہ اس کے ملنے جلنے والوں میں اکثر مسلمان تھے۔ سدا رام کا تعلق جاٹ برادری سے تھا۔ اس برادری کے اکثر آدمی پہلی جنگِ عظیم کے زمانے میں فوج میں بھرتی ہوئے اور انگریزوں کے دشمنوں سے جنگ لڑنے چلے گئے۔ سدا رام بھی ان میں شامل تھا۔۔۔ لام پر جانے والے بہت سے لوگ واپس نہ آئے۔ انہوں نے سفید چمڑی والے آقاؤں کے لیے اپنی جانیں دے دیں۔ اُن کی بیویاں اور بچّے اب بھی جانے والوں کی راہ تکتے ہیں، لیکن کبھی جانے والے بھی لوٹ کر آیا کرتے ہیں؟ البتّہ سدا رام جیسا گیا، ویسا ہی آ گیا۔ اُس کے تو کہیں خراش بھی نہ آئی تھی۔ ویسا ہی ہنستا، مسکراتا اور بڑھ بڑھ کر بولتا ہوا۔ پھر وہ زندگی کے آخری لمحوں تک لوگوں کی جنگ کی کہانیاں سناتا رہا۔ چوپال میں سب لوگ اپنے اپنے حقّے لے کر آ جاتے، درمیان میں سدا رام راجہ بن کر بیٹھتا۔ کوئی نئی کہانی یا حیرت انگیز قِصّہ ساننے سے پیشتر اس کی آنکھوں میں ایک فخریہ چمک سی نمودار ہوتی، پھر وہ پیالے میں گھولی ہوئی افیم کی چسکی لگاتا اور کہانی شروع کر دیتا۔ سب لوگ ہمہ تن گوش ہو کر سنتے کہ کس طرح انگریزوں اور جرمنوں کی لڑائی ہوئی، بندوقیں کس طرح چلتی تھیں، ہوائی جہاز کیونکر بم پھینکتے تھے، فلاں جرنیل اور فلاں کرنیل کا لب و لہجہ کیا تھا، کتنے آدمی مارے گئے وغیرہ وغیرہ۔ جب وہ انگریزی فوجی افسروں کی نقل کرتا، تو مارے ہنسی کے سب کے پیٹ میں بل پڑ جاتے۔
سدا رام اپنی فطری طبیعت کے باعث گھر یا اپنے گاؤں میں رہنا زیادہ پسند کرتا تھا۔ اُسے میلے ٹھیلے اور کھیل تماشے سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ البتہ کبھی کبھار موج میں آتا، تو مچھلیاں پکڑنے دریا پر چلا جاتا یا اپنی پرانی توڑے دار بندوق سے مرغابیاں مارا کرتا۔ ایک مرتبہ اُس نے مگرمچھ کو بھی ہلاک کیا اور مہینوں تک اُس کے قصے لوگوں کو سناتا رہا۔
میں نے افیمیوں کے بارے میں سُنا کیا، اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا کہ یہ لوگ نہانے دھونے سے بہت بھاگتے ہیں، لیکن سدا رام ایسا افیمی نہ تھا، کبھی ایسا نہ ہوا کہ وہ گندے یا میلے کپڑے پہنے دکھائی دیا ہو۔ اس کے فوجی بوٹ خاصے بھاری تھے، ہمیشہ چمکتے نظر آئے جن پر وہ باقاعدہ پالش کرتا تھا۔ فوجی زندگی کے چند برسوں نے اُسے بعض معمولات پر سختی سے پابند رہنے کا عادی بنا دیا تھا۔ نُور کے تڑکے اٹھنا، پوجا پاٹ کر کے جنگل کی سَیر کو جانا اور نہانا، کپڑے دھونا پھر ناشتا تیار کرنا، وقت پر سونا، وقت پر جاگنا۔ اُس کے بیوی بچّے تھے نہ کوئی قریبی عزیز یا رشتے دار۔ بے چارے کا بھری دُنیا میں اکیلا دَم تھا اور یہ حقیقت ہے کہ اُس نے زندگی بسر کرنے کا گُر اچھّی طرح سیکھ لیا تھا۔ اب میں غَور کرتا ہوں، تو سدا رام کی زندگی اِن دو بیش قیمت اصولوں کا نمونہ نظر آتی ہے اول یہ کہ دوسروں کی خدمت کرو اور دوم سدا خوش رہو۔ لالچ، غم، غصّہ، چھُوت چھات، نفرت، خود غرضی، مکّاری اور چال بازی سے وہ قطعاً نا آشنا تھا۔ مَیں نے کبھی اُس کے منہ سے کوئی بیہودہ بات یا گالی نہ سُنی۔ کبھی کسی عورت کی طرف بُری نظروں سے نہ دیکھا۔ وہ بزرگوں کا ادب کرتا اور بچوں پر دیوانہ وار نثار تھا۔ حتی الامکان کسی کا احسان لینے کی کوشش نہ کرتا۔ کبھی یہ نہ سوچتا کہ فلاں شخص میرے کام آ سکتا ہے یا نہیں، اُسے کسی سے کوئی توقع نہ تھی، بلکہ ہر دم یہی تگ و دَو کرتا کہ وہ خود کسی کا کیا کام کر سکتا ہے۔ اُسے نہ ستائش کی تمنّا تھی نہ صلے کی پروا۔ یہ واقعہ ہے کہ جتنی خوبیاں دنیا کے کسی بڑے آدمی میں ہوتی ہیں، وہ تمام اس چھوٹے سے دیہاتی شخص میں قدرت نے جمع کر دی تھیں۔ وہ صحیح معنوں میں انسان کہلانے کا مستحق تھا، اس لیے کہ انسانوں سے تو وہ محبت کرتا ہی تھا، اُسے جانوروں سے بھی بڑا پیار تھا۔ گاؤں کے پالتو اور آوارہ کُتّے، گھوڑے، بھیڑ بکریاں، گائے، بھینسیں سبھی اسے جانتے اور پہچانتے تھے۔ سدا رام کو دیکھ کر کُتّے خوشی سے دُمیں ہلانے لگتے اور دوڑ کر اُس کے پاس آ جاتے۔ گھوڑے ہنہناتے، بکریاں ممیاتیں اور گائیں بھینسیں محبّت بھری نگاہوں سے اُسے دیکھتیں اور سدا رام کو چاٹنے کی کوشش کرتیں۔ نہ جانے کونسا جادو اس کے پاس تھا یہ ہر انسان اور ہر جانور اُس کی طرف یوں کھنچا آتا تھا جیسے لوہا مقناطیس کی طرف۔
سدا رام کی موجودگی میں گاؤں والوں کو کسی ‘سیانے‘ کسی پنڈت، کسی وید اور کسی حکیم کی ضرورت نہ تھی۔ ان لوگوں کے فرائض بھی وہی ادا کرتا تھا۔ ذرا کسی بچّے کا کان دُکھا یا کسی کی نکسیر پھُوٹی، اور اس کی ماں فوراً اُسے لے کر سدا رام کے پاس آئی۔ سدا رام اپنے تھیلے میں سے چند پڑیاں نکالتا اور بچے کے شر پر شفقت سے سے ہاتھ پھیر کر اس کی ماں کو تلقین کرتا کہ دو دو گھنٹے بعد ایک پڑیا اسے کھلا دے۔ پھر وہ بچّے کو اپنے پاس سے مٹھائی بھی دیتا۔ خدا نے سدا رام کے ہاتھ میں ایسی شفا دی تھی کہ اُس کے گھر کے آگے ہمیشہ بیماروں کا جمگھٹا لگا رہتا۔ وہ چاہتا تو اپنے ہر نسخے اور ہر دوا کی قیمت وصول کرتا، مگر اُس نے کبھی ایک دھیلا بھی کسی سے نہ لیا، جنگل میں جا کر نہ جانے کون کون سی جڑی بوٹیاں اور پودے تلاش کر کے گھر لاتا، گھنٹوں انہیں کوٹتا، چھان پھٹک کرتا اور دوائیں بنا بنا کر پوٹلیوں کی صورت میں ڈھیر کرتا جاتا۔
میری اُس کی پہلی ملاقات اتفاقیہ طور پر ہوئی۔ یاد نہیں آتا کہ گاؤں میں کونسا میلہ تھا، لیکن تھا بڑا زور دار اور دھوم دھوم کا میلہ جس میں کئی تھیٹر اور منڈوے شہر والوں نے آ کر لگائے تھے جنہیں دیکھنے کے لیے دور دور کے دیہاتوں اور بستیوں سے ہزارہا مرد و زن اور بچے آ رہے تھے۔ لڑکپن کے باعث گھر میں نچلا نہ بیٹھ سکتا تھا۔ میلے کی خبر سُن کر اپنے وفادار کاٹھیاواڑی کے گھوڑے موتی پر سوار ہوا اور رونق دیکھنے چلا۔ میلے میں آدمیوں سے زیادہ عورتیں تھیں جنہوں نے نہایت رنگ برنگے اور زرق برق لباس پہن رکھے تھے۔
نوجوان لڑکیاں تتلیوں کی طرح اِدھر اُدھر اڑی پھرتی تھیں۔ گاؤں کے گبرو جوان مختلف ٹولیوں اور گروہوں میں بٹ کر میلہ دیکھ رہے تھے، لیکن کیا مجال کہ کوئی کسی کو چھیڑے یا تنگ کرے۔ یکایک بھِیڑ کو چیرتا ہوا ایک دُبلا پتلا اور ادھیڑ عمر شخص قریب آیا اور میرے گھوڑے سے اُتر کر اُس سے باتیں کرنے لگا۔ اجنبی نے میرے گھوڑے کی بے حد تعریف کی اور اس کی نسل پر خاصا معلومات افزا تبصرہ کیا۔ اس کی باتوں سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ گھوڑوں سے بڑی دلچسپی رکھتا ہے اور اس طرح موتی گھوڑے کی معرفت سدا رام سے میرے تعارف اور پھر دوستی کی ابتدا ہوئی۔
عرصہ گزر گیا۔ اِس دوران میں سدا رام ہمارے گھر بھی آنے جانے لگا اور پھر تو یہ کیفیّت ہوئی کہ اُس کی پُر کشش شخصیّت نے سبھی کے دل مُٹھی میں لے لیے۔ کئی بار میں اُسے اپنے ساتھ شکار کی مہموں پر بھی لے گیا، لیکن شیروں اور چیتوں کا ذکر آتے ہی اس پر ایک عجیب سی گھبراہٹ، بلکہ خوف کی حالت طاری ہو جاتی تھی۔ وہ ایسے موقعوں پر کوئی حیلہ بہانہ کر کے میرے ساتھ جانے سے گریز کرتا، لیکن مَیں زبردستی اُسے لے جاتا۔ وہ کہا کرتا تھا کہ اِن درندوں کا شکار نہایت مُہلک کام ہے اور ایک نہ ایک روز شکاری اِن کے ہتھّے چڑھ ہی جاتا ہے۔ مَیں اس کا مذاق اڑاتا اور کہتا: ‘سدا رام، موت تو ایک دن آنی ہی ہے، جو وقت اُس کے لیے مقرّرِ ہے، وہ کسی حالت میں بھی ٹل نہیں سکتا، اس لیے یہ اندیشے بیکار ہیں۔‘ وہ جواب دیتا۔ ‘یہ بات تو ٹھیک ہے، لیکن اپنے آپ کو جان بوجھ کر موت کے منہ میں لے جانا بھلا کہاں کی عقلمندی ہے۔‘
جنگلی جانوروں میں اُسے ہرنوں، بارہ سنگھوں اور سُؤروں سے زیادہ دلچسپی تھی اور وہ مجھ پر زور دیا کرتا کہ شکار کا شوق ان جانوروں کو ہلاک کر کے بھی پورا کیا جا سکتا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ جنگلی سُؤر کا شکار تو شیر سے بھی زیادہ خطرناک اور جان جوکھوں کا کام ہے، مزا تو اس میں آتا ہے۔ ہماری بحثیں کبھی ختم نہ ہوتی تھیں اور وقت بہرحال اسی طرح گزرتا تھا۔
ایک روز مَیں نے شوالک کی پہاڑیوں کے دامن میں واقع بلواکی جنگل کے اندر شکار کھیلنے کا پروگرام بنایا۔ یہ جنگل ایک ہندو ریاست کی ملکیت تھا اور یہاں والیِ ریاست، انگریز وائسرائے اور بڑے بڑے سرکاری افسروں کے سوا کوئی اور شکار کھیلنے کی جرأت نہ کر سکتا تھا، لیکن مجھے جوش جوانی اور والد کے اثر و رسُوخ کے باعث یہ سوچنے کی فرصت بھی نہ تھی کہ اس جنگل میں قدم نہیں رکھ سکتا۔ مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ بلوالی میں ریاست کے حکام کی اجازت کیے بغیر ہتھیار لے کر جانے والے کئی شکاری نہ صرف بھاری جرمانہ ادا کر چکے ہیں، بلکہ انہوں نے ان کے ہتھیار بھی چھین لیے تھے۔ سدا رام نے یہ تمام باتیں میرے گوش گزار کیں، مگر میں نے ایک نہ سُنی اور یہ کہہ کر اُسے خاموش کر دیا کہ اگر جنگل کے محافظوں نے ہمیں پکڑ لیا، تو ہم رشوت دے کر جان چھڑا لیں گے۔ اُس زمانے میں جنگلوں کی حفاظت کرنے والے چوکیداروں کو تنخواہ وغیرہ برائے نام ہی ملتی تھی اور وہ اپنا پیٹ بھرنے کے لیے چوری چھُپے درختوں سے پھل اتارتے، بیچتے یا موقع پا کر شکاریوں سے چند روپے لے کر انہیں ہرن وغیرہ مارنے کی اجازت دے دیتے تھے۔
دو تین دن تیاریوں میں گزر گئے۔ اس دوران میں سدا رام نے اپنی مصروفیات کا بہانہ بنا کر میرے ساتھ نہ جانے کا اظہار کیا، لیکن مجھے بھی ضد ہو چکی تھی کہ خواہ کچھ ہو، سدا رام کتنی ہی رسّیاں تڑائے، میں اسے ساتھ ضرور لے جاؤں گا۔
تیسرے روز دوپہر کے وقت جب مَیں واپس آیا، تو میں نے ملازم لڑکے سے پوچھا:
’سدا رام کہاں ہے؟’
وہ ہنس کر بولا: ‘آج تو اُس نے کمال ہی کر دیا۔ آپ تھوڑی دیر پہلے آتے تو خود تماشا دیکھ لیتے۔ ایک ہرن اِدھر ٹہلتا ہوا آ نکلا، سدا رام نے اُسے دیکھتے ہی اپنی بندوق سنبھالی اور فائر کر دیا۔ فائر ہوتے ہی ہرن کئی فٹ اونچا اُچھلا اور پھر جنگل کے زیریں حِصّے کی طرف دوڑ گیا۔ سدا رام کہتا تھا کہ گولی اُسے لگی ہے اور وہ کہیں نہ کہیں ضرور گر پڑے گا۔ چنانچہ وہ ہرن کے پیچھے پیچھے جنگل میں گھُس گیا اور ابھی تک نہیں لوٹا۔‘
لڑکے نے مجھے وہ جگہ دکھائی جہاں ہرن نمودار ہوا تھا۔ چند منٹ کی تفتیش کے بعد پتہ چل گیا کہ وہ صحیح کہتا ہے۔ سدا رام کی گولی نے ہرن کو زخمی کر دیا تھا، لیکن یہ زخم اتنا مہلک بہرحال نہ تھا، کیونکہ خون کے بہت تھوڑے نشان گھاس پر بکھرے ہوئے تھے۔ پچاس گز کے فاصلے پر مجھے ایک جگہ خون دکھائی دیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ زخمی ہرن چند لمحے یہاں رک کر سستایا ہے۔ مجھے حیرت اس بات پر تھی کہ توڑے دار بندوق کی 12.9 گرین وزنی گولی نے جو بارہ سَو فٹ فی سیکنڈ کی رفتار سے جاتی ہے، ایک معمولی ہرن کو مارے بغیر چھوڑ کیسے دیا۔ اسے تو موقع ہی پر دَم توڑ دینا چاہیے تھا۔
مَیں سدا رام اور ہرن کی تلاش میں مزید ڈیڑھ میل آگے چلا گیا۔ یہاں ایک خشک نالا تھا جس کے دونوں کناروں پر گھنی خار دار جھاڑیاں سر اُٹھائے کھڑی تھیں اور زخمی ہرن یا تو اس نالے میں تھا یا جھاڑیوں میں۔۔۔ یک لخت میری متجسّس نگاہوں نے سدا رام کو ڈھونڈ لیا۔ وہ نالے کے کنارے لمبی گھاس میں بیٹھا اونگھ رہا تھا۔ ہرن کی تلاش میں ہار تھک کر اس نے افیم کی چسکی لگا لی تھی۔
مَیں اس کے قریب پہنچا، وہ تب بھی اُونگھتا رہا۔ میں نے اپنی 265 کی رائفل سے اسے ٹہوکا دیا، تو اُس نے سر اٹھا کر میری طرف دیکھا اور قہقہہ مار کر بولا:
’مجھے معلوم تھا کہ تم میری تلاش میں یہاں ضرور آؤ گے۔ اس بدمعاش ہرن نے مجھے بہت پریشان کیا۔ اب وہ انہی جھاڑیوں میں کہیں چھُپ گیا ہے، لیکن میں اُسے ساتھ لے کر ہی جاؤں گا۔ وہ زخمی ہو چکا ہے اور بس تھوڑی دیر تک مرنے والا ہے۔‘
’تمہیں اِس جنگل میں ایک زخمی ہرن کے پیچھے نہ آنا چاہیے تھا۔‘ مَیں نے اُسے سمجھایا۔ ‘تمہارے پاس توڑے دار بندوق تو ہے، لیکن تمہارا نشانہ اچھا نہیں۔ یہ جنگل درندوں سے بھرا ہوا ہے، ممکن ہے کوئی شیر اِدھر آ جائے اور تمہیں ہڑپ کر لے۔‘
وہ پھر ہنسا۔ ‘شیر مجھے ہڑپ کر لے، تو اچھّا ہے۔ پاپ کٹے گا۔ میرے پیچھے رونے والا اب ہے بھی کون۔‘
’ہم جو ہیں۔‘ میں نے جواب دیا اور اُسے اٹھنے کا اشارہ کیا، لیکن وہ لیٹ گیا اور کہنے لگا:
’مَیں اِس وقت نہیں اٹھ سکتا۔ میرے ہاتھ پَیر قابو میں نہیں ہیں۔ تم جاؤ اور اُس ہرن کو تلاش کرو۔‘
ابھی ہم باتیں کر ہی رہے تھے کہ جھاڑیوں میں سے ایک بہت خوبصورت اور چھوٹا ہرن نکل کر بھاگا اور اِس سے پیشتر کہ مَیں فائر کر دوں، وہ نظروں سے اوجھل ہو چکا تھا۔ ہرن کی رفتار میں تیزی نہ تھی اور اس کی پچھلی بائیں ٹانگ لنگ کر رہی تھی۔
’یہی ہے۔۔۔ یہی ہے۔۔۔‘ سدا رام چلّایا۔ ‘جاؤ، اُسے گھیر لو۔۔۔ وہ زیادہ دُور نہیں جائے گا۔‘
’اچھّا، میری واپسی تک تم یہیں رہنا۔‘ مَیں نے اُس سے کہا اور ہرن کے تعاقب میں دوڑا۔ جنگل کا یہ حصّہ انگریزی کے حرف s کی صورت میں میرے سامنے پھیلا ہوا تھا اور قدم قدم پر اُونچی نیچی زمین اور جھاڑیاں میرے راستے میں میں حائل ہوتی تھیں، لیکن ہرن پر قابو پانے کی کوشش میں میں نے اِن رکاوٹوں کی کوئی پروا نہ کی اور سانس لیے بغیر بھاگتا رہا۔ ہرن کی زخمی ٹانگ سے اب خون مسلسل رِس رہا تھا اور یہی خون میری رہنمائی کر رہا تھا۔ ایک مرتبہ والدہ صاحب نے مجھے کسی ایرانی شاعر کا شعر سنایا تھا جس کا مفہوم یہ تھا کہ ہرن کا وہ خون جو اُس کی زندگی اور ساری چُستی چالاکی کا ضامن ہے، بُرا وقت پڑنے خود اس کا دشمن بن جاتا ہے اور شکاری کو راہ دکھاتا ہوا ہرن تک لے جاتا ہے۔
بھاگ دوڑ میں مجھے وقت کا احساس نہ رہا۔ اس دوران میں ہرن کئی بار مجھے نظر آیا لیکن وہ ہمیشہ اِس رُخ پر ہوتا کہ فائر کرنے کا کوئی فائدہ نہ تھا۔ در اصل وہ اتنا حسِین تھا کہ اُسے پکڑنے کی خواہش میرے دل میں کروٹیں لینے لگی۔ پسینے سے میری قمیص تر ہو چکی تھی اور سانس بری طرح پھُول رہا تھا۔ میں نے ہرن کو ایک اور گہرے خُشک نالے میں اُترتے دیکھا اور اُس طرف بڑھا۔ عین اُسی وقت جنگل میں شام کی سرد ہَوا چلی اور پھر مغرب کی طرف جھُکتے ہوئے سورج کی روشنی آہستہ آہستہ ایک بلند پہاڑی کے عقب میں سمٹنے لگی۔ چند لمحے بعد مَیں سردی سے کانپ رہا تھا۔ اب مَیں نے ہرن کا خیال چھوڑ کر واپس جانے کی ٹھانی، کیونکہ سدا رام کو وہاں چھوڑ آیا تھا اور جانتا تھا جب تک مَیں نہ پہنچوں گا۔ وہ جنبش نہ کرے گا اور ساری رات وہیں پڑا رہے گا۔
یہ سوچ کر مَیں واپس چلا، لیکن بد قِسمتی ملاحظہ ہو کہ راستہ بھول کر کسی اور طرف جا نکلا۔ جنگل میں جُوں جُوں اندھیرا پھیل رہا تھا۔ اسی رفتار سے میرے اضطراب اور بے چینی میں اضافہ ہو رہا تھا۔ اپنے سے زیادہ مجھے سدا رام کا خیال تھا اور جب بار بار دل میں یہ خوف سمانے لگا کہ سدا رام کو کوئی درندہ اٹھا کر نہ لے جائے تو کچھ نہ پوچھیے میری کیا کیفیّت ہوئی۔ اپنی بیوقوفی اور جلد بازی پر غصّہ آتا کہ ایک معمولی ہرن کے پیچھے فضول اتنا وقت برباد کیا اور پریشانی مول لی۔
سُورج چھُپنے میں بس دو یا تین منٹ باقی رہ گئے تھے اور پرندوں کے شور سے کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ دیر تک بھٹکتے رہنے کے بعد خدا خدا کر کے وہ خشک نالا مجھے دکھائی دیا جِسے عبور کر کے مَیں ہرن کے تعاقب میں دوڑا تھا۔ ابھی مَیں اس میں اترنے کے لیے کوئی مناسب سی جگہ ڈھونڈ ہی رہا تھا کہ مجھ سے صرف چھ فٹ کے فاصلے پر کوئی کھڑی ہوئی جھاڑیاں ہلنے لگیں اور ان میں اسے ایک قوی ہیکل اور شاندار شیر انگڑائیاں لیتا اور ہلکی ہلکی آواز میں غرّاتا ہوا برآمد ہوا۔ اُسے دیکھ کر میں جیسے پتھر ہو گیا۔ کاٹو تو لہو نہیں بدن میں۔۔۔ ہاتھ بالکل بے جان ہو گئے اور دل کی حرکت گویا بند۔۔۔ شیر نے مجھے دیکھ لیا، لیکن کوئی پروا کیے بغیر وہیں کھڑے کھڑے اپنا خوفناک جبڑا پوری طرح کھول کر ایک لرزہ خیز ڈکار لی۔ اب مَیں نے بھی دیکھا تو کہ اُس کا مُنہ خون میں لت پت ہے۔ غالباً وہ ابھی ابھی پیٹ بھر کر جھاڑیوں میں سے باہر پانی پینے کے ارادے سے نکلا تھا۔
شیر کا خون آلود جبڑا دیکھ کر میری رہی سہی جان بھی نکل گئی۔ پہلا خیال دل میں یہی آیا کہ شیر نے سدا رام کو ہڑپ کر لیا۔ شیر اِس مداخلت بے جا، بلکہ گستاخی پر کہ میں اب تک وہاں کیوں کھڑا ہوں، ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے غرّایا۔ اس کے کان کھڑے تھے اور دُم آہستہ آہستہ ہل رہی تھی۔ اس کا پیٹ بھرا ہوا تھا، اِس لیے وہ مجھ پر حملہ کرنے کا قطعاً خواہشمند نہ تھا، صرف دھمکی دے رہا تھا۔ جَب مَیں نے اِس دھمکی کو نظر انداز کر دیا اور اپنی جگہ سے حرکت نہ کی، تو شیر یک لخت غصّے سے گرجا اور نہایت شاہانہ انداز سے منہ پھیر کر دوبارہ جھاڑیوں کی طرف بڑھا۔ اس کے منہ پھیرتے ہی مجھ میں نہ جانے کہاں سے قوت آ گئی۔ فوراً ہی مَیں نے رائفل سیدھی کی اور شیر کی کھوپڑی کا نشانہ لے کر فائر جھونک دیا۔ فائر کا دھماکا ہوتے ہی شیر پھر دہاڑا اور جھاڑیوں کو چیرتا پھلانگتا بہت دور چلا گیا، لیکن اس کے دہاڑنے کی آواز دیر تک کانوں میں آتی رہی۔ غالباً نشانہ خطا گیا! تاہم شیر کے دفان ہو جانے سے کچھ تسلّی ہوئی اب مَیں ان جھاڑیوں کی طرف بڑھا جن میں سے شیر برآمد ہوا تھا۔ اس وقت میرا دل بے تحاشا دھڑک رہا تھا۔ میں نے چند لمحے رُک کر پیشانی سے پسینے کے قطرے پونچھے اور سدا رام کی لاش دیکھنے آگے بڑھا، لیکن میرے خدشات بے بنیاد ثابت ہوئے۔ جھاڑیوں میں سدا رام کے بجائے ہرن کی کھال، کھوپڑی ہڈیوں اور کھُروں کے سوا کچھ نہ تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کیہ وہی زخمی ہرن پناہ لینے کے لیے دوبارہ ادھر آیا اور سیدھا شیر کے منہ میں پہنچ گیا۔ شیر یقیناً یہاں پہلے ہی سے آرام کر رہا تھا۔
چند منٹ بعد مَیں نے اسی جگہ اپنے آپ کو پایا جہاں اپنے دوست سدا رام کو لیٹا ہوا چھوڑ گیا تھا۔ اس کا کہیں پتہ نہ تھا۔ میں نے ارد گرد کے درختوں پر نظریں دوڑائیں، شاید ان میں سے کسی پر چڑھ کر بیٹھ رہا ہو، مگر یاد آیا کہ وہ تو درخت پر چڑھنا ہی نہیں جانتا، پھر آوازیں دیں خوب خوب زور زور سے۔۔۔ مگر کوئی جواب نہ ملا۔ سدا رام کی ایسی عادت تو نہ تھی کہ وہ چپ رہے۔۔ پریشان کُن خیالات میرے ذہن میں اٹھنے لگے۔ معاً تیزی سے بڑھتے ہوئے اندھیرے میں کچھ فاصلے پر سفید سفید کوئی چیز دکھائی دی۔ میں جلدی سے اُدھر گیا۔ یہ چیز سدا رام کی سفید پگڑی تھی۔ اب تو میرے ہوش و حواس جواب دے گئے میں نے کانپتے ہاتھوں سے سدا رام کی پگڑی اٹھائی اور انتہائی مایوس ہو کر اِدھر اُدھر یوں دیکھنے لگا جیسے وہ ابھی کسی جھاڑی سے قہقہہ لگا کر نکل آئے گا۔
پگڑی ملنے کے بعد تو مجھے یقین ہو گیا کہ سدا رام پر کوئی اُفتاد پڑی ہے، مگر سوال یہ تھا کہ وہ آخر گیا کہاں۔ اُسے زمین نکل گئی یا آسمان کھا گیا۔ عجیب پُر اسرار معاملہ تھا۔ مجھے تشویش یہ تھی کہ اب جا کر گاؤں والوں کو منہ دکھاؤں گا۔ سدا رام تو ان کی متاع عزیز تھا، اس کے یوں جنگل میں گم ہونے سے لوگوں کو جو رنج اور صدمہ پہنچے گا، اس کا کچھ کچھ تصور مجھے بھی ہو رہا تھا۔ اندھیرا لحظہ بہ لحظہ بڑھتا جاتا تھا اور سرد ہوا کے جھونکے دم بدم تیز ہوتے جاتے تھے لیکن میں ان باتوں سے بے پروا سدا رام کی فکر میں غرق تھا۔ دماغ کچھ کام نہ کرتا تھا کہ کیا کروں، کہاں جاؤں۔ اب اتنے عرصے بعد اس واقعے پر غور کرتا ہوں، تو اپنے لڑکپن اور لڑکپن کی حماقتوں پر ہنسی کے ساتھ ساتھ رونا بھی آتا ہے۔
غم و اندوہ سے نڈھال ہو کر میں ایک درخت کے نیچے بیٹھ گیا اور سوچنے لگا کہ اب کیا کروں۔
دفعتاً میرے سر پر ایک چھوٹی سی شاخ آن کر گری، میں نے کچھ توجہ نہ دی۔ مگر فوراً ہی ایک اور۔۔۔ پھر ایک اور شاخ آئی۔ اس کے ساتھ دبی دبی ہنسی کی آواز۔ دہشت سے میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔۔۔ مجھے خیال آیا کہ یہاں کسی بد روح کا اثر ہے۔ بد حواس اور پریشان تو پہلے سے تھا، اٹھ کر اندھا دھُند بھاگ اٹھا۔ فوراً ہی سدا رام کا مانوس قہقہہ جنگل کی فضا میں گونجا اور اس نے درخت پر سے آواز دی:
’مجھے معلوم نہ تھا تم اِتنے ڈرپوک نکلو گے۔‘
اُس کی یہ بات سُن کر مجھے ہنسی بھی آئی اور غصّہ بھی آیا۔ میں درخت کے پاس پہنچا۔ وہ کہنے لگا:
’زندگی میں پہلی بار کسی درخت پر چڑھا ہوں۔۔۔ ہُوا یہ کہ میں آرام سے لیٹا تھا۔ یکایک میری ناک میں شیر کی بُو آئی۔۔۔ پھر ارد گرد درختوں پر بیٹھے ہوئے پرندے اور جھاڑیوں میں چھُپے ہوئے چھوٹے چھوٹے جانور نکل کر چیخنے اور بھاگنے دوڑنے لگے۔ شیر اسی طرف کو آ رہا تھا۔ میں نے اُس کے ہانپنے کی آواز بھی سُنی۔ اب کیا کرتا؟ مجبوراً اس درخت پر چڑھ گیا اور جان بچائی۔‘
’تمہیں معلوم تھا کہ میں یہاں بیٹھا ہوں، پھر تم نے مجھے پریشان کیوں کیا؟’ میں نے مصنوعی غصّے سے کہا۔ ‘رات سر پر آ گئی۔ ہرن کو تو شیر ہڑپ کر گیا اور اسی لیے تمہاری جان بچ گئی۔ تم نے فائر کی آواز نہیں سُنی؟’
’مجھے تو کچھ سنائی نہیں دیا۔‘
’اچھّا، اب نیچے تو اترو۔‘
’یہی تو مشکل ہے۔‘ وہ چلّایا۔ ‘اترنا میرے بس کی بات نہیں۔‘
’میں کہتا ہوں سدا رام، مذاق نہ کرو۔ اندھیرا بڑھتا جا رہا ہے۔ جلدی نیچے اتر آؤ ہمیں ابھی کافی دُور بھی جانا ہے۔‘
’سچ کہہ رہا ہوں، مجھ سے اترا نہیں جاتا۔‘ اُس نے جواب دیا۔ ‘مجھے ڈر ہے کہ مَیں ضرور گر جاؤں گا اور میری کوئی ہڈی پسلی چٹخ جائے گی۔‘
’خدا تمہیں سمجھے، آج تو تم نے مجھے بہت ہلکان کیا۔ ارے بھائی، تم تو جنگ لڑ چکے ہو۔ اپنی بہادری کی سینکڑوں داستانیں تم نے لوگوں کو سنائی ہیں، لیکن حال یہ ہے کہ درخت پر سے نیچے نہیں اترتے۔ ڈرتے ہو کہ چوٹ لگ جائے گی۔ فکر نہ کرو، گر بھی گئے، تو میں تمہیں سنبھال لوں گا! ورنہ ساری رات یہیں ٹنگے رہو۔ میں اب گاؤں جا رہا ہوں۔ صبح آدمیوں کو لے کر آؤں گا۔ وہی تمہیں اتاریں گے۔‘
یہ کہہ کر میں چلنے کے لیے تیار ہوا۔
’ارے نہیں۔۔۔ بھگوان کے لیے مجھے یہاں اکیلے نہ چھوڑو۔ میں مر جاؤں گا۔‘
’تم اکیلے نہیں ہو سدا رام۔‘ مجھے اب مذاق سُوجھا۔ ‘تمہارے ساتھ جنگل کے ہزار ہا پرندے ہیں، سینکڑوں دوسرے جانور ہیں اور وہ شیر بھی ہے جو یقیناً ادھر ہی کہیں رہتا ہے۔ میں تو چلا۔‘
’کیا واقعی تم مجھے چھوڑ کر جا رہے ہو؟’ وہ چیخا۔ ‘ارے نہیں بابا۔۔۔ ایسا نہ کرو، دیکھو میں اُترنے کی کوشش کرتا ہوں، تم مجھے طریقہ بتاتے جاؤ۔‘
’تم خواہ مخواہ نخرے کر رہے ہو سدا رام، آنکھیں بند کرو اور نیچے اتر آؤ۔‘
’سب سے پہلے اُس نے اپنا کوٹ اتار کر نیچے پھینکا، پھر جُوتے اور جرابیں۔ اس کے بعد درخت کے تنے کو گلے سے لپٹا کر نٹوں کی طرح پھسلتا ہوا نیچے آ گیا، لیکن اس بیہودگی سے کہ اس کی قمیص اور پتلون کے ٹکڑے ٹکڑے اڑ گئے۔ زمین پر آتے ہی وہ یوں بے سُدھ ہو کر لیٹ گیا جیسے بہت بڑی مہم سر کر کے آیا ہے۔‘
’ذرا میرے کوٹ سے افیم کی ڈبیا تو نکالنا۔‘ اُس نے کراہتے ہوئے کہا اور مَیں نے دل ہی دل بل کھا کر اُس کا کوٹ اٹھایا اور اندرونی جیب میں سے ڈبیا نکالی جس کے اندر روئی میں لپٹی ہوئی چند ننھّی ننھّی سیاہ گولیاں رکھی تھیں۔ ایک گولی کھا کر اُس کی جان میں جان آئی اور ہم دونوں ایک دوسرے پر ناراض ہوتے اور لڑتے جھگڑتے گاؤں پہنچے، تو وہاں الاؤ روشن ہو چکے تھے۔
اگلے روز ایک عجیب حادثہ پیش آیا جس نے گاؤں میں خوف کی لہر دوڑا دی کہ باید و شاید۔ مشرق کی جانب ایک ندّی تھی جہاں سے لوگ اپنی ضروریات کے لیے پانی لایا کرتے تھے اور گاؤں کی عورتیں وہاں جا کر کپڑے بھی دھو لیا کرتی تھیں۔ صبح سویرے بے چاری ایک بوڑھی عورت ندی پر گئی اور کپڑے دھونے لگی۔۔۔ اتنے میں ایک شیر آیا اور اسے اٹھا کر لے گیا۔ اس واردات کی خبر گاؤں میں دوپہر کو پہنچی، جبکہ دوسری عورتیں ندّی پر پانی لینے کے لیے گئیں۔ انہوں نے دیکھا کہ ایک طرف دھلے ہوئے چند کپڑے پڑے ہیں اور قریب ہی تازہ خون بھی پھیلا ہوا ہے۔ ندّی کے کنارے گیلی مٹی میں شیر کے پنجوں کے تازہ نشان دیکھ کر یہ اندازہ کرنا کچھ مشکل نہ تھا کہ کیا واقعہ پیش آیا ہو گا۔ اس قسم کا حادثہ اس سے پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔ کچھ لوگ اس عورت کی تلاش میں نکلے اور انہوں نے ندّی سے تقریباً تین میل کے فاصلے پر عین اسی جگہ جہاں گزشتہ روز میں نے شیر پر گولی چلائی تھی، اس عورت کی لاش اِس حالت میں پڑی پائی کہ درندے نے کھوپڑی اور ہاتھوں پیروں کے سوا بڑا حِصّہ ہڑپ کر لیا تھا۔ اس کے کپڑوں کی دھجّیاں بھی جا بجا بکھری ہوئی دیکھی گئیں۔ گاؤں کی عورتوں نے رونا پیٹنا شروع کر دیا اور مردوں نے اس نئی آفت کا مقابلہ کرنے کے منصوبے بنانے شروع کیے۔ مَیں چونکہ نوعمر شکاری تھا اور اس سے پہلے کبھی آدم خور سے مقابلہ کرنے کی نوبت نہ آئی تھی، اس لیے لوگوں نے میرے پاس آنے کی ضرورت محسوس نہ کی، بلکہ میرے والد کی آمد کا انتظار کرنے لگے جو اُن دنوں دورے پر کہیں اور گئے ہوئے تھے۔ تاہم مَیں نے انہیں دلاسا دیا کہ جب تک والد نہیں آ جاتے میں اِس شیر کو تلاش کر کے ہلاک کرنے کی کوشش کروں گا، مگر کوئی شخص مجھے جنگل میں جانے کی اجازت دینے کے لیے تیار نہ تھا۔
واقعہ یہ تھا کہ میں جتنا اس معاملے کی نزاکت پر غور کرتا، اتنا ہی مجھے اپنا قصور دکھائی دکھائی دیتا۔ یقیناً وہی شیر تھا جو میری گولی سے زخمی ہوا اور اب جوش انتقام میں انسانوں کو ایذا پہچانے کی نیّت کر چکا تھا۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت تھی کہ آدم خوروں کی ہیبت میرے دل میں حد درجے بیٹھی ہوئی تھی اور اس کا باعث بھی آنکھوں دیکھا ایک ایسا واقعہ تھا جسے میں کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔ 1918ء میں میرے والد ایک شیر کے شکار کے سلسلے میں دن کا چین اور رات کی نیند حرام کیے ہوئے تھے، لیکن وہ موذی اتنا چالاک اور ہوشیار تھا کہ ہر بار جُل دے کر نکل جاتا۔ اُن دنوں والد کے پاس اعشاریہ پانچ سو کی رائفل تھی۔ رات کو انہوں نے اِس شیر کو پھانسنے کے لیے جنگل میں ایک بچھڑا بندھوایا اور مچان پر بیٹھ کر انتظار کرنے لگے۔ میرے علاوہ اُن کے ساتھ دو شکاری اور بھی تھے۔ شیر رات کے پچھلے پہر آیا اور بچھڑے کو زخمی کر دیا۔ والد نے فائر کیا۔ گولی شیر کو لگی مگر وہ بھاگ جانے میں کامیاب ہو گیا۔ لیکن والد کا خیال تھا کہ اعشاریہ پانچ سو رائفل کی 580 گرین وزنی گولی کھا کر شیر زیادہ دُور نہیں جا سکتا اور ضرور مر جائے گا! چنانچہ صبح کا اجالا پھیلتے ہی وہ اس ‘مردہ شیر’ کی تلاش میں نکلے۔
اس وقت صبح کے سات بجے تھے۔ اُس حِصّے میں جہاں شیر نے بچھڑے کو زخمی کیا تھا، خود شیر کے جسم سے نکلا ہوا خون بھی جما ہوا نظر آیا۔ جنگل میں سخت کُہر پڑ رہی تھی اور دس بارہ فٹ کے فاصلے پر بھی کچھ نظر نہ آتا تھا۔ اس سے آگے ایک پہاڑی تھی اور زخمی درندہ اس پہاڑی کے دامن تک آیا تھا۔ والد کا تجربہ یہ تھا کہ درندے گولی سے زخمی ہونے کے بعد پہاڑیوں پر نہیں چڑھتے، بلکہ جھاڑیوں میں چھپ کر آرام کرتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے جھاڑیاں دیکھنی بھالنی شروع کیں، مگر شیر وہاں بھی نہ تھا۔ اب ہم نالکا وادی میں داخل ہوئے۔ اتنی دیر میں کُہر خاصی چھٹ چکی تھی اور دور کا منظر بخوبی ہمارے سامنے تھا۔ ایک پتلی سی پگڈنڈی پر ہم قطار بنائے جا رہے تھے۔
والد صاحب آگے آگے تھے اور اُن کے پیچھے بچھڑے کا مالک۔ میں اور بقیّہ دونوں شکاری اُن سے تقریباً دس گز پیچھے چل رہے تھے۔ نالکا وادی کے ایک جانب بانس کے درختوں کا گھنا جھُنڈ تھا جس کے کنارے پر سال کا ایک عظیم الشان درخت فخر سے سینہ تانے کھڑا تھا۔ والد اس درخت کے قریب پہنچے اور اس کی شان و شوکت دیکھنے کے لیے رُک گئے۔ ہم لوگ اُس وقت لمبی گھاس میں سے گزر رہے تھے، دفعتاً شیر کی ہولناک گرج اس جھُنڈ میں سے بلند ہوئی، پھر بجلی کی مانند ایک قد آور شیر لپکا اور پلک جھپکنے میں بد نصیب بچھڑے والے کو منہ میں دبا کر جدھر سے آیا تھا، اسی طرف کو دوڑا گیا۔ اتنا یاد ہے کہ والد نے یکے بعد دیگرے دو فائر کیے۔ بارود کی بُو اور دھواں فضا میں پھیلا اور اس کے ساتھ ہی شیر کی ایک اور گرج سنائی دی، پھر میں نے اُن کی آواز سُنی وہ مجھ سے کہہ رہے تھے: ‘خبردار، جہاں ہو وہیں رُک جاؤ۔ آگے نہ بڑھنا۔‘
دس منٹ گزر گئے۔ اس کے بعد والد کی آواز دوبارہ آئی۔ اب وہ ہمیں آگے آ جانے کا حکم دے رہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ دونوں گولیاں شیر کو لگی ہیں اور وہ یقیناً مر گیا ہو گا۔ آدھ گھنٹے کی تلاش کے بعد ایک جگہ ہم نے اُس کی اور آدمی کی لاشیں قریب قریب پڑی پائیں۔ بچھڑے والے کی لاش دیکھ کر میرے بدن پر کپکپی سی طاری ہو گئی۔ شیر کو اگرچہ اُس کے گوشت سے پیٹ بھرنے کا موقع نہ ملا تھا! تاہم اُس نے آدمی کو اپنے پنجوں اور دانتوں سے اُدھیڑ کر رکھ دیا تھا۔ والد میری حالت دیکھ کر کچھ پریشان ہوئے اور جلدی سے ایک طرف لے گئے۔ میری عُمر اُن دنوں آٹھ نو سال کی تھی اور یہ پہلا موقع تھا کہ میں نے اپنی آنکھوں سے یہ رُوح فرسا ڈرامہ دیکھا۔
والد نے مجھے یہ نصیحت کی تھی کہ آدم خور کا شکار سب سے مشکل ہے۔
اور اس کے لیے شکاری کے پاس طویل تجربہ ہونا چاہیے اور جنگل میں تنہا جانے والا شخص کبھی محفوظ نہیں رہ سکتا۔ ہمیشہ ایک دو نڈر تجربے کار شکاریوں کو ساتھ رکھنا چاہیے۔ چونکہ مَیں اپنے آپ کو اِس نئے واقعے کا ذمے دار سمجھتا تھا، اس لیے دل میں یہ خواہش کروٹیں لینے لگی کہ مجھ ہی کو اس آدم خور کا قِصّہ پاک کرنا چاہیے۔ ساتھ دینے کے لیے سدا رام کے علاوہ کوئی دوسرا شخص میرے ذہن میں نہ تھا۔ شام کے وقت جبکہ میں اپنی رائفل صاف کر رہا تھا، سدا رام میرے پاس آیا اور کہنے لگا:
’مجھے تو یہ حرکت اسی شیر کی معلوم ہوتی ہے جس پر تم نے کل شام گولی چلائی تھی۔ کیا خیال ہے؟’
’معلوم تو ایسا ہی ہوتا ہے۔‘ میں نے ندامت سے کہا۔ ‘لیکن اب ہمیں کچھ کرنا چاہیے۔ ورنہ یہ شیر تو گاؤں والوں کے لیے مستقل آفت بن جائے گا۔‘
’ہم کچھ نہیں کر سکتے، تمہیں اپنے والد کے آنے کا انتظار کرنا چاہیے۔‘ سدا رام نے فیصلہ کیا۔
’مگر قصور تو میرا ہے۔‘ میں نے جرح کی۔ ‘میں اُس شیر پر گولی چلا کر اُسے زخمی نہ کرتا، تو بات یہاں تک کیسے پہنچتی؟ آخر اس میں حرج ہی کیا ہے۔ ممکن ہے وہ آج ہی رات گارے پر پیٹ بھرنے آئے۔ مَیں وہاں مچان بندھواتا ہوں اور تم میرے ساتھ اس مہم پر چلو گے۔‘
’نہ بابا، میں تمہیں وہاں جانے نہ دوں گا اور نہ خود جاؤں گا۔‘ سدا رام نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا۔ ‘بھگوان نہ کرے تمہیں کچھ ہو گیا، تو تمہارے والد مجھے کچا ہی چبا جائیں گے۔‘
’میرے والد آدم خور نہیں۔۔۔‘ میں نے کہا۔ ‘وہ ایک بہادر آدمی ہیں اور مجھ سے بھی یہی توقع رکھتے ہیں کہ مَیں بُزدلی نہ دکھاؤں۔ ذرا سوچو تو جب انہیں پتہ چلے گا کہ مَیں نے آدم خور مارا، تو کس قدر خوش ہوں گے۔‘
’خوش ہوں یا نہ ہوں، مَیں ہر گز تمہارے ساتھ نہیں جاؤں گا۔‘ اُس نے سنجیدگی سے کہا۔
مَیں سمجھ گیا کہ اگر اس پر مزید زور دیا، تو وہ اور ضد کرے گا۔ اب اُس کے جذبات کو بیدار کرنے کی ضرورت تھی۔ چنانچہ مَیں نے اُسے ایسے آدم خوروں کے قِصّے سنانے شروع کیے جنہوں نے بستیوں کی بستیاں ویران کر ڈالی تھیں اور سینکڑوں افراد کو ہڑپ کر گئے تھے۔ مَیں نے گلو گیر لہجے میں تقریر شروع کی اور آخر میں کہا:
’سدا رام، ذرا غور کرو، آخر ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے کب تک بیٹھے رہیں۔ وہ سب کو پھاڑ کھائے گا۔ آج اُس نے اُس بڑھیا کو کھایا ہے، کل کسی اور کی باری آئے گی اور پرسوں کوئی اور اُس کا نوالہ بنے گا۔ کیا تم چاہتے ہو کہ گاؤں کے سب بچّے یتیم ہو جائیں اور تمام عورتیں رانڈ بیوہ بن جائیں۔ کیا ہم اپنی زندگی داؤ پر لگا کر ان سب کی جانیں نہیں بچا سکتے؟’
سدا رام کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے، اُس نے گلو گیر لہجے میں کہا:
’ٹھیک ہے، مَیں تمہارے ساتھ جانے کو تیار ہوں۔‘
اگر کوئی شخص مجھ سے پُوچھے کہ دُنیا میں سب سے خطرناک کام کونسا ہے، تو مَیں بلا تامّل کہہ دوں گا کہ کسی زخمی اور آدم خور شیر کا شکار کھیلنا۔ درندہ جب ان دونوں حالتوں سے گزر رہا ہو، تو اُس کے غیظ و غضب، جوشِ انتقام اور مکّاری کی انتہا نہیں رہتی۔ ہمارے ہاں اس قسم کے درندے کو مارنے کے چار طریقے رائج ہیں۔ پہلا طریقہ زیادہ آسان اور خاصا محفوظ ہے اور اکثر شکاری اس پر عمل کرتے ہیں۔ یعنی کسی سدھے ہوئے ہاتھی پر سوار ہو کر درندے کی تلاش میں نکلتے ہیں۔ بعض اوقات اکیلا ہاتھی درندے کا سامنا کرتے ہوئے کتراتا ہے، اس لیے شکاری ہمیشہ اپنے ساتھ تین یا چار ہاتھی لے کر جنگل میں نکلتا ہے۔ دوسرا طریقہ ہانکے کا ہے۔ اس میں شکاری بہت سے مویشیوں کا ریوڑ لے کر جنگل کے اُس حِصّے میں جاتا ہے جہاں اُسے شک ہوتا ہے کہ درندہ چھُپا ہوا ہے۔ ریوڑ کے ساتھ ساتھ کئی آدمی ڈھول اور ٹین کے کنستر پیٹتے ہوئے چلتے ہیں۔ اس غل غپاڑے اور بے پناہ شور سے درندہ گھبرا کر کمیں گاہ سے باہر نکلتا ہے اور شکاری کی بندوق کا نشانہ بن جاتا ہے۔ دوسرا طریقہ کچھ زیادہ کامیاب ثابت نہیں ہوتا، کیونکہ مویشی تقریباً ایک میل کے فاصلے ہی سے شیر کی بُو پا کر اُدھر بڑھنے سے گریز کرتے ہیں اور اُنہیں مار مار کر وہاں لے جانا خاصی پریشانی کا باعث بنتا ہے۔ تیسرا طریقہ چند شکاری کُتّوں کو لے کر درندے کو ڈھونڈ نکالنے کا ہے۔ مگر ہے بے حد خطرناک۔ ہر کُتّے پر بہرحال اعتماد نہیں کیا جا سکتا کہ وہ کس وقت ڈر کر بھاگ نکلے اور شکاری کو اپنی جان کے لالے پڑ جائیں۔ بہادر، نڈر اور تجربے کار کُتے ہی ایسی مہم سر کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ چوتھا طریقہ جس پر بہت کم شکاری عمل کرتے ہیں، یہ ہے کہ دو تین آدمی اس علاقے میں بے دھڑک گھُس جائیں جہاں شیر کی موجودگی کا امکان ہو، شیر اس مداخلت پر ناراض ہو کر اپنے ٹھکانے سے باہر آ جائے گا اور پھر ان میں سے کوئی آدمی بھی اُسے ہلاک کر سکتا ہے۔ یہ طریقہ بے حد مشکل اور جان لیوا ہے، کیونکہ شکاری اگر ذرا بھی چُوکے یا نشانہ غلط ہو جائے، تو شیر اُسے آناً فاناً اٹھا لے جائے گا، لیکن سچ پوچھیے، تو شکار کا اصل لُطف اور مہم کا حقیقی مزا ہے اسی چوتھے طریقے پر عمل کرنے میں۔
ایک اور طریقہ بھی ہمارے ہاں رائج ہے وہ مچان پر بیٹھ کر انتظار کی گھڑیاں گننے کیا۔ اس طریقے میں شکاری بارہ چودہ فٹ اونچے مچان پر بیٹھا ہے اور کچھ فاصلے پر کسی بکری یا بچھڑے کو درخت سے بندھوا دیتا ہے۔ شیر کا جی چاہے تو اس طرف آ نکلے اور شکاری خوش نصیب ہو، تو اسے ہلاک کرے۔ ورنہ یہ طریقہ کچھ زیادہ دلچسپ اور کامیاب ثابت نہیں ہوتا۔ شکاری کو مچان پر گھنٹوں دَم سادھے بیٹھنا پڑتا ہے اور پھر بھی درندہ خفیف سی آہٹ پر چوکنّا ہو جاتا ہے۔
آپ یہ سن کر حیران ہوں گے اور شاید میری حماقت پر ہنسیں کہ میں نے کم سنی اور ناتجربہ کاری کے باوجود تیسرے طریقے پر چلنے کا فیصلہ کیا۔ مجھے تو شوق اس بات کا تھا کہ والد کی غیر حاضری میں آدم خور کو ہلاک کر کے اپنی بہادری کا سکہ جماؤں اور لوگ میرے اس کارنامے پر تحسین و آفرین کے ڈونگرے برسائیں۔
پہلا انسانی شکار مارنے کے بعد شیر وہاں سے یوں غائب ہوا کہ تلاش بسیار کے باوجود اُس کا کوئی سراغ نہ ملا۔ تین چار روز تک تو گاؤں والے خوفزدہ رہے اور انہوں نے ندّی یا گاؤں سے زیادہ فاصلے پر جانا چھوڑ دیا تھا۔ مگر رفتہ رفتہ پہلے کی سی چہل پہل شروع ہو گئی۔ میں نے اور سدا رام نے شیر کو ڈھونڈنے کے لیے جنگل کا چپّہ چپّہ چھان مارا اور کامل دس دن تک دن کو آرام نہ رات کو پلک جھپکائی۔ میں نے محسوس کیا کہ سدا رام غیر معمولی طور پر چُپ چُپ ہے۔ میں نے اسے تھکن پر محمول کیا، کیونکہ خود بھی میرا یہی حال تھا۔
گیارھویں دن والد کا خط مجھے ملا کہ وہ تین روز بعد آ رہے ہیں۔ اب تو میری مایوسی کی انتہا نہ رہی۔ اُن کے آنے کے بعد اگر شیر نے کوئی حرکت کی تو ظاہر ہے والد ہی اُس سے دو دو ہاتھ کریں گے اور مہم میں شاید مجھے ساتھ نہ لے جائیں۔ سہ پہر کے وقت میں اپنے کیمپ میں کُرسی پر بیٹھا انہی خیالوں میں گُم تھا کہ گاؤں کی طرف سے عورتوں اور بچّوں کے چیخنے کی آوازیں سنائی دیں۔ سدا رام بھی میرے قریب ہی بیٹھا ہوا تھا۔ معاً اُس کے منہ سے یہ جُملہ نکلا: ‘لیجیے، پھر کوئی واردات ہوئی اور وہ موذی دوبارہ اِس علاقے میں آن پہنچا۔‘ معلوم ہوا کہ پندرہ بیس عورتیں اور بچّے ندی پر نہانے اور کپڑے دھونے گئے تھے کہ وہاں انہوں نے ایک بڑے باگھ (شیر) کو پھرتے دیکھا۔ اُس نے ایک عورت کو پکڑنے کی کوشش کی، مگر دوسری عورتوں نے غل مچایا، تو وہ بھاگ گیا اور جھاڑیوں میں چھُپ کر غرّانے لگا اور اب بھی وہیں موجود ہے۔
شام کا جھٹپٹا چھانے لگا تھا کہ ہم دونوں ندّی کنارے پہنچے۔ ریت اور کیچڑ میں شیر کے تازہ پنجوں کے نشانات موجود تھے جو ہماری رہنمائی مشرق کی جانب پھیلی ہوئی گھاس کی طرف کر رہے تھے۔ پھر مَیں نے اُس کی ہلکی سی جھلک سرسراتی ہوئی گھاس میں دیکھی، وہ دبے پاؤں ہماری جانب آ رہا تھا۔ سدا رام کے لبوں پر نمودار ہونے والی وہ آخری مغموم مسکراہٹ مجھے اب تک یاد ہے اور مجھے حیرت ہے کہ اُس نے بچنے کی کوشش کیوں نہ کی۔ ایک ہولناک للکار کے ساتھ جس سے زمین تھرّا گئی، بھُوکا درندہ گھاس میں سے نکل کر سدا رام پر لپکا اور ایک ہی وار میں اُسے نیچے گرا دیا۔ دوسرے لمحے اُس نے سدا رام کی ٹانگ جبڑے میں دبائی اور ندّی چکّر کاٹ کر اسے جھاڑیوں کی طرف گھسیٹنے لگا۔ میں اپنی جگہ دم بخود کھڑا تھا۔ برسوں برس پہلے کا دیکھا ہا وہی خونیں منظر ایک بار پھر سامنے تھا۔ یکایک کسی غیبی قوّت نے مجھے ہوشیار کیا، فوراً ہی میری طاقت ور رائفل حرکت میں آئی اور اس کی پہلی ہی گولی نے شیر کو ڈھیر کر دیا، مگر وہ ظالم مرتے مرتے بھی اپنے ساتھ سدا رام کو مار گیا۔ یُوں اس نیک شخص نے اپنی جان دے کر اس خوں آشام درندے سے گاؤں والوں کو نجات دلا دی۔
٭٭٭
ماخذ:
http: //shikariyat.blogspot.com/2019/07/blog-post_58.html
ہوگرالی کا آدم خور
میری شکاری زندگی کے اکثر لرزہ خیز واقعات کا تعلّق ریاست میسور کے نواحی جنگلوں سے ہے۔ یہ جنگل کتنے بھیانک اور تاریک ہیں؟ اس کے جواب میں سینکڑوں صفحے سیاہ کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن میں صرف یہ کہنے کی اجازت چاہوں گا کہ جو لوگ افریقہ کے جنگلوں کی سیاحت کر چکے ہیں، وہ ذرا ایک مرتبہ میسور کے جنگلوں میں بھی گھُوم آئیں۔ انہیں معلوم ہو جائے گا کہ ‘جنگل‘ کی صحیح تعریف کیا ہے اور جنگلی درندے کِس قسم کے ہوتے ہیں۔
ضلع کھادر میں بیرُور کے ریلوے سٹیشن سے نزدیک ہی اس لائن کے ساتھ ساتھ جو شموگا کی طرف جاتی ہے۔ مغرب کی جانب ایک پہاڑی واقع ہے۔ یہ ہو گر خان کے نام سے مشہور ہے۔ ہو گر خان سے پہاڑیوں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ جسے اگر دُور سے دیکھیں، تو ہلال کی سی صورت نظر آتی ہے۔ مقامی باشندے اسی صورت کی وجہ سے ان پہاڑیوں کو ‘بابا بدان’ کہتے ہیں جس کا مطلب ہے ‘چاند کی پہاڑیاں‘۔ یہ پہاڑیاں اور اس کے گرد و نواح میں سینکڑوں میل تک پھیلے ہوئے جنگل، دریا، ندّی، نالے، دلدلی میدان جتنے خوب صُورت ہیں، اس سے کہیں زیادہ جان لیوا اور دُشوار گزار بھی ہیں۔ چاندنی پہاڑیوں کے بالکل درمیان انگوٹھی میں جڑے ہوئے حسین نگینے کی طرح جاگر وادی نظر آتی ہے، یہ وادی انتہائی موذی جنگلی بھینسوں اور سانبھروں کا مسکن ہونے کے علاوہ حد درجہ خطرناک دلدلی قطعوں سے پُر ہے جن میں طرح طرح کے حشرات الارض کے علاوہ حد درجہ خطرناک اور لاکھوں کی تعداد میں جونکیں پرورش پاتی ہیں۔ کر ان دلدلی قطعوں میں کوئی بڑا آدمی یا جانور پھنس جائے، تو اس کا زندہ بچنا محال ہے، کیونکہ ہزار ہا جونکیں آناً فاناً بدن سے چمٹ کر لہو پی جاتی ہیں اور ہڈیوں کا پنجر ہی باقی رہ جاتا ہے۔ تھوڑی دیر بعد دلدل نگل لیتی ہے۔ جاگر وادی کے اس جنگل میں ایک سال کے اندر اندر سو انچ سے زیادہ بارش ہو جاتی ہے اور اسی لیے یہ جنگل اتنا گھنا، ڈراؤنا، دُشوار گزار اور تاریک ہے کہ خدا کی پناہ! دوپہر کے وقت جاگر وادی کے نیلے آسمان پر سُورج چمکتا ہے اور پہاڑیوں کی چوٹیاں جگمگاتی ہیں، لیکن جنگل کے اندر تاریکی ہی تاریکی نظر آتی ہے، مینڈکوں اور جھینگروں کی چوٹیاں جگمگاتی ہیں، لیکن جنگل کے اندر تاریکی ہی تاریکی نظر آتی ہے، مینڈکوں اور جھینگروں کی آوازوں اور مہلک سانپوں کی پھنکاروں سے فضا گونجتی رہتی ہے۔ یہ شور کسی لمحے نہیں رُکتا۔ دم بدم بڑھتا جاتا ہے اور سُورج غروب ہونے کے بعد تو اس قدر تیز ہو جاتا ہے کہ انسانی کان اُسے آسانی سے برداشت نہیں کر سکتے۔
ہو گر خان، چاند کی پہاڑیوں کے طویل سلسلے کے مشرقی جانب واقع ہے اور اس کے دامن میں پھیلا ہُوا جنگل جاگر وادی کی طرح گھنا، بھیانک اور خوف ناک نہیں، بلکہ کسی قدر کھُلا اور خُوب صورت ہے جہاں سورج کی کرنوں کو درختوں کی شاخوں اور ٹہنیوں میں راہ بنانے کا موقع مل جاتا ہے۔ اور چونکہ سال کے تین مہینوں میں یہاں بھی مسلسل بارشیں ہوتی ہیں، اس لیے بے شمار ندّی نالے اور برسات کے موسم میں بڑے بڑے دریا بھی نمودار ہوتے ہیں جن پر کوئی پُل نہیں ہوتا۔ ہو گر خان کے قدموں میں ایک چھوٹا سا گاؤں آباد ہے جس کا نام ہوگرالی ہے۔ صاف پتہ چلتا ہے کہ گاؤں کا یہ نام پہاڑیوں کے نام ہی سے نکالا گیا ہے۔ ہوگرالی یوں تو جنگلوں اور پہاڑوں کے اندر جا بجا پھیلی ہوئی بے شمار بستیوں کی طرح ایک بستی ہے، لیکن اس کی ایک خصوصیّت جو اُسے دوسری بستیوں سے ممتاز کرتی ہے، وہ سُرخ پتھروں کا بنا ہوا قدیم مندر ہے۔ یہ گالکا کے مغربی کنارے پر واقع ہے اور بہت دُور سے نظر آتا ہے۔ پُوجا کے دنوں میں یہاں بڑی رونق ہوتی ہے۔ نزدیک و دُور کی بستیوں سے عورتیں، مرد، بچّے، بوڑھے اور جوان سبھی آتے ہیں اور ہوگرالی کی رونق میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔
ہوگرالی کے جنوب میں ایک تالاب ہے جس میں بارش کا پانی جمع ہو جاتا ہے اور یہ تالاب سارا سال گاؤں والوں کے لیے پانی مہیا کرتا ہے۔ لوگ یہیں سے پانی بھرتے، اپنے مویشیوں کو نہلاتے دھُلاتے، کپڑے دھوتے اور اشنان کرتے ہیں۔۔۔ جنگل کے اندرونی حصّوں میں کئی تالاب اور ندیاں رواں ہیں جہاں جنگلی جانور اور درندے اپنی پیاس بجھاتے ہیں اور کبھی کبھار کوئی چیتا، شیر یا جنگلی بھینسا گاؤں کے تالاب پر آ نکلتا ہے، مگر ایسا کبھی نہ ہُوا کہ انہوں نے کسی آدمی کو تکلیف دی ہو، جانور اور انسان اچھے پڑوسیوں کی طرح میل ملاپ سے رہتے اور ایک دوسرے کے کاموں میں مداخلت نہ کرتے تھے۔
گاؤں والوں نے آمد و رفت کے لیے دو پگڈنڈیاں بنا رکھّی ہیں: ایک پگڈنڈی تالاب کے قریب سے اور دوسری ہو گر خان پہاڑی کے نیچے سے گزرتی ہے۔ پہاڑی کے اُوپر قہوے کے چند باغ جن میں گاؤں کی عورتیں کام کرتی ہیں اور یہ باغ ایک برطانوی کمپنی کی ملکیت ہیں۔ گاؤں سے تقریباً ساڑھے تین میل دُور ایک اور بڑی جھیل (جس کا نام مدّک تھا) واقع ہے اور دوسری پگڈنڈی اس جھیل کے گرد چکر کاٹتی ہوئی پہاڑیوں کے طویل سلسلے میں گم ہو جاتی ہے۔ چُونکہ اس مہم میں بعض ایسے واقعات پیش آئے جو تقاضا کرتے ہیں کہ پورا محلّ وقُوع بیان کیا جائے، اس لیے میں تفصیل سے سب کچھ لکھ رہا ہوں تاکہ آپ اُن دشواریوں اور صعوبتوں کو سمجھ سکیں، جو اس دوران میں سامنے آئیں۔ نقشے پر ایک نظر ڈالنے سے آپ کو معلوم ہو گا کہ گاؤں کے مغرب میں جاگر وادی، مشرق میں ہو گر خان اور ہلال نما پہاڑی سلسلہ، جنوب میں مدّک جھیل اور شمال میں لنگا دھالی کا وسیع و عریض شرقاً غرباً پچاس اور شمالاً جنوباً تیس میل تک پھیلا ہوا ہے۔ یہیں اس گنجان ترین جنگل اور ہیبت ناک پہاڑیوں کے اندر وہ آدم خور رہتا تھا جو ستّر اسّی افراد کو ہڑپ کرنے کے باوجود دندناتا پھرتا اور اس کی خون آشام اور ہلاکت خیز سرگرمیوں کو روکنے والا کوئی نہ تھا۔
آدم خور کے بارے میں عجیب عجیب باتیں دیہاتیوں میں مشہور تھیں۔ ان کی اکثریت اپنے عقیدے کے مطابق اسے بد روح سمجھتی تھی۔ کوئی کہتا تھا آدم پہلے جاگر وادی میں رہتا تھا اور جب اسے زہریلے سانپوں اور خون پینے والی جونکوں نے ستایا، تو اپنا علاقہ چھوڑ کر پہاڑوں کو پھلانگتا ہُوا گاوں کی کھلی فضا میں آن بسا۔ کسی کا بیان تھا کہ آدم خور در اصل لکھا والی اور لال باغ علاقوں میں رہتا تھا جو ہوگرالی سے بہت دُور واقع ہیں۔ لیکن جب گورنمنٹ نے دریائے بھدرا پر ڈیم بنانا شروع کیا اور ہزار ہا مزدور کام کرنے لگے، تو آدم خور پریشان ہو کر اپنے علاقے سے نکلا اور کسی نئی جگہ کی تلاش میں اِدھر آ گیا۔ بہرحال اس کے آنے یا نہ آنے کی وجوہ کچھ بھی ہوں، یہ حقیقت تھی کہ وہ نڈر، قوی ہیکل اور چالاک درندہ تھا۔ اور کمال کی بات یہ کہ اتنی مُدّت سے وہ انسان کو اٹھا اٹھا کر لے جا رہا تھا، لیکن کسی نے اس وقت تک اپنی آنکھوں سے اسے نہیں دیکھا۔ سب لوگ قیاس آرائیاں کر رہے تھے اور اس کی دلیرانہ وارداتوں اور انسانی لاشوں کے بچے کھچے اجزاء دیکھ کر ہی واقعات کی کڑیاں علاقے کی کوشش کی جاتی تھی۔
ہوگرالی میں نمودار ہونے کے بعد آدم خور کا پہلا لقمہ ایک نوجوان، خوبصورت، نئی نویلی دلہن پوتما تھی جو لمبانی قبیلے سے تعلق رکھتی تھی۔ اس قبیلے کی اکثر عورتیں قہوے کے باغوں میں محنت مزدوری کرتی تھیں۔ علی الصّبح گھروں سے نکلتیں اور آپس میں چہلیں کرتی اور ہنستی کھیلتی پہاڑی کے اوپر پہنچ جاتیں۔ دن بھر کام کرتیں شام ڈھلنے سے کچھ پہلے بستی میں اپنے اپنے گھر آ جاتیں۔ پوتّما کا بیاہ ہوئے ابھی دس بارہ دن ہی ہوئے تھے، گاؤں کی نوجوان لڑکیوں میں وہ سب سے زیادہ ہنس مکھ اور حسین تھی، انہیں خوبیوں کے باعث نوجوان اُسے دیکھ کر دو باتیں کرنے کے لیے راستے میں چھُپ کر کھڑے ہو جاتے، مگر پوتما نے کبھی کسی کو حد سے آگے بڑھنے کا موقع نہیں دیا۔۔۔ پھر ایک روز چپ چاپ، اپنے شوہر کے گھر چلی گئی۔
ایک روز ایسا ہُوا کہ پوتّما شام تک گھر نہ لوٹی۔ اس کا خاوند سوچنے لگا کہ شاید وہ کسی ہمجولی کے ہاں چلی گئی ہو گی اور سورج غروب ہونے تک آ جائے گی۔ مگر جب تاریکی چھا گئی اور گاؤں کی جھونپڑیوں میں چربی اور تیل کے چراغ روشن ہونے لگے اور پوتّما نہ آئی، تو اُس کے دل میں طرح طرح کے شبہات جنم لینے لگے، اُسے پہلا خیال یہی آیا کہ وہ گاؤں کے کسی اور نوجوان سے محبت کی پیں گیں نہ بڑھا رہی ہو۔ لمبانی قبیلے میں اس قسم کے واقعات عام تھے اور کوئی مرد اپنی بیوی کے چال چلن کے بارے میں کبھی مطمئن نہ ہوتا تھا۔ یہ سوچتے ہی پوتما کا خاوند، جس کا نام رامیا تھا، غصّے سے بَل کھانے لگا اور اس نے تہیہ کر لیا کہ اگر پوتما رات کو گھر نہ لوٹی، تو صبح پہلا کام یہ ہو گا کہ اسے اور اُس کے آشنا قتل کر کے خود بھی خود کشی کر لے گا۔
اسی قسم کے منصوبے باندھنے اور توڑنے میں بے چارا رامیا ایک پل کے لیے نہ سو سکا اور صبح جب وہ اپنی جھونپڑی سے باہر نکلا، تو اس کی دھوتی کی ڈب میں چھ انچ لمبے پھل کا ایک تیز دھار چاقو چھپا ہوا تھا۔ کسی سے بات چیت کیے بغیر وہ سیدھا اس طرف گیا جہاں پوتما کام کرتی تھیں۔ وہاں اسے بتایا گیا کہ پوتّما صبح کام کرنے آئی تھی، لیکن شام کو دوسری عورتوں کے ساتھ واپس نہیں گئی۔
’پھر وہ کہاں گئی؟ گھر تو نہیں پہنچی۔‘ رامیا نے دانت پیس کر قہوے کے باغوں کی نگرانی کرنے والے بُڈھّے چوکیدار سے پُوچھا۔
چوکیدار حیرت سے اُس کی طرف دیکھنے لگا، پھر بولا:
’بھائی، مجھے کیا خبر کہاں گئی؟۔۔۔ تمہاری بیوی ہے تم جانو۔‘ اُس نے اس لہجے میں جواب دیا جیسے وہ بخوبی جانتا ہے کہ پوتما کہاں گئی ہو گی۔ رامیا کے تن بدن میں آگ لگ گئی اور وہ اسے گالیاں دینے لگا۔ اتنے میں کام کرنے والی چند لڑکیاں وہاں آ گئیں اور انہوں نے سن لیا کہ معاملہ کیا ہے۔ سب حیرت اور خوف کی مِلی جلی نظروں سے رامیا دیکھنے لگیں۔ پوتّما کے بارے میں انہیں خوب معلوم تھا کہ وہ پاکدامن ہے۔ کیونکہ رامیا سے شادی ہونے کے وہ ہمجولیوں سے اکثر اپنے خاوند کی باتیں کرتی اور کہتی کہ وہ بہت اچھّا آدمی ہے۔ ان میں ایک لڑکی ایسی تھی جو پوتما کی پکی سہیلی تھی۔ رامیا اسے ایک طرف لے گیا اور سچ سچ بتانے پر مجبور کیا۔
’رامیا بھائی، میں کچھ نہیں جانتی کہ پوتما کہاں گئی۔ وہ کل دوپہر تک میرے ساتھ تھی۔ اس کے بعد نہ معلوم کہاں چلی گئی۔‘
’مجھے وہ جگہ دکھاؤ جہاں کل تم کام کر رہی تھیں۔‘ رامیا نے کہا۔ لڑکی اسے باغ کی مغربی ڈھلوان پر لے گئی اور یہاں پہنچتے ہی سارا مسئلہ حل ہو گیا۔ انہوں نے دیکھا کہ پوتما کی ٹوکری ایک جگہ پڑی ہے کچھ فاصلے پر خشک پتوں اور شاخوں کے ڈھیر میں ایسے نشانات نظر آئے جن سے پتہ چلتا تھا کہ پوتما کچھ دیر اس جگہ لیٹی رہی ہے۔ کیوں کہ اس کے لمبے لمبے بالوں کا ایک نُچا ہوا گچھا وہاں پڑا تھا اور پھر چند قدم آگے پوتما کی ساڑھی کی چند دھجّیاں دکھائی دیں۔ ان پر خون کے بڑے بڑے دھبّے تھے۔
رامیا کا دل ڈوبنے لگا، لیکن اس نے ضبط کیا اور آگے بڑھتا گیا۔ تقریباً آدھ فرلانگ دُور اُسے پوتّما نظر آئی، مگر کس حال میں۔۔۔ اس کی کھوپڑی ایک طرف پڑی تھی اور آدھا دھڑ، ایک ٹانگ اور دونوں بازو غائب تھے۔ اس مقام پر ایک چھوٹا سا نالا بنا ہوا تھا جس کے ذریعے باغ میں پانی پہنچایا جاتا تھا اور نالے کی دونوں طرف اونچی اونچی خار دار جھاڑیاں کھڑی تھیں۔ رامیا نے نالے کا معائنہ کیا، تو اس کے نرم ریتلے کنارے پر شیر کے پنجوں کے نشانات دکھائی دیے۔ ان کے علاوہ کہیں کہیں دو تین لگڑبگڑوں کے نشان بھی موجود تھے جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ شیر جب اپنا پیٹ بھر چکا، تو لگڑ بگڑ وہاں آئے اور انہوں نے بھی ضیافت اُڑائی۔
اس حادثے کی خبر آگ کی طرح گاؤں میں پھیل گئی۔ ہر شخص حیران اور فکر مند تھا کہ یہ کیا ہوا۔ ہوگرالی کے علاقے میں یہ پہلا حادثہ تھا کہ شیر نے اس طرح اچانک نمودار ہو کے ایک معصوم لڑکی کو ہڑپ کر لیا۔ لوگوں نے لاٹھیاں، برچھیاں، کلہاڑیاں اور نیزے وغیرہ سنبھالے اور شیر کی تلاش میں نکلے، لیکن اس کا کوئی سراغ نہ ملا۔ کئی دن تک سنسی سی پھیلی رہی اور گاؤں کی لڑکیاں چپکے چپکے پوتما کی یاد میں آنسو بہاتی رہیں اور رامیا پاگلوں کی طرح جنگلوں اور گھاٹیوں میں مارا مارا پھرتا رہا۔ اپنی نوجوان اور حسین بیوی کی مفارقت نے اسے بے حال کر دیا تھا۔
دو ہفتے گزر گئے، لوگ آہستہ آہستہ اس حادثے کو بھُولنے لگے کہ اچانک پھر ایک لمبانی لڑکی غائب ہو گئی اور اس مرتبہ انہوں نے اس کی لاش کے بچے کھچے اجزا مدّک ندی کے کنارے پڑے پائے۔ شیر نے کھوپڑی، ہاتھوں اور پیروں کے سوا جسم کا سارا گوشت ہڑپ کر لیا تھا۔ اِس حادثے کے بعد سے تو وارداتوں کا جیسے تانتا بندھ گیا اور آدم خور ایک ایک نادیدہ کی بلا کی مانند گاؤں والوں پر مسلّط ہو گیا۔ کبھی ندی پر، کبھی تالاب پر، کبھی جنگل میں، کبھی پہاڑی پر اور کبھی مندر کے پچھواڑے کوئی نہ کوئی عورت، آدمی یا بچّہ اس کے خونیں جبڑوں کا شکار ہوتا رہا۔ پچاس میل لمبے چوڑے رقبے میں آدم خور کا راج تھا، قہوے کے باغ میں کام کرنے والی عورتیں اُدھر کا رستہ چھوڑ چکی تھیں۔ مویشیوں کو جنگل میں چرانے کے لیے جانے والے لڑکے ڈر کے مارے اُدھر نہ جاتے تھے لیکن مصیبت یہ تھی کہ پانی انہیں بہرحال تالاب سے لانا پڑتا تھا، اس لیے اکیلا دُکیلا کوئی نہ جاتا، بلکہ گروہوں کی شکل میں گاؤں کے مرد تالاب پر جاتے اور مویشیوں کو پانی پلانے کے بعد اپنی ضرورت کے مطابق برتن بھانڈوں میں بھر کر لے آتے۔ شام ہوتے ہی گاؤں بھر میں ہیبت ناک سنّاٹا چھا جاتا اور کوئی شخص اپنی جھونپڑی سے باہر نکلنے کا حوصلہ نہ کرتا۔
رفتہ رفتہ آدم خور کی یہ سرگرمیاں ماند پڑنے لگیں اور وارداتیں کم ہو گئیں، پھر ایسا وقت آیا کہ مہینہ گزر گیا اور کوئی حادثہ پیش نہ آیا۔ گاؤں والے جنگل میں آنے جانے اور چلنے پھرنے لگے۔ عورتوں نے ایک بار پھر باغوں میں کام شروع کر دیا۔ لوگوں کا خیال تھا کہ آدم خور جاگر وادی میں چلا گیا ہے۔ ممکن ہے اس کی شیرنی وہاں رہتی ہو اور شیر یہاں تنہا رہتے رہتے اکتا گیا ہو۔
دو مہینے گزر گئے۔ لوگ اب آدم خور کو بھُول چکے تھے اور اطمینان سے کاروبار زندگی میں مصروف تھے کہ دفعتاً ایک روز گاؤں میں یہ خبر پھیلی کہ مویشی چرانے والا ایک لڑکا جو بیرُور جا رہا تھا، گُم ہے۔ بعد میں اس لڑکے کے خون آلود کپڑے اور بچی کھچی ہڈیاں دستیاب ہوئیں، تو پتا چلا کہ آدم خور دوبارہ آ گیا ہے۔ اور اس کے ساتھ وارداتوں کا سلسلہ تیزی سے شروع ہو گیا۔ نتیجہ یہ کہ گاؤں کی زندگی پھر خوف و ہراس کا شکار ہو کر معطل ہو گئی۔
انہی دنوں ایک جرمن شخص ہندوستان کے جنگلوں میں ایک عجیب مہم پر نکلا ہوا تھا۔ اس شخص کا پیشہ جنگلی درندوں اور مختلف حشرات الارض کو پکڑنا تھا۔ وہ ان جانوروں کو یورپ کے چڑیا گھروں کے لیے گراں قیمت پر فروخت کر دیتا تھا۔ شیر، چیتے، ریچھ، اژدہے، کوبرا سانپ اور بچھّو اور پانی کے بہت سے جانور جن میں مگرمچھ بھی شامل تھے، پکڑنے کے لیے وہ اکثر بہت سے مقامی شکاریوں کی خدمات حاصل کرتا۔ میرے لڑکے ڈونلڈ سے اس کی ملاقات ہوئی تو اُس نے ڈونلڈ سے کہا کہ مگرمچھ کے چند بچّے مہیّا کیے جائیں، تو خاصی بڑی رقم مل سکتی ہے۔ دریائے کاویری مگرمچھوں کا گھر تھا اور یوں بھی اس علاقے کے دریاؤں میں مگرمچھوں کی کثرت تھی جس کے باعث لوگ خاصے پریشان تھے۔ چنانچہ حکومت ان کو مارنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتی تھی۔ مگرمچھ کی کھال اچھی قیمت پر فروخت ہو جاتی تھی، اس لیے اکثر شکاری مگرمچھوں کی تلاش میں پھرتے رہتے تھے، لیکن ان کو بندوق یا رائفل سے ہلاک کرنا خاصا مشکل اور مہارت کا کام تھا۔ چنانچہ شکاریوں نے مگرمچھوں کو مارنے کا ایک آسان اور عمدہ طریقہ سوچا۔۔۔ وہ لوہے کے مڑے ہوئے کانٹے بنواتے اور ان کو لوہے کی ایک لمبی زنجیر میں پھنسا کہ یہ زنجیر ایک مضبوط بانس سے باندھ دیتے۔ کانٹوں کے اندر کسی مُردہ جانور کی کی کھال یا گوشت کا بڑا سا ٹکڑا اٹکا کر، اسے دریا میں ڈال دیتے اور بانس کچھ فاصلے پر یا تو زمین میں گاڑ دیتے یا کسی درخت سے باندھ دیا جاتا اور مگرمچھ جونہی گوشت لالچ میں جبڑا کھول کر اُسے نگلنے کی کوشش کرتا، کانٹے اس کے حلق میں پھنس جاتے۔ مگرمچھ بے چین ہو کر دریا کی تہہ میں اترنے کی کوشش کرتا مگر زنجیر اسے زیادہ نیچے جانے کی اجازت نہ دیتی اور وہ پھر سطح پر نمودار ہوتا۔ بار بار کی اس تگ و دو کے باعث مگرمچھ کا جبڑا اور حلق زخمی ہو کر خون کی بڑی مقدار نکل جاتی اور وہ بے دم ہو کر سطح پر تیرنے لگتا۔ دو تین شکاری مل کر اسے کنارے پر گھسیٹ لیتے اور گولیاں مار کر ہلاک کر دیتے۔
دریائے کاویری کے کنارے ریت کے گڑھوں میں مادہ مگرمچھ انڈے دیتی ہے اور جب ان انڈوں سے بچے نکلنے کا وقت آتا ہے تو ان گڑھوں میں سے بچّوں کے بولنے اور حرکت کرنے کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ ڈونلڈ کا خیال تھا کہ دریا کے کنارے گھوم پھر کر ایسے انڈوں کا سراغ لگانا چاہیے جن میں سے بچے نکلنے ہی والے ہوں۔ مدّک سے چھ میل مغرب کی طرف ایک اور بڑی جھیل واقع تھی جسے آنکیری کہتے تھے۔ طے پایا کہ اس جھیل کے کناروں کا معائنہ کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے ہم نے ایک لمبانی رہبر کو ساتھ لیا اور روانہ ہو گئے۔
ہمارا یہ لمبانی رہبر نہایت باتونی آدمی تھا اور گرد و نواح کے جنگل اور حالات سے بخوبی آگاہ تھا۔ اس نے راستے میں ایک آدم خور کا ذکر کر کے ہمارے شوقِ تجسّس کی آگ بھڑکا دی۔ معلوم ہوا کہ ہوگرالی کے علاقے میں اس آدم خور نے بڑا اودھم مچا رکھا ہے اور اب تک بہت سے آدمی ہڑپ کر چکا ہے۔
’کیا اُس نے اِس جھیل کے کنارے بھی کسی کو مارا؟’ ڈونلڈ نے سوال کیا۔
’جی نہیں۔۔۔ اس طرف کے لوگ ابھی تو محفوظ ہیں، لیکن بہت جلد ان کی باری بھی آنے والی ہے۔‘
’آدم خور شیر ہے یا چیتا؟’ مَیں نے پوچھا۔
’لوگ کہتے ہیں کہ وہ شیر ہے۔ مگر حیرت ہے اسے کسی نے دیکھا نہیں۔ مختلف مقامات پر اس نے جتنے بھی افراد کو ہڑپ کیا ہے اور بعد میں جو لاشیں دیکھی گئی ہیں، ان سے تو یہی پتہ چلتا ہے کہ یہ حرکت شیر کی ہے۔‘
آنکیری جھیل کے کنارے گھومتے ہوئے ہم نے لمبانی رہبر سے آدم خور کی سرگرمیوں کے کئی واقعات سنے اور میں نے اندازہ کیا کہ اگر یہ شخص سچ کہہ رہا ہے، تو اس آدم خور سے دو دو ہاتھ کر ہی لینے چاہئیں۔ میں نے ڈونلڈ سے کہا:
’لعنت بھیجو مگرمچھ کے بچّوں پر۔۔۔ انہیں تلاش کرنے کا کام کسی اور کے سپرد کر دیتے ہیں، مدّت کے بعد ایک آدم خور کا ذکر سننے میں آیا ہے، کیُوں نہ اس سے نپٹ لیا جائے۔‘
ڈونلڈ نے میری طرف مسکرا کر دیکھا اور بولا:
’جیسی آپ کی مرضی۔۔۔ مگر ہم نے اس جرمن شخص سے جو وعدہ کیا ہے، وہ تو بہرحال پورا ہونا چاہیے۔‘
’یہ بھی ٹھیک ہے۔‘ میں نے جواب دیا۔ ‘تم دیکھتے ہو جھیل میں بڑے بڑے مگرمچھ موجود ہیں، مگر اُن کے انڈے تلاش کر لینے کے لیے بڑا وقت اور محنت درکار ہے جبکہ آدم خور کو ہم آسانی سے ڈھونڈ سکتے ہیں۔‘
ڈونلڈ بے اختیار ہنسنے لگا اور بولا: ‘ڈیڈی، اب آپ کا دل یہاں نہیں لگے گا، کیونکہ آدم خور آپ کے ذہن پر سوار ہو گیا ہے، اس لیے بہتر یہی ہے کہ مدّک چلا جائے اور آدم خور کے بارے میں وہاں کے لوگوں سے تفصیلی معلومات حاصل کی جائیں۔ مگرمچھ کے بچے چند دن بعد پکڑ لیں گے۔‘
لمبانی یہ سن کر خوف زدہ نظر آنے لگا اور اس نے ہمیں اس ارادے سے باز رکھنے کی کوشش کی، مگر ہمارا جواب یہی تھا کہ ہم اب مدک تک جائے بغیر نہ مانیں گے۔
’جناب، اگر راستے میں آدم خور مل گیا تو؟’
یہی تو ہم چاہتے ہیں۔‘ ڈونلڈ نے رائفل ہلاتے ہوئے کہا۔ ‘چلو ہمیں شام سے پہلے پہلے وہاں پہنچ جانا چاہیے۔‘
لمبانی نے آدم خور کی داستانیں جس انداز سے سنائی تھیں، ان سے یہی ظاہر ہوتا تھا کہ درندہ نہایت نڈر اور عیار ہے اور کچھ بعید نہیں کہ وہ موقع پا کر ہم میں سے کسی کو اٹھا کر لے جائے اس لیے ہم نہایت محتاط اور چوکنے ہو کر چل رہے تھے۔ ہمارے لمبانی رہبر کا دہشت سے برا حال تھا۔ اور ذرا سی آہٹ پر بدک کر درخت پر چڑھنے کے لیے لپکتا۔ اس کے چہرے پر خوف کے ساتھ ساتھ خشونت اور غصے کے آثار بھی پھیلے ہوئے تھے اور عجب نہیں کہ دل ہی دل میں ہمیں گالیاں بھی دے رہا ہو۔
مدّک پہنچے، تو جنگل میں مویشیوں کا ایک بہت بڑا باڑہ دکھائی دیا جس کے بیج میں لکڑی کی بنی ہوئی ایک چھوٹی سی کوٹھڑی میں کوئی آدمی سو رہا تھا اور باڑے میں گائے بھینسیں اِدھر اُدھر کھڑی جگالی کر رہی تھیں۔ ہم باڑے کی اونچی دیوار پھاند کر اندر داخل ہوئے، تو گایوں بھینسوں میں ہلچل ہُوئی جس نے سونے والوں کو جگا دیا اور یہ سمجھ کر آدم خور آ گیا ہے، بری طرح چیخنے لگا۔ ہم نے اسے آواز دے کر مطمئن کیا اور باہر آنے کا حکم دیا۔ اس نے تعمیل کی اور ہمارے ہاتھوں میں رائفلیں دیکھ کر سمجھ گیا کہ ہم شکاری ہیں۔ خوشی کی ایک ہلکی سی لہر اس کے چہرے پر نمودار ہوئی اور بھرائی آواز میں بولا:
’جلدی سے اندر آ جائیے جناب، میرے مویشی آپ کو دیکھ کر ڈر رہے ہیں۔‘
’اور تم ہمیں دیکھ کر ڈر گئے۔‘ ڈونلڈ نے ہنس کر کہا۔ ‘کیا تمہیں آدم خور کے آنے کا خوف نہیں۔‘
’وہ کئی مرتبہ باڑے کے نزدیک آیا جناب، ایک مرتبہ تو اندر بھی آن کودا اور جب میرے جانوروں نے بھاگ دوڑ شروع کی، تو وہ انہیں زخمی کر کے بھاگ گیا۔‘
’وہ اب تک کتنے آدمیوں کو کھا چکا ہے؟’ میں نے پوچھا۔
’صحیح تعداد تو کسی کو معلوم نہیں، یہی بیس پچیس آدمی ہوں گے۔ ان میں کئی عورتیں تھیں اور کئی بچّے۔‘
’لوگوں نے آدم خور کو مارنے کا کوئی انتظام نہیں کیا؟’
’جناب ماریں تو اس وقت جب وہ دکھائی دے۔ وہ تو چھلاوا ہے چھلاوا۔ اسے آج تک کسی نے نہیں دیکھا۔‘
چرواہے نے تین چار قصے سنائے اور بتایا کہ آدم خور کی وجہ سے لوگوں کی زندگی کس طرح اجیرن ہو رہی ہے اور اگر اسے ہلاک نہ کیا گیا، تو ایک روز یہ سارا علاقہ آدمیوں سے خالی ہو جائے گا۔
’اچھا، یہ بتاؤ مُدلی آج کل کہاں ہے؟’ میں نے پوچھا۔ وہ چونک کر میری طرف دیکھنے لگا۔
’آپ اُسے جانتے ہیں؟’
’ہاں، وہ میرا پرانا دوست ہے اور میں نے اُس سے ہوگرالی کے نزدیک ایک ایکڑ زمین بھی خریدی تھی۔‘
مُدلی واقعی میرا پرانا دوست تھا اور کہی مہموں پر میرا ساتھ دے چکا تھا۔ وہ اپنے گاؤں کا ‘پٹیل’ ہونے کے علاوہ جتنا محنتی اور ایمان دار آدمی تھا، اُتنا ہی توہّم پرست اور ڈرپوک بھی تھا۔ گاؤں والے اس کی ہر بات مانتے تھے اور شادی غمی کے معاملات اس کی شرکت کے بغیر مکمل نہ ہوتے تھے۔
’میں بھی مُدلی کا ملازم ہوں جناب، یہ گائے بھینسیں اُسی کی ہیں۔ وہ اِس وقت ہوگرالی میں اپنے مکان پر ملے گا۔ اگر وہاں جانا چاہیں، تو صبح جائیے گا، مَیں بھی آپ کے ساتھ چلوں گا۔‘
رات ہم نے اسی جھونپڑی میں کاٹی۔ ڈونلڈ تو مزے سے سو گیا، لیکن اس باتونی چرواہے اور لمبانی شخص نے میری نیند حرام کر دی۔ چرواہے کا تعلّق بھی اسی قبیلے سے تھا اور وہ دونوں گاؤں کی جوان لڑکیوں کے بارے میں نہ جانے کب تک بحث مباحثہ کرتے رہے۔
جب ہم ہوگرالی میں مُدلی کے مکان پر پہنچے، تو وہ باہر سائبان تلے کھاٹ پر پڑا بے خبر سو رہا تھا۔ مَیں نے اسے جھنجھوڑا، تو ہڑبڑا کر اٹھا اور مجھے دیکھ کر اس کا مُنہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ چند لمحے اس پر سکتے کی سی کیفیت طاری رہی، پھر چلّایا:
’آپ؟ کب آئے؟ سامان کہاں ہے؟ مَیں تو خود آپ کی طرف جانے والا تھا۔ یہاں ایک۔۔۔؟
’میں سب کچھ سُن چکا ہوں اور اسی لیے آیا ہوں۔‘ مَیں نے اس کی بات کاٹنے ہوئے کہا۔ ‘اب تم ہمارے لیے دوپہر کا کھانا تیار کراؤ اور دو چارپائیاں باہر نکال دو۔ ہم باپ بیٹا ذرا آرام کریں گے۔‘
اگرچہ مَیں ہوگرالی میں کئی بار آ چکا تھا اور گاؤں کے اکثر چھوٹے بڑے مجھے بخوبی پہچانتے تھے، لیکن اس بار انہوں نے جس انداز میں ہمارا خیر مقدم کیا اور جیسی خاطر تواضع کی، وہ حد سے زیادہ تھی۔ لوگ ہمیں دیوتا سمجھ رہے تھے اور جب مُدلی نے انہیں بتایا کہ ہم آدم خور کو مارنے آئے ہیں، تو لوگوں کی خوشی کا ٹھکانا نہ رہا اور گاؤں میں چہل پہل شروع ہو گئی، لیکن یہ چہل پہل سورج غروب ہوتے ہی ختم ہو گئی۔ لوگوں نے اپنی اپنی جھونپڑیوں اور کچے مکانوں کے دروازے بند کر لیے اور ہر طرف خاموشی اور تاریکی کا تسلط ہو گیا جسے کبھی کبھی کتوں کے بھونکنے کی آواز توڑ دیتی تھی۔
مُدلی ہماری مدارات کے لیے بچھا جاتا تھا۔ اُس نے دوپہر کا کھانا کھلایا، دو مرتبہ قہوہ پلایا اور پھر رات کے کھانے کی تیّاریاں کرنے لگا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ معذرت خواہ بھی تھا کہ ہمارے ‘شایانِ شان’ ٹھہرنے کا انتظام نہیں کر پایا۔ رات کو بھنے ہوئے مُرغ، اُبلے ہوئے آلو، گیہوں کی تازہ، مکھن چپڑی ہوئی روٹیاں پیٹ بھر کر کھانے کے بعد جب ہم اپنی اپنی جگہ آرام سے بیٹھے اور تمباکو پینے لگے، تو گفتگو کا رُخ خود بخود آدم خور کی طرف پھر گیا۔ مُدلی نے اس کے بارے میں جو کچھ بتایا وہ ابتداء میں لکھ چکا ہوں۔ مُدلی کا خیال تھا کہ آدم خور چونکہ پندرہ سو مربّع میل کے وسیع علاقے میں سرگرمِ عمل ہے اور اس کے کسی ٹھکانے کا اب تک پتہ نہیں مل سکا، اس لیے اسے ہلاک کرنا خاصا مشکل، بلکہ نا ممکن کام ہے۔ کوئی شخص یقین سے دعویٰ نہیں کر سکتا کہ آدم خور کس جگہ اپنا شکار کرے گا اور پھر یہ کہ شکار کے بعد وہ خاصی دیر تک (کبھی دو ہفتے اور کبھی ایک ایک مہینہ) آرام کرتا یا رُو پوش ہو جاتا ہے۔ مقامی شکاریوں نے اسے پھانسنے کے لیے جنگل میں کئی بار ہانکا کیا اور چھوٹے موٹے جانور درختوں سے باندھے، لیکن آدم خور کسی دام میں نہ آیا۔ اس کے علاوہ جنگل میں اور بھی بہت سے شیر چیتے رہتے ہیں، فرض کیجیے اس دوران میں انتہائی جد و جہد کے بعد کوئی شیر مارا جاتا ہے۔ اب کیا ثبوت ہے کہ یہ آدم خور ہی ہو گا۔
مُدلی کی باتیں وزن دار تھیں۔ مَیں اور ڈونلڈ سوچ میں پڑے ہوئے تھے۔ کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ مہم کی ابتداء کہاں اور کس طرح کی جائے۔ آخر مُدلی ہی نے راہنمائی کی:
’میری رائے میں آپ کو فی الحال ہوگرالی ہی میں قیام کرنا چاہیے۔۔۔ میں اپنے پڑوس میں ایک مکان خالی کرائے دیتا ہوں۔‘
’مدلی اور گاؤں کے دوسرے لوگوں کے اصرار پر ہمیں وہاں قیام کرنا پڑا۔ جو‘مکان’ ہمیں رہنے کے لیے دیا گیا، وہ ایک کچے کمرے اور برآمدے پر مشتمل تھا۔ گرمیوں کے موسم میں سورج آسمان سے آگ برساتا اور رات کو مچھّروں کا ٹڈی دَل ہم پر حملہ کرتا، لیکن بستی والوں کو آدم خور سے نجات دلانے کے لیے ہم نے یہ تمام مصائب برداشت کیے۔ ان‘مصیبتوں‘ کے ساتھ ساتھ اگر ان ‘راحتوں‘ کا ذکر نہ کیا جائے جو بستی کے لوگوں اور خصوصاً مُدلی نے ہمیں بہم پہچانے کی کوشش کی، تو صریحاً نا انصافی ہو گی۔ گھی مکھن، دودھ، پنیر، گوشت، انڈے اور قہوہ، صبح، دوپہر، شام کھِلا کھِلا کر ہمارا ناطقہ بند کر دیا گیا۔ مَیں نے کئی بار مُدلی سے کہا، ہمیں مہمان نہ سمجھو اور اپنے اخراجات خود اٹھانے دو، لیکن وہ نہ مانا اور کہنے لگا:
جب تک آپ ہوگرالی میں رہیں گے، میں آپ کو اپنا مہمان سمجھوں گا۔‘
اس دوران میں آدم خور کے بارے میں ہمیں کوئی نئی خبر نہ مل سکی کہ وہ کہاں ہے اور کیا کر رہا ہے۔ قہوے کے باغوں میں کام بند تھا۔ کوئی شخص اکیلا دُکیلا گاؤں سے باہر نہ جاتا اور شام ہوتے ہی گھروں اور جھونپڑیوں کے دروازے بند ہو جاتے۔ گرمیوں کا موسم تھا، ارد گرد کے جنگل اور پہاڑوں کی وجہ سے رات کو اتنی گرمی تو نہ پڑتی، مگر گاؤں والے باہر سونے کے عادی تھے، انہیں شیر کے خوف گھروں میں سونا پڑ رہا تھا۔ صرف ہم دو آدمی باہر برآمدے میں سویا کرتے اور طریقہ یہ تھا کہ ایک رات ڈونلڈ سوتا اور مَیں پہرہ دیتا، دوسری رات مَیں سوتا اور ڈونلڈ رائفل لیے گاؤں کی گشت کرتا۔ ہمارا خیال تھا کہ جلد یا بدیر آدم خور ادھر آئے گا اور ہم اس سے نمٹ لیں گے، لیکن ایسا نہ ہوا۔ حتیٰ کہ گاؤں میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں کہ آدم خور کا رُعب ہم پر بھی غالب آ گیا ہے اور اسی لیے ہم گاؤں سے باہر نکل کر جنگل میں اُسے تلاش نہیں کرتے۔ لوگ چاہتے کہ آدم خور کا قصّہ پاک ہوتا کہ وہ اپنے کام کاج دوبارہ شروع کر سکیں اور گاؤں کی معطل شدہ زندگی بحال ہو جائے۔ ہمیں ان کی پریشانی اور مصیبت کا بخوبی احساس تھا، لیکن آدم خور جب تک کوئی واردات نہ کرتا، ہمیں بھلا اُس کے ٹھکانے یا کمین گاہ کا علم کیسے ہو سکتا تھا، پندرہ سو مربع میل کے وسیع و عریض گنجان جنگلی علاقے میں اسے ڈھونڈنا نا ممکن نہیں، تو امر محال ضرور تھا۔
پانچویں روز ڈونلڈ نے نہایت اکتائے ہوئے لہجے میں مجھ سے کہا:
’ڈیڈی، گاؤں والوں کی چُبھتی ہوئی نظریں اب میرے لیے ناقابل برداشت ہیں۔ اگر ہم شیر کو تلاش نہیں کر سکتے تو یہاں بیٹھ کر روٹیاں توڑنے سے فائدہ؟ ان لوگوں سے صاف کہہ دیجیے کہ آپ کا پروگرام کیا ہے۔‘
’تم اپنے اس باپ کا بُزدلی کا طعنہ دے رہے ہو جو اب تک ستّر شیر ہلاک کر چکا ہے۔ ان میں سے پچاس تو یقیناً آدم خور تھے۔‘ مَیں نے ہنس کر جواب دیا۔ ‘تم ابھی جوان ہو میرے بچے۔۔۔ تمہاری رگوں میں گرم خُون گردش کرتا ہے اور ابھی تک تمہیں آدم خور سے واسطہ نہیں پڑا، اس لیے یہ کام ذرا آسان سمجھے ہوئے ہو۔ میں جانتا ہوں کہ آدم خور کو تلاش کرنے اور مارنے میں شکاری کو کیسے کیسے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں اور کن کن جان لیوا مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اور سچ پوچھو، تو میں صرف تمہاری وجہ سے پریشان ہوں۔‘
’میری وجہ سے۔۔۔ وہ کیوں ڈیڈی۔۔۔‘ ڈونلڈ نے حیران ہو کر کہا۔
’اس لیے کہ تم نہایت جلد باز اور بے صبر ہو۔۔۔ شیر کے شکار اور خصوصاً آدم خور کے مقابلے میں جس سکون، صبر اور اعصاب شکن استقلال کی ضرورت ہے، وہ تمہارے پاس نہیں اور مجھے خدشہ ہے کہ اگر تم اس مہم میں تم میرے ساتھ ہوئے، تو کوئی نہ کوئی حادثہ ضرور پیش آئے گا۔‘
ڈونلڈ کا چہر سُرخ ہو گیا۔ غالباً یہ پہلا موقع تھا کہ میں نے کھُل کر ان ‘خامیوں‘ کی نشان دہی کی تھی۔ اس زمانے میں اس کی عمر کا سولہواں برس شروع ہوا تھا، قد و قامت، جسمانی قوت اور جرأت میں وہ کسی بھی تجربے کا پرانے شکاری سے کم نہ تھا۔ جنگلی جانوروں کی نفسیات اور عادات کو جاننے پہچاننے کا ملکہ بھی اس میں بخوبی تھا اور چونکہ اس نے شعور کی آنکھ ہندوستان کے گھنے جنگلوں ہی میں کھولی تھی، اس لیے جنگل سے اس کی دلچسپیاں فطری تھیں۔ وہ اب تک بارہ ریچھوں، بہت سے سانبھروں، ایک جنگلی بھینسے اور دو چھوٹے چیتوں کا مار چکا تھا۔ ایک آدھ مرتبہ میرے ساتھ مختلف مہموں پر جانے کا موقع ملا اور میں نے اُس سے شیر پر گولی چلوائی، لیکن اس کا ہاتھ بہک جاتا، شاید اس لیے اس پر شیر کی دہشت غالب آ جاتی تھی۔ اب غور کیجیے اس نا مکمل اور ادھورے تجربہ کے ساتھ ایک منجھے ہوئے آدم خور کے ساتھ مقابلہ حماقت ہی تو تھی اور اسی لیے اُسے ساتھ لے جاتے ہوئے ہچکچاتا تھا۔
’ڈیڈی، اگر آپ مجھے ایسا ہی بزدل اور بیوقوف سمجھتے ہیں، تو مَیں مزید کچھ نہیں کہوں گا۔‘ اُس نے دل گرفتہ ہو کر کہا۔
’تم میری بات کا مطلب غلط سمجھے۔۔۔ میرا مقصد تمہارا حوصلہ پست کرنا نہیں، ابھارنا ہے۔ تم بے شک میرے ساتھ چلو، لیکن وعدہ کرو کہ مَیں جو کہوں گا اس پر پورا پورا عمل کرو گے۔‘
’وعدہ رہا۔‘ ڈونلڈ نے کہا اور مجھ سے لپٹ گیا۔
اس روز رات کا کھانا ہم نے جلدی کھا لیا۔ مُدلی کو اپنا پروگرام بتایا کہ ہم آدم خور کی تلاش میں جا رہے ہیں۔ رات بھر جنگل میں گھومیں پھریں گے۔ ممکن واپسی میں کئی دن لگ جائیں، اس لیے وہ ہمارے بارے میں تشویش نہ کرے اور گاؤں والوں کو بھی آگاہ کر دے کہ ہماری واپسی تک کوئی شخص جنگل میں یا ندی کے کنارے نہ جائے اور اگر آدم خور کوئی واردات کرے، تو لاش وہاں سے اٹھوائی نہ جائے۔
بَیل گاڑی پہلے سے تیّار تھی۔ ہم اس پر سوار ہوئے اور بیرُور کی طرف چلے۔ منصوبہ یہ تھا کہ نہر یا دُوری کے کنارے کنارے چلتے ہوئے جھیل مدّک تک جائیں گے۔ یہ فاصلہ زیادہ سے زیادہ دس میل کا تھا۔ اس کے بعد ایک آدھ گھنٹہ آرام کر کے بیرُور سٹیشن تک صبح کے وقت تک پہنچ جائیں گے۔ جنگل میں خلاف معمولِ ہیبت ناک سنّاٹا طاری تھا۔ جنگل کے جانور اور پرندے سب چپ تھے جیسے کسی اَن جانے حادثے پر سوگ منا رہے ہوں۔ ہماری بیل گاڑی ایک تنگ پگڈنڈی پر چل رہی تھی جس میں جا بجا گڑھے اور کھڈ تھے۔ اگرچہ طاقت وَر ٹارچیں ہمارے پاس موجود تھیں، لیکن انہیں روشن کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ رات ٹھیک ساڑھے سات بجے ناریل کے درختوں کے وسیع و عریض جھُنڈ کے پیچھے سے چاند نے اپنا چمکتا ہوا چہرا دکھایا۔ اُس کی روشنی شاخوں اور ٹہنیوں میں سے چھن چھن کر آ رہی تھی۔ جنگل کی یہ رات اتنی حسین اور سحر انگیز تھی کہ ہم اس کے جلوے میں محو ہو گئے اور مجھے تو یوں محسوس ہونے لگا جیسے میں کسی پُر اسرار طلسماتی سرزمین پر پہنچ گیا ہوں جہاں تاریکی اور روشنی اور سکون و اطمینان کا راج ہے۔ ایسی سرزمین جس میں کوئی ذی روح نہیں بستا۔ دفعتاً ہماری گاڑی ایک گہرے گڑھے کے اوپر سے گزری اور ایسا جھٹکا لگا کہ ڈونلڈ الٹ کر نیچے جا گرا۔ میں نے فوراً بیل روکے اور ڈونلڈ کو اٹھایا۔ کوئی خاص چوٹ نہ آئی تھی، شرمندہ ہو کر کہنے لگا:
’اس نظارے نے مجھے غافل کر دیا تھا ڈیڈی۔‘
یہ کہہ کر وہ کپڑے جھاڑنے لگا اور جب اُس نے جھک کر رائفل اٹھائی، میں نے دیکھا کہ قریب ہی لمبی گھاس کے ساتھ ساتھ کسی جانور کے پنجوں کے نشانات خشک مٹّی پر اُبھرے ہوئے ہیں مَیں نے ان نشانات پر ٹارچ کی مدد سے روشنی پھینکی، تو معلوم ہوا کہ کچھ دیر پہلے کوئی چیتا ادھر سے گزرا ہے۔ جنگل کا یہ حصّہ خاصا گھنا تھا اور اگر چاند کی روشنی ہماری راہنمائی نہ کرتی، تو چیتے کے پنجوں کے نشانات ہمیں ہرگز دکھائی نہ دیتے۔
’جلدی کرو گاڑی پر بیٹھ جاؤ۔‘ مَیں نے کہا۔ ‘ابھی ابھی ایک قد آور چیتا اس راستے سے گیا ہے اور ممکن ہے وہ کسی قریبی جھاڑی میں دبکا ہوا ہمیں دیکھ رہا ہو۔‘
گاڑی میں جتے ہوئے دونوں بَیل سر جھکائے کھڑے تھے جیسے اپنی غلطی پر نادم ہوں۔ ہمارے سوار ہوتے ہی وہ خود بخود چل پڑے۔ مَیں نے احتیاطاً ٹارچ روشن کیے رکھی تاکہ جھاڑیوں میں چھپا ہوا ہو، تو اس کی چمکتی ہوئی آنکھیں ہی اس کا راز اُگل دیں۔ ٹارچ کی روشنی میں چیتے یا شیر کی آنکھیں فوراً دکھائی دے جاتی ہیں جبکہ اندھیرے میں ایسا نہیں ہوتا۔ اور اس عجیب بات پر میں اکثر حیران ہوتا ہوں کہ اس کا کیا سبب ہے۔ چیتے سے ہمارا کوئی جھگڑا نہ تھا، اس لیے میرا ارادہ اسے ڈھونڈنے کا ہرگز نہ تھا، صرف احتیاطاً ٹارچ روشن کر دی تھی تاکہ وہ ہمارا تعاقب نہ کرے۔ چیتا ایسا عیار درندہ ہے کہ میلوں تک دبے پاؤں اپنے شکار کا پیچھا کرتا ہے اور جب اسے یقین ہو جاتا ہے کہ اس کا وار خالی نہ جائے گا تب حملہ کرتا ہے۔
اب ہم یاما دُودی نہر کے بالکل ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ یہاں جنگل بہت گھنا تھا، اس لیے مَیں نے دوسری ٹارچ بھی روشن کر دی، جھاڑیوں اور گھاس کے اوپر ہزار ہا پتنگے ناچ رہے تھے۔ کہیں کہیں جنگلی خرگوش، چوہوں اور گیدڑوں کی چمکتی ہوئی سُرخ سُرخ آنکھیں نظر آئیں جو روشنی پڑتے ہی غائب ہو گئیں۔ ایک مقام پر سانپ کی پھنکار اور گھاس میں سرسرانے کی آواز بھی سنائی دی جس نے بَیلوں کو خوف زدہ کر دیا اور وہ زیادہ تیزی سے دوڑنے لگے۔ اونچی نیچی پگڈنڈی پر گاڑی کے پہیئے بری طرح اچھلنے لگے۔ بَیلوں کی رفتار لمحہ بہ لمحہ تیز ہوتی جا رہی تھی اور خدشہ تھا کہ گاڑی الٹ نہ جائے اور اس سے پہلے کہ میں بیلوں کو روکنے کی کوشش کروں، گاڑی ایک پُر شور آواز کے ساتھ لڑھکتی ہوئی ایک کھڈ میں جا گری۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے کسی طاقتور ہاتھ نے فضا میں اچھال دیا ہے۔ میں نے اپنے آپ کو نہر کے گھٹنے گھٹنے گہرے دلدلی پانی میں پڑا پایا۔ ڈونلڈ کا کچھ پتہ نہ تھا کہ اس پر کیا گزری۔ کھڈ زیادہ گہرا نہ تھا، اس لیے بیل تو کوشش کر کے باہر نکل آئے، مگر گاڑی اُس میں پھنس گئی تھی، میں نے ڈونلڈ کو آوازیں دیں، لیکن کوئی جواب نہ مِلا۔ میرے کپڑے پانی اور کیچڑ میں لت پت ہو چکے تھے۔ ٹارچ، تمباکو کی تھیلی اور پائپ نہر میں گر گیا تھا۔ مگر رائفل بدستور میرے ہاتھ میں تھی۔ چند لمحے بعد مَیں نے بائیں جانب سے ڈونلڈ کے کراہنے کی آواز سنی اور اُدھر لپکا۔ اُس کا سر زخمی تھا اور وہ کھڈ کے قریب پڑا اٹھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ بیل گاڑی کے ساتھ بندھا ہوا فرسٹ ایڈ کا تھیلا کھول کر مَیں نے اس کی مرہم پٹّی کی اور کپڑوں کے بنڈل سے کپڑے نکال کر اپنا لباس تبدیل کیا۔ میری بائیں کہنی اور گھٹنا بھی درد کر رہا تھا، لیکن میں تکلیف سے بے پروا ڈونلڈ کی دیکھ بھال میں لگا ہوا تھا۔
جب اچھی طرح ہوش آ گیا تو میں نے ڈونلڈ کو نہر سے کچھ فاصلے پر ایک درخت کے نیچے لٹایا۔ گاڑی سے بیل کھول کر الگ کیے اور رات اسی مقام پر بسر کرنے کا ارادہ کیا۔ کلائی پر بندھی ہوئی گھڑی سلامت تھی اور رات کے ساڑھے دس بجا رہی تھی۔ گویا تین گھنٹوں میں یہ دوسرا حادثہ تھا اور ابھی ہم نے صرف چار میل کا فاصلہ طے کیا تھا۔ تھرماس سے قہوے کے گرم گرم گھونٹ پی کر اور ڈونلڈ کو پلا کر اَوسان بحال ہوئے، تو مَیں نے گرد و پیش کا جائزہ لیا۔ ارد گرد کے کئی درختوں پر بندر لٹکے ہوئے نظر آئے جو حیرت سے ہمیں دیکھ رہے تھے۔ لیکن سبھی چُپ تھے جیسے خوف زدہ ہوں۔ میری چھٹی حِس جاگ اٹھی۔ کوئی خونخوار درندہ یقیناً قریب تھا۔ شاید وہی چیتا ہو گا یا شیر۔۔۔ بہرحال میں نے رائفل سنبھال لی اور ڈونلڈ کو دلاسا دے کر ارد گرد کی جھاڑیوں کا معائنہ کرنے لگا۔ دائیں ہاتھ پر نہر کے پرلے کنارے ایک چھوٹا سا ٹیلا تھا جو ہم سے بمشکل پچاس فٹ کے فاصلے پر ہو گا۔ اور وہ آوازیں اس ٹیلے کے عقب سے آئی تھی۔ پہلے مدھم، پھر تیز اور آخر میں کرب بھری گرج جیسے درندہ سخت تکلیف میں ہے۔
’ڈیڈی۔۔۔ شیر۔۔۔‘ ڈونلڈ چِلّایا اور اپنی رائفل اٹھا کر میرے برابر آن کھڑا ہوا۔ مَیں نے اُسے درخت پر چڑھنے کا اشارہ کیا، تو وہ کہنے لگا:
’نہیں ڈیڈی، میں اتنا کمزور نہیں ہوں، شیر پر پہلا فائر مَیں کروں گا۔‘
’تم اپنا وعدہ بھُول گئے۔۔۔؟’ میں نے دبی آواز میں اُسے ڈانٹا۔ ‘شور نہ مچاؤ، ورنہ شیر بھاگ جائے گا۔ میں کہتا ہوں درخت پر چڑھ جاؤ۔‘ اس نے با دلِ نخواستہ تعمیل کی۔
اس دوران میں شیر پھر غرّایا اور اس مرتبہ آواز اور قریب سے آئی تھی۔ بیل خوف زدہ ہو کر ایک طرف بھاگ اٹھے اور میں ایک درخت کے تنے کے ساتھ چمٹ گیا اور دو مرتبہ شیرنی کی آواز اپنے حلق سے نکالی۔ میرا خیال تھا کہ شیر اس آواز پر میرے قریب آ جائے گا، لیکن ایسا نہ ہوا اور جنگل میں گہری خاموشی چھا گئی۔ وقت چیونٹی کی رفتار سے گزرنے لگا۔۔۔ مَیں سانس روکے شیر کی آواز سننے کا منتظر تھا۔ مگر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ مصنوعی شیرنی کی آواز سن کو چوکنّا ہو گیا ہے اور ویسے بھی یہ موسم تو شیر شیرنی کے راز و نیاز کا نہ تھا۔ اپنی اس حماقت پر مجھے افسوس ہونے لگا، لیکن کیا ہو سکتا تھا، چاند اس وقت آسمان کے عین وسط میں آ چکا تھا اور اس کی کرنیں ٹھیک میرے اوپر پڑ رہی تھیں۔ ارد گرد کا منظر زیادہ صاف اور واضح نظر آنے گا۔
شیرنی کی بولی سُن کر شیر یقیناً چوکنا ہو گیا تھا۔ خشک پتّوں کے چرمُر ہونے اور گھاس کے سرسرانے کی ہلکی ہلکی آوازیں میرے کانوں میں پہنچیں، تو اس شبہے کی تصدیق ہو گئی کہ نر چُپکے چُپکے اپنی مادہ کو تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ میں نے اسے مزید پریشانی سے بچانے کے لیے تیسری بار شیرنی کی آواز نکالی اور ابھی بمشکل آدھا منٹ ہی گزرا تھا کہ درخت پر چڑھتے ہوئے ڈونلڈ نے آہستہ سے سیٹی بجائی۔ مَیں نے گھوم کر اس طرف دیکھا۔۔۔ اس درخت سے تقریباً پندرہ فٹ دور جھاڑیوں کے قریب ایک قوی ہیکل اور ہیبت ناک چہرے والا شیر شاہانہ وقار سے کھڑا تھا۔ یہ بات میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھی کہ شیر پہاڑی ٹیلے کے عقب سے نکل کر ایک لمبا چکر کاٹے گا اور میرے پیچھے آ جائے گا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کسی مقام سے نہر بالکل خشک پڑی ہے اور شیر نے وہیں سے اسے عبور کیا ہے۔ اچھا ہی ہوا کہ ڈونلڈ نے شیر کی آمد کا فوراً نوٹس لے کر مجھے آگاہ کر دیا تھا، ورنہ شیر میری بے خبری سے فائدہ اٹھا کر اچانک حملہ کر دیتا تو میرے بچنے کی کوئی صورت نہ تھی۔
شیر اپنی جگہ سے اسی انداز سے کھڑا میری جانب گھور رہا تھا۔ مَیں بھی پتھر کا بُت بنا اپنی جگہ کھڑا تھا۔ اس میں شک نہیں کہ شیر کو ہلاک کرنے کا یہ بے نظیر موقع تھا، میں جانتا تھا کہ یہ جنگل شیروں سے بھرا پڑا ہے اور کہیں ایسا نہ ہو کہ مَیں آدم خور کے بجائے کسی اور بے گناہ شیر کو اپنی رائفل کا نشانہ بنا دوں۔ فائر کرنے سے پہلے یہ معلوم کرنا ضروری تھا ہمارا مقابلہ کس سے ہے۔۔۔ عام شیر سے یا آدم خور شیر سے۔۔۔
شیر نے ایک ثانیے کے لیے چاند کی طرف دیکھا اور اور عَین اسی وقت مَیں تنے کی آڑ سے نکل کر شیر کے بالکل سامنے آن کھڑا ہوا۔ میرا خیال تھا اگر وہ آدم خور ہے، تو ضرور میری طرف لپکے گا۔ لیکن ایسا نہ ہُوا، وہ کوئی شریف شیر تھا۔ ایک نرم سی تنبیہ آمیز غرّاہٹ کے بعد مڑا اور جھاڑیوں کے اندر غائب ہو گیا۔ مَیں نے اطمینان کا سانس لیا اور ڈونلڈ کو آواز دی کہ درخت سے نیچے اُتر آئے۔
’ڈیڈی، کیا آپ کو قطعاً احساس نہ ہوا کہ عقب میں شیر ہے؟ شکر کیجیے وہ آدم خور نہ تھا۔۔۔‘
’بھئی، اس وقت تو تم نے کمال کیا۔ بخدا مَیں تصوّر بھی نہیں کر سکتا تھا کہ شیر اس طرح پیچھے سے آ جائے گا، بہرحال وہ ناراض ہو رہا تھا کہ ہم نے شیرنی کی بولی بول کر اُسے دھوکا کیوں دیا۔‘
’ڈیڈی، اب بَیلوں کو تو ڈھونڈیے۔۔۔ کہیں شیر اُن پر حملہ نہ کر دے۔‘
’بَیل زیادہ دُور نہ جائیں گے، کیونکہ شیر آس پاس پھر رہا ہے اور انہوں نے اس کی بُو پالی ہو گی۔‘
ابھی ہم باتیں کر ہی رہے تھے کہ ایک طرف سے کسی جانور کے دوڑنے کی آواز آئی۔ جانور وزنی تھا، کیونکہ اس کے قدموں کی دھمک سے زمین ہل رہی تھی۔ یہ یقیناً ہمارے بَیلوں میں سے ایک بَیل تھا۔ میرا خیال صحیح نِکلا۔ وہ زور زور سے ڈکراتا، چھلانگیں لگاتا اور وحشیانہ انداز میں بھاگتا ہوا نہر کے پرلے کنارے پر نمودار ہوا۔ چاند کی روشنی میں ہم نے دیکھا کہ اس کا جسم لہولہان ہے۔ شیر نے ہمیں چھوڑ کر اس پر حملہ کر دیا تھا، مگر فوراً ہی یہ خیال غلط ثابت ہو گیا، کیونکہ نہر کے پَرلی طرف جھاڑیاں چیرتا ہُوا ایک خونخوار اور لمبے قد کا چیتا برآمد ہوا اور بیل کی طرف لپکا۔ ڈونلڈ نے فائر کرنے کا ارادہ کیا ہی تھا کہ میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
’کیا کرتے ہو؟ بیل اب ہمارے کام کا نہیں رہا، اس لیے چپ چاپ چیتے اور بَیل کی لڑائی دیکھو، وہ آسانی سے چیتے کا لقمہ بننے کو تیار نہ ہو گا۔‘
چیتے کی پھُرتی اور برق رفتاری کا بیل کیا مقابلہ کرتا، آنِ واحد میں بپھرے ہوئے چیتے نے بیل کا ٹینٹوا جبڑے میں دبا کر نیچے گرا لیا اور اپنے پنجے اس کی پشت میں گاڑ دیے، مگر گاؤں کی فضا میں پَلا ہوا طاقتور بیل ہار ماننے کو تیار نہ تھا۔ اس نے گردن کو اس زور سے جھٹکا دیا کہ چیتا لُڑھکتا ہوا دُور جا گرا۔ اب تو چیتے کے غیظ و غضب اور طیش کی انتہا نہ رہی۔ اپنا بھیانک خون آلود مُنہ کھول کر گرجا اور بجلی کی مانند تڑپ کر دوبارہ بَیل پر جھپٹا۔ بَیل خون میں لت پت بُری طرح تڑپ رہا تھا۔ چیتے نے پنجے اس کے پیٹ پر مارے اور گردن مُنہ میں دبا کر جھاڑیوں کی طرف گھسیٹنے کی کوشش کرنے لگا۔ ڈونلڈ میں صبر کی تاب نہ رہی۔ میرے منع کرنے کے باوجود اس نے فائر کر دیا۔ فائر ہوتے ہی چیتا اُچھلا اور گرجتا ہوا جھاڑیوں میں جا چھُپا۔ اب وہ مسلسل چیخ رہا تھا، اس نے کئی بار جھاڑیوں سے نکل کر اَدھ موئے بَیل کو گھسیٹنا چاہا، مگر ہر بار ڈونلڈ کی رائفل شعلہ اگلتی اور چیتا جھاڑیوں میں روپوش ہو جاتا۔ غالباً وہ اپنے شکار کو چھوڑ کر جانا نہ چاہتا تھا۔ مجھے حیرت تھی کہ کوئی گولی اُسے نہیں لگی۔ ابھی یہ تماشا جاری تھاک ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ وہی شیر جسے تھوڑی دیر پہلے ہم نے دیکھا تھا، ایک طرف سے نمودار ہوا اور چیتے کی پروا کیے بغیر بَیل کی طرف بڑھا اور اس کے چاروں طرف گھومنے لگا۔ بیل پر جان کنی کا عالم طاری تھا۔۔۔ درندے کو اپنے قریب پا کر اُس نے اٹھنے کی کوشش کی مگر چیتے کے نوکیلے پنجوں نے اُس کی اوجھڑی باہر نکال دی تھی اور گردن تقریباً کٹ چکی تھی، اس لیے اُٹھ نہ سکا۔ شیر نے دو تین پنجے مارے اور بیل ٹھنڈا ہو گیا۔ اس کام سے فارغ ہو کر اُس نے اِدھر اُدھر دیکھا جیسے چیتے سے کہہ رہا ہو کہ ہمّت ہے تو آؤ اور مجھ سے اپنا شکار چھین لو۔ لیکن چیتا جھاڑیوں میں چھُپا ہوا مسلسل غراتا رہا اور اسے شیر کا سامنا کرنے کی جرأت نہ ہوئی۔
شیر اس مرتبہ بھی ہمارے نشانے کی زد میں تھا، مگر میں اُسے مارنا نہ چاہتا تھا، کیونکہ مَیں تو اُن شیروں کا دشمن ہوں جو انسانوں کے لیے مصیبت اور بربادی کا باعث بنتے ہیں اور انہیں سے دو دو ہاتھ کرنے میں لطف آتا ہے۔ ورنہ میں شیر کو جنگل کا بادشاہ سمجھ کر اس کا پورا احترام اور عزت کرتا ہوں اور شوقین مزاج شکاریوں کے برعکس خواہ مخواہ ان کے خُون سے ہاتھ رنگنا پسند نہیں کرتا۔ ہماری نظروں کے سامنے شیر نے بَیل کی لاش میں سے کچھ حصّے کھائے۔ دو تین انگڑائیاں لیں اور ایک طرف کو چلا گیا۔ ہمارا خیال تھا شیر کے جانے کے بعد چیتا لاش پر آئے گا، لیکن ایسا نہ ہوا۔ چونکہ وہ ہمیں دیکھ چکا تھا، اس لیے اپنی فطری احتیاط اور ہوشیاری کے باعث جھاڑیوں میں دبکا ناراضگی کا اظہار کرتا رہا۔
رات کا بقیہ حصّہ درختوں پر بسیرا کرتے ہوئے کاٹا۔ صبح صادقِ کے آثار نمودار ہوتے ہی ہم دوسرے بیل کی تلاش میں روانہ ہوئے۔ وہ ہمیں دو میل دُور خشک نہر کے وسط میں بیٹھا ہوا مل گیا۔ بیل کو ساتھ لے کر واپس آئے۔۔۔ بڑی جد و جہد کے بعد گاڑی کو گڑھے سے باہر نکالا۔ اس کے بعد ہم بیرُور سٹیشن کی طرف روانہ ہوئے۔ دوسرے بیل کی لاش وہیں پڑی رہی اور اسے ہم نے چیتے چرخ اور گیدڑوں کی ضیافتِ طبع کے لیے رہنے دیا۔
دو گھنٹے بعد ہم نارنگیوں کے اس وسیع باغ میں داخل ہوئے جو بیرُور اور جھیل مدّک کے بالکل درمیان نہر کے کنارے واقع تھا۔ یہ باغ بالکل اجاڑ اور سنسان پڑا تھا۔ اس کی دو وجوہ ہو سکتی تھیں۔ ایک تو یہ کہ نارنگیوں کا موسم نہ تھا اور دوسرے یہ کہ آدم خور کے ڈر سے باغ میں کام کرنے والے مالی، قلی اور دوسرے لوگ کام پر نہ آتے تھے۔ یہ باغ ایک انگریز ریٹائرڈ فوجی افسر کرنل جان سائمن کی ملکیت تھا اور وہ مجھے اچھی طرح جانتا تھا۔ باغ کے شمالی حصّے میں بنے ہوئے کچھ کچے اور کچھ پکّے چھوٹے سے بنگلے میں اس کی رہائش تھی۔ ان دنوں وہ عمر کی ستّر منزلیں طے کر چکا تھا۔ جب ہم بَیل گاڑی سے اتر کر بنگلے میں داخل ہوئے، وہ باہر آرام کرسی پر لیٹا کتاب پڑھ رہا تھا۔ ہم پر نظر پڑتے ہی خوشی سے اِس کا جھُرّیوں بھرا چہرہ تمتما اٹھا۔۔۔ ہمیں فوراً اپنے آرام دہ کمرے میں لے گیا۔ اور ایک بڈھے مقامی ملازم کو ناشتا تیار کرنے کا حکم دیا۔
’میں جانتا ہوں تم آدم خور کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہو۔‘ وہ مُسکرا کر بولا۔ ‘بھئی میرے قویٰ مضمحل۔۔۔ نگاہ کمزور۔۔۔ اور نشانہ خطا ہونے لگا ہے، ورنہ مَیں اس کا قصّہ بہت پہلے پاک کر چکا ہوتا۔ اب دیکھ لو میرا باغ ویران پڑا ہے۔ کوئی شخص یہاں آنے کے لیے تیّار نہیں۔ وہ میرے دو آدمیوں کو پکڑ کر لے جا چکا ہے اور کل رات پھر اِدھر سے گزرا تھا۔‘
کرنل سائمن آدم خور کے دورے کی تفصیلات سناتا رہا اور ہم ناشتا کرتے رہے۔ یہ پہلا شخص تھا جس نے آدم خور کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اس کی بعض نشانیاں ذہن نشین کی تھیں۔
’جیسا کہ مَیں نے آپ کو بتایا، وہ ایک رات میرے نیپالی ملازم کو اٹھا کر لے گیا تھا۔‘ کرنل سائمن کہنے لگا۔ ‘یہ نیپالی چند روز قبل ہی ملازم ہوا تھا اور ہرچند کہ مجھے نوکر کی ضرورت نہ تھی، مگر اس کے پاس مزّل لوڈنگ بندوق دیکھ کر مَیں نے اُسے رکھ لیا۔ یہ ڈیڑھ ماہ پہلے کا ذکر ہے۔ آدم خور کی ہلاکت خیز سرگرمیاں عروج پر تھیں۔ میرے تمام ملازم اس کی ہیبت سے لرزاں و ترساں تھے، کیونکہ کئی مرتبہ وہ باغ کے نزدیک بھی گھومتا پھرتا دیکھا گیا اور راتوں کو تو اکثر ادھر سے گزرتا تھا۔ اس دوران میں وہ میرے ایک قلی کو موقع پا کر ہڑپ بھی کر گیا اور کئی دن بعد اس کی لاش کے ٹکڑے جھیل مدّک کے کنارے ایک نالے کے قریب پڑے ہوئے پائے۔ بہرحال نیپالی چوکیدار نڈر ہونے کے ساتھ ساتھ حد درجہ احمق بھی ثابت ہوا۔ ایک روز رات کو بندوق چلنے کے دھماکے اور شیر کی گرج سُن کی میری آنکھ کھل گئی۔ یہ چاندنی رات تھی، مَیں نے باہر جھانکا، کیا دیکھتا ہوں کہ نیپالی گورکھا بندوق ہاتھ میں لیے اندھا دھُند دوڑتا ہوا میرے مکان کی طرف آ رہا ہے اور ایک قد آور اور انتہائی طاقتور شیر اُس کے تعاقب میں ہے۔ شیر کا جبڑا زخمی تھا اور چہرہ لہولہان۔۔۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ نیپالی نے اُسے دیکھ کر اپنی بندوق چلائی، گولی شیر کے جبڑے پر لگی، لیکن وہ گرنے یا بھاگنے کے بجائے نیپالی کو پکڑنے کے لیے دوڑا۔ ممکن ہے وہ بچ جاتا، لیکن ٹھوکر کھا کر ایسا گرا کہ اٹھ نہ سکا، چنانچہ آدم خور نے اُسے چُوہے کی طرح منہ میں دبایا اور چھلانگیں لگاتا ہوا آناً فاناً نظروں سے غائب ہو گیا۔ اس حادثے کے بعد میرے تمام ملازم رفو چکّر ہو گئے اور انہوں نے ٹھہرنے سے انکار کر دیا۔ اب میں یہاں تنِ تنہا اپنی قسمت کو رو رہا ہوں۔‘
’آپ آدم خور کی کوئی خاص نشانی بتا سکتے ہیں؟’ ڈونلڈ نے پُوچھا۔
’نشانی؟ سب سے بڑی نشانی تو یہی ہے کہ اس کا جبڑا ابھی تک زخمی ہے۔ اور غالباً بایاں بڑا دانت بھی ٹوٹا ہوا ہے۔ مَیں نے اسے ایک روز دوپہر کے وقت اسی باغ میں پھرتے دیکھا تھا۔ اُسے معلوم ہے کہ میں یہاں رہتا ہوں اور شاید وہ میری ہی تاک میں ہے۔ جونہی مَیں نے اپنی رائفل اُٹھا کر فائر کرنے کا قصد کیا، وہ غراتا ہوا بھاگ گیا۔‘
ہم چونکہ بے حد تھکے ماندے تھے، اس لیے کرنل سے اجازت لے کر ذرا کمر سیدھی کرنے لیٹ گئے۔ میں نے اندازہ کیا ہمارا میزبان آدم خور سے خوف زدہ ہے اور اگر یہ شخص اکیلا یہاں پڑا رہا تو تمام احتیاطوں کے باوجود آدم خور کسی دن اُسے پکڑ کر لے جائے گا۔
اس نے بتایا کہ شیر اس کی تاک میں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہُوا کہ بوڑھے کرنل کی زندگی خطرے میں تھی۔ اُس کا مکان بھی اتنا مضبوط نہ تھا کہ آدم خور کو داخل ہونے سے روک سکتا تھا۔ معمولی لکڑی کے بنے ہوئے کمزور دروازے شیر کے ایک ہی دھکّے سے یقیناً ٹوٹ جاتے اور کچی دیواریں ڈھانا بھی اس کے لیے کچھ مشکل نہ تھا۔ آدم خور کی فطرت ہے اگر وہ کسی شخص کو نگاہ میں رکھ لے تو اس وقت تک پیچھا نہیں چھوڑتا جب تک اس کو ہلاک نہ کر لے۔ اکیلے دُکیلے آدمی کی خاص طور پر ‘نگرانی’ کرتا ہے اور موقع پاتے ہی وار کرنے سے کبھی نہیں چُوکتا۔ کرنل نے ہمیں بتایا کہ آدم خور اکثر رات کے وقت اس باغ اور جھیل مدّک کے درمیانی علاقے میں پھرتا ہے، چنانچہ شام کی چائے پر جمع ہوئے، تو مَیں نے اُس سے کہا:
’آپ نے اپنی حفاظت کا کیا انتظام کیا ہے؟ یہ دیواریں اور یہ دروازے ظاہر ہے آدم خور کو روک نہیں سکتے۔ میں حیران ہوں اُس نے اب تک آپ کا صفایا کیوں نہیں کیا۔‘
اِن الفاظ سے کرنل کے چہرے پر ایک لمحے کے لیے زردی سی چھا گئی اور دم بخود ہو کر میری طر تکنے لگا، پھر بولا:
’پناہ بخدا، یہ بات تو میرے ذہن میں نہ آئی تھی۔ آپ سچ کہتے ہیں، میری خواب گاہ کا دروازہ یقیناً کمزور ہے اور شیر چاہے تو اُسے توڑ سکتا ہے۔ مَیں کل ہی بیرّور سے کسی بڑھئی کو بلوا کر ان دروازوں کے آگے لکڑی کی مضبوط بلّیاں لگواتا ہوں۔ ویسے مَیں نے اپنے بڑے لڑکے کو یہاں پہنچنے کا خط بھی لکھ دیا ہے۔ وہ آج کل بنگلور میں کام کر رہا ہے، بس پہنچنے ہی والا ہو گا۔ وہ خود بھی اچھّا شکاری ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ اس سے خاصی مدد لے سکیں گے۔‘
’یہ آپ نے اچھا کیا۔ تاہم آپ اپنی حفاظت کا انتظام ضرور کیجیے۔‘
ہم جنگل میں جانے کی تیاری کرنے لگے۔ کرنل نے ہمیں نئی ٹارچیں دیں، ایک بڑے تھرماس میں چائے اور بسکٹوں کا ڈبّا ہمارے حوالے کیا اور باغ کے آخری کنارے تک رخصت کرنے آیا۔
’اچھا، دوستو شب بخیر۔ خدا کرے آپ اس مہم میں کامیاب ہوں تاکہ خلقِ خُدا چَین کی نیند سو سکے۔ میرا خیال ہے کہ آدم خور جھیل مدّک کے قریب واقع ایک گہری کھائی میں رہتا ہے۔ اُس کے مارے ہوئے اکثر آدمیوں کی لاشوں کے بچے کھچے حِصّے وہیں سے ملے ہیں۔ یہ راستہ زیادہ دشوار گزار اور خطرناک ہے اس لیے احتیاط لازمی ہے۔ مجھے اُمید آپ جب واپس آئیں گے، تو میں آپ کی زبان سے کوئی خوش خبری سُن سکوں گا۔ اچھّا، خدا حافظ۔‘
کرنل سائمن کے باغ سے نکل کر ہم جھیل مدّک کی طرف چلے۔ جنگل میں تاریکی سُرعت سے پھیل رہی تھی۔ میں نے محسوس کیا ڈونلڈ پر آدم خور کی خاصی ہیبت بیٹھ چکی ہے اور وہ بار بار چونک دائیں بائیں دیکھنے لگا تھا۔ خود میرے دل پر بھی خوف کا ہلکا سا اثر ہونے کے ساتھ ساتھ حسرت و الم کی نامعلوم کیفیت طاری ہوتی جا رہی تھی۔ برسوں جنگل کی فضا میں رہنے کے باوجود مجھ میں اتنا شعور تو یقیناً پیدا ہو چکا تھا کہ پیش آنے والے خطروں اور حادثوں کے بُو باس سُونگھ لوں، لیکن ڈونلڈ کی زندگی میں یہ پہلا موقع تھا۔
بُڈھے کرنل نے آدم خور کا جو حُلیہ بیان کیا تھا، اُس سے میرے ذہن میں ایک خاص نقشہ تیّار ہو گیا تھا۔ مجھے یقین تھا جونہی حریف سے آمنا سامنا ہو گا، فوراً اُسے پہچان لوں گا۔ ہم دونوں چپ چاپ، آہٹ پیدا کیے جھیل کی طرف بڑھ رہے تھے۔ تنگ راستے کے دونوں جانب جنگل گھنا اور گنجان تھا۔ درخت نہایت اونچے اور ان کی ٹہنیاں اور شاخیں ایک دوسرے سے گتھی ہوئی تھیں۔ بندروں کی اچھل پھاند یا چڑچڑانے کی آوازوں کے سوا جنگل پر ایک ہیبت ناک سناٹا چھایا ہوا تھا۔ ہم آگے چل کر گھُپ اندھیرے کے بیکراں سمندر میں ڈوب گئے۔ درختوں کی جھُکی ہُوئی شاخیں ہمیں روکنے کی کوشش کر رہی تھیں، لیکن ہم انہیں ہٹانے اور گزرنے کی راہ بناتے ہوئے جھیل کے قریب پہنچ ہی گئے۔ تھوڑی دیر بعد پتہ چلا کہ اندھیرے میں ہم ایک نئے راستے پر نکل آئے ہیں اور اب بالکل نہر کے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ یہ نہر کسی زمانے میں جھیل مدّک سے نکالی گئی تھی اور خاصی چوڑی اور گہری تھی۔ آگے چل کر نہر ایک ڈھلان کی طرف مُڑی، تو پانی گرنے کی مدھم سی آواز کانوں میں آنے لگی۔
ہم آدم خور کے علاقے میں داخل ہو چکے تھے، اس لیے مَیں نے ڈونلڈ کو ہوشیار رہنے کی تاکید کرتے ہوئے ٹارچ روشن کر دی۔ کچھ فاصلے پر جھیل مدّک کا بند نظر آیا جو تقریباً پچیس فٹ اُونچا تھا۔ بند تک پہنچنے کے لیے ہمیں انتہائی دشوار گزار اور گنجان ترین حصے سے گزرنا پڑا جہاں ہر لمحے کسی ناگہانی حادثے کا خطرہ موجود تھا۔ ایک مقام پر جھاڑیوں سے گزرتے ہوئے کسی مہلک جانور کی موجودگی کا احساس ہوا۔ میں نے ڈونلڈ کو رکنے کی ہدایت کی اور دونوں ٹارچیں روشن کر دیں۔ کیا دیکھتا ہوں ایک سیاہ ناگ پانچ فٹ کے فاصلے پر کنڈلی مارے بیٹھا ہے۔ روشنی ہوتے ہی پھنکارا اور سر اٹھا کر ہماری طرف دیکھنے لگا۔ اس کی ننھی ننھی سرخ آنکھیں کوئلوں کی طرح دہک رہی تھیں۔ ناگ کو دیکھتے ہی ڈونلڈ کے حلق سے ہلکی سی چیخ نِکلی اور اس سے پہلے کہ میں اُسے روکوں، وہ ناگ پر فائر کر چکا تھا۔ ظاہر ہے اس نازک صورتِ حال میں صحیح نشانہ لینا محال تھا، سانپ آناً فاناً گھاس میں سرسراتا ہوا نظروں سے غائب ہو گیا۔ لیکن فائر کے دھماکے سے جنگل کی سوئی ہوئی زندگی بیدار ہو گئی۔ درختوں پر بسیرا کرنے والے کوّے، چیلیں اور ہزار ہا چمگادڑیں ہَوا میں چکّر کاٹنے لگیں اور ان کے پَروں کی ناگوار پھڑپھڑاہٹ سے دیر تک فضا گونجتی رہی۔
’تمہیں اتنی بد حواسی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔‘ میں نے ڈونلڈ کو سمجھایا۔ اس کے چہرے پر اب بھی دہشت کے آثار ہویدا تھے۔ در اصل سانپ اُس کی نفسیاتی کمزوری تھی۔ وہ ریچھوں اور چیتوں کے سامنے بے خوفی سے کھڑا ہو جاتا، لیکن کسی معمولی اور بے ضرر سانپ کو دیکھتے ہی اس کی روح فنا ہونے لگتی تھی۔
’ڈیڈی، اگر مَیں گولی نہ چلاتا، تو وہ ہم میں سے ایک کو ضرور ڈس لیتا۔‘ ڈونلڈ نے جواب دیا اور پیشانی سے پسینے کے قطرے پونچھنے لگا۔ اتنے میں مشرق کی جانب سے ابھرتے ہوئے چاند کی روشنی آہستہ آہستہ جنگل کو منوّر کرنے کی کوشش کرنے لگی، لیکن درخت اتنے گنجان اور ایک دوسرے سے یوں جڑے ہوئے تھے کہ چاند کی بڑی کرنیں بڑی مشکل سے گزر رہی تھیں۔ تاہم اب ارد گرد کا منظر ہمارے سامنے اتنا واضح ہو گیا تھا کہ ٹارچ روشن کرنے کی حاجت نہ رہی۔
پچّیس فٹ بلند بند پر چڑھنا جتنا آسان نظر آتا تھا، اُتنا ہی دشوار بن گیا، در اصل ہم دونوں بُری طرح تھک گئے تھے اور چاہتے تھے کسی جگہ رک کر دم لے لیں اور سب سے زیادہ محفوظ مقام جھیل کا یہ بند تھا۔ بند پر پہچنچ کر کھلی اور روشن فضا نصیب ہوئی اور ہم نے اطمینان کا سانس لیا۔ ٹھنڈی خوشگوار ہَوا چل رہی تھی۔ جھیل مدک کا پانی چاندنی میں چمک رہا تھا۔ لیکن اس کی رفتار بہت سست تھی۔ پاٹ تقریباً سو گز چوڑا تھا اور جس جگہ ہم بیٹھے تھے، وہاں سے تقریباً ایک فرلانگ دور یہ جھیل اچانک دائیں ہاتھ مڑ کر نظروں سے اوجھل ہو جاتی تھی۔
کرنل سائمن نے بتایا تھا کہ آدم خور کا مَسکن جھیل کے نزدیک ایک تاریک کھائی ہے اور مَیں اسی کھائی کا ایک نظر معائنہ کرنا چاہتا تھا، لیکن اس کے لے ضروری تھا کہ ہم جھیل عبور کر کے دوسرے کنارے پر جائیں۔ چنانچہ آدھ گھنٹہ سستانے اور گرم گرم چائے حلق سے اتارنے کے بعد جھیل میں اتر گئے۔ ہم نے گھٹنوں تک اونچے شکاری فُل بوٹ پہن رکھے تھے۔ جھیل کے درمیان پہنچے، تو اندازہ ہوا کہ یہاں پانی گہرا ہے۔ آگے بڑھے، تو پانی کمر تک آ گیا۔ غرض یہ کہ جب دوسرے کنارے پر آئے، تو ہمارے کپڑے اچھی طرح تر ہو چکے تھے۔ اب مسئلہ گیلے کپڑے اتار کر سُکھانے کا تھا۔ چنانچہ سوکھی شاخیں جمع کر کے آگ جلائی اور دیر تک کپڑے سکھاتے رہے، اس اثناء میں ڈونلڈ تو وہیں پڑ کر سو گیا اور مَیں بیٹھا پائپ پیتا رہا۔ نہ معلوم کس وقت مجھ پر غنودگی طاری ہو گئی اور آنکھ اس وقت کھلی جب آدم خور کے گرجنے اور کسی آدمی کے چلّانے کی ملی جلی آوازیں سنائی دیں۔ مجھے یوں احساس ہوا جیسے کسی نے آگ میں سُرخ کی ہوئی سلاخ سینے میں جھونک دی ہے، کیونکہ آنکھ کھلتے ہی اِدھر اُدھر دیکھا، تو ڈونلڈ نظر نہ آیا۔ مَیں یہ سمجھا کہ آدم خور اُسے اٹھا کر لے گیا۔ چند ثانیوں کے اس بھیانک خیال کے زیرِ اثر میری جسمانی اور ذہنی قوت معطل ہو گئی۔ اس ناگہاں صدمے سے مَیں یقیناً بے ہوش ہو جاتا کہ قریب ہی ڈونلڈ کی آواز آئی۔ وہ ایک درخت کے تنے سے لگا کھڑا تھا۔
’ڈونلڈ۔۔۔ ڈونلڈ۔۔۔‘ مَیں چِیخا اور اس کی طرف لپکا۔ ‘خُدا کا شکر ہے کہ تم زندہ ہو، میں تو سمجھا تھا کہ آدم خور تمہیں لے گیا۔ ابھی ابھی مَیں نے کسی آدمی کے چِیخنے اور شیر کے گرجنے کی آواز سُںی تھی۔‘
’اسی آواز نے تو مجھے جگایا تھا۔‘
یہ کہہ کر وہ میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا۔ چند منٹ بعد پھر کسی کے چِیخنے چلّانے کی آوازیں آئیں۔ یقیناً کوئی بد نصیب آدمی شیر کے خونیں جبڑوں کا شکار ہو گیا تھا، لیکن سوال یہ تھا کہ رات کے اس سنّاٹے میں کون بیوقوف ہے جو آدم خور کا لقمہ بننے کے لیے ادھر آ نکلا۔ بہرحال یہ وقت سوچنے اور غور کرنے کے بجائے عمل کرنے کا تھا۔ ہم دونوں اپنی اپنی رائفلیں سنبھال کر اُس کی طرف لپکے۔ آدم خور کی پھُرتی اور عیاری کے مقابلے میں ہماری یہ بھاگ دوڑ وقت ضائع کرنے کے مترادف تھی، کیونکہ وہ اتنی دیر میں اپنے شکار کو لے کر کہیں سے کہیں نکل جاتا ہے۔
جھیل کا یہ کنارہ بدبو دار دلدلی قطعوں اور جھاڑ جھنکاڑ سے پٹا پڑا تھا۔ جا بجا گہرے گڑھے اور چھوٹی بڑی کھائیاں راہ روکے ہوئے تھیں، لیکن ہم نتائج سے بے پروا ٹارچوں کی روشنی میں اُس طرف بڑھتے گئے جدھر سے آواز آئی تھی۔ یہاں آم کے درختوں کا ایک گھنا جھنڈ تھا اور اسی کے قریب ہم نے شیر کے پنجوں کے نشان اور خون کے قطرے دیکھے۔ جھنڈ کے اندر اتنی تاریکی تھی کہ اس میں داخل ہونے کا حوصلہ نہ ہوا۔ شیر اپنے شکار کو لے کر اسی جھنڈ میں گیا تھا اور ممکن ہے اب بھی کسی جھاڑی یا گھاس کے اندر بیٹھا اپنا پیٹ بھر رہا ہو۔ ہم دیر تک بے حس و حرکت کھڑے کوئی اور آواز سننے کی کوشش کرتے رہے، لیکن بے سُود۔۔۔ ہر طرف ہُو کا عالم طاری تھا۔ جیسے جنگل کا یہ حصّہ برسوں سے ویران اور غیر آباد پڑا ہوا اور جنگلی جانور یہاں نکل کر کسی اور حصّے میں جا بسے ہوں۔
مَیں نے گھڑی پر نگاہ ڈالی، رات کے گیارہ بجے تھے۔ سمجھ میں نہ آیا یہ شخص کون تھا جسے شیر پکڑ کر لے گیا۔ شاید وہ ان آوارہ اور بدمعاش آدمیوں میں سے کوئی ہو جو پولیس کے خوف سے جنگلوں میں چوری چھپے شراب بنایا کرتے ہیں۔ اگر ایسی ہی بات ہے، تو اس شخص کے دوسرے ساتھی بھی یہیں ہونے چاہئیں۔ مَیں نے ڈونلڈ کو ساتھ رہنے کی ہدایت کی اور جھنڈ میں داخل ہو گیا۔ کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد پتا چلا کہ جھنڈ کے عین وسط میں خاصی کشادہ جگہ ہے۔ غالباً گزشتہ دنوں یہاں درختوں کی کٹائی کا کام شروع کیا گیا تھا۔ کیونکہ تین چار درختوں کے کٹے ہوئے تنے ایک دوسرے کے اُوپر پڑے ہوئے تھے۔ مَیں نے ٹارچ کی مدد سے ان بدمعاشوں کو کمین گاہ کا سراغ لگانا چاہا، مگر ناکامی ہوئی۔ اس جگہ زمین پر لمبی گھاس کثرت سے اُگی ہوئی تھی، اس لیے شیر کے پنجوں کے نشان اور خون کے دھبّے نظر آنا مشکل تھا۔ لیکن مَیں نے ہمت نہ ہاری، اتنا تو یقین تھا کہ شیر اپنے شکار کو لے کر اسی جھنڈ میں داخل ہوا ہے مگر گیا کدھر، یہی سوال بار بار ذہن میں گردش کر رہا تھا۔
تھوڑی دیر کی جد و جہد اور تلاش کے بعد آخرکار ہم نے اس بد نصیب کو پا ہی لیا۔ اُس جھُنڈ سے کوئی دو فرلانگ دُور نکلنے کے بعد پھر خون کے دھبّے اور شیر کے پنجوں کے نشانات دیکھے گئے۔ ہم تیزی سے آگے بڑھے اور اپنے آپ کو اسی پگڈنڈی پر پایا جو بیرُور کی طرف جاتی تھی۔ لاش ایک دس فٹ اونچی خار دار جھاڑی کے قریب پڑی تھی۔ ایک نظر دیکھتے ہی پتہ چل گیا کہ وہ کوئی انگریز نوجوان ہے۔ اس کی خاکی وردی تار تار ہو چکی تھی اور برہنہ جسم پر جا بجا شیر کے پنجوں اور دانتوں کے نشان نمایاں تھے۔ گردن اور سینے پر گہرے گہرے گھاؤ تھے جن پر تازہ خون کے لوتھڑے جمے ہوئے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آدم خور کسی وجہ سے پیٹ نہیں بھر سکا اور لاش یہیں چھوڑ گیا ہے۔ ممکن ہے وہ نزدیک ہی کہیں چھُپ گیا ہو۔ مَیں نے ڈونلڈ کو ایک درخت پر چڑھنے کا اشارہ کیا اور چند منٹ ادھر ادھر دیکھنے کے بعد خود بھی درخت پر چڑھ گیا۔ اب لاش عین ہمارے سامنے کوئی بیس تیس گز کے فاصلے پر پڑی تھی۔ اس وقت ایک ایک لمحہ عذاب کی مانند گزر رہا تھا اور میرے اعصاب میں وہی غیر معمولی چُستی عود کر آئی تھی جو اس قسم کے مقابلوں میں میری مدد کرتی تھی۔ لاش دیکھتے ہی میں سمجھ گیا کہ یہ بد نصیب انگریز نوجوان کون تھا۔ کرنل سائمن کا بیٹا جو بنگلور سے اپنے باپ کی حفاطت کے لیے یہاں آیا تھا۔ اور جب کرنل کو پتا چلے گا کہ ولیم سائمن آدم خور کے ہتھے چڑھ گیا، تو نہ معلوم اس کا کیا حال ہو گا۔ اب سوال یہ تھا کہ آدھی رات کو اس سنسان اور خطرناک جنگل میں وہ آدم خور کا شکار کیونکر بنا۔
ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ولیم سائمن کسی حادثے کے باعث اپنے باپ کے باغ تک پہنچ نہیں سکا اور راستہ بھول کر اس طرف آ نکلا اور آدم خور کا شکار ہو گیا۔ اس کڑیل جوان کی حسرت ناک موت کا صدمہ میرے دماغ پر ایسا تھا کہ میں اپنے آنسو روک نہ سکا۔ ڈونلڈ کے چہرے پر بھی ایسے ہی تاثرات پھیلے ہوئے تھے۔ آدم خور پیٹ بھرے بغیر ہی لاش کو چھوڑ کر جا چکا تھا۔ اس لیے یقیناً جھلّایا ہوا اِدھر اُدھر پھر رہا ہو گا۔ شاید اس انتظار میں ہو کہ ہم اس مقام سے ٹلیں اور پھر وہ لاش پر آئے، لیکن ضرورت سے زیادہ ہوشیار ثابت ہوا اور اگرچہ میں نے کئی مرتبہ اس کے چلنے پھرنے کی آہٹ بھی سنی۔ تاہم وہ نظر نہ آیا۔ ایک دو بار وہ غصے سے غرّایا بھی تھا۔
صبح کے چار بجے جب کہ مشرق کی طرف سے ٹھنڈی ٹھنڈی ہَوا کے جھونکے میں تھپکیاں دے دے کر سُلانے کی کوشش کر رہے تھے، آدم خور نے جھاڑیوں میں سے سر نکال کر جائزہ لیا۔ اَب میں نے دیکھا کہ اس کا چہرہ عام شیروں کی نسبت خاصا چوڑا ہے اور جبڑے کا ایک بڑا دانت ٹوٹا ہوا ہے۔ آدم خور نے گردن اٹھا کر اُس درخت کی طرف نگاہ کی جس پر ہم پناہ لیے ہوئے تھے۔ رات بھر کا جاگا ہوا ڈونلڈ بے خبر سو رہا تھا۔ مَیں نے اسے پیر کی حرکت سے جگایا اور آنکھ کے اشارے سے آدم خور کی طرف متوجہ کیا۔ آپ یقین کیجئے میری اس معمولی سی حرکت کا بھی آدم خور کو فوراً پتہ چل گیا اور دوسرے ہی لمحے وہ دوبارہ جھاڑیوں میں غائب ہو چکا تھا۔ اس کے بعد ہم نے اس کی شکل نہیں دیکھی۔
سورج کی چمکیلی دھوپ چاروں طرف پھیل چکی تو ہم دونوں درخت سے نیچے اترے۔ کسی اور کی لاش ہوتی، اسے یہیں پڑا رہنے دیتا، کیونکہ آدم خور کو گھیرنے کا یہی ایک ذریعہ تھا، لیکن ولیم سائمن کی لاش آدم خور کے حوالے کر دینا مجھے پسند نہ تھا۔ چنانچہ ہم نے اسے اپنے فالتو کپڑوں میں لپیٹا اور اٹھا کر لے چلے۔ اب ہم اس پگڈنڈی پر چل رہے تھے جو بیرُور کی طرف جاتی تھی۔ دن کی روشنی میں یہ سرسبز و شاداب علاقہ بے حد خوب صُورت نظر آ رہا تھا، لیکن افسوس یہاں کوئی آدمی نہ تھا۔ ہر طرف ویرانی اور سنّاٹا ہی سنّاٹا۔ راستے میں جنگلی خرگوش اور گیدڑوں کے سوا کوئی ذی رُوح نہ ملا اور ان چھوٹے جانوروں نے بھی ہمیں حیرت سے یوں دیکھا جیسے زبانِ حال سے کہہ رہے ہوں:
’تمہیں اس طرف آنے کی جرأت کیسے ہوئی؟ بے وقوفو، جانتے نہیں اِدھر آدم خور رہتا ہے۔‘
ابھی ہم لاش اٹھا کر آدھ میل ہی گئے تھے کہ سامنے سے ایک گھوڑا گاڑی آتی دکھائی دی۔ ہم رُک گئے۔ گاڑی پر پانچ سات آدمی ہاتھوں میں کلہاڑیاں اور مزّل لوڈنگ بندوقیں لیے بیٹھے تھے۔ پھر انہی میں کرنل سائمن کا سکڑا ہوا سُرخ چہرہ نظر آیا جس کی آنکھیں سوجی تھیں۔ میرا دل دھک دھک کرنے لگا۔ ہم نے جلدی سے ولیم سائمن کی لاش گھاس میں رکھ دی اور آنے والوں کا استقبال کرنے کے لیے آگے بڑھے۔
’میرا بیٹا۔۔۔ میرا بیٹا۔۔۔ کہاں ہے وہ؟’ بڈھا کرنل چلّایا۔ گاڑی سے اترنے والوں نے اسے سنبھالا۔ کرنل پر دیوانگی طاری تھی۔ چند لمحوں کے لیے اس نے ہمیں بھی نہ پہچانا۔ کوچوان الگ تھلگ کھڑا تھر تھر کانپ رہا تھا اور اس کی صورت دیکھتے ہی اس حادثے کی تمام تفصیلات خود بخود میرے ذہن میں ترتیب پانے لگیں۔ ولیم کی لاش دیکھ کر کرنل کو سکتہ سا ہو گیا اور اگر مَیں آگے بڑھ کر اسے سنبھال نہ لیتا، تو وہ غش کھا کر زمین پر گر چکا ہوتا۔
ولیم کی لاش گھوڑا گاڑی پر رکھ کر ہم باغ میں پہنچے۔ اس دوران میں کرنل ہوش میں آ چکا تھا۔ مَیں نے اسے بستر پر چپ چاپ لیٹے رہنے کی ہدایت کی اور ساتھ آنے والے آدمیوں سے کہا کہ کوئی شخص یہاں سے میری اجازت کے بغیر نہ جائے۔ نہا دھو کر اور ناشتے سے فارغ ہو کر مَیں نے کوچوان کو بُلوایا۔ یہ ایک ادھیڑ عُمر، دُبلا پتلا اور پوپلے منہ والا ہندو تھا۔ اُس نے اپنا نام لالی بتایا۔
’جناب، اس میں میر کوئی قصور نہیں، صاحب بہادر میرے منع کرنے کے باوجود جنگل کی طرف چلے گئے تھے۔ شام کو سات بجے کی گاڑی سے وہ بیرُور سٹیشن پر اُترے اور میری گاڑی پر بیٹھ گئے۔ انہوں نے جب مجھے نارنگیوں کے باغ کی طرف چلنے کا حکم دیا، تو مَیں نے کہا: ‘سرکار، اس وقت جنگل میں نہ جاؤں گا۔ کیوں کہ وہاں آدم خور رہتا ہے اور اس نے بہت سے آدمیوں کو ہڑپ کر لیا ہے۔ لیکن انہوں نے میری ایک نہ سنی، وہ شراب کے نشے میں تھے جناب، میرے انکار پر مجھے بید سے پیٹنا شروع کر دیا۔ دوسرے کوچوانوں نے بھی صاحب کو سمجھانے کی کوشش کی، مگر انہوں نے ان کو بھی مارا۔ میں مجبور ہو گیا۔‘ لالی کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہو گئیں۔ وہ میرے پَیر چھُوتے ہوئے بولا:
’جناب، آپ پولیس کو خبر نہ دیجیے۔۔۔ میرے چھوٹے چھوٹے بچّے ہیں۔ اگر مجھے جیل ہو گئی تو وہ بھوکوں مر جائیں گے۔‘
لالی کے بیان سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ سچ کہہ رہا ہے۔ چنانچہ مَیں نے اُسے دلاسا دیتے ہوئے کہا:
’گھبراؤ نہیں، میں سمجھ گیا ہوں اور اس میں قصور مرنے والے کا ہے۔ شراب ہی نے اس کی جان لی۔ اچھّا، آگے بتاؤ کیا ہُوا؟’
’باغ تک پہنچنے کے لیے مجھے ایک لمبا چکّر کاٹ کر جانا پڑتا تھا۔ اور وہ راستہ محفوظ بھی تھا، لیکن ولیم صاحب نے مجھ سے کہا کہ وہ بند والے راستے سے جانا چاہتے ہیں، کیونکہ یہ راستہ نزدیک ہے۔ یہ سُن کر مَیں نے ایک بار پھر انہیں بتایا کہ آدم خور رہتا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ حملہ کر دے۔ میری اس بات پر ولیم صاحب نے پستول نکال لیا اور غصے سے کہنے لگے: ‘ہم اُس شیر کو مار ڈالے گا اور اگر تم چلنے سے انکار کرتا ہے، تو ہم تمہیں بھی شُوٹ کرے گا۔‘ گاڑی جب بند کے نزدیک پہنچی تو چاند نکل رہا تھا۔ آگے راستہ تنگ اور خطرناک تھا، اس لیے گھوڑے کی رفتار ہلکی کرنی پڑی۔ بند کے اوپر سے گزرتے ہوئے یکایک ولیم صاحب نے مجھے گاڑی روکنے کا حکم دیا اور کہنے لگے کہ وہ چاندنی رات میں جھیل کی سیر کرنا چاہتے ہیں۔ وہ گاڑی سے اُتر کر چند ہی قدم چلے تھے کہ جھاڑیوں میں سے ایک شیر نکلا اور اُس نے ولیم صاحب کو دبوچ لیا۔ مَیں نے ولیم صاحب کی چیخیں سنیں، لیکن انہیں کیسے بچاتا۔ شیر کی آواز سُن کر میرا گھوڑا بدک گیا اور سَرپٹ دوڑنے لگا۔ مَیں واپس بیرُور سٹیشن چلا گیا اور دوسرے کوچوانوں کو حادثے کی تفصیلات بتائیں۔ ہم نے طے کیا کہ صبح ہوتے ہی کرنل کو خبر کر دیں گے۔‘
مَیں نے لالی کو رخصت کر کے دوسرے آدمیوں کو باری باری بلوایا اور سب کے بیان لیے۔ اس سے ثابت ہوا لالی واقعی بے گناہ ہے۔ نوجوان ولیم سائمن شراب کے نشے میں دھُت تھا اور اس نے کوچوانوں کو بید سے مارا تھا، کیوں ایک شخص کی پیٹھ اور گردن پر اس وقت بھی بید کی ضربوں کے نشانات ابھرے ہوئے تھے۔
بیٹے کی ناگہانی موت نے کرنل سائمن کا دل و دماغ ہلا ڈالا تھا۔ وہ الٹی سیدھی باتیں کرتا اور اپنی کرسی پر بیٹھا دیوار پر لٹکی ہوئی ولیم سائمن کی تصویر کو گھورتا رہتا۔ کئی مرتبہ میں نے اسے رائفل کا معائنہ کرتے اور اس میں کارتوس بھر کر ہوائی فائر کرتے ہوئے بھی دیکھا۔ اس کے بوڑھے بازوؤں میں نہ جانے کہاں سے قوت آ جاتی کہ ہاتھ کانپے بغیر نشانہ نہ لیتا اور گولی چلا دیتا، لیکن کھانا کھاتے ہوئے بار بار چھری کانٹا ہاتھ سے گِر جاتا تھا۔
’بہتر یہ ہے کہ بڑے میاں کو کسی ہسپتال میں داخل کرا دیا جائے۔‘ ڈونلڈ نے مجھ سے کہا۔ ‘ان کی حالت روز بروز خطرناک ہوتی جا رہی ہے۔ کل جب آپ باہر گئے ہوئے تھے، کرنل نے ایک عجیب حرکت کی۔‘
’وہ کیا؟’ میں نے پُوچھا۔
’آپ کو شاید یاد ہو کہ کرنل کے بڑے کمرے میں مٹّی سے بنے ہوئے ایک شیر کا چھوٹا سا مجسّمہ رکھا تھا۔ کرنل پہلے اُسے غور سے دیکھتا رہا، پھر اُس کے لبوں پر پُر اسرار مسکراہٹ کھیلنے لگی۔ اس وقت مَیں کمرے کی شمالی کھڑکی کے قریب کھڑا یہ تماشا دیکھ رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد کے کرنل قہقہے لگانے لگا اور پھِر ایسے الفاظ میں گیت گانے لگا جو میری سمجھ سے بالاتر تھے۔۔۔ اس نے دیوار پر لٹکا ہوا بڑا سا خنجر اُتارا، اُس کی دھار پر ہاتھ پھیر کر اس کی تیزی کا اندازہ کرنے لگا۔
مَیں ڈرا کہ وہ کہیں اس پاگل پن میں اپنی ہی گردن پر نہ پھیر لے۔ چنانچہ اسے اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے مَیں نے آواز دی۔ مگر اُس نے میری آواز نہ سُنی، بلکہ آگے بڑھ کر خنجر مٹی کے بنے ہوئے شیر کے سینے پر مارا۔ شیر مینٹل پیس سے گر کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا، لیکن کرنل اس وقت تک خنجر چلاتا رہا جب تک یہ ٹکڑے مٹی کے ننھے ننھے ریزوں میں تبدیل نہ ہو گئے۔ اس کے منہ سے کف جاری تھا اور جسم کا تمام خون چہرے پر سمٹ آیا تھا۔ پھر وہ تیورا کر صوفے پر گر گیا۔ خنجر اس وقت بھی اس کے ہاتھ میں تھا۔‘
’یہ صورتِ حال واقعی نازک اور خطرناک ہے۔ بے چارے کا دماغ الٹ گیا ہے۔ صدمہ بھی تو ایسا ناگہانی ہے۔ میرا خیال ہے کرنل آسانی سے ہسپتال جانے کے لیے تیّار نہ ہو گا، وہ ہمیں بھی شبہے کی نظر سے دیکھتا ہے۔ اسے وہم ہے کہ ولیم سائمن کی ہلاکت میں ہمارا ہاتھ ہے۔‘
ابھی ہم یہ باتیں کرہی رہے تھے کہ کرنل سائمن اندر سے نِکلا اور ہمیں وہاں پا کر چہرے پر خشونت کے آثار پیدا کرتے ہوئے بولا:
’اب کیا مجھے مارنے کی فکر میں ہو؟ تمہی نے میرے بچّے کو ہلاک کیا ہے۔۔۔ تمہی نے۔۔۔ تم قاتل ہو۔۔۔ خونی ہو۔۔۔‘ پھر یک بہ یک دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔ مَیں اُسے سہارا دے کر کمرے میں لے گیا۔ اور بستر پر لٹا دیا۔ اب وہ لرزتی ہوئی آواز میں بولا:
’مجھے معاف کر دینا مسٹر اینڈرسن، میرے حواس قابو میں نہیں۔ مَیں اب چند روز کا مہمان ہوں اپنے بیٹے سے ملنا چاہتا ہوں۔۔۔ وہ اب تک کیوں نہیں آیا۔۔۔ جاؤ ذرا دیکھو۔۔۔ کہیں وہ راستہ تو نہیں بھُول گیا۔۔۔‘
وہ دیر تک ہذیانی کیفیت میں مبتلا رہا اور پھر آہستہ آہستہ اس کی طبیعت پُر سکون ہوئی۔ مجھے اپنے قریب پا کر حیرت سے کہنے گا:
’مسٹر اینڈرسن، کیا مَیں بے ہوش ہو گیا تھا؟’
’جی ہاں میرا خیال ہے آپ کو چند روز ہسپتال میں رہنا چاہیے۔ طبیعت بحال ہو جائے، تو واپس اپنے گھر آ جائیے گا۔‘ مَیں نے جواب دیا۔ یہ سنتے ہی کرنل پر پھر پاگل پن کا دَورہ پڑا۔
’کبھی نہیں۔۔۔‘ وہ چلّایا۔ ‘تم۔۔۔ تم مجھ اب اِس گھر سے بھی نکال دینا چاہتے ہو۔‘ وہ بُری طرح ہانپ رہا تھا۔ اُس نے اٹھنے کی کوشش کی، لیکن مَیں نے اسے بستر پر لٹایا اور ڈونلڈ کو اشارہ کیا کہ اُسے پانی پلائے۔ پانی پی کر اُس کے ہوش ٹھکانے آئے اور آنکھوں میں پھیلی ہوئی سُرخی آہستہ آہستہ غائب ہونے لگی۔ چند لمحے بعد وہ ایک معصوم بچّے کی طرح گہری نیند سو رہا تھا۔
اب سوال یہ تھا کرنل سائمن کو ہسپتال میں داخل کرایا گیا تو اس کے مکان اور باغ کی رکھوالی کون کرے گا؟ لوگ تو بلا شبہ یہی سمجھتے کہ ہم نے اس کی جائیداد پر قبضہ کرنے کے لیے یہ حرکت کی ہے۔ دوسری طرف یہ خدشہ بھی تھا کہ اگر کرنل کو تنہا چھوڑ دیا گیا، تو وہ آدم خور کے جبڑوں کا شکار نہ ہو جائے۔ آخر ایک تدبیر میرے ذہن میں آئی۔ مَیں نے ضلع کھادر کے ڈپٹی کمشنر کو خط لکھنے کا ارادہ کیا اور اس میں ولیم سائمن کی ہلاکت اور کرنل کی بیماری کے تمام واقعات تفصیلاً بیان کیے۔ مجھے یقین تھا کہ ڈپٹی کمشنر سرکاری طور پر اس مسئلے کو آسانی سے حل کر سکے گا۔ خط لکھ کر ڈونلڈ کے سپرد کیا کہ وہ ابھی جا کر بیرُور سٹیشن سے پوسٹ کر دے اور واپسی میں ایک بیل گاڑی والے کو ساتھ لیتا آئے۔
دن کا بقیہ حصّہ کرنل کی نگرانی اور اس کا دل بہلانے میں کٹا۔ اس کی حالت عجیب تھی۔ صحیح الدماغ آدمی کی طرح باتیں کرتے کرتے اچانک دورہ پڑ جاتا اور ہذیان بکنے لگتا۔ دَورے کی حالت میں ہمیشہ مجھے نظر انداز کر کے اپنے مرنے والے بیٹے کو آوازیں دیتا۔ کبھی اسے سو جانے کی تلقین کرتا، کبھی کھانا کھانے کی، پھر زار زار رونے لگتا، اس حالت کے دُور ہونے کی علامت تھی۔ رو دھو کر وہ اپنی اصلی کیفیت پر آ جاتا۔
سُورج غروب ہونے سے کچھ دیر پہلے ڈونلڈ واپس آ گیا۔ وہ اپنے ساتھ بَیل گاڑی کے بجائے ایک لمبے تڑنگے ادھیڑ عمر آدمی کو پکڑ لایا تھا۔ جس کے بارے میں اس نے مجھے بتایا کہ وہ مسلمان ہے اور اس کا نام ہے ابراہیم۔۔۔ اس نے مجھے مسکرا کر سلام کیا اور ایک طرف کھڑا ہو گیا۔ مَیں نے اس شخص کا اوپر سے نیچے جائزہ لیا۔ چال ڈھال سے وہ فوجی سپاہی نظر آتا تھا اور میرا یہ اندازہ درست ہی نکلا۔
’تم اس علاقے کے رہنے والے معلوم نہیں ہوتے۔‘ میں نے کہا۔
’میں پنجاب کا رہنے والا ہوں جناب۔‘ اس نے بتایا۔ ‘پہلی بڑی جنگ میں بھرتی ہوا تھا۔ جنگ ختم ہوئی تو مجھے فوج سے چھُٹی دے دی گئی۔ روزگار کی تلاش میں گھر سے نکلے ہوئے دس سال ہو گئے ہیں۔ بنگال، یو پی، دہلی، اور بمبئی میں گھومتا پھرتا رہا۔ میں نے مشہور شکاری جم کاربٹ کے بھی ساتھ کوماؤں کے جنگلوں میں سفر کیا ہے جناب، وہ مجھ پر بڑا اعتماد کرتے تھے۔ یہ دیکھیے ان کے ہاتھ کا لکھا ہوا سرٹیفیکیٹ بھی میرے پاس موجود ہے۔ مَیں نے ایک بار اُن کی جان بچائی تھی۔‘
اُس نے اپنے کُرتے کی جیب سے ایک پرانا بوسیدہ کاغذ نکالا اور مجھے تھما دیا۔ جم کاربٹ نے واقعی اس شخص کی تعریف کی تھی اور اس سے بڑا سرٹیفیکیٹ اور کیا ہو سکتا تھا۔
’تم بیرور کیسے اور کیونکر آئے؟’
’جناب، میرے یہاں آنے کی اصل وجہ تو آپ ہی ہیں، کیونکہ مدّت سے آپ کا نام سُں رہا ہوں۔ آپ کو دیکھنے کا بڑا اشتیاق تھا۔ گذشتہ چار ماہ سے بنگلور کے ایک تاجر کے ہاں چوکیدار کی حیثیت سے ملازم تھا۔ مسٹر ولیم سائمن اس تاجر کے ہاں آتے جاتے تھے۔ ایک روز مجھے معلوم ہوا کہ ان کے والد کا خط آیا ہے وہ اسے اپنے پاس بُلانا چاہتے ہیں۔ کیونکہ ایک آدم خور اس علاقے میں نمودار ہوا ہے جس نے بہت سے آدمیوں کو ہڑپ کر لیا ہے۔ مسٹر ولیم نے بتایا تھا کہ وہ اس آدم خور کو مارنے کے لیے ضرور جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ میں بھی ساتھ چلوں۔ میں نے ہامی بھر لی کہ آپ سے مُلاقات ہو جانے کا امکان تھا۔ میں جانتا تھا کہ آدم خور کے بارے میں خبریں آپ تک ضرور پہنچیں گی اور چونکہ اس کی سرگرمیاں بیرُور اور ہوگرالی کے علاقے میں پھیلی ہوئی ہیں، اس لیے آپ ضرور وہاں جائیں گے، چنانچہ میں نے مسٹر ولیم سے کہا کہ وہ بیرُور پہنچیں، مَیں ایک روز بعد آؤں گا۔ یہ اس لیے کہ جس شخص کے ہاں ملازم تھا، وہ مجھے مسٹر سائمن کے ساتھ جانے کی اجازت کبھی نہ دیتا۔ بہرحال آج دوپہر جب میں بیرُور سٹیشن پر اُترا، تو پتا چلا کہ ولیم صاحب آدم خور کھاجا بن چکے ہیں۔ یہ خبر سُن کر میں سخت پریشان ہوا۔ یہاں آنے کے لیے مختلف گاڑی بانوں کی منت سماجت کر ہی رہا تھا کہ مسٹر ڈونلڈ وہاں پہنچ گئے۔ یہ بھی کسی بیل گاڑی کی تلاش میں تھے، مگر ان میں سے کوئی بھی اِدھر آنے کے لیے تیار نہ تھا۔ مسٹر ڈونلڈ کی زبانی معلوم ہوا کہ وہ آپ کے صاحبزادے ہیں اور آپ کرنل سائمن کے باغ میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ اسی وقت ان کے ساتھ چل پڑا۔ اب میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں۔ مَیں نے بھی یہ سنا ہے کہ کرنل سائمن صاحب کا دماغ الٹ گیا ہے۔‘
’ہاں، اور یہی میری پریشانی کا اصل سبب ہے۔‘ میں نے کہا۔ ‘بہرحال کچھ نہ کچھ انتظام ضرور ہو جائے گا۔ تمہارے آنے سے مجھے بے حد خوشی ہوئی ہے۔ تم کتنے دن کی رخصت لے کر آئے ہو؟’
’دس دن کی جناب۔‘
’ٹھیک ہے، اب تم یہ کرنا کہ صبح اٹھتے ہی بیرور اور اس کی نواحی بستیوں کی طرف نکل جانا اور تین خچّر یا سستے گھوڑے خرید لانا۔ حالات ایسے ہی ہیں کہ کوئی گاڑی بان ہمارے ساتھ جنگل میں سفر کرنے کو تیار نہ ہو گا اور اس سے پیشتر کہ آدم خور اِن تمام بستیوں کو ویران کر دے، اس کا خاتمہ کر دینا ضروری ہے۔ میں نے کھادر کے ڈپٹی کمشنر کو خط لکھ دیا ہے۔ وہ کرنل سائمن کو ہسپتال پہچانے کا انتظام کر دیں گے۔ اس اثنا میں تم ہماری غیر حاضری میں ان کی حفاظت کرنا۔ آدم خور کرنل صاحب کی تاک میں ہے۔‘
’فکر نہ کیجیے صاحب، مَیں جی جان سے حاضر ہوں۔ ابھی اِن بازوؤں میں اتنی قوت ہے کہ شیر کا گلا چیر سکیں۔‘ اُس نے ڈنڑ پھُلاتے ہوئے جواب دیا۔
’میں ہنس پڑا:‘ شاباش، مجھے ایسے ہی آدمی کی ضرورت ہے۔ اگر میں نے محسوس کیا کہ تم میرے ساتھ ٹھیک ٹھاک رہے اور کام کے آدمی ثابت ہوئے، تو میں تمہیں اُس تاجر سے زیادہ تنخواہ پر اپنے پاس رکھ لوں گا۔ تمہارا نشانہ کیسا ہے؟’
ان الفاظ سے ابراہیم کے چہرے پر مسرّت کی لہر دوڑ گئی۔
’صاحب، مَیں اس سے زیادہ کچھ نہ کہوں گا کہ آپ ابراہیم کو کسی میدان میں پیچھے ہٹتا نہ پائیں گے۔ اب رہا نشانے کا امتحان۔۔۔ ذرا اپنی رائفل مجھے دیجیے۔‘ یہ کہہ کر اس نے رائفل مجھ سے لی اور اِدھر اُدھر دیکھا۔ سامنے کوئی تیس چالیس گز کے فاصلے پر ایک ٹوٹی ہوئی میز پڑی تھی۔
’دیکھیے جناب، مَیں اُس میز کی دائیں ٹانگ کا نشانہ لیتا ہوں۔‘ اس نے یہ کہتے ہی لبلبی دبا دی۔ دوسرے لمحے گولی میز کی دائیں ٹانگ پر لگی اور اس کے پرخچے اڑا دیے۔
’خوب، بہت خوب، تم واقعی بہترین نشانچی ہو۔‘ ڈونلڈ نے داد دی۔ ابراہیم نے انکسارانہ انداز میں سر جھکایا۔ دفعتاً ہمارے سروں پر دو بڑی چمگادڑیں اُڑتی ہوئی دکھائی دیں۔ ابراہیم نے رائفل سے نشانہ لیا اور دوسرا فائر کیا۔ آناً فاناً ایک چمگادڑ قلابازیاں کھاتی ہوئی زمین پر آ رہی۔
’بس بھائی بس، مجھے معلوم ہو گیا کہ تم نشانے کے بڑے سچّے ہو۔‘ مَیں نے اُسے گلے لگاتے ہوئے کہا۔ ‘آؤ اب اندر چل کر بیٹھیں۔ معلوم ہوتا ہے تم نے صبح سے کچھ نہیں کھایا پیا۔‘
ابراہیم نہایت دلچسپ آدمی ثابت ہوا۔ رات کو کھانے سے فارغ ہو کر جب ہم کافی پینے بیٹھے تو اُس نے پہلی جنگ عظیم کے چشم دید واقعات سنائے، پھر کرنل جم کاربٹ کا ذکر چھڑ گیا۔ ابراہیم کی آنکھوں میں ایک چمک نمودار ہوئی، وہ کہنے لگا:
’صاحب، آپ بھی مانے ہوئے شکاری ہیں اور مجھ سے زیادہ جم کاربٹ صاحب کو جانتے ہوں گے لیکن مَیں نے جو دو ماہ کا عرصہ ان کے ساتھ گزارا ہے، وہ زندگی بھر یاد رہے گا۔‘
’اُن سے تمہاری ملاقات کہاں ہوئی تھی؟’ ڈونلڈ نے سوال کیا۔ ‘کرنل نے اس سرٹیفیکیٹ میں تمہاری بڑی تعریف لکھّی ہے۔ وہ کون سا واقعہ تھا جبکہ تم نے انک جان بچائی؟’
’صاحب، مَیں نے کیا، خُدا نے بچائی۔‘ ابراہیم نے انگلی سے چھت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ‘بس عجیب اتفاق تھا اگر ایک ثانیے کی تاخیر ہو جاتی، تو وہ موذی کاربٹ صاحب کو اٹھا کر لے جاتا، جاتے جاتے مجھے زخمی کر ہی گیا۔ یہ دیکھیے میرے بائیں ہاتھ کی دو انگلیاں غائب ہیں۔‘
ابراہیم نے اپان بایاں ہاتھ ہمارے سامنے کر دیا۔ مَیں نے دیکھا کہ اس کے ہاتھ کی آخری دو چھوٹی انگلیاں اُدھڑی ہوئی ہیں۔ کلائی اور کہنی پر بھی گہرے زخموں کے نشان نظر آتے تھے۔
’ذرا تفصیل سے سناؤ یہ حادثہ کیسے ہوا۔‘
’کاربٹ صاحب کو میری جو خوبی پسند آئی، وہ یہ تھی کہ مَیں بلند سے بلند اور مشکل سے مشکل درخت پر چڑھنے میں ماہر ہوں۔‘ ابراہیم نے کہا۔ ‘ 1928ء کا ذکر ہے۔ ان دنوں کماؤں کے ایک علاقے میں جہاں دریائے کوسی بہتا ہے، جنگل کی کٹائی کا کام زوروں پر تھا۔ مَیں بھی پھرتا پھراتا وہاں جا نِکلا۔ مزدوری خاصی معقول تھی۔ ایک وقت کا کھانا بھی ٹھیکیدار کی طرف سے مِلتا تھا۔ چنانچہ مَیں بھی مزدوروں میں شامل ہو گیا۔ دریائے کوسی کے دائیں کنارے پر ایک گاؤں آباد ہے۔ اس گاؤں کے مرد دن بھر جنگل میں درخت کاٹتے اور ان کی عورتیں پرلے کنارے پر اور جنگل میں اُگی ہوئی گھاس کاٹتی تھیں۔ اس گھاس سے نہایت عمدہ قِسم کا کاغذ اور گتّہ بنایا جاتا تھا۔ جنگل سے کچھ فاصلے پر ایک سرسبز پہاڑی تھی جس پر گاؤں کی عورتیں سیر کے لیے جایا کرتی تھیں۔ نومبر کا مہینہ تھا، ایک روز ایسا ہوا کہ اس پہاڑی پر شیر بیٹھا دھوپ سینک رہا تھا کہ دو لڑکیاں ہنستی کھیلتی ادھر جا نکلیں اور بے خبری میں شیر کے نزدیک پہنچ گئیں۔ شیر اس مداخلت پر ناراض ہوا کر غرّایا ہی تھا کہ ان لڑکیوں میں سے ایک بد حواس ہو کر بھاگی۔ اس کا پَیر پھسلا اور وہ اُونچی پہاڑی سے لڑھکتی ہوئی کئی سَو فٹ نیچے ایک گہری کھائی میں جا گری، بھیجا پاش پاش ہو گیا اور وہ گرتے ہی مر گئی۔ دوسری لڑکی بھی بھاگی۔ شیر اس کے پیچھے لپکا اور اسے پنجہ مار کر گرا دیا۔ لڑکی زخمی ہو کر بے ہوش ہو گئی، لیکن شیر نے اس کھانے کی کوشش نہ کی۔ کیونکہ اس وقت تک وہ آدم خور نہ بنا تھا یا اُس کا پیٹ بھرا ہوا تھا۔ دونوں لاشیں رات بھر وہیں پڑی رہیں۔ ایک پہاڑی پر دوسری کھائی میں۔۔۔ اگلے روز گاؤں والے جب ان کی تلاش میں نکلے، تو معلوم ہوا کہ ایک لاش کو تو لگڑبگوں اور گیدڑوں نے نوچ نوچ کر کھا لیا ہے اور دوسری پر شیر نے پنجہ آزمائی کی ہے۔ اس حادثے کے تقریباً دو یا تین روز بعد ہی پھر ایک لڑکی غائب ہو گئی۔ اس کی لاش بھی اسی پہاڑی کے دامن میں ایک جگہ گھاس کے اندر پڑی پائی گئی۔ یہ کارستانی بھی شیر ہی کی تھی۔ آہستہ آہستہ ان وارداتوں میں اضافہ ہونے لگا۔ جنگل میں کام کرنے والے مزدوروں میں دہشت پھیلنے لگی اور وہ کام پر جاتے ہوئے ہچکچانے لگے۔ ایک ماہ کے اندر اندر اس آدم خور نے تقریباً 28 افراد کو ہڑپ کر لیا اور ہر طرف ہاہا کار مچ گئی۔ وہ اتنا نڈر اور عیّار تھا کہ دن دہاڑے بستی میں آ کر ایک نہ ایک عورت یا بچے کو اٹھا کر لے جاتا۔ جھونپڑیوں کی کچی دیواریں، گھاس پھونس کی چھتیں اور لکڑی کے بنے ہوئے باڑے اس کے سامنے کوئی حقیقت نہ رکھتے تھے۔
’اِس دوران میں مقامی شکاریوں اور دو بیرونی شکاریوں نے بھی آدم خور کو ہلاک کرنے کی کوشش کی، مگر یکے بعد دیگرے اس کے ہتھے چڑھ گئے۔ حتیٰ کہ ان وہمی دیہاتیوں میں مشہور ہو گیا کہ شیر کے روپ میں کوئی بلا یا بد روح ہے جو ان سے ناراض ہو کر انتقام لے رہی ہے۔ چنانچہ ان لوگوں نے اس بلا سے نجات پانے کے لیے پُوجا اور بھینٹ کا انتظام کیا۔ لیکن جس رات گاؤں کے چھوٹے سے مندر میں یہ رسم ادا کی جانے والی تھی، اُسی رات کو مندر کا پجاری غائب ہو گیا۔ بد نصیب شخص رفع حاجت کے لیے مندر سے کچھ فاصلے پر گیا تھا اور جب واپس آ رہا تھا، تو یکایک آدم خور نمودار ہوا اور چشم زدن میں پجاری کو اٹھا کر لے گیا۔ مندر میں جمع ہونے والوں نے پجاری کی چیخیں بھی سنیں تھیں، لیکن وہ اسے بچانے کے لیے کچھ نہ کر سکے اور رات بھر دروازہ بند کیے بیٹھے رہے۔ صُبح اس مقام پر جہاں شیر نے پجاری پر حملہ کیا تھا، پیتل کی لُٹیا پڑی پائی گئی۔ کہیں کہیں خون کے دھبّے اور نچے ہُوئے کپڑے بھی دکھائی دیے۔
’اِس حادثے کے تین دن بعد کا ذکر ہے، مَیں چار آدمیوں کے ساتھ پانی کے لیے دریا پر جا رہا تھا۔ ہم سب کلہاڑیوں سے مسلح تھے اور بیل گاڑی پر سفر کر رہے تھے۔۔۔ اس پر ہم نے بڑے بڑے گھڑے اور دوسرے برتن بھی لاد رکھّے تھے۔ گاؤں سے دریا کا فاصلہ بمشکل ڈیڑھ پونے دو میل ہو گا۔ چُوں کہ گاؤں کا کوئی شخص تنِ تنہا دریا پر نہ جاتا تھا، اس لیے مویشیوں اور انسانوں کے لیے پانی دریا سے لایا جاتا تھا۔ اس مقصد کے لیے گاؤں کے آدمی باری باری دوپہر کے وقت دریا پر جاتے اور پانی بھر لاتے۔ ابھی ہم دریا تک پہنچے ہی تھے کہ ایک جانب سے شیر کے غرّانے کی آواز سنائی دی۔ مَیں نے فوراً بیلوں کو روکا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ شیر کچھ فاصلے پر جھاڑیوں میں آرام کر رہا ہے۔
’بھیّا گاڑی دوڑا کر بھاگ۔‘ ایک شخص نے گھبرا کر کہا۔ ‘اب ہم دریا پر نہ جائیں گے۔‘
’اپنی کلہاڑیاں سنبھال لو، اگر شیر نے حملہ کیا تو ہم مل کر اسے ختم کر ڈالیں گے۔‘ مَیں نے ساتھیوں کی ہمّت بندھائی اور گاڑی چلا دی، لیکن فوراً ہی شیر پھر غُرّایا اور اس مرتبہ چاروں آدمی گاڑی سے کودے اور لپک کر درختوں پر چڑھ گئے۔ اب تو میں بھی گھبرایا اور درخت پر چڑھنے کے لیے دوڑا، لیکن ایسا معلوم ہوا کہ شیر میرے تعاقب میں ہے۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک لمبا تڑنگا انگریز ہاتھ میں رائفل لیے لمبی گھاس میں کھڑا تھا۔ مَیں حَیران تھا کہ شخص کہاں سے آ گیا اور کیا شیر کی آواز اس کے کانوں تک نہیں پہنچی، اتنا تو میں جان گیا تھا کہ وہ شکاری ہے۔
’صاحب، جلدی سے درخت پر چڑھ جائیے، شیر نزدیک ہی ہے۔‘ میں نے پُکار کر کہا اور ہاتھ سے درخت پر چڑھنے کا اشارہ کیا، مگر وہ میری اس حرکت پر بے پروائی سے ہنسا اور قریب آ کر نہایت صاف اُردو لہجے میں بولا:
’ارے، تم اتنا ہٹّا کٹا جوان ہو کر شیر سے ڈرتا ہے؟’
’صاحب وہ آدم خور ہے اور اس نے بہت سے آدمیوں کو ہڑپ کر لیا ہے۔‘ مَیں نے جواب دیا۔ اتنے میں انگریزی شکاری نے منہ پھیر کر حلق سے شیر کی آواز نکالی اور قہقہہ مار کر ہنسنے لگا۔ مَیں بہت شرمندہ ہوا اور درخت سے نیچے اُتر آیا۔
’تم لوگ درخت پر بہت تیزی سے چڑھتے ہو۔‘ وہ کہنے لگا۔ ‘اپنے ساتھیوں کو نیچے اُتر آنے کے لیے کہو اور بتاؤ کے وہ آدم خور رہتا کدھر ہے۔ میں اسی کی تلاش میں ہوں۔‘
’اور اس طرح جم کاربٹ صاحب سے میری ملاقات ہُوئی جناب، وہ عجیب و غریب آدمی تھے اور شیر کی بولی بولنے میں تو کمال رکھتے تھے۔ انہوں نے بعد میں بتایا کہ شیرنی کی بولی بول کر شیر کو بلانا چاہتے تھے۔ انہیں جنگل کے بہت سے جانوروں کی بولیوں پر عبور حاصل تھا۔‘
’تم ٹھیک کہتے ہو، کاربٹ عظیم شکاری ہے اور ایسے لوگ روز روز پیدا نہیں ہوتے۔‘ میں نے کہا۔
’ہاں صاحب، اُن کے دل میں انسانوں کی محبّت اور ہمدردی کا جذبہ قدرت نے کوٹ کوٹ کر بھر دیا تھا۔‘ ابراہیم کہنے لگا۔ ‘کاربٹ صاحب نے بتایا کہ وہ ڈاک بنگلے میں ٹھہرے ہوئے ہیں اور اسی آدم خور سے لوگوں کو نجات دلانے کے لیے آئے ہیں۔ یہ سن کر ہم سب کو خوشی ہوئی۔ وہ ہمیں لے کر دریا پر پہنچے۔ پانی برتنوں میں بھرا اور گاؤں تک ہمارے ساتھ آئے۔ اُن کا نام بچّے بچّے کی زبان پر تھا اور بہت سے لوگ تو انہیں دیوتا سمجھتے تھے۔ کاربٹ صاحب کو دیکھ کر گاؤں والوں کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ ان کو اپنے درمیان پا کر آدم خور کا خوف اور دہشت دُور ہو چکی تھی۔ دوسروں کی دلی کیفیت کا صحیح اندازہ لگانا، تو میرے بس میں نہ تھا، لیکن خود میرا حال یہ تھا کہ دل ایک عجیب مسرّت انگیز اطمینان محسوس کر رہا تھا۔‘
ابراہیم نے سگریٹ کا طویل کش لگایا اور چند لمحوں بعد کہنے لگا:
’آپ چونکہ خود بڑے شکاری ہیں، اس لیے تفصیلات میں جائے بغیر وہ واقعہ عرض کرتا ہوں جس نے مجھے اور جم کاربٹ صاحب کو یکجا کر دیا تھا۔ کاربٹ صاحب روزانہ اپنے بنگلے سے نکلتے اور گاؤں تک آتے۔ ڈاک بنگلے اور گاؤں کا درمیانی فاصلہ آٹھ نو میل سے کم نہ تھا اور راستہ نہایت دشوار گزار اور کٹھن۔ پھر آدم خور کے علاوہ جا بجا ریچھوں، چیتوں سے مڈبھیڑ کا خدشہ، لیکن کاربٹ صاحب اس اطمینان اور بے پروائی سے ٹہلتے ہوئے آتے کہ ان کے بے پناہ استقلال اور جرأت پر دل عش عش کر اُٹھتا تھا۔ انہوں نے آدم خور کی تلاش میں علاقے کا چپّہ چپّہ چھان مارا، لیکن اس کا کہیں پتہ نہ تھا۔‘
’ایک روز وہ شام کے وقت گاؤں میں نمودار ہوئے۔ ان کا کوٹ پشت پر سے ادھڑا ہوا تھا اور چہرے پر بھی کہیں کہیں خراشیں نظر آ رہی تھیں۔ مَیں نے پوچھا تو ہنس کر کہنے لگے: ‘راستے میں ایک ریچھ مل گیا تھا۔ اس سے زور آزمائی ہوئی۔ مَیں نے کئی مرتبہ ریچھ کے کان میں کہا کہ بھائی میرا تم سے کوئی جھگڑا نہیں، جاؤ اپنی راہ پکڑو۔ مگر وہ کسی طرح ٹلتا ہی نہ تھا۔ مجبوراً مجھے اپنا شکاری چاقو کام میں لانا پڑا۔ اس کی لاش دریا کے پرلے کنارے چھوٹے ٹیلے کے پیچھے پڑی ہے، میرے ساتھ چلو اور اسے اٹھا لاؤ۔ کھال خاصی قیمتی ہے، وہ تم لے لینا۔‘ یہ سن کر میرے ہوش اڑ گئے، مگر کاربٹ صاحب کے ساتھ جانے کا شوق کچھ ایسا ذہن پر سوار تھا کہ سوچنے سمجھنے کی مہلت نہ ملی اور مَیں تھوڑی دیر بعد اُن کی رہنمائی میں دریا کی طرف جا رہا تھا۔ وہ میری طرف دیکھ کر آہستہ سے کہنے لگے: ‘تم نہتے ہو، یہ لو میرا پستول اپنے پاس رکھو۔ اس میں چھ گولیاں ہیں۔۔۔ اب آواز نکالے بغیر میرے آگے آگے چل پڑو، مجھے خطرے کی بُو محسوس ہو رہی ہے۔‘
’مغرب کی جانب شام کی سُرخی آہستہ آہستہ گہری ہو رہی تھی اور جنگلی پرندے قطار اندر قطار اپنے گھونسلوں کی طرف آ رہے تھے۔ فضا میں طوطوں کی ٹَیں ٹَیں سے ایک شور برپا تھا اور جنگل کے اندر درختوں پر بسیرا کرنے والی چڑیوں کی چُوں چوں سے کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ کاربٹ صاحب یک لخت مجھ سے کئی قدم آگے بڑھ کر زمین پر لیٹ گئے۔ میں نے ان کی تقلید کی، لیکن دِل کی دھڑکن میں اضافہ ہو گیا تھا اور جسم کے رونگٹے کھڑے ہونے لگے تھے۔ انہوں نے گردن موڑ کر میری طرف دیکھا، مَیں گھاس میں خرگوش کی مانند دبکا ہوا تھا۔
’خبردار اپنی جگہ سے جنبش نہ کرنا۔‘ انہوں نے دھیمے دھیمے لہجے میں کہا۔ پھر رائفل سنبھال کر گھٹنوں کے بل آگے چلنے لگے۔‘ ابراہیم نے ماتھے پر آیا ہوا پسینہ پونچھا اور اور نیا سگریٹ سلگایا۔ اگرچہ میں خود سینکڑوں مرتبہ ایسے ہی حادثات اور واقعات سے گزر چکا تھا، لیکن ابراہیم نے جس انداز میں یہ داستان سنائی وہ میرے لیے خاصی سنسنی خیز تھی۔
’صاحب، وہ نازک لمحہ مجھے مرتے دم تک یاد رہے گا۔‘ اس نے نتھنوں سے دھُواں خارج کرتے ہوئے کہا۔ ‘کاربٹ صاحب کی پُشت میری طرف تھی۔ میرا اور ان کا درمیانی فاصلہ بمشکل دس بارہ فٹ ہو گا۔ وہ اوندھے منہ گھاس میں لیٹے تھے اور ان کی نگاہ دائیں جانب کچھ ترچھی ہو کر ان گھنی جھاڑیوں پر جمی ہوئی تھی جن کی اونچائی میرے اندازے کے مطابق 9 فٹ سے زائد تھی۔ میرا خیال تھا کہ کوئی درندہ یا وہی آدم خور ان جھاڑیوں میں چھُپا ہوا ہے۔ کاربٹ صاحب نے اسے دیکھ لیا ہے اور اب اس پر فائر کرنے والے ہیں، لیکن ایسا نہیں ہوا، بلکہ بائیں ہاتھ پر اُگی ہوئی قدِ آدم گھاس میں سے ایک قوی ہیکل شیر بجلی کی مانند تڑپا اور کاربٹ صاحب کی طرف چھلانگ لگائی۔ میرے حلق سے غیر ارادی طور پر چیخ نِکل گئی اور آفرین کاربٹ صاحب پر کہ اس حقیر ترین وقفے سے انہوں نے پورا فائدہ اٹھایا۔ فوراً ہی قلابازی کھائی اور شیر کا وار خالی دیا۔ مگر اس حرکت سے رائفل ان کے ہاتھ سے چھوٹ گئی۔ اب شیر کی توجہ دونوں طرف بٹ گئی تھی۔ اس کی دُؐم تیزی سے گردش کر رہی تھی اور جبڑا خوفناک انداز میں کھُلا ہوا تھا۔
’گولی چلاؤ۔‘ کاربٹ صاحب نے چلّا کر مجھ سے کہا اور مَیں نے پستول اونچا ہی کیا تھا کہ شیر نے مجھ پر چھلانگ لگائی۔ اس کا دایاں پنجہ میری انگلیاں اڑاتا ہوا نِکل گیا، پھر مجھے کچھ یاد نہ رہا کہ کیا ہوا۔ ہوش آیا، تو مَیں نے اپنے آپ کو بستی کے اندر پایا۔ کاربٹ صاحب میرے سرہانے کھڑے تھے۔ ‘کیا شیر مر گیا؟’ مَیں نے اُن سے پوچھا۔
’شیر تو بچ کر نِکل گیا، لیکن تم نے میری جان بچا لی دوست۔ مجھے افسوس ہے کہ اس ظالم نے تمہارا ہاتھ زخمی کر دیا ہے۔‘ اس دن کے بعد سے دو ماہ تک مَیں کاربٹ صاحب کے ساتھ اس آدم خور کا تعاقب کرتا رہا اور آخر ایک دن اُسے جہنم واصل کر ہی دیا۔ یہ ہے میری داستان۔‘
ڈونلڈ نے گھڑی پر نظر ڈالی، رات کے گیارہ بج رہے تھے۔ اُس نے کرنل سائمن کے کمرے میں جھانکا، تو بستر خالی پڑا تھا۔
’کرنل کہاں گیا؟’ ڈونلڈ چلّایا۔ ‘اس کی بندوق بھی غائب ہے۔ اُف خدایا، وہ جنگل میں تو نہیں چلا گیا۔‘ ہم تینوں ایک دوسرے کا مُنہ تکنے لگے۔
کرنل سائمن کے یوں یک لخت غائب ہو جانے سے سچ پوچھیے تو میرے ہوش و حواس مختل ہو گئے۔ آدھی رات کے وقت جنگل میں اسے تلاش کرنا بے سود، بلکہ حماقت تھی۔ تاہم میں نے ڈونلڈ کو وہیں رہنے کی تاکید کی اور ابراہیم کو لے کر جھیل مدّک کی طرف روانہ ہوا۔ رات انتہائی تاریک اور بھیانک، ہوا بند اور فضا پر عجیب سی گھٹن طاری تھی۔ ہم ٹارچ کی تیز سفید روشنی میں اِدھر اُدھر دیکھتے بھالتے اور کرنل سائمن کو پکارتے چلے جا رہے تھے۔ جواب میں بندروں اور گیدڑوں کی چیخیں سنائی دیتیں یا جھینگروں اور مینڈکوں کے ٹرّانے کی آوازیں جو جنگل کی خاموش فضا میں ارتعاش پیدا کر رہی تھیں۔
کرنل کی زندگی سے تو میں مایوس ہو چکا تھا، لیکن محض اس خیال سے کہ ضمیر مجھے ہمیشہ ملامت کرے گا، اسے تلاش کرنے نکل کھڑا ہوا۔ یہ ضروری نہ تھا کہ وہ آدم خور کے ہتھّے چڑھا ہو، جنگل میں اور بھی درندے موجود تھے جو کرنل کو اپنا لقمہ بنا سکتے تھے۔ ڈیڑھ دو گھنٹے گھومنے کے بعد بھی سراغ نہ ملا تو مجھے یقین ہو گیا کہ اس کا تیاپانچا ہو چکا۔
’چلیے صاحب، صبح پھر کوشش کریں گے۔‘ ابراہیم نے تھکے ہوئے لہجے میں کہا۔
واپسی پر ہم نہر کے کنارے کنارے چل رہے تھے۔ دفعتاً لمبی گھاس سرسرائی اور چشم زدن میں ایک چیتا ہمارے سامنے یوں آیا جیسے بجلی کوند گئی۔ ابراہیم کے حلق سے بے اختیار چیخ نکل گئی اور میں بد حواس ہو کر پیچھے ہٹ گیا۔ ہم نے اس کی ہلکی سی جھلک ہی دیکھی، کیونکہ اگلے ہی لمحے وہ نظروں سے غائب ہو چکا تھا۔ اس میں شک نہیں قدرت نے ابراہیم کو بال بال بچایا، وہ بے خبری میں چیتے کے اس قدر قریب پہنچ گیا تھا کہ چیتا اگر چاہتا، تو آناً فاناً اس کی تِکّا بوٹی کر ڈالتا۔ اس کے بھاگ جانے کی یہی وجہ سمجھ میں آئی کہ اس میں بیک وقت دو آدمیوں کا سامنا کرنے کی جرأت نہ تھی۔ ممکن ہے ابراہیم یا مَیں اکیلا ہوتا، تو چیتے کو وار کرنے کا موقع مل جاتا۔ مَیں نے اس درندے کی فطرت اور عادتوں کا برسوں گہرا مطالعہ کیا ہے اور اپنے اکثر مضامین میں اس کا ذکر بھی کیا ہے۔ لیکن بار بار یہی الفاظ دہرانے پڑتے ہیں کہ جنگلی جانوروں اور درندوں میں چیتے جیسا مکّار، دغا باز، پھرتیلا اور موذی جانور اور کوئی نہیں۔ اس کی احتیاط اور ہوشیاری کا یہ عالم ہے کہ گویا پھُونک پھُونک کر قدم رکھتا ہے۔ جب تک اسے اپنے بھرپور حملے کا یقین نہ ہو، کبھی آگے نہیں بڑھتا۔ کئی کئی گھنٹے بھُوکا رہنا برداشت کر لیتا ہے، لیکن خطرے کی صُورت میں اپنی کمین گاہ سے باہر نکلنے کی جرأت نہ کرے گا۔
شیر کی طرح سامنے آ کر بے خوفی یا جی داری سے اپنے حریف کا مقابلہ کرنا چیتے کی فطرت کے منافی ہے۔ وہ ہمیشہ عقب سے حریف کی بے خبری سے فائدہ اٹھا کر اچانک آن پڑتا ہے۔ زخمی ہو جانے کے بعد اس کے غیظ و غضب اور فطری کمینہ پن کی انتہا ہو جاتی ہے اور یہی صُورت اس وقت پیش آتی ہے جب چیتا آدم خور ہو جائے۔ شکاری کے لیے اس کا مقابلہ کرنا خاصا مشکل مرحلہ ہے، کیونکہ یہ آسانی سے درختوں پر بھی چڑھ جاتا ہے۔ مچان باندھنے کے منصوبے اکثر اسی وجہ سے ناکام ہو جاتے ہیں۔ شیر کی نسبت اس میں اچھلنے اور دوڑنے کی قوت بھی بہت زیادہ ہے۔ بجلی کی طرح لپکتا ہے اور شکاری کی ذرا سی غفلت پر وار کر جاتا ہے۔
چیتے کا سرِراہ نہر کے کنارے گھاس میں چھُپ کر بیٹھنا خالی از علت نہ تھا۔ مَیں سمجھ گیا کہ وہ ضرور کسی داؤں پر ہے، لیکن وقت ایسا نازک تھا کہ اس طرف جانے کی ہمّت نہ پڑی، اگرچہ ابراہیم نے چیتے کا تعاقب کرنے کا ارادہ بھی ظاہر کیا تھا۔ مگر میں نے اُسے روک دیا کہ فی الحال چیتے سے جنگ کرنا ہمارے پروگرام میں شامل نہیں۔ ہمیں تو کرنل سائمن کا سراغ لگانا ہے۔
جب ہم باغ میں واپس پہنچے تو صبح کے آثار نمودار ہو رہے تھے اور درختوں پر چڑیاں چہچہا رہی تھیں۔ ڈونلڈ اندرونی برآمدے میں کرسی پر بیٹھا بے خبر سو رہا تھا اور بندوق کے قدموں میں پڑی تھی۔ مَیں دن چڑھے بیدار ہوا، تو پتا چلا کہ ابراہیم اس مہلت سے فائدہ اٹھا کر بیرُور سے تین خچّر خرید لایا ہے۔ اس کی مستعدی پر دل خوش ہوا اور ہم تینوں اچھی طرح تیار ہو کر کرنل کی تلاش میں نکلے۔ اس مرتبہ ہم نے دوسرا راستہ اختیار کیا۔ یہ راستہ چکّر کھاتا ہوا جھیل مدّک کی طرف جاتا تھا۔ ایک گھنٹے کے بعد ہم جنگل کے ایسے حصے میں پہنچ گئے جہاں درخت نہایت گنجان اور ایک دوسرے سے گتھے ہوئے تھے اور راستا اتنا تنگ کہ ایک خچر بمشکل چل سکتا تھا۔ مجبوراً ہم ایک دوسرے کے پیچھے پیچھے چلنے لگے۔ ڈونلڈ سب سے آگے تھا اور اسی نے سب سے پہلے خون کے وہ دھبّے دیکھے جو پتّوں کے کئی انچ موٹے نرم فرش پر پھیلے ہوئے تھے۔ ہم نے چند منٹ تک ان دھبوں کا معائنہ کیا اور بہت جلد پتا چل گیا کہ شیر اپنے شکار کو لے کر ادھر سے گزرا ہے۔ خون اگرچہ جم کر سیاہ ہو گیا تھا، لیکن انگلی سے چھُو کر دیکھنے سے اندازہ ہوا کہ یہ زیادہ پرانا نہیں، آگے چلے تو کرنل سائمن کی بندوق دکھائی دی۔ اس کے قریب ہی اس کا پرانا ہیٹ پڑا تھا۔
’کرنل کا قصّہ تو ختم ہوا ڈیڈی۔‘ ڈونلڈ نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا اور سسکیاں لینے لگا۔ ‘اُف خدایا، مجھے اس پر کتنا ترس آ رہا ہے، بے چارہ ہماری غفلت کے باعث مارا گیا۔‘
ہر چند میری آنکھوں میں اس المناک حادثے پر آنسو اُمڈ آئے تھے اور کرنل سائمن کا چہرہ بار بار نظروں کے سامنے گھوم رہا تھا، مگر مَیں نے ڈونلڈ کو دلاسا دیا اور کہا کہ جنگل میں رہنے والوں کو اس قسم کے حادثوں سے بہرحال دوچار ہونا ہی پڑتا ہے۔ اَب ہمارا کام یہ ہے کہ اس آدم خور سے خلق خدا کو نجات دلانے کی کوشش کریں۔ کرنل سائمن کی روح کو اسی طرح تسکین پہنچ سکتی ہے۔
شیر کے نقشِ پا اور خون کے دھبّوں میں دیکھتے بھالتے آخرکار ہم اسی نہر کے کنارے جا نکلے جہاں گزشتہ رات گھوم رہے تھے۔ اب معلوم ہوا کہ شیر نے ایک مقام سے نہر کو عبور کیا ہے۔ نرم دلدلی زمین اور کیچڑ میں اس کے پنجوں کے نشان خاصے نمایاں اور صاف تھے۔ اس کے علاوہ نہر کے کنارے اگی ہوئی لمبی گھاس اور پودے بھی جا بجا روندے اور کچلے ہُوئے نظر آئے۔ ہم نے اپنے خچروں کو ایک درخت سے باندھا اور پیل آگے بڑھے، کیونکر اس راستے پر خچّروں کا چلنا بھی محال تھا۔ قدم قدم پر خار دار جھاڑیاں راہ روکے کھڑی تھیں۔ نہر کے پرلے کنارے پر پہنچ کر آدم خور چند لمحوں کے لیے سستایا اور اس دوران میں اس نے لاش کو منہ سے نکال کر زمین پر بھی ڈالا تھا، کیونکہ جمے ہوئے خون کے چھوٹے بڑے دھبّے اور کپڑوں کی دھجّیاں خشک کیچڑ میں پھنسی ہوئی تھیں۔ کچھ ایسے نشانات ملے جن سے اندازہ ہوا کہ آدم خور نے لاش کو دوبارہ مُنہ میں داب کر لے جانے کے بجائے اسے زمین پر گھسیٹا اور بانسوں کے گھنے جنگل کی طرف لے گیا۔
’اب ہمیں پوری احتیاط سے کام لینا چاہیے۔‘ میں نے ابراہیم اور ڈونلڈ کو ہدایت کی۔
بانس کا جنگل شیر اور خصوصاً آدم خور کی بہترین پناہ گاہ ہے اور میں اپنے تجربے کی بنا پر اچھی طرح جاتا ہوں کہ وہ دن کے وقت اس قسم کی فضا میں آرام کرنا پسند کرتا ہے۔ اگر ہم نے اپنی حماقت سے اسے خبردار کر دیا تو اس کا دوبارہ ہاتھ لگنا محال ہو جائے گا۔ چونکہ آدم خور میں سونگھنے اور سننے کی حِس عام شیروں کی نسبت زیادہ قوی ہوتی ہے اور ہوا کا رُخ بھی جنگل کی طرف ہے، اس لیے ہمیں ادھر سے داخل ہونے کی بجائے چکّر کاٹ کر مخالف سمت سے جانا چاہیے تاکہ وہ ہماری بُو نہ پا سکے۔
جن شکاریوں کو کبھی بانس کے گھنے جنگل میں شکار کھیلنے کا موقع مِلا ہے، وہ ہماری مشکلات کا صحیح اندازہ کر پائیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ بانس کا جنگل شکاری کا جانی دشمن ہے، وہ شکاری کو چلنے پھرنے کے لیے زیادہ جگہ نہیں دیتا۔ درندوں کی کھال کا رنگ بانس کے پتّے اس قدر ملتا جلتا ہے کہ چند گز کے فاصلے پر بیٹھا ہوا شیر آسانی سے نظر نہیں آتا۔ ایک اور سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ جنگل میں قالین کی طرح نرم پتّوں کا کئی انچ موٹا فرش ہر وقت بچھا رہتا ہے جس پر شیر، چیتے اور دوسرے جانور تو کُجا، ہاتھی کے نقوشِ پا کا بھی سراغ نہیں لگایا جا سکتا۔ چھوٹے چھوٹے جانور یہاں کثرت سے ملتے ہیں جو اجنبی کی آمد پر فوراً غُل مچا کر شیر کو خبردار کر دیتے ہیں۔
ہم ایک مختصر سا چکّر کاٹ کر شمال کی جانب سے جنگل میں داخل ہوئے اور بہت جلد پتا چل گیا کہ باہر سے یہ جنگل جتنا گھنا اور وسیع نظر آتا ہے، حقیقت میں اس کے برعکس ہے۔ اگرچہ زمین پر پتّوں کا موٹا فرش بچھا ہوا تھا جس پر کسی قسم کے نشانات موجود نہ تھے۔ تاہم مجھے فوراً احساس ہو گیا کہ آدم خور اپنے شکار کو لے کر کس طرف گیا تھا۔ ایک ڈیڑھ فرلانگ کے فاصلے پر اس جنگل کے شمالاً جنوباً ایک کھائی سی پھیلی ہوئی تھی جس کے آگے گھنی خار دار جھاڑیوں کثرت سے تھیں اور ان جھاڑیوں کو عبور کرنا ہمارے بس کی بات نہ تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ شیر بھُوک کے مارے بے تاب ہو چکا تھا اور اب مزید صبر نہ کر سکتا تھا۔ چنانچہ اس نے لاش کو اطمینان سے چیرا پھاڑا اور اپنا پیٹ بھر لیا۔
سب سے پہلے ہمیں کرنل سائمن کی کھوپڑی نظر آئی جو لاش کے بچے کھچے اجزاء، ہڈیوں اور انتڑیوں سے کچھ فاصلے پر پڑی تھی۔ شیر نے اسے نوچ کر جسم سے الگ کیا اور پرے پھنک دیا۔ بد نصیب بڈھے کے چہرے پر دہشت کے آثار اس وقت بھی نمایاں تھے۔ آنکھیں باہر نکلی ہوئی اور مُنہ بھیانک انداز میں کھُلا ہوا تھا جیسے مرنے سے پہلے وہ زور سے چیخا ہو۔ اس کی دونوں ٹانگیں اور ہاتھ بھی ایک طرف پڑے ہوئے تھے۔ آدم خور ان کو کبھی نہیں کھاتا اور ہمیشہ دوسرے جانوروں کی ضیافت کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔
ڈونلڈ اور ابراہیم پلک جھپکائے بغیر ان اجزاء کو دیکھ رہے تھے اور پھر اُن کی آنکھوں سے آنسووں کے قطرے ڈھلکنے لگے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آدم خور قریب ہی موجود ہے۔‘ میں نے چُپکے سے کہا، کیونکہ جھاڑیاں بالکل ساکت تھیں اور کھائی کا یہ حصّہ بھی جنگلی جانوروں سے بالکل خالی نظر آتا تھا۔ اس کی وجہ اس کے سوا اور کچھ نہ تھی کہ آدم خور کی ہیبت سے یہ جانور بھاگ کر جنگل کے کسی اور حصّے میں پناہ گزین ہو گئے تھے۔
مَیں نے ابراہیم اور ڈونلڈ کو اشارہ کیا کہ آہٹ بالکل نہ ہونے پائے، چپ چاپ میرے پیچھے چلے آؤ۔ اب میں ذرا ایک نظر اُس کھائی کو دیکھنا چاہتا تھا۔ مجھے پورا یقین تھا کہ ہمارا حریف اسی کے اندر چھپا ہوا ہے، لیکن اس مقصد کے لیے خار دار جھاڑیوں میں سے گزرنا ضروری تھا۔ چنانچہ کپڑے پھٹنے اور زخمی ہونے کی پروا کیے بغیر جھاڑیوں میں سے راستہ بنایا اور آگے بڑھے۔ کھائی تقریباً پندرہ فٹ چوڑی اور دس بارہ فٹ گہری تھی اور اس کے اندر سے انسانی گوشت اور ہڈیوں کی سڑاند اٹھ رہی تھی۔ میں نے ناک پر رو مال باندھا اور آہستہ آہستہ اس کے اندر اترنے لگا۔ جا بجا جھاڑیوں کے اندر جنگلی جانوروں کے انڈے گھونسلے میں پڑے نظر آئے، مگر کوئی پرندہ ان انڈوں کے قریب دکھائی نہ دیا۔ تھوڑی دیر بعد کے مجھے احساس ہوا کہ کھائی کی گہرائی اور وسعت کے بارے میں میرا اندازہ غلط ثابت ہو رہا ہے۔ جُوں جُوں میں نیچے اُتر رہا تھا۔ ڈھلان عمودی ہوتی جاتی تھی۔ آخر ایک چٹان پر رُک کر مَیں نے دائیں بائیں دیکھا کوئی خاص بات نظر نہ آئی۔ پھر مَیں نے اپنے ساتھیوں کو بھی اترنے کا اشارہ کر کے آگے بڑھا۔ کھائی خشک پڑی تھی، لیکن زمین خاصی نرم اور پھسلوان تھی۔ برسات کے موسم میں یہ یقیناً پانی سے لبریز ہو جاتی ہو گی۔ اس کی دونوں جانب اٹھی ہوئی چٹانیں ہموار اور حد درجہ پھسلواں تھیں۔ چند لمحے بعد ابراہیم اور ڈونلڈ پھسل کر میرے پاس پہنچ گئے۔ یکایک ابراہیم نے چپکے سے کہا۔
’جناب، آپ نے شیر کے ہانپنے کی آواز سنی؟’
مَیں نے نفی میں گردن ہلائی، ابراہیم نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور کھائی کے دوران دائیں جانب ہاتھ اٹھایا: ‘آواز اس طرف سے آ رہی ہے۔ ذرا غور سے سنیے، آپ یقیناً سُن لیں گے۔‘
مَیں نے سانس روک کر اس نامعلوم آواز پر کان لگا دیے۔ ابتدا میں کچھ سنائی نہ دیا، پھر ایسی مدھم آواز کانوں میں آئی جیسے درختوں کے درمیان سے گزرنے والی ہوا کی ہوتی ہے۔
’یہ شیر کی نہیں ہوا چلنے کی آواز ہے۔‘
’نہیں جناب، یہ ضرور شیر ہے۔ آپ ایک بار پھر غور سنیے۔‘ ابراہیم نے زور دے کر کہا اور اس مرتبہ ڈونلڈ نے بھی اس کی تائید کی۔
’ہاں ڈیڈی، یہ شیر ہی ہے۔ تعجب ہے آپ کی سماعت اَب اتنی کمزور ہو گئی ہے۔‘
’تم ٹھیک کہتے ہو۔ مَیں یہ آواز نہیں سُن رہا ہُوں۔ بہرحال یہ عمر کا تقاضا ہے۔ اگر یہ شیر ہے تو اب مزید احتیاط سے کام کرنا ہو گا۔ کہیں وہ ہماری موجودگی سے باخبر تو نہیں ہو گیا۔ آواز برابر سنتے رہو۔‘
ڈونلڈ اور ابراہیم کے بیان کے مطابق شیر دس منٹ تک ہانپتا رہا، پھر خاموش ہو گیا۔ کوشش کے باوجود صحیح صحیح اندازہ نہ کیا جا سکا کہ وہ کدھر ہے؟ اس نازک موقع پر سنبھل سنبھل کر اور بڑی ہوشیاری سے قدم اٹھانے کی ضرورت تھی۔ چنانچہ مَیں نے ابراہیم اور ڈونلڈ کو اپنے پچھلے رُخ الگ الگ اس انداز میں کھڑے ہونے کی ہدایت کی کہ شیر اگر عقب سے اچانک نمودار ہو جائے تو فوراً مجھے آگاہ کر سکیں۔ اس طرف وہی ڈھلان تھی جس پر پھسل کر ہم کھائی میں اترے تھے۔ دائیں طرف بیس پچیس فٹ بلند ایک چٹان اور بائیں طرف ساٹھ ستّر فٹ اونچا اور انتہائی دشوار گزار چٹانوں کا کنارہ تھا۔ اگر ہم فوری طور پر بھاگنا چاہتے، تو صرف سامنے کے رخ ہی بھاگ سکتے تھے۔ اسی جانب کچھ فاصلے پر ایک بڑا درخت گرا ہوا نظر آیا جس نے برسات کے موسم میں پانی کے ساتھ بہہ کر آنے والی ریت روک روک کر ایک قدرتی بند باندھ دیا تھا۔ ہماری دائیں جانب واقع چٹانی دیوار پر اس درخت کے قریب پہنچ کر ریت کے اونچے بند میں شامل ہو جاتی تھی اور اس سے پرے کیا ہے؟ یہ نظر نہ آتا تھا۔
معاً مَیں نے شیر کے غرّانے کی آواز سُنی اور یہ پہلا موقع تھا کہ مجھے شیر کی جائے پناہ کا صحیح اندازہ ہوا۔ وہ موذی اس ریتلے بند کے پیچھے چھپا ہوا تھا اور اس کے غرانے کا مطلب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ اس نے ہمیں دیکھ لیا ہے۔ مَیں نے اپنی رائفل چیک کی، ابراہیم اور ڈونلڈ کو چٹان کے ساتھ چپک جانے کی ہدایت کی اور دبے پاؤں درخت کی طرف بڑھنے لگا۔ نزدیک پہنچ کر میں نے غور سے دیکھا بھالا ایک جانب جنگلی جانوروں نے اپنے آنے جانے کے لیے چھوٹا سا راستہ بنا لیا تھا اور شیر بھی غالباً یہی راستہ استعمال کرتا تھا۔ مَیں نے وہاں خشک لید بھی بڑی مقدار میں پڑی دیکھی۔ ریت کے بند کا ایک نظر معائنہ کیا اور معلوم کر لیا کہ اس پر چڑھنا کچھ مشکل نہیں۔ درخت کا تِرچھا تنا اور اس پر لگی ہوئی موٹی موٹی شاخیں مجھے سہارا دینے کے لیے آمادہ تھیں۔ میں نے رائفل گلے میں لٹکائی اور خدا کا نام لے کر بند پر چڑھنے لگا۔ ایک نظر موڑ کر ڈونلڈ اور ابراہیم کی طرف بھی دیکھ لیا، وہ دونوں رائفلیں ہاتھوں میں تھامے پتھّر کے بتوں کی مانند بے حِس و حرکت اپنی اپنی جگہ کھڑے تھے۔
میرا مقابلہ جس آدم خور سے تھا، اس کی عیاری اور چالاکی کو کوئی ڈھکی چھپی بات نہ تھی۔ ایک ایک لمحہ انتہائی جان لیوا اور خطرناک تھا۔ ممکن تھا کہ بند پر چڑھنے کے دوران میں آدم خور یک لخت نمودار ہو جاتا، تب میں بالکل بے بس تھا، پھر وہ کیا کرتا؟ یہ سوچتے ہی میرا چہرہ پسینے سے تر ہو گیا۔ یہ موقع ایسا نازک تھا کہ ذرا سی غفلت مجھے آدم خور کے پیٹ میں پہنچا دیتی۔ ایک لحظے کے لیے مجھے خیال آیا کہ ایسا خطرہ مول لینا دانش مندی سے بعید ہے۔ مجھے یہاں سے چلے جانا چاہئے۔ آدم خور کے ٹھکانے کا پتا لگ چکا ہے، کسی بھی روز مناسب موقع ملتے ہی اسے ٹھکانے لگایا جا سکتا ہے۔ مَیں نے سوچ کر پیچھے ہٹنے کے لیے قدم اٹھایا ہی تھا کہ شیر پھر غرّایا اور اس مرتبہ مجھے اس کی آواز میں اپنے لیے ایک چیلنج سا محسوس ہوا۔
ہرچہ بادا باد کہہ کر مَیں ریت کے قدرتی بند پر چڑھا اور ایک ایک انچ اپنا سر اوپر اٹھاتے ہوئے گرد و پیش کا جائزہ لیا۔ شیر کو دیکھ کر طبیعت خوش ہو گئی۔ ایسا خُوب صورت، قوی ہیکل اور بارُعب دردندہ مَیں نے برسوں بعد دیکھا تھا، اگر یہ آدم خور نہ ہوتا، تو میں اسے ہر قیمت پر زندہ پکڑنے کی کوشش کرتا۔ مجھ سے اس کا فاصلہ بیس تیس فٹ سے زیادہ نہ تھا۔ اور وہ جھاڑیوں کے قریب نہایت اطمینان اور سکون سے آنکھیں بند کیے بیٹھا تھا جیسے گہری سوچ میں ہے۔ شیر بائیں طرف کوئی دس گز دُور تین چار چرخ جھاڑیوں میں دُبکے نظر آئے۔ جب بھی وہ آگے بڑھتے شیر آنکھیں کھول کر غُراتا اور چرخ ڈر کے مارے دوبارہ جھاڑیوں میں جا چھپتے۔ میں یہ تماشا دیکھنے میں اتنا محو ہوا کہ شیر پر فائر کرنے کا خیال ہی دل سے نکل گیا۔ یکایک شیر نے اُٹھ کر شاہانہ انداز میں میں انگڑائی لی، پورا جبڑا کھول کر ایک زبردست ڈکار لی اِدھر اُدھر دیکھا۔ اِدھر مجھے محسوس ہوا کہ وہ ہاتھ سے نِکلا، فوراً ہی رائفل کی طرف ہاتھ بڑھا، لیکن رائفل میری دائیں جانب سینے کے ساتھ ترچھی لٹکی ہوئی تھی اور شیر کی کھوپڑی کا نشانہ لینے کے لیے مجھے رائفل کی نال کو ایک چکّر تقریباً تین چوتھائی حصّہ گھمانا چاہیے تھا جو موجودہ پوزیشن میں قطعاً نا ممکن سی بات تھی۔ مَیں ایک ہاتھ سے ٹیلے کا سہارا لیے ہوئے تھا اور دوسرے ہاتھ سے درخت کی ایک شاخ تھام رکھی تھی۔ اس اثناء میں شیر کی چھٹی حِس نے اسے اپنے سر پر منڈلانے والے خطرے سے آگاہ کر دینا شروع کر دیا۔ مَیں نے دیکھا وہ بے چین اور مضطرب ہے۔ بار بار اٹھتا اور بیٹھتا ہے اور کبھی گردن گھما کر ادھر ادھر دیکھنے لگتا ہے۔ در اصل اُس نے کرنل سائمن کے بازوؤں، ٹخنوں اور کھوپڑی کے سوا سارا جسم ہڑپ کر لیا تھا اور کئی گھنٹے سو کر یہ کھانا ہضم کرنا چاہتا تھا، لیکن لگڑبگڑوں کی شرارت کے باعث اس کی نیند حرام ہو گئی اور پھر اس نے مجھے دیکھ لیا۔
اس کا اٹھا ہوا سر ساکت ہو گیا اور چہرے پر ایسی بھیانک مسکراہٹ نمودار ہوئی کہ میرا خون خشک ہو گیا۔ رونگٹے کھڑے ہو گئے اور مجھے یوں محسوس ہوا کہ کوشش کے باوجود مَیں اپنے ہاتھوں کو حرکت نہیں دے سکتا۔ شاید وہ مجھے پہچاننے کی کوشش کر رہا تھا کہ آیا مَیں کوئی جانور ہوں یا انسان، اس لیے کہ میرا جسم بند کی وجہ سے اس نظروں سے غائب تھا اور وہ صرف میری کھوپڑی ہی دیکھ سکتا تھا۔ میں اپنے عقب میں ابراہیم اور ڈونلڈ کے چپکے چپکے آگے بڑھنے کی مدھم آوازیں بھی سن رہا تھا۔ لیکن گردن ترچھی کر کے انہیں دیکھنے یا کچھ اشارہ کرنے کی ہمّت نہ تھی، پلک جھپکائے بغیر شیر مجھے مسلسل دیکھ رہا تھا۔ پھر اُس کی دُم میں آہستہ آہستہ گردش کرنے لگی، وہ اُٹھ کر کھڑا ہو گیا اور اب زیادہ غور سے میری جانب دیکھنے لگا۔ غالباً ڈونلڈ اور ابراہیم کی جانب سے ہونے والی آہٹ اس کے حساس کانوں تک پہنچ گئی تھی۔ چند لمحے تک وہ اسی طرح ساکت کھڑا رہا۔ موقع ایسا تھا کہ اسے فرار ہو جانا چاہیے تھا۔ مگر پیٹ بھرا ہوا تھا، اس لیے چلنے پھرنے کی ہمّت باقی نہ رہی تھی۔ اس نے جھاڑیوں کا ایک چکّر کاٹا اور دوبارہ وہیں آن کر بیٹھ گیا جہاں پہلے بیٹھا تھا۔
میرا بایاں ہاتھ فوراً حرکت میں آ گیا اور مَیں نے اپنے بدن کا پورا بوجھ دوسرے بازو پر ڈال دیا۔ ایک ہاتھ سے رائفل گھما کر جنبش میں لانے کا تکلیف دہ کام چیونٹی کی رفتار سے شروع ہوا۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ اگر زور سے حرکت کرتا، تو توازن برقرار نہ رہتا اور عین دھڑام سے نیچے گر جاتا اور دوسری وجہ یہ تھی کہ اس آواز سے آدم خور چوکنا ہو کر اپنی جگہ سے ٹل جاتا اور ہماری سب کوششوں پر آنِ واحد میں پانی پھر جاتا، اس لیے میں اپنی پوری قوتِ ارادی کام میں لا کر رائفل کو چپکے سے اپنے دائیں ہاتھ پر لانا چاہتا تھا۔ ابراہیم اور ڈونلڈ کو آنکھوں کے اشارے سے سمجھایا کہ جہاں کھڑے ہو، وہیں جمے رہنا، ذرا حرکت کی اور کام بگڑا۔
دو منٹ بعد رائفل میرے دائیں ہاتھ میں تھی اور اَب میں نے دونوں پَیر چوڑے کر کے ریت میں اچھی طرح جما دیے اور تن کر کھڑا ہو گیا۔ آدم خور اب جھاڑیوں میں گھُسنے کا ارادہ کر رہا تھا، کیونکہ میں نے دیکھا کہ بے شمار سیاہ مکھیاں اس کے سر اور گردن پر منڈلا رہی ہیں اور وہ انہیں اڑانے کے لیے بار بار گردن کو جھٹکے دے رہا ہے۔ مَیں نے احتیاط سے اس کی کھوپڑی کا نشانہ لیا اور فائر کرنے ہی والا تھا کہ میرے پیروں تلے سے ریت کھِسک گئی، مَیں ڈگمگایا اور توازن برقرار نہ رکھ سکا۔ اسی لمحے لبلبی غیر ارادی طور پر دَب گئی۔ جنگل کی فضا اور گرد و نواح کی سنگلاخ چٹانیں فائر کے دھماکے اور شیر کی ہولناک گرج سے کانپ اُٹھیں۔۔۔ مَیں لُڑھکنیاں اور قلابازیاں کھاتا ہُوا ابراہیم اور ڈونلڈ کے قدموں میں جا گرا۔ اس کے بعد یوں محسوس ہوا جیسے نظروں کے آگے چمک دار سفید سفید پتنگے یا شرارے سے اڑ رہے ہیں۔ پسلیوں میں ایک ناقابل برداشت ٹیس اُٹھی اور پھر کچھ یاد نہ رہا کہ مجھ پر کیا بیتی۔
ہوش آیا، تو مَیں نے اپنے کو کرنل سائمن کے بنگلے کے ایک کمرے میں بستر پر پڑے پایا۔ ڈونلڈ میرے قریب ایک کرسی پر بیٹھا تھا۔ اس نے بتایا کہ میرے بائیں بازو کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے۔ ابراہیم بیرُور گیا ہے تاکہ وہاں سے کسی ڈاکٹر کو لے آئے۔ اَب میں نے دیکھا کہ میرے بازو پر پٹّی بندھی ہے، گردن، گھٹنے اور انگلیوں پر بھی گہری خراشیں آئی ہیں۔ آدم خور کے بارے میں معلوم ہو کہ وہ بچ کر بھاگ نِکلا۔
ایک ہفتہ گزر گیا۔ اس دوران میں بیرُور سے دو مرتبہ ایک نوجوان ناتجربہ کار ڈاکٹر آیا اور میرے بازو اور زخموں کی دیکھ بھال کرتا رہا، مگر تکلیف روز بروز بڑھتی جاتی تھی۔ آخر اس نے مجھے بنگلور کے بڑے ہسپتال میں جانے کا مشورہ دیا۔
اتفاق دیکھیے کہ جس روز میں بنگلور جانے کی تیّاری کر رہا تھا، اُسی روز ضلع کھادر کے ڈپٹی کمشنر اپنے لاؤ لشکر لے کر مجھے دیکھنے آ گئے۔ ولیم سائمن اور اُس کے باپ کے مارے جانے کی خبریں ان تک پہنچ چکی تھیں اور یہ مجھے بعد میں پتا چلا کہ ڈپٹی کمشنر کی اِن مرنے والوں سے سے قرابت داری بھی تھی۔ ڈپٹی کمشنر مسٹر نکولس کے ساتھ ایک ہندو ریاست کے دو اعلیٰ عہدے بھی آئے تھے۔ ان کے بارے میں مجھے بتایا گیا کہ دونوں تجربے کار شکاری ہیں۔ اور بہت سے آدم خوروں کو کیفرِ کردار تک پہنچا چکے ہیں ایک کا نام درباری لال اور دوسرے کا سادھو سنگھ تھا۔۔۔۔ ان کے ساتھ چار پانچ پیشہ شکاری بھی تھے۔
میں چونکہ ہندوستان میں عرصے تک رہا ہوں اور کئی والیانِ ریاست اور امرا کے ساتھ شکار پر جانے کا اتفاق ہوا ہے، اس لیے ان لوگوں کی خوبیوں اور کمزوریوں سے بخوبی واقف ہوں۔ یہ لوگ شکار کی ابجد سے بھی واقف نہیں۔۔۔ مگر ڈیں گیں اتنی مارتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔۔۔۔ معمولی گیڈر پر فائر کر کے خوش ہوتے ہیں کہ شیر پر گولی چلائی اور مصاحب اور درباری قسم کے لوگ انہیں باور کروا دیتے ہیں کہ سرکار کے نشانے کا جواب نہیں۔ شیر کی بھلا کیا مجال جو آپ کے ہاتھوں بچ کر نکل جائے۔ غرض اسی طرح کی باتیں کر کے اپنے آقاؤں کو اُلّو بناتے اور مال اینٹھتے ہیں۔ چنانچہ درباری لال اور سادھو سنگھ کی ایک جھلک دیکھنے کے بعد ہی مجھے اندازہ ہو گیا کہ یہ حضرات کتنے پانی میں ہیں، بلکہ میرے ذہن میں یہ خدشہ سر اٹھانے لگا کہ آدم خور کہیں ان دونوں کو بھی ہڑپ نہ کر جائے۔
درباری لال کہنے لگا: ‘صاحب، آپ کو چوٹ لگ گئی ہے، ہسپتال چلے جائیے۔ آدم خور سے ہمارے مہاراجہ صاحب نِمٹ لیں گے۔‘
’مہاراجہ صاحب بھی آ رہے ہیں؟’ میں نے حیرت سے پوچھا۔
’جی ہاں، وہ ہمارے ساتھ ہی چلے تھے، مگر راستے میں زکام ہو گیا، اس لیے واپس چلے گئے ایک دو روز بعد طبیعت ٹھیک ہو جائے گی، تب آئیں گے۔‘ سادھو سنگھ نے تشریح کی۔
میں مُسکرا کر چُپ ہو رہا۔ ان مہاراجہ صاحب کا مَیں بعض مصلحتوں کی بنا پر نام نہ لوں گا۔ مَیں ان سے اچھی طرح واقف تھا اور ایک مرتبہ ان کی حماقت کے باعث موت کے منہ میں جاتے جاتے بچا بھی تھا۔ واقعہ اگرچہ بہت دلچسپ اور طویل ہے، اس لیے بیان کیے بغیر چارہ نہیں ! تاہم مختصر الفاظ میں لکھوں گا۔ اس کی مدد سے آپ ان والیان ریاست کے شکار کھیلنے کے قاعدوں اور اُصولوں سے آگاہ ہو سکیں گے اور معلوم ہو گا کہ یہ لوگ کیسی کیسی مضحکہ خیز حرکتیں کرتے تھے۔
ان دنوں مَیں نے اس ریاست میں جنگل کٹوانے کا ٹھیکہ لے رکھّا تھا۔ نہ جانے مہاراجہ کو میرے شکاری ہونے کا پتا کیسے چلا۔ کاروبار وغیرہ کے سلسلے میں مَیں حتّی الامکان کوشش کرتا ہوں کہ رائفل کا استعمال کم سے کم کروں اور شکار سے توجّہ ہٹا کر اپنے کام کی طرف دھیان دوں۔ ویسے بھی اس ریاست میں میرے جاننے والے اِکّا دُکّا آدمی تھے جنہیں مَیں نے سمجھا دیا تھا کہ وہ میرے شکاری ہونے کا انکشاف نہ کریں ورنہ مہاراجہ اور ان کے درباریوں سے پیچھا چھڑانا اور مشکل ہو جائے گا۔ ایک ہفتہ بخیر و عافیت گزر گیا۔۔۔۔ جس جنگل میں کٹائی کام ہو رہا تھا، وہاں شیر، تیندوے، چیتے، سانبھر، چیتل اور ریچھ سبھی جانور ملتے ہیں۔ لیکن انہوں نے مزدوروں کے کام میں کبھی مداخلت نہ کی، بلکہ انہیں دیکھ کر گزرگاہ بدل لیا کرتے تھے۔
ایک روز دوپہر کے وقت جب کہ میں گھوڑے پر سوار جنگل میں نگرانی کے لیے جا رہا تھا، ریاست کے دو سپاہی میرے پاس آئے اور انہوں نے بتایا کہ مہاراجہ نے یاد فرمایا ہے اسی وقت اور اسی وقت چلنا ہو گا۔ میں سمجھا کہ شاید ٹھیکے وغیرہ کے معاملے پر پوچھ گچھ کرنا چاہتے ہوں گے، اس لیے چلا گیا۔ مہاراجہ اپنے محل میں آرام فرما رہے تھے، وہیں طلب فرما لیا اور مجھے دیکھتے ہی کہنے لگے: ‘مسٹر اینڈرسن، ہم نے سنا ہے آپ بہت اچھے شکاری ہیں۔‘ یہ سُن کر میرے پَیروں تلے کی زمین نکل گئی۔ قضا سر پر کھیلنے لگی۔ میں نے دبی زبان سے شکاری ہونے کا اعتراف کیا، لیکن یہ بھی کہہ دیا کہ اب اس مشغلے سے طبیعت اُکتا چکی ہے، قویٰ مضمحل ہو گئے ہیں۔ نشانہ صحیح نہیں رہا۔ ہاتھ کانپ جاتا ہے۔ نگاہ کمزور ہو گئی ہے، اِس لیے میدان چھوڑ چکا ہوں اور صرف کاروبار کی طرف دھیان دیتا ہوں۔ مہاراجہ یہ باتیں سن کر ہنس پڑے اور بیٹھنے کے لیے کرسی کی طرف اشارہ کیا۔
’مَیں آپ کو تکلیف نہ دیتا مسٹر اینڈرسن، مگر معاملہ نازک ہے، برطانوی افواج کے انگریز کمانڈر انچیف صاحب آ رہے ہیں اور میں نہیں چاہتا کہ وہ میری ریاست سے شیر کا شکار کیے بغیر واپس جائیں۔ مَیں نے اسی لیے آپ کو بلایا ہے کہ ایک تو آپ اُن کے ہم قوم ہیں اور دوسرے یہ کہ شیر کے شکار کا نہایت وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ آپ کو ان کے ساتھ جانا ہو گا۔ مَیں آپ کو اس خدمت کے لیے معقول معاوضہ ادا کروں گا۔‘
’مہاراج، آپ کی خدمت بجا لا کر مجھے خوشی ہو گی، لیکن مَیں پیشہ وَر شکاری نہیں ہوں۔ اس لیے معاوضے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ صرف اتنا کہوں گا کہ آپ کے ہاں شیر کا شکار جس انداز میں کیا جاتا ہے، اُسے میں شکار نہیں سمجھتا، بلکہ میرے نزدیک بے چارے جانور پر ظلم ہے۔‘
’وہ کیسے؟’ مہاراجہ مسہری سے اُٹھ کر بیٹھ گئے اور حیرت سے میری طرف دیکھنے لگے۔
’وہ یُوں کہ شیر اکیلا ہوتا ہے اس کے مقابلے میں آپ پُورا لشکر لے جاتے ہیں، سینکڑوں لوگ ہانکا کرنے والے، بہت سے پیشہ ور شکاری اور مسلح فوجی سپاہی چاروں طرف سے ناکہ بندی کر کے اسے گھیر لیتے ہیں اور جب وہ بے بس ہو جاتا ہے، تو مچان پر بیٹھا ہوا کوئی ایک شخص فائر کر کے شیر کو ہلاک کر ڈالتا ہے اور شکاریوں میں اپنا نام لِکھا لیتا ہے۔ بھلا بتائیے، کیا یہی شکار ہے؟’
مہاراج نے قہقہہ لگایا:
’آپ بڑے دلچسپ آدمی ہیں۔۔۔۔ ہم اور ہمارے آباء و اجداد ہمیشہ اسی طرح شکار کھیلتے ہیں اور مجھے تو اس میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی، بلکہ شکار کا لطف دوچند ہو جاتا ہے۔ بھلا آپ کس طرح شکار کھیلتے ہیں؟
’مَیں اپنے حریف کو پورا پُورا موقع دیتا ہوں کہ وہ بھی حملہ کرنے کا ارمان نکال لے۔ اُسے بے بس نہیں کرتا اور یہ مچان وغیرہ میرے نزدیک بزدلوں کی ایجاد ہے۔ سچ تو یہ ہے مہاراج کہ حریف کے سامنے ڈٹ کر دو دو ہاتھ کرنے میں مزہ آتا ہے۔‘
’خوب، بہت خوب۔‘ مہاراج نے میری جانب غور سے دیکھا۔ اُن کی آنکھوں میں اب حیرت کی جگہ تمسخر جھلک رہا تھا جیسے وہ میری باتوں کو مجذُوب کی بڑ سمجھ رہے ہوں۔ ‘آپ نے اب تک کتنے شیر مارے ہیں مسٹر اینڈرسن؟’
’صحیح تعداد تو یاد نہیں۔‘ مَیں نے بے پروائی سے کہا۔ ‘کوئی سَو سوا سَو مارے ہوں گے اور یہ سبھی آدم خور تھے۔ مَیں انہی شیروں کا دشمن ہوں جو آدمیوں کے دشمن ہیں۔ بے گناہ شیروں پر میرا ہاتھ دانستہ کبھی نہیں اٹھا۔‘
’کمال ہے، کمال ہے۔‘ مہاراجہ کے منہ سے دوبارہ یہ جملہ نِکلا۔ پھر چند لمحے سوچنے کے بعد وہ بولے:
’آپ کا کہنا ٹھیک ہے مسٹر اینڈرسن، ہم لوگ واقعی شکار نہیں کھیلتے، شکار کے فن کا مذاق اُڑاتے ہیں۔ مجھے آپ سے مل کر بڑی خوشی ہوئی ہے۔ کیا یہ ممکن ہے آپ مستقل طور پر میری ریاست میں قیام کریں؟ بہرحال مَیں چاہتا ہوں کہ آپ اس مہم میں ہمارے ساتھ ضرور شریک ہوں، لیکن شیر پر گولی چلانا یا نہ چلانا آپ کی مرضی پر منحصر ہو گا۔ میں آپ کا اُصول توڑنا نہیں چاہتا۔‘
’میں حاضر ہو جاؤں گا۔‘ میں نے کہا اور مہاراجہ سے رخصت ہو کر اپنے کیمپ کو چلا آیا۔ ایک ہفتے بعد کمانڈر انچیف صاحب تشریف لائے۔ مہاراجہ نے میرا تعارف کرایا۔ موصوف میرے نام اور کام سے پہلے ہی آگاہ تھے، گرم جوشی سے ملے۔ مَیں نے اُن سے بھی وہی باتیں کیں جو مہاراجہ سے کر چکا تھا۔ کمانڈر انچیف نے بھی انہیں تسلیم کیا، لیکن اپنے اناڑی پن کا بہانہ کر کے بات ختم کر دی۔ پہلے روز خبر ملی کہ شیروں کا ایک جوڑا دریا کے پرلے کنارے پر واقع غاروں میں رہتا ہے اور جنگل میں گھومتا دکھائی دیکھا گیا ہے۔ مہاراجہ فوراً اپنے آدمیوں کے ہمراہ دریا پار جا اترے، خیمے وغیرہ لگ گئے اور خاصی چہل پہل ہونے لگی۔ مَیں یہ انتظام دیکھ کر ہنستا تھا اور لوگ میرے ہنسنے پر ہنستے تھے۔ مَیں ان کو پاگل سمجھتا تھا وہ مجھے دیوانہ کہتے تھے۔
ہانکا شروع ہوا۔ مزدور، سپاہی اور دیہاتی ڈھول بجانے اور گلا پھاڑ پھاڑ کر نعرے لگانے لگے۔ دریا اُن دنوں تقریباً خشک پڑا تھا۔ اکثر لوگ دریا میں اتر کر کھڑے ہو گئے تاکہ شیر اُدھر سے نکل کر بھاگنے نہ پائے۔ اکثر منچلے سپاہی انعام پانے کے لالچ میں غاروں کے نزدیک چلے گئے اور ان کے اندر پتھر برسانے لگے۔ مہاراجہ اور کمانڈر انچیف صاحب علیحدہ علیحدہ درختوں پر بندھے ہوئے مچانوں پر بیٹھے تھے اور میں دریا کے کنارے ایک درخت کے تنے کے ساتھ لگا کھڑا تھا۔ دفعتاً ایک ہولناک گرج کے ساتھ شیر اور شیرنی غار سے برآمد ہوئے اور ہانکا کرنے والوں میں بھگدڑ مچ گئی میں نے دیکھا کہ ایک دیہاتی کو خون میں نہلا کر زمین پر لٹا دیا اور آدمیوں کا حلقہ چیر کر شیر اور شیرنی آناً فاناً نظروں سے غائب ہو گئے۔ البتہ ان کے دہاڑنے کی آوازیں دیر تک جنگل میں گونجتی رہیں۔
جس شخص کو شیر نے زخمی کیا تھا، چند منٹ بعد طبّی امداد بہم پہنچے بغیر اُس نے دم توڑ دیا۔ کمانڈر انچیف اس حادثے سے سخت بے مزہ ہوئے، لیکن مہاراجہ کی نظروں میں اُن کی رعایا کے ایک معمولی دیہاتی کی جان کوئی قیمت نہ رہی تھی۔ انہوں نے دوبارہ ہانکا کرنے کا حکم دیا۔ معلوم ہوا کہ شیر اور شیرنی کئی فرلانگ دور لمبی لمبی گھاس کے ایک قطعے میں چھُپے ہوئے ہیں اور پتھروں کی بارش کے باوجود باہر نہیں نکلتے۔ مہاراجہ نے مجھے کمانڈر انچیف کے ساتھ جیپ میں روانہ کیا اور خود دُوسری جیپ میں بیٹھے۔
گھاس کے وسیع و عریض قطعے کی ایک جانب چند درخت تھے۔ جلدی سے ایک پر کمانڈر انچیف کو چڑھایا گیا اور دوسرے پر مہاراجہ کو، یہ دونوں درخت آمنے سامنے تھے۔ میں مہاراجہ کی ہدایت کے مطابق کمانڈر انچیف کی حفاظت کے لیے درخت کے نیچے کھڑا ہو گیا۔ ہانکا شروع ہوا۔ شیرنی تو چھلانگ لگا کر ایک طرف گرجتی غرّاتی ہوئی نکل گئی، لیکن شیر بد حواس ہو چکا تھا، وہ سیدھا اس درخت کی طرف بڑھا جس پر کمانڈر انچیف صاحب بیٹھے ہوئے تھے اور تنے کے ساتھ میں لگا کھڑا تھا۔ اصولاً کمانڈر انچیف کو شیر پر گولی چلانی چاہیے تھی، لیکن مہاراجہ نے معزّز مہمان کو موقع دیے بغیر اندھا دھُند فائرنگ شروع کر دی۔ وہ شوق سے ایسا کرتے، لیکن انہیں یہ بھی یاد نہ رہا کہ میں اس درخت کے نیچے موجود ہوں۔ دو گولیاں سائیں سائیں کرتی میرے دائیں بائیں نکل گئیں، تب پتا چلا کہ مہاراجہ کا نشانہ شیر کے بجائے میں خود ہوں۔ موقع ایسا تھا کہ اگر شیر کی طرف متوجہ ہوتا ہوں تو مہاراجہ کی گولیاں میرے جسم میں پیوست ہوتی ہیں اور اگر ان گولیوں سے بچنا چاہتا ہوں، تو شیر مجھے زخمی کر کے بھاگ جائے گا۔ خیر گزری کہ کمانڈر انچیف نے کوئی فائر نہیں کیا، ورنہ میرا قصّہ اس روز پاک ہو گیا تھا۔ مجبوراً مَیں تنے سے چمٹ گیا اور شیر پر گولی چلائی۔ گولی اس کی گردن میں لگی اور وہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔ تھوڑی دیر بعد مہاراجہ صاحب اکڑتے ہوئے نمودار ہوئے اُن کے مصاحب مہاراجہ کے نشانے کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا رہے تھے۔ جب وہ چُپ ہوئے، تو مَیں نے کہا:
’ذرا شیر کو بھی دیکھ لیجیے کہ گولی کہاں لگی ہے۔‘
فرمانے لگے: مَیں نے دو گولیاں اس کی کھوپڑی میں ماریں اور ایک دائیں شانے میں۔‘
شیر کا معائنہ کیا گیا، تو اس کی گردن میں صرف ایک گولی پیوست تھی اور یہ وہی تھی جو میری رائفل سے نکلی تھی۔۔ مَیں نے کہا:
’جناب، آپ نے تو آج مجھے ختم ہی کر دیا تھا۔‘
مہاراجہ کا چہرہ سُرخ ہو گیا۔ انہوں نے اپنے اے ڈی سی پر غصّہ اتارا اور خوب ڈانٹ ڈپٹ کی۔ اگلے روز میں بیماری کا بہانہ لے کر وہاں سے رفوچکّر ہو گیا اور جان بچ جانے پر خُدا کا شکر ادا کیا۔
بنگلور کے ہسپتال میں پڑے پڑے مجھے پُورا ایک مہینہ ہو گیا۔ اس دوران میں ابراہیم نے میری ایسی خدمت کی کہ بیان سے باہر۔ ڈونلڈ، ڈپٹی کمشنر اور اس کی پارٹی کے ساتھ آدم خور کے تعاقب میں لگا ہوا تھا۔ ہر ہفتے مجھے اُس کی سرگرمیوں کے بارے میں تفصیلی خبریں مل جاتی تھیں۔ معلوم ہوا کہ مہاراجہ صاحب آدم خور کی ہیبت سے اتنے لرزاں ہوئے کہ دو روز بعد ہی اپنی ریاست کو بھاگ لیے۔ البتّہ اُن کے دونوں مصاحب ڈٹے رہے۔ ان میں سے درباری لعل کو مہاراجہ کے رُخصت ہونے اگلے ہی روز آدم خور نے کئی لوگوں کے سامنے مُنہ میں دبایا اور لے گیا۔ سادھو سنگھ ایسے ڈرے کہ ان پر دل کا شدید دَورہ پڑا اور تین دن بیہوش رہنے کے بعد مُلکِ عدم کو سدھارے۔ ڈپٹی کمشنر عقلمند آدمی تھا، اس نے کہا لوگوں کو آدم خور کے رحم و کرم پر چھوڑا نہیں جا سکتا۔ شیر کی ہلاکت خیز سرگرمیوں سے نہ صرف اس علاقے کی زندگی معطل ہو چکی تھی، بلکہ گورنمنٹ کا سارا کاروبار بھی رکا پڑا تھا۔ کیونکہ کوئی شخص اِدھر آنے کی جُرأت نہ کرتا تھا۔
شیر اب اتنا نڈر ہو چکا تھا کہ لنگا دھالی، مدّک، سنتاویری، ہو گر خان، ہوگرالی اور بیرُور میں دن دہاڑے گھروں میں آن کودتا اور کسی نہ کسی عورت یا مرد کو پکڑ لے جاتا۔ ایک مرتبہ اُس نے بیرور کے سٹیشن پر نمودار ہو کر سنسنی پھیلا دی۔ اس وقت گاڑی سٹیشن پر کھڑی تھی۔ شیر کو دیکھ کر مسافروں نے جلدی جلدی دروازے بند کر لیے اور بعض لوگوں نے اسے ڈرانے کے لیے برتن بھانڈے کھڑکائے اور پتھر بھی مارے، مگر شیر نے پرواہ نہ کی۔ بھاگتے ہوئے قلیوں میں سے چند کو زخمی کیا اور پھر ایک کو چوہے کی طرح منہ میں دبا کر جنگل کی طرف نکل گیا۔ اس زمانے کے اخباروں میں اس کے بارے میں ایک آدھ خبر ضرور چھپی تھی۔ اخبار ہی کے ذریعے ایک روز پتہ چلا کہ انگریزی فوج کا ایک دستہ آدم خور کا صفایا کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے۔
اس کے بعد متضاد خبریں آنی شروع ہوئیں۔ کبھی معلوم ہوتا کہ آدم خور مارا گیا اور کبھی پتا چلتا نہیں مرا۔ میرا خیال تھا کہ اُسے مارنا فوجیوں کے بس کی بات نہیں، یہ لوگ تو میدانِ جنگ میں مورچوں کے اندر بیٹھ کر لڑ سکتے ہیں۔ ایک گھنے جنگل میں پچاس ساٹھ مربع میل کے اندر آدم خور کو تلاش کر کے ٹھکانے لگانا آسان نہیں۔ ابراہیم کے خیالات بھی اسی قسم کے تھے۔ وہ بار بار نہایت بے قراری سے میرے تندرست ہونے کی دُعائیں مانگتا تھا اور خود میری طبیعت بھی ہسپتال میں پڑے پڑے بیزار ہو چکی تھی۔ مَیں چاہتا تھا کہ جتنی جلد ہو سکے، اس قید خانے سے نکلوں اور آدم خور کو جہنّم رسید کروں، مگر ڈاکٹروں کے سامنے کوئی پیش نہ جاتی تھی۔ اُن کا کہنا تھا کہ ہڈی ابھی نہیں جڑی ہے اور اگر احتیاط نہ کی گئی، تو یہ ساری عُمر تکلیف دے گی۔
ایک مہینہ سات دن بعد مجھے ہسپتال سے رخصت ہونے کی اجازت ملی۔ اب میرا بازو ٹھیک ٹھاک تھا اور اچھی طرح حرکت کر سکتا تھا۔ چنانچہ مَیں نے ہوگرالی جانے کی تیّاریاں شروع کر دیں، مگر اسی شام ڈونلڈ اپنی ماں کو لے کر ہسپتال میں آ گیا۔ میری بیوی اس زمانے میں بمبئی میں تھی اور اُسے اس حادثے کا علم نہیں ہوا تھا، میں سمجھ گیا کہ ڈونلڈ نے اسے خبر پہنچا دی ہے اور اب وہ مجھے ہوگرالی کبھی نہ جانے دے گی۔ مَیں نے ابراہیم کو اسی ہسپتال کے ایک ڈاکٹر کے پاس عارضی طور پر ملازم رکھوا دیا اور بیوی اور ڈونلڈ کے ساتھ بمبئی روانہ ہو گیا۔ میرا خیال تھا کہ پانچ سات دن وہاں رہ کر کسی بہانے چلا آؤں گا۔ لیکن بمبئی جاتے ہی بعض نجی کاموں میں ایسا الجھا کہ تین مہینے گزر گئے۔ اس دوران میں آدم خور کے بارے میں خبر پڑھی کہ وہ مارا گیا ہے۔ یہ سن کر میں نے اطمینان کا سانس لیا اور ہوگرالی جانے کا ارادہ ترک کر دیا۔ انہی دنوں کے سلسلے میں پونا اور حیدرآباد جانا پڑا اور آہستہ آہستہ آدم خور میرے ذہن سے محو ہو گیا۔ دو ماہ بعد جب مَیں بمبئی واپس آیا، تو ایک روز اچانک شام کی ڈاک میں ابراہیم کا خط ملا، اسے دیکھتے ہی تمام پرانی یادیں تازہ ہو گئیں۔ اس نے لکھّا تھا کہ آدم خور ابھی تک مارا نہیں گیا، وہ کوئی اور شیر تھا جو اس کے دھوکے میں مارا گیا ہے اس نے بڑی تباہی پھیلا رکھی ہے۔ بستیوں کی بستیاں اور گاؤں اُجاڑ دیے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کا انتظام نہ کیا گیا تو ضلع کھادر میں ایک آدمی بھی زندہ نہ بچے گا۔
مَیں نے اس خط کا ذکر اپنی بیوی سے کیا نہ ڈونلڈ سے، چپکے سے اپنا ضروری سامان باندھا اور رات کی گاڑی سے بنگلور روانہ ہو گیا۔ وہاں ہسپتال میں ابراہیم سے ملاقات ہوئی اور اس نے آدم خور کے بارے میں تمام تفصیلات سے آگاہ کیا۔ ہوگرالی جانے سے پہلے میں ڈپٹی کمشنر سے مِلا، جنگل میں جانے اور آدم خور سے مقابلہ کرنے کا خصوصی اجازت نامہ حاصل کیا اور ابراہیم کو لے کر ہوگرالی پہنچا۔ وہاں آدمی نہ تھا نہ آدم زاد، کھیتیاں ویران، چائے کے باغ سوکھے اور اجڑے ہوئے، جھونپڑیاں خالی، ہر طرف ایک مہیب سناٹا اور دہشت کی فضا چھائی ہوئی محسوس ہوئی۔ بیرُور پہنچا۔ سٹیشن کے باہر سرکاری کارندوں نے اونچی اونچی بلّیاں باندھ کر لوہے کے خار دار تار لگا رکھے تھے تاکہ آدم خور اِدھر گھسنے نہ پائے۔ ارد گرد کی آبادیوں اور بستیوں کے بے شمار افراد وہاں کیمپ لگائے پڑے تھے اور حکومت انہیں رسید مہیا کر رہی تھی۔
ان لوگوں کے ذہن میں یہ بات جم چکی تھی کہ آدم خور کے بھیس میں کوئی بلا ہے جسے ہلاک کرنا انسان کے بس میں نہیں۔ البتّہ اسے جادو ٹونے کے ذریعے دور کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ یہ لوگ طرح طرح کی حرکتیں کرتے رہتے تھے۔ ایک شخص نے جو کسی زمانے میں ہوگرالی کے مندر کا پجاری تھا اور اپنے مذموم اور شرمناک افعال کی وجہ سے مندر سے نکالا جا چکا تھا، یہ موقع غنیمت جان کر اپنی پارسائی کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کر دیا اور کہا کہ وہ مندر میں جا کر کالی دیوی کی پُوجا کرے گا اور کالی کے ذریعے اس بلا کو مروا دے گا۔ بے چارے سادہ لوح دیہاتی اس کے جھانسے میں آ گئے اور اسے سونے اور چاندی کی مطلوبہ مقدار مہیا کر دی۔ یہ شخص چُپکے سے میرے پاس آیا اور کہا کہ اگر مَیں اس آدم خور کو ہلاک کر دوں تو نصف سونا وہ مجھے دے دے گا۔ لیکن لوگوں کو پتا نہیں چلنا چاہیے کہ آدم خور کو مَیں نے مارا ہے۔ اس قِسم کے بے ہُودہ باتیں اس نے کیں اور مَیں سُنتا رہا۔ آخر ضبط نہ ہو سکا۔ مَیں نے اُسے بُری طرح مارا، اس پر جُوتے برساتا ہوا لوگوں کے سامنے لے گیا اور سارا قِصّہ کہہ سنایا۔ پھر لوگوں نے اُس کی خوب مرمّت کی اور جوش انتقام میں بعض نوجوان تو اس قدر اندھے ہوئے کہ پجاری کو رسّیوں سے باندھ کر جنگل میں پھینک آئے اور اگلے روز میں نے اس کی ادھ کھائی لاش نہر کے کنارے کھلے عام پڑی ہوئی پائی۔
آدم خور کا تعاقب کرنے میں میرا دن کا چین اور راتوں کی نیند حرام ہو گئی۔ کھانے کا ہوش رہا نہ پینے کا۔ ہر وقت یہی دھُن تھی کہ کسی نہ کسی طرح اسے ختم کروں تاکہ لوگ سُکھ کا سانس لے سکیں، مگر وہ واقعی چھَلاوہ بن چکا تھا۔ بارہا میرا اس کا آمنا سامنا ہُوا، لیکن ہر بار وہ طرح دے کر نکل جاتا۔ اِتنا مَیں جانتا تھا کہ وہ میری تاک میں ہے اور جب بھی اس کا بس چلا وہ میری ہڈّیاں چبا جائے گا۔ مَیں نے اپنا تجربہ اور سارا فن اس کو جھانسا دینے اور پھانسنے میں صرف کر دیا، حتّیٰ کہ کئی مرتبہ اس کی گزرگاہ میں آنکھیں بند کر کے لیٹ بھی گیا جیسے سو گیا ہوں، مگر وہ سب کچھ سمجھتا تھا، دُور ہی سے دیکھ دیکھ کر غراتا، نزدیک نہ آتا اور جونہی مَیں رائفل سیدھی کرتا وہ جھاڑیوں میں غائب ہو جاتا۔ اگرچہ میں اس کے راستے کا پتھر بن چکا تھا۔ تاہم آدمیوں کو ہڑپ کرنے کا سواد اس میں اس قدر سما چکا تھا کہ وہ روز حیلے فریب سے کسی نہ کسی آدمی کو ضرور پکڑ لیتا۔ ایک مرتبہ تو وہ بیرُور سٹیشن کے باہر لگے ہوئے تاروں میں سے گھس کر کیمپ میں بھی جا نکلا اور مسلح سپاہیوں کے سامنے فائرنگ کے باوجود ایک عورت کو اٹھا کر بھاگ گیا۔
مَیں کہہ نہیں سکتا کہ اس مُوذی کے انتظار میں کتنی راتیں درختوں پر جاگ کر کاٹیں، کتنے دن پہاڑی ٹیلوں، غاروں اور گھاٹیوں میں ٹھوکریں کھاتا پھرا۔ ابراہیم سائے کی طرح میرے ساتھ تھا، حالانکہ کئی مرتبہ وہ آدم خور کے ہتھے چڑھتے بچا۔ مَیں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی، مگر اس نے ایک نہ سنی۔ حقیقت میں وہ نہایت نڈر اور بہادر آدمی تھا، مجھے اس شخص کی دوستی پر ہمیشہ فخر رہے گا اور مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ اگر وہ میرا ساتھ نہ دیتا، تو شاید مَیں اس آدم خور کو ہلاک کرنے میں کبھی کامیاب نہ ہوتا۔
بعض اوقات وہ کئی کئی ہفتے نظر نہ آتا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنی سلطنت کے سرحدی علاقوں میں دورے پر نکل جاتا۔ مثلاً بھدرا ڈیم پر پہنچ گیا اور وہاں موقع پا کر چار پانچ آدمی ہڑپ کر لیے۔ بابا بُدان کے دشوار گذار پہاڑیوں میں نمودار ہوا اور جھونپڑیوں میں سوئے ہوئے مَردوں یا عورتوں کو زخمی کیا اور ایک آدھ کو اٹھا کے لے کر بھاگا۔ اسی طرح لکھّا والی، لال باغ، لنگا دھالی اور سنتاویری کے علاقوں میں گھومتا پھرتا، چونکہ ان علاقوں کے لوگ ابھی تک آزادانہ آمدورفت رکھتے تھے، اس لیے آدم خور کو اپنا شکار حاصل کرنے کا موقع آسانی سے مل جاتا تھا۔ میری جمع کردہ معلومات کے مطابق آدم خور سال کے دس مہینوں میں کم از کم ایک سو بانوے افراد کو ہڑپ کر چکا تھا اور اس کی ہلاکت خیز اور خون ریز سرگرمیوں کا دائرہ وسیع ہو رہا تھا۔ وہ جس انداز سے لوگوں کو اپنے پیٹ کا ایندھن بنا رہا تھا، اس سے ظاہر ہوتا تھا، اگر یہی رفتار رہی، تو ایک دن ایسا آئے گا کہ ان تمام علاقوں اور بستیوں میں نسلِ انسانی کا نام و نشان بھی باقی نہ رہے گا۔
ہمارا قیام کرنل سائمن کے بنگلے میں تھا۔ اگرچہ یہاں رہتے ہوئے دہشت ہوتی تھی، کیونکہ بار بار بُڈھے کی شکل نظروں سے سامنے گھومنے لگتی تھی، لیکن محض اس لیے نارنگیوں کا باغ آدم خور کی عارضی پناہ گاہ بن چکا تھا، میں وہاں ٹھہرا ہوا تھا، لیکن جب میں اس کی تلاش میں نکلتا، تو آوازیں تھم جاتیں۔ نہ معلوم موذی کو کیسے پتا چل جاتا تھا کہ مَیں اس کی تاک میں ہوں۔ کئی مرتبہ دن کی روشنی میں وہ بنگلے کے قریب سے بھی گزرا، لیکن اس سے پہلے کہ مَیں اس کا تعاقب کروں یا رائفل سنبھالوں، وہ رفو چکّر ہو جاتا تھا۔ بارہا اس نے جنگل میں میرا پیچھا کیا، مگر وَار کرنے میں کامیاب نہ ہوا۔
ایک روز مَیں کیمپ کا دَورہ کر کے شام کو واپس آیا، تو ابراہیم کے چہرے پر خوف کی ہلکی ہلکی پرچھائیاں ابھر آئیں۔ معلوم ہوا کہ آدم خور دن بھر بنگلے کے گرد چکر کاٹتا رہا اور ایک دو دفعہ اس نے دروازہ توڑ کر اندر گھسنے کی کوشش بھی کی ہے۔
’صاحب، مَیں نے اس پر دو تین فائر کیے، مگر کوئی گولی اسے نہیں لگی، پھر وہ گرجتا اور غراتا ہُوا بھاگ گیا۔ مَیں ڈر رہا تھا کہ کہیں وہ قریب ہی چھُپا نہ ہو اور آپ پر اچانک حملہ کر دے۔‘
’وہ کیسے؟’ ابراہیم نے پوچھا۔
’ذرا ہمّت کرنی پڑے گی۔ اس میں خطرہ ہے، مگر تمہیں مجھ پر اعتماد کرنا چاہیے۔‘
’میں ہَر خدمت کے لیے حاضر ہوں۔ آدم خور کو ہلاک کرنے کے لیے آپ کو اگر میری جان کی بھی ضرورت پڑے، تو انکار نہ کروں گا۔ میری جان مخلوقِ خدا کی بھلائی اور بہتری کے لیے کام آئے، تو اس سے بڑھ کر خوش نصیبی اور کیا ہو گی۔ آپ اپنا منصوبہ بتائیے۔‘
’منصوبہ صرف اتنا تھا کہ تم آج رات بنگلے کے باغ میں چارپائی بچھا کر لیٹ جاؤ۔ اپنے پاس بھری ہوئی رائفل ضرور رکھ لینا۔ مَیں قریبی درخت پر بیٹھوں گا۔ مجھے یقین ہے وہ ضرور آئے گا اور مَیں اس پر گولی چلا کر مار ڈالوں گا۔ شکاری لوگ شیر کو پھانسنے کے لیے چارے کے طور پر بکری یا گائے بَیل وغیرہ باندھتے ہیں، لیکن یہاں معاملہ برعکس ہے۔ کیا تم اس قربانی کے لیے تیّار ہو؟’
’مَیں تیار ہوں۔‘ ابراہیم نے سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔
سُورج غروب ہونے کے فوراً بعد ہی مَیں رائفل لے کر درخت پر چڑھ گیا۔ ابراہیم کو ہدایت کر دی تھی کہ وہ اُونچی آواز میں گانا گاتا رہے تاکہ آدم خور اس کی آواز پر آئے۔ درخت کے نیچے کچھ فاصلے پر اس نے چارپائی بچھا لی اور اُونچی آواز میں گانے کے بجائے اپنی مقدس کتاب قرآن کی تلاوت شروع کر دی۔
رات آہستہ آہستہ بھیگنے لگی۔ جنگل کے سنّاٹے میں بے پناہ اضافہ ہو گیا۔ آدم خور کی ہیبت سے چرند پرند خاموش تھے، حتّیٰ کہ مینڈکوں کا ٹرّانا اور گیدڑوں کی چیخیں بھی تھم چکی تھی۔ ابراہیم دیر تک قرآن کی تلاوت کرتا رہا۔ اس کی آواز میں بے پناہ سوز اور درد تھا اور میرے دل و دماغ پر اس کی آواز اور ان کلمات سے جو میری سمجھ سے بالاتر تھے، ایک عجیب طرح کا لرزہ طاری ہو رہا تھا۔
درخت پر بیٹھے بیٹھے میرے اعصاب سُن ہو گئے، لیکن حرکت کرتے ہوئے ڈرتا تھا کہ آدم خور خبردار ہو جائے گا۔ ڈیڑھ بجا تھا کہ مشرقی افق پر روشنی پھوٹنے لگی، پھر چاند نے اپنا چمکتا ہوا سنہری چہرہ اوپر اٹھایا اور رفتہ رفتہ آسمان پر سفر کرنے لگا۔ چاندنی میں حدِّ نظر تک پھیلا ہوا جنگل دلفریب اور مد ہوش کن منظر پیش کر رہا تھا۔ مجھ پر غنودگی سی طاری ہونے لگی جو پائپ پیے بغیر کسی طرح دُور نہ ہو سکتی تھی، لیکن مَیں اپنی جانب سے کوئی معمولی حرکت بھی کرنا چاہتا تھا جس سے آدم خور کو میری موجودگی کا شبہ ہو جائے۔ ممکن ہے جب میں دیا سلائی جلاؤں، تو وہ اس کا شعلہ دیکھ لے، یک لخت ٹھنڈی ہوا چلنے لگی اور اس نے غنودگی میں اضافہ کر دیا۔ آنکھیں بار بار بند ہوئی جاتی تھیں، لیکن مَیں قوّتِ ارادی سے کام لے کر بیدار اور ہوشیار رہنا چاہتا تھا، کیونکہ میرے سامنے ایک شخص کی زندگی اور موت کا مسئلہ تھا اور ذرا سی غفلت پر اگر آدم خور ابراہیم کو اٹھا کر لے جاتا، تو مَیں اپنے آپ کو کبھی معاف نہ کر سکتا تھا۔
دفعتاً ابراہیم چپ ہو گیا۔ اس کے خاموش ہونے سے مجھے جھٹکا سا لگا اور میں، آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اس طرف دیکھنے لگا۔ وہ اپنی چارپائی پر سادھوؤں کی طرح آلتی پالتی مارے بیٹھا تھا۔ غالباً اس پر بھی نیند سوار ہو گئی تھی، لیکن چند لمحے بعد مَیں نے دیکھا کہ اس کی دونوں آنکھیں کھلی ہوئی ہیں اور وہ عین سامنے ٹکٹکی باندھے کچھ دیکھ رہا ہے۔ میں نے گردن گھمائی اور اس طرف نظریں دوڑائیں۔ درختوں اور گھاس کے سوا وہاں کچھ نہ تھا۔ اب مَیں نے چاہا کہ ابراہیم کو آواز دے کر خبردار کروں اور پوچھو کہ کیا معاملہ ہے میں آواز دینے ہی والا تھا کہ اگلے درخت پر بیٹھا ہوا ایک الّو بھیانک آواز میں‘ہُو ہُو ہو’ کرتا ہوا اڑا اور میری چھٹی حِس کام کرنے لگی۔ بجلی کی سی تیزی سے رائفل سنبھالی اور اس سے پیشتر کہ گھاس میں دبکا ہوا آدم خور ابراہیم پر حملہ کرے، میں نے یکے بعد دیگرے دو فائر کیے۔ اس کے منہ سے ایک دل ہلا دینے والی گرج بلند ہوئی۔ تھوڑی دیر تک وہ گھاس میں بیٹھا تھا۔ غالباً آدم خور کی دہشت سے اس کا جسم سُن ہو گیا تھا۔
مَیں نے گلا پھاڑ پھاڑ کر اُسے آوازیں دیں، ٹارچ کی روشنی اس کے چہرے پر پھینکی، تب اُسے ہوش آیا۔ مَیں نے کہا کہ بھاگ کر بنگلے کے اندر چلا جائے اور صبح تک باہر نہ آئے۔ اس نے حکم کی تعمیل کی۔ مَیں پو پھٹنے تک درخت پر بیٹھا رہا، کیونکہ اس وقت تک آدم خور کی ہلاکت میں شبہ تھا۔ سورج کی روشنی جب اچھی طرح پھیل گئی، تو مَیں درخت سے اترا، آدم خور گھاس میں مرا پڑا تھا۔ قریب جا کر معائنہ کیا۔ دونوں گولیاں اس کا بھیجا پھاڑتی ہوئی نکل گئی تھیں۔
دوپہر تک پچاس پچاس میل کے علاقے میں چاروں طرف آدم خور کے مرنے کی خبر آگ کی مانند پھیل چکی تھی۔ لوگوں کا تانتا بندھ گیا۔ ہر شخص اس درندے کو دیکھنے کے لیے بے چین اور مضطرب تھا جس نے دو سو آدمیوں کو اپنے پیٹ کا ایندھن بنا لیا تھا۔ ہر طرف خوشی اور مسرّت کا دَور دورہ تھا اور لوگ اپنے بال بچوں سمیت بستیوں اور گاؤں میں واپس آ رہے تھے۔
٭٭٭
ماخذ:
اردو محفل، اور
http://shikariyat.blogspot.com
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں