فہرست مضامین
- ہم سخن
- ہم سخن
- نذرِ شکیب جلالی
- * نذرِ خاقان خاور
- نذرِ احمد فراز
- *نذرِ مصطفیٰ زیدی
- *نذرِ کلیم عاجز
- * نذرِ خاطر غزنوی
- * نذرِ افضل منہاس
- * نذرِ سیف الدین سیف
- نذرِ مجید امجد
- ٭نذرِ فیض احمد فیض
- *نذرِ جوش ملیح آبادی
- نذرِ باقی صدیقی
- نذرِ قمر جلالوی
- * نذرِ اختر شیرانی
- * نذرِ علامہ محمد اقبال
- *نذرِ شاد عظیم آبادی
- *نذرِ الطاف حسین حالی
- * نذرِ میر مہدی مجروح
- * نذرِ داغ دہلوی
- نذرِ امیر مینائی
- * نذرِ حکیم مومن خان مومن
- نذرِ مرزا اسد اللہ خان غالب
- *نذرِ شیخ ابراہیم ذوق
- *نذرِ مرزا رفیع سودا
- نذرِ میر تقی میر
ہم سخن
ماجِد صِدّیقی
ہم سخن
میرے والد محترم ماجد صدیقی صاحب انیس مارچ دو ہزار پندرہ کو اس جہانِ فانی سے رخصت لے کر چل دیے۔ وہ دن اور اس سے اگلے کئی ماہ میرے لیے ایک قیامت سے کم ثابت نہیں ہوئے۔ جب پاکستان سے لوٹا تو اُن کے کمپیوٹر سے اُن کی تمام فائلیں کاپی کر لایا تھا۔ پچھلے ڈیڑھ برس سے انہی کی چھان پھٹک میں مصروف ہُوں۔ ابّو کو ہر وقت اپنے آپ کو علمی سرگرمیوں میں مصروف رہنے کی عادت تھی، اور ساتھ ساتھ ایک تخلیقی عمل بھی چلتا رہتا تھا۔ انہوں نے اپنے ساٹھ سالہ شعری سفر میں بلا مبالغہ ڈیڑھ ہزار سے زیادہ غزلیں کہیں، اور سیکڑوں نظمیں بھی، پنجابی کلام اور انگریزی کا کام اس کے علاوہ ہے۔ اُن کی فائلوں میں مجھے کچھ ایسی فائلیں بھی ملیں جو کتب کی شکل میں تھیں اور ابھی چھپی نہیں تھیں،”ہم سخن” ایک ایسی ہی کتاب ہے۔ کتاب میں ابو نے ساٹھ کے قریب غزلیں شامل کی تھیں، لیکن میں نے اُن کے تمام کلام کا جائزہ لیا اور دیکھا کہ کئی اور غزلیں بھی کچھ مشہور غزلوں کی زمینوں میں موجود تھیں، سو میں نے اُن کو بھی اس مجموعے کی زینت بنا ڈالا۔ میرے محدود مطالعے کی وجہ سے بہت سی ایسی غزلیں رہ گئیں جو یقیناً کسی دوسرے بڑے شاعر کی زمین میں ہوں گی۔
سو”ہم سخن” حاضر ہے۔ اس مجموعے کو پڑھ کر مجھے بے حد مسرت ہوئی اور اس تخلیقی تجربے میں دوسروں کو شریک کرتے ہوئے مجھے بہت طمانیت ہو رہی ہے۔ اس میں ہم عصر شعرا کی زمینوں میں بھی غزلیں ہیں، اور اساتذہ کی زمینوں میں بھی۔ ہر شاعر کا ایک الگ رنگ ہوتا ہے، اس کے کلام پر اس کی چھاپ ہوتی ہے، اور اچھے شعرا اپنے زمانے کے بھرپور نمائندے بھی ہوتے ہیں، کسی بھی شاعر کی سب سے بڑی کامیابی اس کی انفرادیت ہوتی ہے، یہ کتاب پڑھتے ہوئے آپ یقیناً محسوس کریں گے کہ ان کی زبان اور ان کا منفرد طرزِ فکر ہر غزل سے عیاں ہے۔
مجھے یہ لکھتے ہوئے شدید دکھ ہوتا ہے کہ میرے والد کو ان کے ہم عصر شعرا اور ناقدین نے مسلسل نظر انداز کئے رکھا، اس بات کا احساس ان کو خود بھی تھا لیکن انہوں نے ایک کونے میں بیٹھ کر اپنا کام جاری رکھا اور کبھی ہمت نہیں ہاری، شاعری ان کی فطرت میں تھی، جس طرح ایک پرندہ اڑنا نہیں چھوڑ سکتا، ایک پھول نہ مہکنے سے انکاری ہو جاتا ہے، اسی طرح وہ بھی قدرت کی دی ہوئی اس نعمت سے کبھی انکاری نہیں ہوئے اور ہمیشہ اپنا کام کسی ستائش کی تمنا اور کسی صلے کی پروا کے بغیر جاری رکھا۔
اس مجموعے کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ یہ اردو زبان کا پہلا مجموعہ ہے جو الکٹرانک فارمیٹ میں بیک وقت گوگل، ایمازون، ایپل آئی بکس اور ہر بین الاقوامی پلیٹ فارم پر شائع کیا جا رہا ہے۔ اگر آپ یہ کتاب آئی پیڈ، یا اپنے فون پر پڑھ رہے ہیں تو ہر غزل کے نیچے موجود لنک کو استعمال کرتے ہوئے فوراً وہ غزل بھی پڑھ سکتے ہیں جس کی زمین میں وہ غزل لکھی گئی ہے۔ جن غزلوں کے ٹائٹل سے پہلے ستارے کا نشان ہے، وہ غزلیں ابو نے شعوری طور پر دوسرے شعرا کی نذر کیں، جن پر یہ نشان نہیں، وہ غزلیں میں نے اُن کے کلام سے ڈھونڈیں، لکھتے وقت شاید ابو کے ذہن میں خیال بھی نہیں رہا ہو گا کہ اس زمین میں کسی اور شاعر نے بھی پہلے سے غزل لکھ رکھی ہے۔
نوٹ: شعرائے کرام کی ترتیب ٹائٹل میں بھی اور کتاب میں بھی اُن کی پیدائش کے سال کے اعتبار سے ہے
یاور ماجد
۵ اپریل ۲۰۱۶
نذرِ شکیب جلالی
۱
مجھ پر بنے گی گر نہ بنی اُس کی جان پر
بیٹھا ہُوں میں بھی تاک لگائے مچان پر
حیراں ہُوں کس ہوا کا دباؤ لبوں پہ ہے
کیسی گرہ یہ آ کے پڑی ہے زبان پر
کیا سوچ کر اُکھڑ سا گیا ہُوں زمیں سے میں
اُڑتی پتنگ ہی تو گری ہے مکان پر
اُس سے کسے چمن میں توقع امان کی
رہتا ہے جس کا ہاتھ ہمیشہ کمان پر
شامل صدا میں وار کے پڑتے ہی جو ہُوا
چھینٹے اُسی لہو کے گئے آسمان پر
پنجوں میں اپنے چیختی چڑیا لیے عقاب
بیٹھا ہے کس سکون سے دیکھو چٹان پر
کیونکر لگا وہ مارِ سیہ معتبر مجھے
ماجدؔ خطا یہ مجھ سے ہوئی کس گمان پر
٭٭٭
بہتر ہے خاک ڈالیے ایسی اڑان پر۔ شکیب جلالی
۲
لائے زبان پر تو لبوں میں سمٹ گیا
لکھنے لگے تو لفظ قلم سے چمٹ گیا
طوفاں سے قبل جس پہ رہا برگِ سبز سا
چھُو کر وہ شاخ آج پرندہ پلٹ گیا
غافل ہمارے وار سے نکلا بس اِس قدر
پٹنے لگا تو سانپ چھڑی سے لپٹ گیا
جھپٹا تو جیسے ہم تھے سرنگوں کے درمیاں
دشمن ہماری رہ سے بظاہر تھا ہٹ گیا
ہوتا اسے شکستِ تمنّا کا رنج کیا
بچّے کے ہاتھ میں تھا غبارہ سو پھٹ گیا
ماجدؔ خلا نورد وُہ سچائیوں کا ہے
اپنی زمیں سے رابطہ جس کا ہو کٹ گیا
٭٭٭
دریا سے کوئی شخص تو پیاسا پلٹ گیا۔ شکیب جلالی
۳
دم3ِ زوال، رعونت زباں پہ لائے بہت
چراغ بجھنے پہ آئے تو پھڑپھڑائے بہت
یہی تو ڈوبتے سورج کا اِک کرشمہ ہے
بڑھائے قامتِ کوتاہ تک کے، سائے بہت
قلم کے چاک سے پھوٹے وہ، مثل بیلوں کے
جو لفظ ہم نے زباں کے تلے دبائے بہت
ستم ستم ہے کوئی جان دار ہو اُس کو
نگل کے آب بھی اِک بار تھرتھرائے بہت
ہمارے گھر ہی اترتی نہ کیوں سحر ماجدؔ
تمام رات ہمِیں تھے جو کلبلائے بہت
٭٭٭
میں اس گلی میں اکیلا تھا اور سائے بہت۔ شکیب جلالی
۴
کھٹکا ہے یہ، کسی بھی پھسلتی چٹان پر
ٹوٹے نہ یہ غضب بھی ہماری ہی جان پر
جیسے ہرن کی ناف ہتھیلی پہ آ گئی
کیا نام تھا، سجا تھا کبھی، جو زبان پر
چاہے جو شکل بھی وہ، بناتا ہے اِن دنوں
لوہا تپا کے اور اُسے لا کے سان پر
یک بارگی بدن جو پروتا چلا گیا
ایسا بھی ایک تیر چڑھا تھا کمان پر
تاریخ میں نہ تھی وہی تحریر، لازوال
جو خون رہ گیا تھا عَلَم پر، نشان پر
ماجدؔ ہلے شجر تو یقیں میں بدل گیا
جو وسوسہ تھا سیلِ رواں کی اٹھان پر
٭٭٭
بہتر ہے خاک ڈالیے ایسی اڑان پر۔ شکیب جلالی
٭٭٭٭
* نذرِ خاقان خاور
جبر مہلت نہ دے رہائی نہ دے
کوئی آسودگی سجھائی نہ دے
عدل بھی کثر چشم ہونے لگا
ٹیڑھ اپنی اسے دکھائی نہ دے
روز و شب پر جو اس کے چڑھ دوڑے
قوم کو وقت وہ”جوائی” نہ دے
کیسے ممکن ہے یہ، جو خود ہے خدا
اپنے بندوں کو وہ خدائی نہ دے
ظرف ایسا بھی تو ہے انساں کا
کرب سہہ لے مگر دہائی نہ دے
جس سے، پودوں سے وہ بھی پیڑ بنیں
رُت نہا لوں کو وہ”ترائی” نہ دے
جس نے ماجدؔ کو دی ہے زر داری
خاکِ پا کو وہ ایک پائی نہ دے
٭٭٭
پتھروں کو تو کچھ سنائی نہ دے۔ خاقان خاور
٭٭٭٭
نذرِ احمد فراز
*
شعر، آثارِ قدیمہ سے نصابوں میں ملیں
"جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں”
کیسے ممکن ہے کہ جیون کو جِلا دیتی ہوئی
مستیاں آپ کی آنکھوں کی، شرابوں میں ملیں
غیظ کے چاہے وہ ہوں، لطف و عنایات کے ہوں
نقش اس یار کے کیا کیا نہ سحابوں میں ملیں
جتنے چہرے بھی لکھے رہ گئے دل پر ماجدؔ
منعکس روز نئے کھِلتے گلابوں میں ملیں
٭٭٭ جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں۔ احمد فراز
۲
بغور دیکھ لیا کر، نہ پاس جال کے رکھ
یہ شہرِ درد ہے پاؤں ذرا سنبھال کے رکھ
جو تاب ہے تو، وُہی کر گزر جو کرنا ہے
نظر میں وسوسے، ہر آن مت مآل کے رکھ
ملے گی گر تو اِسی سے اُٹھان جیون میں
فنا کی بانہوں میں بانہوں کو اپنی، ڈال کے رکھ
طلوع جو بھی ہُوا، جان اُسے جنم دن سا
عزیز اسی سے، سبھی دن تُو سال سال کے رکھ
لکھا تھا نام کبھی جس شجر پہ، ساجن کا
چھُپا کے پرس میں ٹکڑے اب اُس کی چھال کے رکھ
وہی جو عمرِ گزشتہ سا کھو گیا ماجدؔ
قلم کی نوک پہ اب، نقش اُس جمال کے رکھ
٭٭٭
سو دوسروں کے لیے تجربے مثال کے رکھ۔ احمد فراز
۳
ایک وُہ شخص ہی احوال نہ جانے میرے
ورنہ ازبر ہیں ہوا کو بھی فسانے میرے
مَیں نہ خوشبُو نہ کرن، رنگِ سحر ہُوں نہ صبا
کون آتا ہے بھَلا ناز اُٹھانے میرے
ہاں وُہی دن کہ مرے حکم میں تھا تیرا بدن
جانے کب لوٹ کے آئیں وُہ زمانے میرے
چشم و رُخسار، وہ چہرہ، وہ نظر تاب اُبھار
ہیں وُہی شوق کی تسبیح کے دانے میرے
ضرب کس ہاتھ کی جانے یہ پڑی ہے اِن پر
چُور ہیں لُطف کے سب آئنہ خانے میرے
جب سے کھویا ہے وُہ مہتاب سا پیکر ماجدؔ
سخت سُونے ہیں نگاہوں کے ٹھکانے میرے
٭٭٭
تُو کہاں ہے مگر اے دوست پرانے میرے۔ احمد فراز
۴
فن میں بیٹھے ہیں بہت ٹھیک نشانے میرے
ختم ہوں گے نہ جب آئیں گے، زمانے میرے
میں کہ خوشحال ہُوں، خوشحال ہُوں خاصا لیکن
غیر کے ہاتھ پِہ گروی ہیں خزانے میرے
اِس خطا پر کہ مجھے ناز ہے، پرواز پہ کیوں
آخرش کاٹ دیے پر ہی، ہَوا نے میرے
ایک دن سچ کہ جو ہے زیر، زبر بھی ہو گا
ایک دن گائیں گے دشمن بھی ترانے میرے
٭٭٭
تُو کہاں ہے مگر اے دوست پرانے میرے۔ احمد فراز
۵
حصارِ ہجر سے پیہم بغاوتیں کرنی
یہ ہم سے پوچھئے کیا ہیں محبتیں کرنی
سبھی حجاب ترے سامنے سمٹنے لگے
تجھی نے ہم کو سکھائیں یہ وحشتیں کرنی
ترے ہی حسنِ سلامت سے آ گئی ہیں ہمیں
بہ حرف و صوت یہ پل پل شرارتیں کرنی
جگرِ میں سینت کے سَب تلخیاں، بنامِ وفا
نثار تُجھ پہ لہو کی تمازتیں کرنی
یہی وہ لطف ہے کہتے ہیں قربِ یار جسے
دل و نگاہ سے طے سب مسافتیں کرنی
یہی کمال، ہُنر ہے یہی مرا ماجدؔ
سپرد حرف، کِسی کی امانتیں کرنی
٭٭٭
فراز تجھ کو نہ آئیں محبتیں کرنی۔ احمد فراز
۶
سلوک مجھ سے ترا اجتناب جیسا ہے
یہ ارتباط بھی آب و حباب جیسا ہے
مرے لبوں پہ رواں ذکرِ التفات ترا
بدستِ صبح گُلِ آفتاب جیسا ہے
متاعِ زیست ہے پیوستگئِ باہم کا
یہ ایک لمحہ کہ کھلتے گلاب جیسا ہے
کھُلا یہ ہم پہ ترے جسم کے چمن سے ہے
کہ برگ برگ یہاں کا کتاب جیسا ہے
نکل ہوا میں کہ عالم کچھ اِن دنوں اس کا
مثالِ گفتۂ غالب شراب جیسا ہے
ہے جستجوئے خیابانِ تشنہ لب میں رواں
مرا یہ شوق کہ اُمڈے سحاب جیسا ہے
ہم اِس حیات کو محشر نہ کیوں کہیں ماجدؔ
سکونِ دل بھی جہاں اضطراب جیسا ہے
٭٭٭
کہ زہرِ غم کا نشہ بھی شراب جیسا ہے۔ احمد فراز
٭٭٭٭
*نذرِ مصطفیٰ زیدی
مضمر ہے کچھ تو میرا کِیا، واقعات میں
"کچھ دھجیاں ہیں میری، زلیخا کے ہات میں”
کیا تھا ہنر بھی سیکھتے گر کوئی سات میں
الجھے رہے ہیں ہم جو قلم میں دوات میں
ہاں میں بھی دِیدنی تھا کبھی گلستاں کے بِیچ
جوبن مرا ہے اب تو بٹا پات پات میں
اس سے بہم جو ڈھیل ہے قانون میں، یہاں
کیا کیا بدن ہیں بٹنے لگے پارچات میں
نا اہل جو تلے ہیں کہ منوائیں اپنا آپ
کیا کیا گلے نہ پڑنے لگے بات بات میں
لاتے ہیں ہم بھی نفرتیں اُن سے بروئے کار
دشمن بھی اس طرف ہیں ہماری ہی گھات میں
ہوں محوِ خواب گھر میں یا ہوں راہ پر کہیں
ماجدؔ گھِرے ہوئے ہیں ہمِیں حادثات میں
٭٭٭
میں اُن کو جوڑ لوں کہ گھٹا دوں حیات میں۔ مصطفیٰ زیدی
٭٭٭٭
*نذرِ کلیم عاجز
گل پھینکتے ہو، وار بھی اِک سات کرو ہو
"تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو”
مسکان کے کچھ بعد ہی یہ تیوری کیوں ہے
تم اچّھے بھلے روز کو کیوں رات کرو ہو
کب جُوئے مئے خاص کو تم کرنے لگے عام
کب آنکھ کو تم وقفِ خرابات کرو ہو
تم بات کرو اُن سے جو برّاق تمہیں دیں
ہم خاک نشینوں سے کہاں بات کرو ہو
تم یوں تو کھِلاتے ہی نہیں غنچۂ لب کو
تم بات بھی کرتے ہو تو خیرات کرو ہو
کچھ کوڑیاں کرتے ہو جو تنخواہ میں ایزاد
حاتم کی سخاوت کو بھی تم مات کرو ہو
نسلوں کا یہ رونا ہے تمھارا نہیں ماجدؔ!
تکرار سے کیوں شکوۂ حالات کرو ہو
٭٭٭
مجھ سے ہی امیروں کی طرح بات کرو ہو۔ کلیم عاجز
٭٭٭٭
* نذرِ خاطر غزنوی
یوں کہو پتھر سے اپنا سر تھے ٹکرانے گئے
اس مسیحا پاس ہم بھی تھے شفا پانے گئے
اوڑھ کر کچھ دیر کو چہرے پہ اس چنچل کی یاد
بیچ بگھیا کے گلوں کے ساتھ اِترانے گئے
ہم بھی تھے اس شوخ کو پانے کی بولی میں شریک
انٹِیا ہم بھی تھے اہلِ زر کو دکھلانے گئے
ایک ہی اقدام پر بِن اِذن جو سرزد ہوا
باغ میں فردوس کے ہم کیا سے کیا جانے گئے
دِل زدوں کے پاس، زِیرہ اونٹ کے منہ میں دیا
اِختیار اپنا ہیں کیا کیا شاہ جتلانے گئے
حال، جس مکتب میں پہنچے، اس کا اک جیسا ملا
جو سبق سوبار سیکھا تھا وہ دہرانے گئے
٭٭٭
لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے۔ خاطر غزنوی
٭٭٭٭
* نذرِ افضل منہاس
گرد و غبار و شور کے اژدر برس پڑے
کھِلتے گلوں پہ پاس سے پتھر برس پڑے
آنگن ستم گروں کے سجانے کے واسطے
عاجز دھڑوں سے کٹتے ہوئے سر برس پڑے
گولے بنے تھے جتنے نوالوں کے خرچ پر
باہر انھیں برسنا تھا، اندر برس پڑے
فرعون کی خدائی میں مانگے تھے ہم نے پھول
دستِ دعا پہ خیر سے اخگربرس پڑے
اہلِ زمین جانتے کب ہیں کہ اُن پہ کب
سونامیوں کی رو میں سمندر برس پڑے
ماجدؔ کبوتروں کو اڑانیں گئی ہیں بھول
ہاں زاغ زاغ، دیکھنا شہپر برس پڑے
٭٭٭
جب بولنے لگے تو ہمی پر برس پڑے۔ افضل منہاس
٭٭٭٭
* نذرِ سیف الدین سیف
شاہوں کی آمرانہ رضا کے مقام سے
اتریں کبھی نہ لوگ وفا کے مقام سے
تلوار ہے جو نکلی لگے ہے نیام سے
لڑکی جو گر چلی ہو حیا کے مقام سے
اپنی سی جس قدر بھی ہے خلقِ خدا اسے
فرعون دیکھتے ہیں خدا کے مقام سے
پرہیزگار بھی ہو تو پانے پہ اقتدار
نکلے کبھی نہ حرص و ہوا کے مقام سے
اولاد ہو کسی کی، اسے ہے یہ منفعت
آئے بڑوں کو یاد دعا کے مقام سے
جاں جس نے دی موقّفِ واحد پہ اس کو لوگ
پہچانتے ہیں کرب و بلا کے مقام سے
٭٭٭
گزرا ہمارا درد، دوا کے مقام سے۔ سیف الدین سیف
٭٭٭٭
مہکے ہمارا باغ بھی شاید، بہار میں
آنکھیں پگھل چلی ہیں، اسی انتظار میں
دل کا اُبال کرتے رہے ہیں سپردِ چشم
ہم نے کیا وُہی کہ جو تھا، اختیار میں
چاہے وُہ جائے دفن بھی سب سے الگ تھلگ
نخوت ہے اس طرح کی، دلِ تاجدار میں
یہ اور بات آگ بھی گلزار بن گئی
نمرود نے تو حق کو اُتارا تھا، نار میں
آکاش تک میں چھوڑ گیا، نسبتوں کا نُور
ماجدؔ جو اشک، ٹوٹ گِرا یادِ یار میں
٭٭٭
دم گھٹ رہا ہے سایہ ابرِ بہار میں۔ مجید امجد
٭٭٭٭
نذرِ مجید امجد
جھانکے جو بام پر سے سُورج تری ہنسی کا
ہم بھی کریں مداوا، یخ بستہ خامشی کا
کھِلتے ہوئے لبوں پر مُہریں لگا کے بیٹھیں
تھا کیا یہی تقاضا ہم سے کلی کلی کا
اَب آنکھ بھی جو اُٹھے، جی کانپتا ہے اپنا
کیا حشر کر لیا ہے ہمّت رہی سہی کا
پھر سنگ بھی جو ہوتی اپنی زباں تو کیا تھا
دعویٰ اگر نہ ہوتا ہم کو سخنوری کا
بستر لپیٹ کر ہم اُٹھ جائیں رہ سے اُس کی
مقصد نہیں تھا شاید ایسا تو مدّعی کا
ماجدؔ لبوں کے غنچے چٹکے دھُواں اُگلتے
تھا یہ بھی ایک پہلو افسردہ خاطری کا
٭٭٭
کوئی نہیں جہاں میں کوئی نہیں کسی کا۔ مجید امجد
٭نذرِ فیض احمد فیض
۱
ہم نے، جو مِلک اُس حسیں کی ہے
مشکلوں سے تہِ نگیں کی ہے
خُوں جلائیں کہ جاں سے جائیں ہم
بات سب”کسبِ آفریں” کی ہے
نسل اپنی بھی کھوج لی ہم نے
جس کو جنت کہیں ‘ وہیں کی ہے
ہاں ہم آداب اِس کے جانتے ہیں
"تیری صورت جو دلنشیں کی ہے”
محو سُن کے سماعتوں سے جو ہو
ہم نے وہ شاعری نہیں کی ہے
دیکھنی ہو جو اُس کی صنّاعی
آب میں برقِ آتشیں کی ہے
آسماں تک گئی جو آہوں میں
فصل ماجدؔ وہ اس زمیں کی ہے
٭٭٭
آشنا شکل ہر حسیں کی ہے۔ فیض احمد فیض
۲
بہم رہے نہ سدا قُربِ یار کا موسم
مثالِ قوسِ قزح ہے یہ پیار کا موسم
نشہ حیات کا سارا اُسی میں پنہاں تھا
کسی بدن پہ جو تھا اختیار کا موسم
نجانے کیوں ہے یتیموں کے دیدہ و دل سا
جہاں پہ ہم ہیں اُسی اِک دیار کا موسم
ہے قحطِ آب کہیں، اور قحطِ ضَو ہے کہیں
نگر پہ چھایا ہے کیا شہریار کا موسم
جو چاہیے تھا بہ کاوش بھی وہ نہ ہاتھ آیا
محیطِ عمر ہُوا انتظار کا موسم
اُنھیں بھی فیض ہمیں سا ملا ہے دریا سے
اِدھر ہی جیسا ہے دریا کے پار کا موسم
گزرنا جان سے جن جن کو آ گیا ماجدؔ
نصیب اُنہی کے ہُوا اَوجِ دار کا موسم
٭٭٭
نہیں ہے کوئی بھی موسم، بہار کا موسم۔ فیض احمد فیض
۳
باہم طراوتِ شبِ راحت لٹائیں ہم
موسم سے یہ خراج کسی دم تو پائیں ہم
معراج ہے بدن کی یہ ساعت ملاپ کی
ہے پیاس جس قدر بھی نہ کیونکر مٹائیں ہم
جذبوں کی مشعلیں ہوں فروزاں سرِزباں
محفل دل و نگاہ کی یوں بھی سجائیں ہم
دیکھے بہ رشک چاند ہمیں جھانک جھانک کر
یوں بھی بہ لطفِ خاص کبھی جگمگائیں ہم
بپھری رُتوں کے رنگ سبھی دِل میں سینت لیں
تقریب اِس طرح کی بھی کوئی منائیں ہم
کیونکر پٔے حُصولِ ثمر مثلِ کُودکاں
شاخِ سُرور کو نہ بعجلت ہلائیں ہم
ماجدؔ کبھی تو رشتۂ جاں ہو یہ اُستوار
قوسیں یہ بازوؤں کی کبھی تو ملائیں ہم
٭٭٭
آؤ کہ حسن ماہ سے دل کو جلائیں ہم۔ فیض احمد فیض
۴
نِکھری رُتوں کا حسن‘ فضا سے چرائیں ہم
آؤ کہ جسم و جاں کے شگوفے کھلائیں ہم
بیدار جس سے خُفتہ لہُو ہو ترنگ میں
ایسا بھی کوئی گیت کبھی گنگنائیں ہم
رچتی ہے جیسے پھُول کی خوشبُو ہواؤں میں
اِک دُوسرے میں یُوں بھی کبھی تو دَر آئیں ہم
اِخفا سہی پہ کچھ تو سپُردِ قلم بھی ہو
دیکھا ہے آنکھ سے جو سبھی کو دکھائیں ہم
ہو تُجھ سا مدّعائے نظر سامنے تو پھر
ساحل پہ کشتیوں کو نہ کیونکر جلائیں ہم
منصف ہے گر تو دل سے طلب کر یہ فیصلہ
تُجھ سے بچھڑ کے کون سے زنداں میں جائیں ہم
ایسا نہ ہو کہ پھر کبھی فرصت نہ مل سکے
ماجدؔ چلو کہ فصلِ تمنّا اٹھائیں ہم
٭٭٭
آؤ کہ حسن ماہ سے دل کو جلائیں ہم۔ فیض احمد فیض
۵
عزت وہ دیں مُجھے کہ مرا دل لہو کریں
جو کچھ بھی طے کریں وہ مرے رُوبرو کریں
پل میں نظر سے جو مہِ نخشب سا کھو گیا
کس آس میں ہم اُس کی بھَلا جستجو کریں
سُوجھے نہ راہِ ترکِ محبت ہی اک اُنھیں
کچھ اور بھی علاج مرے چارہ جُو کریں
پہنچیں نہ ایڑیاں بھی اُٹھا کر جو مجھ تلک
رُسوا وہ لوگ کیوں نہ مجھے کُو بہ کُو کریں
پیروں تلے ہیں اُس کے سبھی کے سروں کے بال
اب منصفی کو کس کے اُسے رُوبرو کریں
اُس کے ستم کا خوف ہی اُس کا ہے احترام
چرچا جبھی تو اُس کا سبھی چار سُو کریں
وہ عجز کیا کہ جس پہ گماں ہو غرور کا
ماجدؔ ہم اختیار نہ ایسی بھی خُو کریں
٭٭٭
غربت کدے میں کس سے تری گفتگو کریں۔ فیض احمد فیض
چاند چہرہ کبھی اِدھر کر دے
ضو سے ہر کنکری گہر کر دے
کاش محصورِ شب دیاروں میں
انگناں انگناں کوئی سحر کر دے
اس پہ قدرت لٹائے قادر بھی
جس کو وہ صاحبِ ہنر کر دے
تُو کہ ہے خیر بانٹنے والا
کم ہمارے یہاں کی شر کر دے
گردِ ادبار ہے جمی جن پر
اجلے اجلے وہ سب نگر کر دے
میں بھی تو چھاؤں بانٹنا چاہوں
تُو مجھے راہ کا شجر کر دے
زردیاں بھیج کر خزاؤں کی
سارے ہم سوں کو اہلِ زر کر دے
٭٭٭
دستِ قدرت کو بے اثر کر دے۔ فیض احمد فیض
۷
جینے کے دن بھی جس نے دیے ہیں ادھار کے
ہم بندگان ہیں اُسی پروردگار کے
یہ بھی نجانے کیوں مرے دامن میں رہ گئیں
کچھ پتّیاں کہ نقش ہیں گزری بہار کے
اُس نے تو کھال تک ہے ہماری اُتار لی
زیرِ نگیں ہم آپ ہیں کس تاجدار کے
ہاں آ کے بیٹھتے ہیں کبوتر جو بام پر
ہاں اقربا ہیں یہ بھی مرے دُور پار کے
ٹھہرائیں ہم رقیب کسے اور کسے نہیں
ہم یار بھی ہوئے ہیں تو جہاں بھر کے یار کے
کھویا ہے کیا سے کیا ابھی کھونا ہے کیا سے کیا
ماجدؔ یہ کیسے دن ہیں گنت کے شمار کے
٭٭٭
وہ جا رہا ہے کوئی شب غم گزار کے۔ فیض احمد فیض
۸
آیت بھی چھاپتے ہیں تو ساتھ اشتہار کے
جویا صحافتی ہیں زرِ بے شمار کے
بندوں پہ بندگان کو اپنے خدائی دے
احسان کیا سے کیا نہیں پروردگار کے
یہ بھی نجانے کیوں مرے دامن میں رہ گئیں
یہ پتّیاں کہ نقش ہیں گزری بہار کے
سیراب بھی کرے ہے پہ کاٹے بہت زمیں
فیضان دیکھنا شہ دریا شعار کے
بدلے میں اِن کے کرنا پڑے جانے کیا سے کیا
یہ زندگی کے دن کہ ہیں یکسر ادھار کے
ماجدؔ ترا سخن بھی سکوں رہرووں کو دے
گُن تجھ میں بھی تو ہیں شجر سایہ دار کے
٭٭٭
وہ جا رہا ہے کوئی شب غم گزار کے۔ فیض احمد فیض
ہاں ہاں بہم تھے جن میں مزے قربِ یار کے
سنتے ہیں پھر قریب ہیں وہ دن بہار کے
اپنے سوا کسی نے کسی سے نہ کی وفا
قصّے ہیں اس طرح کے سبھی دُور پار کے
کچھ گرد باد لے اڑے، کچھ دھوپ لے اڑی
اسباب جس قدر تھے ہمارے نکھار کے
کیا کیا نہیں حیات میں کرنے پڑے ادا
تاوان سر پڑے، دلِ غفلت شعار کے
ہونا ہمیں تھا ہو گیا وہ کیوں، اِسی لیے
اچّھے لگے نہ طور کسی تاجدار کے
بندوں کو کب بہم ہے اجارہ دوام کا
ہم سوں کے جتنے دن ہیں، وہ دِن ہیں ادھار کے
ماجدؔ نہیں ہے یوں تو سماعت جھلس گئی
ہم نے سخن سنے جو، ہیولے تھے نار کے
٭٭٭
وہ جا رہا ہے کوئی شب غم گزار کے۔ فیض احمد فیض
٭٭٭٭
*نذرِ جوش ملیح آبادی
ہمارے فرق میں فتحِ صنم کا طنطنہ تھا
"نجانے رات کو کیا میکدے میں مشغلہ تھا”
جو ذی شعور شہانِ کرام تھے اُن کی
عمارتوں میں بھی اَوجِ شہی کا دبدبہ تھا
پیمبری سی جو پیہم رہی کبوتروں کی
ہمارے آپ کے مابین کیا وہ سلسلہ تھا
جو سہہ گئے ہیں مقابل کی سب کمیں گیاں
یہی لگے ہے ہمارا ہی ایسا حوصلہ تھا
نجانے اس میں تپش عزم کی تھی کیا ماجدؔ!
وہ تن بدن میں جو بچپن میں ایک ولولہ تھا
٭٭٭
کہ ہر نفس میں قیامت کا جوش و ولولہ تھا۔ جوش ملیح آبادی
٭٭٭٭
نذرِ باقی صدیقی
۱
دشت میں رہ کا شجر یاد آیا
اُس کا پیکر ہے مگر یاد آیا
پھر تمنّا نے کیا ہے رُسوا
پھر مسیحاؤں کا در یاد آیا
اُس کی آنکھوں سے لہو تک اُس کے
طے کیا تھا جو سفر یاد آیا
جب بھی بچّہ کوئی مچلا دیکھا
مجھ کو سپنوں کا نگر یاد آیا
ہم کو پنجرے سے نکلنا تھا کہ پھر
برق کو اپنا ہُنر یاد آیا
ابر ڈھونڈوں گا کہاں سر کے لیے
لُطف ماں باپ کا گر یاد آیا
کیا کرم اُس کا تھا ماجدؔ کہ جسے
یاد آنا تھا نہ، پر یاد آیا
٭٭٭
تیرے جلوؤں کا اثر یاد آیا۔ باقی صدیقی
۲
آپ ہی نے رازِ دل پوچھا نہیں
ہم نہ بتلا تے، نہیں، ایسا نہیں
آپ سے ملنے کا ایسا تھا نشہ
رنگ تھا جیسے کوئی، اُترا نہیں
سنگ دل تھے اہلِ دنیا بھی بہت
آپ نے بھی، پیار سے دیکھا نہیں
دم بدم تھیں اِک ہمِیں پر یورشیں
تختۂ غیراں کبھی الٹا نہیں
توڑنا، پھر جوڑنا، پھر توڑنا
ہم کھلونوں پر کرم کیا کیا نہیں
٭٭٭
تُو نظر کے سامنے ہے یا نہیں۔ باقی صدیقی
۳
جھڑکے شاخوں سے تہِ خاک سمانے والے
جو گئے ہیں وُہ نہیں لوٹ کے آنے والے
بارشِ سنگ سے دوچار تھا انساں کل بھی
کم نہیں آج بھی زندوں کو جلانے والے
آئے مشکیزۂ خالی سے ہوا دینے کو
تھے بظاہر جو لگی آگ بُجھانے والے
ضُعف کس کس نے نہیں خُلق ہمارا سمجھا
ہم کہ آنکھیں تھے بہ ہر راہ بچھانے والے
صدق جذبوں میں بھی پہلا سا نہیں ہے ماجدؔ
اب نہیں خضر بھی وُہ، راہ دکھانے والے
٭٭٭
ہم ترے واسطے مقتل میں تھے جانے والے۔ باقی صدیقی
۴
ہے کون جو آنکھوں میں مری عرش نشاں ہے
چہرہ ہے وہ کس کا جو سرِکاہکشاں ہے
مدّت سے جو صیّاد کے ہاتھوں میں ہے موزوں
فریاد سے کب ٹوٹنے والی وہ کماں ہے
صحرا سی مری پیاس پہ برسا نہ کسی پل
وہ ابر کہ ہر آن مرے سر پہ رواں ہے
ہم لوگ چلیں ساتھ کہاں اہلِ غرض کے
آتی ہی جنہیں ایک محبت کی زباں ہے
رنگین ہے صدیوں سے جو انساں کے لہو سے
ہر ہاتھ میں کیسا یہ تصادم کا نشاں ہے
ماجدؔ ہے تجھے ناز نکھر آنے پہ جس کے
تہذیب وہ اخبار کے صفحوں سے عیاں ہے
٭٭٭
منزل پہ چراغ سر منزل کا دھواں ہے۔ باقی صدیقی
٭٭٭٭
نذرِ قمر جلالوی
۱
دیارِ یار جو اپنا کبھی ٹھکانہ تھا
ہمارا ذکر وہاں اب کے غائبانہ تھا
مجھی پہ اُس کا نزولِ غضب ہوا کیونکر
مرا ہی خطۂ جاں اُس کا کیوں نشانہ تھا
اثر پکار میں کچھ تھا نہ گھر کے جلنے تک
پھر اُس کے بعد تو ہمدرد اک زمانہ تھا
کبھی نہ دل سے گیا قُربِ رعد کا کھٹکا
بلند شاخ پہ جس دن سے آشیانہ تھا
اُنہی کے سامنے جھکتے تھے عدل والے بھی
سلوک جن کا سرِ ارض غاصبانہ تھا
کسی کو دیکھتے ماجدؔ بصدقِ دل کیسے
وہ جن کا اپنا چلن ہی منافقانہ تھا
٭٭٭
قمرؔ خدا کی قسم وہ بھی کیا زمانہ تھا۔ قمر جلالوی
۲
یہ اضافہ بھی ہُوا ماں باپ کے آزار میں
مشتہر کرتے ہیں جنسِ دختراں اخبار میں
آبلہ پائی نے کر دی ہے مسافت یوں تمام
پیر چپکے رہ گئے ہیں جادۂ پر خار میں
تن بدن سے کھال تک جیسے ادھڑ جانے لگے
جیب ہی ہلکی نہیں ہوتی ہے اب بازار میں
سخت مشکل ہے کوئی تریاق اُس کا مِل سکے
زہر جو شامل ملے، ذی جاہ کے انکار میں
خلق ناداری کے ہاتھوں جان دینے پر مصر
اور زر کی بانٹ کے جھگڑے ادھر دربار میں
کیا کہیں ہر آن ماجدؔ مضطرب، پڑنے کو ہیں
سنگ ریزے کیا سے کیا ہر دیدۂ بیدار میں
٭٭٭
اک تماشا بن کے آ بیٹھا ہُوں کوئے یار میں۔ قمر جلالوی
۳
نظر اُٹھے بھی تو خُود ہی کو دیکھتا ہُوں مَیں
نجانے کون سے جنگل میں آ بسا ہُوں مَیں
یہ کس ہجوم میں تنہا کھڑا ہوا ہُوں مَیں
یہ اپنے آپ سے ڈرنے سا کیوں لگا ہُوں مَیں
وگرنہ شدّتِ طوفاں کا مجھ کو ڈر کیا تھا
لرز رہا ہُوں کہ اندر سے کھوکھلا ہُوں مَیں
یہ کیوں ہر ایک حقیقت لگے ہے افسانہ
یہ کس نگاہ سے دُنیا کو دیکھتا ہُوں مَیں
برس نہ مجھ پہ ابھی تندیِ ہوائے چمن
نجانے کتنے پرندوں کا گھونسلا ہُوں مَیں
یہ کس طرح کی ہے دِل سوزی و خنک نظری
یہ آ کے کون سے اعراف پر کھڑا ہُوں مَیں
اِس اپنے عہد میں، اِس روشنی کے میلے میں
قدم قدم پہ ٹھٹکنے سا کیوں لگا ہُوں مَیں
مری زمیں کو مجھی پر نہ تنگ ہونا تھا
بجا کہ چاند کو قدموں میں روندتا ہُوں مَیں
سکوتِ دہر کو توڑا تو مَیں نے ہے ماجدؔ
یہ ہنس دیا ہُوں نجانے کہ رو دیا ہُوں مَیں
٭٭٭
اگر حضور نے کل کہہ دیا خدا ہُوں میں ؟۔ قمر جلالوی
۴
موسموں کو نئے عنوان دیا کرتے ہیں
نذرِ صرصر بھی ہمیں برگ ہُوا کرتے ہیں
اپنے احساس نے اِک رُوپ بدل رکھا ہے
بُت کی صورت جِسے ہم پُوج لیا کرتے ہیں
اُن سے شکوہ؟ مری توبہ! وہ دلوں کے مالک
جو بھی دیتے ہیں بصد ناز دیا کرتے ہیں
ہم کہ شیرینیِ لب جن سے ہے ماجدؔ منسُوب
کون جانے کہ ہمیں زہر پِیا کرتے ہیں
٭٭٭
ایک گھر برق کو ہر سال دیا کرتے ہیں۔ قمر جلالوی
۵
سرِخروار مچلے ہیں شرر آہستہ آہستہ
ہُوا ہے آتشیں صحنِ نظر، آہستہ آہستہ
اُجڑنے کی خبر ٹہنی سے ٹہنی تک نہیں پہنچی
چمن میں سے ہُوا منہا، شجر آہستہ آہستہ
ہُوا پھر یوں، جنوں پر عقل نے پہرے بِٹھا ڈالے
دِبک کر رہ گئے آشفتہ سر، آہستہ آہستہ
نظر میں ہے بہت بے رنگ دن کو اور بہ شب، روشن
فلک پر چاند کا ماجدؔ سفر آہستہ آہستہ
٭٭٭
عیاں سورج ہوا وقتِ سحر آہستہ آہستہ۔ قمر جلالوی
٭٭٭٭
* نذرِ اختر شیرانی
تم کو ٹھہرا ہی نہ لیں اب کے ملاقات کی رات
اب کہاں جاؤ گے، رہ جاؤ یہیں رات کی رات
وہ جو دنیائیں ہیں دو، آج ملیں گی باہم
یہ جو ہے وصل کی شب، ہے یہ کمالات کی رات
جانتے جانتے ہم جان چکے، مرگ ہے کیا
پیڑ سے جھڑ کے سرِ خاک ہے یہ پات کی رات
مے بھی اور ابر بھی اور بادِ صبا بھی یک جا
زیست میں ایسی بھی اِک آئے ہے برسات کی رات
کر کے دو لخت بدن دیس کا آخر وہ ٹلی
بس میں دشمن کے کبھی آئی تھی جو گھات کی رات
وہ بھلے قوم ہو، اِک فرد ہو یا ماجدؔ ہو
ہر سیہ بخت کو درپیش ہے صدمات کی رات
٭٭٭
کیا بگڑ جائے گا رہ جاؤ یہیں رات کی رات۔ اختر شیرانی
٭٭٭٭
* نذرِ علامہ محمد اقبال
نہیں تھا ممکن، جو ہوتے دیکھا، کرشمۂ خاص آرزو کا
سرِ سماعت پہنچتے پایا ہے ہم نے ملہار آب جو کا
برا ہے جو، گر نہیں عمل سے، توہے زباں سے لبوں پہ لایا
چھُپانے پایا، کسی بھی حیلے سے وہ، تعفّن نہ اپنی خو کا
ہمارے ہاں کی عدالتیں بھی عجیب تاریخ لکھ رہی ہیں
سجا رہی ہیں جو نقشِ اِیثار، دار پر نو بہ نو لہو کا
کہیں سے الٹو، کہیں سے پرکھو، بس ایک ایلبم فساد کی ہے
ہمارا جیون بھی جیسے قصّہ ہے اپنے ہاں کی ہر اک بہو کا
وہی کہ بادِ صبا کا جھونکا سا، پاس آتے ہی کھو گیا جو
کبھی ہمیں بھی تو قرب حاصل تھا، لذّتِ مے کے اس سبو کا
جو عمرِ اوّل کا تھی نشانہ، قرارِ جاں کا تھی جو ٹھکانہ
ہمارا جانا، چھٹا ہے کب سے، گلی میں اس کی، کبھو کبھو کا
ہوئی نہیں محو لوحِ جاں سے، وہ دیدِ اوّل کسی کی ماجدؔ
وہ عید کے چاند کا سا منظر ہے جو نگاہوں میں روبرو کا
٭٭٭
مری خموشی نہیں ہے، گویا مزار ہے حرف آرزو کا۔ علامہ محمد اقبال
٭٭٭٭
*نذرِ شاد عظیم آبادی
دیکھو چمن کے واسطے صرصر، صبا ہوئی
"قربان اِس علاج کے ! اچھی دوا ہوئی”
ہاں ہاں وہی تو بند جو بوتل نشے کی تھی
بجلی سی دل پہ کوندنے آئی، ہوا ہوئی
سچّے تھے جتنے لوگ وہی دار پر کھنچے
جھوٹوں، چلِتّروں کو کہاں ہے سزا ہوئی
جمہوریت ہے جن سے ہوئی تاجروں کا مال
خلقِ خد سے خلقِ خدا ہے جدا ہوئی
ژالوں کی زد سے تھی جو ہمیں بھی بچا گئی
اک جھونپڑی بھی رہ کی کبھی آسرا ہوئی
محور تھا تتیلوں کا چمن میں کبھی جو تُو
ماجدؔ تری وہ شوخ نگاہی ہے کیا ہوئی
٭٭٭
اِک خود بخود جو دل میں خوشی تھی وہ کیا ہوئی۔ شاد عظیم آبادی
٭٭٭٭
*نذرِ الطاف حسین حالی
۱
پڑیں جو آشتی کو درمیاں میں
"ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں”
اداسی شام کی لاگے ہے پھیلی
بہت غوغا ہے اب کے گلستاں میں
توانائی، سدا کی تازگی بھی
بہت اوصاف ہیں جوئے رواں میں
یہ کیسے خوف کا عالم ہے طاری
اٹک جانے لگا ہے دم زباں میں
جواری ہم یہ کس انداز کے ہیں
کہ دیکھیں منفعت اِک اِک زیاں میں
فضا میں منتظر چیلیں اُڑی ہیں
سجا ہے تِیر پھر شاید کماں میں
طراوت اِس میں کب ماجدؔ ملے ہے
بجز گردو یبوست کیا خزاں میں
٭٭٭
مجھے کہنا ہے کچھ اپنی زبان میں۔ الطاف حسین حالی
۲
چاند جیسے ہے تہہِ آب سجھایا جاتا
خود بخود دل میں ہے اِک شخص سمایا جاتا
چاہنے والا تجھے کون ہے مجھ سا کوئی
گُل تجھ ایسا بھی کہاں نِت ہے کھِلایا جاتا
تودۂ برف سیاچن کا ہے اندیشہ بھی
کس سے یہ بوجھ اچانک ہے اُٹھایا جاتا
آدم و حوا تلک سے ہیں خطائیں منسوب
عیب کس کس میں ہے کیا کیا نہیں پایا جاتا
جو بھی جُز خویش ملے غیر کے دسترخواں سے
لقمۂ تر ہو کوئی، ہے وہ گِنایا جاتا
جو بھی فہرست میں تھانے کے ہوں، دبنے والے
کیس ہو کوئی، اُنھیں ہی، ہے دبایا جاتا
٭٭٭
مال مہنگا نظر آتا تو چکایا جاتا۔ الطاف حسین حالی
٭٭٭٭
* نذرِ میر مہدی مجروح
آبلے آب کے خزانے ہیں
کیا خدائی کے کارخانے ہیں
ضو عمل کی ہے، قول کی ہے مدام
جسم تو خاک میں سمانے ہیں
چودھری نے مزارعوں کے لیے
نت بہانے نئے بنانے ہیں
وہ کہ تانے گئے تھے موسیٰ پر
کچھ نشانے بہت پُرانے ہیں
وہ کہ ہارے ہیں، سارے ایسوں نے
اور کیا ؟ دانت ہی دکھانے ہیں
کتنے دجلے ہیں قطرہ قطرہ جو
ہم نے ماجدؔ سخن میں لانے ہیں
٭٭٭
رنگ کچھ اور اُن کو لانے ہیں۔ میر مہدی مجروح
٭٭٭٭
* نذرِ داغ دہلوی
اپنی تاریخ کا اک نقش نیا یاد آیا
شہرِ لاہور میں مینار کھڑا یاد آیا
ڈر کے طوفاں سے جو بھاگا تو نہ کچھ بھی لایا
مجھ کو ایسے میں فقط دستِ دعا یاد آیا
جھانکنا چاہا جو ماضی کے جھروکوں میں کبھی
لہر سا مجھ سے سجن! میل ترا یاد آیا
مانگ جب بھی کسی مہ رُو کی دمکتی دیکھی
اپنے اُس یار کی نگری کا پتا یاد آیا
موج در موج رواں پھر سے ٹھٹک جانے لگی
ڈولتی ناؤ کو پھر جَورِ ہوا یاد آیا
کوئی تقریبِ حسیناں جو مچلتی دیکھی
چیت کی رُت میں بپا رقصِ صبا یاد آیا
٭٭٭
دیکھتا بھالتا ہر شاخ کو صیّاد آیا۔ داغ دہلوی
٭٭٭٭
نذرِ امیر مینائی
کلبلائیں کہ جاں سے جائیں ہم
بات دل کی نہ منہ پہ لائیں ہم
ہے بھنور بھی گریز پا ہم سے
کس کی آنکھوں میں اب سمائیں ہم
ہے تقاضا کہ بات کرنے کو
چھلنیاں حلق میں لگائیں ہم
مہر سے ضو طلب کرے ماجدؔ!
دل ہے وحشی اِسے سدھائیں ہم
٭٭٭
یہ کلیجا کہاں سے لائیں ہم۔ امیر مینائی
٭٭٭٭
* نذرِ حکیم مومن خان مومن
تھی اُدھر نظر میں عجب حیا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
پسِ چشم اِدھر جو سوال تھا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ جو رنگِ کیف تھا جاہ میں، وہ جو ولولہ تھا نگاہ میں
وہ تمھارا بام پہ گھومنا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ جو زینہ زینہ جھکاؤ تھا، وہ جو چشم و لب میں الاؤ تھا
وہ جو چال میں تھا سبھاؤ سا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
تھا جو چاند جھیل کا سامنا، سرِ صحن جھومنا، جھامنا
تھا مجھے تمھارا جو تھامنا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
مرا ایک ایڑی پہ گھومنا، تھا جو مل کے باہمی جھومنا
وہ تمھارا پھول کو چومنا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
٭٭٭
وہی یعنی وعدہ نباہ کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو۔ حکیم مومن خان مومن
٭٭٭٭
نذرِ مرزا اسد اللہ خان غالب
*۱
شگفتِ گل ہے کیا؟ رقص صبا کیا؟
بتا جاناں ! تُو اِن میں ہے بسا کیا؟
چڑھا کر ناک چھوتا ہے جو ہر شے
لکھے گا امتحاں میں لاڈلا کیا؟
پسِ ابرو ہوا جھانکے ہے چندا
حیا داری میں وہ ہم پر کھلا کیا؟
تڑپتے بوٹ جیسےگھونسلوں میں
سسکنے لگ پڑی خلقِ خدا کیا؟
نگاہِ شاہ طرّوں پر لگی تھی
بہ سوئے کمتراں وہ دیکھتا کیا؟
نہیں جب سامنے، جس نے بنائے
نصیبوں کا کریں اس سے گِلا کیا؟
لبوں کو ہے جو لپکا چومنے کا
ہماری اِس میں ہے ماجدؔ خطا کیا؟
٭٭٭
نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا۔ مرزا اسد اللہ خان غالب
دل کے اندر کی ہیں جو ضربات، سہلائیں گے کیا؟
مہرباں جھونکے جو آئے بھی تو کر پائیں گے کیا؟
کر دئے اپنے تلذّذ کو نوالے تک گراں
تخت والے عجز اپنا اور دکھلائیں گے کیا؟
چاند کا گھر میں اُترنا ہو بھلے اعزاز، پر
سر پہ اُتری چاند پر ہم پِیر، اِترائیں گے کیا؟
رہنما صاحب اِنہی کے دم سے ہیں ذِیشان آپ
ہم کہیں گے حالِ خلقت، آپ فرمائیں گے۔۔ ۔۔ کیا؟
پایہ ہائے زر سے قائم تخت پر۔۔ ۔ ظلّ اِلٰہ
اِرتقا پر دھن لٹا دینے سے باز آئیں گے کیا؟
زندگی میں تو مزے دنیا کے کچھ بھائے نہیں
آخرت میں بھی مزے دنیا کے ہی پائیں گے کیا؟
ہو چلی ہیں حرص میں آنکھیں تلک جن کی سفید
جو ازل کے ڈھیٹ ہیں ماجدؔ وہ شرمائیں گے کیا؟
٭٭٭
زخم کے بھرنے تلک ناخن نہ بڑھ جائیں گے کیا۔ مرزا اسد اللہ خان غالب
سفرِ حیات اپنا بڑا لطف دار ہوتا
کسی اِک بدن پہ، اپنا، اگر اختیار ہوتا
نہ حکومتی سلیقے ہمیں آ سکے وگرنہ
یہ جو اب ہے ایسا ویسا، نہ کوئی دیار ہوتا
نہ کجی کوئی بھی ہوتی کسی فرد کے چلن میں
جسے راستی کہیں سب، وہ اگر شعار ہوتا
کبھی گھٹ کے ہم بھی بڑھتے تو بجا ہے یہ ہمیں بھی
کسی چودھویں کے چندا سا بہم نکھار ہوتا
نہ ہُوا کہ ہم بھی کرتے بڑی زرنگاریاں، گر
زرِ گُل سا پاس اپنے زرِ مستعار ہوتا
کبھی رہنما ہمارا نہ بنا یہ قولِ غالب
"اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا”
کوئی ہے کمی جو ماجدؔ ہے ہمیں میں ورنہ اپنا
وہ جو ہیں جہاں میں اچّھے، اُنہی میں شمار ہوتا
٭٭٭
اگر اور جیتے رہتے، یہی انتظار ہوتا۔ مرزا اسد اللہ خان غالب
حشر کیا ہو گا بھَلا جینے کی اِس تدبیر کا
سوچ پر بھی ہے گماں جب حلقۂ زنجیر کا
کس کا یہ سندیس آنکھوں میں مری لہرا گیا
صفحۂ بادِ صبا پر عکس ہے تحریر کا
سنگِ رہ کا توڑنا بھی تھا سَر اپنا پھوڑنا
ہاں اثر دیکھا تو یوں اِس تیشۂ تدبیر کا
ہم نے بھی اُس شخص کو پایا تو تھا اپنے قریب
پر اثر دیکھا نہیں کچھ خواب کی تعبیر کا
ہم تلک پہنچی ہے جو ماجدؔ یہی میراث تھی
فکر غالبؔ کی اور اندازِ تکلّم میرؔ کا
٭٭٭
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا۔ مرزا اسد اللہ خان غالب
ہم نے رانجھے کو بنایا ہے نشانہ تِیر کا
اور وارث شاہؒ نے ناٹک دکھایا ہِیر کا
جانے کیسے ہانپتے جیون بِتائے گی دُلہن
پڑ گیا دُولہے پہ سایہ گر کسی ہمشیر کا
یہ کرشمہ بھی کہیں منڈی سے دُوری کا نہ ہو
شہد کہتے ہیں کہ ہوتا ہے نِرالا دِیر کا
طولِ قامت ناپتے اُس شوخ کا ہم پر کھُلا
ذائقہ کچھ اور ہوتا ہے زَبَر اور زِیر کا
بحر میں جا کر جو کہلائی ہے سونامی کی لہر
ہاں وہ نالہ تھا ہم ایسے ہی کسی دل گیر کا
کج ادائی دے گئی آرائشِ گیسو اُسے
ہاں یہی چرچا سُنا ہے اُس کے ٹیڑھے چِیر کا
وہ کہے، ہو تازگی تو رُوئے جاناں کی سی ہو
اور داعی ہے تُو ماجدؔ شعر میں تاثِیر کا
٭٭٭
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا۔ مرزا اسد اللہ خان غالب
۶
بہت مشکل ہے ملنا ہم سے اُس حُسنِ گریزاں کا
بہم ہو بھی تو ہوتا ہے ترشح ابرِ نیساں کا
کناروں پر کے ہم باسی، نہ جانیں حال اندر کا
خبرنامہ عجب سا ہو چلا وسطِ گُلستاں کا
اخیرِ عمر، پِیری جس کو کہتے ہیں، کچھ ایسا ہے
شبانِ سرد میں پچھلا پہر جیسے زمستاں کا
بہ دوش و سر گھٹائیں ناچتی ہیں جیسے ساون کی
بہ دَورِ نَو بھی درجہ کم نہیں زُلفِ پریشاں کا
بہت پہلے کے دن یاد آ چلے ہیں اپنے ماضی کے
ہُوا جب اُستوار اُس سے کبھی رشتہ رگِ جاں کا
وہیں سے تو ہمیں بھی ہاتھ آیا سخت جاں ہونا
ہمارا بچپنا ہوتا تھا جب موسم کُہِستاں کا
شروعِ عمر ہی سے ہے یہی پیشِ نظر ماجدؔ!
غزل کو چاہیے رُتبہ میّسر ہو دَبِستاں کا
٭٭٭
وہ اک گلدستہ ہے ہم بیخودوں کے طاقِ نسیاں کا۔ مرزا اسد اللہ خان غالب
۷
پھِرا ہے جب سے موسم ٹہنیوں کی بے ردائی کا
سُنا جائے نہ ہم سے شور پتّوں کی دُہائی کا
ہم اُن آبادیوں میں، منتظر ہیں سر چھُپانے کے
نمٹنے میں نہ آئے کام ہی جن کی چُنائی کا
لگاتے کچھ تو جنّت بھی ہمارے ہاتھ آ جاتی
مگر حصہ خدا کے نام کرتے، کس کمائی کا
ہمارے نام تھا منسوب جانے جرم کس کس کا
نہ تھا آساں کچھ ایسا، مرحلہ اپنی صفائی کا
مجھے اک عمر، جس شاطر نے پابندِ قفس رکھا
وُہی اَب منتظم بھی ہے مرے جشن رہائی کا
کہے پیراہنِ بے داغ، بگلے کا یہی ماجدؔ
وہی ہے پارسا دعویٰ جسے ہے پارسائی کا
٭٭٭
بہ خوں غلطیدۂ صد رنگ، دعویٰ پارسائی کا۔ مرزا اسد اللہ خان غالب
ذریعہ جو بھی ہم اشرافیہ کی ہے کمائی کا
نہیں ہے اس میں شامل شائبہ تک ناروائی کا
بہانے منصفی کے بلّیوں کی لے اُڑا روٹی
کیِا کیا فرض بندر نے ادا، حق آشنائی کا
بچھڑ کر اُن سے جیون بھر وہی یادوں میں رہتا ہے
جو پہلو پاس بچّوں کے ہے تھوڑی دلربائی کا
بہت اچّھا ہے جتنی جس کسی کی جس سے بن آئے
پھر اُس کے بعد تو پڑتا سمندر ہے جدائی کا
ہمارے تذکروں سے مسخرے کیا کیا کمائیں گے
بنیں گے کب تلک ہم آپ عنواں جگ ہنسائی کا
خودی کا فلسفہ اقبال کا کب رنگ لائے گا
گرے گا ہاتھ سے شاہوں کے کب کاسہ گدائی کا
ہمارے قائدِ اعظم کہیں یہ جا نشینوں سے
ادا کر کے دکھایا کیا سے کیا حق رہنمائی کا
عجب نسخہ عمل میں آ گیا ہم میں سے بعضوں کے
پلیدی نیّتوں میں، منہ پہ دعویٰ پارسائی کا
پرخچے کتنے جسموں کے نجانے جا اُڑاتا ہے
جہاں بھی جا کے پہنچا ہاتھ دہشت کے قصائی کا
جو ماجدؔ کر کے چوری مخبروں سے مار کھا بیٹھے
اُنھیں درپیش ہے اب مرحلہ کیا کیا صفائی کا
٭٭٭
بہ خوں غلطیدۂ صد رنگ، دعویٰ پارسائی کا۔ مرزا اسد اللہ خان غالب
پینچیاں بانٹے ہے جو گر مہرباں ہو جائے گا
وہ کہ ہے جو خاکِ پا وہ آسماں ہو جائے گا
کُل کمائی گھر کے چو گے پر ہی گر لگتی رہی
جو بھی گھر ہے چیل ہی کا آشیاں ہو جائے گا
دور میں نا اہل مختاروں کے تھا کس کو پتہ
سیب جیسا ہی ٹماٹر بھی گراں ہو جائے گا
نازِ قامت جس کو ہوخود وقت اُس سے یہ کہے
دیکھ تیرا سروِ قامت بھی کماں ہو جائے گا
دہشتیں خانہ بہ خانہ یہ خبر پھیلا چکیں
امن کا اک اک پنگھوڑا بے اماں ہو جائے گا
عشق کی رُتج اچکی پھر بھی یہ ماجدؔ دیکھ لے
"دوستی ناداں کی ہے جی کا زیاں ہو جائے گا”
٭٭٭
بے تکلف، داغِ مہ مہرِ دہاں ہو جائے گا۔ مرزا اسد اللہ خان غالب
غاصبِ تخت نہ جو صاحبِ ایقاں نکلا
ہو کے معز ول حدِ ملک سے عریاں نکلا
لَوٹ کر پر بھی نشیمن میں نہ اس کے پہنچے
گھونسلے سے جو پرندہ تھا پرافشاں نکلا
ہاں وہی کچھ ہی تو رکھتے ہیں سیاست داں بھی
ہیروئن والوں کے گھر سے ہے جو ساماں نکلا
عدل خواہی کی اذاں کیسے لبوں پر آتی
شہر کا شہر ہی جب شہرِ خموشاں نکلا
فیصلے اور کے توثیق تھی جن پر اس کی
وہ بھی انصاف کے حجلوں سے پشیماں نکلا
تھا بدن جس کا ہمیں حفظ کتابوں جیسا
ہم سے وہ شخص بھی اب کے ہے گریزاں نکلا
تیرا ہر بیت ہے کھنگال کے دیکھا ہم نے
آج کا عہد ہی ماجدؔ ترا عنواں نکلا
٭٭٭
قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا۔ مرزا اسد اللہ خان غالب
۱۱
حکمِ حاکم ہی تھا عادل کی رضا ہو جانا
طے تھا پہلے سے سجنوا کو سزا ہو جانا
کل جو قاتل تھے سیاست میں ہوئے مِیت اب کے
’باور آیا ہمیں پانی کا ہوا ہو جانا‘
سارے ماں باپ تھے بچّوں سے بچھڑنے والے
تھا اُدھر پھول کا خوشبو سے جدا ہو جانا
ہو چلا کام جو برسوں کا دنوں میں تو لگا
قید سے قبل ہی قیدی کا رِہا ہو جانا
"ہاں” کا اک لفظ دُلہنیا سے جو کہلایا گیا
تھا دُلہنیا پہ غلامی کا روا ہو جانا
عمر کی شامِ تلک بھُولے نہ بھُولا اب تک
اُس بُتِ شوخ کے پیکر کی قبا ہو جانا
ہے مہا پاپ تو ماجدؔ ہے سرِ ارض یہی
دیکھتے دیکھتے نیّت کا بُرا ہو جانا
٭٭٭
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا۔ مرزا اسد اللہ خان غالب
برق و رعد کے ہاتھوں باندھ کر سماں اپنا
اور ابھی دکھائے گا زور آسماں اپنا
دیکھ لو، پھُنکا آخر، کب تلک بچا رہتا
زد پہ سازشوں کی تھا یہ جو آشیاں اپنا
آنکھ آنکھ اُترا ہے زور ژالہ باری کا
کھیتیاں اُجاڑ اپنی، گاؤں بے نشاں اپنا
خود نہ اُس سے کہہ پائے گر تو اُس پہ کیا کھُلتا
رہ گیا وہ ہکلاتا تھا جو ترجماں اپنا
سچ کہیں تو نِت کا ہے المیہ ہمارا یہ
گھر کے راج پر جھپٹے ہے جو پاسباں اپنا
وہ بھی دل میں رکھتی تھیں ساجنا ہمیں سا جو
کرب وُہ نہ کہہ پائیں ہم سے، تتلیاں اپنا
ماں نے جو بھی چاہا تھا ہم نے کر دکھایا ہے
فیضِ عزم سے ماجدؔ! نطق ضَو فشاں اپنا
٭٭٭
بن گیا رقیب آخر، تھا جو راز داں اپنا۔ مرزا اسد اللہ خان غالب
مجتمع ہونا، بہ یک وقت پریشاں ہونا
بادلوں سا ہے میّسر مجھے ذیشاں ہونا
زندگی میں کبھی وہ دن بھی فراہم تھے مجھے
بیٹھنا بِیچ میں بچّوں کے، گُلِستاں ہونا
میں ہُوں شہکارِ خدا، میں نہ خدا کہلاؤں
مجھ کو یہ طَور سکھائے مرا انساں ہونا
گاہے گاہے جو سخن میں نہیں حدّت رہتی
طبعِ شاعر کا ہے یہ، مہرِ زمستاں ہونا
زر کہ جو وجہِ بشاشت ہے کہاں اپنا نصیب!
ہے تو قسمت میں فقط، رنجِ فراواں ہونا
وہ کہ ہیں اہلِ وسائل اُنھیں کھٹکا کس کا
ہے اُنھیں ہیچ غمِ جاں، غمِ جاناں ہونا
گاہے گاہے کی خطا ہے مرا خاصہ ماجدؔ!
اور یہ عظمت ہے مری اس پہ پشیماں ہونا
٭٭٭
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا۔ مرزا اسد اللہ خان غالب
جب تک وہ بدن شوق کو ازبر نہ ہوا تھا
وہ معرکۂ عشق تھا جو سر نہ ہوا تھا
جمہور کے ہاتھوں سے چھِنا تخت نہ جب تک
دل آمر و فرعون کا پتّھر نہ ہوا تھا
جب جان پہ بن آئی تو ظالم بھی پکارا
ایسا تو بپا کوئی بھی محشر نہ ہوا تھا
بے داد وہ کرتا رہا ہر داد کے بدلے
جب تک کہ حساب اس کا برابر نہ ہوا تھا
ٹیکسی اسے مِل جائے گی، بی اے جو کرے گا
اعزاز یہ پہلے تو میّسر نہ ہوا تھا
یہ دیس لٹا ہے تو مسیحاؤں کے ہاتھوں
جتنا ہے یہ اب اتنا تو ابتر نہ ہوا تھا
تُو نے تو ہے تب تک کبھی آگے کی نہ ٹھانی
جب تک ترا ماجدؔ کوئی ہمسر نہ ہوا تھا
٭٭٭
اوروں پہ ہے وہ ظلم کہ مجھ پر نہ ہوا تھا۔ مرزا اسد اللہ خان غالب
شہر تو کیا ملک بھی بِن نظم کے بے آب تھا
سارے انگناؤں میں لطفِ آشتی اک خواب تھا
ہم بھی رانجھے کی طرح کہتے یہی پائے گئے
ہائے وہ اُس کا بدن، مخمل تھا جو کمخواب تھا
خلق کے کردار سے جب سے لُٹی تھی راستی
سب شکم پُر تھے مگر دل کا سکوں نایاب تھا
شہ ہُوا جس شخص کو اُس کے جھڑے پر لگ گئے
جو بھی اہلِ تخت تھا ایسا ہی بس سُرخاب تھا
طَے شدہ نظمِ حکومت کوئی بھی رکھتا نہ تھا
اَوج پانے کو جسے دیکھا وہی بے تاب تھا
جو سُجھائے گا نئی راہیں، رہے گا یاد بھی
وہ سخن ہم نے کہا ماجدؔ کہ جو سُخناب تھا
٭٭٭
شعلۂ جوّالہ ہر اک حلقۂ گرداب تھا۔ مرزا اسد اللہ خان غالب
۱۶
ماجدؔ کا پُوچھتے ہو ؟گُنوں میں جو فرد تھا
حق بِین و حق شناس تھا میداں کا مرد تھا
لکھنے لگا تھا کربِ شجر کی حکایتیں
برگانِ سبز میں جو کوئی کوئی زرد تھا
ہم بھی دبک چلے تھے نہ کیا کیا بکنجِ ذات
موسم نگاہِ یار کا جس دن سے سرد تھا
شاید اِسی سبب سے اُسے آئے ہم بھی بیچ
وہ کارنر مکان کہ جو صیدِ گرد تھا
لوگوں کے پیٹ کاٹ کے وہ ایٹمی ہوئے
جن جن کو اہلِ زور سے شوقِ نبرد تھا
نکلا ہوا تھا جیسے برسنے بہ کشتِ سبز
ہم عاشقوں سا ابر بھی صحرا نورد تھا
تعمیرِ ذات کو اُسے درکار تھا یہ گُن
حاکم کو کب عوام کے بچّوں کا درد تھا
٭٭٭
"عشقِ نبرد پیشہ” طلبگارِ مرد تھا۔ مرزا اسد اللہ خان غالب
طرّہ یہی حیات کا بہرِ نمود تھا
آلام ہی کا ذہن میں پل پل ورود تھا
افسوس یہ ہے یہ تو سمجھ ہی سکا نہ میں
شامِل ہر ایک خیر میں میرا وجود تھا
آباد ہم بھی اس رہِ آباد پر ہوئے
کچھ گرد جس کی دین تھی، کچھ شور و دود تھا
ایثار ہی کا درس بڑوں نے دیا مجھے
چاہت شروع ہی سے مرا تار و پود تھا
جیون میں ہاں وہی تو مرے مہرباں رہے
جن کا بزعمِ خویش وطیرہ ہی جود تھا
پلّے پڑی رہی ہے انہی کے تمام قوم
تذلیلِ قوم جن کے لیے کھیل کود تھا
ماجدؔ سخن جو وقف کیا بھی تو اُن کے نام
پیشہ زِیاں دہی تھا، غرض جن کی سود تھا
٭٭٭
جوں صبح، چاکِ جَیب مجھے تار و پود تھا۔ مرزا اسد اللہ خان غالب
اخلاص ہمرہوں کا بھی حاصِل نہیں رہا
ڈھونڈا بہت ہے پر ہمیں وہ مِل نہیں رہا
سچ بھی تم اِن پہ لاؤ کبھی تو۔۔ ۔ بہ روئے شاہ
جوڑا لبوں کا کیا جو کبھی سِل نہیں رہا
ہاں ہاں وہی کہ جس میں جھلکتا تھا میں کبھی
کیوں ہونٹ پر تمھارے وہ، اب تِل نہیں رہا
ہاں ہاں یہ ہے مرا ہی بدن، سخت جاں ہے جو
کانٹوں پہ بھی گھسٹتے ہوئے چھِل نہیں رہا
اپنے ہی جانے کیسے بکھیڑوں میں کھو گیا
تم پر کبھی نثار تھا جو، دِل نہیں رہا
بیشک سخن ہمارا ہو بادِ صبا مگر
اس سے بھی اس کا غنچۂ دِل، کھِل نہیں رہا
ثابت ہیں اِس میں اب تو برابر کے نور و نار
ماجدؔ یہ جسم اپنا فقط گِل نہیں رہا
٭٭٭
جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا۔ مرزا اسد اللہ خان غالب
کھیل ٹھہرا کسی مجروح کا اِحیا نہ ہوا
اور معالج کئی ایسوں کا مسیحا نہ ہوا
جس کی رگ رگ سے ترشّح ہے پرانے پن کا
یہ کھنڈر سا ہے جو، دِل یہ تو ہمارا نہ ہوا
کِشتِ جابر پہ رتیں اور سے اور آتی گئیں
حق میں اس کے تھا جو چاہا کبھی ویسا نہ ہوا
دستِ منصف سے قلم اور طرف چل نکلا
رفعتِ دار پہ جو طے تھا، تماشا نہ ہوا
ٹیڑھ جو جو بھی تھی اس کی وہ قبولی ہم نے
صرفِ جاں تک سے بھی کجرو سے گزارا نہ ہوا
درجنوں "دیس سنبھالے، کو پھدکتے اترے
پر کسی ایک سے بھی اِس کا مداوا نہ ہوا
جو بھی غاصب ہے بچو اس سے کہ ماجدؔ! اس کی
نیّتِ خاص کسی کا بھی سہارا نہ ہوا
٭٭٭
پھر غلط کیا ہے کہ ہم سا کوئی پیدا نہ ہوا۔ مرزا اسد اللہ خان غالب
ہاں جو فرعون تھا خدا نہ ہوا
جبر ہم پر وگرنہ کیا نہ ہوا
شرم کیا کیا دلائی شیطاں کو
ٹس سے مس وہ مگر ذرا نہ ہوا
جیسا مینار بھی بنا ڈالو
وہ کبھی زیر آشنا نہ ہوا
ماں چھِنی، ماں کی گود سے لیکن
کوئی بچّہ کبھی جدا نہ ہوا
رونا دھونا سدا کا کارِ ثواب
لب کھِلانا مگر روا نہ ہوا
ساتھ تھا اس کا محض دریا تک
بادباں سر کا آسرا نہ ہوا
خود سے ہر چھیڑ لی سبک اس نے
تھا غنی، ہم سے وہ خفا نہ ہوا
جب بھی اترا ہمارے انگناں وہ
تیرہواں روز چاند کا نہ ہوا
جام ہونٹوں پہ رکھ کے کچھ تو انڈیل
یوں تو کچھ قرضِ مے ادا نہ ہوا
آ کے بانہوں میں یوں نہ دور نکل
یہ تو عاشق کا کچھ صِلا نہ ہوا
مجھ سے حاسد نہ چھین پائے تجھے
ماس ناخون سے جدا نہ ہوا
تھا جو چاقو قریبِ خربوزہ
وار اس کا کبھی خطا نہ ہوا
اس سے جو جوڑ تھا نہ ماجدؔ کا
کھنچ گیا گر تو کچھ برا نہ ہوا
٭٭٭
میں نہ اچھا ہوا، برا نہ ہوا۔ مرزا اسد اللہ خان غالب
جس سے لرزاں تھی وُہ ڈر، یاد آیا
شاخ کو، پھر ہے تبر، یاد آیا
حبس سانسوں میں، جہاں بھی اُترا
مُجھ کو ہجرت کا، سفر یاد آیا
چاند تھا جن کا، چراغاں مَیں تھا
پھر نہ وُہ بام، نہ در یاد آیا
زخم سا محو، جو دل سے ٹھہرا
کیوں اچانک، وُہ نگر یاد آیا
کیسی سازش یہ صبا نے، کی ہے
کیوں قفس میں، گلِ ترا یاد آیا
بُوند جب، ابر سے بچھڑی ماجدؔ
مُجھ کو چھوڑا ہُوا گھر، یاد آیا
٭٭٭
دل، جگر تشنۂ فریاد آیا۔ مرزا اسد اللہ خان غالب
ماں کا اور باپ کا گھر یاد آیا
بِیچ صحرا کے شجر یاد آیا
شیر کا لقمۂ تر یاد آیا
اِک ہرن سینہ سپریاد آیا
اُس سے وُہ پہلے پہل کا ملنا
جیسے گنجینۂ زر یاد آیا
سحر سے جس کے نہ نکلے تھے ہنوز
پھر وہی شعبدہ گر یاد آیا
جب بھی بہروپیا دیکھا کوئی
سر بہ سر فتنہ و شر یاد آیا
میر و غالب کی توانا سخنی
ہائے کیا زورِ ہُنر یاد آیا
پڑھ کے ماجدؔ تری غزلیں اکثر
کسی فردوس کا در یاد آیا
٭٭٭
دل، جگر تشنۂ فریاد آیا۔ مرزا اسد اللہ خان غالب
۲۳
برق و باد کو ہم نے یوں جلا بھُنا پایا
گھونسلے میں لوٹے تو گھونسلا جلا پایا
پیار کے لبادے میں گائے دوہ ڈالی ہے
ہم نے کیا سبھوں نے یوں اپنا مدّعا پایا
مُزد کش کسانوں نے بند باندھنے کیا تھے
کھیت کھیت ژالوں نے راستہ کھُلا پایا
اور سب کو رہنے دو پھُول بھی کھِلے جب تو
جس کو چھیڑ کر دیکھا اُس کے با حیا پایا
جو ہُنر بھی آتا تھا وہ دکھا کے بندر نے
حظ اُٹھانے والوں کو بُت بنا کھڑا پایا
جس کو مِل گئی کُرسی، جس کو مِل گئے ٹھیکے
اور اِک محل اُس کا شہر میں اُٹھا پایا
جو ذراسا بھی اُترا تیرے خِطۂ فن میں
اُس نے آخرش ماجدؔ لطفِ بے بہا پایا
٭٭٭
دل کہاں کہ گم کیجیے ؟ ہم نے مدعا پایا۔ مرزا اسد اللہ خان غالب
مجھ سا کوئی نہ مِلا مدح سرا میرے بعد
چاند چہروں کو بڑا فرق پڑا میرے بعد
قدر داں مجھ سا اسے بھی کوئی کم کم ہی ملا
ہاں مکدّر ہوئی آنکھوں میں حیا میرے بعد
تہہ میں اُترا نہ کوئی اصل سبب تک پہنچا
عقدۂ کرب کسی پر نہ کھُلا میرے بعد
ضَو سخن کی مرے، جس جس پہ بھی کھُلنے پائی
جسم در جسم دیا جلتا گیا میرے بعد
جاتا ہو گا کبھی ابلیس بھی گھر تو اپنے
کب اکیلا ہے سرِعرش خدا میرے بعد
اُس نے بھیجے ہیں سدھرنے کو مرے کتنے رسول
کوئی اچّھا نہ خدا کو بھی لگا میرے بعد
کہیں اعراف پہ جھگڑے، کہیں دوزخ سے فرار
کچھ نہ کچھ فتنے ہُوئے ہوں گے بپا میرے بعد
آگ میں پھول تلافی کو کھِلائے ماجدؔ
کبھی مُوسیٰ کو دیا اُس نے عصا میرے بعد
٭٭٭
بارے آرام سے ہیں اہلِ جفا میرے بعد۔ مرزا اسد اللہ خان غالب
ٹی وی پہ ننگِ قوّتِ اظہار دیکھ کر
چونکے نہ بعد میں نیا اخبار دیکھ کر
لمحوں میں جیسے موسم گُل ہم پہ چھا گیا
ہم کھِل اُٹھے گُلاب سے وہ یار دیکھ کر
قبل از سزائے مرگ ہی جاں سے گزر گئے
ہم اپنے ہاں کے عدل کا معیار دیکھ کر
اغیار کی کمک پہ ہیں کیا کیا اُچھل رہے
حکّام، کامیابیِ سرکار دیکھ کر
تڑپے بہت کہ جس نے ہمیں دی حیاتِ نَو
رہبر وہ رشکِ خضر، سرِدار دیکھ کر
لگنے لگا ہے وہ بھی ضرورت کی کوئی شے
گھر گھر میں خلقِ ہِند کے اوتار دیکھ کر
چاہوں یہ میں رہیں نہ یہ دھاگے الگ الگ
تسبیح ہاتھ میں، کہیں زُنّار دیکھ کر
گر سن سکے تو سن مرے دل کے جہاز راں ؟
"لرزے ہے موج مَے تری رفتار دیکھ کر،
پہنچے نہ کوئی دیوتا اصلِ گناہ تک
دھتکارتا ہے وہ بھی گنہگار دیکھ کر
ہر حکمراں فروغِ جہالت پہ خوش رہے
اُلّو بھی مطمئن ہے شبِ تار دیکھ کر
قامت کا ملک ملک کی، تُم ناپ دیکھنا
طُرّہ ملے ہے آہنی ہتھیار دیکھ کر
"بستی میں ٹھُنک گیا ہے یہ کیوں ؟بانس کی طرح،
کہتے تو ہوں گے جھونپڑے، مِینار دیکھ کر
کیا کیا رئیس اَینٹھنے رقبہ نکل پڑے
اُس کے بدن کا حلقۂ پٹوار دیکھ کر
بکھرے ہیں کنکروں سے جو ماجدؔ یہاں وہاں
یاد آئیں کیوں گُہر ترے اشعار دیکھ کر
٭٭٭
جلتا ہُوں اپنی طاقتِ دیدار دیکھ کر۔ مرزا اسد اللہ خان غالب
۲۶
اظہار کو تھا جس کی رعُونت پہ گماں اور
دے دی ہے اُسی حبس نے پیڑوں کو زباں اور
کہتی ہیں تجھے تشنہ شگوفوں کی زبانیں
اے ابر کرم ! کھینچ نہ تُو اپنی کماں اور
ہر نقشِ قدم، رِستے لہو کا ہے مرّقع
اِس خاک پہ ہیں، اہلِ مسافت کے نشاں اور
نکلے ہیں لیے ہاتھ میں ہم، خَیر کا کاسہ
اُٹھنے کو ہے پھر شہر میں، غوغائے سگاں اور
صیّاد سے بچنے پہ بھی، شب خون کا ڈر ہے
اب فاختہ رکھتی ہے یہاں، خدشۂ جاں اور
دیکھیں گے، گرانی ہے زمانے کی یہی تو
سبزے کے کچلنے کو ابھی، سنگِ گراں اور
ماجدؔ وُہی کہتے ہیں، تقاضا ہو جو دل کا
ہم اہلِ سیاست نہیں، دیں گے جو بیاں اور
٭٭٭
کرتے ہیں مَحبّت تو گزرتا ہے گماں اور۔ مرزا اسد اللہ خان غالب
دن خوب بھی آنے کو ہیں گویا کہ یہاں اور
آنکھوں میں بندھا لاگے ہے ماجدؔ کی سماں اور
پلّو کسی بیوہ کا، بکھرتی کوئی دھجّی
ہاتھوں میں غریبوں کے لہکتے ہیں نشاں اور
لیتے ہوئے لگتی ہے نشانہ مرے دل کا
چہرے پہ مری قوسِ قزح کے ہے کماں اور
را توں میں جھلکتے ہیں جو دُولہوں دُلہنوں کے
کچھ روز سے ہیں ذہن میں اپنے بھی گماں اور
یہ حزبِ مخالف ہے کہ انبوہِ حریصاں
گویائی سے اپنی جو کرے اپنا زیاں اور
بجلی جو گئی ہے تو غزل ہونے لگی ہے
"رُکتی ہے مری طبع تو ہوتی ہے رواں اور”
یاور ہی سے ممکن ہے جو ہو پائے کبھی تو
ماجدؔ تری غزلوں سی غزل کوئی کہاں اور
٭٭٭
کرتے ہیں مَحبّت تو گزرتا ہے گماں اور۔ مرزا اسد اللہ خان غالب
محسن کو اہل مسلکِ دیگر کہے بغیر
ہم رہ سکے نہ خیر کو بھی شر کہے بغیر
ہوتے نہ جن کے، جاگنے پائے ہمارے بھاگ
اُن کھیتیوں کو کیا کہیں بنجر کہے بغیر
تا غیر کہہ کے مجھ کو غبی خوش رہا کرے
"سنتا نہیں ہُوں بات مکرّر کہے بغیر”
ہاں جس کا قربِ خاص ہے سونے سا قیمتی
اس شوخ کو کہیں بھی تو کیا؟ زر کہے بغیر
جس نے خدا سے ہٹ کے کیا، جی کو جو لگا
آدم کو ہم بھی کیا کہیں خودسرکہے بغیر
اپنے یہاں یہی تو خرابی ہے جا بہ جا
کمتر بھی خوش نہ ہو کبھی برتر کہے بغیر
شاعر بھی ہے وہ صرف معلّم نہیں حضور!
ماجدؔ کو کیا کہو گے سخنور کہے بغیر
٭٭٭
جانے گا اب بھی تُو نہ مرا گھر کہے بغیر؟۔ مرزا اسد اللہ خان غالب
جتنا کچھ بھی ہے ہمارے لب اظہار کے پاس
لطف مشکل ہی سے پاؤ گے یہ دو چار کے پاس
ہم کہ آدابِ جنوں سے بھی تھے واقف لیکن
کیوں کھڑے رہ گئے اُس شوخ کی دیوار کے پاس
وہ بھی محتاجِ سکوں ہے اُسے کیا عرض کروں
کیا ہے جُز حرفِ تسلی مرے غمخوار کے پاس
مان لیتے ہیں کہ دیوارِ قفس سخت سہی
سر تو تھا پھوڑنے کو مرغِ گرفتار کے پاس
تھے کبھی برگ و ثمر پوشش گلشن ماجدؔ
پیرہن گرد کا اب رہ گیا اشجار کے پاس
٭٭٭
دامِ خالی، قفَسِ مرغِ گِرفتار کے پاس۔ مرزا اسد اللہ خان غالب
اہلِ دل اہلِ نظر اہلِ ہُنر ہونے تک
بِیج کو وقت ہے درکار شجر ہونے تک
پوچھنا چاہو تو اربابِ طرب سے پوچھو
کیا سے کیا چاہیے سُرخاب کا پر ہونے تک
معتقد قیس کے فرہاد کے ہو کر دیکھو
اپنے قدموں میں سجنوا کا نگر ہونے تک
سینہ زوری کوئی برتے کوئی سٹہ بازی
کیا سے کیا منزلیں ہیں صاحبِ زر ہونے تک
یہ تو شاہین ہی جانیں کہ ہے کب تک ممکن
فاختاؤں کا سفر لقمۂ تر ہونے تک
قربِ جاناں کا ہے محدود میّسر آنا
دل کے جل اُٹھنے تلک، آنکھ کے تر ہونے تک
یہ تو ماجدؔ ہی بتائے گا ہے کتنی کتنی
موت سے دست و گریبانی اَمَر ہونے تک
٭٭٭
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک۔ مرزا اسد اللہ خان غالب
میرا ماضی بنے گا حال کہاں
میرے چرکوں کا اندمال کہاں
بادلوں نے فلک کو اوڑھ لیا
ہاں سجائی ہے اس نے شال کہاں
سیر کر دے جو عین پِیری میں
اس نوازش کا احتمال کہاں
محفلیں جن کے نام سجتی تھیں
میر و غالب سے ماہ و سال کہاں
تاپ سے دھوپ کے جلی لاگے
سبز پیڑوں کی ڈال ڈال کہاں
لوگ چندا تلک سے ہو آئے
کام کوئی بھی ہو، محال کہاں
اب تو ماجدؔ ہیں ہم بھی چل نکلے
اب ہے پسپائی کا سوال کہاں
٭٭٭
وہ شب و روز و ماہ و سال کہاں۔ مرزا اسد اللہ خان غالب
اپنے ہاں بھی ختم ہو گی شب پرستی ایک دِن
بستے بستے بس ہی جائے گی یہ بستی ایک دِن
اِس کی بھی قیمت بڑھے، کچھ قدر اِس کی بھی بڑھے
کیا پتہ رہنے نہ پائے خلق سستی ایک دِن
بس اِسی امید پر گزرے کئی دسیوں برس
ہم بھی منوائیں گے آخر زورِ ہستی ایک دِن
بس نہ تھا جن پر، جو قادر تھے، وہ قرضے کھا گئے
رنگ یوں لائی ہماری فاقہ مستی ایک دِن
عزم جو ہم نے اتارا ہے سخن میں، وہ کہے
بالادستی میں ڈھلے گی زیردستی ایک دِن
جن کے قدموں میں پڑے ہیں، ہاں ہم اُن کو کھنگال کر
ڈھونڈھ ہی لیں گے بالآخر وجہِ پستی ایک دِن
جان لے ماجدؔ تری نِت کی دُعاؤں کے طفیل
با مرادی پائے گی خلقت ترستی، ایک دِن
٭٭٭
ورنہ ہم چھیڑیں گے رکھ کر عذرِ مستی ایک دن۔ مرزا اسد اللہ خان غالب
۳۳
حجلے سے واہموں کے نکلتا ہُوں خواب میں
مَیں بھی گھِرا ہُوں جیسے فضائے حباب میں
کیوں سر پہ آ پڑا ہے یہ خیمہ سکون کا
آیا ہے جھول کس کی نظر کی طناب میں
شاید کہیں تو لطف کا دریا رواں ملے
کہسار سر کیے ہیں اِسی اضطراب میں
وہ ابرِ لخت لخت حجابوں کا اور وہ تُو
کیا لذّتیں تھیں مجھ سے ترے اجتناب میں
پیاسی زمیں پہ وہ بھی مجھی سا تھا مہرباں
خُو بُو تھی کچھ مجھی سی مزاجِ سحاب میں
ہر حرف چاہتا تھا اُسی پر رکے رہیں
کیا کیا تھے باب اُس کے بدن کی کتاب میں
انساں تھا وہ بھی میری طرح ہی انا شکار
تھوکا ہے، اس نے بھی مرے منہ پر جواب میں
ماجدؔ قلم کو تُو بھی نمِ دل سے آب دے
نکلی ہیں دیکھ کونپلیں شاخِ گلاب میں
٭٭٭
شب ہائے ہجر کو بھی رکھوں گر حساب میں۔ مرزا اسد اللہ خان غالب
۳۴
بچھڑے جب اُس سے ہم تو بڑے پیچ و تاب میں
چہرے کے پھول رکھ لیے دل کی کتاب میں
میدانِ زیست میں تو بہت تھے دلیر ہم
دور از تضاد پر تھے محبّت کے باب میں
کیا کیا بُرائیاں نہ سہیں جان و دل پہ اور
لوٹائیں نیکیاں ہی جہانِ خراب میں
تازہ نگاہ جس نے کیا ہم کو بار بار
کیا خوبیاں تھیں اُس کے بدن کے گلاب میں
قائم رہا اسی کے سبب خیمۂ حیات
تھا جتنا زور خاک میں اُتری طناب میں
مدّت سے دل مرا ہے جو تاریک کر گیا
آتا ہے چودھویں کو نظر ماہتاب میں
نا اہل ناخداؤں کی ناؤ میں جب سے ہے
ماجدؔ گھری ہے خلقِ خدا کس عذاب میں
٭٭٭
شب ہائے ہجر کو بھی رکھوں گر حساب میں۔ مرزا اسد اللہ خان غالب
ٹھہروں جہاں کہیں بھی پہر دو پہر کو میں
پاؤں نہ بھولنے کبھی طولِ سفر کو میں
تیری قرابتوں کے دیے بال و پر کو میں
کب سے نہیں ترس رہا رخت سفر کو میں
جب سے عطا ہوئی ہے مجھے دولتِ غنا
لاتا نہیں نظر میں کسی تاجور کو میں
کھٹکا ہو اس پہ کیوں کسی بارانِ سنگ کا
دیکھوں جہاں کہیں کسی پھلتے شجر کو میں
یکجا ہوں جس میں عجز و انا و ادائے عدل
پاؤں تو کس طرح کسی ایسے بشر کو میں
جب بھی ملے سفیر کسی ملکِ خاص کا
حسرت سے دیکھتا ہُوں بس اپنے نگر کو میں
اِک اِک کا منتہائے غرض ہے بس اپنی ذات
"پہچانتا نہیں ہُوں ابھی راہبر کو میں”
ماجدؔ شبانِ تار سا کب سے ہُوں منتظر
کب پا سکوں گا حسبِ تمنّا سحر کو میں
٭٭٭
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو مَیں۔ مرزا اسد اللہ خان غالب
جسم در جسم ہے رگ رگ میں بسا، کہتے ہیں
وہ جسے اوّل و آخر کا خدا کہتے ہیں
کسی میدان میں جو جو بھی ہوئے عقدہ کُشا
اُن مسیحاؤں کو، جویائے شفا کہتے ہیں
کاش ہم آپ بھی اُس جیسا کھرا ہو دیکھیں
جنس در جنس جسے سارے کھرا کہتے ہیں
ایسا کہنے میں نہ دے ساتھ تو باطن، ورنہ
ہم ہیں مسجودِ ملائک، یہ کھُلا کہتے ہیں
کچھ تو پاس ایسوں کے ہوتی ہے کوئی اس کی دلیل
قُربِ جاناں کو جو جنّت کی ہوا کہتے ہیں
چشمِ جاناں سے بھی جھلکے تو ہے پرتو اُس کا
جس کو ہم وصفِ حیا، وصفِ خدا کہتے ہیں
کچھ تو ماجدؔ ہے سبب اِس کا وگرنہ، کیسے
شوخ چہروں کا تجھے، مدح سرا کہتے ہیں
٭٭٭
ہوتی آئی ہے کہ اچھوں کو برا کہتے ہیں۔ مرزا اسد اللہ خان غالب
ہم جو مضموں کی ہوا باندھتے ہیں
رخت میں نقدِ بقا باندھتے ہیں
اہلِ فن لفظ و ندا میں دیکھو!
کیسے سپنوں کا لکھا باندھتے ہیں
دل کے مَیلے ہیں جو کھولیں کیسے
جو گرہ اہلِ صفا باندھتے ہیں
جورِ بے طرح سخن میں لائیں
وہ جو زینب کی ردا باندھتے ہیں
وسوسہ دل میں نہ پالیں کوئی
ہم کہ ہر عہد کھُلا باندھتے ہیں
سوداکاری میں اَنا کی پڑ کے
لوگ جسموں کی بہا باندھتے ہیں
جو ہنر ور ہیں نئی نسلوں کے
مٹھی مٹھی میں جلا باندھتے ہیں
وہ کہ موجد ہیں۔۔ درونِ مادہ
نو بہ نو عکس و صدا باندھتے ہیں
زور تن میں ہو تو ہر بات میں ہم
ناروا کو بھی روا باندھتے ہیں
ہو جہاں ذکرِ عقائد اس میں
ہم صنم تک کو خدا باندھتے ہیں
اپنے جیسوں پہ جو ڈھاتے ہیں ستم
اپنے پلّو میں وہ کیا باندھتے ہیں
سینۂ شب میں کرے چھید وہی
ہم کہ جگنو کو دِیا باندھتے ہیں
ہم کبوتر کے پروں میں ماجدؔ
لطفِ یاراں کا صلہ باندھتے ہیں
٭٭٭
ہم بھی مضموں کی ہَوا باندھتے ہیں۔ مرزا اسد اللہ خان غالب
نشیلا، ترا ہر قدم دیکھتے ہیں
سرِدشت آہو کا رم دیکھتے ہیں
سرِ سرو بھی تیری قامت کے آگے
لگے جیسے اندر سے خم دیکھتے ہیں
مناظر جہاں ہوں دل آزاریوں کے
شہِ وقت اُس سمت کم دیکھتے ہیں
ہماری کسی بات سے تو نہیں ہے ؟
یہ کیوں ؟ تیرے پلّو کو نم دیکھتے ہیں
دھُواں دھُول اور شور ہیں عام اِتنے
کہ سانسوں تلک میں بھی سم دیکھتے ہیں
تری آنکھ پر راز افشانیاں ہیں
ترے پاس بھی جامِ جم دیکھتے ہیں
مسلسل ہے ماجدؔ یہ کیوں ژالہ باری
کہ ہر سو ستم پر ستم دیکھتے ہیں
٭٭٭
خیاباں خیاباں اِرم دیکھتے ہیں۔ مرزا اسد اللہ خان غالب
وہ جس پہ کوند گئی اس شجر کو دیکھتے ہیں
زمیں پہ برق کے زورِ ہنر کو دیکھتے ہیں
کوئی تو رُخ ہے نہاں جمگھٹے میں زلفوں کے
سیاہ رات کے انگناں سحر کو دیکھتے ہیں
پیامِ یار پہ پیہم لگے ہیں گوش و نگاہ
کبوتروں کے کھُلے بال و پر کو دیکھتے ہیں
عقاب ٹوٹتے دیکھیں جو فاختاؤں پر
ہم اپنے حق میں روا خیرو شر کو دیکھتے ہیں
ہم اس کے روپ میں ملزم جو واگزار ہوا
نجانے کیوں پسِ انصاف، زر کو دیکھتے ہیں
جو پھڑپھڑائے فضا میں بہ شکل شہ سُرخی
جو رن سے آئے نامہ بر کو دیکھتے ہیں
کبھی نہ اگلا سفر کر سکیں وہ طے ماجدؔ
مآلِ کار جو رنجِ سفر کو دیکھتے ہیں
٭٭٭
کبھی صبا کو کبھی نامہ بر کو دیکھتے ہیں۔ مرزا اسد اللہ خان غالب
۴۰
ہم ثمر دار نہیں لائقِ توقیر نہیں
ہم ہیں معز ول شہوں جیسے فقط پِیر نہیں
سَو ہیں گر ہم تو ہیں ہم میں سے فقط بیس نہال
کون ہے اپنے یہاں آج، جو دل گیر نہیں
موج، دریا سے ہے از خود ہی اچھلتی آئی
پیش دستی میں ہماری کوئی تقصیر نہیں
جس نے بھی لاکھوں کروڑوں سے بڑھا لی پونجی
نام پر اُس کے یہاں کوئی بھی تعزیر نہیں
یاترا جو بھی کسی پینچ نگر کی کر لے
وہ زَبر ٹھہرے ہمیشہ کے لیے، زِیر نہیں
پست سے جو بھی زر و زور سے بالا ٹھہرا
سابقہ اُس کی جو تھی حال کی تصویر نہیں
جو رقابت سے چڑھے دار پہ ماجدؔ صاحب
نام جو اُس کے لگے، اُس کی وہ تقصیر نہیں
٭٭٭
ایک چکّر ہے مرے پاؤں میں زنجیر نہیں۔ مرزا اسد اللہ خان غالب
امدادِ غیب کا ہمیں کوئی گماں نہیں
ہم وہ ہیں جن کے سر پہ کہیں آسماں نہیں
اِتنا تو اُس کے سامنے مشکل نہ تھا کلام
چھالا ہے اب تو جیسے دہن میں زباں نہیں
تیرِ نظر کی چاہ نے ایسا سُجھا دیا
ابرو ہے تیرا سامنے، کوئی کماں نہیں
کم نرخ کر لیے ہیں شہِ شہر نے تو کیا
کم کر لیے ہیں باٹ ہمیں کچھ زیاں نہیں
بولوں میں کھوٹ ہو تو ملیں، راز داں بہت
بولیں کھرا کھرا تو، کوئی ہم زباں نہیں
جب سے ہوس ہوئی اُسے ملبوس شاہ کی
اُس روز سے ہمارا کوئی پاسباں نہیں
ضو بھی ہے اِس میں اور تحّرک بھی ہے غضب
ماجدؔ کا ہے کلام یہ ماہِ رواں نہیں
٭٭٭
اِک چھیڑ ہے وگرنہ مراد امتحاں نہیں۔ مرزا اسد اللہ خان غالب
اٹھتا شباب اور فضا لطفِ نور کی
ماجدؔ بدن تھا اس کا کہ چھاگل سرور کی
جس کی چھنک دھنک ہمیں مد ہوش کر گئی
اور صبر یہ کہ ہم نے وہ چوڑی نہ چور کی
شہکار اِک خدا کا تھا، مل کر جسے لگا
جیسے وہ کیفیت تھی کسی اوجِ طور کی
فتنہ زمیں پہ ہے کہ خرابی فلک پہ ہے
بدلی لگیں ادائیں سحر سے طیور کی
کچھ اور ہم سے ہو نہ سکا یا بھلے ہوا
دعویٰ ہے یہ کہ ہم نے محّبت ضرور کی
تب سے رہا میں اگلے سموں ہی کا منتظر
دیکھی ہے شکل جب سے درختوں کے بور کی
خود رو ہے جس کو دیکھیے، درس اس سے کون لے
ابلیس کو سزا جو ملی تھی غرور کی
اِک اِک ادا ہے آپ کی ماجدؔ! پسندِ دہر
پر شاعری پسند نہیں ہے حضور کی
٭٭٭
قسمت کھلی ترے قد و رخ سے ظہور کی۔ مرزا اسد اللہ خان غالب
۴۳
تُو مُدّعا ہو اور ترا غم ہم سفر ملے
پھر کیوں نہ ہر قدم پہ نئی راہگزر ملے
اَب ہم سے مستیاں وہ، طلب کر نہ اے صبا!
مدّت ہوئی کسی کی نظر سے نظر ملے
حُسنِ حبیب اَب لب و رُخسار تک نہیں
اَب تو جنوں بضد ہے کہ حُسنِ نظر ملے
اِک عمر سے گھرے ہیں اِسی بے بسی میں ہم
تجھ تک اُڑان کو نہ مگر بال و پر ملے
مُطرب! بہ رقص گا، مرے ماجدؔ کی یہ غزل
تجھ سے مرا وہ سروِ چراغاں اگر ملے
٭٭٭
حورانِ خلد میں تری صورت مگر ملے۔ مرزا اسد اللہ خان غالب
۴۴
ماتھے کی سلوٹوں سے ہے اتنا گِلا مجھے
سلجھا نہیں جو بخت کا دھاگا مِلا مجھے
چھابہ بغل میں اور ہے خوانچہ، کنارِ دوش
عمرِ اخیر! اور یہ کیا دے دیا مجھے
اے خاک! آرزو میں نگلنے کی تن مرا
کیسا یہ بارِ خار کشی دے دیا مجھے
ایسا ہی تیرا سبزۂ نورس پہ ہے کرم
کیا بوجھ پتھروں سا دیا اے خدا ! مجھے
کج ہو چلی زبان بھی مجھ کُوز پشت کی
کیا کیا ابھی نہیں ہے لگانی صدا مجھے
اک اک مکاں اٹھا ہے مرے سر کے راستے
کیسا یہ کارِ سخت دیا مزد کا، مجھے
بچپن میں تھا جو ہمدمِ خلوت، ملا کِیا
مکڑا قدم قدم پہ وُہی گھورتا مجھے
میں تھک گیا ہُوں شامِ مسافت ہوا سے پوچھ
منزل کا آ کے دے گی بھَلا کب پتا مجھے
محتاج ابر و باد ہُوں پودا ہُوں دشت کا
لگتی نہیں کسی بھی رہٹ کی دعا مجھے
لاتی ہے فکرِ روزیِ یک روز، ہر سحر
آہن یہ کس طرح کا پڑا کوٹنا مجھے
بارِ گراں حیات کا قسطوں میں بٹ کے بھی
ہر روز ہر قدم پہ جھُکاتا رہا مجھے
اتنا سا تھا قصور کہ بے خانماں تھا میں
کسبِ معاش میں بھی ملی ہے خلا مجھے
حکمِ شکم ہے شہر میں پھیری لگے ضرور
سُوجھے نہ چاہے آنکھ سے کچھ راستا مجھے
میں بار کش ہُوں مجھ پہ عیاں ہے مرا مقام
اِحساسِ افتخار دلاتا ہے کیا مجھے
میری بھی ایک فصل ہے اُٹھ کر جو شب بہ شب
دیتی ہے صبح گاہ نیا حوصلہ مجھے
کہتا ہے ہجرتوں پہ گئے شخص کو مکاں
آ اے حریصِ رزق ! کبھی مل ذرا مجھے
٭٭٭
صبحِ وطن ہے خندۂ دنداں نما مجھے۔ مرزا اسد اللہ خان غالب
٭٭٭٭
*نذرِ شیخ ابراہیم ذوق
ہجراں کی تاپ چڑھنے لگی دو گھڑی کے بعد
"پھر اس بغیر کل نہ پڑی دو گھڑی کے بعد”
آمر کو ہم نے زورِ خودی تو دکھا دیا
اوقات اپنی کھلنے لگی دو گھڑی کے بعد
ڈوبا افق سے دِید کے جب بھی وہ ماہتاب
اشکوں کی لگ گئی ہے جھڑی دو گھڑی کے بعد
ہم تو اجاڑ جیسے اسے کر کے آ گئے
بس بس گئی ہے اس کی گلی دو گھڑی کے بعد
دھچکا سا گو لگا ہمیں ظالم کی موت پر
کھِل کھِل گئی پہ دل کی کلی دو گھڑی کے بعد
جس کھوپڑی میں خلق کی خاطر فتور تھا
وہ کھوپڑی بھی خاک ہوئی دو گھڑی کے بعد
یاروں نے تو اسے بھی تھا بے بس بتا دیا
ماجدؔ کی بھی سنی ہی گئی دو گھڑی کے بعد
٭٭٭
سینہ میں ہو گی سانس اڑی دو گھڑی کے بعد۔ شیخ ابراہیم ذوق
*نذرِ مرزا رفیع سودا
شورِ خدشات نہ مہجور کے اعصاب میں ڈال
"صبح کا وقت ہے ظالم! نہ خلل خواب میں ڈال”
جو ترے کُنجِ لب و چشم میں پوشیدہ ہیں
ہاں وہ شیرینیاں طشتِ دل بے تاب میں ڈال
مرزا و صاحباں کیا کیا تجھے یاد آئیں گے
اور کچھ شوخیاں، اِس شوق کی مضراب میں ڈال
دیکھنا ذہن میں گلزار کھلیں گے کیا کیا
اُس کا چہرہ کبھی نِترے ہوئے تالاب میں ڈال
جان و جاناں سے الگ، رنج و غمِ خلق بھی ہے
اور کچھ یار بھی تُو حلقۂ احباب میں ڈال
خَیر اُن کی بھی جو خُوں، کلک و زباں سے تھُوکیں
باب یہ بھی تو کہانی کے تُو ابو اب میں ڈال
کر گزر نام پہ اُس شوخ کے گستاخی بھی
خود کو ماجدؔ نہ محبت کے اِن اَعراب میں ڈال
٭٭٭
مت یہ آتش کدہ اس قطرۂ سیماب میں ڈال۔ مرزا رفیع سودا
نذرِ میر تقی میر
*۱
حرص کا کینسر خون میں ہے تو غارت شوقِ دوام گیا
"جی کا جانا ٹھہر چکا ہے صبح گیا یا شام گیا”
مستیِ چشم ہواؤں میں، پھولوں میں بدن کی باس ملی
اور سے موسم اور ہُوا جس سمت وہ خوش اندام گیا
جو خبریں منوا چاہے تھا، جب وہ خبریں اُلٹ گئیں
چھِنا توازن قامت و قد سے، ہاتھ سے تھاما جام گیا
بھوت پرِیت سے قصوں سا، بچپن سے بطرزِ اندیشہ
ذہن ذہن جو بیٹھ گیا پھر کب وہ خیالِ خام گیا
سیکھ نہ پائے درس خوشامد، سو یوں تو ہو جانا تھا
جیون بھر کے کام پہ ملنا تھا جو، وہ انعام گیا
اضحیٰ کے تہوار تلک، دکھلایا صبر مکینوں نے
قربانی کے بکرے کا، اک گھر سے تب کُہرام گیا
سانجھ کا سندیسہ ہی تو تھا، جو پہنچا ہے اُس شوخ تلک
خوشبو کا جھونکا سا ماجدؔ جو ہے کنارِ بام گیا
٭٭٭
جی کا جانا ٹھہر رہا ہے صبح گیا یا شام گیا۔ میر تقی میر
۲
آتا ہے یاد اَب بھی سراپا وہ خواب سا
اُترا جو میری تشنہ لبی پر سحاب سا
اقرارِ مُدّعا پہ ٹھٹکتے ہوئے سے ہونٹ
آنکھوں پہ کھنچ رہا تھا حیا کا نقاب سا
اُس کو بھی اَن کہی کے سمجھنے میں دیر تھی
کہنے میں کچھ مجھے بھی ابھی تھا حجاب سا
تھی اُس سے جیسے بات کوئی فیصلہ طلب
تھا چشم و گوش و لب کو عجب اضطراب سا
تھا حرف حرف کیا وہ نگاہوں پہ آشکار
منظر وہ کیا تھا مدِّ مقابل کتاب سا
ماجدؔ نگاہ میں ہے وہ منظر ابھی تلک
جب سطحِ آرزو پہ پھٹا تھا حباب سا
٭٭٭
آنکھیں کھلیں تری تو یہ عالم ہے خواب سا۔ میر تقی میر
۳
ہم سخن کہتے ہیں جس معیار کا
فکر پہنچے گا وہاں دو چار کا
دھجّیاں اُس کی بکھر کر رہ گئیں
جس ورق پر عکس تھا اقرار کا
کھاٹ چھُڑوانے لگی بیساکھیاں
حال اچّھا ہو چلا بیمار کا
ڈھانپنے کو برق پھر عُریانیاں
ناپ لینے آ گئی اشجار کا
آ پڑا پھل اور زباں کے درمیاں
فاصلہ، ماجدؔ ! سمندر پار کا
٭٭٭
عشق بھی اس کا ہے نام اک پیار کا۔ میر تقی میر
۴
ترجماں لرزہ تھا بس بیمار کا
اور پیرایہ نہ تھا اظہار کا
یہ چلن اب نِت کا ہے، اخبار کا
اِک نہ اِک لائے بگولہ نار کا
استطاعت ہو تو پڑھ لو ہر کہیں
رُخ بہ رُخ اِک نرخ ہے بازار کا
تاب کیا کیا دے گیا ابلیس کو
اِک ذرا سا حوصلہ انکار کا
ہم کہ ہیں ہر پل سکوں نا آشنا
ہے یہ فتنہ دیدۂ بیدار کا
ہو سخن ماجدؔ کا یا خلقِ خُدا
حال مندا ہے ہر اِک شہکار کا
٭٭٭
عشق بھی اس کا ہے نام اک پیار کا۔ میر تقی میر
۵
شاہیں پہ بندھ رہا تھا نشانہ، کمان کا
خیمہ مگر اُڑا کسی چڑیا کی جان کا
آئے گی کب، کہاں سے، نجانے نمِ یقیں
ہٹتا نہیں نظر سے بگولا گمان کا
اونچا اُڑا، تو سمتِ سفر کھو کے رہ گئی
رُخ ہی بدل گیا، مری سیدھی اُڑان کا
کیا جانیے، ہَوا کے کہے پر بھی کب کھلے
مشتِ خسیس سا ہے چلن، بادبان کا
ہم پَو پھَٹے بھی، دھُند کے باعث نہ اُڑ سکے
یوں بھی کھُلا کِیا ہے، عناد آسمان کا
ماجدؔ نفس نفس ہے گراں بار اِس طرح
دورانیہ ہو جیسے کسی امتحان کا
٭٭٭
دیکھا تو اور رنگ ہے سارے جہان کا۔ میر تقی میر
۶
دینے لگا ہے یہ بھی تأثر کمان کا
کیا کیا سلوک ہم سے نہیں آسمان کا
اُس کو کہ جس کے پہلوئے اَیواں میں داغ تھا
کیا کیا قلق نہ تھا مرے کچّے مکان کا
اپنے یہاں وہ کون سا ایسا ہے رہنما
ٹھہرا ہو جس کا ذِکر نہ چھالا زباں کا
آخر کو اُس کا جس کے نوالے تھے مِلکِ غیر
رشتہ نہ برقرار رہا جسم و جان کا
چاہے سے راہ سے نہ ہٹے جو نہ کھُر سکے
ماجدؔ ہے سامنا ہمیں ایسی چٹان کا
٭٭٭
دیکھا تو اور رنگ ہے سارے جہان کا۔ میر تقی میر
۷
رُخ موڑ دے گا تُند ہوا سے اُڑان کا
ہم پر ہے التفات یہی آسمان کا
کچھ اس طرح تھی ہجر کے موسم کی ہر گھڑی
جیسے بہ سطحِ آب تصوّر، چٹان کا
موسم کے نام کینچلی اپنی اُتار کر
صدقہ دیا ہے سانپ نے کیا جسم و جان کا
کس درجہ پر سکون تھی وہ فاختہ جسے
گھیرے میں لے چکا تھا تناؤ کمان کا
کس خوش دَہن کا نام لیا اِس نے بعد عمر
ٹھہرا ہے اور ذائقہ ماجدؔ زبان کا
٭٭٭
دیکھا تو اور رنگ ہے سارے جہان کا۔ میر تقی میر
۸
وہ رنگ اپنے سخن میں ہے استعاروں کا
کہ جیسے عکس پڑے جھیل میں ستاروں کا
گلی سے جسم کنول سا نظر پڑا تھا جہاں
گزشتہ رات وہاں جمگھٹا تھا کاروں کا
رمِ حیات کہ بیساکھیوں میں اُترا ہے
کسی کو زعم دکھائے گا کیا سہاروں کا
ورق ورق پہ لکھا حال یُوں سفر کا لگے
گماں ہو خاک پہ جیسے لہو کی دھاروں کا
کھُلے نہ ہم پہ کہ ماجدؔ ہمارے حق میں ہی
رہے ہمیشہ گراں کیوں مزاج یاروں کا
٭٭٭
ہوا نہ گور گڑھا اُن ستم کے ماروں کا۔ میر تقی میر
۹
ذرا سا ہم پہ تھا الزام حق سرائی کا
ہماری سمت ہوا رُخ بھری خدائی کا
ظہورِ آب ہے محتاجِ جُنبشِ طوفاں
کہ اتنا سہل اُترنا کہاں ہے کائی کا
یہ اختلاط کا چرچا ہے تجھ سے کیا اپنا
بنا دیا ہے یہ کس نے پہاڑ رائی کا
وفا کی جنس ہے ہر جنسِ خوردنی جیسے
کہ زر بھی ہاتھ میں کاسہ ہوا گدائی کا
چُکا دیا ہے خیالوں کی زر فشانی سے
جو قرض ہم پہ تھا خلقت کی دلربائی کا
خبر ضرور تھی طوفان کی تجھے ماجدؔ
تری پکار میں انداز تھا دُہائی کا
٭٭٭
نہ پیش آوے اگر مرحلہ جدائی کا۔ میر تقی میر
۱۰
رُتوں سے نئی مات کھانے لگا
شجر پھر ہے پتے لُٹانے لگا
انا کو پنپتے ہوئے دیکھ کر
زمانہ ہمیں پھر سِدھانے لگا
جو تھا دل میں ملنے سے پہلے ترے
وہی ولولہ پھر ستانے لگا
چھنی ہے کچھ ایسی اندھیروں سے نم
کہ سایہ بھی اب تو جلانے لگا
دیا جھاڑ ہی شاخ سے جب مجھے
مری خاک بھی اب ٹھکانے لگا
وُہ انداز ہی جس کے تتلی سے تھے
تگ و دو سے کب ہاتھ آنے لگا
نہ پُوچھ اب یہ ماجدؔ ! کہ منجدھار سے
کنارے پہ میں کس بہانے لگا
٭٭٭
مجھے سیدھیاں وہ سنانے لگا۔ میر تقی میر
۱۱
اے صنم اب اور کس رُت میں ہے تُو آنے لگا
پتا پتا موسمِ گل بھی بکھر جانے لگا
تُو بھی ایسی کوئی فرمائش کبھی ہونٹوں پہ لا
دیکھ بھنورا کس طرح پھولوں کو سہلانے لگا
تُو بھی ایسے میں مرے آئینۂ دل میں اتر
چندرماں بھی دیکھ پھر جھیلوں میں لہرانے لگا
میں بھَلا کب اہل، تجھ سے یہ شرف پانے کا ہُوں
تُو بھَلا کیوں حسن کاہُن، مجھ پہ برسانے لگا
عندلیبوں کو گلاب اور تو مجھے مل جائے گا
موسم گل، دیکھ! کیا افواہ پھیلانے لگا
٭٭٭
یک رمق جی تھا بدن میں سو بھی گھبرانے لگا۔ میر تقی میر
۱۲
زچ ہوئے پر جو ذرا سا تھا بدل جانے لگا
وہ ستم گر پھر ڈگر پہلی سی اپنانے لگا
بچ کے پچھلے دشت میں نکلے تھے جس کے سِحر سے
پھر نگاہوں میں وہی اژدر ہے لہرانے لگا
کر کے بوندوں کو بہ فرطِ سرد مہری منجمد
دیکھ لو نیلا گگن پھر زہر برسانے لگا
جُود جتلانے کو اپنی شاہ ہنگامِ سخا
عیب کیا کیا کچھ نہ ناداروں کے دِکھلانے لگا
سرخرو اس نے بھی زورآور کو ہی ٹھہرا دیا
حفظِ منصب کو ستم عادل بھی یہ ڈھانے لگا
دل میں تھا ماجدؔ جو سارے دیوتاؤں کے خلاف
اب زباں پر بھی وہ حرفِ احتجاج آنے لگا
٭٭٭
یک رمق جی تھا بدن میں سو بھی گھبرانے لگا۔ میر تقی میر
۱۳
دستِ شفقت کیوں بہ حقِ جور بن جانے لگا
آسماں کیوں ٹوٹ کر نیچے نہیں آنے لگا
کھیت جلنے پر بڑھا کر عمر، اپنے سود کی
کس طرح بنیا، کسانوں کو ہے بہلانے لگا
جانے کیا طغیانیاں کرنے لگیں گھیرے درست
گھونسلوں تک میں بھی جن کا خوف دہلانے لگا
خون کس نے خاک پر چھڑکا تھا جس کی یاد میں
اِک پھریرا سا فضاؤں میں ہے لہرانے لگا
مہد میں مٹی کے جھونکا برگِ گل کو ڈال کر
کس صفائی سے اُسے رہ رہ کے سہلانے لگا
٭٭٭
یک رمق جی تھا بدن میں سو بھی گھبرانے لگا۔ میر تقی میر
۱۴
وہ شخص ہی تو دشت میں صاحب کمال تھا
ہاتھوں میں جس کے تیر، سرِ دوش جال تھا
پائے کسی بھی کنج چمن میں نہ جو پنہ
یہ برگِ زرد بھی کبھی گلشن کی آل تھا
ننگی زمیں تھی اور ہَوا تھی تبر بہ دست
میں تھا اور اِک یہ میرا بدن جو کہ ڈھال تھا
خاکِ وطن پہ گود میں بچّہ تھا ماں کی اور
بیروت کی زمیں پہ برستا جلال تھا
آیا نہ کوئی حرفِ لجاجت بھی اُس کے کام
جس ذہن میں بقا کا سلگتا سوال تھا
جاتا میں جان سے کہ خیال اُس کا چھوڑتا
ماجدؔ یہی تو فیصلہ کرنا محال تھا
٭٭٭
دنبالہ گرد چشم سیاہ غزال تھا۔ میر تقی میر
۱۵
سر پہ سایہ ابر کا گو کم رہا
آنکھ کا آنگن ہمیشہ نم رہا
جس سے کچھ اُمید تھی اُس پیڑ پر
بانجھ پن کا ہی سدا موسم رہا
وہ بھی کیا منظر تھا جس کو دیکھ کر
دل پہ سکتے کا سا اک عالم رہا
برق کا ماجدؔ کبھی صّیاد کا
ایک کھٹکا سا ہمیں پیہم رہا
٭٭٭
دل کے جانے کا نہایت غم رہا۔ میر تقی میر
۱۶
شدّتِ خبط کا یہ تو کوئی عنواں نہ ہُوا
دھجیوں کا ہُوا گُل دان، گریباں نہ ہُوا
تلخیوں کی کوئی حد اور نہ ہے کوئی حساب
بس یہ اِک دل ہے ہمارا کہ پریشاں نہ ہُوا
اِس خرابی کو بھی تم کفر کے لگ بھگ سمجھو
جو بھی ضدّی ہے کیے پر وہ پشیماں نہ ہُوا
مائیں بچّوں سے بچھڑتی ہیں تو روئیں جیسے
یوں تو بادل بھی کبھی پیار میں گریاں نہ ہُوا
باغ کا یوں تو نہ مفہوم بدلتے دیکھا
زردیوں کا ہُوا طوفان، گلستاں نہ ہُوا
نام پیاروں کے رِہا ہوتے پرندے دیکھے
نہ ہُوا گر تو ہمارا کوئی پُرساں نہ ہُوا
تُو نے دی اِس کو لغت اور طرح کی ماجدؔ!
تُجھ سا پہلے تو کوئی شخص غزلخواں نہ ہُوا
٭٭٭
میرا دل خواہ جو کچھ تھا وہ کبھو یاں نہ ہوا۔ میر تقی میر
۱۷
جتنے کمتر ہیں یہ کہتے ہیں، خدا نے کیا کِیا
نفرتوں کی مشق ہی کو کیوں ہمیں پیدا کِیا
روک ڈالے مرغزاروں، پنگھٹوں کے راستے
گرگ نے کیا کیا غزالوں کا نہیں پیچھا کِیا
بچ نکلنے پر بھی اُس کے ظلم سے ہم رو دیے
عمر بھر جو دھونس اپنی ہی تھا منوایا کِیا
کوڑھ سی مجبوریاں تھیں لے کے ہم نکلے جنہیں
نارسائی نے ہمیں کیا کیا نہیں رسوا کِیا
موسموں کے وار اِس پر بھی گراں جب سے ہوئے
پیڑ بھی ماجدؔ ہمِیں سا جسم سہلایا کِیا
٭٭٭
سو بھی رہتا ہُوں یہ کہتا ہائے دل نے کیا کیا۔ میر تقی میر
۱۸
سامنے غیروں کے اپنے یار کو رُسوا کیا
جو کیا ہے صاحبو! اچھا کیا اچھا کیا
رفعتوں کی سمت تھیں اونچی اڑانیں آپ کی
اور میں بے چارگی سے آپ کو دیکھا کیا
آسماں ٹوٹا نہ گر، پھٹ جائے گی خود ہی زمیں
آنگنوں کے حبس نے یہ راز ہے افشا کیا
کل تلک کھُل جائے گا یہ بھید سارے شہر پر
ڈھانپنے کو عیب اپنے تم نے بھی کیا کیا کیا
گو سرِ ساحل تھا لیکن سیل ہی ایسا تھا کچھ
گال اپنے دیر تک ماجدؔ بھی سہلایا کیا
٭٭٭
سو بھی رہتا ہُوں یہ کہتا ہائے دل نے کیا کیا۔ میر تقی میر
۱۹
ناچتی ہیں دُوریاں، انگناؤں میں، پیاروں کے بِیچ
پھُوٹ جب پڑنے لگے، تو آ پڑے یاروں کے بِیچ
بِن گُنوں کے محض رِفعت سے جو وجہِ ناز ہیں
دَب گئی ہے میری کُٹیا کیسے مِیناروں کے بِیچ
لے گئے ہیں دُور شہ کو لوک دانائی سے دُور
ہاں وہی رخنے کہ ہیں اَیواں کی دیواروں کے بِیچ
وہ کہ ہیں زیرِ تشدّد، اور لا وارث بھی ہیں
اُن کے قصّے نِت چھِڑیں شغلاً بھی اخباروں کے بِیچ
جو نہ سُلگے، جو نہ بھڑکے، پر تپاتے تھے بہت
زندگی گزری ہے اپنی اُن ہی انگاروں کے بِیچ
کوئی یوسف ہو سخن کا، چاہے وُہ ماجدؔ ہی ہو
کیا پتہ وجہِ رقابت ہو وہ مہ پاروں کے بِیچ
اب سے ماجدؔ ٹھان لے، اُس کے سِوا کچھ بھی نہ کہہ
جونسا تیرا سخن شامل ہو شہکاروں کے بِیچ
٭٭٭
جو کہوں میں کوئی ہے میرے بھی غمخواروں کے بیچ۔ میر تقی میر
۲۰
خاموشیوں میں ڈوب گیا ہے، گگن تمام
لو کر چلے ہیں، سارے پرندے، سخن تمام
وہ خوف ہے، کہ شدّتِ طوفاں کے بعد بھی
دبکے ہوئے ہیں باغ میں، سرو و سمن تمام
وُہ فرطِ قحطِ نم ہے کہ ہر شاخ ہے سلاخ
پنجرے کو مات کرنے لگا ہے، چمن تمام
کس تُندیِ پیام سے بادِ صبا نے بھی
فرعون ہی کے، سیکھ لیے ہیں چلن تمام
ماجدؔ یہ کس قبیل کے مہتاب ہم ہوئے
لکّھے ہیں، اپنے نام ہی جیسے گہن تمام
٭٭٭
دفتر لکھے گئے نہ ہوا پر سخن تمام۔ میر تقی میر
٭۲۱
صدیوں سے منصفی کی ہیں طالب وہ ناریاں
لکھی گئی ہیں جن کے نصیبوں میں خواریاں
سوتے ملیں یہ دن کو بھی ہر کار گاہ میں
مشرق کا وصفِ خاص ہیں غفلت شعاریاں
عرفانِ حق کا درس دلانے کو ہیں بہت
سجتی ہیں اِک پلین میں جتنی سواریاں
مانندِ گُل کلامِ ملائم کی اوس سے
کیا کیا اُداس صورتیں ہم نے نکھاریاں
بہروپ بھر کے ہم سے شرف جُو ہوئے تھے جو
دکھلائیں شاطروں نے عجب ہوشیاریاں
فتحِ اَنا پہ تھیں جو بہائی گئیں یہاں
کب بھولتی ہیں سُرخ لہو کی وہ دھاریاں
٭٭٭
جاتی ہیں لامکاں کو دل شب کی زاریاں۔ میر تقی میر
۲۲
ساعت وصالِ یار کی یوں ہے نگاہ میں
جیسے معاً کہیں سے اضافہ ہو جاہ میں
اُترے تھی صحنِ شوق میں جو بامِ یار سے
تھا کیا سرُور اُس نگہِ گاہ گاہ میں
دیکھا نہ زندگی میں پھر ایسا کوئی نشیب
کیا دلکشی تھی اُس کے زنخداں کے چاہ میں
کیا پھر سے رَخشِ قلب و بدن بے عناں ہُوا
ہے کھلبلی سی کیوں ؟ یہ جنوں کی سپاہ میں
آمر پھٹا حباب سا جا کر فضا کے بیچ
دیکھا ہے یہ اثر بھی خلائق کی آہ میں
اِیندھن بِنا رواں کوئی پہیّہ نہ ہو سکا
تھا بے رسد جو رہ گیا آخر کو راہ میں
اچّھا ہُوا جو اِس سے ہو ماجدؔ بچے رہے
آخر دھرا ہی کیا ہے فقط واہ واہ میں
٭٭٭
پر ایک حیلہ سازی ہے اس دست گاہ میں۔ میر تقی میر
۲۳
روز و شب ہے یہ کیا ملال ہمیں
کس کا رہنے لگا خیال ہمیں
پھر کوئی شوخ دل کے درپے ہیں
اے غمِ زندگی سنبھال ہمیں
تیغ دوراں کے وار سہنے کو
ڈھونڈنی ہے کوئی تو ڈھال ہمیں
شہ، پیادوں سے جس سے مر جائیں
جانے سُوجھے گی کب وہ چال ہمیں
کسمساتا ہے جسم جس کے لیے
ملنے پایا نہ پھر وہ مال ہمیں
بار شاخوں سے جھاڑ کر ماجدؔ
گرد دیتے ہیں ماہ و سال ہمیں
٭٭٭
یوں نہ کرنا تھا پائمال ہمیں۔ میر تقی میر
۲۴
پیالوں میں امرت کے سم دیکھتے ہیں
یہ کیسا ستم اب کے ہم دیکھتے ہیں
کرشمہ یہ کس حرص کے گھاٹ کا ہے
کہ شیر اور بکری بہم دیکھتے ہیں
یہ کیا دور ہے جس کے پہلو میں ہم تم
ہر اک آن تازہ جنم دیکھتے ہیں
لٹی نم زباں کی تو کس عاجزی سے
فضاؤں کی جانب قلم دیکھتے ہیں
چلیں تیر کھانے پہ بھی ناز سے جو
ہم اُن ہی غزالوں کا رم دیکھتے ہیں
جدھر بے بسی کے مناظر ہوں ماجدؔ !
خداوند اُس سمت کم دیکھتے ہیں
٭٭٭
نہ پوچھو جو کچھ رنگ ہم دیکھتے ہیں۔ میر تقی میر
۲۵
تسکینِ قلب جس سی، کسی میں کہیں نہیں
میرے حسیں سا، اور کوئی بھی حسیں نہیں
ہاں ہاں رہے وہ میری رگِ جاں سے بھی قریب
ہے کو نسا پہر کہ وہ دل کے قریں نہیں
اُس کے لبوں سے لب جو ہٹیں تو کھُلے یہ بات
اُس کے لبوں سی مَے بھی نہیں، انگبیں نہیں
ابر وہیں اُس کے، آنکھ کا اُس کی خُمار الگ
صد رنگ اُس کی شکل سا کوئی نگیں نہیں
ہر شب ہیں جس کے رُوئے منوّر کے رنگ اور
جی! چاند تک بھی اُس سا درخشاں جبیں نہیں
اُس کی قرابتوں کے مضامیں جُدا جُدا
ہاں سچ ہے اُس سی کوئی غزل کی زمیں نہیں
ماجدؔ ہیں جس کی خلوتیں تک مجھ پہ واشگاف
اُس جانِ جاں سے آنکھ چُراؤں ؟؟ نہیں نہیں
٭٭٭
اس غم کدے میں آہ دل خوش کہیں نہیں۔ میر تقی میر
۲۶
ٹہنی سے جھڑ کے رقص میں آیا، ادا کے ساتھ
پّتے نے یوں بھی، پریت نبھائی ہوا کے ساتھ
وُہ بھی بزعمِ خویش ہے، کیا کُشتۂ وفا
چل دی ہے مغویہ جو، کسی آشنا کے ساتھ
خم ہے جو سر تو، کاسۂ دستِ دُعا بلند
کیا کچھ ہے لین دین ہمارا، خُدا کے ساتھ
جن کے سروں کو ڈھانپ کے، ہم تم ہیں سرخرو
درکار جھونپڑے بھی اُنھیں ہیں، رِدا کے ساتھ
ژالوں نے جب سے، کھِلتے شگوفے دیے بکھیر
ماجدؔ نجانے کد ہے مجھے کیوں، صبا کے ساتھ
٭٭٭
جیتے ہیں وے ہی لوگ جو تھے کچھ خدا کے ساتھ۔ میر تقی میر
۲۷
خامیاں اِس میں نہ اب اور بھی اِیزاد کرو
تختِ جمہور ہے وِیراں اِسے آباد کرو
وہ کہ جو برحق و شفّاف ہے جگ میں سارے
دیس میں ووٹ کی پرچی وُہی ایجاد کرو
الفتِ ملک کے پَودے کو کہو حصّۂ جاں
پرورش اُس کی بھی تم صورتِ اولاد کرو
خیر سے یہ جو ہے چُنگل میں تمھارے آئی
یہ جو محبوس ہے جَنتا اِسے آزاد کرو
قبر پر جس کی مجاور بنے بیٹھے ہو یہ تم
تھا چلن اُس کا جو شاہو، وہ چلن یاد کرو
دیس ہے لُوٹ نشانہ، تو خزانہ ہے بدیس
اِس نشانے کو نہ اب اور بھی برباد کرو
یہ نکالی ہے جو قامت، قدِ شمشاد ایسی
اور بھی بالا نہ تم یہ قدِ شمشاد کرو
کرب کی کھائی سے اب نکلو گے کیسے لوگو
چیخ کر دیکھو، چنگھاڑو، بھلے فریاد کرو
٭٭٭
ہم فراموش ہوؤں کو بھی کبھو یاد کرو۔ میر تقی میر
۲۸
مہک ہو یا میانِ لب فغاں ہو
کسی پہلو تو ذکرِ گل رُخاں ہو
زباں سے کُچھ سوا لطفِ بدن ہے
سراپا تم حریر و پرنیاں ہو
تمھارے حق میں کیا جانوں کہوں کیا
سُرورِ چشم ہو تم لطفِ جاں ہو
لپک کر لیں جسے پانی کی لہریں
کنارِ آب وہ سروِ رواں ہو
مرے افکار کی بنیادِ محکم
مرے جذبات کی ناطق زباں ہو
کبھی ماجدؔ کے حرفوں میں بھی اُترو
بڑی مُدّت سے تنہا ضو فشاں ہو
٭٭٭
ابھی کیا جانیے یاں کیا سماں ہو۔ میر تقی میر
۲۹
جھُلسے بدن کو گاہ نمو آشنا کرے
کیا کیا سلوک ہم سے چمن کی ہوا کرے
جاؤں درِ بہار پہ کاسہ بدست میں
ایسا تو وقت مجھ پہ نہ آئے خدا کرے
ہم کیوں کریں دراز کہیں دستِ آرزو
اپنی بلا سے کوئی مسیحا ہُوا کرے
ہاں ہاں مری نگاہ بھی سورج سے کم نہیں
آنکھوں میں کس کی دم کہ مرا سامنا کرے
ہاں ہاں مجھے ضیائے تخیّل عطا ہوئی
ایسا کوئی ملے بھی تو اِس دل میں جا کرے
ماجدؔ یہ طرزِ حُسنِ بیاں اور یہ رفعتیں
دل اس سے بڑھ کے اور تمنّا بھی کیا کرے
٭٭٭
افسوس ہے جو عمر نہ میری وفا کرے۔ میر تقی میر
۳۰
کیوں خفا ہیں ہم ابنِ آدم سے
پوچھئے گا نہ بات یہ ہم سے
ہم اور اُس سے صفائیاں مانگیں
باز آئے ہم ایسے اودھم سے
اب تو ہے جاں کا بھی زیاں اِس میں
نشّۂ درد کم نہیں سم سے
جب سے اُبھرے نشیب سے ہم بھی
لوگ رہتے ہیں ہم سے برہم سے
کوئی خواہش بھی لَو نہ دے ماجدؔ
ہو گئے سب چراغ مدّھم سے
٭٭٭
دل نے پہلو تہی کیا ہم سے۔ میر تقی میر
نظر میں کسے ہم بسا کر چلے
کہ رخشِ تمنّا ہوا کر چلے
ہمارا یہی معرکہ کم نہیں
بکوئے ستم سر اٹھا کر چلے
نہ قابو میں آئے کبھی شیطنت
یہ ہم کس طرف منہ اٹھا کر چلے
وہی ایک بازی تھی بس آخری
سبھی کشتیاں جب جلا کر چلے
نظر میں نہ کیوں عرش تک بھی جچے
یہ کس شوخ کو مدّعا کر چلے
تعاون تھا درکار بس ذہن کا
ہر اِک درد کی ہم دوا کر چلے
لغت ہم نے ماجدؔ نکالی نئی
سخن میں یہی انتہا کر چلے
٭٭٭
میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے۔ میر تقی میر
۳۲
وہ برگ کہ جھڑتا ہے اِس راز کو کیا جانے
کیوں حق میں ہَوا اُس کے یہ ظلم روا جانے
جس بِل سے ڈسا جائے جائے یہ اُدھر ہی کیوں
پوچھے یہ وہی دل سے جو طرزِ وفا جانے
آتے ہوئے لمحوں کی مُٹھی میں شرارے میں
یا اشک ہیں خوشیوں کے، کیا ہے، یہ خدا جانے
ہونٹوں سے فلک تک ہے پُر پیچ سفر کیسا
یہ بات تو میں سمجھوں یا میری دُعا جانے
بھرنا نہ جنہیں آئے اُن ہجر کے زخموں کو
کیوں چھیڑنے آتی ہے پنجرے میں ہوا جانے
ہر روز جلے جس میں ماجدؔ اُسی آتش سے
ہر شخص کے سینے کو ویسا ہی جلا جانے
٭٭٭
کیا جانیے کیا ہو گا آخر کو خدا جانے۔ میر تقی میر
۳۳
جو مرحلۂ زیست ہے پہلے سے کڑا ہے
کیا جُرم نجانے دِلِ وحشی نے کیا ہے
جو آنکھ جھکی ہے ترے سجدے میں گرے ہے
جو ہاتھ تری سمت اُٹھا، دستِ دُعا ہے
اُس درد کا ہمسر ہے ترا پیار نہ تُو ہے
تجھ سے کہیں پہلے جو مرا دوست ہوا ہے
آتا ہے نظر اور ہی اَب رنگِ گلستاں
خوشبُو ہے گریزاں تو خفا موجِ صبا ہے
دل ہے سو ہے وابستۂ سنگِ درِ دوراں
اور اِس کا دھڑکنا ترے قدموں کی صدا ہے
ماجدؔ ہے کرم برق کا پھر باغ پہ جیسے
پھر پیڑ کے گوشوں سے دھواں اُٹھنے لگا ہے
٭٭٭
تب دل کے تئیں خوگر اندوہ کیا ہے۔ میر تقی میر
۳۴
بانجھ ہے برکھا پون، آنکھوں کا موسم اور ہے
خُشکیاں اپنے یہاں کی اور ہیں، نم اور ہے
خون میں اُترے فقط، گمراہی افکار سے
دی نہ جائے اور جاں لیوا ہو جو، سَم اور ہے
نا توانوں کے کوائف، جام میں کر لے کشید
ہم ہوئے جس عہد میں، اِس عہد کا جم اور ہے
چیت کی رُت میں، غزالوں کے بدن کی شاعری
اور ہے، اور خوف میں اُلجھا ہوا رم، اور ہے
میں بھی دے بیٹھا ہُوں دل ماجدؔ، مگر یہ جان کر
ابروؤں کا اور ہے، دیوار کا خم اور ہے
٭٭٭
یاں تلف ہوتا ہے عالم واں سو عالم اور ہے۔ میر تقی میر
۳۵
جو شخص بھی ہم سے کوئی اقرار کرے ہے
پہلے سے بھی بڑھ کر کہیں بیزار کرے ہے
وُہ سُود بھی ذمّے ہے ہمارے کہ طلب جو
درباں تری دہلیز کا ہر بار کرے ہے
ممکن ہی کہاں بطن سے وُہ رات کے پھُوٹے
چہروں کو خبر جو سحرآثار کرے ہے
دیتے ہیں جِسے آپ فقط نام سخن کا
گولہ یہ بڑی دُور تلک مار کرے ہے
ہر چاپ پہ اٹھُ کر وُہ بدن اپنا سنبھالے
کیا خوف نہ جانے اُسے بیدار کرے ہے
پہنچائے نہ زک اور تو کوئی بھی کسی کو
رُسوا وُہ ذرا سا سرِ بازار کرے ہے
کس زعم میں ماجدؔ سرِ دربار ہمیں تُو
حق بات اگلوا کے گنہگار کرے ہے
٭٭٭
اب دیکھوں مجھے کس کا گرفتار کرے ہے۔ میر تقی میر
۳۶
پہنچے بہ کوئے دل کہ نظر سے گزر گئے
رنگینیاں بکھیر گئے تم جدھر گئے
حاصل تجھے ہے تیرے قدر و رُخ سے یہ مقام
اور ہم بزورِ نطق دلوں میں اُتر گئے
آیا جہاں کہیں بھی میّسر ترا خیال
نِکلے دیارِ شب سے بہ کوئے سحر گئے
جن کے چمن کو تُو نے بہارِ خیال دی
ماجدؔ ترے وہ دوست کہاں تھے کدھر گئے
٭٭٭
بس اے تب فراق کہ گرمی میں مر گئے۔ میر تقی میر
۳۷
سب سرحدوں سے شوق کی ہم پار ہو گئے
تُجھ سے ملے تو ابرِ گہر بار ہو گئے
ہر جنبشِ بدن کے تقاضے تھے مختلف
جذبے تمام مائلِ اظہار ہو گئے
زندہ رہے جو تُجھ سے بچھڑ کر بھی مُدّتوں
ہم لوگ کس قدر تھے جگر دار ہو گئے
اپنے بدن کے لمس کی تبلیغ دیکھنا
ہم سحرِ آذری کے پرستار ہو گئے
دو وقت، دو بدن تھے، کہ جانیں تھیں دو بہم
رستے تمام مطلعِٔ انوار ہو گئے
ماجدؔ ہے کس کا فیضِ قرابت کہ اِن دنوں
پودے سبھی سخن کے ثمر دار ہو گئے
٭٭٭
کیا آرزو تھی ہم کو کہ بیمار ہو گئے۔ میر تقی میر
۳۸
کچھ غیر، خوش خصال تھے سو یار ہو گئے
کچھ یار تھے کہ باعثِ آزار ہو گئے
کچھ لوگ وہ تھے اپنے خصائل کے زور پر
جیتے ہوئے بھی خیر سے مردار ہو گئے
کچھ لوگ تھے کہ جن کی مثالی تھی تاب و تب
وہ بھی مرورِ وقت سے آثار ہو گئے
ہائے یہ ہم کہ خیر کے جویا رہے سدا
کن کن نحوستوں سے ہیں دوچار ہو گئے
دیکھا جو آنکھ بھر کے کبھی چاند کی طرف
ہم اس کیے پہ بھی ہیں گنہگار ہو گئے
ہر سانس ہی میں سوز سمایا رہا سو ہم
آخر کو آگ ہی کے خریدار ہو گئے
غالب نہ جن کے فہم میں ماجدؔ سما سکا
ہاں ہاں وہ ذوق ہی کے طرف دار ہو گئے
٭٭٭
کیا آرزو تھی ہم کو کہ بیمار ہو گئے۔ میر تقی میر
۳۹
پھُول انوار بہ لب، ابر گہر بار ہوئے
پر نمایاں تری آمد کے نہ آثار ہوئے
کچھ سزا اِس کی بھی گر ہے تو بچیں گے کیسے
ہم کہ جو تُجھ سے تغافل کے گنہگار ہوئے
ہونٹ بے رنگ ہیں، آنکھیں ہیں کھنڈر ہوں جیسے
مُدّتیں بِیت گئیں جسم کو بیدار ہوئے
وُہ جنہیں قرب سے تیرے بھی نہ کچھ ہاتھ لگا
وُہی جذبات ہیں پھر در پئے آزار ہوئے
جب بھی لب پر کسی خواہش کا ستارا اُبھرا
جانے کیا کیا ہیں اُفق مطلعٔ انوار ہوئے
اب تو وا ہو کسی پہلو ترے دیدار کا در
یہ حجابات تو اب سخت گراں بار ہوئے
چھیڑ کر بیٹھ رہے قصّۂ جاناں ماجدؔ
جب بھی ہم زیست کے ہاتھوں کبھی بیزار ہوئے
٭٭٭
ہم تو اے ہم نفساں دیر خبردار ہوئے۔ میر تقی میر
٭٭٭٭
تشکر: یاور ماجد اور کتاب ایپ
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید