FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

ہوا کے ہاتھ۔۔۔

               شائستہ مفتی

وہ کوئی لمبا سفر نہیں تھا

لمحوں کا سفر کس طور ہمیں کیا جانے کہاں پر لے جائے

اے کاش کہ جذبوں کی یہ مہک کچھ دیر یہاں پر تھم جائے

بے لوث رفاقت کی یادیں آنکھوں میں سجائے سوچتے ہیں

ہر سورج اپنی کرنوں میں یادوں کے خزانے چن لائے

موسم تو زمانے کا ہر دم، ہر آن بدلتا رہتا ہے

کچھ چہرے وقت کی گردش میں رہ کر نہ کبھی بھی دھند لائے

ہر سال یہاں پر خوشیوں کا اِک روز منایا جاتا ہے

گر ہم نہ سہی تو اگلے برس اِک بھولی بسری یاد آئے

اِس دنیا کے ہنگاموں میں ہم کتنے تنہا ہوتے ہیں

یہ لمحے پیار کی چھاؤں تھے جو اتنی جلدی کمھلائے

کل جانے کون کہاں ہوگا یادوں کے میٹھے خواب لیے

منزل نہ سہی منزل کی طرف اپنوں کی دعاؤں کے سائے

٭٭٭

 

شبِ تنہائی

سانس روکے ہوئے اِس شہر سے گزری ہے ہوا

کچھ تو کہتی ہے فضا رات کے دیوانوں سے

خالی سڑکوں پہ بہت شور ہے سناٹے کا

گیت لکھے ہیں خموشی کی مدھر تانوں سے

میرے احباب مجھے کہتے ہیں اے جانِ عزیز

تو یہاں تنہا اندھیروں سے الجھتا کیا ہے

شہر میں صف سی بچھی ہے بجھے انگاروں پر

تو فقط راکھ کے انبار کو تکتا کیا ہے

آؤ ہم مل کے منائیں شبِ خاموشی کو

بجھ گیا دل تو ہوا کیا ابھی بینائی ہے

خالی نظروں سے تکیں ٹوٹے ہوئے تاروں کو

اپنے خوابوں پہ پشیماں شبِ تنہائی ہے

٭٭٭

 

رات کا شہر

سانس روکے ہوئے اِس شہر سے گزری ہے ہوا

رات کے شہر بتا تو نے کبھی دیکھا ہے

چاند چڑھتے ہوئے جھیلوں سے پرے وادی میں

کیسےکھلتے ہیں یہ اسرار اکیلی شب کے

کون دھیرج سے اُتر آتا ہے اِس بستی میں

کون کہتا ہے کہ خوش     بو پہ بٹھا دو پہرے

یہ جو خوش     بو کہ دیے جاتی ہے دستک دل پر

دے رہی ہے یہ خبر راہ میں ہے ابرِ بہار

قافلے پھر چلے آئے ہیں درِ مقتل پر

رات کے شہر کی ویران گزر گاہوں پر

فطرت انگیز فضاؤں میں خموشی کے یہ پل

سہے جاتے ہیں فقط ایک ہی احساس لیے

لمحہ لمحہ کسی آہٹ کے گماں میں بے کل

رات کے شہر کی خاموش اُداسی کے تلے

ایک بھٹکا ہوا انسان تجھے ڈھونڈتا ہے

اپنے معبد سے بچھڑ جانے کے غم میں اکثر

ڈوبتے تارے کی مانند پوچھتا ہے

٭٭٭

 

نیند کا جنگل

اوس کے شبنمی تبسم پر

ہم نے لکھی شبِ تنہائی ہے

میرے ہاتھوں میں ہنر ہے تیرا

میرا دل شوق کا سودائی ہے

برف پر پھیلے ہوئے رنگوں سے

شام آنچل میں نکھر آئی ہے

آسماں نیند سے جاگا جیسے

شبِ ہجراں کہیں مسکائی ہے

دور تک پھیلی ہوئی وادی میں

یک نفس خواب سی تنہائی ہے

اور اِسی نیند کے جنگل میں کہیں

دبے پاؤں تری یاد آئی ہے

٭٭٭

 

خراج

زندگی تھی بہت حسین کبھی

یادِ یارانِ بے وفا کی طرح

دھوپ کی اوٹ سے کھلے تھے کنول

لب و رخسارِ دل رُبا کی طرح

رقص میں زندگی تھی راہوں پر

ساری دنیا سے دوستانہ تھا

شوق کے دیپ جل رہے تھے جہاں

اُن منڈیروں پہ ہی ٹھکانہ تھا

کاسۂ کائنات میں جانم

ہم تغیر کے اِک سفیر رہے

مستقل کوئی بھی پناہ نہیں

روح اور جسم کے اسیر رہے

مسکرانے کا قرض ہے ہم پر

قرض یہ ہر نفس      چکانا ہے

کرچیاں خود ہی ہاتھ سے      چن کر

زندگی بھر فریب کھانا ہے

چاہتی ہوں کہ تم سے میں کہہ دوں

یہ جو اِس خواب کی لکیریں ہیں

سوچ کے بحر میں جو بکھری ہیں

راستوں میں بچھی صلیبیں ہیں

ہم کو ان کا خراج دینا ہے

زندہ رہنے کا بار سہنا ہے

٭٭٭

 

رَختِ سفر

خالی کمرے میں مرا رختِ سفر رکھا ہے

چند ارمان ہیں پوشیدہ نہاں خانے میں

کرچیاں خواب کی رکھی ہیں حفاظت سے کہیں

اور کچھ پھول چھپا رکھے ہیں انجانے میں

ڈھونڈتی پھرتی رہی روح کسی ساتھی کو

دربدر ٹھوکریں کھاتا رہا پندار مرا

اپنی مٹی سے بھی اٹھی نہیں سوندھی خوش      بو

غیر کے دیس میں لٹتا رہا سنسار مرا

اجنبی آنکھوں میں مانوس وفاؤں کا چراغ

ایک امید پہ جلتا رہا گھپ راتوں میں

جسم مٹی کی طرح گھلتا رہا پانی میں

رنگ بے رنگ ہوئے جاتے تھے برساتوں میں

تیری امید پہ کھولا ہوا در رکھا ہے

خالی کمرے میں مرا رختِ سفر رکھا ہے

٭٭٭

 

خوش فہمی

خزاں کی زرد رُتیں مسکرا رہی ہوں گی

ہوائیں درد کے نغمے سنا رہی ہوں گی

تمھاری بزم میں جلتے ہوئے چراغوں سے

فضائیں رات کا آنچل سجا رہی ہوں گی

حسین شام کی لالی مچل رہی ہوگی

ہماری یاد کی کرنیں جلا رہی ہوں گی

میں سوچتی ہوں مرے بعد میرے گلشن کی

صدائیں میرے تعاقب میں آ رہی ہوں گی

٭٭٭

 

میرے گھر کے آنگن میں

میرے گھر کے آنگن میں

چاند اس قدر تنہا

اس قدر اُداسی سے

دیکھتا ہے یوں مجھ کو

جیسے میری خاموشی

میرے دل کی ویرانی

کو وہی سمجھتا ہو

میرے گھر کے آنگن میں

چاند اس قدر تنہا

یوں کبھی نہ پہلے تھا

آؤ چاند سے پوچھیں

کیوں ہو اس قدر تنہا

جس طرح کہ یہ دل ہے

میرے گھر کے آنگن میں

٭٭٭

مجرم

ہم کہ مجرم  ہیں تری یاد بھلادی ہم نے

اپنی پلکوں پہ نئی صبح سجالی ہم نے

یوں ہی ہوتا ہے زمانے میں کہ جب دیوانے

کسی چاہت بھری دہلیز پہ سر رکھتے ہیں

ایک دنیا تری چاہت میں بھلا کر ناداں

کھوٹے سکوں کی تجارت کا بھرم رکھتے ہیں

وقت کے ساتھ یہ بے نام سے بوجھل رشتے

ساحلِ زیست سے ٹکرا کے بکھر جاتے ہیں

نئی دنیا نئی چاہت کی مہک کوپاکر

زخم سب تیری جدائی کے سنور جاتے ہیں

ہم کہ مجرم ہیں تری یاد بھلادی ہم نے

اپنی پلکوں پہ نئی صبح سجالی ہم نے

٭٭٭

 

وفا کے موتی

یہ چند موتی، وفا کے موتی

مرے لیے بھی سنبھال رکھنا

کہ جانے پھر زندگی کی راہیں

کہاں کہاں خاک کو اڑائیں

جو ہوسکے تو۔۔۔!

مری وفاؤں کے پھول تم بھی

کتابِ عمرِ رواں میں رکھنا

بھلا کے مجھ کو نئے زمانے میں دل لگانا

مری وفاؤں کے پھول تم کو صدا نہ دیں گے

کبھی ترا راستہ نہ لیں گے

مگر یہ عمرِ رواں ہے آخر!

کہیں تو اِس کی بھی شام ہوگی

کبھی جو فرصت ملے تو پھر سے

کتابِ عمرِ رواں کو پڑھنا

مری وفاؤں کے پھول تم کو وہیں ملیں گے

وہی اچھوتی مہک ملے گی

گئے دنوں کی اُداس برکھا

برس کے میرا سراغ دے گی

یہی سمجھ کر

مرے لیے بھی سنبھال رکھنا

یہ چند موتی، وفا کے موتی

٭٭٭

 

رِشتہ

بدلتے موسم کی آہٹوں میں

اگر کبھی

میرا سامنا ہو

گزر ہی جانا۔۔۔ نگہ چرا کر

نہ لب ہلانا۔۔۔ نہ ہاتھ رکھنا

اگر تمھیں دل کو ۔۔۔ تھامنا ہو

کہ ایسا ہوتا ہے چاہتوں میں

محبتوں کے عجیب رشتے

جدائیوں کے عمیق لمحے

سنورتے جاتے ہیں دُوریوں میں

یہی سمجھنا۔۔۔

کہ تم سے میرا یہی ہے رشتہ

کہ جیسے شبنم کا پھول سے ہے

کہ جیسے آنسو کا آنکھ سے ہے

گزرتی عمروں میں چاہتوں کی حسین یادیں

یہی فقط چاہ کا ہے تحفہ

تلاش کرنا ہماری خوشبو

چٹکتی کلیوں کی ساعتوں میں

میں رنگ بن کر

تمھیں ملوں گی

بدلتے موسم کی آہٹوں میں

٭٭٭

 

وہ ایک لمحہ

وہ ایک لمحہ تھا دلبری کا

جو چپکے چپکے سے دل کے آنگن سما گیا تھا

اُداس راتوں پہ چھا گیا تھا

وہ جس کی خوشبو سے نفرتیں بھی مہک اٹھیں تھیں

خموش آنکھیں چہک اٹھیں تھیں

وہ کوئی لمبا سفر نہیں تھا

وہ کوئی زخمِ جگر نہیں تھا

وہ ایک لمحہ تھا دلبری کا

میں ریزہ ریزہ بکھر رہی تھی

دکھوں میں جل کر سنور رہی تھی

کہ جانے کیسے۔۔۔

بہت اچانک!

وہ میری فکروں میں بس گیا تھا

وہ کوئی لمبی سزا نہیں تھا

وہ ایک آنسو تھا آگہی کا

وہ ایک لمحہ ہزار صدیوں سے بھی سوا تھا

وہ ایک لمحہ تھا دلبری کا

٭٭٭

 

ہم راز

آج پھر موسموں سے پوچھا ہے

کوئی پیغام لائے ہو اُن کا؟

کوئی آہٹ کوئی خیال سہی

دل کا درماں کہ عرضِ حال سہی

کاش تم نے مصوری کی ہو

مجھ سے مل کر وہ شاعری کی ہو

تم نے جانا ہے میرے دل کا حال

پرسشِ غم کی دلبری کی ہے

ایک دھوکا سہی خیال سہی

کس قدر تم سے حوصلہ ہے مجھے

کس قدر زیست پروری کی ہے

میری چاہت کو تم نے سمجھا ہے

میرے اشکوں سے عاشقی کی ہے

٭٭٭

 

اے مرے دوست۔۔۔

اے مرے دوست میں تو واقف ہوں !

ہنستے ہنستے جوتری آنکھ چھلک آئی ہے

کچھ نہ کہنا بھی تو اندازِ شناسائی ہے

چار جانب جو بنائی ہے یہ حدِ فاصل

اِس میں کرنوں سے محبت کا جھروکا ہے کوئی؟

کوئی تو راز ہے پھر شام نکھر آئی ہے

اے مرے دوست میں تو واقف ہوں !

گو کہ پیمانۂ احساس بہت دُور سہی

تیرا دل مجھ سے مرا تجھ سے ہے رنجور سہی

راستے دُور سہی زخموں سے دل چور سہی

پھر بھی اِک شاخ ہری دل میں اتر آئی ہے

کوئی تو راز ہے پھر شام نکھر آئی ہے

اے مرے دوست میں تو واقف ہوں !

تو جو ہر جذب کی منزل سے گزر جاتا ہے

کھوٹے سکوں کی تجارت کے بہانے خود کو

رات دن خوابوں کے امکان سے بہلاتا ہے

جاگزیں دل میں ترے درد کی پہنائی ہے

کوئی تو راز ہے پھر شام نکھر آئی ہے

اے مرے دوست میں تو واقف ہوں !

شام اِس بار جو مہکی ہے تری دنیا میں

میں دعا گو ہوں ترے دل کو قرار آ جائے

زندگی کیف و ترنّم کا           ّتبسم لے کر

ایسے مہکے ترے آنگن میں بہار آ جائے

زیرِ لب تیرے لبوں پر جو ہنسی آئی ہے

کوئی تو راز ہے پھر شام نکھر آئی ہے

اے مرے دوست میں تو واقف ہوں !

٭٭٭

 

منوں ریت تلے۔۔۔

میں جوسوئی ہوں منوں ریت تلے۔۔۔

کاش تو جان سکے شام ڈھلے

میری آنکھیں تری آہٹ پہ لگی رہتی ہیں

میرا آنچل مری ترسی ہوئی بے کل ہستی

میری ممتا تری راہوں میں بچھی رہتی ہے

میں بہت خوش ہوں تجھے دیکھ کے اے دل کے قرار

تیرے چہرے کی چمک آج بھی تابندہ ہے

تیرے لہجے میں مرا عکس ابھی زندہ ہے

میں جو سوئی ہوں منوں ریت تلے۔۔۔

آج تو نے جو مجھے پھولوں کی چادر دی ہے

میری ترسی ہوئی دنیا میں بہار آئی ہے

شام مہکی ہے معطر سی گھٹا چھائی ہے

کاش تو جان سکے اے مرے دل کے ٹکڑے

میں جو سوئی ہوں منوں ریت تلے۔۔۔

تجھ پہ اب قرض ہے اِن زخموں کو سہلانے کا

میری ناکام امنگوں کا اکیلا آنگن

تجھ سے بہلے گا، نہیں اور کوئی آنے کا

میری آنکھوں کے دیے میری وفاؤں کا سحر

تجھ کو ہر بار مرے پاس لیے آئے گا

ساری دنیا تجھے جانے گی مرے ہونے سے

میرا پر تو تری ہستی میں اتر جائے گا

کاش تو جان سکے اے مرے دل کے ٹکڑے

میں جو سوئی ہوں منوں ریت تلے۔۔۔

٭٭٭

 

یہ موسمِ گل

یہ موسمِ گل کسی اُداسی میں کھو گیا ہے

یہ رنگ موسم، یہ پھول پتے

نہ جانے کیا کچھ بتا رہے ہیں

ہوا کی لے پر اُداس نغمہ سنا رہے ہیں

وہ خواب لمحے جو کھو گئے ہیں

جو تھک کے آنکھوں میں سوگئے ہیں

وہ خواب لمحے کہ جن کی خوشبو۔۔۔

کہ جن کی شبنم مجھے ہر اِک پھول پر ملی ہے

سکونِ جاں کی یہ چند گھڑیاں

بہت ہی انمول چند لمحے

مرے خیالوں میں ہنس رہے ہیں

مجھے یقیں ہے کہ موسمِ گل

کبھی بھی اتنا حسیں نہیں تھا

٭٭٭

 

مدفن

ایک خواہش ہے جسے دفن مجھے کرنا ہے

سوچتی ہوں کہ جگہ دل میں کہاں سے لاؤں؟

اپنی بیکار اُداسی کو کہاں لے جاؤں؟

یہ اُداسی کہ ہے جیسے کسی مدفن کے پرے

ایک برگد جسے ہو اپنی نحوست پہ یقیں

یہ زمیں دل کی ہمہ گیر ہے ہنگاموں سے

تم کوئی اور جگہ ڈھونڈ لو مدفن کے لیے

ایک خواہش ہے جسے دفن مجھے کرنا ہے

٭٭٭

 

دلِ تنہا

ننھا منا سااِک حسیں بچہ

بیچ چوراہے پہ کھڑا ہوگا

بھول کر راستہ نشیمن کا

آشیانے کو ڈھونڈتا ہوگا

بھیڑ میں اجنبی سے چہروں میں

اِک شناسا کو ڈھونڈتا ہوگا

میں نے چاہا بہت کہ روکوں اسے

پاس بٹھلاؤں اور پوچھوں اسے

اتنی کچی سی عمر میں تو نے

اس قدر وحشتوں کو کیوں پالا

زیست کو منتشر بنا ڈالا

اس کی افسردگی پہ دکھ ہے مجھے

اُس کی دیوانگی پہ دکھ ہے مجھے

مجھ سے کہتا ہے وہ حسیں بچہ

میں تو کچھ مانگتا نہیں رب سے

ہوں میں تنہا یہاں وہاں کب سے

ساتھ تھی ماں ابھی ابھی میرے

ایک آسیب کی طرح کب سے

سوچتا ہوں کہ اب کدھر جاؤں

اس کو ڈھونڈوں کہ خود بکھر جاؤں

٭٭٭

 

وہ سارے لمحے۔۔۔

وہ سارے لمحے جو میری آنکھوں میں اشک بن کر

چمک رہے تھے

چراغ بن کر سلگ رہے تھے

گزر گئے ہیں بغیر کوئی صدا لگائے

اور اب یہ لمحے گزر رہے ہیں

کہ جن میں خاموشیاں نہاں ہیں

مگر یہ نظمیں تو ترجماں ہیں

کہ زندگی کے بکھرتے لمحے

بکھر رہے ہیں بغیر کوئی صدا لگائے

مگر یہ وحشی اُداس دل ہے

کہ جانے کن آہٹوں میں گم ہے

نجانے کیوں دل میں یہ صدا  ہے

کھلے سمندر کی وسعتوں میں

کوئی تو ہے جو بھٹک رہا ہے

کہیں تو ساحل کی آس ہوگی

کہیں تو یادوں کی باس ہوگی

وہ سارے لمحے جو تیرگی میں گزر گئے ہیں

اکیلی راہوں میں کٹ گئے ہیں

کبھی تو اُن کا حساب ہوگا

وہ اشک سارے جو بہہ گئے ہیں

کہیں تو اُن کا جواب ہوگا

مگر یہ لمحے تو بے خبر ہیں

گزر رہے ہیں بغیر کوئی صدا لگائے

٭٭٭

 

جنوں کی منزل۔۔۔

جنوں کی منزل پہ پاؤں میرے تھکے تھکے سے

تمام سوچیں مٹی مٹی سی

وہ حوصلے ولولے کہاں ہیں؟

کہ جن کے بل پر سفر کیا میں نے منزلوں کا

نہ جانے وہ زندگی کہاں ہے؟

وہ خواہشوں کے چمن کہاں ہیں؟

کہیں کچھ ایسی ہی بات نہ ہو؟

کہ سچ کی راہوں پہ چلنے والے

دکھوں میں جل کر سنورنے والے

سدا حوادث میں گم رہیں گے

نظر میں خوابوں کے دیپ لے کر

اندھیر نگری میں جا گریں گے

نہ جانے کیسی تڑپ ہے دل میں

نظر میں جاگے ہیں خوف کیسے؟

کہیں پہ پل بھر کی زندگی بھی

اندھیری راہوں میں کھو نہ جائے

کبھی حقیقت ملے سفر میں

تو آئنے ٹوٹ ہی نہ جائیں

تمام سوچیں مٹی مٹی سی

حصارِ ہستی شکست خوردہ

جنوں کی منزل قریب تر ہے

مگر قدم ہیں تھکے تھکے سے

٭٭٭

 

ساحل

جہاں نیلا گگن

پانی سے مل کر گیت گاتا ہے۔۔۔

جہاں دنیا سے رشتہ ایک پل میں

ٹوٹ جاتا ہے۔۔۔

جہاں موجوں کی طغیانی پہ اکثر

پیار آتا ہے۔۔۔

جہاں دنیا سے نفرت کر کے خود پر

پیار آتا ہے۔۔۔

جہاں لگتا ہے ایسے

اِک ہمی تنہا ہیں دنیا میں ۔۔۔

یہ سارے لوگ گلشن ہیں

ہمی صحرا ہیں دنیا میں ۔۔۔!

٭٭٭

 

سنگسار

آہستہ آہستہ سے

تنہائی کی جھانجھر لے کر

من کے سونے مندر میں

اترے تھے

اور اِک

انجانی سی خوشبو پاکر جھوم اٹھے تھے

لیکن۔۔۔!

اب وہ مندر

راکھ کا اِک ڈھیر بنا ہے

میں نے

اُس مندر کو توڑا

نظریں پھیر کے منہ کو موڑا

سوچتے تھے کہ

اپنی دنیا شاد کریں گے

لیکن مجھ کو نہیں پتا تھا

اُن بوسیدہ دیواروں میں

اُن سونی محرابوں میں

میری خوشیاں پنہاں تھیں

میں نے اُس مندر کو توڑا

اپنے جی کو آپ دُکھایا

آج میں دکھ کا چہرہ لے کر

ڈھلتا سورج دیکھ رہی ہوں

اپنی دنیا

آپ جلا کر سوچ رہی ہوں

میں نے دل پر وار کیا تھا

خود کو سنگسار کیا تھا

٭٭٭

 

کس طور اُدھر جائیں ۔۔۔؟

ہم لوٹ کے گھر جائیں؟

کس طور اُدھر جائیں ؟

کیا ہے جو ہمارا ہے؟ کیا ہے جو سہارا ہے؟

ہم خاک بسر ہو کر رستوں سے گلے مل کر

راہوں میں نہ کھو جائیں؟

کس طور اُدھر جائیں؟

یہ رات جو اندیشہ، بن کر ہمیں ڈستی ہے

کچھ کہتی نہیں پھر بھی نیزے کی اَنی جیسے

بن کر ہمیں چبھتی ہے

اِک آس کی چنگاری

جلتی ہے نہ بجھتی ہے

اے کاش کہ ساحل سے اِک بار گلے مل کے

ساغر میں اتر جائیں

کس طور ادھر جائیں ؟

٭٭٭

 

چھوٹی سی دنیا

کہاں کوئی خواب سے پکارے

کہاں کوئی ساتھ ساتھ آئے

یہ دور جس میں رہے ہیں ہم تم

عجب حوادث کا دور جانم

مری نگاہوں کے سلسلے بھی

تمھاری ہستی کے آبِ گم میں

تمھیں بہت دیر سے پکارے

تمھاری آہٹ کے اَن سنے     سر

تمھارے احساس کی مدھر لے

کو اپنی سانسوں میں یوں بسائیں

کہ جیسے دھڑکن کا یہ تسلسل

تمھاری چاہت سے بندھ گیا ہے

تمھاری چاہت بھری نگاہیں

مرے تعاقب میں گھومتی ہیں

یہ دور جس میں رہے ہیں ہم تم

مری تمھاری محبتوں کے یہ تذکرے بھی

عجیب آسیب کی کہانی سے لگ رہے ہیں

فریبِ جاں کے یہ سلسلے بھی

کسی حقیقت کا عکس جیسے

مرے سوالوں کے سب جوابوں میں ڈھل رہے ہیں

یہ دور جس میں رہے ہیں ہم تم

یہ دور جس نے دیے ہیں ہم کو

اکیلی راہیں  اکیلی شامیں

میں سوچتی ہوں کہ تم سے کہہ دوں

ابد کے اُس پار جا بسائیں

اک اپنی چھوٹی سی دل کی دنیا

٭٭٭

 

تو مری ہے۔۔۔

میں رات دن اُن سے پوچھتی ہوں

مرا ترا واسطہ ہی کیا ہے؟

وہ مسکرا کے نظر جھکا کے

خموش آنکھوں سے دیکھتے ہیں

ہزار شمعوں کو دل میں اپنے چھپا  کے

ہنس کر یہ سوچتے ہیں

یہ بھولی لڑکی یہ ناسمجھ سی

نہیں سمجھتی نہ جانتی ہے

کہ سنگ ریزے جو بہہ رہے ہیں

سمندروں کی تہوں کے نیچے

چھپے ہیں اُن میں ہزار موتی

ہزار یاقوت اور مونگے

یہ سب میں چاہوں تو  اس کو دے دوں

اِسے دُلہن کی طرح سجادوں ۔۔۔!

مگر خیال آ رہا ہے مجھ کو

کہ میری الفت، مری محبت

کسی بھنور میں ، کسی سفر میں

بہت اچانک ہی کھو نہ جائے

میں چاہتی ہوں کہ اُن سے کہہ دوں

میں ایک عورت میں اِک پہیلی

بہت ہی آسان ہو سمجھنا

مجھے نہ تولو زمین و زر سے

مجھے فقط اِک نگاہ دے دو

جو مجھ سے کہہ دے، ’میں جانتا ہوں

میں مانتا ہوں کہ تو مری ہے‘

٭٭٭

 

شبِ ہجر

رات بے چین ہواؤں میں گھری جاتی ہے

غیر محسوس سے لفظوں میں کہانی دل کی

سنی جاتی ہے، فضاؤں سے کہی جاتی ہے

روز و شب معنی و مفہوم سے بالا ہو کر

آس اُمید کے جنگل میں اُتر آتے ہیں

روز سورج چلا آتا ہے اِسی محور پر

ریگ زاروں میں ترے خواب بچھے جاتے ہیں

ایسا لگتا ہے کہ گردش میں ہیں یہ کون و مکاں

کس کو کھویا ہے کہاں ڈوب گیا ہے تارا

کتنی بے چین ہے یہ مست ہوا تیرے بغیر

کتنی مبہم نظر آتی ہے فضا تیرے بغیر

کوئی تو ہے جو شبِ ہجر کا آنچل اوڑھے

یوں سرِ بام نکل آیا ہے مہتاب لیے

رات آئی ہے کئی راز چھپانے کے لیے

دوش پر دیپ محبت کے جلانے کے لیے

رات بے چین ہواؤں میں گھری جاتی ہے

٭٭٭

 

ماہِ اُمید۔۔۔

ایک اُمید کا دیا تنہا۔۔۔

جب اندھیرے میں گھر بناتا ہے

کسی قدر آس اور اُمنگوں سے

اپنے ہونے پہ مسکراتا ہے

جانیے کیا کہ بے خبر ہے وہ

اِس ستم کی اندھیری چالوں سے

اس اماوس کے پار کون گیا

کون لایا خبر اُجالوں سے

ایک امید کا دیا تنہا۔۔۔

جب ہمکتا ہے میرے دامن پر

کس قدر درد دل میں اٹھتا ہے

اُس کے روشن سجیلے  نینن پر

روشنی گر نہ دے سکی اُس کو

میرا وعدہ ہے راستہ دوں گی

ان گھنے جنگلوں کی سرحد تک

جانے والوں کا نقشِ پادوں گی

ایک امید کا دیا تنہا۔۔۔

میرے آنگن میں جھلملاتا ہے

جس کی مدھم سی روشنی میں مجھے

اس کے ہونے پہ پیار آتا ہے

٭٭٭

 

 خیال ڈوب رہا ہے مہیب ماضی میں

خیال ڈوب رہا ہے مہیب ماضی میں

کہ اس خیال کو چھو لوں قریب سے اک بار

شب وصال مرے گھر  بہ آ کے لوٹ گئی

کہ مہربان ہوئی تھی نصیب سے اک بار

٭٭٭

 

نقشِ پا

یوں سمندر کے کنارے تجھے اکثر دیکھا

جیسے اِک سوچ تری آنکھ میں بھر آئی ہے

موج در موج تلاطم کے فسانے سن کر

بات کچھ ہے جو ترے لب پہ ہنسی آئی ہے

یوں سمندر کے کنارے تجھے اکثر دیکھا

تنِ تنہا ترے قدموں کے نشاں جاتے ہیں

بھولنے والے تجھے بھول کے بھی ساحل پر

تیرے قدموں کے نشاں یاد بہت آتے ہیں

٭٭٭

 

وہ مجھ سے کہتے ہیں مسکرادو

وہ مجھ سے کہتے ہیں مسکرادو

ہوا ہے جو کچھ اسے بھلا دو

میں اُن سے کہہ دوں

کہ اب یہ ممکن نہیں رہا ہے

وہ رنجِ ہستی کہ زہر بن کر

مرے لہو میں سما چکا ہے

مرے تصور میں بس چکا ہے

وہ مجھ سے کہتے ہیں مسکرا دو

ہوا ہے جو کچھ اُسے بھلا دو

میں رات دن کی اُدھیڑ بن میں

وہ کرچیاں بھی سمیٹ لوں گی

جو میری آنکھوں میں چبھ رہی ہیں

جو میری سانسوں کو ڈس رہی ہیں

مجھے یقیں ہے کہ کانچ کا یہ حسین دھوکا

فریب کا بے کراں سراپا

ذرا سی آہٹ سے گر پڑے گا

وہ مجھ سے کہتے ہیں مسکرا دو

ہوا ہے جو کچھ اُسے بھلا دو

سنو!

یہ ممکن نہیں رہا اب!

کہ میرا دل، میرا خوش  نظر دل

کوئی تسلی نہیں سنے گا

کوئی حوالہ نہیں سنے گا

میں جانتی ہوں ۔۔۔

یہ میرا وحشی اُداس دل ہے

جو تجھ سے مجھ سے الگ تھلگ ہے

اُسے منانا نہیں ہے ممکن

اُسے تو جنگل کی آس ہے اب

تلاش یادوں کی باس ہے اب

مجھے تو حیرت سی ہو رہی ہے

وہ مجھ سے کہتے ہیں مسکرادو

٭٭٭

 

دیوارِ گریہ

ایک دیوار جو حائل ہے مری سوچوں میں

کتنے پیچیدہ سوالوں سے مجھے روکتی ہے

جب بھی میں رختِ سفر باندھتی ہوں شانے پر

اپنی جادو بھری ہستی سے مجھے ٹوکتی ہے

یہ جو دیوار کہ رہتی ہے سیہ خانوں میں

دن ڈھلے اپنے طلسمات کو دکھلاتی ہے

مجھ کو محصور کیے رکھتی ہے انگاروں میں

چار جانب رخِ انوار سے بہلاتی ہے

ایسا لگتا ہے کہ تاروں سے دمکتی ہوئی رات

اِک ذرا جنبشِ مژگاں سے بھی بجھ جائے گی

میری سوچوں کے تسلسل کو یہ بپھری ناگن

ایک ہی آن میں افسوس نگل جائے گی

صبح ہوتے ہی یہ دیوار سیہ خانوں میں

ریت کے ڈھیر کی مانند اتر جائے گی

رات کی جادوگری خواب سی بن جائے گی

شمع دانوں میں فقط راکھ ہی رہ جائے گی

اِک نیا دن مری ویران گزر گاہوں پر

لے کے کشکول مرے ساتھ اتر آئے گا

میرے دامن سے لپٹ کر یہ سمے کا ریلا

مجھ کو مجھ سے ہی جدا کرنے پہ اکسائے گا

ایک دیوار جو حائل ہے مری سوچوں میں

٭٭٭

 

عدم کے رستے

یہ میری دیوانگی یہ وحشت

مجھے کہاں لے چلی ہے جانم

یہاں کے سرو سمن اکیلے

یہاں کے جھرنے یہاں کے پربت

اُداس سوچوں میں گم سے کیوں ہیں؟

اے میرے مالک یہ تیری فطرت

یہ تیری قدرت یہ تیری ہستی

تھکی تھکی سی اُجاڑ کیوں ہے؟

یہ چاندنی کی اُداس خوش بو مرے سراپے کو ڈس رہی ہے

اے میرے مالک یہ تیری دنیا

کہ جس میں سب ہیں فقط تماشا

فقط زمیں کے حقیر ٹکڑے

تو پھر یہ سوچوں کا ایک ریلا۔۔۔

مری رگ و پے میں کیوں رواں ہے

مری شبوں کو اجاڑتا ہے

یہ کیوں مرے دل کو توڑتا ہے؟

اے میرے مالک اے میرے ہمدم

تو مجھ کو سنگِ گراں سمجھ کر

کسی سمندر میں غرق کر دے!

نئی مسافت کی اور پر تو

عدم کے رستے پہ دان کر دے

٭٭٭

 

ترے میرے خواب

میں سوچتی ہوں کہ گر آج اُن سے مل لیتے

میں سوچتی ہوں کہ یہ دل جسے طلب ہے تری

یہ دل کہ جس کو گھنے بادلوں نے گھیرا ہے

بسنت پھول کھلے ہوں کہ رُت ہو لالہ کی

مرے وجود کو خاموشیوں نے گھیرا ہے

میں سوچتی ہوں کہ شاید ترے لبوں کاطلسم

مجھے رہائی دلائے گا اِس اندھیرے سے

میں سوچتی ہوں کہ گر آج اُن سے مل لیتے

تو تیری روح مری روح کو        جِلا دیتی

تری نظر کی تپش بادلوں میں گم ہو کر

مجھے نویدِ سحر کا کوئی نشاں دیتی

تمام عمر مسافت میں کٹ گئی ہے مگر

مجھے یقیں ہے ترے دل کے پاس گھر ہے مرا

یہی وہ جھیل ہے، وادی ہے، اُس کے پار جہاں

سکوں کی نیند وفا کے گلاب رہتے ہیں

نہیں یقین تو پھر چل کے دیکھ ساتھ کبھی

اُسی جگہ پہ ترے میرے خواب رہتے ہیں

٭٭٭

 

باغ میں کھل رہی ہے اِک کونپل

باغ میں کھل رہی ہے اک کونپل

کہہ دو مالی سے دیکھ بھال کرے

سرخ سا آسمان لگتا ہے

آندھیوں کا ذرا خیال کرے

زندگی ٹوٹ پھوٹ جائے گی

بے ارادہ نہ کچھ کمال کرے

باغ میں کھل رہی ہے اِک کونپل

روشنی سے کہو کہ پاس رہے

سانس کی ڈور ہے بہت نازک

اے صبا تھم کے دم شناس رہے

موجِ ہستی سے مانگ کر دو پل

زندگی بھر نہ یوں اُداس رہے

باغ میں کھل رہی ہے اِک کونپل

اُس کو حق ہے کہ وہ پھلے پھولے

کاروبارِ حیات سے کہہ دو

اپنے خالق کا حکم مت بھولے

ہر کلی جو نمود پاتی ہے

پھول بن جائے اور ہوا چھولے

باغ میں کھل رہی ہے اک کونپل

٭٭٭

 

محبت سوچتے رہنا۔۔۔

محبت کیا ہے شاید بحرِ امکاں میں فنا ہونا

تمھاری چشمِ تر کے سامنے سب کچھ بھلا دینا

کبھی تاروں سے جاکے حالِ دل، حالِ چمن کہنا

کبھی چپ چاپ دن کرنا، یونہی چپ چاپ سوجانا

کبھی آنسو بہا لینا کبھی اشکوں کو پی لینا

مجھے سب یاد ہے وہ دن ڈھلے رستوں میں کھو جانا

محبت کیا ہے شاید زہر ہے، امرت ہے، سایا ہے

وہ سایا جو مری ہستی پہ اکثر لوٹ آیا ہے

مجھے مجبور کرتا ہے کہ میں اُس کی زباں بولوں

بھلا دوں خود کو اور دیوانگی کی راہ کو چن لوں

میں لفظوں کی امیں بن کر قضا کے زہر کو پی لوں

مجسم سادگی بن کر تمھارے تارِ دل چھولوں

محبت کیا ہے شاید راستوں پر ڈھونڈنا اُس کو

جسے ٹھکرا دیا پھر جذبِ دل سے پوجنا اُس کو

محبت سادگی سے سوچتے رہنا یہی اکثر۔۔۔!

کہ ہم منزل جنوں کی اور پیچھے چھوڑ آئے ہیں

گل و بلبل سے رشتہ تھا وہ رشتہ توڑ آئے ہیں

محبت بادلوں کے ساتھ پھر یکدم ہی چھائے گی

ہری کونپل سے باہم ہوکے دل میں پھوٹ آئے گی

تمھارے سب قوی دعووں سے سنگت چھوٹ جائے گی

محبت پھر تمھاری چشمِ تر میں لوٹ آئے گی

٭٭٭

 

تیسرا کنارا۔۔۔

بے شمار موسم ہیں بے شمار جذبے ہیں

تم سے کہنا باقی  ہیں تم سے سننا باقی ہیں

میری خامشی کو تم یہ نہیں سمجھ لینا

میرے دل کی دھڑکن میں تم نہیں رہے شامل

میرے دل کی کشتی کے اِک تمھی تو ہو ساحل

تم تو میری راہوں میں عکس ہو ستاروں کا

تم تو نرم جھونکا ہو میری تپتی آنکھوں پر

بے امان تنہائی تیرے دم سے ہے آباد

بے سبب اُداسی کا اِک تمھی تو ہو درماں

شام کے پرندوں کا، جلتی بجھتی شمعوں کا

آخری سہارا ہو، تیسرا کنارا ہو!

٭٭٭

 

فرار

میں اگر دُور کہیں دُور بساؤں دنیا

جس جگہ میں ہوں ، مرے ساتھ یہ تنہائی ہو

جس جگہ مجھ سے فقط میری ملاقات رہے

میری چاہت کے حوالے مری سچائی ہو

میں اگر دُور کہیں دُور بساؤں دنیا

میرے لہجے کا ترنّم مرا سرمایہ ہو

میری ہر سانس میں اُمید کی خوش بو مہکے

روشنی رنگِ گلِ لالہ کا اِک سایہ ہو

میں اگر دُور کہیں دُور بساؤں دنیا

وہ جہاں جس میں شب و روز کے آزار نہ ہوں

ٹھہرے پانی کی طرح وقت سہج کر گزرے

مسکرانے کے لیے خواہشیں درکار نہ ہوں

اب تو سو چا ہے کہ اِس دور میں آنکھوں کے لیے

روشنی مانگ کے لائیں گے کسی جگنو سے

راستے میں جو بکھر جائیں مرے خواب اگر

دار کے پھول مہک جائیں گے اِس خوش بو سے

میں اگر دُور کہیں دُور بساؤں دنیا

٭٭٭

 

آج لگتا ہے سمندر میں ہے طغیانی سی

آج لگتا ہے سمندر میں ہے طغیانی سی

جانے کس دہر سے آیا ہے یہ طوفانِ بلا

یہ جو طوفان کہ اِس میں ہیں کھنڈر خوابوں کے

ٹوٹتے خواب ہیں دھندلی سی گزر گاہوں کے

اَن کہی کوئی کہانی کوئی جلتا آنسو

آ کے دامن پہ ٹھہرتا ہوا بے کل شکوہ!

چپ سی سادھی ہے مرے      بت نے

مگر آنکھوں میں ۔۔۔

میرے ہر تاج محل کی ہے حقیقت واضح

جس میں رہتی ہے وہ شہزادی جسے قدرت نے

دل دھڑکتا ہوا بخشا ہے بدن پتھر کا

میں نے دیکھا ہے کہ وہ رات کے اندھیاروں میں

اپنے خوابوں کے محل خود ہی جلا دیتی ہے

اپنے ٹوٹے ہوئے پر خود ہی چھپا دیتی ہے

اپنے اشکوں کے دیے خود ہی بجھا دیتی ہے

خود ہی اپنے لیے لکھتی ہے سزاؤں کی کتاب

اپنے ہاتھوں سے چھپا دیتی ہے زخموں کے گلاب

آج لگتا ہے سمندر میں ہے طغیانی سی

آج لرزش سی ہے پیروں میں ، تھکن سانسوں میں

کرچیاں چبھنے لگی ہیں جو مری آنکھوں میں

آج لازم ہے کہ چپ چاپ گزر جائے شام

کوئی آہٹ ہو نہ دستک نہ ہی چھلکے کوئی جام

آج آئینے سے کترا کے گزر جانا ہے

آج شب گھور اندھیرے میں اتر جانا ہے

پھر نیا دن نئی مسکان جگا لائے گا

شب کا طوفان کناروں سے اُتر جائے گا

آج لگتا ہے سمندر میں ہے طغیانی سی

٭٭٭

 

ہوا کے ہاتھ۔۔۔

ہوا کے ہاتھ پہ لکھا ہے تیرے نام یہ خط

کہ جس میں اِس دلِ گمنام کی کہانی ہے

ادھورے خواب کی رنگین خامشی اوڑھے

اکیلی راہ پہ بچھڑی ہوئی جوانی ہے

ہوا کے ہاتھ پہ لکھے ہیں وہ سبھی شکوے

کو جو نظر سے کبھی، کنجِ لب پہ آ نہ سکے

وہ سب خیال مرے، منتشر ہواؤں سے

کسی بھی نقطۂ معنی پہ سر جھکا نہ سکے

میں ان ہواؤں سے کہہ دوں کہ اُن سے جا کے کہیں

یہ رات اب بھی اُسی چاند کو بلاتی ہے

بکھیرتے ہیں ستارے جو روپ کا کندن

نگاہِ شوق اُسی راستے پہ جاتی ہے

ہوا کے ہاتھ پہ لکھا ہے تیرے نام یہ خط۔۔۔

٭٭٭

 

آسیب

صحنِ گلشن میں آج پھر کلیاں

مسکرا کر بلا رہی ہیں ہمیں

اور ہونے لگی ہے سرگوشی

جیسے گزرے ہوئے سبھی موسم

آنے والی ہواؤں کی لے پر

گیت جادو بھرا سناتے ہیں

زندگی کے تمام حزن و ملال

ایک آسیب بن کے آتے ہی

٭٭٭

 

اَن کہے لفظ۔۔۔

وہ سارے لفظ جو لکھے نہیں گئے ہیں ابھی

مرے لہو میں رواں ہیں صداقتوں کی طرح

میں بوند بوند حقیقت کا زہر پیتی ہوں

میں اشک اشک سلگتی ہوں رَت جگوں کی طرح

وہ سارے لفظ جو لکھے نہیں گئے ہیں ابھی

خیالِ کن کی صداؤں کے منتظر ہیں ابھی

زمینِ خلد میں کلیوں کی آبیاری کو

مرے خیال کے انفاس معتبر ہیں ابھی

رہائی دینے کو بے چین ہیں مری آنکھیں

کہ اشک بن کے ٹپک جائیں میری تحریریں

میں شام کے سبھی منظر ہواؤں میں دیکھوں

اُجالے بن کے بکھر جائیں میری تصویریں

وہ سارے لفظ جو لکھے نہیں گئے ہیں ابھی

میں سوچتی ہوں ان الفاظ کی خموشی کو

بسیط بحر کی گہرائیاں عطا کر دوں

وہ قافلے کہ جو محصور ہیں خرابوں میں

جرس کی گونج کی مانند انھیں رِہا کر دوں

وہ سارے لفظ جو لکھے نہیں گئے ہیں ابھی۔۔۔

٭٭٭

 

وقت

میں نے صدیوں کا بار اُٹھایا ہے

میں شجر ہوں تری رفاقت کا

میری ہر شاخ سینچتی ہے نمو

دھوپ میں روپ ہوں تمازت کا

میں نے دیکھے ہیں سارے حزن و ملال

میں نے خوابوں کو زندگی دی ہے

اپنے افکار کے تسلسل سے

اِن اندھیروں کو روشنی دی ہے

میری آغوش میں پناہ تری

ہوں میں اِذن سفر ہواؤں کا

میرے سائے میں سکھ کے نغمے ہیں

سازِ دل سوز ہوں وفاؤں کا

میری منزل مگر نہیں کوئی

ہوں میں تنہا بھرے زمانے میں

میری تنہائی کو زوال نہیں

عکس بے رنگ ہیں فسانے میں

میری نظریں جو آسمان پہ ہوں

پاؤں میرے زمیں پہ رہتے ہیں

میرے ہم راز صرف ارض و سما

گوشۂ دل میں درد پلتے ہیں

میں ہمیشہ سے تھا ہمیشہ ہوں

کارواں زیست کے بدلتے ر ہے

کون جانے کہ اِن خلاؤں میں

میری آنکھوں کے دیپ جلتے رہے

مجھ کو جس کی تلاش ہے کب سے

وہ ستارہ کبھی طلوع نہ ہوا

منتظر ہوں ہزار صدیوں سے

اُس سفر کا کہ جو شروع نہ ہوا

٭٭٭

 

شہر آشوب

اے مرے دیس میں بستے ہوئے اچھے لوگو

خود ہی سوچو کہ سزا جیسی یہ تنہائی ہے

جس جگہ پھول مہکتے تھے وفاؤں کے کبھی

اُن فضاؤں میں اٹل رات کی گیرائی ہے

ان اندھیروں سے پرے آج بھی اِس دنیا میں

لوگ خوشحال، محبت سے رہا کرتے ہیں

آج بھی شام ڈھلے سکھ کی حسیں وادی میں

لوگ پیڑوں کے تلے روز ملا کرتے ہیں

روز اٹھتی ہے مہک اُن کے حسیں آنگن سے

سادگی جینے کا سامان ہوا کرتی ہے

اُن کی آنکھوں میں مہکتے ہیں گلابوں کے چمن

زندگی کیف کا عنوان ہوا کرتی ہے

اے مرے دیس میں بستے ہوئے اچھے لوگو

زندگی کون سے منظر میں گزاری تم نے

خاک اور خون سے لتھڑی ہوئی منزل کی طلب

کون سے قرض کی زنجیر اُتاری تم نے

یوں اُلجھتے ہو بھٹکتے ہوئے آہو کی طرح

کیسے آشوب میں اِک عمر گنوا دی تم نے

خار زاروں سے لکھی دل پہ کہانی دکھ کی

کون سی شب کی سیاہی کو        ِجلا دی تم نے

اے مرے دیس میں بستے ہوئے اچھے لوگو

خود کو پہچان کے اِس باب میں رُسوا نہ کرو

زندگی صرف محبت کا حسیں تحفہ ہے

اِس حسیں خواب کی تعبیر کا سودا نہ کرو

٭٭٭

 

ریت کا مسافر ۔۔۔

ریت کا مسافر تھا، رات کی حویلی میں

صرف رات بھر ٹھہرا جوگ لے لیا ا س نے

ریت کی ہتھیلی سے پھول ریت کے چن کر

خواب کی سہیلی سے روگ لے لیا اُس نے

صرف ایک لمحے کی مختصر کہانی کو

ریت کے مسافر نے یوں امر بنا ڈالا

کاسۂ محبت میں لے کے بھیک لفظوں کی

آرزو کی آنکھوں میں اشکِ تر بنا ڈالا

کون اب تجھے جانے، کون یاد رکھے گا

وقت کی اڑانوں کے کون آسمانوں میں

تو نے روگ پالا تھا، کس طرح گزارا تھا

ایک پل کے جیون کو اجنبی مکانوں میں

آج اپنے شاعر کو یہ ہمیں بتانا ہے

تو جو آگ میں جل کر گلستاں بناتا ہے

حرف حرف چن چن کر موتیوں کی لڑیوں سے

صبح کے ستاروں تک صحنِ دل سجاتا ہے

جو بھی تو نے لکھا ہے صرف تیری پونجی ہے

صرف ایک لمحہ ہے صرف ایک ساعت ہے

وقت کے سمندر میں صرف اِک یہی لمحہ

بے کراں علامت ہے  جذبِ دل کی چاہت ہے

٭٭٭

 

اِک سوال مرا۔۔۔

اپنے یزداں سے پوچھنا ہے مجھے

ایسے خوابوں میں روشنی کیوں ہے؟

جن کی تعبیر دسترس میں نہیں

اُن اُمنگوں کی کیا حقیقت ہے

جن کا انجام میرے بس میں نہیں

کیوں مرے راستے الجھتے ہیں

اُن گھنے جنگلوں کی سرحد سے

جن میں وحشت کے دیپ جلتے ہیں

زندگی کے عمیق رازِ نہاں

سر بہ سر ساتھ ساتھ چلتے ہیں

اپنے یزداں سے پوچھنا ہے مجھے

کیوں مرے دل میں تیری خواہش کی

شمع اِک بے قرار جلتی ہے

میں تو خود تیرا اِک حوالہ ہوں

کیوں اندھیروں میں جاں بھٹکتی ہے

تجھ کو پانے کے راستوں میں اگر

یوں مری  خاک، خاکِ راہ بنے

مثلِ ماہِ تمام تو مجھ کو

راستہ کیوں دکھا نہیں سکتا؟

اِن پریشان ریگ زاروں میں

نخلِ احساس کیوں نہیں ملتا

اپنے یزداں سے اِک سوال مرا۔۔

٭٭٭

 

موسمِ گل

یہ موسمِ گل کسی اداسی میں کھو گیا ہے

یہ رنگ موسم، یہ پھول پتے

نہ جانے کیا کچھ بتا رہے ہیں

ہوا کی لے پر اداس نغمہ سنا رہے ہیں

وہ خواب لمحے جو کھو گئے ہیں

جو تھک کے آنکھوں میں سو گئے ہیں

وہ خواب لمحے کہ جن کی خوشبو

کہ جن کی شبنم مجھے ہر اک پھول پر ملی ہے

سکونِ جاں کی یہ چند گھڑیاں

بہت ہی انمول چند لمحے

مرے خیالوں میں ہنس رہے ہیں

مجھے یقیں ہے کہ موسمِ گل

کبھی بھی اتنا حسیں نہیں تھا

٭٭٭

 

محبت دائمی سکھ ہے

محبت دائمی سکھ ہے

کہ جس کو موت کی گھڑیاں

کبھی کم کر نہیں سکتیں

یہ موسم اک دفعہ آئے

تو پھر آ کر ٹھہر جائے

حسیں شاداب سی کلیاں

نگاہوں میں سماں جائیں

تو پھر یہ مر نہیں سکتیں

خیالوں کی روانی میں کہ جیسے بہتے پانی میں

کنول کھل جائیں خوابوں کے

تو فطرت مسکراتی ہے

اشارہ کر کے تاروں سے

چھلکتے آبشاروں سے

مدھر سرگوشیاں کر کے ہمیں رستہ دکھاتی ہے

یہ رستہ کس قدر حیران کن منظر دکھاتا ہے

اسی رستے پہ انساں خود کو پہلی بار پاتا ہے

محبت کو سزاکہنے سے پہلے سوچ کر رکھنا

کہ جو اس سے بچھڑ جائے

اسے منزل نہیں ملتی

بکھر جائیں جو بن کر خاک پھر محفل نہیں ملتی

محبت دائمی سکھ ہے

٭٭٭

ماخذ:

http://urduyouthforum.org/shayari/shayari-Shaista-Mufti-Farrukh-4.htm

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید