فہرست مضامین
- دیوانِ منصور آفاق
- ردیف ن
- چل پڑے دار و رسن کو ہستے ہستے سینکڑوں
- روشنی کے ، رنگ و بو کے آستانے سینکڑوں
- میرے ساتھی میرے پیارے میرے اپنے سینکڑوں
- پل صراطِ آسماں پر چل رہے تھے سینکڑوں
- مرے نہیں تو کسی کے ملال گھٹ جائیں
- مسلسل چاک کے محور پہ میں ہوں
- ڈال دی اس نے محبت کی نئی سم مجھ میں
- جمع ہو جاتے ہیں سورج کا جہاں سنتے ہیں
- رات کا شور ، اندھیروں کی زباں سنتے ہیں
- کسی کے جسم سے مل کر کبھی بہے نہ کہیں
- پھر وہی بھول کر رہا ہوں میں
- ہم چوک چوک سرخ اشاروں میں قید ہیں
- آخرِ شب کی بے کلی اور میں
- مائی بھاگی کی گائیکی اور میں
- آسماں کی برابری اور میں
- ریگِ صحرا کی سنسنی اور میں
- اک لباسِ نمائشی اور میں
- تاریخ ساز ’’لوٹ‘‘ کوئی دیکھتا نہیں
- وہ آنجہانی پاؤں وہ مرحوم ایڑیاں
- اِدھر نہ آئیں ہواؤں سے کہہ رہا ہوں میں
- بارش سے سائیکی کے سخن دھو رہا ہوں میں
- سرکا دیا نقاب کو کھڑکی نے خواب میں
- جسم پر نقش گئے وقت کے آئے ہوئے ہیں
- ترے دن جو مری دہلیز پہ آنے لگ جائیں
- کھلا گیا کوئی آسیب زار کمرے میں
- کون ٹینس کھیلتی جاتی تھی وجد و حال میں
- باقی سب چیزیں تو رکھی ہیں اٹیچی کیس میں
- بلا کا ضبط تھا دریا نے کھو دیا مجھ میں
- من و سلویٰ لیے ا فلاک سے بم گرتے ہیں
- اور جینے کا سبب کوئی نہیں
- تیرا چہرہ کیسا ہے میرے دھیان کیسے ہیں
- میں اپنی فیملی کے ساتھ کچھ دن ۔۔۔پُر سکوں کچھ دن
- ایٹمی آگ میں سوختہ خواب تسخیر کے ہیں
- سبز سر چھیڑ خشک سالی میں
- اوڑھ لیتی ہیں ستاروں کا لبادہ آنکھیں
- ترے مکان کا رستہ تو چھوڑ دیتا ہوں
- ریت کے ٹرک میں دو اجنبی مسافر ہیں
- گھلی تھی ایک ویراں چرچ کی گھمبیر تا رب میں
- ذہن میں جمع ڈر کئے جائیں
- ہر ایک طاق پہ رکھے ہوئے چراغ میں ہوں
- دستکوں کی دہشت سے در بدلتے رہتے ہیں
- یونہی ہم بستیوں کو خوبصورت تر بناتے ہیں
- ابھی تو شاخ سے اپنی ، جدا ہوا ہوں میں
- میرا خیال ہے کوئی پردہ اٹھا ہی دوں
- یزید زاد الگ ، کربلا علیحدہ ہیں
- ٹوٹنے والے تارے پر رک جاتے ہیں
- باہر کھڑا ہوں کون و مکاں کے قفس سے میں
- در کوئی جنتِ پندار کا وا کرتا ہوں
- نیند کے پار کہیں ایک جہاں ہے کہ نہیں
- ردیف و
- ردیف ہ
- ردیف ی
- چراغ ہو گیا بدنام کچھ زیادہ ہی
- تم کیسے اجالوں کا گزر بند کرو گی
- اک شخص نے ہونٹوں سے کوئی نظم کہی تھی
- عشق میں مبتلا ہوں ویسے ہی
- آشنا سا لگتا ہے اپنی پُر خواب چاپ سے کوئی
- کلی لبادۂ تزئین سے نکل آئی
- ساری پوشاک خون سے تر تھی ، دور سے بھی دکھائی دیتی تھی
- عمر دھوئیں سے پیلی ہو گی
- اتاریں اب بدن کی شرم تھوڑی سی
- بس کسی اعتراض میں رکھ دی
- بڑی اداس بڑی بے قرار تنہائی
- جو وجہ وصل ہوئی سنگسار تنہائی
- سونی سونی پورٹ کی جھلمل چھوڑ گئی تھی
- ایک ٹوٹی ہوئی مسجد میں رہائش کیا تھی
- پہلو میں آ کہ اپنا ہو عرفان سائیکی
- گرا کے پھول اٹھائے کوئی کڑی تھل کی
- وہ بر گزیدہ خطا رات عاصیوں سے ہوئی
- وہ بوند بوند گلِ ناف کر رہا ہے کوئی
- ہر قدم پر کوئی دیوار کھڑی ہونی تھی
- ردیف ے
- وہ شب و روز خیالوں میں تماشا نہ کرے
- دل کو کچھ دن اور بھی برباد رکھنا چاہئے
- میں خود پہلو میں ہوں اپنے بدن اپنا مکمل ہے
- بھر گئی تھی بیسمنٹ نیکیوں کے شور سے
- گھونٹ بھرا چائے کا تیرے گھر کچھ دیر رکے
- فراق بیچتے کیسے ، پلان کیا کرتے
- یہ سچ کی آگ پرے رکھ مرے خیالوں سے
- فروغِ کُن کو صوتِ صورِاسرافیل ہونا ہے
- رک گئے پیر فرید اور وارث باہو چلتے چلتے
- وہ چوک میں کھڑا ہے پھریرا لئے ہوئے
- ساتھ نہ تھا کوئی اپنے ساتھ سے پہلے
- تیرے کرنوں والے ہٹ میں رات کرنا چاہتی ہے
- کتاب ہاتھ میں ہے اور کج ، کلاہ میں ہے
- کوئی نرم نرم سی آگ رکھ مرے بند بند کے سامنے
- ہجر کو تاپتے تاپتے جسم سڑنے لگا ہے
- آسماں کے حرا پہ اترا ہے
- وہ لپیٹ کر نکلی تولیے میں بال اپنے
- حرکت ہر ایک شے کی معطل دکھائی دے
- زیادہ بے لباسی کے سخن اچھے نہیں ہوتے
- اک سین دیکھتے ہیں زمیں پر پڑے پڑے
- کسی لحاف کے موسم کو اوڑھنا ہے مجھے
- اچھے بزنس مین کی پہچان ہے
- یہ عمر جیل کے اندر گزار سکتے تھے
- کچھ ہڈیاں پڑی ہوئی ، کچھ ڈھیر ماس کے
- ننگ کا بھی لباس اگ آئے
- باہر نکل لباس سے کچھ اور دھوم سے
- حصارِ جبہ و دستار سے نکل آئے
- لکھنے والوں میں محترم کیا ہے
- آنکھوں سے منصور شباہت گر جاتی ہے
- پھر شام دشت روح و بدن تک اتار کے
- پتھر کے رتجگے میری پلکوں میں گاڑ کے
- دیکھتا ہوں خواب میں تیرے محل کے آئینے
- مراسلے دیارِ غیب کے قلی کے دوش پر پڑے رہے
- یہ مارکر سے لکھا گیٹ پر بڑا کر کے
- بزمِ مے نوشاں کے ممبر تو کئی تھے
- یہ چاند یہ چراغ مہیا ہے کس لئے
- شہر کی فتح بابِ شک پر ہے
- آنکھ کے قطرۂ عرق پر ہے
- یہ کیا چراغِ تمنا کی روشنی ہوئی ہے
- عشق میں کوئی کہاں معشوق ہے
- ہجراں کے بے کنار جہنم میں ڈال کے
- تھی کہاں اپنے میانوالی سے بیزاری اسے
- نیم عریاں کر گئی تھی رقص کی مستی اسے
- جاگتے دل کی تڑپ یا شب کی تنہائی اسے
- لے گئی ہے دور اتنا ، ایک ہی غلطی اسے
- تری تعمیر کی بنیاد اپنی بے گھری پر ہے
- مجھے کیا اعتماد الفاظ کی جادوگری پر ہے
- مان لیا وہ بھی میرا یار نہیں ہے
- کون درزوں سے آئے رس رس کے
- میں نے ذرا جو دھوپ سے پردے اٹھا دئیے
- دل میں پڑی کچھ ایسی گرہ بولتے ہوئے
- یہ کائناتِ روح و بدن چھانتے ہوئے
دیوانِ منصور آفاق
منصور آفاق
حصہ سوم
ردیف ن
چل پڑے دار و رسن کو ہستے ہستے سینکڑوں
دل شکستے جاں الستے سبز مستے سینکڑوں
یہ پہنچ جاتے ہیں کیسے خاکِ طیبہ کے غلام
آسمانوں تک بیک براق جستے سینکڑوں
روک سکتی ہیں یہ کانٹے دار باڑیں کیا مجھے
چلنے والے کیلئے ہوتے ہیں رستے سینکڑوں
میرے صحرا تک پہنچ پائی نہ بدلی آنکھ کی
تیرے دریا پر رہے بادل برستے سینکڑوں
دل کی ویرانی میں اڑتا ہے فقط گرد و غبار
کیسے ممکن تھا یہاں بھی لوگ بستے سینکڑوں
میں لگا دوں آئینے گلیوں میں کیسے سینکڑوں
عکس ابھریں گے وہاں ہر ایک شے سے سینکڑوں
کم نہیں دکھ تیرے جانے کا مگر جانِ بہار
زخم میرے دل میں پہلے بھی ہیں ایسے سینکڑوں
اس کی آنکھوں نے کسے لوٹا ہے اس کو کیا خبر
اس کو رستے میں ملیں گے میرے جیسے سینکڑوں
روح کی حیرت زدہ آواز آتی ہی نہیں
وائلن کے تار لرزاں مجھ میں ویسے سینکڑوں
اک اکیلا تشنہ لب ہوں میں کنویں کے آس پاس
پھرتے ہیں سرشار و بے خود تیری مے سے سینکڑوں
٭٭٭
روشنی کے ، رنگ و بو کے آستانے سینکڑوں
میری جاں ترکِ تعلق کے بہانے سینکڑوں
اک ترے بالوں کی وہ دو چار میٹر لمبی لٹ
اک ترے شاداب جوبن کے فسانے سینکڑوں
صبح تازہ دودھ جیسی رات قہوے کی طرح
روٹی جیسے چاند پر گزرے زمانے سینکڑوں
چھین کے گل کر دئیے بامِ خیال و خواب سے
تیری یادوں کے دئیے پاگل ہوا نے سینکڑوں
صرف تیرے قرب کا پل دسترس سے دور ہے
زندگی میں آئے ہیں لمحے سہانے سینکڑوں
٭٭٭
میرے ساتھی میرے پیارے میرے اپنے سینکڑوں
مجھ میں پھر بھی دکھ کسی کے ہیں پنپنے سینکڑوں
اور کیا حاصل ہوا ہے روز و شب کی نیند سے
چند تعبیریں غلط سی اور سپنے سینکڑوں
یہ بھی میرا مسئلہ ہے لوگ اچھے کیوں نہیں
دکھ دئیے ہیں خواب پروردہ تڑپ نے سینکڑوں
گل کئے پھر اپنے آسودہ گھروندوں کے چراغ
دو ممالک کی کسی تازہ جھڑپ نے سینکڑوں
رات کے دل میں لکھیں نظمیں بیاضِ صبح پر
بھاپ اٹھتی چائے کے بس ایک کپ نے سینکڑوں
٭٭٭
پل صراطِ آسماں پر چل رہے تھے سینکڑوں
ایک چہرے کے پسِ منظر میں چہرے سینکڑوں
جمع ہیں نازل شدہ انوار کتنے شیلف میں
معجزے حاصل ہوئے لا حاصلی کے سینکڑوں
چاند پہ ٹھہرو ، کرو اپنے ستارے پر قیام
رات رہنے کیلئے سورج پہ خیمے سینکڑوں
صفر سے پہلا عدد معلوم ہونا ہے ابھی
ہیں ریاضی میں ابھی موجود ہندسے سینکڑوں
میں کہاں لاہور بھر میں ڈھونڈنے جاؤں اسے
لال جیکٹ میں حسین ملبوس ہونگے سینکڑوں
شہر کی ویراں سڑک پر میں اکیلا رتجگا
سورہے ہیں اپنی شب گاہوں میں جوڑے سینکڑوں
مال و زر ، نام و نسب ، قاتل ادا ، دوشیزگی
میں بڑا بے نام سا ، تیرے حوالے سینکڑوں
کیوں بھٹکتی پھر رہی ہے میرے پتواروں کی چاپ
خامشی ! تیرے سمندر کے کنارے سینکڑوں
کوئی بھی آیا نہیں چل کر گلی کے موڑ تک
دیکھنے والوں نے کھولے ہیں دریچے سینکڑوں
٭٭٭
مرے نہیں تو کسی کے ملال گھٹ جائیں
کہیں تو بلب جلے اور اندھیرے چھٹ جائیں
تمہارے ظرف سے ساتھی گلہ نہیں کوئی
پہاڑ مجھ سے محبت کریں تو پھٹ جائیں
ترے بدن پر لکھوں نظم کوئی شیلے کی
یہ زندگی کے مسائل اگر نمٹ جائیں
میں رہ گیا تھا سٹیشن پہ ہاتھ ملتے ہوئے
مگر یہ کیسے کہانی سے دو منٹ جائیں
اے ٹینک بان یہ گولان کی پہاڑی ہے
یہاں سے گزریں تو دریا سمٹ سمٹ جائیں
زمینیں روندتا جاتا ہے لفظ کا لشکر
نئے زمانے مری گرد سے نہ اٹ جائیں
چرا لوں آنکھ سے نیندیں مگر یہ خطرہ ہے
کہ میرے خواب مرے سامنے نہ ڈٹ جائیں
گھروں سے لوگ نکل آئیں چیر کے دامن
جو اہل شہر کی آپس میں آنکھیں بٹ جائیں
اب اس کے بعد دہانہ ہے بس جہنم کا
جنہیں عزیز ہے جاں صاحبو پلٹ جائیں
ہزار زلزلے تجھ میں سہی مگر اے دل
یہ کوہسار ہیں کیسے جگہ سے ہٹ جائیں
مرا تو مشورہ اتنا ہے صاحبان ِ قلم
قصیدہ لکھنے سے بہتر ہے ہاتھ کٹ جائیں
وہ اپنی زلف سنبھالے تو اس طرف منصور
کھلی کتاب کے صفحے الٹ الٹ جائیں
٭٭٭
مسلسل چاک کے محور پہ میں ہوں
مسلسل کُن تری ٹھوکر پہ میں ہوں
تُو مجھ کو دیکھ یا صرفِ نظر کر
مثالِ گل ترے کالر پہ میں ہوں
سبھی کردار واپس جا چکے ہیں
اکیلا وقت کے تھیٹر پہ میں ہوں
صلائے عام ہے تنہائیوں کو
محبت کیلئے منظر پہ میں ہوں
پھر اس کے بعد لمبا راستہ ہے
ابھی تو شام تک دفتر پہ میں ہوں
اٹھو بیڈ سے چلو گاڑی نکالو
فقط دو سو کلو میٹر پہ میں ہوں
مجھے تم رنگ کر لینا کسی دن
ابھی کچھ دن اسی نمبر پہ میں ہوں
بجا تو دی ہے بیل میں نے مگر اب
کہوں کیسے کہ تیرے در پہ میں ہوں
ازل سے تیز رو بچے کے پیچھے
کسی چابی بھری موٹر پہ میں ہوں
پڑا تمثیل سے باہر ہوں لیکن
کسی کردار کی ٹھوکر پہ میں ہوں
کہے مجھ سے شبِ شہر نگاراں
ابھی تک کس لئے بستر پہ میں ہوں
یہی ہر دور میں سوچا ہے میں نے
زمیں کے آخری پتھر پہ میں ہوں
ہلا منصور مت اپنی جگہ سے
پہاڑ ایسا خود اپنے سر پہ میں ہوں
٭٭٭
ڈال دی اس نے محبت کی نئی سم مجھ میں
ایک ہی رابطہ رہنے لگا قائم مجھ میں
اس کی آنکھوں سے مجھے ہوتا ہے کیا کیا معلوم
کون کرتا ہے یہ جذبوں کے تراجم مجھ میں
روح تک جکڑی ہوئی ہے میری زنجیروں میں
کم نہیں ایک تعلق کے مظالم مجھ میں
گھونٹ دیتا ہے گلہ روز مرے خوابوں کا
کوئی رہتا ہے خطرناک سا مجرم مجھ میں
بخش کے مجھ کو تہی دامنی دنیا بھر کی
رکھ دیا درد بھرا سینۂ حاتم مجھ میں
چھو کے دیکھوں تو مرے ہاتھ پہ رہ جاتی ہیں
اس قدر خواہشیں ہیں نرم و ملائم مجھ میں
جانے کب آتا ہے ہونٹوں پہ کرامت بن کر
کروٹیں لیتا ہے اک نغمۂ خاتم مجھ میں
اس کے آنسو مری بخشش کیلئے کافی ہیں
وہ جو بہتا ہے کوئی چشمۂ نادم مجھ میں
میں نے چپکائی ہے کاغذ پہ سنہری تتلی
اب بھی پوشیدہ ہے شاید کوئی ظالم مجھ میں
کتنی قبروں پہ کروں فاتحہ خوانی منصور
مر گئے پھر مرے کچھ اور مراسم مجھ میں
٭٭٭
جمع ہو جاتے ہیں سورج کا جہاں سنتے ہیں
برف کے لوگ کوئی بات کہاں سنتے ہیں
ایک آسیب ہے اس شخص کی رعنائی بھی
خوشبوئیں بولتی ہیں رنگ وہاں سنتے ہیں
ایک ویرانہ ہے ، قبریں ہیں ، خموشی ہے مگر
دل یہ کہتا ہے کہ کچھ لوگ یہاں سنتے ہیں
زندگی ان کی شہیدوں کی طرح ہے شاید
آنکھ رکھتے ہیں شجر ، بات بھی ، ہاں ! سنتے ہیں
تخت گرتے ہیں تو یاد آتی ہے اپنی ورنہ
ہم فقیروں کی کہاں شاہ جہاں سنتے ہیں
بیٹھ کر ہم بھی ذرا غارِ حرا میں منصور
وہ جو آواز ہے سینے میں نہاں ، سنتے ہیں
٭٭٭
رات کا شور ، اندھیروں کی زباں سنتے ہیں
نور کے گیت کہاں تیرہ شباں سنتے ہیں
ایک سقراط نے زنجیر بپا آنا ہے
دوستو آؤ عدالت میں بیاں سنتے ہیں
کیوں پلٹتی ہی نہیں کوئی صدا کوئی پکار
یہ تو طے تھا کہ مرے چارہ گراں سنتے ہیں
اب بدلنی ہے شب و روز کی تقویم کہ لوگ
شام کے وقت سویرے کی اذاں سنتے ہیں
ایسے منفی تو لب و دیدہ نہیں ہیں اس کے
کچھ زیادہ ہی مرے وہم گماں سنتے ہیں
بات کرتی ہے ہوا مری نگہ سے منصور
اور رک رک کے مجھے آبِ رواں سنتے ہیں
٭٭٭
کسی کے جسم سے مل کر کبھی بہے نہ کہیں
تری گلی سے جو نکلے تو پھر رہے نہ کہیں
عجیب رابطہ اپنے وجود رکھتے تھے
نکل کے تجھ سے تو خود میں بھی ہم رہے نہ کہیں
اسے تو پردے کے پیچھے بھی خوف ہے کہ مری
نظر نقاب پہ چہرہ لکیر لے نہ کہیں
بس اس خیال سے منزل پہن لی پاؤں نے
ہمارے غم میں زمانہ سفر کرے نہ کہیں
تمام عمر نہ دیکھا بری نظر سے اسے
یہ سوچتے ہوئے دنیا برا کہے نہ کہیں
اے آسمان! ذرا دیکھنا کہ دوزخ میں
گرے پڑے ہوں زمیں کے مراسلے نہ کہیں
ڈرا دیا کسی خود کُش خیال نے اتنا
ٹکٹ خرید رکھے تھے مگر گئے نہ کہیں
کئی دنوں سے اداسی ہے اپنے پہلو میں
ہمارے بیچ چلے آئیں دوسرے نہ کہیں
ہر اک مقام پہ بہکی ضرور ہیں نظریں
تری گلی کے علاوہ قدم رکے نہ کہیں
ہم اپنی اپنی جگہ پر سہی اکائی ہیں
ندی کے دونوں کنارے کبھی ملے نہ کہیں
ترے جمال پہ حق ہی نہیں تھا سو ہم نے
کئے گلاب کے پھولوں پہ تبصرے نہ کہیں
کبھی کبھار ملاقات خود سے ہوتی ہے
تعلقات کے پہلے سے سلسلے نہ کہیں
ہر ایک آنکھ ہمیں کھینچتی تھی پانی میں
بھلا یہ کیسے تھا ممکن کہ ڈوبتے نہ کہیں
اداس چاندنی ہم سے کہیں زیادہ تھی
کھلے دریچے ترے انتظار کے نہ کہیں
بس ایک زندہ سخن کی ہمیں تمنا ہے
بنائے ہم نے کتابوں کے مقبرے نہ کہیں
بدن کو راس کچھ اتنی ہے بے گھری اپنی
کئی رہائشیں آئیں مگر رہے نہ کہیں
دھواں اتار بدن میں حشیش کا منصور
یہ غم کا بھیڑیا سینہ ہی چیر دے نہ کہیں
٭٭٭
پھر وہی بھول کر رہا ہوں میں
پھر کہیں اور مر رہا ہوں میں
جانتا ہوں منافقت کے گُر
شہر میں معتبر رہا ہوں میں
رابطے سانپ بنتے جاتے تھے
رخنے مٹی سے بھر رہا ہوں
رات کچھ اور انتظار مرا
آسماں پر ابھر رہا ہوں میں
ایک اندھا کنواں ہے چاروں اور
زینہ زینہ اتر رہا ہوں میں
آخری بس بھی جانے والی ہے
اور تاخیر کر رہا ہوں میں
ساتھ چھوڑا تھا جس جگہ توُ نے
بس اسی موڑ پر رہا ہوں میں
تجھ کو معلوم میری وحشت بھی
تیرے زیرِ اثر رہا ہوں میں
تتلیاں ہیں مرے تعاقب میں
کیسا گرمِ سفر رہا ہوں میں
کچھ بدلنے کو ہے کہیں مجھ میں
خود سے منصور ڈر رہا ہوں میں
٭٭٭
ہم چوک چوک سرخ اشاروں میں قید ہیں
قانون کے قدیم دیاروں میں قید ہیں
جنگل میں لومڑی کی شہنشاہی ان دنوں
بیچارے شیر اپنے کچھاروں میں قید ہیں
یہ سبز میز پوش پہ بکھرے ہوئے خیال
دراصل چند فرضی بہاروں میں قید ہیں
بے حد و بے کراں کا تصور بجا مگر
سارے سمندر اپنے کناروں میں قید ہیں
منصور زر پرست ہیں فالج زدہ سے جسم
یہ لوگ زرق برق سی کاروں میں قید ہیں
٭٭٭
آخرِ شب کی بے کلی اور میں
تیرا وعدہ تری گلی اور میں
دل سے اٹھتے ہوئے دھوئیں کے قریب
ایک لکڑی سی ادھ جلی اور میں
منتظر ہیں جنابِ جبرائیل
گفتگو میں مگن علی اور میں
رات کو کاٹتے ہیں چاقو سے
شہر کی ایک باولی اور میں
شام کے ساتھ ساتھ بہتے تھے
ایک سپنے میں سانولی اور میں
عارض و لب کی دلکشی اور لوگ
ایک تصویر داخلی اور میں
حاشیوں سے نکلتا اک چہرہ
چند ریکھائیں کاجلی اور میں
٭٭٭
مائی بھاگی کی گائیکی اور میں
رو رہے ہیں سرائیکی اور میں
مسکراہٹ سے کانپ جاتے ہیں
میری افسردہ سائیکی اور میں
آم کے پیڑ لے کے پھرتا ہوں
ایک کوٹھی کرائے کی اور میں
کتنے کپڑوں کے جوڑے لے آیا
اس نے دعوت دی چائے کی اور میں
زلف کی دوپہر کے سائے میں
شام عبرت سرائے کی اور میں
کتنی صدیوں سے ہوں تعاقب میں
ایک آواز سائے کی اور میں
٭٭٭
آسماں کی برابری اور میں
رو پڑے میری کافری اور میں
چار سو ہیں دعا کے گلدستے
بیچ میں آخری جری اور میں
لفظ کی بے بسی کی بستی میں
چشم و لب کی سخن وری اور میں
اپنی اپنی تلاش میں گم ہیں
عمر بھر کی مسافری اور میں
مر گیا اختتام سے پہلے
اک کہانی تھی متھ بھری اور میں
کچھ نہیں بانٹتے تناسب سے
میرا احساس برتری اور میں
ایک فیری کے خالی عرشے پر
رقص کرتی تھی جل پری اور میں
فہمِ منصور سے تو بالا ہے
یہ تری بندہ پروری اور میں
٭٭٭
ریگِ صحرا کی سنسنی اور میں
اک تھکی ہاری اونٹنی اور میں
تیرے نقش قدم کی کھوج میں ہیں
آج بھی تھل میں چاندنی اور میں
تیرا کمرہ ، دہکتی انگیٹھی
برف پروردہ روشنی اور میں
چند فوٹو گراف آنکھوں کے
دیکھتے ہیں شگفتنی اور میں
لائٹیں آف ، لائنیں انگیج
ایک کمرے میں کامنی اور میں
گنگ بیٹھا ہوا ہوں پہروں سے
ایک تصویر گفتنی اور میں
٭٭٭
اک لباسِ نمائشی اور میں
تازہ چھلکوں کی دلکشی اور میں
ایک اجڑی ہوئی گلی میں چپ
کچھ پرانے رہائشی اور میں
جانے کس سمت چلتے جاتے ہیں
قبر سی رات ، خامشی اور میں
خاک کی جستجو میں پھرتے ہیں
ایک اڑتا ہوا رشی اور میں
نامراد آئے کوچۂ جاں سے
میرا ہر اک سفارشی اور میں
اپنے اپنے محاذ پر منصور
ایک ملعون سازشی اور میں
٭٭٭
تاریخ ساز ’’لوٹ‘‘ کوئی دیکھتا نہیں
بندوق کے سلوٹ کوئی دیکھتا نہیں
رقصاں ہیں ایڑیوں کی دھنوں پر تمام لوگ
کالے سیاہ بوٹ کوئی دیکھتا نہیں
انصاف گاہ ! تیرے ترازو کے آس پاس
اتنا سفید جھوٹ کوئی دیکھتا نہیں
چکلالہ چھاونی کی طرف ہے تمام رش
اسلام آباد روٹ کوئی دیکھتا نہیں
طاقت کے آس پاس حسیناؤں کا ہجوم
میرا عوامی سوٹ کوئی دیکھتا نہیں
سب دیکھتے ہیں میری نئی کار کی طرف
چہرے کی ٹوٹ پھوٹ کوئی دیکھتا نہیں
٭٭٭
وہ آنجہانی پاؤں وہ مرحوم ایڑیاں
رقاصہ کی دکھائی دیں منظوم ایڑیاں
ہر انچ دکھ پڑے ہیں گئی گزری دھول کے
ہر فٹ زمیں کے ماتھے کا مقسوم ایڑیاں
ہر روز تارکول کی سڑکیں بناتی ہیں
ہاری ہوئی پھٹی ہوئی محروم ایڑیاں
غالب تھا ہمسفر سو اذیت بہت ہوئی
کہتی ہیں دو اٹھی ہوئی مظلوم ایڑیاں
سنگیت کے بہاؤ پہ شاید صدا کا رقص
گو گوش کی سٹیج پہ مرقوم ایڑیاں
پیاسا کہیں فرات کا ساحل پڑا رہے
چشمہ نکال دیں کہیں معصوم ایڑیاں
چلنے لگے ہیں پنکھے ہواؤں کے دشت میں
ہونے لگی ہیں ریت پہ معدوم ایڑیاں
پاتال کتنے پاؤں ابھی اور دور ہیں
ہر روز مجھ سے کرتی ہیں معلوم ایڑیاں
لکھنے ہیں نقشِ پا کسی دشتِ خیال میں
تانبا تپی زمین ! مری چوم ایڑیاں
منصور میرے گھر میں پہنچتی ہیں پچھلی رات
اڑتی ہے جن سے دھوپ وہ مخدوم ایڑیاں
٭٭٭
اِدھر نہ آئیں ہواؤں سے کہہ رہا ہوں میں
کہ راکھ راکھ تعلق میں رہ رہا ہوں میں
طلوعِ وصل کی خواہش بھی تیرہ بخت ہوئی
فراقِ یار کے پہلو میں گہہ رہا ہوں میں
مرا مزاج اذیت پسند ہے اتنا
ابھی جو ہونے ہیں وہ ظلم سہہ رہا ہوں میں
یہ لگ رہا ہے کئی دن سے اپنے گھر میں مجھے
کسی کے ساتھ کہیں اور رہ رہا ہوں میں
مجھے بھلانے کی کوشش میں بھولتے کیوں ہو
کہ لاشعور میں بھی تہہ بہ تہہ رہا ہوں میں
گھروں کے بیچ اٹھائی تھی جو بزرگوں نے
کئی برس سے وہ دیوار ڈھ رہا ہوں میں
کنارِ اشکِ رواں توڑ پھوڑ کر منصور
خود آپ اپنی نگاہوں سے بہہ رہا ہوں میں
٭٭٭
بارش سے سائیکی کے سخن دھو رہا ہوں میں
بادل کے ساتھ ساتھ یونہی رو رہا ہوں میں
دیکھا ہے آج میں نے بڑا دلربا سا خواب
شاید تری نظر سے رہا ہو رہا ہوں میں
اچھے دنوں کی آس میں کتنے برس ہوئے
خوابوں کے آس پاس کہیں سو رہا ہوں میں
میں ہی رہا ہوں صبح کی تحریک کا سبب
ہر دور میں رہینِ ستم گو رہا ہوں میں
لایا ہے کوئی آمدِ دلدار کی نوید
اور بار بار چوم کسی کو رہا ہوں میں
ابھرے ہیں میرے آنکھ سے فرہنگِ جاں کے رنگ
تصویر کہہ رہی ہے پکاسو رہا ہوں میں
٭٭٭
سرکا دیا نقاب کو کھڑکی نے خواب میں
سورج دکھائی دے شبِ خانہ خراب میں
تجھ ایسی نرم گرم کئی لڑکیوں کے ساتھ
میں نے شبِ فراق ڈبو دی شراب میں
آنکھیں ، خیال ، خواب ، جوانی ،یقین، سانس
کیا کیا نکل رہا ہے کسی کے حساب میں
قیدی بنا لیا ہے کسی حور نے مجھے
یوں ہی میں پھر رہا تھا دیار ثواب میں
مایوس آسماں ابھی ہم سے نہیں ہوا
امید کا نزول ہے کھلتے گلاب میں
دیکھوں ورق ورق پہ خدوخال نور کے
سورج صفت رسول ہیں صبحِ کتاب میں
سیسہ بھری سماعتیں بے شک مگر بڑا
شورِ برہنگی ہے سکوتِ نقاب میں
٭٭٭
جسم پر نقش گئے وقت کے آئے ہوئے ہیں
عمر کی جیپ کے ٹائر تلے آئے ہوئے ہیں
ہم سمجھتے ہیں بہت ، لہجے کی تلخی کو مگر
تیرے کمرے میں کسی کام سے آئے ہوئے ہیں
دیکھ مت بھیج یہ میسج ہمیں موبائل پر
ہم کہیں دور بہت روٹھ کے آئے ہوئے ہیں
ہم نہیں جانتے روبوٹ سے کچھ وصل وصال
ہم ترے چاند پہ شاید نئے آئے ہوئے ہیں
پھر پگھلنے کو ہے بستی کوئی ایٹم بم سے
وقت کی آنکھ میں کچھ سانحے آئے ہوئے ہیں
ڈھونڈنے کے لئے گلیوں میں کوئی عرش نشیں
تیرے جیسے تو فلک سے بڑے آئے ہوئے ہیں
ہم سے چرواہوں کو تہذیب سکھانے کیلئے
دشت میں شہر سے کچھ بھیڑے آئے ہوئے ہیں
ہم محبت کے کھلاڑی ہیں سنوکر کے نہیں
کھیل منصور یونہی کھیلنے آئے ہوئے ہیں
٭٭٭
ترے دن جو مری دہلیز پہ آنے لگ جائیں
ڈوبتے ڈوبتے سورج کو زمانے لگ جائیں
سچ نکلتا ہی نہیں لفظ کے گھر سے ورنہ
چوک میں لوگ کتابوں کو جلانے لگ جائیں
یہ عجب ہے کہ مرے بلب بجھانے کے لئے
آسماں تیرے ستاروں کے خزانے لگ جائیں
خوبصورت بھی ، اکیلی بھی ، پڑوسن بھی ہے
لیکن اک غیرسے کیا ملنے ملانے لگ جائیں
نیک پروین ! تری چشمِ غلط اٹھتے ہی
مجھ میں کیوں فلم کے سنسر شدہ گانے لگ جائیں
پل کی ریلنگ پکڑ رکھی ہے میں نے منصور
بہتے پانی مجھے دیکھیں تو بلانے لگ جائیں
٭٭٭
کھلا گیا کوئی آسیب زار کمرے میں
سنائی دیتا ہے اب تک گٹار کمرے میں
یہ شیمپین یہ کینڈل یہ بے شکن بستر
پڑا ہوا ہے ترا انتظار کمرے میں
یہ رات کتنے نصیبوں کے بعد آئی ہے
ذرا ذرا اسے دن بھر گزار کمرے میں
دکھائی دی تھی مجھے ایک بار پرچھائیں
پلٹ پلٹ کے گیا بار بار کمرے میں
جو میں نے کروٹیں قالین پر بچھائی تھیں
وہ کر رہی ہے انہیں بھی شمار کمرے میں
تمام رات تعاقب کریں گی دیواریں
نہیں ہے قید سے ممکن فرار کمرے میں
چھپا رہا تھا کسی سے دھوئیں میں اپنا آپ
میں پی رہا تھا مسلسل سگار کمرے میں
٭٭٭
کون ٹینس کھیلتی جاتی تھی وجد و حال میں
کورٹ سمٹا جا رہا تھا اک ذرا سی بال میں
جانے کس نے رات کا خاکہ اڑایا اس طرح
چاند کا پیوند ٹانکا اس کی کالی شال میں
ایک کوا پھڑ پھڑا کر جھاڑتا تھا اپنے پر
تھان لٹھے کے بچھے تھے دور تک چترال میں
لوگ مرتے جا رہے تھے ساحلوں کی آس پر
ناؤ آتی جا رہی تھی پانیوں کے جال میں
کوئی پتھر کوئی ٹہنی ہاتھ آتی ہی نہیں
گر رہا ہوں اپنے اندر کے کسی پاتال میں
جن گناہوں کی تمنا تنگ کرتی تھی مجھے
وہ بھی ہیں تحریر میرے نامۂ اعمال میں
میں نے یہ منصوردیکھااس سے مل لینے کے بعد
اپنی آنکھیں بچھ رہی تھیں اپنے استقبال میں
٭٭٭
باقی سب چیزیں تو رکھی ہیں اٹیچی کیس میں
میں جوانی بھول آیا ہوں کہیں پردیس میں
زندگی کی دوڑ ہے اور دوڑنا ہے عمر بھر
شرط گھوڑا جیت سکتا ہی نہیں ہے ریس میں
رقص کرتی لڑکیاں میوزک میں تیزی اور شراب
نیکیاں ملتی ہیں مجھ سے کیوں بدی کے بھیس میں
میں برہنہ گھومتا تھا ہجر کی فٹ پاتھ پر
رات جاڑے کی اکیلی سو گئی تھی کھیس میں
کیوں بدلتا جا رہا ہے روح کا جغرافیہ
کون سرحد پار سے آیا بدن کے دیس میں
٭٭٭
بلا کا ضبط تھا دریا نے کھو دیا مجھ میں
مجھے جو ولولے دیتا تھا رو دیا مجھ میں
شبِ سیاہ کہاں سے رگوں میں آئی ہے
تڑپ رہا ہے کوئی آج تو دیا مجھ میں
عجیب کیف تھا ساقی کی چشم رحمت میں
شراب خانہ ہی سارا سمو دیا مجھ میں
رکھا ہے گنبدِ خضرا کے طاق میں شاید
بلا کی روشنی کرتا ہے جو دیا مجھ میں
ہزار درد کے اگتے رہے شجر منصور
کسی نے بیج جو خواہش کا بو دیا مجھ میں
٭٭٭
من و سلویٰ لیے ا فلاک سے بم گرتے ہیں
شہر میں گندم و بارود بہم گرتے ہیں
فتح مندی کی خبر آتی ہے واشنگٹن سے
اور اسا مہ ترے ہر روز علم گرتے ہیں
زرد پتے کی کہانی تو ہے موسم پہ محیط
ٹوٹ کے روز کہیں شاخ سے ہم گرتے ہیں
رقص ویک اینڈ پہ جتنا بھی رہے تیز مگر
طے شدہ وقت پہ لوگوں کے قدم گرتے ہیں
شہر کی آخری خاموش سڑک پر جیسے
میرے مژگاں سے سیہ رات کے غم گرتے ہیں
جانے کیا گزری ہے اس دل کے صدف پر منصور
ایسے موتی تو مری آنکھ سے کم گرتے ہیں
٭٭٭
اور جینے کا سبب کوئی نہیں
پہلے تُو تھا مگر اب کوئی نہیں
صرف اک جاں سے گزرنا ہے مجھے
مجھ سا بھی سہل طلب کوئی نہیں
خواہشِ زرق درندوں کی طرح
جیسے اس شہر کا رب کوئی نہیں
وقت کیفیتِ برزخ میں ہے
کوئی سورج ، کوئی شب ، کوئی نہیں
ایک تعزیتی خاموشی ہے
شہر میں مہر بلب کوئی نہیں
کیوں گزرتا ہوں وہاں سے منصور
اس گلی میں مرا جب کوئی نہیں
٭٭٭
تیرا چہرہ کیسا ہے میرے دھیان کیسے ہیں
یہ بغیر تاروں کے بلب آن کیسے ہیں
خواب میں اسے ملنے کھیت میں گئے تھے ہم
کارپٹ پہ جوتوں کے یہ نشان کیسے ہیں
بولتی نہیں ہے جو وہ زبان کیسی ہے
یہ جوسنتے رہتے ہیں میرے کان کیسے ہیں
روکتے ہیں دنیا کو میری بات سننے سے
لوگ میرے بارے میں بد گمان کیسے ہیں
ق
کیا ابھی نکلتا ہے ماہ تاب گلیوں میں
کچھ کہو میانوالی آسمان کیسے ہیں
کیا ابھی محبت کے گیت ریت گاتی ہے
تھل کی سسی کیسی ہے پنوں خان کیسے ہیں
کیا قطار اونٹوں کی چل رہی ہے صحرا میں
گھنٹیاں سی بجتی ہیں ، ساربان کیسے ہیں
چمنیوں کے ہونٹوں سے کیا دھواں نکلتا ہے
خالی خالی برسوں کے وہ مکان کیسے ہیں
دیکھتا تھا رم جھم سی بیٹھ کر جہاں تنہا
لان میں وہ رنگوں کے سائبان کیسے ہیں
اب بھی وہ پرندوں کو کیا ڈراتے ہیں منصور
کھیت کھیت لکڑی کے بے زبان کیسے ہیں
٭٭٭
میں اپنی فیملی کے ساتھ کچھ دن ۔۔۔پُر سکوں کچھ دن
سمندر کے کنارے ایک کاٹج میں رہوں کچھ دن
کہیں ڈھلتی ہوئی شب کو بھی ورزش کی ضرورت ہے
میں اپنے دوستوں کے ساتھ جاگنگ چھوڑ دوں کچھ دن
ابھی کچھ دن پلیٹوں میں رکھوں جذبے قیامت کے
سلاخوں میں دہکتے گوشت پر نظمیں لکھوں کچھ دن
مرے ہم عصر پیرس اب اداسی چھوڑ دے اپنی
جدا ہونا تو ہے لیکن ابھی میں اور ہوں کچھ دن
ابھی اس لمس تک شاید کئی ہفتوں کا رستہ ہے
رگوں میں تیز رہنی ہے ابھی رفتارِ خوں کچھ دن
بدن کے شہر کو جاتی سڑک پہ کوئی خطرہ ہے ؟
مجھے حیرت سرائے روح میں رہنا ہے کیوں کچھ دن
بہت ہی سست ہیں نبضیں مرے شہرِ نگاراں کی
اضافہ خود سری میں کچھ ، چلے رسمِ جنوں کچھ دن
٭٭٭
ایٹمی آگ میں سوختہ خواب تسخیر کے ہیں
خوف دونوں طرف ایک لمحے کی تا خیر کے ہیں
وقت کی گیلری میں مکمل ہزاروں کی شکلیں
صرف ٹوٹے ہوئے خال و خد میری تصویر کے ہیں
شہر بمبار طیارے مسمار کرتے رہیں گے
شوق دنیا کو تازہ مکانوں کی تعمیر کے ہیں
ایک مقصد بھری زندگی وقت کی قید میں ہے
پاؤں پابند صدیوں سے منزل کی زنجیر کے ہیں
ایک آواز منصور کاغذ پہ پھیلی ہوئی ہے
میرے سناٹے میں شور خاموش تحریر کے ہیں
٭٭٭
سبز سر چھیڑ خشک سالی میں
چوڑیاں ڈال مردہ ڈالی میں
کوئی دریا گرا تھا پچھلی شب
تیری کچی گلی کی نالی میں
لمس ہے تیرے گرم ہونٹوں کا
ویٹرس۔۔چائے کی پیالی میں
جو ابھی ہونا ہے پڑوسن نے
واقعہ لکھ دیا ہے گالی میں
اپنے دانتوں سے کس لئے ناخن
کاٹتا ہوں میں بے خیالی میں
٭٭٭
اوڑھ لیتی ہیں ستاروں کا لبادہ آنکھیں
اب تو کرتیں ہی نہیں خواب کا وعدہ آنکھیں
کوئی گستاخ اشارہ نہ کوئی شوخ نگہ
اپنے چہرے پہ لئے پھرتا ہوں سادہ آنکھیں
دھوپ کا کرب لئے کوئی افق پر ابھرا
اپنی پلکوں میں سمٹ آئیں کشادہ آنکھیں
ایک دہلیز پہ رکھا ہے ازل سے ماتھا
ایک کھڑکی میں زمانوں سے ستادہ آنکھیں
آنکھ بھر کے تجھے دیکھیں گے کبھی سوچا تھا
اب بدلتی ہی نہیں اپنا ارادہ آنکھیں
شہر کا شہر مجھے دیکھ رہا ہے منصور
کم تماشا ہے بہت اور زیادہ آنکھیں
٭٭٭
ترے مکان کا رستہ تو چھوڑ دیتا ہوں
مگر میں ساتھ گلی کو بھی موڑ دیتا ہوں
میں اس مقام پہ پہنچا ہوں عشق میں کہ جہاں
فراق و وصل کو آپس میں جوڑ دیتا ہوں
مجھے مزاج کی وحشت نے فتح مند رکھا
کہ ہار جاؤں تو سر اپنا پھوڑ دیتا ہوں
ابھی دھڑکتا ہے دل بھیڑیے کے سینے میں
ابھی غزال پکڑتا ہوں ، چھوڑ دیتا ہوں
ڈرا ہوا ہوں میں اپنے مزاج سے منصور
جو میری ہو نہ سکے ، شے وہ توڑ دیتا ہوں
٭٭٭
ریت کے ٹرک میں دو اجنبی مسافر ہیں
میرے ساتھ خوشبو اور روشنی مسافرہیں
گھر میں کم پیوٹر کی صرف ایک کھڑکی ہے
ورنہ قیدیوں کے دل ہر گھڑی مسافر ہیں
چند ٹن بیئر کے ہیں چند چپس کے پیکٹ
رات کی سڑک ہے اور ہم یونہی مسافرہیں
کون ریل کو سنگنل لالٹین سے دے گا
گاؤں کے سٹیشن پر اک ہمی مسافر ہیں
نیند کے جزیرے پر ، آنکھ کی عمارت میں
اجنبی سے لگتے ہیں ، یہ کوئی مسافر ہیں
شب پناہ گیروں کے ساتھ ساتھ رہتی ہے
روشنی کی بستی میں ہم ابھی مسافر ہیں
اور اک سمندر سا پھر عبور کرنا ہے
خاروخس کی کشتی ہے کاغذی مسافر ہیں
چند اور رہتے ہیں دھوپ کے قدم منصور
شام کی گلی کے ہم آخری مسافر ہیں
٭٭٭
گھلی تھی ایک ویراں چرچ کی گھمبیر تا رب میں
مگر دو ہاتھ پیچھے دیویوں کا رقص تھا پب میں
خدا جانے کہانی کار کتنا دلربا ہو گا
عجب رومان پرور لمس کی دھڑکن ہے مذہب میں
مجھے اکثر وہ ہجراں کی سیاہی میں دکھائی دی
سلگتے گھاؤ کی صورت ہے کوئی سینۂ شب میں
خدا کے قید خانے سے کوئی باہر نہیں نکلا
اگرچہ ہے بلا کی قوتِ پرواز ہم سب میں
ازل کی شام سے آنکھیں کسی کی خوبصورت ہیں
رکاہے وقت صدیوں سے کسی کے عارض و لب میں
تیز چلنے کے لئے کب راستے موجود ہیں
وقت کی ہراک سڑک پر کیمرے موجود ہیں
کھل نہیں سکتے اگر بابِ نبوت کے کواڑ
سینکڑوں جبریل مجھ میں کس لئے موجود ہیں
بس صدا ڈی کوڈ کرنی ہے خموشی کی مجھے
کتنے سگنل عرش سے آئے ہوئے موجود ہیں
چاند شاید پیڑ کی شاخوں میں الجھا ہے کہیں
صحن میں کچھ روشنی کے شیڈ سے موجود ہیں
قیمتی سوٹوں کی جلسہ گاہ میں خاموش رہ
کرسیوں پر کیسے کیسے نابغے موجود ہیں
کھول کر اپنے گریباں کے بٹن ہم سرفروش
موت کی بندوق کے پھرسامنے موجود ہیں
٭٭٭
ذہن میں جمع ڈر کئے جائیں
آسماں معتبر کئے جائیں
جتنے لمحے بھی ہو سکیں ممکن
روشنی میں بسر کئے جائیں
اس سے آٹو گراف بک پہ نہیں
دستخط ہاتھ پر لئے جائیں
موسم آنے پہ باغ میں روشن
قمقموں سے شجر کئے جائیں
آسمانوں کو جاننے کے لئے
اپنے پاتال سر کئے جائیں
وقت کے سائیکل پہ ہم منصور
اک کنویں میں سفر کئے جائیں
٭٭٭
ہر ایک طاق پہ رکھے ہوئے چراغ میں ہوں
میں آفتاب صفت رات کے دماغ میں ہوں
میں جاودانی کا چشمہ ، مثالِ آبِ حیات
کسی فقیر کے ٹوٹے ہوئے ایاغ میں ہوں
مجھے تلاش نہ کر خال و خد میں خوشبو کے
کہیں پہ زخم میں ہوں میں کہیں پہ داغ میں ہوں
اکیلا روز سلگتا ہوں چھاؤں میں اپنی
یہ اور بات کہ شادابیوں کے باغ میں ہوں
میں دوپہر کے تسلسل کا سوختہ منصور
چراغ لے کے کسی رات کے سراغ میں ہوں
٭٭٭
دستکوں کی دہشت سے در بدلتے رہتے ہیں
اک اجاڑ بستی میں گھر بدلتے رہتے ہیں
موسموں کی تبدیلی معجزے دکھاتی ہے
جسم ایک رہتا ہے سر بدلتے رہتے ہیں
وہ بچھڑ بھی سکتا ہے ، میں بدل بھی سکتا ہوں
راہ میں محبت کی ، ڈر بدلتے رہتے ہیں
کائنات کا پنجرہ کوئی در نہیں رکھتا
اور ہم پرندوں کے پر بدلتے رہتے ہیں
ارتقاء کے پردے میں کیا فریب ہے منصور
ہم نہیں بدل سکتے ، پر، بدلتے رہتے ہیں
٭٭٭
یونہی ہم بستیوں کو خوبصورت تر بناتے ہیں
جہاں رہنا نہیں ہوتا وہاں پر گھر بناتے ہیں
بنا کر فرش سے بستر تلک ٹوٹی ہوئی چوڑی
گذشتہ رات کا تصویر میں منظر بناتے ہیں
لکھا ہے اس نے لکھ بھیجو شب ِ ہجراں کی کیفیت
چلو ٹھہرے ہوئے دریا کو کاغذ پر بناتے ہیں
سمندر کے بدن جیسا ہے عورت کا تعلق بھی
لہو کی آب دوزوں کے سفر گوہر بناتے ہیں
مکمل تجربہ کرتے ہیں ہم اپنی تباہی کا
کسی آوارہ دوشیزہ کو اب دلبر بناتے ہیں
شرابوں نے دیا سچ بولنے کا حوصلہ منصور
غلط موسم مجھے کردار میں بہتر بناتے ہیں
٭٭٭
ابھی تو شاخ سے اپنی ، جدا ہوا ہوں میں
’’مرے شجر نہ ابھی رو ‘‘ابھی ہرا ہوں میں
یہ لگ رہا ہے کئی دن سے اپنے گھر میں مجھے
کسی کے ساتھ کہیں اور رہ رہا ہوں میں
وصالِ زانوئے جاناں کے انتظار میں پھر
خود اپنے ہاتھ پہ سر رکھ کے سو گیا ہوں میں
لہو میں دوڑتی پھرتی ہے لمس کی خوشبو
تیر ے خیال سے شاید گلے ملا ہوں میں
ستم کہ جس کی جدائی میں بجھ رہا ہے بدن
اسی چراغ کی مانگی ہوئی دعا ہوں میں
یہ المیہ نہیں سورج مقابلے پر ہے
یہ المیہ ہے کہ بجھتا ہوا دیا ہوں میں
پڑے ہوئے ہیں زمانوں کے آبلے منصور
بس ایک رات کسی جسم پر چلا ہوں میں
٭٭٭
میرا خیال ہے کوئی پردہ اٹھا ہی دوں
اک مستقل فراق کے پہلو میں کیوں رہوں
مے خانۂ حیات میں محرم کوئی نہیں
شاید میں کائنات کا پہلا شعور ہوں
دن بھر تلاش کرتا ہوں تعبیر کس لئے
ہر رات ایک خواب کے ہوتا ہوں ساتھ کیوں
بستی سے جا رہی ہے پرندوں بھری ٹرام
تُو ساتھ دے اگر تو کہیں میں بھی چل پڑوں
کیوں آنکھ میں بچھا کے سمندر کے آئنے
حیرت سے دیکھتا ہے کسی چاند کو جنوں
کوئی نشانی میری کسی ہاتھ میں تو ہو
منصور کس کو جا کے میں سونے کا رِنگ دوں
٭٭٭
یزید زاد الگ ، کربلا علیحدہ ہیں
ہمارے اور تمہارے خدا علیحدہ ہیں
نمازِ جسم میں کعبہ کی سمت لازم ہے
نمازِ عشق کے قبلہ نما علیحدہ ہیں
مرے فراق کے جلتے ہوئے سیہ موسم
تمہی کہو مری جاں ! تم سے کیا علیحدہ ہیں
سمجھ رہی ہو محبت میں وصل کو تعبیر
ہمارے خواب میں کہتا نہ تھا ، علیحدہ ہیں
ہماری دھج کو نظر بھر کے دیکھتے ہیں لوگ
ہجوم شہر میں ہم کج ادا علیحدہ ہیں
سیاہ بختی ٹپکتی ہے ایک تو چھت سے
ترے ستم مری جانِ وفا علیحدہ ہیں
٭٭٭
ٹوٹنے والے تارے پر رک جاتے ہیں
آنکھ کے ایک کنارے پر رک جاتے ہیں
وقت کی تیز ٹریفک چلتی رہتی ہے
ہم ہی سرخ اشارے پر رک جاتے ہیں
جب میں سطحِ آب پہ چلتا پھرتا ہوں
دیکھ کے لوگ کنارے پر رک جاتے ہیں
ہم ایسوں کے کون مقابل آئے گا
ہم طوفان کے دھارے پر رک جاتے ہیں
روز نکلتے ہیں مہتاب نگر میں ہم
لیکن ایک ستارے پر رک جاتے ہیں
اڑتے اڑتے گر پڑتے ہیں آگ کے بیچ
شام کے وقت ہمارے پر رک جاتے ہیں
٭٭٭
باہر کھڑا ہوں کون و مکاں کے قفس سے میں
دیکھا نکل گیا ناٰ ۔۔۔تری دسترس سے میں
دیکھو یہ پھڑپھڑاتے ہوئے زخم زخم پر
لڑتا رہا ہوں عمر بھر اپنے قفس سے میں
اے دوست جاگنے کی کوئی رات دے مجھے
تنگ آ گیا ہوں نیند کے کارِ عبث سے میں
بے وزن لگ رہا ہے مجھے کیوں مرا وجود
بالکل صحیح چاند پہ اترا ہوں بس سے میں
اک سوختہ دیار کے ملبے پہ بیٹھ کر
انگار ڈھانپ سکتا نہیں خاروخس سے میں
جذبوں کی عمر میں نے مجرد گزار دی
منصور روزہ دار ہوں چودہ برس سے میں
٭٭٭
در کوئی جنتِ پندار کا وا کرتا ہوں
آئینہ دیکھ کے میں حمد و ثنا کرتا ہوں
رات اور دن کے کناروں کے تعلق کی قسم
وقت ملتے ہیں تو ملنے کی دعا کرتا ہوں
وہ ترا ، اونچی حویلی کے قفس میں رہنا
یاد آئے تو پرندوں کو رہا کرتا ہوں
ایک لڑکی کے تعاقب میں کئی برسوں سے
نت نئی ذات کے ہوٹل میں رہا کرتا ہوں
پوچھتا رہتا ہوں موجوں سے گہر کی خبریں
اشکِ گم گشتہ کا دریا سے پتہ کرتا ہوں
مجھ سے منصور کسی نے تو یہ پوچھا ہوتا
ننگے پاؤں میں ترے شہر میں کیا کرتا ہوں
٭٭٭
نیند کے پار کہیں ایک جہاں ہے کہ نہیں
سوچتا ہوں کوئی موجود وہاں ہے کہ نہیں
اس خلا باز کی آواز میں سناٹے تھے
چاند پر جس نے کہا ’کوئی یہاں ہے کہ نہیں ‘
ذہن وحدت کے تصور میں بھٹکتا ہے ابھی
یہ سوال اور ہے ذرہ میں کہاں ہے کہ نہیں
ایک حیرت کدہ وا رہتا ہے ہر دم مجھ پر
کیسے بتلاؤں کوئی مجھ میں نہاں ہے کہ نہیں
سو گئی تھی جو زرِ فاحشہ کے بستر میں
وہ سپہ آج کفِ شعلہ دہاں ہے کہ نہیں
جس سے گزرے گا ابھی قافلۂ صدرِ وطن
وہ سڑک مثل رہِ بادشہاں ہے کہ نہیں
پھر نکل عرشِ محبت کے سفر پر منصور
پہلے یہ دیکھ وہاں جان جہاں ہے کہ نہیں
٭٭٭
ردیف و
ہوائے نرم خُو کو اپنی عادت کم نہ ہونے دو
شجر ایسے تعلق کی ضرورت کم نہ ہونے دو
ابھی گلدان میں رہنے دو یہ بکھری ہوئی کلیاں
ابھی اس کے بچھڑنے کی اذیت کم نہ ہونے دو
دئیوں کی لو رکھو اونچی دیارِ درد میں منصور
اندھیروں کے خلاف اپنی بغاوت کم نہ ہونے دو
ق
مرے دھکے ہوئے جذبوں کی شدت کم نہ ہونے دو
تعلق چاہے کم رکھو ، محبت کم نہ ہونے دو
ذرا رکھو خیال اپنے نشاط انگیز پیکر کا
مری خاطر لب و رخ کی صباحت کم نہ ہونے دو
مسلسل چلتے رہنا ہو طلسمِ جسم میں مجھ کو
رہو آغوش میں چاہے مسافت کم نہ ہونے دو
مجھے جو کھینچ لاتی ہے تری پُر لمس گلیوں میں
وہ رخساروں کی پاکیزہ ملاحت کم نہ ہونے دو
رکھو موجِ صبا کی وحشتیں جذبوں کے پہلو میں
تلاطم خیز دھڑکن کی لطافت کم نہ ہونے دو
٭٭٭
اجنبی ہے کوئی اپنا نہیں لگتا مجھ کو
یہ تو منصور کا چہرہ نہیں لگتا مجھ کو
اتنے ناپاک خیالات سے لتھڑی ہے فضا
حرفِ حق کہنا بھی اچھا نہیں لگتا مجھ کو
قتل تو میں نے کیا رات کے کمرے میں اسے
اور یہ واقعہ سپنا نہیں لگتا مجھ کو
پھر قدم وقت کے مقتل کی طرف اٹھے ہیں
یہ کوئی آخری نوحہ نہیں لگتا مجھ کو
وقت نے سمت کو بھی نوچ لیا گھاس کے ساتھ
چل رہا ہوں جہاں رستہ نہیں لگتا مجھ کو
کیسی تنہائی سی آنکھوں میں اتر آئی ہے
میں ہی کیا کوئی اپنا نہیں لگتا مجھ کو
موت کا کوئی پیالہ تھا کہ وہ آبِ حیات
جسم سقراط کا مردہ نہیں لگتا مجھ کو
اب تو آنکھیں بھی ہیں سورج کی طنابیں تھامے
اب تو بادل بھی برستا نہیں لگتا مجھ کو
ٹین کی چھت پہ گرا ہے کوئی کنکر منصور
شور ٹوٹے ہوئے دل کا نہیں لگتا مجھ کو
٭٭٭
ردیف ہ
یہی تیرے غم کا کِتھارسز ، یونہی چشمِ نم سے ٹپک کے پڑھ
یونہی رات رات غزل میں رو ، یونہی شعر شعر سسک کے پڑھ
جو اکائی میں نہیں ذہن کی اسے سوچنے کا کمال کر
یہ شعور نامۂ خاک سن ، یہ درود لوحِ فلک کے پڑھ
یہی رتجگوں کی امانتیں ہیں بیاضِ جاں میں رکھی ہوئی
جو لکھے نہیں ہیں نصیب میں وہ ملن پلک سے پلک کے پڑھ
مرے کینوس پہ شفق بھری نہ لکیریں کھینچ ملال کی
کوئی نظم قوسِ قزح کی لکھ کوئی رنگ ونگ دھنک کے پڑھ
ترے نرم سر کا خرام ہو مری روح کے کسی راگ میں
مجھے انگ انگ میں گنگنا ، مرا لمس لمس لہک کے پڑھ
یہ بجھادے بلب امید کے ، یہ بہشتِ دیدِ سعید کے
ابھی آسمان کے بورڈ پر وہی زخم اپنی کسک کے پڑھ
او ڈرائیور مرے دیس کے او جہاں نما مری سمت کے
یہ پہنچ گئے ہیں کہاں پہ ہم ،ذرا سنگ میل سڑک کے پڑھ
کوئی پرفیوم خرید لا ، کوئی پہن گجرا کلائی میں
نئے موسموں کا مشاعرہ کسی مشکبو میں مہک کے پڑھ
ہے کتابِ جاں کا ربن کھلا کسی ووڈکا بھری شام میں
یہی افتتاحیہ رات ہے ذرا لڑکھڑا کے ، بہک کے پڑھ
یہ ہے ایک رات کا ناولٹ ، یہ ہے ایک شام کی سرگزست
یہ فسانہ تیرے کرم کا ہے ، اسے اتنا بھی نہ اٹک کے پڑھ
کئی فاختاؤں کی ہڈیاں تُو گلے میں اپنے پہن کے جا
وہ جو عہد نامۂ امن تھا اسے بزم شب میں کھنک کے پڑھ
٭٭٭
عالمی بنک کے اک وفد کی تجویز پہ وہ
بم گراتا رہا خود اپنی ہی دہلیز پہ وہ
کیا بتاتا کہ مرا اس سے تعلق کیا تھا
رو بھی سکتا نہ تھا تکفین پہ تجہیز پہ وہ
کھوجنی پڑتی ہے ماتھے سے وہ قیمت لیکن
ایک لیبل سا لگا دیتا ہے ہر چیز پہ وہ
ہو نہیں سکتا شب و روز کا مالک کوئی
عمر ہر شخص کو دیتا ہے فقط لیز پہ وہ
اس نئے دور کا منصور عجب عامل ہے
نام خود اپنا ہی لکھ دیتا ہے تعویذ پہ وہ
٭٭٭
یا بدن کے سرخ گجروں کی مہک محدود رکھ
یا مجھے اپنے ڈرائنگ روم تک محدود رکھ
دھن کوئی کومل سی بس ترتیب کے لمحے میں ہے
اے محافظ کالے بوٹوں کی دھمک محدود رکھ
سو رہا ہے تیرے پہلو میں کوئی غمگین شخص
چوڑیوں کی رنگ پروردہ کھنک محدود رکھ
باغباں ہر شاخ سے لپٹے ہوئے ہیں زرد سانپ
گھونسلوں تک اپنی چڑیوں کی چہک محدود رکھ
جاگنے لگتے ہیں گلیوں میں غلط فہمی کے خواب
آئینے تک اپنی آنکھوں کی چمک محدود رکھ
لوگ چلنے لگتے ہیں قوسِ قزح کی شال پر
اپنے آسودہ تبسم کی دھنک محدود رکھ
٭٭٭
چل رہی ہے زندگی کی اک بھیانک رات ساتھ
پھر بھی میں ہوں جلتی بجھتی روشنی کے ساتھ ساتھ
میں نے سوچا کیا کہیں گے میرے بچپن کے رفیق
اور پھر رختِ سفر میں رکھ لئے حالات ساتھ
میں اکیلا رونے والا تو نہیں ہوں دھوپ میں
دے رہی ہے کتنے برسوں سے مرا برسات ساتھ
چاہئے تھا صرف تعویذ ِ فروغ ِ کُن مجھے
دے دیا درویش نے اذنِ شعورِ ذات ساتھ
یہ خزاں زادے کہیں کیا گل رتوں کے مرثیے
یونہی بے مقصد ہواؤں کے ہیں سوکھے پات ساتھ
ایک بچھڑے یار کی پرسوز یادوں میں مگن
کوئی بگلا چل رہا تھا پانیوں کے ساتھ ساتھ
٭٭٭
اور اب تو میرے چہرے سے ابھر آتا ہے وہ
آئینہ میں دیکھتا ہوں اور نظر آتا ہے وہ
حالِ دل کہنے کو بارش کی ضرورت ہے مجھے
اور میرے گھر ہوا کے دوش پر آتا ہے وہ
رات بھر دل سے کوئی آواز آتی ہے مجھے
جسم کی دیوار سے کیسے گزر آتا ہے وہ
وقت کا احساس کھو جاتا تھا میری بزم میں
اپنے بازو پر گھڑی اب باندھ کر آتا ہے وہ
میں ہوا کی گفتگو لکھتا ہوں برگِ شام پر
جو کسی کو بھی نہیں آتا ہنر آتا ہے وہ
سر بریدوں کو تنک کر رات سورج نے کہا
اور جب شانوں پہ رکھ کر اپنا سر آتا ہے وہ
٭٭٭
مل جاؤ تھوڑی دیر تو آ کر کسی جگہ
میں جا رہا ہوں شہر سے باہر کسی جگہ
میں روزنامچہ ہوں تری صبح و شام کا
مجھ کو چھپا دے شلِف کے اندر کسی جگہ
جادو گری حواس کی پھیلی ہوئی ہے بس
ہوتا نہیں ہے کوئی بھی منظر کسی جگہ
کچھ دن گزارتا ہوں پرندوں کے آس پاس
جنگل میں چھت بناتا ہوں جا کر کسی جگہ
منصور اس گلی میں تو آتی نہیں ہے دھوپ
گھر ڈھونڈھ کوئی مین سڑک پر کسی جگہ
٭٭٭
پاؤں کی وحشت بچھاتی جا رہی ہے راستہ
جیپ جنگل میں بناتی جا رہی ہے راستہ
احتراماً چل رہا ہوں میں سڑک کے ساتھ ساتھ
اور سڑک ہے کہ بڑھاتی جا رہی ہے راستہ
اک بڑی اونچی پہاڑی رفتہ رفتہ ہاتھ سے
میرے پاؤں میں گراتی جا رہی ہے راستہ
سوچتا ہوں میری پُر آشوب بستی کس لئے
اپنا دریا سے ملاتی جا رہی ہے راستہ
پیچھے پیچھے پاؤں اٹھتے جا رہے ہیں شوق میں
آگے آگے وہ بتاتی جا رہی ہے راستہ
رہ بناتا جا رہا ہوں وقت میں منصور میں
عمر کی آندھی اڑاتی جا رہی ہے راستہ
٭٭٭
ردیف ی
چراغ ہو گیا بدنام کچھ زیادہ ہی
کہ جل رہا تھا سرِ بام کچھ زیادہ ہی
ترے بھلانے میں میرا قصور اتنا ہے
کہ پڑ گئے تھے مجھے کام کچھ زیادہ ہی
میں کتنے ہاتھ سے گزرا یہاں تک آتے ہوئے
مجھے کیا گیا نیلام کچھ زیادہ ہی
ملال تری جدائی کا بے پنہ لیکن
فسردہ ہے یہ مری شام کچھ زیادہ ہی
تمام عمر کی آوارگی بجا لیکن
لگا ہے عشق کا الزام کچھ زیادہ ہی
بس ایک رات سے کیسے تھکن اترتی ہے
بدن کو چاہئے آرام کچھ زیادہ ہی
سنبھال اپنی بہکتی ہوئی زباں منصور
تُو لے رہا ہے کوئی نام کچھ زیادہ ہی
٭٭٭
تم کیسے اجالوں کا گزر بند کرو گی
کس چیز میں سورج کو نظر بند کرو گی
یہ کیا کہ چہکتے ہوئے رازوں کی گلی میں
ٹوٹی ہوئی بوتل کو بھی سر بند کرو گی
چھپ جاؤ گی تم ذات کے تہہ خانے میں لیکن
کیسے کسی احساس کا در بند کرو گی
یہ تیرے مکان کا کوئی دروازہ نہیں ہیں
کیسے مرے جذبوں کا سفر بند کرو گی
منصور پلٹ جائے گا دستک نہیں دیگا
تم ذات کا دروازہ اگر بند کرو گی
٭٭٭
اک شخص نے ہونٹوں سے کوئی نظم کہی تھی
ہے یاد مجھے بوسوں بھری سات مئی تھی
میں انگلیاں بالوں میں یونہی پھیر رہا تھا
وہ کمرے کی کھڑکی سے مجھے دیکھ رہی تھی
اس شخص کے گھر وہی حالت تھی مگر اب
بِڈ روم کی دیوار پہ تصور نئی تھی
آئی ہے پلٹ کر کئی صدیوں کے سفر سے
اس گیٹ کے اندر جو ابھی کار گئی تھی
موسم کے تغیر نے لکھا مرثیہ اس کا
منصور ندی مل کے جو دریا سے بہی تھی
٭٭٭
عشق میں مبتلا ہوں ویسے ہی
میں کسی سے ملا ہوں ویسے ہی
آج میرا بہت برا دن تھا
یار سے لڑ پڑا ہوں ویسے ہی
اس لئے آنکھ میں تھکاوٹ ہے
ہر طرف دیکھتا ہوں ویسے ہی
بارشِ سنگ ہوتی رہتی ہے
آسماں لیپتا ہوں ویسے ہی
مجھ کو لا حاصلی میں رہنا ہے
میں تجھے سوچتا ہوں ویسے ہی
ایک رہرو سے پوچھتے کیا ہو
اک ذرا رک گیا ہوں ویسے ہی
مجھ کو جانا نہیں کہیں منصور
تار پر چل رہا ہوں ویسے ہی
٭٭٭
آشنا سا لگتا ہے اپنی پُر خواب چاپ سے کوئی
ہے مرے تعاقب میں ،نیند کے بس سٹاپ سے کوئی
موسمِ جدائی کی تنگ تھا زرد سی طوالت سے
رُت خرید لایا ہے وصل کی ، لمس شاپ سے کوئی
قوس قوس آوازیں دور تک دائرے بناتی تھیں
لکھ رہا تھا کمرے میں گیت سا کیا الاپ سے کوئی
رقص کے الاؤ میں ڈوب کر پاؤں سے کلائی تک
جل اٹھا تھا ڈھولک کی نرم سی تیز تھاپ سے کوئی
سردیوں کی برفانی صبح میں گرم گرم سے بوسے
پھینکتا تھا ہونٹوں کی برف سی سرد بھاپ سے کوئی
جو کہیں نہیں موجود ، روح کے آس پاس میں منصور
پوچھتا رہا اس کا ، دیر تک اپنے آپ سے کوئی
٭٭٭
کلی لبادۂ تزئین سے نکل آئی
سفید آگ سیہ جین سے نکل آئی
دکھائی فلم کسی نے وصال کی پہلے
پھر اس کے بعد وہ سکرین سے نکل آئی
بلا کا دکھ تھا کسی قبر کا مجھے لیکن
بہار پھول کی تدفین سے نکل آئی
اسے خرید لیا مولوی کفایت نے
جو نیکی سیٹھ کرم دین سے نکل آئی
گزر ہوا ہے جہاں سے بھی فوج کا منصور
زمین گھاس کے قالین سے نکل آئی
٭٭٭
ساری پوشاک خون سے تر تھی ، دور سے بھی دکھائی دیتی تھی
جانے کیوں میری بے گناہی کی پھر بھی بستی گواہی دیتی تھی
دن نکلتے ہی بجنے لگتا تھا ایک ڈھولک کا کیروا مجھ میں
رات بھر وائلن کے ہونٹوں سے بھیرویں سی سنائی دیتی تھی
ایک ہوتی تھی تجھ سی شہزادی ا لف لیلیٰ کی داستانوں میں
جو گرفتاریوں کے موسم میں قیدیوں کو رہائی دیتی تھی
ایک امید مجھ میں ہوتی تھی ، خواب بوتی تھی پھول کھلتے تھے
تیلیاں توڑتی قفس کی تھی آسماں تک رسائی دیتی تھی
ایک ٹوٹے ہوئے کواٹر میں وہ تمنا بھی مر گئی آخر
وہ جو منصور کے تخیل کو شوقِ عالم پناہی دیتی تھی
کیا کہوں کھو گئی کہاں مجھ سے شام ہوتے ہی جو بڑے دل سے
موتیے کے سفید گجروں کو اپنی نازک کلائی دیتی تھی
ایک کیفیتِ عدم جس میں جنتِ خواب کے خزانے تھے
روح کل کی شراب سے بھر کر وہ بدن کی صراحی دیتی تھی
٭٭٭
عمر دھوئیں سے پیلی ہو گی
یہ لکڑی بھی گیلی ہو گی
موت مرا معمول رہے گا
کوئی کہاں تبدیلی ہو گی
پھیل رہا ہے سرد رویہ
رات بڑی برفیلی ہو گی
ہجر کا اپنا ایک نشہ ہے
غم کی شام نشیلی ہو گی
میں نے سگریٹ سلگانا ہے
ماچس میں اک تیلی ہو گی
غالب کے قہوہ خانے میں
بات ذرا تفصیلی ہو گی
اچھی طرح سے بال سکھا لے
تیز ہوا سردیلی ہو گی
ہفتوں بعد ہے نکلا سورج
دھوپ بہت نوکیلی ہو گی
کال آئی ہے امریکہ سے
موسم میں تبدیلی ہو گی
گرم دسمبر کے پہلو میں
جسم کی آگ لجیلی ہو گی
نوٹ پیانو کے سُن سُن کر
رم جھم اور سریلی ہو گی
دن بھی ہو گا آگ بلولا
رات بھی کالی نیلی ہو گی
اک اتوار ملے گی مجھ سے
اور بڑی شرمیلی ہو گی
شعر بنانا چھوڑ دے لیکن
یہ منصور بخیلی ہو گی
٭٭٭
اتاریں اب بدن کی شرم تھوڑی سی
محبت ہے تو ہو کنفرم تھوڑی سی
ضروری ہے لہو میں آگ بھی لیکن
سبک اندام تھوڑی ، نرم تھوڑی سی
چل اپنے سادہ و معصوم سے دل پر
چڑھا لے بھیڑے کی چرم تھوڑی سی
اب اپنا قتل کرنا چاہتا ہوں میں
اجازت دے مجھے اے دھرم تھوڑی سی
’’بیا جاناں ‘‘ ’’بصد سامانِ رسوائی‘‘
خموشی ہے ، خبر ہو گرم تھوڑی سی
کسی کے نرم و نازک جسم سے مل کر
ہوئی ہے آتما بھی پرم تھوڑی سی
سکوتِ شام جیسی ایک دوشیزہ
محبت میں ہوئی سرگرم تھوڑی سی
٭٭٭
بس کسی اعتراض میں رکھ دی
جاں لباس مجاز میں رکھ دی
رات کھولے تھے کچھ پرانے خط
پھر محبت دراز میں رکھ دی
یادِ یاراں نے پھر وہ چنگاری
ایک مردہ محاذ میں رکھ دی
یوں تو سب کچھ کہا مگر اس نے
راز کی بات راز میں رکھ دی
تان لی تھی رقیب پر بندوق
ربطِ جاں کے لحاظ میں رکھ دی
کس نے تیرے خیال کی دھڑکن
دست طبلہ نواز میں رکھ دی
شرٹ ہینگر پہ ٹانک دی میں نے
اور لڑکی بیاض میں رکھ دی
اس نے پستی گناہ کی لیکن
ساعتِ سرفراز میں رکھ دی
مرنے والا نشے میں لگتا تھا
کیسی مستی نماز رکھ دی
رات آتش فشاں پہاڑوں کی
اپنے سوز و گداز میں رکھ دی
کس نے سورج مثال تنہائی
میری چشم نیاز میں رکھ دی
داستاں اور اک نئی اس نے
میرے غم کے جواز میں رکھ دی
مسجدوں میں دھمال پڑتی ہے
کیفیت ایسی ساز میں رکھ دی
پھر ترے شاعرِ عجم نے اسد
نظم صحنِ عکاظ میں رکھ دی
کس نے پہچان حسن کی منصور
دیدۂ عشق باز میں رکھ دی
٭٭٭
بڑی اداس بڑی بے قرار تنہائی
ذرا سے شہر میں ہے بے شمار تنہائی
مجھے اداسیاں بچپن سے اچھی لگتی ہیں
مجھے عزیز مری اشکبار تنہائی
فراق یہ کہ وہ آغوش سے نکل جائے
وصال یہ کرے بوس و کنار تنہائی
پلٹ پلٹ کے مرے پاس آئی وحشت سے
کسی کو دیکھتے ہی بار بار تنہائی
مرے مزاج سے اس کا مزاج ملتا ہے
میں سوگوار۔۔۔ تو ہے سوگوار تنہائی
کوئی قریب سے گزرے تو جاگ اٹھتی ہے
شبِ سیہ میں مری جاں نثار تنہائی
مجھے ہے خوف کہیں قتل ہی نہ ہو جائے
یہ میرے غم کی فسانہ نگار تنہائی
نواح جاں میں ہمیشہ قیام اس کا تھا
دیارِ غم میں رہی غمگسار تنہائی
ترے علاوہ کوئی اور ہم نفس ہی نہیں
ذرا ذرا مجھے گھر میں گزار تنہائی
یونہی یہ شہر میں کیا سائیں سائیں کرتی ہے
ذرا سے دھیمے سروں میں پکار تنہائی
نہ کوئی نام نہ چہرہ نہ رابطہ نہ فراق
کسی کا پھر بھی مجھے انتظار ، تنہائی
٭٭٭
جو وجہ وصل ہوئی سنگسار تنہائی
تھی برگزیدہ ، تہجد گزار تنہائی
مری طرح کوئی تنہا اُدھر بھی رہتا ہے
بڑی جمیل ، افق کے بھی پار تنہائی
کسی سوار کی آمد کا خوف ہے ،کیا ہے
بڑی سکوت بھری، کوئے دار، تنہائی
دکھا رہی ہے تماشے خیال میں کیا کیا
یہ اضطراب و خلل کا شکار تنہائی
بفیضِ خلق یہی زندگی کی دیوی ہے
کہ آفتاب کا بھی انحصار تنہائی
اگرچہ زعم ہے منصور کو مگر کیسا
تمام تجھ پہ ہے پروردگار تنہائی
٭٭٭
سونی سونی پورٹ کی جھلمل چھوڑ گئی تھی
آنکھ کھلی تو فیری ساحل چھوڑ گئی تھی
فلم کا ہیرو دیکھ کے بھولی بھالی لڑکی
سینما ہال کی کرسی پر دل چھوڑ گئی تھی
شاید ملک سے باہر ننگ زیادہ تھا کچھ
مزدوروں کو کپڑے کی مل چھوڑ گئی تھی
اس نے میرے ہاتھ پہ رکھا تھا اک وعدہ
جاتے ہوئے کچھ اور مسائل چھوڑ گئی تھی
میں نے اپنے جسم سے پردہ کھنچ لیا تھا
اور مجھے پھر ساری محفل چھوڑ گئی تھی
گھر لوٹنے میں اک ذرا تاخیر کیا ہوئی
سب کچھ بدل کے رہ گیا تقصیر کیا ہوئی
کمرے میں سن رہا ہوں کوئی اجنبی سی چاپ
دروازے پر لگی ہوئی زنجیر کیا ہوئی
وہ درد کیا ہوئے جنہیں رکھا تھا دل کے پاس
وہ میز پر پڑی ہوئی تصویر کیا ہوئی
جو گیت لا زوال تھے وہ گیت کیا ہوئے
وہ ریت پر وصال کی تحریر کیا ہوئی
ہر صبح دیکھتا ہوں میں کھڑکی سے موت کو
گرتے ہوئے مکان کی تعمیر کیا ہوئی
منصور اختیار کی وحشت کے سامنے
یہ جبرِ کائنات یہ تقدیر کیا ہوئی
٭٭٭
ایک ٹوٹی ہوئی مسجد میں رہائش کیا تھی
مجھ سے موسیٰ کو ملاقات کی خواہش کیا تھی
شامیانوں سے نگر ڈھانپ رہی تھی دنیا
حاکمِ شہر کی جادو بھری بارش کیا تھی
اپنے خالق کی بھی تفہیم وہ رکھ سکتا تھا
مجھ سے مت پوچھ کہ روبوٹ کی دانش کیا تھی
ناچتی پھرتی تھی اک نیم برہنہ ماڈل
خالی بوتیک تھا کپڑوں کی نمائش کیا تھی
جل گئی تھی مری آغوش گلوں سے منصور
رات وہ بوسہِِ سرگرم کی سازش کیا تھی
٭٭٭
پہلو میں آ کہ اپنا ہو عرفان سائیکی
یہ رات چاند رات ہے کم آن سائیکی
میرے سگار میں رہے جلتے تمام عمر
احساس ، خواب ، آگہی ، وجدان ، سائیکی
اٹکا ہوا ہے خوف کے دھڑمیں مرا دماغ
وحشت زدہ خیال ، پریشان سائیکی
باہر مرے حریمِ حرم سے نکل کے آ
اپنے چراغِ طور کو پہچان سائیکی
رستہ نجات کا ترے لاکٹ میں بند ہے
باہر کہیں نہیں کوئی نروان سائیکی
لاکھوں بلیک ہول ہیں مجھ میں چھپے ہوئے
میری خلاؤں سے بھی ہے سنسان سائیکی
کیا توُ برہنہ پھرتی ہے میری رگوں کے بیچ
میرے بدن میں کیسا ہے ہیجان سائیکی
یہ حسرتیں یہ روگ یہ ارماں یہ درد و غم
کرتی ہو جمع میر کا دیوان ، سائیکی
٭٭٭
گرا کے پھول اٹھائے کوئی کڑی تھل کی
کھلے گلے کی پہن کر قمیض ململ کی
ابھی تو پاؤں میں باقی ہے ہجر کا ہفتہ
پڑی ہے راہ ابھی ایک اور منگل کی
حنائی ہاتھ پہ شاید پلیٹ رکھی تھی
ہوا کے جسم سے خوشبو اٹھی تھی چاول کی
بچھی ہوئی ہیں سحر خیزیوں تلک آنکھیں
ملی ہوئی ہے شبوں سے لکیر کاجل کی
لیا ہے شام کا شاور ابھی ابھی کس نے
گلی میں آئی ہے خوشبو کہاں سے جل تھل کی
شفق کے لان میں صدیوں سے شام کی لڑکی
بجا رہی ہے مسلسل پرات پیتل کی
نکھر نکھر گیا کمرے میں رنگ کا موسم
ذرا جو شال بدن کے گلاب سے ڈھلکی
کسی کو فتح کیا میں نے پیاس کی رت میں
اڑے جو کارک تو شمپین جسم پر چھلکی
چھتوں پہ لوگ اٹھائے ہوئے تھے بندوقیں
تمام شہر پہ اتری تھی رات جنگل کی
جھلس گیا تھا دسمبر کی رات میں منصور
وہ سرسراتی ہوئی آگ تیرے کمبل کی
٭٭٭
وہ بر گزیدہ خطا رات عاصیوں سے ہوئی
کہ اوس اوس کلی بے لباسیوں سے ہوئی
ہر ایک صبح منور ہوئی ترے غم سے
ہر ایک شام فروزاں اداسیوں سے ہوئی
میں کھوجنے کے عمل میں شکار اپنا ہوا
مری اکیلگی چہرہ شناسیوں سے ہوئی
لپک کے بھاگ بھری نے کسی کو چوم لیا
گھٹا کی بات جو روہی کی پیاسیوں سے ہوئی
بہت سے داغ اجالوں کے رہ گئے منصور
جہاں میں رات عجب بدحواسیوں سے ہوئی
٭٭٭
وہ بوند بوند گلِ ناف کر رہا ہے کوئی
شبِ فراق کا اصراف کر رہا ہے کوئی
نکھرتی جاتی ہے شبنم اداس آنکھوں میں
کسی گلاب کو سی آف کر رہا ہے کوئی
گرا رہے ہیں در و بام چند بلڈوزر
سنا ہے شہر مرا ، صاف کر رہا ہے کوئی
بتا رہا ہے بدن کی نزاکتوں کا ناپ
بیان حسن کے اوصاف کر رہا ہے کوئی
بڑھا رہا ہے سرِشام وصل کی خواہش
وہ روشنی کا سوئچ آف کر رہا ہے کوئی
بڑھا رہا ہے محبت کے وائرس منصور
شبِ وصال سے انصاف کر رہا ہے کوئی
٭٭٭
ہر قدم پر کوئی دیوار کھڑی ہونی تھی
میں بڑا تھا میری مشکل بھی بڑی ہونی تھی
اس نے رکھنی ہی تھیں ہر گام پہ برفاب شبیں
میں مسافر تھا مسافت تو کڑی ہونی تھی
ہجر کی سالگرہ اور مسلسل سورج
آج تو دس تھی دسمبر کی جھڑی ہونی تھی
صبحِ تقریب! ذرا دیر ہوئی ہے ورنہ
یہ گھڑی اپنے تعارف کی گھڑی ہونی تھی
اور کیا ہونا تھا دروازے سے باہر منصور
دن رکھا ہونا تھا یا رات پڑی ہونی تھی
٭٭٭
ردیف ے
وہ شب و روز خیالوں میں تماشا نہ کرے
آ نہیں سکتا تو پھر یاد بھی آیا نہ کرے
ایک امید کی کھڑکی سی کھلی رہتی ہے
اپنے کمرے کا کوئی ، بلب بجھایا نہ کرے
روز ای میل کرے سرخ اِمج ہونٹوں کے
میں کسی اور ستارے پہ ہوں ، سوچا نہ کرے
حافظہ ایک امانت ہے کسی کی لیکن
یاد کی سرد ہو ا شام کو رویا نہ کرے
چاند کے حسن پہ ہر شخص کا حق ہے منصور
میں اسے کیسے کہوں رات کو نکلا نہ کرے
٭٭٭
دل کو کچھ دن اور بھی برباد رکھنا چاہئے
اور کچھ اس بے وفا کو یاد رکھنا چاہئے
کونج کی سسکاریاں کانوں میں اتریں تو کھلا
گھر بڑی شے ہے اسے آباد رکھنا چاہئے
ریل میں جس سے ہوئی تھی یونہی دم بھر گفتگو
خوبصورت آدمی تھا ، یاد رکھنا چاہئے
موسم گل ہے کہیں بھی لڑکھڑا سکتا ہے دل
ہر گھڑی اندیشۂ افتاد رکھنا چاہئے
مت پکڑ منصور پتوں میں یہ چھپتی تیتری
ایسی نازک چیز کو آزاد رکھنا چاہئے
٭٭٭
میں خود پہلو میں ہوں اپنے بدن اپنا مکمل ہے
اسے کہنا بغیر اس کے مری دنیا مکمل ہے
گلی کی برف پر کھنچیں لکیریں بے خیالی میں
ادھورے نقش ہیں کچھ کچھ مگر چہرہ مکمل ہے
ابھی تیرے بدن سے میری خوشبو ہی نہیں آتی
ادھوری ہے وفا ، اپنی محبت نامکمل ہے
لکیر اپنے لہو کی ہے مگر ان دونوں ٹکڑوں میں
خزانے تک پہنچنے کا تو اب نقشہ مکمل ہے
کسی کی سرخ فائل کا پڑھا ہے ایک اک صفحہ
مجھے دفتر میں جتنا کام کرنا تھا مکمل ہے
بلا کی خوبصورت ہے کہیں صدیوں کی خاموشی
ہے بے مفہوم سا چہرہ مگر کتنا مکمل ہے
محبت کا سفر بھی کیا کرشمہ ساز ہے منصور
ادھر منزل نہیں آئی ادھر رستہ مکمل ہے
٭٭٭
بھر گئی تھی بیسمنٹ نیکیوں کے شور سے
کہہ رہا تھا کون کیا ساتویں فلور سے
نیم گرم دودھ کے ٹب میں میرے جسم کا
روشنی مساج کر اپنی پور پور سے
زاویہ وصال کا رہ نہ جائے ایک بھی
شاد کام جسم ہو لمس کے سکور سے
فاختہ کے خون سے ہونٹ اپنے سرخ رکھ
فائروں کے گیت سن اپنی بارہ بور سے
بام بام روشنی پول پول لائٹیں
رابطے رہے نہیں چاند کے چکور سے
وحشتِ گناہ سے نوچ لے لباس کو
نیکیوں کی پوٹلی کھول زور زورسے
واعظوں کی ناف پر کسبیوں کے ہاتھ ہیں
کوتوالِ شہر کی دوستی ہے چور سے
شیر کے شکار پر جانے والی توپ کی
رات بھر بڑی رہی بات چیت مور سے
٭٭٭
گھونٹ بھرا چائے کا تیرے گھر کچھ دیر رکے
جیسے موٹر وے کی سروس پر کچھ دیر رکے
حیرانی سے لوگ بھی دیکھیں میری آنکھ کے ساتھ
کیمرہ لے کے آتا ہوں ۔۔ منظر کچھ دیر رکے
اتنی رات گئے تک کس ماں کے پہلو میں تھا
کتے کا بچہ اور اب باہر کچھ دیر رکے
کیسی کیسی منزل ہجرت کرتی آتی ہے
دیس سے آنے والی راہ گزر کچھ دیر رکے
وہ منصور کبھی تو اتنی دیر میسر ہو
اس کی جانب اٹھے اور نظر کچھ دیر رکے
٭٭٭
فراق بیچتے کیسے ، پلان کیا کرتے
بدن کے شہر میں دل کی دکان کیا کرتے
ہمیں خبر ہی نہ تھی رات کے اترنے کی
سو اپنے کمرے کا ہم بلب آن کیا کرتے
نکل رہی تھی قیامت کی دھوپ ایٹم سے
یہ کنکریٹ بھرے سائبان کیا کرتے
تھلوں کی ریت پہ ٹھہرے ہوئے سفینے پر
ہوا تو تھی ہی نہیں بادبان کیا کرتے
بدن کا روح سے تھا اختلاف لیکن ہم
خیال و واقعہ کے درمیان کیا کرتے
دکھائی دیتا تو تشکیک کیوں جنم لیتی
یقین ہوتا ہمیں تو گمان کیا کرتے
٭٭٭
یہ سچ کی آگ پرے رکھ مرے خیالوں سے
بھرا ہوا ہوں سلگتے ہوئے سوالوں سے
مکانِ ذات کے دیمک زدہ کواڑ کھلے
بھری ہوئی ہیں چھتیں مکڑیوں کے جالوں سے
مجھے پسند ہے عورت ، نماز اور خوشبو
انہی کو چھینا گیا ہے مرے حوالوں سے
عمل کے اسم سے بابِ طلسم کھلنا ہے
اتار رینگتی صدیوں کا زنگ تالوں سے
بھٹک رہا ہے سرابوں کی شکل میں پانی
قضا ہوا کوئی چشمہ کہیں غزالوں سے
نہ مانگ وقت کی باریش چھاؤں سے دانش
لٹکتے کب ہیں ثمر برگدوں کے بالوں سے
ق
بدل رہی ہے کچھ ایسے گلوب کی گردش
ڈرے ہوئے ہیں ستارے خود اپنی چالوں سے
مکاں بھی اپنے مکینوں سے اب گریزاں ہیں
گلی بھی خود کو چھپاتی ہے چلنے والوں سے
وہ تیرگی کہ لرزتے ہیں بام و در شب کے
وہ روشنی ہے کہ سورج ڈرے اجالوں سے
یہ روز و شب ہیں تسلسل سے منحرف منصور
یہ ساعتیں کہ الگ ہو گئی ہیں سالوں سے
٭٭٭
فروغِ کُن کو صوتِ صورِاسرافیل ہونا ہے
پہاڑوں کا بھی اب جغرافیہ تبدیل ہونا ہے
زمیں پر خیر و شر کے آخری ٹکراؤ تک مجھ کو
کبھی ہابیل ہونا ہے کبھی قابیل ہونا ہے
کہاں معلوم ہوتا ہے تماشا ہونے سے پہلے
کسے پردے میں رہنا ہے کسے تمثیل ہونا ہے
ابھی تعلیم لینی ہے محبت کی ، ابھی میں نے
بدن کے مدرسے سے فارغ التحصیل ہونا ہے
کوئی ہے نوری سالوں کی طوالت پر کہیں منصور
مجھے رفتار سر کرتی ہوئی قندیل ہونا ہے
٭٭٭
رک گئے پیر فرید اور وارث باہو چلتے چلتے
لفظ کے در پر جب آئے ہم سادھو چلتے چلتے
یاد تھکن ہے ایک سڑک کی ،یاد ہے دکھ کا رستہ
بیٹھ گیا تھا میرے کاندھوں پر توُ چلتے چلتے
تیرا میرا نام بھی شاید لافانی کر جائے
برگد کے مضبوط تنے پر چاقو چلتے چلتے
وار قیامت خیز ہوئے دو دھاری تلواروں کے
رخساروں کو چیر گئے ہیں آنسو چلتے چلتے
ایک محل کے بند کواڑوں سے منصور نکل کر
میرے صحن تلک آئی ہے خوشبو چلتے چلتے
٭٭٭
وہ چوک میں کھڑا ہے پھریرا لئے ہوئے
یہ اور بات فوج ہے گھیرا لئے ہوئے
آنکھیں کہ رتجگوں کے سفر پر نکل پڑیں
اک دلنواز خواب سا تیرا لئے ہوئے
اللہ کے سپرد ہے خانہ بدوش دوست
وہ اونٹ جا رہے ہیں ’’ بسیرا ‘‘لئے ہوئے
اندر کا حبس دیکھ کے سوچا ہے بار بار
مدت ہوئی ہے شہر کا پھیرا لئے ہوئے
چلتے رہے ہیں ظلم کی راتوں کے ساتھ ساتھ
آنکھوں میں مصلحت کا اندھیرا لئے ہوئے
رہنا نہیں ہے ٹھیک کناروں کے آس پاس
پھرتا ہے اپنا جال مچھیرا لئے ہوئے
گردن تک آ گئے ہیں ترے انتظار کے
لمبے سے ہاتھ ، جسم چھریرا لئے ہوئے
لوگوں نے ڈھانپ ڈھانپ لیا درز درز کو
منصور پھر رہا تھا سویرا لئے ہوئے
٭٭٭
ساتھ نہ تھا کوئی اپنے ساتھ سے پہلے
دھند تھی دنیا شعورِ ذات سے پہلے
بزمِ سخن میں اک تارہ بول پڑا تھا
غم کی تلاوت تھی ، حمد و نعت سے پہلے
نیند بھری رات ! انتظار کسی کا
ہوتا تھا ترکِ تعلقات سے پہلے
کہتے ہیں خالی نگر میں رہتی ہیں روحیں
لوٹ ہی جائیں آ گھر کو ، رات سے پہلے
کیسا تھا سناٹا تیرے عہدِ عدم میں
کیسی خموشی تھی پہلی بات سے پہلے
خواب تھے پنہاں شکستِ زعم میں شاید
فتح کی باتیں کہاں تھیں مات سے پہلے
٭٭٭
تیرے کرنوں والے ہٹ میں رات کرنا چاہتی ہے
ساحلوں پر زندگی سن باتھ کرنا چاہتی ہے
اپنے بنگلوں کے سوئمنگ پول کی تیراک لڑکی
میرے دریا میں بسر اوقات کرنا چاہتی ہے
وقت کی رو میں فراغت کا نہیں ہے کوئی لمحہ
اور اک بڑھیا کسی سے بات کرنا چاہتی ہے
چاہتا ہوں میں بھی بوسے کچھ لبوں کی لاٹری کے
وہ بھی ملین پونڈ کی برسات کرنا چاہتی ہے
مانگتا پھرتا ہوں میں بھی لمس کا موسم کہیں سے
وہ بھی اپنے جسم کی خیرات کرنا چاہتی ہے
٭٭٭
کتاب ہاتھ میں ہے اور کج ، کلاہ میں ہے
مگر دماغ ابو جہل کی سپاہ میں ہے
بلند بام عمارت ! تری ہر اک منزل
مقام ِ صفر کی بے رحم بارگاہ میں ہے
پڑی ہے ایش ٹرے میں سلگتے لمس کی راکھ
ملن کی رات ابھی عرصۂ گناہ میں ہے
بھٹکتا پھرتا ہوں ظلمات کے جزیرے میں
بلا کی رات کسی دیدۂ سیاہ میں ہے
رکا نہیں ہوں کسی ڈاٹ کا م پر منصور
گلوب پاؤں تلے تو خلا نگاہ میں ہے
٭٭٭
کوئی نرم نرم سی آگ رکھ مرے بند بند کے سامنے
چلے فلم کوئی وصال کی دلِ ہجر مند کے سامنے
یہ عمل ومل کے کمال چپ ، یہ ہنروری کے جمال چپ
یہ ہزار گن سے بھرے ہیں کیا ، ترے بھاگ وند کے سامنے
کھلی کھڑکیوں کے فلیٹ سے ذرا جھانک شام کو روڈ پر
ترے انتظار کی منزلیں ہیں مری کمند کے سامنے
کئی ڈاٹ کام نصیب تھے جسے زینہ زینہ معاش کے
وہ منارہ ریت کا دیوتا تھا اجل پسند کے سامنے
ابھی اور پھینک ہزار بم ، مرے زخم زخم پہاڑ پر
کوئی حیثیت نہیں موت کی ، کسی سر بلند کے سامنے
٭٭٭
ہجر کو تاپتے تاپتے جسم سڑنے لگا ہے
اس لِونگ روم کا وال پیپر اکھڑنے لگا ہے
گھر کے باہر گلی میں بھی بکھرے ہیں پتے خزاں کے
کیسا تنہائی کے پیڑ سے درد جھڑنے لگا ہے
خواب جیسے دریچے میں آتی ہے دوشیزہ کوئی
کچھ دنوں سے مرا چاند پر ہاتھ پڑنے لگا ہے
اک توبالشتیے ہم ، پلازوں کی اونچائی میں ہیں
دوسرا شہر میں آسماں بھی سکڑنے لگا ہے
آندھیاں اور بھی تیز رفتار ہونے لگی ہیں
اب تو یہ لگ رہا ہے کہ خیمہ اکھڑنے لگا ہے
٭٭٭
آسماں کے حرا پہ اترا ہے
اک محمد خدا پہ اترا ہے
بول ! زنجیر ریل گاڑی کی
کون کیسی جگہ پہ اترا ہے
سوچتا ہوں کہ رحم کا بادل
کب کسی کربلا پہ اترا ہے
کس کے جوتے کا کھردرا تلوا
سدرۃالمنتہیٰ پہ اترا ہے
خیر کی آرزو نہ راس آئی
قہر دستِ دعا پہ اترا ہے
جھونک دے گی ہر آنکھ میں منصور
راکھ کا دکھ ہوا پہ اترا ہے
٭٭٭
گنبدوں سی کچھ اٹھانیں یاد آتی ہیں مجھے
گفتگو کرتی چٹانیں یاد آتی ہیں مجھے
میرے گھر میں تو کوئی پتیل کا برتن بھی نہیں
کس لئے سونے کی کانیں یاد آتی ہیں مجھے
ان نئی تعمیر کردہ مسجدوں کو دیکھ کر
کیوں شرابوں کی دکانیں یاد آتی ہیں مجھے
یاد آتی ہے مجھے اک شیرنی سے رسم و راہ
اور دریچوں کی مچانیں یاد آتی ہیں مجھے
سیکھتی تھی کوئی اردو رات بھر منصور سے
ایک ہوتی دو زبانیں یاد آتی ہیں مجھے
٭٭٭
وہ لپیٹ کر نکلی تولیے میں بال اپنے
بوند بوند بکھرے تھے ہر طرف خیال اپنے
درد کے پرندوں کو آنکھ سے رہائی دے
دیکھ دل کے پنجرے میں رو پڑے ملال اپنے
یہ صدا سنائی دے کوئلے کی کانوں سے
زندگی کے چولہے میں جل رہے ہیں سال اپنے
کسِ نے بند کرنے اور کھولنے کی خواہش میں
جنیز کے اٹیچی میں بھر دئیے جمال اپنے
قتل تو ڈرامے کا ایکٹ تھا کوئی منصور
کس لئے لہو سے ہیں دونوں ہاتھ لال اپنے
٭٭٭
حرکت ہر ایک شے کی معطل دکھائی دے
جاگا ہوا نگر بھی مجھے شل دکھائی دے
آتے ہوئے منٹ کی طوالت کا کیا کہوں
گزری ہوئی صدی تو مجھے پل دکھائی دے
پلکوں کے ساتھ ساتھ فلک پر کہیں کہیں
مجھ کو کوئی ستارہ مسلسل دکھائی دے
برسات کی پھوار برہنہ کرے تجھے
تیرے بدن پہ ڈھاکہ کی ململ دکھائی دے
پیچھے زمین ٹوٹ کے کھائی میں گر پڑی
آگے تمام راستہ دلدل دکھائی دے
ہجراں کی رات نرم ملائم کچھ اتنی ہے
مجھ کو ترا خیال بھی بوجھل دکھائی دے
٭٭٭
زیادہ بے لباسی کے سخن اچھے نہیں ہوتے
جو آسانی سے کھلتے ہیں بٹن اچھے نہیں ہوتے
کئی اجڑے ورق خوشبو پسِ ملبوس رکھتے ہیں
کئی اچھی کتابوں کے بدن اچھے نہیں ہوتے
کبھی ناموں کے پڑتے ہیں غلط اثراتٰ قسمت پر
کبھی لوگوں کی پیدائش کے سن اچھے نہیں ہوتے
غزالوں کے لئے اپنی زمینیں ٹھیک رہتی ہیں
جو گلیوں میں نکل آئیں ہرن اچھے نہیں ہوتے
محبت کے سفر میں چھوڑ دے تقسیم خوابوں کی
کسی بھی اک بدن کے دو وطن اچھے نہیں ہوتے
بڑی خوش چہرہ خوشبو سے مراسم ٹھیک ہیں لیکن
گلابوں کے بسا اوقات من اچھے نہیں ہوتے
٭٭٭
اک سین دیکھتے ہیں زمیں پر پڑے پڑے
پتھرا گئے ہیں فلم میں منظر پڑے پڑے
کیسا ہے کائنات کی تہذیبِ کُن کا آرٹ
شکلیں بدلتے رہتے ہیں پتھر پڑے پڑے
اے زلفِ سایہ دار تری دوپہر کی خیر
جلتا رہا ہوں چھاؤں میں دن بھر پڑے پڑے
ویراں کدے میں جھانکتے کیا ہو نگاہ کے
صحرا سا ہو گیا ہے سمندر پڑے پڑے
سوچا تھا منتظر ہے مرا کون شہر میں
دیکھا تو شام ہو گئی گھر پر، پڑے پڑے
شکنوں کے انتظار میں اے کھڑکیوں کی یار
بوسیدہ ہو گیا مرا بستر پڑے پڑے
منصور کوئی ذات کا تابوت کھول دے
میں مر رہا ہوں اپنے ہی اندر پڑے پڑے
٭٭٭
کسی لحاف کے موسم کو اوڑھنا ہے مجھے
بدن کی برف کا کچھ زور توڑنا ہے مجھے
کسی سے میلوں پرے بیٹھ کرکسی کے ساتھ
تعلق اپنی نگاہوں کا جوڑنا ہے مجھے
نکالنا ہے غلاظت کو بوٹ کے منہ سے
یہ اپنے ملک کا ناسور پھوڑنا ہے مجھے
کسی کا لمس قیامت کا چارم رکھتا ہے
مگر یہ روز کا معمول توڑنا ہے مجھے
فش اینڈ چپس سے اکتا گیا ہوں اب منصور
بس ایک ذائقے کا وصل چھوڑنا ہے مجھے
٭٭٭
اچھے بزنس مین کی پہچان ہے
ایک بزنس جس میں بس نقصان ہے
دوڑتی پھرتی ہوئی بچی کے پاس
دور تک اک گھاس کا میدان ہے
صبح کی روشن اذاں کے واسطے
میرے کمرے میں بھی روشن دان ہے
پتھروں سے مل نہ پتھر کی طرح
سنگ میں بھی روح کا امکان ہے
موت آفاقی حقیقت ہے مگر
زندگی پر بھی مرا ایمان ہے
٭٭٭
یہ عمر جیل کے اندر گزار سکتے تھے
جو چاہتے تو اسے جاں سے مار سکتے تھے
یہ اور بات کہ راتیں رہی ہیں ہم بستر
ہم اپنے ہاتھ پہ سورج اتار سکتے تھے
بہت تھے کام کسی ڈاٹ کام پر ورنہ
غزل کی زلفِ پریشاں سنوار سکتے تھے
وہ ایک کام جو ممکن تھا رہ گیا افسوس
جو ایک جاں تھی اسے تجھ پہ وار سکتے تھے
ہمیشہ ربط کے پندار کا بھرم رکھا
صباحتِ لب و رخ تو وسار سکتے تھے
یہ بار بند نہ ہوتا تو ہم شرابی لوگ
تمام رات کسینو میں ہار سکتے تھے
کسی سے کی تھی محبت کی بات کیا منصور
کہ ایک مصرعے میں جیسے ہزار سکتے تھے
٭٭٭
کچھ ہڈیاں پڑی ہوئی ، کچھ ڈھیر ماس کے
کچھ گھوم پھر رہے ہیں سٹیچو لباس کے
فٹ پاتھ بھی درست نہیں مال روڈ کا
ٹوٹے ہوئے ہیں بلب بھی چیرنگ کراس کے
پھر ہینگ اوور ایک تجھے رات سے ملا
پھر پاؤں میں سفر وہی صحرا کی پیاس کے
ہنگامۂ شراب کی صبحِ خراب سے
اچھے تعلقات ہیں ٹوٹے گلاس کے
کیوں شور ہو رہا ہے مرے گرد و پیش میں
کیا لوگ کہہ رہے ہیں مرے آس پاس کے
٭٭٭
ننگ کا بھی لباس اگ آئے
کچھ بدن پر کپاس اگ آئے
ہم نفس کیا ہوا سوئمنگ پول
پانیوں میں حواس اگ آئے
آتے جاتے رہو کہ رستے میں
یوں نہ ہو پھر سے گھاس اگ آئے
سوچ کر کیا شجر قطاروں میں
پارک کے آس پاس اگ آئے
گاؤں بوئے نہیں اگر آنسو
شہر میں بھوک پیاس اگ آئے
کوئی ایسی بہار ہو منصور
استخوانوں پہ ماس اگ آئے
٭٭٭
باہر نکل لباس سے کچھ اور دھوم سے
میں آشنا نہیں ہوں بدن کے علوم سے
لگتا ہے تو بھی پارک میں موجود ہے کہیں
مہکی ہوئی ہے شام ترے پرفیوم سے
میں چاہتا ہوں تیرے ستارے پہ ایک شام
ای میل اور بھیج نہ شہرِ نجوم سے
کس نے بنایا وقت کا پہلا کلوز شارٹ
آنکھوں کے کیمرے کے فسوں کار زوم سے
نکلا ہی تھا دماغ سے اک شخص کا خیال
منصور بھر گئیں مری آنکھیں ہجوم سے
٭٭٭
حصارِ جبہ و دستار سے نکل آئے
فقیر ظلم کے دربار سے نکل آئے
دکھائی کیا دیا اک خطِ مستقیم مجھے
کہ دائرے مری پر کار سے نکل آئے
خبر ہو نغمۂ گل کو ، سکوت کیا شے ہے
کبھی جو رنگ کے بازار سے نکل آئے
پہن لے چھاؤں جو میرے بدن کی تنہائی
تو دھوپ سایۂ دیوار سے نکل آئے
ادھر سے نیم برہنہ بدن کے آتے ہی
امامِ وقت ۔ اِ دھر، کار سے نکل آئے
ذرا ہوئی تھی مری دوستی اندھیروں سے
چراغ کتنے ہی اس پار سے نکل آئے
کبھی ہوا بھی نہیں اور ہو بھی ہو سکتا ہے
اچانک آدمی آزار نکل سے آئے
یہ چاہتی ہے حکومت ہزار صدیوں سے
عوام درہم و دینار سے نکل آئے
دبی تھی کوئی خیالوں میں سلطنت منصور
زمین چٹخی تو آثار سے نکل آئے
٭٭٭
لکھنے والوں میں محترم کیا ہے
چیک پہ چلتا ہوا قلم کیا ہے
ہے بلندی کا فوبیا ورنہ
یہ حریم ِ حرم ورم کیا ہے
مسئلے تو ہزار ہیں لیکن
تیری موجودگی میں غم کیا ہے
روز پانی میں ڈوب جاتا ہوں
ایک دریا مجھے بہم کیا ہے
اے سٹیچو بشیر بابا کے
بول کیا ؟ دید کیا ؟ قدم کیا ہے ؟
مرہمِ لمس بے کنار سہی
صحبتِ انتظار کم کیا ہے
٭٭٭
آنکھوں سے منصور شباہت گر جاتی ہے
ٹوٹے جو شیشہ تو صورت گر جاتی ہے
روز کسی بے انت خزاں کے زرد افق میں
ٹوٹ کے مجھ سے شاخِ تمازت گر جاتی ہے
باندھ کے رکھتا ہوں مضبوط گرہ میں لیکن
پاکستانی نوٹ کی قیمت گر جاتی ہے
اک میری خوش وقتی ہے جس کے دامن میں
صرف وہی گھڑیال سے ساعت گر جاتی ہے
لیپ کے سوتا ہوں مٹی سے نیل گگن کو
اٹھتا ہوں تو کمرے کی چھت گر جاتی ہے
ہجر کی لمبی گلیاں ہوں یا وصل کے بستر
کہتے ہیں کہ عشق میں صحت گر جاتی ہے
برسوں ظلِ الہی تخت نشیں رہتے ہیں
خلقِ خدا کی روز حکومت گر جاتی ہے
٭٭٭
پھر شام دشت روح و بدن تک اتار کے
اس نے بچھا دی ریت پہ اجرک اتار کے
کس نے نمازیوں کو بلانے سے پیش تر
رکھا زمیں پہ عرش کا پھاٹک اتار کے
پھرتی ہے رات ایک دئیے کی تلاش میں
باہر نہ جانا چہرے سے کالک اتار کے
کرتی ہیں مجھ سے اگلے جہاں کا مکالمہ
آنکھیں میرے دماغ میں اک شک اتار کے
صدیوں سے دیکھ دیکھ کے شامِ زوال کو
رکھ دی ہے میں نے میز پہ عینک اتار کے
بے رحم انتظار نے آنکھوں میں ڈال دی
دروازے پر جمی ہوئی دستک اتار کے
دیوار پہ لگی ہوئی تصویر یار کی
اک لے گیا دوکان سے گاہک اتار کے
منصور کیا ہوا ہے تعلق کے شہر کی
دل نے پہن لی خامشی ڈھولک اتار کے
٭٭٭
پتھر کے رتجگے میری پلکوں میں گاڑ کے
رکھ دیں ترے فراق نے آنکھیں اجاڑ کے
اتنی کوئی زیادہ مسافت نہیں مگر
مشکل مزاج ہوتے ہیں رستے پہاڑ کے
آنکھوں سے خدو خال نکالے نہ جا سکے
ہر چند پھینک دی تری تصویر پھاڑ کے
یہ پھولپن نہیں ہے کہ سورج کے آس پاس
رکھے گئے ہیں دائرے کانٹوں کی باڑ کے
مٹی میں مل گئی ہے تمنا ملاپ کی
کچھ اور گر پڑے ہیں کنارے دراڑ کے
بے مہر موسموں کو نہیں جانتا ابھی
خوش ہے جو سائباں سے تعلق بگاڑ کے
دو چار دن لکھی تھی جدائی کی سرگزشت
منصور ڈھیر لگ گئے گھر میں کباڑ کے
٭٭٭
دیکھتا ہوں خواب میں تیرے محل کے آئینے
یہ کہاں تک آ گئے ہیں ساتھ چل کے آئینے
میں نے دیواروں پہ تیری شکل کیا تصویر کی
آ گئے کمرے میں آنکھوں سے نکل کے آئینے
آدمی نے اپنی صورت پر تراشے دیوتا
آپ اپنی ہی عبادت کی ، بدل کے آئینے
ساڑھی کے شیشوں میں میرا لمسِ تازہ دیکھ کر
تیرے شانوں سے نظر کے ساتھ ڈھلکے آئینے
آخری نقطے تلک دیکھا تھا اپنی آنکھ میں
اور پھر دھندلا گئے تھے ہلکے ہلکے آئینے
ایک سورج ہے ترے مد مقابل آج رات
دیکھ اس کو دیکھ لیکن کچھ سنبھل کے آئینے
سینۂ شب میں حرارت تھی کچھ اتنی چاند کی
پارہ پارہ ہو گئے ہیں دو پگھل کے آئینے
پھر برہنہ شخصیت ہونے لگی دونوں طرف
جب شرابوں سے بھرے کچھ دیر چھلکے آئینے
٭٭٭
مراسلے دیارِ غیب کے قلی کے دوش پر پڑے رہے
بڑے بڑے بریف کیس شانۂ سروش پر پڑے رہے
پیانو پہ مچلتی انگلیوں کے بولتے سروں کی یاد میں
تمام عمرسمفنی کے ہاتھ چشم و گوش پر پڑے رہے
ہزار ہا کلائیاں بہار سے بھری رہیں ہری رہیں
نصیب زرد موسموں کے دستِ گل فروش پر پڑے رہے
برہنہ رقص میں تھی موت کی کوئی گھڑی ہزار شکر ہے
کہ سات پردے میرے دیدۂ شراب نوش پر پڑے رہے
اٹھا کے لے گئی خزاں تمام رنگ صحن سے حیات کے
کسی نے جو بنائے تھے وہ پھول میز پوش پر پڑے رہے
٭٭٭
یہ مارکر سے لکھا گیٹ پر بڑا کر کے
میں جا رہا ہوں گلی سے معانقہ کر کے
تُو زود رنج ہے دل کا برا نہیں لیکن
فریب دینا ہے خود کو ترا گلہ کر کے
میں کیا بتاؤں شبِ التفات کا قصہ
گلی میں چھوڑ دیا اس نے باولہ کر کے
میں فلم کا کوئی ہیرو نہیں مگر اس کو
بھلا دیا ہے قیامت کا حوصلہ کر کے
سپیڈ میں نے بڑھا دی ہے کار کی منصور
قریب ہونے لگی تھی وہ فاصلہ کر کے
٭٭٭
بزمِ مے نوشاں کے ممبر تو کئی تھے
آئینہ خانے میں سوبر تو کئی تھے
دل ہی کچھ کرنے پہ آمادہ نہیں تھا
ڈائری میں فون نمبر تو کئی تھے
میں نے بچپن میں کوئی وعدہ کیا تھا
ورنہ گاؤں میں حسیں بر تو کئی تھے
صبح تنہائی تھی اور خالی گلاس
ہم زباں ہم رقص شب بھر تو کئی تھے
تیرے آتش دان کی رُت ہی نہیں تھی
لمس کے دھکے دسمبر تو کئی تھے
ایک اک کمرے میں بستر موت کا تھا
آس کی بلڈنگ میں چیمبر تو کئی تھے
گیسوؤں کے آبشار آنکھوں کی جھیلیں
ہم پکھی واسوں کے امبر تو کئی تھے
خاک کا الہام تنہا ایک تُو تھا
آسمانوں کے پیمبر تو کئی تھے
شہر میں منصور بس کوئی نہیں تھا
رونقِ ِ محراب و منبر تو کئی تھے
٭٭٭
یہ چاند یہ چراغ مہیا ہے کس لئے
یہ میری دسترس میں ثریا ہے کس لئے
چلتی ہوئی سڑک پہ زمانہ کہے مجھے
چوکور تیری کار کا پہیہ ہے کس لئے
مجھ سے تو ایک پھول خریدا نہ جا سکا
یہ میرے پاس اتنا روپیہ ہے کس لئے
ہیٹر تو بالکونی کا بھی آن ہے مگر
اس درجہ سرد گھر کا رویہ ہے کس لئے
دنیا میں بے شمار ہیں اُس جیسے اور لوگ
ممکن نہیں ملن تو تہیہ ہے کس لئے
کیا سیکھتے ہو پانی پہ چلنے کا معجزہ
اس پار جانے والے یہ نیا ہے کس لئے
٭٭٭
شہر کی فتح بابِ شک پر ہے
منحصر لوگوں کی کمک پر ہے
کلمہ کا ورد کر رہے ہیں لوگ
آخری شو کا رش سڑک پر ہے
فیملی جا رہی ہے لے کے اسے
گھر کا سامان بھی ٹرک پر ہے
پڑھ رہا ہوں ہزار صدیوں سے
کیا کسی نے لکھا دھنک پر ہے
بھیج مت پرفیوم جانِ جاں
حق مرا جسم کی مہک پر ہے
چاند ہے محوِ خواب پہلو میں
یعنی بستر مرا فلک پر ہے
میری پلکوں کی ساری رعنائی
موتیوں کی چمک دمک پر ہے
آس کا شہر ہے سمندر میں
اور بنایا گیا نمک پر ہے
دل کی موجودگی کا افسانہ
بادلوں کی گرج چمک پر ہے
چاند کی ہاتھ تک رسائی بھی
دلِ معصوم کی ہمک پر ہے
کس نے ہونا ہے شہر کا حاکم
فیصلہ بوٹ پر دھمک پر ہے
کون قاتل ہے فیصلہ، منصور
فائروں کی فقط لپک پر ہے
٭٭٭
آنکھ کے قطرۂ عرق پر ہے
علم بس عشق کے سبق پر ہے
منزلِ ہجر سے ذرا آگے
اپنا گھر چشمۂ قلق پر ہے
کوئی آیا ہے میرے انگن میں
ابر صحرائے لق و دق پر ہے
ایک ہی نام ایک ہی تاریخ
ڈائری کے ورق ورق پر ہے
شامِ غم کے نگار خانے میں
زخم پھیلا ہوا شفق پر ہے
سن رہا ہوں کہ میرے ہونے کی
روشنی چودھویں طبق پر ہے
دیکھ کر کارِ امت شبیر
لگ رہا ہے یزید حق پر ہے
٭٭٭
یہ کیا چراغِ تمنا کی روشنی ہوئی ہے
ہر ایک چشمِ تماشا سے دشمنی ہوئی ہے
تُو چشمِ ہجر کی رنگت پہ تبصرہ مت کر
یہ انتظار کے جاڑے میں جامنی ہوئی ہے
نہ پوچھ مجھ سے طوالت اک ایک لکنت کی
یہ گفتگو کئی برسوں میں گفتنی ہوئی ہے
چمکتی ہے کبھی بجلی تو لگتا ہے شاید
یہیں کہیں کوئی تصویر سی بنی ہوئی ہے
ابھی سے کس لئے رکھتے ہو بام پر آنکھیں
ابھی تو رات کی مہتاب سے ٹھنی ہوئی ہے
ابھی نکال نہ کچھ انگلیوں کی پوروں سے
ابھی یہ تارِ رگ جاں ذرا تنی ہوئی ہے
شراب خانے سے کھلنے لگے ہیں آنکھوں میں
شعاعِ شام سیہ ، ابر سے چھنی ہوئی ہے
نظر کے ساتھ سنبھلتا ہوا گرا پلو
مری نگاہ سے بے باک اوڑھنی ہوئی ہے
کچھ اور درد کے بادل اٹھے ترے در سے
کچھ اور بھادوں بھری تیرگی گھنی ہوئی ہے
کلی کلی کی پلک پر ہیں رات کے آنسو
یہ میرے باغ میں کیسی شفگتنی ہوئی ہے
اک ایک انگ میں برقِ رواں دکھائی دے
کسی کے قرب سے پیدا وہ سنسنی ہوئی ہے
جنوں نواز بہت دشتِ غم سہی لیکن
مرے علاوہ کہاں چاک دامنی ہوئی ہے
میں رنگ رنگ ہوا ہوں دیارِ خوشبو میں
لٹاتی پھرتی ہے کیا کیا ، ہوا غنی ہوئی ہے
سکوتِ دل میں عجب ارتعاش ہے منصور
یہ لگ رہا ہے دوبارہ نقب زنی ہوئی ہے
٭٭٭
عشق میں کوئی کہاں معشوق ہے
دل مزاجاً میری جاں معشوق ہے
جس سے گزرا ہی نہیں ہوں عمر بھر
وہ گلی وہ آستاں معشوق ہے
رفتہ رفتہ کیسی تبدیلی ہوئی
میں جہاں تھا اب وہاں معشوق ہے
ہے رقیبِ دلربا اک ایک آنکھ
کہ مرا یہ آسماں معشوق ہے
مشورہ جا کے زلیخا سے کروں
کیا کروں نا مہرباں معشوق ہے
صبحِ ہجراں سے نشیبِ خاک کا
جلوۂ آب رواں معشوق ہے
ہیں مقابل ہر جگہ دو طاقتیں
اور ان کے درمیاں معشوق ہے
گھنٹیاں کہتی ہیں دشتِ یاد کی
اونٹنی کا سارباں معشوق ہے
وہ علاقہ کیا زمیں پر ہے کہیں
ان دنوں میرا جہاں معشوق ہے
میں جہاں دیدہ سمندر کی طرح
اور ندی سی نوجواں معشوق ہے
ہر طرف موجودگی منصور کی
کس قدر یہ بے کراں معشوق ہے
٭٭٭
ہجراں کے بے کنار جہنم میں ڈال کے
پلکیں سفید کر گئے دو پل ملال کے
میں آنکھ کی دراز میں کرتا ہوں کچھ تلاش
گہرے سیاہ بلب سے منظر اجال کے
دفنا نہیں سکا میں ابھی تک زمین میں
کچھ روڈ پر مرے ہوئے دن پچھلے سال کے
بستر پہ کروٹوں بھری شکنوں کے درمیاں
موتی گرے پڑے ہیں تری سرخ شال کے
تصویر میں نے اپنی سجا دی ہے میز پر
باہر فریم سے ترا فوٹو نکال کے
پا زیبِ کے خرام کی قوسیں تھیں پاؤں میں
کتھک کیا تھا اس نے کناروں پہ تھال کے
اڑنے دے ریت چشمِ تمنا میں دشت کی
رکھا ہوا ہے دل میں سمندر سنبھال کے
سر پہ سجا لئے ہیں پرندوں کے بال و پر
جوتے پہن لئے ہیں درندوں کی کھال کے
آنکھوں تلک پہنچ گئی ، دلدل تو کیا کروں
رکھا تھا پاؤں میں نے بہت دیکھ بھال کے
حیرت فزا سکوت ہے دریائے ذات پر
آبِ رواں پہ اترے پرندے کمال کے
میں سن رہا ہوں زرد اداسی کی تیز چاپ
جھڑنے لگے ہیں پیڑ سے پتے وصال کے
منصور راکھ ہونے سے پہلے فراق میں
سورج بجھانے والا ہوں پانی اچھال کے
٭٭٭
تھی کہاں اپنے میانوالی سے بیزاری اسے
لے گئی ہے اِک سڑک کی تیز رفتاری اسے
نہر کے پل پر ٹھہر جا اور تھوڑی دیر ، رات
روک سکتی ہے کہاں اِک چار دیواری اسے
کوئی پہلے بھی یہاں پر لاش ہے لٹکی ہوئی
کہہ رہی ہے دل کے تہہ خانے کی الماری اسے
پوچھتی پھرتی ہے قیمت رات سے مہتاب کی
تازہ تازہ ہے ابھی شوقِ خریداری اسے
جو طلسم حرف میں اترا ہے اسمِ نعت سے
قریۂ شعر و سخن کی بخش سرداری اسے
٭٭٭
نیم عریاں کر گئی تھی رقص کی مستی اسے
دیکھنے کو جمع ہے ترسی ہوئی بستی اسے
جیسے حرکت کا بہاؤ ، جیسے پانی کا مزاج
کھینچتی ہے اپنی جانب اس طرح پستی اسے
ایک ہی بیڈ روم میں رہتے ہوئے اتنا فراق
چوم لینا چاہئے اب تو زبردستی اسے
کھینچ لایا میرے پہلو کی سنہری دھوپ میں
شامِ شالا مار کا باغیچۂ وسطی اسے
اس سیہ پاتال میں ہیں سورجوں کی بستیاں
زینہ در زینہ کہے ، بجھتی ہوئی ہستی اسے
٭٭٭
جاگتے دل کی تڑپ یا شب کی تنہائی اسے
کونسی شے میرے کمرے کی طرف لائی اسے
اس قدر آنکھوں کو رکھنا کھول کر اچھا نہیں
لے گئی تاریکیوں میں اس کی بینائی اسے
ڈوبنا اس کے مقدر میں لکھا ہے کیا کروں
اچھی لگتی ہے مری آنکھوں کی گہرائی اسے
بجھ گیا تھا چاند گہرے پانیوں میں پچھلی رات
ڈھانپتی اب پھر رہی ہے دور تک کائی اسے
جو برہنہ کر گیا ہے ساری بستی میں مجھے
میں نے اپنے ہاتھ سے پوشاک پہنائی اسے
٭٭٭
لے گئی ہے دور اتنا ، ایک ہی غلطی اسے
سوچتا ہوں کیا کروں کیسے کہوں سوری اسے
رفتہ رفتہ نیم عریاں ہو گئی کمرے میں رات
لگ رہی تھی آگ کی تصویر سے گرمی اسے
ایک بستر میں اکیلی کروٹیں اچھی نہیں
بھول جانی چاہئے اب شام کی تلخی اسے
لوگ کتنے جگمگاتے پھر رہے ہیں آس پاس
ہے یہی بہتر بھلا دو تم ذرا جلدی اسے
اُتنا ہی مشکل ہے یہ کارِ محبت جانِ من
تم سمجھتے پھر رہے ہو جس قدر ایزی اسے
٭٭٭
تری تعمیر کی بنیاد اپنی بے گھری پر ہے
مگر اب احتجاج جاں فصیلِ آخری پر ہے
جسے حاصل کیا ہے تُو نے اپنی بیچ کر لاشیں
مرا تھو ایسی صدرِ مملکت کی نوکری پر ہے
فقط میری طرف سے ہی نہیں یہ پھولوں کا تحفہ
خدا کی لعنتِ پیہم بھی تیری قیصری ہے
جلوس اپنا ابھی نکلے گا کالی کالی قبروں سے
نظر اپنی بھی زر آباد کی خوش منظری پر ہے
ترے آسیب کا سایہ شجر ایسا سہی لیکن
ترا اب انحصار اپنی ہوائے سر پھری پر ہے
قسم مجھ کو بدلتے موسموں کے سرخ رنگوں کی
ترا انجام اب لوگوں کی آشفتہ سری پر ہے
نظامِ زر !مجھے سونے کے برتن دے نہ تحفے میں
مرا ایمان تو خالی شکم کی بوزری پر ہے
زیادہ حیثیت رکھتی ہے پانی پت کی جنگوں سے
ہ اک تصویر بابر کی جو تزکِ بابری پر ہے
فرشتے منتظر ہیں بس سجا کر جنتیں اپنی
مرا اگلا پڑاؤ اب مریخ و مشتری پر ہے
وہ جو موج سبک سر ناچتی ہے میری سانسوں میں
سمندر کا تماشا بھی اسی بس جل پری پر ہے
اسے صرفِ نظر کرنے کی عادت ہی سہی لیکن
توقع ، بزم میں اپنی مسلسل حاضری پر ہے
یقیناً موڑ آئیں گے مرے کردار میں لیکن
ابھی تو دل کا افسانہ نگاہِ سرسری پر ہے
عجب تھیٹر لگا ہے عرسِ حوا پر کہ آدم کی
توجہ صرف اعضائے بدن کی شاعری پر ہے
وفا کے برف پروردہ زمانے یاد ہیں لیکن
یقیں منصور جذبوں کی دہکتی جنوری پر ہے
٭٭٭
مجھے کیا اعتماد الفاظ کی جادوگری پر ہے
تری توصیف اک احسان میری شاعری پر ہے
ترے دربار سے کچھ مانگنا گر کفر ٹھہرا ہت
تو میں کافر ہوں مجھ کو ناز اپنی کافری پر ہے
تری رفعت تفکر کی حدودِ فہم سے بالا
ترا عرفان طنزِ مستقل دانشوری پر ہے
سراپا ناز ہو کر بھی نیازِ عشق کے سجدے
خدا کو فخر بس تیرے خلوصِ دلبری پر ہے
صلائے عام ہے وہ نبضِ ہستی تھام لے آ کر
جو کوئی معترض آقا تری چارہ گری پر ہے
مجھے تسخیرِ یزداں کا عمل معلوم ہے منصور
کرم خاکِ مدنیہ کا مری دیدہ وری پر ہے
٭٭٭
مان لیا وہ بھی میرا یار نہیں ہے
اب کسی پر کوئی اعتبار نہیں ہے
جاگ رہا ہوں میں کتنے سال ہوئے ہیں
کیسے کہوں اس کا انتظار نہیں ہے
ٹوٹ گئے ہیں دو پھر امید بھرے دل
ٹکڑے ہیں اتنے کہ کچھ شمار نہیں ہے
میرا بدن برف ہے یا تیرِ نظر میں
پہلے پہل والی اب کے مار نہیں ہے
عہدِ خزاں میں ہے میرا باغ کہ جیسے
دامن ِ تقدیر میں بہار نہیں ہے
سنگ اچھالے ہیں اس نے بام سے مجھ پر
جیسے گلی اس کی رہگزار نہیں ہے
ایک دعا ہے بس میرے پاس عشاء کی
رات! مرا کوئی غمگسار نہیں ہے
صرف گھٹا ہے جو دل بہلائے برس کے
اور کوئی چشمِ اشکبار نہیں ہے
سرخ ہے بے شک نمود چہرۂ تاریخ
دامن ِ تہذیب داغ دار نہیں ہے
سنگ زدہ اس کے رنگ ڈھنگ ہیں لیکن
آدمی ہے کوئی کوہسار نہیں ہے
پار کروں گا میں اپنی آگ کا دریا
دیکھ رہا ہوں یہ بے کنار نہیں ہے
وقت نہیں آج اس کے پاس ذرا بھی
اور یہاں رنگِ اختصار نہیں ہے
مست ہوائیں بھی ماہتاب بھی لیکن
رات بھری زلفِ آبشار نہیں ہے
گھوم رہا ہوں فصیلِ ذات کے باہر
کوئی بھی دروازۂ دیار نہیں ہے
ایک نہیں قحط عشق صرف یہاں پر
شہر میں کوئی بھی کاروبار نہیں ہے
پھیر ہی جا مجھ پہ اپنا دستِ کرامت
آ کہ مری جان کو قرار نہیں ہے
درج ہے نیلی بہشتِ خواب کا منظر
آنکھ میں منصور کی غبار نہیں ہے
٭٭٭
کون درزوں سے آئے رس رس کے
میرا کمرہ کرے سخن کس کے
میں گلی میں سلگتا پھرتا ہوں
جل رہے ہیں چراغ مجلس کے
بازوؤں پر طلوع ہوتے ہی
کٹ گئے دونوں ہاتھ مفلس کے
کیا ہے میک اپ زدہ طوائف میں
جز ترے کیا ہیں رنگ پیرس کے
میں بھی شاید موہنجو داڑو ہوں
اب بھی سر بند راز ہیں جس کے
متحرک ہیں غم کی تصویریں
چل رہے ہیں بدن حوادث کے
دیکھ چھو کے مجھے ذرا اے دوست
دیکھنا پھر کرشمے پارس کے
وقت کے ساتھ میرے سینے پر
بڑھتے جاتے ہیں داغ نرگس کے
تم سمجھ ہی کہاں سکے منصور
مسئلے عشق میں ملوث کے
٭٭٭
میں نے ذرا جو دھوپ سے پردے اٹھا دئیے
پانی میں رنگ اس نے شفق کے ملا دئیے
پوچھی پسند یار کی میں نے فراق سے
آہستگی سے رات نے مجھ کو کہا ، دئیے
کہہ دو شبِ سیاہ سے لے آئے کالکیں
ہاتھوں پہ رکھ کے نکلی ہے خلقِ خدا دئیے
ہر دل چراغ خانہ ہے ہر آنکھ آفتاب
کتنے بجھا سکے گی زمیں پر ،ہوا ،دئیے
ہونا تھا ایک شور مراسم کے دشت میں
دریا کے میں نے دونوں کنارے ملا دئیے
بالوں میں میرے پھیر کے کچھ دیر انگلیاں
کیا نقش دل کی ریت پہ اس نے بنا دئیے
بھادوں کی رات روتی ہے جب زلفِ یار میں
ہوتے ہیں میری قبر پہ نوحہ سرا دئیے
کافی پڑی ہے رات ابھی انتظار کی
میری یقین چاند ، مرا حوصلہ دئیے
اتنا تو سوچتے کہ دیا تک نہیں ہے پاس
مٹی میں کیسے قیمتی موتی گنوا دئیے
کچھ پل ستم شعار گلیوں میں گھوم لے
عرصہ گزر گیا ہے کسی کو دعا دئیے
میں نے بھی اپنے عشق کا اعلان کر دیا
فوٹو گراف شیلف پہ اس کے سجا دئیے
منصور سو گئے ہیں اجالے بکھیر کر
گلیوں میں گھومتے ہوئے سورج نما دئیے
٭٭٭
دل میں پڑی کچھ ایسی گرہ بولتے ہوئے
ناخن اکھڑ گئے ہیں اسے کھولتے ہوئے
سارے نکل پڑے تھے اسی کے حساب میں
بچوں کی طرح رو پڑی دکھ تولتے ہوئے
میں کیا کروں کہ آنکھیں اسے بھولتی نہیں
دل تو سنبھل گیا تھا کہیں ڈولتے ہوئے
کہنے لگی ہے آنکھ میں پھر مجھ کو شب بخیر
پانی میں شام اپنی شفق گھولتے ہوئے
کنکر سمیت لائے ہمیشہ مرا نصیب
منصور موتیوں کو یونہی رولتے ہوئے
٭٭٭
یہ کائناتِ روح و بدن چھانتے ہوئے
میں تھک گیا ہوں تجھ کو خدا مانتے ہوئے
اک دو گھڑی کا تیرا تعلق کہے مجھے
صدیاں گزر گئی ہیں تجھے جانتے ہوئے
پھرتا ہوں لے کے آنکھ میں ذرے کی وسعتیں
صحرا سمٹ گئے ہیں مجھے چھانتے ہوئے
برکھا کے شامیانے سے باہر ندی کے پاس
اچھا لگا ہے دھوپ مجھے تانتے ہوئے
کچھ یاد اب نہیں ہے کہ میرا کیا تھا نام
ہر وقت نام یار کا گردانتے ہوئے
اس کے کمال ِ ضبط کی منصور خیر ہو
صرفِ نظر کیا مجھے پہچانتے ہوئے
٭٭٭
شاعر کی اجازت اور تشکر کے ساتھ، جنہوں نے فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید_