FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل

 

…. مکمل کتاب پڑھیں

فہرست مضامین

لہروں کی شہنائی

 

 

ساحر لدھیانوی کے منتخب فلمی نغمے

 

 

مرتبہ :  اعجاز عبید

 

 

پہلی بات

 

 

یادش بخیر، وہ زمانہ یاد آتا ہے جب پہلی بار ہمارے گھر میں ’گاتا جائے بنجارہ‘ پاکٹ بکس کی شکل میں آئی۔ بلکہ آئی کہنا غلط ہے، میں خود امی کی فرمائش پر اندور کے گھر کے سامنے ’پنجاب بک سٹال‘ رانی پورہ روڈ سے خرید کر لایا۔ یہ پاکٹ بک ۱۹۶۹ء تک ہمارے پاس رہی، پھر یاد نہیں کہ علی گڑھ ہجرت کرتے وقت کہاں گئی! بہر حال اندور میں یہ ہم سب کی پسندیدہ کتاب تھی اور ساحر کی شاعری پسندیدہ شاعری (امی کی پسند ہی ہم دونوں بھائی بہن کی پسند ہوتی تھی ان دنوں)۔ اس کتاب کی آمد سے پہلے ساحر کے گیت ان فلمی گانوں کی کتابوں  میں ملتے تھے جو ایک آنہ، دو آنہ کی ہر فلم کے گانوں پر مشتمل کتابچوں میں شامل ہوتے تھے (جی ہاں، یہ وہ زمانہ تھا جب کوئی کوئی فلمی گانوں کی کتاب اردو میں بھی ملتی تھی! ورنہ ہندی میں بھی ملنے والی کتاب خرید لی جاتی تھی)

لیکن اس وقت بھی  ’گاتا جائے بنجارہ‘ سے یہ شکایت تھی کہ اس میں بہت سے ایسے گیت تھے جو ہمارے سنے ہوئے نہیں تھے۔ تعجب یہ تھا کہ ساحر نے ساٹھ کی دہائی میں چھپنے والی اس کتاب میں ۱۹۷۶ء میں آنے والی فلم ’کبھی کبھی‘ کے دو گیت شامل کر رکھے تھے! شاید ان کا ارادہ ہی ہو گا کہ ’میں پل دو پل کا شاعر ہوں‘ اور ’کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے‘ کو فلمی گیتوں میں شامل کیا جائے۔

عرصے کے بعد غالباً ۲۰۰۹۔ ۲۰۱۰ء میں عزیزی محمد بلال اعظم نے ساحر کے گیت جمع کئے تھے جن کو میں نے ’دور گگن پر‘ نامی ای بک کے طور پر ’اردو کی برقی کتابیں‘ میں شائع کیا تھا۔ لیکن اس وقت سے یہ خواہش ہی رہی کہ جس طرح فلمی گانوں کی کتابوں میں آوازوں کے مطابق (مثلاً دو گانوں میں لتا منگیشکر اور محمد رفیع وغیرہ کے الگ الگ حصے) گیت دئے جاتے تھے، اور  جو مصرعے دہرائے گئے ہوں، انہیں دو بار لکھا جاتا تھا، اسی طرز پر ساحر کے گیت بھی مرتب کئے جائیں۔ آخر چالیس پچاس سال پرانا خواب آج پورا ہو رہا ہے کہ یہ کتاب آپ کے سامنے ہے۔

اس کتاب میں ساحر کے سارے گیت تو شامل نہیں ہیں، جو جو مجھے یاد آتے گئے، ان کو تلاش کرتا رہا کہ متن اردو یا ہندی میں مل جائے جسے اردو میں سافٹ وئر کے ذریعے تبدیل کیا جا سکے، یا گوگل او سی آر کی مدد سے حاصل ہو سکے۔ پھر کچھ یادداشت کے سہارے، کچھ گیت انٹر نیٹ پر دوبارہ سن کر  ان سب باتوں کا اضافہ کر دیا ہے جو میں اپنی خواہش کے مطابق دیکھنا چاہتا تھا اور شاید میری ہی طرح دوسرے شائقین بھی چاہتے ہوں۔

ان گیتوں کی ترتیب فلموں کے حساب سے ہی کی گئی ہے۔ اور فلم کے نام کے بعد ہی موسیقار کا نام شامل کر دیا گیا ہے۔ ہر گیت کے گلو کار کا نام بھی شامل ہے۔ اگر کوئی غلطی ہو گئی ہو تو قارئین سے درخواست ہے کہ اسے ہمارے علم میں لایا جائے تا کہ اگلے ورژن میں اس کی درستی کر دی جائے۔

اعجاز عبید

۳۰، اپریل ۲۰۲۵ء

سپرنگ، ٹیکسس، یو ایس اے

٭٭٭

 

 

پہلی فلم: بازی

موسیقار: سچن دیو برمن

تدبیر سے بگڑی ہوئی تقدیر بنا لے

آواز: گیتا دت

تدبیر سے بگڑی ہوئی تقدیر بنا لے

تقدیر بنا لے

اپنے پہ بھروسہ ہے تو اک داؤ لگا لے

لگا لے داؤ لگا لے

ڈرتا ہے زمانے کی نگاہوں سے بھلا کیوں

نگاہوں سے بھلا کیوں

انصاف تیرے ساتھ ہے الزام اٹھا لے

الزام اٹھا لے

اپنے پہ بھروسہ ہے تو اک داؤ لگا لے

لگا لے داؤ لگا لے

کیا خاک وہ جینا ہے جو اپنے ہی لیے ہو

جو اپنے ہی لیے ہو

خود مٹ کے کسی اور کو مٹنے سے بچا لے

مٹنے سے بچا لے

اپنے پہ بھروسہ ہے تو اک داؤ لگا لے

لگا لے داؤ لگا لے

ٹوٹے ہوئے پتوار ہیں کشتی کے تو ہم کیا

کشتی کے تو ہم کیا

ہاری ہوئی باہوں کو ہی پتوار بنا لے

پتوار بنا لے

اپنے پہ بھروسہ ہے تو اک داؤ لگا لے

لگا لے داؤ لگا لے

٭٭٭

یہ کون آیا۔۔

آواز: گیتا دت

یہ کون آیا کہ میرے دل کی دنیا میں بہار آئی

یہ کون آیا کہ میرے دل کی دنیا میں بہار آئی

یہ کون آیا۔۔۔

اچانک یہ میرے ہاتھوں میں کس کا ہاتھ آیا ہے

نہ میں جانوں نہ دل جانے، وہ اپنا یا پرایا ہے

یہ کون آیا کہ میں اپنی ہی دھڑکن سن کے شرمائی

یہ کون آیا۔۔۔

دلہن بن کے جوانی کی امنگیں گنگناتی ہیں

بتا ہے کون آنکھوں میں کہ آنکھیں مسکراتی ہیں

بکھر کے کس کی باہوں میں یہ میری زلف لہرائی

یہ کون آیا۔۔۔

یہ کون آیا کہ میرے دل کی دنیا میں بہار آئی

یہ کون آیا ۔۔۔

٭٭٭

فلم: پیاسا

موسیقی: سچن دیو برمن

جانے وہ کیسے لوگ تھے جن کے پیار کو پیار ملا

آواز: ہیمنت کمار

جانے وہ کیسے لوگ تھے جن کے پیار کو پیار ملا

ہم نے تو جب کلیاں مانگیں کانٹوں کا ہار ملا

جانے وہ کیسے۔۔۔

خوشیوں کی منزل ڈھونڈھی تو غم کی گرد ملی

چاہت کے نغمے چاہے تو آہِ سرد ملی

دل کے بوجھ کو دھندلا کر گیا جو غم کھار ملا

ہم نے تو جب۔۔۔

جانے وہ کیسے۔۔۔۔

بچھڑ گیا

بچھڑ گیا

بچھڑ گیا، بچھڑ گیا ہر ساتھی دے کر پل دو پل کا ساتھ

کس کو فرصت ہے جو تھامے دیوانوں کا ہاتھ

ہم کو اپنا سایہ تک اکثر بیزار ملا

ہم نے تو جب۔۔۔

جانے وہ کیسے۔۔۔۔

اس کو ہی جینا کہتے ہیں تو یونہی جی لیں گے

اف نہ کریں گے، لب سی لیں گے، آنسو پی لیں گے

غم سے اب گھبرانا کیسا، غم سو بار ملا

ہم نے تو جب ۔۔۔

جانے وہ کیسے۔۔۔۔

٭٭٭

یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے

آواز: محمد رفیع

یہ محلوں یہ تختوں یہ تازوں کی دنیا

یہ انساں کے دشمن سماجوں کی دنیا

یہ دولت کے بھوکے رواجوں کی دنیا

یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے

ہر اک جسم گھایل ہر اک روح پیاسی

نگاہوں میں الجھن دلوں میں اداسی

یہ دنیا ہے یا عالم بد حواسی

یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے

یہاں اک کھلونا ہے انساں کی ہستی

یہ بستی ہے مردہ پرستوں کی بستی

یہاں پر تو جیون سے ہے موت سستی

یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے

جوانی بھٹکتی ہے بد کار بن کر

جواں جسم سجتے ہیں بازار بن کر

یہاں پیار ہوتا ہے بیوپار بن کر

یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے

یہ دنیا جہاں آدمی کچھ نہیں ہے

وفا کچھ نہیں دوستی کچھ نہیں ہے

جہاں پیار کی قدر ہی کچھ نہیں ہے

یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے

جلا دو اسے پھونک ڈالو یہ دنیا

مرے سامنے سے ہٹا لو یہ دنیا

تمہاری ہے تم ہی سنبھالو یہ دنیا

یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے

٭٭٭

جنہیں ناز ہے ہند پر۔۔۔۔

آواز: محمد رفیع

یہ کوچے، یہ نیلام گھر دل کشی کے

یہ لٹتے ہوئے کارواں زندگی کے

کہاں ہیں، کہاں ہے، محافظ خودی کے

جنہیں ناز ہے ہند پر وہ کہاں ہیں

کہاں ہیں، کہاں ہیں، کہاں ہیں

یہ پر پیچ گلیاں، یہ بدنام بازار

یہ گمنام راہی، یہ سکوں کی جھنکار

یہ عصمت کے سودے، یہ سودوں  پہ تکرار

جنہیں ناز ہے ہند پر وہ کہاں ہیں

کہاں ہیں، کہاں ہیں، کہاں ہیں

یہ صدیوں سے بے خواب، سہمی سی گلیاں

یہ مسلی ہوئی ادھ کھلی زرد کلیاں

یہ بکتی ہوئی کھوکھلی رنگ رلیاں

جنہیں ناز ہے ہند پر وہ کہاں ہیں

کہاں ہیں، کہاں ہیں، کہاں ہیں

وہ اجلے دریچوں میں پائل کی چھن چھن

تھکی ہاری سانسوں پے طبلے کی دھن دھن

یہ بے روح کمروں میں کھانسی کی ٹھن ٹھن

جنہیں ناز ہے ہند پر وہ کہاں ہیں

کہاں ہیں، کہاں ہیں، کہاں ہیں

یہ پھولوں کے گجرے، یہ پیکوں کے چھینٹے

یہ بیباک نظریں، یہ گستاخ فقرے

یہ ڈھلکے بدن اور یہ بیمار چہرے

جنہیں ناز ہے ہند پر وہ کہاں ہیں

کہاں ہیں، کہاں ہیں، کہاں ہیں

یہاں پیر بھی آ چکے ہیں، جواں بھی

تنومند بیٹے بھی، ابا میاں بھی

یہ بیوی بھی ہے اور بہن بھی ہے، ماں بھی

جنہیں ناز ہے ہند پر وہ کہاں ہیں

کہاں ہیں، کہاں ہیں، کہاں ہیں

مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی

یشودا کی ہم جنس ، رادھا کی بیٹی

پیمبر کی امت، زلیخا کی بیٹی

جنہیں ناز ہے ہند پر وہ کہاں ہیں

کہاں ہیں، کہاں ہیں، کہاں ہیں

ذرا ملک کے رہبروں کو بلاؤ

یہ کچے، یہ گلیاں، یہ منظر دکھاؤ

جنہیں ناز ہے ہند پر انکو لاؤ

جنہیں ناز ہے ہند پر وہ کہاں ہیں

کہاں ہیں، کہاں ہیں، کہاں ہیں

٭٭٭

سر جو ترا چکرائے۔۔۔

آواز: محمد رفیع

سر جو ترا چکرائے، یا دل ڈوبا جائے

آ جا پیارے پاس ہمارے، کاہے گھبرائے، کاہے گھبرائے

تیل مرا ہے مسکی (مشکی)، گنج رہے نہ کھسکی (خشکی)

جس کے سر پر ہاتھ پھرا دوں، چمکے قسمت اس کی

سن سن سن، ارے بیٹا سن، اس چمپی میں بڑے بڑے گن

لاکھ دکھوں کی ایک دوا ہے، کیوں نہ آزمائے

کاہے گھبرائے، کاہے گھبرائے

سر جو ترا ۔۔۔

پیار کا ہووے جھگڑا، یا بزنس کا ہو رگڑا

سب لفڑوں کا بوجھ ہٹے جب پڑے ہاتھ اک تگڑا

سن سن سن، ارے بابو سن، اس چمپی میں بڑے بڑے گن

لاکھ دکھوں کی ایک دوا ہے، کیوں نہ آزمائے

کاہے گھبرائے، کاہے گھبرائے

سر جو ترا ۔۔۔

نوکر ہو یا مالک، لیڈر ہو یا پبلک

اپنے آگے سبھی جھکیں ہیں، کیا راجہ کیا سینک

سن سن سن، ارے بیٹا سن، اس چمپی میں بڑے بڑے گن

لاکھ دکھوں کی ایک دوا ہے، کیوں نا آزمائے

کاہے گھبرائے، کاہے گھبرائے

سر جو ترا….

٭٭٭

ہم آپ کی آنکھوں میں۔۔۔

آواز: محمد رفیع، آشا بھوسلے

رفیع: ہم آپ کی آنکھوں میں، اس دل کو بسا دیں تو

آشا: ہم موند کے پلکوں کو، اس دل کو سزا دیں تو

رفیع: ان زلفوں میں گوندھیں گے ہم پھول محبت کے

آشا: زلفوں کو جھٹک کر ہم یہ پھول گرا دیں تو

رفیع: ہم آپ کی آنکھوں میں۔۔۔

رفیع: ہم آپ کو خوابوں میں لا، لا کے ستائیں گے

آشا: ہم آپ کی آنکھوں سے نیندیں ہی اڑا دیں تو

رفیع: ہم آپ کی آنکھوں میں۔۔۔

رفیع: ہم آپ کے قدموں پر گر جائیں گے غش کھا کر

آشا: اس پر بھی نہ ہم اپنے آنچل کی ہوا دیں تو

رفیع: ہم آپ کی آنکھوں میں۔۔۔

٭٭٭

تنگ آ چکے ہیں کشمکش زندگی سے ہم

آواز: محمد رفیع

تنگ آ چکے ہیں کشمکش زندگی سے ہم

ٹھکرا نہ دیں جہاں کو کہیں بے دلی سے ہم

ہم غمزدہ ہیں لائیں کہاں سے خوشی کے گیت

۔۔۔ کہاں سے خوشی کے گیت

دیں گے وہی جو پائیں گے اس زندگی سے ہم

تنگ آ چکے ہیں۔۔۔

ابھریں گے ایک بار ابھی دل کے ولولے

۔۔۔ دل کے ولولے

گو دب گئے ہیں بار غم زندگی سے ہم

تنگ آ چکے ہیں۔۔۔

لو آج ہم نے توڑ دیا رشتۂ امید

۔۔۔ رشتۂ امید

لو اب کبھی گلہ نہ کریں گے کسی سے ہم

٭٭٭

یہی گیت آشا بھوسلے نے فلم ’لائٹ ہاؤس‘’ میں بھی گایا ہے۔ موسیقار  این دتّا

اصل غزل

تنگ آ چکے ہیں کشمکش زندگی سے ہم

ٹھکرا نہ دیں جہاں کو کہیں بے دلی سے ہم

مایوسیِ  مآل محبت نہ پوچھیے

اپنوں سے پیش آئے ہیں بیگانگی سے ہم

لو آج ہم نے توڑ دیا رشتۂ امید

لو اب کبھی گلہ نہ کریں گے کسی سے ہم

ابھریں گے ایک بار ابھی دل کے ولولے

گو دب گئے ہیں بار غم زندگی سے ہم

گر زندگی میں مل گئے پھر اتفاق سے

پوچھیں گے اپنا حال تری بے بسی سے ہم

اللہ رے فریب مشیت کہ آج تک

دنیا کے ظلم سہتے رہے خامشی سے ہم

٭٭٭

جانے کیا تو نے کہی

آواز: گیتا دت

جانے کیا تو نے کہی، جانے کیا میں نے سنی

بات کچھ بن ہی گئی

جانے کیا تو نے کہی، جانے کیا میں نے سنی

بات کچھ بن ہی گئی

جانے کیا تو نے کہی

سنسناہٹ سی ہوئی، تھرتھراہٹ سی ہوئی

سنسناہٹ سی ہوئی، تھرتھراہٹ سی ہوئی

جاگ اٹھے خواب کئی، بات کچھ بن ہی گئی

جانے کیا تو نے کہی، جانے کیا میں نے سنی

بات کچھ بن ہی گئی

جانے کیا تو نے کہی

نین جھک جھک کے اٹھے، پانوں رک رک کے اٹھے

نین جھک جھک کے اٹھے، پانوں رک رک کے اٹھے

آ گئی چال نئی، بات کچھ بن ہی گئی

جانے کیا تو نے کہی، جانے کیا میں نے سنی

بات کچھ بن ہی گئی

جانے کیا تو نے کہی

زلف شانے پہ مڑی، ایک خوشبو سی اڑی

زلف شانے پہ مڑی، ایک خوشبو سی اڑی

کھل گئے راز کئی، بات کچھ بن ہی گئی

جانے کیا تو نے کہی، جانے کیا میں نے سنی

بات کچھ بن ہی گئی

٭٭٭

آج سجن موہے انگ لگا لو

آواز: گیتا دت

آج سجن موہے انگ لگا لو، جنم سپھل ہو جائے

ہردے کی پیڑا، دیہہ کی اگنی، سب شیتل ہو جائے

آج سجن موہے انگ لگا لو، جنم سپھل ہو جائے

کیے لاکھ جتن، مورے من کی تپن، مورے تن کی جلن نہیں جائے

کیسی لاگی یہ لگن، کیسی جاگی یہ اگن، جیا دھیر دھرن نہیں پائے

پریم سدھا اتنی برسا دو، جگ جل تھل ہو جائے

آج سجن موہے انگ لگا لو، جنم سپھل ہو جائے

کئی جگوں سے ہیں جاگے، مورے نین ابھاگے، کہیں جیا نہیں لاگے بن تورے

سکھ دیکھے نا ہیں آگے، دکھ پیچھے پیچھے بھاگے، جگ سونا سونا لاگے بن تورے

پریم سدھا اتنی برسا دو، جگ جل تھل ہو جائے

آج سجن موہے انگ لگا لو، جنم سپھل ہو جائے

موہے اپنا بنا لو، موری بانہہ پکڑ، میں ہوں جنم جنم کی داسی

موری پیاس بجھا دو، من ہر گردھر، میں ہوں انتر گھٹ تک پیاسی

پریم سدھا اتنی برسا دو، جگ جل تھل ہو جائے

آج سجن موہے انگ لگا لو، جنم سپھل ہو جائے

٭٭٭

فلم: پھر صبح ہو گی

موسیقار: خیام ( محمد ظہور)

پھر نہ کیجے مری گستاخ نگاہی کا گلہ

آوازیں : مکیش، آشا بھوسلے

مکیش:

پھر نہ کیجے مری گستاخ نگاہی کا گلہ

دیکھنے آپ نے پھر پیار سے دیکھا مجھ کو

آشا:

میں کہاں تک نہ نگاہوں کو پلٹنے دیتی

آپ کے دل نے کئی بار پکارا مجھ کو

مکیش:

اس قدر پیار سے دیکھو نہ ہماری جانب

دل اگر اور مچل جائے تو مشکل ہو گی

آشا:

تم جہاں میری طرف دیکھ کے رک جاؤ گے

وہی منزل مری تقدیر کی منزل ہو گی

مکیش:

دیکھنے آپ نے پھر پیار سے دیکھا مجھ کو

آشا:

آپ کے دل نے کئی بار پکارا مجھ کو

مکیش :

ایک یوں ہی سی نظر دل کو جو چھو لیتی ہے

کتنے ارمان جگاتی ہے تمہیں کیا معلوم

آشا:

روح بے چین ہے قدموں سے لپٹنے کے لئے

تم کو ہر سانس بلاتی ہے تمہیں کیا معلوم

مکیش:

دیکھنے آپ نے پھر پیار سے دیکھا مجھ کو

آشا:

آپ کے دل نے کئی بار پکارا مجھ کو

مکیش:

ہر نظر آپ کی جذبات کو اکساتی ہے

میں اگر ہاتھ پکڑ لوں تو خفا مت ہونا

آشا:

میری دنیائے محبت ہے تمہارے دم سے

میری دنیائے محبت سے جدا مت ہونا

مکیش:

دیکھنے آپ نے پھر پیار سے دیکھا مجھ کو

آشا:

آپ کے دل نے کئی بار پکارا مجھ کو

٭٭٭

چین و عرب ہمارا ، ہندوستاں ہمارا

آواز: مکیش

چین و عرب ہمارا ، ہندوستاں ہمارا

رہنے کو گھر نہیں ہے ، سارا جہاں ہمارا

چین و عرب ہمارا …

کھولی بھی چھِن گئی ہے ، بینچیں بھی چھِن گئی ہیں

سڑکوں پہ گھومتا ہے ، اب کارواں ہمارا

چین و عرب ہمارا …

جیبیں ہیں اپنی خالی ، کیوں دیتا ورنہ گالی

وہ سنتری ہمارا ، وہ پاسباں ہمارا

چین و عرب ہمارا…

جتنی بھی بلڈنِگیں تھیں ، سیٹھوں نے بانٹ لی ہیں

فُٹ پاتھ بمبئی  کے ہیں آشیاں ہمارا

چین و عرب ہمارا …

سونے کو ہم قلندر ، آتے ہیں بوری بندر

ہر اک قُلی یہاں کا ہے راز داں ہمارا

چین و  عرب ہمارا…

تعلیم ہے ادھوری ، ملتی نہیں مجوری

معلوم کیا کسی کو ، دردِ نہاں ہمارا

چین و عرب ہمارا…

پتلا ہے حال اپنا ، لیکن لہو ہے گاڑا

فولاد سے بنا ہے ، ہر نوجواں ہمارا

چین و عرب ہمارا …

مِل جُل کے اِس وطن کو ، ایسا سجائیں گے ہَم

حیرت سے منہ تکے گا ، سارا جہاں ہمارا

چین و عرب ہمارا…

٭٭٭

آسماں پہ ہے خدا

آواز: مکیش

آسماں پہ ہے خدا اور زمیں پہ ہم

آج کل وہ اس طرف دیکھتا ہے کم

آسماں پہ ہے خدا اور زمیں پہ ہم

آج کل کسی کو وہ ٹوکتا نہیں

چاہے کچھ بھی کیجئے روکتا نہیں

ہو رہی ہے لوٹ مار ، پھٹ رہے ہیں بم

آسماں پہ ہے خدا اور زمیں پہ ہم

آج کل وہ اس طرف دیکھتا ہے کم

آسماں پہ ہے خدا اور زمیں پہ ہم

کس کو بھیجے وہ یہاں خاک چھاننے

اس تمام بھیڑ کا حال جاننے

آدمی ہیں ان گنت ، دیوتا ہیں کم

آسماں پہ ہے خدا اور زمیں پہ ہم

آج کل وہ اس طرف دیکھتا ہے کم

آسماں پہ ہے خدا اور زمیں پہ ہم

جو بھی ہے وہ ٹھیک ہے ذکر کیوں کریں

ہم ہی سب جہان کی فکر کیوں کریں

جب اسے ہی غم نہیں کیوں ہمیں ہو غم

آسماں پہ ہے خدا اور زمیں پہ ہم

آج کل وہ اس طرف دیکھتا ہے کم

آسماں پہ ہے خدا اور زمیں پہ ہم

٭٭٭

دو بوندیں ساون کی

آواز: آشا بھوسلے

دو بوندیں ساون کی۔۔۔۔

اک ساگر کی سیپ میں ٹپکے اور موتی بن جائے

دوجی گندے جل میں گر کر اپنا آپ گنوائے

کس کو مجرم سمجھے کوئی، کس کو دوش لگائے

دو بوندیں ساون کی۔۔۔۔

دو کلیاں گلشن کی۔۔۔۔

اک سہرے کے بیچ گندھے اور من ہی من اترائے

اک ارتھی کی بھینٹ چڑھے اور دھولی میں مل جائے

کس کو مجرم سمجھے کوئی، کس کو دوش لگائے

دو کلیاں گلشن کی

دو سکھیاں بچپن کی۔۔۔۔

اک سنگھاسن پر بیٹھے، اور روپ متی کہلائے

دوجی اپنے روپ کے کارن، گلیوں میں بک جائے

کس کو مجرم سمجھے کوئی، کس کو دوش لگائے

دو سکھیاں بچپن کی۔۔۔۔

٭٭٭

وہ صبح کبھی تو آئے گی

آواز: مکیش

وہ صبح کبھی تو آئے گی

وہ صبح کبھی تو آئے گی

ان کالی صدیوں کے سر سے، جب رات کا آنچل ڈھلکے گا

جب دکھ کے بادل پگھلیں گے، جب سکھ کا ساگر چھلکے گا

جب امبر جھوم کے ناچے گا، جب دھرتی نغمے گائے گی

وہ صبح کبھی تو آئے گی

وہ صبح کبھی تو آئے گی

جس صبح کی خاطر جگ جگ سے ہم سب مر مر کے جیتے ہیں

جس صبح کے امرت کی دھن میں ہم زہر کے پیالے پیتے ہیں

ان بھوکی پیاسی روحوں پر اک دن تو کرم فرمائے گی

وہ صبح کبھی تو آئے گی

وہ صبح کبھی تو آئے گی

مانا کہ ابھی تیرے میرے ارمانوں کی قیمت کچھ بھی نہیں

مٹی کا بھی ہے کچھ مول مگر انسانوں کی قیمت کچھ بھی نہیں

انسانوں کی عزت جب جھوٹے سکوں میں نہ تولی جائے گی

وہ صبح کبھی تو آئے گی

وہ صبح کبھی تو آئے گی

دولت کے لئے جب عورت کی عصمت کو نہ بیچا جائے گا

چاہت کو نہ کچلا جائے گا، غیرت کو نہ بیچا جائے گا

اپنے کالے کرتوتوں پر جب یہ دنیا شرمائے گی

وہ صبح کبھی تو آئے گی

وہ صبح کبھی تو آئے گی

بیتیں کے کبھی تو دن آخر بھوک کے اور بیکاری کے

ٹوٹیں گے کبھی تو بت آخر دولت کی اجارہ داری کے

جب ایک انوکھی دنیا کی بنیاد اٹھائی جائے گی

وہ صبح کبھی تو آئے گی

وہ صبح کبھی تو آئے گی

مجبور بڑھاپا جب سونی راہوں کی دھول نہ پھانکے گا

معصوم لڑکپن جب گندی گلیوں میں بھیک نہ مانگے گا

حق مانگنے والوں کو جس دن سولی نہ دکھائی جائے گی

وہ صبح کبھی تو آئے گی

وہ صبح کبھی تو آئے گی

٭٭٭

وہ صبح‌ ہمیں سے آئے گی۔۔۔۔۔۔

آواز: مکیش

جب دھرتی کروٹ بدلے گی، جب قید سے قیدی چھوٹیں گے

جب پاپ گھروندے پھوٹیں گے، جب ظلم کے بندھن ٹوٹیں گے

اس صبح کو ہم ہی لائیں گے، وہ صبح ہمیں سے آئے گی

وہ صبح ہمیں سے آئے گی

منحوس سماجی ڈھانچوں میں جب ظلم نہ پالے جائیں گے

جب ہاتھ نہ کاٹے جائیں گے، جب سر نہ اچھالے جائیں گے

جیلوں کے بنا جب دنیا کی سرکار چلائی جائے گی

وہ صبح ہمیں ‌سے آئے گی

سنسار کے سارے محنت کش کھیتوں ‌سے ملوں سے نکلیں گے

بے گھر، بے در، بے بس انساں تاریک بلوں سے نکلیں گے

دنیا امن اور خوشحالی کے پھولوں ‌سے سجائی جائے گی

وہ صبح ہمیں ‌سے آئے گی

٭٭٭

فلم: ہم دونوں

موسیقار: جے دیو

ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر

آوازیں: محمد رفیع، آشا بھوسلے

رفیع:

ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر

کہ دل ابھی بھرا نہیں

ابھی ابھی تو آئی ہو

بہار بن کے چھائی ہو

ہوا ذرا مہک تو لے

نظر ذرا بہک تو لے

یہ شام ڈھل تو لے ذرا

یہ دل سنبھل تو لے ذرا

میں تھوڑی دیر جی تو لوں

نشے کے گھونٹ پی تو لوں

ابھی تو کچھ کہا نہیں

ابھی تو کچھ سُنا نہیں

ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر

کہ دل ابھی بھرا نہیں

آشا:

ستارے جھلملا اُٹھے

چراغ جگمگا اُٹھے

بس اب نہ مجھ کو ٹوکنا

نہ بڑھ کے راہ روکنا

اگر میں رُک گئی ابھی

تو جا نہ پاؤں گی کبھی

یہی کہو گے تم سدا

کہ دل ابھی نہیں بھرا

جو ختم ہو کسی جگہ

یہ ایسا سلسلہ نہیں

ابھی نہیں , ابھی نہیں

نہیں نہیں.. نہیں نہیں

رفیع:

ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر

کہ دل ابھی بھرا نہیں

ادھوری آس چھوڑ کے

جو روز یونہی جاؤ گے

تو کس طرح نبھاؤ گے

کہ زندگی کی راہ میں

جواں دلوں کی چاہ میں

کئی مقام آئیں گے

جو ہم کو آزمائیں گے

بُرا نہ مانو بات کا

یہ پیار ہے، گلہ نہیں

ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر

کہ دل ابھی بھرا نہیں

آشا:

یہی کہو گے تم سدا

کہ دل ابھی بھرا نہیں

ہاں دل ابھی بھرا نہیں

نہیں نہیں.. نہیں نہیں

٭٭٭

جہاں میں ایسا کون ہے

آواز: آشا بھوسلے

جہاں میں ایسا کون ہے

کہ جس کو غم ملا نہیں

دکھ اور سکھ کے راستے

بنے ہیں سب کے واسطے

جو غم سے ہار جاؤ گے

تو کس طرح نبھاؤ گے

خوشی ملے ہمیں کہ غم

جو ہوگا بانٹ لیں گے ہم

مجھے تم آزماؤ تو

ذرا نظر ملا ؤ تو

یہ جسم دو صحیح مگر

دلوں میں فاصلہ نہیں

جہاں میں ایسا کون ہے

کہ جس کو غم ملا نہیں

تمہارے پیار کی قسم

تمہارا غم ہے میرا غم

نہ یوں بجھے بجھے رہو

جو دل میں بات ہے کہو

جو مجھ سے بھی چھپاؤ گے

تو پھر کسے بتاؤ گے

میں کوئی غیر تو نہیں

دلاؤں کس طرح یقین

کہ تم سے میں جدا نہیں

کہ مجھ سے تم جدا نہیں

جہاں میں ایسا کون ہے

کہ جس کو غم ملا نہیں

٭٭٭

میں زندگی کا ساتھ نبھاتا چلا گیا

آواز: محمد رفیع

میں زندگی کا ساتھ نبھاتا چلا گیا

ہر فکر کو دھوئیں میں اڑاتا چلا گیا

بربادیوں کا سوگ منانا فضول تھا

بربادیوں کا جشن مناتا چلا گیا

ہر فکر کو دھوئیں میں اڑا۔۔۔۔

جو مل گیا اسی کو مقدر سمجھ لیا

جو کھو گیا میں اس کو بھلاتا چلا گیا

ہر فکر کو دھوئیں میں اڑا۔۔۔۔

غم اور خوشی میں فرق نہ محسوس ہو جہاں

میں دل کو اس مقام پہ لاتا چلا گیا

ہر فکر کو دھوئیں میں اڑا۔۔۔

میں زندگی کا ساتھ نبھاتا چلا گیا

ہر فکر کو دھوئیں میں اڑاتا چلا گیا

٭٭٭

 

کبھی خود پر کبھی حالات پہ رونا آیا

آواز: محمد رفیع

کبھی خود پہ کبھی حالات پہ رونا آیا

کبھی خود پہ کبھی حالات پہ رونا آیا

بات نکلی تو ہر اک بات پہ رونا آیا

کبھی خود پہ۔۔۔

ہم تو سمجھے تھے کہ ہم بھول گئے ہیں ان کو

ہم تو سمجھے تھے کہ ہم بھول گئے ہیں ان کو

کیا ہوا، آج یہ کس بات پہ رونا آیا

کبھی خود پہ۔۔۔

کس لئے جیتے ہیں ہم، کس کے لئے جیتے ہیں

کس لئے جیتے ہیں ہم، کس کے لئے جیتے ہیں

بارہا ایسے سوالات پہ رونا آیا

کبھی خود پہ۔۔۔

کون روتا ہے کسی اور کی خاطر اے دوست؟

کون روتا ہے کسی اور کی خاطر اے دوست؟

سب کو اپنی ہی کسی بات پہ رونا آیا

کبھی خود پہ۔۔۔

٭٭٭

فلم: دل ہی تو ہے

موسیقار: روشن

تم اگر مجھ کو نہ چاہو گی تو کوئی بات نہیں

آواز: مکیش

تم اگر مجھ کو نہ چاہو گی تو کوئی بات نہیں

تم کسی اور کو چاہو گی تو مشکل ہو گی!

اب اگر میل نہیں ہے تو جدائی بھی نہیں

بات توڑی بھی نہیں تم نے، نبھائی بھی نہیں

یہ سہارا ہی بہت ہے مرے جینے کے لئے

تم اگر میری نہیں ہو تو پرائی بھی نہیں

میرے دل کو نہ سراہو تو کوئی بات نہیں

غیر کے دل کو سراہو گی تو مشکل ہو گی!

تم کسی اور کو چاہو گی تو مشکل ہو گی!

تم حسیں ہو، تمہیں سب پیار ہی کرتے ہوں گے

میں جو مرتا ہوں تو کیا اور بھی مرتے ہوں گے

سب کی آنکھوں میں اسی شوق کا طوفاں ہو گا

سب کے سینے میں یہی درد ابھرتے ہوں گے

میرے غم میں نہ کراہو تو کوئی بات نہیں

اور کے غم میں کراہو گی تو مشکل ہو گی!

تم کسی اور کو چاہو گی تو مشکل ہو گی!

پھول کی طرح ہنسو، سب کی نگاہوں میں رہو

اپنی معصوم جوانی کی پناہوں میں رہو

مجھ کو وہ دن نہ دکھانا تمہیں اپنی ہی قسم

میں ترستا رہوں ، تم غیر کی بانہوں میں رہو

تم جو مجھ سے نہ نباہو تو کوئی بات نہیں

کسی دشمن سے نباہو گی تو مشکل ہو گی!

تم کسی اور کو چاہو گی تو مشکل ہو گی!

٭٭٭

تمہاری مست نظر، اگر ادھر نہیں ہوتی

آواز: مکیش

تمہاری مست نظر، اگر ادھر نہیں ہوتی

نشہ میں چور فضا اس قدر نہیں ہوتی

تمہاری مست نظر

تمہیں کو دیکھنے کی دل میں آرزوئیں ہیں

تمہارے آگے ہی اونچی نظر نہیں ہوتی

تمہاری مست نظر

خفا نہ ہونا اگر بڑھ کے تھام لوں دامن

یہ دل فریب خطا جان کر نہیں ہوتی

تمہاری مست نظر

تمہارے آنے تلک ہم کو ہوش رہتا ہے

پھر اس کے بعد ہمیں کچھ خبر نہیں ہوتی

تمہاری مست نظر، اگر ادھر نہیں ہوتی

تمہاری مست نظر

٭٭٭

نگاہیں ملانے کو جی چاہتا ہے

آوازیں: آشا بھوسلے اور ساتھی/روشن

راز کی بات ہے محفل میں کہیں یا نہ کہیں

بس گیا ہے کوئی اس دل میں، کہیں یا نہ کہیں

کہیں یا نہ کہیں

نگاہیں ملانے کو جی چاہتا ہے

نگاہیں ملانے کو جی چاہتا ہے

نگاہیں ملانے کو جی چاہتا ہے

دل و جاں لٹانے کو جی چاہتا ہے

جی چاہتا ہے

وہ تہمت جسے عشق کہتی ہے دنیا

وہ تہمت جسے عشق کہتی ہے دنیا

وہ تہمت جسے عشق کہتی ہے دنیا

وہ تہمت اٹھانے کو جی چاہتا ہے

وہ تہمت اٹھانے کو جی چاہتا ہے

دل و جاں لٹانے کو جی چاہتا ہے

جی چاہتا ہے

کسی کے منانے میں لذت وہ پائی

کسی کے منانے میں لذت وہ پائی

کسی کے منانے میں لذت وہ پائی

کہ پھر روٹھ جانے کو جی چاہتا ہے

کہ پھر روٹھ جانے کو جی چاہتا ہے

دل و جاں لٹانے کو جی چاہتا ہے

جی چاہتا ہے

وہ جلوہ جو اوجھل بھی ہے سامنے بھی

وہ جلوہ جو اوجھل بھی ہے سامنے بھی

وہ جلوہ جو اوجھل بھی ہے سامنے بھی

وہ جلوہ چرانے کو جی چاہتا ہے

وہ جلوہ چرانے کو جی چاہتا ہے

دل و جاں لٹانے کو جی چاہتا ہے

جی چاہتا ہے

جس گھڑی میری نگاہوں کو تری دید ہوئی

جس گھڑی میری نگاہوں کو تری دید ہوئی

جس گھڑی میری نگاہوں کو تری دید ہوئی

وہ گھڑی تیرے مرے عشق کی تمہید ہوئی

جس گھڑی میں نے ترا چاند سا چہرہ دیکھا

عید ہو یا کہ نہ ہو میرے لئے عید ہوئی

عید ہو یا کہ نہ ہو میرے لئے عید ہوئی

وہ جلوہ جو اوجھل بھی ہے سامنے بھی

وہ جلوہ جو اوجھل بھی ہے سامنے بھی

وہ جلوہ جو اوجھل بھی ہے سامنے بھی

وہ جلوہ چرانے کو جی چاہتا ہے

وہ جلوہ چرانے کو جی چاہتا ہے

دل و جاں لٹانے کو جی چاہتا ہے

جی چاہتا ہے

ملاقات کا کوئی پیغام دیجیے

ملاقات کا کوئی پیغام دیجیے

ملاقات کا کوئی پیغام دیجیے

کہ چھپ چھپ کے آنے کو جی چاہتا ہے

پھر آ کے نہ جانے کو جی چاہتا ہے

جی چاہتا ہے

نگاہیں ملانے کو جی چاہتا ہے

٭٭٭

لاگا چنری میں داگ۔۔۔

آواز: منا ڈے

لاگا چنری میں داگ چھپاؤں کیسے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گھر جاؤں کیسے

لاگا چنری میں داگ۔۔۔

ہو گئی میلی موری چنریا

کورے بدن سی کوری چنریا

جا کے بابل سے نجریں ملاؤں کیسے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گھر جاؤں کیسے

لاگا چنری میں داگ۔۔۔

بھول گئی سب بچن بدا کے

کھو گئی میں سسرال میں آ کے

جا کے بابل سے نجریں ملاؤں کیسے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گھر جاؤں کیسے

لاگا چنری میں داگ۔۔۔

کوری چنریا آتما موری میل ہے مایا جال

وہ دنیا مورے بابل کا گھر، یہ دنیا سسرال

جا کے بابل سے نجریں ملاؤں کیسے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گھر جاؤں کیسے

لاگا چنری میں داگ چھپاؤں کیسے

٭٭٭

غصے میں جو نکھرا ہے

آواز: مکیش

غصے میں جو نکھرا ہے اس حسن کا کیا کہنا

کچھ دیر ابھی ہم سے تم یوں ہی خفا رہنا

اس حسن کے شعلے کی تصویر بنا لیں ہم

ان گرم نگاہوں کو سینے سے لگا لیں ہم

پل بھر اسی عالم میں اے جان ادا رہنا

کچھ دیر ابھی ہم سے تم یوں ہی خفا رہنا

کچھ دیر ابھی ہم سے تم یوں ہی خفا رہنا

یہ دہکا ہوا چہرہ یہ بکھری ہوئی زلفیں

یہ بڑھتی ہوئی دھڑکن یہ چڑھتی ہوئی سانسیں

سامان قضا ہو تم سامان قضا رہنا

کچھ دیر ابھی ہم سے تم یوں ہی خفا رہنا

کچھ دیر ابھی ہم سے تم یوں ہی خفا رہنا

پہلے بھی حسیں تھیں تم لیکن یہ حقیقت ہے

وہ حسن مصیبت تھا یہ حسن قیامت ہے

اوروں سے تو بڑھ کر ہو خود سے بھی سوا رہنا

غصے میں جو نکھرا ہے اس حسن کا کیا کہنا

کچھ دیر ابھی ہم سے تم یوں ہی خفا رہنا

کچھ دیر ابھی ہم سے تم یوں ہی خفا رہنا

٭٭٭

تو مشکل ہو گی

آواز: مکیش

تم اگر مجھ کو نہ چاہو تو کوئی بات نہیں

تم کسی اور کو چاہو گی تو مشکل ہو گی

اب اگر میل نہیں ہے تو جدائی بھی نہیں

بات توڑی بھی نہیں تم نے بنائی بھی نہیں

یہ سہارا بھی بہت ہے مرے جینے کے لئے

تم اگر میری نہیں ہو تو پرائی بھی نہیں

میرے دل کو نہ سراہو

میرے دل کو نہ سراہو تو کوئی بات نہیں

تو کوئی بات نہیں

غیر کے دل کو سراہو گی، تو مشکل ہوگی

تم کسی اور کو چاہو گی تو مشکل ہو گی

تو مشکل ہو گی

تم حسیں ہو، تمہیں سب پیار ہی کرتے ہو ں گے

میں تو مرتا ہوں، تو کیا اور بھی مرتے ہو ں گے

سب کی آنکھوں میں اسی شوق کا طوفاں ہو گا

سب کے سینہ میں یہی درد ابھرتے ہوں گے

میرے غم میں نہ کراہو

میرے غم میں نہ کراہو تو کوئی بات نہیں

تو کوئی بات نہیں

اور کے غم میں کراہو گی تو مشکل ہو گی

تم کسی اور کو چاہو گی تو مشکل ہو گی

تو مشکل ہو گی

پھول کی طرح ہنسو، سب کی نگاہوں میں رہو

اپنی معصوم جوانی کی پناہوں میں رہو

مجھ کو وہ دن نہ دکھانا تمہیں اپنی ہی قسم

میں ترستا رہوں تم غیر کی باہوں میں رہو

تم  جو مجھ سے  نہ نبھاؤ

تم جو مجھ سے نہ نبھاؤ تو کوئی بات نہیں

تو کوئی بات نہیں

کسی دشمن سے نبھاؤ گی تو مشکل ہو گی

تم کسی اور کو چاہو گی تو مشکل ہو گی

تو مشکل ہو گی

٭٭٭

فلم: برسات کی رات

موسیقار: روشن

زندگی بھر نہیں بھولے گی وہ برسات کی رات

آواز: محمد رفیع

زندگی بھر نہیں بھولے گی وہ برسات کی رات

ایک انجان حسینہ سے ملاقات کی رات

ہائے وہ ریشمیں زلفوں سے برستا پانی

پھول سے گالوں پہ رکنے کو ترستا پانی

دل میں طوفان اٹھائے ہوئے

دل میں طوفان اٹھائے ہوئے جذبات کی رات

زندگی بھر نہیں بھولے گی وہ برسات کی رات

ڈر کے بجلی سے اچانک وہ لپٹنا اس کا

اور پھر شرم سے بل کھا کے سمٹنا اس کا

کبھی دیکھی نہ سنی

کبھی دیکھی نہ سنی ایسی طلسمات کی رات

زندگی بھر نہیں بھولے گی وہ برسات کی رات

سرخ آنچل کو دبا کر جو نچوڑا اس نے

دل پہ جلتا ہوا اک تیر سا چھوڑا اس نے

آگ پانی میں لگاتے ہوئے

آگ پانی میں لگاتے ہوئے حالات کی رات

زندگی بھر نہیں بھولے گی وہ برسات کی رات

میرے نغموں میں جو بستی ہے، وہ تصویر تھی وہ

نوجوانی کے حسیں خواب کی تعبیر تھی وہ

آسمانوں سے اتر آئی تھی

آسمانوں سے اتر آئی تھی جو رات کی رات

زندگی بھر نہیں بھولے گی وہ برسات کی رات

٭٭٭

زندگی بھر نہیں بھولی گی وہ برسات کی رات

آواز: لتا منگیشکر

زندگی بھر نہیں بھولے گی وہ برسات کی رات

ایک انجان مسافر سے ملاقات کی رات

ہائے جس رات مرے دل نے دھڑکنا سیکھا

مری تقدیر سے نکلی

مری تقدیر سے نکلی وہی صدمات کی رات

زندگی بھر نہیں بھولے گی وہ برسات کی رات

دل نے جب پیار کے رنگین فسانے چھیڑے

آنکھوں آنکھوں میں وفاؤں کے ترانے چھیڑے

سوگ میں ڈوب گئی

سوگ میں ڈوب گئی، آج وہ نغمات کی رات

زندگی بھر نہیں بھولے گی وہ برسات کی رات

روٹھنے والی مرے بات سے مایوس نہ ہو

بہکے بہکے سے خیالات سے مایوس نہ ہو

ختم ہو گی نہ کبھی

ختم ہو گی نہ کبھی تیرے مرے سات کی رات

زندگی بھر نہیں بھولے گی وہ برسات کی رات

٭٭٭

مایوس تو ہوں وعدے سے ترے

آواز: رفیع

مایوس تو ہوں وعدے سے ترے

کچھ آس نہیں ، کچھ آس بھی ہے

میں اپنے خیالوں کے صدقے

تو پاس نہیں اور پاس بھی ہے

ہم نے تو خوشی مانگی تھی مگر

جو تو نے دیا، اچھا ہی دیا!

جس غم کا تعلق ہو تجھ سے

وہ راس نہیں اور راس بھی ہے

مایوس تو ہوں وعدے سے ترے

پلکوں پہ لرزتے اشکوں میں

تصویر جھلکتی ہے تیری!

دیدار کی پیاسی آنکھوں میں

اب پیاس نہیں اور پیاس بھی ہے

مایوس تو ہوں وعدے سے ترے

کچھ آس نہیں ، کچھ آس بھی ہے

٭٭٭

 

میں نے شاید تمہیں پہلے بھی کہیں دیکھا ہے

آواز: محمد رفیع

میں نے شاید تمہیں پہلے بھی کہیں دیکھا ہے

میں نے شاید تمہیں ۔۔۔

اجنبی سی ہو مگر غیر نہیں لگتی ہو

وہم سے بھی جو ہو نازک وہ یقیں لگتی ہو

ہائے یہ پھول سا چہرہ یہ گھنیری زلفیں

میرے شعروں سے بھی تم مجھ کو حسیں لگتی ہو

میں نے شاید تمہیں پہلے بھی کہیں دیکھا ہے

میں نے شاید تمہیں ۔۔۔

دیکھ کر تم کو کسی رات کی یاد آتی ہے

ایک خاموش ملاقات کی یاد آتی ہے

ذہن میں حسن کی ٹھنڈک کا اثر جاگتا ہے

آنچ دیتی ہوئی برسات کی یاد آتی ہے

میں نے شاید تمہیں پہلے بھی کہیں دیکھا ہے

میں نے شاید تمہیں ۔۔۔

مری آنکھوں پہ جھکی رہتی ہیں پلکیں جس کی

تم وہی میرے خیالوں کی پری ہو کہ نہیں

کہیں پہلے کی طرح پھر تو نہ کھو جاؤ گی

جو ہمیشہ کے لیے ہو وہ خوشی ہو کہ نہیں

میں نے شاید تمہیں پہلے بھی کہیں دیکھا ہے

میں نے شاید تمہیں ۔۔۔

٭٭٭

جی چاہتا ہے چوم لوں

قوالی: آشا بھوسلے، سدھا ملہوترا، شنکر شمبھو

آآآ ~~~~~

نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار تم سے

آ۔۔۔۔

یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں

اور

پہچانتا ہوں، خوب تمہاری نظر کو میں

بھئی

جانے نہ دوں گا ہاتھ سے دل اور جگر کو میں

دل ایسی شہ نہیں ہے جو قابو میں رہ سکے

دل ایسی شہ نہیں ہے جو قابو میں رہ سکے

دل ایسی شہ نہیں ہے جو قابو میں رہ سکے

بھئی!

سمجھاؤں کس طرح یہ کسی بیخبر کو میں

سمجھاؤں کس طرح یہ کسی بیخبر کو میں

آئی ہے ان کے چاند سے چہرے کو چوم کر

آئی ہے ان کے چاند سے چہرے کو چوم کر

آئی ہے ان کے چاند سے چہرے کو چوم کر

بھئی!

جی چاہتا ہے چوم لوں اپنی نظر کو میں

جی چاہتا ہے چوم لوں اپنی نظر کو میں

گو ظلم بے حساب کیا اس نگاہ نے

رسوا کیا خراب کیا اس نگاہ نے

اک کام لاجواب کیا اس نگاہ نے

جو تجھ کو انتخاب کیا اس نگاہ نے

بھئی!

جی چاہتا ہے چوم لوں اپنی نظر کو میں

جی چاہتا ہے چوم لوں اپنی نظر کو میں

جی چاہتا ہے

جی چاہتا

جی چاہتا ہے

جی چاہتا

جی چاہتا ہے چوم لوں اپنی نظر کو میں

عشق پر زور نہیں ہے یہ وہ آتش فتنہ

کہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے

اب تم ہی کہو کہ کیا، جی چاہتا ہے

جی چاہتا ہے

جی چاہتا

جی چاہتا ہے

جی چاہتا

جی چاہتا ہے چوم لوں اپنی نظر کو میں

وہ سدا دور دور رہتا ہے

ناصحا تو درست کہتا ہے

اس پہ مرنے سے کچھ نہیں حاصل

آہ بھرنے سے کچھ نہیں حاصل

بے مروت ہے بے وفا ہے وہ

میرے دشمن کا آشنا ہے وہ

اب اسے چھوڑنا ہی بہتر ہے

یہ بھرم توڑنا ہی بہتر ہے

مانتے ہیں تری نصیحت کو

ہائے پر کیا کریں طبیعت کو

بھئی !

جی چاہتا ہے چوم لوں اپنی نظر کو میں

پچھلے پہر جب اوس پڑے اور ٹھنڈی پون چلے

برہا اگن مورا تن من پھونکے سونی سیج جلے

سب سکھیاں چلی پی کو رجھانے

مورے سجن ہیں دور ٹھکانے

اور میرا بھی جی چاہتا ہے

جی چاہتا

جی چاہتا ہے

جی چاہتا

کیوں آپ پہ مرتے ہیں یہ ہم کہہ نہیں سکتے

صورت کا ہے سوال نہ سیرت کی بات ہے

ہم تم پہ مر مٹے یہ طبیعت کی بات ہے

بھئی !

جی چاہتا ہے

جی چاہتا

جی چاہتا ہے

جی چاہتا

جی چاہتا ہے چوم لوں اپنی نظر کو میں

٭٭٭

نگاہِ ناز کے ماروں کا حال کیا ہو گا

قوالی: آشا بھوسلے، سدھا ملہوترا، شنکر شمبھو اور ساتھی

ادا بجلی، بدن شعلہ، بھنویں خنجر، نظر قاتل

غلط کیا ہے ہمیں کہتی ہے یہ دنیا اگر قاتل

تو پھر

نگاہِ ناز کے ماروں کا حال کیا ہو گا

نگاہِ ناز کے ماروں کا حال کیا ہو گا

نہ بچ سکے تو بیچاروں کا حال کیا ہو گا

کیا ہو گا

کیا ہو گا

کیا ہو گا

نگاہِ ناز کے ۔۔۔

ہمیں نے عشق کے قابل بنا دیا ہے تمہیں

ہمیں نے عشق کے

ذرا دیکھو

ہمیں نے عشق کے  قابل بنا دیا ہے تمہیں

ہمیں نے عشق کے  قابل بنا دیا ہے تمہیں

ہمیں نہ ہو تو نظاروں کا حال کیا ہو گا

ہمیں نہ ہو تو نظاروں کا حال کیا ہو گا

کیا ہو گا

کیا ہو گا

کیا ہو گا

نگاہِ ناز کے ۔۔۔

ہمارے حسن کی بجلی چمکنے والی ہے

ہمارے حسن کی بجلی چمکنے والی ہے

ہمارے حسن کی بجلی چمکنے والی ہے

نہ جانے آج ہزاروں کا حال کیا ہو گا

نہ جانے آج ہزاروں کا حال کیا ہو گا

کیا ہو گا

کیا ہو گا

کیا ہو گا

نگاہِ ناز کے ۔۔۔

بہار حسن سلامت خزاں سے پوچھ ذرا

کیا؟

کہ چار دن میں بہاروں کا حال کیا ہو گا

کیا ہو گا

کیا ہو گا

کیا ہو گا

نگاہِ ناز کے۔۔۔

رنگ پر ناز نہ کر

کیوں کہ

رنگ بدل جاتا ہے

ارے واہ

یہ وہ مہماں ہے جو آج آتا ہے کل جاتا ہے

عشق پر ناز کرے کوئی تو کچھ بات بھی ہے

حسن کا ناز ہی کیا، حسن تو ڈھل جاتا ہے

بہارِ حسن سلامت خزاں سے پوچھ ذرا

کہ چار دن میں بہاروں کا حال کیا ہو گا

کہ چار دن میں بہاروں کا حال کیا ہو گا

کیا ہو گا

کیا ہو گا

کیا ہو گا

نگاہِ ناز کے۔۔۔

٭٭٭

نہ تو کارواں کی تلاش ہے

قوالی : محمد رفیع، آشا بھوسلے ،منا ڈے، ایس ڈی باطش، سدھا ملہوترا اور ساتھی

نہ تو کارواں کی تلاش ہے، نہ تو ہم سفر کی تلاش ہے

نہ تو کارواں کی تلاش ہے، نہ تو ہم سفر کی تلاش ہے

میرے شوقِ خانہ خراب کو

میرے شوقِ خانہ خراب کو  تری رہ گزر کی تلاش ہے

میرے شوقِ خانہ خراب کو

میرے شوقِ خانہ

مرے نا مراد جنوں کا ہے جو علاج کوئی تو موت ہے

جو دوا کے نام پہ زہر دے،

جو دوا کے نام پہ

زہر دے

دوا کے نام پہ جو

جو

جو دوا کے نام پہ

زہر دے

اسی چارہ گر کی تلاش ہے

ترا عشق ہے مری آرزو، ترا عشق ہے میری آبرو

دل عشق، جسم عشق ہے اور جان عشق ہے

ایمان کی جو پوچھو تو ایمان عشق ہے

ترا عشق کیسے میں چھوڑ دوں ،

ترا عشق کیسے میں چھوڑ دوں ،

ترا عشق کیسے میں چھوڑ دوں ،

ترا عشق کیسے میں چھوڑ دوں ، مری عمر بھر کی تلاش ہے

عشق عشق،

عشق، عشق

یہ عشق عشق ہے عشق عشق

یہ عشق عشق ہے عشق عشق

یہ عشق عشق ہے عشق عشق

جاں سوز کی حالت کو جاںسوز ہی سمجھے گا

میں شمع سے کہتا ہوں، محفل سے نہیں کہتا

کیونکہ

یہ عشق عشق ہے عشق عشق

یہ عشق عشق ہے عشق عشق

یہ عشق عشق ہے عشق

سحر تک سب کا ہے انجام جل کر خاک ہو جانا

بھری محفل میں کوئی شمع یا پروانہ ہو جائے

یہ عشق عشق ہے عشق عشق

یہ عشق عشق ہے عشق عشق

یہ عشق عشق ہے عشق عشق

وحشت دل رسن و دار سے روکی نہ گئی

کسی خنجر، کسی تلوار سے روکی نہ گئی

عشق، مجنوں کی وہ آواز ہے جس کے آگے

کوئی لیلیٰ کسی دیوار سے روکی نہ گئی

کیونکہ

یہ عشق عشق ہے عشق عشق

یہ عشق عشق ہے عشق عشق

یہ عشق عشق ہے عشق

وہ ہنس کے اگر مانگیں تو ہم جان بھی دے دیں

ہاں!

وہ ہنس کے اگر مانگیں تو ہم جان بھی دے دیں

یہ جان تو کیا چیز ہے، ایمان بھی دے دیں

کیونکہ

یہ عشق عشق ہے عشق عشق

یہ عشق عشق ہے عشق

ناز و انداز سے کہتے ہیں کہ جینا ہو گا

زہر بھی دیتے ہیں تو کہتے ہیں کہ پینا ہو گا

جب میں پیتا ہوں  تو کہتے ہیں کہ مرتا بھی نہیں

جب میں مرتا ہوں تو کہتے ہیں کہ جینا ہو گا

کیونکہ

یہ عشق عشق ہے عشق عشق

یہ عشق عشق ہے عشق عشق

یہ عشق عشق ہے عشق

مذہبِ عشق کی ہر رسم کڑی ہوتی ہے

ہر قدم پر کوئی دیوار کھڑی ہوتی ہے

عشق آزاد ہے،

عشق آزاد ہے، ہندو نہ مسلمان سے عشق

آپ ہی دھرم ہے اور آپ ہی ایمان ہے عشق

جس سے آگاہ نہیں شیخ و برہمن دونوں

اس حقیقت کا گرجتا ہوا اعلان ہے عشق

عشق نہ پچھے دین دھرم نوں ، عشق نہ پچھے ذاتاں

عشق دے ہتھوں گرم لہو وچ دبیاں لکھ براتاں

یہ عشق عشق ہے

یہ عشق عشق ہے عشق عشق

یہ عشق عشق ہے عشق

راہ الفت کی کٹھن ہے اسے آساں نہ سمجھ

یہ عشق عشق ہے عشق عشق

یہ عشق عشق ہے عشق عشق

یہ عشق عشق ہے عشق

بہت کٹھن ہے

بہت کٹھن ہے ڈگر پنگھٹ کی

ڈگر پنگھٹ کی

ڈگر پنگھٹ کی

ارے بہت کٹھن ہے ڈگر پنگھٹ کی

اب کیا بھر لاؤں میں جمنا سے مٹکی

کیا بھر لاؤں میں جمنا سے مٹکی

کیا بھر لاؤں میں جمنا سے مٹکی

ارے جب جب کرشن کی بنسی باجی،

جب جب کرشن کی بنسی باجی نکلی رادھا سج کے

جان اجان کا دھیان بھلا کے، لوک لاج کو تج کے

بن بن ڈولی جنک دلاری، پہن کے پریم کی مالا

روشن جل کی پیاسی میرا، پی گئی بس کا پیالا

اور پھر ارج کری کہ

کیا؟

لاج راکھو راکھو

لاج راکھو راکھو

ہے ہے ہے

لاج راکھو راکھو

ہو ہو ہو

لاج راکھو راکھو

یہ عشق عشق ہے

یہ عشق عشق ہے عشق عشق

یہ عشق عشق ہے عشق

اللہ اور رسول کا فرمان عشق ہے

یعنی حدیث عشق ہے، قرآن عشق ہے

گوتم کا اور مسیح کا فرمان عشق ہے

یہ کائنات عشق ہے اور جان عشق ہے

عشق سرمد، عشق ہی منصور ہے

عشق موسیٰ، عشق کوہ طور ہے

خاک کو بت اور بت کو دیوتا کرتا ہے عشق

انتہا یہ ہے کہ بندے کو خدا کرتا ہے عشق

انتہا یہ ہے کہ بندے کو خدا کرتا ہے عشق

یہ عشق عشق ہے

یہ عشق عشق ہے عشق عشق

یہ عشق عشق ہے عشق

٭٭٭

فلم:  آج اور کل

موسیقار: روی

یہ وادیاں یہ فضائیں بلا رہی ہیں تمہیں

آواز: محمد رفیع

یہ وادیاں یہ فضائیں بلا رہی ہیں تمہیں

خموشیوں کی صدائیں بلا رہی ہیں تمہیں

یہ وادیاں یہ فضائیں بلا رہی ہیں تمہیں

ترس رہے ہیں جواں پھول ہونٹ چھونے کو

مچل مچل کے ہوائیں بلا رہی ہیں تمہیں

یہ وادیاں یہ فضائیں بلا رہی ہیں تمہیں

تمہاری زلفوں سے خوشبو کی بھیک لینے کو

جھکی جھکی سی گھٹائیں بلا رہی ہیں تمہیں

یہ وادیاں یہ فضائیں بلا رہی ہیں تمہیں

حسین چمپئی پیروں کو جب سے دیکھا ہے

ندی کی مست ادائیں بلا رہی ہیں تمہیں

یہ وادیاں یہ فضائیں بلا رہی ہیں تمہیں

مرا کہا نہ سنو ان کی بات تو سن لو

ہر ایک دل کی دعائیں بلا رہی ہیں تمہیں

یہ وادیاں یہ فضائیں بلا رہی ہیں تمہیں

٭٭٭

اتنی حسیں ، اتنی جواں رات کیا کریں

آواز: محمد رفیع

اتنی حسیں ، اتنی جواں رات کیا کریں

جاگے ہیں کچھ عجیب سے جذبات کیا کریں

اتنی حسیں ، اتنی جواں رات کیا کریں

سانسوں میں گھل رہی ہے کسی سانس کی مہک

سانسوں میں گھل رہی ہے کسی سانس کی مہک

دامن کو چھو رہا ہے کوئی ہات کیا کریں

دامن کو چھو رہا ہے کوئی ہات کیا کریں

اتنی حسیں ، اتنی جواں رات کیا کریں

شاید تمہارے آنے سے یہ بھید کھل سکے

شاید تمہارے آنے سے یہ بھید کھل سکے

حیران ہیں کہ آج نئی بات کیا کریں

حیران ہیں کہ آج نئی بات کیا کریں

اتنی حسیں ، اتنی جواں رات کیا کریں

٭٭٭

موت کتنی بھی سنگدل ہو مگر۔۔۔

آواز: آشا بھوسلے

موت کتنی بھی سنگدل ہو مگر زندگی سے تو مہرباں ہو گی

نت نئے رنج دل کو دیتی ہے، زندگی یہ خوشی کی دشمن ہے

موت سب سے نباہ کرتی ہے، زندگی زندگی کی دشمن ہے

کچھ نہ کچھ تو سکون پائے گا، موت کے بس میں جس کی جاں ہو گی

موت کتنی بھی سنگدل ہو مگر زندگی سے تو مہرباں ہو گی

رنگ اور نسل، نام اور دولت، زندگی کتنے فرق مانتی ہے

موت حد بندیوں سے اونچی ہے، ساری دنیا کو ایک جانتی ہے

جن اصولوں پہ مر رہے ہیں ہم، ان اصولوں کی قدر داں ہو گی

موت کتنی بھی سنگدل ہو مگر زندگی سے تو مہرباں ہو گی

موت سے اور کچھ ملے نہ ملے، زندگی سے تو جان چھوٹے گی

مسکراہٹ نصیب ہو کہ نہ ہو، آنسوؤں کی لڑی تو ٹوٹے گی

ہم نہ ہوں گے تو غم کسے ہو گا، ختم ہر غم کی داستاں ہو گی

موت کتنی بھی سنگدل ہو مگر زندگی سے تو مہرباں ہو گی

٭٭٭

مجھے گلے سے لگا لو بہت اداس ہوں میں ۔۱

آواز:  آشا بھوسلے

مجھے گلے سے لگا لو بہت اداس ہوں میں

غم جہاں سے چھڑا لو بہت اداس ہوں میں

یہ انتظار کا دکھ اب سہا نہیں جاتا

تڑپ رہی ہے محبت رہا نہیں جاتا

تم اپنے پاس بلا لو بہت اداس ہوں میں

مجھے گلے سے لگا لو بہت اداس ہوں میں

بھٹک چکی ہوں بہت زندگی کی راہوں میں

مجھے اب آ کے چھپا لو تم اپنی بانہوں میں

مرا سوال نہ ٹالو بہت اداس ہوں میں

مجھے گلے سے لگا لو بہت اداس ہوں میں

ہر ایک سانس میں ملنے کی پیاس پلتی ہے

سلگ رہا ہے بدن اور روح جلتی ہے

بچا سکو تو بچا لو بہت اداس ہوں میں

مجھے گلے سے لگا لو بہت اداس ہوں میں

٭٭٭

مجھے گلے سے لگا لو بہت اداس ہوں میں  ۔۔۲

آوازیں:  محمد رفیع، آشا بھوسلے

آشا:

مجھے گلے سے لگا لو، بہت اداس ہوں، میں

نظر میں تیر سے چبھتے ہیں اب نظاروں سے

میں تھک گئی ہوں، سبھی ٹوٹتے سہاروں سے

اب اور بوجھ نہ ڈالو، بہت اداس ہوں، میں

مجھے گلے سے لگا لو، بہت اداس ہوں، میں

رفیع:

بہت سہی، غم دنیا، مگر اداس نہ ہو

قریب ہے شب غم کی، سحر اداس نہ ہو

بہت سہی

ستم کے ہاتھ کی تلوار ٹوٹ جائے گی

یہ اونچ نیچ کی دیوار ٹوٹ جائے گی

تجھے قسم ہے مری ہمسفر اداس نہ ہو

آشا:

نہ جانے کب یہ طریقہ یہ طور بدلے گا

ستم کا، غم کا، مصیبت کا دور بدلے گا

مجھے جہاں سے اٹھا لو، بہت اداس ہوں میں

مجھے گلے سے لگا لو، بہت اداس ہوں، میں

٭٭٭

تم اپنے پاس بلا لو بہت اداس ہوں میں

آواز:  آشا بھوسلے

تم اپنے پاس بلا لو بہت اداس ہوں میں

یہ انتظار کا دکھ اب سہا نہیں جاتا

تڑپ رہی ہے محبت رہا نہیں جاتا

تم اپنے پاس بلا لو بہت اداس ہوں میں

بھٹک چکی ہوں بہت زندگی کی راہوں میں

مجھے اب آ کے چھپا لو تم اپنی بانہوں میں

مرا سوال نہ ٹالو بہت اداس ہوں میں

تم اپنے پاس بلا لو بہت اداس ہوں میں

ہر ایک سانس میں ملنے کی پیاس پلتی ہے

سلگ رہا ہے بدن اور روح جلتی ہے

بچا سکو تو بچا لو بہت اداس ہوں میں

تم اپنے پاس بلا لو بہت اداس ہوں میں

٭٭٭

فلم: ہم راز

موسیقار؛ روی

تم اگر ساتھ دینے کا وعدہ کرو

آواز: مہیندر کپور

تم اگر ساتھ دینے کا وعدہ کرو

میں یونہی مست نغمے لٹاتا رہوں

تم مجھے دیکھ کر مسکراتی رہو

میں تمہیں دیکھ کر گیت گاتا رہوں

تم اگر ساتھ دینے کا وعدہ کرو

کتنے جلوے فضاؤں میں بکھرے مگر

میں نے اب تک کسی کو پکارا نہیں

تم کو دیکھا تو نظریں یہ کہنے لگیں

ہم کو چہرے سے ہٹنا گوارا نہیں

تم اگر میری نظروں کے آگے رہو

میں ہر اک شے سے نظریں چراتا رہوں

تم اگر ساتھ دینے کا وعدہ کرو

میں یونہی مست نغمے لٹاتا رہوں

میں نے خوابوں میں برسوں تراشا جسے

تم وہی سنگِ مر مر کی تصویر ہو

تم نہ سمجھو تمہارا مقدر ہوں میں

میں سمجھتا ہوں تم میری تقدیر ہو

تم اگر مجھ کو اپنا سمجھنے لگو

میں بہاروں کی محفل سجاتا رہوں !

تم اگر ساتھ دینے کا وعدہ کرو

میں یونہی مست نغمے لٹاتا رہوں

٭٭٭

نیلے گگن کے تلے

آواز: مہیندر کپور

ہے۔۔۔۔

نیلے گگن کے تلے، دھرتی کا پیار پلے

ایسے ہی جگ میں ، آتی ہیں صبحیں ، ایسے ہی شام ڈھلے

ہے۔۔۔

نیلے گگن کے تلے

شبنم کے موتی، پھولوں پہ بکھریں ، دونوں کی آس پھلے

ہے۔۔۔

نیلے گگن کے تلے

بل کھاتی بیلیں ، مستی میں کھیلیں ، پیڑوں سے مل کے گلے

ہے۔۔۔

نیلے گگن کے تلے

ندیا کا پانی، دریا سے مل کے، ساگر کی اور چلے

ہے۔۔۔

نیلے گگن کے تلے

دھرتی کا پیار پلے

٭٭٭

کسی پتھر کی مورت سے محبت کا ارادہ ہے

آواز: مہیندر کپور

کسی پتھر کی مورت سے محبت کا ارادہ ہے

پرستش کی تمنا ہے، عبادت کا ارادہ ہے

کسی پتھر کی مورت سے

جو دل کی دھڑکنیں سمجھے، نہ آنکھوں کی زباں سمجھے

نظر کی گفتگو سمجھے، نہ جذبوں کا بیاں سمجھے

اسی کے سامنے اس کی شکایت کا ارادہ ہے

کسی پتھر کی مورت سے

سنا ہے ہر جواں پتھر کے دل میں آگ ہوتی ہے

مگر جب تک نہ چھیڑو شرم کے پردے میں سوتی ہے

یہ سوچا ہے کہ دل کی بات اس کے روبرو کر دیں

ہر اک بے جا تکلف سے بغاوت کا ارادہ ہے

کسی پتھر کی مورت سے

محبت بے رخی سے اور بھڑکے گی، وہ کیا جانے

طبیعت اس ادا پر اور پھڑکے گی، وہ کیا جانے

وہ کیا جانے کہ اپنی کس قیامت کا ارادہ ہے

کسی پتھر کی مورت سے  محبت کا ارادہ ہے

٭٭٭

نہ منہ چھپا کے جیو اور نہ سر جھکا کے جیو

آواز: مہیندر کپور

نہ منہ چھپا کے جیو اور نہ سر جھکا کے جیو

غموں کا دور بھی آئے تو مسکرا کے جیو

نہ منہ چھپا کے جیو اور نہ سر جھکا کے جیو

گھٹا میں چھپ کے ستارے فنا نہیں ہوتے

گھٹا میں چھپ کے ستارے فنا نہیں ہوتے

اندھیری رات میں

اندھیری رات میں دل کے دئیے جلا کے جیو

نہ منہ چھپا کے جیو اور نہ سر جھکا کے جیو

یہ زندگی کسی منزل پہ رک نہیں سکتی

یہ زندگی کسی منزل پہ رک نہیں سکتی

ہر اک مقام پہ

ہر اک مقام پہ  اپنے قدم بڑھا کے چلو

نہ منہ چھپا کے جیو اور نہ سر جھکا کے جیو

٭٭٭

فلم: امانت

موسیقار: روی

مطلب نکل گیا ہے

آواز: محمد رفیع

مطلب نکل گیا ہے تو پہچانتے نہیں

یوں جا رہے ہیں جیسے ہمیں جانتے نہیں

اپنی غرض تھی جب تو لپٹنا قبول تھا

بانہوں کے دائرے میں سمٹنا قبول تھا

اب ہم منا رہے ہیں مگر مانتے نہیں

مطلب نکل گیا ہے تو پہچانتے نہیں

ہم نے تمہیں پسند کیا کیا برا کیا

رتبہ ہی کچھ بلند کیا کیا برا کیا

ہر اک گلی کی خاک تو ہم چھانتے نہیں

مطلب نکل گیا ہے تو پہچانتے نہیں

منہ پھیر کر نہ جاؤ ہمارے قریب سے

ملتا ہے کوئی چاہنے والا نصیب سے

اس طرح عاشقوں پہ کماں تانتے نہیں

مطلب نکل گیا ہے تو پہچانتے نہیں

٭٭٭

قریب آ جاؤ

آواز: محمد رفیع

دور رہ کر نہ کرو بات قریب آ جاؤ

یاد رہ جائے گی یہ رات قریب آ جاؤ

ایک مدت سے تمنا تھی تمہیں چھونے کی

آج بس میں نہیں جذبات قریب آ جاؤ

دور رہ کر نہ کرو بات قریب آ جاؤ

سرد جھونکوں سے بھڑکتے ہیں بدن میں شعلے

جان لے لے گی یہ برسات قریب آ جاؤ

دور رہ کر نہ کرو بات قریب آ جاؤ

اس قدر ہم سے جھجکنے کی ضرورت کیا ہے

زندگی بھر کا ہے اب ساتھ قریب آ جاؤ

دور رہ کر نہ کرو بات قریب آ جاؤ

٭٭٭

فلم: شگون

موسیقار: خیام

تم اپنا رنج و غم اپنی پریشانی مجھے دے دو

آواز: جگجیت کور

تم اپنا رنج و غم اپنی پریشانی مجھے دے دو

تمہیں غم کی قسم اس دل کی ویرانی مجھے دے دو

تم اپنا رنج و غم

یہ مانا میں کسی قابل نہیں ہوں ان نگاہوں میں

برا کیا ہے اگر یہ دکھ یہ حیرانی مجھے دے دو

تم اپنا رنج و غم

میں دیکھوں تو سہی دنیا تمہیں کیسے ستاتی ہے

کوئی دن کے لئے اپنی نگہبانی مجھے دے دو

تم اپنا رنج و غم

وہ دل جو میں نے مانگا تھا مگر غیروں نے پایا ہے

بڑی شے ہے اگر اس کی پشیمانی مجھے دے دو

تم اپنا رنج و غم اپنی پریشانی مجھے دے دو

تمہیں غم کی قسم اس دل کی ویرانی مجھے دے دو

٭٭٭

تم چلی جاؤ گی

آواز: محمد رفیع

تم چلی جاؤ گی، پرچھائیاں رہ جائیں گی

کچھ نہ کچھ حسن کی رعنائیاں رہ جائیں گی

تم کہ اس جھیل کے ساحل پہ ملی ہو مجھ سے

جب بھی دیکھوں گا یہیں مجھ کو نظر آؤ گی

یاد مٹتی ہے نہ منظر کوئی مٹ سکتا ہے

دور جا کر بھی تم اپنے کو یہیں پاؤ گی

گھس کے رہ جائے گی جھونکوں میں بدن کی خوشبو

زلف کا عکس گھٹاؤں میں رہے گا صدیوں

پھول چپکے سے چرا لیں گے لبوں کی سرخی

یہ جواں حسن فضاؤں میں رہے گا صدیوں

اس دھڑکتی ہوئی شاداب و حسیں وادی میں

یہ نہ سمجھو کہ ذرا دیر کا قصہ ہو تم!

اب ہمیشہ کے لئے میرے مقدر کی طرح

ان نظاروں کے مقدر کا بھی حصہ ہو تم!

تم چلی جاؤ گی، پرچھائیاں رہ جائیں گی

کچھ نہ کچھ حسن کی رعنائیاں رہ جائیں گی

٭٭٭

زندگی ظلم سہی، جبر سہی

آواز: سمن کلیان پور

زندگی ظلم سہی، جبر سہی، غم ہی سہی

دل کی فریاد سہی، روح کا ماتم ہی سہی

زندگی ظلم سہی،

ہم نے ہر حال میں جینے کی قسم کھائی ہوئی ہے

اب یہی اپنا مقدر ہے تو شکوہ کیوں ہو

ہم سلیقے سے نبھا دیں گے، جو دن باقی ہیں

چاہ رسوا نہ ہوئی، آہ بھی رسوا کیوں ہو

زندگی ظلم سہی

ہم کو تقدیر سے بے وجہ شکایت کیوں ہو

اسی تقدیر نے چاہت کی خوشی بھی دی تھی

آج اگر کانپتی پلکوں کو دیے ہیں آنسو

کل تھرکتے ہوئے ہونٹوں کو ہنسی بھی دی تھی

زندگی ظلم سہی

ہم ہیں مایوس مگر اتنے بھی مایوس نہیں

اک نہ اک دن تو یہ اشکوں کی لڑی ٹوٹے گی

اک نہ اک دن تو چھٹیں گے یہ غموں کے بادل

اک نہ اک دن تو اجالے کی کرن پھوٹے گی

زندگی ظلم سہی، جبر سہی، غم ہی سہی

٭٭٭

بجھا دئیے ہیں

آواز: سمن کلیان پور

بجھا دئیے ہیں خود اپنے ہاتھوں، محبتوں کے دئیے جلا کے

میری وفا نے اجاڑ دی ہیں، امید کی بستیاں بسا کے

تجھے بھلا دیں گے اپنے دل سے، یہ فیصلہ تو کیا ہے لیکن

نہ دل کو معلوم ہے نہ ہم کو، جئیں گے کیسے تجھے بھلا کے

بجھا دئیے ہیں خود اپنے ہاتھوں

کبھی ملیں گے جو راستے میں، تو منہ پھرا کر پلٹ پڑیں گے

کہیں سنیں گے جو نام تیرا، تو چپ رہیں گے نظر جھکا کے

بجھا دئیے ہیں خود اپنے ہاتھوں

نہ سوچنے پر بھی سوچتی ہوں، کہ زندگانی میں کیا رہے گا

تری تمنا کو بس میں کر کے، ترے خیالوں سے دور جا کے

بجھا دئیے ہیں خود اپنے ہاتھوں

٭٭٭

کچھ اجنبی سے آپ ہیں

آوازیں: طلعت محمود، مبارک بیگم

طلعت:

اتنے قریب آ کے بھی کیا جانے کس لئے

اتنے قریب آ کے بھی کیا جانے کس لئے

کچھ اجنبی سے آپ ہیں، کچھ اجنبی سے ہم

کچھ اجنبی سے آپ ہیں

مبارک:

وہ ایک بات جو تھی فقط آپ کے لئے

وہ ایک بات جو تھی فقط آپ کے لئے

وہ ایک بات کہہ نہ سکے آپ ہی سے ہم

وہ ایک بات کہہ نہ سکے آپ ہی سے ہم

کچھ اجنبی سے آپ ہیں

طلعت :

ایسی تو کوئی قید نہیں دل کی بات پر

ایسی تو کوئی قید نہیں دل کی بات پر

آپس کی بات ہے تو ڈریں کیوں کسی سے ہم

کچھ اجنبی سے آپ ہیں  ۔۔۔

مبارک:

تم دور ہو تو موت بھی آئے نہ ہم کو راس

تم دور ہو تو موت بھی آئے نہ ہم کو راس

تم پاس ہو تو جان بھی دے دیں خوشی سے ہم

کچھ اجنبی سے آپ ہیں  ۔۔۔

طلعت :

موت ایک وہم، اور حقیقت ہے زندگی

موت ایک وہم، اور حقیقت ہے زندگی

اک دوسرے کو مانگیں گے اس زندگی سے ہم

دونوں:

اک دوسرے کو مانگیں گے اس زندگی سے ہم

اک دوسرے کو مانگیں گے اس زندگی سے ہم

٭٭٭

پربتوں کے پیڑوں پر شام کا بسیرا ہے

آوازیں: محمد رفیع، سمن کلیان پور

رفیع:

پربتوں کے پیڑوں پر شام کا بسیرا ہے

سرمئی اجالا ہے چمپئی اندھیرا ہے

سمن:

دونوں وقت ملتے ہیں دو دلوں کی صورت سے

آسماں نے خوش ہو کر رنگ سا بکھیرا ہے

پربتوں کے پیڑوں پر

رفیع:

ٹھہرے ٹھہرے پانی میں گیت سرسراتے ہیں

بھیگے بھیگے جھونکوں میں خوشبوؤں کا ڈیرا ہے

پربتوں کے پیڑوں پر

سمن:

کیوں نہ جذب ہو جائیں اس حسیں نظارے میں

روشنی کا جھرمٹ ہے مستیوں کا گھیرا ہے

رفیع:

اب کسی نظارے کی دل کو آرزو کیوں ہے

جب سے پا لیا تم کو سب جہان میرا ہے

دونوں:

جب سے پا لیا تم کو سب جہان میرا ہے

پربتوں پہ۔۔۔

٭٭٭

فلم: وقت

موسیقار: روی

چہرے پہ خوشی چھا جاتی ہے

آواز: آشا بھوسلے

چہرے پہ خوشی چھا جاتی ہے آنکھوں میں سرور آ جاتا ہے

جب تم مجھے اپنا کہتے ہو اپنے پہ غرور آ جاتا ہے

چہرے پہ خوشی چھا جاتی ہے

تم حسن کی خود اک دنیا ہو شاید یہ تمہیں معلوم نہیں

محفل میں تمہارے آنے سے ہر چیز پہ نور آ جاتا ہے

چہرے پہ خوشی چھا جاتی ہے

ہم پاس سے تم کو کیا دیکھیں تم جب بھی مقابل ہوتے ہو

بیتاب نگاہوں کے آگے پردہ سا ضرور آ جاتا ہے

چہرے پہ خوشی چھا جاتی ہے

جب تم سے محبت کی ہم نے تب جا کے کہیں یہ راز کھلا

مرنے کا سلیقہ آتے ہی جینے کا شعور آ جاتا ہے

چہرے پہ خوشی چھا جاتی ہے

٭٭٭

جب سمٹ کے آپ کی بانہوں میں آ گئے

آوازیں: مہیندر کپور، آشا بھوسلے

آشا: ہم جب سمٹ کے آپ کی بانہوں میں آ گئے

لاکھوں حسین خواب نگاہوں میں آ گئے

ہم جب سمٹ کے آپ کی بانہوں میں آ گئے

خوشبو چمن کو چھوڑ کے سانسوں میں گھل گئی

لہرا کے اپنے آپ جواں زلف کھل گئی

ہم اپنی دل پسند پناہوں میں آ گئے

ہم جب سمٹ کے آپ کی بانہوں میں آ گئے

مہیندر:

کہہ دی ہے دل کی بات نظاروں کے سامنے

اقرار کر لیا ہے بہاروں کے سامنے

دونوں جہان آج گواہوں میں آ گئے

آشا: ہم جب سمٹ کے آپ کی بانہوں میں آ گئے

مستی بھری گھٹاؤں کی پرچھائیوں تلے

ہاتھوں میں ہاتھ تھام کے جب ساتھ ہم چلیں

شاخوں سے پھول ٹوٹ کے راہوں میں آ گئے

ہم جب سمٹ کے آپ کی بانہوں میں آ گئے

٭٭٭

کون آیا کہ نگاہوں میں چمک جاگ اٹھی

کون آیا کہ نگاہوں میں چمک جاگ اٹھی

دل کے سوئے ہوئے تاروں میں کھنک جاگ اٹھی

کون آیا

کس کے آنے کی خبر لے کے ہوائیں آئیں

جسم سے پھول چٹکنے کی صدائیں آئیں

روح کھلنے لگی

روح کھلنے لگی، سانسوں میں مہک جاگ اٹھی

دل کے سوئے ہوئے تاروں میں کھنک جاگ اٹھی

کون آیا

کس نے یوں میری طرف دیکھ کے باہیں کھولیں

شوخ جذبات نے سینے میں نگاہیں کھولیں

ہونٹ تپنے لگے

ہونٹ تپنے لگے، زلفوں میں لچک جاگ اٹھی

دل کے سوئے ہوئے تاروں میں کھنک جاگ اٹھی

کون آیا

کس کے ہاتھوں نے مرے ہاتھوں سے کچھ مانگا ہے

کس کے خوابوں نے مرے خوابوں سے کچھ مانگا ہے

دل مچلنے لگا

دل مچلنے لگا، آنچل میں دھنک جاگ اٹھی

دل کے سوئے ہوئے تاروں میں کھنک جاگ اٹھی

کون آیا کہ نگاہوں میں چمک جاگ اٹھی

دل کے سوئے ہوئے تاروں میں کھنک جاگ اٹھی

کون آیا

٭٭٭

اے میری زہرہ جبیں

آواز: منا ڈے

اے میری زہرہ جبیں

تجھے معلوم نہیں

تُو ابھی تک ہے حسیں

اور میں جواں

تجھ پہ قربان میری جان میری جان

اے میری ۔۔۔

یہ شوخیاں یہ بانکپن

جو تجھ میں ہے کہیں نہیں

دلوں کو جیتنے کا فن

جو تجھ میں ہے کہیں نہیں

میں تیری

میں تیری آنکھوں میں پا گیا دو جہاں

اے میری ۔۔۔

تُو میٹھے بول جانِ من

جو مسکرا کے بول دے

تو دھڑکنوں میں آج بھی

شراب رنگ گھول دے

او صنم

او صنم میں میں تیرا عاشقِ جاوداں

اے میری ۔۔۔​

٭٭٭

میں نے اک خواب سا دیکھا ہے

آوازیں؛ مہیندر کپور، آشا بھوسلے

مہیندر:

میں نے اک خواب سا دیکھا ہے  کہوں یا نہ کہوں

میں نے اک خواب سا دیکھا ہے

آشا:

کہو

مہیندر:

سن کے شرما تو نہیں جاؤ گی؟

آشا:

نہیں، تم سے نہیں

مہیندر:

میں نے دیکھا ہے کہ پھولوں سے لدی شاخوں میں

تم لچکتی ہوئی یوں میری قریب آئی ہو

جیسے مدت سے یوں ہی ساتھ رہا ہو اپنا

جیسے اب کی نہیں صدیوں کی شناسائی ہو

میں نے ایک خواب سا دیکھا ہے

آشا:

میں نے بھی خواب سا دیکھا ہے

مہیندر:

کہو، تم بھی کہو

آشا:

خود سے اترا تو نہیں جاؤ گے ؟

مہیندر:

نہیں خود سے نہیں

آشا:

میں نے دیکھا ہے کہ گاتے ہوئے جھرنوں کے قریب

اپنی بیتابی جذبات کہی ہے تم نے

کانپتے ہونٹوں سے رکتی ہوئی آواز کے ساتھ

جو مرے دل میں تھی وہ بات کہی ہے تم نے

مہیندر:

میں نے اک خواب سا دیکھا ہے

آنچ دینے لگا قدموں کے تلے برف کا فرش

آج جانا کہ محبت میں ہے گرمی کتنی

سنگ مرمر کی طرح سخت بدن میں تیرے

آ گئی ہے میرے چھو لینے سے نرمی کتنی

میں نے اک خواب سا دیکھا ہے

ہم چلے جاتے ہوں اور دور تلک کوئی نہیں

صرف پتوں کے چٹکنے کی سدا آتی ہے

دل میں کچھ ایسے بکھیڑوں نے بھی کروٹ لی ہے

مجھ کو تم سے نہیں اپنے سے حیا آتی ہے

مہیندر:

میں نے دیکھا ہے کہ کہرے سے بھری وادی میں

میں یہ کہتا ہوں، چلو آج کہیں کھو جائیں

آشا:

میں یہ کہتی ہوں، کہ کھونے کی ضرورت کیا ہے

اوڑھ کر دھند کی چادر کو یہیں سو جائیں

مہیندر:

میں نے اک خواب سا دیکھا ہے کہوں یا نہ کہوں

میں نے اک خواب سا دیکھا ہے

٭٭٭

فلم: غزل

موسیقار: مدن موہن

کسے پیش کروں  ۔۔۔۱

آواز: محمد رفیع

عشق کی گرمی جذبات کسے پیش کروں

یہ سلگتے ہوئے دن رات کسے پیش کروں

کسے پیش کروں

کسے پیش کروں

کسے پیش کروں

حسن اور حسن کا ہر ناز ہے پردے میں ابھی

اپنی نظروں کی شکایات کسے پیش کروں

کسے پیش کروں

کسے پیش کروں

کسے پیش کروں

تیری آواز کے جادو نے جگایا ہے جنہیں

وہ تصور، وہ خیالات کسے پیش کروں

کسے پیش کروں

کسے پیش کروں

اے مری جان غزل، اے مری ایمان غزل

اب سوا تیرے یہ نغمات کسے پیش کروں

کسے پیش کروں

کسے پیش کروں

کوئی ہم راز تو پاؤں کوئی ہمدم تو ملے

دل کی دھڑکن کے اشارات کسے پیش کروں

کسے پیش کروں

کسے پیش کروں

٭٭٭

کسے پیش کروں  ۔۔۲

آواز: محمد رفیع

نغمہ و شعر کی سوغات کسے پیش کروں

یہ چھلکتے ہوئے جذبات کسے پیش کروں

کسے پیش کروں

کسے پیش کروں

کسے پیش کروں

شوخ آنکھوں کے اجالوں کو لٹا دوں کس پر

مست زلفوں کی سیہ رات کسے پیش کروں

کسے پیش کروں

گرم سانسوں میں چھپے راز بتاؤں کس کو

نرم ہونٹوں میں دبی بات کسے پیش کروں

کسے پیش کروں

کوئی ہم راز تو پاؤں کوئی ہمدم تو ملے

دل کی دھڑکن کے اشارات کسے پیش کروں

کسے پیش کروں

٭٭٭

 

 

 

 

کسے پیش کروں  ۔۔۳

آواز: محمد رفیع

رنگ اور نور کی بارات کسے پیش کروں

یہ مرادوں کی حسیں رات کسے پیش کروں

کسے پیش کروں

میں نے جذبات نبھائے ہیں اصولوں کی جگہ

اپنے ارمان پرو لایا ہوں پھولوں کی جگہ

تیرے سہرے کی یہ سوغات کسے پیش کروں

یہ مرادوں کی حسیں رات کسے پیش کروں

کسے پیش کروں

یہ مرے شعر مرے آخری نذرانے ہیں

میں ان اپنوں میں ہوں جو آج سے بیگانے ہیں

بے تعلق سی ملاقات کسے پیش کروں

یہ مرادوں کی حسیں رات کسے پیش کروں

کسے پیش کروں

کسے پیش کروں

سرخ جوڑے کی تب و تاب مبارک ہو تجھے

تیری آنکھوں کا نیا خواب مبارک ہو تجھے

میں یہ خواہش یہ خیالات کسے پیش کروں

یہ مرادوں کی حسیں رات کسے پیش کروں

کسے پیش کروں

کسے پیش کروں

کون کہتا ہے کہ چاہت پہ سبھی کا حق ہے

تو جسے چاہے ترا پیار اسی کا حق ہے

مجھ سے کہہ دے میں ترا ہات کسے پیش کروں

یہ مرادوں کی حسیں رات کسے پیش کروں

کسے پیش کروں

کسے پیش کروں

کسے پیش کروں

٭٭٭

دل خوش ہے آج ان سے ملاقات ہو گئی

آواز: محمد رفیع

دل خوش ہے آج ان سے ملاقات ہو گئی

گو دور ہی سے بات ہوئی بات ہو گئی

دل خوش ہے آج ان سے ملاقات ہو گئی

ان سے ہمارا کوئی تعلق تو بن گیا

بگڑے بھی وہ اگر تو بڑی بات ہو گئی

دل خوش ہے آج ان سے ملاقات ہو گئی

دھڑکن بڑھی تو سانس کی خوشبو بکھر گئی

آنچل اڑا تو رنگ کی برسات ہو گئی

دل خوش ہے آج ان سے ملاقات ہو گئی

جی چاہتا ہے مان بھی لیں، اب خدا کو ہم

جس کا یقیں نہ تھا وہ کرامات ہو گئی

دل خوش ہے آج ان سے ملاقات ہو گئی

٭٭٭

میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے

آواز: محمد رفیع

تاج تیرے لیے اک مظہر الفت ہی سہی

تجھ کو اس وادیِ رنگیں سے عقیدت ہی سہی

میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے

میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے

بزم شاہی میں غریبوں کا گزر کیا معنی

ثبت جس راہ میں ہوں سطوت شاہی کے نشاں

اس پہ الفت بھری روحوں کا سفر کیا معنی

میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے

میری محبوب پس پردہ تشہیر وفا

تو نے سطوت کے نشانوں کو تو دیکھا ہوتا

مردہ شاہوں کے مقابر سے بہلنے والی

اپنے تاریک مکانوں کو تو دیکھا ہوتا

میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے

ان گنت لوگوں نے دنیا میں محبت کی ہے

کون کہتا ہے کہ صادق نہ تھے جذبے ان کے

لیکن ان کے لیے تشہیر کا سامان نہیں

کیونکہ وہ لوگ بھی اپنی ہی طرح مفلس تھے

میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے

یہ عمارات و مقابر یہ فصیلیں یہ حصار

مطلق الحکم شہنشاہوں کی عظمت کے ستوں

سینۂ دہر کے ناسور ہیں کہنہ ناسور

جذب ہے ان میں ترے اور مرے اجداد کا خوں

میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے

میری محبوب انہیں بھی تو محبت ہوگی

جن کی صناعی نے بخشی ہے اسے شکل جمیل

ان کے پیاروں کے مقابر رہے بے نام و نمود

آج تک ان پہ جلائی نہ کسی نے قندیل

میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے

یہ چمن زار یہ جمنا کا کنارہ یہ محل

یہ منقش در و دیوار یہ محراب یہ طاق

اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر

ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق

میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے

٭٭٭

فلم: سادھنا

موسیقار: این دتا

سنبھل اے دل

 محمد رفیع/ آشا بھونسلے

آشا:

سنبھل اے دل تڑپنے اور تڑپانے سے کیا ہوگا

جہاں بسنا نہیں ممکن وہاں جانے سے کیا ہوگا

رفیع:

چلے آؤ کہ اب منہ پھیر کر جانے سے کیا ہوگا

جو تم پر مر مٹا اس دل کو تڑپانے سے کیا ہوگا

سنبھل اے دل

آشا:

ہمیں سنسار میں اپنا بنانا کون چاہے گا

یہ مسلے پھول سیجوں پر سجانا کون چاہے گا

تمناؤں کو جھوٹے خواب دکھلانے سے کیا ہوگا

سنبھل اے دل

رفیع:

تمہیں دیکھا تمہیں چاہا تمہیں پوجا ہے اس دل نے

جو سچ پوچھو تو پہلی بار کچھ مانگا ہے اس دل نے

سمجھتے بوجھتے انجان بن جانے سے کیا ہوگا

سنبھل اے دل

آشا:

جنہیں ملتی ہیں خوشیاں وہ مقدر اور ہوتے ہیں

جو دل میں گھر بناتے ہیں وہ دلبر اور ہوتے ہیں

امیدوں کو کھلونے دے کے بہلانے سے کیا ہوگا

سنبھل اے دل

رفیع:

بہت دن سے تھی دل میں اب زباں تک بات پہنچی ہے

وہیں تک اس کو رہنے دو جہاں تک بات پہنچی ہے

جو دل کی آخری حد ہے وہاں تک بات پہنچی ہے

جسے کھونا یقینی ہو اسے پانے سے کیا ہوگا

سنبھل اے دل

٭٭٭

آج کیوں ہم سے پردہ ہے

آوازیں: محمد رفیع، بلبیر اور ساتھی

آج کیوں ہم سے پردہ ہے

پردہ ہے جی

آج کیوں ہم سے پردہ ہے

تیرا ہر رنگ ہم نے دیکھا ہے

تیرا ہر ڈھنگ ہم نے دیکھا ہے

ہاتھ کھیلے ہیں تیری زلفوں سے

آنکھ واقف ہے تیرے جلووں سے

تجھ کو ہر طرح آزمایا ہے

پا کے کھویا ہے کھو کے پایا ہے

انکھڑیوں کا بیاں سمجھتے ہیں

دھڑکنوں کی زباں سمجھتے ہیں

چوڑیوں کی کھنک سے واقف ہیں

چھاگلوں کی چھنک سے واقف ہیں

ناز و انداز جانتے ہیں ہم

تیرا ہر راز جانتے ہیں ہم

پھر۔۔۔۔

آج کیوں ہم سے پردہ ہے

پردہ ہے جی

آج کیوں ہم سے پردہ ہے

منہ چھپانے سے فائدہ کیا ہے

دل دکھانے سے فائدہ کیا ہے

الجھی الجھی لٹیں سنوار کے آ

حسن کو اور بھی نکھار کے آ

نرم گالوں میں بجلیاں لے کر

شوخ آنکھوں میں تتلیاں لے کر

آ بھی جا اب ادا سے لہراتی

ایک دلہن کی طرح شرماتی

تو نہیں ہے تو رات سونی ہے

عشق کی کائنات سونی ہے

مرنے والوں کی زندگی تو ہے

اس اندھیرے کی روشنی تو ہے

آج کیوں ہم سے پردہ ہے

پردہ ہے جی

آج کیوں ہم سے پردہ ہے

آ ترا انتظار کب سے ہے

ہر نظر بے قرار کب سے ہے

شمع رہ رہ کے جھلملاتی ہے

سانس تاروں کی ڈوبی جاتی ہے

تو اگر مہربان ہو جائے

ہر تمنا جوان ہو جائے

آ بھی جا اب کہ رات جاتی ہے

ایک عاشق کی بات جاتی ہے

خیر ہو تیری زندگانی کی

بھیک دے دے ہمیں جوانی کی

تجھ پہ سو جان سے فدا ہیں ہم

ایک مدت کے آشنا ہیں ہم

آج کیوں ہم سے پردہ ہے

پردہ ہے جی

آج کیوں ہم سے پردہ ہے

٭٭٭

عورت نے جنم دیا مردوں کو

آواز: لتا منگیشکر

عورت نے جنم د یا مردوں کو، مردوں سے اسے بازار دیا

جب جی چاہا مسلا کچلا، جب جی چاہا دھتکار دیا

عورت نے جنم د یا مردوں کو

تلتی ہے کہیں دیناروں میں ، بکتی ہے کہیں بازاروں میں

ننگی نچوائی جاتی ہے عیاشوں کے درباروں میں

یہ وہ بے عزت چیز ہے جو بٹ جاتی ہے عزت داروں میں

عورت نے جنم د یا مردوں کو، مردوں سے اسے بازار دیا

مردوں کے لئے ہر ظلم روا، عورت کے لئے رونا بھی خطا

مردوں کے لئے ہر عیش کا حق، عورت کے لئے جینا بھی سزا

مردوں کے لئے لاکھوں سیجیں ، عورت کے لئے بس ایک چتا

عورت نے جنم د یا مردوں کو، مردوں سے اسے بازار دیا

جن سینوں نے ان کو دودھ دیا، ان سینوں کا بیوپار کیا

جس کوکھ میں ان کا جسم ڈھلا، اس کوکھ کا کاروبار کیا

جس تن سے اگے کونپل بن کر، اس تن کو ذلیل و خوار کیا

عورت نے جنم د یا مردوں کو، مردوں سے اسے بازار دیا

سنسار کی ہر اک بے شرمی غربت کی گود میں پلتی ہے

چکلوں ہی میں آ کر رکتی ہے، فاقوں سے جو راہ نکلتی ہے

مردوں کی ہوس ہے جو اکثر عورت کے پاپ میں ڈھلتی ہے

عورت نے جنم د یا مردوں کو، مردوں سے اسے بازار دیا

عورت سنسار کی قسمت ہے، پھر بھی تقدیر کی ہیٹی ہے

اوتار پیمبر جنتی ہے پھر بھی شیطان کی بیٹی ہے

یہ وہ بد قسمت ماں ہے جو بیٹوں کی سیج پہ لیٹی ہے

عورت نے جنم د یا مردوں کو، مردوں سے اسے بازار دیا

٭٭٭

فلم: تاج محل

موسیقار: روشن

جو بات تجھ میں ہے تری تصویر میں نہیں

آواز: محمد رفیع

جو بات تجھ میں ہے تری تصویر میں نہیں

تصویر میں نہیں

جو بات تجھ میں ہے تری تصویر میں نہیں

جو بات تجھ میں ہے

رنگوں میں ترا عکس ڈھلا تو نہ ڈھل سکی

سانسوں کی آگ جسم کی خوشبو نہ ڈھل سکی

تجھ میں جو لوچ ہے مری تحریر میں نہیں

تحریر میں نہیں

جو بات تجھ میں ہے تری تصویر میں نہیں

تصویر میں نہیں

جو بات تجھ میں ہے

بے جان حسن میں کہاں گفتار کی ادا

انکار کی ادا ہے نہ اقرار کی ادا

کوئی لچک بھی زلف گرہ گیر میں نہیں

گرہ گیر میں نہیں

جو بات تجھ میں ہے تری تصویر میں نہیں

تصویر میں نہیں

جو بات تجھ میں ہے

دنیا میں کوئی چیز نہیں ہے تری طرح

پھر ایک بار سامنے آ جا کسی طرح

کیا اور اک جھلک مری تقدیر میں نہیں

تقدیر میں نہیں

جو بات تجھ میں ہے تری تصویر میں نہیں

تصویر میں نہیں

جو بات تجھ میں ہے

٭٭٭

خدائے برتر تری زمی پر

موسیقار: روشن

خدائے برتر! تری زمیں پر، زمیں کی خاطر یہ جنگ کیوں ہے؟

ہر ایک فتح و ظفر کے دامن پہ خونِ انسان کا رنگ کیوں ہے؟

خدائے برتر!

زمیں بھی تیری ہے ہم بھی تیرے، یہ ملکیت کا سوال کیا ہے؟

یہ قتل و خواں کا رواج کیوں ہے، یہ رسمِ جنگ و جدا ل کیا ہے؟

جنہیں طلب ہے جہان بھر کی، انہیں کا دل اتنا تنگ کیوں ہے؟

خدائے برتر! تری زمیں پر، زمیں کی خاطر یہ جنگ کیوں ہے؟

خدائے برتر!

غریب ماؤں ، شریف بہنوں کو امن و عزت کی زندگی دے

جنہیں عطا کی ہے تو نے طاقت، انہیں ہدایت کی روشنی دے

سروں میں کبر و غرور کیوں ہے، دلوں کے شیشے پہ زنگ کیوں ہے؟

خدائے برتر! تری زمیں پر، زمیں کی خاطر یہ جنگ کیوں ہے؟

خدائے برتر!

٭٭٭

جو وعدہ وعدہ کیا وہ نبھانا پڑے گا

آواز: محمد رفیع، لتا منگیشکر

رفیع:

جو وعدہ وعدہ کیا وہ نبھانا پڑے گا

روکے زمانا چاہے روکے خدائی تم کو آنا پڑے گا

جو وعدہ وعدہ کیا وہ نبھانا پڑے گا

نبھانا پڑے گا

ترستی نگاہوں نے آواز دی ہے

محبت کی راہوں نے آواز دی ہے

جان حیا، جان ادا

چھوڑو ترسانا تم کو آنا پڑے گا

جو وعدہ وعدہ کیا وہ نبھانا پڑے گا

نبھانا پڑے گا

لتا:

یہ مانا ہمیں جاں سے جانا پڑے گا

پر یہ سمجھ لو تم نے

جب بھی پکارا ہم کو آنا پڑے گا

جو وعدہ وعدہ کیا وہ نبھانا پڑے گا

نبھانا پڑے گا

ہم اپنی وفا پے نا الزام لیں گے

تمہیں دل دیا ہے تمہیں جاں بھی دیں گے

جب عشق کا سودا کیا

پھر کیا گھبرانا تم کو آنا پڑے گا

جو وعدہ وعدہ کیا وہ نبھانا پڑے گا

نبھانا پڑے گا

چمکتے ہیں جب تک یہ چاند اور تارے

نہ ٹوٹیں گے اب عہد و پیماں ہمارے

اک دوسرا جب دے صدا

ہوکے دیوانہ ہم کو آنا پڑے گا

جو وعدہ۔۔ ۔

دونوں:

ہماری کہانی تمہارا فسانہ

ہمیشہ ہمیشہ کہے گا زمانا

کیسے بھلا کیسی سزا

دے دے زمانا ہم کو آنا پڑے گا

جو وعدہ وعدہ کیا وہ نبھانا پڑے گا

نبھانا پڑے گا

سبھی اہل دنیا یہ کہتے ہیں ہم سے

کہ آتا نہیں کوئی ملکِ عدم سے

آ جا ذرا شان وفا

دیکھے زمانا تم کو آنا پڑے گا

جو وعدہ وعدہ کیا وہ نبھانا پڑے گا

نبھانا پڑے گا

بہت جی لگایا زمانہ سے ہم نے

بہت وقت کاٹا بہانے سے ہم نے

جب سے ہوا تم سے جدا

یہ دل نہ مانا تم کو آنا پڑے گا

جو وعدہ کیا

ہم آتے رہے ہیں ہم آتے رہیں گے

محبت کی رسمیں نبھاتے رہیں گے

جان وفا تم دو صدا

پھر کیا ٹھکانا ہم کو، آنا پڑے گا

جو وعدہ وعدہ کیا وہ نبھانا پڑے گا

نبھانا پڑے گا

٭٭٭

جرم الفت پہ ہمیں لوگ سزا دیتے ہیں

آواز: لتا منگیشکر

جرم الفت پہ ہمیں لوگ سزا دیتے ہیں

کیسے نادان ہیں شعلوں کو ہوا دیتے ہیں

جرم الفت پہ ۔۔۔

ہم سے دیوانے کہیں ترک وفا کرتے ہیں

جان جائے کہ رہے بات نبھا دیتے ہیں

جرم الفت پہ ۔۔۔

آپ دولت کے ترازو میں دلوں کو تولیں

ہم محبت سے محبت کا صلہ دیتے ہیں

جرم الفت پہ ۔۔۔

تخت کیا چیز ہے اور لعل و جواہر کیا ہیں

عشق والے تو خدائی بھی لٹا دیتے ہیں

جرم الفت پہ ۔۔۔

ہم نے دل دے بھی دیا عہد وفا لے بھی لیا

آپ اب شوق سے دے لیں جو سزا دیتے ہیں

جرم الفت پہ ۔۔۔

٭٭٭

پاؤں چھو لینے دو

آوازیں: محمد رفیع، لتا منگیشکر

رفیع:

پاؤں چھو لینے دو، پھولوں کو عنایت ہو گی

ورنہ ہم کو نہیں ، ان کو بھی شکایت ہو گی

لتا:

آپ جو پھول بچھائیں ، انہیں ہم ٹھکرائیں

ہم کو ڈر ہے

ہم کو ڈر ہے کہ یہ توہینِ محبت ہو گی

رفیع:

دل کی بے چین امنگوں پہ کرم فرماؤ

دل کی بے چین امنگوں پہ کرم فرماؤ

اتنا رک رک کے

اتنا رک رک کے چلو گی تو قیامت ہو گی

لتا:

شرم روکے ہے ادھر، شوق ادھر کھینچے ہے

کیا خبر تھی

کیا خبر تھی کبھی اس دل کی یہ حالت ہو گی

رفیع:

شرم غیروں سے ہوا کرتی ہے، اپنوں سے نہیں

شرم ہم سے

شرم ہم سے بھی کرو گی تو مصیبت ہو گی

پاؤں چھو لینے دو، پھولوں کو عنایت ہو گی

ورنہ ہم کو نہیں ، ان کو بھی شکایت ہو گی

٭٭٭

فلم: نیا دور

موسیقار: او پی نیر

آنا ہے تو آ

آواز: محمد رفیع

آنا ہے تو آ راہ میں کچھ پھیر نہیں ہے

بھگوان کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں ہے

آنا ہے تو آ راہ میں کچھ پھیر نہیں ہے

آنا ہے تو آ

جب تجھ سے نہ سلجھیں ترے الجھے ہوئے دھندے

بھگوان کے انصاف پہ سب چھوڑ دے بندے

خود ہی تری مشکل کو وہ آسان کرے گا

جو تو نہیں کر پایا وہ بھگوان کرے گا

آنا ہے تو آ

کہنے کی ضرورت نہیں آنا ہی بہت ہے

اس در پہ ترا سیس جھکانا ہی بہت ہے

جو کچھ ہے ترے دل میں سبھی اس کو خبر ہے

بندے ترے ہر حال پہ مالک کی نظر ہے

آنا ہے تو آ

بن مانگے ہی ملتی ہیں یہاں من کی مرادیں

دل صاف ہو جن کا وہ یہاں آ کے صدا دیں

ملتا ہے جہاں نیائے وہ دربار یہی ہے

سنسار کی سب سے بڑی سرکار یہی ہے

آنا ہے تو آ راہ میں کچھ پھیر نہیں ہے

آنا ہے تو آ

٭٭٭

یہ دیش ہے ویر جوانوں کا

آوازیں: محمد رفیع، بلبیر اور ساتھی

یہ دیش ہے ویر جوانوں کا

البیلوں کا مستانوں کا

اس دیش کا یارو  ہوے ۔۔۔

اس دیش کا یارو کیا کہنا

یہ دیش ہے دنیا کا گہنا

یہاں چوڑی چھاتی ویروں کی

یہاں گوری شکلیں ہیروں کی

یہاں گاتے ہیں رانجھے  ہوے۔۔۔

یہاں گاتے ہیں رانجھے مستی میں

مچتی ہیں دھومیں بستی میں

پیڑوں پہ بہاریں جھولوں کی

راہوں میں قطاریں پھولوں کی

یہاں ہنستا ہے ساون ہوے ۔۔۔

یہاں ہنستا ہے ساون بالوں میں

کھلتی ہیں کلیاں گالوں میں

کہیں دنگل شوخ جوانوں کے

کہیں کرتب تیر کمانوں کے

یہاں نت نت میلے  ہوے ۔۔۔

یہاں نت نت میلے سجتے ہیں

نت ڈھول اور تاشے بجتے ہیں

دلبر کے لیے دل دار ہیں ہم

دشمن کے لیے تلوار ہیں ہم

میداں میں اگر ہم  ہوے۔۔۔

میداں میں اگر ہم ڈٹ جائیں

مشکل ہے کہ پیچھے ہٹ جائیں

٭٭٭

ساتھی ہاتھ بڑھانا

آوازیں: محمد رفیع/ آشا بھوسلے

ساتھی ہاتھ بڑھانا

ساتھی ہاتھ بڑھانا

ایک اکیلا تھک جائے گا مل کر بوجھ اٹھانا

ساتھی ہاتھ بڑھانا

ساتھی ہاتھ بڑھانا ساتھی رے

ساتھی ہاتھ بڑھانا ساتھی رے

ہم محنت والوں نے جب بھی مل کر قدم بڑھایا

ساگر نے رستہ چھوڑا پربت نے سیس جھکایا

فولادی ہیں سینے اپنے فولادی ہیں بانہیں

ہم چاہیں تو پیدا کر دیں چٹانوں میں راہیں

ساتھی ہاتھ بڑھانا

ساتھی ہاتھ بڑھانا

ساتھی ہاتھ بڑھانا ساتھی رے

ساتھی ہاتھ بڑھانا ساتھی رے

محنت اپنے لیکھ کی ریکھا محنت سے کیا ڈرنا

کل غیروں کی خاطر کی آج اپنی خاطر کرنا

اپنا دکھ بھی ایک ہے ساتھی اپنا سکھ بھی ایک

اپنی منزل سچ کی منزل اپنا رستہ نیک

ساتھی ہاتھ بڑھانا

ساتھی ہاتھ بڑھانا

ساتھی ہاتھ بڑھانا ساتھی رے

ساتھی ہاتھ بڑھانا ساتھی رے

ایک سے ایک ملے تو قطرہ بن جاتا ہے دریا

ایک سے ایک ملے تو ذرہ بن جاتا ہے صحرا

ایک سے ایک ملے تو رائی بن سکتی ہے پربت

ایک سے ایک ملے تو انساں بس میں کر لے قسمت

ساتھی ہاتھ بڑھانا

ساتھی ہاتھ بڑھانا

ساتھی ہاتھ بڑھانا ساتھی رے

ساتھی ہاتھ بڑھانا ساتھی رے

ماٹی سے ہم لعل نکالیں موتی لائیں جل سے

جو کچھ اس دنیا میں بنا ہے بنا ہمارے بل سے

کب تک محنت کے پیروں میں دولت کی زنجیریں

ہاتھ بڑھا کر چھین لو اپنے خوابوں کی تعبیریں

ساتھی ہاتھ بڑھانا

ساتھی ہاتھ بڑھانا

ساتھی ہاتھ بڑھانا ساتھی رے

ساتھی ہاتھ بڑھانا ساتھی رے

٭٭٭

اڑیں جب جب زلفیں تیری

آواز: محمد رفیع، آشا بھوسلے

آشا:

اڑیں جب جب زلفیں تیری

ہو، اڑیں جب جب زلفیں تیری

اڑیں جب جب زلفیں تیری

ہو، اڑیں جب جب زلفیں تیری

کنواریوں کا دل مچلے

کنواریوں کا دل مچلے

جند میریے

رفیع:

ہو،  جب ایسے چکنے چہرے

جب ایسے چکنے چہرے

ہو،  جب ایسے چکنے چہرے

جب ایسے چکنے چہرے

تو کیسے نہ نظر پھسلے

تو کیسے نہ نظر پھسلے

جند میریے

آشا:

ہو، رت پیار کرن کی آئی

رت پیار کرن کی آئی

ہو، رت پیار کرن کی آئی

رت پیار کرن کی آئی

کہ بیریوں کے بیر پک گئے

کہ بیریوں کے بیر پک گئے

جند میریے

رفیع:

کبھی ڈال ادھر بھی پھیرا

ہو، کبھی ڈال ادھر بھی پھیرا

کبھی ڈال ادھر بھی پھیرا

ہو، کبھی ڈال ادھر بھی پھیرا

کہ تک تک نین تھک گئے

کہ تک تک نین تھک گئے

جند میریے

آشا:

اس گاؤں پہ سورگ بھی صدقے

ہو، اس گاؤں پہ سورگ بھی صدقے

اس گاؤں پہ سورگ بھی صدقے

ہو، اس گاؤں پہ سورگ بھی صدقے

کہ جہاں مرا یار بستا

کہ جہاں مرا یار بستا

جند میریے

رفیع:

پانی لینے کے بہانے آ جا

ہو، پانی لینے کے بہانے آ جا

پانی لینے کے بہانے آ جا

ہو، پانی لینے کے بہانے آ جا

کہ تیرا میرا اک رستا

کہ تیرا میرا اک رستا

جند میریے

رفیع:

ہو، تجھے چاند کے بہانے دیکھوں

تجھے چاند کے بہانے دیکھوں

ہو، تجھے چاند کے بہانے دیکھوں

تجھے چاند کے بہانے دیکھوں

تو چھت پر آ جا گورئیے

تو چھت پر آ جا گورئیے

جند میریے

آشا:

ابھی چھیڑیں گے گلی کے سب لڑکے

ابھی چھیڑیں گے گلی کے سب لڑکے

ابھی چھیڑیں گے گلی کے سب لڑکے

کہ چاند بیری چھپ جانے دے

کہ چاند بیری چھپ جانے دے

جند میریے

رفیع:

ہو، تیری چال ہے ناگن جیسی

تیری چال ہے ناگن جیسی

ہو، تیری چال ہے ناگن جیسی

تیری چال ہے ناگن جیسی

رے جو گی تجھے لے جائیں گے

رے جو گی تجھے لے جائیں گے

جند میریے

آشا:

جائیں کہیں بھی مگر ہم سجنا

جائیں کہیں بھی مگر ہم سجنا

جائیں کہیں بھی مگر ہم سجنا

یہ دل تجھے دے جائیں گے

یہ دل تجھے دے جائیں گے

جند میریے

٭٭٭

فلم: مجھے جینے دو

موسیقار: جے دیو

اب کوئی گلشن نہ اجڑے اب وطن آزاد ہے

آواز: محمد رفیع

اب کوئی گلشن نہ اجڑے

اب کوئی گلشن نہ اجڑے اب وطن آزاد ہے

اب کوئی گلشن نہ اجڑے اب وطن آزاد ہے

روح گنگا کی ہمالہ کا بدن آزاد ہے

کھیتیاں سونا اگائیں

وادیاں موتی لٹائیں

کھیتیاں سونا اگائیں وادیاں موتی لٹائیں

آج گوتم

آج گوتم کی زمیں تلسی کا بن آزاد ہے

اب کوئی گلشن نہ اجڑے اب وطن آزاد ہے

مندروں میں سنکھ باجے مسجدوں میں ہو اذاں

مندروں میں سنکھ باجے

مسجدوں میں ہو اذاں

مندروں میں سنکھ باجے مسجدوں میں ہو اذاں

شیخ کا دھرم

شیخ کا دھرم اور دین برہمن آزاد ہے

لوٹ کیسی بھی ہو اب اس دیش میں رہنے نہ پائے

لوٹ کیسی بھی ہو اب اس دیش میں رہنے نہ پائے

آج سب کے

آج سب کے واسطے دھرتی کا دھن آزاد ہے

اب کوئی گلشن نہ اجڑے اب وطن آزاد ہے

٭٭٭

را ت بھی ہے کچھ بھیگی بھیگی

آواز: لتا منگیشکر

را ت بھی ہے کچھ بھیگی بھیگی

چاند بھی ہے کچھ مدھم مدھم

تم آؤ تو آنکھیں کھولیں

سوئی ہوئی پائل کی چھم چھم

چھم چھم، چھم چھم، چھم چھم، چھم چھم

کس کو بتائیں کیسے بتائیں

آج عجب ہے دل کا عالم

چین بھی ہے کچھ ہلکا ہلکا

درد بھی ہے کچھ مدھم مدھم

چھم چھم، چھم چھم، چھم چھم، چھم چھم

پتے دل پر یوں گرتی ہے

تیری نظر سے پیار کی شبنم

جلتے ہوئے جنگل پر جیسے

برکھا برسے رک رک تھم تھم

چھم چھم، چھم چھم، چھم چھم، چھم چھم

ہوش میں تھوڑی بیہوشی ہے

بیہوشی میں ہوش ہے کم کم

تجھ کو پانے کی کوشش میں

دونوں جہاں سے کھو سے گئے ہم

چھم چھم، چھم چھم، چھم چھم، چھم چھم،

رات ۔۔۔۔

٭٭٭

تیرے بچپن کو جوانی کی دعا دیتی ہوں

آواز: لتا منگیشکر

تیرے بچپن کو جوانی کی دعا دیتی ہوں

اور دعا دے کے پریشان سی ہو جاتی ہوں

میرے بچے! مرے گلزار کے ننھے پودے

تجھ کو حالات کی آندھی سے بچانے کے لئے

آج میں پیار کے آنچل میں چھپا لیتی ہوں

کل یہ کمزور سہارا بھی نہ حاصل ہو گا

کل تجھے کانٹوں بھری راہ پہ چلنا ہو گا

زندگانی کی کڑی دھوپ میں جلنا ہو گا

تیرے بچپن کو جوانی کی دعا دیتی ہوں

اور دعا دے کے پریشان سی ہو جاتی ہوں

تیرے ماتھے پہ شرافت کی کوئی مہر نہیں

چند بوسے ہیں محبت کے سو وہ بھی کیا ہیں

مجھ سے ماؤں کی محبت کا کوئی مول نہیں

میرے معصوم فرشتے تو ابھی کیا جانے

تجھ کو کس کس کے گناہوں کی سزا ملنی ہے

دین اور دھرم کے مارے ہوئے انسانوں کی

جو نظر ملنی ہے، وہ تجھ کو خفا ملنی ہے

تیرے بچپن کو جوانی کی دعا دیتی ہوں

اور دعا دے کے پریشان سی ہو جاتی ہوں

بیڑیاں لے کے لپکتا ہوا قانون کا ہات

تیرے ماں باپ سے جب تجھ کو ملی یہ سوغات

کون لائے گا ترے واسطے خوشیوں کی برات

میرے بچے ترے انجام سے جی ڈرتا ہے

تیری دشمن ہی نہ ثابت ہو جوانی تیری

کانپ جاتی ہے جسے سوچ کے ممتا میری

اسی انجام کو پہنچے نہ کہانی تیری

تیرے بچپن کو جوانی کی دعا دیتی ہوں

اور دعا دے کے پریشان سی ہو جاتی ہوں

٭٭٭

فلم: کاجل

موسیقار: روی

میرے بھیا، میرے چندا

آواز: آشا بھوسلے

میرے بھیا، میرے چندا، مرے انمول رتن

تیرے بدلے میں زمانے کی کوئی چیز نہ لوں !

میرے بھیا، میرے چندا، مرے انمول رتن

تیری سانسوں کی قسم کھا کے ہوا چلتی ہے

تیرے چہرے کی جھلک پا کے بہار آتی ہے

ایک پل بھی مری نظروں سے جو تو اوجھل ہو

ہر طرف میری نظر تجھ کو پکار آتی ہے!

میرے بھیا، میرے چندا، مرے انمول رتن

تیرے بدلے میں زمانے کی کوئی چیز نہ لوں !

تیرے سہرے کی مہکتی ہوئی لڑیوں کے لئے

ان گنت پھول امیدوں کے چنے ہیں میں نے

وہ بھی دن آئے کہ ان خوابوں کی تعبیر بنے

تیری خاطر جو حسیں خواب چنے میں نے

میرے بھیا، میرے چندا، مرے انمول رتن

تیرے بدلے میں زمانے کی کوئی چیز نہ لوں !

٭٭٭

چھو لینے دو نازک ہونٹوں کو

آواز: محمد رفیع

چھو لینے دو نازک ہونٹوں کو کچھ اور نہیں ہے جام ہے یہ

قدرت نے جو ہم کو بخشا ہے وہ سب سے حسیں انعام ہے یہ

چھو لینے دو نازک ہونٹوں کو

شرما کے نہ یوں ہی کھو دینا رنگین جوانی کی گھڑیاں

شرما کے نہ یوں ہی کھو دینا رنگین جوانی کی گھڑیاں

بیتاب دھڑکتے سینوں کا ارمان بھرا پیغام ہے یہ

چھو لینے دو نازک ہونٹوں کو

اچھوں کو برا ثابت کرنا دنیا کی پرانی عادت ہے

اچھوں کو برا ثابت کرنا دنیا کی پرانی عادت ہے

اس مے کو مبارک چیز سمجھ مانا کہ بہت بدنام ہے یہ

چھو لینے دو نازک ہونٹوں کو

٭٭٭

یہ زلف اگر کھل کے بکھر جائے تو اچھا

آواز: محمد رفیع

یہ زلف اگر کھل کے بکھر جائے تو اچھا

اس رات کی تقدیر سنور جائے تو اچھا

یہ زلف اگر کھل کے

جس طرح سے تھوڑی سی ترے ساتھ کٹی ہے

باقی بھی اسی طرح گزر جائے تو اچھا

یہ زلف اگر کھل کے

دنیا کی نگاہوں میں بھلا کیا ہے برا کیا

یہ بوجھ اگر دل سے اتر جائے تو اچھا

یہ زلف اگر کھل کے

ویسے تو تمہیں نے مجھے برباد کیا ہے

الزام کسی اور کے سر جائے تو اچھا

یہ زلف اگر کھل کے

٭٭٭

فلم: دھرم پتر

موسیقار: این دتا

میں جب بھی اکیلی ہوتی ہوں

آواز: آشا بھونسلے

میں جب بھی اکیلی ہوتی ہوں ، تم چپکے سے آ جاتے ہو

اور جھانک کے میری آنکھوں میں بیتے دن یاد دلاتے ہو

بیتے دن یاد دلاتے ہو

میں جب بھی اکیلی ہوتی ہوں

مستانہ ہوا کے جھونکوں سے ہر بار وہ پردے کا ہلنا

پردے کو پکڑنے کی دھن میں دو اجنبی ہاتھوں کا ملنا

آنکھوں میں دھواں سا چھا جانا، سانسوں میں ستارے سے کھلنا

میں جب بھی اکیلی ہوتی ہوں ، تم چپکے سے آ جاتے ہو

رستے میں تمہارا مڑ مڑ کر تکنا وہ مجھے جاتے جاتے

اور میرا ٹھٹھک کر رک جانا، چلمن کے قریب آتے آتے

نظروں کا ترس کر رہ جانا، اک اور جھلک پاتے پاتے

میں جب بھی اکیلی ہوتی ہوں ، تم چپکے سے آ جاتے ہو

بالوں کو سکھانے کی خاطر، کوٹھے پہ وہ میرا آ جانا

اور تم کو مقابل پاتے ہی کچھ شرمانا، کچھ بل کھانا

ہمسایوں کے ڈر سے کترانا، گھر والوں کے در سے گھبرانا

میں جب بھی اکیلی ہوتی ہوں ، تم چپکے سے آ جاتے ہو

رو رو کے تمہیں خط لکھتی ہوں ، اور خود پڑھ کر رو لیتی ہوں

حالات کے تپتے طوفاں میں جذبات کی کشتی کھیتی ہوں

کیسے ہو، کہاں ہو کچھ تو کہو، میں تم کو صدائیں دیتی ہوں

میں جب بھی اکیلی ہوتی ہوں ، تم چپکے سے آ جاتے ہو

اور جھانک کے میری آنکھوں میں بیتے دن یاد دلاتے ہو

٭٭٭

چاہے یہ مانو، چاہے

آوازیں: بلبیر، مہندر کپور اور ساتھی

کعبے میں رہو یا کاشی میں ، نسبت تو اسی کی ذات سے ہے

تم رام کہو کہ رحیم کہو، مطلب تو اسی کی بات سے ہے

یہ مسجد ہے، وہ بت خانہ، چاہے یہ مانو، چاہے وہ مانو

مقصد تو ہے دل کو سمجھانا، چاہے یہ مانو، چاہے وہ مانو

چاہے یہ مانو، چاہے وہ مانو

یہ شیخ و برہمن کے جھگڑے، سب نا سمجھی کی باتیں ہیں

ہم نے تو ہے بس اتنا جانا، چاہے یہ مانو، چاہے وہ مانو

چاہے یہ مانو، چاہے وہ مانو

گر جذبِ محبت صادق ہو، ہر در سے مرادیں ملتی ہیں

ہر گھر ہے اسی کا کاشانہ، چاہے یہ مانو، چاہے وہ مانو

چاہے یہ مانو، چاہے وہ مانو

٭٭٭

بھول سکتا ہے بھلا کون

محمد رفیع

بھول سکتا ہے بھلا کون یہ پیاری آنکھیں

رنگ میں ڈوبی ہوئی نیند سے بھاری آنکھیں

بھول سکتا ہے بھلا کون

میری ہر سوچ نے ہر سانس نے چاہا ہے تمہیں

جب سے دیکھا ہے تمہیں تب سے سراہا ہے تمہیں

بس گئی ہیں مری آنکھوں میں تمہاری آنکھیں

بھول سکتا ہے بھلا کون

تم جو نظروں کو اٹھاؤ تو ستارے جھک جائیں

تم جو پلکوں کو جھکاؤ تو زمانے رک جائیں

کیوں نہ بن جائیں ان آنکھوں کی پجاری آنکھیں

بھول سکتا ہے بھلا کون

جاگتی راتوں کو سپنوں کا خزانہ مل جائے

تم جو مل جاؤ تو جینے کا بہانہ مل جائے

اپنی قسمت پہ کریں ناز ہماری آنکھیں

بھول سکتا ہے بھلا کون

٭٭٭

آج کی رات مرادوں کی برات آئی ہے

آواز: مہندر کپور

آج کی رات نہیں شکوے شکایت کے لئے

آج ہر لمحہ ہر اک پل ہے محبت کے لئے

ریشمی سیج ہے مہکی ہوئی تنہائی ہے

آج کی رات مرادوں کی برات آئی ہے

ہر گنہ آج مقدس ہے فرشتوں کی طرح

کانپتے ہاتھوں کو مل جانے دو رشتوں کی طرح

آج ملنے میں نہ الجھن ہے نہ رسوائی ہے

آج کی رات مرادوں کی برات آئی ہے

اپنی زلفیں مرے شانے پہ بکھر جانے دو

اس حسیں رات کو کچھ اور نکھر جانے دو

صبح نے آج نہ آنے کی قسم کھائی ہے

آج کی رات مرادوں کی برات آئی ہے

٭٭٭

فلم: گمراہ

موسیقار: روی

آپ آئے تو خیال دل ناشاد آیا

مہندر کپور

آپ آئے تو خیال دل ناشاد آیا

کتنے بھولے ہوئے زخموں کا پتا یاد آیا

آپ آئے

آپ کے لب پہ کبھی اپنا بھی نام آیا تھا

شوخ نظروں سے محبت کا سلام آیا تھا

عمر بھر ساتھ نبھانے کا پیام آیا تھا

آپ کو دیکھ کے وہ عہد وفا یاد آیا

آپ آئے تو خیال دل ناشاد آیا

آپ آئے

روح میں جل اٹھے بجھتی ہوئی یادوں کے دیے

کیسے دیوانے تھے ہم آپ کو پانے کے لئے

یوں تو کچھ کم نہیں جو آپ نے احسان کیے

پر جو مانگے سے نہ پایا وہ صلہ یاد آیا

آپ آئے تو خیال دل ناشاد آیا

آپ آئے

آج وہ بات نہیں پھر بھی کوئی بات نہیں

میرے حصے میں یہ ہلکی سی ملاقات تو ہے

غیر کا ہو کے بھی یہ حسن مرے ساتھ تو ہے

ہائے کس وقت مجھے کب کا گلا یاد آیا

آپ آئے تو خیال دل ناشاد آیا

٭٭٭

چلو اک بار پھر سے

آواز: مہندر کپور

چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں

چلو اک بار

نہ میں تم سے کوئی امید رکھوں دلنوازی کی

نہ تم میری طرف دیکھو غلط انداز نظروں سے

نہ میرے دل کی دھڑکن لڑکھڑائے میری باتوں سے

نہ ظاہر ہو تمہاری کشمکش کا راز نظروں سے

چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں

چلو اک بار

تمہیں بھی کوئی الجھن روکتی ہے پیش قدمی سے

مجھے بھی لوگ کہتے ہیں کہ یہ جلوے پرائے ہیں

مرے ہمراہ بھی رسوائیاں ہیں میرے ماضی کی

تمہارے ساتھ بھی گزری ہوئی راتوں ‌کے سائے ہیں

چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں

چلو اک بار

تعارف روگ ہو جائے تو اس کو بھولنا بہتر

تعلق بوجھ بن جائے تو اس کو توڑنا اچھا

وہ افسانہ جسے تکمیل تک لانا نہ ہو ممکن

اسے اک خوبصورت موڑ‌ دے کر چھوڑنا اچھا

چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں

چلو اک بار

٭٭٭

فلم: کبھی کبھی

موسیقار: خیام

میں پل دو پل کا شاعر ہوں

آواز: مکیش

میں پل دو پل کا شاعر ہوں

پل دو پل مری کہانی ہے

پل دو پل میری ہستی ہے

پل دو پل مری جوانی ہے

میں پل دو پل کا شاعر ہوں

رشتوں کا روپ بدلتا ہے

بنیادیں ختم نہیں ہوتیں

خوابوں کی اور امنگوں کی

میعادیں ختم نہیں ہوتیں

ہر پھول میں تیرا روپ بسا

ہر پھول میں تیری جوانی ہے

میں پل دو پل کا شاعر ہوں

اک چہرہ تیری نشانی ہے

اک چہرہ میری نشانی ہے

تم کو مجھ کو جیون امرت

ان ہاتھوں سے ہی پینا ہے

ان کی دھڑکن میں بسنا ہے

ان کے سانسوں میں جینا ہے

تو اپنی ادائیں بخش انہیں

میں اپنی وفائیں دیتا ہوں

جو اپنے لیے سوچی تھی کبھی

وہ ساری دعائیں دیتا ہوں

میں پل دو پل کا شاعر ہوں

پل دو پل مری کہانی ہے

پل دو پل میری ہستی ہے

پل دو پل مری جوانی ہے

میں پل دو پل کا شاعر ہوں

٭٭٭

کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے

آواز: مکیش

کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے

کہ جیسے تجھ کو بنایا گیا ہے میرے لیے

تو اب سے پہلے ستاروں میں بس رہی تھی کہیں

تجھے زمین پہ بلایا گیا ہے میرے لیے

کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے

کہ یہ بدن یہ نگاہیں میری امانت ہیں

یہ گیسوؤں کی گھنی چھاؤں ہے مری خاطر

یہ ہونٹ اور یہ بانہیں مری امانت ہیں

کہ جیسے بجتی ہیں شہنائیاں سی راہوں میں

سہاگ رات ہے گھونگھٹ اٹھا رہا ہوں میں

سمٹ رہی ہے تو شرما کے اپنی بانہوں میں

کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے

کہ جیسے تو مجھے چاہے گی عمر بھر یوں ہی

اٹھے گی میرے طرف پیار کی نظر یوں ہی

میں جانتا ہوں تو غیر ہے مگر یوں ہی

کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے . . . !

٭٭٭

فلم: دیو داس

موسیقار: سچن دیو برمن

جسے تو قبول کر لے

آواز: لتا منگیشکر

جسے تو قبول کر لے

جسے تو قبول کر لے وہ ادا کہاں سے لاؤں

ترے دل کو جو لبھائے وہ صدا کہاں سے لاؤں

جسے تو قبول کر لے

میں وہ پھول ہوں کہ جس کو گیا ہر کوئی مسل کے

مری عمر بہہ گئی ہے مرے آنسوؤں میں ڈھل کے

جو بہار بن کے برسے وہ گھٹا کہاں سے لاؤں

جسے تو قبول کر لے

تجھے اور کی تمنا مجھے تیری آرزو ہے

ترے دل میں غم ہی غم ہے مرے دل میں تو ہی تو ہے

جو دلوں کو چین دے دے وہ دوا کہاں سے لاؤں

جسے تو قبول کر لے

مری بے بسی ہے ظاہر مری آہ بے اثر سے

کبھی موت بھی جو مانگی تو نہ پائی اس کے در سے

جو مراد لے کے آئے وہ دعا کہاں سے لاؤں

جسے تو قبول کر لے

٭٭٭

کس کو خبر تھی

آواز: طلعت محمود

کس کو خبر تھی کس کو یقیں تھا

ایسے بھی دن آئیں گے

جینا بھی مشکل ہو گا

اور مرنے بھی نہ پائیں گے

کس کو خبر تھی۔۔۔

ہم جیسے برباد دلوں کا

جینا کیا اور مرنا کیا

آج تری محفل سے اٹھے

کل دنیا سے اٹھ جائیں گے

کس کو خبر تھی کس کو یقیں تھا

ایسے بھی دن آئیں گے

٭٭٭

فلم: چتر لیکھا

موسیقار: روشن/  خیام

سنسار سے بھاگے پھرتے ہو

آواز:  لتا منگیشکر

موسیقار: خیام

سنسار سے بھاگے پھرتے ہو، بھگوان کو تم کیا پاؤ گے

اس لوک کو بھی اپنا نہ سکے، اس لوک میں بھی پچھتاؤ گے

سنسار سے بھاگے پھرتے ہو

یہ پاپ ہے کیا، یہ پن ہے کیا، ریتوں پر دھرم کی ٹہریں ہیں

ہر یگ میں بدلتے دھرموں کو کیسے آدرش بناؤ گے

سنسار سے بھاگے پھرتے ہو، بھگوان کو تم کیا پاؤ گے

یہ بھوک بھی ایک تپسیا ہے، تم تیاگ کے مرے کیا جانو

اپمان رچیتا کا ہو گا، رچنا کو اگر ٹھکراؤ گے

سنسار سے بھاگے پھرتے ہو، بھگوان کو تم کیا پاؤ گے

ہم کہتے ہیں یہ جگ اپنا ہے، تم کہتے ہو جھوٹا سپنا ہے

ہم جنم بتا کر جائیں گے، تم جنم گنوا کر جاؤ گے

سنسار سے بھاگے پھرتے ہو، بھگوان کو تم کیا پاؤ گے

٭٭٭

من رے۔۔۔

آواز: محمد رفیع

موسیقار: روشن

من رے، تو کاہے نہ دھیر دھیرے

وہ نرموہی موہ نہ جانیں ، جن کا موہ کرے

من رے، تو کاہے نہ دھیر دھرے

اس جیون کی چڑھتی ڈھلتی دھوپ کو کس نے باندھا

رنگ پہ کس نے پہرے ڈالے، روپ کو کس نے باندھا

کاہے یہ جتن کرے

من رے، تو کاہے نہ دھیر دھیرے

اتنا ہی اپکار سمجھ، کوئی جتنا ساتھ نبھا دے

جنم مرن کا میل ہے سپنا، یہ سپنا بسرا دے

کوئی نہ سنگ مرے

من رے، تو کاہے نہ دھیر دھیرے

٭٭٭

فلم: نیا راستہ

موسیقار: این دتا

ایشور، اللہ تیرے نام

آواز: محمد رفیع

ایشور، اللہ تیرے نام

سب کو سّمتی دے بھگوان!

اس دھرتی پر بسنے والے

سب ہیں تیری گود کے پالے

کوئی نیچ نہ کوئی مہان

سب کو سمّتی دے بھگوان

جنم کا کوئی مول نہیں ہے

جنم منش کا تول نہیں ہے

کرم سے ہے سب کی پہچان

سب کو سمّتی دے بھگوان

٭٭٭

میں نے پی شراب

آواز: محمد رفیع

میں نے پی شراب، تم نے کیا پیا؟ آدمی کا خوں

میں ذلیل ہوں

تم کو کیا کہوں

تم پیو تو ٹھیک، ہم پئیں تو پاپ

تو جیو تو پن، ہم جئیں تو پاپ

تم شریف لوگ، تم امیر لوگ

ہم تباہ حال، ہم فقیر لوگ

زندگی بھی روگ، موت بھی عذاب

میں نے پی شراب

تم کہو تو سچ، ہم کہیں تو جھوٹ

تم کو سب معاف، ظلم ہو کہ لوٹ

تم نے کتنے دل چاک کر دیے

کتنے بستے گھر خاک کر دیے

میں نے تو کیا خود کو ہی خراب کیا

میں نے پی شراب

ریت اور رواج سب تمہارے ساتھ

دھرم اور سماج سب تمہارے ساتھ

اپنے ساتھ کیا؟ دھول اور دھواں

آج چاہے تم نوچ لو زباں

آنے والا دور لے گا سب حساب

میں نے پی شراب

تم نے کیا پیا آدمی کا خوں

میں ذلیل ہوں ، تم کو کیا کہوں ؟

٭٭٭

فلم: چاندی کی دیوار

موسیقار: این دتا

یہ دنیا دو رنگی ہے

آواز: محمد رفیع

یہ دنیا دو رنگی ہے

ایک طرف سے ریشم اوڑھے، ایک طرف سے ننگی ہے

ایک طرف اندھی دولت کی پاگل عیش پرستی

ایک طرف جسموں کی قیمت روٹی سے بھی سستی

ایک طرف ہے سونا گاچی، ایک طرف چورنگی ہے

یہ دنیا دو رنگی ہے

آدھے منہ پر نور برستا، آدھے منہ پہ چیرے

آدھے تن پر کوڑھ کے دھبے، آدھے تن پر ہیرے

آدھے گھر میں خوشحالی ہے، آدھے گھر میں تنگی ہے

یہ دنیا دو رنگی ہے

ماتھے اوپر مکٹ سجائے، سر پر ڈھوئے گندا

دائیں ہاتھ سے بھکشا مانگے، بائیں ہاتھ سے دے چندا

ایک طرف بھنڈار چلائے، ایک طرف بھک منگی ہے

یہ دنیا دو رنگی ہے

اک سنگم پر لانی ہو گی، دکھ اور سکھ کی دھارا

نئے سرے سے کرنا ہو گا دولت کا بٹوارا

جب تک اونچ اور نیچ ہے باقی، ہر صورت بے ڈھنگی ہے

یہ دنیا دو رنگی ہے

٭٭٭

اشکوں میں جو پایا ہے

آواز: طلعت محمود

اشکوں میں جو پایا ہے، وہ گیتوں میں دیا ہے

اس پر بھی سنا ہے کہ زمانے کو گلہ ہے

اشکوں میں جو پایا ہے

جو تار سے نکلی ہے وہ دھن سب نے سنی ہے

جو ساز پہ گزری ہے وہ کس دل کو پتا ہے

اشکوں میں جو پایا ہے

ہم پھول ہیں ، اوروں کے لئے لائے ہیں خوشبو

اپنے لئے لے دے کہ بس اک داغ ملا ہے

اشکوں میں جو پایا ہے، وہ گیتوں میں دیا ہے

اس پر بھی سنا ہے کہ زمانے کو گلہ ہے

اشکوں میں جو پایا ہے

٭٭٭

فلم: چندر کانتا

موسیقار: این دتا

میں نے چاند اور ستاروں کی تمنا کی تھی

آواز: محمد رفیع

میں نے چاند اور ستاروں کی تمنا کی تھی

مجھ کو راتوں کی سیاہی کے سوا کچھ بھی نہ ملا

میں نے چاند اور۔۔۔

میں وہ نغمہ ہوں جسے پیار کی محفل نہ ملی

وہ مسافر ہوں جسے کوئی بھی منزل نہ ملی

زخم پائے ہیں ، بہاروں کی تمنا کی تھی

میں نے چاند اور ستاروں کی تمنا کی تھی

کسی گیسو، کسی آنچل کا سہارا بھی نہیں

راستے میں کوئی دھندلا سا ستارہ بھی نہیں

میری نظروں نے نظاروں کی تمنا کی تھی

میں نے چاند اور ستاروں کی تمنا کی تھی

دل میں ناکام امیدوں کے بسیرے پائے

روشنی لینے کو نکلا تو اندھیرے پائے

رنگ اور نور کے دھاروں کی تمنا کی تھی

میں نے چاند اور ستاروں کی تمنا کی تھی

میری راہوں سے جدا ہو گئیں راہیں ان کی

آج بدلی نظر آتی ہیں نگاہیں ان کی

جن سے اس دل نے سہاروں کی تمنا کی تھی

میں نے چاند اور ستاروں کی تمنا کی تھی

پیار مانگا تو سسکتے ہوئے ارمان ملے

چین چاہا تو امڈتے ہوئے طوفان ملے

ڈوبتے دل نے کناروں کی تمنا کی تھی

میں نے چاند اور ستاروں کی تمنا کی تھی

مجھ کو راتوں کی سیاہی کے سوا کچھ بھی نہ ملا

میں نے چاند اور۔۔۔

٭٭٭

فلم: انصاف کا ترازو

موسیقار: رویندر جین

لوگ عورت کو فقط جسم سمجھ لیتے ہیں

آواز: لتا منگیشکر

لوگ عورت کو فقط جسم سمجھ لیتے ہیں

روح بھی ہوتی ہے اس میں ، یہ کہاں سوچتے ہیں

لوگ عورت کو فقط۔۔۔

روح کیا ہوتی ہے، اس سے انہیں مطلب ہی نہیں

وہ تو بس تن کے تقاضوں کا کہا مانتے ہیں

روح مر جائے تو یہ جسم ہے چلتی ہوئی لاش!

اس حقیقت کو سمجھتے ہیں نہ پہچانتے ہیں

لوگ عورت کو فقط۔۔۔

کتنی صدیوں سے یہ وحشت کا چلن جاری ہے

کتنی صدیوں سے ہے قائم یہ گناہوں کا رواج

لوگ عورت کی ہر اک چیخ کو نغمہ سمجھے

وہ قبیلوں کا زمانہ ہو کہ شہروں کا رواج

لوگ عورت کو فقط۔۔۔

جبر سے نسل بڑھے، ظلم سے تن میل کریں

یہ عمل ہم میں ہے، بے علم پرندوں میں نہیں

ہم جو انسانوں کی تہذیب لئے پھرتے ہیں

ہم سا وحشی کوئی جنگل کے درندوں میں نہیں

لوگ عورت کو فقط۔۔۔

اک بجھی روح لٹے جسم کے ڈھانچے میں لئے

سوچتی ہوں میں کہاں جا کے مقدر پھوڑوں

میں نہ زندہ ہوں کہ مرنے کا سہارا ڈھونڈوں

لوگ عورت کو فقط۔۔۔

کون بتلائے گا مجھ کو، کسے جا کر پوچھوں !

زندگی قہر کے سانچوں میں ڈھلے گی کب تک

کب تلک آنکھ نہ کھولے گا زمانے کا ضمیر!

ظلم اور جبر کی یہ ریت چلے گی کب تک

لوگ عورت کو فقط۔۔۔

٭٭٭

فلم: منیم جی

موسیقار: سچن دیو برمن

آ جا چل دیں کہیں دور

آواز: لتا منگیشکر

پھیلی ہوئی ہیں سپنوں کی باہیں

آ جا چل دیں کہیں دور

وہیں میری منزل وہیں تیری راہیں

آ جا چل دیں کہیں دور

اونچے گھاٹ کے سنگ تلے چھپ جائیں

دھندلی فضا میں کچھ کھوئیں کچھ پائیں

دھڑکن کی لے پر کوئی ایسی دھن گائیں

دے دے جو دل کو دل کی پناہیں

آ جا چل دیں کہیں دور ۔۔۔

جھولا دھنک کا دھیرے دھیرے ہم جھولیں

امبر تو کیا ہے تاروں کے بھی لب چھولیں

مستی میں جھولیں اور سارے غم بھولیں

پیچھے نہ دیکھیں مڑ کے نگاہیں

آ جا چل دیں کہیں دور۔۔۔

پھیلی ہوئی ہیں

آ جا چل دیں کہیں دور

٭٭٭

جیون کے سفر میں راہی

آواز: کشور کمار

جیون کے سفر میں راہی

ملتے ہیں بچھڑ جانے کو

اور دے جاتے ہیں یادیں

تنہائی میں تڑپانے کو

او ہو، آ ہا، او ہو، او ہو ، اوہو ہو ہو

یہ روپ کی دولت والے

کب سنتے ہیں دل کے نالے

تقدیر نے بس میں ڈالے

ان کے کسی دیوانے کو

جیون کے سفر میں راہی

ملتے ہیں بچھڑ جانے کو

او ہو، آ ہا، او ہو، او ہو ، اوہو ہو ہو

جو ان کی نظر سے کھیلے

دکھ پائے، مصیبت جھیلے

پھرتے ہیں یہ سب البیلے

دل لے کے مکر جانے کو

جیون کے سفر میں راہی

ملتے ہیں بچھڑ جانے کو

او ہو، آ ہا، او ہو، او ہو ، اوہو ہو ہو

دل لے کے دغا دیتے ہیں

اک روگ لگا دیتے ہیں

ہنس ہنس کے جاں دیتے ہیں

یہ حسن کے پروانے کو

جیون کے سفر میں راہی

ملتے ہیں بچھڑ جانے کو

او ہو، آ ہا، او ہو، او ہو ، اوہو ہو ہو

٭٭٭

فلم: دھول کا پھول

موسیقار: این دتا

دامن میں داغ لگا بیٹھے

آواز: محمد رفیع

دامن میں داغ لگا بیٹھے

ہم پیار میں دھوکا کھا بیٹھے

ہائے، ہو۔۔۔ ہائے

چھوٹی سی بھول جوانی کی

جو تم کو یاد نہ آئے گی

اس بھول کے طعنے دے دے کر

دنیا ہم کو تڑپائے گی

اٹھتے ہی نظر جھک جائے گی

آج ایسی ٹھوکر کھا بیٹھے

دامن میں داغ لگا بیٹھے

ہائے، ہو۔۔۔ ہائے

چاہت کے لئے جو رسموں کو

خود ساتھ ہی جینے والے تھے

جو ساتھ ہی مرنے والے تھے

طوفاں کے حوالے کر کے ہمیں

خود دور کنارے جا بیٹھے

دامن میں داغ لگا بیٹھے

ہائے، ہو۔۔۔ ہائے

لو آج مری مجبور وفا

بدنام کہانی بننے لگی

جو پریم نشانی پائی تھی

وہ پاپ نشانی بننے لگی

دکھ دے کے مجھے جیون بھر کا

وہ سکھ کی سیج سجا بیٹھے

دامن میں داغ لگا بیٹھے

ہم پیار میں دھوکا کھا بیٹھے

ہائے، ہو۔۔۔ ہائے

٭٭٭

ترے پیار کا آسرا چاہتا ہوں

آواز: مہیندر کپور، لتا منگیشکر

مہندر کپور:

ترے پیار کا آسرا چاہتا ہوں

وفا کر رہا ہوں، وفا چاہتا ہوں

لتا:

حسینوں سے عہد وفا چاہتے ہو

بڑے ناسمجھ ہو یہ کیا چاہتے ہو

مہندر کپور:

ترے نرم بالوں میں تارے سجا کے

ترے شوخ قدموں میں کلیاں بچھا کے

محبت کا چھوٹا سا مندر بنا کے

محبت کا چھوٹا سا مندر بنا کے

تجھے رات دن پوجنا چاہتا ہوں

وفا کر رہا ہوں، وفا چاہتا ہوں

ترے پیار کا

لتا:

ذرا سوچ لو دل لگانے سے پہلے

کہ کھونا بھی پڑتا ہے پانے کے پہلے

اجازت تو لے لو زمانہ سے پہلے

کہ تم حسن کو پوجنا چاہتے ہو

بڑے  نا سمجھ ہو، یہ کیا چاہتے ہو

بڑے  نا سمجھ ہو

مہندر کپور:

کہاں تک جئیں تیری الفت کے مارے

گزرتی نہیں زندگی بن سہارے

بہت ہو چکے دور رہ کر اشارے

بہت ہو چکے دور رہ کر اشارے

تجھے پاس سے دیکھنا چاہتا ہوں

وفا کر رہا ہوں، وفا چاہتا ہوں

ترے پیار کا

لتا:

محبت کی دشمن ہے ساری خدائی

محبت کی تقدیر میں ہے جدائی

جو سنتے نہیں ہیں دلوں کی دہائی

انہیں سے مجھے مانگنا چاہتے ہو

بڑے  نا سمجھ ہو، یہ کیا چاہتے ہو

بڑے  نا سمجھ ہو

مہندر کپور:

دوپٹے کے کونے کو منہ میں دبا کے

ذرا دیکھ لو اس طرف مسکرا کے

مجھے لوٹ لو میرے نزدیک آ کے

کہ میں موت سے کھیلنا چاہتا ہوں

وفا کر رہا ہوں، وفا چاہتا ہوں

ترے پیار کا

لتا:

غلط سارے وعدے، غلط ساری قسمیں

نبھیں گی یہاں کیسے الفت کی رسمیں

یہاں زندگی ہے رواجوں کے بس میں

رواجوں کو تم توڑنا چاہتے ہو

بڑے  نا سمجھ ہو، یہ کیا چاہتے ہو

بڑے  نا سمجھ ہو

مہندر کپور:

رواجوں کی پرواہ نہ رسموں کا ڈر ہے

تری آنکھ کے فیصلے پر نظر ہے

بلا سے اگر راستا پر خطر ہے

میں اس ہاتھ کو تھامنا چاہتا ہوں

وفا کر رہا ہوں، وفا چاہتا ہوں

ترے پیار کا آسرا چاہتا ہوں

وفا کر رہا ہوں، وفا چاہتا ہوں

ترے پیار کا۔۔۔

٭٭٭

فلم: نوجواں

موسیقار: سچن دیو برمن

ٹھنڈی ہوائیں

آواز: لتا منگیشکر

ٹھنڈی ہوائیں لہرا کے آئیں

رت ہے جواں ، تم کو یہاں کیسے بلائیں

ٹھنڈی ہوائیں

چاند اور تارے ہنستے نظارے

مل کے سبھی دل میں سکھی جادو جگائیں

ٹھنڈی ہوائیں لہرا کے آئیں

ٹھنڈی ہوائیں

کہا بھی نہ جائے، رہا بھی نہ جائے

تم سےاگر ملے بھی نظر ہم چھپ جائیں

ٹھنڈی ہوائیں لہرا کے آئیں

رت ہے جواں ، تم کو یہاں کیسے بلائیں

ٹھنڈی ہوائیں

٭٭٭

فلم: بہو بیگم

موسیقار: روشن

خدا کرے کہ قیامت ہو اور تو آئے

آواز: آشا بھونسلے

ہم انتظار کریں گے ترا قیامت تک

خدا کرے کہ قیامت ہو اور تو آئے

خدا کرے کہ قیامت ہو اور تو آئے

یہ انتظار بھی اک امتحان ہوتا ہے

اسی سے عشق کا شعلہ جوان ہوتا ہے

بچھائے شوق کے سجدے وفا کی راہوں میں

کھڑے ہیں دید کی حسرت لئے نگاہوں میں

قبول دل کی عبادت ہو اور تو آئے

خدا کرے کہ قیامت ہو اور تو آئے

وہ خوش نصیب جس کو تو انتخاب کرے

خدا ہماری محبت کو کامیاب کرے

جواں ستارۂ قسمت ہو اور تو آئے

خدا کرے کہ قیامت ہو اور تو آئے

٭٭٭

فلم: سونے کی چڑیا

موسیقار: او پی نیر

رات بھر کا ہے مہماں اندھیرا

آواز: محمد رفیع، آشا بھوسلے

رات بھر کا ہے مہماں اندھیرا

کس کے روکے رکا ہے سویرا

رات جتنی بھی سنگین ہو گی

صبح اتنی ہی رنگین ہو گی

غم نہ کر، گر ہے بادل گھنیرا

کس کے روکے رکا ہے سویرا

لب پہ شکوہ نہ لا، اشک پی لے

جس طرح بھی ہو کچھ دیر جی لے

اب اکھڑنے کو ہے غم کا ڈیرا

کس کے روکے رکا ہے سویرا

یوں ہی دنیا میں آ کر نہ جانا

صرف آنسو بہا کر نہ جانا

مسکراہٹ پہ بھی حق ہے تیرا

کس کے روکے رکا ہے سویرا

٭٭٭

یار پر بس تو نہیں ہے

آوازیں: طلعت محمود،  آشا بھوسلے

پیار پر بس تو نہیں ہے مرا، لیکن پھر بھی

تو بتا دے کہ تجھے پیار کروں یا نہ کروں

پیار پر بس تو نہیں ہے

میرے خوابوں کے جھروکوں کو سجانے والی

تیرے خوابوں میں کہیں میرا گزر ہے کہ نہیں

پوچھ کر اپنی نگاہوں سے بتا دے مجھ کو

میری راتوں کے مقدر میں سحر ہے کہ نہیں

پیار پر بس تو نہیں ہے ۔۔۔

کہیں ایسا نہ ہو پاؤں میرے تھرا جائیں

اور تری مرمریں باہوں کا سہارا نہ ملے

اشک بہتے رہیں خاموش سیہ راتوں میں

اور ترے ریشمی آنچل کا کنارا نہ ملے

پیار پر بس تو نہیں ہے

٭٭٭

فلم: بابر

موسیقار: روشن

سلامِ حسرت قبول کر لو

سدھا ملہوترا

سلامِ حسرت قبول کر لو

مری محبت قبول کر لو

سلامِ حسرت قبول کر لو

اداس نظریں تڑپ تڑپ کر تمہارے جلووں کو ڈھونڈتی ہیں

جو خواب کی طرح کھو گئے، ان حسین لمحوں کو ڈھونڈتی ہیں

اگر نہ ہو ناگوار تم کو، تو یہ شکایت قبول کر لو!

سلامِ حسرت قبول کر لو

تمہی نگاہوں کی آرزو ہو، تمہی خیالوں کا مدعا ہو

تمہی مرے واسطے صنم ہو، تمہی مرے واسطے خدا ہو

مری پرستش کی لاج رکھ لو، مری عبادت قبول کر لو

سلامِ حسرت قبول کر لو

تمہاری جھکتی نظر سے جب تک نہ کوئی پیغام مل سکے گا

نہ روح تسکیں پا سکے گی، نہ دل کو آرام مل سکے گا

غمِ جدائی ہے جان لیوا، یہ اک حقیقت قبول کر لو

سلامِ حسرت قبول کر لو

٭٭٭

فلم: واسنا

موسیقار: چتر گپت

یہ پربتوں کے دائرے

آوازیں: محمد رفیع، لتا منگیشکر

یہ پربتوں کے دائرے، یہ شام کا دھواں

ایسے میں کیوں نہ چھیڑ دیں دلوں کی داستاں

ذرا سی زلف کھول دو

خزاں میں عطر گھول دو

نظر جو کہہ چکی ہے وہ

بات منہ سے بول دو

کہ جھول اٹھے نگاہ میں بہاروں کا سماں

یہ پربتوں کے دائرے، یہ شام کا دھواں

یہ چپ بھی اک سوال ہے

عجیب دل کا حال ہے

یہ اک خیال کھو گیا

بس اب یہی خیال ہے

یہ رنگ روپ، یہ پون!

چمکتے چاند کا بدن

برا نہ مانو تم اگر!

تو چوم لوں کرن کرن

کہ آج حوصلوں میں ہیں بلا کی گرمیاں !

یہ پربتوں کے دائرے، یہ شام کا دھواں

٭٭٭

فلم: ٹیکسی ڈرائیور

موسیقار: سچن دیو برمن

جائیں تو جائیں کہاں

آواز: طلعت محمود

جائیں تو جائیں کہاں

سمجھے گا کون یہاں ، درد بھرے دل کی زباں

جائیں تو جائیں کہاں

مایوسیوں کا مجمع ہے جی میں

کیا رہ گیا ہے اِس زندگی میں

رُوح میں غم، دل میں دھُواں

جائیں تو جائیں کہاں

اُن کا بھی غم ہے اپنا بھی غم ہے

اب دل کے بچنے کی اُمّید کم ہے

ایک کشتی سو طوفاں

جائیں تو جائیں کہاں

٭٭٭

فلم: جال

موسیقار: سچن دیو برمن

یہ رات یہ چاندنی پھر کہاں

آواز: ہیمنت کمار

یہ رات یہ چاندنی پھر کہاں

سن جا دل کی داستاں

سن جا دل کی داستاں

پیڑوں کی شاخوں پہ سوئی سوئی چاندنی

تیرے خیالوں میں کھوئی کھوئی چاندنی

اور تھوڑی دیر میں تھک کے لوٹ جائے گی

رات یہ بہار کی پھر کبھی نہ آئے گی

دو ایک پل اور ہے یہ سماں

سن جا دل کی داستاں

سن جا دل کی داستاں

لہروں کے ہونٹوں پہ دھیما دھیما راگ ہے

بھیگی ہواؤں میں ٹھنڈی ٹھنڈی آگ ہے

اس حسیں آگ میں تو بھی جل کے دیکھ لے

زندگی کے گیت کی دھن بدل کے دیکھ لے

کھلنے دے اب دھڑکنوں کی زباں

سن جا دل کی داستاں

سن جا دل کی داستاں

جاتی بہاریں ہیں اٹھتی جوانیاں

تاروں کی چھاؤں میں کہہ لے کہانیاں

اک بار چل دئے گر تجھے پکار کے

لوٹ کر نہ آئیں گے قافلے بہار کے

آ جا ابھی زندگی ہے جواں

سن جا دل کی داستاں

سن جا دل کی داستاں

٭٭٭

فلم: فنٹوش

موسیقار: سچن دیو برمن

دکھی من میرے سن میرا کہنا

آواز: کشور کمار

دکھی من میرے سن میرا کہنا

جہاں نہیں چینا وہاں نہیں رہنا

دکھی من میرے

درد ہمارا کوئی نہ جانے

اپنی غرض کے سب ہیں دیوانے

کس کے آگے رونا روئے

دیس پرایا لوگ بیگانے

دکھی من میرے سن میرا کہنا

جہاں نہیں چینا وہاں نہیں رہنا

دکھی من میرے

لاکھ یہاں جھولی پھیلا لے

کچھ نہیں دیں گے یہ جگ والے

پتھر کے دل موم نہ ہوں گے

چاہے جتنا نیر بہا لے

دکھی من میرے سن میرا کہنا

جہاں نہیں چینا وہاں نہیں رہنا

دکھی من میرے

اپنے لیے کب ہیں یہ میلے

ہم ہیں ہر ایک میلے میں اکیلے

کیا پائے گا اس میں رہ کر

جو دنیا جیون سے کھیلے

دکھی من میرے سن میرا کہنا

جہاں نہیں چینا وہاں نہیں رہنا

دکھی من میرے

٭٭٭

فلم: آنکھیں

موسیقار: روی

غیروں پہ کرم اپنوں پہ ستم

آواز: لتا منگیشکر

غیروں پہ کرم اپنوں پہ ستم

اے جانِ وفا یہ ظلم نہ کر

رہنے دے ابھی تھوڑا سا بھرم

اے جانِ وفا یہ ظلم نہ کر

یہ ظلم نہ کر

ہم چاہنے والے ہیں تیرے

یوں ہم کو جلانا ٹھیک نہیں

محفل میں تماشا بن جائیں

اس طرح جلانا ٹھیک نہیں

مر جائیں گے ہم، مٹ جائیں گے ہم

اے جانِ وفا یہ ظلم نہ کر

یہ ظلم نہ کر

ہم بھی ہیں ترے منظورِ نظر

دل چاہے تو اب انکار نہ کر

سو تیر چلا سینے پہ مگر!

بیگانوں سے مل کے وار نہ کر

تجھ کو ترے بے دردی کی قسم

اے جانِ وفا یہ ظلم نہ کر!

یہ ظلم نہ کر

٭٭٭

ملتی ہے زندگی میں محبت کبھی کبھی

آواز: لتا منگیشکر

ملتی ہے زندگی میں محبت کبھی کبھی

ہوتی ہے دلبروں کی عنایت کبھی کبھی

ملتی ہے زندگی میں

شرما کے منہ نہ پھیر نظر کے سوال پر

شرما کے منہ نہ پھیر نظر کے سوال پر

لاتی ہے ایسے موڑ پہ قسمت کبھی کبھی

لاتی ہے ایسے موڑ پہ قسمت کبھی کبھی

ملتی ہے زندگی میں

کھلتے نہیں ہیں روز دریچے بہار کے

کھلتے نہیں ہیں روز دریچے بہار کے

آتی ہے جان من یہ قیامت کبھی کبھی

آتی ہے جان من یہ قیامت کبھی کبھی

ملتی ہے زندگی میں

تنہا نہ کٹ سکیں گے جوانی کے راستے

تنہا نہ کٹ سکیں گے جوانی کے راستے

پیش آئے گی کسی کی ضرورت کبھی کبھی

پیش آئے گی کسی کی ضرورت کبھی کبھی

ملتی ہے زندگی میں

پھر کھو نہ جائیں ہم کہیں دنیا کی بھیڑ میں

پھر کھو نہ جائیں ہم کہیں دنیا کی بھیڑ میں

ملتی ہے پاس آنے کی مہلت کبھی کبھی

ملتی ہے پاس آنے کی مہلت کبھی کبھی

ملتی ہے زندگی میں محبت کبھی کبھی

٭٭٭

فلم: چار دل چار راہیں

موسیقار: انل بشواس

انتظار اور ابھی اور ابھی اور ابھی

آواز: لتا منگیشکر

میں یہ کہتی ہوں کہ کس روز حضور آئیں گے

دل یہ کہتا ہے کہ اک دن وہ ضرور آئیں گے

انتظار اور ابھی اور ابھی اور ابھی

انتظار اور ابھی اور ابھی اور ابھی

انتظار اور

سانس کی لالی سلگ سلگ کر بن گئی کالی دھول

آئے نہ بالم بے دردی میں چنتی رہ گئی دھول

انتظار اور ابھی اور ابھی اور ابھی

انتظار اور ابھی اور ابھی اور ابھی

انتظار اور

رین گئی بوجھل اکھین میں چبھنے لاگے تارے

دیس میں میں پردیسن ہو گئی جب سے پیا سدھارے

انتظار اور ابھی اور ابھی اور ابھی

انتظار اور ابھی اور ابھی اور ابھی

انتظار اور

بھور بھئی پر کوئی نہ آیا سونی سیج سجانے

تارے ڈوبے دیپک بجھ گئے راکھ ہوئے پروانے

انتظار اور ابھی اور ابھی اور ابھی

انتظار اور ابھی اور ابھی اور ابھی

انتظار اور

٭٭٭

کوئی مانے نہ مانے

آواز: لتا منگیشکر

کوئی مانے نہ مانے

کوئی مانے نہ مانے، مگر، جانِ من

کچھ تمہیں چاہئیے کچھ ہمیں چاہئیے

کچھ تمہیں چاہئیے کچھ ہمیں چاہئیے

کوئی مانے نہ مانے مگر جانِ من

کچھ تمہیں چاہئیے کچھ ہمیں چاہئیے

کچھ تمہیں چاہئیے

تم کو – نغموں کی انگڑائیاں چاہئیے

ہم کو سکوں کی پرچھائیاں چاہئیے

ہم کو سکوں کی پرچھائیاں چاہئیے

تم کو راتیں بتانے کا فن چاہئیے

ہم کو دن کاٹنے کا جتن چاہئیے

تم کو تن چاہئیے – ہم کو جاں چاہئیے

کچھ نہ کچھ سب کو اے مہرباں چاہئیے

کچھ نہ کچھ سب کو اے مہرباں چاہئیے

کوئی مانے ۔۔۔ ۔

کوئی دل کوئی چاہت سے مجبور ہے

جو بھی ہے وہ ضرورت سے مجبور ہے

کوئی مانے نہ مانے مگر جانِ من ۔۔ ۔

چھپتے سب سے ہو کیوں،  سامنے آؤ جی

ہم تمہارے ہیں ہم سے نہ شرماؤ جی

ہم تمہارے ہیں ہم سے نہ شرماؤ جی

یہ نہ سمجھو کہ ہم کو خبر کچھ نہیں

یہ نہ سمجھو

سب ادھر ہی ادھر ہے ادھر کچھ نہیں

یہ نہ سمجھو

تم بھی بے چین ہو، ہم بھی بیتاب ہیں

جب سے آنکھیں ملیں دونوں بے خواب ہیں

جب سے آنکھیں ملیں دونوں بے خواب ہیں

کوئی مانے نہ مانے ۔۔ ۔

عشق اور مشک چھپتے نہیں ہیں کبھی

اس حقیقت سے واقف ہیں ہم تم سبھی

کہ

اپنے دل کی لگی کو چھپاتے ہو کیوں

اپنے دل کی لگی کو چھپاتے ہو کیوں

یہ محبت کی گھڑیاں گنواتے ہو کیوں

یہ محبت کی گھڑیاں گنواتے ہو کیوں

پیاس بجھتی نہیں ہے نظارے بنا

عمر کٹتی نہیں ہے سہارے بنا

عمر کٹتی نہیں ہے سہارے بنا

کوئی مانے نہ مانے ۔۔ ۔

٭٭٭

فلم: جورو کا بھائی

موسیقار: جے دیو

صبح کا انتظار کون کرے

آواز: لتا منگیشکر، طلعت محمود

سرمئی رات ہے ستارے ہیں

آج دونوں جہاں ہمارے ہیں

صبح کا انتظار کون کرے

پھر یہ رت یہ سماں ملے نہ ملے

آرزو کا چمن کھلے نہ کھلے

وقت کا اعتبار کون کرے

صبح کا انتظار کون کرے

لے بھی لو ہم کو اپنی بانہوں میں

روح بے چین ہے نگاہوں میں

التجا بار بار کون کرے

صبح کا انتظار کون کرے

٭٭٭

فلم: بہو رانی

موسیقار: سی رام چندر

سجن تم سو جاؤ

آواز: لتا منگیشکر

میں جاگوں ساری رین سجن تم سو جاؤ

گیتوں میں چھپا لوں بین سجن تم سو جاؤ

آج نہیں وہ رین سجن تم سو جاؤ

شام ڈھلے سے بھور بھئے تک جاگ کے جب کٹتی ہے گھڑیاں

مدھر ملن کی اوس میں بس کر کھلتی ہیں جب جیون کی کلیاں

آج نہیں وہ رین سجن تم سو جاؤ

پھیکی پڑ گئی چاند کی جیوتی دھندلے پڑ گئے دیپ گگن کے

سو گئیں سندر سیج کی کلیاں سو گئے کھلتے بھاگ دلہن کے

کھل کر رولیں نین سجن تم سو جاؤ

جاگ کے تن کی اگنی سو گئی بڑھ کے تھم گئی من کی ہلچل

اپنا گھونگھٹ آپ الٹ کر کھول دی میں پاؤں کی پائل

اب ہے چین ہی چین سجن تم سو جاؤ

٭٭٭

فلم: ریلوے پلیٹ فارم

موسیقار: مدن موہن

بستی بستی  پربت پربت

آواز: محمد رفیع

بستی بستی پربت پربت گاتا جائے بنجارا

لے کر دل کا اک تارا

پل دو پل کا ساتھ ہمارا پل دو پل کی یاری

آج رکے تو کل کرنی ہے چلنے کی تیاری

قدم قدم پر ہونی بیٹھی اپنا جال بچھائے

بستی بستی پربت پربت گاتا جائے بنجارا

لے کر دل کا اک تارا

اس جیون کی راہ میں جانے کون کہاں رہ جائے

دھن دولت کے پیچھے کیوں ہے یہ دنیا دیوانی

یہاں کی دولت یہیں رہے گی ساتھ نہیں یہ جانی

بستی بستی پربت پربت گاتا جائے بنجارا

لے کر دل کا اک تارا

سونے چاندی میں تلتا ہو جہاں دلوں کا پیار

آنسو بھی بیکار وہاں پر آہیں بھی بیکار

بستی بستی پربت پربت گاتا جائے بنجارا

لے کر دل کا اک تارا

دنیا کے بازار میں آخر چاہت بھی بیوپار بنی

میرے دل سے ان کے دل تک چاندی کی دیوار بنی

بستی بستی پربت پربت گاتا جائے بنجارا

لے کر دل کا اک تارا

ہم جیسوں کے بھاگ میں لکھا چاہت کا وردان نہیں

جس نے ہم کو جنم دیا وہ پتھر ہے بھگوان نہیں

بستی بستی پربت پربت گاتا جائے بنجارہ

لے کر دل کا اک تارا

٭٭٭

چاند مدھم ہے آسماں چپ ہے

آواز: لتا منگیشکر

چاند مدھم ہے آسماں چپ ہے

نیند کی گود میں جہاں چپ ہے

چاند مدھم ہے

دور وادی میں دودھیا بادل

جھک کے پربت کو پیار کرتے ہیں

دل میں ناکام حسرتیں لے کر

ہم ترا انتظار کرتے ہیں

ان بہاروں کے سائے میں آ جا

پھر محبت جواں رہے نہ رہے

زندگی تیرے نامرادوں پر

کل تلک مہرباں رہے نہ رہے!

روز کی طرح آج بھی تارے

صبح کی گرد میں نہ کھو جائیں

آ ترے غم میں جاگتی آنکھیں

کم سے کم ایک رات سو جائیں

چاند مدھم ہے آسماں چپ ہے

نیند کی گود میں جہاں چپ ہے

چاند مدھم ہے

٭٭٭

فلم: دوج کا چاند

موسیقار: روشن

میرے ساتھی خالی جام

آواز: محمد رفیع

محفل سے اٹھ جانے والو تم لوگوں پر کیا الزام

تم آباد گھروں کے باسی میں آوارہ اور بدنام

میرے ساتھی خالی جام

میرے ساتھی خالی جام

دو دن تم نے پیار جتایا دو دن تم سے میل رہا

اچھا خاصا وقت کٹا اور اچھا خاصا کھیل رہا

اب اس کھیل کا ذکر ہی کیا کہ وقت کٹا اور کھیل تمام

میرے ساتھی خالی جام

میرے ساتھی خالی جام

تم نے ڈھونڈی سکھ کی دولت میں نے پالا غم کا روگ

کیسے بنتا کیسے نبھتا یہ رشتہ اور یہ سنجوگ

میں نے دل کو دل سے تولا تم نے مانگے پیار کے دام

میرے ساتھی خالی جام

میرے ساتھی خالی جام

تم دنیا کو بہتر سمجھے میں پاگل تھا خوار ہوا

تم کو اپنانے نکلا تھا خود سے بھی بیزار ہوا

دیکھ لیا گھر پھونک تماشا جان لیا میں نے انجام

میرے ساتھی خالی جام

میرے ساتھی خالی جام

٭‎٭٭

فلم : ایک محل ہو سپنوں کا

موسیقار: روی

دیکھا ہے زندگی کو۔۔۔

کشور کمار

دیکھا ہے زندگی کو کچھ اتنا قریب سے

چہرے تمام لگنے لگے ہیں عجیب سے

دیکھا ہے زندگی کو

کہنے کو دل کی بات جنہیں ڈھونڈتے تھے ہم

محفل میں آ گئے ہیں وہ اپنے نصیب سے

دیکھا ہے زندگی کو

نیلام ہو رہا تھا کسی نازنیں کا پیار

قیمت نہیں چکائی گئی اک غریب سے

دیکھا ہے زندگی کو

تیری وفا کی لاش پہ لا میں ہی ڈال دوں

ریشم کا یہ کفن جو ملا ہے رقیب سے

دیکھا ہے زندگی کو کچھ اتنا قریب سے

چہرے تمام لگنے لگے ہیں عجیب سے

٭٭٭

فلم : بہو بیٹی

موسیقار: روی

سب میں شامل ہو مگر سب سے جدا لگتی ہو

آواز: محمد رفیع

سب میں شامل ہو مگر سب سے جدا لگتی ہو

صرف ہم سے نہیں خود سے بھی جدا لگتی ہو

سب میں شامل ہو

آنکھ اٹھتی ہے نہ جھکتی ہے کسی کی خاطر

سانس چڑھتی ہے نہ رکتی ہے کسی کی خاطر

جو کسی در پہ نہ ٹھہرے وہ ہوا لگتی ہو

سب میں شامل ہو

زلف لہرائے تو آنچل میں چھپا لیتی ہو

ہونٹ تھرائے تو دانتوں میں دبا لیتی ہو

جو کبھی کھل کے نہ برسے وہ گھٹا لگتی ہو

سب میں شامل ہو

جاگی جاگی نظر آتی ہو نہ سوئی سوئی

تم جو ہو اپنے خیالات میں کھوئی ہوئی

کسی مایوس مصور کی دعا لگتی ہو

سب میں شامل ہو

٭٭٭

جیو تو ایسے جیو جیسے سب تمہارا ہے

آواز: محمد رفیع

جیو تو ایسے جیو جیسے سب تمہارا ہے

مرو تو ایسے کہ جیسے تمہارا کچھ بھی نہیں !

جیو تو ایسے جیو جیسے سب تمہارا ہے

یہ ایک راز کہ دنیا نہ جس کو جان سکی

یہی وہ راز ہے جو زندگی کا حاصل ہے

تمہی کہو! تمہیں یہ بات کیسے سمجھاؤں

کہ زندگی کی گھٹن زندگی کی قاتل ہے

ہر اک نگاہ کو قدرت کا یہ اشارہ ہے

جیو تو ایسے جیو جیسے سب تمہارا ہے

جہاں میں آ کے جہاں سے کھنچے کھنچے نہ رہو

وہ زندگی ہی نہیں جس میں آس بجھ جائے

کوئی بھی پیاس دبائے سے دب نہیں سکتی

اسی سے چین ملے گا کہ پیاس بجھ جائے

یہ کہہ کے مڑتا ہوا زندگی کا دھارا ہے!

جیو تو ایسے جیو جیسے سب تمہارا ہے

یہ آسماں پہ زمیں ، یہ فضا یہ نظارے

ترس رہے ہیں تمہاری مری نظر کے لئے

نظر چرا کے ہر اک شے کو یوں نہ ٹھکراؤ

کوئی شریکِ سفر ڈھونڈ لو سفر کے لئے

بہت قریب سے میں نے تمہیں پکارا ہے!

جیو تو ایسے جیو جیسے سب تمہارا ہے

٭٭٭

ہاؤس نمبر 44

موسیقار: سچن دیو برمن

تری دنیا میں جینے سے تو بہتر ہے کہ مر جائیں

آواز: ہیمنت کمار

تری دنیا میں جینے سے تو بہتر ہے کہ مر جائیں

وہی آنسو، وہی آہیں ، وہی غم ہے جدھر جائیں

تری دنیا میں جینے سے تو بہتر ہے کہ مر جائیں

کوئی تو ایسا گھر ہوتا جہاں سے پیار مل جاتا

وہی بیگانے چہرے ہیں ، جہاں جائیں جدھر جائیں

تری دنیا میں جینے سے تو بہتر ہے کہ مر جائیں

ارے او آسماں والے بتا اس میں برا کیا ہے

خوشی کے چار جھونکے گر ادھر سے بھی گزر جائیں !

تری دنیا میں جینے سے تو بہتر ہے کہ مر جائیں

٭٭٭

پھیلی ہوئی ہیں سپنوں کی باہیں

آواز: لتا منگیشکر

پھیلی ہوئیں ہیں سپنوں کی باہیں

آ جا چل دیں کہیں دور

وہیں میری منزل وہیں تیری راہیں

آ جا چل دیں کہیں دور

اونچے گھاٹ کے سنگ تلے چھپ جائیں

دھندلی فضا میں کچھ کھوئیں کچھ پائیں

دھڑکن کی لے پر کوئی ایسی دھن گائیں

دے دے جو دل کو دل کی پناہیں

آ جا چل دیں کہیں دور ۔۔۔

جھولا دھنک کا دھیرے دھیرے ہم جھولیں

امبر تو کیا ہے تاروں کے بھی لب چھولیں

مستی میں جھولیں اور سارے غم بھولیں

پیچھے نا دیکھیں مڑ کے نگاہیں

آ جا چل دیں کہیں دور ۔۔ ۔

پھیلی ہوئی ہیں ۔۔ ۔

٭٭٭

فلم: نیل کمل

موسیقار: روی

بابل کی دعائیں لیتی جا

آواز: رفیع

بابل کی دعائیں لیتی جا ، جا تجھ کو سکھی سنسار ملے

میکے کی کبھی نہ یاد آئے سسرال میں اتنا پیار ملے

بابل کی دعائیں ۔۔۔

نازوں سے تجھے پالا میں نے کلیوں کی طرح پھولوں کی طرح

بچپن میں جھلایا ہے تجھ کو بانہوں نے میری جھولوں کی طرح

میرے باغ کی اے نازک ڈالی ، تجھے ہر پل نئی بہار ملے

بابل کی دعائیں ۔۔۔

جس گھر میں بندھے ہیں بھاگ تیرے اُس گھر میں سدا تیرا راج رہے

ہونٹوں پہ ہنسی کی دھوپ کھلے ، ماتھے پہ خوشی کا تاج رہے

کبھی جس کی جوت نہ ہو پھیکی تجھے ایسا روپ سنگھار ملے

بابل کی دعائیں ۔۔۔

بیتیں تیرے جیون کی گھڑیاں آرام کی ٹھنڈی چھاؤں میں

کانٹا بھی نہ چبھنے پائے کبھی ، میری لاڈلی تیرے پاؤں میں

اُس دوار سے بھی دکھ دور رہیں جس دوار سے تیرا دوار ملے

بابل کی دعائیں ۔۔۔​

٭٭٭

فلم: میرین ڈرائیو

موسیقار: این دتا

میں نشے میں ہوں

آواز: محمد رفیع

اب وہ کرم کریں کہ ستم میں نشے میں ہوں

مجھ کو نہ کوئی ہوش نہ غم میں نشے میں ہوں

سینے سے بوجھ ان کے غموں کا اتار کے

آیا ہوں آج اپنی جوانی کو ہار کے

کہتے ہیں ڈگمگاتے قدم میں نشے میں ہوں

اب وہ کرم کریں کہ ستم میں نشے میں ہوں

وہ بے وفا ہے اب بھی یہ دل مانتا نہیں

کمبخت نا سمجھ ہے انہیں جانتا نہیں

میں آج توڑ دوں گا بھرم میں نشے میں ہوں

اب وہ کرم کریں کہ ستم میں نشے میں ہوں

فرصت نہیں ہے رونے رلانے کے واسطے

آئے نہ ان کی یاد ستانے کے واسطے

اس وقت دل میں درد ہے کم میں نشے میں ہوں

اب وہ کرم کریں کہ ستم میں نشے میں ہوں

٭٭٭

فلم: عزّت

موسیقار: لکشمی کانت پیارے لال

نقلی چہرہ سامنے آئے، اصلی صورت چھپی رہے

آواز: محمد رفیع

کیا ملیے ایسے لوگوں سے، جن کی فطرت چھپی رہے

نقلی چہرہ سامنے آئے، اصلی صورت چھپی رہے

نقلی چہرہ سامنے آئے، اصلی صورت چھپی رہے

خود سے بھی جو خود کو چھپائیں ، کیا ان سے پہچان کریں

کیا ان کے دامن سے لپٹیں ، کیا ان کا ارمان کریں

جن کی آدھی نیت ابھرے، آدھی نیت چھپی رہے

نقلی چہرہ سامنے آئے، اصلی صورت چھپی رہے

نقلی چہرہ سامنے آئے، اصلی صورت چھپی رہے

جن کے ظلم سے دکھی ہے جنتا، ہر بستی ہر گاؤں میں

دیا دھرم کی بات کریں وہ بیٹھ کے سجی سبھاؤں میں

دان کا چرچا گھر گھر پہنچے، لوٹ کی دولت چھپی رہے

نقلی چہرہ سامنے آئے، اصلی صورت چھپی رہے

نقلی چہرہ سامنے آئے، اصلی صورت چھپی رہے

دیکھیں نقلی چہروں کی کب تک جے جے کار چلے

اجلے کپڑوں کی تہہ میں کب تک کالا سنسار چلے

کب تک لوگوں کی نظروں سے چھپی حقیقت چھپی رہے

نقلی چہرہ سامنے آئے، اصلی صورت چھپی رہے

نقلی چہرہ سامنے آئے، اصلی صورت چھپی رہے

٭٭٭

فلم: داستان

موسیقار: لکشمی کانت، پیارے لال

نہ تو زمیں کے لئے ہے نہ آسماں کے لئے

آواز: محمد رفیع

نہ تو زمیں کے لئے ہے نہ آسماں کے لئے

نہ تو زمیں کے لئے ہے نہ آسماں کے لئے

ترا وجود ہے اب صرف داستاں کے لئے

نہ تو زمیں کے لئے ہے نہ آسماں کے لئے

پلٹ کے سوئے چمن دیکھنے سے کیا ہو گا

وہ شاخ ہی نہ رہی، جو تھی آشیاں کے لئے

نہ تو زمیں کے لئے ہے نہ آسماں کے لئے

غرض پرست جہاں میں وفا تلاش نہ کر

یہ شے بنی تھی کسی دوسرے جہاں کے لئے

نہ تو زمیں کے لئے ہے نہ آسماں کے لئے

٭٭٭

 

فلم: گرل فرینڈ

موسیقار: ہیمنت کمار

کشتی کا خاموش سفر ہے

آوازیں: کشور کمار، سدھا ملہوترا

کشور :

کشتی کا خاموش سفر ہے، شام بھی ہے تنہائی بھی

دور کنارے پہ بجتی ہے، لہروں کی شہنائی بھی

آج مجھے کچھ کہنا ہے

لیکن یہ شرمیلی نگاہیں ، مجھ کو اجازت دیں تو کہوں

خود میری بے تاب امنگیں تھوڑی فرصت دیں تو کہوں

آج مجھے کچھ کہنا ہے

سدھا:

جو کچھ تم کو کہنا ہے، وہ میرے ہی دل کی بات نہ ہو

جو ہے مرے خوابوں کی منزل، اس منزل کی بات نہ ہو

آج مجھے کچھ کہنا ہے

کشور :

کہتے ہوئے ڈر سا لگتا ہے، کہہ کر بات نہ کھو بیٹھوں

یہ جو ذرا سا ساتھ ملا ہے، یہ بھی ساتھ نہ کھو بیٹھوں

آج مجھے کچھ کہنا ہے

سدھا:

کب سے تمہارے رستے میں ، میں پھول بچھائے بیٹھی ہوں

کہہ بھی چکو جو کہنا ہے، میں آس لگائے بیٹھی ہوں

کشور :

آج مجھے کچھ کہنا ہے

سدھا:

کہہ بھی چکو جو کہنا ہے

دونوں:

دل نے دل کی بات سمجھ لی، اب منہ سے کیا کہنا ہے

آج نہیں تو کل کہہ لیں گے، اب تو ساتھ ہی رہنا ہے

سدھا:

کہہ بھی چکو، جو کہنا ہے،

کشور :

چھوڑو، اب کیا کہنا ہے!!

٭٭٭

جمع و ترتیب، جزوی ٹائپنگ، جزوی او سی آر، جزوی دیو ناگری سے اردو تبدیلی: اعجاز عبید

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

***

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل