فہرست مضامین
- یونہی
- انتساب
- کیا منظر دل کشا کھلا ہے
- دوست کچھ اور بھی ہیں تیرے علاوہ مرے دوست
- خموش رہ کے زوال سخن کا غم کیے جائیں
- تو جو نہیں تو پھر مرا کوئی سا حال بھی سہی
- جو منزلیں تھیں، راستوں میں کھو چکے ہیں
- ہجر لاحق ہے کہ ہجرت ہے مجھے
- کن کاگروں کی دھن میں پنچھی آفاق میں گم ہو جاتے ہیں
- غبار تھا، غبار بھی نہیں رہا
- میں کچھ دنوں میں اسے چھوڑ جانے والا تھا
- اس زمیں پر اجنبی ہونے کا غم
- اور اب اس بات سے بھی بے خبر بیٹھے ہوئے ہیں
- کہ وہ تو خواب تھا۔۔۔اور خواب کا بدل کوئی نئیں
- بجھتے ہوئے تاروں کی فضا ہے مرے دل میں
- ستارے مڑ کے بہت دیکھتے ہیں، کیا ہوا تھا
- جو سنگ در پہ نئی اک لکیر کھینچتا ہے
- دل میں ہے اتفاق سے، دشت بھی گھر کے ساتھ ساتھ
- اب روئیں ! نہ دیکھوں گا پلٹ کر
- نظر آئے تمہیں افلاک پہ خاک
- ربط اسیروں کو ابھی اس گل تر سے کم ہے
- کرتے پھرتے ہیں غزالاں ترا چرچا، صاحب!
- یونہی خاموش سمندر نہیں ہونے والا
- سر بسر دھوپ کی تکرار سے خوف آتا ہے
- کم کم رہا وہ پاس اور اکثر بہت ہی دور
- اس سے پہلے کہ زمیں زاد یہ ہمت کر جائیں
- کبھی کچھ تھا، پر اب کیا رہ گیا ہوں
- جل بجھیں ہم بھی کب نہیں معلوم
- خیمہ گیں شب ہے تشنگی دن ہے
- (محبوب خزاں کے لیے)
- چاند نکلا نہیں کہ تم سے کہیں
- بین کرتا کوئی پھرا مجھ میں
- وقت، نا وقت، جا بہ جا ، سب کچھ
- اسی ہمارے دل رائگاں کی بات ہے یہ
- درخت نغمہ سرا ہیں تو پھر یہی ہو گا
- وہ لوگ جا بھی چکے ہیں، مجھے بتایا گیا
- لہو میں شام سے دھڑکا رہا ہے کوئی اور
- دریا وہ کہاں رہا ہے، جو تھا
- تکرار ہے زندگی سے ملنا!
- دیکھ، نہ سرسری گزار عرصۂ چشم سے مجھے
- بساط پر گنوا دیا گیا نہ ہو
- نجانے کب پلٹ کے آنا ہوسکے گا
- کہانی کے اس پار جانے کے خواب
- کچھ خواب سا دکھائی دیا اور کھو گیا
- دل کا بس نام تھا، کیسا افسوس!
- اک ذرا دیر تو ہم خواب سرائے گئے تھے
- یہ بھی ممکن تھا میاں، اس میں کرامت کیسی
- دھوم خوابیدہ خزانوں کی مچاتا پھرے کون
- اب مسافت میں بھی آرام نہیں آ سکتا
- تم تو کیا، خود پہ بھی ظاہر نہیں بیزاری کی
- ورق اک آتے آتے آسماں پر رہ گیا ہے
- کوئی باغ سا ہے جو اجنبی نہیں لگ رہا
- (حضرت خواجہ میر درد کی نذر)
- (میرزا محمد رفیع سودا کی نذر)
- (رحمان حفیظ کے لیے)
- ابھر آویں گی ڈوبی کشتیاں آہستہ آہستہ
- دوبارہ ایک دن گزرتا جا رہا تھا
- مرے قریب ہی مہتاب دیکھ سکتا تھا
- گزشتہ زمانوں کا غم کیا کریں
- نظراس خواب رو پہ کرتے ہیں
- اسم وہ کیا تھا، زباں پر ہیں یہ چھالے کیسے
- تب تک اس آنکھ میں وہ آگ بجھا دی گئی تھی
- مسئلہ ایک ستارہ نظر آنے کا نہیں
- خیر ہو خواب کی، دیکھا نہیں شب سے میں نے
- یہاں سے چاروں طرف راستے نکلتے ہیں
یونہی
ادریس بابر
پیشکش: تصنیف حیدر
ادریس بابر کی شاعرانہ اہمیت کا کون منکر ہوسکتا ہے۔ ان کا کلام پڑھنے والوں اور پسند کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد ہے۔ میں خود بھی ان کا بہت بڑا مداح ہوں۔ ان کے شعری مجموعے ‘یونہی’ کو کئی روز سے تلاش کر رہا تھا، کیونکہ میں چاہتا تھا کہ یہ مجھ تک اور ادبی دنیا کے ذریعے بیش تر قارئین تک پہنچ سکے۔ اس شعری مجموعے کی پشت پر لکھا ہے کہ ‘ادریس بابر جدید اردو غزل کے اہم شاعر ہیں، ان کی تخلیقات نوے کی دہائی سے پاک و ہند کے معروف ادبی جریدوں کی زینت بنتی رہی ہیں۔۔۔۔زیر نظر کتاب ادریس بابر کی شاعری کے پہلے دس برس کا تقریباً احاطہ کرتی ہے۔’جس شاعر کے یہاں ابتدائی دس برسوں میں ایسے کمال کے شعر تخلیق کیے گئے ہوں، اس کے یہاں آگے جا کر کس قدر اہم تخلیقی تجربوں کے پیدا ہونے کی گنجائش ہے، یہ بتانا شاید ضروری نہیں۔ان کا تازہ کلام، ان کے نئے پن اور تخلیق کے میدان میں ان کی بالکل انوکھی تجزیہ نگاری اور تجربہ کاری کو نمایاں کرتا ہے۔ ان کا دوسرا مجموعہ امید ہے کہ غزل کی دنیا میں ایک اور انقلابی قدم کی سی حیثیت کا حامل ہو گا۔ مجھے خوشی ہے کہ میں نے کسی طرح اس مجموعے کو حاصل کیا اور خود بھی پڑھا اور ادبی دنیا کے قارئین تک پہنچایا ہے،اس کلام کو ٹائپ کرنے میں مجھے سات آٹھ گھنٹے لگے ہیں، یقیناآپ کو اسے پڑھنے میں اس سے کہیں زیادہ وقت لگ جائے گا۔شکریہ!
تصنیف حیدر
انتساب
(ابو جی اور امی کے لیے)
شام سویرے دل میں اتر کے میں پڑھتا ہوں
ان دیکھے، دو کتبے جو مشہور نہیں ہیں
کیا منظر دل کشا کھلا ہے
اک سمت نما ذرا کھلا ہے
چہرے کے ورق الٹ رہا ہوں
اور سامنے آئینہ کھلا ہے
تم کونسے پھول پوچھتے ہو
یہ باغ نیا نیا کھلا ہے
افسوس کہ ڈوبتے ہوؤں پر
عقدہ گرداب کا کھلا ہے
دنیا سے تو بچ سکیں گے فی الحال
دیکھو در خواب کیا کھلا ہے
جس غار سے ہم کبھی چلے تھے
اک غار کے بیچ آ کھلا ہے
٭٭٭
دوست کچھ اور بھی ہیں تیرے علاوہ مرے دوست
کئی صحرا مرے ہمدم ،کئی دریا مرے دوست
تو بھی ہو، میں بھی ہوں، اک جگہ پہ اور وقت بھی ہو
اتنی گنجائشیں رکھتی نہیں دنیا مرے دوست
تیری آنکھوں پہ مرا خواب سفر ختم ہوا
جیسے ساحل پہ اتر جائے سفینہ مرے دوست
زیست بے معنی وہی بے سرو سامانی وہی
پھر بھی جب تک ہے تری دھوپ کا سایہ مرے دوست
اب تو لگتا ہے جدائی کا سبب کچھ بھی نہ تھا
آدمی بھول بھی سکتا ہے نا رستا مرے دوست
راہ تکتے ہیں کہیں دور کئی سست چراغ
اور ہوا تیز ہوئی جاتی ہے، اچھا، مرے دوست
٭٭٭
خموش رہ کے زوال سخن کا غم کیے جائیں
سوال یہ ہے کہ یوں کتنی دیر ہم کیے جائیں
یہ نقش گر کے لیے سہل بھی نہ ہو ، شاید
کہ ہم سے خواب نما خاک پر رقم کیے جائیں
گزشتی یہ زمانے، شکستنی یہ نجوم
کہ دسترس میں ہیں، لفظوں میں کیسے ضم کیے جائیں
سحر سے آس نہیں جب تو پھر اندھیرے میں
کوئی چراغ ہو، جس کا طواف ہم کیے جائیں
یہ گوشوارے زیاں کے بہت سنبھال چکے
سو شعر کاٹ دیے جائیں، خواب کم کیے جائیں
حساب دل کا رکھیں ہم کہ دہر کا بابر
شمار داغ کیے جائیں یا درم کیے جائیں
٭٭٭
تو جو نہیں تو پھر مرا کوئی سا حال بھی سہی
موت ہے تو وہی سہی، زیست ہے تو یہی سہی
ایسے لگا کہ چاند ہے، پھر یہ کھلا کہ پھول ہے
پاس تو جا کے دیکھیے، خواب ہے، خواب ہی سہی
بزم سے تھا میں رات الگ،ہے مری چپ کی بات الگ
جس کے جواب میں کہاں اس نے کہ پھر کبھی سہی
صبح صلہ دیا گیا، مجھ کو بجھا دیا گیا
جس نے یہ روشنی کہی، جس نے وہ تیرگی سہی
جنگ چھڑی تو اب کی بار کوئی نہ بچ کے جا سکا
پیڑ جو تھے بچے کھچے، گھاس جو تھی رہی سہی
ریت میں تہ بہ تہ نجوم، کھوئے ہوؤں کا اک ہجوم
دل میں اتر کے دیکھیے، دیکھیے سرسری سہی
بجھتے ہوئے ستاروں میں ایک وہ لا پتا بھی ہے
جس کی شناخت کچھ نہیں، ضد ہے تو شاعری سہی
٭٭٭
جو منزلیں تھیں، راستوں میں کھو چکے ہیں
غلام گردشوں میں لوگ سوچکے ہیں
مکان پر کہیں سے روشنی گری تو
پتا چلا کہ ہم غروب ہو چکے ہیں
جزیرے پر یہ ناگزیردوستی تھی
سب اپنی ، ان کی کشتیاں ڈبو چکے ہیں
گھروں کا تذکرہ چلے تو یاد آئے
کہ ہاں، یہ خواب ہم بھی دیکھ تو چکے ہیں
عجائبات دیکھنے کی دیر تھی یاں
کہ ہم تو جا بھی اس دیار کو چکے ہیں
درخت صبح تازہ دم تھے، ہم سے پہلے
رسول اپنی بستیوں کو رو چکے ہیں
سکوں محال گردشوں میں راکھ تارے
خلاؤں میں حضر کے بیج بو چکے ہیں
٭٭٭
ہجر لاحق ہے کہ ہجرت ہے مجھے
نیند میں چلنے کی عادت ہے مجھے
میں کسی وقت بھی مر سکتا ہوں
دوست! اندر سے محبت ہے مجھے
جا ، جدائی کے سبب مت گنوا
جیسے درکار وضاحت ہے مجھے
کشتیاں خود ہی بناتا نہیں میں
ویسے دریا کی اجازت ہے مجھے
یہ بہت پہنچے ہوئے لگتے ہیں
ان درختوں سے عقیدت ہے مجھے
دھوپ سے ابر تلک، دیر ہے کچھ
پانی رنگوں کی ضرورت ہے مجھے
خود بھی کھا سکتا ہے خود کو آدم
یعنی حاصل یہ رعایت ہے مجھے
٭٭٭
کن کاگروں کی دھن میں پنچھی آفاق میں گم ہو جاتے ہیں
ہم سیدھے سادے مانجھی کس پیچاک میں گم ہو جاتے ہیں
لوگوں کو لہو سے پیاس بجھانے کی عادت پڑ جائے تو
مٹی میں چشمے اور بادل افلاک میں گم ہو جاتے ہیں
شاید اس کوہ کی چوٹی پر کوئی ہے۔۔۔اور کوئی نہیں تو پھر
کسے ڈھونڈتے ڈھوندتے دل دریا خاشاک میں گم ہو جاتے ہیں
اس خاک سے ہم کیا روکش ہوں، جب سارے آدم تا ایندم
اسی خاک میں ڈھونڈتے ہیں رزق اور اسی خاک میں گم ہو جاتے ہیں
وہ لوگ بھی تھے ، تاریخ میں جن کا کوئی ذکر نہیں ملتا
وہ نقش بھی ہیں جو کوزہ گر کے چاک میں گم ہو جاتے ہیں
سر دست بیاض شوق رکھی ہے اور پرندے ان دیکھے
اڑتے ہوئے آتے ہیں اور ان اوراق میں گم ہو جاتے ہیں
مٹی کے چراغ کی روشنی میں جب بیٹھ کے سوچتا ہوں، بابر
یہ سورج چاند ستارے سب اک طاق میں گم ہو جاتے ہیں
٭٭٭
غبار تھا، غبار بھی نہیں رہا
خدا کا انتظار بھی نہیں رہا
یہ دل تو اس کا نام کا پڑاؤ ہے
جہاں وہ ایک بار بھی نہیں رہا
فلک سے واسطہ پڑا ، کچھ اس طرح
زمیں کا اعتبار بھی نہیں رہا
یہ رنج اپنی اصل شکل میں ہے دوست
کہ میں اسے سنوار بھی نہیں رہا
یہ وقت بھی گزر نہیں رہا ہے اور
میں خود اسے گزار بھی نہیں رہا
گئے دنوں کے دشت میں کمال تھے
اب ایسا اک دیار بھی نہیں رہا
٭٭٭
میں کچھ دنوں میں اسے چھوڑ جانے والا تھا
جہاز غرق ہوا جو خزانے والا تھا
گلوں سے بوئے شکست اٹھ رہی ہے ، نغمہ گرو!
یہیں کہیں ، کوئی کوزے بنانے والا تھا
عجیب حال تھا اس دشت کا، میں آیا تو
نہ خاک تھی نہ کوئی خاک اڑانے والا تھا
تمام دوست الاؤ کے گرد جمع تھے اور
ہر ایک اپنی کہانی سنانے والا تھا
کہانی جس میں یہ دنیا نئی تھی، اچھی تھی
اور اس پہ وقت برا وقت آنے والا تھا
بس ایک خواب کی دوری پہ ہے وہ شہر جہاں
میں اپنے نام کا سکہ چلانے والا تھا
شجر کے ساتھ مجھے بھی ہلا گیا ، بابر
وہ سانحہ جو اسے پیش آنے والا تھا
٭٭٭
اس زمیں پر اجنبی ہونے کا غم
پھر وہی ہم، پھر وہی ہونے کا غم
پیش گوئی کرنے والے کو رہا
حادثے کے واقعی ہونے کا غم
رکھ رہے ہیں دوستاں دل میں حساب
تھوڑا ہٹ کے آدمی ہونے کا غم
راستوں میں گھر کے رہ جانے کا خوف
رابطوں میں عارضی ہونے کا غم
وقت کٹ جاتا ہے پر جاتا نہیں
اک نظر کے سرسری ہونے کا غم
پہلے جس کمرے میں رہتا تھا کوئی
کب سے رہتا ہے خوشی ہونے کا غم
٭٭٭
اور اب اس بات سے بھی بے خبر بیٹھے ہوئے ہیں
سر راہے پڑے ہیں ہم کہ گھر بیٹھے ہوئے ہیں
پھر اس نے چھیڑ دی ہیں ایسی کچھ دلچسپ باتیں
ہم اپنے مسئلے کو بھول کر بیٹھے ہوئے ہیں
ہمیں اب صبر کرنے کا نہ کوئی مشورہ دے
کہ ہم یہ تجربہ پہلے سے کر بیٹھے ہوئے ہیں
نہیں بھی ہوں تو دیواروں میں ، دروازے بنا دیں
فصیل شہر پر جو سحر گر بیٹھے ہوئے ہیں
سنا تھا ایک دن تعبیر کا در بھی کھلے گا
ابھی تو خواب کی دہلیز پر بیٹھے ہوئے ہیں
ابھی تو بادباں تبدیل ہوسکتے ہیں بابر
ابھی بجرے کھڑے ہیں اور بھنور بیٹھے ہوئے ہیں
٭٭٭
کہ وہ تو خواب تھا۔۔۔اور خواب کا بدل کوئی نئیں
مگر یہ مسئلہ ایسا ہے جس کا حل کوئی نئیں
ادھر خرابۂ دنیا میں عشق ذات کے لوگ
گئے دنوں میں رہے ہونگے، آج کل کوئی نئیں
وہ چاک اداس بہت تھا شکست انجم پر
تو دل نے اس کو دلاسا دیا کہ ’چل کوئی نئیں
یہ میرا گھر ہے، جو خالی ہے اور بہت خالی
یہ میرا وقت ہے جس کے ابد، ازل کوئی نئیں
فراق و وصل تو رسمیں ہی بن رہی ہیں یہاں
مرے تمہارے لیے عافیت کا پل کوئی نئیں
نہیں ہے کون محبت میں زخم کھائے ہوئے
سو اس دکھاوے کا موقع تو ہے محل کوئی نئیں
٭٭٭
بجھتے ہوئے تاروں کی فضا ہے مرے دل میں
پر دیپ جو مٹی کا جلا ہے مرے دل میں
لوگوں نے حکایات سنی ہوں گی کم و بیش
وہ شہر ، وہ خیمے ، وہ سرا ہے مرے دل میں
میں راہ سے بھٹکوں تو کھٹکتی ہے کوئی بات
جس طرح کوئی سمت نما ہے مرے دل میں
گھر تو در و دیوار کی حد تک ہے سلامت
لیکن وہ جو کچھ ٹوٹ گیا ہے مرے دل میں
دنیا سے گزرنے کو ابھی عمر پڑی ہے
یہ خواب تو کچھ دن کو رکا ہے مرے دل میں
یہ لوگ ذرا دیر کو ٹل جائیں تو، صاحب
پھر دیکھیے کیا وقت ہوا ہے مرے دل میں
٭٭٭
ستارے مڑ کے بہت دیکھتے ہیں، کیا ہوا تھا
کہ دل ، یہ پھول ہمیشہ سے کب کھلا ہوا تھا
کسی غزال کا نام و نشان پوچھنا ہے
تو پوچھیے ، میں اسی دشت میں بڑا ہوا تھا
کمال ہے کہ مرے ساتھ ساتھ رہتے ہوئے
وہ شخص جیسے کہیں اور بھی گیا ہوا تھا
ہنسی خوشی سبھی رہنے لگے مگر کب تک
میں پوچھتا ہوں کہانی کے بعد کیا ہوا تھا
پھر ایک دن مجھے اپنی کتاب یاد آئی
تو وہ چراغ وہیں تھا، مگر بجھا ہوا تھا
خوشی سے اس کو سہارا نہیں دیا میں نے
مگر وہ سب سے اکیلا تھا، ڈوبتا ہوا تھا
کہ جیسے آنکھ جہان دگر میں وا ہو گی
بتا رہے ہیں کہ میں اس قدر تھکا ہوا تھا
٭٭٭
جو سنگ در پہ نئی اک لکیر کھینچتا ہے
یہ رنج روز، خوشی سے اسیر کھینچتا ہے
میں پوچھتا ہوں کہ بھائی، مرا قصور ہے کیا
تو وہ جواب میں ترکش سے تیر کھینچتا ہے
پلے بڑھے ہیں مشینوں کے سائے میں یہ لوگ
سو ان کو درد لبھاتا نہ میر کھینچتا ہے
کسے دماغ کہ ہو رہن آسیائے سخن
کڑی سہی یہ مشقت فقیر کھینچتا ہے
پھروں ہوں خواب سے غافل کہ ہوشیاری سے
لہو سے زہر کوئی مار گیر کھینچتا ہے
٭٭٭
دل میں ہے اتفاق سے، دشت بھی گھر کے ساتھ ساتھ
اس میں قیام بھی کریں آپ سفر کے ساتھ ساتھ
بزم کا ، مے کا، جام کا، درد کا، دل کا، شام کا
رنگ بدل بدل گیا ایک نظر کے ساتھ ساتھ
آج تو جیسے دن کے ساتھ دل بھی غروب ہو گیا
شام کی چائے بھی گئی، موت کے ڈر کے ساتھ ساتھ
خواب گنوا دیے گئے، پیڑ گرا دیے گئے
دونوں بھلا دیے گئے ایک خبر کے ساتھ ساتھ
شاخ سے اس کتاب تک، خاک سے لے کے خواب تک
جائے گا دل کہاں تلک، اس گل تر کے ساتھ ساتھ
اس کو غزل ہی جان کے سرسری دیکھ لیجیے
ورنہ یہ حال دل تو ہے ، عرض ہنر کے ساتھ ساتھ
٭٭٭
اب روئیں ! نہ دیکھوں گا پلٹ کر
افلاک بھی خاک سے لپٹ کر
گھر خوفزدہ سا شخص پہنچا
منہ پھاڑتے راستوں میں بٹ کر
اب دل میں وہ سب کہاں ہے ، دیکھو
بغداد، کہانیوں سے ہٹ کر
شاید یہ وہی شجر ہو جس پہ۔۔۔
دیکھو تو کوئی ورق الٹ کر
کھل اٹھے گی نظم جیسے اک پھول
اگ آئی ہے شاخ بھی تو کٹ کر
اڑنے سے ڈرے مرے پرندے
بیٹھے ہوئے خاک ، سمٹ کر
جامع، اور شاعری کا سامع
رہ جائے گا ایک دل ہی گھٹ کر
٭٭٭
نظر آئے تمہیں افلاک پہ خاک
اور اڑاتے پھرو اس خاک پہ خاک
کسی قیدی کی علامت گھر میں
تھی تو دیوار و در و طاق پہ خاک
خود فراموشی کے ڈر سے میں نے
آگ پر آگ لکھا ، خاک پہ خاک
نقل دنیا کی تاری دل میں
خوب! گزری خس و خاشاک پہ خاک
شہر پہ بستا چلا جاتا ہے شہر
جمتی جاتی ہے مرے چاک پہ خاک
سانس چلتی ہوئی، اڑتی ہوئی دھول
طعنہ زن ہے مری املاک پہ خاک
یہ ہوا دوست ٹھہرتے ہی نہیں
نقش ٹھہرے گا ان اوراق پہ خاک
شام، اک سرد ستارے سے گری
آرزوئے دل مشتاق پہ خاک
٭٭٭
ربط اسیروں کو ابھی اس گل تر سے کم ہے
ایک رخنہ سا جو دیوار میں، در سے کم ہے
حرف کی لو میں ادھر اور بڑھا دیتا ہوں
آپ بتلائیں تو یہ خواب جدھر سے کم ہے
ہاتھ دنیا کا بھی ہے دل کی خرابی میں بہت
پھر بھی اے دوست! تری ایک نظر سے کم ہے
سو لو، میں بھی ہوا چپ تو گراں گزرے گا
یہ اندھیرا جو اسی شور و شرر سے کم ہے
دل ستارا تو نہیں تھا کہ اچانک بجھ جائے
ابر جتنا بھی مری راکھ پہ برسے کم ہے
خاک اتنی نہ اڑائیں تو ہمیں بھی بابر
دشت اچھا ہے کہ ویرانی میں گھر سے کم ہے
٭٭٭
کرتے پھرتے ہیں غزالاں ترا چرچا، صاحب!
کبھی مل بیٹھیں نہ دونوں سر صحرا، صاحب!
یہ کچھ آثار ہیں اس خواب شدہ بستی کے
یہیں بہتا تھا وہ دل نام کا دریا، صاحب!
سہل مت جان، کہ تجھ رخ پہ فدا کیا ہونا
دل ہوا جاتا ہے گرد رہ دنیا، صاحب!
یہ جو ممکن ہو تو ہم تا بہ ابد سو نہ سکیں
کیا عجب خواب سنایا ہے! دوبارہ، صاحب!
ہم کئی جاگتے تھے، اور کوئی سوئے ہوئے
ماجرا سب کا بنا، خواب کسی کا، صاحب!
چائے ٹھنڈی ہوئی، تصویر میں تم ڈوب رہے
سیر سے روز گزر جاتے ہو کیا کیا صاحب!
خوابشاروں کی جگہ، دل میں کسی کے، شب و روز
خاک اڑتی ہو، تو وہ خاک لکھے گا، صاحب!
سچ کہا، آپ کی دنیا میں ہمارا کیا کام
ہم تو بس یونہی چلے آئے تھے، اچھا صاحب!
٭٭٭
یونہی خاموش سمندر نہیں ہونے والا
کہیں تبدیل تو منظر نہیں ہونے والا
خیمۂ صبر میں ہیں ایسے سکوں میں ہم لوگ
جو یزیدوں کو میسر نہیں ہونے والا
زندگی، موت کا یہ کھیل ابھی جاری ہے
اور یہ کھیل برابر نہیں ہونے والا
نظر آئے تو اسے دیکھتے رہنا کہ وہ شخص
خواب ہے اور مکرر نہیں ہونے والا
٭٭٭
سر بسر دھوپ کی تکرار سے خوف آتا ہے
سو مجھے ساےۂ دیوار سے خوف آتا ہے
کانپنے لگتا ہے کاغذ بھی، قلم بھی، دل بھی
اپنے سوچے ہوئے کردار سے خوف آتا ہے
اتنی حیران ہے منزل مری رفتار پہ کیوں
میرے پیچھے اسی رفتار سے خوف آتا ہے
دن کنارے پہ بہا جاتا ہوا، ناؤ میں رات
آنکھ لگتے مجھے اس پار سے خوف آتا ہے
٭٭٭
کم کم رہا وہ پاس اور اکثر بہت ہی دور
اک چاند سا کہیں تھا افق پر بہت ہی دور
اے آبجو! سنبھل تو ذرا دم نہ ٹوٹ جائے
دریا ہے دور اور سمندر بہت ہی دور
بس شام کینوس میں اترنے کی دیر ہو
دل ڈوبنے لگے کہیں اندر، بہت ہی دور
آنکھیں ہیں بند، اور ہے دفتر کھلا ہوا
لاہور یعنی جان برابر بہت ہی دور
٭٭٭
اس سے پہلے کہ زمیں زاد یہ ہمت کر جائیں
کچھ ستاروں نے یہ ٹھہرائی کہ ہجرت کر جائیں
دہر سے ہم یونہی بیکار چلے جاتے تھے
پھر یہ سوچا کہ چلو، ایک محبت کر جائیں
دولت خواب ، ہمارے جو کسی کام نہ آئی
اب کسی کو نہیں ملنے کی، وصیت کر جائیں
اک ذرا وقت میسر ہو تو آئیں مرے دوست
دل میں کھلتے ہوئے پھولوں کو نصیحت کر جائیں
ان ہوا خواہ سے کہنا کہ ذرا شام ڈھلے
آئیں تو بزم چراغاں کی صدارت کر جائیں
دل کی ہر ایک خرابی کا سبب جانتے ہیں
پھر بھی ممکن ہے کہ ہم، تم سے رعایت کر جائیں
شہر کے بعد تو صحرا تھا میاں، خیر ہوئی
دشت کے پار بھلا کیا ہے کہ وحشت کر جائیں!
ریگ دل میں ہیں جو نادیدہ پرندے مدفون
سوچتے ہوں گے کہ دریا کی زیارت کر جائیں
٭٭٭
کبھی کچھ تھا، پر اب کیا رہ گیا ہوں
کہ دل سے گھٹ کے دنیا رہ گیا ہوں
یہ آدم خور بستی کا سفر تھا
غنیمت جان جتنا رہ گیا ہوں
وہ مجھ سے اپنا حصہ لے چکا ہے
اور اب میں صرف اپنا رہ گیا ہوں
ابھی مجھ تک پہنچ سکتے ہو تم لوگ
یہاں سے اک زمانہ رہ گیا ہوں
٭٭٭
جل بجھیں ہم بھی کب نہیں معلوم
ابھی اس کا سبب نہیں معلوم
اور بھی لوگ تھے کہانی میں
ماجرا سب کا سب نہیں معلوم
کون تھے ہم، کہاں سے آئے ہیں
کیا بتائیں گے جب نہیں معلوم
بھائی، ہم بے خبر ہی اچھے ہیں
پہلے تھا کیا جو اب نہیں معلوم
سو کے اٹھیں گے کب تھکے ہارے؟
وقت کیا ہو گا تب؟نہیں معلوم
مہر و مہتاب رخ کی اوٹ میں تھے
تب سحر تھی کہ شب، نہیں معلوم
دل کی دریا سے دوستی ہے بہت
دوستی کا سبب نہیں معلوم
٭٭٭
خیمہ گیں شب ہے تشنگی دن ہے
وہی دریا ہے اور وہی دن ہے
پھر سمندر میں خاک اڑاؤ گے کیا
اب تو یہ دشت بھی کوئی دن ہے
اک دیا، دل کی روشنی کا سفیر
ہو میسر تو رات بھی دن ہے
شام آئے گی، شب ڈرائے گی
تو ابھی لوٹ جا، ابھی دن ہے
اس قدر مت اداس ہو، جیسے
یہ محبت کا آخری دن ہے
مہرباں شب کی راہ میں بابر
ابھی اک اور اجنبی دن ہے
٭٭٭
(محبوب خزاں کے لیے)
چاند نکلا نہیں کہ تم سے کہیں
کوئی تم سا نہیں کہ تم سے کہیں
سوچتے ہیں تمہارے بارے میں
ہاں، یہ سوچا نہیں کہ تم سے کہیں
غم کا اظہار بے ارادہ ہے
یہ ارادہ نہیں کہ تم سے کہیں
آنکھ میں خالی اشک سادہ ہے
کوئی دریا نہیں کہ تم سے کہیں
جانے کیا کیا کہا ہے دنیا نے
ہم تو دنیا نہیں کہ تم سے کہیں
رنج کے مارے زرد پڑتے لوگ
کچھ بھی لگتا نہیں کہ تم سے کہیں
وقت جو تھا، گزر گیا صاحب!
خواب جو تھا، نہیں کہ تم سے کہیں
شعلۂ عشق ، دل ، سیاہ گلاب
ربط ہے یا نہیں کہ تم سے کہیں
٭٭٭
بین کرتا کوئی پھرا مجھ میں
کارفرما ہے اک دیا مجھ میں
روشنی آنے والے خواب کی ہے
دن تو کب کا گزر چکا مجھ میں
وہ مجھے دیکھ کر خموش رہا
اور اک شور مچ گیا مجھ میں
ناؤ ٹکرا گئی چٹان کے ساتھ
اور سب کچھ بکھر گیا مجھ میں
ہاں پلٹنا تو تھا مدینے کو
ساتھ آئی ہے کربلا مجھ میں
میں، اندھیرا تھا، اور کوئی نہ تھا
گر کے گم ہو گیا خدا مجھ میں
٭٭٭
وقت، نا وقت، جا بہ جا ، سب کچھ
ہو چکا مجھ میں رونما سب کچھ
کل یہیں باغ میں ملے تو تھے
بھول کر یاد آ گیا سب کچھ
آسماں کی روش، زمیں کا مزاج
جانتا ہے یہ آبلہ سب کچھ
خواب سے رابطہ بڑھاتے ہوئے۔۔۔
(اول اول ہے رابطہ سب کچھ)
کل ، خلا پر بھی غور کیجیے گا
صاحبو، اس جگہ بھی تھا سب کچھ
سخت بے دھیان تھا میں لکھتے ہوئے
بن گیا میں ذرا ذرا سب کچھ
کیا کریں بحث، اتفاق سے ، ہم
کہ جو بیٹھے کہ ہے خدا سب کچھ
٭٭٭
اسی ہمارے دل رائگاں کی بات ہے یہ
کبھی یہ پھول کھلا تھا،خزاں کی بات ہے یہ
یہ حال ہے کہ جو دیوار پر لکھی ہے وہ بات
کہیں تو لوگ کہیں گے کہاں کی بات ہے یہ
سنا ہے دوست ہمیں یاد کرتے پائے گئے
یقیں نہیں، تو کسی خوش گماں کی بات ہے یہ؟
کشادہ راستے، خوش لوگ، نیک دل حاکم
میاں، وہ شہر کہاں ہے جہاں کی بات ہے یہ
ہنسی خوشی سبھی رہنے لگے تھے۔۔۔یاد نہیں
بہت پرانی ، کسی داستاں کی بات ہے یہ؟
٭٭٭
درخت نغمہ سرا ہیں تو پھر یہی ہو گا
مجھے پتا تھا کہ وہ باغ واقعی ہو گا
وہیں ملیں گے، اسی یادگار پیڑ تلے
جگہ ہمارے لیے ہو گی، وقت بھی ہو گا
میں زر سمیٹ رہا تھا تو ایک سانپ کا خوف
بہت قریب سے گزرا تھا سامری ہو گا
کہیں تو اس میں کوئی شے ذرا سی بدلی ہے
بہت دنوں میں وہ پھر جا کے پھر وہی ہو گا
میں اس کے قتل کو نوٹس میں لانا چاہتا ہوں
کہ چپ رہا تو مرے ساتھ بھی یہی ہو گا
گزر رہا تھا وہاں سے جہاں میں تھا لب مرگ
کواڑ تھام لے، ماں۔۔۔۔یہ اک اجنبی ہو گا
نظر میں ہے کئی بجھتے ہوئے ستاروں کی
مرا غبار، جو آئندہ روشنی ہو گا
٭٭٭
وہ لوگ جا بھی چکے ہیں، مجھے بتایا گیا
مرے عزیز، سرائے میں کون آیا گیا
ستارے ٹوٹتے دیکھوں تو جی بہل جائے
کہ بس مجھے ہی نہیں رائگاں بنایا گیا
سب اپنی راہ چلو، دوسروں سے مت الجھو
وہ ایک خواب تمہیں ہی نہیں دکھایا گیا
خلا نورد تو خوش ہو گا ہی کہ اس کے حضور
تمام عرصۂ آدم ہے جو گنوایا گیا
عجیب ہجر تھا جس میں وصال کرتے ہوئے
مرا وجود گیا اور اس کا سایا گیا
٭٭٭
لہو میں شام سے دھڑکا رہا ہے کوئی اور
ترے قریب مجھے لا رہا ہے کوئی اور
خوشی کی بات نہیں طائر و ثمر کہ تمہیں
جو کھا رہے ہیں،انہیں کھا رہا ہے کوئی اور
خدا کی حمد، نبی کی ثنا ، ہوئی سو ہوئی
اب آئنے میں جگہ پا رہا ہے کوئی اور
برت رہا ہے جو تکنیک ، دل سے خاص نہ ہو
کہ میں رہا ہوں نہ ویسا رہا ہے کوئی اور
چلا یہ دشت بھی پاؤں سے دیکھتا کیا ہوں
کہ خاک اڑاتا چلا آ رہا ہے کوئی اور
٭٭٭
دریا وہ کہاں رہا ہے، جو تھا
اس شہر میں اک ہی قصہ گو تھا
اب تو یہ ہمارا گھر ن ہیں، خیر
پہلے بھی نہ تھا، خیال گو تھا
دریا تھا یہ دشت ، مانتے ہو
یہ شخص، وہ شخص، مان لو، تھا
ثابت نہیں کرسکو گے تم لوگ
کیا میرا وجود تھا؟ چلو، تھا
اس خواب میں کیا نہیں تھا دراصل
بس کہہ جو دیا ہے، خواب تو تھا
دونوں گھڑیوں پہ ہجر کا وقت
ہونا نہیں چاہیے تھا، جو تھا
پھر اس نے کہا کہ لوٹ جائے
اس بار یہ حکم وقت کو تھا
٭٭٭
تکرار ہے زندگی سے ملنا!
تو چھوڑ دیں ہم ابھی سے ملنا
ساحل پہ کھڑے دلاوروں کو
دریا کی رواروی سے ملنا
دیکھیں، کوئی جیتے جی بھلا پائے
مرتے ہوئے آدمی سے ملنا
بڑھ کر وہی گمشدہ نہ پالے
ڈھونڈے تو کوئی، خوشی سے ملنا
رستوں سے کمال نقل اتاری
ہر پھر کے تری گلی سے ملنا
اس شور میں کیا بھلا لگا ہے
اک موڑ پہ خامشی سے ملنا
خدشۂ امکان، اضافی دھڑکن
ملنا! اور اک اجنبی سے ملنا!
بازار میں شرح دیکھ لیجے
کچھ تو نہیں شاعری سے ملنا
٭٭٭
دیکھ، نہ سرسری گزار عرصۂ چشم سے مجھے
فرصت ربط ہو نہ ہو، مہلت ضبط دے مجھے
بسکہ گزشتنی ہے وقت، بسکہ شکستنی ہے دل
خواب کوئی دکھا کہ جو یاد نہ آ سکے مجھے
خام ہی رکھ، کہ پختگی شکل ہے اک شکست کی
آتش وصل کی جگہ خاک فراق دے مجھے
پھر یہ ہوا کہ نامہ بر، ہو گئے اتنے معتبر
مجھ سے ہوئیں شکایتیں آپ کو، آپ سے مجھے
دیر سے رو نہیں سکا، دور ہوں، سو نہیں سکا
غم، جو رلا سکے مجھے! سم، جو سلا سکے مجھے!
تیرگی ہے بہت، مگر، تو مرے دل پہ رکھ نظر
اور یہ روشنی ذرا کم ہو تو مار دے مجھے!
٭٭٭
بساط پر گنوا دیا گیا نہ ہو
مجھے غلط بڑھا دیا گیا نہ ہو
عجب نہیں لکھا ہو دل پہ کوئی نام
مگر کوئی پتا دیا گیا نہ ہو
میں داستان تک تو اس کے ساتھ تھا
اور اب مجھے بھلا دیا گیا نہ ہو
جو نام لکھنا تھا درخت پر مجھے
وہ شاخ پر کھلا دیا گیا نہ ہو
یہ راکھ دیکھ کر مجھے گماں ہوا
وہ پیڑ بھی جلا دیا گیا نہ ہو
ستارہ آنا چاہتا ہو میرے پاس
پر اس کو راستہ دیا گیا نہ ہو
عجیب انتشارسا ہے خواب میں
کہیں مجھے جگا دیا گیا نہ ہو
٭٭٭
نجانے کب پلٹ کے آنا ہوسکے گا
یہ گھر، سکون سے پرانا ہوسکے گا
یہ باغ سیر کر، یہ بات ذہن میں رکھ
کہ پھر یگوں میں یہ زمانہ ہوسکے گا
سخن سفر پہ جا چکا تو دل میں کیا ہے
سکوت جس کا ترجمہ نہ ہوسکے گا
کنارے پر مرے پڑے ہوئے فرشتے
وہ ناؤ، جس سے رابطہ نہ ہوسکے گا!
جزیرے پر تو آ گیا ہوں، سوچتا ہوں
بہم کہاں سے آب و دانہ ہوسکے گا
چلے گا کتنے روز، عمر بھر غلامی
کریں تو جمع جو خزانہ ہوسکے گا
٭٭٭
کہانی کے اس پار جانے کے خواب
سمندر کی سیر اور خزانے کے خواب
نیا دل جو بازار سے مل گیا
تو لے آؤں گا اس پرانے کے خواب
دبے مل گئے فائلوں میں ، اہا!
یہ نقشے! وہی، گھر بنانے کے خواب
بجھایا کرو آنکھ بھی یاد سے
نہیں جب تمہیں راس آنے کے خواب
پلٹ کر نہ دیکھو، سفر بخت خاں!
ابابیل اور آشیانے کے خواب
مجھے بھی وہ کیا خواب میں دیکھتے
جنہیں دیکھتا میں جگانے کے خواب
٭٭٭
کچھ خواب سا دکھائی دیا اور کھو گیا
اک شہر تھا، جو خواب ہوا اور کھو گیا
موج ہوا ہوں میرا تعاقب فضول ہے
اس نے کہا، بس اتنا کہا اور کھو گیا
قصہ مرا طویل سہی، مختصر یہ ہے
اس کو تلاش کرتا رہا اور کھو گیا
آگے، مرے عزیز، جدائی کا موڑ ہے
تو بھی نظر سے دور ہوا، اور کھو گیا
بابر مثالیہ کسے ملتا ہے، کم نہ جان
تجھ کو جو ایک بار ملا اور کھو گیا
٭٭٭
دل کا بس نام تھا، کیسا افسوس!
خاک ہو جاتے ہیں دریا، افسوس!
جانے کل گھر کی جگہ کیا بن جائے
صرف ویرانی پہ اتنا افسوس!
پھول کچھ روز میں لوٹ آئیں گے
دل دوبارہ نہیں کھلنا، افسوس!
تم بھی ہو ڈوبنے والوں میں سے ایک
پھر بھی، سورج کا زیادہ افسوس!
ناؤ،وہ جس پہ تھا، واپس ہولی
اور یہ خواب نہیں تھا، افسوس
٭٭٭
اک ذرا دیر تو ہم خواب سرائے گئے تھے
اسی دوران یہاں آپ بھی آئے گئے تھے
دیر تک آئی بدن پار سے مستانہ مہک
پہلے اس خاک میں کیا پھول کھلائے گئے تھے
پھر سر شام وہی شہر اور اس کے در و بام
جیسے اک اور زمانے میں بنائے گئے تھے
اور اس شہر کی گلیوں میں ابھی تک وہی لوگ
چلتے پھرتے ہیں جو خوابوں میں دکھائے گئے تھے
دن چڑھے تم نے سنا ہو گا کہ دریا کی طرف
رات ہم نیند میں چلتے ہوئے پائے گئے تھے
چند گھڑیاں ہی ملیں غرق شدہ وقت سمیت
ان جہازوں میں خزانے بھی تو لائے گئے تھے
سایہ کرتے رہے، اب روشنی کرسکتے ہیں
ہم سے بہتر تو یہ اشجار بنائے گئے تھے
خاک، گھر، بام، شجر، پنکھ، پکھیرو، آکاش
نام ہی نام ہمیں یاد کرائے گئے تھے
٭٭٭
یہ بھی ممکن تھا میاں، اس میں کرامت کیسی
بجھتے بجھتے بھڑک اٹھا ہوں تو حیرت کیسی
ایک ہی شہر میں رہتے ہوئے دونوں، اک عمر
مل نہیں پائے، تو پھر اس پہ ندامت کیسی
سو کے اٹھے تو کسی خواب فراموش کی دھن
سیر کا وقت سہی، ذہن سے فرصت کیسی
کچھ درخت اپنی جڑیں ساتھ لیے پھرتے ہیں
اسے مجبوری سمجھ لیجیے، ہجرت کیسی
دہر میں دل ہی وہ اک پل ہے جو تاریک نہیں
اور کچھ دیر میں ہو جائے تو حیرت کیسی
٭٭٭
دھوم خوابیدہ خزانوں کی مچاتا پھرے کون
دھول گم گشتہ زمانوں کی اڑاتا پھرے کون
باغ میں ان سے ملاقات کا امکان بھی ہے
صرف پھولوں کے لیے لوٹ کے آتا پھرے کون
سیکھ رکھے ہیں پرندوں نے سب اشجار کے گیت
باغ کا موڈ ہی ایسا ہے کہ گاتا پھرے کون
میں تو کہتا ہوں یہیں غار میں رہ لو جب تک
وقت پوچھو نہیں، سوتوں کو جگاتا پھرے کون
بھیس بدلے ہوئے اک شخص سے ڈرتے ہیں یہ سب
ہم فقیروں کے بھلا ناز اٹھاتا پھرے کون
خواب، یعنی یہ شب و روز، جسے چاہیے ہوں
باندھ لے جائے، اب آواز لگاتا پھرے کون
اختلافات سروں میں ہیں گھروں سے بڑھ کر
پھر اٹھانی ہے جو دیوار، گراتا پھرے کون
٭٭٭
اب مسافت میں بھی آرام نہیں آ سکتا
یہ ستارا تو مرے کام نہیں آ سکتا
بس مری سلطنت خواب میں آباد رہو
اس کے اندر کوئی بہرام نہیں آ سکتا
جانے کھلتے ہوئے پھولوں کو خبر ہے کہ نہیں
باغ میں کوئی سیہ فام نہیں آ سکتا
میں جنہیں یاد ہوں اب تک یہی کہتے ہوں گے
شاہزادہ کبھی ناکام نہیں آ سکتا
ایک اندیشہ کہ رستے میں نہ رہ جاؤں کہیں
کہلوا دیجیے، میں شام نہیں آ سکتا
٭٭٭
تم تو کیا، خود پہ بھی ظاہر نہیں بیزاری کی
ڈوب کر میں نے محبت ۔۔۔کہ اداکاری کی؟
واں دگرگوں ابھی دنیائے دگر کا نقشہ
ہم یہاں سمجھے کہ مہلت نہیں تیاری کی
دل کے آثار پہ اک شہر بسا کر اس نے
نئے احکام لکھے، مہر نئی جاری کی
دو جدا ہوتے ہوئے سائے، (یہ مصرع ہو جائے)
اور گلے ملتی ہوئی روشنی سے تاریکی
گھر ہتھیلی پہ لیے آتے ہیں بازار میں لوگ
اور حسرت لیے پھرتے ہیں خریداری کی
٭٭٭
ورق اک آتے آتے آسماں پر رہ گیا ہے
زمیں میں جو خزانہ تھا جہاں پر،رہ گیا ہے
پھر اک زینہ نظر آیا تھا، جس تک آتے آتے
مجھے کم کم بھروسہ داستاں پر رہ گیا ہے
میں ناؤ میں سبھی چیزیں اکھٹی کر چکا ہوں
مگر وہ وقت، وہ دریا کہاں پر رہ گیا ہے
اب ان گر گر کے اٹھنے والے پیڑوں کا گزارا
نمو، یعنی نشاط رائگاں پر رہ گیا ہے
تمہی اب دل کی گہرائی میں جھانکو، اور آنکو
کوئی موجود ہونے سے کہاں پر رہ گیا ہے
پرندہ اڑ گیا،اور تیز خیریت سے واپس
لہو کا ذائقہ پھر بھی زباں پر رہ گیا ہے
٭٭٭
کوئی باغ سا ہے جو اجنبی نہیں لگ رہا
یہ جو پیڑ ہے، اسے چکھ۔۔۔وہی نہیں لگ رہا؟
وہی خواب ہے، وہی باغ ہے، وہی وقت ہے
مگر اس میں اس کے بغیر جی نہیں لگ رہا
وہ کہانیوں میں جو شہر تھا، مرے دل میں ہے
یہ فقیر مجھ کو فقیر ہی نہیں لگ رہا
یہ کرن کہیں مرے دل میں آگ لگا نہ دے
یہ معائنہ مجھے سرسری نہیں لگ رہا
تری ناؤ کی، ترے بادبان کی خیر ہو!
کوئی ساحلوں سے ہنسی خوشی نہیں لگ رہا
تو سمندروں میں نہ خاک اڑاؤں، مذاق اڑاؤں
کہ فنا سے ڈر مجھے واقعی نہیں لگ رہا
٭٭٭
(حضرت خواجہ میر درد کی نذر)
پھر وہی دن، وہی سفر دیکھا
شام کو میں نے صبح کر دیکھا
میں تو روتا گیا ہوں آنکھوں کو
دشت دیکھا نہ میں نے گھر دیکھا
میں اندھیرے کا عینی شاہد ہوں
جس نے کچھ بھی نہ دیکھ کر دیکھا
اس کو دیکھا بجائے خود یعنی
آئنہ عین وقت پر دیکھا
سر بسر ٹوٹ پھوٹ جاری ہے
ایسے بنتے ہیں کوزہ گر دیکھا
سینکڑوں ہاتھ میرے حق میں اٹھے
ایک سکہ اچھال کر دیکھا
ڈوبنے والی ناؤ سے آخر
میں نے دریا کو آنکھ بھر دیکھا
٭٭٭
سب سمجھتے ہیں جس کو لایعنی
وہ مرا خواب ہے، خدا یعنی
ہجر سے ہجر تک تھی یہ ہجرت
وہ ملا۔۔۔۔مل کے کھو گیا یعنی
گردش مہر و ماہ کا حاصل
ایک میرا وجود لایعنی
دل کہاں شہسوار دنیا تھا
سو، گرا۔۔۔گر کے مرگیا یعنی
تو مجھے اس کا نام بھول گیا
ہو گیا پھر میں لا پتا یعنی
کام کی بات پوچھتے کیا ہو
کچھ ہوا۔۔۔کچھ نہیں ہوا یعنی
مجھ سے سب لوگ ہو گئے برباد
صرف اک شخص بچ رہا،یعنی۔۔
یعنی تم سے تو میں ملا ہی نہیں
وہ کوئی اور شخص تھا یعنی!
جیسے تھے اور لوگ بھی، بابر
خوش تھا کچھ۔۔کچھ اداس تھا یعنی
٭٭٭
خیر ہو تیری، میرے اچھے لفظ
کچھ نہ کہنا پڑے مجھے بے لفظ
ہم سب اسکول میں اکٹھے تھے
میں، مرے دوست اور میرے لفظ
جیسے ہمسائے میں ہوں نابینا
سامنے اور الگ تھلگ سے لفظ
پاس جا بیٹھتا تو کھل اٹھتے
مانو!! مانوس ہو گئے تھے لفظ
کوزہ گر نے عجب تواضع کی
لا رکھے سب ہی کچے پکے لفظ
باغ میں جیسے باغ پار کے پھول
نئی تحریر میں پرانے لفظ
فلم، اور اس میں عام سے کردار
آدھے انسان اور آدھے لفظ
وہ اور ان کی کمال دنیائیں
آپ، اور میرے ٹوٹے پھوٹے لفظ
٭٭٭
وہ بھی کیا دن تھے کہ لوگوں سے جدا رہتے تھے ہم
شام ہوتے ہی الگ دنیا میں جا رہتے تھے ہم
دھوپ سہتے تھے مگن رہتے تھے اپنی موج میں
دوسروں کے سائے سے بچ کر ذرا رہتے تھے ہم
زخم تازہ تھا، نگر بھی بے سبب آباد تھا
ایک تجھ کو چھوڑ کر سب سے خفا رہتے تھے ہم
اس گلی تک چھوڑ آتے تھے ہر اک رہ گیر کو
جی ہی جی میں اس قدر پر ماجرا رہتے تھے ہم
لوگ افسانے سناتے تھے جو، ان کے آس پاس
اک حقیقت تھی کہ جس میں مبتلا رہتے تھے ہم
بین کرتی تھی ہوا، پانی پہ مرتی تھی ہوا
تھی یہ دریا کی گزرگہ جس جگہ رہتے تھے ہم
اتنی آوازیں کہ یکدم گونجنے لگتا تھا دل
ایک لمحے کے لیے خاموش کیا رہتے تھے ہم
٭٭٭
کن زمانوں کے سوتے جگاتا ہوا، میں کہاں آ گیا
کون ہو تم؟ کہانی سناتا ہوا میں کہاں آ گیا
قفل بینائی کے پار، ظل الٰہی کا دربار، دھوپ۔۔
شاہزادوں کے جھگڑے چکاتا ہوا میں کہاں آ گیا
سچ ہزاروں برابر قطاروں میں سولی پہ لٹکے ہوئے
کن کتابوں پہ قسمیں اٹھاتا ہوا میں کہاں آ گیا
اوٹ میں سرد شیشے کی، اک سنگدل مسکراہٹ لیے
سوچتا شخص، کوزے بناتا ہوا میں، کہاں آ گیا
گم شدہ بھائی، مجھ تک پہنچنے میں کیا دیر ہے، لو سنو
تم تک آتا ہوا، خود سے جاتا ہوا میں کہاں آ گیا
بود سے دور گمنام کردار بیکار پھرتے ہوئے
واقعے کی طرف لوٹ آتا ہوا میں کہاں آ گیا
جب زمیں سر سے اڑنے، فلک ہٹ کے پاؤں میں گڑنے لگے
تو کلیشے سے پیچھا چھڑاتا ہوا میں کہاں آ گیا
دل میں احساس ہے، نے بدن پر سفر یا حضر کی نشانی کوئی
پھول کانٹوں، سے دامن بچاتا ہوا میں کہاں آ گیا!
٭٭٭
کتاب میں لکھا ہوا تو تھا نہیں
گلاب کس نے رکھ دیا، کھلا نہیں
چلا گیا وہ دل پہ خاک ڈال کر
یہ ایک دشت کا معاملہ نہیں
کبھی تو اس کے گھر بھی جا کے دیکھیے
کہ خواب اس کا مستقل پتا نہیں
گداگروں کے غول سے پرے کھڑے
درخت، کوئی جن کو پوچھتا نہیں
بہت اندھیرے میں رکھا گیا مجھے
ستارے کب بنے، کوئی پتا نہیں
ذرا سی بے نوائی کر کے دیکھیے
سخن مکالمے کی انتہا نہیں
٭٭٭
(میرزا محمد رفیع سودا کی نذر)
اک عمر غزالاں کے تعاقب میں پھرا میں
یوں میر کی تربت کا پتا ڈھونڈ سکا میں
تصویر میں دیکھو تو کسی شے کی کمی ہے
یہ پھول، انہی چھوتی ہوئی باد صبا، میں
دیکھا ہوا سا لگتا ہے، جیسے ترے ہمراہ
اس باغ سے بے ساختہ اک باغ میں تھا میں
سنتا ہوں کہ کچھ پتھروں کے کھوج میں کچھ ہاتھ
اس غار تک آ پہنچے ہیں جس غار میں تھا میں
سوچا جو نہیں تھا، نظر آنے لگا سب کچھ
آئینہ مقابل تھا سو خاموش رہا میں
بارش نے مجھے راستے میں آ لیا، بر وقت
بس بھولنے والا تھا سمندر کا پتا میں
اخبار میں کل رات نہ ہونے کا پڑھیں گے
اور یہ بھی کہ سورج کی جگہ ڈوب گیا میں
رستے، جو مجھے کاٹ گرانے سے کھلیں گے
گنتا رہا، سنتا رہا، دیوار بنا میں
ڈوبا ہوں کہانی میں تو ابھرا ہوں کہیں اور
جا پہنچا ہوں، آ پہنچا ہوں اک اور جگہ میں
٭٭٭
ابھی اک یاد نے اس باغ کو چونکا دیا ہے
ہمیں کیا میزباں نے پھر وہیں ٹھہرا دیا ہے
یہ دریا ، بادل ناخواستہ، پر ایک حد تک
چلا جائے گا اس کو راستہ سمجھا دیا ہے
شجر ہے یا کوئی دشتوں پرانا شاہزادہ
غزالاں نے اسے کس حال تک پہنچا دیا ہے
کہانی نے ہمارے دن بدل کر رکھ دیے ہیں
ہمیں پھر سے لباس فاخرہ پہنا دیا ہے
نجانے کام آ جائے کبھی گدڑی پرانی
خزانے میں حفاظت سے اسے رکھوا دیا ہے
٭٭٭
(رحمان حفیظ کے لیے)
ابھر آویں گی ڈوبی کشتیاں آہستہ آہستہ
حقیقت ختم ہوسکتی ہے؟ ہاں آہستہ آہستہ
سروں پر آسماں ، اور آسماں پر واشد انجم
گھروں کی بند ہوتی کھڑکیاں، آہستہ آہستہ
بہت کہنے کو ہو گا، گمشدہ باغوں کے بارے میں
کھلے گی ان ستاروں زباں آہستہ آہستہ
زمیں کے حافظے سے ایک دن مٹ جانے والی ہیں
یہ سب اندر سے خالی بستیاں آہستہ آہستہ
سہولت سے بتانا زندگی کیا چیز ہے، ٹھہرو،
کوئی دم سانس تو لے لو میاں، آہستہ ! آہستہ!
پرندے اس شجر کی خود فراموشی کا حصہ ہیں
سنو گرتی ہے جس رائگاں آہستہ آہستہ
کہ اب دہلیز کے دونوں طرف اک جیسی دنیا ہے
پلٹ کر جان لیں گی بیٹیاں آہستہ آہستہ
٭٭٭
دوبارہ ایک دن گزرتا جا رہا تھا
کوئی کنار شام بیٹھا گا رہا تھا
وہ شہر جو یہیں کہیں بسا رہا تھا
فقیر بھی وہیں غزل سرا رہا تھا
پرند اس کی واپسی پہ خوش تو ہوں گے
بہت دنوں جو پیڑ لا پتا رہا تھا
مجھے حضور کیا سمجھ کے دیکھتے ہیں
اسی لیے میں غار میں چھپا رہا تھا
دمک رہے تھے زرد سرد فرد چہرے
یہ رات تھی، گہن دلوں کو کھا رہا تھا
وہ مسکرارہا ہے اور بتا رہا ہے
کہ وہ مرے خلاف سوچتا رہا تھا
نجانے کب سے کون کس کا منتظر ہے
نجانے کیوں، کہاں، کوئی بتا رہا تھا
٭٭٭
مرے قریب ہی مہتاب دیکھ سکتا تھا
گئے دنوں میں یہ تالاب دیکھ سکتا تھا
اک ایسے وقت میں سب پیڑ میں نے نقل کیے
جہاں میں پھر انہیں شاداب دیکھ سکتا تھا
زیادہ دیر اسی ناؤ میں ٹھہرنے سے
میں اپنے آپ کو غرقاب دیکھ سکتا تھا
کوئی بھی دل میں ذرا جم کے خاک اڑاتا تو
ہزار گوہر نایاب دیکھ سکتا تھا
کہانیوں نے مری عادتیں بگاڑی تھیں
میں صرف سچ کو ظفر یاب دیکھ سکتا تھا
یہ زنگ اور کسی عکس کا وجود نہ ہو
جو سوچ سکتا تھا، جو خواب دیکھ سکتا تھا
٭٭٭
گزشتہ زمانوں کا غم کیا کریں
نہیں اب وہ سب کچھ تو ہم کیا کریں
تو پھر ہم گھروندا بنائیں ہی کیوں
سمندر سے اک موج کم کیا کریں
رکے ہوں گے یہ سوچ کر پیڑ بھی
کہ وحشت قدم دو قدم کیا کریں
ہوا تیز ہے، حافظہ سست ہے
پڑھیں کیا، چراغوں پہ دم کیا کریں
خزانہ ضرورت سے بڑھ کر تو ہو
یہی چار چھ دس درم کیا کریں
ضرورت ہی جب آدمی کو نہ ہو
خدا کیا کرے پھر، صنم کیا کریں
٭٭٭
نظراس خواب رو پہ کرتے ہیں
شام کا ایک گھونٹ بھرتے ہیں
موت اکتا چکی، ریہرسل میں
روز دوچار شخص مرتے ہیں
خود کشی تک نہیں مرے بس میں
لوگ بس یوں ہی مجھ سے ڈرتے ہیں
سو رہیں سنتے سنتے نغمۂ سنگ
سر کچھ اس زاویے سے دھرتے ہیں
میں جنہیں ترک کرنے والا تھا
وہی الفاظ سب نے برتے ہیں
مرگیا، خاص طور پر میں بھی
جس طرح عام لوگ مرتے ہیں
٭٭٭
اسم وہ کیا تھا، زباں پر ہیں یہ چھالے کیسے
کھل گئے شہر طلسمات کے تالے کیسے
حاکم شہر سزا سوچ کے چپ بیٹھا ہے
ساری بستی کو وہ بستی سے نکالے کیسے
ٹوٹ سکتا ہے، چھلک سکتا ہے، چھن سکتا ہے
اتنا سوچے تو کوئی جام اچھالے کیسے
اس قبیلے میں جہاں دن کبھی نکلا ہی نہ ہو
کسے معلوم کہ ہوتے ہیں اجالے کیسے
آدمی کیا،کوئی ذرہ بھی جو دل رکھتا ہو
ٹوٹ جاتے ہیں اسے توڑنے والے کیسے
٭٭٭
تب تک اس آنکھ میں وہ آگ بجھا دی گئی تھی
جس کے پہلو میں کبھی دل کو جگہ دی گئی تھی
چاند کس طرح اتر آیا تھا چپکے سے ادھر
صحن کے بیچ تو دیوار اٹھا دی گئی تھی
شب کی گلیوں میں سبھی شور ہوا ہی سے نہ تھا
ایک دیوانے کی زنجیر ہلا دی گئی تھی
اور مرے سانس بھی پیڑوں نے بسائے ہوئے تھے
اور مری خاک بھی مٹی میں ملا دی گئی تھی
کسی ترتیب میں گھر بن کے نہیں دیتا تھا
سب لکیروں میں کوئی ایک مٹا دی گئی تھی
باغ خواب آنکھ سے اوجھل سہی، اتراتے پھرے
ہم جنہیں لوٹ کے آنے کی سز دی گئی تھی
شہر کو راکھ برابر جو خود آگہہ سمجھیں
آگ یہ وہ تو نہیں جس کو ہوا دی گئی تھی
٭٭٭
مسئلہ ایک ستارہ نظر آنے کا نہیں
خواب آنکھوں میں کوئی اور ٹھکانے کا نہیں
کیا ہوا، ایک سمندر بھی ملا جو تہ خاک
یہ بھی نقشہ کسی معروف خزانے کا نہیں
خاکساری سے یہ ہمدردیاں حاصل ہوئی ہیں
گھر، یہ ویرانہ، مجھے چھوڑ کے جانے کا نہیں
سب مجھ سنگ در دوست سمجھ کر چپ ہیں
اب تو کوئی مجھے رستے سے ہٹانے کا نہیں
عمر بھر میں یہی اک لمحہ مرا ہے جس پر
شائبہ تک بھی کسی اور زمانے کا نہیں
جلتے جلتے، یہ خیال آیا کہ اس آگ سے بھی
اور کچھ کام لیا جائے، جلانے کا نہیں
٭٭٭
خیر ہو خواب کی، دیکھا نہیں شب سے میں نے
اک یہی وقت بچا رکھا تھا سب سے میں نے
دن ٹلا سر سے، نہ شب سہمے پروں تک پہنچی
جان لے، وقت گزارا نہیں تب سے میں نے
آبجو ساتھ لیے آتی ہے عکس رخ دوست
لاؤ تو، آئنہ دیکھا نہیں کب سے میں نے
دیکھتے دیکھتے مرجھا گئے عارض کے گلاب
جن کو وحشت میں بھی چوما تھا ادب سے میں نے
یہ سمندر، کہ گیا وقت مرے سامنے ہے؟
اک بھی گنوانا نہیں اب سے میں نے
سب مزے سے ہیں، سبھی ٹھیک نظر آتا ہے
خود کو دیوانہ سمجھ رکھا ہے جب سے میں نے
روکنے سے میں وہیں نیند میں رہ جاؤں گا
اب میں چلتا ہوں، بتا رکھا ہے سب سے میں نے
٭٭٭
یہاں سے چاروں طرف راستے نکلتے ہیں
ٹھہر ٹھہر کے ہم اس خواب سے نکلتے ہیں
کسی کسی کو ہے تہذیب دشت آرائی
کئی تو خاک اڑاتے ہوئے نکلتے ہیں
یہ لوگ سورہے ہوں گ، جبھی تو آج تلک
ظروف خاک سے خوابوں بھرے نکلتے ہیں
یہاں رواج ہے زندہ جلا دیے جائیں
وہ لوگ جن کے گھروں سے دیے نکلتے ہیں
عجیب دشت ہے دل بھی کہ جس کی سیر کے بعد
وہ خوش ہیں، جیسے کسی باغ سے نکلتے ہیں
ستارے دیکھ کے خوش ہوں، یہ لوگ میری طرح
جو کھو گئے ہیں، انہیں ڈھونڈنے نکلتے ہیں
مسافروں کو ازل سے پکارتے رستے
سنا ہے، کوہ ندا سے پرے نکلتے ہیں
٭٭٭
ماخذ: ادبی دنیا ڈاٹ کام
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید