فہرست مضامین
- رت جگے
- نجمہ شاہین کھوسہ
- رت جگے، آنسو، دعائے بے اثر ہے اور میں
- اجنبی شہر کی اجنبی شام میں
- زندگی ڈھل گئی ملگجی شام میں
- لے کے آیا ہے کہاں وقت کا گرداب مجھے
- محبتوں کا صلہ نہیں ہے
- لبوں پہ حرفِ دعا نہیں ہے
- خوابوں میں بھی گر وصل کا امکان نہیں ہے
- شب جاگتے رہنے میں بھی نقصان نہیں ہے
- ہجر میں بھی یہ مری سانس اگر باقی ہے
- اس کا مطلب ہے محبت میں اثر باقی ہے
- چاہتوں میں اُس کا اپنا ہی کوئی معیار تھا
- عقل اُس کی تھی طلب، مجھ کو جنوں درکار تھا
- نجمہ شاہین کھوسہ
- میں موسمِ وصل کے استعارے میں ہوں
رت جگے
نجمہ شاہین کھوسہ
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
رت جگے، آنسو، دعائے بے اثر ہے اور میں
عشق لا حاصل ہے، اک اندھا سفر ہے اور میں
چھوڑ کر آئی ہوں ہر منزل کو میں جانے کہاں
یہ دل سودائی اب تک بے خبر ہے اور میں
اب تلک رستے وہی اور عکس آنکھوں میں وہی
اور خود کو ڈھونڈتی میرے نظر ہے اور میں
گم شدہ منظر میں اب تک ہے بھٹکتی زندگی
اجنبی رستوں کا اِک لمبا سفر ہے اور میں
آس اب بجھنے لگی ہے وہ لوٹ کر آئے نہیں
جھیل پر اب بھی وہ اِک تنہا شجر ہے اور میں
کیا کیوں شاہین جس پر تھا بہت ہی اعتبار
وہ زمانے کیلئے اب معتبر ہے اور میں
٭٭٭
اجنبی شہر کی اجنبی شام میں
زندگی ڈھل گئی ملگجی شام میں
شام آنکھوں میں اتری اسی شام کو
زندگی سے گئی زندگی شام میں
درد کی لہر میں زندگی بہہ گئی
عمر یوں کٹ گئی ہجر کی شام میں
عشق پر آفریں جو سلامت رہا
اس بکھرتی ہوئی سرمئی شام میں
میری پلکوں کی چلمن پر جو خواب تھے
وہ تو سب جل گئے اُس بجھی شام میں
ہر طرف اشک اور سسکیاں ہجر کی
درد ہی درد ہے ہر گھڑی شام میں
آخری بار آیا تھا ملنے کوئی
ہجر مجھ کو ملا وصل کی شام میں
رات شاہینؔ آنکھوں میں کٹنے لگی
اس طرح گم ہوئی روشنی شام میں
٭٭٭
لے کے آیا ہے کہاں وقت کا گرداب مجھے
کر دیا اپنے ہی خیالات نے غرقاب مجھے
پھر مخاطب ہوں شبِ ہجر کی تنہائی سے
اے سحر! اور کوئی گی کوئی خواب مجھے
درد ہی درد ملے ہاتھ کی ریکھاؤں میں
کم نصیبی نے دئیے حیف یہ اسباب مجھے
اب تو لمحوں کی بھی فرصت نہیں، آرام کہاں؟
زندگی اور سکھائے گی کچھ آداب مجھے
خشک سالی کا یہ عالم ہے کہ شاہین اب تو
اپنے دریا میں بھی پانی ملے، نایاب مجھے
٭٭٭
محبتوں کا صلہ نہیں ہے
لبوں پہ حرفِ دعا نہیں ہے
نہیں وہ تصویر پاس میرے
سو ہاتھ میرا جلا نہیں ہے
میں اپنی لو میں ہی جل رہی ہوں
جو بجھ گیا وہ دیا نہیں ہے
بس اِک پیالی ہے میز پر اور
وہ منتظر اب مرا نہیں ہے
لکھا جنم دن پہ اس کو میں نے
وہ خط بھی اس کو ملا نہیں ہے
میں کس لئے پار جاؤں شاہیں؟
وہاں مرا ناخدا نہیں ہے
٭٭٭
خوابوں میں بھی گر وصل کا امکان نہیں ہے
شب جاگتے رہنے میں بھی نقصان نہیں ہے
رستہ وہ بدلنا ہی تھا ہم دونوں نے لیکن
حیرت تو یہی ہے کہ تُو حیران نہیں ہے
کیوں خوف زدہ ہو گئے تم ایک گھٹا سے؟
میں نے تو بتایا تھا کہ طوفان نہیں ہے
کس واسطے اور کون یاں پہچانتا مجھ کو
جب تیرے سوا کوئی بھی پہچان نہیں ہے
شاہین گو اجڑا ہوا رستہ تو ہے لیکن
اس دل کی طرح سے تو یہ ویران نہیں ہے
٭٭٭
ہجر میں بھی یہ مری سانس اگر باقی ہے
اس کا مطلب ہے محبت میں اثر باقی ہے
چھوڑ یہ بات ملے زخم کہاں سے تجھ کو
زندگی اتنا بتا کتنا سفر باقی ہے
تم ستمگر ہو نہ گھبراؤ مری حالت پر
زخم سہنے کا ابھی مجھ میں ہنر باقی ہے
ہجر کی آگ میں جلنے سے نہیں ڈرتی میں
عشق مجھ میں ابھی بے خوف و خطر باقی ہے
میرے تنکے بھی ہوئے راکھ تو کیا حرج بھلا
آتش عشق بتا کتنا یہ گھر باقی ہے
سانس لینا ہی تو شاہینؔ نہیں ہے جیون
ڈھونڈ کر لاؤ میری روح اگر باقی ہے
٭٭٭
چاہتوں میں اُس کا اپنا ہی کوئی معیار تھا
عقل اُس کی تھی طلب، مجھ کو جنوں درکار تھا
کون تھا جو جل رہا تھا آپ اپنی آگ میں
کون تھا جو ظلمتوں سے بر سر ِ پیکار تھا
یوں نہ تھا وارفتگی سے ہم ہی بس چاہا کئے
لطف یہ ہے اُ س کو بھی ہم سے بہت ہی پیار تھا
ایک لمحہ تھا مری مٹھی میں جو آیا نہ تھا
اور اُس کو بھی تو بس لمحہ وہی درکار تھا
ہاتھ پر جس کے لہو تھا بے گناہوں کا یہاں
شہر میں وہ شخص ہی تو صاحبِ دستار تھا
یوں تو دنیا کے لئے ہم نے بہت کچھ پا لیا
بعد اُ س کے تھا اگر کچھ بھی تو بس بے کار تھا
ایک چاہت کب تلک لڑتی وہاں شاہین بس
جس طرف بھی دیکھئے اک مصر کا بازار تھا
٭٭٭
میں موسمِ وصل کے استعارے میں ہوں
ہاتھ میں رائے گاں سی لکیریں جو ہیں
آنکھ کے دشت میں یہ جو تصویر ہے
یہ جو تعزیر ہے
آسماں پر بکھرتے ستارے جو ہیں
موسمِ وصل کے استعارے جو ہیں
استخارے جو ہیں
اِن کو دیکھا کبھی
اِن کو جانچا کبھی
تو یہ جانا میں کب ان لکیروں میں ہوں
میں کہاں آسماں کے ستارے میں ہوں
اک شبِ ہجر ہے
اور شبِ ہجر کے میں خسارے میں ہوں
میں ابھی تک موسمِ وصل کے استعار ے میں ہوں
٭٭٭
جہاں دل کو بسانا ہو وہ بستی ہی نہیں ملتی
شکستہ پا ارادے ہوں تو منزل بھی نہیں ملتی
ہمیں اس زندگی کو زندگی کرنا ہی مشکل ہے
کہ اس پُر خار رستے پر تو آسانی نہیں ملتی
گلہ اغیار سے کیوں کر کریں پھر بے نیازی کا
ہمیں اپنوں میں رہ کر بھی خوشی اپنی نہیں ملتی
یہ منظر، خواب ، امیدیں ،سبھی کو دان کر دینا
وفا کی راہ میں منزل کبھی یونہی نہیں ملتی
جبھی تو آج کل شاہین ہم خود سے نہیں ملتے
بہت دن ہو گئے ہم کو خبر اُن کی نہیں ملتی
٭٭٭
اُس بے وفا مزاج کی اپنی روایتیں
ہیں یاد تیرے شہر کی ساری عنایتیں
بے سایہ سب شجر تھے اور بے سائباں فلک
موجود تھیں وہاں تو ازل کی حکایتیں
انعام کی طرح سے ملا ہم کو ہر ستم
لیکن لبوں پہ لا نہ سکے تھے شکایتیں
جو خود ہدایتوں کے طلبگار تھے وہاں
کرتے تھے بات بات پر وہ بھی ہدایتیں
آدھی سی ایک بات تھی ،آدھا سا ایک خواب
ہوتی رہیں وفا میں بھی اکثر کفایتیں
تجھ سے جدا ہوئے تو لگا عمر کٹ گئی
کیا کیا ملیں نہ پیار میں ہم کو ہم رعایتیں
٭٭٭
میری تنہائی کو اُس نے اور تنہا کر دیا
جھیل سی آنکھیں تھیں اِن کو خشک صحرا کر دیا
ہجر اچھا تھا جب اُس کو سوچ کر جیتے تھے ہم
اِس فریبِ وصل نے دل کو تو پیاسا کر دیا
گزرے لمحے اشک بن کر آنکھ میں روشن ہوئے
اُس کی یادوں نے اندھیرے کو بھی اجلا کر دیا
اِن لبوں پر آج بھی اُ س کی خوشی کی ہے دعا
جس نے میری ہر خوشی پر غم کا سایہ کر دیا
اُس کی یادیں خود بخود شاہین اِس میں آ گئیں
میں نے بس اتنا کیا تھا، دل کو رستہ کر دیا
٭٭٭
یہ شہرِ دل عجیب موسموں سے آشنا ہوا
کہ ہر طرف بس ایک ہی خیال ہے بسا ہوا
بدلتے موسموں میں تم نے گر بھلا دیا تو کیا
ملا ہے زخم حسرتوں کے روپ میں ڈھلا ہوا
نصیب ہوں ،نئی مسافتیں تجھے نصیب ہوں
مرے نصیب میں تو بس عذاب ہے سجا ہوا
خلش وصال کی ہے میرے دل کی بارگاہ میں
مگر کتابِ زندگی میں ہجر ہے لکھا ہوا
میں ہاتھ کی لکیر میں تلاشتی رہی اُسے
رگوں میں خون کی طرح وہ اب بھی ہے رچا ہوا
ہوا سے نام لکھ رہی ہوں ساحلوں کی ریت پر
ملے گا اس کا ایک ایک حرف بس مٹا ہوا
٭٭٭
ماخذ: عکاس انٹر نیشنل، اسلام آباد، مدیر ارشد خالد
اور ’’ پھول سے بچھڑی خوشبو‘‘ کی نجمہ شاہین ڈاٹ کام پر دستیاب غزلیں
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید