فہرست مضامین
ہند کہانی
(حصہ سوم)
انتخاب و ترجمہ: عامر صدیقی
ڈاؤن لوڈ کریں
سرنگ
وِکیش نجھاون
وہ چلتی گاڑی میں لپک کر چڑھا۔
وہ بخوبی جانتا تھا کہ گاڑی پورے چھ بجے چھوٹتی ہے، لیکن دفتر کا کام اتنا زیادہ تھا کہ وہ اسی سوچ میں بیٹھا رہا تھا کہ تھوڑا بہت اور نمٹا لیا جائے۔ آخری چالیس پانچ منٹ تو ایسے نکلے تھے جیسے کسی نے گھڑی کی سوئیوں کو اپنے ہاتھ سے گھما دیا ہو۔ اچانک نظر گھڑی کی طرف گئی تو وہ ہڑبڑا کر اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ اوہ! مائی گاڈ۔ فائلیں تیزی سے دراز میں سمیٹ کر وہ باہر کی طرف بھاگا تھا۔
ابھی اس نے پلیٹ فارم کے اندر قدم رکھا ہی تھا کہ گاڑی نے آخری وسل دے دی۔ وہ چلتی گاڑی میں لپک کر چڑھ تو گیا، لیکن اب سیٹ ملے تب بات ہے نا۔
اس نے گردن آگے کر کے ڈبے میں اندر تک جھانکا۔ تمام ڈبے ایک دوسرے کے بیچ کھل رہے تھے۔ اتنی لمبے ڈبے میں اسے کہیں تو سیٹ مل ہی جائے گی۔ اس نے آگے بڑھنا چاہا۔
لیکن آگے بڑھنے کی جگہ ہی کہاں ہے۔ کتنے لوگ آپس میں چپکے چپکے کھڑے جھول رہے ہیں اور جنہیں کھڑے رہنے کی طاقت نہیں ہے۔ وہ چھپکلی کی طرح سیٹوں کے کونوں سے چپکے ہوئے ہیں اور کچھ تو فرش پر ہی کچھ اس طرح آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئے ہیں، جیسے کسی ڈرائنگ روم میں قیمتی قالین کے اوپر بیٹھے ہوں۔
ایک لمحے کے لیے وہ مسکرا دیا۔ لیکن اگلے ہی لمحے اسے اپنی مسکراہٹ خو دہی بے کار لگنے لگی۔ اگر اس میں کھڑے رہنے کی طاقت ختم ہو چکی ہوتی تو کیا وہ بھی ایسے ہی نہ بیٹھا ہوتا اور ابھی تو سفر لمبا ہے۔ جانے آگے کیا ہو؟
’’بھائی صاحب آپ کدھر جا رہے ہیں؟‘‘ ساتھ چلتے شخص نے پوچھ لیا تو اسے لگا جیسے اس کے کانوں میں کسی نے پگھلتا سیسہ انڈیل دیا ہے۔
گزشتہ پانچ برسوں سے وہ اسی طرح روزانہ گھر سے دفتر اور دفتر سے گھر آ جا رہا ہے اور ان پانچ سالوں میں نہ جانے کتنی بار اس سے یہ سوال کیا جا چکا ہو گا۔
کئی بار تو بڑی نرمی سے جواب دے دیتا ہے وہ۔ کئی بار خاموش رہتا ہے اور کئی بار تو بری طرح جھلا اٹھتا ہے۔
شاید آج بھی وہ جھلا کر کوئی جواب دے دیتا۔ لیکن اگلے ہی لمحے پاس والی سیٹ پر بیٹھے شخص نے بڑے ادب سے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’ آپ ادھر آ کر بیٹھ جائیں نا۔ ‘‘
وہ چونکا تھا۔ اتنے لوگ کھڑے ہیں اس شخص نے اسے ہی بیٹھنے کے لیے کیوں کہا؟ شاید اسے پہچانتا ہو۔ روز آنے جانے والوں کو ایک یہ بھی تو فائدہ ہوتا ہے۔
ان حضرت نے اپنے آپ کو تھوڑا سا دھکیلتے ہوئے اسے ایک کونے میں بٹھا لیا۔ اسے بیٹھتے دیکھ کر باقی لوگ کیا سوچتے ہوں گے۔ وہ کہیں اندر سے شرمندگی محسوس کرنے لگا۔ لیکن اسے کسی سے کیا لینا۔ اسے اپنے بارے میں سوچنا چاہیے۔ دل ہی دل میں وہ ان حضرت کا شکریہ ادا کرنے لگا۔
’’آپ کہاں تک جائیں گے؟‘‘ان حضرت نے پھر پوچھا تھا۔ اس بار اسے ذرا بھی برا نہیں لگا۔ جس شخص نے اس کے بارے میں اتنا سوچا۔ اب ان کا کچھ بھی پوچھ لینے کا حق بن جاتا ہے۔
’’ جی رائے پور تک جانا ہے۔ ‘‘اپنا جواب دینے کے ساتھ ساتھ اس نے بھی رسم نبھائی، ’’اور آپ؟‘‘
’’ اترنا تو ہمیں بھی رائے پور ہی ہے، لیکن وہاں سے دھیرپور کی بس پکڑیں گے۔ ‘‘
’’ آپ دھیر پور میں رہتے ہیں؟‘‘
’’ جی۔ ‘‘
’’ رائے پور تو آتے ہی ہوں گے؟‘‘
’’ اکثر آنا ہوتا رہتا ہے۔ جو چیز دھیر پور میں نہ ملے اسے لینے کیلئے رائے پور ہی آنا پڑتا ہے اور پھر کئی دوست احباب بھی رائے پور میں ہی رہتے ہیں۔ ‘‘
’’ اچھا! کس جگہ پر؟‘‘ اس نے بے چینی کا اظہار کیا۔
’’ گاندھی نگر میں۔ ‘‘
’’ گاندھی نگر۔ ‘‘ وہ ہچکچایا تھا، ’’ اجی میں بھی تو وہیں رہتا ہوں۔ ‘‘
اب ان حضرت نے غور سے اس کی طرف دیکھا۔ اس نے بھی ایک نظر بھر کر ان کی طرف دیکھا۔ جانے کیوں دونوں کو لگا کہ وہ ایک دوسرے سے کترانے لگے ہیں۔ دونوں کے درمیان ایک خاموشی سی چھا گئی۔
ایک تصویر اس کی آنکھوں کے آگے ابھر آئی۔ ان حضرت کو اس نے ماسٹر جی کے گھر میں دیکھا تھا۔ انہی کے کوئی رشتہ دار ہی تو ہیں۔ ذرا رک کر پوچھ ہی لیا، ’’ آپ ماسٹر کے۔۔ ۔؟‘‘
اس نے سوال توسن لیا، مگر سٹپٹا گیا۔
’’ ہمارے بہنوئی ہیں، پر اب تو کہتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔ ‘‘ ان حضرت کی آواز کافی پست تھی۔ بیشک وہ ایسا کیوں چاہیں گے کہ ان کی اس بات کو کو ئی دوسرا بھی سنے۔ کتنی شرمناک بات ہے۔ بات تو وہ اس سے بھی چھپا جاتے۔ لیکن وہ شخص جو اسی محلے میں رہتا ہو بھلا اس سے کیا چھپائیں گے۔
’’ ماسٹر جی کو گزشتہ سال جیل ہو گئی تھی تین سال کیلئے۔ اپنے ایک طالب علم کے ساتھ بد فعلی کر بیٹھے تھے۔ ‘‘
’’ چھی کتنی گندی بات تھی۔ ‘‘ اچانک اس کے منہ سے نکل گیا، ’’ماسٹر جی نے اچھا نہیں کیا۔ ‘‘
وہ حضرت اس کی طرف دیکھنے لگے۔ وہ دوبارہ بولا، ’’ استاد کو تو والدین سے بھی اوپر کا درجہ دیا جاتا ہے۔ ‘‘
اب تو وہ حضرت جیسے پورے کے پورے زمین میں گڑ گئے۔ انہوں نے منہ گھما لیا۔
ایک چھوٹا سا اسٹیشن آ گیا تھا۔ گاڑی کی رفتار سست ہوئی لیکن گاڑی رکی نہیں۔ اسٹیشن کے نکلتے ہی گاڑی نے دوبارہ رفتار پکڑ لی۔
کب تک وہ حضرت منہ گھمائے رہتے۔ انہوں نے گردن سیدھی کی تو اس نے دوبارہ سوال رکھ دیا، ’’ کیا حقیقت میں ماسٹر جی نے بہت بڑا گناہ نہیں کیا؟‘‘
ان حضرت کے ہونٹ جیسے خشک ہو رہے تھے، بولے، ’’ کوئی بھی گناہ چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا۔ گناہ تو گناہ ہی ہے۔ ‘‘
وہ ان کے چہرے کی طرف دیکھنے لگا۔ اسے لگا وہ کسی کتاب کا کوئی رٹا رٹایا جملہ بول رہے ہیں۔ یہ جملہ اس نے پہلے بھی کسی کتاب میں پڑھ رکھا ہے۔
اب وہ دونوں خاموش تھے۔ لیکن کھچا کھچ بھری اس گاڑی میں دونوں کی خاموشی سے بھلا کیا فرق پڑتا۔ کھڑکی کے پاس بیٹھی لڑکی جو نیلے دوپٹے میں لپٹی سمٹی بیٹھی ہوئی تھی، اچانک چیخ پڑی، ’’ اسے کیا ہوا؟‘‘ اس لڑکی کے پاس بیٹھا آدمی جو شاید اس کا باپ تھا۔ اس کی طرف کوئی توجہ ہی نہیں دے رہا تھا۔
’’ باؤ جی یہ لڑکی چیخی کیوں؟‘‘ اس سے رہا نہیں گیا تو اس نے اچک کر پوچھا۔
وہ آدمی کچھ نہیں بولا اور سامنے والی سیٹ پر بیٹھی عورت کی طرف دیکھنے لگا۔
وہ سمجھ گیا کہ یہ عورت بھی انہی کے ساتھ ہے۔ شاید لڑکی کی ماں ہے۔ اس عورت نے جھٹ سے لڑکی کو اپنی طرف کھینچ لیا اور اس کا چہرہ اپنی گود میں سٹا لیا۔
اب لڑکی سسکنے لگ گئی تھی۔ ایک اچھا خاصا شور بھرا ہوا تھا گاڑی کے اس ڈبے میں، جو بعد میں ایک لمبے سناٹے میں تبدیل ہو گیا۔
کسی نے بھی اس کے رونے کی وجہ نہیں پوچھی۔ کم از کم وضعداری بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے۔
پر وہ بھی عجیب ہے۔ اب ہر کسی سے کیا وضعداری نبھاتا رہے۔ خواہ مخواہ الجھن میں پڑ رہا ہے۔ کوئی جسمانی تکلیف ہو گی اسے۔ جسم میں تکلیف زیادہ ہو تو رونا تو آ ہی جاتا ہے۔ کوئی زنانہ تکلیف بھی ہو سکتی ہے۔ اب کوئی پوچھے کیا اور وہ بتائے کیا۔
اسٹیشن آتے جا رہے تھے اور پیچھے چھوٹتے جا رہے تھے۔ نہ جانے کتنے لوگ گاڑی سے اترتے اور کتنے لوگ اور چڑھ جاتے۔ اسے لگ رہا تھا لوگ وہی ہیں بس چہرے بدل رہے ہیں۔
سامنے بیٹھی دوسری عورت نے دونوں بچوں کو بغل میں سٹایا ہوا تھا۔ کسی وقت تو وہ انہیں ایسے دبوچ لیتی جیسے وہ پنچھی ہیں اور کسی بھی وقت پنکھ پھڑپھڑاتے ہوئے اڑ جائیں گے۔ لیکن ایسے میں ان کا دم گھٹ گیا تو!۔ وہ پوچھنے ہی لگا تھا کہ اس سے پہلے اوپر والی برتھ پر بیٹھا آدمی بول اٹھا، ’’ بہن جی بچوں کو ذرا ڈھیلا چھوڑ دیجئے۔ ‘‘
’’ نہیں! یہ بچے میرے ہیں۔ ‘‘
’’ ہاں بچے تو آپ ہی کے ہیں۔ مگر کیا انہیں دبوچ کر مار ہی ڈالیں گی؟‘‘
’’ انہیں ڈھیلا چھوڑ دیا تو وہ چھین کر لے جائے گا۔ ‘‘
’’ وہ کون؟‘‘
’’ ان کا باپ۔ وہ کہتا ہے یہ بچے اس کے ہیں۔ ‘‘
’’ تو آپ اپنے شوہر سے بھاگ کر آ رہی ہیں۔ ‘‘
’’ ہاں۔ ‘‘
’’ جا کہاں رہی ہیں؟‘‘
’’ اپنے ماں باپ کے پاس۔ ‘‘
’’ وہ وہاں بھی آ گیا تو؟‘‘
’’ وہاں سے بھی بھاگ جاؤں گی۔ ‘‘
’’ کہاں؟‘‘
’’ جہاں وہ نہ پہنچ سکے۔ ‘‘
اوپر والی برتھ پر بیٹھا آدمی قہقہہ مار کر ہنس دیا۔ کتنا بے شرم آدمی ہے۔ دوسروں کے مصائب پر ہنستا ہے۔ پر اس کا وہ قہقہہ تو ہر تھوڑی دیر بعد گاڑی کے اندر گونجنے لگا۔
’’ بھائی صاحب آپ بے وجہ کیوں ہنسے چلے جا رہے ہیں؟‘‘
’’ کیا۔ ‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’ آپ دیکھ نہیں رہے ہیں میں تاش کھیل رہا ہوں۔ ‘‘
’’ تاش! اکیلے اکیلے ہی۔ ہمیں ہی ساتھ ملا لیا ہوتا۔ ‘‘
’’ نہیں میں کسی کے ساتھ نہیں کھیلا کرتا۔ اکیلا ہی کھیلتا ہوں۔ ‘‘
’’ ایسا کیوں؟‘‘
’’ دوسروں کے ساتھ کھیلنے میں ہار جیت کا ڈر رہتا ہے۔ ‘‘
’’ ڈر تو شکست کا ہوتا ہے جیت کا کیسا خوف؟‘‘
’’ میں ان دونوں سے آزاد رہنا چاہتا ہوں۔ ‘‘
کیسا پاگل آدمی ہے۔ ان کے درمیان کچھ اور بھی بات ہوتی۔ لیکن گاڑی کی وسل کی آواز میں سب کچھ دب گیا۔ کوئی بڑا اسٹیشن آ گیا تھا۔ اب تو بھاگم بھاگ مچ گئی۔
اس کی سیٹ سے کسی شخص کے اٹھنے کی وجہ سے، وہ تھوڑا پھیل کر بیٹھ گیا۔ لیکن کچھ لمحے بعد ہی اسے پھر سکڑنا پڑا۔
ایک بوڑھی عورت اس کے پاس آ کھڑی ہوئی تھی۔ گاڑی کے جھٹکوں سے وہ کبھی بھی گر سکتی تھی۔ اس نے بوڑھی عورت کو بیٹھنے کی جگہ دے دی۔
’’ کہاں تک جاؤ گی اماں؟‘‘ بوڑھی عورت کے بیٹھتے ہی اس نے سوال رکھ دیا۔
بوڑھی عورت نے کوئی جواب نہیں دیا تو اسے لگا بوڑھی عورت بلند سنتی ہے۔ وہ دوبارہ اونچی آواز سے بولا، ’’ اماں کہاں تک جاؤ گی؟‘‘
’’ جہاں قسمت لے جائے گی۔ ‘‘
وہ ہنس پڑا اور بولا، ’’ یہ قسمت کی گاڑی نہیں ہے اماں۔ یہ تو حکومت کی گاڑی ہے۔ کہیں پر بھی اتار پھینکے گی تمہیں۔ ‘‘
’’ جب قسمت کی گاڑی نے ہی اتار پھینکا تو پھر کوئی بھی گاڑی اتار پھینکے اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ ‘‘
’’قسمت کو کیوں کوستی ہو اماں۔ اپنوں نے گھر سے نکال دیا ہو گا۔ بہو بیٹے نے بے دخل کر دیا ہو گا۔ یہی نا۔ ‘‘
اب وہ کچھ نہیں بولی۔ آنسو اس کی آنکھوں سے بہنے لگے۔
اچانک گاڑی سست ہونے لگی اور پھر رک گئی۔ کمال ہے گاڑی جنگل میں ہی رک گئی۔ سب ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہوئے حکومت کو کوسنے لگے۔ گاڑی پہلے ہی ایک گھنٹہ لیٹ ہے اب مزید لیٹ ہو جائے گی۔
پانچ منٹ۔۔ دس منٹ۔۔ ۔ آدھا گھنٹہ۔ آخر گاڑی کے رکنے کی کوئی وجہ بھی تو پتہ چلے۔ اب تک کتنے ہی لوگ گاڑی سے اتر کے ٹریک پر ادھر ادھر بھاگنے لگے تھے۔
’’یہ لوگ بھاگ کیوں رہے ہیں؟‘‘ اس نے اونچی آواز میں گاڑی سے باہر کھڑے ایک شخص سے پوچھا۔
’’سنا ہے ایک عورت دو بچوں کے ساتھ گاڑی کے نیچے آ گئی ہے۔ ‘‘
دو بچوں کے ساتھ ایک عورت! وہ چونکا۔ اس کے پورے بدن میں ایک جھر جھری سی ہوئی۔ جو عورت اس کے سامنے والی سیٹ پر دو بچوں کو بغل میں سٹائے بیٹھی تھی، وہ کہاں گئی؟ واقعی وہ اپنی سیٹ پر نہیں ہے۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے تو وہ یہیں پر تھی۔ وہ یہاں سے کب اٹھی پتہ ہی نہیں چلا۔ لیکن ہو سکتا ہے گاڑی کے نیچے جو عورت آئی ہے، وہ کوئی اور ہو۔ اس نے گاڑی سے اتر کر آگے جا کر دیکھنا چاہا، لیکن وہ تو ہل ہی نہیں پا رہا تھا.۔ اسے لگا وہ بالکل بے جان ہو گیا ہے۔ پتھر بن گیا ہے وہ۔
گاڑی کب آگے سرکنے لگی اسے نہیں پتہ۔ وہ ادھر ادھر دیکھنے لگا تو ماسٹر جی کا سالا بولا۔ ’’ بس اپنا اسٹیشن آنے والا ہے۔ آپ بھی جوتوں کو کس لیجئے گا۔ ‘‘
وہ کچھ نہیں بولا۔ خاموشی سے کھڑکی کی طرف دیکھنے لگا۔ وہ لڑکی جو روتی روتی سو گئی تھی جاگ چکی تھی۔ اس کا باپ اس کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگا تو لڑکی نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا۔ مرد اور عورت ایک دوسرے کا چہرہ دیکھنے لگے۔ لڑکی دوپٹے سے سر کو مکمل طور پر ڈھانپتی ہوئی کھڑکی کے اور پاس سمٹ گئی۔ اس نے سر ہاتھوں میں چھپا لیا۔ اچانک وہ پھر سسک اٹھی۔ تھوڑی ہی دیر میں اس کی سسکیاں رونے میں تبدیل ہو گئیں۔
’’ یہ کیوں رو رہی ہے؟‘‘وہ بوڑھے شخص کے کندھے پر ہاتھ رکھتا ہوا بولا۔
اس نے سب کے چہروں کی طرف دیکھا۔ پھر بولا، ’’یہ لڑکی نہیں ہمارا گناہ رو رہا ہے۔ ‘‘
یہ کیسا جواب تھا۔ تمام لوگ ایک دوسرے کے چہروں کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے۔
’’ کیسا گناہ؟‘‘ اس نے ہمت کرتے ہوئے پوچھا۔
’’ سب سے بڑا گناہ جو ہم نے کیا تھا۔ ‘‘
’’ سب سے بڑا گناہ!۔ ‘‘ ماسٹر جی کے سالے نے تو بڑے اعتماد سے کہا تھا کہ گناہ گناہ ہوتا ہے . وہ چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا. لیکن اس بوڑھے کا کہنا ہے کہ اس نے سب سے بڑا گناہ کیا ہے۔ آج تو سچ میں پتہ چل جائے گا کہ سب سے بڑا گناہ کون سا ہوتا ہے اور وہ کتنا بڑا ہوتا ہے۔
’’ کیا بیمار ہے آپ کی لڑکی؟‘‘ ایک سر ابھرا تھا۔
’’ جی ہاں بیمار ہے۔ ‘‘
’’ کیا بیماری ہے اسے؟‘‘
’’ حواس کے نا ہونے کی بیماری۔ ‘‘
’’ یہ کون سی بیماری ہوتی ہے؟‘‘
’’ پاگل پن کی بیماری۔ ‘‘
’’ اگر یہ بچپن سے پاگل تھی تو اس کا علاج کیوں نہیں کرایا؟ کسی ڈاکٹر سے دکھایا ہوتا۔ ‘‘
’’ کوئی بھی پیدا ہوتے ہی پاگل نہیں ہوتا، پرورش طریقے سے نہ ہو تو انسان پاگل ہو جاتا ہے۔ ‘‘
’’ پھر؟‘‘
’’ یہ کم بخت کب بڑی ہو گئی پتہ ہی نہیں چلا۔ پاگل پنے کے بیج کب اس کے اندر پھیلتے چلے گئے یہ نظر ہی نہیں آیا۔ ‘‘
’’ آج کل تو ہر چیز کا علاج ہے۔ بہت ترقی کر لی ہے میڈیکل سائنس نے۔ ایشور سے دعا کی ہوتی۔ سیانوں سے رائے لی ہوتی۔ آپ کی بیٹی ٹھیک ہو سکتی تھی۔ ‘‘
’’ ہاں بہت ترقی کر لی ہے سائنس نے۔ اس موئی کو تو بجلی کے جھٹکے بھی نہ ٹھیک کر سکے۔ دعائیں بھی بہت کیں۔ لیکن ایشور کتنا سن پاتے ہیں پتہ نہیں۔ سیانوں سے بھی رائے لی تھی۔ یہ سیانوں نے ہی کہا تھا کہ اس کی شادی کر دو۔ اپنے آپ ٹھیک ہو جائے گی اور ہم نے اس کی شادی کر دی۔ اپنے سر کا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے اسے دوسرے کے سر پر ڈال دیا۔ ارے جو لڑکی ہمیں نوچتی رہی وہ بھلا دوسرے کو کیسا سکھ دے سکتی تھی۔ اس کا آدمی بے چارہ تو روتا تھا۔ کہتا تھا اسے لے جاؤ۔ پر ہم نے اس کی ایک نہ سنی۔ آخر بیچارے نے خود کشی کر لی۔ اس کا تیجا کر کے ہی لوٹ رہے ہیں۔ ‘‘
لڑکی کا رونا چیخوں میں بدل چکا تھا۔
’’ بھائی صاحب اٹھ جائیں، رائے پور آ گیا ہے۔ ‘‘ ماسٹر جی کا سالا اسے اٹھا رہا تھا۔
وہ اٹھا اور اترنے کے لیے آگے بڑھا۔ وہ بڑھتا چلا گیا تھا۔ لیکن وہ اترے کیسے، اترنے کیلئے کہیں کوئی دروازہ ہی نہیں تھا۔ گاڑی ایک لمبی تاریک سرنگ میں تبدیل ہو چکی تھی۔ ماسٹر، دو بچوں کو بغل میں دبوچے وہ عورت، اکیلا تاش کھیلتا آدمی، بے گھر کر دی گئی بوڑھی عورت اور اس پاگل لڑکی کی چیخیں، برابر اس کا پیچھا کرنے لگی تھیں۔
***
سکندر
ڈاکٹر شِبن کرشن رَینا
رات کے گیارہ بجے اور اوپر سے جاڑوں کے دن۔ میں بھی مزے سے رضائی اوڑھے نندیا دیوی کے چرن میں چلا گیا تھا۔ اچانک مجھے لگا کہ کوئی میری رضائی کھینچ کر مجھے جگانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اب آپ تو جانتے ہی ہیں کہ ایک تو میٹھی نیند اور وہ بھی تین کلو وزنی رضائی کی گرماہٹ میں سِکی نیند، کتنی پیاری، کتنی دلکش اور مزیدار ہوتی ہے . میرے منہ سے اچانک نکل پڑا، ’’بھئی کیا بات ہے؟ یہ کون میری رضائی کھینچ رہا ہے۔ بڑی میٹھی نیند آ رہی ہے ’’کہتے کہتے میں نے زور کی جمائی لی۔ ’’ تم لوگ میری اس پیاری رضائی کے پیچھے کیوں پڑے ہو؟ پرسوں بھی اسے لے گئے تھے اور آج بھی لے جانا چاہتے ہو۔ دیکھو، مجھے بڑی اچھی نیند آ رہی ہے، جا کر کوئی دوسری رضائی یا کمبل دیکھ لو۔ ‘‘
اس دوران کمرے کی بتی جلی اور میں نے دیکھا کہ میری شریمتی جی سامنے کھڑی ہے۔ اس کے چہرے سے بدحواسی اور بے چینی کے آثار صاف نظر آ رہے تھے۔ شریمتی جی کا بدحواسی بھرا چہرہ دیکھ کر میری نیند کی ساری کیفیت، جس میں خوب مٹھاس گھلی ہوئی تھی، اڑنچھو ہو گئی۔ میں نے چھوٹتے ہی پہلا سوال کیا۔
’’گو گی کی ماں بات کیا ہے؟ تم اتنی نروس کیوں لگ رہی ہو؟ سب ٹھیک ٹھیک تو ہے نا؟‘‘
’’سب ٹھیک ہوتا تو آپ کو جگاتی ہی کیوں بھلا؟‘‘
’’پر ہوا کیا ہے، کچھ بتاؤ گی بھی؟‘‘
’’اجی ہونا ہوانا کیا ہے؟ آپ کے پکے دوست منشی جی باہر گیٹ پر کھڑے ہیں۔ ساتھ میں کالونی کے دو چار لوگ اور ہیں۔ گھنٹی پر گھنٹی بجائے جا رہے ہیں اور آواز پر آواز دے رہے ہیں۔ ہو نہ ہو کالونی میں ضرور کوئی لفڑا ہوا ہے۔ ‘‘
منشی جی کا نام سنتے ہی میں نے رضائی ایک طرف سرکا دی اور جلدی جلدی کپڑے تبدیل کر کے میں باہر آ گیا۔ شریمتی جی بھی میرے پیچھے پیچھے چلی آئی۔ برآمدے کی لائٹ جلا کر میں گیٹ پر پہنچا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ منشی جی کمبل اوڑھے بغل میں کچھ دبائے، امید بھری نظروں سے میرے باہر نکلنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ میں نے پوچھا۔
’’کیا بات ہے منشی جی؟ اس کڑکتی سردی میں آپ اور اس وقت اور یہ۔ یہ اپنی بغل میں کیا دبائے ہوئے ہیں؟‘‘ اس سے پہلے کہ منشی جی میری بات کا جواب دیتے، ان کے ساتھ آئے ایک دوسرے شخص نے جواب دیا، ’’ بھائی صاحب، ان کی بغل میں ’’سکندر‘‘ہے، اس کے گلے میں ہڈی اٹک گئی ہے، بے چارہ دو گھنٹے سے تڑپ رہا ہے۔ ‘‘
مجھے سمجھنے میں دیر نہیں لگی۔ سکندر کا نام سنتے ہی مجھے اس سفید جھبرے کتے کا دھیان آیا۔ جسے دو سال پہلے منشی جی کہیں سے لائے تھے اور بڑے شوق سے پالنے لگے تھے۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا، منشی جی بھرائی ہوئی آواز میں بولے۔
’’بھائی صاحب، کچھ کیجیئے نہیں تو یہ بیچارہ تڑپ تڑپ کر مر جائے گا۔ دیکھئے تو بڑی مشکل سے سانس لے پا رہا ہے۔ اوپر سے آنکھیں بھی پھٹنے کو آ گئی ہیں اس کی۔ ‘‘
’’پر منشی جی، میں کوئی ڈاکٹر تو نہیں ہوں جو میں اس کو ٹھیک کر دوں۔ اسے تو فوری طور ہسپتال، میرا مطلب ہے ویٹرنری ہسپتال لے جانا چاہئے۔ وہیں اس کا علاج ہو سکتا ہے۔ ‘‘ میں نے ہمدردی دکھاتے ہوئے کہا۔
’’اسی لیے تو ہم آپ کے پاس آئے ہیں۔ آپ اپنی گاڑی نکالیں تو اسے اسی دم ہسپتال لے چلیں۔ اس کی حالت مجھ سے دیکھی نہیں جا رہی۔ ‘‘ منشی جی نے یہ بات کچھ ایسے کہی گویا ان کا کوئی سگا ان سے بچھڑنے والا ہو۔
ایشور نے نہ جانے کیوں مجھے حد سے زیادہ حساس بنایا ہے۔ اوروں کے دکھ میں دکھی اور ان کی خوشیوں میں خوش ہونا، میں نے اپنے دادا سے سیکھا۔ منشی جی ہمارے پڑوس میں ہی رہتے ہیں۔ بڑے ہی من موجی اور پھکڑ قسم کی مخلوق ہیں۔ پریشانی یا تشویش کا کوئی اظہار میں نے آج تک ان کے چہرے پر کبھی نہیں دیکھا۔ مگر آج سکندر کے لئے وہ جس قدر پریشان اور بے چین لگ رہے تھے، اس سے میرا دل بھی پسیج اٹھا اور میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ انسانی رشتوں کی طرح جانوروں کے ساتھ بھی انسان کا رشتہ کتنا قریبی اور جذباتی ہوتا ہے۔ انسانی رشتوں میں تو پھر بھی فراڈ یا خود غرضی کی بو آ سکتی ہے۔ مگر جانوروں کے ساتھ انسانوں کا رشتہ قدیم زمانے سے ہی مخلصانہ، دوستانہ اور بڑا قریبی رہا ہے۔
میں نے منشی جی سے کہا، ’’آپ فکر نہ کریں۔ میں ابھی گاڑی نکالتا ہوں۔ خدا نے چاہا تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ‘‘
سکندر کو لے کر ہم سب گاڑی میں بیٹھ گئے۔ ویٹرنری ہسپتال تقریباً پانچ کلومیٹر دور تھا۔ میں نے منشی جی سے پوچھا، ’’منشی جی، یہ تو بتائیے کہ آپ نے اپنے اس کتے کا نام ’’ سکندر ‘‘کیسے رکھ لیا؟ لوگ تو اپنے کتوں کا نام تو زیادہ انگریزی طرز پر ٹونی، سویٹی، پونی، کیٹی وغیرہ رکھتے ہیں۔ سکندر نام تو میں نے پہلی بار سنا ہے۔ ‘‘
میری بات کا جواب منشی جی نے فخریہ انداز میں دیا۔
’’بھائی صاحب، جب انگریز یہاں سے چلے گئے تو ہم انگریزی ناموں کو کیوں اپنائیں؟ انگریزی نام رکھنے کا مطلب ہے انگریزیت یعنی غیر ملکی ثقافت کو فروغ دینا۔ میری بڑی بیٹی نے مجھے پانچ چار نام تجویز تھے۔ موتی، شیرو، بھولا، ہیرا، سکندر وغیرہ۔ مجھے سکندر نام اچھا لگا اور یہی نام اس کو دیا۔ ‘‘
ہسپتال نزدیک آ رہا تھا۔ اس دوران میں نے منشی جی سے ایک سوال اور کیا۔
’’اچھا یہ بتائیے کہ یہ ہڈی اس سکندر کے گلے میں کس طرح پھنس گئی؟ آپ تو ایک دم شاکا ہاری ہیں۔ ‘‘
اس بات کا جواب منشی جی نے کچھ اس طرح دیا گویا انہیں معلوم تھا کہ میں یہ سوال ان سے ضرور پوچھوں گا۔ وہ بولے۔
’’بھائی صاحب، اب آپ سے کیا چھپانا۔ آپ سنیں گے تو نہ جانے کیا سوچیں گے۔ ہوا یہ کہ میری شریمتی جی نے آپ کی شریمتی جی سے یہ کہہ رکھا ہے کہ جب بھی کبھی آپ کے گھر میں نان ویج بنے تو بچی کھچی ہڈیاں آپ پھینکا نہ کریں بلکہ ہمیں بھجوا دیا کریں ہمارے سکندر کے لئے، آج آپ کے یہاں دوپہر میں نان ویج بنا تھا نا؟۔ ‘‘
’’ ہاں بنا تھا۔ ‘‘ میں نے کہا۔
’’بس آپ کی بھجوائی ہڈیوں میں سے ایک اس بیچارے کے حلق میں اٹک گئی۔ ‘‘ یہ کہہ کر منشی جی نے بے پناہ محبت سے سکندر کی پشت پر ہاتھ پھیرا۔ منشی جی کی بات سن کر احساسِ گناہ کے مارے میری کیا حالت ہوئی ہو گی، اس بات کا اندازہ اچھی طرح لگایا جا سکتا ہے۔ چند منٹ کے بعد ہم ہسپتال پہنچے۔ خوش قسمتی سے ڈاکٹر ڈیوٹی پر مل گیا۔ اس نے سکندر کو ہم لوگوں کی مدد سے زور سے پکڑ لیا اور اس کے منہ کے اندر ایک لمبا چمٹا نما کوئی اوزار ڈالا۔ اگلے ہی لمحے ہڈی باہر نکل آئی اور سکندر کے ساتھ ساتھ ہم سب نے بھی سکون کی سانس لی۔ اب تک رات کے ساڑھے بارہ بج چکے تھے۔
’’گھر پہنچنے پر شریمتی جی بولی، ’’ کیوں جی نکل گئی ہڈی سکندر کی؟‘‘
شریمتی جی کی بات سن کر مجھے غصہ تو آیا، مگر تبھی اپنے آپ کو ٹھنڈا کر کے میں نے کہا، ’’کیسے نہیں نکلتی ہڈی، گئی بھی تو اپنے گھر سے ہی تھی۔ ‘‘
میری بات سمجھنے میں شریمتی جی کو دیر نہیں لگی۔ وہ شاید کچھ واضح کرنا چاہتی تھی، مگر میری تھکاوٹ اور بوجھل پلکوں کو دیکھ چپ رہی۔
دوسرے دن صبح سویرے منشی جی سکندر کو لے کر میرے گھر آئے۔ کل جو میں نے ان کے لئے کیا تھا۔ اس کے لئے میرا شکریہ ادا کرنے لگے۔
میں نے سنجیدہ لہجے میں کہا۔ ’’منشی جی اس میں شکریہ کی کیا بات ہے؟ تکلیف کے وقت ایک پڑوسی دوسرے پڑوسی کے کام نہیں آئے گا۔ تو کون آئے گا؟‘‘
میری بات سن کر شاید ان کا حوصلہ کچھ بڑھ سا گیا۔ کہنے لگے، ’’آپ برا نہ مانیں تو ایک تکلیف آپ کو اور دینا چاہتا ہوں۔ ‘‘
’’کہیے۔ ‘‘ میں نے دھیمے سے کہا۔
’’وہ وہ ایسا ہے کہ۔۔ ۔۔ ۔ ‘‘
’’منشی جی بالکل مت ہچکچائیں صاف صاف بتائیے کہ کیا بات ہے؟‘‘
’’ایسا ہے بھائی صاحب، میں اور میری شریمتی جی ایک ماہ کے لئے تیرتھ یاترا پر جا رہے ہیں۔ ہم نے سوچا کہ کیوں نہ سکندر کو آپ یہاں چھوڑ جائیں۔ آپ کا من بھی لگے گا، چوکیداری بھی ہو گی اور سکندر کو کھانے کو بھی اچھا ملے گا۔ ‘‘ منشی جی نے اپنی بات کچھ اس طرح میرے سامنے رکھی گویا انہیں پکا یقین ہو کہ میں فوری طور ہاں کہہ دوں گا۔
منشی جی میرا جواب سننے کے لئے مجھے امید بھری نظروں سے تکنے لگے۔ اس درمیان انہوں نے دو ایک بار سکندر کی پشت پر ہاتھ بھی پھیرا جو مجھے دیکھ کر برابر غرائے جا رہا تھا۔ میں نے ذرا سنجیدہ ہو کر انہیں سمجھایا۔
’’دیکھئے منشی جی، آپ تو جانتے ہی ہیں کہ ہم دونوں میاں بیوی نوکری کرتے ہیں۔ بچے بھی باہر ہی رہتے ہیں۔ یہاں سکندرکی دیکھ بھال کون کرے گا؟ اور پھر بات ایک دو دن کی نہیں پورے ایک مہینے کی ہے۔ آپ شاید نہیں جانتے کہ جانوروں میں کتا بڑا جذباتی ہوتا ہے۔ ویری سینٹی منٹل۔ مالک کی جدائی کا غم اسے برداشت ہی نہیں ہوتا۔ آپ کی ایک ماہ کی جدائی شاید یہ جاندار برداشت نہ کر پائے اور اور ایشور نہ کرے کہ۔۔ ۔۔ ‘‘
’’نہیں نہیں ایسا مت کہیے .۔ سکندر سے ہم دونوں میاں بیوی بے انتہا محبت کرتے ہیں، یہ تو ہماری زندگی کا ایک حصہ سا بن گیا ہے۔ اس کے لئے ہم تیرتھ یاترا کا خیال چھوڑ کر سکتے ہیں۔ ‘‘ منشی جی نے یہ الفاظ جذباتی ہو کر کہے۔
’’ تب پھر آپ ایسا ہی کریں۔ تیرتھ یاترا کا آئیڈیا چھوڑ دیں اور سکندر کی خدمت میں لگ جائیں۔ ‘‘ میں نے بات کو سمیٹتے ہوئے کہا۔
میری بات سن کر وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔ سکندر کو ایک بار پھر پچکار کر جاتے جاتے مجھ سے کہنے لگے، ’’بھائی صاحب، جب بھی آپ کے گھر میں نان ویج کھانا بنے تو وہ۔ وہ بچی کھچی ہڈیاں آپ ہمیں بھجوا دیا کریں۔ ‘‘
’’پر منشی جی ہڈی پھر سکندر کے گلے میں اٹک گئی تو؟۔ ‘‘
’’اس بات کی آپ فکر نہ کریں۔ اس بار آپ کو نیند سے نہیں جگائیں گے۔ کسی اور پڑوسی کو تکلیف دیں گے۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے منشی جی سکندر کی چین کو تھامے لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے اپنے گھر کی طرف چل دیئے۔
***
اس کی خوشبو
سمن کمار گھئی
گھر کا دروازہ کھولتے ہی خوشبو کا ایک جھونکا ونے کے اندر تک اتر گیا۔ وہ آہستہ سے بڑبڑایا۔
’’یہ خوشبو میں پہچانتا ہوں۔ ‘‘
ہال وے میں ایک ہاتھ سے دیوار کا سہارا لیتے ہوئے، ہمیشہ کی طرح دوسرے ہاتھ سے جوتے کے تسمے کو کھینچتے ہوئے ایک بار پھر ذرا اونچی آواز میں بولا، ’’یہ خوشبو میں پہچانتا ہوں۔ ‘‘
اپنے پاپا کی آواز سن کر ترون اپنے کمرے سے باہر آیا۔
’’کیا کہا آپ نے؟‘‘
ونے نے فوراً سامنے دیکھا اور حیران ہوتے ہوئے اس سے پوچھا، ’’ترون تم! اس وقت گھر میں؟ اسکول سے جلدی واپس آ گئے کیا۔ ‘‘
’’ہاں پاپا۔ ‘‘ ترون نے مختصر سا جواب دیا۔ اس کے لہجے پر کچھ ایسی ہچکچاہٹ تھی کہ گویا وہ کوئی غلط کام کرتے ہوئے پکڑا گیا ہو اور اب اسے ایسے ہی کتنے سوالات کے جوابات دینے پڑیں گے اور پھر کہیں جا کر پیچھا چھوٹے گا۔
ونے کا تسمے والا ہاتھ وہیں کا وہیں رک گیا۔
’’سب ٹھیک تو ہے نہ؟‘‘
’’ہاں پاپا، سب ٹھیک ہے۔ بس آج اسکول میں آخری پیریڈ میں کچھ بھی ہونے والا نہیں تھا۔ ریپلس منٹ ٹیچر تھا سو ساری کی ساری کلاس گھر بھاگ گئی۔ ‘‘
’’یہ تو ٹھیک نہیں ہے۔ مانا کہ مستقل ٹیچر نہیں تھا پر نیا ٹیچر کچھ تو پڑھاتا ہے۔ ایسا ہی کرتے رہو گے تو یونیورسٹی میں داخلے کے نمبر بھی نہیں پا سکو گے۔ ‘‘ بغیر تسمہ کھولے ہی ونے نے ایک چھوٹی سی تقریر کر ڈالی۔ ایک پاؤں پر کھڑے کھڑے ونے کو تھوڑی سی مشکل پیش آئی تو اس نے پھر سے جوتا اتارنے کا کام شروع کیا۔ ابھی تک اس کا ایک بھی جوتا نہیں اترا تھا۔ اچانک پھر اسے وہی خوشبو یاد آئی اور نیچے اپنے جوتے کی طرف دیکھتے ہوئے دوبارہ بولا، ’’یہ خوشبو میں پہچانتا ہوں۔ کیوں ترون؟‘‘
اپنے والد کی استفہامیہ نظروں نے اس کے اپنے کئے جرم کے لیے جھنجھوڑ دیا۔ اگرچہ اب اس کے پاپا دوبارہ جوتے تسمہ کھولنے میں مصروف ہو چکے تھے، لیکن ترون کو اب بھی لگ رہا تھا کہ بات کا جواب دیے بغیر گریز نہیں کیا جا سکے گا۔
’’ہاں پاپا آج وہ آئی تھیں۔ ‘‘
ونے نے ایکدم جھٹکے سے سر اوپر کر کے ترون کو غصے سے ڈانٹا، ’’کیا کہا؟ وہ آئی تھیں، کہہ نہیں سکتے کہ ممی آئیں تھیں، ماں ہے تمہاری۔ وہ نہیں۔ ‘‘
ونے کا تسمہ بری طرح الجھ چکا تھا۔ اب زیادہ دیر تک دیوار کا سہارا لے کر ایک ٹانگ پر کھڑے رہنا اس کو تقریباً نا ممکن ہی لگ رہا تھا۔
’’دیکھ کیا رہا ہو بیٹھنے کے لئے کچھ دو۔ ‘‘ ونے کے لہجے میں اب بھی تیکھا پن تھا۔
ترون بریک فاسٹ ٹیبل سے کرسی اٹھانے جا چکا تھا۔ ونے کے ذہن میں متعدد سوالات جنم لے رہے تھے۔ اچانک تین سال کے بعد بغیر کسی پیشگی اطلاع کے کس طرح وہ چلی آئی۔ اب کیا چاہتی ہے وہ؟ کیوں؟۔ کیا وجہ رہی ہو گی اس کے یہاں آنے کی؟ اور وہ بھی اس کی غیر موجودگی میں۔ کہیں ترون کو۔۔ ۔۔ ایک ڈر سا اس کے دل پر قبضہ جمانے لگا۔ اس نے فوری طور پر ہی اسے مسترد کر دیا۔ نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔ ترون سب سمجھتا ہے تبھی تو جب جج نے اس سے پوچھا تھا کہ والدین کی طلاق کے بعد کس کے ساتھ رہنا چاہو گے تو ترون نے ونے کا ہی نام تو لیا تھا۔ میرا بھونچکی رہ گئی تھی۔ انجانے میں کہی گئی اس کی باتیں اس لڑکے کے معصوم ذہن پر نہ جانے کتنے برسوں سے جمع ہوتی رہیں تھیں۔ اس کا احساس تو اسے تبھی ہو گیا تھا۔ لیکن اس کی ہٹ دھرمی اس سچائی کو قبول نہیں کر پائی تھی۔ اس کا اپنا ہی خون اسی کو ٹھکرا دے گا اور سب کے سامنے اپنے پاپا کے ساتھ رہنے کو چنے گا۔ اس عارضی توہین کو ہمیشہ کی طرح میرا نے اس بار بھی مسترد کر دیا تھا اور جھوٹی خوشی دکھاتے ہوئے ترون کے انتخاب کو منظوری دے دی تھی۔
ترون نے کرسی لا کر ہال وے کے کونے پر رکھ دی۔ ونے نے اس پر بیٹھتے ہوئے، ماحول میں حادثاتی طور چھائے بوجھ کو ہلکا کرنے کے لئے کچھ مزاحیہ انداز سے کہا، ’’جانتے ہو اگر اس وقت تمہاری ممی یہاں ہوتی تو اب تک دو تین بار تک مجھے ڈانٹ پڑ چکی ہوتی۔ ‘‘
’’جی ہاں جانتا ہوں پاپا۔ ‘‘ ترون نے بھی ماحول کی سمت تبدیل کرنے کا موقع نہیں گنوایا، ’’پہلے تو آپ نے دیوار پر ہاتھ کا سہارا لیا، دوسرے آپ کی کرسی بیشک ہال وے میں ہے، پر آپ کے پاؤں کمرے میں ہیں۔ ممی کو ایسی باتیں بالکل پسند نہیں تھیں۔ ‘‘
اپنے جوتوں کو آرام سے رکھنے کے بجائے وہیں سے جوتوں کے شیلف کی طرف پھینکتے ہوئے ونے چہکا، ’’ہاں تبھی تو اس آزادی کا جشن ہم ہر روز مناتے ہیں۔ ‘‘
’’وہ تو ہے، پر پاپا ہم دن میں کئی بار کسی بھی بہانے سے ممی کو یاد بھی تو کرتے ہیں۔ ‘‘
بیٹے کے اس جملے نے ونے کے اندر وقت کی کئی دبیز تہوں کے نیچے محفوظ کی ہوئی یادوں کو اکھاڑ دیا۔ کئی بار، ہاں دن میں کئی بار کبھی میرا کا مذاق اڑاتے ہیں، کئی بار اس کی کہی باتوں پر اپنی جھنجھلاہٹ کو ظاہر کرتے ہیں، حالانکہ اس کی یاد کے پیچھے ایک طرح کے غصے کا احساس ہمیشہ رہتا ہے۔ پر سچ تو یہ ہے کہ دونوں ہی میرا کا یہاں نہ ہونا، ابھی تک قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ ہوں بھی کیسے۔۔ ۔؟ میرا ہی ان دونوں کو چھوڑ کر گئی تھی۔ انہوں نے تو ابھی تک اسے نہیں چھوڑا تھا۔ طلاق اس نے دی تھی، انہوں نے نہیں۔ طلاق کو قبول بھی میرا کی خوشی کے لئے ہی کیا تھا۔ کتنی حیرت کی بات ہے کہ اپنی زندگی کے ساتھی کی خوشی کے لئے سمنبدھ توڑنا بھی قابل قبول ہو جاتا ہے۔
پاپا کو خیالات میں کھوئے دیکھ کر ترون نے بات شروع کی۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ سوچتے سوچتے ونے دوبارہ اداسی کی گہرائیوں میں اتر جائے۔ ایسا پہلے بھی کئی بار ہو چکا تھا۔
’’پاپا چائے بناؤں؟‘‘
’’ہاں چلو پانی تو رکھ ہی دو۔ تب تک میں کپڑے تبدیل لوں۔ ‘‘ ونے کی آواز کہیں دور سے آتی ہوئی لگی۔ بغیر ترون کی طرف دیکھے وہ بیڈ روم میں چلا گیا۔ ترون نے چولہے پر پانی رکھا اور پھر سے ٹی وی کے آگے جم گیا۔ تھوڑی دیر بعد ونے بھی ٹی وی کے سامنے سوفے پر آ بیٹھا۔ اداسی کے بادل اب بھی چھائے تھے۔ ماحول اب بھی گمبھیر تھا۔
ترون نے پھر سے کوشش کی، ’’بی بی سی نیوز لگاؤں کیا؟‘‘
’’نہیں رہنے دے۔ جو تم دیکھ رہے ہو وہی دیکھ لیتے ہیں۔ ‘‘ ترون کو لگا کہ آج یہ اداسی کے بادل آسانی سے نہیں چھٹنے والے۔ ورنہ اس کے پاپا تو کبھی کسی بھی وقت نیوز دیکھنے یا پڑھنے سے انکار نہیں کرتے۔ ممی بھی اکثر جھنجھلا اٹھتی تھی پاپا کی اس عادت پر۔
’’صبح سے شام تک وہی ایک خبر نہ جانے کتنی بار سنتے ہو۔ کیا ضرورت ہے؟ کیا ایک بار میں سمجھ میں نہیں آتی؟‘‘ میرا کی جھنجھلا ہٹ کا خاتمہ ہمیشہ ہی ایک طنز کے وار کے ساتھ ہوتا تھا۔ ونے کبھی اس کو سہہ جاتا اور کبھی کبھی بھڑک اٹھتا۔ پھر وہی بحث یا پھر وہی جھگڑا۔
میرا ا کی جھنجھلاہٹ اصل میں اس کی مایوسی تھی۔ اس کی پوری نہ ہو سکنے والی توقعات کی مایوسی۔ شادی شدہ زندگی کے جو نا ممکن اور غیر عملی خواب میرا نے بچپن سے دیکھے تھے۔ وہی اب ونے کی زندگی میں ایک کانٹے کی طرح چبھتے تھے۔ دونوں میں جھگڑے کی کوئی بھی وجہ نہیں تھی۔ نہ سسرال کی چک چک، نہ پیسے کا مسئلہ، نہ شوہر کا غیر مناسب رویہ، نہ بیوی کا پھوہڑ پن، کچھ بھی تو وجہ نہیں تھی۔ بیرون ملک دونوں کا ایک چھوٹا سا گھر اور دونوں کو پیار کے دھاگے میں پروتا ترون۔
شادی کے لئے جب ونے ہندوستان واپس آیا تھا تو اس نے اپنے والدین کو کہہ دیا تھا کہ وہ کسی آزاد خیالات والی بولڈ لڑکی ہی سے شادی کرے گا۔ وہ ایسی بیوی چاہتا تھا جو اس کے برابر قدم ملا کر چلے نہ کہ ایک قدم پیچھے۔ میرا ٹھیک ویسی ہی تھی۔ ونے کے چچا نے اسے کالج میں پڑھایا تھا۔ وہ سب کچھ جانتے تھے میرا کے بارے میں۔ دبی زبان میں انہوں نے کہا بھی تھا اپنے بڑے بھائی کو، ’’بھائی صاحب، لڑکی میں وہ تمام خصوصیات ہیں جو کہ ہمارے خاندان کی بہو میں ہونی چاہیے۔ پر ایک ہی بات کھلتی ہے کہ مجھ سے بحث بہت کرتی ہے۔ ‘‘
ونے کے والد نے ہنس کے اپنے چھوٹے بھائی کی وارننگ کو ٹال دیا تھا۔ ’’ بتا تیرے سے بحث کیوں نہیں کرے گی؟ ایم اے کی طالبہ ہے، جب کسی موضوع پر بات چیت ہو گی تو یہ ضروری نہیں کہ جو کتاب میں لکھا ہے اس سے مکمل اتفاق کیا جائے یہ بحث میرا کی ذہانت کی علامت ہے۔ ‘‘چچا نے بات کو آگے بڑھانا مناسب نہیں سمجھا اور خاموشی سے کنارہ کشی کر کے اس رشتے کو اپنی منظوری دے دی۔
شادی کے کچھ ہفتوں کے بعد ونے واپس لوٹ آیا اور میرا کو ہندوستان میں اپنے سسرال میں ہی رہنا پڑا۔ یہاں آتے ہی ونے نے میرا کے قیام سے متعلق کار روائیوں میں اور اپنے دیگر کاموں میں مصروف ہو گیا۔ میرا کا سسرال میں رہنا ایک طرح سے اچھا ہی تھا۔ ہر خط میں ونے کی ماں اپنی بہو کی تعریف کرتے نہیں تھکتی تھی۔ ’’ بہو بہت ہی سمجھدار ہے۔ آج اس نے یہ پکایا، آج وہ ہمیں یہاں لے گئی، آج وہ زور دے کر تمہارے باپو کو ڈاکٹر کے پاس لے گئی۔ تم تو جانتے ہی ہو کہ تمہارے باپو اپنی صحت کے بارے میں کتنے لا پرواہ ہیں۔ ‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب پڑھ کر ونے کو اچھا لگتا اور میرا کیلئے اس کی محبت مزید امڈ آتی۔ لگتا ہے کہ کچھ ہی وقت میں میرا نے اس نئے خاندان کو بالکل اپنے خاندان کی طرح قبول کر لیا ہے۔ اسے لگا کہ واقعی صرف میرا ہی اس کی زندگی کی ساتھی ہے۔ میرا کے قیام سے متعلق سرکاری کار روائی کو جتنا وقت لگنا تھا سو لگا۔ یہ وقت ونے کے لئے بہت بھاری تھا۔ آخر کار میرا یہاں آ ہی گئی۔
میرا کی صلاحیتیں ہر میدان میں واضح تھیں۔ نئے ملک میں نئے ماحول کے مطابق خود کو ڈھالنے میں اسے کوئی خاص پریشانی نہیں ہوئی۔ پہلے دن سے ہی میرا نے ونے کو بغیر کچھ کہے ہی واضح کر دیا تھا کہ اب سے ونے کا اپارٹمنٹ میرا کا ہے۔ ونے کو اب سے میرا کی اجازت کے بغیر کچھ بھی کرنے کی آزادی نہیں ہے۔ میرا نے پورے اپارٹمنٹ کی سیٹنگ تبدیل ڈالی۔ تمام چیزیں سلیقے سے سجائیں۔ باورچی خانے کی اوپر سے لے کر نیچے تک صفائی کی۔ عجیب منظر تھا وہ بھی۔ سر پرا سکارف باندھے، دھوتی کے پلو کو کمر میں ٹھونسے میرا صفائی کرتے ہوئے مسلسل بولتی چلی جا رہی تھی۔ ونے کو نئے طور طریقے سکھائے جا رہے تھے، تنبیہ کی جا رہی تھی۔ مگر ونے کو برا کچھ بھی نہیں لگ رہا تھا۔ وہ تو بس میرا کو ہی دیکھے جا رہا تھا۔ اس کے چہرے پر شرارت بھری مسکراہٹ دیکھ کر میرا اچانک سب کچھ چھوڑ کر کھڑی ہو گئی، ’’کیا ہے؟ کیوں ایسے دیکھ رہے ہو؟‘‘
’’ویسے ہی یہ اسکارف کیوں باندھ رکھا ہے سر پر؟‘‘
’’عادت ہے اپنی۔ ایسے ہی صفائی کرتی ہوں؟‘‘
’’کیا دھول اڑ رہی ہے یہاں پر؟ اچھا نہیں لگتا، اس اسکارف میں بالکل کام والی بائی لگتی ہو۔ ‘‘
’’تمہیں کیا اچھا لگتا ہے کیا اچھا نہیں لگتا، اس وقت مجھے سوچنے سننے کی فرصت نہیں ہے۔ دور بیٹھے یوں ہی پھبتیاں کسنے کے بجائے تھوڑا ہاتھ بٹاؤ۔ ‘‘
’’کیا کروں میرے مطابق تو سب کچھ ٹھیک ہی تھا۔ یہ چھیڑخانی تم ہی نے شروع کی تھی تو تم ہی نپٹاؤ۔ ‘‘ ونے نے اپنا پلہ جھاڑنا چاہا۔ پر وہ میرا کو اب تک جان نہیں پایا تھا۔ میرا اسے اتنی آسانی سے بچنے نہیں دے سکتی تھی۔ ونے کو نہ چاہتے ہوئے بھی میرا کا ہاتھ بٹانا پڑا۔ کام کرنے میں تو ونے کو کوئی مسئلہ نہیں تھا لیکن کام کرتے ہوئے مسلسل میرا کی تقریر سننے میں اسے پریشانی ضرور تھی۔ میرا بار بار کہے جا رہی تھی، ’’اب سے میرے گھر میں ایسے نہیں چلے گا۔ سلیقے سے رہنا ہو گا۔ ‘‘ ونے کو رہ رہ اپنے پاپا کی بات یاد آ رہی تھی۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ بیٹے یاد رکھنا اگر گھر میں امن چاہتے ہو تو یہ سمجھ لو، گھر گھر والی کا ہوتا ہے۔ آدمی تو اس کی رحم دلی پر ہی اس میں رہ پاتا ہے۔ ‘‘ آج ان کی ہنسی مذاق میں کہی بات اسے اس وقت زندگی کا نچوڑ ظاہر ہو رہی تھی۔
آہستہ آہستہ وقت گزرتا گیا، میرا ایک کتاب کی طرح ہر روز نئے صفحے کھولتی چلی گئی۔ نئے ملک میں دوبارہ نئی زندگی شروع کرنے کی مشکلات۔ اپنی تعلیم کو یہاں کے لحاظ سے اپ ڈیٹ کرنا، نئے ماحول میں جینے کا نیا سلیقہ، نئے معاشرے کے نئے تقاضے۔ بہت سی چیزیں میرا کو پریشان کرتیں۔ بہتوں کو تو وہ ہنس کر قبول کر لیتی پر جہاں کسی دوسرے کے بنائے اصولوں کا سوال اٹھتا، وہاں اس کی آزاد منش طبیعت بغاوت کر اٹھتی۔ جہاں وہ باہر والوں کے ساتھ جھگڑ نہیں سکتی تھی وہاں ونے کی شامت آ جاتی۔ میرا کو ایک آفس میں بہترین کام مل گیا۔ اس نے اپنی گاڑی بھی خرید لی۔ ونے خاندان شروع کرنا چاہتا تھا۔ چاہتا تھا کہ ان کی بھی کوئی اولاد ہو۔ لیکن میرا کو بہت کچھ دیکھ لینے کی جلدی تھی۔ ابھی اسے بہت کچھ کرنا تھا۔ مگر آخر میں فطرت ہی جیتی اور ایک دن میرا بھی ماں بن گئی۔
وہی میرا جو کسی بھی حالت میں اولاد کے جنجال میں پھنسنا نہیں چاہتی تھی، بیٹے کے پیٹ میں آتے ہی بدل ہی گئی۔ اب آنے والا ہی اس کی زندگی کا مرکز بن گیا، ونے تو اب پرایا ہو گیا تھا، صرف ایک ضرورت بھر۔ جو وقت آنے پر مدد کر سکتا تھا۔ یہ ونے کا بھی بیٹا ہے، یہ حق میرا نہیں دیتی تھی۔
’’میں اسے پیٹ میں پال رہی ہوں یہ صرف میرا ہے۔ ‘‘ کہہ کر میرا مسکرا دیتی۔
ونے نے بھی ایک دن ہنس کر کہہ ہی دیا، ’’کیا میکے سے لے کر آئی ہو؟ میرا بھی تو کچھ حق ہے۔ ‘‘
’’تمہیں کیا معلوم۔ حق ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی۔ ‘‘ میرا کے ہونٹوں پر پر اسرار سی شرارتی مسکراہٹ تھی۔ ونے ہنس کر بات ٹال گیا۔ کیونکہ وہ اب تک جان چکا تھا کہ میرا بحث میں کبھی بھی اپنی ہار قبول نہیں کرتی تھی۔
ترون کے پیدا ہوتے ہی دونوں کے معمولات بس ترون کے معمولات پر ہی منحصر ہو گئے تھے۔ جب وہ سوتا تو دونوں سوتے، وہ جاگتا تو وہ دونوں جاگتے۔ ونے کو اچھی طرح سے یاد ہے کہ ابھی ترون کچھ ہفتے کا ہی تھا کہ ایک دن میرا نے رات کو اسے ونے کے سینے پر رکھ کر کہا تھا، ’’آج سے یہ تمہارا ہے، تم ہی پالو میں تو تھک گئی۔ ‘‘
’’میں کب انکار کرتا ہوں۔ تم مجھے کچھ کرنے تو دو۔ یہ ہم دونوں کا ہے اور ہم دونوں ہی مل کر اسے پالیں گے۔ یہ کوئی تمہاری بچپنے کی گڑیا نہیں کہ تم نے جب جیسے چاہا کھیلا اور جب من بھر گیا تو اٹھا کر رکھ دیا۔ ‘‘ ونے نے سمجھانے کی کوشش کی۔
’’ مجھ سے نہیں ہوتا۔ انسان بچے پیدا ہی کیوں کرتا ہے؟‘‘ میرا مایوس تھی۔
’’ میرا اسی کو پوسٹ پارٹم سنڈرم کہتے ہیں۔ یہ مایوسی بچہ پیدا ہونے کے کچھ وقت کے بعد ماں میں آ جانا فطری ہے۔ وقت کے ساتھ سب ٹھیک ہو جائے گا، یوں ہی اپنا دل خراب نہ کرو۔ ‘‘
وقت گزرا اور ترون اب گھر میں بھاگنے دوڑنے لگا تھا۔ ترون کی ہر نئی کامیابی سے میرا خوش ہوتی، لیکن کسی بھی حالت میں ترون کی ناکامی وہ سہہ نہیں پاتی۔ اس کا بچہ کبھی بھی، کسی وقت بھی، کہیں بھی بہترین ہی ہونا چاہئے۔ اس لئے میرا خود بھی محنت کرتی اور ونے اور ترون پر بھی تقریر جھاڑ دیتی۔ یہ تقریریں اب ونے کی برداشت سے باہر ہو چکی تھیں۔
وقت گزرتا رہا۔
ترون عمر آٹھ سال کی رہی ہو گی، جس دن اس نے پہلی بار اپنی ماں کے آگے بغاوت کی تھی۔ ترون کو اپنے اسکول کی تعلیم کے ساتھ تیراکی، پیانو سیکھنے جانا پڑتا۔ بیس بال کی ٹیم میں کھیلنا اس کو بہت اچھا لگتا تھا۔ جب اس کی ماں نے اسے ’’جاز رقص‘‘ کی کلاس میں بھرتی کروانا چاہا تو وہ لڑکا بغاوت کر اٹھا تھا، ’’لڑکے رقص نہیں سیکھتے۔ ‘‘ یہ اس کے بچپنے کی سوچ تھی۔ ضدی پنے میں وہ اپنی ماں کی کاپی تھا۔ اب دونوں ماں بیٹے کا ما تھا کئی دنوں تک بھڑا رہا۔ میرا پیچھے نہیں ہٹنا چاہتی تھی اور بیٹا آگے نہیں چلنا چاہتا تھا۔ ماں ڈانٹتی تو ترون زور زور سے روتا، ماں محبت سے مناتی تو ترون روٹھتا۔ میرا اگر اس کے ساتھ بولنا بند کرتی تو ترون بھی اس کی طرف پیٹھ کر کے بیٹھ جاتا اور کھانے کیلئے بھی بڑی مشکل سے اپنے کمرے سے باہر آتا۔
ونے کئی دن تو یہ تماشا دیکھتا رہا۔ وہ جانتا تھا کہ اگر اس نے اس موضوع پر کچھ تھوڑا سا بھی کہا تو اس کا سارا الزام اس کی پیشانی پر تھوپ دیا جائے گا۔ پر آخر کب تک وہ چپ رہ پاتا۔ ایک دن اس نے میرا کو قائل کی کوشش کی۔
’’دیکھو میرا، ترون کی بات سمجھنے کی کوشش تو کرو۔ ‘‘
’’ہاں ہاں اب تم بھی مجھے ہی سمجھاؤ اس بگڑے ہوئے بچے کو کچھ بھی نہ کہو۔ ‘‘میرا کی تڑپ ابھر کر باہر آنے لگی۔
’’ بگڑا ہوا کہاں ہے۔ آٹھ سال کا تو ہے اور پھر اسے کتنا مصروف کر دیا ہے ہم دونوں نے۔ دو شا میں اسے تیراکی سیکھنے میں لگ جاتی ہیں، دو دن بیس بال میں تو ایک دن پیانو میں۔ اوپر سے اسکول کا کام۔ اب تم اس کے بچے کچے وقت میں رقص کی کلاس میں بھرتی کروانا چاہتی ہو تو اس بیچارے پر کتنا بوجھ ہو جائے گا۔ ‘‘
’’یہی تو وقت ہے کچھ سیکھنے کا۔ ہم سیکھنا چاہتے تھے تو سیکھنے کی سہولیات نہیں تھیں یا قوت نہیں تھی۔ اس کو اب سب مل رہا ہے تو جناب سیکھنا نہیں چاہتے۔ ‘‘ میرا نے ونے کی بات ان سنی کر کے پھر اپنا پرانا راگ الاپنا شروع کر دیا۔ ونے نے پھر سے قائل کیا۔
’’ میرا، میری بات سن رہی ہو کیا؟ کبھی کبھی ماں باپ کو بچے کی بات بھی ماننی پڑتی ہے چاہے وہ کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو۔ ‘‘
بس ونے کا یہ کہنا تھا کہ میرا ایک آتش فشاں کی طرح پھٹ پڑی۔ میرا اور کوئی اسے ہار قبول کرنے کی بات کہے۔
’’تم ہی نے ترون کو سر چڑھا رکھا ہے۔ میں تو اسے ایک دن میں ٹھیک کر کے رکھ دوں۔ بس تم ہی آڑے آتے ہو، تمہاری شہ پر ہی تو وہ میرے سامنے بولتا ہے۔ تم اسے ڈانٹنے کے بجائے ہنستے ہو۔ ‘‘ اور بھی میرا نہ جانے کیا کیا بولتی رہی۔ ونے جانتا تھا کہ آج سارا دن یہ سب کچھ سننا ہی پڑے گا۔ بس یہی راستہ تھا اس تعطل کو توڑنے کا جو کہ اس خاندان کے معمول میں رقص کی وجہ سے آ گیا تھا۔ ایسے مسائل کو حل کرنے کیلئے قربانی کا بکرا بننے کی اب اسے عادت ہو چکی تھی۔
ترون بڑا ہوتا گیا۔ خود انحصاری تو اسے اپنی ماں سے ملی تھی۔ وہ کسی پر بھی بوجھ نہیں تھا۔ اپنے کپڑے خود دھوتا، استری کرتا اور اپنی مرضی سے خریدتا۔ تاہم میرا کو بہت پریشانی ہوتی ترون کی آزادی سے۔ پر وہ بھی جان چکی تھی ماں بیٹا دونوں ہی ایک ہی مٹی کے بنے ہیں۔
اور پھر ایک دن ان کی زندگی میں ایک اور کردار ابھر کر سامنے آنے لگا۔ جینی، میرا کی سہیلی۔ ہر بات پر میرا، جینی کی مثالیں دیتی۔ جب وہ کسی بات پر اکھڑتی۔ جو اکثر ہوتا، جینی پر بات شروع ہو کر جینی پر ہی ختم ہوتی۔ میرا کے مطابق جینی کی زندگی ایک مثالی زندگی تھی۔ جب چاہتی جہاں چاہتی جینی اپنا ’’بیک پیک‘‘ اٹھا کر چل دیتی۔ کوئی اس سے سوال کرنے والا نہیں تھا۔ کوئی بندھن نہیں تھا۔ مکمل آزادی۔ یہی میرا چاہتی تھی۔ شوہر بیٹا تو وقت کی ضرورت تھی۔ ان دونوں ہی سے اس کا دل بور چکا تھا۔ دونوں ہی اسے بوجھ لگنے لگے تھے۔ دل ہی دل میں ونے، جینی سے نفرت کرنے لگا تھا۔ اس کا نام سنتے ہی جل بھن جاتا۔ ایک دن اس نے میرا کو سمجھانے کی غلطی کر دی۔
’’ میرا، ہم ہندوستانی ان لوگوں کی پیروی نہیں کر سکتے۔ ان کی کوئی اصل نہیں، بن پیندے کے لوٹے ہوتے ہیں یہ لوگ، جینی بھی تو انہی میں سے ہے، کبھی اس کے منہ سے اس کے ماں باپ کی بات سنی ہے۔ نہ جانے اس کا کیسا کردار ہو گا۔ تم جانتی بھی نہیں ہو گی۔ ‘‘
میرا چراغ پا ہو اٹھی، ’’کتنی اوچھی بات کہہ دی تم نے نرمی سے، کیا تم اس کو جانتے بھی ہو۔ بغیر جانے ہی کردار پر سوالیہ نشان لگا رہے ہو۔ تم تو یہ بھی نہیں جانتے کہ کتنی مذہبی نظریات والی ہے۔ بدھ مت ہے۔ کئی سال پیگوڈا میں رہ چکی ہے۔ خالص سبزی خور ہے۔ شراب تک پیتی نہیں وہ اور تم اس کے کردار کی بات کر رہے ہو۔ ‘‘
ونے بھی بھڑک اٹھا تھا، ’’تم اس کو اتنے اونچے آسن پر کیوں بٹھاتی ہو۔ بدھ مت ہونے سے یا سبزی خور ہونے سے کوئی مثالی انسان تو نہیں ہو جاتا۔ اس کے آگے پیچھے بھی کوئی ہے کیا؟ اپنے سے سات سال چھوٹے پریمی کے ساتھ رہ رہی ہے وہ۔ وہ کیا جانے خاندان کی کیا عزت ہوتی ہے، کوئی اولاد نہیں ہے اس کی۔ وہ کیا جانتی ہے کہ بچے کی محبت کیا ہوتی ہے؟ اس کے تئیں ماں کا کیا برتاؤ ہوتا ہے؟ بس طلاق دینے کے بعد ایک پریمی رکھ لیا اور جب چاہا وہ بھی بدل ڈالا۔ تم اسی جینی کو مثالی کہتی ہو۔ ان لوگوں کے مثالی پن کی تعریف ہماری تو نہیں ہو سکتی۔ ‘‘
میرا اور نہیں سن سکی جینی کے بارے میں۔ بس اٹھ کر چل دی کمرے سے۔ دروازے پر کھڑے ہو کر پلٹ کر دیکھا اس نے ونے کی طرف۔ ونے نے ایسی نفرت کے جذبات آج تک میرا کے چہرے پر نہیں دیکھے تھے۔ اپنے شوہر کیلئے نفرت۔ اپنے بیٹے کیلئے نفرت، اپنی اصل، اپنے وجود کیلئے نفرت۔
’’شاید مجھے بھی طلاق چاہئے اور جینی کی طرح ہی آزاد زندگی۔ ‘‘
میرا کے لہجے میں ایسی ٹھنڈک تھی کہ ونے کی روح کانپ اٹھی۔ آنے والے وقت کے خوف سے وہ خوفزدہ ہو گیا۔ ہوا بھی وہی۔ اگلے دن جب ترون اور ونے جب گھر واپس آئے میرا جا چکی تھی۔ اسی شام کو میرا کا فون آ گیا کہ وہ جینی کے ساتھ رہے گی اور جلد ہی طلاق بھی لے لے گی۔ میرا کے لہجے میں اتنا پرایا پن تھا کہ ونے اسے کچھ بھی سمجھانے کی جرات نہیں کر پایا۔
اور پھر طلاق بھی ہو گئی۔ ترون نے باپ کے ساتھ رہنا چاہا۔ میرا اب مکمل طور پر آزاد تھی۔ اپنے من کی ہر خواہش کو بغیر ہچکچاہٹ یا احساسِ جرم کے پورا کر رہی تھی یا صرف ونے ہی یہ سوچتا تھا۔ ونے تو میرا کی زندگی سے نکل چکا تھا پر میرا کی زندگی سے ترون نہیں نکل پایا تھا۔ فاصلے ہوتے ہی اولاد کی جو بیڑی اسے بری لگتی تھی، وہیں اب اس کا نہ ہونا اسے ستانے لگا۔
ترون اب تک باورچی خانے میں چائے بنا چکا تھا۔ اس نے وہیں سے آواز دی۔
’’پاپا ٹی وی کے سامنے پئیں گے یا ٹیبل پر؟‘‘
بیٹے کے سوال سے ونے کی سوچ ٹوٹی۔
’’ٹیبل پر ہی رکھ دو۔ وہیں آتا ہوں۔ ‘‘
ونے نے ٹی وی بند کیا اور ٹیبل پر بیٹھ چائے کے کپ کے کونوں پر انگلی پھیرنے لگا۔ چائے کی خوشبو اسے اچھی لگ رہی تھی۔ کتنے ٹھنڈے ہو گئے تھے اس کے ہاتھ پاؤں۔ میرا کا اس کی زندگی سے جانا کتنا خالی پن بھر گیا تھا۔ میرا کی محبت، جھنجھلاہٹ، ڈانٹ ڈپٹ، ضدی پن، جھگڑنا اور آزاد خیالی۔ تمام کچھ۔ میرا یہاں ہوتی تو۔
’’پاپا ساتھ میں کچھ لیں گے کیا؟‘‘
’’نہیں بس چائے ہی ٹھیک ہے۔ ابھی تھوڑی دیر میں کھانا کیا پکانا ہے سوچیں گے۔ ‘‘
’’مجھے تو بھوک نہیں ہے۔ میں تو نہیں کھاؤں گا۔ ‘‘
’’کیوں؟‘‘ ونے نے حیرت سے ترون کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’ممی چائینز نوڈل بنا کے لائی تھیں۔ ‘‘ ترون نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’اچھا ہے آخر تم ہو تو اس کے بیٹے ہی۔ یہ تعلق تو کوئی بھی نہیں توڑ سکتا۔ بس میں ہی پرایا ہو گیا۔ ‘‘ ونے کے لہجے میں درد تھا۔
’’نہیں پاپا آپ کے لیے بھی بنا کے لائی ہیں ممی۔ فرج میں رکھے ہیں۔ ‘‘
ونے دوبارہ یادوں میں کھو گیا۔
’’تمہیں کسی دن چھوڑ جاؤں گی اور تمہارے سامنے والے اپارٹمنٹ میں ہی رہوں گی۔ ‘‘
’’ایسا کیوں؟‘‘
’’تمہارا اور ترون کا کھانا کون بنائے گا؟‘‘
’’اگر اتنی ہی فکر کرتی ہو تو جاؤ گی ہی کیوں؟‘‘
’’آزادی کے لئے۔ صرف کھانا بنانے تک تعلق رہے گا۔ بس!‘‘
میرا کی یہ بے تکی منطق ونے کی سمجھ سے باہر تھی۔ چائے کے کپ میں ونے یوں جھانک رہا تھا گویا اپنی پرچھائیں میں میرا کا چہرہ دیکھنا چاہتا ہو۔
خوشبو لگاتی تو ونے ٹوکتا، ’’بالٹی بھر کے کیوں انڈیل لیتی ہو۔ میری ناک سے پانی بہنے لگتا ہے۔ ‘‘
’’میری تو ہر چیز تمہیں بری لگتی ہے۔ ‘‘میرا کہتی اور پھر سے جھگڑا شروع ہو جاتا۔
آج وہی خوشبو ونے اپنے اندر تک لینا چاہتا تھا۔ وہ چائے پی چکا تھا۔ میز سے اٹھتے ہوئے اس نے لمبی سانس لی۔
’’اگلی بار ممی سے بات ہو تو کہنا کہ آتی رہیں، اچھا لگتا ہے۔ ‘‘
***
اپنا بھی کوئی ایک گھر ہو گا
ارچنا پنڈا
’’اگر کوڑیوں میں بہترین علاقے میں گھر چاہئے تو ابھی کے ابھی اس پتے پر پہنچ جاؤ۔۔ ۔ اور تم میرا اپروول پیپر ساتھ لے جانا اور ہاں بس ان کے ریٹ پر آفر دے دینا، میں کل ہی واپس آ رہا ہوں۔ ‘‘ دیو، ہمارے ایجنٹ نے ایک ہی سانس میں اتنی لمبی بات کہہ ڈالی۔ ایسا لگ رہا تھا کی جیسے لاٹری کی ٹکٹ لگ گئی ہو اور صرف اسے بھنانے کی دیر ہو۔
واقعی اس نرخ پر یہ گھر ملنا نا ممکن سا لگا۔ پھر پتہ چلا کی یہ ایک فارکلوزڈ گھر ہے۔ جسے بینک والے جلد از جلد فروخت کرنا چاہتے ہیں۔ اسی وجہ اس کا دام کم رکھا ہے تاکہ فروخت ہو جائے۔
تنش بہت خوش تھے۔ ہم قریب تین سال سے گھر ڈھونڈ رہے ہیں۔ ایک ایسا گھر جو ہمارے بجٹ میں آ جائے، جس کے قریب میں اسکول اچھے ہوں اور جس میں کم از کم دو باتھ روم ہوں۔ گزشتہ دس سالوں سے ایک باتھ روم جھیلنے میں بہے آنسوؤں کو تو صرف ہم ہی جانتے ہیں۔ لیکن سلکن ویلی میں شاید سب لوگ ہی یہی چاہتے ہیں جو ہم چاہتے ہیں۔ تبھی تو پچاس ہزار ڈالر زیادہ پیشکش دینے پر بھی ہمیں گھر نہیں ملا تھا ایک بار۔ ایسے میں اتنے کم نرخ پر یہ گھر دعا قبول ہونے کے جیسا تھا۔
ہم جن کپڑوں میں تھے اسی میں نکل پڑے۔ بچے ایک برتھ ڈے پارٹی میں گئے ہوئے تھے۔ سوچا لوٹتے ہوئے انہیں لے لیں گے۔ تب تک یہ کام بن جائے تو۔۔ ۔
باہر سے گھر دیکھنے میں برا نہیں تھا۔ ویسے بھی لُک پر کون جاتا ہے۔ جو دل لگا گدھی سے تو پری کیا چیز ہے۔ ہم جیسے اندر جا رہے تھے تو کچھ لوگ باہر آ رہے تھے۔ ایک عجیب سی پریشانی سی نظر آئی ان کے چہرے پر، جانے کیوں؟
اندر ماحول بہت بکھرا بکھرا سا تھا۔ جیسے کوئی بہت ہی افرا تفری میں گیا ہو اور جلدی میں آدھا سامان چھوٹ گیا ہو۔ یہ دیکھ کے تھوڑا سا دل گھبرانے لگا۔ جانے کس کی نوکری چھوٹ گئی ہو گی، جانے کیا مصیبت ہو گی ان کے سر پر، جانے کہاں گیا ہو گا ان کا خاندان گھر چھوڑ کر، جانے۔۔ ۔۔ میری سوچیں ٹوٹ گئیں جیسے ہی میں ماسٹر بیڈ روم میں گئی اور ایک بڑے سے ٹوٹے ہوئے آئینے میں، میں نے اپنے آپ کو دیکھا۔
اس کمرے کی ایک ایک چیز جیسے بڑی تسلی سے لگائی گئی ہو، وہ کلوسیٹ کا ڈیزائنر دروازہ ہو یا کھڑکیوں پر گولڈ فریم کا ڈیکوریشن۔ غرض ہر چیز کی ایک خاص خوبصورتی تھی۔ جیسے کسی نے بڑی فرصت سے اسے چنا ہو۔ پر جتنا پیار، اتنا ہی غصہ نکالا گیا ہے، ایسا اس لئے لگ رہا تھا۔۔ ۔ کیونکہ اس کمرے کی ہر ایک ڈیزائنر چیز ٹوٹی ہوئی تھی۔۔ ۔ توڑی گئی تھی بڑی بے رحمی سے۔۔ ۔ ویسے بھی ہم اسی پر ہی تو اپنا غصہ نکال سکتے ہیں جس سے ہم محبت کرتے ہوں، بہت محبت کرتے ہوں۔۔ ۔!
امریکہ میں بہت ہی برا وقت چل رہا ہے۔ جس ملک کو میں نے کبھی اتنے اونچے درجے پر دیکھا ہو، وہیں پر آج ایسی حالت زار دیکھ کر دماغ ماؤف ہو جاتا ہے۔ جانے کب حالات بدلیں گے۔ کب لوگوں کی گھبراہٹ ختم ہو گی۔ آج ہر آدمی گھر سے یہی سوچ کر نکلتا ہے کہ شام تک اس کی نوکری سلامت رہے۔ روزی روٹی بنی رہے۔ کسی کو بھی آج جاب سکیورٹی نہیں رہی۔ کل کیا ہو گا یہ کوئی نہیں جانتا۔
اچانک اپنا نام سن کر میں نے ہاں کہا، ’’لگتا ہے تنش بلا رہے ہیں شاید۔ ‘‘
’’کیا ہے، تم نے بلایا ہے؟‘‘ باہر آتے ہوئے میں نے پوچھا۔
’’نہیں تو، تمہارے کان بج رہے ہیں کیا؟ اچھا دیکھو میں نے ان کے ایجنٹوں سے بات کر لی ہے۔ سب کچھ ہو جائے گا۔ آج کے آج ہی سب فٹ کر دیتے ہیں، ابھی یہ گھر مارکیٹ میں آیا بھی نہیں ہے، کم قیمت میں مل جائے گا۔ ‘‘ تنش بہت ایکسائٹڈ لگ رہے تھے۔
’’ذرا رک جاؤ۔ ‘‘مجھے ایک عجیب سا ڈر لگ رہا تھا۔
قدم اپنے آپ ہی ایک کے بعد دوسرے کمروں میں جا رہے تھے۔ ہر کمرا ایک مختلف کہانی کہہ رہا تھا۔
ٹوٹے آئینے والا کمرہ ماسٹر بیڈروم تھا۔ یہ والا کمرہ شاید بچوں کا ہو گا، ابھی تک دیواروں پر پرنسس کے پوسٹر لگے ہوئے تھے۔ ان کی بیٹی یا بیٹیاں ہوں گی۔ چھوٹی ہوں گی۔ الماری سے ابھی تک گندگی صاف نہیں ہوئی تھی۔ بکھرے بکھرے اخبار اور یہاں وہاں کے ڈاکومنٹ بھرے پڑے تھے۔ وقت کم تھا پھر بھی ذہن میں بات جاگی کہ دیکھوں تو شاید ڈاکومنٹ سے کچھ پتہ چلے۔ ہاتھ لگایا ہی تھا کہ ایک بڑی سی فائل نیچے گر گئی اور سارے کاغذ کمرے میں بکھر گئے۔
ارے ارے! انہیں سمیٹنے کے لئے میں جھک گئی تاکہ پھر سے اپنی جگہ پر رکھ دوں۔
میں جلدی جلدی کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ پر جیسے ہر صفحے کو پڑھنے کا من ہو رہا تھا۔
اور پھر کچھ ہاتھ لگا۔ اس کی پشت تھی میرے ہاتھ میں۔۔ ۔ ایک تصویر کا سفید پچھلا حصہ۔۔ ۔ مجھے پتہ تھا کہ یہ انہی لوگوں کا ہو گا۔ جن کا یہ گھر تھا۔ مجھے دیکھنا نہیں چاہئے۔۔ ۔ دکھ ہو گا۔ نہیں نہیں اسے پھینک دو اور یہاں سے بھاگ جاؤ۔ جاؤ میں نے کہا نا۔
پر جیسے پاؤں اٹھتے ہی نہیں تھے۔ ہاتھ اس تصویر کو چھوڑنے کو تیار ہی نہیں تھے۔ کسی کا دکھ دیکھ کر تمہیں کیا ملے گا، تم جاتی کیوں نہیں ہو؟ پر میں نے تصویر کو پلٹا اور اسے دیکھا۔
خاندان چین کا لگ رہا تھا۔ تصویر ان کے بچے کے پہلے جنم دن کی تھی شاید۔ اسی گھر میں، اس بڑے والے کمرے میں لی گئی تھی۔ پورا خاندان ہنس رہا تھا، دو بوڑھے ماں باپ بھی دکھائی دے رہے تھے پیچھے کھڑے ہوئے۔ بڑی رونق چھائی ہوئی تھی، بہت۔۔ ۔۔
’’اور سنو اتنا کام پڑا ہے اور میڈم آنسو ٹپکا رہی ہیں۔ ‘‘ تنش کمرے میں آتے ہوئے بول پڑے۔ مجھے پتہ ہی نہیں چلا کب آنکھ بھر آئی تھی۔ آنسو بہہ رہے تھے اور مجھے ہوش ہی نہیں تھا۔ میں بھی اتنی اسٹوپڈ ہوں نا۔ او مائی گاڈ! میں آنکھ پونچھنے کی اتنی کوشش کر رہی تھی پر آنسو جیسے رکتے ہی نہیں تھے۔ تنش سے منہ چھپا کر میں باتھ روم میں گھس گئی۔
مجھے اتنا کمزور نہیں ہونا چاہئے۔ ایسا بھی کیا جذباتی پن، نہ جان نہ پہچان اور یہ سب تو ہوتا رہتا ہے۔ شاید وہ لوگ آج بھی خوش ہوں گے، جہاں کہیں بھی وہ ہیں۔ اور تمہارے پریشان ہونے سے کسی کا بھلا تو نہیں ہو گا نا۔۔ ۔ تم کیا کر سکتی ہو، جو ہونا تھا وہ تو ہو چکا ہے۔
خود کو من بھر کا حوصلہ دینے کے بعد اور بہتے ہوئے دریا کو بند باندھنے کے بعد، جیسے ہی میں نے نظر اٹھائی، ایک بڑے سے پوسٹر سے میں ٹکرا گئی۔۔ ۔ ٹھیک میرے سامنے تھا۔۔ ۔ مجھے کچھ کہتا ہوا۔۔ ۔ مجھ پہ ہنستا ہوا۔۔ ۔ یا شاید روتا ہو۔۔ ۔ خداوند یسوع مسیح کا فوٹو تھا۔۔ ۔ صلیب پر لٹکتے ہوئے۔۔ ۔ ایک عورت ہاتھ جوڑے کھڑی تھی کراس کے نیچے۔۔ ۔ اور کچھ لکھا تھا، ’’ یہ بھی گزر جائے گا۔ ‘‘
پھر نہ میں نے خود کو سمجھانے کی کوشش کی اور نہ ہی وہاں رہنے کی۔ باہر تنش کھڑے تھے۔ بھاگ کر ان سے لپٹتے ہی میرا بندھ ٹوٹ گیا۔ پھوٹ پھوٹ کر آنسو باہر آ رہے تھے۔
’’تنش ہم یہاں نہیں رہیں گے، مجھے نہیں چاہئے یہ گھر۔ اس گند میں ایک امس ہے، ایک آہ ہے۔ تنش ہمیں یہاں نہیں رہنا، تنش نہیں رہنا ہمیں یہاں۔۔ ۔ او او او۔۔ ۔ بھگوان نہ کرے۔۔ ۔ اگر کل ہمارے ساتھ ایسا کچھ۔۔ ۔۔ ‘‘ میرے منہ سے کچھ بھی نکال رہا تھا، بغیر سوچے بول رہی تھی میں۔
’’پاگل ہو تم۔ ارے ایسی ڈیل پھر نہیں ملنے وا لی۔ ہمارا سب کچھ ریڈی ہے۔ بس سائن کرنے کی دیر ہے۔ چلو چلو زیادہ جذباتی نہیں ہوتے ہیں۔ آتے ہی ستیہ نارائن سے پاٹ کروائیں گے۔ سو ہوا بھی شدھ ہو جائے گی۔ کب سے کہہ رہی ہو کونڈوں میں جگہ کم پڑ رہی ہے۔ ایک باتھ روم میں کتنی دقت آ رہی ہے۔ اور ہاں سن لو، اب تو جتنے بھی گھر آئیں گے مارکیٹ میں، ان میں سے آدھے اسی طرح کے ہوں گے۔ اب ہر گھر سے تمہیں آہ سنائی دے تو پھر بھیا ہو گیا بیڑا پار۔۔ ۔۔ ‘‘ تنش میری بات کو سن ہی نہیں پا رہے تھے شاید یا میں ہی کچھ زیادہ سن رہی تھی۔۔ ۔ پتہ نہیں۔۔ ۔
’’نہیں تنش، مجھے یہاں پر کسی کی ہائے سنائی دیتی ہے۔ جب میں یہاں آئی تھی تب مجھے کچھ نہیں تھا، پر یہاں کچھ ہے، جسے میں نے محسوس کیا ہے۔ تمہیں نہیں لگ رہا۔۔ ۔ کچھ اندر سے۔ ‘‘ مجھے یقین نہیں ہو رہا تھا کہ جسے میں خود میں اتنا دھڑکتا ہوا محسوس کر رہی ہوں، وہ کسی اور کو کیوں نہیں محسوس ہو رہا۔
’’تنش ہم اپنے چھوٹے کونڈوں میں ہی رہ لیں گے۔ اب پلیز چلو یہاں سے۔۔ ۔ پلیز۔۔ ۔۔ ‘‘
تنش موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے باہر آ گئے، وین کا لاک کھولا اور گاڑی اسٹارٹ کی۔ اپنی سیٹ بیلٹ باندھتے ہوئے میرے منہ میں یہ گیت بار بار آ رہا تھا۔
’’ کسی کا پیار نہ ٹوٹے، کسی کا گھر دوار نہ چھوٹے۔ ‘‘
اس گھر سے اپنے گھر تک آتے آتے تین گھروں پر Owned Bank کا بورڈ لگا ہوا دیکھا۔
سی ڈی پر گیت بج رہا تھا۔
ان بھول بھلیاں گلیوں میں اپنا بھی کوئی ایک گھر ہو گا۔
امبر پہ کھلے گی کھڑکی یا کھڑکی پہ کھلا امبر ہو گا۔
پل بھر کے لئے ان آنکھوں میں ہم ایک زمانہ ڈھونڈتے ہیں۔
آب و دانہ ڈھونڈتے ہیں ایک آشیانہ ڈھونڈتے ہیں
***
میرا دیوتا
ارون ارنو کھرے
تُرن سنگھ آج بہت خوش تھا۔ اس کے بیٹے سورج سنگھ کو بارہویں پاس کرتے ہی بڑے صاحب نے ورک چارج میں بابو بنا دیا تھا۔ ساتھ ہی یہ یقین بھی دلایا تھا کہ سورج جیسے ہی کمپیوٹر کا امتحان پاس کر لے گا اسے وہ مستقل کر دیں گے۔ اس خوشی کو سب میں بانٹنے کیلئے تُرن سنگھ، صاحب سے تین دن کی چھٹیاں لے کر اپنے گاؤں آیا۔ تُرن کے خاندان میں پہلی بار کوئی سرکاری بابو بنا تھا۔ اس کے تمام سگے رشتے دار یا تو کسان تھے یا پھر اسی کی طرح صاحب لوگوں کے بنگلوں پر کام کرتے تھے۔ اس کی بیوی پونیا تو جیسے اپنے لڑکے کی کامیابی پر پگلا گئی تھی۔ دن میں کتنی ہی بار وہ سورج کا ما تھا چوم چکی تھی۔ اسی خوشی میں اس نے برادری والوں کو مقامی دیوتا کے چبوترے پر پوڑی رائتہ کھانے کی دعوت تک دے ڈالی تھی۔
بڑے صاحب نے سورج کو پیر سے ہی ڈیوٹی جوائن کرنے کیلئے بول دیا تھا۔ اسی لئے تُرن، سورج کو لے کر اتوار کو ہی گاؤں سے واپس آ گیا۔ سورج کی پوسٹنگ صاحب نے اپنے پسندیدہ کنٹرولنگ کے دفتر میں کی تھی۔ سورج کے کاغذات پلٹتے ہوئے بڑے بابو بندیسری یادو نے پہلے تُرن اور پھر سورج کی طرف اتنی گہری نگاہوں سے دیکھا کہ دونوں سہم ہی گئے۔ تُرن ہاتھ جوڑ کر تقریباً گڑگڑاتے لہجے میں بولا، ’’کو نو کمی ہے کا بابو جی۔ بچوا ہے۔ آپ سمجھا دیو پوری کر لاویگو۔ مے تو کچھ سمجھوں نہ۔ دوسری جماعت تک ہی پڑو ہے ہم نے۔ ‘‘
’’نہیں نہیں کوئی کمی نہیں ہے۔ تمام کاغذ درست ہیں۔ ‘‘ بندیسری یادو بولے، ’’تمہیں پتہ ہے کہ لڑکے کے کتنے نمبر ہیں۔ ‘‘
’’نا نیہ مالوم موئے۔ اِتّو پتہ ہے کہ وایہ پھسٹ کلاس آؤ اے۔ اور انجینئرنگ کو امتحان بھی پاس کرو ہے، تبی بڑے ساب نے ایکوں بابو بنا دؤ۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے تُرن کی آنکھیں فخر سے دمکنے لگیں۔
’’تم لڑکے کا کیریئر برباد کر رہے ہو تُرن۔ تمہارا لڑکا ہیرا ہے ہیرا۔ اسے کیوں بابو بنا رہے ہو۔ تم ہی بتاؤ سورج۔ کون سا انجینئرنگ کا امتحان پاس کیا ہے تم نے۔ ‘‘ بندیسری یادو نے متجسس نگاہوں سے دونوں کی طرف باری باری دیکھا۔
’’جی پی ای ٹی پاس کیا ہے، ایس سی کی میرٹ لسٹ میں ۲۳۳ واں نمبر ہے۔ سب کہتے ہیں کہ حسب منشا برانچ مل جائے گی۔ پر بہت پیسہ لگتا ہے پڑھائی میں۔ باپو خرچ نہیں اٹھا پائیں گے۔ بڑے صاحب نے کہا کہ تمھاری پکی نوکری لگا دیں گے۔ بہت سے انجینئر بے روزگار گھوم رہے ہیں۔ ‘‘ سورج نے بتایا۔
’’بڑے صاحب نے ایسا کہا تم سے۔ ‘‘ بندیسری یادو نے حیرت سے پوچھا۔
’’ہؤ۔ ‘‘ جواب تُرن نے دیا۔ ’’ہم کہاں سے لاکھوں لاتے۔ پھیس دیوے کھوں۔ وو تو ساب بڑے دیالو ہیں ہم غریبن پر۔ جو اِتی کرپا کرت ہیں۔ ‘‘
بندیسری بابو نے سارے کاغذ منظم کئے اور سورج کو آفس میں جوائن کرنے کی ضروری کار روائی مکمل کی۔ بندیسری یادو نے ایک بار پھر سورج کو سوچنے کیلئے کہا تھا پر کم پڑھا لکھا تُرن تو سورج کے بابو بن جانے ہی پر ساتویں آسمان پر جا بیٹھا تھا۔ وہ تو بڑے صاحب کے احسان تلے خود کو دبا محسوس کر رہا تھا۔ اسے سمجھ میں ہی نہیں آیا کہ بندیسری بابو بار بار کیوں پوچھ رہا ہے۔ کہیں اس کا کوئی اپنا مفاد تو نہیں ہے۔
بندیسری بابو نے سورج کو جوائن کروا لیا تھا۔ تُرن، سورج کو وہاں چھوڑ کر چلا گیا۔ شام کو جب دونوں ملے تو تُرن کے دل میں بہت سے سوالات تھے۔ کہ اسے کوئی پریشانی تو نہیں ہوئی۔ صاحب سے اس کی ملاقات ہوئی کہ نہیں۔ کچھ کام بھی سیکھا کہ نہیں۔ بندیسری بابو نے کوئی گڑبڑ تو نہیں کی۔ آفس کے باقی لوگ کیسے لگے اسے۔ وغیرہ وغیرہ۔
’’باپو، بندیسری بابو جی نے پھر مجھ سے کہا تھا کہ تمہارے جب اتنے اچھے نمبر ہیں تو تم بابو گیری کر کے کیوں اپنا مستقبل خراب کر رہے ہو۔ وہ تو بڑے صاحب کو بھی اس کا دوش دے رہے تھے کہ انہوں نے جان بوجھ کر میرا مستقبل خراب کر دیا ہے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ مجھے بینک سے لون بھی مل جاتا اور کالج کی فیس بھی معاف ہو جاتی۔ ‘‘ سورج جو پہلے بڑا خوش نظر آ رہا تھا، تُرن کو اب کچھ اداس سا لگا۔
تُرن کو یاد آیا کہ جب اس نے بڑے صاحب کو سورج کے انجینئرنگ میں پاس ہو جانے کی خبر سنائی تھی تو وہ بہت خوش نظر نہیں آئے تھے اور جب انہوں نے سورج کو بابو بنانے کیلئے تُرن سے کہا تھا تو نِیلا بٹیا بھی بڑے صاحب پر ناراض ہوئی تھی۔ پر اسے تو سورج کے بابو بن جانے کی اتنی خوشی تھی کہ اسے نِیلا کی بات سے دکھ ہوا تھا۔ وہ سمجھ نہیں پایا تھا کہ نِیلا بٹیا کیوں بڑے صاحب پر ناراض ہو رہی ہے۔
’’تم بندیسری بابو کی با تن کھو دل پہ نہ لو بٹوا۔ ہو سکت اے بڑے ساب نے کبہو اونکھوں پھٹکارو ہو جاسے وو ان سے چڑھت ہو۔ ہم نے بڑے ساب کی برسوں سیوا کری، تبہو انہوں نے اِتنو دھیان رکھو۔ ہم گریبن کی آج سنت کون ہے۔ ہمائی برادری میں آج تک کونو بابو نای بنو۔ تم نے تو ہماو نام روشن کر دیو۔ اب تم من لگا کے کام کرو۔۔ ساب کچھ دن میں تماو پرموسن بھی کر دیہیں۔ ‘‘ تُرن نے سورج کو سمجھاتے ہوئے کہا۔
دو ماہ گزر گئے۔ سورج نے آفس کا کام کچھ کچھ سیکھ لیا تھا۔ سب اس کے کام اور محنت سے خوش تھے۔ تُرن اور پونیا کی بھی ساری برادری میں اپنے بیٹے کی کامیابی کی وجہ سے عزت بڑھ گئی تھی۔ تُرن بھی بڑے صاحب کے اس احسان کے بدلے زیادہ تندہی سے ان کی خدمت میں لگا رہتا تھا۔ بڑے صاحب کے اکلوتے بیٹے پُریش یعنی کہ چنکو بابا کا پڑھنے میں دل نہیں لگتا تھا۔ بڑے صاحب اس کی وجہ سے پریشان رہتے تھے۔ بارہویں میں وہ ایک بار فیل ہو چکا تھا اور اسی سال انہوں نے اس کا ایڈمیشن ڈونیشن دے کر کسی کالج میں کرایا تھا۔ نِیلا بٹیا اس بات کی وجہ سے بڑے صاحب سے ناراض رہتی تھی اور کبھی کبھی ان کو سورج کی مثال دیتے ہوئے الجھ جاتی تھی۔ نِیلا کی جانب سے سورج کا اس طرح سائیڈ لینا تو تُرن کو اچھا لگتا تھا۔ پر بڑے صاحب سے جھگڑنا اسے ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا۔ اس نے ایک دو بار اکیلے میں اسے سمجھانے کی کوشش بھی کی تھی تو بٹیا نے ’’کاکا تم نہیں سمجھو گے۔ ‘‘کہہ کر اسے خاموش کرا دیا تھا۔
تُرن سنگھ گزشتہ چوبیس سالوں سے بودھ رام نرنجن کے گھر پر کام کر رہا تھا۔ اس وقت سے جب نرنجن نیا نیا اسسٹنٹ کنٹرولر کے عہدے پر بھرتی ہوا تھا۔ اس کی پہلی پوسٹنگ بُندیل کھنڈ کے علاقے میں ہوئی تھی۔ جہاں چھوت چھات اور اونچ نیچ کا فرق اس پورے معاشرے میں زہر کی طرح سرائیت کر گیا تھا۔ اس کی وجہ سے بودھ رام جو کے ذات سے ہریجن تھا، کے گھر پر کوئی بھی ملازم کام کرنے کو تیار نہیں تھا۔ اس سے پہلے تعینات رہے منورنجن شکلا کے گھر پر کام کرنے والے چھٹکے ریکوار اور ہری لال ساہو نے صاف صاف انکار کر دیا تھا۔ ’’ صاحب ہم آپ کے گھر پر کام نہیں کریں گے۔ ہماری برادری میں یہ بات پتہ چل گئی تو ہم سماج سے ہی باہر کر دیئے جائیں گے۔ ہمارے بال بچوں کی شادی تک نہیں ہو پائے گی اور ہمارا حقہ پانی، آپس میں اٹھنا بیٹھنا تک حرام ہو جائے گا۔ ‘‘
یہ سنکر بودھ رام حیران رہ گیا تھا۔ ایک جھٹکے میں ہی اس کی افسری زمین پر آ گئی تھی۔ وہ ان دونوں کے خلاف ڈسپلن کو نہ ماننے کی وجہ سے کار روائی کرنا چاہتا تھا۔ لیکن ضلع کے ایک پسماندہ ذات کے بی ڈی او کے سمجھانے پر اس نے اپنا ارادہ ترک کر دیا۔ گھر کے کام کاج کیلئے اس نے ننھال سے، دور کے ایک رشتہ دار تُرن کو بلا لیا تھا اور اسے گھر پر ہی سروینٹ کوارٹر میں رہائش دے دی تھی۔ تب سے مسلسل تُرن، بودھ رام کے گھر پر کام کر رہا تھا۔ بود ھ رام کے کئی ٹرانسفرز ہوئے۔ حکومت کے نئے بنے ریزرویشن قوانین کے تحت جلدی جلدی اس کے تین پرموشن بھی ہو گئے اور وہ اپنے ساتھ ہی لگنے والے کئی افسروں کو پیچھے چھوڑتا ہوا چیف انجینئر بن گیا۔ جلدی جلدی بغیر باری کے پروموشن پا جانے کے بعد وہ گھمنڈی ہو گیا تھا اور اپنے ساتھی افسروں تک سے بدتمیزی کرنے لگا تھا۔ تُرن، بود ھ رام کے اس بدلتے رویے کا عینی شاہد تھا۔ جن سے کبھی بود ھ رام سر سر کہہ کر باتیں کرتا تھا۔ تُرن نے اسے ان سے ہی کئی بار برا سلوک کرتے دیکھا تھا۔
چیف انجینئر بننے کے بعد اپنے پہلے دورے پر بود ھ رام نے چھٹکے ریکوار اور ہری لال ساہوسمیت ورنداون پٹیل کو بھی معطل کر دیا تھا۔ وہ دونوں ورنداون کی سائٹ پر ہی کام تھے اور ورنداون کے کہنے پر ہی افسروں کے گھروں میں کام کرتے تھے۔ اپنی پہلی پوسٹنگ کے وقت سے ہی تینوں بودھ رام کے نشانے پر تھے۔ پر دو مہینوں کے اندر ہی تینوں کی بحالی کے احکامات بودھ رام کو نکالنے پڑے تھے۔ یونین لیڈر بھگت چرن نے دھمکی دی تھی کہ اگر چوبیس گھنٹے کے اندر اندر معطلی واپس نہیں لی گئی تو اس کے بنگلے کے باہر تنبو لگا کر بھوک ہڑتال کی جائے گی۔
نویں میں پڑھنے والی نِیلا کو باپ کا جانبدار رویہ پسند نہیں آتا تھا۔ بھوک ہڑتال کی دھمکی کے بعد جب بود ھ رام کو پیچھے ہٹنا پڑا تو وہ بہت دلبرداشتہ ہوا تھا۔ نِیلا تینوں کی بحالی سے خوش تھی۔ اس نے بود ھ رام کو تھینکس بولا۔ بیٹی کے منہ سے یہ سنتے ہی وہ بپھر گیا۔ اسے لگا بھوک ہڑتال کے ساتھ ہی اس کی بیٹی بھی اس کی مجبوری کا مذاق اڑا رہی ہے۔ وہ بڑی زور سے نِیلا پر چلایا۔ بے چاری روتی ہوئی اپنے کمرے میں چلی گئی۔
بودھ رام کی پتنی شاملی نے اسے ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔ بودھ رام کو بھی لگا کہ اس نے ناحق نِیلا کو اتنی زور سے ڈانٹ دیا ہے۔ اس نے شاملی سے کہا۔ ’’تم ہی بتاؤ میں کیا کروں، نِیلا ہر بات میں مخالفت کرتی ہے۔ وہ تو ریزرویشن تک کی مخالف ہے۔ اگر یہ نہ ہوتی تو شاید میں بھی انجینئر نہ بن پاتا۔ چنکو کے رنگ ڈھنگ تو تم دیکھ ہی رہی ہو۔ بغیر ریزرویشن کے وہ کچھ بن کر دکھا سکتا ہے کیا۔ ریزرویشن کے باوجود بھی اسے ڈھنگ کی نوکری ملے گی مجھے یقین نہیں ہے۔ ‘‘
’’وقت کے ساتھ نِیلا بھی سب سمجھ جائے گی۔ اس عمر میں بچے اونچ نیچ نہیں سمجھتے۔ اسے بھی کلاس میں کون اونچی ذات کا مانتا ہے۔ اس کی پہچان تو ایک بڑے افسر کی بیٹی کی ہے۔ اونچی ذات کے غریب بچوں کو دیکھتی ہے تو پریشان ہو جاتی ہے۔ اس نے آپ کی طرح غربت کے دن ہی کہاں دیکھے ہیں۔ آپ اس سے محبت سے بات کیا کیجئے۔ ‘‘شاملی نے سلیقے سے اپنی بات بودھ رام کے سامنے رکھی۔
’’تم ٹھیک کہتی ہو شاملی۔ ‘‘ بودھ رام نے کہا، ’’لیکن نِیلا ہر بات میں ہماری مخالفت کرتی ہے۔ ‘‘
’’سورج کے تئیں آپ کی سوچ نے اسے مجروح کیا ہے۔ اسے لگنے لگا ہے کہ آپ مفاد پرست ہیں۔ آپ کو کسی دوسرے کا مفاد عزیز نہیں۔ مجھے بھی لگتا ہے کہ سورج کے لئے آپ نے صحیح فیصلہ نہیں لیا ہے۔ تُرن سمجھتا ہے کہ سورج کو بابو بنا کر آپ نے اس پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔ وہ تو آپ کو بھگوان سمجھتا ہے۔ ‘‘شاملی کی آواز میں بہت سنجیدگی تھی۔ وہ نِیلا کا موقف بودھ رام کو سمجھانے کی کوشش کر رہی تھی۔ ساتھ ہی اسے یہ بھی دھیان رکھنا پڑ رہا تھا کہ بودھ رام اس کی باتوں سے اپنی ہتک محسوس نہ کرے۔
’’شاملی تم بھی مجھے ہی غلط سمجھتی ہو۔ پر میں نے جو بھی کیا اپنے بچوں کے مستقبل کے لئے کیا۔ ‘‘ بودھ رام کے لہجے میں مایوسی تھی۔ ’’تم کو یاد ہے نہ، کوئی بھی ہمارے گھر میں کام کرنے کو تیار نہیں تھا، میں تُرن کو نہیں لایا ہوتا تو کھانا بنانے سے لے کر چوکا برتن بھی تمہیں ہی کرنا پڑتا۔ اگر تُرن جیسے لوگوں کے بچے بھی افسر بن جائیں گے تو پھر ہمارے چنکو کا کیا ہو گا۔ افسر کا بیٹا ہو کر کیا بابو بن کر دھکے کھانے کیلئے چھوڑ دوں اسے۔ کسی طرح چنکو افسر بن بھی گیا تو کون جائے گا اس کے گھر پر کام کرنے کیلئے، میں نے سورج کو لے کر جو بھی کیا بہت سوچ سمجھ کر کیا۔ وہ بابو بن کر خوش ہے اور تُرن بھی۔ ‘‘
شاملی کو کچھ بھی نہیں سوجھا کہ کیا بولے۔ اچانک اسے باہر کچھ گرنے کی آواز سنائی دی تو وہ باہر نکلی۔ ہوا کے جھونکے سے رادھا کرشن کی مورتی گر کر ٹوٹ گئی تھی۔ اور تُرن ان کے ٹکڑے سمیٹتے ہوئے اپنی جھولی میں رکھ رہا تھا۔
***
بیچ کا فرق
اشوک پر تھی متوالا
انیتا اپنے بالوں کو کنگھے سے سنوارتی ہوئی اپنے چہرے پر ایک انجانی سی اداسی لئے نہ جانے کس سوچ میں ڈوبی تھی۔ ماضی کی مدھر یادوں کے گہرے سمندر میں وہ اتنی ڈوبی ہوئی تھی کہ اسے کچھ خبر نہ تھی کہ کنگھا اس کے بالوں میں کب پھنس کر رہ گیا تھا۔
آج کی صبح انیتا کیلئے کچھ دکھ بھری اور ناقابل فراموش یادیں لے کر آئی تھی۔ دفعتاً اس کا دھیان اپنے ماتھے پر لگی بندیا پر گیا اور پھر اس نے اپنی مانگ میں بھرے سہاگ کی نشانی سندور کو اپنی انگلی سے محسوس کیا۔
آنند، انیتا کے لئے اب ایک غیر بن چکا تھا۔ چونکہ وہ آج کسی دوسرے کی ہو چکی تھی۔ ازدواجی بندھن میں بند جانے کے بعد آنند کو یاد کرنا تو دور اب اس کا نام لینا بھی اس کیلئے گناہ تھا۔ پر اس کے دل و دماغ میں آنند کی یادیں اتنی غالب ہو چکی تھیں کہ وہ بڑبڑانے لگی۔ کیسا ہو گا وہ؟ کیا اسے کبھی میری یاد بھی آتی ہو گی یا پھر میں ہی پاگل ہوں؟ تبھی کوئی دوسرا خیال اس کو تھوڑا سکون دیتا۔ آنند نے اب تک تو کوئی اچھی سی لڑکی ڈھونڈ کر شادی کر لی ہو گی اور مجھے اس نے معاف کر دیا ہو گا۔ مجھے بھول گیا ہو گا اب تک وہ۔ انھیں یادوں میں مگن انیتا دنیا سے بے خبر بالکنی میں بیٹھی تھی۔
اگرچہ انیتا آنند کو دل سے اپنانا چاہتی تھی اور اسے اپنا جیون ساتھی بھی مان چکی تھی۔ تاہم وقت اور حالات کے آگے اسے اپنے گھٹنے ٹیکنے پڑے تھے۔ اتفاق سے انیتا کی شادی اسی شہر میں ہوئی تھی جہاں آنند رہتا تھا، لیکن آنند کو اس بات کا علم نہ تھا۔
انیتا کو جب کبھی بھی اپنے شوہر رمیش کی یاد آتی تو آنند کے ساتھ گزارے اپنے کچھ لمحوں کو یاد کر کے اس دل و دماغ میں دھواں بھر جاتا۔ انیتا شملہ کے ایک سرکاری بینک میں ملازم تھی۔ شادی کے بعد اپنا تبادلہ ابھی تک نہ ہونے کے سبب وہ ابھی بھی اپنے میکے میں ہی رہ رہی تھی۔
شادی کی پہلی رات جب اس کے شوہر رمیش نے اسے اپنی آغوش میں لینا چاہا تو تب اسے لگا جیسے آنند اسی کمرے میں کہیں چھپا بیٹھا ہے۔ لاکھ چاہنے پر بھی انیتا، آنند کو بھلا نہیں پائی تھی۔
دفعتاً ماضی کی ایک ملاقات اسے یاد آئی۔ ہفتے کے آخر میں آنند، انیتا سے ملنے شملہ آیا ہوا تھا۔ ملنے کی جگہ ’’ گھپا ریسٹورنٹ‘‘ تھی۔ اسٹیشن پر پہنچ کر آنند مال روڈ کی طرف بڑھنے لگا تھا۔ اسے ’’ گھپا ریسٹورنٹ‘‘ تک پہنچنے میں تقریباً آدھا گھنٹہ لگا تھا۔ جہاں انیتا پہلے ہی اس کا انتظار کر رہی تھی۔
ایک دوسرے کی جھلک پا کر دونوں کے چہرے کھل پڑے تھے۔ ریسٹورنٹ کے مرکزی دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے دونوں نے ایک دوسرے کی خیریت پوچھی تھی۔ آنند نے آگے بڑھ کر انیتا کیلئے ریسٹورنٹ کا دروازہ کھول دیا اور اس کے پیچھے اندر داخل ہو گیا۔
بیرے نے آنند کے اصرار پر دونوں کو نو اسموکنگ زون میں ایک ٹیبل دی تھی۔ کتنی خوش اور پر جوش نظر آ رہی تھی انیتا۔ اس کا احساس اس کی ہر بات سے ہو رہا تھا۔ کتنی توجہ سے وہ آنند کی ہر بات کو سن رہی تھی۔
باتوں ہی باتوں میں آنند نے اپنے عزم کو دہرایا تھا، ’’انیتا تم اب میری ہو۔ دنیا کی کوئی بھی طاقت اب ہمیں جدا نہیں کر سکتی۔ ہاں تمہیں دلھن بنا کر لے جانے میں بھلے تھوڑی دیر لگ جائے لیکن میں شادی کروں گا تو تم ہی سے۔ ‘‘
’’سچ پکی بات ہے نا؟‘‘ انیتا نے آنند کی آنکھوں میں اپنی آنکھیں ڈال کر پوچھا تھا۔
’’بلاشبہ یہ پکی بات ہے۔ ‘‘ اپنے پکے ارادے کا اظہار کرتے ہوئے آنند نے کہا۔
کچھ سوچ کر انیتا نے دوسرے ہی لمحے پوچھا، ’’ایک بات بتاؤ۔ ‘‘
’’جی پوچھو۔ ‘‘
’’ اور اگر میں ہی اپنا ارادہ تبدیل کر لوں اور تم سے شادی کرنے سے انکار کر دوں تو تم کیا کرو گے۔ ‘‘
’’میں زہر کھا کر مر جاؤں گا، ہرگز نہیں، یہ تو بزدلوں کا کام ہوتا ہے۔ میں تمہیں اسی حالت میں اپنے ساتھ بھگا کر لے جاؤں گا۔ ‘‘
’’اتنی ہمت ہے تم میں۔ ‘‘
’’تم اپنی ہمت کی بات کرو۔ بولو میرے ساتھ چلنے کو تیار ہو گی؟‘‘ یہ کہہ کر آنند نے انیتا کے اعتماد اور ارادے کو پرکھنا چاہا تھا۔
’’بھاگ کر۔ نا بابا نا، میں ایک مڈل کلاس اور شریف خاندان سے تعلق رکھتی ہوں۔ ایسا میں ہرگز نہیں کر سکتی۔ ‘‘ انیتا نے تب ایک چٹکی لی اور آنند کو پریشان ہوتے ہوئے دیکھ کر کہا، ’’ میں تو تمہارے ساتھ ڈولی میں بیٹھ کر جاؤں گی اور اپنے ماں باپ اور رشتہ داروں سے وداع لوں گی اور تم بھی شریفوں کی طرح بارات لے کر آنا۔ ‘‘
اگلے ہی لمحے ماحول ان دونوں کے قہقہوں سے گونج اٹھا تھا۔ اس کے بعد خاموشی کے کچھ لمحوں میں ان دونوں کے چہروں پر مسکراہٹ اور آنکھوں میں سنہری خوابوں کی ایک جھلک دیکھی جا سکتی تھی۔ تبھی دیکھتے ہی دیکھتے آنند نے انیتا کو اپنی آغوش میں بھر لیا اور ہولے سے اس کے منہ کو چوم لیا تھا۔ انیتا نے اپنی انگلی سے آنند کے لبوں کو دور کرتے ہوئے دوبارہ پوچھا، ’’اچھا اب یہ بتاؤ، بارات کب لا رہے ہو؟‘‘
’’تمہیں اس دن کا تھوڑا انتظار کرنا پڑے گا انیتا، میں تمہیں صحیح وقت نہیں بتا سکتا۔ ‘‘ آنند نے واضح کیا۔
’’لیکن تم کم از کم اتنا تو بتا ہی سکتے ہو کہ آخر کب تک؟‘‘
’’تمہاری شادی کے وقت تک۔ ‘‘
’’اور میری شادی کب ہو گی؟‘‘
’’جب میری ہو گی۔ ‘‘
’’مذاق مت کرو۔ ‘‘ تھوڑا جذباتی ہوتے ہوئے انیتا نے پھر کہنا شروع کیا، ’’مجھے ڈر ہے آنند کہ اس وقت تک بات کچھ بگڑ ہی نہ جائے۔ اپنی بات پوری کرنے سے پہلے وہ رک گئی۔
’’ایک بات میں پوچھوں اب؟‘‘
’’پوچھو۔ ‘‘انیتا نے گردن ہلا کر اپنی رضامندی دی اور بے چینی سے اس کے سوال کا انتظار کرنے لگی۔
’’انیتا، کیا تمہیں مجھ پر اعتماد ہے؟ اگر تم کو کچھ مہینے مزید میرا انتظار کرنا پڑا تو کیا تم میرا انتظار کر سکتی ہو۔ ہو سکتا ہے ایک سال لگ جائے، دو سال بھی لگ سکتے ہیں۔ باری جلدی بھی آ سکتی ہے۔ بیرون ملک جانے کا معاملہ ہے۔ یو نو تم یہ بات خوب سمجھتی ہو۔ ‘‘
’’ممی تو کہہ رہی تھیں کہ جیسے تم لوگوں کو یہ رشتہ ہی منظور نہیں۔ اسی لئے شادی کی تاریخ طے نہیں کر رہے۔ ممی یہ بھی کہہ رہی تھیں کہ زیادہ سے زیادہ اپریل تک انتظار کر سکتے ہیں۔ مجھے تو ڈر لگنے لگا ہے، آنند کہ کہیں ایسا۔۔؟‘‘
’’کیا تم نے اپنے ممی پاپا کو وشواس نہیں دلایا؟‘‘
’’دلایا تھا، لیکن میرے یقین دلانے سے کیا ہوتا ہے، ممی سے تو اس دن میں اسی بات کو لے کر جھگڑ پڑی تھی۔ مگر پاپا سے کون۔۔ ۔؟‘‘ انیتا نے تھوڑا بے چین ہوتے ہوئے کہا، ’’دنیا والے ہی کب چین لینے دیتے ہیں، آنند تم تو اچھی طرح جانتے ہی ہو کہ ماں دل کی بیماری میں مبتلا ہیں، خدا نہ کرے اگر ایسا ہوا تو ان سے یہ صدمہ برداشت نہیں ہو گا۔ میں کہیں کی نہ رہوں گی۔ کسی دوسرے سے شادی کرنے کی بات تو میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتی، زہر کھا کر۔۔ ۔۔ ‘‘
اس سے پہلے کے انیتا اپنی بات پوری کر پاتی، آنند نے اپنا ہاتھ اس کے منہ پر رکھ دیا اور ایک بار پھر انیتا کو اپنی بانہوں میں بھر لیا۔ اتنا کہتے کہتے انیتا کا گلا رندھ گیا تھا، اس کی آنکھیں بھیگ گئی تھیں۔ اور اس کے آنسو اس کے گالوں سے بہتے ہوئے آنند کے کندھوں پر ٹپکنے لگے تھے۔
اس کے آنسو پونچھتے ہوئے آنند بولا، ’’پگلی مجھ پر تو تمہیں بھروسہ ہے نا۔ چلو اب ہمیں جاکھو مندر بھی جانا ہے۔ واپسی میں یہیں آ کر شام کی چائے پئیں گے۔ ‘‘ بیرے کیلئے ٹیبل پر ٹپ رکھنے کے بعد آنند نے انیتا کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا۔
گپھا ریسٹورنٹ سے نکل کر دونوں جاکھو مندر کا راستہ طے کرنے لگے تھے۔ اسکیٹنگ رنگ تک پہنچتے پہنچتے آنند کی سانس بری طرح پھولنے لگی تھی۔ اپنی سانسیں نارمل کرنے کیلئے آنند وہیں ایک طرف ریلنگ کے پاس کھڑا ہو گیا۔ ایک بار پھر آنند نے انیتا کو اپنی بانہوں میں بھرنا چاہا، لیکن انیتا نے آتے جاتے لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنی شرم کا اظہار کیا۔ تھوڑی دیر میں جب آنند کی سانس بحال ہوئی تو دونوں جاکھو مندر پر جانے والے راستے پر ہو لئے تھے۔
وہ جوں جوں مندر جانے والے رستے کی چڑھائی چڑھ رہے تھے توں توں آنند کی سانس اور بھی پھولتی جا رہی تھی۔ اسے اپنی سانس نارمل کرنے کے لیے تھوڑی تھوڑی دیر بعد رکنا پڑ رہا تھا۔ اسی بہانے وہ رک رک کر انیتا کے کئی پوز اپنے کیمرے میں قید کرتا جا رہا تھا۔
مندر پہنچ کر انہوں نے چڑھاوے کا پرساد لیا اور بندروں کو کھلانے کیلئے چنے بھی خریدے۔ اسی درمیان انیتا نے آنند کو بندروں سے ہوشیار رہنے کے لئے کہا اور ان کے کچھ اپنے پر بیتے قصے بھی سنائے۔ آنند کو انیتا کی بات پر اب بھی یقین نہیں ہو رہا تھا کہ اچانک اس نے ایک بندر کو مندر میں آتے ہوئے ایک بھگت کی ٹانگ کے پاس کودتے دیکھا۔ بھگت کی ٹانگ پکڑ کر بندر نے اپنے دوسرے ہاتھ سے اس کی سائڈ پاکٹ سے پرساد کا لفافہ نکال لیا تھا۔ اتنے میں ایک اور بندر بجلی کی سی تیزی سے دیکھتے ہی دیکھتے دوسرے بھگت کے کندھے پر کود کر اس کے چشمہ کو لے کر دائیں جانب کی اونچی دیوار پر جا بیٹھا تھا۔ اس کام میں یہ بندر بہت ماہر تھا اور آتے جاتے بھگتوں کے چشمے موقع پا کر اتار لیتا تھا اور تبھی انہیں نیچے گرا کر واپس کرتا تھا، جب اسے ہرجانے کے طور پر بسکٹ کا پیکٹ یا کچھ اور کھانے کی چیز دی جاتی۔ اگلے ہی لمحے بندروں کی ایک اور ٹولی کو اپنی طرف بڑھتا دیکھ کر دونوں خوفزدہ ہو گئے تھے۔ انیتا ڈر کے مارے چیخ پڑی تھی اور اس نے اپنے آپ کو آنند کی بانہوں کے سپرد کر دیا تھا۔
مندر میں بھگوان کے درشن سے پہلے دونوں نے اپنے ہاتھ دھوئے اور پھر درشن کرنے کے بعد پنڈت جی سے پرساد لیا۔ دونوں نے اپنی اپنی منتیں مانی۔
’’ تھینک یو۔ ‘‘کہتے ہوئے انیتا نے آنند کی طرف دیکھتے ہوئے اس کے چہرے پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ ڈالی۔ جواب میں آنند حیران ہو اٹھا تھا۔
مندر کی سیڑھیاں اتر کر دونوں اب مندر کے احاطے میں آ گئے۔ جہاں ایک بندر لوگوں کے ہاتھوں سے چنے لے کر کھا رہا تھا۔ مندر کے ایک بھگت کے اصرار پر اور تھوڑی ہمت بٹور کر دونوں اس بندر کو بھی چنے کھلانے لگے تھے۔ ایسا کر کے ان دونوں کو بڑا مزا آ رہا تھا۔
’’آنند اب کھانا کھائیں کیا۔ چلو ادھر اس بینچ پر دھوپ میں بیٹھ کر۔ میں تمہارے لئے آلو کی بھاجی اور پوریوں کے ساتھ کاجو اور کشمش وا لی کھیر بنا کر لائی ہوں۔ ‘‘ بڑی بیتابی اور جوشیلے لہجے میں انیتا کہتی ہی چلی گئی۔
پھر آنند کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی تھی، ’’تمھیں یہ سب کچھ کھانا پسند ہے نا؟ مجھے تمھاری پسند کا ابھی پتہ نہیں ہے اور نہ ہی مجھے تم سے یہ سب کچھ پوچھنے کا موقع ہی ملا ہے۔ ‘‘
’’ہمارا کیا ہے ہم تو سنت لوک ہیں، محبت سے ہمیں چاہے کوئی زہر پلا دے۔ ‘‘
’’کتنی خوش قسمت ہوں میں۔ ایسے سنت لوک کو پا کر۔ ‘‘ انیتا نے بھی جملہ کسا تھا۔
آنند بس مسکرا کر رہ گیا تھا۔
باتیں کرتے کرتے انیتا اپنے بیگ سے کھانے کے ڈبے نکال کر کھانا پروسنے لگی۔ دونوں نے اکٹھے بیٹھ کر کھانا کھایا اور کافی دیر تک باتیں کیں۔
کچھ دیر مندر کے احاطے میں اور رک کر دونوں واپس لوٹنے لگے تھے۔ راستے میں انہوں نے کئی جوڑوں پر اپنے کمنٹس بھی پاس کئے۔
’’ آنند۔ ‘‘ دبی آواز میں انیتا نے آنند کو اپنی طرف متوجہ کیا۔
’’ ہاں کہو۔ ‘‘
’’تم نے ایک بات نوٹ کی۔ ‘‘
’’کیا؟‘‘
’’یہی کہ آتے جاتے کچھ لوگ ہمیں ایک حسرت بھری نظر سے دیکھ کر کچھ بڑبڑاتے ہیں۔ بازار اور آبادی والے حصے میں بھی میں نے یہی محسوس کیا۔ ‘‘ انیتا نے تفصیل سے کہا۔
’’انیتا تم نے میرے منہ کی بات چھین لی۔ میں بھی تم سے یہی بات کہنے والا تھا۔ ‘‘ آنند نے انیتا کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا۔
’’بھلا لوگ کیا سوچتے ہوں گے؟‘‘
’’یہی کہ ہمارا باہمی رشتہ کیا ہے؟‘‘
’’بالکل درست میرا بھی ایسا ہی سوچنا ہے۔ ‘‘ انیتا نے بھی اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔ پھر اس نے اپنی بقیہ بات پوری کی، ’’لوگ ہمیں بانہوں میں با نہیں ڈال کر جاتے ہوئے دیکھ کر متجس ہو رہے ہوں گے۔ پھر ہمارے بیچ میاں بیوی کے رشتے کی کوئی نشانی نہ پا کر سوچتے ہوں گے کہ پریمی ہوں گے۔ ‘‘
’’تو اس میں کون سا غلط سوچتے ہیں۔ ‘‘
آنند کا جواب سن کر انیتا کی سانس جیسے ڈر کے مارے حلق میں ہی پھنس گئی۔
’’انیتا اگلی بار جب یہاں آئیں گے تو لوگوں کو ہم ایسا سوچنے کا موقع نہیں دیں گے۔ خود ہی ہمارے تعلق کے بارے میں انہیں اندازہ ہو جائے گا۔ ‘‘ آنند اعتماد سے کہا۔
’’وہ کیسے؟‘‘ انیتا نے تجسس ظاہر کیا۔
’’تمہارے ہاتھوں میں سرخ چوڑ یاں اور تمہاری مانگ میں بھرے سندور کو دیکھ کر۔ ‘‘
یہ سن کر انیتا تھوڑا شرما گئی تھی اور دل ہی دل میں باغ باغ ہونے لگی تھی۔
آنند کی یاد میں کھوئی ہوئی ماضی کی اس ایک ملاقات کو یاد کر کے اس کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ پھیل گئی۔ دفعتاً ممی کی آواز اس کے کانوں میں پڑی۔ ہاتھ میں کنگھا لیے وہ اپنے بال دوبارہ سنوارنے لگی۔ اور ایک طویل سانس لیتے ہوئے اس نے وہیں سے پوچھا، ’’کیا بات ہے ممی؟‘‘
’’اب تک تمہارے بال نہیں سنورے کیا؟‘‘ انیتا کی ممی ساوتری نے باورچی خانے سے ہی اپنی اونچی آواز میں سوال کیا۔
’’اے ہو، ممی کیا بات ہے؟ تھوڑی دیر اور لگے گی ابھی آتی ہوں۔ ‘‘ انیتا جھلا کر بولی، ’’ممی آج تو اتوار ہے۔ دفتر کی چھٹی ہے، لیکن آپ کو کیوں اتنی جلدی مچی ہوئی ہے؟‘‘
’’ارے بھئی دفتر تمھیں نہیں جانا ہے، میری تو چھٹی نہیں ہوتی اس چولہے چوکے سے۔ کم از کم تم ناشتا کر کے تو مجھے فارغ کر ہی سکتی ہو نا۔ پھر چاہے بال بناتی رہنا یا پھر ناچتی رہنا۔ جلدی سے ادھر آ کر پہلے ناشتا کر لو پھر مجھے کپڑے بھی دھونے ہیں۔ میں کپڑوں پر صابن لگاتی جاؤں گی اور تم نچوڑ کر برآمدے میں تار پر ڈالتی جانا۔ اب میں بوڑھی ہو گئی ہوں بیٹا۔ اب مجھ میں اتنی ہمت نہیں رہی یہ سب کچھ اکیلے کرنے کی۔ ‘‘
’’آپ کو کپڑے دھونے کے لیے کس نے کہا ہے ماں۔ رکھ دو ایک طرف۔ تھوڑی دیر میں میں خود دھو لوں گی۔ ‘‘ انیتا نے جواب میں کہا۔
’’تُو ناشتا تو کر لے پہلے پھر سوچیں گے کہ کپڑوں کا کیا کرنا ہے۔ ‘‘ اس کی ممی ساوتری نے پھر اپنی دلیل دی، ’’تیری باتوں میں آ جاؤں تو ہو گئے تمام کام میرے۔ گزشتہ ہفتے سے بالوں میں تیل لگانے کے لیے تجھ سے کہہ رہی ہوں لگا یا تو نے؟‘‘
یہ سن کر انیتا گرجتے ہوئے بولی، ’’مجھے اب نہیں کرنا ناشتا واشتا۔ آپ میرے لئے ایک پراٹھا بنا کر رکھ دو۔ جب دل کرے گا کھا لوں گی۔ ‘‘
’’آ جا میرے بیٹے میں گرم گرم پراٹھا بنا رہی ہوں ابھی کھا لے پھر ٹھنڈے کا مزہ نہیں آتا۔ ‘‘
’’میں نے کہا نا، ماں مجھے بھوک نہیں ہے، یوں ہی ہاتھ دھو کر پیچھے مت پڑ جایا کرو۔ ‘‘
’’تمہیں کیا ہو گیا ہے رے۔ شادی سے پہلے تو تم ایسی نہیں تھیں۔ تم میں کتنا فرق آ گیا ہے۔ شادی کے بعد تو تم ابھی اپنے میاں کے پاس بھی نہیں گئی ہو۔ شادی سے پہلے بھی تم میرے پاس ہی تھیں۔ وہی گھر ہے، وہی میں بھی ہوں لیکن تم پہلے جیسی نہیں رہی تمھیں کیا ہو گیا ہے؟ یہ تبدیلی کیسی رے؟‘‘
’’ممی مجھے چڑایا نہ کرو، پلیز مجھے میرے حال پر چھوڑ دو۔ ‘‘ کہتے کہتے انیتا سسک پڑی۔
انیتا کو بے چین اور پریشان ہوتے دیکھ کر ساوتری نے اسے اپنی چھاتی سے لگاتے ہوئے پوچھا، ’’بیٹی کیا بات ہے، آج تم اتنی پریشان کیوں لگ رہی ہو؟ ہم نے تو جو بھی کیا سب کچھ تمھاری بھلائی کے لیے ہی کیا۔ اب اس میں کسی کا کیا دوش ہے بیٹا۔ کیا تنگ آ گئی ہو اپنی بوڑھی ماں سے؟ تم کوئی پرائے گھر میں تھوڑا ہی بیٹھی ہو تمھارا اپنا گھر ہے۔ ‘‘
انیتا چپ رہی بس سسکنے لگی اور ساری بات اس کی سسکیوں نے ظاہر کر دی۔
ساوتری پھر اسے تسلی دیتے ہوئے بولی، ’’بیٹا میں تمہاری پریشانی سے اچھی طرح واقف ہوں۔ تم سمجھدار ہو۔ بتاؤ جب تک تمھارا تبادلہ نہ ہو جائے، میں کیا کر سکتی ہوں تم برداشت رکھو بیٹا، تمھارا تبادلہ جل دہی ہو جائے گا اور پھر تم رمیش کے پاس ہو گی اور رہی بات تمھارے میاں اور ساس کے رویے کی، وہ بھی وقت کے ساتھ ساتھ ٹھیک ہو جائے گا۔ ‘‘ ایک طویل سانس لیتے ہوئے دوبارہ بولی، ’’ بیٹی تم اس گھر میں ابھی نئی نئی گئی ہو، تھوڑا وقت تو ہر ایک کو لگتا ہے، ایک دوسرے کو سمجھنے میں۔ ‘‘
’’ماں، میں نے یہ کب کہا ہے کہ میں تم سے تنگ آ گئی ہوں۔ یا اس گھر سے اکتا گئی ہوں یا پھر رمیش کے پاس جانا چاہتی ہوں۔ تم کو اور پاپا دونوں کو ہی بڑی جلدی ہو رہی تھی مجھ سے اپنا پیچھا چھڑانے کی۔ مجھے کنویں میں دھکا دینے کی۔ ورنہ میں تو آنند کا انتظار کر ہی۔۔ ۔ ‘‘ کہتے کہتے انیتا سسک پڑی تھی۔
تبھی سا و تری انیتا کو ڈھارس دینے کی غرض سے بولی، ’’رمیش کا خط تو آیا تھا کہ وہ جلد ہی چھٹی لے کر تم سے ملنے آئے گا، لیکن ہو سکتا ہے اسے کوئی کام آن پڑا ہو یا چھٹی نہ ملی ہو۔ جس کی وجہ سے وہ آ نہ سکا ہو۔ انسان کی بہت مجبوریاں ہوتی ہیں۔ پھر چندی گڑھ کون سا دور ہے، تم خود اگلے ہفتے کچھ دنوں کی چھٹی لے کر اسے مل آؤ۔ میں اسے کل فون کر دوں گی۔ بس اڈے سے آ کر خود تمہیں لے جائے گا۔ ‘‘
یہ سب سن کر انیتا غصے سے پھٹ پڑی، ’’اب بس کرو ممی کوئی ضرورت نہیں کسی کو فون کرنے کی۔ کہیں نہیں جانا مجھے۔ ‘‘
’’پھر تم اتنی پریشان کیوں ہو بیٹا؟‘‘
’’ ممی میں نے کہا نا مجھے پریشان نہ کرو۔ مجھے میرے حال پر چھوڑ دو۔ ‘‘ جواب میں انیتا بولی۔
’’پھر کچھ تو بولو کیا بات ہے۔ اپنی ماں کو تو اپنے دل کی بات بتا ہی سکتی ہے نا؟‘‘
’’یہ تمام پریشانیاں آپ لوگوں نے خود مول لی ہیں۔ میں تو آپ لوگوں پر بوجھ تھی نا۔ آپ کی تو جیسے تمام مشکلیں اور ذمے داریاں ختم ہو گئیں میری شادی کر کے۔ اب چاہے میں مروں یا جیوں، آپ لوگوں کی بلا سے۔ ہاں، جیسے تیسے میری زندگی کٹ ہی جائے گی۔ میرے لئے اب کسی کو کچھ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ویسے بہتر یہی ہوتا اگر آپ میری شادی کرنے کے بجائے مجھے کنویں میں دھکیل دیتے۔ مجھے اس تکلیف اور تنہا زندگی سے تو رخصت مل جاتی۔ ‘‘
انیتا اپنے دل کی ساری بھڑاس نکال دینا چاہتی تھی۔ ادھر ساوتری بھی خود پر کنٹرول رکھنے کی کوشش میں ناکام رہی اور رندھے گلے سے بولی، ’’ اب اس میں ہمارا کیا قصور ہے۔ ہم نے تو اپنی طرف سے سب کچھ دیکھ بھال کر تمہارے لئے یہ سب کچھ کیا تھا۔ ‘‘
’’ ممی میں بھی کسے دوش دوں، اس میں سارا دوش صرف میرا ہی ہے کہ تمہاری باتوں میں آ کر میں بے صبر ہو بیٹھی اور بغیر سوچے سمجھے اس جہنم میں کود پڑی۔ ‘‘
’’برداشت رکھو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے ساوتری اٹھ کر اپنے بیڈروم میں چلی گئی۔
انیتا بھی پاس ہی میں پڑی چارپائی پر الٹی لیٹ گئی۔ جب وہ سو کر اٹھی تو اس نے چارپائی پر پڑے آئینے میں خود کو دیکھا۔ اس کی آنکھیں سرخ انگارہ، تھکی تھکی، اور سوجن کی وجہ سے بڑی بڑی لگ رہی تھیں۔ اپنی مانگ میں بھرا سندور بھی اسے ہلکا لگا۔ کچھ لمحے یوں ہی وہ پتھرائی نظروں سے آئینہ تکتی رہی۔
شادی کے کئی ماہ بعد بھی انیتا کی گود سونی تھی۔ آج بھی وہ اپنی ماں کے پاس، اپنے شوہر سے دور تنہا زندگی گزار رہی تھی۔
’’کتنا فرق ہے دونوں میں؟‘‘ شاید وہ سوچ رہی تھیں، ’’ آنند مجھے کتنا چاہتا تھا۔ کتنا مجھ سے محبت کرتا تھا، چندی گڑھ سے مجھے روز فون کرنے کے علاوہ ہر ہفتے مجھ سے ملنے آتا تھا۔ ہم دونوں میں کتنی باتیں یکساں تھیں۔ ہم دونوں ایک دوسرے کے کتنا قریب آ چکے تھے۔ کتنا ایک دوسرے کو سمجھتے لگے تھے۔ ایک رمیش ہے کہ دنیاوی نقطہ نظر سے تو بھلے میرا شوہر ہے مگر پھر بھی جیسے میرا کچھ نہیں لگتا ہے۔ اس کو مجھ میں کوئی دلچسپی نہیں۔ اے کاش میں آنند کا کچھ وقت اور انتظار کرتی، پیا ملن کا انتظار تو میں اب بھی کر رہی ہوں، تھوڑا انتظار مجھے آنند کیلئے بھی کرنا چاہئے تھا۔ ان دونوں انتظاروں کے بیچ فرق ہی کیا ہے۔ فرق ہی کیا ہے؟‘‘ یہی سوال رہ رہ کر انیتا کو جھنجھوڑ رہا تھا۔
اور نہ جانے کب تک انیتا دنیا سے بے خبر چارپائی پر اوندھی پڑی رہی۔
***
میری فرنانڈیز کیا تم تک میری آواز پہنچتی ہے؟
دھیریندر استھانا
بورے والی۔۔ ۔ کانڈیولی۔۔ ۔ ملاڈ۔۔ ۔ گورے گاؤں۔۔ ۔ میری فرنانڈیز۔۔ ۔
میری فرنانڈیز؟ ہڑبڑا کر میری آنکھ کھل گئی۔ گاڑی جوگیشوری پر رکی تھی۔ گورے گاؤں سے اگلا اسٹیشن جوگیشوری ہی ہوتا ہے اور گاڑی جوگیشوری پر ہی رکی بھی تھی۔
تو پھر؟گورے گاوں کے بعد میرے ذہن میں جوگیشوری کے بجائے میری فرنانڈیز کا خیال کیوں آیا؟ گاڑی پھر چل پڑی تھی۔۔ ۔ میں سر جھٹک کر پھر نیند میں تھا۔ میری سوچیں میری نیند میں بھی فعال تھیں۔
میری فرنانڈیز؟ میں بھی چھلانگ لگا کر اپنی نیند سے باہر آ گیا۔ گاڑی رکی ہوئی تھی۔ کہاں ہے میری فرنانڈیز؟ میں کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا تھا، جہاں لوگوں کا ہجوم سمندر کی شکل میں ٹہل رہا تھا۔ کیا ان میں بھی کوئی میری فرنانڈیز ٹہل رہی ہو گی؟ گاڑی آگے بڑھ رہی تھی۔ میں پھر نیند میں سرک لیا تھا۔
کھٹ کھٹ کھٹاکھٹ، کھٹ کھٹ کھٹاکھٹ۔ بغل سے ورار فاسٹ گزر گئی۔ میری آنکھ کھلی۔ گاڑی باندرہ سے آگے جا رہی تھی۔
’’ کون سا اسٹیشن آنے والا ہے؟‘‘ کسی نے میری کہنی تھپتھپا کر پوچھا۔
’’میری فرنانڈیز۔ ‘‘ میرے ہونٹ بدبدائے۔ گاڑی ماہم پر کھڑی تھی اور اسٹیشن پر ایسی کوئی لڑکی موجود نہیں تھی جو میری فرنانڈیز سے رتی بھر بھی میل کھاتی ہو۔
تم سے کون میل کھا سکتا ہے میری فرنانڈیز؟ تم تو۔۔ ۔ تم تو۔۔ ۔ .میری پلکیں بند ہونے لگی تھیں۔
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔
وہ پالیگھر میں اتری سردیوں کی ایک عام سی شام تھی، مگر میری زندگی میں بدقسمتی کی طرح اتری ہوئی شام، لیکن اس شام، جب وہ آہستہ آہستہ معدوم ہو رہی تھی، چاروں طرف سکھ ہی سکھ چھایا ہوا تھا۔ ہلکی ہلکی سردی کے ساتھ سڑکوں پر پھیلتا سیاہ سایہ مجھے بھا رہا تھا، وہاں میرے اپنے شہر جیسا ہجوم اور ہر وقت جاری رہنے والا شور نہیں تھا۔ کوئی کسی کے کندھے نہیں چھیل رہا تھا، کسی کو کہیں جانے کی جلدی نہیں تھی۔ کتنے دن، نہیں نہیں کتنے برسوں بعد میں سکون سے تھا۔ میں سڑک پر کھڑا، سڑک کنارے مچھلی بیچتی کولی عورتوں کو دیکھ رہا تھا اور ان کے کام میں مہارت تھی، ایک کاروباری جادو تھا کہ تبھی کسی پاگل ضد کی طرح اس خواہش نے سر اٹھایا کہ آج رات تو یہیں ٹھہرنا ہے۔ رکنے کا پیسہ ویسے بھی ہی دفتر دے گا۔ دفتر والوں کو کیا معلوم کہ میرا کام آج شام ہی نپٹ گیا ہے۔ اسے کل تک آسانی سے نکالا جا سکتا ہے اور بس پھر میں پالیگھر کی ٹھنڈی تاریک سڑکوں کا آوارہ گرد بن گیا۔
’’اے، لڑنے کا نیں۔ دوں گا ایک لافا تو ساری آوارگی اتر جائے گی۔ ‘‘
اچانک شور مچ۔ دو لوگ آپس میں لڑ پڑے تھے۔ زندگی کے دکھ لئے، گرمی، شکست، محنت اور تھکاوٹ برداشت کرتے اس شہر کے لوگوں کو غصہ جلدی جلدی آتا ہے۔ لیکن اتنی ہی جلدی اتر بھی جاتا ہے۔ کسی کے پاس لمبی لڑائی کیلئے فالتو ٹائم نہیں ہے۔
لیکن اس سرد اور تاریک ہوتی پالیگھر کی شام میرے پاس ڈھیر سارا فالتو وقت تھا۔ جس میں سے کافی سارا میں نے خرچ کر دیا تھا اور پھر میرے وجود میں گہری تھکاوٹ سے بھر گئی۔ میری آنکھوں کے سامنے، اس قصبے کے لحاظ سے، ایک بہترین عمارت موجود تھی، جس کے احاطے میں پھولوں سے بھرا باغیچہ تھا، دروازے پر دربان تعینات تھا۔ وہ وہاں کا مشہور ہوٹل ’’سم سم‘‘ تھا۔
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔
’’بمبئی سینٹرل اترنے کا ہے۔ ‘‘کوئی زور سے چیخا اور میری پلکیں کھل گئیں۔ کافی بڑی بھیڑ اتر رہی تھی۔ گاڑی کے چلتے ہی میں پھر خیالوں میں تھا۔
’’گرانٹ روڈ۔۔ ۔ چرنی روڈ۔۔ ۔ میرین لائنس۔۔ ۔ میری فرنانڈیز! اٹھو۔ چرچ گیٹ آ گیا۔ ‘‘ کسی نے مجھے جگا دیا۔ میں اٹھا، انگڑائی لی اور گاڑی سے اتر گیا. اب مجھے ٹیکسی لے کر نریمن پوائنٹ جانا تھا۔
تم نے تو میری زندگی میں اس رات عجیب سی حیرت اور ایک ناقابل یقین مسرت کی طرح داخلہ لیا تھا میری فرنانڈیز۔۔ ۔ تو پھر تم میری زندگی کا سب بڑا دکھ کیسے بن گئیں؟
ٹیکسی سڈ نہم کالج کے سامنے سے گزر رہی تھی۔ سڑک پر، گاڑیوں کے بونٹوں پر بیٹھی مختصر لباس میں ملبوس، غرض کہ ہر جگہ لڑکیاں موجود تھیں۔ شہر کے ٹھنڈی زندگی اور فلموں کے دکھائے جانے والے عریاں مناظر نے انہیں بدتمیز، لا پرواہ اور جرات مند بنا دیا تھا۔ لڑکیوں والی یہ گلی شہر کی خوبصورتی تھی۔ اسی گلی میں کبھی گلے میں یسوع مسیح کا لاکٹ لٹکائے میری فرنانڈیز بھی بسا کرتی تھی۔ آہ! درد میری رگوں میں تیزاب کی طرح اتر رہا تھا۔
’’ صرف چھ گھنٹے، ہاں صرف چھ گھنٹے تمھارے ساتھ گزارنے کے بعد جتنی بار میں تمہارا نام لے چکا ہوں میری فرنانڈیز، اتنی بار تو تمہاری ماں نے تمہیں نو ماہ اپنی کوکھ اور سولہ برس اپنے گھر اور صحن میں جھولا دینے کے باوجود نہیں لیا ہو گا۔ ‘‘
ٹیکسی رک گئی۔ میں باہر نکلا۔ سامنے انسانوں کا وسیع سمندر تھا، شہر کا فخر اور تاج ’’ اوبرائے ہوٹل‘‘ تھا، ’’ ایکسپریس ٹورس‘‘ تھا، ’’ ایئر انڈیا‘‘ کی عمارت تھی۔
اے چوبیس اور اٹھائیس منزلوں والی فلک بوس عمارتوں، تم سب گواہ رہنا کہ ابھی چند روز پہلے ایک کامیاب اور خوشیوں بھری زندگی گزارنے والے ایک بے قصور شخص کا سکھ چین اچانک تباہ ہو گیا ہے۔ میری فرنانڈیز، یاد رکھنا کہ آخری وقت میں بھی خداوند یسوع مسیح تم پر اپنی ہمدردی اور رحمتوں کی بارش نہیں کریں گے۔
دس منٹ تک لفٹ نہیں آئی تو میں سیڑھیوں چڑھنے لگا. دوسری منزل تک پہنچتے پہنچتے سانس اکھڑ گئی۔ کچھ وقت کے بعد، شاید دو سال یا تین سال یا چار سال بعد میں ان سیڑھیوں پر نہیں چڑھا کروں گا۔
اپنے کیبن میں گھس کر میں نے اپنی کرسی، اپنی میز اور اپنے فون کو ایک بھولی بسری یاد کی طرح چھوا۔ سب کچھ ویسا ہی تھا، کل کی طرح، پرسوں کی طرح یا گزشتہ ہفتے کی طرح اور اس سے بھی پہلے والے اس ہفتے کی طرح۔ جس کی ایک شام میں پالیگھر کے ’’سم سم‘‘ میں ’’کاروان بار‘‘ کی ایک میز پر تھا اور دو پیگ پی لینے کے بعد نیم مخموری کے عالم میں۔
تبھی فون کی گھنٹی بجی۔ اس طرف کوئی عورت تھی۔ میری فرنانڈیز! میرے شعور میں اک چنگاری لگی اور بجھ گئی۔ ’’ مجھے نہیں بات کرنی کسی بھی عورت سے۔ ‘‘میں نے کہا اور فون کاٹ دیا۔ جسم میں کپکپاہٹ سی ہونے لگی تھی۔ میز پر رکھا پانی کا گلاس اٹھا کر میں نے تھوڑا سا پانی پیا اور کرسی پر بیٹھ کر تولیے سے چہرہ صاف کرنے لگا۔
گھنٹی پھر بجی۔ میں نے فون اٹھایا۔
’’فون مت کاٹنا۔ میں سمیتا ہوں۔ ‘‘ ادھر سے آواز آئی۔
’’ہاں، بولو۔ ‘‘ میں نے کہا۔
وہ میری چھوٹی سالی سمیتا تھی، ’’دیدی بتا رہی تھی کہ جب سے آپ پالیگھر سے واپس آئے ہیں، انتہائی گم صم رہنے لگے ہیں۔ کیا ہوا؟‘‘ سمیتا کی آواز بھی ویسی ہی تھی، اتنی ہی کھنکتی ہوئی جتنی پہلے ہوا کرتی تھی۔ میری فرنانڈیز سے پہلے والے دنوں میں۔
’’کچھ نہیں!‘‘میں نے کہا، ’’صرف تھکاوٹ ہے اور تھوڑا سا دفتر کی ٹینشن۔ دو چار روز میں ٹھیک ہو جائے گی۔ ‘‘
’’دو چار روز میں؟‘‘
’’ ہاں دو چار روز میں، سچ میں۔ کویتا سے بات ہو تو اسے بتا دینا کہ فکر نہ کرے۔ ‘‘ میں نے کہا اور فون رکھ دیا۔ کویتا میری بیوی تھی۔ مگر پہلے میں سمیتا سے لمبی لمبی باتیں کیا کرتا تھا۔ ’’دو چار روز میں؟‘‘ میں نے بار بار دہرایا اور سہم گیا۔ اس بار انٹرکام کی گھنٹی بجی۔ ڈپٹی جی ایم تھے، ’’چھ دنوں سے تمہارے کام میں سستی آ گئی ہے؟‘‘ وہ پوچھ رہے تھے۔ ڈانٹ کر نہیں، پیار سے، ’’کتنی ساری ضروری فائلیں تمہارے پاس اٹکی ہوئی ہیں۔ ‘‘
’’سوری سر۔ ‘‘ میں نے ادب سے کہا، ’’طبیعت تھوڑی ڈھیلی چل رہی ہے آج کل۔ شاید موسم کا اثر ہے۔ ‘‘
’’ موسم؟ موسم کو کیا ہوا؟ وہ تو بہت شاندار ہے۔ ‘‘ انہوں نے یاد دلایا کہ یہ جون، جولائی نہیں دسمبر ہے۔
’’جی۔ ‘‘ میں نے کہا، ’’تین دن میں زیادہ تر فائلوں نپٹاتا ہوں۔ ‘‘
’’کوئی اور مسئلہ ہو تو بولو۔ ‘‘ ان کے اندر کا بڑا بھائی جاگ گیا تھا۔
’’نہیں سر شکریہ بہت بہت شکریہ۔ ‘‘
’’ ٹھیک ہے گو آ ہیڈ۔ ‘‘ انہوں نے کہا اور فون رکھ دیا۔ گو آہیڈ! میں نے دہرایا، لیکن کہاں؟ میں نے سوچا اور ساری ممکنات سے راکھ جھڑنے لگی۔ صدی کے سب سے بڑے اندرونی دکھ سے میری روح گلے مل رہی تھی۔
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔
’’کاروان بار‘‘ میں اکا دکا لوگ ہی تھے۔ اس مختصر قصبے میں اتنی مہنگی عیاشی کون کر سکتا ہے۔ مجھے اچھا لگ رہا تھا۔ رم جھم کرتے نیلے اندھیرے کے درمیان تیسرے پیگ کا سرور پرسکون ماحول میں میرے جسم کے اندر انگڑائیاں لے رہا تھا۔ میرے سامنے میری تنہائی بیٹھی تھی۔ پیگ ختم کر کے سڑکوں پر گھومنے کا فیصلہ میں کر چکا تھا کہ تبھی میری دائیں جانب موسیقی سی بجی۔
’’میں آپ کے ساتھ بیٹھوں؟‘‘ دھیمے دھیمے تھرتھراتے اپنے چہرے کو میں نے دائیں طرف گھمایا اور مبہوت رہ گیا۔ سامنے کھڑے بدن سے جو چنگاریاں جھڑ رہی تھیں۔ اس کا سامنا کرنے سے میرا شہر ممبئی جھلس سکتا تھا۔ اپنے دونوں ہاتھ میز پر ٹکا کر وہ تھوڑا جھکی۔ اس کے گلے میں لٹکا یسوع مسیح کا لاکٹ باہر کی طرف جھول گیا۔ وہ میکسی کے اسٹائل والا کوئی خوبصورت سا لباس پہنے ہوئے تھی۔
’’میرا نام میری ہے، میری فرنانڈیز۔ ‘‘ وہ ہولے سے مسکرائی اور بولی، ’’میں آپ کے ساتھ بیٹھوں؟‘‘
میں اس وقت گم صم سا، اس کے آکاش گنگا جیسے دودھیا وجود کو تک رہا تھا۔ اس نے پھر اپنا نام بتایا اور بیٹھنے کے لئے کہا۔ میں جھینپ گیا اور فوری طور پر بولا، ’’ہاں، ہاں، بیٹھیے نہ۔ ‘‘
’’جسٹ اے منٹ۔ ‘‘ وہ مسکرائی اور گھوم گئی۔ اور ہائی ہیل کی سینڈل پہنے وہ کھٹ کھٹ کرتی کاؤنٹر کی طرف جا نے لگی۔ اے بھگوان! میری آنکھوں میں کتنے سارے انار ایک ساتھ پھوٹنے لگے تھے۔ اس کے کٹاؤ دار جسم کو چھونے کیلئے چھوٹے شہروں میں تو فساد برپا ہو سکتا تھا اور اس پر اس کی چوٹی۔ میں نے اپنی پوری زندگی اتنی طویل اور موٹی چوٹی کہیں نہیں دیکھی تھی۔ وہ گھٹنوں کے جوڑ سے بھی نیچے چلی گئی تھی۔ تھوڑی اور بڑی ہوتی تو ایڑی ہی چھو لیتی۔ جب تک وہ کاؤنٹر سے کچھ لے کر کے لوٹی، میں مارا جا چکا تھا۔
’’ یہ اصلی ہے نا؟‘‘ میں نے پوچھا کیونکہ میں ابھی تک حیران تھا، ’’ میں انہیں چھو کر دیکھوں؟‘‘
وہ مسکرائی اور اس نے چوٹی کو میز پر بچھا دیا پھر ہاتھ میں گلاس اٹھا کر بولی، ’’چیئرز تمہاری لمبی، خوشگوار زندگی کے نام۔ ‘‘
’’چیئرز۔ ‘‘ میں ابھی تک خوابوں میں چل رہا تھا۔ اسی حالت میں بدبدایا، ’’تمہاری خوبصورتی کے نام ’’ اور اپنے بائیں ہاتھ سے اس کی چوٹی کو سہلانے لگا۔ اسکا دوسرا اور میرا چوتھا پیگ ختم ہونے تک اس کے یہاں ہونے کا راز میں جان چکا تھا۔ کبھی وہ بھی سڈنہم میں پڑھتی تھی۔ وہی عام سی کہانی، جو ایسی زندگی کے ارد گرد گھومتی رہتی ہے۔ وہ ابھی صرف سترہ سال کی ہے اور ایک برس پہلے ہی یہاں آئی ہے۔ ماں ممبئی میں رہتی ہے۔ چھ دن یہاں رہ کر ساتویں دن وہ ماں کے پاس جاتی ہے۔ ممبئی میں یہ کام کرنے کی اسے اخلاقی جرات نہیں ہوئی۔ اس کی ایک دوست، جو اپنا مہنگا جیب خرچ حاصل کرنے کبھی کبھی یہاں آتی تھی، اس نے اسے ’’سم سم‘‘کا دروازہ دکھایا تھا۔ میں ایک ہمدردی نما محبت سے بھر گیا تھا۔
’’ اس کا مطلب ہے کہ تمہیں پایا جا سکتا ہے؟‘‘ میں نے براہ راست اسے اپنی مرضی سے آگاہ کیا۔ میں نہیں جانتا کہ ایسا کس جذبے کے تحت ہوا۔ جبکہ میں ان معاملات میں میں خاصا ڈفر رہا ہوں۔ لیکن کچھ تھا اس کی شخصیت میں کہ میں پھسل ہی پڑا،
’’رات بھر کے بارہ سو روپے کاؤنٹر پر جمع کرا دیجئے۔ ‘‘ وہ اپنے لاکٹ سے کھیلنے لگی۔ میں نے فوری طور پر بارہ سو روپے اسے تھما دیے۔ وہ اٹھ کر کاؤنٹر پر چلی گئی۔ میں اس کے انتظار میں کانپنے لگا۔ کیسا ہو گا اس کا بدن؟ ایک تیز دھار چاقو میری رگوں کو چیر رہا تھا۔ وہ آئی اور میرا ہاتھ تھام کر فرسٹ فلور والے میرے کمرے کی طرف بڑھنے لگی۔
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔
’’میں آئی کم ان؟‘‘ کیبن کا دروازہ کھول کر ایک لڑکی جھانک رہی تھی۔
’’تم میری فرنانڈیز تو نہیں ہو نہ؟‘‘ بیساختہ میرے منہ سے نکلا۔
وہ خوش خوش اندر آ گئی، ’’کیا آپ نے مجھے پہلے کہیں دیکھا ہے یا کہ میری شکل میری فرنانڈیز سے ملتی ہے؟‘‘ وہ رشتہ بڑھانے کی کوشش میں تھی۔ میں سمجھ گیا یہ کسی اچھی کمپنی کی پی آر او ہے۔ مرد ہو یا عورت۔ پی آر او کو عمدہ اور سہولتوں بھری زندگی بسر کرنے کی ہی تنخواہ ملتی ہے۔ کسی نئے پروڈکٹ کی لانچنگ تقریب کی کاک پارٹی کی دعوت دے کر اور آنے کا پکا وعدہ لے کر وہ رخصت ہوئی۔
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔
کمرے کے نیم اندھیرے میں میری فرنانڈیز کی گرم سانسیں میرے چہرے پر بکھر رہی تھیں۔ اس نے اپنی چوٹی کھول دی تھی۔ بیسویں صدی کے تمام بچے ہوئے سال اس کے مہکتے بالوں پر پھسل رہے تھے اور میں میری فرنانڈیز کے کپڑے اتار رہا تھا۔
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔
شیو بناتے بناتے میں نے سامنے رکھے شیشے میں دیکھا، باتھ روم سے نہا کر نکلا میرا بیٹا میرے تولیے سے اپنا بدن پونچھ رہا تھا۔ چھن سے میرے اندر کچھ ٹوٹ گیا۔ میں لپک کر اٹھا اور بیٹے کے گال پر چانٹا جڑ دیا۔
’’ کیا ہوا؟‘‘ چانٹے کی آواز سن کر کویتا کچن سے دوڑی دوڑی۔
’’ یہ میرا تولیہ استعمال کر رہا ہے۔ ‘‘ میں غصے سے کھڑا کانپ رہا تھا۔
’’ارے تو اس میں چانٹا مارنے کی کیا بات ہے؟‘‘ کویتا تنک گئی، ’’کچھ دنوں سے تم ایب نارمل بی ہیو کر رہے ہو۔ ‘‘ وہ بگڑی پھر روہانسی ہو کر بولی، ’’تم نے ہم لوگوں سے پیار کرنا بھی چھوڑ دیا ہے۔ ‘‘
’’نہیں کویتا نہیں۔ ‘‘ میری سختی منتشر ہو کر بکھرنے لگی۔ لیکن میں نے خود کو سنبھال لیا۔ ’’یہ میری محبت ہے ’’ میں بدبدایا۔ اور پھر سے شیو بنانے لگا۔ سامنے رکھے شیشے میں میری فرنانڈیز ابھر رہی تھی۔ ایک دم عریاں۔ میں پاگلوں کی طرح اسے چومنے لگا تھا۔ ہر جگہ۔ وہ میرے کپڑے اتار رہی تھی۔ اپنے سینے کے درمیان اس نے میرا سر رکھ لیا تھا اور میری گردن سہلانے لگی تھی۔ پھر دونوں ہاتھوں سے اس نے میرا چہرہ اٹھایا اور اپنے تپتے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ دیے۔ سکھ میرے اندر بوند بوند اتر رہا تھا۔ تبھی دھڑام کی آواز آئی۔ شاید کچن میں کویتا نے کوئی برتن گرایا تھا۔ وہ اپنے اندر کے دکھوں کو اکیلے کھڑی دھو رہی تھی۔ میں اپنا تولیہ لے کر باتھ روم میں چلا گیا۔ کپڑے اتار کر میں نے شاور چلا دیا، ’’اور کتنے دن؟‘‘میں نے سوچا۔ ’’اس شاور میں نہانے کا مزا کب تک بچا رہنے والا ہے میرے پاس؟‘‘
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔
میں نہا کر نکلا تو میری فرنانڈیز پلنگ پر الٹی لیٹی ہوئی تھی۔ میں نے اس کے بدن پر ہاتھ پھرایا اور اس کی گردن چومتے ہوئے بولا، ’’بہت گہرا سکھ دیا ہے تم نے میری فرنانڈیز، میں اس رات کو اور تمھیں ہمیشہ یاد رکھوں گا۔ ‘‘
’’سکھ؟‘‘ میری فرنانڈیز پلٹ گئی۔
’’ارے؟‘‘ میں چونک گیا۔ یہ کیسا ہو گیا ہے میری فرنانڈیز کا چہرہ؟
’’سکھ تمہاری زندگی سے رخصت لے چکا ہے بیوقوف آدمی۔ ‘‘ میری فرنانڈیز کا چہرہ پر اسرار اور سختی سے تنا ہوا تھا۔
’’میری۔ ‘‘ میں نے تڑپ کر کہا۔
میری کھڑے ہو کر کپڑے پہننے لگی۔ پھر میری طرف اپنا چہرہ گھما کر بولی، ’’یاد تو تمہیں رکھنا ہی ہو گا۔ ‘‘ میں نے دیکھا اس کی آنکھوں میں انتقام کے شعلے اٹھ رہے تھے۔ ایک تیکھی مگر لا پرواہ ہنسی ہنستے ہوئے وہ بولی، ’’کپڑے پہنو اور گھر جاؤ۔ میں نے تمہیں ڈس لیا ہے۔ ‘‘مجھے اس پر وحشت سوار نظر آ رہی تھی۔
’’ میں کچھ سمجھ نہیں پا رہا ہوں میری۔ صاف صاف بتاؤ۔ دیکھو، میں تم سے محبت کرتا ہوں۔ ‘‘
’’ تم میرے بیسویں شکار ہو ’’ میری غرائی۔ اب وہ اپنا یسوع مسیح والا لاکٹ پہن رہی تھی۔
’’ مطلب؟‘‘ میں نے میری کا ہاتھ پکڑ لیا۔
’’ میں نے تمہیں ایڈز دے دیا ہے۔ ‘‘ اس کا لہجہ پتھریلا تھا۔
’’ کیا۔ ‘‘ میں چکرا کر پلنگ پر گرا، ’’ تمھیں ایڈز ہے؟‘‘
’’ ہاں۔ ‘‘
’’ لیکن کیوں؟ تم نے ایسا کیوں کیا؟ مجھے بتایا کیوں نہیں؟ میں نے تمہارا کیا بگاڑا تھا؟‘‘ میں رونے کے قریب تھا۔ بدن کے تمام رونگٹے کھڑے ہو گئے تھے۔
’’ میں نے کس کیا بگاڑا تھا؟‘‘ میری کا لہجہ جارحانہ ہو گیا، ’’ جس عرب شیخ نے مجھے یہ تحفہ دیا، میں نے اس کا کیا بگاڑا تھا؟ فقط خوشیوں بھرے چند لمحے پانے کیلئے، میں کچھ وقت کیلئے اس دنیا میں آئی تھی اور دیکھو مجھے کیا ملا؟‘‘ میری پر جیسے دورہ پڑ گیا تھا، ’’ جتنا بھی وقت میری قسمت میں ہے اس کو میں تم مردوں کی قسمت تباہ کرنے میں لگا دوں گی۔ سنا تم نے۔ تم تباہ ہو چکے ہو۔ ‘‘
میری کھٹ کھٹ کرتی کمرے سے باہر چلی گئی۔ اور دروازہ دھڑام سے بند کر دیا اس نے میرے سامنے میرے منہ پر۔ گویا میری زندگی کا دروازہ بند ہو گیا تھا۔ ’’ او میری۔۔ ۔ یہ کیا کیا تم نے؟‘‘ میں چہرہ ڈھانپ کر سسکنے لگا تھا۔
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔
پانی چلا گیا تھا۔ میں نے دیکھا، میں باتھ روم میں کھڑا رو رہا تھا۔ میری فرنانڈیز کے جسم کا کوئی حصہ میرے جسم میں گھل چکا تھا، جو مجھے گھن کی طرح مسلسل کتر رہا تھا۔ باہر کویتا باتھ روم کے دروازے کو کھٹکھٹا رہی تھی۔ میں باہر آیا تو اس نے عجیب نظروں سے میری طرف دیکھا پھر بولی، ’’ کیا ہو گیا ہے تمہیں، بتاتے کیوں نہیں؟‘‘
’’ کچھ بھی تو نہیں ہوا ہے۔ ‘‘ میں نے مسکرانے کی ناکام کوشش کی اور کپڑے پہننے لگا۔
اچانک اپنے اندر بڑھتی گہری تاریکی میں، میں بہت بہت تنہا رہ گیا تھا۔ میرا ڈر روز بروز بڑا ہو رہا تھا۔
’’ میری فرنانڈیز، کیا تمھیں میری آواز سنائی دیتی ہے؟ اگر ہاں تو میں تم سے کہتا ہوں کہ تم خوش ہونا، دوسرے کو ٹوٹتے ہارتے ہوئے دیکھ کر۔ اطمینان ہوتا ہے نا، ایک سفاکانہ اطمینان۔ پر، کتنا کمینہ ہے یہ اطمینان۔ میری فرنانڈیز، تم سن رہی ہو نا؟ اپنے دکھوں کا حصہ دار کسے بنا سکتا ہوں میں؟ کتنا بے چارہ اور اکیلا بنا دیا ہے تم نے مجھے۔ ‘‘
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔
میری آنکھیں کھلی ہوئی تھیں اور چھت سے متصادم تھیں۔ اچانک کویتا پلٹی اور میرے اوپر آ گری۔ ’’ ارے ‘‘ میں جلدی سے گھبرا کر بیٹھ گیا۔ ’’کیا کرنے پر تلی ہو تم؟‘‘
’’آپ۔۔ ۔ آپ کو معلوم ہے۔ ‘‘ کویتا دکھ میں تھی۔ ’’عورت ہونے کے باوجود آج میں پہل کر رہی ہوں۔۔ ۔ ہم نے دو ماہ سے محبت نہیں کی ہے۔ ‘‘
دو ماہ۔ دہشت میرے دل کو دبوچ رہی تھی۔ دو ماہ۔ کتنے ماہ اور؟ میرا سر اینٹھ رہا تھا۔ ’’اے کویتا ’’ کوئی میرے اندر رو دیا۔
’’اے کویتا، کیا میں تمہیں بتا دوں کہ میں مارا جا چکا ہوں۔ ‘‘ میرے ماتھے پر پسینہ تھا، سینے میں تھرتھراہٹ، ’’تم پاگل ہو گئی ہو۔ ‘‘ میں نے سپاٹ لہجے میں کہا۔ الفاظ کسی طوفان میں گھرے کانپ رہے تھے۔
’’ تمہاری زندگی میں کوئی اور آ گیا ہے۔ ‘‘ کویتا بپھر چکی تھی۔
’’کوئی اور۔ میری فرنانڈیز۔ ‘‘ میرا دل ڈوبنے لگا۔ لیکن پھر میں نے ہمت کی اور کویتا کو خود سے چپٹا لیا۔ دفعتاً، وصل کے اس شدید مرحلے میں کوئی میرے اندر خوفناک طریقے سے ہچکولے لینے لگا۔ ’’نہیں، یہ قتل ہے۔ ‘‘ کوئی میرے اندر چیخا۔
’’سکھ تمہارے زندگی سے رخصت ہو چکا ہے بیوقوف آدمی۔ ‘‘ میری فرنانڈیز مسکرا رہی تھی۔ میں نے کویتا کو اپنی گرفت سے آزاد کر دیا اور بستر چھوڑ دیا۔ دسمبر کی سردی میں اپنی جلتی آنکھوں سے مجھے بددعا دیتی ہوئی کویتا اپنے کپڑے سمیٹ رہی تھی۔ پتہ نہیں، میں اس کی زندگی میں بجھ رہا تھا یا وہ میری زندگی میں جل رہی تھی۔ جو بھی تھا، میری فرنانڈیز کے انتقام تلے سسک رہا تھا۔ اور گڑگڑا کر کہہ رہا تھا، ’’اے کویتا، میرے مشکل دنوں کی سچی دوست، مجھ سے تمہارا قتل نہیں ہو پائے گا۔ مجھے دیکھو، مجھے سمجھنے کی کوشش کرو۔ تم نہیں جانتیں کہ تم سے کتنا پیار کرتا ہوں میں۔ میری محبت کی قسم، مجھ سے دور رہو۔ میرے سائے سے بھی بچنا ہے اب تمہیں۔ میں اس پوری دنیا کے لئے ایک اچھوت ہو گیا ہوں اب۔ ‘‘ لیکن کچھ نہیں کہہ سکا میں۔ اور رات بھر کویتا اور میرے بیچ سسکیاں جنم لیتی رہیں۔
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔
میں ایک ساتھ لا تعداد عجیب و غریب سوالات، خدشات اور پچھتاووں میں پھنس گیا تھا اور وہ بھی بالکل تنہا۔ رشتوں اور تعلقات کی ایک اچھی خاصی تعداد کے باوجود میں اپنے غم کا سوگ اکیلے منا رہا تھا۔ یہاں تک کہ خود سے سب سے زیادہ قریب اپنی بیوی، اپنی کویتا کو بھی یہ نہیں بتا پا رہا تھا کہ مجھے برباد کیا جا چکا ہے۔ لیکن اس کا اختتام کہاں ہے؟ اپنے اس راز کو خفیہ رکھنے کی قدرت مسلسل ٹوٹ پھوٹ رہی تھی۔ گناہ اور توبہ کی بلند ترین پہاڑی پر پھنس گیا تھا میں اور مجھ سے باہر پوری دنیا ویسے ہی متحرک اور رواں دواں تھی جیسا کہ اسے ہونا چاہیے تھا۔ اچانک میری سوچ کو جھٹکا لگا۔ میں اپنے خون کی جانچ بھی تو کروا سکتا ہوں۔ میں نے فوری طور پر فون اٹھایا اور اپنے ایک ڈاکٹر دوست کا نمبر ڈائل کرنے لگا، لیکن ادھر سے ہیلو آنے پر ریسیور میرے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ دس طرح کے سوال کرے گا ڈاکٹر۔ تمہیں کیوں انکوائری کروانی ہے؟ کسی غلط جگہ تو نہیں چلے گئے تھے؟ تم تو ایسے نہیں تھے؟ اور جانچ کا نتیجہ مثبت نکل آیا تب؟ دفتر، معاشرہ اور تعلقات۔ دنیا سے مکھی کی طرح چھٹک کر پھینک دیا جائے گا مجھے۔ سب سے پہلے تو وہ ڈاکٹر دوست ہی ہسپتال بھجوا دے گا۔ پھر دفتر نوکری سے نکالے جاؤ گے اور کویتا؟ کیا معلوم وہ بھی اپنے بچے کے مستقبل کا واسطہ دے کر مجھ سے الگ ہو جائے اور دوست۔۔ ۔
میں نے دیکھا میں سڑکوں پر بدحواس بھاگا جا رہا ہوں۔ غصے سے بھرا ایک ہجوم میرے پیچھے ہے۔ میں جس بھی دروازے کے سامنے جا کر کھڑا ہوتا ہوں وہ تڑاک سے بند ہو جاتا ہے۔ ہجوم کا خیال ہے کہ ایک سیاہ اور بند کمرہ میرے لئے زیادہ مناسب ہے، جس میں مجھے گل گل مرنا ہے۔ میری دونوں ہتھیلیاں پسینے میں بھیگی تھیں۔ ان دنوں کچھ زیادہ ہی پسینہ آنے لگا ہے۔ کبھی کبھی اچانک اٹھنے پر چکر بھی آ جاتا ہے۔ اکثر بھوک بھی غائب رہنے لگی ہے۔ زبان پر ہر وقت زنک کا سا ذائقہ مستقل جگہ بنا چکا ہے۔ پتہ نہیں میں وہم کا شکار ہو رہا ہوں یا میری فرنانڈیز کی بخشش پھل پھول رہی ہے۔ اور اپنی انہیں سوچوں کے بیچ مجھے پھر میری فرنانڈیز کی یاد آئی۔ تم کہاں ہو میری فرنانڈیز۔ اور کیسی ہو؟ تم بھی تو گل رہی ہو گی نہ؟ میرے بعد اور کتنے خوش نصیبوں کو انتقام کے آگ میں دھکیل چکی ہو؟ کیا میری فرنانڈیز کو گرفتار نہیں کرایا جا سکتا؟ میرے ذہن میں ایک خیال اٹھا مگر پھر دودھ کے ابال کی طرح بیٹھ گیا۔ اس سلسلے میں اگر اپنے ایک صحافی دوست سے بات کروں تو وہ سب سے پہلا سوال یہی کرے گا کہ تمہیں کیسے معلوم کہ خوبصورتی کی وہ دیوی محبت کے لمحات میں موت کی لعنت بانٹتی ہے؟ پھر وہ خبر پرنٹ ہو گی اور پھر آپ کی زندگی میں بچا ہی کیا رہ جائے گا سوائے ایک ایسے اندھیرے بند کمرے کے، جس میں داخل ہونے سے زندگی دینے والے ڈاکٹروں کی بھی روح کانپتی ہو۔۔ ۔
بہتر یہی ہے دوست۔ کوئی میرے اندر چپکے سے پھسپھسایا کہ آپ چپکے سے نکل لو۔ آج نہیں تو دو چار سال بعد تمہیں ویسے بھی اس دنیا سے لازمی رخصت لینی ہی ہے۔ لیکن وہ رخصت کتنی شرمناک اور حقارت بھری ہو گی۔ اب بغیر کسی کو کچھ بھی بتائے، بغیر آہٹ کے نکل جاؤ گے تو کم از کم کویتا کی باقی زندگی تو شانتی اور بنا کسی شک کے گزر جائے گی۔ بات پھیل گئی تو شک کے کٹہرے میں کویتا کو بھی تا عمر کھڑے رہنا پڑے گا۔ تو؟ میرے اندر کروں یا نہ کروں کی جنگ جاری تھی۔ سامنے دیوار پر لگے ایئر انڈیا کے کیلنڈر میں ایئر ہوسٹس نمسکار کرتی دکھائی دے رہی تھی۔ اور میز پر رکھی فائلیں میرے انتظار میں تھیں۔ پتا نہیں مجھے کیا ہوا کہ میں شیر کی سی تیزی سے اٹھا اور فائلیں اٹھا اٹھا کر ایئر ہوسٹس پر پھینکنے لگا۔ پھر تھک کر میں دوبارہ اپنی کرسی پر گر پڑا اور سسکنے لگا۔ میری آنکھ سے آنسو ٹپک رہے تھے اور میں بدبدا رہا تھا۔ ’’ میں تھکا ہوا ہوں میری فرنانڈیز۔ اپنے آپ سے لڑتے لڑتے میں بہت بہت تھک گیا ہوں۔ تم سن رہی ہو نہ میری فرنانڈیز! کیا تم تک میری آواز پہنچتی ہے؟‘‘
***
حل
وینا وجے ادت
پلّوی نے کالج سے آ کر میز پر کتابیں پٹخیں تو اس کی نظر گھر کی صاف ستھرائی پر ٹھہر گئی۔ اسے لگا ضرور کوئی خاص بات ہے جو گھر کو سجایا گیا ہے۔ ماں کو پکارتی وہ باورچی خانے کی طرف چلی گئی۔ باورچی خانے سے آتی مہک سے اس کا شک یقین میں بدلنے لگا۔ ماں نئی پلیٹوں میں ناشتا کا سامان سجا رہی تھی۔ پلّوی کو دیکھتے ہی بولی، ’’آ گئی۔ چل جلدی سے تیار ہو جا۔ وہ نیا گلابی سوٹ پہن لے۔ خوبصورت نظر آتی ہے تو اس میں۔ ‘‘
’’پر کیوں ماں۔ ‘‘ پلّوی نے پوچھا۔
’’تیری نیرجا خالہ کے رشتہ دار ہیں۔ ان کا بیٹا پی ڈبلیو ڈی میں ایس ڈی او کے عہدے پر لگا ہے۔ وہ کسی کام سے یہاں آیا ہے۔ تیری خالہ نے اسے ہم سے ملنے کو کہا۔ سو وہ آ رہا ہے۔ کیا پتہ۔۔ ۔ ‘‘ اور بات ادھوری چھوڑ کر ماں کام میں لگ گئی۔
یہ سن کر پلّوی کی آنکھوں کے سامنے تشار کا چہرہ گھوم گیا۔ بالکل سامنے والی کوٹھی میں تشار، ڈاکٹر ورما کا بیٹا اور میڈیکل کا طالب علم رہتا ہے۔ پلّوی اور تشار دونوں ہی ایک دوسرے کو کسی نہ کسی بہانے سے دیکھتے رہتے تھے۔ رات میں بھی دونوں دیر تک پڑھتے پڑھتے کھڑکی تک آتے اور نگاہوں سے ایک دوسرے کو پڑھنے لگ جاتے۔ پھر دونوں ہی جھینپ جاتے۔ پلّوی مسکرا کر، شرما کر اوٹ میں ہو جاتی اور تشار وہیں کھڑا مسکراتا رہتا۔ دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے۔ تشار کسی نہ کسی بہانے پلّوی کے پاپا کے پاس آتا رہتا، پاپا بھی اس کی تعریف کرتے تھکتے نہیں تھے۔ دونوں سنہرے سپنوں جال بننے لگ گئے تھے۔ پلّوی بی اے فائنل میں تو تشار ایم بی بی ایس فائنل میں تھا۔
آج پلّوی کی محبت کی بیل پروان چڑھنے سے پہلے ہی مرجھانے چلی تھی۔ اپنے ماں بابا کے اوپر تین تین بیٹیوں کا بوجھ، وہ اچھی طرح محسوس کرتی تھی۔
کچے من سے اس نے ماں کا کہنا مانا کہ تبھی ایک سرکاری گاڑی ان کی دہلیز پر آ کر رکی اور اس میں سے ایک سانولا، اونچے قد والا، پر کشش شخصیت کا حامل نوجوان نیچے اترا۔ اسے دیکھتے ہی سب کے چہرے کھل اٹھے۔ ماں کے تو خوشی اور جوش سے قدم ہی زمین پر نہیں پڑ رہے تھے۔ پلّوی کو چائے کی ٹرے دے کر اندر بھیجا گیا۔ گندمی رنگت والی پتلی، لمبی اور ہرنی جیسی آنکھوں والی پلّوی نے جیسے ہی پلکیں اٹھا کر آہستہ سے مسکرا کر ہیلو کہا، تو ارون سب کچھ بھول کر مبہوت سا دیکھتا ہی رہ گیا۔ اسے لگا وہ ان آنکھوں کے اتھاہ سمندر میں ڈوبتا چلا جا رہا ہے اور اب اس کا باہر نکلنا مشکل ہے۔ سب نے اس کے خیالات پڑھ لئے۔ پاپا کو فخر تھا اپنی بیٹی پر۔ اسی لمحے رشتہ پکا ہو گیا اور آتی سردیوں میں پلّوی اور ارون کی شادی انجام پا گئی۔ پلّوی بھی تشار کے خیال سے ہٹ کر ارون کی محبت میں کھو گئی اور اپنے گھر چلی گئی۔ تشار بے بس سا اپنی محبت کو لٹتا دیکھتا رہا۔
ارون کی نوکری اندور میں ہونے کی وجہ سے پلّوی کچھ دن ساس سسر کے پاس رک کر اپنا گھر بسانے اندور ہی آ گئی۔ ارون تو پلّوی کی نشیلی آنکھوں کا دیوانہ تھا۔ وہ اس کو بھرپور محبت دیتا.۔ تشار نے پیار کی جو چنگاری لگائی تھی۔ اس میں محبت کا شعلہ ارون نے جلایا۔ پلّوی بھی سب کچھ بھول کر ارون کی محبت کے رنگ میں مکمل طور پر رنگ گئی تھی۔ ارون بہت ہنس مکھ اور ساتھ ہی ذہین بھی تھا۔ اس کے ساتھی اور افسر اسے بہت چاہتے تھے۔ پلّوی کو ارون کو پانے پر فخر تھا۔
پاپا لے جانے آئے تو وہ میکے آئی۔ پتہ چلا کہ تشار بھی ایم بی بی ایس میں پاس ہو گیا ہے اور مزید پڑھنے ولایت جا رہا ہے۔ اس کے والد نے بتایا کہ ابھی شادی کے لئے وہ نہیں مانتا۔ پلّوی نے اچٹتی نظروں سے اسے دیکھا، پر کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ ارون تیسرے دن آ کر اسے واپس لے گیا۔
پتہ ہی نہیں چلا کب پلّوی اور ارون کی شادی کو ایک سال گزر گیا۔ سکھ کے دنوں کے پر ہوتے ہیں، وہ ہوا میں اڑ جاتے ہیں۔ ان دونوں کو لگتا جیسے وہ جنم جنم سے ساتھ رہے ہیں۔ تبھی ساس ماں نے بلا بھیجا۔ دونوں کے پہنچنے سے وہاں خوشی چھا گئی۔ دبے الفاظ میں ساسو ماں نے بتایا کہ ساتھ والی شانتی کی بہو کے بیاہتے ہی پاؤں بھاری ہو گئے تھے۔ سال ہوا ہے شادی کو اور گود میں بیٹا ہے۔ پلّوی نے کنکھیوں سے ارون کی طرف دیکھا۔ ارون جھٹ بولا، ’’ارے ماں ملک کی آبادی پہلے ہی زیادہ ہے، تھوڑا صبر کرو تم۔ ‘‘
’’ارے نا۔ ‘‘ ماں جھٹ بولی، ’’ہم ہی تو بچے ہیں نا، ملک کی فکر کرنے کے لیے، نہ بٹوا ہمیں تو پوتا چاہئے۔ ‘‘
ارون ہنس کے بولا، ’’اگلی بار لا دوں گا بھئی۔ ‘‘ یہ سن کر پلّوی منہ میں پلو دبا کر لاج کے مارے وہاں سے بھاگ گئی۔ اس طرح ساس کی امیدوں کو ہوا دے کر وہ واپس لوٹ آئے۔ جب بھی وہاں سے فون آتا، انہیں خبر کا انتظار رہتا۔ پلّوی اور ارون کے چاہنے پر بھی جب پلّوی کے پاؤں بھاری نہیں ہوئے، تو تھک ہار کر پلّوی نے ارون سے اپنا ڈاکٹری معائنہ کروانے کی ضد کی۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ سب کچھ نارمل ہے، بس طاقت کی گولیاں دے دیں۔ اسی مخمصے میں گرفتار دوسرا سال بھی گزر گیا۔ پلّوی کی ہمت ہی نہیں ہوتی تھی، سسرال جانے کی۔ پر جانا تو تھا ہی آخر۔
اب کی بار ساسو ماں نے دیسی ٹوٹکے کرائے۔ گرم تاثیر کی چیزیں بنا کر کھلائیں۔ پنڈت سے دھاگا بھی لا کر اس کو باندھا۔ لیکن پھر بھی بات نہیں بنی۔ پلّوی کھوئی کھوئی سی رہنے لگی۔ ماں باپ نے بلا بھیجا، سو پہلی جانا ہوا۔ آہستہ سے ماں نے کہا کہ ارون کو بھی اپنا ٹیسٹ کروانا چاہئے۔ لیکن ارون سے یہ بات کہے کون۔ پلّوی کو اچانک تشار کی یاد آئی۔ دو سال بیرون ملک سے ایم ڈی کر کے آنے کے بعد تشار نے یہیں پریکٹس شروع کر دی تھی۔ ارون جب پلّوی کو واپس لینے آیا تو پلّوی نے پیار سے اسے اپنا ٹیسٹ کروانے کو کہا، تو ارون ایک دم مان گیا۔ وہ بات کو سمجھتا تھا۔
ڈاکٹر تشار نے جب پلّوی اور ارون کو اپنے کلینک پر دیکھا تو بہت اپنائیت سے ملا۔ تشار اپنے خوابوں کی دیوی کو سامنے پا کر اندر ہی اندر چھٹپٹا گیا تھا۔ وہ پلّوی کو بھول نہیں پایا تھا۔ پلّوی نے بھی تشار کی آنکھوں کے درد کو پڑھ لیا تھا، پر وہ اوپر سے انجان بنی رہی۔ ارون نے ٹیسٹ کروایا۔ تشار نے کہا وہ شام کو گھر آتے ہوئے رپورٹ لیتا آئے گا۔ ایک بار مزید پلّوی کو دیکھنے کا لالچ وہ چھوڑ نہیں پایا۔ شام کو آ کر اس نے بتایا کہ سب نارمل ہے۔ ارون اور پلّوی اگلے دن واپس چلے گئے۔ سب کچھ ایشور پر چھوڑ دیا گیا۔
اسی درمیان پلّوی کی چھوٹی بہن ویشنوی کی شادی طے ہونے پر، تقریباً چھے مہینے بعد ہی پلّوی کا دوبارہ میکے آنا ہو گیا۔ ماں اکیلے شادی کی تیاری نہیں کر سکتی تھی، لہذا پلّوی ایک مہینے کیلئے رہنے آ گئی تھی۔ ایسے ہی ایک دن کسی سہیلی کے ہاں جاتے جاتے اس نے رکشہ تشار کے کلینک کی طرف مڑوا لیا۔ تشار اچانک اسے سامنے دیکھ کر اپنی آنکھوں پر یقین نہیں کر پایا۔ اس نے پوچھا کہ کیسے آنا ہو۔ پلّوی نے بتایا کہ چھے مہینے گزر گئے ہیں، پر کوئی بات نہیں بنی۔ اس پر تشار نے جو بھید کھولا۔ اس کو جان کر تو پلّوی کے پاؤں کے نیچے سے زمین ہی کھسک گئی۔ ’’ارون کبھی باپ نہیں بن سکتا۔ ‘‘
اتنا سنتے ہی وہ رونے لگی۔ وہ ناراض ہوئی کہ تشار نے انہیں دھوکے میں کیوں رکھا.۔ تشار نے کہا کہ وہ ارون کو ٹھیس نہیں پہچانا چاہتا تھا، پر اسے ضرور بتانا چاہتا تھا۔ لیکن موقع ہی نہیں ملا اور وہ چلی گئی تھی۔ بہت اچھا ہوا جو آج وہ اسے ملنے آ گئی ہے۔
گھر واپس آ کر پلّوی خاموشی سے کمرے میں گئی اور بستر پر اوندھی پڑی دیر تک روتی رہی۔ اسے لگا، اب ساسو ماں ضرور ارون کی دوسری شادی کروا دیں گی۔ پیر بابا کے تعویذ باندھ کر بھی کچھ پھل نہیں ملا۔ ماں بھی جیوتشیوں کے چکر لگا کر صدقہ خیرات کروا چکی ہے۔ سب فکر مند تھے اس کیلئے۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے، کہاں جائے۔ پلّوی کی زندگی تو ارون کے بغیر ختم ہی ہے۔ پھر بھی ارون کی بات کو اس نے اپنے تک محدود رکھا۔ اورکسی سے کوئی ذکر نہیں کیا۔
اگلے دن ٹی وی پر سب مہابھارت دیکھ رہے تھے۔ راجا شانتنو کے مرنے پر جب بھیشم نے وعدہ کیا کہ وہ زندگی بھر شادی نہیں کریں گے اور دوسری ملکہ کے دونوں بیٹوں کی موت ہو جانے پر ان کی بیویوں کو ملکہ اپنے بیٹے سے خوش کروا کر بالترتیب پانڈو، دھرتراشٹر اور داسی پتر کو حاصل کرتی ہے۔ تو یہ دیکھ کر پلّوی اندر کمرے میں جا کے سوچ میں ڈوب گئی۔ سارا دن سر درد کا بہانہ کر کے وہ کسی سے نہیں ملی۔
پیر کو وہ ماں سے ارون کے کسی کام کے سلسلے میں، کسی سے ملنے کا بہانہ کر کے، دو تین گھنٹے میں آنے کا کہہ کر تشار کے کلینک پہنچ گئی۔ تشار دوبارہ اسے وہاں دیکھ بہت خوش ہوا اور ساتھ ہی حیران بھی ہوا۔ اندر لے جا کر اس نے آرام سے پوچھا کہ کہیں کوئی گڑبڑ تو نہیں ہو گئی۔ پلّوی کچھ دیر تک منہ سے کچھ نہیں بولی۔ بس اس کی آنکھوں میں دیکھتی رہی۔ اس نظر کو نظر انداز کرتے ہوئے وہ اس سے چائے پانی کا پوچھ رہا تھا۔ پر وہ کچھ نہیں سن رہی تھی۔ اچانک اس نے کس کر تشار کے دونوں ہاتھ پکڑ لئے۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی، ’’تشار، مجھے بچا لو، میری گرہستی کو بچا لو، میں ارون کے بغیر نہیں رہ سکتی۔ مجھے اس اندھیرے میں صرف ایک ہی روشنی کی کرن نظر آ رہی ہے۔ اور وہ تم ہو۔ ‘‘
تشار اچانک اسے جذباتی دیکھ کر گھبرا اٹھا۔ اس نے بہت ہی دلار سے پلّوی کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ گویا وہ نازک ہوں، کہیں ہلکا سا دھکا لگنے سے چور چور نہ ہو جائیں اور پیار سے بولا کہ اس کی تو جان بھی حاضر ہے پلّوی کیلئے۔ وہ بات تو بتائے۔ پلّوی نے جو کچھ کہا اسے سن کر تشار جھٹکے سے کھڑا ہو گیا۔ گویا بچھو نے ڈس لیا ہو۔ اخلاقیات کو طاق پر رکھ کر پلّوی نے اپنی ڈوبتی زندگی کیلئے ایک تنکے کا سہارا ڈھونڈا تھا۔ اس نے تشار سے ایک بچے کا مطالبہ کیا تھا۔ ایک خوشی کی مانگ کی تھی۔
اسی طرح سے وہ اپنے شوہر کی محبوب بنی رہ سکتی ہے۔ اسے بلھے شاہ کی کافی یاد آئی۔ جس میں یار کی خاطر وہ کنجری بننے کو تیار تھی۔ ’’ نی میں یار منانا نی، چاہے لوگ بولیاں بولے۔ ‘‘ کتنا دیوانہ پن ہے نہ۔ پلّوی بھی آج اپنے ارون کو کسی بھی حالت میں کھونا نہیں چاہتی۔ تشار، پلّوی کا ارون کے تئیں پیار اور قربانی دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ اور۔۔ ۔ اس کے بعد وہ دونوں زندگی میں کبھی نہیں ملیں گے اور یہ راز دونوں کے سینے میں دفن ہو جائے گا۔ یہ وعدہ ہو گیا۔
ویشنوی کی شادی پر ارون اور اس کے خاندان کے تمام لوگ آئے۔ پلّوی بھی خوشی خوشی کام میں لگی رہی۔ واپس جا کر کچھ دنوں بعد صبح اٹھتے ہی پلّوی کا جی مچلا اور الٹی آئی۔ ارون اسے ڈاکٹر کے پاس لے گیا۔ ڈاکٹر نے ارون کو مبارک باد دی۔ ارون نے پلّوی پر بوسوں کی بارش کر دی۔ ماں کو فوراً فون لگایا۔ ماں تو فون پر خوشی سے رونے ہی لگ گئی۔ ارون نے مالی سے ڈھیروں سرخ گلاب منگوائے، پلّوی کو پلنگ پر بٹھایا اور اس پر پھولوں کی بارش کرنے لگا اور۔۔ ۔ اور پلّوی اپنے ارون کو اس قدر محبت کرتے اور خوشی سے پاگل ہوتے دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں بھی اطمینان کے دو آنسو ڈھلکے اور پھولوں کی پنکھڑیوں میں سما گئے۔
***
سپنوں کی پرواز
آشا روتیلا مہرا
میں نے سوچا بھی نہ تھا کہ پھر کبھی اس شہر میں آ پاؤں گی۔ لیکن جب آج پندرہ سال بعد میں یہاں آئی تو میری بہت تعظیم ہوئی۔ میرے استقبال کیلئے بہت سے لوگ آئے۔ مجھے پھولوں کی مالا پہنائی گئی، کیونکہ آج میں ایک جانی مانی مشہور ہستی ہوں۔ ہاں میں آج ایک کلکٹر ہوں۔ آج میرے پاس ایک اہم عہدہ ہے۔ میری معاشرے میں اپنی پہچان ہے۔
میں بچپن میں کافی دبلی پتلی تھی۔ میرے رنگ روپ کا سب مذاق اڑاتے تھے۔ میں تو آج بھی ویسی ہوں، بس لوگوں کے دیکھنے کا نظریہ بدل گیا ہے۔ دو بھائیوں کے بعد جب میری پیدائش ہوئی تو میری ماں کو بہت خوشی ہوئی، کیونکہ انہیں بھی اب اپنا سکھ دکھ بانٹنے والا کوئی مل گیا۔ لیکن میرے پاپا اور خاندان کے دوسرے لوگوں کو تو جیسے سانپ سونگھ گیا۔ انہوں نے مجھے قبول تو کیا مگر بے دلی سے۔ اور میں اسی ماحول میں پلنے لگی۔ درد جب کبھی زیادہ بڑھ جاتا تو گنگا کے کنارے رو کر اپنا جی ہلکا کر لیتی۔ ماں کی ممتا اور خاندان والوں کے طعنوں نے مجھے احساس بنا دیا تھا۔ میں اسکول میں ہر موضوع میں اول رہنے کے بعد بھی اپنے گھر میں ہی ہمیشہ ذلیل ہوتی رہتی۔ میرے پاپا میرے چاچا، چاچی کہتے کہ اسے کون سا کلکٹر بننا ہے، جو اس کی تعلیم پر خرچہ کیا جائے۔ لیکن میری ماں نے اس کی سخت مخالفت کی۔ اس کے لیے انہیں خاندان والوں کے غضب کا نشانہ بھی بننا پڑا۔ میرے چاچا، چاچی کہتے کہ اسے زیادہ مت پڑھاؤ، ورنہ لڑکا نہیں ملے گا، مگر میری ماں نے من میں کچھ اور ہی سوچ رکھا تھا۔ جی، میری ماں مجھے کلکٹر بنانا چاہتی تھی اور مجھے بھی ہر حال میں اپنی ماں کا خواب پورا کرنا تھا۔
جب میں کالج میں پڑھنے گئی تو وہاں میری دوستی پراگ سے ہو گئی، شاید میں اس سے محبت کرنے لگی تھی۔ لیکن کبھی کچھ کہہ نہیں پائی۔ کیونکہ میں بچپن سے ہی اپنے رنگ روپ کو لے کر احساس کمتری کا شکار تھی۔ مجھے لگتا تھا کہ مجھ سے کوئی محبت نہیں کرتا اور پراگ تو میرے لئے وہ چاند ہے، جسے میں دیکھ تو سکتی ہوں پر کبھی پا نہیں سکتی۔ کیونکہ وہ اسمارٹ اور ہینڈسم تھا۔ پراگ مجھے ہمیشہ کہا کرتا تھا۔
’’نہ عمر کی سیما ہو، نہ جنم کا ہو بندھن۔ جب پیار کرے کوئی تو دیکھے کیول من۔ ‘‘
میں سوچتی تھی کہ کاش کوئی مجھے بھی اتنا پیار کرتا۔ پر سچ تو کچھ اور تھا۔ آہستہ آہستہ میں نے خود کو سنبھال لیا اور یہ سوچا کہ پہلی محبت ہمیشہ نامکمل ہوتی ہے۔ میں تو پراگ کیلئے بنی ہی نہیں ہوں۔ میں نے صرف اپنی ماں کو اس کے بارے میں بتایا، کیونکہ وہ میری بہترین دوست ہے۔ انہوں نے مجھ سے کہا، ’’گنجن بیٹا محبت تو دل سے ہوتی ہے، یہ تو دو روحوں کا ملن ہے۔ یہ رنگ روپ نہیں دیکھتا۔ صرف جذبات کو سمجھتا ہے۔ تم اپنے دل کی بات پراگ کو بول دو۔ ورنہ میں کہہ دیتی ہوں۔ میں نے ماں کو انکار کر دیا۔ ویسے تو میں اور پراگ بہت اچھے دوست تھے۔ میں اس کے بارے میں سب کچھ جانتی تھی اور وہ میرے بارے میں۔ وہ کافی غریب خاندان سے تھا۔ کہنے کو میں بہت رئیس خاندان سے تعلق رکھتی تھی، لیکن حقیقت تو میں ہی جانتی تھی۔ اسی دوران ہم دونوں نے پوسٹ گریجویشن بھی کر لی۔ وہ اب ایم فل کی تیاری کر رہے تھے اور اسی دوران میرے گھر والے میرے لئے لڑکے کی تلاش میں لگے رہے۔ پر میری قسمت، آنکھوں پر موٹے شیشے چڑھے ہونے کی وجہ سے ہر جگہ انکار ہو جاتا۔ میرے لئے رشتہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے ایک سال گزر گیا پر کہیں بات نہیں بن پائی۔
ایک دن ماں میرے بالوں پر تیل لگا رہی تھی تو چاچی آ گئی اور بولی، ’’ اور کرو لاڈ اس کے۔ میں نے تو پہلے ہی کہا تھا کہ اسے بہت مت پڑھاؤ پر میری سنتا ہی کون ہے۔ اب رکھو اسے گھر میں سینے پر مونگ دلنے کے لئے۔ ‘‘ میرے خاندان والوں نے مجھے پار لگانے کی گویا ٹھان لی تھی۔ وہ میرے لئے درمیانی عمر کے یا پھر طلاق شدہ رشتے بھی تلاش کرنے لگے۔ جب میری ماں نے مخالفت کی تو انہیں بہت سنائی گئی۔ پر شاید یہاں میری قسمت اس معاملے میں کچھ اچھی رہی، ایسے جتنے بھی رشتے آئے سب نے منہ پھاڑ کر مانگ کی۔ اس پر میرے خاندان والوں نے انکار کر دیا۔ میرے والد مجھے منحوس تک کہنے لگے۔ چاچا چاچی تو کسی کے بھی پلے مجھے باندھ دینا چاہتے تھے۔ مگر پھر ایک دن میری ماں نے پراگ کو گھر بلایا۔ پتہ نہیں اس سے کیا کیا کہا۔ تقریباً ایک ہفتے بعد میری ماں نے کہا کہ ایک لڑکا ہے جو بغیر جہیز کے مندر میں ہی سے گنجن سے شادی کرنے کو تیار ہے۔ پر شادی کے چند سال تک گنجن کو گاؤں میں ہی رہنا پڑے گا۔ کیونکہ اس لڑکے کی ابھی پکی نوکری نہیں ہے۔ تو میں اسی وجہ سے تذبذب میں ہوں۔ میری ماں کی بات سن کر میری چاچی کہنے لگی، ’’ارے دیدی۔ اس میں تذبذب کس بات کا، آپ جلدی سے لڑکے کا پتہ بتائیے۔ ‘‘
آناً فاناً میری شادی میری مرضی جانے بغیر ہی پکی کر دی گئی۔ شادی والے دن جب میں نے پراگ کو دیکھا تو میں حیران ہو گئی۔ مجھے لگا کہ پراگ نے مجھ پر رحم کھا کر مجھ سے شادی کی ہے۔ میں بجھے دل سے سسرال آ گئی۔ اسی دوران تقریباً ایک ہفتے میں ہی پراگ کیلئے دہلی سے پروفیسرشپ کا جوائننگ لیٹر آ گیا۔ انہیں دہلی آنا پڑا۔ اس دوران ہمارے درمیان کوئی بات چیت تک نہیں ہوئی۔ میرے ذہن میں بہت سے سوالات تھے، جن کے جواب پراگ کے پاس تھے۔
میری ساس بھی میری ماں کی طرح ہی بہت اچھی تھیں۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ بیٹا تم تو کلکٹر بننا چاہتی ہو نا تو تم اپنی تعلیم جاری رکھو۔ ایسی ساس پا کر میں شاد باد ہو گئی۔ اب آہستہ آہستہ پراگ کی مالی حالت بہتر ہو گئی۔ ایک سال بعد جب پراگ گاؤں آئے تو مجھے اور ماں کو اپنے ساتھ لے گئے۔ جب میں نے اپنے کمرے میں قدم رکھا تو میں حیران ہو گئی۔ کیونکہ انہوں نے پورے کمرے میں میرے فوٹو گراف لگائے ہوئے تھے۔ چودہ فروری کو میرا برتھ ڈے ہوتا ہے اور ویلنٹائن ڈے بھی۔ پر میرے لئے یہ سب بے کار تھا۔ تیرہ فر وری کی رات کو پراگ نے مجھے بڑے پیار سے جگایا۔ اور گلاب دے کر فلمی اسٹائل میں بولے، ’’ گنجن آئی لو یو۔ میں تم سے بہت پیار کرتا ہوں۔ اس دن سے جب میں نے تمہیں پہلی بار دیکھا تھا۔ پر کبھی کہہ نہیں پایا۔ ‘‘
میں سوچنے لگی کہیں میں خواب تو نہیں دیکھ رہی پر یہ حقیقت تھی۔ میں نے کہا، ’’پراگ تم جھوٹ بول رہے ہو۔ کہاں تم اور کہاں میں۔ تم نے مجھ سے شادی کر لی ورنہ تو میں آج بھی۔ ‘‘
پراگ نے کہا، ’’ایسا کچھ نہیں ہے سب بھول جاؤ۔ میں تم سے پیار کرتا ہوں، اسی لئے تم سے شادی کی اور تمہاری ممی سے اپنے دل کی بات کہی۔ کیونکہ تم سے کہتا تو تم یقین ہی نہیں کرتیں۔ اور کون کہتا ہے کہ تم خوبصورت نہیں ہو۔ ویسے بھی خوبصورتی دیکھنے والے کی آنکھوں میں ہوتی ہے۔ میری نظر میں میری گنجن دنیا میں سب سے خوبصورت ہے۔ ‘‘
پراگ کی محبت پا کر میری دنیا ہی بدل گئی۔ جب میں کلکٹر بنی تو انہیں بہت خوشی ہوئی۔ کہتے ہیں کہ ایک کامیاب آدمی کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ پر میں تو کہوں گی کہ ایک کامیاب عورت کے پیچھے بھی ایک آدمی کا ہاتھ ہوتا ہے۔ آج میں اپنے خاندان کے ساتھ بہت خوش ہوں۔ میرا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے۔ جب الہ آباد یونیورسٹی سے مجھے بطور چیف گیسٹ بلایا گیا تو پراگ اور ماں کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا۔ ساسو ماں بولیں کہ گنجن بیٹا آج وقت آ گیا ہے سب کو جواب دینے کا۔
میں اپنی خیالوں میں کھوئی ہوئی تھی۔ تبھی میری ماں آئی اور مجھے گلے سے لگا لیا تو میں چونک پڑی۔
پراگ نے خبردار کیا، ’’کہاں کھو گئی تھیں گنجن یہیں ویٹنگ روم میں بیٹھی رہو گی یا چلو گی بھی۔ میں اتنی دیر سے تم کو بلا رہا ہوں۔ ‘‘
جس شہر میں، جس گھر میں، مجھے ایک عضوِ معطل کی طرح جانا جاتا تھا۔ آج وہاں ہر جگہ صرف میرا ہی ذکر ہے۔ میری تقریر کا تذکرہ ہے۔ پر مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ یہ دنیا تو ہمیشہ چڑھتے سورج کو سلام کرتی ہے۔ آج میں اتنا تو جان گئی ہوں کہ محبت دل سے ہوتی ہے، روح سے ہوتی ہے۔ یہ وہ خوبصورت احساس ہے جس کے سامنے دنیا کے سارے سکھ بے کار ہیں۔ آج میں یہ بھی جان گئی ہوں کہ پراگ نے صحیح ہی کہا تھا، ’’نہ عمر کی سیما ہو، نہ جنم کا ہو بندھن۔ جب پیار کرے کوئی تو دیکھے کیول من۔ ‘‘
***
سردی کی لہر
مہاویر شرما
دہلی میں ایک پل کے نیچے پٹریوں پر ایک طرف ۱۱ اور دوسری طرف۱۰ لوگ زندگی کی سزا بھگت رہے ہیں۔ ہاسٹل، باورچی خانہ، کاروبار، چوپال سبھی کچھ اسی میں سمائے ہوئے ہیں۔ کوئی دروازہ ہے نہ کھڑکی۔ تالے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ان میں کچھ مرد ہیں اور کچھ عورتیں ہیں اور ایک عورت کی گود میں ایک بچہ بھی ہے۔ ان لوگوں کی ذات پات کیا ہے؟ برہمن، ویشیہ، کشتری، شودر یا دلتوں کی برادری میں تو یہ لوگ آ نہیں سکتے۔ ذات برادری والے لوگوں کو تو لڑائی جھگڑا کرنے کے، اونچ نیچ دکھانے کے، ریزرویشن کے، پھوٹ ڈلوا کر ملک میں فتنہ فساد کروانے کے اور پھر غیر قانونی طریقوں سے اپنے بینک بیلنس کو بڑھانے کے، انہیں سماج دوست یا سماج دشمن، جائز یا ناجائز، بہت سے حقوق حاصل ہیں۔ ان ۲۱ افراد کو تو ایسا ایک بھی حق حاصل نہیں ہے تو ان کی ذات پات کیسے اور کس طرح ہو سکتی ہے۔
تو پھر یہ لوگ کون ہیں؟ ان کے نام ہیں۔ بھکاری، کوڑھی، لنگڑے، لولے، اندھے، بہرے، بھوکے، ننگے، معذور، بھک مرے، ادھ موئے، کنگلے اور غریب ہونے کی وجہ سے ان کے تین نام اور بھی ہیں۔ کیونکہ کہتے ہیں۔
’’غربت تیرے تین نام۔ لچّا، غنڈا، بے ایمان۔ ‘‘
ہاں وہ جو پیچ میں بیٹھی ہوئی جوان سی عورت ہے۔ اس کا نام ہے ’’ جھبیا‘‘ اور اس کی گود میں جو ننھا سا بچہ ہے۔ اسے یہ لوگ ’’ للّا‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔ باپ کا نام نہ ہی پوچھا جائے تو مناسب ہو گا۔ کیونکہ کبھی کبھی کچھ کڑوی سچائیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جن میں اصلی نام بتانا کسی بھیانک انجام تک بھی پہنچا سکتا ہے۔
جھبیا کی کیا مجال ہے کہ کہہ سکے کہ اس کی گود میں، ہڈیوں کے ڈھانچے پر پتلی سی کھال میں لپٹا ہوا، جو ننھا سا بچہ ہے اس کا باپ شہر کے ممتاز سیاسی رہنما کا نوجوان لڑکا ہے۔
اُس دن اماوس کی رات تھی، جب وہ اپنی چمچماتی گاڑی کھڑی کر کے باہر نکلا تھا۔ تو جھبیا نے صرف اتنا ہی کہا تھا۔
’’ساب، بھوکی ہوں، کچھ پیسے دے دو۔ بھگوان آپ کا بھلا کرے۔ ‘‘
شراب کا ہلکا سا نشہ، اندھی جوانی کا جوش اور اُس پر حکمرانوں کے آگے گڑگڑاتا ہوا قانون۔ بس اس نے جھبیا کو گھسیٹ کر کار میں کھینچ لیا۔ جھبیا نے تو صرف بھوکے پیٹ کو بھرنے کیلئے، دو وقت کی روٹی کیلئے کچھ پیسے مانگے تھے۔ نہ کہ یہ مانگا تھا کہ اپنے پیٹ میں اس کا بچہ لے کر اس کو بھی بھوک سے مرتا دیکھتی رہے۔
موسم گرما کی چلچلاتی ہوئی دھوپ، برسات کی طوفانی بوچھاڑیں اور کپکپا دینے والی سردیاں، ان پلوں کے نیچے رہنے والے ووٹوں کے بھی حق سے محروم ان شہریوں کی زندگی کو عذاب دیتی، اگلے موسم کو سونپ کر چل دیتی ہیں۔
اس بار تو ٹھنڈ نے کئی سال کا ریکارڈ توڑ ڈالا۔ یہ کپکپاتے ہوئے بد نصیب بجلی کے کھمبوں کی روشنی پر ایسے ٹکٹکی لگائے ہوئے بیٹھے ہیں۔ کہ شاید اتنی دور سے ہی بجلی کے بلب کی کچھ گرمی ان تک پہنچ جائے۔
ہمالیہ کے پہاڑ کی اونچی چوٹیوں سے، جسموں کو چھیدتی خزاں کی یہ سرد برفیلی لہر بلند عمارتوں سے ٹکرا کر، ہار مان کر بوکھلائی بلی کی طرح ان زندہ لاشوں پر ٹوٹ پڑی۔ ان جنم جنم کے بد نصیبوں نے بچاؤ کے لئے کچھ کرنے کی کوشش بھی کی، جیسے پھٹے پرانے کپڑے، کوئی پھٹی پرانی گدڑی یا پھر ایک دوسرے سے مل کر بیٹھ جانا۔ اس سے زیادہ وہ کر بھی کیا سکتے تھے؟ سب کے دانت ٹھنڈ سے کٹکٹا رہے تھے، جیسے سردی آواز کا روپ دھار کر اپنے غضب کا اعلان کر رہی ہو۔
کچھ شہدے بگڑے چھوکرے راہ چلتے ہوئے طنزیہ جملے کس کر اپنا اوچھا پن دکھانے سے نہیں مانتے۔
’’ایسا لگتا ہے جیسے پکھاوج پر کوئی تال اونچے سُر میں بج رہی ہے۔ ‘‘ ان ٹھٹھرے ہوئے بے چاروں کے کانوں کے پردے بھی سردی کی وجہ جم چکے ہیں، کچھ سن نہیں پاتے کہ یہ چھوکرے کیا کچھ کہہ کر ہنستے ہوئے چلے گئے۔ اگر سن بھی لیتے تو کیا کرتے؟ بس قسمت کو کوس کر دل مسوس کر رہ جاتے۔
جھبیا کی گود میں للّا ٹھٹھر کر اکڑ سا گیا ہے، نہ ٹھیک طرح سے رو پاتا، نہ ہی زیادہ ہل ڈُل پاتا۔ ماں اسے سردی سے بچانے کیلئے اپنے سینے سے زور سے چپکا لیتی ہے۔ للّا ا ماں کے بن دودھ کے سینے کو کاٹے جا رہا ہے۔ بڑی بڑی عمارتوں سے ہار نے کے بعد ایک بار پھر بڑے تسلسل کے ساتھ یہ برفانی ہوا ان پر برس کر اپنی شکست کا بدلہ اتار رہی ہے۔
ایک گاڑی اس ہوا کے جھونکے کی تیزی کو پچھاڑتی ہوئی سڑک پر پڑے ہوئے برفیلے پانی پر سے سرسراتی ہوئی چلی جاتی ہے۔ گاڑی کے پہیوں سے اچھلتی ہوئی چھری کی طرح، برفیلے پانی کی بوچھاڑ سے ان لوگوں کے دانتوں کی کٹکٹاہٹ شدید نوعیت کی شکل لے لیتی ہیں۔ للّا نے جھبیا کے سینے کو کاٹنا بند کر دیا تھا، آنکھیں کھلی اور ماں کی طرف ٹکی ہوئی تھیں جیسے پوچھ رہا ہو،
’’ماں مجھے کیوں پیدا کیا تھا؟‘‘
جھبیا اسے ہلاتی ڈلاتی ہے لیکن للّا کے جسم میں کوئی حرکت نہیں ہے۔ وہ دہاڑ کر چیخ اٹھتی ہے۔ سب کی آنکھیں اس کی طرف گھوم جاتی ہیں، وہ بولنا چاہتے ہیں پر بولنے کی طاقت تو سرد لہر نے چھین ہی لی ہے۔
***
پاپا میں تارا بن گئی
گڑون مسیح
آدھی رات گزر چکی تھی۔ آرین کو نیند نہیں آ رہی تھی۔ تکلیف اتنی تھی، کہ وہ بار بار کروٹیں تبدیل کر رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ اس کو نیند کیوں نہیں آ رہی ہے؟ اچانک اسے یاد آیا کہ لوگ کہتے ہیں، جب کسی کو کوئی خواب میں دیکھتا ہے، تو اسے نیند نہیں آتی ہے۔ لیکن اسے خواب میں کون دیکھ رہا ہو گا۔۔ ۔؟ اس نے دل میں سوچا، پھر اسے یاد آیا کہ جب اس کی ماں کو نیند نہیں آتی تھی، تو اس کے پاپا ان سے کہا کرتے تھے، شکنتلا، تمہیں جب بھی رات کو نیند نہیں آئے ہے تو اٹھ کر ایک کتاب پڑھ لیا کرو، کتاب پڑھتے پڑھتے انسان کو کب نیند آ جاتی ہے کچھ پتہ ہی نہیں چلتا یا پھر کسی کے ساتھ بات چیت کرنے سے بھی آنکھ لگ جاتی ہے۔
آرین کو کتابیں پڑھنے کا شوق تو تھا نہیں اس لئے اس نے سوچا کیوں نہ بھومیکا کو نیند سے جگا لوں۔ اس کے ساتھ بات چیت کر کے نیند آ جائے گی۔ اس نے پاس میں بستر پر سوئی بھومیکا کو جگانے کے لئے اس نے ہاتھ بڑھایا اور پھر یہ سوچ کر کہ بھومیکا دن بھر کی تھکی ہاری ہوتی ہے۔ صبح سے لے کر شام تک گھر کے بہت سارے کام نبٹاتی ہے۔ اس کے علاوہ ساگ سبزی لانے کے لئے بازار بھی جاتی ہے تو اگر اسے جگا دوں گا تو اس کی نیند پوری نہیں ہو گی اور نیند پوری نہیں ہو گی تو صبح کو اس کی آنکھ دیر سے کھلے گی، جس سے گھر کا سارا ٹائم مینجمنٹ بگڑ جائے گا. ویسے بھی بھومیکا اگر رات کو صحیح سے سو نہیں پاتی ہے تو صبح کو اس کا پورا جسم درد کرتا ہے اور وہ چڑچڑی ہو جاتی ہے اور بات بات پر اس پر جھلاتی ہے۔ یہی سب سوچ کر اس نے بھومیکا کی طرف بڑھا اپنا ہاتھ سمیٹ لیا اور لیٹ کر کھڑکی سے دکھائی دے رہے آسمان کو تکنے لگا۔ آسمان بالکل صاف تھا۔ چاند بھی پورا نظر آ رہا تھا۔ اس کے ارد گرد جھلملاتے ستارے ایسے لگ رہے تھے جیسے کسی نے کالے سیاہ کپڑے پر رنگین چھوٹے بلب کی جھالر ٹانک دی ہو۔ سب کچھ ایک خوبصورت نظارے جیسا تھا۔
اسی وقت اس کے کانوں سے ایک آواز ٹکرائی ’’کیوں پاپا، نیند نہیں آ رہی ہے؟‘‘
’’ارے یہ تو میری بیٹی چاندنی کی آواز ہے؟‘‘ وہ ایک دم اٹھ کر بیٹھ گیا، پھر اس نے چاندنی کو کھلکھلا کر ہنستے ہوئے سنا، تو وہ چونک کر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔
’’ادھر ادھر کیا دیکھ رہے ہو پاپا، ادھر دیکھو، میں یہاں ہوں، آسمان میں، آپ کی کھڑکی کے ٹھیک سامنے۔ ‘‘
آرین نے ایکدم کھڑکی کے سامنے دیکھا۔ آسمان میں دو تارے ٹمٹما رہے تھے۔ وہ ان تاروں کو ٹکٹکی لگا کر دیکھنے لگا۔ اسے ایسا لگا جیسے ان دو تاروں میں سے ایک تارا اس سے کہہ رہا ہو، ’’پاپا میں تارا بن گئی، تبھی تو آپ یہاں دو تارے دیکھ رہے ہو۔ یاد رکھیں پاپا، میں آپ سے کہا کرتی تھی نہ کہ میں بہت جلد تارا بن جاؤں گی اور آپ کی کھڑکی کے سامنے آ کر چمکا کروں گی اور آپ مجھے دیکھ کر خوش ہوا کرنا۔ کیوں پاپا، یاد آیا؟ پاپا، پلیز، آپ سے ریکویسٹ ہے، آپ اس ونڈو کو کبھی بند مت کرنا، میں یہیں سے آپ کو اور ممی کو دیکھ لیا کروں گی۔ پاپا، کیونکہ یہاں اور بھی بہت سے تارے ہیں، میں ان کے ساتھ خوب کھیلتی ہوں، دوڑتی ہوں بھاگتی ہوں۔ میں یہاں بہت خوش ہوں، مجھے یہاں بہت اچھا لگتا ہے، یہاں تمام تارے میرے دوست بن گئے ہیں، لیکن پاپا، مجھے آپ کی بہت یاد آتی ہے۔ پاپا، میں بہت گندی لڑکی تھی نہ؟ آپ کو بہت تنگ کرتی تھی، آپ کا کہا نہیں مانتی تھی۔ اب لگتا ہے کہ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔ پاپا، میں تارا تو بن گئی پر آپ کے خوابوں کا احساس نہیں کر پائی، جس کا مجھے بے حد افسوس ہے۔ پاپا، مجھے یقین ہے، آپ نے مجھے معاف تو کر دیا ہو گا، کیونکہ میں آپ کی بے حد لاڈلی جو تھی۔ ‘‘
جیسے جیسے چاندنی کی آواز آرین کے کانوں سے ٹکرا رہی تھی، ویسے ویسے چاندنی کا عکس آرین کی آنکھوں کے سامنے ابھرتا جا رہا تھا۔
ستائیس سال پہلے بھومیکا سے جب آرین کی شادی ہوئی تھی، تو وہ دونوں مل کر یہی خواب دیکھتے تھے کہ ان کے گھر کے آنگن میں بچے کے روپ میں کوئی پھول کھلے گا، جس کی خوشبو سے ان کا گھر مہک اٹھے گا، چڑیوں کی چہچہاہٹ کی طرح اس کی کلکاریوں سے ان کا گھر گونجا کرے گا، لیکن دیکھتے ہی دیکھتے پورے سات سال گزر گئے، بھومیکا کی کوکھ میں نہ تو کسی بیٹے نے پاؤں پسارے، نہ ہی کسی بیٹی نے۔ بڑے سے بڑے ڈاکٹر کو دکھا لیا۔ بھگوان کے سامنے بھی رو لئے، گڑگڑا لئے، لیکن بھومیکا کی کوکھ خالی کی خالی ہی رہی۔ جس بھومیکا کو گھر والے پیار سے بھومی کہا کرتے تھے، اسی بھومیکا کو اب بنجر سمجھ کر تمام ناک بھوں سکوڑنے لگے تھے۔ ماں نے تو بھومیکا کو کچن میں بھی جانے کو منع کر دیا تھا۔ کہتی تھیں، تو بانجھ ہے اور بانجھ عورت کے چوکے میں جانے سے چوکا ناپاک ہو جاتا ہے۔ پہلے ماں کسی بھلے کام سے کہیں جاتی تھیں، تو خوشی خوشی بھومیکا کو بھی اپنے ساتھ لے جاتی تھیں، لیکن جب بھومیکا ماں نہیں بن پائی تو ماں کہنے لگیں تھیں، ’’تو نروان شنی ہے، تیرے ساتھ باہر جانے سے اپ شگن ہو جائے گا اور ہمارا بنا بنایا کام بگڑ جائے گا۔ ‘‘
محلے پڑوس کی عورتیں بھی بھومیکا کے سامنے آنے سے کترانے لگیں تھیں۔ اعلی تعلیم یافتہ اور نئے خیالات والی بھومیکا، جو نہایت ہی خوش مزاج اور ملنسار تھی، کب تک اپنے آدرشوں کا دامن تھامے، امیدوں کے سہاروں پر کھڑی رہتی۔ کبھی تو اسے ٹوٹ کر بکھرنا ہی تھا اور وہ ٹوٹ کر بکھرنے لگی۔ مایوسی کی گہری کھائی میں دھنسنے لگی، وہ جی بھر کے روتی اور چپ ہو جاتی، بھگوان کے آگے سر پٹختی اور کہتی کہ اگر ماں بننے سے ہی عورت مکمل عورت کہلاتی ہے، تو اس نے اس کی کوکھ کو سونا کیوں رکھا؟، لیکن خدا کی پتہ نہیں کیا مرضی تھی، وہ بھومیکا کی کیوں نہیں سن رہا تھا، یہ تو بھگوان ہی جانتا ہو گا۔
ہر وقت ہنستی کھلکھلاتی رہنے والی بھومیکا ایکدم ایسے خاموش ہو گئی تھی، جیسے وہ ہنسنا بولنا ہی نہیں جانتی ہو۔ دن بھر سجنے سنورنے والی بھومیکا کو اب کئی کئی دن نہانا اور کپڑے تبدیل کرنا بھی یاد نہیں رہتا تھا۔ پھول کی طرح کھلی ہوئی دکھائی دینے والی بھومیکا، اب بالکل بیمار اور مرجھا ئی سی دکھائی دینے لگی تھی۔ آرین بھی اسے کب تک جھوٹی تسلی دیتا، طعنے تو اسے بھی کھانے کو ملتے تھے، ملامت تو اسے بھی ملتی تھی۔ گھر سے لے کر آفس تک تمام لوگ اس سے طرح طرح کی باتیں کرتے۔ کوئی کہتا ایسا کرو، کوئی کہتا ویسا کرو، کوئی کہتا یہاں دکھا دو، تو کوئی کہتا وہاں دکھا دو۔
ساری امیدیں دم توڑ چکی تھیں۔ زندگی سے مکمل طور وہ اور بھومیکا ہار چکے تھے کہ اچانک ایک دن شام کو آفس سے گھر آتے ہوئے آرین نے ایک جگہ لوگوں کی بھیڑ لگی دیکھی۔ وہ بھی اس بھیڑ میں شامل ہو گیا۔ اندر جا کر دیکھا، کچرا کنڈی میں ایک نوزائیدہ بچی پڑی ہوئی تھی، جس پر لوگ طرح طرح کی باتیں بنا رہے تھے۔ کوئی کہہ رہا تھا، ’’پتہ نہیں کس کا گناہ ہے، جسے یہاں گندگی میں پھینک دیا۔ ‘‘ تو کوئی کہہ رہا تھا، ’’جب پالنے کی اوقات نہیں تھی، تو پیدا ہی کیوں کر کیا؟‘‘ کوئی کہہ رہا تھا، ’’بیٹے کی چاہت میں بیٹی ہو گئی ہو گی، اس لئے یہاں پھینک دیا۔ ‘‘ تو کوئی یہ بھی کہہ رہا تھا، ’’پہلے تو خوب مستی ماری اور جب مستی کا پھل آ گیا تو سماج کے ڈر سے اسے گندگی میں پھینک دیا، مرنے کے لئے۔ ‘‘
سبھی باتیں بنا رہے تھے، لیکن آرین دل ہی دل یہ سوچ کر خوش ہو رہا تھا کہ خدا نے یہ بچی اس کے لئے دی ہے، وہ اسے اپنے ساتھ لے جائے گا اور اس کی پرورش کرے گا، اسے پڑھائے گا۔ لکھائے گا اور اچھا انسان بنا کر معاشرے میں اسے احترام دلوائے گا۔ ویسے بھی اس کی کیا غلطی ہے، اس نے تو ابھی دنیا میں کچھ دیکھا بھی نہیں ہے، نیکی اور برائی کو جانا بھی نہیں ہے۔ غلطی تو ان کی ہے، جس نے اسے پیدا کر کے یہاں لوگوں کے طعنے سننے کے لئے پھینک دیا۔ کہتے ہیں، جنم دینے والے سے پالنے والا بڑا ہوتا ہے۔ یہ بچی جس کی بھی ہے، جیسی بھی ہے، وہ اسے پالے گا۔ بھومیکا بھی اس بچی کو پا کر خوش ہو جائے گی۔ ان دونوں نے تو پہلے ہی اس بات کا من بنا لیا تھا کہ بھگوان نے انہیں قدرتی طور پر ماں باپ نہیں بنایا تو کیا ہوا۔ وہ کسی بچے کو گود لے لیں گے۔
آرین نے پولیس سے اس بچی کو گود لینے کی خواہش ظاہر کی۔ پولیس نے کاغذی کار روائی کرنے کے بعد بخوشی وہ بچی کو آرین کو سونپ دی۔
بچی کو پا کر بھومیکا ایسے خوش ہو رہی تھی، جیسے کسی ڈوبتے ہوئے کو کنارا مل گیا ہو اور مرنے والے کو جینے کا سہارا۔ بھومیکا نے بچی کو اپنے سینے سے چپٹا لیا۔ اگرچہ بچی کو ماں کا دودھ نصیب نہیں ہوا لیکن ماں کے جسم کی گرماہٹ پا کر بچی میں جیسے جان آ گئی۔ وہ ہاتھ پاؤں چلانے لگی۔ آرین اور بھومیکا نے اس کا نام چاندنی رکھا۔ نام کرن کے دن انہوں نے پورے محلہ کی دعوت کی اور خوب خوشی منائی۔
آرین کو ڈر تھا کہ کہیں چاندنی کا ماضی اس کے ساتھ ساتھ نہ چلے، اس لیے اس نے اپنا ٹرانسفر بریلی سے لکھنؤ کروا لیا، تاکہ چاندنی کے بڑے ہونے پر اسے کوئی یہ نہ بتا سکے کہ اسے اسے ممی پاپا کچرا کنڈی سے اٹھا کر لائے تھے اور وہ ان کا اپنا خون نہیں ہے۔
چاندنی جب اسکول جانے کے قابل ہو گئی تو شہر کے سب سے مہنگے اسکول میں اس کا داخلہ کروایا۔ پانچویں کلاس تک تو بھومیکا اس کو اسکول چھوڑنے اور لانے جاتی تھی۔ اس کے بعد جب وہ بڑی ہو گئی، تو اسے اسکول لانے لے جانے کی ذمہ داری آرین نے اپنے سرلے لی، کیونکہ وہ جانتا تھا کہ آج کل کا ماحول لڑکیوں کے حساب سے ٹھیک نہیں ہے۔ اس کے ساتھ کب کوئی اونچ نیچ ہو جائے کوئی نہیں جانتا۔ ویسے بھی لڑکیوں کی حفاظت کرنے میں گورنمنٹ تک فیل ہو چکی ہے۔
چاندنی کو آرین سے خصوصی لگاؤ تھا۔ آرین کے بغیر وہ کچھ بھی نہیں کرتی تھی۔ آفس سے آتے ہی وہ آرین سے لپٹ جاتی تھی۔ اس کے ساتھ کھیلتی تھی، باتیں کرتی تھی۔ آرین بھی اس کے ساتھ ہنس بول کر اپنی دن بھر کی تھکاوٹ کو بھول جاتا تھا۔
اور اس دن تو آرین کی خوشی کا ٹھکانا نہیں رہا، جب چاندنی نے پہلی بار اس ٹیڑھی میڑھی، تھوڑی گول، تھوڑی چوکور روٹی بنا کر کھانے کو دی تھی۔ اس نے روٹی دیکھ کر چاندنی کو پیار سے چوم لیا تھا اور کئی لوگوں سے اس بات کا ذکر بھی کیا تھا کہ اس کی بیٹی اب بڑی ہو گئی ہے، اور وہ روٹی پکانا سیکھ گئی ہے۔ چاندنی کی پہلی روٹی کا دن اور تاریخ آرین نے اپنی ڈائری میں لکھ لیا تھا۔ آرین کے منہ سے اپنی روٹیوں کی تعریف سن کر چاندنی تو خوشی سے پھولی نہیں سما رہی تھی۔ اس نے بھومیکا سے بھی کہہ دیا تھا، ’’ممی، اب آپ پاپا کے لئے روٹی کی فکر مت کرنا۔ آپ کو جب بھی نانی کے گھر جانا ہوا کرے تو چلی جایا، میں پاپا کے لئے روٹیاں بنا دیا کروں گی۔ ‘‘
بھومیکا نے بھی کہہ دیا تھا کہ ’’ہاں اب تو سیانی ہو گئی ہے، میرے کام میں ہاتھ بٹایا کرے گی، جس سے مجھے بھی گھر کے کام سے تھوڑی راحت مل جایا کرے گی۔ ‘‘
چاندنی پڑھنے لکھنے میں تو ہوشیار تھی ہی، اسے مشینوں سے کھیلنے اور نئی نئی مشینوں کے بارے میں پڑھنا بہت اچھا لگتا تھا۔ وہ ہمیشہ آرین سے کہا کرتی تھی کہ وہ بڑی ہو کر انجینئر بنے گی اور اس کا نام روشن کرے گی۔ آرین نے بھی سوچ لیا تھا کہ چاندنی کی خواہش اگر انجینئر بننے کی ہے، تو وہ اسے انجینئر بننے کا موقع ضرور دے گا۔
آرین کی عادت تھی، وہ رات کو سوتے وقت باہر سے تازہ ہوا آنے کے لئے اپنے بیڈروم کی بڑی کھڑکی کھول لیا کرتا تھا، جس سے آسمان اور آسمان میں اٹھکھیلیاں کرتے چاند تارے صاف دکھائی دیتے تھے۔ اسے وہ سب دیکھنا بہت اچھا لگتا تھا۔ وہ کھڑکی سے گھنٹوں آسمان کو تکتا رہتا تھا۔ اکثر چاندنی بھی اس کے پاس بستر میں آ کر لیٹ جاتی تھی اور چاند تاروں کے بارے میں اس سے خوب باتیں کرتی تھی۔ باتوں ہی باتوں میں وہ آسمان میں چمکنے والے تمام تاروں سے مختلف اور اس کی کھڑکی کے بالکل سے سامنے نظر آنے والے تارے کو دیکھ کر کہتی تھی، ’’پاپا، میں نے بھی ایک دن اسی تارے کی مانند پوری دنیا میں چمچماؤں گی۔ لوگ مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوا کریں گے اور کہیں گے کہ یہ ہے مسٹر آرین مہتا کی بیٹی چاندنی۔ دیکھ لینا، میری چمک کو دیکھ کر یہ تارا بھی مجھ چڑنے لگے گا اور چڑتے چڑتے ایک دن یہ یہاں سے غائب ہو جائے گا اور پھر میں یہاں اکیلے چمکا کروں گی۔ ‘‘
چاندنی کے چھوٹے سے منہ سے اتنی بڑی بات سن کر آرین اسے ڈانٹ کر کہا کرتا تھا، ’’یہ گندی بات ہوتی ہے، ایسے مت بولا کرو۔ کوئی تارا چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا، کسی تارے کی چمک تیز اور ہلکی نہیں ہوتی، تمام ایک سا چمکتے ہیں۔ ‘‘
وقت ارمانوں کے پر لگا کر آسمانوں میں اڑ رہا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے چاندنی نے انٹر کا امتحان فرسٹ کلاس سے پاس کر لیا۔ چار سبجیکٹ میں اسے سب سے زیادہ نمبر ملے تھے۔ جس کی وجہ سے شہر کے تمام اخباروں میں اس کا فوٹو بھی چھپا تھا۔ کالونی کے تقریباً تمام لوگوں نے گھر آ کر چاندنی کو مبارک باد دی تھی۔ اس دن تو اس کے گھر میں جشن سا ماحول بن گیا تھا۔ لوگ چاندنی کو اس کے روشن مستقبل کے لئے گڈ لک دے رہے تھے، اس وقت آرین اور بھومیکا ایسا محسوس کر رہے تھے جیسے چاندنی کے طور پر بھگوان نے ان کو کوئی فرشتہ دے دیا ہو۔ انہیں چاندنی کے اوپر فخر ہو رہا تھا۔
چاندنی نے انٹر کے امتحان کے ساتھ ہی ٹیکنیکل کا امتحان بھی دیا تھا، جس کے نتیجہ کا انٹر کے امتحان کے کچھ دن بعد ہی اعلان کیا گیا تھا۔ جس سے آرین اور بھومیکا کی خوشی دوگنی ہو گئی تھی، کیونکہ چاندنی نے اس امتحان کو بھی اچھے رینک سے پاس کیا تھا اور اسے ملک کے معروف ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ میں بی ٹیک کے لئے داخلہ بھی مل گیا تھا۔
چاندنی لکھنؤ چھوڑ کر بی ٹیک کرنے کے لئے بنگلور چلی گئی۔ اس کے جانے کے بعد گھر بالکل سونا اور خالی خالی لگنے لگا۔ چاندنی کی بنائی پینٹنگز، فلاور پوٹس، اس کا کمپیوٹر، اس کا بستر، جیسے سب ایک دم خاموش ہو گئے تھے۔ سب کی سونی آنکھوں میں ایک ہی سوال نظر آ رہا تھا کہ چاندنی ان سب کو چھوڑ کر کہاں چلی گئی؟ ان سب چیزوں کی طرح بھومیکا اور آرین بھی ایکدم اداس سے رہنے لگے۔ نہ ان کا دل کھانے میں لگ رہا تھا، نہ گھر کے کسی کام میں۔ کئی دنوں تک تو آرین کو ایسا لگتا رہا، جیسے چاندنی ڈرائنگ روم میں ہے، کبھی لگتا وہ سونے کے کمرے میں اپنے ٹیڈی بیئرز کے ساتھ کھیل رہی ہے، تو کبھی لگتا وہ پینٹنگز بنا رہی ہے، کبھی لگتا وہ ٹی وی پر کارٹون فلم دیکھ کر زور زور سے ہنس رہی ہے۔ تو کبھی لگتا وہ بھومیکا کے ساتھ کچن میں ہے، کبھی اس کے گارڈن میں ہونے کا احساس ہوتا، تو کبھی چھت پر۔
ایک بار تو آرین کو ایسا لگا، جیسے چاندنی گارڈن میں تیزی سے بھاگ رہی ہو، اسے بھاگتے دیکھ کر وہ ایک دم چیخا، ’’چاندنی ایسے مت بھاگو۔ نہیں تو گر جاؤ گی۔ ‘‘ تو بھومیکا نے اس سے کہا، ’’کیا کر رہے ہو آرین، چاندنی یہاں کہاں ہے، چاندنی تو بنگلور چلی گئی ہے، اپنی پڑھائی کرنے۔ ‘‘
بھومیکا اور آرین جب گھر میں ساتھ، رات کے کھانے کے لئے بیٹھتے تو انہیں چاندنی کی بہت یاد آتی، اور وہ ایک دم اداس ہو جاتے تھے۔ حالانکہ دونوں کی روز صبح شام چاندنی سے فون پر باتیں ہوتی تھیں۔ پھر بھی ان کا دل نہیں مانتا تھا۔ دونوں سوچتے تھے کہ پتہ نہیں اس نے کھانا کھایا ہے یا نہیں، کیونکہ چاندنی کھانے میں بہت نخرے دکھاتی تھی۔ کبھی کہتی مجھے یہ سبزی پسند نہیں، کبھی کہتی میں یہ نہیں کھاؤ گی۔ وہ نہیں کھاؤ گی، تو کبھی کہتی ممی آپ روز روز ایسا کھانا کیوں بنا لیتی ہیں۔ اسی بات کو لے کر وہ اکثر ناراض ہو جاتی اور کہتی مجھے نہیں کھانا ہے آپ کا کھانا، تو آرین اسے منانے میں لگ جاتا اور جب تک چاندنی مان نہیں جاتی تھی، اس وقت تک اسے مناتا ہی رہتا تھا۔ یہی سب باتیں یاد کر کے اس کی اور بھومیکا کی آنکھیں نم ہو جاتیں۔
ایک دن اچانک چاندنی نے آرین کو فون پر بتایا کہ وہ چھٹیوں میں گھر آ رہی ہے تو آرین خوشی سے اچھل پڑا، اس نے بھومیکا کو بھی بتایا کہ چاندنی چھٹیوں میں گھر آ رہی ہے۔ پورے تین ماہ بعد چاندنی پہلی بار گھر آ رہی تھی، اس لئے آرین اور بھومیکا نے اس کی پسند کی بہت ساری چیزیں گھر میں لا کر رکھ دیں۔
اس کو لینے آرین اور بھومیکا ریلوے اسٹیشن پہنچ گئے۔ تین گھنٹے کے طویل انتظار کے بعد چاندنی کی گاڑی جب اسٹیشن پہنچی تو آرین کی آنکھیں چاندنی کو دیکھنے کے لئے بے چین ہونے لگیں۔ وہ فوری طور پر چاندنی کے ڈبے میں چڑھ گیا اور اس کا سامان اٹھا لیا۔
گھر آنے کے بعد آرین تمام وقت چاندنی سے لپٹا رہا۔ اس سے اس کی پڑھائی، اس کے ہاسٹل، اس کے میس اور اس کی دوستوں کے بارے میں پوچھتا رہا۔ اس دن آرین اور بھومیکا نے چاندنی کے ساتھ مل کر بہت دنوں بعد بھر پیٹ کھانا کھایا اور باہر گھومنے بھی گئے تھے۔
اپنی پوری ایک ہفتے کی چھٹیاں گزار کر چاندنی واپس بنگلور چلی گئی۔ اس کے بعد چاندنی کا آنا جانا لگا رہا، اس دوران آرین اور بھومیکا بھی دو بار اس سے بنگلور جا کر مل آئے۔
چاندنی کے بغیر آرین اور بھومیکا کے چار سال کس طرح کٹے، یہ تو وہی بتا سکتے تھے۔ ان چار سالوں میں ان دونوں نے چاندنی کو لے کر نہ جانے کتنے خواب دیکھ ڈالے تھے۔ آرین کا تو کہنا تھا کہ اگرچہ ہماری چاندنی انجینئر بن جائے گی، لیکن اس کی شادی وہ خوب دھوم دھام سے کریں گے اور شادی کے بعد وہ چاندنی اور اس کے شوہر کو اپنے پاس ہی رکھے گا، تاکہ ان کا گھر سونا نہ ہو۔
چاندنی کا بی ٹیک میں وہ آخری سال تھا.، سات سیمسٹر کمپلیٹ ہو چکے تھے، آٹھویں سمسٹر کے بس ایگزامز ہونا باقی رہ گئے تھے، جس کے لیے وہ دن رات پڑھائی کر رہی تھی۔ اسی دوران اسے ملک کی کسی اچھی کمپنی سے نوکری کی بھی پیشکش ہوئی تھی، لیکن اس نے اس پیشکش کو ٹھکرا دیا تھا، اس کا کہنا تھا کہ وہ جاب کرے گی تو ایسی کرے گی، جسے لوگ دیکھتے رہ جائیں گے۔ آرین کو بھی چاندنی کے اوپر بہت فخر ہونے لگا تھا۔ وہ بات بات میں بھگوان کا شکر ادا کرتا تھا کہ اس نے اسے اتنی ذہین بیٹی دی ہے۔
آخری ایگزامس سے پہلے کچھ دنوں کے لئے چاندنی گھر آئی ہوئی تھی اور جب وہ واپس اپنے کالج بنگلور جا رہی تھی تو اپنے پاپا سے کہہ رہی تھی۔ ’’ پاپا اب آپ کی بیٹی انجینئر بن کر ہی لوٹے گی۔ اب آپ چاندنی کے نہیں بلکہ انجینئر چاندنی کے والد کہلائیں گے۔ ‘‘
اس وقت آرین کے ساتھ ساتھ بھومیکا کی آنکھوں میں بھی خوشی کے آنسو تیرنے لگے تھے۔ آرین اور بھومیکا چاندنی کو ہمیشہ کی طرح اس دن بھی اسٹیشن چھوڑنے گئے۔ اسے ٹرین میں بٹھایا اور جب ٹرین اسٹیشن سے بہت دور نکل گئی تو وہ واپس اپنے گھر آ گئے۔
دوسرے دن صبح کو اپنے آفس جانے سے کچھ دیر پہلے آرین نے چاندنی کو فون کر کے پوچھا کہ وہ کہاں تک پہنچی ہے، تو چاندنی نے بتایا تھا کہ بس دو ڈھائی گھنٹے کا سفر اور رہ گیا ہے، اس کے بعد وہ بنگلور پہنچ جائے گی۔ آرین نے کہا، ’’ٹھیک ہے، جب ہاسٹل پہنچ جاؤ تو فون کر کے بتا دینا کہ تم پہنچ گئیں ’۔ ‘‘
شام کو آفس سے گھر آنے کے بعد آرین نے بھومیکا سے کہا، ’’ بھومیکا، چاندنی کا فون آیا تھا؟ کیا وہ آرام سے ہاسٹل پہنچ گئی تھی ہے؟‘‘
’’جی ہاں، ابھی کچھ دیر پہلے ہی اس کا فون آیا تھا۔ کہہ رہی تھی کہ سفر کی تھکاوٹ کی وجہ سے وہ سو گئی تھی، اس لئے وہ فون نہیں کر پائی تھی۔ ‘‘
’’ٹھیک ہے، میں اس سے بات کرتا ہوں۔ ‘‘ یہ کہہ کر اس نے چاندنی کو فون ملایا لیکن چاندنی کا فون سوئچ آف تھا، تو آرین نے بھومیکا سے کہا، ’’ بھومیکا، چاندنی نے اپنا فون سوئچ آف کیوں کر رکھا ہے، دیکھو نا میں اسے کتنی دیر سے ملا رہا ہوں۔ ہر بار ایک ہی جواب مل رہا ہے کہ جس نمبر سے آپ رابطہ کرنا چاہتے ہیں، وہ ابھی سوئچ آف ہے۔ ‘‘
’’ہاں تو اس نے سوئچ آف کر لیا جائے گا، اس میں اتنا پریشان ہونے کی کیا بات ہے، تھوڑی دیر بعد پھر کر کے دیکھ لینا۔ ‘‘ یہ کہہ کر بھومیکا نے آرین کے ہاتھ میں چائے کپ پکڑا دیا اور دونوں چائے پینے لگے۔ اسی دوران آرین کے فون پر کال آئی کہ ’’چاندنی ہاسٹل کی سیڑھیوں سے گر پڑی ہے، اس کی حالت نازک ہے، آپ جلدی سے آ جائیں۔ ‘‘
یہ سنتے ہی آرین کے تو پاؤں کے نیچے سے زمین کھسک گئی۔ اس کے ہاتھ سے چائے کا کپ چھوٹ کر دور جا گر۔ بھومیکا بھی دہاڑیں مار مار کر رونے لگی۔ اس کی چیخ و پکار سن کر پاس پڑوس کے لوگ جمع ہو گئے۔ سب ہی ان دونوں کو سنبھالنے اور تسلیاں دینے میں لگ گئے۔
وہاں سے دو گھنٹے بعد بنگلور ڈائریکٹ ٹرین تھی۔ آرین اور بھومیکا اس میں سوار ہو گئے۔ پڑوس کے دو اور لوگ بھی ان کے ساتھ ان کی مدد کے لئے ساتھ تھے۔
چاندنی کے ہاسٹل پہنچتے ہی آرین ایکدم شوکڈ ہو گیا اور بھومیکا بے ہوش ہو کر وہیں زمین پر گر گئی، کیونکہ انہیں وہاں چاندنی نہیں، اس کی لاش ملی۔ ہاسٹل مینیجر مسٹر گرگ نے بتایا کہ انہیں جیسے ہی پتہ چلا کہ چاندنی ہاسٹل کی سیڑھیوں گر گئی ہے، ویسے ہی وہ اس ہاسپٹل لے گئے۔ لیکن ہاسپٹل میں ڈاکٹر نے چاندنی کو دیکھ کر کہا، ’’سیڑھیاں سے گرنے کی وجہ سے چاندنی کے دماغ کی رگ پھٹ گئی ہے اور اس کی موت واقع ہو گئی۔ سوری مسٹر آرین، آپ کو اپنی بیٹی کھو دینے کا ہمیں انتہائی افسوس ہے . سچ مچ بہت ذہین بیٹی تھی آپ کی۔ ‘‘
آرین ہاسٹل مینیجر مسٹر گرگ کی بات کے جواب میں کچھ نہیں کہہ پایا۔ کہتا بھی تو کیا کہتا۔ اس کی اور بھومیکا کی تو دنیا ہی لٹ چکی تھی، جس چاندنی کو انہوں نے گود میں کھلایا تھا، وہی آج ان کے کندھوں پر جا رہی تھی، ایسی صورت میں کوئی کسی سے کیا کہتا۔ بڑی مشکل سے ان کے خود کو اور بھومیکا کو سنبھالا۔
اتنا سب کچھ یاد آتے ہی آرین کی چیخ نکل پڑی اور وہ چاندنی کر کے زور سے چیخا تو قریب سوئی ہوئی بھومیکا کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے آرین کو سنبھالتے ہوئے کہا، ’’کیوں چیخ رہے ہو، ہماری چاندنی اب اس دنیا میں نہیں ہے۔ وہ بھگوان کے پاس چلی گئی۔ ‘‘
’’نہیں بھومیکا، ہماری چاندنی مری نہیں ہے، وہ تارا بن گئی ہے۔ وہ دیکھو آسمان میں جو دو تارے دکھائی دے رہے ہیں نہ، ان میں سے ایک تارا ہماری چاندنی ہے۔ یہ بات ابھی ابھی چاندنی نے مجھے بتائی ہے۔ ‘‘
آرین کی باتیں سن کر بھومیکا کے سینے میں بھی ہوک سی اٹھنے لگی،ا س کا دل بھی چاہنے لگا کہ وہ زور سے رو دے، لیکن وہ ایسا نہیں کر سکی، کیونکہ آرین کو تسلی دینے کے لئے فقط وہ ہی تھی، پر اسے تسلی دینے والا کون تھا۔۔ ۔؟
***
صبح ساڑھے سات بجے سے پہلے
سمن کمار گھئی
وہ ساڑھے پانچ بجے سے جاگ رہا تھا۔ بچپن سے ہی عادت ہے۔ وہ چاہ کر بھی دیر تک نہیں سو پاتا۔ وہ بار بار سائیڈ ٹیبل پر پڑی گھڑی کی طرف دیکھتا رہا۔ یہ ڈیجیٹل گھڑیاں اسے پسند نہیں تھیں۔ وقت ایکدم بدل جاتا ہے۔ کوئی مسلسل چلتی سیکنڈ کی سوئی نہیں ہے، جس کے پیچھے پیچھے وقت چلتا ہے اور دیکھنے والا سانس روک کر دلچسپی سے دیکھتا رہتا ہے کہ ابھی۵۵ سیکنڈ ہوئے ہیں اور اب۵۶ اور ساٹھ پر ہوتے ہی کھٹک سے منٹ کی سوئی اگلے پڑاؤ تک پہنچ جائے گی۔ ڈیجیٹل گھڑی کے جلتے ہوئے سرخ پوائنٹس اچانک بدل جاتے ہیں۔ وقت پلٹ جاتا ہے۔ ڈیجیٹل دور میں وقت بھی، بائنری کے ایک اور زیرو کے پوائنٹس میں بندھ گیا ہے۔ لگنے لگا ہے کہ وقت مسلسل پانی کی دھارا کی طرح نہیں بہتا، گھڑی پر سے ذرا سی نظر ہٹی اور جب تک واپس لوٹی زندگی کا اگلا پوائنٹ ظاہر ہوتا ہے۔ بس ایک جھٹکے میں وقت نکل گیا۔
راجیو بھگت چکا ہے اس ڈیجیٹل دور کو۔ اس کا وقت بھی اچانک ہی بدل گیا تھا ایک سے زیرو ہو گیا تھا۔
ایک طرف لیٹے لیٹے اس کے کندھے سن ہونے لگے تھے۔ دوبارہ وقت دیکھا ابھی پانچ چالیس ہی ہوئے تھے۔ ساتھ لیٹی مینا کو کب جگائے۔ روز کا یہی سوال ہے اور خود پر ایک بوجھ۔ آہستہ سے کروٹ لی تو چین کی سانس آئی۔ سن ہوئے کندھوں کو گول گول گھماتے ہوئے مٹھی کو کھولتا بند کرتا رہا تب کہیں خون کی روانی بحال ہوئی۔
سرکتا ہوا اٹھا، باتھ روم کا دروازہ بھی اس نے دھیرے سے بند کیا۔ عجیب سننے کی صلاحیت ہے مینا کی بھی۔ سوتی ہے تو چاہے نقارے بجاتے رہو نہیں جاگے گی، لیکن اگر باتھ روم کا نل ذرا زیادہ کھول لیا تو جاگ اٹھے گی۔
جب وہ باتھ روم سے باہر نکلا تو گھڑی پانچ بج کر پچپن منٹ دکھا رہی تھی۔ اس کا دن رینگتا ہوا نکلتا ہے۔ اس کی سستی سے اسے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ پر یہ صبح کا وقت ہے۔ وہ مینا کو جگانے کیلئے کیوں فکر مند رہتا ہے، اس کا جواب اس کے پاس بھی نہیں ہے۔ شاید کچھ سانجھے پل، ٹھہرے وقت میں۔۔ ۔ روز مرہ کی زندگی کی بھاگ دوڑ شروع ہونے سے پہلے، وہ جینا چاہتا ہے۔
آہستہ سے وہ پھر بستر میں سرک آیا۔ اگلی بار گھڑی دیکھی تو چھ بج گئے تھے۔ مینا کو جگانے کا وقت ہو گیا، وہ مسکرایا۔ کیونکہ اب روز کا سلسلہ شروع ہو گا۔
’’مینا اٹھو! وقت ہو گیا۔ ‘‘ اس نے دھیمے سے اسے ہلاتے ہوئے کہا۔
’’او ہو وقت تو ہوتا رہتا ہے، پلیز کچھ منٹ اور سونے دو نا۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے مینا نے اس سے پیٹھ موڑ لی۔ وہ کچھ بولا نہیں صرف خاموشی سے، سانسیں تھامے مینا کی پیٹھ دیکھنے لگا۔ اس کی نظریں مینا کی سڈول اور برسوں کے ورزشی جسم کے کساؤ کو ناپ رہی تھیں۔
’’گھورنا بند کرو۔ ‘‘ مینا نے اس کی طرف دیکھے بغیر کہا۔
’’تمہیں کیسے پتہ کہ میں تمہیں دیکھ رہا ہوں؟‘‘
’’بیس برسوں سے جانتی ہوں تمہیں۔ تمہاری ہر حرکت سے واقف ہوں۔ ‘‘
’’تو پھر تو یہ بھی جانتی ہو گی کہ چاہتا کیا ہوں۔ ‘‘
’’بیکار باتوں میں نہ الجھاؤ، چین سے سونے تو دو منٹ اور۔ ‘‘
’’دو منٹ میں کیا ہو جائے گا؟‘‘
’’بند نہیں کرو گے اپنی جھک جھک۔ ‘‘ وہ جھنجھلا اٹھی۔ راجیو مسکرایا۔ وہ جانتا تھا کہ یہ جھنجھلاہٹ، یہ غصہ سارا مصنوعی ہے۔ ہر روز کا یہی ڈرامہ ہے۔ اگر کسی دن وہ مینا کو نہ جگائے تو مینا کو شکایت ہوتی ہے کہ جگایا کیوں نہیں۔
وہ جواب دیتا، ’’جگاتا ہوں تو صبح صبح تمہاری جلی کٹی سننی پڑتی ہے۔ ‘‘
’’تو؟‘‘ مینا کا یہ سوال وہ کبھی بھی سمجھ نہیں پایا۔ جلی کٹی سنانا مینا کا حق ہے یا عادت، ویسے اس کی عادت بھی تو اسے جگانے کی ہے۔
چھ بج کر پانچ منٹ ہو گئے تھے۔ راجیو ایک جھٹکے سے بستر سے اٹھ کھڑا ہوا۔ وہ جانتا تھا کہ مینا کو اس پر کافی اعتراض ہے اور شاید وہ اسی لئے یہ کرتا تھا۔ مینا نے آنکھیں کھولیں اور ایک کہنی کے بل اٹھتے ہوئے اس کی طرف جھنجھلا ئی نظروں سے دیکھا اور پھر بستر پر گر گئی۔
’’بس دو منٹ۔ چین سے مرنے بھی نہیں دیتے۔ ‘‘
’’تمہیں ہی دیر ہو جاتی ہے، روز بھاگتے دوڑتے ناشتا کرتی ہو، گرتے پڑتے سینڈل پہنتی ہو۔ ذرا آرام سے تیار ہونا ہو تو اٹھنا تو پڑے گا ہی۔ ‘‘ اس نے دلیل دی۔
کوئی جواب نہیں ملا۔ وہ جانتا تھا مینا خود کو سمیٹنے کی کوشش کر رہی ہے۔ وہ پھر بستر میں لوٹ آیا۔ لیٹا نہیں ہیڈ بورڈ پر تکیہ لگا کر آرام سے بیٹھ گیا۔ اس نے مینا کے کندھے کو سہلاتے ہوئے کہا، ’’پاپا کا فون آیا تھا۔ ‘‘
’’کیوں؟‘‘ مینا کا سوال ہوا میں لٹک گیا۔
کچھ لمحے راجیو اپنے الفاظ کو تولتا رہا، ’’بس وہی پرانی باتیں۔ ‘‘
’’تم نے کیا کہا؟‘‘
’’اس بار تو میں نے بھی انہیں خاموش کرا دیا۔ ‘‘
مینا اب اٹھ کر بیٹھ چکی تھی۔ بے چینی سے بھری ہلکی سی مسکراہٹ اس کے چہرے پر کھیل رہی تھی۔
’’پوری بات بتاؤ۔ ‘‘
’’ویسے بھی تمہارے سامنے تو ایسا فون نہیں کرتے، بعد میں ضرور طعنہ کسنے کیلئے فون کرتے ہیں۔ کہنے لگے کہ جانتے ہو شیر شکار کر کے لاتا ہے اور شیرنی بیٹھ کر کھاتی ہے۔ ‘‘
’’تم نے کیا کہا؟‘‘
’’میں نے کہا پاپا حقیقت تو اس سے الٹ ہے۔ شیرنی شکار کرتی ہے اور شیر اس پر حق جما لیتا ہے۔ شیر کو تو شیرنی میٹنگ کے بعد بھگا دیتی ہے۔ جھنڈ کے کناروں پر ہی شیر گھومتے نظر آتے ہیں اور جھنڈ کی سردار تو شیرنی ہوتی ہے۔ ‘‘
’’تو پھر؟‘‘
’’کچھ دیر کے بعد سمجھ آئی میری بات انہیں۔ کہنے لگے شیر میٹنگ کرتا ہے تو بچے ہوتے ہیں نا۔ ‘‘
مینا جھٹکے سے کھڑی ہو گئی، ’’ بڈھا کھوسٹ۔ اسے کوئی حق نہیں ہے تمہیں ایسا کہنے کا۔ ‘‘
راجیو مسکراتا ہوا مینا کا ری ایکشن دیکھ رہا تھا۔ مینا کا غصہ اب بھی ابل رہا تھا، ’’سارا بچپن سہے ہیں اس حرامی کے طعنے۔ اب تم پر بھی طعنے۔ میں برداشت نہیں کروں گی۔ ‘‘ راجیو اب بھی مینا کو دیکھ رہا تھا۔ مینا کی نظریں جیسے ہی راجیو سے ملیں تو وہ ایک دم خاموش ہو گئی۔
’’پھر آگے؟‘‘
’’میں نے کہا پاپا آپ نے تو چار بچے ممی کو باندھنے کیلئے پیدا کئے، میں بھی کیا ایسا ہی کروں؟‘‘
مینا کی مسکراہٹ اب ہنسی کو چھو رہی تھی، ’’اچھا کیا، کہاں سے آئی یہ ہمت؟‘‘
’’کب تک سنوں تمہارے باپ کی باتیں۔ کسی دن تو جواب دوں گا ہی۔ ‘‘
مینا نے جھٹکے سے راجیو کو دیکھا، ’’تمیز سے بات کرو، پاپا کو باپ کہہ رہے ہو۔ ‘‘
’’پر ابھی تو تم اسے بڈھا، حرامی اور نہ جانے کیا کیا کہہ رہی تھیں۔ ‘‘
’’میں جو چاہوں کہوں، میں نے سہا ہے سارا بچپن۔ میں نے دیکھا ہے ماں پر ظلم اور انہیں گھٹتے ہوئے۔ ماں کا جینا دوبھر کیا ہوا ہے ابھی تک، تم کیوں اپنے آپ کو گراتے ہو۔ جیسے ہو ویسے ہی بنے رہو۔ میں نے تو تمہاری سادگی اور شانتی سے محبت کی ہے۔ تم بدل جاؤ۔ تمہیں وہ شخص بدل دے۔ یہ میں برداشت نہیں کروں گی۔ ‘‘
’’اچھا اب پرانی باتیں مت دہراؤ، اٹھو نہاؤ دھوؤ، میں ناشتہ کی تیاری کرتا ہوں۔ ‘‘
مینا تھکی سی بستر سے اٹھی، قدموں کو گھسیٹتے ہوئے باتھ روم کی جانب چل دی۔ اس کا بڑبڑانا اب بھی چالو تھا۔
راجیو نہ جانے گزشتہ بیس برسوں میں کتنی بار مینا کے درد سے اچھی طرح سے واقف ہو چکا تھا۔ مینا کے والد ڈاکٹر تھے، معاشرے میں عزت تھی۔ لیکن باہر اور گھر کے اندر کی زندگی میں رات اور دن کا فرق تھا۔ مینا اور اس کے بھائی بہنوں نے ڈرا سہما بچپن جیا تھا۔ کینیڈا میں رہتے ہوئے بھی ماں کبھی بھی باپ کے سامنے نہ تو اپنی آواز اٹھا پائی اور نہ ہی اپنے حقوق کیلئے لڑ پائی۔ گھر میں پیسے کی کمی نہیں تھی، کمی تھی تو محبت کی۔ باپ کی محبت کی۔ گھر کی بات باہر نکلے اور سماج میں انگلیاں اٹھنے لگیں، اسی دباؤ نے ماں کو اندر ہی اندر گھٹتے رہنے پر مجبور کر دیا تھا۔ بلکہ جب بچے بڑے ہوئے تو ان کے منہ پر بھی ماں نے تالا لگا دیا۔ مینا نے بچپن سے ہی سوچ بنا لی تھی کہ وہ ماں جیسی زندگی نہیں جیے گی۔ مینا کو راجیو جیسا محبت اور احترام دینے والا ایسا جیون ساتھی ملا، جس نے مینا کی بچپن کی کڑواہٹوں کو اگر ختم نہیں کیا تھا تو بہت گہرا دبا ضرور دیا تھا۔ مینا نے بچپن میں جو تشدد سہے تھے، شاید یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ وہ بچے پیدا کرنا ہی نہیں چاہتی تھی۔
راجیو کی زندگی میں باپ بننے کی کمی ہمیشہ کھلتی۔ عمر بڑھتی جا رہی تھی اور مینا ٹس سے مس نہیں ہوتی تھی۔ مینا کے پاپا کی سمجھ سے باہر تھا کہ بیوی ماں بننے سے انکار کرے اور شوہر اس کی خواہش کا احترام کرے؟ اپنی مردانگی کی دھونس جمانے کے لیے اکثر کہتے۔ ’’عورت جب بھی تنگ کرے ایک بچہ پیدا کر دو۔ میں نے چار چار پیدا کر کے باندھ کے رکھ دیا۔ اب بول کے دکھائے۔ ‘‘
بہت فرق ہوتا ہے وقت اور ملک کا۔ کہاں ساٹھ کی دہائی کا ہندوستان اور کہاں اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے کا کینیڈا۔ وقت کے ساتھ ساتھ سوچ بھی تبدیل ہو جاتی ہے۔ لیکن مینا کے باپ کی سوچ نہیں بدلی تھی، ہندوستان میں رہتے ہوئے جیسا سلوک بیوی اور بچوں کے ساتھ کیا تھا، وہ یہاں آنے کے بعد بھی جاری رہا تھا۔
مینا اور راجیو کینیڈا میں پلے بڑھے اور بڑے ہوئے تھے۔ راجیو یونیورسٹی آف واٹر لو سے کمپیوٹر سائنس کا گریجویٹ اور مینا یارک یونیورسٹی کے اسکول آف بزنس کی گریجویٹ تھی۔ دونوں ہی تعلیم کے تسلیم شدہ ادارے ہیں، ان دنوں نوکری پانا کوئی مشکل نہ تھا۔ جب تک دونوں کی شادی ہوئی، دونوں ہی اپنی اپنی فیلڈ میں جم چکے تھے۔ نوے کی دہائی میں انٹرنیٹ کی آمد کے ساتھ ہی راجیو کا کیریئر بھی تیزی سے آگے بڑھنے لگا۔ مینا بھی اکاؤنٹنگ کے میدان میں کافی آگے نکل چکی تھی۔
پھر اچانک سن دو ہزار کے مارچ اور اپریل میں نیز ڈیک مارکیٹ میں آئی ٹی کے حصص گرنے شروع ہوئے تو بس گرتے چلے گئے۔ کچھ ہفتوں میں کمپیوٹر سے متعلق کمپنیاں بند ہونے لگیں۔ راجیو بھی اس کی زد میں آ گیا۔ راجیو ایک بار بیکار ہوا تو بیکار ہی رہا، کیونکہ جب تک مارکیٹ سدھری، اس وقت تک سافٹ ویئر کمپنیاں ہندوستان جا چکی تھیں اور ہارڈ ویئر کی چین بھی۔ راجیو کی پڑھائی کی اب کوئی قیمت نہیں تھی۔ اپنے دوستوں کی جانب دیکھتا تو اس کا دل اور بھی بجھ جاتا۔ کوئی ٹیکسی چلا رہا تھا، تو کوئی انشورنس ایجنٹ بن چکا تھا۔ وہ بھی سوچ رہا تھا کہ کیا کرے؟ مینا سے راجیو کا بجھا چہرہ نہیں دیکھا جاتا تھا اور پھر ایک دن مینا نے ایک تجویز پیش کی اور زندگی کے صدیوں پرانے اصول ہی بدل دیے۔
اُس دن رات کا کھانا کھانے کے بعد بھی دیر تک وہ ٹیبل پر ہی بیٹھے رہے تھے۔ راجیو پلیٹ میں بچے چاولوں کے کچھ دانوں کے ساتھ کھیل رہا تھا کہ مینا بولی، ’’یہ کہاں کا اصول ہے کہ گھر کے دونوں بڑے کام کریں؟ پہلے بھی تو ایک کام کرتا تھا اور دوسرا گھر سنبھالتا تھا۔ ‘‘
’’سنبھالتا نہیں، سنبھالتی تھی۔ ‘‘ راجیو نے اوپر دیکھے بغیر کہا۔ راجیو اکثر اپنی لاچاری پر جھنجھلا اٹھتا تھا۔ بیوی کی کمائی پر جینا اسے اچھا نہیں لگتا تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ مینا یہ بات صرف بوجھل وقت کو ہلکا کرنے کے لئے کہہ رہی ہے یا کوئی نئی بحث شروع کر رہی ہے۔
مینا پھر بولی، ’’جانتی ہوں اور یہی تو کہہ رہی ہوں، یہ تو وقت کے بنائے ہوئے قوانین ہیں کہ بیوی گھر بیٹھ کر بچوں کو پالے، گرہستی سنبھالے اور شوہر کمائے۔ آج کے وقت میں اس کا متضاد بھی تو ہو سکتا ہے۔ دیکھو راجیو، میری نوکری اتنی اچھی ہے اور اتنا تو کما ہی لیتی ہوں کہ تمہیں کوئی فکر ہونی ہی نہیں چاہئے۔ آرام سے گھر میں رہو۔ آج کے بعد تم گھریلو شوہر اور میں پیسہ کمانے والے بیوی۔ ‘‘یہ کہتے ہوئے مینا مسکرانے لگی۔
راجیو نے بھی ہنس کے ٹال دیا اور پلیٹیں اٹھا کر سنک میں رکھنے لگا۔
’’نا نا۔ ‘‘مینا ہنسی، ’’سنک میں نہیں، دھو کر ڈش واشر میں لگائیے جناب۔ ابھی سے آپ کا نیا کیریئر شروع ہو رہا ہے۔ ‘‘
راجیو نے پلیٹیں دھوئیں اور ڈش واشر میں لگا دیں۔
بعد میں ٹی وی دیکھتے ہوئے مینا راجیو کے پاس سرک آئی۔ گھٹنے سینے سے لگا کر راجیو کے سینے پر سر رکھتے ہوئے بولی، ’’میں مذاق نہیں کر رہی، سیریس ہوں۔ ‘‘
’’کس بات کے لئے۔ ‘‘ راجیو نہیں جانتا تھا کہ مینا کے دماغ میں کیا چل رہا ہے۔
’’یہی آج کے بعد تمہیں نوکری تلاش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ بس آج سے تم صرف میرے شوہر اور گھریلو شوہر ہو۔ یہی تمہاری نوکری اور یہی تمہاری پہچان ہے۔ ‘‘
’’کیا الٹا سیدھا بولے جا رہی ہو، ایسا ہوتا ہے کیا؟‘‘
’’کیوں نہیں ہو سکتا، معاشرہ ہی تو قوانین بناتا ہے اور معاشرے ٹوٹ بھی جاتے ہیں۔ نئی صدی ہے نیا قاعدہ۔ ‘‘
راجیو بحث میں نہیں پڑنا چاہتا تھا۔ نوکری نہ ملنے کا بوجھ، کون سا نیا کام کیا جائے اس کا بوجھ، پرانی ساکھ کی یادوں کا بوجھ۔ وہ تھک چکا تھا۔ بحث کرنے کی بھی ہمت کھو چکا تھا۔
اگلے دن صبح اٹھا اور نیچے کچن میں مینا کے آنے سے پہلے چائے اور ٹوسٹ بنانے لگ گیا، مینا سیڑھیاں اتری اور ڈائیننگ ٹیبل پر آ بیٹھی۔
’’دیکھا اس میں برا کیا ہے، ویسے بھی تو کام میں میرا ہاتھ بٹاتے ہی ہو۔ سچ پوچھو تو آج کل یہ سارے کام تو کر ہی رہے ہو۔ گھر کی صفائی رکھتے ہو، میرے گھر پہنچنے سے پہلے کھانا بنا کر رکھتے ہو۔ بس ہم اسے ایک نام ہی تو دے رہے ہیں۔ ‘‘
’’پر کام کی تلاش تو ہے، کیا تم بھی مجھے بیکار سمجھنے لگی ہو؟‘‘
’’بالکل نہیں، تمہارے دل پر جو بوجھ ہے اسے ہٹا رہی ہوں۔ ‘‘
’’پر تمہارے گھر والے کیا کہیں گے؟ پاپا تو ابھی سے کچھ نہ کچھ کہتے ہی رہتے ہیں۔ ‘‘
’’ان کی پرواہ نہ کرو، رہی پاپا کی بات، ان کے بارے میں تم جانتے ہی ہو۔ ان کا منہ بند کرنا مشکل ہے۔ بس ان کی بات سننا بند کر دو۔ ‘‘
راجیو نے تو نہیں، مینا نے اپنے پاپا کی بات سننی بند کر دی تھی۔ پاپا اکثر راجیو پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کرتے۔ پھر ایک دن مینا نے پاپا سے بات کرنی ہی بند کر دی۔ اب مینا کو جو کچھ بھی کہنا ہوتا وہ راجیو ہی ان تک پہنچتا۔
راجیو نے بات کو ٹالتے ہوئے کہا، ’’چلو تم ناشتا کرو، بتاؤ آج کیا پہن کے جا رہی ہو۔ نکال دیتا ہوں۔ ‘‘
’’کہتے ہیں آج گرمی ہونے والی ہے، ڈاؤن ٹاؤن میں ویسے بھی اُمس ہو جاتی ہے، کچھ بھی ہلکا سا نکال دو۔ ‘‘
راجیو نے نہ جانے کب سے یہ کام بھی سنبھال لیا تھا۔ مینا نے کب کیا پہننا ہے اس کے بارے میں مینا نہیں، راجیو سوچتا اور استری وغیرہ کر کے تیار رکھتا تھا۔
’’تم تو کہہ رہی تھیں، آج بورڈ کے سامنے تمہاری پریزنٹیشن ہے۔ ہلکا پہناوا ٹھیک لگے گا کیا؟ اسکرٹ اور بلاؤز نکال دیتا ہوں۔ ‘‘
’’گرمی میں مروں گی۔ ‘‘
’’نہیں، بوڑھوں کے سامنے بوڑھوں جیسے ہی کپڑے پہنو گی تو ہی تمہاری بات سنجیدگی سے سمجھیں گے، ایک عورت ان کی کمپنی کے مستقبل کے بارے میں بتائے۔ اول تو یہی ان سے ہضم نہیں ہوتا۔ ‘‘ راجیو کہہ تو صحیح رہا تھا۔ مغربی معاشرے میں بھی عورت ایک حد تک ہی اوپر جا سکتی ہے۔ اس کے بعد مرد ہی آگے بڑھتا ہے۔
مینا ناشتا کرنے لگی اور راجیو مینا کے لباس کی تیاری کرنے میں مصروف ہو گیا۔ بغیر کچھ کہے کتنی آسانی سے راجیو نے زندگی سے سمج ھوتہ کر لیا تھا۔
جب تک مینا نے ناشتا ختم کیا، اس کے کپڑے تیار تھے۔
راجیو نے گھڑی دیکھی، ساڑھے سات بج رہے تھے۔
اس نے دھیرے سے کہا، ’’ٹھیک وقت ہے۔ ‘‘ پھر کچن کی دیوار پر لگے وال کلاک کی طرف دیکھ کر اسے اطمینان ہوا کہ یہ ڈیجیٹل نہیں ہے۔
***
یقین
ڈاکٹر مینا اگروال
’’کیوں سمیتا اس کرموں ماری کُنتی ماں پر اس بڑھاپے میں کیا بھوت سوار ہوا کہ کتے والے پاپا جیسے بڈھے سے محبت کر بیٹھی۔ ‘‘ رمولا نے آتے ہی بات چیت کا سلسلہ شروع کر دیا۔ رمولا کا مزاج ہی کچھ ایسا ہے کہ وہ اِدھر اُدھر کی باتوں میں زیادہ دلچسپی لیتی ہے۔
کالونی کی کس لڑکی کی محبت کس سے چل رہی ہے؟
کس نوجوان نے کس لڑکی سے چکر چلا رکھا ہے؟
کون کس کے ساتھ فرار ہو گئی شہر سے؟
وہ شہر میں آئے دن ہونے والے ایسے واقعات کو ڈھونڈ کر لاتی ہے اور دیر تک بیٹھی ان پر تبصرے کرتی رہتی ہے۔ رمولا ایک نرس ہے اور شام کو جب اس کی چھٹی کا وقت ہوتا ہے اور کیونکہ میرا گھر اس کے گھر کے راستے میں پڑتا تو اس وجہ سے وہ اکثر یہاں آ جاتی ہے۔
میں نے اس کی بات سنی تو جواب دیتے ہوئے بولی، ’’تم اس بات کو یوں بھی تو کہہ سکتی ہو رمولا کہ اس کتے والے پاپا کو اس بڑھاپے میں کیا سوجھی کہ کنتی ماں جیسی بوڑھی عورت کو دل دے بیٹھا۔ ‘‘
’’ ہاں یوں بھی کہا جا سکتا ہے۔ ‘‘ رمولا ایک چنچل مسکان ہونٹوں پر لاتی ہوئی بولی، ’’ ناک کو سیدھے پکڑو یا ہاتھ گھما کر۔ بات تو ایک ہی ہے۔ ‘‘
گزشتہ ایک ہفتے سے کالونی کے لوگ اس واقعے پر حیرت کا اظہار کر رہے تھے کہ ستر سال کی بڑھیا شکنتلا اپنا گھر بار چھوڑ کر مائیکل جوزف کے یہاں جا کر رہنے لگی تھی۔ مائیکل جوزف کی عمر بھی۷۵ سال سے کم نہیں تھی۔ اس نے ایک نہیں، دو نہیں، پورے تین تین باڈی بلڈروں جیسے کتے پال رکھے تھے۔ لہذا کالونی کے لوگ اسے کتے والے پاپا کے نام سے پکارنے لگے تھے۔ جب بھی وہ اپنے تینوں کتوں کی زنجیر تھامے گھر سے باہر نکلتا، لوگ حیرت سے اس کی طرف دیکھنے لگتے۔
شکنتلا ماں ابھی کچھ سال پہلے تک وومن سوسائٹی کی صدر تھی۔ اسے اپنی سرکاری نوکری سے زیادہ سماجی خدمت کے کاموں میں دلچسپی تھی۔ ستر سال کی عمر پر پہنچ گئی تھی۔ اسی لئے کالونی اور شہر کے تمام جان پہچان کے لوگ اسے کُنتی ماں کہہ کر پکارنے لگے تھے۔ وہ اکیلی اور بے اولاد تھی۔ جب وہ اپنے بڑے سارے گھر کو چھوڑ کر کتے والے پاپا کے یہاں چلی آئی تو اس واقعہ کو لے کر لوگوں میں طرح طرح کی باتیں ہونے لگیں۔ کوئی کچھ کہتا، کوئی کچھ۔ جتنے منہ، اتنی ہی باتیں تھیں۔
میں نے واقعے میں شامل دونوں فریقوں کے پس منظر پر نظر ڈالتے ہوئے سوچا، ’’ہے واقعی عجیب بات؟‘‘
تبھی رمولا کی آواز میرے کانوں میں آئی، ’’کیوں سمیتا کیا ۷۵ سال کی عمر میں بھی محبت کا جوش باقی رہ جاتا ہے؟ دولہا دولہن دونوں کے بال بگلوں جیسے سفید، دونوں کے چہروں پر جھریاں پڑی ہوئیں۔ نہ منہ میں دانت، نہ پیٹ میں آنت۔ ایسے میں چلے ہیں محبت کرنے۔ مت ماری گئی ہے کیا دونوں کی؟‘‘
رمولا اپنی بات کہہ چکی تو میں نے اس بحث کو ہنسی میں ٹالنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا، ’’پرانے زمانے کے لوگ جو کہہ گئے ہیں رمولا کہ عشق نہ جانے جات کُجات۔ اب تم اس میں ایک مصرعے کا اضافہ اور کر لو۔ اب اس کہاوت کو وقت کے مطابق ڈھال کر اس طرح کہو کہ عشق نہ جانے جات کُجات۔ پریم نہ جانے بوڑھا گات۔ ‘‘
رمولا نے یہ سنا تو ٹھٹھا مار کر ہنسی، ’’بات تو تم نے سچ کہی ہے سمیتا۔ یہ زمانہ ہی بے شرمی کا ہے؟ نہ عورتوں کی آنکھ میں لاج ہے، نہ مردوں میں کوئی لحاظ۔ ‘‘
رمولا ابھی اپنی بات پوری بھی نہیں کر پائی تھی کہ میں نے اسے درمیان میں ٹوکتے ہوئے کہا، ’’پر سنا ہے کُنتی ماں، کتے والے پاپا کی خدمت دل و جان سے کر رہی ہے دن رات۔ دیوتا کی طرح پوج رہی ہے اس کو۔ ہر کام بیٹھے بیٹھے ہو رہا ہے بڑے میاں کا۔ چلو جوانی میں بے پناہ دکھ جھیلے تھے کتا والے پاپا نے، بڑھاپے میں اسی بہانے کچھ آرام تو ملا۔ ‘‘
’’ یہ تو تم ٹھیک کہہ رہی ہو سمیتا۔ ‘‘ رمولا میرے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی، ’’ پر کتے والے پاپا کو تو مفت میں گھر بیٹھے ایک کام والی مل گئی۔ سوال یہ ہے کہ کُنتی ماں کو اس سے کیا ملا؟ دن رات مصروف رہتی ہے، بوڑھے کی خدمت میں۔ نہ معاشرے کی فکر، نہ مذہب کا خیال۔ ‘‘
میں نے محسوس کیا کہ رمولا موضوع کو مذہبی تعصب کی طرف موڑنے کی کوشش کر رہی ہے، میں نے ٹوکا، ’’انسانی خدمت کیلئے کسی مذہب کے ساتھ بندھے رہنے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے رمولا اور جہاں تک سوال ملنے کا ہے، مانا کے کُنتی ماں کو پیسوں کے روپ میں کچھ حاصل نہیں ہوا ہے پر خدمت کا اپنے آپ ایک الگ ہی مزہ ہے۔ ‘‘
’’خاک پڑے ایسے مزے پر۔ ‘‘ رمولا چڑ کر بولی، ’’موت کے کنویں میں پاؤں لٹکائے بیٹھے ہیں اور چلے ہیں محبت کرنے؟ اب کوئی اولاد تو ہونے سے رہی، اس بے اولاد جوڑے کے۔ ‘‘
’’تم بیکار کی بات کہہ رہی ہو رمولا۔ ‘‘ میں نے اس کی سوچوں کی سمت تبدیل کرنے کی کوشش کی، ’’محبت ہمیشہ جسمانی ہی نہیں ہوتی، کئی بار روحانی بھی ہوتی ہے بہن۔ ‘‘
مجھے لگا جیسے رمولا میری بات سن کر حیران سی ہو گئی۔ میں نے اسے سنجیدگی سے سمجھاتے ہوئے کہا، ’’کئی بار ہم لوگ کسی واقعے کو اس کی پوری گہرائی کے ساتھ نہیں سمجھتے ہیں۔ اس لیے طرح طرح کے وہموں میں پڑ جاتے ہیں۔ جبکہ حقیقت کئی بار کچھ اور ہی ہوتی ہے۔ ‘‘
رمولا نے میری نصیحت پر کوئی خاص توجہ نہیں دی اور بولی، ’’حقیقت کچھ اور نہیں ہے سمیتا بہن۔ بس اتنی ہے کہ ایک ستر سال کی بڑھیا اپنے سے زیادہ بڈھے شخص کو دل دے بیٹھی اور اس سے تعلقات قائم کر لئے۔ ‘‘
’’ میں تمہاری بات سے متفق نہیں ہوں رمولا۔ ‘‘ میں نے ایک بار پھر اسے قائل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا، ’’اس کا فیصلہ اتنی جلدی نہیں کیا جانا چاہئے، ان حالات کو بھی دیکھا جانا چاہئے، جس کی وجہ سے کوئی شخص کوئی ایسا قدم اٹھائیے، جو ہماری تمہاری رائے میں اسے نہیں اٹھانا چاہئے تھا۔ ‘‘
’’ تم کیا تم جانتی ہو، وہ حالات کیا تھے، جن کی وجہ سے کُنتی ماں نے اپنا گھر چھوڑ کرکتے والے پاپا کا ہاتھ تھامنا پسند کیا۔ ‘‘ رمولا نے مجھ سے پوچھا۔
’’میں زیادہ نہیں جانتی پر کل پنٹو کے دادا، کتے والے پاپا کا حوالہ دیتے ہوئے کہہ رہے تھے۔ ‘‘ میں نے رمولا سے گود میں سو تے ہوئے پنٹو کی پیٹھ سہلاتے ہوئے کہا، ’’وہ کہہ رہے تھے مائیکل جوزف کی بیوی روزی جوزف ایک سڑک حادثے میں جوانی میں ہی مر گئی تھی۔ تب ان کی تین اولادیں تھیں۔ تین بیٹے اسٹیفن، سائمن اور کرسٹوفر۔ ‘‘
’’پر سمیتا بہن یہ نام تو ان کے پالتو کتوں کے ہیں۔ ‘‘ رمولا نے مجھے درمیان ہی میں ٹوکتے ہوئے اپنی حیرت کا اظہار کیا۔
’’ ہاں میں جانتی ہوں، مائیکل جوزف نے یہی نام اپنے کتوں کے بھی رکھے ہیں پر کیوں؟ تو آگے کا قصہ سنو۔ ‘‘ میں نے رمولا کی حیرت کو دور کرنے کی کوشش کی اور اپنی بات آگے بڑھائی، ’’ بیوی کی موت کے بعد مائیکل جوزف نے دوسری شادی نہیں کی۔ وہ بیوی کی ان تینوں نشانیوں کو سینے سے لگا کر بیٹھ گیا۔ انہیں پالا پوسا، پڑھایا، لکھایا۔ ‘‘
میں نے کتے والے پاپا کی کہانی کو یہیں چھوڑ کر رمولا سے پوچھا، ’’کیوں بہن جس شخص نے جوانی میں بچوں کی خاطر دوسری شادی نہ کی ہو، وہ اب موت کی کگر پر آ کر ایسا کیوں کر رہا ہے؟‘‘
’’ ہاں یہ بات تو سوچنے کی ہے سمیتا؟‘‘ رمولا نے اپنی غلط سوچ کی مخالفت میں حقیقت ظاہر ہوتے دیکھی تو استفہامیہ لہجے میں مجھ سے پوچھا، ’’پھر وہ تینوں بیٹے کہاں گئے مائیکل جوزف کے؟ کیا وہ بھی مر گئے؟ مائیکل جوزف نے ان کے ناموں پر اپنے کتوں کے نام کیوں رکھے۔ ‘‘
میں نے محسوس کیا کہ رمولا کے لہجے میں ایک ساتھ سب کچھ جاننے کی بے چینی تھی۔
میں نے اسے بتایا، ’’میں بھی اس بارے میں بہت زیادہ نہیں جانتی ہوں رمولا، پر پنٹو کے دادا نے جو کچھ بتایا تھا، وہی دوہرا رہی ہوں۔ انہوں نے بتایا تھا کہ جب مائیکل جوزف کی بیوی کا انتقال ہوا تو اسٹیفن آٹھ سال، سائمن پانچ سال اور کرسٹوفر تین سال کا تھا۔ تم سمجھ سکتی ہو رمولا کہ اتنی عمر والے بچوں کو پالنے پوسنے میں کتنی تکلیفیں اٹھانا پڑی ہوں گی بوڑھے جوزف کو۔ ‘‘
’’ ہاں تم ٹھیک کہتی ہو سمیتا۔ پر جوزف نے اسی وقت شادی کیوں نہیں کر لی تھی؟‘‘ رمولا نے ایک سادہ سا سوال پوچھا۔
’’ شاید اسے یہ خوف رہا ہو گا کہ اسٹیپ مدر کہیں ان بچوں کے ساتھ سوتیلا برتاؤ نہ کرے۔ ان کے ساتھ نا انصافی نہ ہو۔ جوزف کے اس احساس کو سمجھنا مشکل نہیں ہے رمولا۔ ‘‘
’’لیکن مرد عام طور پر تو ایسا نہیں کر پاتے۔ ‘‘ رمولا یہ کہتے ہوئے حیرت سے بھر گئی تھی۔
’’ ہاں میں بھی یہی سمجھتی ہوں۔ ‘‘ میں نے جواب دیتے ہوئے کہا، ’’ میں سمجھتی ہوں جوزف عام مردوں جیسا نہیں تھا۔ اس نے بچوں کیلئے اپنی پوری جوانی داؤ پر لگا دی تھی۔ ‘‘
میں نے اپنی بات جاری رکھی، ’’پنٹو کے دادا بتا رہے تھے کہ بچوں کے نوجوان ہونے تک جوزف نے نہ دن کو دن سمجھا، نہ رات کو رات۔ اس نے ماں اور باپ دونوں کا فرض نبھایا۔ انہیں ماں کی ممتا بھی دی اور باپ کا دلار بھی۔ ‘‘
’’پر وہ تینوں گئے کہاں؟بوڑھے مائیکل جوزف کے ساتھ تو نہیں رہ رہے ہیں وہ۔ ‘‘ رمولا نے کریدا۔
’’ اچھی ملازمتوں پر لگ گئے تینوں۔ ان میں سے ایک ان دنوں رانچی میں ہے، دوسرا کلکتہ میں اور تیسرا گوہاٹی میں۔ ‘‘
’’کیا بوڑھے باپ کی ان میں سے کوئی خبر نہیں لیتا ہے؟‘‘ رمولا نے تجسس سے بھرا ہوا ایک اور سوال کیا۔
’’ پنٹو کے دادا بتا رہے تھے کہ۔ ‘‘ میں اپنی دھن میں کہتی گئی، ’’تینوں نے باری باری لو میرج کر کے اپنا اپنا گھر بسا لیا اور بوڑھے باپ کو یوں بھول گئے، جیسے اس نے کبھی ان کے ساتھ کچھ کیا ہی نہ ہو۔ ‘‘
’’افوہ اتنی بڑی قربانی دینے والے باپ کے ساتھ بیٹوں کا ایسا برتاؤ؟‘‘ رمولا کے منہ سے تاسف میں نکلا۔
میں نے اس کی بات سنی اور بوڑھے جوزف کی زندگی کی کہانی کو اور آگے بڑھایا، ’’تینوں بیٹے منہ موڑ گئے اور بوڑھا جوزف جب ان کی طرف سے بالکل مایوس ہو گیا تو اس نے مایوس ہو کر تین کتے پال لئے۔ ‘‘
’’آدمی جب انسانوں کی طرف سے مایوس ہو جاتا ہے تو شاید وہ جانوروں پرندوں کی طرف ہی متوجہ ہونے لگتا ہے۔ ‘‘ میں نے پنٹو کے دادا سے سنی کہانی کو ایک لمحے کیلئے بھول کر جوزف کے واقعے پر ایک نفسیاتی تبصرہ کیا۔
’’ ہاں ہو سکتا ہے ایسا ہی ہو۔ ‘‘ رمولا نے مجھ سے تھوڑا اتفاق کرتے ہوئے کہا۔
’’ پنٹو کے دادا بتا رہے تھے۔ ‘‘ میں لوٹ کر دوبارہ اپنے سسر کے بیان پر آ گئی، ’’جوزف نے پتہ نہیں کس خیال کے تابع ہو کر ان کتوں کے نام بھی اپنے بیٹوں کے نام پر اسٹیفن، سائمن اور کرسٹوفر ہی رکھے۔ وہ ان سے اتنا ہی پیار کرتا ہے جیسا کوئی اپنی اولاد سے کرتا ہے۔ ‘‘
’’شاید یہ سب اپنی مایوسی کو ختم کرنے کی وجہ سے ہی کیا ہو گا مائیکل جوزف نے۔ ‘‘ رمولا حقیقت کو سمجھتے ہوئے بولی۔
میں نے اپنا بیان آگے بڑھایا، ’’ پنٹو کے دادا بتا رہے تھے کہ مائیکل جوزف اب ان کتوں کو ہر وقت اپنے ساتھ رکھتا ہے۔ اپنے ساتھ ہی بیٹھا کر کھلاتا پلاتا ہے، دوپہر کے کھانے پر بھی اور ڈنر پر بھی۔ کتوں سے اسے وہ پیار مل رہا تھا جو بیٹوں سے ملنا چاہیے تھا۔ ‘‘
’’انسانیت سے مایوس ہو جانے کا بہت ہی دردناک واقعہ ہے یہ۔ ‘‘ رمولا نے جوزف کے ماضی سے واقف ہو کر کہا۔
’’ ہاں۔ ‘‘ میں نے جواب دیا اور جوزف کی کہانی کو آگے بڑھایا، ’’پر گزشتہ دنوں جب جوزف کو ٹائیفائیڈ ہو گیا تو اس کے پالتو کتے، جوزف کی کوئی مدد نہیں کر سکے۔ وہ نہ دوا لا سکتے تھے، نہ ڈاکٹر کو بلا سکتے تھے۔ تینوں اداس اداس سے جوزف کے سرہانے بیٹھے رہتے، بھوکے پیاسے۔ وہ محبت تو کر سکتے تھے اپنے مالک سے، پر بیماری میں دیکھ بھال نہیں کر سکتے تھے۔ ‘‘
ابھی میری بات پوری نہیں ہوئی تھی کہ رمولا نے بیچ میں مداخلت کرتے ہوئے کہا، ’’اسی قابل رحم حالت میں بوڑھی ماں کُنتی آ گئی ہو گی بیمار اور بوڑھے جوزف کے پاس۔ ‘‘
’’جی ہاں بلاشبہ ایسا ہی ہوا ہو گا۔ ‘‘ میں نے رمولا کی بات کی حمایت کی۔ تبھی دروازے پر آہٹ ہوئی۔ دیکھا جوزف کے پڑوس میں رہنے والی کم کم سست چال سے چلی آ رہی تھی۔ میں نے اس کا استقبال کرتے ہوئے بیٹھنے کیلئے کہا۔
کم کم کرسی پر بیٹھتی ہوئی بولی، ’’جوزف نے صحت مند ہوتے ہی اپنے کتوں کو فروخت کر دیا۔ لیکن ان کے نام واپس لے لئے۔ اب وہ کُنتی ماں کے ساتھ خوش ہے۔ ‘‘
میں نے سنا تو میرے منہ سے نکلا، ’’شاید اب انسانیت پر اس کا اعتماد لوٹ آیا ہے۔ ‘‘
کسی نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔ اب ہم تینوں کسی دوسرے موضوع پر گفتگو کرنے لگے۔
***
گڑیا
ڈاکٹر مدھو سندھو
گڑیا نے اندر آتے ہی اپنے ڈر اور، الماریوں کے خانوں، تمام شیلفوں، دبے ڈھکے کونوں میں اپنی چیزیں تلاش کرنا شروع کر دیں۔ اسے سب یاد رہتا ہے۔ زپ والے پنسل باکس میں اس نے چند سکے محفوظ کئے ہوئے ہیں۔ حالانکہ ان کی اہمیت کا اس کو کوئی اندازہ نہیں۔ اس کے لئے اہم ہے وہ رنگ برنگی مٹی کے ٹھپے، جن سے وہ مختلف شکلیں بناتی ہے۔ ایک خوبصورت پھول، اس کی ٹہنیاں اور سات رنگوں والا قوس و قزح۔ اس کے لئے اہم وہ گاڑی، جسے وہ لابی میں جھوم جھوم کر چلاتی ہے اور الٹا کر کے اس کے پہیوں کو گھماتے ہوئے جوس بنانے کا کھیل بھی کھیلتی ہے یا اس گاڑی کے آگے پیچھے کرسیاں وغیرہ رکھ ٹرین گاڑی بناتی ہے۔ اور دوپٹے سے کھیلنے کا تو مزہ ہی کچھ اور ہے۔ گڑیا ا سکارف گلے میں ڈال کر بڑے رکھ رکھاؤ سے میری طرف دیکھ کر مودبانہ طریقے سے کہتی ہے، ’’کہو نا، اچھی لگ رہی ہو نا۔ ‘‘
گڑیا کی میٹھی میٹھی باتیں دل کو گدگداتی ہیں۔ اس کی کھلکھلاہٹ گھر کو جگمگ کر دیتی ہے۔ اس کے وجود سے گھر بھرا بھرا سا لگتا ہے، قوس و قزح کے ساتوں رنگ اس کی کلکاریوں میں دمکتے رہتے ہیں۔ اس کے آنے کی خبر کسی تہوار کی طرح ہوتی ہے۔
اسکے ہر ٹیڈی کا الگ نام ہے، موٹو، پنکو، چھوٹو، بھولو، سب اس کے دوست ہیں۔ پر اسے موٹو پر کچھ زیادہ ہی غصہ آتا ہے۔ موم موٹو نے پنکو کو مارا ہے۔ پھر ڈانٹے گی سمجھائے گی، ’’ موٹو! پنکو کو نہیں مارنا ہے ‘‘ اگلے ہی لمحے موٹو کا ہاتھ پکڑ کر پھر پنکو کو لگا دے گی اور کہے گی، ’’ موم موٹو نے پھر پنکو کو تنگ کیا ہے۔ اسے دو ہاتھ مارنے ہی پڑیں گے۔ ‘‘
گڑیا کی ڈھیروں ڈیمانڈیں رہتی ہیں، مجھے مٹی چاہئے، سونف چاہئے، ڈرائنگ بک چاہئے، واٹر کلرز چاہئے، آئس کریم چاہئے، موتی چور کا لڈو چاہئے، میٹھی میٹھی گولیاں چاہئیں، گیم چاہئے، وہ اسٹیکرز چاہئے، یہ کلر پنسل باکس چاہئے۔ پر جب اسکول جانے کا وقت آتا ہے تو روتے روتے بے حال ہو جاتی ہے۔ تب اسے کچھ نہیں چاہئے، صرف مما چاہئے۔
الہ دین کے جن کی طرح اسے ہر وقت کوئی کام چاہئے، نہیں ہو گا تو وہ سب کچھ ہلا دے گی، تہس نہس کر دے گی۔
گڑیا کے نہانے کے لئے عرق گلاب کی بوتل کھولتے کھولتے چاقو ذرا سا میری انگلی میں لگ گیا۔ خون کی سرخ بوند دیکھ ننھی جان ٹھٹھک گئی، گھبرا گئی اور تب تک گم سم اور بھونچکی سی بیٹھی رہی، جب تک میں نے بینڈیج نہیں لگا لی۔
ڈھائی سال کی گڑیا کی آواز کافی صاف ہے۔ ویسے تو وہ مجھے یعنی نانی کو موم کہتی ہے، پر کبھی شرارت یا محبت سے ’’انو کی مما‘‘ کہہ کر زور سے آواز دینے لگتی ہے . (انو اس مما کا نام ہے ) گویا گویا وہ بتا رہی ہو کہ وہ سب جانتی ہے۔ وہ جب بھی آتی ہے، اس کی مسکراہٹ سے اندر کی خوشی چھلکا کرتی ہے۔ اس دن میں نے پوچھا۔
’’ننھی! آپ دادی جی کو بائے کر کے آئے ہو۔ ‘‘
’’ ہاں! دادی جی کہتی تھیں ہمارے پاس رک جاؤ۔ ‘‘
’’تو آپ نے کیا کہا؟‘‘
’’میں نے کہا نہیں میں موم سے ملنے جا رہی ہوں۔ ‘‘ مغروریت کی چمک ننھے چہرے پر جگمگانے لگی۔
بے بی چینل دیکھتے دیکھتے کئی بار گڑیا جھومنے لگتی ہے۔ کبھی ہنسنا اور کبھی ڈانس کرنے لگتی ہے اور کبھی وہ ’’پلے پین ’’ کو دیکھ کر حیرت زدہ ہو کر کہتی ہے۔ ’’ موم، لونگ نیک والا زراف، لونگ نوز والا ایلی فینٹ۔ ‘‘۔ ’’پلے پین۔ ‘‘ میں اس کو سب سے پہلے رنگ اور سائز بتائے گئے اور پھر رنگ اور سائز ہی اہم ہو گئے۔ ایک ایک پھول کو دیکھ کر وہ کہتی۔ پنک، وائٹ، سرخ، جامنی. جو بھی ’’پلے پین‘‘ میں کروایا جاتا ہے، اس کے دماغ میں چھایا رہتا ہے۔ اس دن برسات میں پورچ میں کھیل رہی تھی۔ باغیچے میں تین چار لکڑیاں کو عجیب انداز میں پڑے دیکھا تو جھٹ سے بولی، ’’موم چار بن گیا۔ ‘‘
اسے یاد ہے میم نے کہا تھا ڈرائینگ کرتے وقت اندر اندر رنگ بھرنے ہیں۔ پر اندر اندر بولتے۔ گنگناتے، رنگ بھرتے بھرتے پتہ نہیں کیا ہو جاتا ہے کہ وہ پورے صفحے پر ماڈرن آرٹ کی سی لائنیں بنا دیتی ہے۔
گڑیا کو ہندی انگریزی کی، ’’پلے پین‘‘ اور گھر میں یاد کرائی گئی بے شمار تو پویمز آتی ہیں۔ ایک سے بیس تک گنتی روانی سے بولتی ہے۔ اے بی سی ڈی پوری آتی ہے۔ کبھی لے میں بولے گی، کبھی فٹا فٹ اور کبھی آنکھیں نیچی کر کے شرمانا شروع کر دے گی۔
ہر کمرے میں، پورچ میں، ، لابی میں، باغیچے میں اس کا دل لگ جاتا ہے۔ ’’کوئی ٹیڈی کھلونا چاہئے، سنڈے منڈے ‘‘ بولتے وقت وہ ایک خاص اونچی اور بھاری آواز نکالتی ہے۔ شاید اسکول میں ایسا ہوتا ہو گا۔
اسے کھانا کھلانا، پڑھانا اور سلانا بہت مشکل ہے۔ پہلے پوچھنا پڑتا ہے، ’’ بے بی کیا کھاؤ گی۔ ‘‘اس کی پسند کی چیز بنی تو ٹھیک، ورنہ اس کی طرف دیکھتی بھی نہیں۔ جب پڑھانے کا من ہوا وہ میم بن جاتی ہے۔ تب اس کے علم کے سامنے شکست ماننی ہو پڑتی ہے۔
’’یہ کیا لکھا ہے؟‘‘ جیسے جملوں کے ساتھ ڈانٹ کھانی ہی پڑتی ہے اور نیند کے لئے مما کی پیاری پیاری، گدگدی بھری باتیں اور تھپتھپانا اس کے لئے لازمی ہوتا ہے۔
گڑیا کو بڑی میز چاہئے میم جیسا۔ چھوٹی چھوٹی میز اسے پسند نہیں۔ اسے معلوم ہے کہ وہ پنکو، موٹو، چھوٹو اور بھولو کی میم ہے۔ وہ چھوٹو کے ہاتھ سے پینسل لگا کر اسے پکڑے اور ڈانٹے گی، ’’ چلو اب لکھو ون ٹو، ون ٹو، ون ٹو۔ شرارتیں نہیں کرتے۔ میم ناراض ہو گی۔ میم سب سے پیچھے بٹھا دے گی۔ ‘‘
گڑیا کے پاس ایک ڈانسنگ ڈول ہے۔ اس کے ہاتھ میں مائیک ہے۔ وہ ڈانس کے ساتھ ساتھ میوزک کی لے پر گانا گاتی ہے۔ ہاتھ اوپر نیچے کرتی ہے اور گڑیا بھی ویسے ہی ڈانس کی حالت میں آ جاتی ہے۔ گڑیا کے پاس ٹاکنگ ٹام ہے۔ ْ آن آف کرنا سیکھ گئی ہے۔ اس سے باتیں کر کے اسے خوب مزا آتا ہے۔ ریموٹ والی گاڑی کا تو مزہ ہی الگ ہے۔ موبائل پکڑ کر گڑیا گھوم گھوم کر بولتی رہتی ہے اور پاس بیٹھے خالہ زاد بھائی کو دھمکانے کا موقع بھی نہیں گنواتی، ’’پاپا! آپ کب آ رہے ہو پاپا دیو شرارتیں کر رہا ہے۔ پاپا موٹو کھانا نہیں کھاتا۔ ‘‘
گڑیا کو بخار آ رہا ہے۔ پیٹ میں درد بھی ہے۔ ڈاکٹر انکل نے دودھ تک بند کر دیا ہے او آر ایس، دال کا پانی، پنیر کا پانی۔ پتا نہیں کیسی کیسی بد ذائقہ چیزوں کے لئے کہا ہے۔ پر گڑیا یہ سب نہیں لے گی. وہ بڑبڑاتی رہتی ہے، ڈاکٹر انکل نے کہا ہے دودھ پینا ہے۔ ڈاکٹر انکل نے کہا ہے آم کھانا ہے۔ جن جن چیزوں پر گڑیا کا من ہوتا ہے، ان کے ساتھ ڈاکٹر انکل شامل دیتی ہے ’’ یہ لو چاکلیٹ‘‘ آگے آیا ہاتھ گڑیا واپس کر
لے گی ’’اس سے دانت خراب ہوتے ہیں۔ ‘‘ یہ جملہ اس کے دماغ میں ہی نہیں۔ ہونٹوں پر بھی رچا بسا ہے۔ پر تھوڑی دیر بعد دیکھو تو اس کا منہ چاکلیٹ سے بھر جائے گا۔
یہی وہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جن کی مدد سے ہفتے کے چھ دن اس کے انتظار میں نکل ہی جاتے ہیں۔
٭٭٭
تشکر:مترجم جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل:اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں