فہرست مضامین
ہندو شعراء کی عقیدتیں
جمع و ترتیب: ارشد خالد، اعجاز عبید
ادب سیتا پوری
نظر نظر میں جو کعبے بنا دیئے تم نے
حسینؑ کونسے جلوے دکھا دیئے تم نے
چمک سے جن کی منور ہے آج تک اسلام
چراغ ایسے بہتّر جلا دیئے تم نے
حسینؑ چشمِ عنایت ذرا ادبؔ پر بھی
نہ جانے کتنے مقدر بنا دیئے تم نے
٭٭٭
ادیب لکھنویؔ
سلامی مدحتِ شہ میں بڑی تاثیر ہوتی ہے
یہاں توقیر ہوتی ہے، وہاں توقیر ہوتی ہے
چراغ، رہنمائے راہِ حق بنتا ہے ہر ذرہ
شہیدوں کی لحد کی خاک پر تنویر ہوتی ہے
فنا ان کے لئے کیسی جو حق پر جان دیتے ہیں
کہ ان کے خون سے دنیا نئی تعمیر ہوتی ہے
ادیبؔ اکثر مناظر کربلا کے دیکھ لیتا ہوں
نجات آخرت اس خواب کی تعبیر ہوتی ہے
٭٭٭
راجا الفت رائے
ماتمِ شبیرؑ کا د ل پر اثر پیدا ہوا
اے سلامی نخلِ ماتم میں ثمر پیدا ہوا
جب علیؑ سا بازوئے خیر البشر پیدا ہوا
اے سلامی دشمنوں کے دل میں ڈر پیدا ہوا
جب کہ آئی شمر کی صورت سکینہؑ کو نظر
دیکھتے ہی دل میں اس بچی کے ڈر پیدا ہوا
یارو سینچو اشک سے نخلِ غمِ شبیرؑ کو
روزِ محشر دیکھ لینا کیا ثمر پیدا ہوا
مثلِ طاعت فرض ہے سب پر غمِ سبط نبیؐ
کیونکہ اس ماتم میں رونے کو بشر پیدا ہوا
جب لکھا میں نے سلام الفتؔ گلستاں بن گیا
برگِ لفظ اور بارِ معنی سے شجر پیدا ہوا
٭٭٭
گوپی ناتھ امنؔ لکھنوی
غمِ حسینؑ میں جو آنکھ تر نہیں ہوتی
اسے نصیب حقیقی نظر نہیں ہوتی
جھکا سے نہ کبھی سر جو ما سوا کے لئے
ہے سر بلند اسے فکرِ سر نہیں ہوتی
ہوئے نہ ہوتے جو شبیرؑ کربلا میں شہید
نظر زمانے کی اسلام پر نہیں ہوتی
کبھی کبھی نظر آتی ہے فتح باطل کی
خدا گواہ کہ وہ معتبر نہیں ہوتی
غمِ حسینؑ نہ ہوتا جو امنؔ کے دل میں
غمِ زمانہ سے اس کو مفر نہیں ہوتی
٭٭٭
سادھو رام آرزوؔ
اللہ رے یہ شان یہ رتبا حسینؑ کا
خود صانعِ ازل بھی ہے شیدا حسینؑ کا
سر دے کے سر پہ لے لیا بارِ تمام دیں
یہ حوصلہ، یہ دل، یہ کلیجہ حسینؑ کا
اے آرزوؔ ازل سے ہوں تقدیر کا دھنی
بندہ ہوں مرتضیٰؑ کا، میں بردا حسینؑ کا
٭٭٭
پروفیسر جگن ناتھ آزادؔ
لُو چل رہی ہے نام کو سایہ کہیں نہیں
حدّت وہ ہے کہ وقت کی سانسیں ہیں آتشیں
آنکھیں اُٹھا کے دیکھ ذرا اے د ل حزیں
گردوں تنور ہے کرۂ نار ہے زمیں
اک شعلہ زار ہے کہ ہے میدانِ کربلا
اک آگ ہے کہ ریگِ بیا بانِ کربلا
۔۔۔
وہ سامنے غنیم کی فوجیں ہیں دجلہ پار
ہیں اس طرف اکیلے حسینؑ اسپ پہ سوار
دامن پہ ہے غبار گریباں ہے تار تار
کانٹوں پہ جیسے پھول ہو، یوں ہے وہ نامدار
آزادؔ! نوکِ خار کی زد پر ہے پھول دیکھ
ہاں دیکھ! اِ نقلابِ جہاں کا اصول دیکھ
٭٭٭
راجیندر نرائن سکسینہ بسملؔ
یہ عشرہ یہ ماہِ محرم کے دن
بظاہر تو ہے سوگ و ماتم کے دن
مگر ان میں تاریکیاں شام کی
لیے تھیں ضیا صبحِ اسلام کی
۔۔۔۔
یزیدی حکومت کا دارو مدار
تھا باطل پہ دنیا کا آشکار
نواسے، نواسوں کے گھر بار کے
بہتّر تھے جو سوئے کوفہ چلے
۔۔۔۔
جہاں خون آلِ نبی ؐ کا بہا
زمیں وہ کہلانے لگی کربلا
نیا باب تاریخ اسلام کا
لہو سے شہیدوں کے لکھا گیا
٭٭٭
رانا بھگوان داسؔ (جسٹس)
وہ حسینؑ ابنِ علیؑ دوشِنبی کا شہسوار
زیبِ آغوشِ رسالتؐ، فاطمہؑ کا گلعذار
زورِ بازوئے حسنؑ فرزندِ حیدرؑ با وقار
پیکرِ صبر و رضا، محبوبِ کردگار
مظہرِ حق و صداقت جلوۂ ایماں حسینؑ
وہ امامِ حق پسنداں وہ نبیؐ کا نور العین
عظمتِ حق کا پیامی دینِ حق کا پاسباں
خلد کا سردارِ اعظم میر بزم مومناں
جس نے سینچا اپنے خوں سے نخلِ دیں کو وہ حسینؑ
کر گیا مضبوط جو شرح، متیں کو وہ حسینؑ
٭٭٭
بلدیو پرشادؔ
ہم ہیں ہندو پر محبت ہے شہِ ابرار سے
اس لئے ڈرتے نہیں ہم نرگ سے یا نار سے
تو نے مانوتا کی رکھ لی آبرو مولا حسینؑ
کس کو ہے انکار تیرے اس مہا اُپکار سے
ہم تو ہیں پاپی مگر غم خوار ہیں شبیرؑ کے
دھوئیں گے ہم پاپ اپنے آنسوؤں کی دھار سے
ناز ہے ہم کو کہ ہم بھی شہ کے ماتم دار ہیں
ہم تو جنت لے ہی لیں گے خلد کے سردار سے
آج بھی شبیرؑ کے روضے سے آتی ہے صدا
ظلم کا سر کاٹ لو یوں صبر کی تلوار سے
٭٭٭
نہال چند پرتاپؔ
ہوائے ظلم سر کربلا چلی کیا ہے
نبیؐ کے باغ پہ چھائی افسردگی کیا ہے
گلے پہ تیرِ ستم کھا کے کر دیا
کہ شیر خوار کی شانِ سپہہ گری کیا ہے
جھکائے سایۂ شمشیر میں نہ سرکیونکر
حسینؑ جانتے تھے حق کی بندگی کیا ہے
دکھاتے منزلِ حق کی نہ راہ کیوں سرورؐ
وہی تو جانتے تھے طرزِ رہبری کیا ہے
غم حسینؐ میں رو رو کے دن گزارتے ہیں
مجھے خبر نہیں پرتاپؔ اب خوشی کیا ہے ٭٭٭
منی لال جوان سندیلوی
پلا وہ بادۂ حبِ امام کون و مکاں
مثالِ موجۂ دریا رواں ہو طبعِ رواں
بڑھا دے اور بھی وقتِ بیاں جو زورِ بیاں
نظر میں پھرنے لگے کربلا کا دشتِ تپاں
عظا ہو جام کہ زورِ سخن دکھانا ہے
اک ایک لفظ سے اک اک چمن کھلانا ہے
جو مانگتا ہوں وہ بادہ دے التجا یہ ہے
کسی کا دخل نہیں تیرا میکدہ یہ ہے
اٹھوں تو جھک کے اٹھوں آج مدعا یہ ہے
جئے ہزاروں برس تو مری دعا یہ ہے
رہا جو تشنہ تو ساقی کبھی نہ جاؤں گا
سمجھ لے خوب کہ دھونی یہیں رماؤں گا
٭٭٭
کالی داس گپتاؔ
اے حسینؑ ابنِ علیؑ، شانِ محمدؐ
تجھ سے سر سبز ہے بستانِ محمدؐ
تو نگہہ دار ہے تسلیم و رضا کا
اک نظر ہم پر بھی اے جانِ محمدؐ
٭
دشتِ کربل کی شام بیاں کون کرے
قصۂ آفت و آلام بیاں کون کرے
٭٭٭
ماخذ: عکاس انٹر نیشنل، کتاب ۱۶، محرم نمبر، مدیر ارشد خالد
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید