امرتسر کا ایک درویش
اے ۔ حمید
امرتسر کے ہا ل دروازے سے باہر نکل کر جب آپ داہنی جانب کو ہوں تو پیر ظاہر ولیؒ کے مزار کے پہلو میں ایک نالے کا چھوٹا پل عبور کر کے سامنے انجمن پارک کا ریتلا میدان آتا ہے۔ یہ میدان ریلوے کے اونچے پُل کی ڈھلان کے سائے میں ہے۔ ان ڈھلانوں پر سڑک کے ساتھ ساتھ لوہے کا جنگلہ لگا ہوا ہے جس پر یوکلپٹس کے گھنے درختوں کا سایہ پھیلا ہوا ہے۔ کونے میں ایک چھوٹی سی مسجد ہوا کرتی تھی۔ پاس ہی ایک کنواں اور ایک اکھاڑہ بھی تھا۔ انجمن پارک امرتسر کی سیاسی اور سماجی زندگی کی آماجگاہ تھی۔ یہاں اگر ایم اے او کالج اور ڈی اے وی کالج کے معرکۃ الآرا کرکٹ میچ ہوا کرتے تھے تو مجلس احرار مسلم لیگ اور نیلی پوشوں کے ہنگامہ پرور جلسے بھی تو ہوتے تھے۔ کرکٹ میچوں میں ایم اے او کالج کے دینیات کے استاد حافظ نور شاہ جب زمین پر چوکڑی مار کر بیٹھ جاتے اور تسبیح کا ورد کرتے ہوئے دعا پڑھ کر مروت حسین شاہ پر بولنگ کرتے ہوئے دور سے پھونک مارا کرتے، جب ہندو کالج کی وکٹ اُڑتی تو حافظ نور شاہ خالی کوٹ اور خاکی کلہ پگڑی میں بانہیں پھیلا کر اللہ اکبر کا نعرہ لگاتے اور دوبارہ دھڑا دھڑ تسبیح کا ورد شروع ہو جاتا۔
مجلس احرار اور مسلم لیگ کے جلسوں میں لوگ گلے پھاڑ پھاڑ کر اسلام کے فلک شگاف نعرے لگاتے اور ڈٹ کر تیل کے قیمے والے پٹھورے اور نان چھولے کھاتے۔
کیا مجال جو کسی کے گلے میں خراش تک بھی پڑتی۔
دلی بمبئی سے کوئی سرکس امرتسر آتا تو انجمن پارک کے میدان میں آ کر اُترتا۔ تمبو، قناتیں تن جاتیں، چھولداریاں لگ جاتیں۔ خار دار جنگلوں کی دوسری طرف زنجیروں سے بندھے ہوئے قوی الجثّہ شیر گھاس کے ڈھیروں کے پاس جھولتے نظر آتے۔ پنجروں میں بند شرارتی بندروں کی خو خو کی آوازیں آتیں کبھی کبھی کسی بوڑھے شیر کی نحیف سی ‘‘ہائیں ہائیں’’ بھی سنائی دے جاتی۔ سرکس کے ملازمین میدان میں اِدھر اُدھر میخیں گاڑنے اور جانوروں کو چارہ ڈالنے میں مصروف دکھائی دیتے۔ ہم رات کو سرکس میں کرتب دکھانے والوں کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے پہروں خار دار جنگلوں کے پاس کھڑے رہتے مگر وہ لوگ سوائے رات کے دن کو کبھی دکھائی نہ دیتے تھے۔
انجمن پارک کے مشرق میں مسجد نور تھی جس کی ٹوٹیوں سے ہم منہ لگا کر پانی پیا کرتے تھے اور جن کی اونچی چھت پر مناروں کے قریب کھڑے ہو کر ہم سرکس والوں کے چھپے ہوئے شیر کو دیکھنے کی کوشش کیا کرتے۔ مغربی جانب گندے نالے کے پار پرل ٹاکیز کی پرانے طرز کی اونچی لمبی عمارت کھڑی تھی۔
گندے نالے کی اس جانب ڈنڈے شاہ کا تکیہ اور تھوڑی سی آبادی تھی۔ اس آبادی کے مکانوں کی کھڑکیاں اور اکثر کے دروازے گندے نالے کے داہنے کنارے پر کھُلتے تھے۔ تکیہ ڈنڈے سنگھ میں جہاں تک مجھے یاد ہے میں نے پکی اینٹوں کی دو چار قبروں، ایک اکھاڑے اور نیم کے سایہ دار درختوں کے سوا اور کچھ نہیں دیکھا۔ ہاں ذرا پرے مسجد نور کے قریب ہی ایک اونچے چبوترے پر کسی بزرگ کا مزار ضرور تھا جس کے درخت پر سبز اور سفید جھنڈے ہوا میں پھڑ پھڑایا کرتے تھے۔
امرتسر کے جس درویش کی میں یہاں کہانی بیان کرنے لگا ہوں ان کا مکان بھی اسی تکیہ ڈنڈے شاہ کی آبادی میں تھا۔ مکان کیا تھا بس گندے نالے کے کنارے کچی پکی اینٹوں کی ایک کوٹھڑی تھی جس پر کھپریل ڈال کر گارا پھیر دیا گیا تھا۔ اس درویش کا نام حافظ شفیع تھا اور اس جھونپڑی نما مکان میں غالباً ان کی بوڑھی والدہ صاحبہ رہا کرتی تھیں۔ حافظ صاحب والدہ کی بے حد خدمت کیا کرتے حافظ صاحب بڑے زندہ دلی محفل پرست، پرہیزگار، ہنس مکھ اور قناعت پسند درویش تھے۔ پان تمباکو قوام والا کھاتے۔ چائے خود بنا کر اور اس میں زعفران ڈال کر پیتے اور دوستوں کو پلاتے۔ تھوڑی تھوڑی طبابت بھی جانتے تھے۔ کبھی کبھی کوئی مریض آ جاتا تو اسے اپنے پاس سے دوائی خرید کر اور گھوٹ کر بھی دیتے، حافظِ قرآن تھے اور نماز پنج وقتہ ادا کرتے تھے۔ دبلا پتلا پھریرا جسم ، ستوان ناک، باریک ہونٹوں کے پیچھے بھنی ہوئی مونگ پھلی کے دانوں ایسے ہموار دانت فرنچ کٹ مختصر سی ڈاڑھی اور باریک مونچھیں۔ نرم چمکیلے سیاہ بالوں کے پٹے گھر میں دھُلی ہوئی بغیر استری کی قمیض اور شلوار، ہرن ایسی بڑی بڑی آنکھوں میں سرمے کی لکیر اور ہونٹوں پر ہردم کھیلتی زندہ دلی کی مسکراہٹ ۔
یہ تھے ہمارے درویش دوست حافظ شفیع!
انہوں نے مسجد شیخ خیر الدین مرحوم میں ڈیرہ لگا رکھا تھا۔ یہ ہال بازار میں میوہ منڈی کے دروازے کے عین سامنے تھی۔ مسجد خیر الدین میں داخل ہوتے ہی ایک چھتی ہوئی ڈیوڑھی میں سے گزرنا پڑتا تھا۔ اس ڈیوڑھی میں ہر موسم میں ٹھنڈا ٹھنڈا اندھیرا چھایا رہتا۔ کونے والے ستون پر عشق پیچاں کی بیل چڑھی ہوئی تھی۔ اس ستون کے پہلو میں ایک حجرہ تھا، جس میں حافظ شفیع کا ڈیرا تھا۔ حجرے میں ایک صف بچھی تھی۔ کونے میں ایک جازم پر صندوق رکھی تھی۔ الماری میں شرع، فقہ اور حدیث کی پرانی کتابیں پڑی رہتی تھیں۔ ایک دھُسہ، دو جوڑے قمیض شلوار اور ایک پرانا بستر۔ یہ حافظ شفیع کی کل کائنات تھی میں سردیوں میں عشاء کی نماز کے بعد حافظ صاحب سے ملنے اُن کے حجرے میں جاتا۔ مسکرا کر سر کو والہانہ انداز میں جھٹکتے اور کہتے:
سبحان اللہ!
یہ ان کا تکیہ کلام تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ جب انہیں والدہ کے انتقال کی خبر ملی تو اس وقت بھی انہوں نے سر کو آہستہ سے جھٹک کر کہا تھا۔
سبحان اللہ!
میں لکڑی کی پرانی صندوقچی کےپاس جازم پر کشمیری فرو کی بُکل مار بیٹھ جاتا، حافظ صاحب فوراً دھواں کھائے سماوار میں کوئلے ڈال دیتے۔ کاغذ جلا کر اس میں آگ سلگاتے اور پانی میں چائے کی پتی ڈال دیتے۔ جب حجرے کی فضا میں چائے کی پتی کی مہک اُڑنے لگتی اور سماوار کی ٹونٹی بھاپ دینے لگتی تو الماری میں سے سبز پتوں والے چینی پیالے نکالتے۔ ایک نسواری شیشی کا ڈھکن بڑی احتیاط سے کھول کر اسے سونگھتے اور آنکھیں بند کر کے سر ہلا کر کہتے۔
سبحان اللہ!
پھر مجھے سنگھاتے اور کہتے۔
‘‘بٹ صاحب اسے کہتے میں اصلی زعفران’’۔
تھوڑا تھوڑا .زعفران وہ دونوں پیالیوں میں ڈالتے اور چائے کی محفل گرم ہو جاتی۔ حافظ صاحب رومی اور شیخ سعدی کے فارسی شعر سنانے لگتے۔ وہ رومی اور سعدی کے عاشق تھے، میں نے بہت کم لوگوں کو اتنی محبت سے زعفرانی چائے پیتے اور رومی و سعدی کے شعر پڑھتے دیکھا ہے۔ چائے کے بعد وہ کسی لڑکے کو بھیج کر چوک سے پان منگواتے۔ بڑے سلیقے سے پان منہ میں رکھ کر جیب سے رومال نکال کر ہونٹوں کے کنارے پونچھتے اور جھوم کر کہتے۔
‘‘سبحان اللہ! قوام چوک والا ہی بنا سکتا ہے۔’’
اگر میں یہ کہوں کہ حافظ شفیع کو زندگی اور خدا کی نعمتوں سے پیار تھا اور وہ ان چیزوں کی قدر کرتے تھے تو یہ تکلف ہو گا۔ دراصل حافظ صاحب زندگی اور خدا کی نعمتوں کا ایک حصہ تھے۔ وہ کسی اچھائی یا نیکی کے کام کو اصول سمجھ کر سرانجام نہیں دیتے تھے بلکہ یہ فعل خود بخود ان سے ہو رہا تھا اور اصول نہتے چلے جا رہے تھے، اصل میں زمانہ ہی اچھے افعال کا تھا۔ اصولوں کی تبلیغ کا نہیں تھا۔ حافظ صاحب معمولی سے معمولی کام کو بھی اسی طرح کرتے جیسے وہ کسی بہت بڑی ایجاد کی بنیاد رکھ رہے ہوں۔ وہ سڑک پر اس مزے سے چلتے جیسے دلدلوں میں سے نکل کر پہلی مرتبہ پکی سڑک پر قدم رکھ رہے ہوں۔ باتیں اس طرح لہک لہک کر کرتے گویا ایک مدت کی خاموشی کے بعد اُنہیں پہلی مرتبہ زبان ملی ہو۔ چائے یوں شوق سے پیتے جیسے وہ اُن کی آخری پیالی ہو۔ ان کی عمر زیادہ نہیں تھی، بس یہی تیس بتیس برس کے ہوں گے۔ ایک بال بھی سفید نہیں تھا۔ پتلے دبلے جسم میں ہرن جیسی چستی تھی صالح خون میں محنت اور حلال کی کمائی گردش کر رہی تھی۔
مسجد میں آئی ہوئی روٹی کو کبھی ہاتھ نہیں لگاتے تھے۔ والدہ کی وفات کے بعد جھونپڑی پر کسی دوسرے نے قبضہ جمانا چاہا تو آپ نے اپنا بستر سر پر اُٹھایا اور سبحان.اللہ کہہ کر مسجد خیر الدین میں آ کر ڈیرہ جما لیا۔
ان کی شرع، حدیث شریف اور فقہ کی باتوں کے اسرار و رموز میری نا پختہ سمجھ سے باہر تھے۔ میں ان کی درویشانہ مسکراہٹ، اور اچھی اچھی باتوں کا شیدائی تھا۔ رمضان شریف میں وہ تحصیل پورے والی مسجد میں تراویح پڑھایا کرتے تھے۔
ایک مرتبہ مجھے بھی اپنے ساتھ لے گئے۔ یہ مسجد تحصیل پورے کی مسلمان آبادی میں ایک گلی کے کونے پر تھی۔ حجرے میں دو تین صاحبان بیٹھے ڈاڑھیوں میں ہاتھ پھیر کر بڑے جوش و خروش سے باتیں کر رہے تھے۔ میں نے بھی کندھوں پر مدینے شریف کا بسنتی رومال ڈال رکھا تھا۔ مجھے دیکھ کر ایک مولوی صاحب نے حافظشفیعسےپوچھا۔
‘‘یہ برخور دار بھی حافظ قرآن ہیں کیا….؟’’
اور حافظ شفیع نے بلا جھجھک کہا۔
‘‘جی ہاں! جی ہاں! سبحان اللہ’’۔
بعد میں جب میں نے پوچھا کہ ‘‘حافظ صاحب آپ نے جھوٹ کیوں بولا….؟’’
تو سر ہلا کر بولے ‘‘سبحان اللہ! خدا جھوٹ نہ بلوائے۔’’ اور ایک وقت آیا کہ اُن کی بات پوری ہو گئی!
میں پہلی صف میں حافظ شفیع کے پیچھے کھڑا ہو کر تراویح پڑھتا۔ تراویح کے بعد جب انہیں دودھ سے بھرا ہوا گلاس ملتا تو پہلے آدھا مجھے پلاتے اور جھوم جھوم کر کہتے۔ ‘‘کیوں خواجہ صاحب! اسے کہتے ہیں خالص دودھ….؟’’
میں نے ان کی جیب میں دو تین سکوں کے سواء کبھی ایک پائی نہ دیکھی تھی۔ انہیں فالتو پیسے کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ حجرے میں طالب علموں کو فارسی اور قرآن شریف پڑھاتے مگر ان سے کچھ نہ لیتے۔ مسجد خیر الدین کا فرش دھوتے، بازاروں میں جھاڑو دیتے۔ سقادے صاف کرتے۔ نماز کے وقت بچوں کے ساتھ مل کر انہیں بچھاتے لیکن مسجد میں گلی محلے سے جو طرح طرح کے کھانے آتے ان میں سے دانہ تک نہ لیتے۔ جو تھوڑی بہت طبابت انہوں نے سیکھ رکھی تھی بس اسی پر قناعت تھی۔ دو چار آنے کی دوائیں روز بک جاتی تھیں۔ تنور سے دال روٹی منگوا، وہیں حجرے میں بیٹھ کر کھا لیتے اور سبحان اللہ کہہ کر سماوار میں چائے کے لیے کوئلے سلگانے لگتے۔
ایک مرتبہ ہال بازار کے مشہور لکھ پتی تاجر نند لعل کا اکلوتا لڑکا کندن لعل سخت بیمار پڑ گیا۔ وہ میرا ہم جماعت بھی تھا۔ اس کے پیٹ میں کچھ خرابی ہو گئی تھی اور حالت روز بروز تشویش ناک ہوتی جا رہی تھی۔ نند لعل اپنے بیٹے کندن لعل کے لیے انتہائی پریشان ہو گیا۔ اس نے گھر پر امرتسر، جالندھر اور لاہور کے نامی گرامی ڈاکٹروں کو جمع کر لیا۔ مگر اتفاق کی بات ہے کہ یہ سارے ڈاکٹر مل کر بھی کندن لعل کی بیماری کو دور نہ کرسکے۔ اس کی حالت بگڑتی چلی گئی میں نے کندن لعل کے پتا جی سےکہا کہ حافظ صاحب کو بھی دکھا لیں۔ کیا خبر اللہ شفا دے دے۔
لالہ جی خود حافظ صاحب کو لے کر گھر آئے۔ کندن لعل کی حالت واقعی بہت خراب تھی۔ دنوں میں وہ سوکھ کر کانٹا ہو گیا تھا اور نقاہت کے عالم میں ایک شاندار پلنگ پر لیٹا نحیف سانس لے رہا تھا۔ اس کی ماتا جی سرہانے سر جھکائے بیٹھی آنسو بہا رہی تھیں۔ میز پر بڑی بڑی قیمتی دوائیں پڑی تھیں۔ لوہے کی الماریوں اور آہنی سیفوں میں ہزاروں روپے کے زیورات بند پڑے تھے مگر کندن لعل کو کوئی نہ بچا سکتا تھا۔
حافظ صاحب کو اندر داخل ہوتا دیکھ کر ماتا جی نے سفید ساڑھی کا گھونگھٹ سا نکال لیا۔
حافظ شفیع نے بسم اللہ پڑھ کر کندن لعل کی نبض ٹٹولی اور آنکھیں بند کر لیں تھوڑی دیر بعد آنکھیں کھول کر مسکرائے اور نند لعل سے بولے۔
‘‘فکر نہ کریں لالہ جی! بچہ اچھا ہو جائے گا۔ سبحان.اللہ!’’
پھر جیب میں سے ٹین کی ایک ڈبیا نکال کر اسے کھولا۔ اس میں ننّھی منّی چھ پڑیاں نکال کر میز پر رکھیں اور کہا۔
‘‘دو دو گھنٹے بعد پانی کے ساتھ ایک پڑیا دیتے جائیں۔ اللہ شفا دے گا۔’’
خدا کی قدرت کہ اگلے روز کندن لعل کی حالت سنبھل گئی۔ حافظ شفیع نے مزید چھ پڑیاں بھجوا دیں۔ تیسرے روز کندن لعل پلنگ پر اٹھ کر بیٹھ گیا، چوتھے روز وہ اپنے گھر میں چل پھر رہا تھا اور پانچویں دن وہ اپنے والد کی دکان پر بیٹھا تھا۔ لالہ نند لعل اسی روز اپنے لخت جگر کو لے کر حافظ صاحب کے پاس حجرے میں حاضر ہوا۔
میں بھی وہیں شال کی بکل مارے صف پر بیٹھا تھا۔
حافظ صاحب سماوار میں کوئلے سلگا پنکھے سے ہوا کر رہے تھے لالہ جی نے ہاتھ جوڑ کر بندگی کی اور اپنے بیٹے کے ساتھ دو زانوں ہو کر بڑے ادب سے صف پر بیٹھ گئے۔ حافظ شفیع نے مسکرا کر کہا۔
‘‘خدا نے آپ کے بچے کو شفا دے دی۔ سبحان اللہ’’
لالہ نند لعل بچھا جا رہا تھا۔ بڑے انکسار سے ہاتھ جوڑ کر بولا۔
‘‘حافظ جی! میں آپ کی دوا کے پیسے دینے آیا ہوں۔ انہیں قبول کیجیے۔’’
اس کے ساتھ ہی لالہ جی نے جیب سے سو سو روپے کے بیس نوٹ نکال کر حافظ شفیع کے قدموں میں رکھ دئیے۔
حافظ شفیع نے نوٹوں کو دیکھا۔ پھر لالہ جی کو دیکھا اور سر جھٹک کر مسکراتے ہوئے بولے۔
‘‘مگر لالہ جی! میری دوا تو تین آنے کی تھی۔’’
میں وہ منظر ساری زندگی نہیں بھول سکتا کہ کس طرح امر تسر کا لکھ پتی تاجر نند لعل حافظ شفیع کو دو ہزار روپے قبول کرنے پر اصرار کر رہا تھا اور حافظ شفیع کس بے نیازی سے صرف تین آنے لینے پر بضد تھے۔
آخر لالہ جی کو سارے نوٹ واپس لینے پڑے اور اپنے کوٹ کی جیب میں سے تین آنے نکال کر حافظ جی کے قدموں میں رکھ دئیے۔
اس وقت لالہ جی کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ انہوں نے فرط عقیدت سے حافظ شفیع کے پاؤں کو چھو کر ہاتھ اپنے ماتھے پر لگائے۔
جب لالہ جی چلے گئے تو حافظ شفیع نے پنکھا صف پر پھینک کر دروازے میں سے سر باہر نکال کر دیکھا کہ لالہ جی مسجد سے نکل گئے ہیں۔ پھر جو پلٹے تو ان کا چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا۔ بچوں کی طرح مسرور ہو کر بولے۔
‘‘سبحان اللہ! آج کی روٹی کا بندوبست ہو گیا بٹ.صیب’’
آج کی روٹی…. یعنی دو پیسے کی دو روٹیاں اور پیسے کی دال….کسی وقت ہم دونوں کبھی باغ کی سیر کو نکل جاتے۔ راستے میں کوئی جنازہ مل جاتا تو حافظ شفیع کلمہ طیبہ شریف پڑھ کر اس طرف لپکتے اور کندھا دے کر ساتھ ہو لیتے۔ میں بھی ان کے ساتھ ہو جاتا۔ محلے میں کسی لڑکی کی شادی ہوتی تو حافظ شفیع بن بلائے ہی وہاں پہنچ جاتے۔ دریاں بچھا رہے ہیں۔ قناتیں لگا رہے ہیں۔ دسترخوان جھاڑ رہے ہیں۔ مٹکوں میں پانی ڈلوا رہے ہیں براتیوں کو پانی پلا رہے ہیں۔ تھال بھر بھر کو پلاؤ اندر لے جا رہے ہیں اور جب برات چلی جاتی تو عمر تنور والے کی دکان پر آ کر وہی دو روٹیاں اور دال لیتے اور سبحان اللہ کہہ کر کھانا شروع کر دیتے۔
صبح صادق کو اُٹھ کر مسجد میں اذان دیتے، مسجد کے صحن میں جھاڑو دیتے اور منبر کو اپنے بسنتی رومال سےجھاڑتے۔
رمضان شریف میں سحری کے وقت محلے میں ہر گھر پر جا کر دروازہ کھٹکھٹاتے اور صاحب خانہ کا نام لے کر اسے جگاتے۔ افطاری کے وقت مسجد میں انواع و اقسام کے پھلوں اور کھانوں کے ڈھیر لگ جاتے مگر حافظ شفیع کو میں نے ہمیشہ نمک اور کھجور سے ہی روزہ افطار کرتے دیکھا۔ افطاری کے بعد میرے ساتھ نماز ادا کرتے۔ تنور پر جا کر دال روٹی کھاتے اور پھر مجھے ساتھ لے کر تراویح پڑھانے تحصیل پورے والی مسجد کی طرف روانہ ہو جاتے۔ سارا راستہ ہنس ہنس کر باتیں کرتے جاتے رومی اور سعدی کے شعر سناتے۔ زعفرانی چائے کے فوائد پر لہک لہک کر باتیں کرتے۔ سبحان اللہ! کیا لوگ تھے۔
حافظ شفیع سے امر تسر میں میری آخری ملاقات 23 اگست 1947ء کو شریف پورے کے باہر ریلوے لائن پر ہوئی۔ امر تسر کے درو دیوار فسادات کی آگ میں جل رہے تھے۔ شہر پر فوج نے قبضہ کر رکھا تھا اور امرتسر کے مسلمان مہاجرین سے بھری ہوئی ریل گاڑیاں شریف پورے سےپاکستان کی طرف جا رہی تھیں۔ ہر شخص پریشان اور بے حال تھا۔ چہروں کے رنگ اُڑے ہوئے تھے۔ آنکھیں ویران ہو رہی تھیں۔ کسی کا بیٹا شہید ہو گیا تھا تو کسی کا باپ۔ کسی کے بھائی کی لاش بے گور و کفن شہر کی کسی سڑک پر پڑی رہ گئی تھی۔ تو کسی کی بہن محلے کے کنوئیں میں چھلانگ لگا کر عزت کی موت مر گئی تھی۔
امرتسر جل رہا تھا۔ ہر طرف آگ اور خون کا کھیل جاری تھا۔
شریف پورے والی ریلوے لائن کے آس پاس مہاجرین کا سیلاب اُمڈ آیا تھا۔ بلوچ رجمنٹ کے جوان مشین گنیں سنبھالے جالندھر اور بٹالے کی طرف پوزیشنیں لیے بیٹھے تھے۔
شریف پورے کے آس پاس کی آبادی کو مہاجرین کیمپ قرار دیا جا چکا تھا۔ شہر میں رہے سہے مسلمانوں کے پریشان حال قافلے یہاں جمع ہو رہے تھے ۔ رات رات بھر شہر کی طرف سے غیر مسلم فوجی اس کیمپ پر فائر کھول دیتے۔ سارے کیمپ پر ایک وحشت کی فضا طاری تھی۔ ہمارے خاندان کے تقریباً سبھی افراد پہلی گاڑی میں لاہور روانہ ہو چکے تھے۔ اب مجھے یاد نہیں کہ میں کس لیے اکیلا شریف پورے میں رہ گیا تھا۔ بہرحال میں ریلوے لائن کے پاس دوسرے ہزاروں مہاجرین کے ساتھ پتھروں پر بیٹھا پاکستان جانے والی گاڑی کا انتظار کر رہا تھا،اتنے میں امرتسر ریلوے اسٹیشن کی جانب سے چھک چھک کرتی خالی گاڑی آئی اور ہمارے پاس آ کر رک گئی۔ بس اس کے بعد کچھ خبر نہیں کہ کیا ہوا دیکھتے دیکھتے ریل گاڑی کے اندر، باہر اور چھت پر تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ میں بھی کسی نہ کسی طرح ہجوم میں گھس گھسا کر ایک ڈبے میں سوار ہو کر کسی کے سامان پر بیٹھ گیا۔ میں ایک آدمی کی ٹانگ اور دوسرے آدمی کے بازو میں سے کھڑکی کے باہر کا کچھ منظر دیکھ رہا تھا۔ ہر طرف ایک شور، ایک ہنگامہ اور ایک قیامت برپا تھا۔ اتنے میں میں نے حافظ شفیع کو دیکھا۔ وہ ایک میلا سا تھیلا کندھے پر ڈالے ایک طرف سگنل کے کھمبے کے پاس کھڑے تھے۔ انہوں نے دو ایک بار گاڑی میں سوار ہونے کی کوشش بھی کی مگر لوگوں نے انہیں دھکا دے کر پیچھے ہٹا دیا۔ وہ ایک بار پھر چپ چاپ سے کھمبے کے ساتھ لگ کر کھڑے ہو گئے۔ وہ مجھ سے کافی فاصلے پر تھے اور میں انہیں آواز نہ دے سکتا تھا۔ گاڑی چل پڑی۔ بچے کھچے لوگ بھاگ بھاگ کر سوار ہونے لگے میں نے دور سے حافظ شفیع کو دیکھا۔ انہوں نے بھی لپک کر ایک ڈبے میں سوار ہونے کی کوشش کی لیکن ایک آدمی نے جو پائیدان پر لٹکا ہوا تھا حافظ جی کا ہاتھ پرے جھٹک دیا۔ گاڑی اب شریف پورے سے آگے نکل آئی تھی۔ شریف پورہ کیمپ سے پاکستان آنے والی یہ آخری گاڑی تھی۔ اس کے بعد جو گاڑی بھی آئی اسے کاٹ دیا گیا۔ کچھ دور تک میں حافظ شفیع کو دیکھتا رہا۔ وہ ریلوے لائن کے قریب اکیلے کھڑے ، تھیلا کندھے پر ڈالے چپ چاپ پاکستان کو جانے والی گاڑی کو تک رہے تھے۔
اس وقت میں ان کے پاس نہیں تھا مگر مجھے یقین ہے کہ انہوں نے ایک بار ضرور سر جھٹک کر مسکراتے ہوئے کہا ہو گا۔
‘‘سبحان اللہ’’
ماخذ:
http://roohanidigest.net/?p=639#sthash.9BJyyjkz.dpuf
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید