FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

جوشِ طلب میں

 

 

 

                شفیق خلشؔ

 

جمع و ترتیب، ٹائپنگ: طارق شاہ

 

 

اس دل کا خُوب رُوؤں پہ آنا نہیں گیا

یہ شوق اب بھی جی سے پُرانا نہیں گیا

 

میں دیکھتا ہُوں اب بھی گُلوں کو چمن میں روز

پھُولوں سے اپنے جی کو لُبھانا نہیں گیا

 

اب بھی طلَب ہے میری نِگاہوں کو حُسن کی

جینے کو زندگی سے بہانہ نہیں گیا

 

کیا کیا نہ کُچھ گزرتا گیا زندگی کے ساتھ

اِک خوابِ خُوب رُوئے زمانہ نہیں گیا

 

مَدّھم سی ہوتی جاتی ہے آنکھوں کی روشنی

لیکن مِرا وہ خواب سجانا نہیں گیا

 

گرچہ الگ ہیں رنگ خِزاں اور بہار کے !

پھر بھی تو اِن رُتوں کا ستانا نہیں گیا

 

اِک کیفیّت سُرور کی ہے قُربِ حُسن سے

اب تک وہ عاشقی کا زمانہ نہیں گیا

 

کم وَلوَلے ہوں کیسے، کہ ہر دم ابھی اُسے

پیشِ نظر خیال میں پانا نہیں گیا

 

جو نقش دِل پہ تھے، وہ تو سارے اُتر گئے

نظروں سے اُس کا دِل میں سمانا نہیں گیا

 

یادوں سے مَحو ہو گئے ماضی کے سب خیال

اِک عکس اُس حَسِیں کا سُہانا نہیں گیا

 

چھُوٹے ہیں زندگی کے سبھی کام، پر خلش !

کُوچے میں اُس کے اب بھی وہ جانا نہیں گیا

٭٭٭

 

 

 

 

مجھ سے کیوں بدگ ُمان ہے پیارے

تجھ پہ صدقے یہ جان ہے پیارے

 

ہلکی لرزِش سے ٹُوٹ جاتا ہے

دِل وہ کچّا مکان ہے پیارے

 

میں ہی کیوں موردِ نِشانہ یہاں

مہرباں آسمان ہے پیارے

 

کب اِشارہ ہو سب اُلٹنے کا

مُنتظر پاسبان ہے پیارے

 

کیوں نہ جمہوریت یہاں پَھلتی

اِک عجب داستان ہے پیارے

 

چور ہو کر ہمارے نیتا ہیں

ایسے جادُو بیان ہیں پیارے

 

اِک خلش دِل کی پُوچھتے ہو خلش

کیا نہ دِل پر نِشان ہے پیارے

٭٭٭

 

 

 

 

 

مِری حیات پہ حق تجھ کو ہے صنم کِتنا

ہے دسترس میں خوشی کتنی اور الم کِتنا

 

دھُواں دھُواں سا مِرے جسم میں ہے دَم کِتنا

کروں گا پیرَہن اشکوں سے اپنے نم کِتنا

 

کبھی تو رحم بھی آئے مچلتے ارماں پر !

خیال و خواب میں رکھّوں تجھے صنم کِتنا

 

گلو خلاصی مِری ہو بھی پائے گی، کہ نہیں

رہے گا حال میں شامِل تِرا کرَم کِتنا

 

گِلہ کہاں یہ ذرا جاننے کی خواہش ہے !

لکھا نصیب میں باقی رہا سِتم کِتنا

 

کبھی تو بَن کے حقیقت بھی سامنے آ جا

تصوّرات میں پُوجُوں تجھے صنم کِتنا

 

ہر ایک بار حوالوں سے جانتے ہیں تمھیں

اب اور اِس سے زیادہ مِلو گے کم کِتنا

 

بنا دِیا مجھے حسرت و یاس کی تصویر

میں کرتا ہجر کی رُوداد بھی رقم کِتنا

 

بَدستِ دِل ہی تھا مجبُور، سو چلا آیا

لرز رہا ہے گلی میں ہر اِک قدم کِتنا

 

شکستِ دِل سے کم عاجز تھے ہم ، کہ اُس پہ خلش

اُٹھا رہے ہیں بھُلانے میں اُس کو غم کِتنا

٭٭٭

 

 

 

 

دِل میں ہجرت کے نہیں آج تو کل ہوں گے خلش

زخم ہوں گے کبھی لمحے، کئی پَل ہوں گے خلش

 

بے اثر تیرے کِیے سارے عمل، ہوں گے خلش

جو نہیں آج، یہ اندیشہ ہے کل ہوں گے خلش

 

زندگی بھر کے لئے روگ سا بن جائیں گے!

گر نہ فوراّ ہی خوش اسلوبی سے حل ہوں گے خلش

 

کارگر اُن پہ عملِ راست بھی ہوگا نہ کوئی

کُہنہ رسّی سا لِئے دل میں جو بَل ہوں گے خلش

 

اپنی کوتاہی سے پانے کی شِکایت کِس سے ؟

جب توجّہ نہ برابر ہو تو پھل ہوں گے خلش

 

زیر اثر دردِ جُدائی سے تاَسُّف کے ہُوں اب

کب یہ احساس تھا پہلے کہ اٹل ہوں گے خلش

 

اتنی آسانی سے دِل سے نہ خلش جائیں گے

کچھ تباہی پہ ہی مُنتج بہ خلل ہوں گے خلش

 

اُن کو پانے کی یہی سوچ کے ہمّت ہو خلش !

سعیِ ناکام کے سارے ہی بَدل ہوں گے خلش

٭٭٭

 

 

 

 

یا خُدا کچھ آج ایسا رحم مجھ پہ کر جائیں

اپنے اِک تبسّم سے زخْم میرے بھر جائیں

 

ہو کوئی کرشمہ اب، جس کی مہربانی سے

ساتھ اپنے وہ ہولیں، یا ہم اُن کے گھر جائیں

 

دُور ہو سیاہی بھی وقت کی یہ لائی سی

اپنی خوش نوائی سے روشنی جو کر جائیں

 

روشنی مدام اپنی رہگزر پہ بِکھرے گی !

بس ڈٹے اندھیروں کی آگ سے گُزر جائیں

 

دُوریاں مُقدّر تھیں اب نہیں خلش کُچھ بھی !

رَچ کے وہ تخیّل میں ساتھ ہیں جدھر جائیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہمارا پیار نہ دِل سے کبھی بھُلا دینا

ہمیشہ جینے کا تم اِس سے حوصلہ دینا

 

بھٹک پڑوں یا کبھی راستہ نظر میں نہ ہو !

ستارہ بن کے مجھے راستہ دِکھا دینا

 

دیے تمام ہی یادوں کے ضُو فشاں کر کے

ہو تیرگی کبھی راہوں پہ تو مِٹا دینا

 

تم اپنے پیار کے روشن خوشی کے لمحوں سے

غموں سے بُجھتے چراغوں کو پھر جَلا دینا

 

خِزاں گزیدہ کبھی راستے ٹھہر جائیں

بہار بن کے وہی راستے سجا دینا

 

ہمیشہ پیار کی کلّیوں کو سوچ کر، کہ ہمیں

خلش رہے نہ کوئی چُوم کر کھِلا دینا

 

ہماری پیار سے مخمُور زندگی کو، خلش !

کوئی نہ کام بجز اُن کو ہی دُعا دینا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

جُدا جو یاد سے اپنی مجھے ذرا نہ کرے

ملول میری طرح ہو کبھی خُدا نہ کرے

 

ہم اُن کے حُسن کے کب معترف نہیں، لیکن

غرُور، یُوں بھی کسی کو کبھی خُدا نہ کرے

 

تب اُن کی یاد سے دِل خُون چاند کر ڈالے

کبھی جو کام یہ مہکی ہُوئی ہَوا نہ کرے

 

لگایا یُوں غمِ فُرقت نے ہاتھ سینے سے

کوئی خیال اِسے پَل کو بھی جُدا نہ کرے

 

خلش بنے ہیں سبھی زخم لاعلاج ایسے !

کہ جس پہ کچھ بھی اثر اب دوا، دُعا نہ کرے

٭٭٭

 

 

 

 

تِنکوں کا ڈُوبتوں کو سہارا بتائیں کیا

پیشِ نظر وہ روز نظارہ بتائیں کیا

 

جی کیوں اُٹھا ہے ہم سے کسی کا بتائیں کیا

پُوچھو نہ بار بار خُدارا بتائیں کیا

 

تڑپا کے رکھ دِیا ہمَیں دِیدار کے لئے

کیوں کر لِیا کسی نے کِنارا بتائیں کیا

 

روئے بہت ہیں باغ کے جھُولوں کو دیکھ کر

یاد آیا کیسا کیسا نظارا بتائیں کیا

 

دیکھا نہ پھر پَلٹ کے چھُڑا کر گیا جو ہاتھ

کِس کِس کے واسطوں سے پُکارا بتائیں کیا

 

کہنے کو تو بچھڑ کے بھی زندہ رہے، مگر

تم بن یہ وقت کیسے گُزارا بتائیں کیا

 

بھُولے نہیں کسی بھی ادا کو تِری، مگر

پہلے پَہل وہ تیرا اشارہ بتائیں کیا

 

سب کوششیں بھُلانے کی بےسُود ہی رہِیں

ہے دِل پہ اب بھی اُن کا اِجارہ بتائیں کیا

 

سچ ہے نہ ٹھہرا وقت کسی کے لئے کبھی

کِس کشمکش میں ہم نے گُزارا بتائیں کیا

 

مُمکن نہیں کہ دِل سے خلش دُور ہو خلش

کیا کیا لِیا نہ ہم نے سہارا بتائیں کیا

٭٭٭

 

 

 

 

ابھی کچھ ہیں مِلنے کو باقی سزائیں

وہ گِنتے ہیں بیٹھے ہماری خطائیں ​

 

نہیں آتے پل کو جو پہروں یہاں تھے

اثر کھو چکی ہیں سبھی اِلتجائیں ​

 

زمانہ ہُوا چھوڑ آئے وطن میں

نظر ڈھُونڈتی ہے اب اُن کی ادائیں​

 

مِرے خونِ ناحق پہ اب وہ تُلے ہیں

جو تھکتے نہ تھے لے کے میری بَلائیں​

 

خَلِش تم زمیں کے ، وہ ہیں آسمان پر

بھلا کیسے سُنتے تمہاری صدائیں​

٭٭٭

 

 

 

 

جوشِ طلب میں حد سے گُزر جائیں کیا کریں

آتا نہیں وہ، ہم ہی اُدھر جائیں کیا کریں

 

مِلنے کی آس میں ہیں سمیٹےہُوئے وجُود

ایسا نہ ہو کہ ہم ہی بکھر جائیں کیا کریں

 

ہر سمت ہر گھڑی وہی یادوں کے سلسلے

الله! ہم سے سے لوگ کدھر جائیں کیا کریں

 

اور ایک رات اُس کی گلی میں گُزار دی

اب کون آنے والا ہے، گھر جائیں کیا کریں

 

جاتی نہیں دِل سے جو اب ہجر کی خلش

رو رو کے اُن کی یاد میں مر جائیں کیا کریں

٭٭٭

 

 

 

گردشِ وقت میں کُچھ بھی نہ عجب بات ہُوئی

پو پَھٹے پر جو نہیں دُور مِری رات ہُوئی

 

طبْع پَل کو نہیں مائل بہ خرافات ہُوئی

گو کہ دِلچسپ اِسے کب نہ نئی بات ہُوئی

 

پاس رہتے ہُوئے یُوں ترکِ مُلاقات ہُوئی

ایک مُدّت سے کہاں ہم سے کوئی بات ہُوئی

 

سب ہی پُوچھیں کہ، بسرخوش تو تِرے سات ہُوئی

کیا کہیں عمْر کہ بس صرفِ شِکایات ہُوئی

 

زندگی میری یُوں منسُوبِ حکایات ہُوئی

کوئی دِیوانہ نظر آیا مِری بات ہُوئی

 

روز پتّھر کے لئے تیری گلی آ جائے

کتنی تکلیف طلب دیکھ مِری ذات ہُوئی

 

ناشناسائیِ اُلفت تھی، کوئی غم تو نہ تھا !

دردِ دِل پیار و محبّت کی جو سوغات ہُوئی

 

دل کے بہلانے کا جب سوچا تِری یادوں سے !

چند لمحوں میں، مِری آنکھوں سے برسات ہُوئی

 

سدّباب اُن سے غمِ دِل ہو خَلِش کیوں مُمکن !

جن کو اوروں کی ہر اِک بات خرافات ہُوئی

٭٭٭

 

 

 

 

جب گیا شوقِ نظارہ تِری زیبائی کا

کوئی مصرف ہی نہیں اب مِری بینائی کا

 

دِل سے جب مِٹ ہی گیا تیرا تصوّر جاناں

کچھ گِلہ بھی نہیں باقی رہا تنہائی کا

 

کی زباں بند، تو رکھّا ہے نظر پر پہرا !

دِل کو احساس ہے ہر دم تِری رُسوائی کا

 

ساتھ ہے یاس بھی لمحوں میں تِری قُربت کے

کُچھ عجب رختِ سفر ہے تِرے شیدائی کا

 

آنکھ اوجھل جو ہُوا دِل میں رہُوں گا کب تک

ذکر کیا خاک اب ہوگا تِرے سودائی کا

 

رات آنے کو ہے، رہتی ہے یہی دِل کو خلِش

دِن جو ڈھلنے کو ہے اب تیرے تمنّائی کا

٭٭٭

 

مِری ہی زندگی لے کر بھُلا دِیا مجھ کو

یہ کیسے پیار کا تم نے صِلہ دِیا مجھ کو

 

لِیا ہے دِل ہی فقط، حافظہ بھی لے لیتے

تمھاری یاد نے پھر سے رُلا دِیا مجھ کو

 

نہ کوئی شوق، نہ ارمان کوئی سینے میں

یہ غم کی آگ نے، کیسا بُجھا دِیا مجھ کو

 

بہار نو میں نئے غم کی آمد آمد ہے

تمھارے پیار نے پھر سے سجا دِیا مجھ کو

 

خلِش پہ صبر کا عنصر تھا غالب آنے کو

کھِلے گُلاب نے چہرہ دِکھا دِیا مجھ کو

٭٭٭

 

 

 

 

” ہزارہا شجرِ سایہ دار راہ میں ہے ”

ٹھہرنا پل کو کہاں اختیارِ راہ میں ہے

 

نہیں ہے لُطف کا جس سے شُمار راہ میں ہے

دِیا ہے خود پہ جسے اختیار راہ میں ہے

 

کہاں کا وہم! یقیں ہے مجھے اجل کی طرح

وہ میں نے جس پہ کِیا اعتبار راہ میں ہے

 

زیاں مزِید نہ ہو وقت کا اے چارہ گرو !

جسے ہے دِل پہ مِرے اختیار راہ میں ہے

 

کہاں پہ لائی ہے منزِل کی جستجو مجھ کو

کوئی پیادہ، نہ کوئی سوار راہ میں ہے

 

پہنچ نہ پائے محبّت کی کوئی منزل کو

عداوتوں کا وہ گرد و غُبار راہ میں ہے

 

خبر دو میرے وطن کے سب بھائی بہنوں کو

کہ بندہ ہجر کی اذیت گزار راہ میں ہے

 

یہی بس سوچ کے بیٹھے ہیں خوش بہ راہِ چمن

بہار بھی نہیں جس بن بہار، راہ میں ہے

 

یہ دیکھیے کہ پہنچتا ہے کون پہلے اب

مِری اجل کی طرح میرا یار راہ میں ہے

 

گُزر گئی ہے خلِش عُمر اِک یہی سُنتے !

وہ جس کا تجھ کو رہا انتظار، راہ میں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

راتوں کو صُبْح جاگ کے کرنا کہاں گیا

آہیں وطن کی یاد میں بھرنا کہاں گیا

 

اُجڑے چمن میں اب بھی تمنّا بہار کی

جو حسرتوں میں تھا کبھی مرنا کہاں گیا

 

بھیجا ہے میری بھُوک نے مجھ کو وطن سے دُور

مرضی سے اپنی میں کبھی ورنہ کہاں گیا

 

سب یہ سمجھ رہے ہیں یہاں میں خوشی سے ہُوں

خوشیوں میں غم کا آج بھی دھرنا کہاں گیا

 

جو دیس سے گیا ہے، وہ رویا ہے دیس کو

کہتے تھے جس کو ہم کبھی اپنا کہاں گیا

 

جاؤں پلٹ کے ، اب بھی یہ خواہش تو ہے خلش

اپنوں سے سے، اپنے دیس میں ڈرنا کہاں گیا

٭٭٭

 

 

 

 

وہی دِن ، جو گزرے کمال کے ، ہُوئے وجہ ڈھیروں سوال کے

کہ بنے ہیں کیسے وہ سب کے سب مِری پستیوں کے ، زوال کے

 

یُوں اُبھر رہے ہیں نقوش سب، لِئے رنگ تیرے خیال کے

نظر آئیں جس سے کہ دِلکشی، سبھی حُسن، سارے جمال کے

 

گو یہ دن ہیں فُرق و ملال کے ، مگر رکھیں خود میں سنبھال کے

وہ بھی یاد جس سے میسّراب، رہیں لمحے اُس کے وصال کے

 

یُوں خرام جیسے نسیم سے کوئی شاخِ گُل ہو ہِلا ہُوا

تِرے ناز و ناپ کا ہر قدم، رہے دِل کو میرے اُچھال کے

 

جی ہمارا چاہے کہ ہم کبھی کہیں اُن سے اپنی غزل کوئی

جو حجاب ہم سے ضرور تو، سُنیں بیچ پردہ ہی ڈال کے

 

کوئی خوش خیالی کی حد بھی ہے، کہ دِکھائے منظراُسی طرح

جو تھے پیش پہلے نظر کے سب، بُجھے منظروں کو اُجال کے

 

ہے عجیب جلوۂ زیست اب، نہ یقین ہو، نہ گُماں ہے سب

تھے ہُنر سے پُر یہی اِس نگر اُٹھے ہاتھ سارے سوال کے

 

نہیں فکرِ فردا کوئی مجھے، نہ ہی باز پُرس کا خوف ہے

کئے حق ادا سب بصدقِ دل جو تھے واجب اہل وعیال کے

 

تِرے حق میں لب پہ خلش کے اب رہے روز و شب یہ دُعا، خُدا

تجھے استقامتِ خُوب دے، سبھی وَسوَسوں سے نِکال کے

٭٭٭

 

 

 

 

 

اُن کی ہم لعْن کبھی طَعْن سے ہی پھرتے تھے

ہم کب آواز سُنے بِن بھی، کبھی پھرتے تھے

 

لے مُصیبت وہ محبّت میں کڑی پھرتے تھے

صبح نِکلے پہ اندھیرے کی گھڑی پھرتے تھے

 

اب اُسی شہر کے ہر گھر کو میں زِنداں دیکھوں !

جس کے کوچوں میں غم آزاد کبھی پھرتے تھے

 

دیکھ کر جن پہ غزالوں کو بھی حیرانی ہو !

یوں وہ آنکھیں لئے کاجل سے سجی پھرتے تھے

 

یادِ محبُوب میں کیا کرب تھا، ایّامِ فراق !

لے کے آنکھوں سے رَواں ایک جھڑی پھرتے تھے

 

جذبِ دِل اُن کو دِکھانے میں تردّد تھا، خلش

ورنہ ہاتھوں میں دِئے ہاتھ سبھی پھرتے تھے

٭٭٭

 

 

 

 

نہ مثلِ دشت، نہ مُمکن کسی سماں کی طرح

نجانے گھر کی یہ حالت ہُوئی کہاں کی طرح

 

کریں وہ ذکر ہمارا تو داستاں کی طرح

بتائیں سنگِ در اپنا اِک آستاں کی طرح

 

کسی کی بات کی پروا، نہ اِلتجا کا اثر

فقیہہ شہر بھی بالکل ہے آسماں کی طرح

 

وفورِ شوق وہ پہلا، نہ حوصلہ دِل کا !

ورُود غم بھی پھراُس پر اِک کارواں کی طرح

 

وہ زہر ڈُوبے، توسّط سے اُن کی گُفت و شُنید

ہیں ثبت دِل پہ ہمارے کھُدے نشاں کی طرح

 

غضب سرُورسا پاتے تھے اُس کی صحبت میں

پسند، دِل سے ہمیں تھا وہ تافتاں کی طرح

 

کریں، خلش کی دُعائے حصُول میں شامل

اُسے، جو دُور ہے اُن سے قرارِ جاں کی طرح

 

خِزاں گزیدہ ہے انجامِ کار سے وہ، خلش !

چمن جوسینچا تھا آبا نے باغباں کی طرح

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہمارے من میں بسے جو بھی روگ ہوتے ہیں

شریر کے کسی بندھن کا سوگ ہوتے ہیں

 

جو لاگ، بیر کسی سے بھی کُچھ نہیں رکھتے

وہی تو دہر میں سب سے نِروگ ہوتے ہیں

 

بُرا، بُرے کو کسی دھرم کا بنا دینا

بَھلے بُرے تو ہر اِک میں ہی لوگ ہوتے ہیں

 

پریمیوں کے محبّت میں ڈوبے من پہ کبھی

دُکھوں کے سارے ہی کارن بروگ ہوتے ہیں

 

نہ دِل میں رکھتے ہیں سنجوگ کا خلِش جو خیال

ہرایک بستی میں ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

اُمید تھی تو، اگرچہ نہ تھی عیاں بالکل

ہُوئی کِرن وہی دِل کی ہے اب نہاں بالکل​

 

کھِلے نہ پھُول ہیں دِل میں، نظر دھُواں بالکل

بہار آئی بھی بن کر خَلِش، خِزاں بالکل​

 

کہا ہے دِل کی تسلّی کو بارہا خود سے

ہم اُن کو بھُول چُکے ہیں، مگر کہاں بالکل​

 

جو اُٹھتے دستِ زلیخا ہمارے دامن پر

نہ ہوتی یوسفِ کنعاں سی داستاں بالکل​

 

جَھلک نہ دُور سے کوئی، نہ روشنی کا سُراغ

سِرا سُرنگ کا، آنکھوں سے ہے نہاں بالکل​

 

ذرا سی ہجر میں احساس ہو چلا مجھ کو

مِری حیات یہ، اُس بِن ہے رائیگاں بالکل ​

 

نہ اب وہ زخم پہ مرہم، نہ گھر تو آؤ، خلش

بدل چُکا ہے محبّت کا سب سماں بالکل​

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہو کر رہے ہیں جب مِرے ہر کام مختلف

ہو جائیں روز و شب کے بھی ایّام مختلف

 

شام و سحر یہ دیں مجھے دُشنام مختلف

کیا لوگ ہیں، کہ روز ہی اِلزام مختلف

 

پہلے تھیں اِک جَھلک کی، یا مِلنے کی مِنّتیں

آتے ہیں اُن کے اب مجھے پیغام مختلف

 

دِل پھر بضد ہے لوٹ کے جانے پہ گھر وہی

شاید لِکھا ہے زیست کا انجام مختلف

 

تیرا تعلق ایسے وطن سے تھا کب خلش

جس کے ہر ایک شہر کا اِسلام مختلف

٭٭٭

 

 

 

 

 

نہ آئیں گے نظر باغ و بہاراں ہم نہ کہتے تھے

ہُوا وِیراں نگر شہرِ نِگاراں، ہم نہ کہتے تھے

 

رہو گے شہر میں اپنے ہراساں، ہم نہ کہتے تھے

تمھارے گھر رہیں گے تم کو زنداں ہم نہ کہتے تھے

 

نہ پاؤ گے کسے بھی دُور تک، یوں بیکسی ہوگی!

ہر اِک سے مت رہو دست و گریباں ہم نہ کہتے تھے

 

بشر کی زندگی سے یُوں محبّت روٹھ جائے گی

رہے گا ہاتھ میں کوئی نہ داماں، ہم نہ کہتے تھے

 

مذاہب کے اُصولوں کو بنا کر اپنی مرضی کے

جلا ڈالیں گے اِنساں ہی کو اِنساں، ہم نہ کہتے تھے

 

ہماری بات کا مطلب یونہی کچھ اخذ کرکے ہی !

رہے گا اِک زمانہ ہم سے نالاں، ہم نہ کہتے تھے

 

جنُونِ عشق کو، کیا کیا خلش یہ نام دے دے کر

پھرائیں گے ہمیں سب پابجولاں، ہم نہ کہتے تھے

٭٭٭

 

 

 

 

دِل یہ جنّت میں پھر کہاں سے رہے

عِشق جب صُحبتِ بُتاں سے رہے

 

لاکھ سمجھا لِیا بُزرگوں نے !

دُور کب ہم طِلِسمِ جاں سے رہے

 

کب حَسِینوں سے عاشقی نہ رہی

کب نہ ہونٹوں پہ داستاں سے رہے

 

دِل میں ارمان کُچھ نہیں باقی

اِک قدم آگے ہم زماں سے رہے

 

دِل میں حسرت کوئی بھی باقی ہو

ایسے جانے سے ہم جہاں سے رہے

 

یاد ہے اب بھی وہ جگہ ہم کو !

جہاں ہم پُہنچے اورجہاں سے رہے

 

بَن کے فُرقت کے دِن وہ سارے، خَلِش

دِل پہ کندہ ہُوئے نِشاں سے رہے

٭٭٭

 

 

 

 

مِرے دُکھوں کا خلِش اب یہی ازالہ ہے

اُمیدِ وصل ہے جس نے مجھے سنبھالا ہے

 

جو تم نہیں ہو، تو ہے زندگی اندھیروں میں

مِرے نصیب میں باقی کہاں اُجالا ہے

 

سکوت مرگ سا طاری تھا اک زمانے سے

یہ کِس کی یاد نے پھر دِل مِرا اُچھالا ہے

 

رہا نہ کوئی گلہ اب وطن کے لوگوں سے

یہاں بھی خُوں مِرا، کِس نے نہیں اُبالا ہے

 

خود اپنے ذات کی پہچان اب نہیں باقی

شناختیں ہیں تجھی سے، تِرا حوالہ ہے

 

نہاں ہیں حِرص کی کیا کیا نہ خواہشیں اِس میں

یہ میرا دل ہے نہ مسجد ہے، نہ شوالہ ہے

 

رہی نہ کوئی خلش بات جب ہُوئی واضح

بَلائے غم کو مِری ذات اِک نوالہ ہے

٭٭٭

 

 

 

 

اِس کا نہیں ملال، کہ سونے نہیں دِیا

تنہا تِرے خیال نے ہونے نہیں دِیا

 

پیش آئے اجنبی کی طرح ہم سے جب بھی وہ

کچھ ضبط، کچھ لحاظ نے رونے نہیں دِیا

 

چاہا نئے سِرے سے کریں زندگی شروع

یہ تیرے اِنتظار نے ہونے نہیں دِیا

 

طاری ہے زندگی پہ مِری مستقل ہی رات

دِن تیرے ہجر نے کبھی ہونے نہیں دِیا

 

اِک سیلِ غم تھا گرد مِرے رات دِن، مگر

اشکوں میں ہمّتوں نے ڈبونے نہیں دِیا

 

ہجرت کہاں سے لاتی کچھ آسودگی خلش

غم فاصلوں نے کم کبھی ہونے نہیں دِیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

کسی بھی کام میں اب دِل مِرا ذرا نہ لگے

کسی کی شکل اب اچھّی تِرے سِوا نہ لگے

 

نِگاہِ ناز نے جانے کِیا ہے کیا جادُو

کہ کوئی کام نہ ہونے پہ بھی رُکا نہ لگے

 

رہے ملال، جو ضائع ہو ایک لمحہ بھی

تِرے خیال میں گُزرے جو دِن، بُرا نہ لگے

 

خرامِ ناز ہے اُس کا، کہ جھُومنا گُل کا

مُماثلت میں، جو پُوچھو تو کُچھ جُدا نہ لگے

 

یقین میری محبّت پہ آ گیا، شاید

سزا وہ دیتے ہیں ایسی، کہ جو سزا نہ لگے

 

اب اور مشورے اُن کو نہ دو خُدا کے لیے

تمھاری بات جنھیں اب کوئی بجا نہ لگے

 

بہار آئی ہے، پھر بھی ہے اُن کے دل میں خلش

تو پھُول جیسا وہ چہرہ، کھِلا کھِلا نہ لگے

٭٭٭

 

 

 

 

سہنے کی حد سے ظلم زیادہ کیے ہُوئے

پردہ ہے، مارنے کا اِرادہ کیے ہُوئے

 

بیتی جو مہوشوں سے اِفادہ کیے ہُوئے

گزرے وہ زندگی کہاں سادہ کیے ہُوئے

 

کیوں نا اُمیدی آس پہ غالب ہو اب، کہ جب !

اِک عُمر گزری اِس کو ہی جادہ کیے ہُوئے

 

کر دی ہے اِنتظار نے ابتر ہی زندگی

اُمّیدِ وصل اِس کا لبادہ کیے ہُوئے

 

اُن سے حیات و مرگ کا اب فیصلہ بھی ہو

بیٹھے ہیں دل ہم اپنا کُشادہ کیے ہُوئے

 

ویسے تو بارہا کہا اُن کو بُرا، خلش

شرمندہ، رُو برُو ہُوں اعادہ کیے ہُوئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہے شرف حاصل وطن ہونے کا جس کو شاد کا

تھا یگانہ بھی تو شاعر اُس عظیم آباد کا

 

طرز اپنایا سُخن میں جب بھی میں نے شاد کا

میرے شعروں پر گماں ٹھہرا کسی اُستاد کا

 

یا الٰہی ! شعر میں ایسی فصاحت دے، کہ میں

نام روشن کرسکوُں اپنے سبھی اجداد کا

 

دِل بدل ڈالا ہے اپنا اُس نے پتّھر سے تو پھر

خاک حاصِل ہو نتیجہ اب کسی فریاد کا

 

تیری نِسبت سے بَھلا کب چین لینے دے مجھے

نقش میرے دِل پہ ہے ہر ایک لمحہ یاد کا

 

میرے مرنے کا اثر یُوں بھی ہُوا احباب پر

” شور ہے اغیار کے گھر میں مُبارکباد کا ”

 

جب تعلّق ہی نہیں ہم سے رہا اُن کا کبھی

تو کہَیں موجب اُنھیں کیوں اِس دلِ برباد کا

 

ہر خوشی سے بڑھ کے اُن کی ہی خوشی مطلوب ہے

کیا گِلہ اُن سے ہو پھر، اُن کی کسی بیداد کا

 

ہجرتوں سے بھی کہیں پایا نہ ہو جس نے سُکوں

کیا علاجِ غم خلِش ہو اُس دلِ ناشاد کا

٭٭٭

 

 

 

 

 

جب تعلّق نہ آشیاں سے رہے

کچھ نہ شِکوے بھی آسماں سے رہے

 

پَل کی فرقت نہ ہو گوارا جسے

دُور کیسے وہ دِل بُتاں سے رہے

 

سوچتے ہیں اب اُن حسینوں کو

جن کی قربت میں شادماں سے رہے

 

اُس کی یادوں نے کی پذیرائی

درد دِل میں جو بے کراں سے رہے

 

دُوریاں اُس پہ اِک قیامت ہیں

دِل جو خوش صُحبتِ بُتاں سے رہے

 

اب ہمیں سارے یاد بھی تو نہیں

سِلسِلے دل کے کب کہاں سے رہے

 

کیا نہ سوچا تھا اُن سے کہنے کو

سامنے اُن کے بے زباں سے رہے

 

خطرہ جس سے تھا پارسائی کو

باز ہم ایسے راز داں سے رہے

 

کیوں یہ حیرت، کہ دُکھ ، خلِش سارے

میرے ہی دل میں آ کہاں سے رہے

٭٭٭

 

 

 

 

اک نہ چہرہ بجُز اُس شکل کے بھایا دِل کو

وہ کڑی دھُوپ میں رحمت کا ہے سایا دِل کو

 

جتنا جتنا بھی مُصیبت سے بچایا دِل کو

اُتنا اُتنا ہی مُصیبت میں ہے پایا دِل کو

 

اِس نہج، اُس سے مِرا عِشق ہے لایا دِل کو

جب تصوّر رہا، مجذُوب سا پایا دِل کو

 

غم سے مدہوشی پہ بہلا کے جو لایا دِل کو

ہوش آنے پہ وہی در تِرے پایا دِل کو

 

کب تِرے ہجر نے، کُچھ کم ہے جَلایا دل کو

آنکھ کیا چیز ہے، اِس نے تو رُلایا دِل کو

 

سب قصُور اِس دلِ مُضطر کا ہو، ایسا بھی نہیں

تیری صُورت نے محبّت میں پھنْسایا دِل کو

 

تجھ سے پہلی ہی مُلاقات میں ایسا کھویا

پھر کبھی پاس بھی اپنے نہیں پایا دِل کو

 

پھر رَواں اشک ہیں آنکھوں سے جو رُکتے ہی نہیں

پھر خیال اُس دلِ بے رحم کا، آیا دل کو

 

اِس نے اُٹھنے پہ قیامت بھی اُٹھائی دُگنی

جب بھی اُمّید سے بہلا کے سُلایا دل کو

 

کیوں پیام اب نہیں بھیجے وہ تواتر سے، خلِش

جس نے ہر طرز و طریقے سے لُبھایا دل کو

٭٭٭

 

 

 

 

اِک عجیب موڑ پہ زندگی سرِ راہِ عِشق کھڑی رہی

نہ مِلا کبھی کوئی رّدِ غم ، نہ ہی لب پہ آ کے ہنسی رہی

 

کبھی خلوتوں میں بھی روز و شب تِری بزم جیسے سجی رہی

کبھی یوں ہُوا کہ ہجوم میں، مجھے پیش بے نفری رہی

 

سبھی مُشکلیں بھی عجیب تھیں رہِ وصل آ جو ڈٹی رہِیں

نہ نظر میں اِک، نہ گُماں میں کُچھ ، عجب ایک بے نظری رہی

 

مجھے ضبطِ غم سے نہیں گِلہ، رُکے سیلِ غم سے ہُوا بُرا

نہ عیاں تھا چہرے سے درد و غم، مگر آنکھ تھی کہ بھری رہی

 

میں تیار کب نہ تھا مرنے پر مگر اِس سِتم کا بھی کیا علاج

تِری گفتِ آمد و رفت سے، بَھلی موت سر سے ٹلی رہی

٭٭٭

 

 

 

 

 

غرض کسے کہ یہ سر تاجدار ہو کہ نہ ہو

کریں گے اُن سے، اُنھیں ہم سے پیار ہو کہ نہ ہو

 

مچلتے رہنے کی عادت بُری ہے دِل کو مِرے

ہر اچھّی چیز پہ، کچھ اِختیار ہو کہ نہ ہو

 

ذرا یہ فکر محبّت میں تیری، دل کو نہیں

عنایتوں سے تِری زیر بار ہو کہ نہ ہو

 

ہم اُن کو اپنی دِلی کیفیت بتا ہی نہ دیں !

بعید اِس سے، اُنھیں اعتبار ہو کہ نہ ہو

 

کبھی چلیں نہ پھر اِک روز اُن کے گھر کو خلش

بِنا یہ سوچے اُنھیں اِنتظار ہو کہ نہ ہو

٭٭٭

 

 

 

 

ہم پہ اُفتاد، فلک تیرے اگر کم نہ رہے

تو سمجھ لینا کہ کچھ روز ہی میں ہم نہ رہے

 

ظاہر اِس چہرے پہ کُچھ درد، کوئی غم نہ رہے

مکر میں ماہر اب ایسا بھی کبھی ہم نہ رہے

 

کرب سینے کا اُمڈ آئے نہ آنکھوں میں کبھی

خوگر آلام کے اِتنے بھی ابھی ہم نہ رہے

 

کب وہ عالم نہ رہا دیس سا پردیس میں بھی

کب خیال اُن کے ہُوئے خواب سے، پیہم نہ رہے

 

مِلتی کیا خاک مصیبت میں ہمیں سُرخ رُوئی

کب ہم احباب کے آزار سے بے دم نہ رہے

 

کیا ہو غیروں سے تغافل کے برتنے کا گِلہ

ہم سے خود اپنے بھی بیزار ذرا کم نہ رہے

 

فُرقِ یاراں میں خلِش ! دِل کا تڑپنا کیسا

کیا خوشی میں سبھی مانع یہی ہمدم نہ رہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

رہے پیش سب ہی وعدے مجھے زندگی میں کل کے

بُجھی زیست میری جن میں بڑی بے کلی سے جل کے

 

یوں گنوا دی عُمر ساری کیے وعدوں پر بہل کے

نہیں خواب تک سلامت وہ خوشی سے پُر محل کے

 

رہے رنج مجھ کو یُوں بھی، کہ نہ ہمسفر تھے پل کے

وہ جُدا ہوئے ہیں مجھ سے، بڑی دُور ساتھ چل کے

 

گِریں فُرقِ ہمقدم میں، سبھی جا ہی ضُعفِ دِل سے

کب اُٹھیں قدم خلِش اب کسی راہ بھی سنبھل کے

 

مجھے کچھ سمجھ نہ آئے کہ اچانک ایسے کیونکر

اب بدل دِیں تم نے راہیں مِری زندگی بدل کے

 

ہُوا نقش میرے دل پر، تِرا حُسن، تیرا چلنا

وہ طِلِسمِ جاں کے جس سے رہا دِل مِرا مچل کے

 

پسِ مرگ تِیرَگی کا مجھے روز سامنا ہے

کہاں دِن چڑھا دوبارہ تِرے بعد میرا ڈھل کے

 

کب اب اِن میں زندگی کی رہی کچھ رَمَق بھی باقی

تِرے مُنتظر ایّام اب، ہُوئے مُنتظر اجَل کے

 

تِری طرح بے مروّت کبھی لوٹ کر نہ آئی

تِرے آنے پر قضا جو، گئی ایک بار ٹل کے

 

ہے عجیب شہرِ دِل بھی، کہ نہیں ہے اِس میں اِمروز

نہ ہی دن چڑھے نیا کچھ ، وہی سانحے ہیں کل کے

 

ہُوئے دفن ذات میں ہی خلِش اِس نگر میں آ کر

بَھلا اور کیا وہ کرتے، تِرے شہر سے نِکل کے

٭٭٭

 

 

 

 

کٹی زیست جس کی ساری تِرا اعتبار کرتے

ہُوا جاں بَلب بالآخر تِرا انتظار کرتے

 

یہ میں سوچتا ہُوں اکثر کہ اگر وہ مِل بھی جاتے

وہی کج ادائیوں سے مجھے بے قرار کرتے

 

بَپا حشر کیا نہ ہوتا، جو وہ چھوڑ کر ہر اِک کو

کبھی رسم و راہ مجھ سے اگر اُستوار کرتے

 

اِسی ڈر میں مُبتلا ہُوں، کہ بدیس آ کے اُس کو

کہیں بھُول ہی نہ جاؤں غمِ روزگار کرتے

 

سدا کوستے ہی رہتے ہم اُس آہِ بے اثر کو

جو ہمیشہ، مثلِ ماضی، نہ وہ ہم سے پیار کرتے

 

ہو سبیل کچھ تو یا رب، مِلے شرفِ کامرانی

ہُوئی عمر اِک دُعا میں مجھے یار یار کرتے

 

بھلا کیا جواب دیتے ربِ حُسنِ دوجہاں کو

جو پری وشوں کا اُٹھتے فقط انتظار کرتے

 

یہ خلِش عذابِ جاں سی نہ دلِ خلِش میں رہتی

وہ بھی ایفا اپنا وعدہ، اگر ایک بار کرتے

٭٭٭

 

 

 

 

کٹی زیست جس کی ساری تِرا اعتبار کرتے

ہُوا جاں بَلب بلآخر تِرا انتظار کرتے

 

یہ میں سوچتا ہُوں اکثر کہ اگر وہ مِل بھی جاتے

وہی کج ادائیوں سے مجھے بے قرار کرتے

 

بَپا حشر کیا نہ ہوتا، جو وہ چھوڑ کر ہر اِک کو

کبھی رسم و راہ مجھ سے اگر اُستوار کرتے

 

اِسی ڈر میں مُبتلا ہُوں، کہ بدیس آ کے اُس کو

کہیں بھُول ہی نہ جاؤں غمِ روزگار کرتے

 

سدا کوستے ہی رہتے ہم اُس آہِ بے اثر کو

جو ہمیشہ، مثلِ ماضی، نہ وہ ہم سے پیار کرتے

 

ہو سبیل کچھ تو یا رب، مِلے شرفِ کامرانی

ہُوئی عمر اِک دُعا میں مجھے یار یار کرتے

 

بھلا کیا جواب دیتے ربِ حُسنِ دوجہاں کو

جو پرِی وشوں کا اُٹھتے فقط انتظار کرتے

 

یہ خلِش عذابِ جاں سی نہ دلِ خلِش میں رہتی

وہ بھی ایفا اپنا وعدہ، اگر ایک بار کرتے

٭٭٭

 

 

 

 

نائی جو نہیں دیتی فُغاں، نظر آئے

ہو کور چشم کوئی تو کہاں نظر آئے

 

رَوا قدم ہے ہر اِک اُس پہ اِنتہائی بھی !

مگر یہ تب، کہ ہمیں راز داں نظر آئے

 

چمن سے تب ہی گُل و برگ کی اُمید بندھے

جو حاکموں میں کوئی باغباں نظر آئے

 

زمیں کے رحم و کرم پر ہی اِنحصار یہ کیوں

ذرا ہمیں بھی کہیں آسماں نظر آئے

 

ہمارے، شہر سے ہجرت کی سازشوں میں شریک

قریبی دوست، بہت شادماں نظر آئے

 

خلش وہ لاکھ چھُپائیں ہنسی کے پردے میں

کتابِ رُخ پہ مگر داستاں نظر آئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

کب اُن کو اپنا عمَل اِک بھی ظالمانہ لگے

کہوں جو حق کی اگر میں، تو باغیانہ لگے​

 

فضائے عِشق و محبّت جسے مِلا نہ کبھی

یہ دِل اِک ایسے پرندے کا آشیانہ لگے​

 

مطیع بن کے ہمیشہ رہے تھے، جس کا یہاں

عذاب ہم پہ سب اُس کا ہی شاخسانہ لگے​

 

کہُوں یہ کیسے کہ اُن کے بغیر رہ نہ سَکوُں

اُنھیں تو میری ہر اِک بات عامیانہ لگے​

 

اُنہی کی ذات ہو مُنتج ہمارے حال پہ جب

مِزاج پُرسی کا ہر لفظ تازیانہ لگے ​

 

جو کھِل نہ پایا کسی طَور آرزُو کا کنْول !

ڈھلا غزل میں تو، ہر لفظ عاجزانہ لگے​

 

اب اور کھُل کے اُنھیں حالِ دِل سُناؤں کیا

جنھیں غزل یہ مِری، اب بھی عاشقانہ لگے ​

 

تمھاری بیخ کنی پر تُلے وہی ہیں، خلِش

سُنے پہ جن کی ہر اِک بات مُخلصانہ لگے​

٭٭٭

 

 

 

 

 

آئے ذرا نہ اُٹھ کے وہ بیمار کی طرف

بیٹھے رہے تھے منہ کئے دیوار کی طرف

 

کھاتے نہ کیوں شکست بَھلا ہم خوشی کے ساتھ

جب فیصلہ تھا اُن کا بھی اغیار کی طرف

 

اِک عُمر دِل میں وصل کی اُمّید ہم لئے

پیغام بھیجتے رہے سرکار کی طرف

 

فُرقت میں اور ٹُوٹ کے اُن کا رہا خیال

جاتا کہاں سے ذہن بھی گھربار کی طرف

 

کیسے بچائے خود کو کوئی ڈوبنے سے جب

کھنچتی ہو ناؤ زیست کی منجھدار کی طرف

 

جاتا ہے لے کے اب بھی تمھاری گلی میں دِل

پڑتی ہے کب نظر در و دیوار کی طرف

 

افسوس پورے شہر میں رُسوائیوں کا تھا

کب دیتے ہم توجہ ہیں دو چار کی طرف

 

یوں تو چمن میں اور ثمر بار تھے بہت

مائل تھا دل مِرا اُسی نو بار کی طرف

 

حائل رُکاوٹوں میں اضافہ ہُوا بدیس

لایا ہے عِشق کھینچ کے بیگار کی طرف

 

کیا زندگی کا ہم سے جُدا فیصلہ بھی ہو

دِل کا جھُکاؤ اب بھی وہی یار کی طرف

 

قائم رہے انا پہ ہمیشہ ہی ہم خلش !

اٹھے نہیں قدم کبھی دربار کی طرف

 

حاصل فقط خلش ہو خلش کچھ جتن بِنا

آیا ہے مال خود بھی خریدار کی طرف ؟

٭٭٭

 

 

 

 

زندہ نہیں ہیں جوہر و انوار بیچ کر

اپنا قلم، نہ اپنے ہم اشعار بیچ کر

 

پُہنچے خود اپنے فکر و تدبّر سے ہیں یہاں

پردیس ہم نہ آئے ہیں گھربار بیچ کر

 

جاں کی سلامتی سے مقدّم ہے کوئی چیز

پردیس سب سِدھارے ہیں گھر یار بیچ کر

 

املاک کے فروخت کی مُہلت نہ تھی جنہیں

بیٹھیں ہیں مِلکیّت وہ سب اغیار بیچ کر

 

سایے سِوا، وسیلۂ خوراک بھی جو ہوں !

لاحق ہو بھُوک ایسے سب اشجار بیچ کر

 

ہیں کمسنی سے زیرِ تسَلُّط غمِ شکم !

بدلِیں نہ ہم سے حالتیں ادوار بیچ کر

 

گُفت و شُنِید ہی میں ہے خالی مکاں کا حل

قبل اِس کے مال اُڑائیں گھر اغیار بیچ کر

 

آبا کی تاجداری کا جن کو یہاں تھا زعم

آئے پلٹ کے کچھ نہ کچھ ہر بار بیچ کر

 

اچّھا ہُوا کہ کچھ تو حقیقت کھُلی، خلش

کھا جاتے ورنہ ہم کو بھی غمخوار بیچ کر

٭٭٭

 

 

 

 

 

ذرا نہ ڈھلنے پہ راضی وہ تیرے فرق کی رات

جو ایک رات بھی ہو کر تھی بے حساب سی رات

 

تمھارے ہجر میں ٹھہری تھی مجھ پہ جیسی رات

کسی نے دہر میں دیکھی نہ ہو گی ویسی رات

 

عذاب اِک ایسا، نہ وعدے پہ تیرا آنا تھا

جِیے مَرے تھے کئی بار جس میں رات کی رات

 

اذیّتوں کا نہ جس سے کوئی شُمار بھی ہو

لِئے وہ خود میں جہنّم کی ایسی آگ تھی رات

 

رُکی رُکی کبھی سانسیں، کبھی نہ ہوش کوئی

گُزر رہے تھے عجَب مرحَلوں سے ہجر کی رات

 

برابر اب بھی مِرے ذہن و دِل کو ڈستی ہے

تمھارے وعدۂ آمد سے ٹھہری مُوذی رات

 

اُمیدِ وصْل سے چَھٹتی نظر نہیں آتی !

جو زندگی پہ ہے طاری خلِش کی رات ہی رات

٭٭٭

 

 

 

 

رحم و کرم پہ یاد کی ٹھہری قضا ہے آج

اِک کیفیت خیال سے طاری جُدا ہے آج

 

مانوس جس سے میں نہیں ایسی فضا ہے آج

کانوں میں پڑ رہی مِرے سب کی دُعا ہے آج

 

ہر درد و غم سے ہجر کا صدمہ جُڑا ہے آج

پیکِ اجَل لے جان، کہ مجھ پر سَوا ہے آج

 

نو خیزیِ شباب سے وابستہ جو رہا

محکم نہ ہو یقین کہ، مجھ سے خفا ہے آج

 

وجہِ سرُور و کیف ہمیشہ رہی جو ذات

ترکِ تعلقات سے مجھ پر سزا ہے آج

 

اُس محشرِ خیال کی یادوں سے درد نے

ہر ضبط و اِنتہا سے تجاوز کِیا ہے آج

 

کیوں کھُل کے گفتگو کبھی اُن سے نہیں رہی

آنکھوں میں اِس ملال کی آئی گھٹا ہے آج

 

اب اور اِس حیات و مصائِب کا ذکر کیا

چھُٹکارا ہر غموں سے بَفضلِ خُدا ہے آج

 

وہ خُوب گو، جو باتوں سے تھکتا نہ تھا خلش

فرقت پہ اِس دیار کی، کیا بے نوا ہے آج

 

کافر یُوں بُت پرستی میں مُطلق نہیں خلش

اُس کی زباں پہ ہجر میں وِردِ خُدا ہے آج

٭٭٭

 

 

 

 

 

چُنے مجھے ہی ہمیشہ جہان بھر سے آگ

نہ چھوڑے جان بھی میری اگر مگر سے آگ

 

گو پُر ہے عِشق و محبّت کی اِک اثر سے آگ

لگے نہ سِینے میں اُس کے جہاں کی ڈر سے آگ

 

اب اور لوگوں کا کیا ذکر جب حقیقت میں

لگی نصِیب جَلے کو خود اپنے گھر سے آگ

 

نجانے کیا شبِ فرقت میں گُل کھِلاتی ہے

لگی یہ دامنِ دِل میں مِرے سحر سے آگ

 

ہر ایک شخص کو معلُوم ہے یہ اچھّی طرح

لگائے کون اور آتی ہے یہ کِدھر سے آگ

 

جلا کے رکھ دی ہے نفرت نے ایک دوجے کو

نہ آئی گھر میں لگی یہ، کسی نگر سے آگ

 

دو طرفہ کیا ہی مصیبت ہے پیش شب میں خلش

کبھی تپش بڑھے دِل کی، کبھی جگر سے آگ

٭٭٭

 

 

 

 

 

اِظہارِ محبّت پہ جو انجانے ہُوئے ہیں

کہتے ہیں مجھے سب سے کہ، دِیوانے ہُوئے ہیں

 

ہر شخص لئے آتا ہے مضمون نیا اِک

کیا دِل کی کہی بات پہ افسانے ہوئے ہیں

 

سوچیں تو تحمّل سے ذرا بیٹھ کے لمحہ

کیوں عرضِ تمنّا پہ یُوں بیگانے ہُوئے ہیں

 

سمجھیں نہیں احباب قیامت سے نہیں کم

اب اور نہ مِلنے کے جو ہرجانے ہُوئے ہیں

 

اب خود ہی چَھلک جاتے ہیں آنکھوں سے مِری اشک

لبریز غمِ ہجر سے پیمانے ہُوئے ہیں

 

قسمت میں نہیں خاک خلش، آپ یہ سمجھیں

پتھر سے بنی شمع کے پروانے ہوئے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

مِلنے کی آس میں یُوں کہِیں کے نہیں رہے

جس جس جگہ اُمید تھی، جا جا وہیں رہے

 

جو حال پُوچھنے پہ نہ کم چِیں جَبیں رہے

تھکتے نہیں یہ کہہ کے ، مِرے ہمنشیں رہے

 

قابل ہم اُن کے ہجْر میں غم کے نہیں رہے

خود غم اب اُن کا دیکھ کے ہم کو حزیں رہے

 

زرخیزیِ شباب سے پُہنچیں نہ عرش پر

زیرِ قدم خدا کرے اُن کے زمِیں رہے

 

عاشِق کے لب پہ حُسن کی تعریف میں وہی

ہو گفتگوئے ناز، جو عرشِ برِیں رہے

 

مرہونِ مِنّت اُن سبھی احباب کا ہُوں، جو

ہو مُعترِف سُخن کے مِرے نکتہ چیں رہے

 

ہے بادشاہت اُن کی ابھی تک اُسی طرح

اِس دِل پہ، گو نظر میں ہماری نہیں رہے

 

بھُولیں گے ہم اُنھیں نہ سرُور اُن کے حُسن کا

عمرِ خضر وہ دُوری سے ہم پر حَسِیں رہے

 

طاری ہیں فرقتوں میں وہی قرب کے مزے

صد شُکر وہ خیال سے دِل کے قرِیں رہے

 

خواہش رہی، کبھی نظر آئیں تو وہ خلش

دِل کی انگشتری میں جو مثلِ نگِیں رہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

پیار اچھّا نہ محبّت کا وبال اچّھا ہے

جس سے پُوری ہو تمنّا وہ کمال اچّھا ہے

 

ضُعف سے جوشِ محبّت کو زوال اچّھا ہے

مر مِٹے جانے کو ورنہ وہ جمال اچّھا ہے

 

گھر بَسائے ہُوئے مُدّت ہُوئی جن کو، اُن سے

اب بھی کیوں ویسی محبّت کا سوال اچّھا ہے

 

کچھ سنبھلنے پہ گلی پھر وہی لے جائے گا

دِل کا غم سے مِرے رہنا ہی نڈھال اچّھا ہے

 

لالچِ حُور و پری میں کہاں ہم آنے کے

سامنے اُس کے بَھلا کِس کا جمال اچّھا ہے

 

دِل کی خواہش کے بتانے پہ جواباً اُس کا

ہم سے یہ کہنا کہ، تیری یہ مجال اچّھا ہے

 

کچھ تسلّی کے لئے اِس دلِ مُضطر کی خلِش

رات بھر سونے کی راحت کا خیال اچّھا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

گُزر رہے ہیں عجَب موسمِ کمال سے ہم

جُدا ہُوئے ہی نہیں ہیں تِرے خیال سے ہم

 

بنی وہ ایک جَھلک زندگی کا حاصِل یُوں

لگے کہ محوِ نظارہ رہے ہیں سال سے ہم

 

نصیب سایۂ زُلفِ دراز ہو گا ضرُور

توقع خوب کی رکھتے ہیں خوش جمال سے ہم

 

اب اُن سے ہجر کی کیا داستاں کہیں، کہ یہاں

نبرد آرا سا رہتے ہیں کِس وبال سے ہم

 

نئے بَرس سے توقّع، نہ خیر کی اُمّید !

کہ خوش رہے نہ کسی بھی گُزشتہ سال سے ہم

 

مِلے وہ ہم کو جنھیں ہم نے اپنا مانا ہے

دُعائیں روز کریں ربِّ ذوالجلال سے ہم

 

رہے گا ذکر ہمارا، ہمارے بعد سہی !

سُخنوری میں رہے کم نہ کُچھ کمال سے ہم

 

زبانِ خلق پہ رہتا ہے ذکر یُوں بھی خلِش

کہ عاشقی میں ہیں اُن کی نہ کم مِثال سے ہم

 

کمال، فہْم و فصاحت میں شعر یُوں ہیں خلِش

کہ گُفتگو میں رہے دُور اِبتذال سے ہم

٭٭٭

 

 

 

 

 

یوں بھی کچھ لوگ تھے محفل میں جو لائے نہ گئے

جب سُنا بھی کبھی آئے ہیں تو پائے نہ گئے

 

دوست احباب مُصیبت میں تو پائے نہ گئے

ہم اذیّت میں اکیلے گئے، سائے نہ گئے

 

راہ پر ہم سے کسی طور وہ لائے نہ گئے

کر کے وعدے جو مُلاقات کو پائے نہ گئے

 

اپنے معیار پہ ہم سے تو وہ لائے نہ گئے

گھر جو مرضی سے ہماری کبھی آئے نہ گئے

 

شاملِ حال رہِیں میرے، دُعائیں سب کی

اُن کی اُلفت کے مِرے سر رہے سائے نہ گئے

 

دِل کے سب دِل میں رہے راز، کِسے کیا کہتے

درجۂ دوست تک احباب بھی لائے نہ گئے

 

چھوڑنا ہم کو پڑا با دِلِ ناخواستہ گھر

فیصلوں میں جو تسلسل سے بٹھائے نہ گئے

 

دَیں نہ کیوں حُسنِ بَلا خیز پہ الزام، کہ جب

دوسرے خواب تک آنکھوں میں سجائے نہ گئے

 

سب گُماں جو ہمیں لاحق تھے یقیں میں بدلے

شکوک اُن سے جو ذرا دِل کے مِٹائے نہ گئے

 

موسمِ گُل ہی نہیں وجۂ آشفتہ سری !

ہم تِری یادوں سے کِس پَل کہ ستائے نہ گئے

 

شک کوئی چارہ گری پر نہ ہو، اے چارہ گرو !

ہم سے غم اپنے، دِلاسوں میں دبائے نہ گئے

 

ہوکے لازم رہے جینے کو تنفس کی طرح

بِیتے لمحے جو تِرے سنگ، بھُلائے نہ گئے

 

یاد آتے ہی نہیں اُن کو کسی طور خلش

ہاں مگر اوروں سے جب ناز اُٹھائے نہ گئے

٭٭٭

 

 

 

 

جو شخص بھی باتوں میں دلائل نہیں رکھتا

تقرِیر میں اپنی وہ فضائل نہیں رکھتا

 

قِسمت میں نہیں میری، پہ مائل نہیں رکھتا

دل ایسے میں مفرُوضہ کا قائل نہیں رکھتا

 

سادہ ہُوں، طبیعت میں قناعت بھی ہے میری

چاہُوں تو میں کیا کیا کے وسائل نہیں رکھتا

 

چاہا جسے، صد شُکر کہ حاصل ہے مجھے وہ

عاشِق ہُوں مگر دِل ذرا گھائل نہیں رکھتا

 

شاداں ہُوں مِلی مہوشِ خُوباں سے ہَمہ وقت

دِل اور کسی حُسن پہ مائل نہیں رکھتا

 

کیا کیا نہ تدابِیر دِل و ذہن میں رکھّے

کُچھ کرنے کو جو شخص وسائل نہیں رکھتا

 

تفتیش زمانے کو ہے کیوں حال کی میرے

ہے کون جو دُنیا میں مسائل نہیں رکھتا

 

مُجرِم میں ہُوا کیوں طلبِ یار پہ اپنے

ہے کوئی درِ حُسن جو سائل نہیں رکھتا ؟

 

اِک لمحہ کہاں اپنا مجھے ہوش رہا اب

کب ذہن میں، وہ حُورِ شمائل نہیں رکھتا

 

نالاں ہیں سب احباب خلِش صبر سے یُوں بھی

پیش اُن کے کبھی اپنے مسائل نہیں رکھتا

٭٭٭

 

 

 

 

دردِ غمِ فِراق سے روتے نہیں ہیں ہم

لیکن سُکوں سے پل کو بھی سوتے نہیں ہیں ہم

 

لمحہ کوئی وصال کا کھوتے نہیں ہیں ہم

تنہا تِرے خیال سے ہوتے نہیں ہیں ہم

 

دامن تو آنسوؤں سے بھگوتے نہیں ہیں ہم

یوں کاش کہہ سکیں بھی کہ، روتے نہیں ہم

 

بدلِیں نہ عادتیں ذرا پردیس آ کے بھی !

دُکھ کب تِرے خیال سے ڈھوتے نہیں ہیں ہم

 

اب، دسترس میں جب نہیں اِک دِید تک رہی

کب چشمِ اِلتفات کو روتے نہیں ہیں ہم

 

چاہت کسی کی جاں کو نہ آ جائے سوچ کر

دل میں خود اپنے بیج یہ بوتے نہیں ہم

 

جس نے کبھی نہ پیار سے دیکھا ہمیں، خلش

اُس کی طلب سے ہاتھ بھی دھوتے نہیں ہیں ہم

٭٭٭

 

 

 

 

دوستی اُن سے میری کب ٹھہری

اِک شناسائی تھی غضب ٹھہری

 

ساری دُنیا کے غم مِٹا ڈالے

یاد اُن کی بھی کیا عجب ٹھہری

 

حالِ دل خاک جانتے میرا

گفتگو بھی تو زیرِ لب ٹھہری

 

تِیرَگی وضْع کر گئی بدلے

اِک ملاقاتِ نِیم شب ٹھہری

 

دِل کے ہاتھوں رہے ہم آزردہ

اِک مُصیبت نہ بے سبب ٹھہری

 

کیا عِلاج اُن سے میرے درد کا ہو

آہ میری جنھیں طرب ٹھہری

 

جائے گی لے کے اِنتظار کو ساتھ

اُن کی فُرقت میں جاں بَلب ٹھہری

 

اب تو دِن کو بھی دیکھتے ہیں خلش

کُچھ قیامت سے کم نہ شب ٹھہری

٭٭٭

 

 

 

 

حالت سے ہُوئے اِس کی بدنام نہ تم آئے

دینے دلِ مضطر کو آرام نہ تم آئے

 

جب وقت پڑا دِل پر کُچھ کام نہ تم آئے

تھی چارہ گری خاطر اِک شام نہ تم آئے

 

لاحق رہے اِس دِل کو اوہام نہ تم آئے

بھِجوائے کئی تم کو پیغام نہ تم آئے

 

افسوس تو کم ہوتا، گر ساتھ ذرا چلتے

تا عُمْر کے وعدے پر دو گام نہ تم آئے

 

کم ظُلم و سِتم تم نے ہم پر نہ روا رکھّا

دے وعدہ و آمد کے پیغام نہ تم آئے

 

تنہا جو کیا تم نے، دُنیا نے لِیا ہاتھوں

کیا کیا نہ لگے ہم پر اِلزام نہ تم آئے

 

لوگوں سے سُنے ہم نے اِس ترک تعلّق پر

تمہاری ہی نِسبت سے دُشنام نہ تم آئے

 

اب آئے تو کیا آئے، کُچھ دل کو نہیں پروا

جب ہجر و مصائب کے ایّام نہ تم آئے

 

سب درد و خلش دِل سے دھونے کا اِرادہ تھا

تیار تھے بِکنے کو بے دام نہ تم آئے

٭٭٭

 

 

 

 

روکوں مجال، لے گیا

خود کو غزال لے گیا

 

دام و سِحر سے عِشق کی

جاں کو نِکال لے گیا

 

کر کے فقیرِ ہجر سب

جاہ و جلال لے گیا

 

راحتِ وصل کب مِلی

میرا سوال لے گیا

 

اُس سے کہا نہ حالِ دِل

در پہ ملال لے گیا

 

کھائی قسم ہے جب نئی

پھر سے خیال لے گیا

 

وہ جو نہیں غزل نہیں

کشْف و کمال لے گیا

 

تھی مگر اب خوشی نہیں

غم کا وہ ڈھال لے گیا

 

میری ہنسی لبوں سے وہ

ماہِ شوال لے گیا

 

دِل تھا خلِش جوسِینے میں

شاہِ جَمال لے گیا

٭٭٭

 

 

 

 

دل و نظر پہ نئے رنگ سے جو پھیلے ہیں

یہ سارے ماہِ دسمبر نے کھیل کھیلے ہیں

 

کہِیں جو برف سے ڈھک کر ہیں کانْچ کی شاخیں

کہِیں اِنھیں سے بنے ڈھیر سارے ڈھیلے ہیں

 

بِچھی ہے چادرِ برف ایسی اِس زمِیں پہ، لگے

پڑی برس کی سفیدی میں ہم اکیلے ہیں

 

کچھ آئیں دِن بھی اُجالوں میں یُوں اندھیرے لئے

کہ جیسے آنکھوں کی کاجل نمی سے پھیلے ہیں

 

اُجاڑ راستے محرومِ سایۂ اشجار !

اِنھیں بھی پیش مِری زیست سے جھمیلے ہیں

 

درِیچے، برہنہ شاخوں کے اب نظاروں سے

مِری طرح ہی جُدائی کا کرب جَھیلے ہیں

 

انا گئی، کہ ہیں عاجز ہم اپنے دِل سے خلش

ہمارے ہاتھ ، تمنّا میں اُن کی پھیلے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

منظر مِرے خیال میں کیا دِید کے رہے

جب وہ رہے قریب تو دِن عید کے رہے

 

مِلنے کی، تھے وہاں تو نِکلتی تھی کچھ سبِیل

پردیس میں سہارے اب اُمّید کے رہے

 

بار آور اُن سے وصل کی کوشِش بَھلا ہو کیوں

لمحے نہ جب نصِیب میں تائید کے رہے

 

اب کاٹنے کو دوڑے ہیں تنہائیاں مِری

کچھ روز و شب تصوّرِ خوش دِید کے رہے

 

خود پر اُداسیوں کا سبب کیا کہیں، بجُز

کچھ کم کرَم نہ ہم پہ وہ خورشید کے رہے

 

اپنا خیال رکھنا، خبر بھیجنا ضرور !

منظر نظر میں روتے بھی تاکید کے رہے

 

کم گو بِچھڑ کے اُس سے ہیں احباب پر خلِش

اب دن کہاں وہ قصّے، وہ تمہید کے رہے

٭٭٭

 

 

 

 

آسُودگی کا کیا نہیں سامان تھا لئے

گھر پھر بھی میری قید کا بُہتان تھا لئے

 

طرز و عمل سے مجھ پہ نہ پہچان تھا لئے

جیسے کہ ہاتھ ، ہاتھ میں انجان تھا لئے

 

کچھ کم نہ میری موت کا اِمکان تھا لئے

دل پھر بھی اُس کی وصل کا ارمان تھا لئے

 

دِیوار کا سہارا، یُوں بے جان تھا لئے

ہاتھ اُس کا، کوئی ہاتھ میں انجان تھا لئے

 

مُرجھا گئے وہ دِل کو، زمانے گزر گئے

خوش باش زندگی کے جو ارمان تھا لئے

 

احباب مِلنے میری اسیری میں آئے جب

داروغہ میری موت کا فرمان تھا لئے

 

افسوس کیوں جو موت کا باعث بھی تم رہے

خواہش یہی تو دِل میں وہ نادان تھا لئے

 

حیرت ہُوئی جو سنگ زنی میں تھا پیش پیش

وہ شخص، سر کئی مِرے احسان تھا لئے

 

اُس مدّ و جزْرِ عِشق سے بچنا، نصیب کیوں

کم سرو قد وہ ذات میں طُوفان تھا لئے

 

احساس ہو چَلا ، کہ قضا آ چُکی خلش

عالم وہ دیدنی کا مِری جان تھا لئے

٭٭٭

 

 

 

 

نہ دِل میں غلبۂ قُرب و وصال پہلا سا

کبھی کبھی ہی رہے اب خیال پہلا سا

 

لئے ہم اُن کو تصوّر میں رات بھر جاگیں

رہا نہ عِشق میں حاصِل کمال پہلا سا

 

زمانے بھر کی رہی دُشمنی نہ یُوں ہم سے

رہا نہ عِشق میں جوش و جلال پہلا سا

 

ذرا سا وقت گُزرنے سے کیا ہُوا دِل کو

رہا نہ حُسن وہ اِس پر وبال پہلا سا

 

انا اچانک اب ایسی ہے مجھ میں دھر آئی

نہ در پہ جا کے ہو اُس سے سوال پہلا سا

 

ہُوں اپنے حال پہ قانع، کہ جو ہُوا سو ہُوا

نہ اُس کو کھونے پہ اب وہ ملال پہلا سا

 

عجب اِک کیفیتِ دِل کا سامنا ہے، خَلِش

وگرنہ اب بھی ہے اُس کا جمال پہلا سا

٭٭٭

 

 

 

 

سواری پیار کی پھر ایک بار گُزرے گی

نجانے دِل کو یہ کیوں اعتبار، گُزرے گی

 

نہ عُمر یُوں ہی رَہِ خاردار گُزرے گی

ضرور راہ کوئی پُر بہار گُزرے گی​

 

گُماں کِسے تھا اُسے آنکھ بھر کے دیکھا تو

نظر سے میری وہ پھر بار بار گُزرے گی

 

تمھاری یاد بھی گُزری جو غم کدے سے مِرے

نشاطِ زِیست کی رتھ پر سوار گُزرے گی

 

گُزر تو جائے گی تیرے بغیر بھی، لیکن

بڑی اُداس، بہت بےقرار گزرے گی

 

کِسے خبر تھی جو پاگل پہ دہرمیں گُزرے

اُسی طرح بہ تمنائے یار گزرے گی

 

انا یوں آڑے رہی اُس سے اِلتجا پہ مِری

کرَم پہ اُس کے مِری زیر بار گرے گی

 

خِزاں گزِیدہ چمن ہُوں میں مُستقِل سا خلِش

نہیں یقین، کہ پھر سے بہار گُزرے گی

٭٭٭

 

 

 

 

 

عرضِ اُلفت پہ وہ خفا بھی ہُوئے

ہم پہ اِس جُرم کی سزا بھی ہُوئے

 

زندگی تھی ہماری جن کے طُفیل

وہ ہی خفگی سے پھر قضا بھی ہُوئے

 

بے سبب کب ہیں میرے رنج و مَحِن

دوست، دُشمن کے ہمنوا بھی ہُوئے

 

کیا اُمید اُن سے کچھ بدلنے کی

ظلم اپنے جنھیں رَوا بھی ہُوئے

 

وہ جنھیں ہم نے دی ذرا عِزّت

پَھیلے ایسے کہ گو خُدا بھی ہُوئے

 

ظلم پھر ہوش نے نہ کم ڈھائے

جب ذرا غم سے ہم رہا بھی ہُوئے

 

کیا سِتم! حال یُوں ہے جن کے سبب

وہ مَرَض کا مِرے دوا بھی ہُوئے

 

اُس نے سوچا تو ہوگا میری طرح

کیا الگ ہو کے ہم جُدا بھی ہُوئے

 

بات سُننے کو خود بَضِد تھے، خلش

جب کہی دِل کی تو خفا بھی ہُوئے

٭٭٭

 

 

 

 

آ ہ رُکتی نظر نہیں آتی

آنکھ لگتی نظر نہیں آتی

 

یاد ٹلتی نظر نہیں آتی

رات ڈھلتی نظر نہیں آتی

 

کیا کِرن کی کوئی اُمید بندھے

دھُند چَھٹتی نظر نہیں آتی

 

گو تصوّر میں ہے رُخِ زیبا

یاس ہٹتی نظر نہیں آتی

 

یُوں گھُٹن سی ہے اِضطراب سے آج

سانس چلتی نظر نہیں آتی

 

کیا تصوّر میں کچھ تغیّر ہو

سوچ بٹتی نظر نہیں آتی

 

ٹھہری ایسی ہے خوش خیال پہ ایک

عُمر کٹتی نظر نہیں آتی

 

ایک خواہش نے کیا جَلا ڈالا

خود گو جلتی نظر نہیں آتی

 

وہ اُفق پر ہے چاندنی کے ہمَیں

ساتھ چلتی نظر نہیں آتی

 

خاک تاثیر بھی محبّت کی !

جو بدلتی نظر نہیں آتی

 

ایسی سِل برف کی ہے دِل پہ لِئے

جو پگھلتی نظر نہیں آتی

 

حِدّتِ عشق کارگر بھی نہیں

دال گھلتی نظر نہیں آتی

 

یہ ملال اب ہمَیں کہ کیوں ہم پر

وہ اُچٹتی نظر نہیں آتی

 

ہو تغافل پہ کیا گلہ کہ خلش

آگ جلتی نظر نہیں آتی

 

مانیے اُلفت ایک طرفہ خلش !

اُن میں پلتی نظر نہیں آتی
٭٭٭

ماخذ: اردو محفل

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید