سندباد جہازی کے حیرت انگیز سفر
احمد خاں خلیل
ہیشکش: انیس الرحمٰن
ڈاؤن لوڈ کریں
پہلا سفر
خلیفہ ہارون الرشید کا پائے تخت بغداد تھا۔ اس زمانے میں بغداد دنیا بھر کے شہروں کا شہزادہ تھا۔ اس میں عالی شان محل اور خوبصورت حویلیاں تھیں۔ اس کے بازار بڑے بڑے اور با رونق تھے۔ شہر میں امیر اور غریب، بہادر اور شہہ سوار، عالم اور فاضل، ہنرمند اور کاریگر ہر طرح کے لوگ رہتے تھے۔ ہر روز دور دراز سے کئی قافلے آتے اور کئی کارواں کوچ کرتے۔ صبح سے شام تک ہر بازار اور ہر منڈی میں میلے کا سا سماں نظر آتا تھا۔
اس شان دار شہر کے ایک خوبصورت مکان میں ایک مالدار شخص رہتا تھا۔ اس کا نام تھا سندباد جہازی۔ وہ بڑا مہمان نواز، سخی اور دوستوں کا دوست تھا۔ وہ زندگی کے سرد گرم جھیل چکا تھا۔ گرمی کے موسم میں ایک دن وہ اپنے دوستوں کے ساتھ اپنے باغ میں بیٹھا باتیں کر رہا تھا کہ میدان مارنے، سخت مشکلات کو سر کرنے اور مہم جیتنے کی بات چل نکلی۔ کہنے لگا، ’’دوستو! میں الله کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے ہر طرح کے مال و متاع سے نوازا ہے، لیکن میں آپ دوستوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ ایک زمانہ تھا کہ میں بھی غریب و نادار تھا۔ میری زندگی خوشیوں سے خالی تھی۔
یہ اس زمانے کی بات ہے جب میں نے جوانی کی منزل میں قدم رکھا تھا۔ میرے پاس کوئی روزگار نہ تھا۔ وقت مشکل سے گزرتا تھا۔ ایک دن جب کہ میں بہت تنگ دست تھا میں نے ارادہ کر لیا کہ مجھے شیخ چلّی کی طرح خواب نہیں دیکھنے چاہئیں۔ مجھے کچھ کرنا چاہیے۔ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ چنانچہ میں نے اپنا مکان اور گھر کا سارا سامان بیچ دیا۔ مجھے کل تین ہزار درہم ملے۔ اس رقم سے میں نے تجارت کا سامان خریدا۔ اسے بصرہ لے گیا۔ جہاں سے بحری جہاز دوسرے ملکوں کو مال تجارت لے کر جاتے تھے۔
بصرہ میں جا کر میں نے معلوم کیا کہ کون سا جہاز سفر کے لیے تیار ہے۔ ایک عرب جہاز کے کپتان سے میں نے بات کی۔ اس نے مجھے بتایا کہ چھے تاجر اپنا مال تجارت اس کے جہاز پر لے جا رہے ہیں۔ یہ جہاز مشرقی جزیروں کو جائے گا۔ تاجر وہاں اپنا مال بیچ کر ہیرے اور جواہرات خرید کر پھر اسی جہاز سے بصرہ واپس آئیں گے۔ میں نے بھی اسی جہاز پر جانے کی خواہش ظاہر کی۔ معاملہ طے ہو گیا اور میں نے بھی اپنا اسباب اس میں لاد دیا۔
اگلے ہفتے جہاز کا لنگر اٹھا اور ہم دعائیں مانگتے ہوئے روانہ ہوئے۔ جہاز نے مشرق کا رخ کیا۔ ہم کھلے سمندر میں سفر کرنے لگے۔ کئی دن اور کئی راتیں یونہی گزر گئیں۔ آخر ایک بندر گاہ آئی۔ ہم نے کچھ سامان اور خریدا اور آگے چل پڑے۔ اس طرح ایک دو اور بندر گاہیں آئیں اور مزید خرید و فروخت ہوئی۔
ایک دن ہم ایک چھوٹے سے جزیرے پر پہنچے۔ بحری سفر میں چند باتیں بڑی اہم ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ آپ کو وقفے وقفے سے پینے کا پانی ملتا رہے۔ دوسرے ہوا موافق ہو اور تیسرے یہ کہ الله تعالی طوفان سے بچائے رکھے۔ جہاز کے کپتان نے کہا، ’’حیرت ہے۔ یہ جزیرہ میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ یہ چھوٹی چھوٹی گھاس پھوس بتاتی ہے کہ یہاں تازہ پانی بھی ہو گا۔‘‘
چنانچہ وہ جہاز کو ساحل کے قریب لے گیا۔ ہم میں سے کئی آدمی برتن لے کر اترے کہ پانی تلاش کریں۔ کچھ محض سیر کے لیے اترے۔ انہی کے ساتھ میں بھی کنارے پر گیا۔ سوچا کہ ذرا آگے جا کر جزیرے کی زمین دیکھ لوں۔ ٹہلتا ٹہلتا اپنے ساتھیوں سے کچھ دور چلا گیا۔
جزیرہ ہلنے لگا
کچھ ملّاح کھانا پکانے کے لیے ساحل پر آئے۔ گھاس پھوس جمع کر کے آگ جلائی۔ اچانک اس وقت دو عجیب و غریب باتیں ہوئیں۔ اوّل یہ کہ جزیرہ ہلنے لگا۔ مسافر حیران و پریشان ہو گئے۔ کپتان تجربے کار آدمی تھا۔ وہ فوراً چلّایا، ’’جلدی سے جہاز پر سوار ہو جاؤ۔ یہ جزیرہ نہیں، یہ تو حوت مچھلی ہے۔ جو برسوں سے پانی کی سطح پہ سو رہی تھی۔ تم نے جو آگ جلائی ہے۔ اس کی تپش سے جاگ اٹھی ہے۔ جلدی کرو، جلدی کرو۔‘‘
جو لوگ جہاز کے بالکل قریب ہی کنارے پر تھے وہ دوڑ کر اس میں سوار ہو گئے۔ میں لوگوں سے دور تھا۔ مجھے زیادہ فاصلہ طے کرنا تھا۔ میں سرپٹ دوڑا۔ لیکن جزیرہ جو صرف پہلے ہلا تھا۔ اب پانی کے اندر گھسے جا رہا تھا۔ ٹھیک اسی وقت آندھی آئی۔ اس نے جہاز کو دور لے جا پھینکا۔ پھر مجھے نہیں معلوم مجھ پر کیا گزری۔ جب مجھے ہوش آیا تو دیکھا میں پانی میں غوطے کھا رہا تھا۔ جزیرہ بھی غائب اور جہاز بھی غائب تھا۔ میں اپنے دل میں دعا مانگنے لگا، ’’اے اللہ! کیا میں بے گور و کفن سمندر میں تن تنہا ڈوب کر مروں گا۔ اے میرے اللہ مجھ پر رحم فرما۔‘‘
الله تعالی بڑا رحیم و کریم ہے۔ ادھر میں نے دعا مانگی ادھر پانی کی ایک لہر ایک بڑے برتن کو میرے قریب لے آئی۔ میں نے فوراً اسے پکڑ لیا۔ جان بچانے کا سہارا مل گیا، لیکن آزمائشیں ابھی باقی تھیں۔ سمندر کی لہریں مجھے اور میرے برتن کو پٹک پٹک کر ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر لے جاتی تھیں۔ زندگی اور موت کی آپس میں زبردست کشمکش جاری تھی۔ اسی حال میں رات گزر گئی۔ دن بیت گیا۔ پھر دوسری رات اور دوسرا دن گزر گیا۔ مایوسی بڑھتی جا رہی تھی۔ حوصلے پست ہوتے جا رہے تھے۔ انگلیاں سن اور بازو شل ہو گئے تھے۔ مجھے یہ ڈر کھائے جاتا تھا کہ کہیں برتن ہاتھوں سے نہ نکل جائے۔
زمین! زمین! میرے اللہ زمین
جب بھی مجھے ہوش آتا تو میں گڑگڑا کر دعا ضرور مانگتا تھا۔ ہوا کے تھپیڑے مجھے ساحل کی طرف لے گئے، لیکن میں خود اس بات سے بے خبر تھا۔ دراصل میرے جسم میں طاقت نام کو نہیں تھی۔ بار بار غشی کے دورے پڑ رہے تھے۔ ایک بار ہوش آیا تو دیکھتا ہوں کہ ایک درخت کے نیچے پڑا ہوں۔ پھر غشی کا دورہ پڑا۔ ایسی حالت میں کس کو دن اور وقت یاد رہ سکتا ہے، لیکن اندازے سے کہہ رہا ہوں کہ دو دن اسی حال میں بے خبر پڑا رہا۔ بزرگ کہتے ہیں کہ الله جو کرتا ہے اس میں بندے کی بہتری ہوتی ہے۔ اس طرح پڑے رہنے سے میری تھکن اور کوفت قدرے کم ہو گئی۔ پھر مجھے مشہور مثل یاد آ گئی، اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے۔ میں اٹھا کہ پانی اور غذا تلاش کروں۔ پیروں پر نظر پڑی تو داغ نظر آئے۔ شاید مچھلیوں نے جگہ جگہ کاٹا تھا۔ میں نے اپنے آپ سے کہا، ’’سندباد الله کا شکر ادا کرو اور آگے بڑھ کر تازہ پانی تلاش کرو۔ تازے پانی سے پیر دھوؤ گے تو یہ زخم ٹھیک ہو جائیں گے۔‘‘
میں اٹھا تو اٹھا نہ گیا۔ ایسا لگتا تھا کہ کسی نے لاٹھی سے میری چول چول ڈھیلی کر دی تھی۔ کبھی گھسٹ گھسٹ کر کبھی بازوؤں پر چل کر میں آگے بڑھتا رہا۔ طبیعت میں تازگی تو تھی نہیں کہ میں ادھر ادھر نظر دوڑاؤں۔ میں تو اندھے کی طرح چل رہا تھا۔ اچانک کسی چیز سے ٹکرایا دیکھا کہ ایک پھل دار درخت سے ٹکّر لگی ہے۔ نظر اٹھائی تو پاس ہی صاف شفاف پانی کی ندی بہہ رہی تھی۔
’’لاکھ لاکھ شکر تیرا، اے میرے پالن ہار۔‘‘ یہ ورد کرتے ہوئے میں نے ندی کا رخ کیا۔ گھونٹ گھونٹ پانی پی کر پیاس بجھائی۔ بدن میں کچھ تازگی آئی۔ پھر اپنے پیر دھوئے اور کچھ دیر سستانے کے بعد اس درخت کے پھل کھا کر میں وہیں سو گیا۔ میرا کئی روز تک یہی معمول رہا۔ اب ایسا لگتا تھا کہ بدن میں طاقت لوٹ آئی ہے اور پاؤں ٹھیک ہو گئے ہیں۔ میں اپنے آپ کو چاق و چوبند محسوس کرنے لگا۔ سچ تو یہ ہے کہ بے فکر زندگی گزارنے کو یہ بہترین جگہ تھی۔ لیکن پاؤں کے چکّر کا کیا علاج۔
اگرچہ یہ سمندر کا ساحل تھا اور یہ امید تھی کہ شاید کبھی کوئی جہاز یہاں آ جائے، لیکن میں اٹھا اور الله کا نام لے کر آگے بڑھا۔ خیال تھا کہ اگر یہاں ندی اور درخت ہیں تو آگے بھی ہوں گے۔ دن بھر چلتا رہا مگر ہو کا عالم تھا۔ نہ چرند نہ پرند، نہ ندی نہ درخت۔ پھر سے مجھ پر وحشت طاری ہونے لگی۔ پیچھے مڑوں کہ آگے بڑھوں، اسی کشمکش میں چلتا رہا۔ دنیا امید پر قائم ہے۔ کہاں بغداد جہاں آدمی پر آدمی ٹوٹا پڑتا تھا اور کہاں یہ سنسان بیابان جہاں کوئی آدم نہ آدم زاد۔
ویرانے میں ایک گھوڑا
میں سہما سہما چپکے چپکے چلا جا رہا تھا۔ سوچوں میں گم، ناظرین اپنے پیروں پر گری ہوئی کہ اچانک ہنہنانے کی آواز سنائی دی۔ سر اٹھا کر جو دیکھا تو ایک گھوڑا نظر آیا۔ یا الہی! اس ویرانے میں گھوڑا! گھوڑا بھی اس قدر خوبصورت! کیا سچ مچ کا گھوڑا ہے یا چھلاوا۔ اگر سچ مچ کا گھوڑا ہے تو یہاں کیسے آیا، کیا کھاتہ ہے، کہاں رہتا ہے۔ میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ ایک طرف سے گرج دار آواز آئی، ’’خبر دار! گھوڑے کو ہاتھ نہ لگانا ورنہ تیر تمہارے سینے کے پار نکل جائے گا۔‘‘
ایک آدمی بھاگتا ہوا میری طرف آیا۔ میں اسے دیکھ کر خوش بھی ہوا اور ڈرا بھی۔ میں نے کہا، ’’بھئی، معاف رکھنا۔ میں تو ایک مسافر ہوں۔ گھوڑے کو فقط ایک نظر دیکھا ہے۔ کیا نام ہے جناب والا کا؟‘‘
اس نے للکار کر کہا، ’’کون ہو تم اور یہاں کیوں اے ہو؟‘‘
میں نے کہا، ’’الله تعالیٰ کے رحم و کرم سے میں سمندر میں ڈوبنے سے بچ کر ساحل پر آ گیا۔‘‘ پھر میں نے اپنی آپ بیتی اس کو سنائی تو اسے اعتبار آیا۔ میرا ہاتھ پکڑ کر ایک غار میں لے گیا، مجھے پانی پلایا اور پھر کھانے کے دستر خون پر بٹھایا۔
اس نے کہا، ’’واقعی الله نے آپ پر برا کرم کیا ہے۔‘‘
ہم آپس میں باتیں کرنے لگے۔ باتوں کے دوران اس نے مجھے بتایا کہ ہر سال بادشاہ سلامت ایک ہفتے کے لیے اس جزیرے پر اپنے بہترین گھوڑوں کو بھیجتے ہیں۔ اس جگہ کی ہوا گھوڑوں کے لیے بہت عمدہ ہے۔ جزیرہ بالکل سنسان ہے، لیکن سرکار کے ملازم ضروری سامان اپنے ساتھ لاتے ہیں۔ ہفتہ بھر یہاں رہ کر گھوڑوں کو واپس لے جاتے ہیں۔
کچھ دیر کے بعد دوسرے ملازم بھی اپنے اپنے گھوڑے لے اے۔ انہوں نے بھی میری سرگزشت سنی۔ سب نے مجھ سے ہمدردی کی اور مجھے اپنے ساتھ لے جانے کی ہامی بھر لی۔
دوسرے دن ہمارا قافلہ وہاں سے چلا۔ سواری کے لیے انہوں نے مجھے بھی ایک خوبصورت گھوڑا دیا۔ راستے میں انہوں نے بتایا کہ ہمارا بادشاہ برا مہربان اور قدردان ہے۔ وہ ریا کو اپنی مہربانیوں سے خوش رکھتا ہے اور ریا اس پر جان چھڑکتی ہے۔ نزدیک اور دور سے لوگ ہمارے شہر میں آتے ہیں۔ شہر پہنچ کر ہم بادشاہ سے آپ کا ذکر کریں گے۔
جب ہم شہر پہنچے تو ملازموں نے بادشاہ تک خبر پہنچائی۔ میری طلبی ہوئی۔ انہوں نے توجہ سے میری دکھ بھری داستان سنی۔ ان کے حکم سے مجھے نیا لباس دیا گیا۔ میری امید سے بڑھ کر میری خاطر داری کی۔ چند دنوں میں بادشاہ کا مجھ ناچیز پر اعتماد قائم ہو گیا۔ میرے سپرد یہ ذمہ داری تھی کہ میں روزانہ بندر گاہ اور بازار جا کر تاجروں اور جہاز کے کپتانوں سے مل کر حال احوال معلوم کر کے بادشاہ کو با خبر رکھا کروں۔ میرے لیے یہ بڑا اعزاز تھا۔ میں روزانہ پہلے بندر گاہ جاتا۔ جہاز کے کپتانوں سے ملتا، ملاحوں سے باتیں کرتا اور پھر بازاروں میں تاجروں کا حال احوال معلوم کرتا۔ شام کو دربار میں بادشاہ کے سامنے اپنی کار گزاری پیش کرتا۔
ایک دن بندر گاہ پر ایک بڑا جہاز لنگر انداز ہوا۔ حسب معمول میں وہاں گیا۔ جہاز پر سوار تاجر مال اسباب بیچنے کے لیے باہر لائے۔ جہاز کے کپتان سے میری ملاقات ہو گئی۔ میں نے اس سے پوچھا، ’’کیا تمام مال فروخت کے لیے نکال لیا گیا ہے یا کچھ باقی ہے؟‘‘
کپتان نے کہا، ’’اور تو سب مال بازار چلا گیا ہے۔ چند صندوق باقی ہیں۔ یہ ایک نوجوان کے ہیں جس نے ہمارے ساتھ سفر کا آغاز کیا تھا، لیکن ایک حادثے کا شکار ہو گیا۔ خیال ہے کہ وہ ڈوب گیا ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ اس کا اسباب بیچ کر رقم بغداد لے جاؤں اور اس کے وارثوں کو دیدوں۔‘‘
میں نے غور سے دیکھا تو اسے پہچان لیا۔ میں نے پوچھا، ’’اس کا نام کیا تھا؟‘‘
کپتان نے کہا، ’’اس کا نام سندباد تھا۔‘‘
یہ سن کر پہلے تو میں ایک لمحے کے لیے سکتے میں آ گیا۔ پھر میں نے پورے زور سے ’’الله اکبر‘‘ کا نعرہ لگایا۔ کپتان ہکا بکا ہو کر میرا منہ دیکھ رہا تھا۔ میں نے اس سے کہا، ’’میں ہی تو سندباد ہوں۔ میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے ایمانداری سے میرے مال کی حفاظت کی۔‘‘
کپتان نے کہا، ’’بیشک آپ بھلے آدمی لگتے ہیں، لیکن اس کا کیا ثبوت ہے کہ آپ سندباد ہیں۔ سندباد تو ڈوب کر مر چکا ہے۔ ہم نے خود ان گناہ گار آنکھوں سے دیکھا ہے۔ میرے ملاح اور جہاز پر سوار تاجر سب اس بات کے گواہ ہیں۔‘‘
میں نے کپتان سے کہا، ’’جناب من، پہلے آپ میری سرگزشت سن لیجیے۔ پھر خود ہی فیصلہ کیجیے کہ کیا میں وہ نوجوان ہوں جس کا یہ مال ہے۔‘‘
میں نے بصرہ سے لے کر اس ہلنے والے جزیرے تک کے تمام حالات بیان کیے۔ یہاں تک کہ اسے وہ تمام باتیں یاد آ گئیں۔
کپتان نے کہا، ’’اس دنیا کے رنگ نیارے ہیں۔ وہ بڑا مہربان اور رحیم ہے۔ ہمیں اس بات پر یقین تھا کہ آپ ڈوب کر مر چکے ہیں اور آج آپ کی باتیں سن کر ہمارا اللہ پر یقین اور مضبوط ہو گیا ہے۔‘‘
اس نے مجھے میرا مال دے دیا ہے۔ میں نے اسے بیچا اور بادشاہ کے لیے ایک عمدہ تحفہ خریدا اور اسے اٹھو کر دربار میں لے گیا۔ بادشاہ دیکھ کر حیران رہ گیا۔ میں نے کپتان کی ایمانداری کا قصّہ سنایا۔ اس نے میرا تحفہ قبول کیا اور اس سے بڑھ چڑھ کر مجھے تحفہ دیا۔
بغداد کو واپسی
جب میرا جہاز بغداد روانہ ہونے لگا تو میں اس مہربان بادشاہ کے پاس گیا اور اسے بتایا، ’’آپ جیسے مہربان بادشاہ اور اس خوبصورت ملک سے جانے کو میرا دل تو نہیں کر رہا، لیکن وطن کی محبت سے میں مجبور ہوں اور آپ سے اجازت چاہتا ہوں۔‘‘
بادشاہ نے اجازت دے دی اور ساتھ ہی سونا چاندی، ہیرے جواہرات، قیمتی لباس اور کئی انمول چیزیں تحفے کے طور پر مجھے عطا کیں۔ آخر جہاز روانہ ہوا۔ طویل مسافت کے بعد ہم بغداد پہنچے۔ دوست احباب اور عزیز و اقارب سے مل کر بڑی خوشی ہوئی۔
انشاء اللہ میں کل آپ کو اپنے دوسرے سفر کا حال سناؤں گا۔
٭٭
دوسرا سفر
میرا جی تو یہ چاہتا تھا کہ میں اس امن و امان کے شہر بغداد میں ہمیشہ ہمیشہ رہوں اس لیے میں نے ایک نیا گھر خرید لیا۔ مجھے جو تحفے ملے تھے انہوں نے مجھے مالا مال کر دیا تھا۔ میرے پہلے سفر نے ایک تو میرے دل سے سفر کا ڈر نکال دیا تھا، دوسرے نئے نئے مقامات دیکھنے اور نئے نئے لوگوں سے ملنے کا زبردست شوق پیدا کر دیا تھا۔ اس کے ساتھ میں یہ بھی کہوں گا کہ میرا پاؤں گردش میں تھا، میری تقدیر میں مشکل سر کرنا اور مہم جیتنا لکھا تھا۔ لہذا میں نے اچھا مال خریدا اور ایک جہاز میں دوسرے سفر پر روانہ ہو گیا۔ بحری سفر کا لطف یہ ہے کہ آدمی ہر بندر گاہ پر رکتا ہے۔ نئے نئے شہر دیکھتا ہے۔ نئے نئے لوگوں سے ملتا ہے۔ کچھ خریدتا ہے کچھ بیچتا ہے اور پھر آگے چل دیتا ہے۔ اسی طرح ہم آگے بڑھتے گئے۔ کچھ دن کے بعد ہم ایک خوبصورت جزیرے میں پہنچے۔ پھلوں اور پھولوں سے لدے ہوئے درخت نظارے کی دعوت دے رہے تھے۔ ندیاں بہہ رہی تھیں۔ ہر طرف سبزہ اگا تھا۔ آدم نہ آدم زاد۔ یا الہی یہ کیا ماجرا ہے۔ ہم لوگ جہاز سے اترے، ٹولیوں میں ادھر ادھر پھیل گئے۔ ہر شخص یہ معلوم کرنا چاہتا تھا کہ یہ کیسی جادو نگری ہے۔ کچھ ملاح برتن لے کر پانی لینے گئے۔ میں بھی تاجروں کے ایک ٹولے کے ساتھ سیر کو نکلا۔ آگے ایک خوش نما باغ نظر آیا۔ ہرے بھرے درخت، پھولوں کی کیاریاں، خوشبوؤں کی لپیٹیں، اس منظر نے مجھے ایک جگہ بیٹھنے پر مجبور کر دیا۔ میرے ساتھی آگے نکل گئے۔ کچھ ایسا اتفاق ہوا کہ میں سو گیا۔
اور نیند کے بعد
میں جب نیند سے جاگا تو وہاں کوئی ملاح اور تاجر نظر نہ آیا۔ مجھے اپنے پہلے سفر کی مصیبتیں یاد آنے لگیں۔ اپنے آپ پر غصّہ آنے لگا۔ بغداد میں کتنی سکھ کی زندگی گزر رہی تھی۔ میں وہاں سے کیوں آیا۔
جو کچھ ہونا تھا وہ ہو چکا، اب پچھتانے کی کیا ضرورت۔ میں نے اپنے دل میں کہا، ’’بیٹھنے سے کیا فائدہ سندباد جہازی۔ اٹھو، مثل مشہور ہے کہ جو ڈھونڈتا ہے وہ پاتا ہے۔‘‘
میں ایک درخت پر چڑھ گیا کہ چھٹکارے کا کوئی راستہ دیکھوں۔ دور سمندر میں ایک جہاز جا رہا تھا۔ یہی میرا جہاز تھا جس پر سوار ہونے سے میں رہ گیا تھا۔ باقی جگہ سوائے درختوں کے اور کچھ نظر نہ آیا۔ البتہ دور مجھے ایک عجیب چیز نظر آئی، سفید سی اور اتنی بڑی جتنا کہ کسی عمارت کا گنبد ہوتا ہے۔ میں درخت سے نیچے اترا اور اس کی طرف روانہ ہوا۔ گھنٹوں چلا اور تھک کر چور ہو گیا۔ شام کو مشکل سے اس تک پہنچا۔ اب جو اسے غور سے دیکھتا ہوں تو ایک انڈا سا نظر آگیا۔ اگر گنبد ہوتا تو اس کے نیچے مکان ہوتا۔ کھڑکیاں اور دروازے ہوتے۔ ابھی میں اسے دیکھ ہی رہا تھا کہ اس کے اور میری نگاہ کے درمیان کوئی ایسی چیز آ گئی کہ اندھیرا سا چھا گیا۔
سیمرغ
میں نے اپنی آنکھیں ملیں اور غور سے دیکھا تو ایک بہت ہی بڑا پرندہ تھا۔ یہ رخ تھا جی سیمرغ بھی کہتے ہیں۔ میں نے ملاحوں سے اس کے بارے میں کی قصّے سن رکھے تھے۔ انہوں نے تو یہ بھی بتایا تھا کہ سیمرغ اتنا بڑا پرندہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے چوزوں کو ہاتھی کھلاتا ہے۔ اب حقیقت کھلی۔ وہ سفید گنبد اس کا انڈا تھا جس پر بیٹھنے کے لیے وہ آیا تھا۔ رخ اترا۔ انڈے پر بیٹھا اور ایسا لگتا تھا کہ وہ سو گیا ہے۔ نہ کوئی حرکت اور نہ آواز سنائی دیتی تھی۔ خواب کی طرح میرے دل میں یہ بات آئی کہ یہ عظیم پرندہ وادی وادی گھومتا ہو گا۔ کیوں نہ میں اس کے پنجوں سے لٹکا رہوں۔ میں نے اپنے سر سے پگڑی اتاری اور یہ تدبیر سوچی کہ میں کس طرح اپنے آپ کو اس کے پنجوں سے باندھوں۔ میں چپکے چپکے اس کے قریب گیا اور اس تدبیر کے مطابق میں نے اپنے آپ کو اس کے پنجوں سے باندھ دیا۔
میں رات بھر اسی طرح بندھا پڑا رہا۔ صبح ہوئی تو رخ اڑا اور میں بھی اس کے ساتھ بندھا آسمان کی سیر کرنے لگا۔ حیرت یہ ہے کہ اس رخ کو معلوم نہ تھا کہ میں اس کے پنجوں سے بندھا ہوں۔ رخ میدانوں، وادیوں، پہاڑوں، دریاؤں اور جزیروں پر سے اڑا جا رہا تھا۔ میں دم بخود یہ سب دیکھ رہا تھا۔ آخر وہ ایک ایسی وادی میں اترا جس کے دونوں اطراف دیوار کی طرح دو پہاڑیاں تھیں۔ مجھے یہ تو معلوم نہ تھا کہ رخ اس جگہ کیوں اترا، دیکھا کہ ماجرا یہ تھا کہ نیچے ایک بڑا سانپ رینگ رہا تھا۔ رخ اسے جھپٹ کر اوپر لے جانے کو اڑا۔ میں اندازے سے یہ سب کچھ بھانپ گیا۔ میں نے پگڑی کی گرہ کھولی اور
جونہی وہ سانپوں پر جھپٹا میں ایک طرف کودا اور یہ جا وہ جا۔ میں ایک بڑے پتھر کی اوٹ میں دبک کر بیٹھا رہا۔ رخ سانپ کو تنکے کی طرح آسمان میں لے گیا۔
ہیروں کی وادی
اس بھاگ دوڑ میں میں نے سو دو سو گز کا فاصلہ طے کیا ہو گا کہ کیا دیکھتا ہوں کہ مجھ سے اللہ جھوٹ نہ بلوائے تو کشتی کی جسامت کے کی سانپ رینگتے نظر آئے۔ میرے اللہ! مجھے بچانا! میں نے گڑگڑا کر دعا مانگی۔ صبح کا وقت، سورج چمک رہا تھا اور سانپ رینگ رینگ کر اپنے بلوں میں گھس رہے تھے، ایسا لگتا تھا کہ یہ مخلوق رخ کے ڈر سے دن کو اپنے بلوں میں چھپ جاتی ہے اور رات کو باہر نکلتی ہے۔
اس خیال سے کچھ ڈھارس بندھی۔ اب میں وادی کا سرا تلاش کرنے نکلا۔ زمین کچھ پتھریلی تھی۔ ٹھوکر کھائی تو چند ہیرے میرے پاؤں سے ادھر جا پڑے۔ غور سے دیکھا تو پوری زمین ہیروں سے بھری تھی۔ یہ ہیرے خاصے بڑے اور خوبصورت تھے، لیکن میرے کس کام کے۔ میں تو اپنی زندگی بچانا چاہتا تھا۔
چلتے چلتے شام ہو گئی۔ زندگی میں پہلا اور عجیب و غریب موقع تھا کہ میں ہیروں سے اٹی ہوئی زمین کو پامال کرتا چلا جا رہا تھا۔ شام ہوئی۔ سانپوں کا خوف پیدا ہوا۔ بلکہ سچ مچ سانپ نکلتے دیکھے۔ ابھی زیادہ اندھیرا نہیں تھا۔ پاس ہی ایک غار نظر آیا۔ میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، غار کے اندر چلا گیا اور اپنے ہوش و حواس کی مدد سے یہ تسلی کر لی کہ غار میں کوئی سانپ نہیں۔ پھر ایک بڑے پتھر کو کھسکا کر میں نے غار کا منہ اچھی طرح بند کر دیا اور اللہ کا نام لے کر سو گیا۔
ہیروں کے تاجر
اس غار نے میری جان بچائی۔ رات کو کئی بار میری آنکھ کھلی تو مجھے غار کے منہ پر پھنکاریں سنائی دیں۔ شاید سانپ میری بو پا چکے تھے، لیکن پتھر نے ان کا راستہ روک رکھا تھا۔ صبح ہوئی تو میں اس وقت کا انتظار کرتا رہا جب سانپ رخ کے ڈر سے بلوں میں گھس جاتے ہیں۔ کچھ دیر بعد میں نے جھانک کر دیکھا تو سب سانپ مجھے بلوں کی طرف رینگتے نظر آئے۔
پھر میں اندر چلا گیا اور بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر ہوئی تھی کہ مجھے دھڑام سے کسی چیز کے زمین پر گرنے کی آواز سنائی دی۔ میں نے پتھروں کی درز میں سے جھانکا۔ ایسا لگتا تھا کہ گوشت کا ایک بڑا لوتھڑا گرا ہے۔ اس کا رنگ سرخ تھا۔ مجھے وہ کہانیاں یاد آ گئیں جو جہاز کے ملاح ہیرے کی وادی کے بارے میں سنایا کرتے تھے۔ وہ بتاتے تھے کہ کسی کی کیا مجال کہ اس ہیروں کی وادی میں جائے۔ اس میں اتنے بڑے سانپ ہیں جتنی کشتی ہوتی ہے۔ لمبا چوڑا آدمی ان کا ایک نوالہ بنتا ہے۔ انسان تو کیا کوئی پرندہ بھی اس وادی کا رخ نہیں کرتا۔ لیکن حضرت انسان کی کیا کہیے۔ وہ کوئی نہ کوئی تدبیر سوچ کر اس وادی سے کچھ ہیرے نکال ہی لیتا ہے۔ ہیروں کے لیے اس وادی کے ایک طرف واقع اونچے پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ جاتے۔ وہاں وہ دنبے، بکرے وغیرہ کاٹتے اور ان کے گوشت کے بڑے بڑے لوتھڑے پہاڑ سے نیچے وادی میں گرا دیتے۔ گوشت کے لوتھڑے جب گرتے تو کوئی نہ کوئی ہیرا ان سے چپک جاتا۔ اس گوشت کو کھانے والے بڑے بڑے شکاری پرندوں نے پہاڑ کی چوٹیوں پر آشیانے بنا رکھے تھے۔ وہ اڑ کر جاتے اور وہ گوشت اچک کر آشیانوں میں لے آتے اور تاجر پھر شور مچا کر پرندوں کو اڑنے پر مجبور کر دیتے اور گوشت کو ٹٹول کر ہیرے نکال لیتے ہیں۔
میں ہیروں کی وادی میں تھا، لیکن ہیرے میرے کس کام کے۔ میں تو یہ سوچ رہا تھا کہ یہاں سے کیسے نکلوں۔ مجھے ایک پرندہ یہاں لایا، اس لیے اس بات کا زیادہ امکان تھا کہ کوئی پرندہ ہی الله کے حکم سے مجھے یہاں سے نکالے گا۔ انسان کچھ بھی ہو، لالچ اس کی فطرت میں ہوتی ہے۔ ایک طرف تو میں یہ کہتا تھا کہ مجھے زندگی پیاری ہے، بھاڑ میں جائیں ہیرے، دوسری طرف میں نے اپنی خُرجی (تھیلی) نکالی اور بڑے بڑے شفاف اور چمکدار ہیروں بھر لی پھر میں نے اپنی پگڑی اتاری، اپنی کمر کے گرد گھیرا دے کر کندھوں اور سر تک لے گیا اور اس سے گوشت کا ایک بڑا ٹکڑا باندھ لیا۔ میرا مقصد یہ تھا کہ جب کوئی پرندہ اس گوشت کو اچکے تو میں بھی اس کے ساتھ بندھا ہوا اوپر پہاڑ کی چوٹی تک جا پہنچوں گا۔
تھوڑی دیر بعد شکاری پرندے منڈلانے لگے۔ ایک پرندہ اس گوشت پر جھپٹا جو میرے سر پر رکھا ہوا تھا۔ اسے وہ لے کر اڑا اور ساتھ ہی مجھے اڑا لے گیا۔ پہاڑ کی چوٹی پر اس کا آشیانہ تھا۔ وہاں اس کے بچے منتظر تھے۔ ساتھ ہی تاجر بھی گھات لگائے بیٹھے تھے۔ پرندہ آشیانے میں اترا تھا کہ شور و غل ہوا۔ پرندہ گوشت چھوڑ کر پھر اڑ گیا۔ تاجر گوشت لینے آئے تو مجھے وہاں کھڑا پایا۔ گوشت کے خون سے میں لال ہو چکا تھا۔ میری شکل و صورت بھی عجیب نظر آ رہی تھی۔ مجھے دیکھ کر وہ ٹھٹھک گئے۔ میں نے کہا، ’’بھائیو! گھبرائیے نہیں۔ میں آدم زاد ہی ہوں۔ اس گوشت کے ساتھ یہ پرندہ مجھے بھی اٹھا لایا ہے۔ اس گوشت میں تو شاید کوئی ہیرا نہیں۔ ہاں میرے پاس کچھ ہیرے ہیں۔ میں تم میں سے ہر ایک کو ایک ایک ہیرا دوں گا۔ یہ ایک ہیرا اتنا بڑا ہو گا کہ کبھی تمہارے ہاتھ نہ آیا ہو گا۔‘‘
وہ میری بات سن کر بڑے خوش ہوئے اور کہنے لگے، ’’تم بہت ہی خوش قسمت انسان ہو ورنہ ہیروں کی وادی سے کبھی کوئی شخص زندہ نہیں لوٹا۔‘‘
میں نے کہا، ’’یہ سب الله کا کرم ہے۔‘‘
ان تاجروں کی مدد سے میں نے اپنے باقی ہیرے شہر جا کر بیچے اور ایک جہاز میں سوار ہو کر بخیر و عافیت بغداد پہنچ گیا۔
ساتھیو! کل میں تمہیں اپنے تیسرے سفر کا حال بتاؤں گا۔
٭٭
تیسرا سفر
پہلے اور دوسرے سفر میں جب مجھے تکلیفیں پیش آتی تھیں تو میں کہتا تھا کہ پھر کبھی سفر کو نہ نکلوں گا، لیکن اس بار تو میں چند ہفتے بھی گھر میں نہ گزار سکا۔ رہ رہ کر طبیعت میں خیال آتا تھا کہ چلو الله کی عجیب و غریب دنیا کو دیکھوں۔ آخر سامان سفر تیار کر کے تیسری مرتبہ پھر ایک جہاز میں سفر کے لیے نکلا۔ جہاز بندر گاہوں پر رکتا ہوا آگے بڑھتا رہا۔ ہم ہر بندر گاہ پر خرید و فروخت اور نفع کماتے۔
ایک دن ہم خوش و خرم بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ آندھی آئی اور جہاز کو دھکیلتی چلی گئی۔ آندھی تھی یا قیامت، چار دن تک جہاز اس کے تند و تیز جھونکوں میں تنکے کی طرح اڑتا چلا گیا۔ ہوا رکی تو دیکھا ہم ایک جزیرے کے پاس ہیں۔ کپتان آیا۔ اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ کہنے لگا، ’’آندھی ابھی ختم نہیں ہوئی۔ ذرا دھیمی ہوئی ہے، لیکن جہاز کے لیے یہ سخت ناموافق ہے۔ بہتر ہے یہیں رک جاؤ۔ اس جزیرے کو میں جانتا ہوں۔ یہاں کے لوگ ٹھنگنے ہیں۔ ان کی شکلیں بندروں کی طرح ہیں۔ وہ ہزاروں کی تعداد میں جہاز پر چڑھ آتے ہیں۔ اگر انہیں روکا جائے تو مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں۔ اس لیے یاد رکھیے ان سے ٹکّر نہیں لینی۔‘‘
بندر انسان
کپتان نے جہاز کو جزیرے کے ساتھ لگایا تو ہزاروں کی تعداد میں بندر انسان اوپر چڑھ آئے۔ آگے پیچھے، عرشے پر اور نیچے ہر جگہ وہ پھیل گئے۔ تاجر اور ملاح جہاز چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے وہ بندر انسان جہاز کو جزیرے کے ایک اور جانب لے گئے۔ یہ منظر دیکھ کر ہم سوچنے لگے کہ کیا کیا جائے۔ ایک ملاح ایک درخت پر چڑھا۔ اسے دور پتھر کا ایک مکان نظر آیا۔ اس نے کہا، ’’کیا خیال ہے۔ ہمارے لیے وہ مکان ٹھیک رہے گا۔‘‘
ہم اور کر ہی کیا سکتے تھے۔ ادھر کا رخ کیا۔ تھوڑی دیر میں وہاں پہنچ گئے۔ دروازے کے اندر جھانکا تو ایک کمرہ خالی پڑا تھا۔ ہم اندر چلے گئے۔
آدم خور دیو
ملاحوں سے میں ایک آدم خور دیو اور اس پتھر کے مکان کی کہانی سن چکا تھا۔ وہاں جا کر معلوم ہوا کہ یہ تو بالکل ویسا ہی مکان ہے۔ اتنے میں دیو بھی آ گیا۔ اس نے دروازہ بند کر دیا تاکہ کوئی باہر نہ نکل سکے۔ اگرچہ اس کی شکل انسانوں جیسی تھی، لیکن اس کا قد کسی بڑے تناور درخت کے برابر تھا۔ آنکھیں انگاروں کی طرح دکھ رہی تھیں۔ اس نے کمرے میں رکھے ہوئے ایک صندوق سے ایندھن نکال کر آگ جلائی اور پھر ہم سب پر نظر ڈالی، پہلے اس نے مجھے اٹھایا، ٹٹولا اور دیکھا کہ موٹا تازہ نہیں۔ میں یہ دیکھ کر دنگ رہ گیا کہ اس کی انگلی مجھ سے زیادہ موٹی تھی۔ اس نے مجھے فرش پر رکھ دیا۔ پھر ایک اور آدمی کو اٹھایا۔ اس طرح اس نے سب کو ٹٹولا اور آخر کار ایک کو چن لیا۔ اس شخص کو آگ پر بھونا اور پھر مزے مزے سے کھایا۔ پھر آگ کے پاس ہی لیٹا رہا اور سو گیا۔
دوسرے دن وہ کمرے سے نکلا تو دروازے کو بند کرتا گیا۔ رات کو پھر سے کل کی طرح اس نے ہم سب کو باری باری ٹٹولا اور ایک کو چن کر بھونا اور کھا گیا۔
اگلی صبح جب دیو باہر گیا تو ہم سب نے سوچنا شروع کیا کہ اس ظالم سے چھٹکارا پانے کی کوئی تدبیر سوچنی چاہیے ورنہ ہم سب اس کا لقمہ بنیں گے۔ وہ اتنا بڑا تھا کہ ہم سب اس کے ایک بازو کو بھی مروڑ نہیں سکتے تھے۔ میں نے اپنے ساتھیوں کو ایک تجویز بتائی جو ہم سب کو پسند آئی۔
شام کو وہ آیا۔ اس نے معمول کے مطابق ایک آدمی چنا اور اسے آگ پر بھون کر کھا گیا۔ اب ہم نے چھٹکارے کی سوچی سمجھی اسکیم پر عمل شروع کیا۔ دو آدمیوں نے لوہے کی کچھ سلاخیں آگ پر سرخ کیں۔ دوسرے دو آدمیوں نے جلتی لکڑیوں سے دروازے میں راستہ بنایا۔ باقی آدمی کمرے میں رکھے ہوئے بڑے صندوق کو بڑی خاموشی سے اکھاڑنے میں لگ گئے تاکہ اس سے کسی نہ کسی قسم کی کشتی بنا لی جائے۔ سب چیزیں تیار ہو گئیں۔
ہم نے بڑی دلیری سے لوہے کی گرم گرم سلاخیں دیو کی آنکھوں میں گھسیڑ دیں اور پھر صندوق کے تختے اٹھا کر ہم سب سمندر کی طرف سرپٹ بھاگے۔ دیو نے زبردست شور مچایا۔ ہم نے ان تختوں سے بیڑا بنایا اور سمندر میں اتر کر اس پر بیٹھ کر پتواروں سے اسے کھینے لگے۔ اتنے میں کیا دیکھتے ہیں کہ دیو کو اس کے دو دوست کنارے کی طرف لا رہے ہیں۔
انہوں نے ہمیں دیکھا تو بڑے بڑے پتھر اٹھا کر پھینکنے لگے۔ ہر پتھر اتنا بڑا تھا جتنا ایک چھوٹا مکان ہوتا ہے۔ اتفاق سے پہلا پتھر تو ہم سے دور گرا، لیکن دوسرا ہمارے قریب گرا اور کچھ لوگ اس کی زد میں آ کر مر گئے۔ خوش قسمتی سے چند آدمی بچ گئے۔ جن میں میں بھی شامل تھا۔
پھر تیز و تند ہوا چلنے لگی۔ سمندر میں موجیں اٹھنے لگیں۔ کئی دنوں تک ہم موجوں کے تھپیڑے کھاتے بہتے جا رہے تھے۔ ہمیں کچھ معلوم نہیں تھا کہ کہاں جا رہے ہیں۔ آخر ایک دن ہم ایک جزیرے پہ جا لگے۔
ایک اژدہا
ہم اس جزیرے پر صرف تین آدمی زندہ بچ سکے تھے۔ جہاز کے تمام ملاح اور تاجر یا تو اس دیو کا لقمہ بن گئے تھے یا اس کی پھینکی ہوئی چٹانوں سے کچل کر مر گئے تھے۔ جزیرے پر کئی درخت نظر آئے، ایک ندی بھی دیکھی۔ ہم جس جگہ اترے تھے اس کے قریب درختوں پر سے پھل چن کر بھوک مٹائی، ندی کا پانی پیا اور سو گئے۔
اچانک ہمیں ’’ہس ہس‘‘ کی سی آواز سنائی دی۔ آنکھیں کھولیں تو دیکھا کہ ایک اژدہا ہم سب کو اپنی کنڈلی میں گھیرے ہوئے ہے۔ تھوڑی دیر ہوئی، اس نے ہم میں سے ایک کو نگل لیا۔ اس کی چیخیں سنائی دیتی رہیں، لیکن ہم کیا کر سکتے تھے۔ رات بھر وہ وہیں رہا۔ ہم ڈر کے مارے ہل تک نہ سکے۔
صبح ہوئی تو وہ کہیں چلا گیا۔ ہم سخت پریشان تھے کہ کیا کریں۔ شام کو آ کر وہ ایک اور آدمی کو نگلے گا۔ بھوک ستا رہی تھی۔ ہم نے کچھ پھل کھائے، پانی پیا اور پناہ کی تلاش میں نکلے۔ دن بھر کی بھاگ دوڑ کے باوجود کوئی پناہ نہیں ملی۔ سوچا کہ کسی بڑے اور اونچے درخت پر بیٹھے رہنا چاہیے۔ چنانچہ ہم ایک درخت پر چڑھ گئے۔ رات کو اژدہا ہماری تلاش میں آیا۔ اس نے ہمارے درخت کو ڈھونڈ لیا۔ میں تو درخت کی چوٹی پر تھا، میرا ساتھی مجھ سے نیچے تھا۔ اژدہے نے بلند ہو کر اسے دبوچ لیا اور میں اس بےچارے کی چیخ و پکار سن کر اپنا کلیجہ مسوس کر رہ گیا۔
اب کیا ہو گا
صبح ہوئی تو اژدہا کہیں چلا گیا۔ میں تن تنہا رہ گیا۔ یہ بات یقینی تھی کہ اگر میں نے بچاؤ کے لیے کچھ نہیں کیا تو آج رات میری باری ہو گی اور میں اس بے رحم اژدہے کا لقمہ بن جاؤں گا۔ میں سوچتے سوچتے سمندر کے کنارے جا نکلا۔ میری خوش قسمتی تھی کہ وہاں بندر انسان نہیں تھے۔ میں کنارے کے ساتھ ساتھ چلا کہ ہو سکتا ہے کوئی ایسی چیز مل جائے جس کے ذریعے سے میں سمندر میں تیر سکوں۔ اتفاق سے کچھ تختے پڑے مل گئے۔ یہ اس جہاز کے تھے جسے بندر انسان دوسری طرف لے گئے تھے۔ میں نے رسیوں سے ان تختوں کو اس طرح جکڑا کہ ایک صندوق سا بن گیا۔ اسی کام میں شام ہو گئی۔ اب اژدہے کی پھنکار سنائی دی۔ میں نے خود کو صندوق میں بند کر لیا۔ اژدہا اپنا منہ صندوق کے چاروں طرف گھماتا رہا، لیکن لکڑی کے تختوں کی وجہ سے وہ مجھے اپنے منہ میں دبوچ نہیں سکتا تھا۔ وہ چلا گیا۔ میں صبح اس صندوق سے باہر نکلا اور اسے مضبوط کیا۔ پھر کچھ پھل اور پانی لے کر اس میں رکھ لیا اور اس کو پانی میں اتار کر خود اس میں بیٹھ گیا۔ چل میری کشتی چل۔
جان ہے تو جہاں ہے
بند صندوق میں سمندر کا سفر۔ الله کی پناہ۔ اوپر چلچلاتی دھوپ تھی اور نیچے موجوں کے تھپیڑے۔ سمندر میں کوئی دیوار تو ہوتی نہیں کہ کہیں میں رکتا، موجیں کبھی صندوق کو ادھر لے جاتیں کبھی ادھر۔ میں ہوا اور موجوں کے رحم و کرم پر تھا۔ خوش قسمتی سے میرے پاس سے گزرتے ہوئے ایک جہاز کے ملاحوں نے مجھے دیکھ لیا۔ وہ جہاز کو قریب لائے اور مجھے اس آفت سے نکال کر اپنے ساتھ لے گئے۔ مجھے ہوش آیا تو لوگ میرے ارد گرد جمع تھے۔ میں نے اپنی درد بھری بیتی سنائی۔ کپتان، ملاحوں اور تاجروں نے بڑا دلاسا دیا اور کہا کہ وہ مجھے بغداد پہنچا دیں گے۔ لیکن ابھی تجارتی سفر باقی ہے، کئی بندر گاہوں پر جانا ہے۔ کچھ مال فروخت کرنا ہے اور کچھ خریدنا ہے۔ انشاءاللہ ان شہروں سے ہو کر ہم بصرہ جائیں گے۔
میری خوب تواضع کی گئی۔ چند دنوں میں میری کمزوری دور ہو گئی۔ اتنے میں جہاز ایک بندر گاہ پر پہنچ گیا۔ تاجروں نے اپنا مال کنارے پر اتروایا تاکہ خرید و فروخت کریں۔ جہاز کے کپتان نے اپنے ملاحوں سے کہا، ’’دیکھو، یہیں سندباد کا مال بھی اتار دو۔ میں چاہتا ہوں کہ اسے بیچ کر اس کی رقم بغداد سندباد کے وارثوں کو پہنچا دوں۔‘‘
میں نے اس کی یہ بات سنی تو حیران رہ گیا۔ یقین نہیں آتا تھا کہ یہ وہی جہاز ہے۔ میں نے کپتان سے پوچھا، ’’جناب کپتان صاحب! کیا اس کے مال پر فلاں نشان بنا ہوا ہے؟‘‘
اس نے جواب دیا، ’’ہاں، لیکن آپ کو یہ کیسے معلوم ہے۔ سندباد تو رخ پرندے والے جزیرے پر الله کو پیارا ہو گیا تھا۔ اس بات کو ایک مدّت گزر چکی ہے۔‘‘
میں نے اسے بتایا کہ میں ہی سندباد جہازی ہوں۔ اپنے مال کی مزید نشانیاں بتائیں۔ اتنے میں سب ملاح ہمارے گرد جمع ہو گئے۔ وہ مجھے حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ میں نے ساری داستان انہیں سنائی۔ تب انہیں یقین آ گیا کہ سندباد میں ہی ہوں۔ میں بھی اپنا سامان اتروا کر منڈی لے گیا۔ میں نے سارا مال بیچا اور خوب نفع کمایا۔ اس رقم سے میں نے ایسا مال خریدا جو بغداد میں اچھی قیمت پر بک سکے۔
جہاز مزید ایک دو بندر گاہوں پر رکا۔ وہاں بھی خرید و فروخت ہوئی اور الله تعالی کی مہربانی سے مجھے تجارت میں خوب فائدہ ہوا۔ آخر ایک دن ہم بصرہ پہنچ گئے۔ وہاں سے میں بغداد گیا اور پورے مال کو اچھے خاصے منافع پر بیچ دیا۔ ایک بار پھر میں مال و دولت کا مالک ہو گیا۔
دوستو! اگر زندگی رہی تو کل میں آپ کو اپنے چوتھے سفر کا حال سناؤں گا۔
٭٭
چوتھا سفر
ایک دن کچھ تاجر دوست میرے ہاں آئے۔ باتوں باتوں میں بحری سفر کا ذکر آیا۔ اس سے ایک بار پھر میرے دل میں شوق کی آگ بھڑک اٹھی۔ یہ وہ آگ ہے جو بجھے نہیں بجھتی۔ دوسرے ہی دن میں نے تیاریاں شروع کر دیں۔ چند دنوں میں میں مال لے کر بصرہ جا پہنچا اور ایک جہاز میں سوار ہو کر یہ جا وہ جا۔ مشرق ہمیشہ میرے لیے جادو کی سرزمین رہی ہے۔ وہاں کے جزیرے، ان دیکھے لوگ، انوکھی چیزیں، انوکھے رسم و رواج۔ وہ لوگ جو عجیب و غریب باتوں کی تلاش میں رہتے ہیں، بحری سفر ان کی پیاس بجھاتے ہیں۔
ہم وطن سے بہت دور کھلے سمندر میں رواں دوں تھے کہ ایک دن زور کی آندھی آئی اور جہاز ایسا پلٹا کہ ہم سب پانی میں جا گرے۔ جہاز ڈوبنے لگا۔ میں نے اپنے دل میں کہا، ’’سندباد، بہت جی لیا تو اب، لیکن آج تیری موت تیرے سر پر کھڑی ہے۔‘‘
ادھر میں نے یہ بات سوچی ادھر ایک تختہ میری طرف بہہ کر آ گیا اور میں اچھال کر اس پر سوار ہو گیا۔ میں نے اس تختے پر بیٹھ کر اوروں کی مدد کی اور وہ بھی کسی نہ کسی لکڑی کے ٹکڑے سے چمٹ گئے۔
یوں بھی ہوتا ہے
اگلے دن ہم موجوں کے تھپیڑوں کے رحم و کرم پر بہتے چلے گئے۔ آخر خشکی کے ایک کنارے پر جا لگے۔ ہم میں سے کسی میں اتنا دم نہیں تھا کہ وہ اپنی جگہ سے ہل سکے۔ ساری رات کنارے پر ہم بے حس و حرکت پڑے رہے۔ سورج نکلا تو ہم اٹھے۔ ابھی سوچ ہی رہے تھے کہ کیا کریں کہ کچھ وحشی وہاں آ گئے۔ وحشی میں نے اس لیے کہا ہے کہ ان کی شکل انسانوں جیسی تھی ورنہ تھے وہ جانور، نہایت بد شکل، بھدّے اور گھناؤنے۔ انہوں نے ہمیں تھپڑ اور چانٹے مار مار کر کھڑا کیا اور جانوروں کی طرح ہانکتے اپنے بادشاہ کے پاس لے گئے۔ بادشاہ نے ان سے کچھ بات کی۔ انہوں نے ہمیں زمین پر بٹھایا۔ ہمارے لیے کھانا لایا گیا۔ یہ کھانا دیکھ کر مجھے تو متلی ہونے لگی۔ جنہوں نے یہ کھانا کھایا وہ جادو میں آ گئے۔ اب ان کی بھوک ہی ختم ہونے کا نام نہ لیتی تھی۔ اس وقت مجھے یاد آیا کہ میں ان وحشیوں کی کہانیاں پہلے سن چکا ہوں۔ جب وہ دوسرے ملکوں کے لوگوں کو پکڑ کر لاتے ہیں تو انہیں یہی غذا دیتے ہیں۔ کھانے والوں کا پیٹ نہیں بھرتا۔ وہ کھاتے ہی چلے جاتے ہیں۔ اس طرح وہ موٹے ہو جاتے ہیں اور پھر ان وحشیوں کا لقمہ بنتے ہیں۔ میں نے اپنے ساتھیوں کو اشارہ کیا کہ وہ کھانا بند کریں، لیکن ان پر جادو چل چکا تھا اور وہ نہ رک سکے۔
میں جی ہی جی میں کڑھتا رہا کہ کس طرح اپنے ساتھیوں کی جان بچاؤں، لیکن وہ وحشی ہر وقت ان کے گرد جمع رہتے تھے اور ہر وقت انہیں کھلاتے ہی رہتے تھے۔ آخر میں نے سوچا کہ اگر میں ان کے لیے کچھ نہیں کر سکتا تو اپنی جان بچانا مجھ پر فرض ہے۔ چنانچہ ایک دن میں ان سے آنکھ بچا کر ایک درخت کے نیچے چھپ گیا، پھر موقع پا کر جنگل کے اندر گھس گیا۔ وہاں مجھے ایک پھل نظر آیا جسے میں جانتا تھا۔ میں نے اس سے پیٹ بھرا اور اپنی جان بچانے کے لیے جتنا تیز چل سکتا تھا چلنے لگا۔ سات دن تک میں چلتا رہا، لیکن کہیں بھی مجھے کوئی انسان یا جانور نظر نہ آیا۔
ساتویں دن ایک جگہ مجھے کچھ انسان نظر آئے۔ میری جان میں جان آئی۔ میں ان کی طرف بڑھا۔ ان لوگوں نے مجھے دیکھا تو اپنی تلواریں سونت لیں۔ میں نے بلند آواز میں کہا، ’’اللہ کے واسطے میری بات تو سنو۔‘‘
وہ میرے نزدیک آئے تو میں نے اپنی روداد بیان کی۔ ان میں سے ایک شخص نے کہا، ’’آج تک تمہارے علاوہ کوئی اور آدمی ان وحشیوں سے بچ کر نہیں آیا۔‘‘
اب میں ان کے ساتھ رہنے لگا۔ یہ لوگ ایک اور جزیرے کے تھے۔ وہ اپنے جزیرے کو چلے تو مجھے بھی اپنے ساتھ لے گئے۔ ان لوگوں نے اپنے بادشاہ سے میرا ذکر کیا۔ دربار میں میری طلبی ہوئی۔ میں نے اپنے بارے میں اور جو کچھ مجھ پر بیتی تھی، اس کا حال بیان کیا۔ بادشاہ نے بڑی دلچسپی سے سنا۔ روزانہ میری طلبی ہوتی اور روزانہ بادشاہ طرح طرح کے سوالات پوچھتا اور غور سے سنتا۔
اس بادشاہ کا جزیرہ خوشحال تھا۔ بادشاہ اور اس کی تمام رعیت گھوڑوں پر سوار ہوتی تھی، لیکن زین کے بغیر۔ میں سمجھ گیا وہ زین سے قطعی ناواقف ہیں۔ ایک دن میں نے زین کا ذکر بادشاہ سے کیا تو اس نے پوچھا، ’’زین کیا چیز ہے؟‘‘
میں نے کہا، ’’بادشاہ سلامت! میں ایک زین بنا کر لاؤں گا تب آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ زین کیا ہے۔‘‘
میں نے ایک اچھی سی زین تیار کی۔ بادشاہ اسے استعمال کر کے بہت خوش ہوا۔ اس کے بعد اس کے تمام امرا نے یہ خواہش ظاہر کی کہ میں ان کے لیے زینیں بناؤں۔ چنانچہ میں نے بے شمار زینیں تیار کر کے انہیں دیں۔ سب نے مجھے انعامات سے نوازا اور میں خاصا دولت مند ہو گیا۔
شادی خانہ آبادی
ایک دن بادشاہ نے مجھے بلوایا اور کہا، ’’میں اور میری رعیت تمہیں اپنا سمجھتی ہے۔ تم بھی اپنی اپنائیت ثابت کرو۔‘‘
میں نے عرض کیا، ’’میں اپنے آپ کو آپ کی رعیت میں شمار کرتا ہوں۔ فرمائیے کیا حکم ہے۔‘‘
بادشاہ نے کہا کہ میرے ایک درباری کی ایک حسین و جمیل اور مالدار بیٹی ہے۔ تم اس سے شادی کر لو۔ میں نے ہاں کر دی۔ دو چار دنوں میں میری شادی ہو گئی۔ جیسا کہ بادشاہ نے مجھے بتایا تھا، میری بیوی ایک حسین عورت تھی جو مجھ سے محبت کرتی تھی۔ ہم ہنسی خوشی رہنے لگے۔
ایک دن میری بیوی کے ایک رشتے دار کی بیوی فوت ہو گئی۔ میں تعزیت کے لیے اس کے گھر گیا۔ وہ بے چارا بڑا پریشان تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ بیوی کا غم اسے کھائے جا رہا ہے۔ میں نے اس سے کہا، ’’دیکھو بھئی تقدیر نہیں ٹلتی۔ جس کی موت آتی ہے وہ مرتا ہے۔ مجھے آپ کی بیوی کے مرنے کا سخت صدمہ ہوا ہے۔ آپ صبر کریں۔ اللہ تعالی اس کے اجر میں آپ کو ایک اور نیک سیرت اور خوبصورت بیوی دے گا۔‘‘
مُردوں کا غار
اس نے کہا، ’’تم نہیں جانتے ہماری رسم کیا ہے۔ جب مرد مرتا ہے تو اس کے ساتھ اس کی بیوی کو بھی مُردوں کے غار میں دھکیل دیتے ہیں اور جب بیوی مرتی ہے تو اس کے شوہر کا بھی یہی حشر ہوتا ہے۔‘‘
میں نے کہا، ’’یہ رسم تو بری رسم ہے۔‘‘
مگر رسم قانون کا درجہ رکھتی ہے۔ اسی شام لوگ اسے اور اس کی بیوی کی لاش کو شہر کے باہر ایک غار میں لے گئے۔ غار کے منہ سے ایک پتھر ہٹا کر لاش کو اندر پھینک دیا گیا۔ پھر انہوں نے میرے دوست کو رسیوں سے باندھ کر غار میں اتار دیا۔ غار کے سامنے ایک بڑے پتھر کو جما دیا گیا اور سپاہی پہرے پر کھڑے ہو گئے۔
یہ بڑی درد ناک بات تھی۔ میں نے بادشاہ سے اس کا ذکر کیا۔ اس نے کہا، ’’یہ بڑی قدیم رسم ہے اور میں بھی اسے تبدیل نہیں کر سکتا۔‘‘
آج نہیں تو کل تیری باری ہے
پھر خود میری پیاری بیوی مختصر سی بیماری کے بعد چل بسی۔ لوگ آئے اور اس کی لاش مُردوں کے غار کی طرف لے گئے۔ پھر میری باری آئی، میں نے احتجاج کی آواز بلند کی یعنی یہ جواز پیش کیا کہ میں اس ملک کا نہیں، اس لیے مجھ پر اس قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔
انہوں نے کہا، ’’ہمّت نہ ہارو۔ تم ہم میں سے ایک ہو۔‘‘
وہ مجھے باندھ کر وہاں لے گئے اور غار میں اتار دیا۔ میں نے بڑی عاجزی سے اللہ تعالی سے دعا مانگی، ’’اے میرے اللہ میں مصیبت میں پھنس گیا ہوں۔ مجھے وہ اپنے قانون کی بھینٹ چڑھا رہے ہیں۔ اے میرے اللہ! تو مجھے بچا لے۔‘‘
مجھے غار میں کچھ چمک سی نظر آئی۔ دراصل وہ لوگ تمام جواہرات مُردے کے ساتھ غار میں پھینک دیتے ہیں۔ میں نے دیکھا غار میں ہر طرف جواہرات بکھرے پڑے تھے۔ لوگوں کو رسیوں سمیت نیچے ڈال دیا جاتا تھا۔ اس لیے وہاں رسیاں بھی پڑی تھیں۔ پھر میں نے وہاں کچھ حرکت محسوس کی۔ میرے خیال کے مطابق کوئی لومڑی تھی۔ میں نے کوشش کی اسے پکڑوں، مگر اس نے مجھے کاٹا اور بھاگ گئی۔
لومڑی سے چھٹکارے کا ذریعہ
میں نے سوچا کہ اگر لومڑی اندر آتی ہے تو اس غار کے اندر کوئی اور خفیہ راستہ بھی ہو گا۔ لومڑی ایسی ذات ہے کہ ہیرا پھیری سے نہیں رکتی۔ وہ پھر آئے گی اور ضرور آئے گی۔ میں رسّی لے کر اس کی تاک میں بیٹھا کہ اسے قابو کروں گا۔ آخر وہ میرے قابو میں آ گئی اور میں نے اسے رسّی سے جکڑ دیا اور رسّی کا ایک سرا اپنے ہاتھ میں رکھا۔ وہ ایک طرف بھاگی اور ایک سوراخ کو پہنچی۔ معلوم ہوا سوراخ تنگ ہے، لومڑی تو گزر سکتی ہے میں نہیں گزر سکتا۔ میں دن بھر اس سوراخ کو چوڑا کرنے میں مصروف رہا اور آخر باہر نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔
باہر نکلا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میں ایک پہاڑ کے دامن میں سمندر کے کنارے پر کھڑا ہوں۔ اس مقام کے متعلق مجھے کچھ معلومات تو حاصل تھیں، لیکن میں نے اسے دیکھا نہ تھا۔ جس ڈھلان کے نیچے میں کھڑا تھا وہ دیوار کی طرح عمودی تھی۔ نہ تو کوئی اوپر سے نیچے آ سکتا تھا اور نہ کوئی نیچے سے اوپر جا سکتا تھا۔ قریب ہی ایک ندی سمندر میں گر رہی تھی اور ایک پھل دار درخت بھی تھا۔ میں نے پانی پیا، پھل کھائے اور سوچنے بیٹھ گیا۔ ایک ترکیب سمجھ میں آئی وہ یہ تھی کہ یہاں سے ضرور کوئی جہاز گزرے گا، اس لیے اس کا انتظار کیا جائے۔ دوسری بات یہ سوچی کیوں نہ اس غار سے ہیرے جواہرات لائے جائیں۔ اگرچہ اس میں خطرہ بڑا تھا۔ میرے پاس کچھ رسّیوں کے ٹکڑے تھے۔ میں نے سوچا اگر میں سب کو جوڑ کر ایک لمبی رسّی بنا لوں تو غار میں اترنا اور اس سے باہر نکلنا آسان ہو جائے گا۔
چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا۔ کئی بار غار میں اترا اور ڈھیروں جواہرات نکال لایا۔ غار سے کپڑے لا کر ایک بوری بنائی اور اس کو جواہرات سے بھر لیا۔ اب مناسب یہی تھا کہ میں کسی جہاز کا انتظار کروں۔
آخر ایک دن ایک جہاز آ ہی گیا اور یہ حقیقت کھلی کہ جہاز اس ندی سے تازہ پانی بھرنے کے لیے آتے ہیں۔ میں نے کپتان سے بات چیت کی لیکن سارا بھید اسے نہیں بتایا۔ میں نے اسے بتایا کہ میں کس مصیبت میں ہوں۔ اگر تم مجھے بچا لو تو میں تمہیں اس کا صلہ دوں گا۔ اس نے کہا کہ ہم مصیبت زدہ لوگوں کو بچانے کی اجرت نہیں لیتے۔ اس کا اجر ہمیں اللہ دے گا۔ چنانچہ وہ مجھے بخیر و عافیت وطن لے آیا۔
اب کی بار میں نے ارادہ کیا کہ پھر کبھی بحری سفر نہیں کروں گا، لیکن دوستو! آدمی ارادے کرتا ہے اور پھر توڑ دیتا ہے۔ کل، بشرط زندگانی میں اپنے پانچویں سفر کا حال بیان کروں گا۔
٭٭
پانچواں سفر
میری ایک عادت ہے کہ میں خوشیوں کو تو یاد رکھتا ہوں، دکھوں کو بھول جاتا ہوں۔ ایک دن میں بصرہ گیا۔ دیکھا کہ ایک نیا جہاز بن رہا ہے۔ مجھے وہ جہاز بہت پسند آیا۔ میں نے اسے خرید لیا۔ جلد ہی کئی تاجر بھی مل گئے اور ہم بحری سفر کو روانہ ہو گئے۔ ملک ملک، شہر شہر، بندر گاہ بندر گاہ ہم سفر کرتے گئے۔ ہر جگہ کچھ مال بیچا، کچھ خریدا، کئی نئے مقامات دیکھے۔ کئی نئی باتیں معلوم ہوئیں۔
ایک سن ہم ایک جزیرے میں پہنچے۔ جزیرہ خاصا بڑا تھا، لیکن نہ تو س میں کوئی آدمی نظر آیا اور نہ درخت اور ندیاں نظر آئیں۔ دوسرے تاجر جہاز سے اتر کر ساحل پر چہل قدمی کرنے گئے۔ انہیں ایک گنبد نما چیز نظر آئی جو سفید تھی۔ میں نے انہیں منع کیا، ’’اسے ہاتھ نہ لگانا۔ یہ رخ پرندے کا انڈا ہے، جلدی سے جہاز میں سوار ہو جاؤ۔‘‘
یا تو انہوں نے میری بات نہیں سنی یا انہیں میری بات پر یقین نہیں آیا پتھر سے انہوں نے اس انڈے کے ایک طرف بڑا سوراخ کر دیا۔ اندر سے آواز سی آئی۔ شاید رخ کا بچّہ مر رہا تھا۔ اس آواز کا جواب دور آسمان سے سنائی دیا۔ دو بڑے بڑے رخ جو اس بچے کے ماں باپ تھے آئے۔ ان کے پر اتنے بڑے تھے کہ نیچے زمین پر اندھیرا چھا گیا۔
جہاز بھی گیا
میں نے یہ سمجھا کہ یہ بڑے رخ ہمیں مار ڈالیں گے، لیکن وہ اڑ کر کہیں چلے گئے۔ میں نے لوگوں سے کہا، ’’دوستو! جلدی کرو۔ ہمیں فوراً جہاز لے جانا چاہیے۔‘‘ تاجر، ملاح جو اب بھی کنارے پر تھے سب جہاز میں سوار ہو گئے۔ کپتان نے جہاز کو کھلے سمندر میں لے جانے کی کوشش کی۔ اتنے میں دونوں رخ ہمارے طرف آتے دکھائی دیے۔ دونوں نے ایک ایک پتھر اٹھا رکھا تھا اور ہر پتھر ایک چھوٹے مکان کے برابر تھا۔
پہلا رخ ہمارے اوپر سے گزرا اور اس نے پتھر ہم پر گرایا۔ کپتان نے بڑی ہوشیاری سے جہاز کو ایک طرف کاٹا اور ہم بچ گئے۔ پتھر سمندر پر گرا۔ پانی گزوں اوپر اچھلا۔ جہاز بے قابو ہو گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کپتان ہمیں دوسرے پتھر سے نہ بچا سکا۔ وہ جہاز پر گرا اور جہاز بھی گیا۔
ہم میں سے کئی آدمی مارے گئے۔ خوش قسمتی سے میں بچ گیا۔ ایک تختہ میرے ہاتھ آ گیا اور اس سے میری جان بچ گئی۔ چار دن اور چار رات میں اپنے تختے سے چمٹا پانی میں ہچکولے کھاتا رہا۔ آخر ایک جزیرے میں جا پہنچا۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر کہ اس نے مجھے بچا لیا۔ جزیرے میں درخت بھی تھے اور تازہ پانی بھی۔ اس سے میری ہمّت جوان ہو گئی۔
سمندر کا بوڑھا آدمی (شیخ البحر)
کچھ دیر میں نے کمر سیدھی کی پھر اٹھ کھڑا ہوا۔ تھوڑی ہی دور گیا تھا کہ اک بوڑھے آدمی پر میری نظر پڑی۔ مجھے وہ کچھ زیادہ ہی کمزور اور بیمار نظر آیا۔ اسے دیکھ کر فوراً میرے دل میں یہ خیال آیا کہ کہیں یہ بھی میری طرح کسی غرق شدہ جہاز سے بچ کر تو یہاں نہیں پہنچا۔ ایک ندی کے کنارے وہ بالکل خاموش اور بے حرکت بیٹھا تھا۔ میں نے اسے سلام کیا، لیکن اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ میں نے پھر بات کرنے کی کوشش کی۔ اس کے منہ سے کوئی لفظ نہیں نکلا۔ اس نے ندی کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ میں سمجھا وہ مجھ سے کہہ رہا ہے کہ مجھے ندی کے اس پار پہنچا دو۔ میں نے اسے اٹھا کر ندی عبور کرنا چاہی۔ پھر اس میں حرکت پیدا ہوئی اور اس نے اپنی ٹانگیں میری گردن کے گرد ڈال دیں۔ اس کی ٹانگیں دبلی پتلی مگر مضبوط تھیں۔ میں نے چاہا کہ اسے اتار دوں مگر اس نے مجھے لات ماری۔ پھر اس نے میری گردن کو اپنے ہاتھوں اور ٹانگوں میں جکڑ لیا۔ ایسا لگا کہ میرا دم گھٹ جائے گا۔
میں گویا اس کا قیدی بن گیا۔ رات ہوئی تو میں نے کچھ پھل کھائے، پانی پیا اور سو گیا۔ صبح ہوئی تو وہ میرے کندھوں پر سوار ہو گیا۔ جو کام وہ مجھ سے کرانا چاہتا تھا اس کے لیے مجھے ایک لات رسید کر دیتا۔ چند دن تک یہی کچھ ہوتا رہا۔ ایک دن اس جنگل میں مجھے ایک پھل نظر آیا۔ بوڑھے نے مجھے لات ماری۔ میں یہ سمجھا وہ پھل مانگ رہا ہے۔ میں نے ایک پھل اسے کھلا دیا۔ پھل کھانے کے بعد مجھے ایسا لگا کہ بوڑھے کی گرفت ڈھیلی ہونے لگی ہے۔
میں نے ایک اور پھل اسے کھلایا۔ اس کے بعد وہ میرے کندھوں سے نیچے گر گیا۔ ایک پریشانی تو ختم ہوئی۔
میں سوچ ہی رہا تھا کہ کیا کروں کہ اتفاق سے ایک جہاز اس طرف آتا دکھائی دیا۔ میں نے شور مچا کر ملاحوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ وہ جہاز ساحل پر لے آئے۔ میں نے انہیں بوڑھے آدمی کا واقعہ سنایا تو وہ مجھ سے کہنے لگے، ’’تم خوش قسمت آدمی ہو، اس لیے اس کے چنگل سے بچ نکلے ہو۔ اسے شیخ البحر یعنی سمندر کا بوڑھا آدمی کہتے ہیں۔ اس نے کئی لوگوں کی جان لی ہے۔ ہم میں سے کوئی اس جزیرے پر اکیلا نہیں آتا۔‘‘
میں نے ان سے پوچھا، ’’آپ اس جزیرے پر آخر کیوں آتے ہیں؟‘‘
انہوں نے کہا، ’’ہم یہاں ناریل لینے آتے ہیں۔‘‘
پھر انہوں نے مجھ سے کہا، ‘‘چلو تم بھی ہمارے ساتھ چلو۔‘‘
میں ان کے ساتھ ہو لیا۔ انہوں نے دو تین خالی بوریاں لیں اور ایک کو پتھر سے بھر لیا۔ پتھر والی بوری انہوں نے مجھ سے اٹھوائی۔ ہم جنگل کے ایک ایسے حصّے میں پہنچے جہاں ناریل کے بےشمار درخت کھڑے تھے۔ یہ درخت خاصے اونچے تھے اور ان کے پھل یعنی ناریل زمین سے خاصی بلندی پر درخت کی چوٹی کی ٹہنیوں پر لگے ہوئے تھے۔ ایک اور خاص بات یہ کہ ان درختوں پر بندروں کی ایک فوج مورچہ بند تھی۔ جونہی ہم وہاں پہنچے ہم نے بندروں پر وہ پتھر پھینکے جو ہم بوری میں بھر کر لائے تھے۔ بندروں کو غصّہ آیا تو انہوں نے ناریل توڑ کر ہم پر ان کی بارش برسا دی۔ ہم نے ان سے اپنی بوریاں بھر لیں۔ انہیں اٹھا کر جہاز لے گئے اور پھر خالی بوریاں لے آئے۔ شام تک یہی کچھ کرتے رہے۔ ہم نے ہزاروں ناریل جمع کر لیے۔
اس کے بعد جہاز دوسرے جزیروں کو روانہ ہوا۔ وہاں ناریل کی منڈیاں تھیں۔ ہم نے یہ ناریل بیچ کر دوسری چیزیں خریدیں۔ اس جزیرے پر موتی اور مرجان بھی ملتے تھے۔ یہاں سے ہر شخص نے اپنی بساط بھر سامان لیا۔ پھر دو چار اور جزیروں کا سفر کیا۔
میں جب اس جہاز کے مسافروں کے پاس آیا تھا تو سوائے لباس کے میرے پاس کچھ نہ تھا۔ میں نے ان تاجروں سے کہا، ’’مجھے تجارت کا بڑا تجربہ ہے اور اللہ کی طرف سے برکت بھی حاصل ہے۔ اگر تم لوگ مجھے اپنا گماشتہ بنا لو تو مجھے امید ہے کہ تم کو فائدہ ہو گا۔ مجھے تم اپنی کمائی سے کچھ نہ کچھ دے دیا کرو۔‘‘
وہ سب راضی ہو گئے۔ اس سفر میں میں نے اچھی خاصی دولت کما لی۔ جہاز نے پھر بصرہ کا رخ کیا اور ایک دن میں اپنے شہر بغداد پہنچ گیا۔
دوستو! انشاءاللہ میں کل اپ کو چھٹے سفر کی کہانی سناؤں گا۔
٭٭
چھٹا سفر
بغداد میں رہتے ہوئے میں روز بازار جاتا۔ کئی تاجر ملتے، کئی کپتانوں اور ملاحوں سے ملاقات ہوتی۔ میرے دل میں سفر کی چنگاری پھر سلگ اٹھی۔ ایک دن مجھے خیال آیا کہ اب کی بار کچھ سفر خشکی پر کروں اور کچھ سمندر میں۔ چنانچہ میں نے بغداد سے کچھ اونٹ اور گھوڑے خریدے اور ان پر مال اسباب لاد کر خشکی کے راستے ہندوستان کی طرف چلا۔
سینکڑوں شہروں سے میرا گزر ہوا۔ آخر چلتے چلتے میں ہندوستان پہنچ گیا۔ وہاں لوگوں سے معلوم ہوا کہ سمندر کے سفر کے لیے مجھے جنوبی ہندوستان جانا چاہیے۔ چنانچہ میں اسی طرف چلا۔ میں نے مویشی بیچ دیے۔ سمندر کے لیے سفر کا مال خریدا اور ایک جہاز میں سوار ہو گیا۔ ہمارا جہاز کھلے سمندر میں کئی دن اور کئی راتیں چلتا رہا۔ ایک دن طوفان آیا۔ ہوا اتنی تیز تھی کہ اس نے جہاز کو ہانکنا شروع کر دیا۔ چلتے چلتے ہم ایک ایسے مقام پر پہنچے کہ کپتان چلا چلا کر کہنے لگا، ’’سب مارے گئے، سب مارے گئے۔‘‘
ہم نے پوچھا، ’’کیا ہوا؟ یہ کون سا مقام ہے؟‘‘
اس نے ماتم پیٹنا شروع کر دیا، ’’یہ جگہ موت کے غار کی ہے۔ دیکھتے نہیں وہ سامنے جو پہاڑی ہے۔ اس کے نیچے ایک غار ہے، جہاں سمندر کا پانی نیچے اترتا ہے۔ جہاز ہو یا کشتی سب اس میں گم ہو جاتے ہیں۔ کبھی کو زندہ نہیں بچا۔‘‘
تمام ملاح ہاتھ پیر مارنے لگے۔ کبھی چپو چلاتے، کبھی پتوار سنبھالتے، مگر سب کوششیں بےکار ثابت ہوئیں۔ ہمیں نظر آ رہا تھا کہ پانی غار میں گھسا جا رہا ہے۔ ہم سب نے دعائیں مانگیں، گڑگڑائے، سجدے کیے۔ اتنے میں ایک زور دار دھماکہ سنائی دیا۔ ہم غار کے اندر تھے۔ جہاز کسی چیز سے ٹکرایا اور ہماری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں مر رہا ہوں، مگر میں مرا نہیں تھا۔ مجھے نظر کچھ بھی نہیں آ رہا تھا۔ البتہ پانی کے بہاؤ کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ آندھی کا شور بھی سنائی دے رہا تھا۔ پھر مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں کسی سخت چیز پر پانی کے اوپر حرکت کر رہا ہوں۔ ہر طرف تاریکی ہی تاریکی تھی۔ تاریکی میں بہہ رہا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ میں خواب دیکھ رہا ہوں، لیکن یہ خواب نہ تھا، حقیقت تھی۔
سراندیپ
یا تو میں سو گیا تھا یا بےہوش ہو گیا تھا۔ نیند کے دوران مجھے شور و غل سنائی دیا۔ آنکھیں کھولیں تو دیکھا کہ میں جہاز کے ایک تختے پر پڑا تھا اور کئی لوگ میرے اردگرد جمع تھے۔
میں نے پوچھا، ’’میں کہاں ہوں؟‘‘
وہ میری زبان نہیں سمجھے۔ کچھ کھسر پسر ہوئی۔ مجمع سے ایک آدمی آیا۔ اس نے مجھے بتایا کہ تم سراندیپ میں ہو۔ میں اللہ کا شکر ادا کیا، کیوں کہ میں اس کے راجا کے بارے میں اور اس ملک کے بارے میں بہت کچھ سن چکا تھا۔ جو شخص ترجمان کے طور پر باتیں کر رہا تھا۔ اس نے مجھے بتایا کہ ہم لوگ اس دریا سے نہریں نکالنے آئے ہیں جو کھیتوں کو سیراب کرتی ہیں۔ یہ دریا ان پہاڑوں سے آ رہا ہے۔ کبھی کوئی ان پہاڑوں کی پرلی طرف نہیں گیا اور نہ کبھی کوئی اس طرف سے یہاں آیا ہے۔ ہمیں حیرت ہے کہ تم یہاں کیسے آ گئے۔
سراندیپ کا راجا
مجھے کیا معلوم تھا کہ میں وہاں کیسے پہنچا۔ میں نے اسے اپنے سفر کا حال سنایا اور خاص طور وہ واقعہ جس میں ہمارا جہاز غار میں گرا تھا۔ اس نے میری باتوں کا اپنی زبان میں ترجمہ کر کے لوگوں کو بتایا۔ سب نے کہا کہ یہ حیرت انگیز بات ہے۔ اسے مہاراج کے پاس لے کر چلنا چاہیے۔
ان سب نے مجھے تسلی دی۔ میری خاطر تواضع کی اور پھر مجھے راجا سراندیپ کے پاس لے چلے۔ اس کا پایۂ تخت تین دن کی مسافت پر تھا۔ تین دن بعد ہم وہاں پہنچ گئے۔ ان کو اطلاع ہوئی۔ وہ تشریف لائے اور میری سرگزشت سنی۔ پھر ملازموں کو حکم دیا کہ مجھے عزت و احترام سے ٹھہرایا جائے۔ روزانہ مہاراجا مجھے اپنے ہاں بلواتا، کئی سوالات کرتا۔ یہاں تک کہ میں نے اسے اپنے چھے سفروں کے حالات سنا دیے اور وہ بہت خوش ہوا۔
ایک دن مجھے معلوم ہوا کہ بصرے کا ایک جہاز بندر گاہ پر لگا ہے۔ میں نے مہاراجا سے اجازت چاہی۔ اس نے مجھے سونے چاندی اور ہیرے جواہرات کے بےشمار تحفے دیے اور ساتھ ہی خلیفہ ہارون الرشید کے نام ایک خط بھی دیا۔ جس خط کا آغاز ان الفاظ سے ہوتا تھا، ’’یہ خط سراندیپ کے مہاراج ادھیراج کی طرف سے میرے دوست، عظیم خلیفہ ہارون الرشید کے نام ہے۔‘‘
خوش قسمتی سے سراندیپ سے بصرہ کا سفر بڑا خوشگوار رہا۔ وطن پہنچ کر میں وہ خط خلیفہ کے دربار میں لے گیا۔ خلیفہ مجھ سے بڑی شفقت سے پیش آئے اور میری داستان بڑی دلچسپی سے سنی۔
دوستو! اگر زندگی رہی تو میں ساتویں سفر کی کہانی آپ کو کل سناؤں گا۔
٭٭
ساتواں سفر
چھٹے سفر کے اختتام پر خلیفہ ہارون الرشید نے مجھے شرف ملاقات بخشا تھا۔ اس سے تاجر برادری میں میرا وقار بڑھ گیا۔ نئے نئے دوست بننے لگے۔ چھے سفروں میں ایک عمر گزر گئی تھی۔ جوانی پختہ عمر میں ڈھل گئی تھی۔ میں نے ارادہ کر لیا تھا کہ آئندہ سفر نہیں کروں گا۔ اب تک تو ستارہ عروج پر رہا ہے۔ میں ہر مصیبت سے بچ نکلا ہوں، لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہو سکتا۔
ایک دن خلیفہ ہارون الرشید کا پیغام پہنچا۔ میں ان کے دربار میں پہنچا۔ انہوں نے مجھ سے فرمایا، ’’سندباد جہازی! تمہیں یاد ہے کہ تم مہاراجا سراندیپ کا میرے نام ایک خط لائے تھے۔ اب میں چاہتا ہوں کہ تم میرا جواب ان تک پہنچا دو۔‘‘
خلیفہ کا فرمان تھا اس لیے میں نے خوشی خوشی منظور کر لیا۔
سرکاری ملازموں کو حکم دیا گیا کہ وہ میرے لیے ایک بہترین جہاز کا بندوبست کریں۔ جہاز کا انتظام ہو گیا۔ خلیفہ کی طرف سے بغداد، اسکندریہ اور قاہرہ کے انمول تحفے میرے حوالے کیے گئے۔ میں یہ سب کچھ لے کر سراندیپ پہنچا۔ مہاراجا مجھ سے مل کر بہت خوش ہوا اور جب میں نے تمام تحفے اس کی نذر کے تو وہ اور بھی خوش ہوا۔ یہ تو ایک سفارتی سفر تھا، اس لیے میں نے مہاراجا سے واپسی کی اجازت مانگی اور جہاز لے کر بصرہ روانہ ہو گیا۔
بحری لٹیرے
تین دن کے سفر کے بعد ایک دن ہم پر اچانک بحری لٹیروں نے دھاوا بول دیا۔ پانی کی چھے بڑی بڑی کشتیوں میں سینکڑوں لٹیرے سوار تھے۔ انہیں قزاق بھی کہتے ہیں۔ ان کشتیوں نے ہمارے جہاز کے گرد گھیرا ڈال کر ہمیں اور ہمارے جہاز کو قیدی بنا لیا۔ وہ ہمارے جہاز کو ایک جزیرے میں لے گئے اور وہاں ہم سب کو بیچ دیا۔
مجھے جس تاجر نے خریدا وہ ایک مہربان اور شریف آدمی تھا۔ مجھ سے بڑی نرمی سے پیش آیا۔ ایک دن اس نے مجھے بلا کر پوچھا، ’’کیا تم تیر چلا سکتے ہو؟‘‘
میں نے جواب دیا، ’’ہاں۔‘‘
اس نے کہا، ’’چلو اچھا ہوا، کیوں کہ ہمارے ملک کا دستور ہے کہ جو غلام ہم خریدتے ہیں، انہیں ہم ہاتھیوں کے شکار کے کام پر لگاتے ہیں۔ ہاتھی مار کر ہم ان کے قیمتی دانت حاصل کرتے ہیں اور پھر ان کی آمدنی سے کچھ رقم ان سمندری لٹیروں کو دیتے ہیں۔ میں آج ہی تمہیں جنگل میں لے جاؤں گا۔‘‘
شام کو وہ مجھے جنگل لے کر پہنچا۔
ہاتھیوں کا شکار
رات ہو گئی تھی۔ اس نے مجھ سے کہا دیکھو تم اس درخت پر چڑھ جاؤ۔ جب ہاتھی قریب آئیں تو ایک کو اپنے تیر سے گھائل کر دینا۔ میں صبح آؤں گا۔ میں خاصی دیر تک ہاتھیوں کا انتظار کرتا رہا۔ آخر ایک ہاتھی اس درخت کے قریب آیا جس پر میں بیٹھا تھا۔ میں نے تیر چلایا اور وہ زخمی ہو گیا۔ صبح کو تاجر آیا اور وہ میرے قریب مردہ ہاتھی دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ اس نے مجھ سے مخاطب ہو کر کہا، ’’مجھے خوشی ہے کہ تمہارا نشانہ اچھا ہے۔ یاد رکھو اگر تم ہاتھی کو نہ مار سکے تو پھر وہ تمہیں ضرور مار دے گا۔‘‘
ہم ہاتھی دانت لے کر واپس چلے گئے۔ اسی روز دوپہر میں میری دو آدمیوں سے ملاقات ہوئی۔ انہیں بھی بحری قزاقوں نے پکڑ کر بیچا تھا اور وہ بھی ہاتھیوں کا شکار کرتے تھے۔ ان میں سے ایک مجھ سے کہنے لگا، ’’اگر ہم روز روز ہاتھی مارتے رہیں تب بھی ہم موت سے نہیں بچ سکتے۔ ہاتھی تو ایسی مخلوق ہے کہ اگر ایک ہاتھی مارا تو اس کا رشتےدار ہاتھی بدلہ لیتا ہے۔ ان میں اتنی عقل موجود ہے۔‘‘
اس نے مجھ سے بڑے کام کی بات کی تھی۔ میں نے اس پر غور کیا تو میں اس نتیجے پر پہنچا کہ ایک تو مجھے ایک ہی درخت پر دوسری بار نہیں بیٹھنا چاہیے۔ ہر بار درخت بدل لینا چاہیے۔ دوسرے جب ایک سے زیادہ ہاتھی ہوں تو پھر تیر نہیں چلانا چاہیے اور تیسرے اس یقین سے تیر چلانا چاہیے کہ ہاتھی ڈھیر ہو جائے، اگر وہ بچ گیا تو میری خیر نہیں ہو گی۔
مدتوں ہر رات میں ایک ہاتھی مارتا رہا۔ تاجر اس بات سے بہت خوش تھا۔ اس نے میری تعریف کی اور کہا کہ آئندہ ہر دس ہاتھی دانتوں میں سے ایک دانت تمہارا ہو گا۔ جب تم سو دانت جمع کر لو گے تو میں تمہیں آزاد کر دوں گا اور تم وہ سو ہاتھی دانت بھی اپنے ساتھ لے جانا۔
میری قسمت اچھی تھی۔ میں تقریباً سو ہاتھی دانت جمع کر چکا تھا، مگر ایک دن ایک ہاتھی زندہ بچ کر بھاگ نکلا۔ دوسری رات جنگل میں بڑا ہنگامہ تھا۔ سینکڑوں ہاتھی میری تلاش میں سر گرداں تھے۔
آخری حادثہ
ایک دن تمام ہاتھی اس درخت کے گرد جمع ہو گئے جس پر میں چڑھا ہوا تھا۔ میں نے سوچا، ’’سندباد جہازی، اب تک تو تمہارا مقدّر چمکتا رہا ہے، مگر آج تمہاری شامت آ گئی ہے۔‘‘
ہاتھی درخت کے نزدیک آتے گئے۔ میں نے صورتحال کو سمجھا اور کوئی تیر نہ چلایا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس دور اندیشی ہی سے میری جان بچی۔ پھر سب ہاتھیوں نے مل کر اس درخت کو جڑ سے اکھاڑ ڈالا۔ میں دھڑام سے زمین پر گرا۔ ایک ہاتھی نے مجھے سونڈ سے اٹھا کر اپنی پیٹھ پر بٹھایا اور پھر وہ ایک قطار بنا کر چل دیے۔ وہ کئی وادیوں سے گزرے۔ آخر پہاڑوں سے گھری ہوئی ایک وادی میں پہنچے اور وہاں رک گئے۔
اس سے پہلے میں نے ایسی کہانیاں سنی تھیں کہ ہاتھیوں کا ایک مرگھٹ ہوتا ہے جہاں جا کر وہ مرتے ہیں، مگر مجھے ان باتوں پر یقین نہ تھا۔ آج یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔ سینکڑوں کیا ہزاروں ہاتھی یہاں مر چکے تھے۔
دوسرے ہاتھی میرے چاروں طرف گھیرا ڈالے ہوئے تھے۔ وہ مجھے بھی دیکھ رہے تھے، لیکن کسی نے مجھے چھوا نہیں۔ مجھے ایسا لگا کہ وہ نگاہوں میں مجھ سے کہہ رہے ہیں۔ اگر وہ بات کر سکتے تو غالباً مجھ سے یہی کہتے کہ تم ہمیں کیوں مارتے ہو؟ یہاں دیکھو۔ ہزاروں ہاتھی دانت پڑے ہیں۔ ہمارے یہ کس کام کے۔ تمہی لے جاؤ اور لوگوں سے کہو، اگر تمہیں ہاتھی دانت چاہئیں تو ہمیں مت مارو، ادھر سے کچھ ہاتھی دانت اٹھا کر لے جاؤ۔
یہ منظر دیکھ کر میرا دل بھر آیا۔ میری آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔ میں پشیمانی کی تصویر بن چکا تھا۔ وہ میرے جذبات کو بھانپ گئے۔ ایک طرف سے ہاتھیوں کا گھیرا ٹوٹا اور جس ہاتھی پر میں سوار تھا وہ مجھے لے کر چلا اور اس کے ساتھ دو اور ہاتھی چلے۔ جنگل کے ایک کنارے پر جا کر اس ہاتھی نے اپنی سونڈ سے مجھے اٹھا کر آہستہ سے زمین پر ڈال دیا۔
میں نے الله کا شکر ادا کیا۔ میں ہاتھیوں کا پیغام سمجھ چکا تھا۔ چنانچہ میں نے اپنے آقا تاجر کو اور ہاتھی دانت کا کاروبار کرنے والے دوسرے تاجروں کو ہاتھیوں کے اس مرگھٹ میں لے گیا۔ وہ وہاں ہزاروں ہاتھی دانت دیکھ کر ہکا بکا رہ گئے۔ میں نے ان سے کہا، ’’دیکھیے آپ وعدہ کیجیے کہ آپ روزانہ ضرورت سے زیادہ ہاتھی دانت یہاں سے نہیں اٹھائیں گے۔‘‘
انہوں نے وعدہ کیا۔ ہم سب خوشی خوشی واپس آئے۔ تمام تاجروں نے مل کر مجھے تحفوں سے مالا مال کر دیا اور میں سو ہاتھی دانت اور وہ تحفے اپنے ساتھ وطن لے آیا۔ سب چیزیں بیچ کر بے شمار دولت جمع کی۔ یہ دس سال پہلے کی بات تھی۔ یہی میرا آخری سفر تھا۔ اس کے بعد میں نے کبھی سفر نہیں کیا۔ مجھے ان بے زبان ہاتھیوں کا پیغام ہمیشہ یاد رہے گا۔
الله حافظ۔
٭٭
ماہنامہ ہمدرد نونہال ، جولائی ١٩٨٩ سے لیا گیا۔
٭٭٭
ٹائپنگ: انیس الرحمٰن
ماخذ: اردو محفل تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
بہت خوب