(حصہ اول یہاں دیکھیں )
ترجمان القرآن کے اسلوب کا جمالیاتی معیار
ترجمان القرآن کا اسلوب نئے اردو کلچر کا عطا کیا ہوا وہ روشن اسلوب ہے جو صرف شعور و احساس کو متاثر ہی نہیں کرتا بلکہ بصیرت بھی عطا کرتا رہتا ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد کی اپنی بصیرت نے اس اسلوب کو خلق کیا ہے، جس کے لہجہ و انداز اور طریق استدلال سے مفاہیم و اقدار کی وحدت کا احساس ملتا رہتا ہے۔ اس اسلوب میں شخصیت کو اس لیے زیادہ محسوس کرتے ہیں کہ قرآن حکیم شخص کا تجربہ بن گیا ہے۔ تجربہ جو نگاہ اور وجدان، بصیرت اور انبساط کا سرچشمہ ہے، قرآن پاک کے اٹھارہ پاروں کا ترجمہ قرآنی مفاہیم کے جوہر کو جس طرح نمایاں کرتا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مطالعہ کس طرح آزادانہ طور پر انہماک اور شوق سے کیا گیا ہے، مختلف موضوعات اور مواد اور سادہ اور پیچیدہ مسائل کو سمجھنے میں وژن کا کارنامہ بھی کم اہم نہیں ہے۔ یہ مولانا ابوالکلام آزاد کے وژن ہی کا کرشمہ ہے کہ مفسرین کی بہت سی باتوں سے گریز کر کے جانے کتنی سچائیوں تک پہنچنے کی کامیاب کوشش ملتی ہے۔ جذبات کے اظہار میں توازن ہے، استعاروں کی گرہیں کھولی گئی ہیں۔ قرآن مجید کی پاکیزہ خوشبوؤں سے قاری کے احساس و شعور اور اس کے پورے وجود کو معطر کرنے کا جو اسلوب مولانا نے خلق کیا ہے وہ ان کی پچھلی تحریروں کے اسالیب سے مختلف تو ہے ہی، تسویہ، مطابقت اور ہم آہنگی Harmony کا بھی ایک منفرد خوبصورت نمونہ ہے۔ مختلف موضوعات کی تشریح اور قرآنی مفاہیم کے گوشوں کو اجاگر کرتے ہوئے آہنگ قرآن کو اس طرح جذب کیا گیا ہے کہ اکثر اس کا اثر تشریح کے آہنگ پر ہوا، جس سے اسلوب کی دل کشی اور دل آویزی اور بڑھ گئی ہے۔ ہم جسے حکیمانہ احساس کہتے ہیں وہ اسی آہنگ کی دین ہے۔ ترجمان القرآن کے اسلوب میں موضوع اور ہیئت کی مطابقت اور ہم آہنگی راحت بخشتی بھی ہے اور مسرت بھی، شاد بھی کرتی ہے اور انسانیت کے تئیں بیدار بھی کرتی ہے۔ یہ کتنی بڑی بات ہے کہ قاری اس اسلوب کے خالق کی طرح سوچنے اور محسوس کرنے لگتا ہے، اس کے حواس بیدار ہونے لگتے ہیں، تخلیق کائنات اور تخلیق آدم، خالق اور مخلوق اور تخلیقی جمالیاتی عوامل سب کو سمجھنے کے لیے ایک نظر مل جاتی ہے۔ یہ اسلوب جو ابلاغ کا اپنا حسن رکھتا ہے، تزکیہ نفس بھی کرتا ہے اور ایک معروضی Objective زاویہ نگاہ بھی عطا کرتا ہے۔ جملوں کی تعدیل یا سی میٹری (Symmetry) اور عبارتوں کے داخلی آہنگ نے ترجمان القرآن کے اسلوب میں بڑی مطابقت، ہم آہنگی یا ہارمونی (Harmony) پیدا کی ہے۔
ترجمان القرآن، میں مولانا ابوالکلام آزاد کے اسلوب کی دو جہتیں واضح ہیں۔ پہلی جہت وہ ہے جو جلد اول کے لیے بے مثال مقدمے میں ہے۔ نیز دونوں جلدوں کے وضاحتی بیانات میں ہے اور دوسری جہت تفسیروں میں۔ دونوں کی اپنی اپنی خصوصیات ہیں، لیکن مفاہیم اور اقدار کی وحدت کے شعور نے دونوں میں ایک باطنی رشتہ قائم کر دیا ہے۔ ایک ہی شخصیت ہے، اردو کا صاحب اسلوب فنکار ہے جو قرآن اور آہنگ کی قدر و قیمت جانتا ہے اور شارح اور مفسر کی حیثیت سے اپنی بصیرت میں ایسی روشنی پیدا کرنا چاہتا ہے کہ جس سے وہ قرآن فہمی کو آسان بنا سکے اور بعض ایسے گوشے بھی اجاگر کر سکے جو اب تک مفسرین سے پوشیدہ تھے۔
ایک جہت یہ ہے:
’’یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ دنیا میں جو چیز جتنی زیادہ حقیقت سے قریب ہوتی ہے اتنی ہی زیادہ سہل اور دلنشیں بھی ہوتی ہے اور خود فطرت کا یہ حال ہے کہ کسی گوشے میں بھی الجھی ہوئی نہیں ہے، الجھاؤ جس قدر بھی پیدا ہوتا ہے بناوٹ اور تکلف سے پیدا ہوتا ہے۔ پس جو بات سچی اور حقیقی ہو گی ضروری ہے کہ سیدھی سادی اور دل نشیں بھی ہو دل نشینی کی انتہا یہ ہے کہ جب کبھی کوئی ایسی بات تمہارے سامنے آ جائے تو ذہن کو کسی طرح کی اجنبیت محسوس نہ ہو وہ اس طرح قبول کرے گویا پیشتر سے سمجھی بوجھی ہوئی بات ہے۔
…اس سے زیادہ سہل اور دلنشیں اسلوب بیان کیا ہو سکتا ہے؟ سات چھوٹے چھوٹے بول ہیں۔ ہر بول چار پانچ لفظوں سے زیادہ کا نہیں، ہر لفظ صاف اور دلنشیں معانی کا نگینہ ہے جو اس اس انگوٹھی میں جڑ دیا گیا ہے‘‘ ۔ (ترجمان القرآن جلد اول ص 28-27 سورہ فاتحہ اسلوب بیان)
’’ربوبیت اور رحمت کے بعد مالک یوم الدین کے وصف نے یہ حقیقت بھی آشکار کر دی کہ اگر کائنات میں صفات رحمت و جمال کے ساتھ قہر و جلال بھی اپنی نمود رکھتی ہیں تو یہ اس لیے نہیں کہ پروردگار عالم میں غضب و انتقام ہے۔ بلکہ اس لیے ہے کہ وہ عادل ہے اور اس کی حکمت نے ہر چیز کے لیے اس کا ایک خاصہ اور نتیجہ مقرر کر دیا ہے۔ عدل منافی رحمت نہیں بلکہ عین رحمت ہے‘‘ ۔ (ایضاً)
تفسیر سورہ فاتحہ کا فکر انگریز اور معنی خیز مقدمہ ایک مظہر ہے جو ایک فینومینا، خلق کر دیتا ہے، فکر و نظر اور اسلوب کی ہم آہنگی نے حکیمانہ احساس کو حد درجہ محسوس بنا دیا ہے۔ عبارتیں سادگی کے حسن کو لیے پرکار ہیں، موضوع اور ہیئت کی وحدت نے اس اسلوب کو زیادہ موثر اور جاذب نظر بنا دیا ہے۔ پورے مقدمے کا بغور مطالعہ کیا جائے تو اسلوب کی اس جہت کی کئی سطحیں نمایاں ہوں گی۔ مصنف کی منظم شخصیت، اس کا رجحان، ذہن، عقل و فہم، دانشوری کی صحت اور اصابت اور پوری مذہبی اور تمدنی وراثت ان سطحوں پر ان کی پہچان ہو جاتی ہے، ان سب کی وجہ سے انتہائی گہرائی میں ایک برقی سطح پیدا ہو گئی ہے کہ جس کا گہرا رشتہ کلچر یا ثقافت سے ہے۔ ایسے اسلوب میں مولانا ابوالکلام آزاد کی شخصیت ایک مظہر کی ہو گئی ہے۔
دوسری جہت یہ ہے:
’’ان لوگوں کی مثال ایسی ہے جیسے (ایک آدمی رات کی تاریکی میں بھٹک رہا تھا اس) نے (روشنی کے لیے) آگ سلگائی لیکن جب (آگ سلگ گئی اور اس کے شعلوں سے) آس پاس روشن ہو گیا تو قدرت الٰہی سے ایسا ہوا کہ (اچانک شعلے بجھ گئے اور ) روشنی جاتی رہی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ روشنی کے بعد پھر اندھیرا چھا گیا اور آنکھیں اندھی ہو کر رہ گئیں کہ کچھ سجھائی نہیں دیتا، بہرے، گونگے، اندھے ہو کر رہ گئے۔ پس جن لوگوں کی محرومیِ شقاوت کا یہ حال ہے) وہ کبھی اپنی گم گشتگی سے نہیں لوٹ سکتے‘‘ ۔(تفسیر: از البقرہ)
’’اور (پھر غور کرو وہ واقعہ) جب ابراہیمؑ کو اس کے پروردگار نے چند باتوں میں آزمایا تھا اور وہ ان میں پورا اترا تھا، جب ایسا ہوا تو خدا نے فرمایا اے ابراہیم! میں تجھے انسانوں کے لیے امام بنانے والا ہوں (یعنی دنیا میں آنے والی قومیں تیری دعوت قبول کریں گی اور تیرے نقش قدم پر چلیں گی۔ ابراہیمؑ نے عرض کیا جو لوگ میری نسل میں سے ہوں گے ان کی نسبت کیا حکم ہے؟ ارشاد ہوا جو ظلم کی راہ اختیار کریں تو ان کا میرے اس عہد میں کوئی حصہ نہیں ‘‘ ۔ (تفسیر: از البقرہ)
مولانا واضح تفسیر و تشریح کے ساتھ مختلف مقامات پر تشریح و وضاحت بھی کرتے جاتے ہیں۔ قرآن فہمی کو آسان بنانے اور دل و دماغ میں اتارنے کے لیے مولانا کے اسلوب کی یہ جہت نمایاں ہوئی ہے۔ اسلوب کی اس دوسری جہت میں جو توانائی اور آہنگ ہے وہ قرآن مجید کی عبارتوں کی برقی کیفیت توانائی اور آہنگ سے گہرا رشتہ رکھتی ہے۔ تشریح اور وضاحت میں مولانا کے مزاج اور رجحان نے تفسیر کو تاویلات و توجیہات سے بچائے رکھا ہے اور ان کا اثر اسلوب پر بھی ہوا ہے، سادگی کا حسن پیدا ہوتا گیا ہے۔ اگر صرف فقہی اور کلامی بحثوں میں پڑ جاتے تو انداز گفتار دوسرا ہوتا اور ایسی شیرین اور دلآویزی پیدا نہ ہوتی، عربی زبان کے نکات اور رموز کو بخوبی سمجھتے تھے۔ عربی محاوروں کے مفاہیم اور طریقہ استعمال سے واقف تھے۔ تفسیر اور تشریح میں انہوں نے اپنی فکر و نظر سے کام لیتے ہوئے جانے کتنی اسرائیلی روایات کو الگ کر دیا ہے۔ان کے وژن نے دانشوری کی اس سطح پر روشنی عطا کی کہ جہاں عقل اور وجدان دونوں کی اہمیت ہے، وضاحت و تشریح میں عقل اور وجدان دونوں کے تحرک ہی نے ایسے اسلوب کو جان پرور بنا دیا ہے جو اردو ادب میں اپنی مثال آپ ہے۔
مولانا ابو الکلام آزاد نے ’’اصول ترجمہ و تفسیر‘‘ کے تحت جو کچھ لکھا ہے اس میں بہت سی باتوں کی وضاحت ہو جاتی ہے۔ مولانا نے اپنے مطالعہ سے اس بات کو بخوبی سمجھ لیا تھا کہ پچھلی تفسیروں اور تشریحوں سے قرآن مجید کو سمجھنے میں دشواریاں بھی پیدا ہوئی ہیں، قرآن کی حقیقت نگاہوں سے پوشیدہ ہوتی گئی ہے اور اس کے مطالعہ و فہم کا عمدہ معیار قائم نہ ہو سکا ہے۔ فرماتے ہیں :
’’صدیوں سے اس طرح کے اسباب و موثرات نشوونما پاتے رہے ہیں جن کی وجہ سے بتدریج قرآن کی حقیقت نگاہوں سے مستور ہوتی گئی اور رفتہ رفتہ اس کے مطالعہ و فہم کا ایک نہایت پست معیار قائم ہو گیا… یہ پستی صرف معانی و مطالب ہی میں نہیں ہوتی بلکہ ہر چیز میں ہوتی ہے۔ حتی کہ اس کی زبان، اس کے الفاظ، اس کی تراکیب اور اس کی بلاغت کے لیے بھی نظرو فہم کی کوئی بلند جگہ نہیں رہی‘‘ ۔ (ترجمان القرآن جلد اول ص۹)
یہی وجہ ہے کہ مولانا نے قرآن فہمی کو آسان بنانے کی ہر ممکن کوشش کی اور بلند پایہ شارح اور مفسر کی حیثیت سے قرآن مجید کی حقیقت کو واضح کرنا چاہا، کوشش کی کہ فکر و نظر کی نئی راہیں نکلیں۔ مولانا کو اس حقیقت کا علم تھا کہ قرآن مجید سچائیوں کے تئیں بیدار کر کے اعتماد اور یقین پیدا کرنا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے مختلف اقوال اور تاویل و توجیہ میں ذہن کو الجھایا نہیں بلکہ چاہا کہ قرآن کی عمومیت کے تئیں بیداری پیدا ہو، لہٰذا ان کے مطابق اسلوب تراشا، ایسا اسلوب یا ایسا نیا تازہ آزاد اسلوب جو کلام الٰہی کی تعلیمات کی آزاد فضا کے مطابق ہو۔
مولانا نے قرآن حکیم کے اسلوب بیان پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا ہے:
’’قرآن حکیم اپنی وضع، اپنے اسلوب، اپنے انداز بیان، اپنے طریق خطاب، اپنے طریق استدلال، غرض کہ اپنی ہر بات میں ہمارے وضعی اور صناعی طریقوں کا پابند ہے اور نہ اسے پابند ہونا چاہیے، وہ اپنی ہر بات میں اپنا بے میل فطری طریقہ رکھتا ہے اور یہی وہ بنیادی امتیاز ہے جو انبیاء کرام (علیہم السلام) کے طریقہ ہدایت کو علم و حکمت کے وضعی طریقوں سے ممتاز کر دیتا ہے۔ (ترجمان القرآن ص 10)
’’قرآن جب نازل ہوا تو اس کے مخاطبوں کا پہلا گروہ بھی ایسا ہی تھا، تمدن کے وضعی اور صناعی سانچوں میں ابھی ان کا دماغ نہیں ڈھلا تھا، فطرت کی سیدھی سادی فکری حالت پر قانع تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ قرآن اپنی شکل و معنی میں جیسا واقع ہوا تھا، ٹھیک ٹھیک ویسا ہی اس کے دلوں میں اتر گیا اور اسے قرآن کے فہم و معرفت میں کسی طرح کی دشواری محسوس نہیں ہوئی۔ صحابہ کرام پہلی مرتبہ قرآن کی کوئی آیت یا سورت سنتے تھے اور سنتے ہی اس کی حقیقت کو پا لیتے تھے‘‘ ۔ (ایضاً: ص 10)
یہی وجہ ہے کہ مولانا نے یہ چاہا کہ قرآن پاک کو ٹھیک ٹھاک سمجھ لینے کے لیے سادہ، دل کش اور دل نشیں اسلوب اختیار کیا جائے، زبان مشکل نہ ہو، مولانا یقیناً کامیاب رہے اور ان کی وجہ سے اردو ادب کو ایک روشن اسلوب بھی ملا جو مقدمۂ تفسیر، تفسیر البیان اور ’’ترجمان القرآن‘‘ میں اپنی ان دو جہتوں کو محسوس بناتا ہے کہ جن کا ذکر کیا گیا ہے۔ لفظوں اور عبارتوں کے تعلق سے وہ اتنے محتاط اور چوکنے تھے کہ مشکل لفظوں کو سہل اور آسان لفظوں سے بدلتے رہے ہیں۔ تحریر کیا ہے:
’’یہ حقیقت پیش نظر رہے کہ ’’ترجمان القرآن‘‘ کے نوٹ تشریح و وضاحت کا ایک مزید درجہ ہیں ورنہ قرآن کا صاف صاف مطلب سمجھ لینے کے لیے متن کا ترجمہ پوری طرح کفایت کرتا ہے۔ میں نے تجربے کے لیے سورہ بقرہ کا مجرد ترجمہ ایک پندرہ برس کے لڑکے کو دیا جو اردو کی آسان کتابیں روانی کے ساتھ پڑھ لیتا تھا پھر ہر موقع پر سوالات کر کے جانچا۔ جہاں تک مطلب سمجھ لینے کا تعلق ہے وہ ایک مقام پر بھی نہ اٹکا اور تمام سوالوں کا جواب دیتا گیا پھر ایک دوسرے شخص پر تجربہ کیا جس نے بڑی عمر میں لکھنا پڑھنا سیکھا ہے اور ابھی اس کی استعداد اس سے زیادہ نہیں کہ اردو کے تعلیمی رسائل بہ آسانی پڑھ لیتا تھا، یہ تین جگہ تین فارسی لفظوں پر اٹکا لیکن مطلب سمجھنے میں اسے بھی کوئی رکاوٹ پیش نہ آئی۔ میں نے وہ الفاظ بدل کر نسبتاً زیادہ سہل الفاظ رکھ دیے‘‘ ۔ (ترجمان القرآن حصہ اول ص ۷۱)
بہتر قرآن فہمی کے لیے اسلوب بیان کے تئیں ان کا جو محتاط رویہ تھا اس سے ایک طرف قرآن مجید کو ٹھیک ٹھاک سمجھ لینے میں مدد ملی اور دوسری طرف اردو ادب کو ایک منفرد اسلوب ملا، ترجمان القرآن کے اسلوب کے متعلق مولانا نے فرمایا ہے:
’’اس کی ترتیب سے مقصود یہ ہے کہ مطالب قرآن کے فہم و تدبر کے لیے ایک ایسی کتاب تیار ہو جائے جس میں کتب تفسیر کی سی تفصیلات تو نہ ہوں لیکن وہ سب کچھ ہو جو قرآن کو ٹھیک ٹھاک سمجھ لینے کے لیے ضروری ہے۔ اس غرض سے جو اسلوب اختیار کیا گیا ہے امید ہے کہ اہل نظر اس کی موزونیت بہ یک نظر محسوس کر لیں گے۔ پہلے کوشش کی ہے کہ قرآن کا ترجمہ اردو میں اس طرح مرتب ہو جائے کہ اپنی وضاحت میں کسی دوسری چیز کا محتاج نہ رہے، اپنی تشریحات خود اپنے ساتھ رکھتا ہو پھر جا بجا نوٹوں کا اضافہ کیا ہے، جو سورت کے مطالب کی رفتار کے ساتھ ساتھ برابر چلے جاتے ہیں اور جہاں کہیں ضرورت دیکھتے ہیں مزید رہنمائی کے لیے نمودار ہو جاتے ہیں۔ یہ قدم قدم پر مطالب کی تفسیر کرتے ہیں، اجمال کو تفصیل کا رنگ دیتے ہیں، مقاصد و وجود سے پردے اٹھاتے ہیں، دلائل و شواہد کو روشنی میں لاتے ہیں، احکام و نواہی کو مرتب و منضبط کرتے ہیں ا ور زیادہ سے زیادہ مختصر لفظوں میں زیادہ سے زیادہ معانی و معارف کا سرمایہ فراہم کرتے جاتے ہیں ‘‘ ۔ (ترجمان القرآن ص ۱۷)
زیادہ سے زیادہ مختصر لفظوں میں زیادہ سے زیادہ معانی و معارف کا سرمایہ مولانا کے اس اسلوب کی ایک امتیازی خصوصیت ہے۔
مولانا فرماتے ہیں کہ قرآن کی صحت فہم کے لیے عربی لغت و ادب کا صحیح ذوق شرط اول ہے۔ چونکہ یہ ذوق کمزور پڑتا گیا اس لیے مطالب میں بے شمار الجھاؤ پڑ گئے، عربی زبان کے محاورات و مدلولات کا ذوق سلیم باقی نہ رہا۔ ’ترجمان القرآن‘ کا مطالعہ کرتے ہوئے جہاں مولانا کے علم اور ان کے عربی لغت و ادب اور محاورات و مدلولات کے صحیح ذوق کا پتہ چلتا ہے وہاں اردو کلچر اور زبان کی توانائی اور برقی کیفیتوں کی بھی بہتر پہچان ہوتی ہے۔ اس کی توانائی اور اس کی برقی کیفیتوں کا کرشمہ ہے کہ قرآن کا جلال و جمال مولانا کی قرآن فہمی کے ساتھ اس سانچے میں ڈھل گیا۔
اردو کے تعلق سے بات بہت اہم ہے کہ قرآن پاک کے فطری اسلوبوں سے آشنا ایک شخصیت نے اسے منتخب کیا اور تشریح و تعبیر اور ترجمانی میں اس زبان کی وجہ سے کوئی الجھاؤ پیدا ہوا اور نہ کسی سطح پر مایوسی ہوئی۔ مولانا کا ایک بڑا مقصد پورا ہوا اس لیے کہ انہیں علم تھا کہ جوں جوں وضعیت کا ذوق بڑھا ہے، قرآن کے فطری اسلوبوں سے طبیعتیں نا آشنا ہوتی گئی ہیں اور پھر وہ وقت آ گیا کہ قرآن کی ہر بات وضعی اور صناعی طریقوں کے سانچوں میں ڈھالی جانے لگی، چونکہ ان سانچوں میں ڈھل جانا مشکل تھا اس لیے مختلف قسم کے الجھاؤ پیدا ہونے لگے۔ مولانا ایسے اسلوب کے خواہش مند تھے کہ جس میں سادگی کا حسن بھی ہو، حسن کا جلال و جمال بھی اور اردو زبان نے ان کی ایسی مدد کی کہ ایک جانب قرآن کی تفسیروں کی تاریخ میں ایک تاریخی کارنامہ انجام پایا اور دوسری جانب اردو کی مروج اصطلاحات اور ان کے جوہر کی قدر و قیمت کا اندازہ ہوا۔ اردو زبان کی مدد سے مولانا نے قرآن پاک کا طریق استدلال نمایاں کیا، اپنی زبان اور اپنے اسلوب کا رشتہ قرآن کی بلاغت سے قائم کیا، وضاحت کی ایسی تکنیک وضع کی جو اپنی تشریحات خود اپنے ساتھ لیے رہی، قرآن مجید کے عربی اسلوب کا تناسب اور اس کی ہم آہنگی اپنی مثال آپ ہے۔ یہ اسلوب ’’سی میٹری‘‘ Symmetry اور ہارمونی Harmony کا ایک اعلیٰ اور افضل جمالیاتی معیار قائم کرتا ہے، مولانا کی ذات اور شخصیت، ان علم اور مطالعے اور ان کی فکر و نظر اور وژن نے اردو زبان کی سحر انگیزی سے جو کام لیا ہے، کے اور عربی زبان میں موضوع اور ہیئت کے پیش نظر اور قرآن کی آیتوں کے جوہر کے پیش نظر اردو اسلوب میں جو ’’سی میٹری‘‘ اور ’’ہارمونی‘‘ پیدا کی ہے وہ ایک غیر معمولی کارنامہ ہے۔ اردوالفاظ مضمون کی نوعیت اور موقع ومحل کے لحاظ سے جمالی اور جلالی صفات کے آئینہ دار بنتے ہیں اور صوتی تاثر عطا کرتے جاتے ہیں، ساتھ ہی معنی ومفہوم کی بلاغت کو محسوس بناتے جاتے ہیں، مشرقی اسلوبیات کی تاریخ میں ان باتوں کی وجہ سے اردو زبان اور مولانا کے اسلوب بیان دونوں کو ممتاز درجہ حاصل ہوتا ہے۔
مولانا ابو الکلام آزاد کے اسلوب کی پہلی جہت فصاحت، بلاغت اور سحر انگیزی کی عمدہ مثال ہے، یہ اسلوب دل و ذہن میں اترکر بصیرت عطا کرتا ہے۔ ایسا حکیمانہ احساس ہے کہ جس سے موجود بصیرت تیز اور تیز تر ہو جاتی ہے، حقیقتوں کو واضح کرنے کے لیے لہجہ، خطاب اور انداز گفتار کا رنگ انتہائی پرکشش ہے۔ قرآن جو شخص کا تجربہ بنا ہے، جمالیاتی انبساط کا سرچشمہ محسوس ہوتا ہے۔ اپنے اپنے منتخب کیے ہوئے مواد پر مولانا کی زبردست گرفت ہے، اپنے حاصل شدہ اور منتخب کیے ہوئے مواد کا استعمال آزادانہ طور پر کرتے ہیں تاکہ قرآن حکیم کے جوہر تیزی سے سامنے آتے جائیں، کہیں بھی یہ محسوس نہ ہو کہ کوئی بات پوشیدہ رکھی جا رہی ہے۔ مولانا کے اسلوب کی اسی جہت نے ’’فنکار نثر نگار‘‘ کے جمالیاتی احساس و شعور کے تعلق کو بھی بیدار کیا ہے اور ایک جمالیاتی سطح کا احساس بخشا ہے کہ جو اس اسلوب کی بنیادی سطح ہے، اکثر مقامات پر انکشافات کا معجزہ اپنی آب و تاب سے متاثر کیا ہے۔
تفسیر سورۂ فاتحہ کے مقدمے کا اسلوب تجزیہ چاہتا ہے، اس کی کئی سطحیں ہیں۔ غور کیا جائے تو ایک سطح پر ’’اپنی شخصیت‘‘ کا احساس ملے گا یعنی فنکار نثر نگار، اپنی شخصیت سے واقف ہے۔ لہٰذا اسے معلوم ہے کہ خود اپنی ذات سے گفتگو کرتے ہوئے لوگوں سے مخاطب ہونے کے لیے کس سطح تک جانا ہے۔ فلسفیانہ، تاریخی اور نفسیاتی موضوعات و مسائل لیے اسی سطح سے اٹھتا ہے۔
دوسری سطح وہ ہے کہ جہاں وہ دوسروں تک اپنی باتیں پہنچاتا ہے، فلسفیانہ، تاریخی اور نفسیاتی موضوعات اور مسائل کے ساتھ اخلاقی اور کسی حد تک سماجی اور ثقافتی موضوعات و مسائل بھی موجود ہوتے ہیں کہ جن پر وہ اظہار خیال کرتا ہے۔
تیسری سطح وہ کہ جہاں اپنے سماجی اور ثقافتی ماحول سے رشتہ قائم کر لیتا ہے۔ پوری انسانیت اور انسانیت کی تاریخ سے براہ راست گفتگو کرتا نظر آتا ہے۔
اور چوتھی سطح وہ ہے کہ جہاں انتہائی عمدہ جمالیاتی شعور اور زاویہ نگاہ کو محسوس بناتے ہوئے پوری کائنات کے حسن و جمال پر گفتگو کرتا ہے اور فلسفیانہ اور مابعد الطبعیاتی مسائل سے خود ان کی روشنی میں زندگی کے مقاصد پر اظہار خیال کرتا ہے۔ مولانا نے فرمایا ’’ہر کتاب اور تعلیم کچھ مرکزی مقاصد ہوتے ہیں اور اس کی تمام تفصیلات انہیں کے گرد گردش کرتی ہے۔ جب تک یہ مراکز سمجھ میں نہ آئیں دائرے کی کوئی بات سمجھ میں نہیں آسکتی‘‘ ۔ جو تین بنیادی موضوعات ترجمان القرآن کے محور ہیں، وہ ہیں ’تصور الوہی‘، ’وحدت ادیان‘ اور ’مذہبی گٹ بندی کی مخالفت‘۔ مولانا نے دین و مذہب کی بنیاد پر الگ جماعت بندی کی مخالفت کی، خدا اور مخلوق کے رشتوں پر جو بحث کی اور ربوبیت رحمت اور الطاف کے اصولوں کے تئیں جس طرح بیدار کیا اس سے انسانیت اور انسانی رشتوں کا ایک ہمہ گیر تصور سامنے آتا ہے۔ بنیادی تصور یا یہ کہئے کہ ترجمان القرآن کا بنیادی رس یہی ہے کہ ’’کوئی ہو، کسی نسل و قوم سے ہو، کسی نام سے پکارا جاتا ہو، لیکن اگر خدا پر سچا ایمان رکھتا ہے اور اس کے اعمال بھی نیک ہیں تو دین الٰہی پر چلنے والا ہے اور اس کے لیے نجات ہے‘‘ ۔ (ترجمان القرآن) مولانا فرماتے ہیں :
’’خدا کے ٹھہرائے ہوئے دین کی حقیقت تو یہ تھی کہ نوع انسانی پر خدا پرستی اور نیک عملی کی راہ کھولنا تھا یعنی خدا کے اس قانون کا اعلان کرنا تھا کہ دنیا ہر چیز کی طرح انسانی افکار و اعمال کے بھی خواص و نتائج ہیں۔ اچھے فکر و عمل کا بدلا اچھا ہے، برے فکر و عمل کا بدلا برا ہے۔ لیکن لوگوں نے یہ حقیقت فراموش کر دی اور دین و مذہب کو نسلوں، قوموں، ملکوں اور طرح طرح کی رسموں اور رواجوں کا ایک جتھا بنا لیا، نتیجہ یہ نکلا کہ اب انسان کی نجات و سعادت کی راہ یہ نہیں سمجھی جاتی کہ کس کا اعتقاد اور عمل کیسا ہے بلکہ سارا دار و مدار اس پر آ کے ٹھہر گیا ہے کہ کون کس جتھے اور گروہ بندی میں داخل ہے، اگر ایک آدمی کسی خاص مذہبی گروہ بندی میں داخل، اگر ایک آدمی کسی خاص مذہبی گروہ بندی میں داخل ہے تو یہ یقین کیا جاتا ہے کہ وہ نجات کا دروازہ اس پر بند ہو گیا اور دین کی سچائی میں اس کا کوئی حصہ نہیں، گویا دین کی سچائی، آخرت کی نجات اور حق و باطل کا معیار تمام تر گروہ بندی اور گروہ پرستی ہو گئی، اعتقاد اور عمل کوئی چیز نہیں ہے، پھر باوجودیکہ تمام مذاہب کا مقصود اصل ایک ہی ہے اور سب ایک ہی پروردگار عالم کی پرستش کرنے کے مدعی ہیں لیکن ہر گروہ یقین کرتا ہے کہ دین کی سچائی صرف اسی کے حصے میں آئی ہے، باقی تمام نوع انسانی اس سے محروم ہے۔ چنانچہ ہر مذہب کا پیرو دوسرے مذہب کے خلاف نفرت و تعصب کی تعلیم دیتا ہے اور دنیا میں خدا پرستی اور دین داری کی راہ سر تا سر بغض و عداوت، نفرت و توحش اور قتل و خوں ریزی کی راہ بن گئی ہے‘‘ ۔ (ترجمان القرآن ص ۱۹۲)
اس بنیادی تصور کی وجہ سے جو اسلوب خلق ہوا ہے وہ قاری کے شعور سے رشتہ قائم کر لیتا ہے، تصور کا نیا پن اظہار کی جس آزادی کا متلاشی تھا وہ آزادی جیسے اسے مل گئی ہو، مولانا نے بڑی آزادی سے گفتگو کی ہے اور اس کا سلسلہ قائم رکھا ہے۔ یہ اسلوب مولانا کی شخصیت، ان کی بنیادی امتیازی رجحان اور زاویہ نگاہ اور بر صغیر کے تمدنی اور ثقافتی ورثے کو محسوس بناتا ہے۔ کلام پاک کی آیتوں نے مولانا کے اس تصور کو بڑی تقویت بخشی ہے۔ قرآن کہتا ہے:
وما کان الناس الا امۃ واحدۃ فاختلفوا ولو لاکلمۃ سبقت من ربک لقضی بینہم فیما فیہ یختلفون (۔۱۔۱۹)
اور ابتداء میں تمام انسانوں کا ایک ہی گروہ تھا (الگ الگ گروہوں میں متفرق نہ تھے) پھر ایسا ہوا کہ وہ باہم دگر مختلف ہو گئے اور اگر اس بارے میں تمہارے پروردگار نے پہلے سے ایک فیصلہ نہ کر دیا ہوتا (یعنی یہ کہ انسانوں میں اختلاف ہو گا اور مختلف راہیں لوگ اختیار کریں گے) تو جن باتوں میں لوگ اختلاف کرتے ہیں، ان کا (یہیں دنیا میں ) فیصلہ کر دیا جاتا‘‘ ۔ (ترجمان القرآن ص ۱۸۱)
مولانا اس کے پیش نظر جمعیت بشری کی ابتدائی وحدت اور ہدایت وحی کے ظہور پر اظہار خیال کرتے ہیں تو اسلوب مفہوم اور قدر کی وحدت کی علامت بن جاتا ہے، سنجیدگی کا حسن دل و ذہن کو متاثر کرنے لگتا ہے۔ کچھ اس طرح کی بصیرت تیز ہو جاتی ہے۔ تشریح اور وضاحت کا آہنگ بھی توجہ طلب ہے۔ فرماتے ہیں :
’’وہ (قرآن) کہتا ہے ابتداء میں انسانی جمعیت کا یہ حال تھا کہ لوگ قدرتی زندگی بسر کرتے تھے ان میں نہ تو کسی طرح کا باہمی اختلاف تھا نہ کسی طرح کی مخاصمت۔ سب کی زندگی سی ایک ہی طرح کی تھی اور سب اپنی قدرتی یگانگت پر قانع تھے، پھر ایسا ہوا کہ نسل انسانی کی کثرت اور ضروریات معیشت کی وسعت سے طرح طرح کے اختلافات پیدا ہو گئے اور اختلافات نے تفرقہ، انقطاع اور ظلم و فساد کی صورت اختیار کر لی، ہر گروہ دوسرے گروہ سے نفرت کرنے لگا اور ہر زبردست زیردست کے حقوق پامال کرنے لگا۔ جب یہ صورت حال پیدا ہو گئی تو ضروری ہوا کہ نوع انسانی کی ہدایت اور عدل و صداقت کے قیام کے لیے وحی الٰہی کی روشنی نمودار ہو، چنانچہ یہ روشنی نمودار ہوئی اور خدا کے رسولوں کی دعوت و تبلیغ کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ وہ ان تمام رہنماؤں کو جن کے ذریعے اس ہدایت کا سلسلہ قائم ہوا رسول کے نام سے تعبیر کرتا ہے کیونکہ وہ خدا کی سچائی کا پیغام پہنچانے والے تھے اور رسول کے معنی پیغام پہنچانے والے کے ہیں ’‘ (ترجمان القرآن ص ۱۸۱)
انسانیت اور انسان اور انسان کے ہمہ گیر رشتوں پر مولانا نے بہت صاف اور واضح گفتگو کی ہے، انہوں نے کہا ہے کہ ہدایت کبھی کسی خاص ملک و قوم یا عہدے کے لیے مخصوص نہ تھی بلکہ تمام نوع انسانی کے لیے تھی چنانچہ ہر زمانے میں اور ہر ملک میں یکساں طور پر اس کا ظہور ہوا۔ ہدایت ہمیشہ ایک ہی رہی اور وہ ایمان اور عملِ صالح کی دعوت کے سوا کچھ نہ تھی‘‘ مولانا جب جب اس کی وضاحت کرتے ہیں، اسلوب میں جذبے کی چمک دمک محسوس ہوتی ہے اور لفظوں اور عبارتوں کا آہنگ متاثر کرنے لگتا ہے۔ لفظوں کی موزونیت اور عبارتوں کی ہم آہنگی سے تاثیر بڑھ گئی ہے، ملاحظہ فرمائیے:
’’فطرت الٰہی کی راہ کائنات ہستی کے ہر گوشے میں ایک ہی ہے وہ نہ تو ایک سے زیادہ ہو سکتی ہے نہ باہم دگر مختلف۔ پس ضروری تھا کہ یہ ہدایت بھی اول دن سے ایک ہی ہوتی اور ایک ہی طرح پر تمام انسانوں کو مخاطب کرتی، چنانچہ قرآن کہتا ہے خدا کے جتنے پیغامبر پیدا ہوئے خواہ وہ کسی زمانے اور کسی گوشے میں ہوئے ہوں۔ سب کی راہ ایک ہی تھی اور سب خدا کے ایک ہی عالمگیر قانون، سعادت کی تعلیم دینے والے تھے، یہ عالمگیر سعادت کیا ہے؟ ایمان اور عمل صالح قانون کا قانون ہے۔ یعنی ایک پروردگار عالم کی پرستش کرنی اور نیک عمل کی زندگی بسر کرنی ہے، اس کے علاوہ اور ان کے خلاف جو کچھ بھی دین کے نام سے کیا جاتا ہے، دین حقیقی کی تعلیم نہیں ہے‘‘ ۔ (ترجمان القرآن ص ۱۸۳)
مولانا ابوالکلام آزاد ایک عمدہ جمالیاتی شعور رکھتے تھے، قرآن حکیم کے نظام جلال و جمال نے اسے اور بھی بالیدہ بنا دیا، جمالیاتی فکر و نظر اور کائنات کے تعلق سے ایک وسیع زاویہ نگاہ نے اسلوب بیان کو بھی شدت سے متاثر کیا ہے۔ ترجمان القرآن کا جمالیاتی اسلوب منفرد خصوصیتوں کا حامل ہے۔ احساس جمال کی شدت سے اسلوب میں جوش، ولولہ، تیزی اور بہاؤ پیدا ہوا ہے۔ رومان پرور فضاؤں کی تشکیل ہوئی ہے، کہیں کہیں بلند پہاڑوں کے جگر کو چاک کر کے تیزی سے گرتے آبشاروں کی سی کیفیت پیدا ہو گئی ہے، انداز بیان کا حسن قاری کے احساس اور جذبے کو گرفت میں لے لیتا ہے۔ چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں :
’’چیونٹی اپنے بل میں رینگ رہی ہے، کیڑے مکوڑے کوڑے کرکٹ میں ملے ہوئے ہیں، مچھلیاں دریا میں تیر رہی ہیں، پرند ہوا میں اڑ رہے ہیں۔ پھول باغ میں کھل رہے ہیں، ہاتھی جنگل میں دوڑ رہا ہے اور ستارے فضا میں گردش کر رہے ہیں، لیکن فطرت کے پاس سب کے لیے یکساں طور پر پرورش کی گود اور نگرانی کی آنکھ ہے اور کوئی نہیں جو فیضان ربوبیت سے محروم ہو‘‘ ۔ (ترجمان القرآن ص ۳۶)
’’اگر سمندر میں طوفان نہ اٹھتے تو میدانوں کی زندگی و شادابی کے لیے ایک قطرہ بارش میسر نہ آتا، اگر بادل کی گرج اور بجلی کی کڑک نہ ہوتی تو باران رحمت کا فیضان بھی نہ ہوتا۔ اگر آتش فشاں پہاڑوں کی چوٹیاں نہ پھٹتیں تو زمین کے اندر کا کھولتا ہوا مادہ اس کمرے کی تمام سطح پارہ پارہ کر دیتا‘‘ ۔ (ترجمان القرآن ص ۶۹۔۷۰)
’’فطرت کے افادہ و فیضان کی سب سے بڑی گنجائش اس کا عالمگیر حسن و جمال ہے۔ فطرت صرف بناتی اور سنوارتی ہی نہیں بلکہ اس طرح بنتی سنوارتی ہے کہ اس کے ہر بناؤ میں حسن و زیبائش کا جلوہ اور اس کے ہر ظہور میں نظر افروزی کی نمود پیدا ہو گئی، کائنات ہستی کو اس کی مجموعی حیثیت میں دیکھو یا اس کے ایک ایک گوشہ خلقت پر نظر ڈالو۔ اس کا کوئی رخ نہیں جس پر حسن و رعنائی نے ایک نقاب زیبائش نہ ڈال دی ہو، ستاروں کا نظام اور ان کی سیر و گردش، سورج کی روشنی اور ان کی بوقلمونی، چاند کی گردش اور اس کا اتار چڑھاؤ، فضاء آسمانی کی وسعت اور اس کی نیرنگیاں، بارش کا سماں اور اس کے تغیرات، سمندر کا منظر اور دریاؤں کی روانی، پہاڑوں کی بلندیاں اور وادیوں کا نشیب حیوانات کے اجسام اور ان کا تنوع، نباتات کی صورت آرائیاں اور باغ و چمن کی رعنائیاں، پھولوں کی عطر بیزی اور پرندوں کی نغمہ سنجی، صبح کا چہرہ خنداں اور شام کا جلوہ محبوب، غرض کہ تمام تماشا گاہ ہستی حسن کی نمائش اور نظر افروزی کی جلوہ گاہ ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا اس پردہ ہستی کے پیچھے حسن افروزی اور جلوہ گاہی کی کوئی قوت کام کر رہی ہے جو چاہتی ہے کہ جو کچھ بھی ظہور میں آئے، حسن و زیبائش کے ساتھ ظہور میں آئے اور کارخانہ ہستی کا ہر گوشہ نگاہ کے لیے نشاط، سامعہ کے لیے سرور اور روح کے لیے بہشتِ راحت و سکون بن جائے‘‘ ۔ (جمال فطرت، ترجمان القرآن ص۷۰)
مولانا کا یہ عقیدہ ہے کہ ’’کائنات ہستی کا مایہ خمیر ہی حسن و زیبائی ہے، فطرت نے جس طرح اس کے بناؤ کے لیے مادی عناصر پیدا کیے، اسی طرح اس کی خوب روئی و رعنائی کے لیے معنوی عناصر کے بھی رنگ و روغن سے آراستہ کر دیا۔ روشنی، رنگ، خوشبو اور نغمہ حسن و رعنائی کے وہ اجزاء ہیں جن سے مشاطہ فطرت چہرہ وجود کی آرائش کر رہی ہے۔
’’جس طرح تمہارے آلات موسیقی کے پردوں میں زیرو بم کے تمام آہنگ موجود ہوتے ہیں، اسی طرح ساز فطرت کے تاروں میں بھی اتار چڑھاؤ کے تمام آہنگ موجود ہیں، اس میں ہلکے سے ہلکے سر بھی ہیں، جس میں باریک اور سریلی صدائیں نکلتی ہیں، موٹے سے موٹے سر بھی ہیں جو بلند سے بلند اور بھاری سے بھاری صدائیں پیدا کرتے ہیں۔ ان تمام سروں کے ملنے سے جو کیفیت پیدا ہوتی ہے، وہی موسیقی کی حلاوت ہے کیونکہ دنیا کی تمام چیزوں کی طرح موسیقی کی حقیقت بھی مختلف اجزاء کے امتزاج و تالیف سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ کسی ایک ہی سُر سے نغمے کی حلاوت پیدا ہو جائے‘‘ ۔ (ترجمان القرآن ص۷۱)
مولانا کا یہ عقیدہ ہے کہ کائنات ہستی کا مایہ خمیر ہی حسن و زیبائی ہے، قرآن حکیم کے نظام جمال کی دین ہے دیکھئے قرآن کہتا ہے:
3 (و صورکم فاحسن صورکم۔ ۶۴۔۳)
3 ’’اور تمہاری صورتیں بنائیں تو کیا ہی حسین صورتیں بنائیں ‘‘ ۔
3 الذی خلق فسویٰ۔ ۸۷۔۲)
3 ’’اس نے ہر شے کو پیدا کیا اور اس میں مناسبت و ہم آہنگی حد کمال تک پیدا کی‘‘ ۔
3 (الذی احسن کل شئی خلقہ۔ ۳۲۔۷)
3 ’’اس نے جو چیز بنائی حسین بنائی‘‘ ۔
3 (لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم۔ ۹۵۔۴)
3 ’’بلا شبہ ہم نے انسان کی فطرت کو بھی حسین بنایا ہے‘‘ ۔
3 ’’اور تمہارے چوپاؤں میں جب شام کے وقت چراگاہ سے واپس لاتے ہو اور صبح کو لے جاتے ہو، جمال ہے‘‘ ۔ (۱۶۔۶)
3 اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے‘‘ ۔
3 (اللہ نور السموات والارض۔ (۲۴۔۳۵)
3 اور (پھر دیکھو) تمہارے پروردگار نے شہد کی مکھی کی طبیعت میں یہ بات ڈال دی کہ پہاڑوں میں اور درختوں میں اور ان ٹیٹوں میں جو اسی غرض سے بلند کر دی جاتی ہیں، اپنے لیے گھر بنائے، پھر ہر طرح کے پھولوں سے رس چوسے، پھر اپنے پروردگار کے ٹھہرائے ہوئے طریقوں پر کامل فرماں برادری کے ساتھ گامزن ہو…‘‘ کیا کبھی ان لوگوں نے آسمان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا نہیں کہ کس طرح ہم نے اسے بنایا ہے اور کس طرح اس کے منظر میں خوشنمائی پیدا کر دی ہے اور پھر یہ کہ کہیں بھی اس میں شگاف نہیں اور اسی طرح زمین کو دیکھو، کس طرح ہم نے اسے فرش کی طرح پھیلا دیا اور پہاڑوں کی لنگر ڈال دیے اور پھر کس طرح قسم قسم کی خوبصورت نباتات اگا دیں … (۵۰۔۶۔۸)
قرآن پاک نے کائنات اور فطرت کائنات کے حسن کا ذکر طرح طرح سے کیا ہے۔ کائنات اور انسان کی مکمل ہم آہنگی کے حسن کو سمجھایا ہے، حسن کے تحرک اور آہنگ کو محسوس بنایا گیا ہے۔ حسن قلب اور حسن مشاہدہ کی اہمیت سمجھائی ہے۔ کائنات کے نگار خانے کے طلسم کے تئیں بیدار کیا ہے۔ جمال کائنات کی موزونیت اور بوقلمونی سمجھائی ہے۔ کہا ہے:
’’اور ہم نے زمین میں ہر چیز کو موقع محل، کیفیت اور کمیت کے لحاظ سے مناسب اور خوبصورت پیدا کیا ہے۔ (۱۵۔۱۹)
’’بلاشبہ ہم نے اس دنیا کے آسمان کو ستاروں کے حسن سے آراستہ کیا ہے۔‘‘ (۳۷:۶)
’’اور ہم نے آسمان میں برج بنائے اور دیکھنے والوں کے لیے اس میں خوشنمائی پیدا کر دی‘‘ ۔
ظاہر ہے کہ مولانا کے وجدان نے قرآن پاک کے نظام جمال سے گہرا رشتہ قائم کیا ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ یہ نظام جمال ان کا تجربہ بھی بنا ہے۔
اردو نثر میں ’’ترجمان القرآن‘‘ کے پیش نظر مولانا کا ایک بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اس نثر کو سبلائم Sublime کا حسن اور جادو بخشا۔
سبلائم ان کی شخصیت میں ودیعت تھا کہ جو ترجمان القرآن میں جمال کے سرکا تاج بن گیا اور قرآن حکیم کی آواز اور اس کا آہنگ تو خود ہی سبلائم کے اعلیٰ ترین اور افضل ترین معیار کو پیش کرتا ہے۔
٭٭٭
غبار خاطر کی رومانیت
مولانا ابو الکلام آزاد کی رومانی فکر و نظر ایک دلچسپ اور فکر انگیز موضوع ہے۔ غبار خاطر، ایک ایسی ادبی تخلیق ہے جو اپنی رومانیت کی وجہ سے بھی توجہ کا مرکز ہے۔ تنقید نگار ڈاکٹر سید عبد اللہ کی اس تحریر سے اردو ادبی تنقید کی آبرو ہی جاتی رہی کہ ’’غبار خاطر‘‘ ہی ایک ایسی کتاب ہے جو ابوالکلام کی اصلی نثر سے بہت دور ہے، اس میں ابوالکلام کی تقریر بہت مدھم اور دھیمی ہے، اس میں ابوالکلام کا قلم بیمار اور ضعیف معلوم ہوتا ہے۔ ’غبار خاطر‘ ایک لحاظ سے بیکاری کا مشغلہ ہے، اس میں خیال نے فرضی مکتوب الیہ کے نام فرضی خط لکھوائے ہیں، ان کی اکثر بحثیں فرضی ہیں ‘‘ ۔
[ابو
الکلام کی
تکرار پر نہ
جائیے] اردو کے بعض تنقید نگار جب کسی وجہ سے لاشعوری دباؤ محسوس کرتے ہیں تو ایسے ہی خیالات کا اظہار کرتے ہیں اور ایسی ہی نثر لکھتے ہیں۔ ’غبار خاطر‘ مولانا کی ’اصلی نثر سے بہت دور ہے‘ یہ اصلی نثر کون سی ہے؟ اسی مضمون میں بات واضح ہو جاتی ہے۔ مولانا کی اصلی نثر ’الہلال‘ کی نثر ہے۔ ’غبارِ خاطر‘ اس داعیہ عظیم اور جذبہ شدید سے بھی خالی ہے جس کے شعلے ’الہلال‘ میں مشتعل ہو کر اقصائے ہند میں آگ لگا چکے تھے۔ تنقید نگار نے مولانا کی ’با رعب‘ اور ’پر جلال نثر‘ ہی کو ان کی اصل نثر سمجھ لیا ہے۔ ’الہلال‘ کی صحافتی نثر اور ’غبار خاطر‘ کے فنی اسلوب کو سمجھے بغیر اور یہ سمجھے بغیر کہ فنکاری کہاں ہے، رویہ اور میلان، مزاج اور رجحان اور موضوعات کے انتخاب کی کیفیت اور صورت کیسی ہے، وہ ’غبار خاطر‘ میں بھی ایسی ’پر جلال نثر‘ پانے کے متمنی تھے کہ جس میں قوت، توانائی، سخت کوشی اور دشوار پسندی ہو۔ ’غبارِ خاطر‘ کے متعلق ڈاکٹر سید عبد اللہ کی مجموعی رائے یہی ہے ’غبار خاطر‘ ایک جوئے نغمہ خواں ہے جو حیات کے ضعف اور ولولہ ہائے زندگی کی غنودگی کی ترجمانی کر رہی ہے۔ اس میں صد ہزار نوائے جگر خراش کا سماں پایا نہیں جاتا‘‘ … نہیں جانتا کس حد تک اسے ادبی تنقید کا انداز اور اسلوب کہا جا سکتا ہے، لیکن یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اردو کی ادبی تنقید آرٹ کے تئیں زیادہ بیدار نہیں ہوئی ہے۔ آرٹ کے شعور یا فنی شعور (Art Consciousness) کی کمی یقیناً محسوس ہوتی ہے۔ ’لسان الصدق‘ اور ’الوکیل‘ سے ’الہلال‘، ’البلاغ‘ اور تذکرہ تک اور ترجمان القرآن سے غبار خاطر تک مولانا ابوالکلام آزاد کی نثر نے ایک سفر کیا ہے، یہ ان کی نثر کی مختلف منزلیں ہیں کہ جن پر ان کی شخصیت کا چھاپ پڑی ہوئی ہے، ترجمان القرآن کے اسلوب کی جمالیات اور غبار خاطر کی رومانیت سے اردو نثر میں سبلائم اور جمال کا ایک عمدہ معیار قائم ہوتا ہے۔
یکسانیت سے گریز کا عمل بنیادی طور پر رومانی عمل ہے۔ ’غبار خاطر‘ کے مضامین مجموعی طور پر یکسانیت، ماحول کی شکست و ریخت، سیاسی اتھل پتھل اور انتشار سے گریز کے عمل کے غماز ہیں، اسی عمل میں مولانا ابوالکلام آزاد کی رومانی مزاج کی پہچان ہوتی ہے، نیز اردو نثر کو ایک رومانی رجحان اور رویہ حاصل ہوتا ہے۔ رومانی مزاج خلوت میں اپنے احساس اور جذبے اور تخیل سے ایک دنیا خلق کرتا ہے، اپنے خوابوں کو سجاتا ہے، احساس حسن سے نئی تخلیق کا سلسلہ جاری رکھتا ہے۔
مولانا اپنی طبیعت کی افتاد کا ذکر اس طرح کرتے ہیں :
’’ابداء ہی سے طبیعت کی افتاد کچھ ایسی واقع ہوئی تھی کہ خلوت کا خواہاں اور جلوت سے گریزاں رہتا تھا، یہ ظاہر ہے کہ زندگی کی مشغولیتوں کے تقاضے اس طبع وحشت سرشت کے ساتھ نبھائے نہیں جا سکتے، اس لیے یہ بہ تکلف خود کو انجمن آرائیوں کا خوگر بنانا پڑتا ہے، مگر دل کی طلب ہمیشہ بہانے ڈھونڈھتی ہے، جونہی ضرورت کے تقاضوں سے مہلت ملی اور وہ اپنی کامجوئ ٭٭وں غزلیں دیکھ لی ہیں:
غم ہے یا محبت! مطلب یہ ہے کہ تا ہے۔ اور دوسرے مصرع میں ’مگر‘ کی کمی بھی کھٹکتی ہے۔
یوں میں لگ گئی‘‘ ۔
در خرابا تم نہ دیدستی خراب
بادہ پنداری کہ پنہاں می زنم
(غبار خاطر: ساہتیہ اکارمی ص ۸۰)
آگے تحریر فرماتے ہیں :
’’…بارہ تیرہ برس کی عمر میں میرا یہ حال تھا کہ کتاب لے کر کسی گوشہ میں جا بیٹھتا اور کوشش کرتا کہ لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہوں، کلکتہ میں آپ نے ڈلہوزی اسکوائر ضرور دیکھا ہو گا، جنرل پوسٹ آفس کے سامنے واقع ہے۔ اسے عام طور پر لال ڈگی کہا کرتے تھے، اس میں درختوں کا ایک جھنڈ تھا کہ باہر سے دیکھئے تو درخت ہی درخت، اندر جائیے تو اچھی خاصی جگہ ہے اور ایک بنچ بھی بچھی ہوئی ہے، معلوم نہیں اب بھی یہ جھنڈ ہے کہ نہیں میں جب سیر کے لیے نکلتا تو کتاب ساتھ لے جاتا اور اس جھنڈ کے اندر بیٹھ کر مطالعہ میں غرق ہو جاتا‘‘ ۔ (ایضاً ص ۸۰۔۸۱)
خلوت اور تنہائی میں رومانی ذہن متحرک ہو جاتا ہے تو حسن پسندی کی پہچان ہونے لگتی ہے، تخیل بیدار ہونے لگتے ہیں، فطرت کے جلال و جمال سے ایک رشتہ قائم ہو جاتا ہے، جذبات کے رنگوں کے تاثرات ابھرنے لگتے ہیں، باطنی اور روحانی خواہش اپنی تکمیل کے لیے بے چین رہنے لگتی ہیں، ’آزاد احساسات‘ خارجی اور باطنی مشاہدات میں بڑی کشادگی پیدا کرنے لگتے ہیں، گریز کے باوجود تہذیب، تاریخ اور انسانی رشتوں سے ذہن کا رشتہ قائم رہتا ہے، ان کے حسن و جمال سے شعوری اور غیر شعوری رشتہ غیر معمولی نوعیت کا ہوتا ہے، فنکار کا رومانی ذہن مرکزی حیثیت اختیار کر کے تاریخ و تمدن اور اپنے علم اور مشاہدوں کا آئینہ بن جاتا ہے۔ مولانا لکھتے ہیں :
’’میں اپنے دل کو مرنے نہیں دیتا، کوئی حالت ہو، کوئی جگہ ہو، اس کی تڑپ کبھی دھیمی نہیں پڑے گی، میں جانتا ہوں کہ جہانِ زندگی کی ساری رونقیں اسی میکدہ خلوت کے دم سے ہیں، یہ اجڑا اور ساری دنیا اجڑ گئی:
از صد سخنِ پیرم یک حرف مرا یادست
عالم نہ شود ویراں تا میکدہ آبادست
باہر کے ساز و سامان عشرت مجھ سے چھن جائیں لیکن جب تک یہ نہیں چھنتا میرے عشق و طرب کی سرمستیاں کون چھین سکتا ہے؟‘‘ (غبار خاطر ص۷۰)
مولانا کا ذہن جلوت سے گریزاں اور خلوت کا خواہاں ہے، رومانیت انجمن سے نکل کر تنہائی کی ایسی فضا چاہتی ہے، جہاں احساسات پر کسی قسم کی گرفت نہ ہو، آزاد احساسات کے تصور سے راحت ملتی ہے، شعوری اور غیر شعوری سطح پر جمالیاتی انبساط پانے کی تمنا ہی گریز کرنے پر مجبور کرتی ہے اور گریز کے عمل میں ننھے ننھے چراغ روشن کرتی ہے۔ مولانا اپنے رومانی ذہن کو عزیز جانتے ہیں اپنے ’دل کو مرنے نہیں دیتے‘ رومانی فنکار خارجی اور داخلی یا باطنی زندگی میں ایک گہرا رشتہ پا لیتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ جہاں زندگی کا بھرم باطنی زندگی کی روشنی اور رنگ سے قائم ہے، میکدہ خلوت کی رونقیں نہ ہوں یعنی احساسات اور جذبات کے مختلف رنگ نہ ہوں، تخیل کی پرواز نہ ہو، احساسات کی آزادی نہ ہو تو جہان زندگی کا حسن بھی جاتا رہتا ہے۔ مولانا کی رومانیت تو یہ بتاتی ہے کہ میکدہ خلوت اجڑا تو پھر یہ سمجھو ساری دنیا اجڑ گئی، رومانی فنکار کو اپنے باطن کی سرمستیاں اس قدر عزیز ہیں اور وہ انہیں اس قدر عزیز جانتا ہے کہ انہیں کسی قیمت پر کھونا نہیں چاہتا ہے۔ رومانیت باطن کی آگہی ہے، باطن کی روشنیوں کے تئیں بیداری ہے۔ مولانا کہتے ہیں ’’باہر کے ساز و سامان عشرت مجھ سے چھن جائیں لیکن جب تک یہ نہیں چھنتا میرے عیش و طرب کی سرمستیاں کون چھین سکتا ہے‘‘ ۔ مولانا اپنے رومانی رجحان اور رویے کو اس طرح واضح کر دیتے ہیں :
’’… طبیعت کی اس افتاد (خلوت پسندی) نے بڑا کام یہ دیا کہ زمانے کے بہت سے حربے میرے لیے بے کار ہو گئے، لوگ اگر میری طرف سے رخ پھیر لیتے ہیں تو بجائے اس کے کہ دل گلہ مند ہو اور منت گزار ہونے لگتا ہے، کیونکہ جو ہجوم لوگوں کو خوش کرتا ہے، میرے لیے بسا اوقات ناقابل برداشت ہو جاتا ہے۔ میں اگر عوام کا رجوع و ہجوم گوارا کرتا ہوں تو یہ میرے اختیار کی پسند نہیں ہوتی، اضطراب و تکلیف کی مجبوری ہوتی ہے۔ میں نے سیاسی زندگی کے ہنگاموں کو نہیں ڈھونڈا تھا، سیاسی زندگی کے ہنگاموں نے مجھے ڈھونڈ نکالا، میرا معاملہ سیاسی زندگی کے ساتھ وہ ہوا جو غالب کا شاعری کے ساتھ ہوا تھا۔
مابنودیم بدیں مرتبہ راضی غالب
شعر خود خواہش آں کرد کہ گرد دفن ما!
(غبار خاطر)
میں نے عرض کیا ہے کہ یکسانیت سے گریز کا عمل بنیادی طور پر رومانی عمل ہے، مولانا گریز کے عمل کو خوب جانتے پہچانتے ہیں، فرماتے ہیں :
’’…یکسانی اگرچہ سکون و راحت کی ہو، یکسانی ہوئی اور یکسانی بجائے خود زندگی کی سب سے بڑی بے نمکی ہے۔ تبدیلی اگرچہ سکون سے اضطراب کی ہو مگر پھر تبدیلی ہے اور تبدیلی بجائے خود زندگی کی ایک بڑی لذت ہوئی۔ عربی میں کہتے ہیں ’’حمّضوا مجالسکم‘‘ اپنی مجلسوں کا ذائقہ بدلتے رہو، سو یہاں زندگی کا مزہ بھی انہی کو مل سکتا ہے، جو اس کی شیرینیوں کے ساتھ اس کی تلخیوں کے بھی گھونٹ لیتے رہتے ہیں اور اس طرح زندگی کا ذائقہ بدلتے رہتے ہیں، ورنہ وہ زندگی ہی کیا جو ایک ہی طرح کی صبحوں اور ایک ہی طرح کی شاموں میں بسر ہوتی ہے‘‘ ۔ (غبار خاطر ص ۴۴)
آگے لکھتے ہیں :
’’یہاں پانے کا مزہ انہی کو مل سکتا ہے جو کھونا جانتے ہیں، جنہوں نے کچھ کھویا ہی نہیں انہیں کیا معلوم کہ پانے کے معنی کیا ہوتے ہیں ‘‘ ۔ (غبار خاطر ص۴۵)
مولانا کی رومانیت حرکت اور اضطراب پسند کرتی ہے، سکون کو موت سمجھتی ہے، اسے خود فراموشی اچھی لگتی ہے، یہ سمجھتی ہے کہ زندگی کے لیے بیخودی ضروری ہے۔ مولانا کا عقیدہ یہ ہے کہ راحت اور الم کا احساس ہمیں باہر سے لا کر کوئی نہیں دے دیا کرتا، یہ خود ہمارا ہی احساس ہے جو زخم لگاتا ہے، کبھی مرہم بن جاتا ہے۔ طلب و سعی کی زندگی بجائے خود زندگی کی سب سے بڑی لذت ہے بشرطیکہ کسی مطلوب کی راہ میں ہو۔ مولانا مسرتوں کے لمحوں کو عزیز جانتے ہیں، ان کی رومانیت جمالیاتی انبساط کی تلقین کرتی ہے، گریز دراصل مسرتوں کی تلاش ہے، خوش رہنے کے لیے یکسانیت سے گریز ضروری ہے، مولانا کہتے ہیں خوش رہنا محض ایک طبعی احتجاج ہی نہیں ہے بلکہ ایک اخلاقی ذمہ داری بھی ہے۔
گریز اور تنہائی کے تعلق سے مولانا کے رومانی انداز نظر کی پہچان واضح طور پر اس طرح ہو جاتی ہے:
’’…جب کبھی میں قید خانے میں سنا کرتا ہوں کہ فلاں قیدی کو قید تنہائی کی سزا دی گئی تو حیران رہ جاتا ہوں کہ تنہائی آدمی کے لیے سزا کیسے ہو سکتی ہے، اگر دنیا بھی اس کو سزا سمجھتی ہے تو کاش ایسی سزائیں عمر بھر کے لیے حاصل کی جا سکیں ‘‘ ۔ (غبار خاطر ص ۸۳)
مولانا 9اگست 1942 کو سوا دو بجے قلعہ احمد نگر میں بند ہوتے ہیں، لاشعور میں یہ احساس ہے کہ تنہائی نصیب ہو رہی ہے، قلعے کے اندر پہنچتے پہنچتے رومانی فکر و نظر میں اضطراب سا پیدا ہوتا ہے۔ ذہن خارجی زندگی کے انتشار اور پیچھے چھوڑی ہوئی شکست و ریخت کی زندگی سے خود کو علیحدہ کر کے پورے وجود کو قلعہ احمد نگر کے حوالے کر دیتا ہے۔ ’’دل حکایتوں سے لبریز تھا، مہلت کا منتظر تھا‘‘ یہ مہلت مل جاتی ہے تو رومانیت مختلف انداز سے چہکنے لگتی ہے۔ کہتے ہیں ’’آج قلعہ احمد نگر کے حصار تنگ میں اس کے حوصلہ فراخ کی آسودگیاں دیکھئے کہ جی چاہتا ہے دفتر کے دفتر سیاہ کر دوں۔
وسعتے پیدا کن اے صحرا کی امشب درغمش
لشکرِ آہِ من ازدل خیمہ بیروں می زند
مشاہدہ اور بصیرت سے اس رومانیت میں بڑی کشادگی پیدا ہوتی ہے، تخیل اپنے عمل میں مصروف، تاریخ اپنے اوراق لیے کھڑی، ماضی کا حسن جلوہ گر اور ایک بڑی بات یہ کہ ذاتی رد عمل اور تاثرات کے ساتھ مختلف قسم کی تصویروں کے نقوش اور ڈرامائی کیفیتیں، مولانا بعض تصویروں کے نقوش اور ان کے تحرک کو پیش کرتے ہوئے کبھی فکشن اور کبھی ڈراما کا حسن نمایاں کر دیتے ہیں مثلاً:
’’…دو بجنے والے تھے کہ ٹرین احمد نگر پہنچی، اسٹیشن میں سناٹا تھا، صرف چند فوجی افسر ٹہل رہے تھے، انہی میں مقامی چھاؤنی کا کمانڈنگ آفیسر بھی تھا جس سے ہمیں ملایا گیا ہم اترے اور فوراً اسٹیشن سے روانہ ہو گئے، اسٹیشن سے قلعہ تک سیدھی سڑک چلی گئی ہے۔ راہ میں کوئی موڑ نہیں ملا، میں سوچنے لگا کہ مقاصد کے سفر کا بھی ایسا ہی حال ہے، جب قدم اٹھا دیا تو پھر کوئی موڑ نہیں ملتا، اگر مڑنا چاہیں تو صرف پیچھے ہی کی طرف مڑ سکتے ہیں لیکن پیچھے مڑنے کی راہ یہاں پہلے سے بند ہو جاتی ہے‘‘ ۔ (غبار خاطر ص۲۸)
مولانا گرفتار ہو کر قلعہ احمد نگر میں داخل ہوتے ہیں، حکایتوں سے لبریز دل اظہار چاہتا ہے، جیسے خارجی زندگی کی اتھل پتھل اور یکسانیت سے گریز کر کے رومانی ذہن کو آسودگی حاصل ہو گی، جمالیاتی انبساط ملے گا، اسٹیشن سے قلعہ تک رومانی ذہن کس طرح متحرک ہے غور فرمائیے:
’’… قلعہ کا حصار پہلے کسی قدر فاصلے پر دکھائی دیا پھر یہ فاصلہ چند لمحوں میں طے ہو گیا، اب اس دنیا میں جو قلعہ سے باہر ہے اور اس میں جو قلعہ کے اندر ہے صرف ایک قدم کا فاصلہ رہ گیا تھا، چشم زدن میں یہ بھی طے ہو گیا اور ہم قلعہ کی دنیا میں داخل ہو گئے، غور کیجئے تو زندگی کی تمام مسافتوں کا یہی حال ہے خود زندگی اور موت کا باہمی فاصلہ بھی ایک قدم سے زیادہ نہیں ہوتا‘‘ ۔ (غبار خاطر ص۲۸)
9اگست 1942 کو سوا دو بجے جب قلعہ احمد نگر کے حصار کا کہنہ کا نیا پھاٹک بند ہوتا ہے تو رومانی ذہن کا یہ تاثر ملتا ہے:
’’… کل 9اگست 1942 کو سوا دو بجے قلعہ احمد نگر کے حصار کہنہ کا نیا پھاٹک میرے پیچھے بند کر دیا گیا، اس کارخانہ ہزار شیوہ و رنگ میں کتنے ہی دروازے کھولے جاتے ہیں تاکہ بند ہوں اور کتنے ہی بند کیے جاتے ہیں تاکہ کھلیں ‘‘ ۔ (غبار خاطر ص۱۹)
کھڑکیوں کو چن کر بند کر دیا جاتا ہے، قلعہ کی سنگی دیواروں تک ہی نگاہیں جاتی ہیں اور پھر ٹکرا کر واپس آ جاتی ہے، روشندان کے آئینے تک بند کر دیے جاتے ہیں … پھر رومانی ذہن کتاب باطن کھولتا ہے، اپنے علم کی روشنی حاصل کرتا ہے، بند کمرے میں چراغاں کرتا ہے، اپنے آزاد خیالات اور تاثرات کو سمیٹ لیتا ہے، خیالات، تاریخ اور تجربوں کی روشنی کو سمیٹ لاتے ہیں، انہیں، سنگی دیواریں ہوں یا بند روشندان اور کھڑکیاں روک نہیں سکتیں، آزادی کا ایک عجیب احساس ملتا ہے، مولانا لکھتے ہیں :
’’…میری پچھلی زندگی مجھے قید خانے کے دروازے تک پہنچا کر واپس چلی گئی اور اب ایک دوسری ہی زندگی سے سابقہ پڑا ہے، جو زندگی کل تک اپنی حالتوں میں گم اور خوش کامیوں اور دل شگفتگیوں سے بہت کم آشنا تھی آج اچانک ایک ایسی زندگی کے قالب میں ڈھل گئی جو شگفتہ مزاجیوں اور خندہ روئیوں کے سوا اور کسی بات سے آشنا ہی نہیں ‘‘ ۔ (غبار خاطر ص۶۶)
یہاں رومانیت کے آہنگ کے شعور کی پہچان مشکل نہیں ہے۔ داخلیت کی آنچ بھی محسوس کی جا سکتی ہے، تصویریت اور ڈرامائیت مولانا کی رومانیت کی اہم خصوصیات ہیں۔ یہ دونوں مل کر ایک ایسے فکشن کو جنم دیتی ہیں کہ جس میں تخیلی اور جذباتی نقطہ نگاہ کے ساتھ تحریر کا انوکھا پن بھی ہے۔ مولانا فکشن میں حقیقت کو خوب پہچانتے ہیں لیکن ساتھ ہی حقیقت کو انتہائی خوبصورتی کے ساتھ تحلیل ہوتے بھی دیکھتے ہیں، اسلوب کی رنگینی اور فنکار کی مرصع کاری کے باوجود تجربے اور احساس کی لطافت، انداز بیان کی ندرت اور بعض جملوں کی دلآویزی غور طلب بن جاتی ہے، یہ رومانیت اپنی ماضی پسندی کوبڑی شدت سے نمایاں کرتی ہے اور اندرونی کیفیات کے ساتھ تاریخ اور تہذیب کے جلوؤں کو محسوس بناتی ہے۔
مولانا کو تنہائی اور خلوت کی وجہ سے قید خانے کی زندگی پسند آئی ہے، ان کی رومانیت نقش آرائیوں کا گوشہ چھوڑنا نہیں چاہتی، مولانا جانتے ہیں کہ ایک زندگی کے اندر کتنی ہی متحرک اور کتنی ہی مختلف زندگیاں ہیں، فرماتے ہیں :
’’…انسان اپنی ایک زندگی کے اندر کتنی ہی مختلف زندگیاں بسر کرتا ہے، مجھے بھی اپنی زندگی کی دو قسمیں کر دینی پڑیں، ایک قید خانے سے باہر کی، ایک اندر کی:
ہم سمندر باش و ہم ماہی کہ در اقلیم عشق
روئے دریا سلسبیل و قعر دریا آتش است
دونوں زندگیوں کے مرقعوں کی الگ الگ رنگ و روغن سے نقش آرائی ہوئی ہے، آپ شاید ایک کو دیکھ کر دوسری کو پہچان نہ سکیں :
لباسِ صورت اگر واژگوں کنم بیند
کہ خرقہ خشنم مایہ طلا باف است‘‘ !
(غبار خاطر ص۶۵)
آگے بڑھتے ہیں تو ان کی رومانی فکر و نظر اور واضح ہو جاتی ہے:
’’…قید سے باہر کی زندگی میں اپنی طبیعت کی افتاد بدل نہیں سکتا، خود رفتگی اور خود مشغولی مزاج پر چھائی رہتی ہے، دماغ اپنی فکروں سے باہر آنا نہیں چاہتا اور دل اپنی نقش آرائیوں کا گوشہ چھوڑنا چاہتا، بزم و انجمن کے لیے بارِ خاطر نہیں ہوتا لیکن یارِ شاطر بھی بہت کم بن سکتا ہوں :
تاکے چو موجِ بحر بہر سوشتا فتن
در عینِ بحر پاے چو گرداب بند کن!
لیکن جو ں ہی حالات کی رفتار قید و بند کا پیغام لاتی ہے، میں کوشش کرنے لگتا ہوں کہ اپنے آپ کو یک قلم بدل دوں، میں اپنا پچھلا دماغ سر سے نکال دیتا ہوں اور ایک نئے دماغ سے اس کی خالی جگہ بھرنی چاہتا ہوں، حریمِ دل کے طاقوں کو دیکھتا ہوں کہ خالی ہو گئے تو کوشش کرتا ہوں کہ نئے نئے نقش و نگار بناؤں اور انہیں پھر سے آراستہ کروں :
دقتست و گربت کدہ سازند حرم را
اس تحول صورت (Metamorphism) کے عمل میں کہاں تک مجھے کامیابی ہوتی ہے اس کا فیصلہ تو دوسروں ہی کی نگاہیں کر سکیں گی لیکن خود میرے فریب حال کے لیے اتنی کامیابی بس کرتی ہے کہ اکثر اوقات اپنی پچھلی زندگی کو بھولا رہتا ہوں اور جب تک اس کے سراغ میں نہ نکلوں اسے واپس نہیں لا سکتا۔
دل کہ جمع ست، غم از بے سر و سامانی نیست
فکرِ جمعیت اگر نیست، پریشانی نیست!‘‘
(غبار خاطر ص۶۵۔۶۶)
مولانا کو جب بھی تنہائی نصیب ہوتی ہے وہ حریم دل کے طاقتوں پر نئے نئے نقش و نگار ابھارنے لگتے ہیں، چھوٹے بڑے خوبصورت دئے جلانے لگتے ہیں، زندگی کی شگفتگی اور تازگی کو نئے انداز سے دیکھنے اور محسوس کرنے لگتے ہیں، انہیں لذت حاصل ہوتی ہے، جمالیاتی انبساط حاصل ہوتا ہے، اس بات کی جانب وہ خود اس طرح اشارہ کرتے ہیں :
’’…میں نے قید خانے کی زندگی کو دو متضاد فلسفوں سے ترکیب دی ہے، اس میں ایک جز رواقیہ (Stoics) کا ہے، ایک لذتیہ (Epicureans) کا:
پنبہ را آشتی ایں جا بہ شرار افتاد است
جہاں تک حالات کی ناگواریوں کا تعلق ہے رواقیت سے ان کے زخموں پر مرہم لگاتا ہوں اور ان کی چبھن بھول جانے کی کوشش کرتا ہوں :
ہر وقتِ بد کہ رَوے دہد آب سیل رواں
ہر نقشِ خوش کہ جلوہ کند موجِ آب گیر!
جہاں تک زندگی کی خوشگواریوں کا تعلق ہے، لذتیہ کا زاویہ نگاہ میں کام لاتا ہوں اور خوش رہتا ہوں :
ہر وقتِ خوش کہ دست دہد، مغتنم شمار
کس را وقوف نیست کہ انجام کار چیست!
(غبار خاطر ۶۶۔۶۷)
لذتیہ کے زاویہ نگاہ میں سے مولانا کی جمالی اور روحانی فکر و نظر کی بڑی حد تک پہچان ہو جاتی ہے۔ تخیل کی دنیا ہو یا حقیقی زندگی کے نقوش، تہذیب و تمدن کے آثار ہوں یا تاریخ اور فنون کے کردار، مولانا اپنے وجدان کی مدد سے احساسات کے رنگ ابھارتے ہیں اور ان سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ سرمستی سی پیدا ہو جاتی ہے تو لذت اور انبساط میں گم ہو جاتے ہیں، ان کے رومانی ذہن کی پہچان ان کے اپنے اس کاک ٹیل (Cocktail) کے جام سے ہو جائے گی:
’’… میں نے اپنے کاک ٹیل (Cocktail) کے جام میں دونوں بوتلیں انڈیل دیں، میرا ذوقِ بادہ آشامی بغیر اس جام مرکب کے تسکین نہیں پا سکتا تھا، اسے قدیم تعبیر میں یوں سمجھئے کہ گویا حکایتِ بادہ و تریاک میں نے تازہ کر دی ہے:
چناں افیون ساقی درے افگند
حریفاں را نہ سرما ندونہ دستار!
البتہ ’’کاک ٹیل‘‘ کا یہ نسخہ خاص ہر خامکار کے بس کی چیز نہیں ہے، صرف بادہ گساران کہن مشق ہی اسے کام میں لا سکتے ہیں ورموتھ (vermouth) اور جِن (Gin) کا مرکب پینے والے اس رطلِ گراں کے متحمل نہیں ہو سکیں گے۔ مولانا روم نے ایسے ہی معاملات کی طرف اشارہ کیا تھا:
بارہ آس در خور ہر ہوش نیست
حلقہ آں مسخرہ ہر گوش نیست
(غبار خاطر ص ۶۷)
اس سوال کا جواب کہ قید و بند کی محروم زندگی میں لذتیہ کا سر و سامان کہاں میسر آ سکتا ہے۔ مولانا یہ دیتے ہیں ’’انسان کا اصلی عیش دماغ کا عیش ہے جسم کا نہیں، میں لذتیہ سے ان کا دماغ لے لیتا ہوں جسم ان کے لیے چھوڑ دیتا ہوں۔ ‘‘ ان کا تجربہ اور عقیدہ یہ ہے کہ لذتیں اور انبساط، حسن، لذت آمیزش، عیش و مسرت سب ہم سے باہر نہیں خود ہمارے اندر ہی موجود ہیں، بڑی خوبصورتی سے یہ بات اس طرح کہی ہے:
’’… عیش و مسرت کی جن گل شگفتگیوں کو ہم چاروں طرف ڈھونڈھتے ہیں اور نہیں پاتے وہ ہمارے نہانخانۂ دل کے چمن زاروں میں ہمیشہ کھلتے اور مرجھاتے رہتے ہیں، لیکن محرومی ساری یہ ہوتی کہ ہمیں چاروں طرف کی خبر ہے مگر خود اپنی خبر نہیں ‘‘ ۔ (غبار خاطر ص۶۸)
مولانا کی یہ پیاری معنی خیز بات کبھی بھول نہیں پاتا کہ جنگل کے مور کو کبھی باغ و چمن کی جستجو نہیں ہوتی، اس کا چمن خود اس کی بغل میں موجود رہتا ہے، جہاں کہیں اپنے پَر کھول دے گا ایک چمنستان باو قلموں کھل جائے گا۔
غبار خاطر پڑھتے ہوئے مجھے ہمیشہ ایسا محسوس ہوا کہ جیسے مولانا ابوالکلام آزاد کی رومانیت نے جنگل کے مور کی طرح اپنے پَر کھول دیے ہیں اور ایک ایسے چمن کی تخلیق ہو گئی ہے کہ جس میں طرح طرح کے پھول کھلے ہوئے ہیں۔
احساس حسن، اس رومانیت کا جوہر ہے، حسن پسندی کے رجحان اور احساس حسن کی شدت سے یہ رومانیت پرکشش اور جاذب نظر بنی ہے۔ حسن پسندی اور حسن کے احساس کی وجہ سے ہی رومانیت پھیلا ہے اور اس میں لمسیت، مظاہر حسن فطرت، تخیلیت، ماضی پسندی اور ماضی کا جلال و جمال، تمثیلیت، تصویریت، ڈرامائیت، جذبہ اور احساس کے مختلف رنگ سب شامل ہو گئے ہیں۔ یہ حسن پسندی اور احساس حسن ہے کہ جن کی وجہ سے مولانا کا رومانی ذہن ماضی کے جلوؤں تک پہنچ جاتا ہے، حکایت، تمثیل، فکشن اور ڈراما کی خصوصیات پیدا ہوتی ہیں۔ مولانا کی حسن پسند طبیعت ہی کا کرشمہ ہے کہ ’غبار خاطر‘ میں مظاہرِ حسن فطرت کے دلکش اور دلفریب نمونے ملتے ہیں، احساسات کی لطافت اور رنگینی کے ساتھ فطرت کے جمال سے ایک باطنی رشتہ محسوس ہونے لگتا ہے۔
’’…داہنی طرف جھیل کی وسعت، شالامار اور نشاط باغ تک پھیلی ہوئی ہے۔ بائیں طرف نسیم باغ کے چناروں کی قطاریں دور تک چلی گئی ہیں ‘‘ ۔ (غبار خاطر: ص۶)
’’…رات بھر کی امس بھی ختم ہو گئی تھی، اب جوار کی لہریں ساحل سے ٹکرا رہی تھیں ‘‘ ۔ (غبار خاطر:ص۲۱)
’’…صبح مسکرا رہی تھی، سامنے دیکھا تو سمندر اچھل اچھل کر ناچ رہا تھا، نسیم صبح کے جھونکے احاطہ کی روشنی میں پھرتے ہوئے ملے، یہ پھولوں کی خوشبو چُن چُن کر جمع کر رہے تھے اور سمندر کو بھیج رہے تھے کہ اپنی ٹھوکروں سے فضا میں پھیلاتا رہے‘‘ ۔ (ایضاً ص ۲۱)
’’… قید خانے کی چار دیواری کے اندر بھی سورج ہر روز چمکتا ہے اور چاندنی راتوں نے کبھی قیدی اور غیر قیدی میں امتیاز نہیں کیا، اندھیری راتوں میں جب آسمان کی قندیلیں روشن ہو جاتی ہیں تو وہ صرف قید خانے کے باہر ہی نہیں چمکتیں، اسیران قید و محن کو بھی اپنی جلوہ فروشیوں کا پیام بھیجتی رہتی ہیں، صبح جب طباشیر بکھیرتی ہوئی آئے گی اور شام جب شفق کی گلگوں چادر پھیلانے لگے تو صرف عشرت سراؤں کے دریچوں سے ہی ان کا نظارہ نہیں کیا جائے گا۔ قید خانے کے روزنوں سے لگی ہوئی نگاہیں بھی انہیں دیکھ لیا کریں گی، فطرت نے انسان کی طرح کبھی یہ نہیں کیا کہ کسی کو شادکام رکھے کسی کو محروم کر دے، وہ جب کبھی اپنے چہرے سے نقاب الٹتی ہے تو سب کو یکساں طور پر نظارہ حسن کی دعوت دیتی ہے‘‘ ۔ (غبار خاطر: ص۶۹)
’’… اس وقت آسمان کی بے داغ نیلگونی اور سورج کی بے نقاب درخشندگی کا جی بھر کے نظارہ کروں گا اور رواق دل کا ایک ایک دریچہ کھول دوں گا، گوشہ ہائے خاطر افسردگیوں اور گرفتگیوں سے کتنے ہی غبار آلود ہوں لیکن آسمان کی کشادہ پیشانی اور سورج کی چمکتی ہوئی خندہ روئی دیکھ کر ممکن نہیں کہ اچانک روشن نہ ہو جائیں ‘‘ ۔ (ایضاً: ص ۷۲۔۷۳)
’’… یہ ماننا پڑے گا کہ… ایک فلسفی، ایک زاہد، ایک سادھو کا خشک چہرہ بنا کر ہم اس مرقع میں کھپ نہیں سکتے جو نقاش فطرت کے موقلم نے یہاں کھینچ دیا ہے، جس مرقع میں سورج کی چمکتی ہوئی پیشانی، چاند کا ہنستا ہوا چہرہ، ستاروں کی چشمک، درختوں کا رقص، پرندوں کا نغمہ، آب رواں کا ترنم اور پھولوں کی رنگین ادائیں اپنی اپنی جلوہ طرازیاں رکھتی ہوں، اس میں ہم ایک بجھے ہوئے دل اور سوکھے ہوئے چہرہ کے ساتھ جگہ پانے کے یقیناً مستحق نہیں ہو سکتے، فطرت کی اس بزم نشاط میں تو وہی زندگی سج سکتی ہے جو ایک دہکتا ہوا دل پہلو میں اور چمکتی ہوئی پیشانی چہرے پر رکھتی ہو اور جو چاندنی میں چاند کی طرح نکھر کر ستاروں کی چھاؤں میں ستاروں کی طرح چمک، پھولوں کی صف میں پھولوں کی طرح کھل کر اپنی جگہ نکال لے سکتی ہو‘‘ ۔ (ایضاً: ص۷۶)
’’…حسن آواز میں ہو یا چہرے میں، تاج محل میں ہو یا نشاط باغ میں حسن ہے اور حسن اپنا فطری مطالبہ رکھتا ہے، افسوس اس محروم ازلی پر جس کے بے حس دل نے اس مطالبہ کا جواب دینا نہ سیکھا ہو‘‘ ۔ (غبار خاطر: ص۲۵۷)
’’… فطرت کائنات میں ایک مکمل مثال (Pattern) کی نموداری ہے ایسی مثال جو عظیم بھی ہو اور جمالی (Aesthetics) بھی، اس کی عظمت ہمیں مرعوب کرتی ہے۔ اس کا جمال ہم میں محویت پیدا کرتا ہے‘‘ ۔ (ایضاً: ص۱۱۳)
’’…کائنات ساکن نہیں ہے متحرک ہے اور ایک خاص رخ پر بنتی اور سنورتی ہوئی بڑھی چلی جا رہی ہے، اس کا اندرونی تقاضہ ہر گوشہ میں تعمیر و تکمیل ہے، اگر کائنات کی اس عالمگیر ارتقائی رفتار کی کوئی مادی توضیح ہمیں نہیں ملتی تو ہم غلطی پر نہیں ہو سکتے، اگر اس معمہ کا حل روحانی حقائق میں ڈھونڈھنا چاہتے ہیں ‘‘ ۔ (ایضاً: ۱۲۸)
’’… کوئی پھول یاقوت کا کٹورا تھا، کوئی نیلم کی پیالی تھی، کسی پھول پر گنگا جمنی کی قلم کاری کی گئی تھی، کسی پر چھینٹ کی طرح رنگ برنگے کی چھپائی ہو رہی تھی، بعض پھولوں پر رنگ کی بوندیں اس طرح پڑ گئی تھیں کہ خیال ہوتا تھا صناع قدرت کے موقلم میں رنگ زیادہ بھر گیا ہو گا، صاف کرنے کے لیے جھٹکنا پڑا اور اس کی چھینٹیں قبائے گل کے دامن پر پڑ گئیں ‘‘ ۔ (ایضاً: ۱۹۷)
حسن پسند طبیعت میں سچائی یا حقیقت تحلیل ہوتی ہے تو داخلیت کی آنچ تیز ہوتی ہے۔ لیکن جذبات میں تندی پیدا نہیں ہوتی، ایک پر وقار توازن قائم رہتا ہے، فطرت کا حسن اور انسان کی تخلیقات کا حسن، دونوں فنکار کی رومانیت کو بیدار اور متحرک کئے رہتے ہیں۔ مولانا کی رومانیت کا تقاضا یہ ہے کہ علم کا دباؤ کہیں محسوس نہ ہو، حسن محسوس بنے، حسن سے ایک معصوم سا رشتہ قائم رہے، لیکن ساتھ ہی علم سے جو آگہی حاصل ہوئی ہے، حسن کو دیکھنے اور محسوس کرنے کا جو وژن ملا ہے اس کا جوہر بھی موجود رہے۔ اس طرح رومانیت کی سطح بلند ہوتی ہے، حسن پسندی کا ایک معیار قائم ہوتا ہے۔ مولانا کے رومانی ذہن نے تلاش حسن کی بعد رموزِ حسن تک پہنچنے کی کوشش کی ہے۔ ’غبار خاطر‘ میں ہر مشاہدہ خوبصورت تجربہ بنا ہے، پھولوں پر گفتگو ہو رہی ہو یا درختوں اور پودوں پر، پرندوں پر اظہار خیال کیا جا رہا ہو یا جانوروں پر، ہر جگہ محسوس ہوتا ہے، مشاہدہ گہرا ہے اور مشاہدہ جمالیاتی تجربہ بنا ہے۔ حسن کی تلاش دراصل انبساط اور مسرت کی تلاش ہے، مسرت کی جستجو سے حسن قلب و نظر سے قریب ہو جاتا ہے تو غبار خاطر کے فنکار کے حواس کو آسودگی حاصل ہوتی ہے۔ حسن کے تعلق سے جہاں بھی کوئی بات کہی گئی ہے آگہی اور وژن نے حواس کو صحت مند اور متوازن تاثرات عطا کیے ہیں۔ ذکر موسمی پھولوں کا ہو یا نازک کلیوں کا، بہار صبح کی بیلوں کا ہو یا خوبصورت نازک شاخوں کا، گل خطمی کی بات ہو رہی ہو یا پھولوں کی رنگ آمیزی کی بات، بلبلوں کا ذکر ہو یا کوئلوں کا، رومانی ذہن کی محویت متاثر کرتی ہے۔ یہ محویت انبساط اور سرور حاصل کرنے کے لیے بھی ہے اور عطا کرنے کے لیے بھی۔ حسن کے تعلق سے باتیں عام سی ہوں یا خاص، ہر جگہ محسوس ہوتا ہے کہ جیسے رومانیت نے کوئی انکشاف کیا ہے، انکشاف کی تازگی اور توانائی متاثر کرتی ہے۔
ماضی پسندی، رومانیت کی ایک بڑی خصوصیت ہے۔ مولانا بھی ماضی پسند ہیں، ماضی کے کھنڈروں میں اتر جاتے ہیں۔ ماضی کے جلال و جمال سے اس طرح دلچسپی لینے لگتے ہیں کہ اندرونی کیفیات اور احساسات کی بھی پہچان ہونے لگتی ہے۔ حسن پسند مزاج اور حسن کا طلسم فنکار کو ماضی کے جلوؤں تک لے جاتا ہے، ماضی کا جلوہ ہو یا ماضی کا المیہ، فنکار کا ذہن دونوں سے دلچسپی لینے لگتا ہے۔ اور اس طرح بھی غبار خاطر میں بصیرت افزائی کا سامان مہیا ہو جاتا ہے۔ احمد نگر کے قلعے میں نظر بند ہوتے ہیں تو احمد نگر اور اس کے قلعے کی تاریخ سے دلچسپی لینے لگتے ہیں۔ چند تاریخی کرداروں کو یاد کرنے لگتے ہیں۔ ملک احمد نظام الملک بھیری، فرشتہ، برہان نظام شاہ، چاند بی بی، عبد الرحیم خان، دولت خاں لودی، ابوالفضل، سب کی پرچھائیاں آنکھوں کے سامنے سے گزرنے لگتی ہیں، اچانک ماضی کے کسی انجان اور نامعلوم ڈرامے کا ایک انتہائی دھندلا منظر سامنے آ جاتا ہے، دھند میں جیسے کوئی شکستہ قبر دکھائی دے رہی ہو:
’’…احاطہ کے شمالی کنارہ میں ایک ٹوٹی ہوئی قبر ہے، نیم کے ایک درخت کی شاخیں اس پر سایہ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں مگر کامیاب نہیں ہوتیں، قبر کے سرہانے ایک چھوٹا ساطاق ہے، طاق اب چراغ سے خالی ہے، مگر محراب کی رنگت بول رہی ہے کہ یہاں کبھی ایک دیا جلا کرتا تھا۔‘‘ (غبار خاطر: ۲۹)
مولانا ابوالکلام آزاد موسیقی کے شیدائی ہیں، فرماتے ہیں کہ زندگی کی احتیاجوں میں سے ہر چیز کے بغیر خوش رہ سکتا ہوں لیکن موسیقی کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ لکھتے ہیں آواز خوش میرے لیے زندگی کا سہارا، دماغی کاوشوں کا مداوا اور جسم و دل کی ساری بیماریوں کا علاج ہے۔ موسیقی کا ذکر آ جاتا ہے تو ان کی رومانیت میں وہی اٹھان پیدا ہو جاتی ہے جو کسی کلاسیکی نغمے یا پکے گانے میں ہوتی ہے۔ موسیقی کے تعلق سے اندرونی کیفیت کی وضاحت نہیں کر پاتے تو کہتے ہیں کیا کہوں اور کس طرح کہوں کہ فریب و تخیل کے کیسے کیسے جلوے انہیں آنکھوں کے آگے گزر چکے ہیں۔ موسیقار ابو الکلام کے ہاتھوں میں ستار ہے، تاج محل کی چھت پر جمنا کے رخ بیٹھے ہیں۔ جونہی چاندنی پھیلنے لگتی ہے ستار پر کوئی گیت چھیڑ دیتے ہیں اور اس میں گم ہو جاتے ہیں، رومانی ذہن کی حیثیت مرکزی ہے، رومانیت سے لبریز تصور کس طرح سامنے آ رہا ہے، غور فرمائیے:
’… رات کا سناٹا، ستارو ں کی چھاؤں، ڈھلتی ہوئی چاندنی اور اپریل کی بھیگی ہوئی رات چاروں طرف تاج کے منارے سر اٹھائے کھڑے تھے، برجیاں دم بخود بیٹھی تھیں، بیچ میں چاندنی سے دھلا ہوا مرمریں گنبد اپنی کرسی پر بے حس و حرکت متمکن تھا، نیچے جمنا کی روپہلی جدولیں بل کھا کھا کر دوڑ رہی تھیں اور اوپر ستاروں کی انگنت نگاہیں حیرت کے عالم میں تک رہی تھیں، نور و ظلمت کی اس ملی جلی فضا میں اچانک پردہ ہائے ستارے نالہ ہائے بے حرف اٹھتے اور ہوا کی لہروں پر بے روک تیرنے لگتے، آسمان تارے جھڑ رہے تھے اور میری انگلی کے زخموں سے نغمے:
زخمہ برتا رک جاں میزنم
کس چہ داند تاچہ دستاک میزنم
کچھ دیر تک فضا تھمی رہتی گویا کان لگا کر خاموشی سے سن رہی ہے، پھر آہستہ آہستہ ہر تماشائی حرکت میں آنے لگا، چاند بڑھنے لگتا یہاں تک کہ سر پر آ کھڑا ہوتا، ستارے دیدے پھاڑ پھاڑ کر تکنے لگتے۔درختوں کی ٹہنیاں کیف میں آ کر جھومنے لگتیں، رات کے سیاہ پردوں کے اندر سے عناصر کی سرگوشیاں صاف صاف سنائی دیتیں، بارہا تاج کی برجیاں اپنی جگہ سے مل گئیں اور کتنے ہی مرتبہ ایسا ہوا کہ منارے اپنے کاندھوں کو جنبش سے نہ روک سکے۔ آپ باور کریں یا نہ کریں مگر یہ واقعہ ہے کہ اس عالم میں بارہا میں نے برجیوں سے باتیں کی ہیں اور جب کبھی نگاہ تاج کے گنبد خاموش کی طرف اٹھائی ہے تو اس کے لبوں کو ہلتا ہوا پایا ہے:
تو چندار کہ ایس قصہ ز خود میگویم
گوش نزدیک لبم آر کہ آوازے ہست
(غبار خاطر: ص۲۵۹)
مولانا کا رومانی ادب کس طرح رومانی کشادگی پیدا کرتا ہے اور کس طرح سکون و راحت اور مسرت بخشتا ہے اس کا اندازہ اس اقتباس سے بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ آسمان، چاند اور ستاروں کا تحرک، رات کی سیاہی کے اندر سے عناصر کی سرگوشیوں کا آہنگ، درختوں اور میناروں اور گنبد تاج وغیرہ کی جنبشیں، ان سے ایک دلکش پر اسرار فضا بنتی ہے، ان تمام پیکروں کا آہنگ محسوس ہونے لگتا ہے۔جمالیاتی حس کی بیداری بھی ہے اور اندرونی وجدانی زندگی سے ابھرے ہوئے تاثرات بھی ہیں۔ مولانا نے اس سحر آمیز اور سحر آفریں فضا کی تشکیل اس لیے کی ہے کہ وہ ماضی میں اترنا چاہتے تھے۔ ماضی میں موسیقی اور اس کے حسن کو ٹٹولنا چاہتے تھے، یہ اقتباس دراصل موسیقی کی تاریخ کا ابتدائیہ ہے۔ موسیقی کی تاریخ اور ماضی میں اترتے ہوئے ہر جگہ اپنی بصیرت اور بلند نگہی کا ثبوت دیتے ہیں۔ حسن پسند رومانی ذہن ماضی کے جمال کے تئیں بیدار ہے۔ حجازیوں کا ذوق موسیقی، ہارون الرشید کی شبستانِ طرب میں اسحاق موصلی اور ابراہیم بن مہدی کے مضرابوں کا آہنگ، مصر کی مغنیہ طائرہ کی آواز، ام کلثوم کی فنکاری، ان کے ساتھ قدیم یونانیوں کا ذوق، ہندوستانی موسیقی اور ڈرامے کا فن، یونانی فن موسیقی پر عربی میں کتابوں کی تالیف، امیر خسرو اور ان کے راگ، ملتان، ایودھن، گور اور دہلی کے خانقاہوں میں موسیقی کی سحر آفریں فضائیں، خلجی اور تغلق کے درباروں میں ہندوستانی موسیقی کا ذوق، رس، تار، سازگری، ایمن، خیال، دھرید، مالوا، بنگال اور گجرات میں راگ راگنیاں، تان سین دربار اکبری اور دربار جہانگیری کے موسیقار، شاہ جہاں کے دور میں موسیقی کی دھوم، شیخ جمالی اور شیخ گدائی۔ مولانا کی تحریر سے یہ سب افسانوی کردار کی طرح ابھرتے اور ماضی کی عظمت کے حسن کا احساس دلاتے ہیں۔ بعض کتابوں سے چند واقعات پیش کیے ہیں کہ جن سے دلچسپی بڑھ جاتی ہے، یہ نغمے کا احساس اور احساس آہنگ ہے جو مولانا کے رومانی ذہن کو موسیقی کی تاریخ تک لے جاتی ہے، کہتے ہیں ’’…موسیقی کا ذوق اور تاثر جو دل کے ایک ایک ریشہ میں رچ گیا تھا دل سے نکالا نہیں جا سکتا تھا اور آج تک نہیں نکلا‘‘ ۔ انہوں نے موسیقی کی کوئی تاریخ بیان نہیں کی ہے، بلکہ اپنے مطالعے اور تجربے سے حاصل کی ہوئی روشنی کی کرنوں کو بکھیر دیا ہے۔ ’’چڑیا چڑے کی کہانی‘‘ رومانی تمثیلیت کی پیاری سی مثال ہے۔ گہرے مشاہدے کی وجہ سے رومانی ذہن نے لطف، انبساط عطا کیا ہے، بے تکلفی اور بے ساختگی نے اس تمثیلی افسانے کے جاذبِ نظر بنا دیا ہے۔ یہ سب مولانا ابوالکلام آزاد کی خلوت پسند رومانی فکر و نظر کی دین ہے۔
٭٭٭