FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

ایک ہے فن کار : انورسن رائے

 

ترتیب: اشعر نجمی، مدیر ’اثبات‘ ممبئی

تعارف

انور سن رائے سے قارئین کی شناسائی برسوں پرانی ہے۔ ہندوستانی قارئین ان کی نظمیں اور افسانے ’’شب خون‘‘ میں پڑھتے رہے ہیں۔ ان کے دو ناول ’’چیخ‘‘ اور ’’ذلتوں کے اسیر‘‘ قارئین اور ناقدین کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے میں کامیاب رہے۔

انور سن رائے ایک معتبر صحافی بھی ہیں اور کئی مؤقر اخباروں سے وابستہ رہ چکے ہیں۔ فی الحال آپ بی۔بی ۔سی (لندن) کے شعبۂ اردو سے منسلک ہیں۔

قارئین کی ضیافت طبع کے لیے اس ہمہ جہت فن کار کے کچھ افسانے، کچھ نظمیں اور کچھ تراجم پیش خدمت ہیں۔

مدیر اثبات

 

افسانے

                   رائیگاں پکار

اتالو کل وینو کی ایک کہانی میں، ایک آدمی ایک ایسی کشادہ گلی میں کھڑا ہے جس کا فرش پتھروں سے تراشی گئی اینٹوں سے بنایا گیا ہے۔ وہ اوپر کی طرف یوں دیکھتا ہے جیسے بلندی کا اندازہ لگا رہا ہو۔ کچھ سوچ کر وہ کئی قدم پیچھے ہٹتا ہے، اوپر دیکھتا ہے اور پھر اسی جگہ کی طرف چند قدم واپس ہوتا ہے جہاں وہ پہلے کھڑا تھا۔

وہ ایک بار پھر اوپر دیکھتا ہے اور داہنا ہاتھ منھ کے قریب ہونٹوں پر لے جا کر ایسی گولائی کی شکل دیتا ہے کہ اس کے انگوٹھے کے بعد کی پہلی انگلی کا ناخن اور پور انگوٹھے کے تقریباً وسط سے کچھ اوپر بنی لکیر پر جا ٹکتے ہیں۔ ہاتھ کی باقی تینوں انگلیاں پہلی انگلی کے ساتھ ایسے جڑی ہوئی ہیں کہ ان کے درمیان معمولی سا فاصلہ بھی نہیں ہے۔ دہانے جتنی گولائی بناتے ہوئے اس کے ہاتھ نے مطلوبہ انداز میں ایک چھوٹے سے بھونپو کی شکل اختیار کر لی ہے۔ اس نے اس پورے عمل کی تفصیلات پر توجہ دینے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی۔ شاید اس کی ساری توجہ کسی ایسی بات پر ہے جو واضح نہیں ہے۔ اس کا داہنا ہاتھ یہ تمام کام کسی خاص ہدایت کے بغیر یوں انجام دیتا ہے جیسے جسم اور اعضا بہت سے کاموں کو اس طرح انجام دیتے ہیں جیسے وہ ان کی فطرت ہوں۔ اگرچہ اعضا کی فطرت کے بارے اب تک جو کچھ بھی کہا گیا ہے وہ تجربات کے باوجود محض قیاس پر مبنی ہوتا ہے۔

وہ اب مکمل طور پر تیار دکھائی دیتا ہے۔ ایک بار اور جب اس کی آنکھیں سامنے کی عمارتوں کی بلندی کی طرف اٹھی ہوئی تھیں، اس کا پیٹ اندر کی طرف سمٹا اور اس منھ سے تھریسا کی پکار بلند ہوئی۔ اس کی آواز اوپر، نیچے اور دائیں جانب ہتھیلی اور انگلیوں کے گھماؤ سے ٹکراتی ہوئی گھومی، آگے بڑھی اور متوقع طور پر فضا میں پھیل گئی۔

آواز بلند ہوتے ہی گلی کے فرش پر لیٹا اس کا سایا لمحے بھر کو لرزا اور پھر پہلے کی طرح اس کے پاؤں میں ساکت ہو گیا۔ چاندنی کی وجہ سے، یا گلی کے سکوت میں خلل ڈالنے والی آواز کے ارتعاش کی وجہ سے؛ اس بارے میں کچھ بھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا۔

اس دوران ایک راہ گیر اس کے قریب سے گذرا لیکن دونوں نے ایک دوسرے پر کوئی توجہ نہیں دی۔ اس نے اس مقام میں ،جہاں وہ کھڑا تھا، تھوڑی سی تبدیلی کی اور ایک بار پھر پہلے کی طرح داہنے ہاتھ کو منھ پر رکھ کر آواز لگائی۔

’’اگر تم پوری قوت سے آواز نہیں لگاؤ گے تو تمھاری آواز کبھی اس تک نہیں پہنچے گی۔ آؤ، ہم دونوں مل کر کوشش کرتے ہیں۔‘‘ کچھ دیر پہلے اس کے پاس سے گذر کر جانے والے نے پلٹ کر اس کے قریب آتے ہوے کہا۔ ’’یوں کریں گے کہ تین تک گنیں گے اور تین کے فوراً بعد مل کر آواز لگائیں گے۔‘‘ اس نے تجویز پیش کی اور مخاطب کی خاموشی کوتائیدسمجھ کر گنتی شروع کی، ایک… دو… تین۔ تین کے بعد دونوں نے مل کر آواز لگائی: تھری ی ی ی ی ی سا ا ا ا ا ا ا!

آواز خاصی بلند ہوئی اور یقیناً دور اور اوپر تک سنی گئی ہو گی۔

جب وہ ایک بار اور آواز لگا رہے تھے تو لوگوں کا ایک گروہ گلی میں داخل ہوا۔ رات کافی ہو چکی تھی۔ وہ تھیٹر کے آخری شو سے لوٹ رہے ہوں گے یا کیفوں میں وقت گذار کر۔ ہر عمر کے مرد اور عورتیں، نوجوان لڑکے اور لڑکیاں۔ دونوں کو آواز لگاتا سن کر وہ ان کے گرد رک گئے اور پیشکش کی کہ وہ بھی ان کے ساتھ مل کر آواز لگاتے ہیں۔

گلی کے وسط میں وہ ایک چھوٹا سا ہجوم بن گئے، ایسا ہجوم جو مسلسل آوازیں لگا رہا تھا۔ سب سے پہلے آنے والا ایک سے تین تک گنتی کرتا تھا اور پھر سب مل کر آواز لگاتے تھے: تھی ی ی ی ی ی ی ی ری ی ی ی ی ی ی ی ی ی سا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا !

کچھ ہی دیر میں کچھ اور لوگ بھی آ کر ان میں شامل ہو گئے۔ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد ایک سے تین تک گنتی ہوتی اور پھر تھی ری سا کی آوازیں بلند ہوتیں۔ کھرج دار، چیخ سی، گھٹی ہوی اور حلق سے بمشکل نکلتی ہوئیں، توانا، تھکی ہوئیں جوان، ادھیڑ عمر، مردانہ اور نسوانی۔ ان میں جلد باز بھی تھے اور قدرے تحمل والے بھی اور ایسے بھی جنھیں کسی بھی کام میں جلدی نہیں ہوتی۔ کچھ گنتی کے تین تک پہنچنے سے لمحہ بھر پہلے، کچھ تین تک پہنچتے ہی اور کچھ لمحہ بھر بعد آواز بلند کرتے۔’’ تھی تھی تھی ی ی ی ی ری ری ری ی ی ی ی سا سا سا ا ا ا ا ا ا!‘‘

آوازوں کے اس سلسلے کے دوران ایک قدرے عمر رسیدہ شخص گلی میں داخل ہوا۔ وہ فوری طور پر ان میں شامل نہیں ہوا۔ اس نے انھیں دو ایک بار آواز لگاتے سنا اور پھر انھیں روک کر کہا کہ’ ’ہمیں یہ کام منظم ہو کر کرنا چاہیے۔‘‘ وہ اگر موسیقار یا سازندہ نہیں تھا تو کم از کم موسیقی کا ایسا جاننے والا ضرور تھا جس نے عمر کے کسی نہ کسی حصے میں موسیقی سیکھنے کی باقاعدہ کوشش کی ہو گی۔ لیکن اس نے انھیں شور اور موسیقی کے فرق کے بارے میں کچھ بتانے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ حالاں کہ اس کا انداز کچھ ایسا تھا کہ سب نے اس کی بات نہ صرف توجہ سے سنی بلکہ عمل بھی کیا۔ اس نے انھیں نیم دائرے میں گھومتی ہوئی دو قطاروں میں ایک ترتیب سے کھڑا کیا اور کہا کہ جب گنتی میں تین کے ہندسے کی آواز مکمل ہو گی تو پہلے’’ تھی‘‘ پھر’’ ری‘‘ اور پھر’’ سا‘‘ کی آواز نکالی جائے گی۔’’ تھی‘‘ کی آواز ذرا دھیمی اور بھاری،’’ ری‘‘ کی آواز’’ تھی‘‘ سے ذرا اونچی اور پتلی اور پھر’’ سا‘‘ کی آواز اس سے بھی بلند اور پوری قوت لگا کر نکالی جائے گی۔ اس نے تینوں حصوں کی ادائیگی کا انداز آواز نکال کر بھی سمجھایا۔

پکار کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہوا، اور دو تین بار کے بعد بالکل منظم ہو گیا اور گلی میں وقفے وقفے سے’’ تھریسا تھریسا‘‘ کی پکار گونجنے لگی۔

ایک کے سوا وہاں موجود سبھی لطف اندوز ہو رہے تھے۔ان میں سے کچھ بیچ بیچ میں ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکراتے، کچھ ہنستے، کچھ نوجوان لڑکے لڑکیاں ہر پکار کے بعد ایک دوسرے سے بغل گیر اور ہم بوسہ بھی ہوتے اور الگ ہو کر پھر سے پکار کے لیے تیار ہو جاتے۔

ترتیب دینے والے نے جب انھیں رکنے کے لیے کہا تو پکار کے سلسلے کو جاری ہوئے خاصی دیر ہو چکی تھی۔ اس نے چاندنی سے روشن گلی میں جمع نیم نمایاں سایوں سے پوچھا کہ کیا انھیں یقین ہے کہ وہ گھر پر ہو گی؟ اس کی آواز اور الفاظ سب کو واضح اور صاف سنائی دیے۔ وہ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ ان میں شامل ایک کے سوا کوئی بھی یہ نہیں جانتا تھا کہ سوال کا اصل مخاطب کون ہے۔

’’نہیں‘‘۔ گلی میں سب سے پہلے آنے اور آواز لگانے والے نے جواب دیا۔

’’اوہ!‘‘ ان میں سے کسی نے مایوس لہجے میں کہا اور پوچھا کہ کیا دروازے کی چابی کہیں گر گئی ہے؟

’’نہیں تو، میری چابی تو میرے پاس ہے۔ ‘‘اس نے جیب کو ٹٹول کر تصدیق کرتے ہوئے کہا۔

’’تو؟ تم اوپر جا کر کیوں نہیں دیکھتے۔‘‘ چابی کے بارے میں پوچھنے والے حیرانی سے پوچھا۔

’’میں یہاں نہیں رہتا۔ میں تو اس طرف شہر کے آخری سرے پر رہتا ہوں۔‘‘ اس نے ایک طرف ہاتھ اٹھاتے ہوئے کہا۔

’’اوہ! تو وہ یہاں رہتی ہے اور تم یہاں نیچے سے ہی پکار رہے ہو؟‘‘ انھیں ترتیب دینے والے عمر رسیدہ مسکراتے ہوئے ایسے کہا جیسے وہ سارے معاملے کو سمجھ گیا ہو۔

’’نہیں۔‘‘ سب سے پہلے پکارنے والے جواب دیا۔

’’تو پھر یہاں کون رہتا ہے؟‘‘ عمر رسیدہ نے حیرانی سے پوچھا۔

’’مجھے نہیں پتا۔ ‘‘اس نے جواب دیا۔

اس کے اس جواب پر وہاں جمع لوگوں میں اضطراب سا پھیل گیا۔

’’تو محترم! کیا آپ از راہِ کرم یہ وضاحت کرنا پسند کریں گے کہ آپ یہاں، نیچے گلی میں کھڑے ہو کر تھریسا تھریسا کیوں چیخ رہے تھے؟‘‘ ان میں سے ایک نے اپنی خفگی کو چھپاتے ہوئے لفظوں کو چبا چبا کر ادا کرتے ہوئے بظاہر مہذب انداز میں پوچھا۔

’’جہاں تک میرا تعلق ہے، مجھے تو تھریسا پر کوئی اصرار نہیں، ہم کچھ اور بھی منتخب کر سکتے ہیں اور یہاں ہی نہیں کہیں بھی جا کر پکار سکتے ہیں۔‘‘ اس نے انتہائی اطمینان سے جواب دیا۔

اس کے جواب پر کچھ تو یقیناًمسکرائے، لیکن بیشتر نے غصہ آتا ہوا محسوس کیا۔

’’مجھے یقین نہیں آتا کہ تم ہمارے ساتھ کھلواڑ کر رہے ہو؟‘‘ عمر رسید ہ نے اس کا سر سے پاؤں تک جائزہ لیتے ہوئے کہا۔

’’کیا… کھلواڑ؟‘‘ اس نے بڑے ادب اور بے یقینی سے کہا اور مڑ کر وہاں کھڑے سب لوگوں پر اس طرح نظر کی جیسے اس بات کا یقین کرنا چاہتا ہو کہ وہاں موجود تمام لوگوں کو اس کے جذبے پر کوئی شک نہیں۔

سب پر کچھ شرمندگی اور خجالت سے چھائی ہوئی تھی۔

’’خیر اس ہونے نہ ہونے کو چھوڑیں، کیوں نہ ہم ایک بار اور مل کر اسے پکاریں اور اس کے بعد اپنی اپنی راہ لیں۔‘‘ ان میں ایک نے جو خود کو اعتدال پسند سمجھتا تھا مشورہ دیا۔

اکثر نے اس کے مشورے پر اثبات میں سر کو حرکت دی۔

ایک بار پھر گنتی شروع ہوئی: ایک دو تین۔ ایک بار پھر سب نے ایک ساتھ آواز نکالنے کی کوشش کی لیکن اس بار وہ یکسوئی اور جوش نہیں تھا جو درمیان میں کچھ دیر کو پیدا ہوا تھا۔

اس کے بعد سب ایک ایک اور دو دو کر کے جانے لگے۔ کچھ ایک رستے پر کچھ دوسرے پر۔ وہ سب سے آخر میں چلا۔ جب وہ اس گلی سے نکل کر دوسری میں داخل ہو رہا تھا تو اسے لگا جیسے کوئی ایسا ہے جو اس کے بعد بھی گلی میں رکا ہوا ہے اوراس کو وقفے وقفے سے پکار رہا ہے۔

یہ سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوا۔ شہر میں کوئی نہ کوئی کہیں کہیں نہ کہیں کھڑا ہو جاتا ہے۔ داہنے ہاتھ سے ہونٹوں پر بھونپو سا بناتا ہے اور آسمان کی طرف منھ کر کے چلاتا ہے:’’ تھریسا‘‘ اور پھر دیکھتے دیکھتے اس کے گرد لوگ جمع ہونے لگتے ہیں اور پھر سب کچھ اْسی طرح ہوتا ہے جیسے اس رات ہوا تھا۔

٭٭٭

 

                   ایک محبت کے بارے میں

ایک قدیم کہانی کو دہرانے کے درمیان مفروض حریف سے لڑتے ہوئے اداکار اس تلوار سے اچانک شدید زخمی ہو گیا جو صرف اداکار، حریف اور تماشائیوں کے تصور میں تھی۔ اس پر حریف ہی نہیں تماشائی بھی حیران تھے۔ پسلیوں کے درمیان راستہ بناتی ہوئی تلوار سیدھی اداکار کے سینے میں ایسے اتری تھی جیسے ایک زمانے سے اس پر واجب الادا ہو۔

اسٹیج کے داہنی جانب بیٹھے تماشائیوں کو تلوار انتہائی واضح طور پر اداکار کی پشت سے باہر نکلتی ہوئی دکھائی دی۔ انھوں نے حریف کے چہرے پر چند لمحوں کے لیے ابھرنے والی وہی بے یقینی دیکھی جو ان تماشائیوں میں سے صرف چند ایک کو ہی دکھائی دی جو بائیں جانب بیٹھے تھے۔ لیکن ان کے حصے میں وہ لمحہ بھی آیا تھا جب تلوار نے سینے تک پہنچ کر اندر جانے کا راستہ بنایا تھا۔

اس سے پہلے کہ ان کی حیرت اور بے یقینی ختم ہوتی، خون کی کچھ بوندیں ان کے چہروں اور ان صاف ستھرے کپڑوں تک بھی پہنچ گئیں جو وہ بطور خاص تماشا دیکھنے کے لیے پہن کر آئے تھے۔

خون کی ان بوندوں کی زد میں آنے والوں میں علاقے کی حسین ترین نادیہ بھی شامل تھی۔

وہ اسٹیج قرار دی گئی مخصوص جگہ سے قریب ترین پہلی قطار کے وسط میں بیٹھے خصوصی مہمان کے ساتھ آنے والے دو تماشائیوں کے بعد بیٹھی تھی اور کھیل میں ایک ایسی محبوبہ کا کردار ادا کرنے کے لیے اپنی باری کا انتظار کر رہی تھی جس کے عاشقوں میں ہر عمر اور طبقے کے لوگ شامل ہوں۔

خون کی صرف پانچ بوندیں اس تک پہنچی تھیں۔

تین نے اس کے نمایاں اور پرکشش سینے کے ابھاروں پر، ایک نے اس کی حیران کن گردن اور سینے کے اتصال پر بننے والی گڑھے کے عین درمیان اور ایک نے اس کے بالائی ہونٹ پر ستواں ناک کے ٹھیک نیچے اس درمیانی ابھار پر جگہ بنائی تھی جسے کسی کوشش کے بغیر بھی محسوس کیا جا سکتا تھا۔

یوں تو اس تک پہنچنے والی ہر نظر اس کے سر تا پا طواف کو ایک ایسا فریضہ تصور کرتی تھی جسے قضا نہ کیا جا سکتا ہو لیکن اس کا نچلا ہونٹ ان مقامات میں شامل تھا جہاں توقف خود اپنی طاقت سے مقام بناتا تھا۔ ہمیشہ کچھ اس طرح سوجا ہوا سا کہ جیسے وہ دیر تک ہم بوسہ ہو کر آ رہی ہو۔

اداکار کے سینے میں تلوار داخل ہونے سے لمحہ بھر پہلے اگر اس نے انہماک اور بے خیالی میں نچلے ہونٹ کے درمیانی حصے کو اپنے دانتوں کے درمیان دبا نہ لیا ہوتا تو بالائی ہونٹ پر رکنے والی بوند یقیناً نچلے ہونٹ پر ہی جگہ بناتی۔

نادیہ تک پہنچنے والی ان بوندوں کو سب سے پہلے صرف خصوصی مہمان نے دیکھا۔ اس کی آنکھیں مسلسل اسٹیج اور نادیہ کے درمیان گردش کر رہی تھیں۔ شاید تماشے میں اس کی دلچسپی کم و بیش نہ ہونے کے برابر تھی۔

اس پر نظر رکھنے والا کوئی بھی آسانی سے کہہ سکتا تھا کہ وہ یقیناً تماشے کے لیے نہیں آیا۔ ایسے تماشوں میں خصوصی مہمان بننے والوں کے بارے میں کوئی بات بھی پورے یقین سے نہیں کہی جا سکتی لیکن زیادہ مشکل اس کے مصاحبوں کو درپیش تھی۔ ان کی دلچسپی بٹی ہوئی تھی۔ وہ پوری کوشش کر رہے تھے کہ خصوصی مہمان کے چہرے اور اسٹیج پر یکساں توجہ دے سکیں تا کہ اپنے چہروں پر وہاں وہاں خوشی اور پسندیدگی کے آثار پیدا کریں جہاں جہاں خصوصی مہمان کے چہرے پر پسندیدگی کو دیکھیں۔ یہی وجہ تھی کہ ان کے چہرے ایک بار بھی نادیہ کی سمت نہیں گھومے تھے۔

تماشے نے اچانک جو موڑ لیا تھا اس کی کسی کو تو کیا خود نادیہ کو بھی توقع نہیں تھی۔ اسے اچھی طرح علم تھا کہ اسٹیج پر موجود مرکزی کردار ادا کرنے والا اپنی تلوار سے مفروض حریف کو زخمی کرے گا اور جب تک حریف زخمی ہو کر اسٹیج سے نہیں اترتا، تب تک اسے اسٹیج پر نہیں جانا۔ اس کی غیر معمولی حیرت کی وجہ یہ بھی تھی کہ تماشے میں یہ منظر کہاں سے آ گیا کہ حریف کی تلوار مرکزی کردار ادا کرنے والے کے سینے میں آر پار ہو جائے۔

سب کو پتا تھا کہ کھیل صرف ایک ایسی محبت کے بارے میں ہے جو کبھی کی ہی نہیں گئی۔ اسی لیے مصنف نے کہانی میں ایسے ممکنہ حالات اور واقعات کو جوڑا تھا جو حقیقی انسانی زندگیوں میں کی جانے والی محبتوں کے درمیان چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں پیش آ تے ہیں یا فرض کیے جا سکتے ہیں۔

شاید مصنف نے کوشش کی تھی کہ وہ کھیل کے ذریعے محبت کا ایک ایسا احساس پیدا کرے جس کے ذریعے تماشائیوں کے دلوں میں محبت اور محبت سے محبت کا احترام پیدا کیا جا سکے تا کہ محبت کے بارے میں لوگوں کا وہ رویہ کچھ تبدیل ہو جائے جو عام طور پر دیکھنے میں آتا ہے۔

فی الوقت مصنف کی کم از کم بیس سے زائد ان محبتوں کے بارے میں سینہ بہ سینہ گردش کرنے والی کہانیوں کا ذکر نہیں کیا جائے گا جو وہ لڑکپن سے ہی کرتا آ رہا ہے۔ نا پسندیدگی اور شاید حسد کے باوجود مرد اور عورتیں ان کہانیوں کو بے تکلف محفلوں میں نہ صرف دہراتے بلکہ ان میں کمی بیشی بھی کرتے رہتے تھے۔ ان کہانیوں میں ہر عمر اور ہر رشتے کی ان عورتوں کا ذکر ہوتا جنھوں نے مصنف سے تعلق رکھا یا جن سے خود مصنف نے تعلق بنایا۔

لیکن اس کھیل میں مصنف نے ایسی کسی محبت یا تعلق کو استعمال نہیں کیا جسے لوگ لذت کوشی یا جنسی بے راہ روی قرار دے سکتے ہوں۔ مصنف تو وہ تشدد بھی نہیں دکھانا چاہتا تھا جو ایسے تماشوں میں ڈرامائی کیفیت پیدا کرنے کے لیے لازمی خیال کیا جاتا ہے۔

مرکزی کرداروں کو لکڑی کی وہ تلواریں بھی نہیں دی گئی تھیں جو ایسے تماشوں میں بالعموم استعمال کی جاتی ہیں لیکن اس کے باوجود تماشے میں ہیرو بننے والا اداکار حریف کی تلوارسے یوں زخمی ہو چکا تھا کہ تماشائیوں میں سے کوئی بھی اپنے سامنے ہونے والے کھیل کو فرضی نہیں سمجھ سکتا تھا۔

فرضی حریف کے کردار میں چھپا ہوا اداکار اپنے کردار کو یکسر بھول کر سکتے کے عالم میں ساتھی اداکار کو دیکھ رہا تھا۔ اگر وہ سب جو اسٹیج پر ہوا تھا نہ ہوا ہوتا تو اس حالت میں دیکھنے والے ضرور اسے ایک جیتے جاگتے انسان کی جگہ ایک ایسا مجسمہ ہی سمجھتے جسے ساحل پر ریت سے بنایا گیا ہو اور بے خیالی میں لگنے والا معمولی سا دھکا بھی اسے ایک ڈھیر میں تبدیل کر سکتا ہو۔

یہ تو آپ جان ہی چکے ہوں گے کہ یہ خیالی تماشا نہ تو کسی بڑے اور روایتی ہال میں ہو رہا ہے اور نہ ہی اسے دیکھنے والے زیادہ ہیں۔ اصل میں تماشا دیکھنے والے تمام لوگ خود بھی تماشے کا حصہ تھے اور اپنے اپنے کردار ادا کر رہے تھے۔ جیسے خصوصی مہمان اور اس کے ساتھی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ نادیہ بھی تماشائیوں ہی میں بیٹھی تھی۔ جیسے ہی جاری منظر میں فرضی حریف کا کردار ختم ہوتا وہ اپنی نشست سے اٹھ کر اسٹیج پر چلی جاتی اور فرضی حریف اس کی چھوڑی ہوئی نشست پر آ بیٹھتا۔

مرکزی کردار کے زخمی ہونے کے باعث، فی الوقت مرکزی کردار کے بارے میں یقین سے یہی کہا جا سکتا ہے ، تماشے میں اور بھی کئی کردار ہیں لیکن ان کا ذکر اتنا اضافی ہو چکا ہے اور ان کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں رہی۔ البتہ یہ بتانا ضروری ہے کہ تماشا اسی منظر پر ختم ہو گیا۔

بعد کے بیانات میں تماشائیوں کا کردار ادا کرنے والوں میں سے کچھ کو یہ کہتے ہوئے بھی سنا گیا کہ مرکزی کردار ادا کرنے والا تو تماشے سے ایک رات پہلے ہی خود کشی کر چکا تھا۔ وہ اْس چھوٹے سے شہر کے جنوبی سرے پر واقع واحد سرائے میں رہتا تھا۔ یہ سرائے بھی عجیب ہے۔ کہا جاتا کہ کسی نے کبھی اس سرائے کو مالک اور چلانے والوں کو نہیں دیکھا تھا لیکن لوگ آتے تھے، رہتے تھے اور چلے جاتے تھے۔ کسی تعریف اور شکایت کے بغیر۔ کوئی بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا تھا کہ تماشے میں مرکزی کردار ادا کرنے والا کون تھا لیکن کسی نے بھی یہ سوال نہیں اٹھایا۔

شاید بات کرنے والوں کی توجہ خود کشی پر زیادہ تھی۔ کہا جاتا ہے کہ خود کشی کے لیے وہی طریقے اختیار کیا گیا تھا جو سمورائی یا جاپانی سورماؤں سے منسوب کیا جاتا ہے۔ زمین میں نصف گڑی ہوئی تلوار اس کے سینے میں دل کے نیچے پسلیوں کے عین درمیان جگہ بناتی ہوئی داخل ہوئی اور پار نکل گئی۔ اس کے جسم کو دیکھ کر کوئی بھی نہیں کہہ سکتا تھا کہ اس نے خود کو تلوار پر سے ہٹانے کی کوئی کوشش کی ہو گی۔

تمام تر تحقیق کے باوجود یہ علم نہیں ہو سکا کہ اس نے خود کشی کیوں کی، خودکشی کا یہ انداز کہاں سے سیکھا، مہارت کیسے حاصل کی اور وہ تلوار کہاں سے حاصل کی جو کئی سو سال پہلے علاقے پر حکومت کرنے والے بادشاہ کے اس بیٹے کی تھی جس نے اس لیے خود کشی کر لی تھی کہ اس کے اپنے محل کی ایک کنیز نے اس کی محبت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

اس کہانی کو سنانے والے نے آخر میں کہا کہ شہزادے کی محبت کو ٹھکرانے والی کنیز کا نام بھی نادیہ تھا اور وہ تماشے میں مذکور نادیہ کی ہم جسم اور ہم شکل تھی۔ جب کہ حریف بڑی حد تک خود کشی کرنے والے شہزادے جیسا لگتا تھا۔

کہانی سنانے والے نے یہ نہیں بتایا تھا کہ کھیل میں نادیہ کس سے محبت کرتی ہے۔ کرتی بھی ہے یا نہیں۔

اس نے کہانی ختم کر کے ایک لمبا سانس لیا اور کہا کہ اگر ایک اور موقعہ ملا تو نادیہ کی محبت اس طرح بھی حاصل نہیں کروں گا، لیکن اس کے یہ الفاظ کہانی ختم ہونے پر اٹھ کر جانے والوں میں سے کسی نے بھی نہیں سنے۔

٭٭٭

 

                   درخت کی موت

دور دور تک پھیلے چھوٹے چھوٹے ٹیلوں اور کہیں کہیں خود رو گھاس کے ٹکڑوں والے میدان میں مدت سے اکیلا کھڑا درخت، ایک آبادی کے بسنے یا شاید کوئی کارخانہ لگائے جانے کے بارے میں سنتا ہے اور خوش ہوتا ہے۔

اس ویرانے میں جہاں اس نے مدت سے کسی کو آتے جاتے نہیں دیکھا ہے، لوگ ہوں گے۔ کم عمر اور سن رسیدہ، بچیاں اور بچے، لڑکے اور لڑکیاں اور عورتیں اور مرد۔ درخت سوچتا ہے۔

تقریبات ہوں گی اور رنگ رلیاں۔ ان میں سے بہت سوں کو عشق اور محبتیں ہوں گی۔ وہ اس کے نیچے آ کر بیٹھا کریں گے، قربتیں کریں گے، ایک دوسرے سے وعدے کریں گے اور اسے اپنا گواہ بنائیں گے۔ وہ خود کو یقین دلاتا ہے کہ اسے ہی گواہ کیا جائے گا، ہواؤں کو نہیں، وہ تو ایسی راہ رو ہوتی ہیں جنھیں لوٹنا نہیں ہوتا۔ بادلوں کو بھی نہیں، جن کے آنے اور جانے کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا، رات اور دن کو بھی نہیں اور وقت کو نہیں، چاند اور سورج کو بھی نہیں، صرف اسے، کیونکہ وہ ہے اور اب تک رہا ہے۔ آندھی ، چلچلاتی دھوپ اور کبھی کبھی برسنے والے ان بارشوں میں بھی جو اس کے ارد گرد اتنا پانی چھوڑ جاتی ہیں جو ہفتوں کھڑا رہتا ہے۔

وہ انتہائی خوش ہوا کہ اچھے دن آنے والے ہیں۔ اس کے شاخیں جھونے لگیں اور پتے تالیاں بجانے لگے اگر زمین نے اس کی جڑوں کو انتہائی مضبوطی سے جکڑ نہ رکھا ہوتا اور اس کے آس پاس کچھ تماشائی بھی جمع ہوتے تو یقینًا اسے پورے میدان میں رقص کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا۔

خوشی کے کچھ اور لمحوں کے بعد اسے خیال آیا اگر کچھ بے وفا اور دھوکے باز بھی ملاقاتوں اور قربتوں کے لیے اس کے تلے آنے لگے تو؟ تو بھی کیا ہے۔ جو چیز انھیں ایک دوسرے کے قریب لا رہی ہو گی وہ بھی تو یقیناً محبت ہو گی، محبت نہیں تو محبت ہی کی کوئی شکل۔ محبت اور محبت کے دھوکے کے بارے میں اتنی آسانی سے فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس نے ایسے اطمینان کا سانس لیا جیسے بہت بڑی آزمائش سے بچ گیا ہو۔ پھر بھی اسے خیال آیا، ضرور میں کچھ روایتی قسم کا ہوں لیکن کیا کروں اب میں خود کو تبدیل بھی تو نہیں کر سکتا۔ اس نے خود سے کہا۔ وہ قدرے ملول ضرور تھا لیکن اس کا اطمینان اس کے ملال سے زیادہ تھا۔

کچھ ہی دیر میں اسے ایک اور خیال آیا۔ اگر اس کے نیچے آ کر سازش کی گئی۔ اسے ایاگو فطرت دماغوں کا خیال آیا، کمزور اوتھیلو کا اضطراب اور دیوانگی اس آنکھوں میں گھوم گئے، اسے مرتی ہوئی ڈسڈیمونا کی حیرانی اور بے یقینی بھری آنکھیں یہ سوال کرتی دکھائی دیں: کیوں، اوتھیلو! میرے محبوب تم میرے ساتھ یہ سلوک کیوں کر رہے ہو؟

درخت نے خود کو لرزتے ہوئے محسوس کیا، اس نے خود کو یہ کہتے سنا: اوہ شکسپیئر! کیسے تم نے تین ایسے لوگوں کو انتہائی ظالمانہ طریقے سے مار دیا، اور صرف اس لیے کہ تم لوگوں پر یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ خدا کے بعد انسانوں کی فطرت کو تم سے زیادہ کوئی نہیں سمجھتا اور تمھیں ان کی تقدیریں طے کرنے کا حق ہے۔

درخت آزردہ ہو گیا۔ اس کی ساری خوشی اور اطمینان جاتا رہا۔ وہ اندر ہی اندر گھلنے لگا۔ اس کے پتے پہلے زرد پڑے اور پھر شاخوں سے جھڑنے لگے۔ اس کی چھال کا رنگ تبدیل ہونے لگا۔ اس کی جڑیں خشک ہو کر سمٹنے لگیں، جڑوں پر زمین کی گرفت کمزور پڑ گئی۔ اچانک وہ چکرایا اور زمین پر آ رہا۔ ہمیشہ کے لیے آنکھیں بند کرنے سے پہلے اس نے میدان میں چاروں طرف دیکھا۔ ایک جانب سے اسے بلڈوزر اور کچھ لوگ آتے دکھائی دیے، لیکن ابھی وہ صرف سائے سے تھے ، دھندلے اور غیر واضح ، مزید دھندلے اور مزید غیر واضح ہوتے ہوئے۔

٭٭٭

 

نظمیں

                   –اس گھر میں

اس گھر میں

جہاں سے ہم

روزانہ صبح سویرے جاتے ہیں

اور لوٹنے کی کرتے ہیں

شام ہوتے ہی

ہر چھٹی کے دن

صاف کرتے ہیں

دروازے دیواریں اور کھڑکیاں

شیشوں پر جمنے والی گرد

اور نمی

ذرا ذرا سے داغ اور دھبے

گرد اور جالے

پودوں کے نیچے خودرو پودے

سمیٹتے ہیں

دروازے پر درخت سے گرتے سبز سرخ بادام

اور زرد پتے

یہ گھر

جس کے فرش پر

ہم بڑے دھیان سے چلتے ہیں

جوتے اتار دیتے ہیں

اندر آنے سے پہلے

اگر کوئی آ جاتا ہے

جوتوں کے ساتھ

تو مسکراتے ہیں

اور ہاتھ ملتے جاتے ہیں

ہماری آنکھیں جمی رہتی ہیں لیکن

ان جوتوں پر

اِسی گھر کی دیواروں پر ٹنگی ہیں

وہ تصویریں

جن میں ہم ہیں،

ہمارے بچے اور ان کی بیویاں

ان دیواروں پر ٹنگا ہے

وہ وقت

جسے ہم روک لینا چاہتے ہیں

کل ان دیواروں پر

کچھ اور تصویریں تھیں

ان سے پہلے بھی ہوں گی

کچھ اور

کل ان دیواروں پر ہوں گی

کچھ اور تصویریں

اور ان کے بعد بھی ہوں گی

کچھ اور

٭٭٭

 

                   آدمی میں روتی تصویر

اس شہر میں ایک گلی ہے

سرخ اینٹوں والی

اس میں ایک مسجد ہے

جس میں جن پانی بھرتے ہیں

اِس گلی میں آٹا پیسنے کی ایک چکی ہے

جس میں اب بھوت رہتے ہیں

اِس گلی میں ایک گھر ہے

جس کی ڈیوڑھی کے ساتھ ایک بیٹھک ہے

جس میں ڈیڑھ صدی سے ٹنگی ہے ایک تصویر

جس آدمی نے یہ گھر بنایا تھا

وہ اب تصویر سے نکل کر جا چکا ہے

ہٹا دیا ہے فریم کو بھی

نئے آنے والوں نے

بالکل، ایک پل کو بھی نہیں سوچا

دیوار پر لگے

فریم کے خالی پن پر

ڈیوڑھی سے آگے

ایک آنگن ہے

آنگن میں ایک نلکا ہے

اور اس کے برابر سیڑھیاں

کئی کمرے ہیں

جن کے پیچھے بھی ہیں

کئی اور کمرے

ان کمروں

وہ لوگ رہتے ہیں

جو اب

کہیں بھی نہیں

ایک آدمی ہے

جو

ان میں سے

کسی کمرے میں پیدا نہیں ہوا

لیکن ان میں

پلا بڑھا ہے کچھ عرصے

اِسی گلی میں کھیلا ہے

کچھ عرصے

جس میں سامنے والوں کا کتا

ناراض ہو کاٹ بھی لیتا ہے

اس کے دوست ہیں

چکی کے بھوت

اور مسجد کے جن

وہ کہیں بھی رہے

اس گھر میں آ سکتا ہے

گھوم پھر سکتا ہے

اس گلی میں

مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھ سکتا ہے

باتیں کر سکتا ہے

چکی کے دوستوں سے

اس گلی کے لوگ

اپنے بچوں کو بتاتے ہیں

ایک جن ہے

جو مسجد کی سیڑھیوں پر آ کر بیٹھتا ہے

مدت سے بند ہے چکی

لیکن آنے جانے کو

آج بھی سنائی دیتی ہیں

کبھی کبھی آوازیں

باتیں کرنے کی

ہنسنے اور کھیلنے کی

بیٹھک کی تصویر میں بیٹھا آدمی

جو کبھی رویا نہیں تھا

کبھی کبھی آتا ہے

اور فریم کو دیوار پر نہ پاکر

رونے لگتا ہے، کبھی کبھی

گھر کے نئے باسیوں نے

بند کر دیا ہے بیٹھک کو

سب کا خیال ہے

جن آ گئے ہیں

سایا ہے بیٹھک پر

٭٭٭

 

                   بعد از مرگ

میں مر چکا ہوں

اور مجھے پتہ بھی نہیں

اب کیا کرو گے تم؟

نہلاؤ گے مجھے

اور پوچھو گے بھی نہیں

میں نہانا چاہتا ہوں یا نہیں

یہ بھی نہیں دیکھو گے

پانی گرم ہے یا نہیں

بھول جاؤ گے کہ اچھا نہیں لگتا

مجھے ٹھنڈا پانی

نہانے کے لیے نہ پینے کے لیے

پھر لباس تبدیل کرو گے میرا

اور یہ بھی نہیں پوچھو گے

کیا پہننا چاہتا ہوں

کون سا رنگ، پتلون قمیض کیا کچھ اور

مجھ سے پوچھے بغیر

تم وہ سب کچھ کرو گے

جو میں نے اپنے ساتھ کبھی نہیں ہونے دیا

ایک دو بار نہیں سینکڑوں بار

میں نے خود کو انتہائی بے بس محسوس کیا ہے

لعنت ہو مجھ پر

موت ہے بے بسی کی انتہا

یہ بات مجھ پر کب کھلی ہے

میرے جسم کو جلد از جلد

مٹی کے سپرد کرنے کے بعد

تم لوٹو گے

یا شاید وہیں سے چلے جاؤ گے

شاید کچھ دیر باتیں کرو گے

میرے بارے میں کم

کاروبار کے بارے میں

کسی میٹنگ کے بارے میں

یا اسپورٹس کے بارے میں

یا کسی اداکارہ کے نئے اسکینڈل کے بارے میں

شاید کچھ کھاؤ گے یا شاید کچھ پیو گے

اور ایک ایک کر کے رخصت ہو جاؤ گے

دروازے پر رکے بغیر

یہ دیکھے بغیر

کہ میں تمہیں رخصت کرنے آ رہا ہوں

شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں میں تمھارا

تمام مصروفیت کے باوجود

اتنا وقت نکالنے پر

٭٭٭

 

                   اردو

میرا پاسپورٹ مت دیکھو

میرا شناختی کارڈ بھی چیک مت کرو

میرا برتھ سرٹیفکیٹ بھی

تمھاری کوئی مدد نہیں کرے گا

لیکن، شاید فارم ’بی‘

تمھیں بتا سکتا ہے

میں نے کب اختیار کی تھی

خود ساختہ جلاوطنی

اور اب تو اردو ہی ہے

میرا ملک

میری زبان اور شہریت

اسی میں دفن کیا جائے گا مجھے

اگر تم بھی پسند کرو تو دفن ہو جاؤ

میرے ساتھ

٭٭٭

 

ترجمے

                   جلا وطنی کے صحرا میں

    نجوان درویش

    نجوان درویش ، ۱۹۷۸ میں پیدا ہوئے۔ ان کی شاعری دس سے زیادہ زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہے۔ وہ عربی کے ان ادیبوں میں سر فہرست شمار کیے جاتے ہیں جن کی عمرچالیس سے اوپر نہیں ہوئی۔ ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ ۲۰۰۰ میں شائع ہوا۔ وہ صرف شاعری اور ادب ہی میں نہیں تھیٹر، بصری فنون اور ثقافتی صحافت میں بھی سرگرم ہیں۔ وہ یروشلم (فلسطین) میں رہتے ہیں۔

انگریزی متن:کریم جیمز

ابو زید

مترجم:انور سن رائے

بہار کے بعد بہار،

جلاوطنی کے صحرا میں،

کیا کر رہے ہیں ہم اپنی محبت کے ساتھ،

جب ہماری آنکھیں پالے اور خاک سے

بھری ہیں؟

ہمارا فلسطین، ہماری ارض سبز

اس کے پھول، جیسے زنانہ گاؤن پر نازک ہاتھوں سے کی گئی کڑھائی

مارچ اس کی پہاڑیوں کو سجاتا ہے

ہیروں جیسے سوسن اور نرگسوں سے

اپریل دلہنوں کی سی بہار لیے

پھٹا پڑ رہا ہے

اور مئی تو ہے ہمارا وہ زنگ آلود نغمہ

جسے ہم دوپہروں کے دوران

نیلگوں سایوں میں گاتے ہیں

اپنی وادی میں زیتون کے درختوں کے درمیان

اور جب فصلیں تیار ہو جاتی ہیں

ہم جولائی کے وعدوں اور کٹائی پر

پر مسرت رقص کا انتظار کرتے ہیں

اے زمین ہمارا بچپن کہاں چلا گیا

نارنگیوں کے جھنڈوں کے سائے میں،

خوابوں کی طرح

وادی میں باداموں کے درختوں کے درمیان

ہمیں یاد کر

یاد کر ہمیں

اب صحرا کے کانٹوں درمیان بھٹکتے ہوئے

یاد کر

ہمیں بھٹکتے ہوئے، لرزتے پہاڑوں کے درمیان

یاد کر، یاد کر ہمیں

صحراؤں اور سمندروں سے ادھر شہروں کے

شور و غل میں

یاد کرنا ہمیں اور ہماری

خاک آلود آنکھوں کو

جو اس ختم نہ ہونے والے بھٹکنے کے درمیان

کبھی صاف نہیں ہوئیں

انھوں نے ان تمام پہاڑیوں کے پھولوں کو

روند ڈالا

جو ہمارے گرد حصار کھینچتی تھیں

انھوں نے ان تمام چھتوں کو ادھیڑ ڈالا

جو ہمارے سروں پر تھیں

انھوں نے ہماری تمام باقیات کو بکھیر دیا

اور ہمارے سامنے صحرا کو پھیلا دیا

ان وادیوں کے ساتھ جو بھوک سے

بلک رہی تھیں

سرخ کانٹوں سے لہو لہان نیلگوں سایوں کی

خمیدہ لاشوں کو

انھوں نے شکروں اور کوؤں کا شکار

ہونے کے لیے چھوڑ دیا

کیا یہی ہیں وہ پہاڑیاں جن سے فرشتے

گڈریوں کے لیے

زمین پر امن اور انسانوں کے درمیان

بھائی چارے کے نغمات لیے اترتے تھے؟

صرف موت ہی ہے

جو ہنستی ہے اور ہنستی چلی جاتی ہے

جب

حیوانوں کی آنتوں کے درمیان

انسانوں کی پسلیاں دیکھتی ہے

اور جب گولیاں قہقہے لگاتی ہیں

تو مسرت سے دیوانہ وار ناچنے لگتی ہے

روتی ہوئی عورتوں کے سروں پر

ہماری زمین تو ایک زمرد ہے

لیکن جلا وطنی کے صحرا میں

ہمارے چہروں پر صرف ریت سرسراتی ہے

تو پھر، ہم اپنی محبت کے ساتھ کیا کر رہے ہیں؟

جب ہماری آنکھیں اور ہمارے دہانے

پالے اور خاک سے بھرے ہیں؟

٭٭٭

 

محفوظ

انگریزی متن:کریم جیمز

ابو زید

مترجم:انور سن رائے

ایک بار میں نے

امید کی ایک خالی نشست پر بیٹھنے کی کوشش کی

لیکن لفظ ’محفوظ‘

وہاں ایک بھیڑیے کی طرح منہ پھاڑے

پہلے سے بیٹھا تھا

(میں وہاں نہیں بیٹھا، کوئی بھی وہاں نہیں بیٹھا)

امید کی نشستیں ہمیشہ محفوظ ہوتی ہیں

٭٭٭

 

                   جنگ کے دوران

انگریزی متن:میرلین ہیکر اور انتونی جوکی

مترجم:انور سن رائے

جب بھی جنگ ہوتی ہے

میں دیہاتوں کا ساتھ دیتا ہوں اور

مسجدوں کا

اس جنگ میں

میں طائر کے

شیعہ خاندان کے ساتھ ہوں

ماؤں کی طرف ہوں

والدین کے والدین کی طرف

منی وین کے آٹھ بچوں کی طرف

اور سفید ریشمی اسکارف کی طرف

٭٭٭

 

                   شُلمت

انگریزی متن: اینڈریو نینسی

مترجم:انور سن رائے

میں نے شْلمت کے انتظار میں

پڑے رہنا پسند کیا ہو گا

وادیوں کے سوسنوں اور پہاڑیوں کی نرگسوں کے ساتھ

اور دوسرے ان تمام پھولوں کے ساتھ بھی جن کے میں نام تک نہیں جانتا …

اپنی ماؤں کے بیٹوں کا انتباہ یا صیہون کی بیٹیوں کا الزام

خاطر میں لائے بغیر۔ لیکن منصوبے

مقدس کتاب سے نکل آئے

ساحل پر خاندان کو توڑنے کے لیے…

کہاں آرام کر رہے تھے تم دوپہر میں؟

کس آبادی میں

سو رہے تھے، شْلمت کے قاتلو؟

*شُلمت(عبرانی): امن

٭٭٭

 

                   صبرا اوشاتیلا کو جاتی ہولناک

انگریزی متن:میرلین ہیکر اور  انتونی جوکی

مترجم:انور سن رائے

میں نے دیکھا وہ چچیوں، خالاؤں اور

ممانیوں کو پلاسٹک کے تھیلوں میں بھر رہے تھے

ان کا گرم خون تھیلوں کے کونوں میں

اکٹھا ہو رہا تھا

(لیکن میری تو کوئی چچی، خالہ اور

ممانی ہے ہی نہیں)

میں جانتا ہوں کے انھوں نے نتاشا کو مار ڈالا ہے

میری تین سالہ بیٹی کو

(لیکن میری تو کوئی بیٹی ہی نہیں ہے)

مجھے بتایا گیا ہے

کہ انھوں نے میری بیوی کا ریپ کیا

پھر اس کے جسم کو سیڑھیوں سے گھسیٹتے ہوئے لائے

اور نیچے گلی میں پھینک کے چلے گئے

(لیکن میری تو شادی ہی نہیں ہوئی)

یہ عینک یقیناً میری ہی ہے

جسے وہ اپنے بوٹوں تلے کچلتے ہوئے گذرے ہیں

(لیکن میں تو عینک استعمال ہی نہیں کرتا)

………

میں والدین کے گھر میں سویا،

سفر کا خواب دیکھ رہا تھا، جب میں جاگا

تو دیکھا

کہ میرے بھائی کی لاش

کنیس، القیام کی چھت سے سے لٹکی ہے

از راہ ترحم خدا نے کہا: اس کی اذیت میری

اذیت ہے

میں نے لٹکے ہوئے آدمی کے فخر کو جمع کیا

اور کہا: یہ اذیت ہماری ہے

………

درد ہر چیز کو روشن کر دیتا ہے اور میں اس

درد سے محبت کرنے آیا ہوں

اپنے ہولناک خوابوں سے کہیں زیادہ محبت

………

میں شمال کی سمت نہیں بھاگوں گا

خداوندا

مجھے ان میں شمار مت کر جو پناہ کی تلاش میں ہیں

………

ہم اس رپورٹ کو بعد میں بھی جاری رکھیں گے

میں اب کچھ دیر سونا چاہتا ہوں

میں نہیں چاہتا کہ صبرا اور شاتیلا کو جاتی

ہولناک خوابوں کی بس چھوٹ جائے

٭٭٭

 

                   افواہیں

انگریزی متن: اینڈریو نینسی

مترجم:انور سن رائے

میں اپنے بارے میں تمام افواہوں کے لیے تیار ہوں اور ان کی تصدیق کرنے کے لیے بھی۔میں ان افواہوں کی تصدیق کروں گا کہ اس صبح اور اس رات، اس یہودی عورت کے لیے میں دل کی گہرائیوں سے رو رہا تھا جو اپنے خاندان کے ساتھ جرمنی سے ترک وطن کر کے آئی اور جس نے میرے خاندان کی زمین چرائی اورآسمان چرایا۔

٭٭٭

                   بغدادی کتب فروشوں ۔۔۔

    مجید نفیسی

    مجید نفیسی ۱۹۵۲ میں ایرانی شہر اصفہان میں پیدا ہوئے۔ وہ ایران میں شاہ کی حکومت کے خلاف سرگرم نوجوانوں میں شامل تھے۔۱۹۷۹ کے بعد جب نئی حکومت نے اپنے مخالفوں کو کچلنا شروع کیا تو ان کی اہلیہ اور بھائی بھی ان لوگوں میں شامل تھے جنھیں پھانسیاں دی گئیں۔ ۱۹۸۳میں ایران سے فرار ہو کر امریکہ پہنچنے میں کامیاب ہو گئے اور اب لاس اینجلس میں بیٹے آزاد کے ساتھ رہتے ہیں۔ امریکہ پہنچنے کے بعد ان کی شاعری کے چھ مجموعے فارسی اور انگریزی شائع ہوئے ہیں۔ وہ کیلیفورنیا یونیورسٹی سے ایرانی شاعر نیما یوشیج پر ڈاکٹریٹ بھی کر چکے ہیں اور ایرانی جلاوطن ادیبوں کی جانب سے نکالے جانے والے ایک جریدے ’دفترہائے قانون‘ کے شریک مدیر بھی ہیں۔

مترجم:انور سن رائے

میں نے متنبی کو ایران سے لوٹتے دیکھا

اس نے دریائے کور کے کنارے دجلہ کی

آواز سنی

جو اسے بغداد کی طرف بلا رہی تھی

راستے میں اس نے اپنی تلوار گناوہ کے

قرمطی باغیوں کو دے دی

اسے پتا تھا اب وہ اس کی دوست نہیں ہو سکتی

اس نے خود سے کہا:

’’میں، متنبی، شاعر، نبی، شمشیر زن

قرمطی کے باغیوں کے ساتھ

کوفہ سے صحرا کی طرف جا رہا ہوں

تا کہ برابری کا راز پا سکوں

میں حمدان کے سیف الدولہ کے ساتھ حلب گیا

صلیبی جنگوں میں فرنگیوں کے مقابل

شاہ عضدالدولہ دیلمی کے ساتھ فارس گیا

عربی شاعری کے بیج بونے

اب عراق لوٹنا چاہتا ہوں

اور ماہی گیروں کو دیکھنا چاہتا ہوں

بغداد کے پل سے

جب ان کی کشتیاں دجلہ کی لہروں پر

سبک خرام ہوں

میں اتھلے پانی میں

ماندائی باطنیوں کو سفید تولیوں میں

غسل کرتے ہوئے اس وقت دیکھنا چاہتا ہوں

جب ان کی نظریں شمالی ستارے پر ہوں

پینا چاہتا ہوں ابونواس بازار کے نانبائیوں سے

دال کا سوپ

اور مزگوف مچھلی کھانا چاہتا ہوں

جسے انار کی شاخ میں پرو کر بھونا جاتا ہے

واہ کیا پر لطف ہوتا ہے

دریا کے کنارے نرسلوں میں

اِدھر سے اُدھر ٹہلنا

درختوں کے تنوں کی اوٹ سے

نوجوان جوڑوں کو ہم بوسہ ہوتے دیکھنا

کیا خوب ہوتا ہے بوڑھے چنگ نواز

کے پاس بیٹھ کر

پہاڑوں سے دریائے دجلہ کے اترنے اور

خلیج فارس میں معدوم ہونے کی کہانی سننا

اور کیا خوب ہوتا ہے اذان سے قبل

ترک حمام جانا، خود کو ناز بردار انگلیوں کے

سپرد کرنا

صابن کے جھاگ اور بھاپ سے گذر کر

خشک تولیے لینے سے قبل

گلاس بھر یخ پانی طلب کرنا

اور پھر خوش خوش دار الحکمہ جا کر

نوجوانوں کی آنکھوں میں

مسرت کی خیرگی دیکھنا

متنبی خود سے کہتا ہے:

’’میں بھی پھر سے بچہ بنتا جا رہا ہوں

وجد میں آ جاتا ہوں لفظوں ہی سے‘‘

متنبی بغداد کے پل سے نیچے دیکھتا ہے

اسے خون کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا

خون جو مسلسل بہ رہا ہے دجلہ میں

٭٭٭

                   میری شاعری میں۔۔۔

مترجم:انور سن رائے

[نادیہ انجمن کی یاد میں]

میری روٹی دری شاعری کی مانند ہے

کہ صبح سویرے اس کے لیے آگ جلاتا ہوں

تو اس کا ابتدائیہ مجھے اپنے خوابوں سے ملتا ہے

پھر اسے نیند و بیداری کے درمیان گوندھتا ہوں

یہ ارض توس کیا اس گندم سے ہے

جس کا بیج فردوسی نے بویا تھا

اس کی خشخاش درہ یمگان کی وہ خشخاش ہے

جس کی جڑیں ناصر خسرو نے لگائی تھیں

اور جس ریت پر اسے پکایا جاتا ہے

وہ دریائے امو کے کناروں کی وہ ریت ہے

جسے رودکی ریشم سے بھی نرم کہتا تھا

اور میرا ایندھن بلخ کے ان جنگلوں کا ہے

جہاں رومی نے اپنی محبت کی آگ کو روشن رکھا

لیکن جب میں اسے تندور سے نکالتا ہوں

تو وہ سنگک نان کی سی لگتی ہے

ایسی عورت سی جس نے چادر اوڑھ رکھی ہو

اور بے صدا فریاد کر رہی ہو:

’’یہ میں ہوں، شاعر گل داؤدی

جسے اس کے سابق شوہر نے ہرات میں

تاراج کر ڈالا‘‘

میری روٹی دری شاعری کی مانند ہے

نادیہ کی خوشبو سے مہکی ہوئی

اگر تمھیں بھی چاہیے یہ روٹی گرما گرم

تو اسے اپنی آگ میں ڈال دو

٭٭٭

ماخذ:

http://esbaatpublications.com/esbaatmag/2013/03/

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید