FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

ہم تو جیسے لہریں ہیں

 

 

 

                توقیر عباس

؂

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

 

 

 

 

ہم تو جیسے لہریں ہیں

 

آسمان کو

چھونے کی خواہش میں

ہم جست لگائیں

تو لگتا ہے

پانی سے شاخیں پھوٹ پڑی ہیں

ہم تو پل چھن میں

اپنے ہونے کا مظاہرہ کر کے

اس ہیئت میں کھو جاتے ہیں

جو ہمیں بے ہیئت کر دیتی ہے

دھرتی کے تہ در تہ رازوں میں رقصاں

اس موجود میں جو موجود ہے

سب کو اپنے جال میں جکڑے ہوئے ہے

ہم سب لاکھوں تار و پود میں گندھے ہوئے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

کوئی ہے ؟

 

کوئی ہے ! کوئی ہے ! کی صدائیں،

لگاتے ہوئے،

میں سراپا صدا بن گیا،

لوگ آنکھوں کے گہرے گڑھوں سے

مجھے گھورتے،

ایک کیچڑ بھری لہر اُٹھتی شناسائی کی،

میری جانب لپکتی،

مگر ایک جھپکی میں معدوم پڑتی

وہ پھر اپنی گدلی خموشی سمیٹے،

کہاں، کس طرف آتے جاتے،

خبر کچھ نہیں تھی،

برسوں پہلے اسی شہر میں،

بوڑھے پیڑوں تلے آگ روشن تھی اور،

ایک خوشبو گواہی میں موجود تھی،

وہ کہ عہدِ مقدس کی تقریب تھی،

ساتھ دینے کا اک عہد تھا،

اپنی چاہت کے اقرار میں،

کہہ کے لبیک

آواز سے دستخط کر دئیے

اور پھر ایک دن

اپنے اقرار کو بھول کر

میں اسے بھول کر،

اُن دیاروں کی جانب چلا،

جن کو دینار و درہم کی خوشبو نے جکڑا ہوا تھا،

جب میں لوٹا

کھنکتی مہک کی کئی گٹھڑیاں باندھ کر،

کوئی رستہ نہ صورت شناسا ملی،

وہ شجر بھی کہیں پر نہ تھے،

اور لکیروں سے تشکیل پاتی ہوئی،

ایک بے چہرگی تھی۔

جہاں عقل و دانش کی باتیں فقط شور تھیں

رنگوں اور خوشبوؤں کی جگہ

ایک صحرا ابھرتا نظر آ رہا تھا

اُسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے

بے خدوخال چہرہ ہوا

میری آنکھیں کہیں بہہ گئیں

اور میں

بے صدائی کی تاریک کھائی میں گرتا گیا

اور گرتا چلا جا رہا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

کہانی تو نے کتنی دیر کی

 

 

کہانی تو نے کتنی دیر کی

کچھ دیر پہلے

بام و در روشن تھے

آنگن جگمگاتے تھے

سلامت جگنوؤں کی روشنی تھی

تتلیوں کے رنگ قائم تھے

پرندوں کی اڑانیں تک بہت محفوظ تھیں

پیڑوں کی ساری ٹہنیاں آباد تھیں

شہزادے بھی شہزادیاں بھی جاگتی تھیں

استعارے زندگی کے ضو فشاں تھے

اور صبحوں میں بھرا تھا نور سجدوں کا

اگر تو جلد آ جاتی

ترا باطن منور

تجھے سیراب کرتے

مگر اب خاک میں سب کچھ دبا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

عجب مزدور ہے

 

عجب مزدور ہے

ہر کام کرتا ہے

گھڑی کی سوئیوں میں گھومتا ہے

بہاؤ بن کے بہتا ہے

زمانوں سے زمانوں تک

شکست و ریخت کرتا ہے

کہیں تعمیر کرتا ہے

خزانے برد کرتا ہے

کہیں دھرتی کی تہہ سے

کوئی گنجِ گمشدہ بھی کھینچ لاتا ہے

کسی کا ساتھ دیتا ہے

کسی کو چھوڑ جاتا ہے

پہاڑوں جنگلوں میں بھی

نظر آتا ہے اپنا کام کرتا

لٹیرا بھی ہے جابر بھی

سخی بھی مہرباں بھی ہے

وہ چاروں سمت چلتا ہے

اسے تو چلتے جانا ہے

ازل کی وادیوں سے

ابد کے سبزہ زاروں تک

عجب مزدور ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

دور پیڑوں کے سائے میں

 

دور پیڑوں کے سائے میں۔ ۔ ۔

حرکت، مسلسل

مرا دھیان اس کی طرف

اوردل میں کئی واہمے

دل کی دھڑکن میں دھڑکیں

کئی گردشیں

اور میں ہشت پائے کے پنجے میں جکڑا گیا

عجب خوف پیڑوں کے سائے میں پلتا ہوا

اک تحرک

جو کھلتا نہیں

اور میں منتظر

جو بھی ہونا ہے اب ہو

اور اب ایک آہٹ نے دہلا دیا

بہت دھیمی آہٹ

اجل نے چھوا ہو

کہ دنیا اندھیرے میں ڈوبی

کہیں دور خوشبو میں مہکا سویرا

تحرک کی ہچکی سنی

اور ہر چیز اپنی جگہ تھم گئی

سیاہی کا پردہ گرا

قمقمے جل اُٹھے

اور گھر جگمگانے لگے

٭٭٭

 

 

 

 

بھرا شہر اس دن پریشان تھا

 

 

بھرا شہر اس دن پریشان تھا

چوبداروں کی جاں پر بنی تھی

سپاہی ہراساں تھے

راجا کسی سوچ میں دم بخود تھا

رعایا کے چہروں پر آتے دنوں کی سیاہی کا سایہ جما تھا

کہانی مکمل نہیں تھی

وزیروں کے اذہان عاجز تھے

کیسے مکمل کریں اور عنوان کیا دیں

ادھورے کو پورا بھی کرنا کوئی کار آساں نہیں

منادی کرا دی گئی

لفظ و عنواں کوئی ڈھونڈ لائے تو انعام پائے

مگر وہ کہانی نجانے کہاں کھو گئی ہے

جسے ڈھونڈنے میں بھی صدیوں سے نکلا ہوا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

بکھری راکھ سے۔ ۔ ۔

 

اور اب دھیان میں لاؤں

وہ پل

لاکھ یگوں کے یم کا رستہ جس پر

چھدے ہوئے جسموں کی دھڑکن

نوحہ کناں تھی

ٹوٹتے جڑتے سلسلے لمحوں کے

ٹھیکریاں جب ہیروں سے مس ہو کر

تاب یاب تھیں

کتنے سورج اپنی راکھ میں غلطاں تھے

سب دھاگے ٹوٹ کے بکھر گئے تھے

جسم جلاتی گرم ہوا کی لپٹیں

رنگوں کو صحرا کے پھیکے پن میں ڈھال رہی تھیں

کوندے جھماکے لاکھ نظارے

کتنی کائناتیں جو

بود نہ بود کے ایک نظام سے جڑ کر

ایک تسلسل سے مصروف عمل تھیں

چاروں جانب اڑتی راکھ تھی

دور کہیں پر بجتی بانسری

جس کی دھن میں

بکھری راکھ سے روئے زماں کی

پھر تشکیل ہوئی تھی

٭٭٭

 

 

 

 

اس دن

 

اس دن تو وہ خود بھی شکستہ قابلِ رحم تھا لیکن،

کون تھا جس کے لئے

اس کی ہمدردی نہیں تھی،

جس پر اس کو ترس نہیں آیا تھا،

سو اُس نے اِس لمحے کے زیر اثر،

سب اشیا ء کو دیکھا،

دریا ندی سمندر اپنے کناروں میں سمٹے بل کھاتے ہیں،

تھل میں ویرانی رقصاں ہے،

پیڑ ہیں پاگل ہوا میں ہاتھ میں ہلاتے رہتے ہیں،

پنچھی کتنا اڑتے ہیں،

کوہ فقط تخریب کی زد پر آ کر گرتے

زلزلے پیدا کرتے رہتے ہیں،

ہوا بھی اندھی ہے،

جو سب سے مراسم رکھتی ہے،

اس جیسے سب انساں

اک کاہش میں رینگتی روحیں ہیں،

اس نے دیکھا،

سب کچھ اک مربوط نظام کی جکڑن میں ہے،

سب کچھ جدا جدا ہے،

لیکن اک دوجے سے

لاکھوں رشتے جڑے ہوئے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

غزلیں

 

کرب تحریر سے نکل آیا

رنگ تصویر سے نکل آیا

 

بات بنیاد کی نکل آئی

عیب تعمیر سے نکل آیا

 

کتنا اچھا ہے ناتواں ہونا

پاؤں زنجیر سے نکل آیا

 

وار اتنا شدید تھا میرا

زخم شمشیر سے نکل آیا

 

اب وہ تنہا کھڑا ہوا ہے کہ میں

اس کی تصو یر سے نکل آیا

 

دوست محفل سے اٹھ گئے میں بھی

تھوڑی تاخیر سے نکل آیا

 

حبس ٹوٹا تو یوں لگا توقیر

شہر تعزیر سے نکل آیا

٭٭٭

 

 

 

 

مرتی ہوئی تہذیب بھی اور اس کے نشاں بھی

صدیوں سے یہاں ہم بھی ہیں یہ خستہ مکاں بھی

 

انجان زمانوں کی روایت بھی سفر میں

ہمراہ مرے ہے خس و خاشاک و جہاں بھی

 

اس ہجر سے کیا جان چھڑاؤں کہ یہ ڈر ہے

آسیب تو جاتے ہوئے چھوڑے گا نشاں بھی

 

تم نے تو بچھڑنے میں ذرا دیر نہیں کی

کچھ دیر تو اٹھتا ہے چراغوں سے دھواں بھی

 

ممکن ہے کہ مصرعے میں یہی بات اٹھا دوں

اک ساتھ گرا ہے ترا ملبہ بھی مکاں بھی

٭٭٭

 

 

 

 

 

تیرے در سے ترے بیمار کہاں جاتے ہیں

عشق میں عشق کے آزار کہاں جاتے ہیں

 

دیکھ آیا ہوں ابھی سبز کجاوے تیار

کون جانے مرے سردار کہاں جاتے ہیں

 

کوئی آواز ہو معنی سے جڑی رہتی ہے

لفظ جیسے بھی ہوں بیکار کہاں جاتے ہیں

 

پیڑ موجود رہے نقشِ کفِ پا بن کر

صاحبِ شیوہ و ایثار کہاں جاتے ہیں

 

باہر آ جاتے ہیں سب میری کہانی سے مگر

کیا خبر پھر مرے کردار کہاں جاتے ہیں

 

کسی فردوس نظر تک تو نہیں لے جاتے

یہ جو ہیں راستے دشوار کہاں جاتے ہیں

 

ان کے سائے نظر آتے ہیں سبھی شاخوں پر

پھول آتے نہیں ہر بار کہاں جاتے ہیں

 

میرا معمول ہے سوتا ہوں بنا کر ان کو

پھر سحر دم در و دیوار کہاں جاتے ہیں

 

انہیں توقیر تجسس تو اسی بات کا ہے

لے کے ہم سایۂِ دیوار کہاں جاتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

میان رونق دنیا بہت ہوں

کہوں کس سے کہ میں تنہا بہت ہوں

 

بکھرنا چاہتا ہوں ساحلوں پر

میں دریا ہوں مگر گہرا بہت ہوں

 

نہیں آساں مجھے مصلوب کرنا

تری سولی سے میں اونچا بہت ہوں

 

پرندے بھی مجھے پہچانتے ہیں

میں ان پیڑوں تلے بیٹھا بہت ہوں

 

بہت دلکش ہیں سنگ و سر کے رشتے

تری گلیوں سے میں گزرا بہت ہوں

 

نجانے کیا خطا سر زد ہوئی تھی

میں اپنے آپ پر برسا بہت ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

اک وقت تو ایسا تھا کہ دن رات کڑے تھے

پانی کا ہمیں خوف تھا مٹی کے گھڑے تھے

 

ہم نیند کے عالم میں کوئی موڑ مڑے تھے

دیکھا تو ابد گیر زمانے میں کھڑے تھے

 

معلوم ہے جس موڑ پہ بچھڑے تھے اسی جا

کچھ ہاتھ ہلاتے ہوئے اشجار کھڑے تھے

 

ہر موڑ پہ ہوتا تھا یہاں قتل وفا کا

ہر موڑ پہ ٹوٹے ہوئے آئینے پڑے تھے

 

ڈر تھا کہ پکارا تھا تمھیں زر کی چمک نے

میدان سے تم لوگ کہاں بھاگ پڑے تھے

 

اسطورۂِ بغداد کو شب خواب میں دیکھا

وہ حسن تھا شہزادے قطاروں میں کھڑے تھے

 

تم نے بھی بہت اشک بہائے تھے بچھڑ کر

پیڑوں سے بھی اس رات بہت پات جھڑے تھے

 

اک قافلہ بھٹکا تھا کسی خواب کے اندر

اک شہر کے رستے میں بہت موڑ پڑے تھے

٭٭٭

 

 

 

 

زندگی کی نبض گھٹتی جا رہی تھی

چھو کے ساحل لہر ہٹتی جا رہی تھی

 

زندگی کی نبض گھٹتی جا رہی تھی

اک ندی ساحل سے ہٹتی جا رہی تھی

 

کوئی مجھ کو یاد آتا جا رہا تھا

بیل پتھر سے لپٹتی جا رہی تھی

 

روح پر بھی لاکھ شکنیں پڑ رہی تھیں

دھول سے چادر بھی اٹتی جا رہی تھی

 

چھو رہی تھی سوئی خطرے کے نشاں کو

ایک منزل تھی سمٹتی جا رہی تھی

 

اس کی باتیں دوستوں پر کھل رہی تھیں

ایک چادر تھی جو پھٹتی جا رہی تھی

 

میں اسے اپنی محبت کہہ رہا تھا

وہ کئی رستوں میں بٹتی جا رہی تھی

 

دھیرے دھیرے لوگ آگے بڑھ رہے تھے

دھیرے دھیرے دھند چھٹتی جا رہی تھی

 

کنکوا مغرب میں ڈوبا جا رہا تھا

ڈور چرخی سے لپٹتی جا رہی تھی

 

لوگ بھی بے سوچے سمجھے چل رہے تھے

زیست بھی صفحے پلٹتی جا رہی تھی

 

کشتیوں کے بادباں لہرا رہے تھے

ساحلوں سے دھند چھٹتی جا رہی تھی

 

سانس کا توقیر آرا چل رہا تھا

زندگانی اپنی کٹتی جا رہی تھی

٭٭٭

 

 

 

 

 

نجانے آگ کیسی آئنوں میں سو رہی تھی

دھواں بھی اٹھ رہا تھا روشنی بھی ہو رہی تھی

 

لہو میری نسوں میں بھی کبھی کا جم چکا تھا

بدن پر برف کو اوڑھے ندی بھی سو رہی تھی

 

چمکتے برتنوں میں خون گارا ہو رہا تھا

مری آنکھوں میں بیٹھی کوئی خواہش رو رہی تھی

 

ہماری دوستی میں بھی دراڑیں پڑ رہی تھیں

اجالے میں نمایاں تیرگی بھی ہو رہی تھی

 

دباؤ پانیوں کا ایک جانب بڑھ رہا تھا

نجانے ساحلوں پر کون کپڑے دھو رہی تھی

 

کسی کے لمس کا احساس پیہم ہو رہا تھا

کہ جیسے پھول پر معصوم تتلی سو رہی تھی

٭٭٭

 

 

 

ریت پہ جب تصویر بنائی پانی کی

صحرا نے پھر خاک اڑائی پانی کی

 

خون کی ندیاں بہہ جانے کے بعد کھلا

دونوں کے ہے بیچ لڑائی پانی کی

 

کشتی کب غرقاب ہوئی معلوم نہیں

آنکھوں نے تصویر بنائی پانی کی

 

ہم تو خون جلا کر بھوکے رہتے ہیں

کھاتے ہیں کچھ لوگ کمائی پانی کی

 

اس میں جتنے لوگ بھی اترے ڈوب گئے

کون بتائے اب گہرائی پانی کی

 

منہ میں اب تک اس کی لذت باقی ہے

جو نمکینی تھی صحرائی پانی کی

 

میری خاطر خاک میں جو تحلیل ہوئے

یاد آئے تو یاد نہ آئی پانی کی

 

آج وہ مجھ کو ٹوٹ کے یاد آیا توقیر

آنکھوں میں پھر رت گدرائی پانی کی

٭٭٭

 

 

 

 

وہ تھا اپنی حدوں میں لا محدود

سوچنے سے مرے ہوا محدود

 

صحن زنداں بہت کشادہ تھا

اس میں تھی روشنی ہوا محدود

 

میں نے اک بارگاہ میں دیکھے

سارے محدود سارے لا محدود

 

خواہشوں کا تو کوئی انت نہ بھا

لفظ کرتے رہے دعا محدود

 

گونج اس کی سدا بکھرتی رہی

اور ہوتی گئی صدا محدود

 

دیکھنے والے دیکھ سکتے ہیں

چار جانب ہے آئینہ موجود

 

انہی رستوں میں ان چھوا کب سے

کوئی دیکھے ہے راستہ موجود

٭٭٭

 

 

 

 

 

کیا آخرت کا رنج کہ بھوکے ہیں پیٹ کے

ہم لوگ خوش ہیں آج بھی دنیا سمیٹ کے

 

کتنی تھی احتیاج ہمیں آفتاب کی

بیٹھے تھے کچھ پہاڑ بھی برفیں لپیٹ کے

 

مہکا ہوا تھا روحوں میں بارد شبوں کا غم

ہم لوگ کاٹتے رہے دن ہاڑ جیٹھ کے

 

ہم سامنے تھے میز پہ اک دکھ کے سائے تھے

بس نقش دیکھتے رہے خالی پلیٹ کے

 

ٹھوکر لگی تو صف کی طرح جسم کھل گئے

اک سمت رکھ دیے تھے کسی نے لپیٹ کے

 

رکھا تھا رات بھر ہمیں بے چین ہجر نے

آرام ہم کو بیٹھ کے آیا نہ لیٹ کے

 

برسوں کا ایک زخم کہاں مندمل ہوا

بیٹھا رہا پرندہ پروں کو سمیٹ کے

 

توقیر کرچیوں میں اسے ڈھونڈتے رہو

اک آئینے میں عکس رکھے تھے سمیٹ کے

٭٭٭

ماخذ:

https://sukhansara.com/category/%D8%B4%D8%B9%D8%B1%D8%A7%D8%A1/%D8%AA%D9%88%D9%82%DB%8C%D8%B1-%D8%B9%D8%A8%D8%A7%D8%B3/

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید