FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

گلی کا آدمی

 

 

               اقبال حسن خان

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

 

 

 

چوہے بولتے ہیں

 

 

 

میں اس پر قطعی اصرار نہیں کروں گا کہ آپ اس کہانی پر یقین کر لیں ۔۔۔ آپ پہلے میری کسی بات پر کونسا یقین کرتے ہیں جو اس پر نہیں کریں گے تو مجھے کچھ فرق پڑ جائے گا لیکن پھر میں اصرار کروں گا کہ اسے ناقابل یقین سچ سمجھ کر پڑھیں ۔۔۔ آپ جانتے ہیں میں سیدھے سادہ لفظوں میں اپنی بات کہنے کی کوشش کرتا ہوں جو پروفیسر سے لے کر چھابڑی والا تک آسانی سے سمجھ لیتا ہے۔۔۔ فلسفہ لکھنا میری عادت نہیں اور سچی بات تو یہ ہے میں مطالعے اور مشاہدے کی اس منزل تک پہنچا ہی نہیں جب انسان اس حد تک فلسفے میں ڈوب جاتا ہے کہ اللہ میاں کے دوبدو کھڑا ہو جاتا ہے۔۔۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ یہ ناقابل یقین واقعہ میرے گھر کے باورچی خانے میں (جسے اب کچن کہا جاتا ہے ) پیش آیا۔۔۔ میں علی الصباح، سورج نکلنے سے بہت پہلے چائے کی ایک پیالی ضرور پیتا ہوں ۔۔۔ برسوں کی عادت ہے۔۔۔ یہ پیالی میں خود بناتا ہوں کیونکہ اس وقت اہل خانہ سوئے ہوئے ہوتے ہیں ۔۔۔ چنانچہ میں نے آج بھی ایسا ہی کیا ۔۔۔ جب میں چائے بنا کر اس میں چینی گھول رہا تھا (بعض لوگ اسے چائے میں چمچہ ہلانا بھی کہتے ہیں) تبھی مجھے لگا جیسے کوئی ایک منحنی سے آواز میں بڑبڑا رہا ہو ۔۔۔ میں نے حیرت سے اِدھر اُدھر دیکھا تو فرج پر (جسے کسی زمانے میں سرد خانہ بھی کہتے تھے ) ایک چوہے کو بیٹھا پایا جو اپنی ننھی ننھی آنکھوں سے نہ صرف مجھے گھور رہا تھا بلکہ کچھ بڑبڑا بھی رہا تھا ۔۔۔ میں نے قریب ہو کر کان لگائے تو وہ مجھی پر ناراض ہو رہا تھا کہ میں چائے کی پیالی میں اس قدر زور سے چمچ کیوں چلا رہا تھا کہ اُس کی نیند خراب ہو گئی تھی ۔۔۔ میں نے اس سے معذرت چاہی اور حیرت سے کہا۔۔۔

‘‘مجھے پتہ نہیں تھا کہ چوہے بھی بولتے ہیں؟‘‘

اس پر چوہے نے حقارت بھرے لہجے میں کہا ۔۔۔

‘‘تم ایک معمولی سے لکھاری ہو۔۔۔حکمرانوں کی طرح باتیں مت کرو۔۔۔چوہے بولتے ہیں، خوب بولتے ہیں، دن رات بولتے ہیں لیکن سنتا کوئی نہیں‘‘۔

پھر وہ فرج سے اتر کر غالباً کہیں اور اپنی نیند پوری کرنے چلا گیا ۔۔۔۔

 

 

 

نعمت

 

 

وہ اچھی لڑکی تھی ۔۔ جیسی سبھی لڑکیاں ہوتی ہیں ۔۔ وہ ایسی ہر گز نہ ہوتی اگر اُس کا باپ اچانک نہ مر جاتا اور اس کے دو ماہ بعداُسکی ماں کو فالج بستر پر نہ ڈال دیتا ۔۔ اوراگراُس کا ایک چھوٹا بھائی رہزنی کے مقدمے کا سامنے نہ کر رہا ہوتا اور کئی ماہ سے ضمانت کے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے جیل میں بند نہ ہوتا ۔۔۔ غرض وہ آج جو بھی تھی اپنے حالات کی وجہ سے تھی ورنہ وہ بری لڑکی نہیں تھی ۔۔ وہ اس پیشے میں ہرگز نہ آتی اگر لوگ اس کی چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کو اللہ کے نام پر پورا کرنے کے بجائے اس کے جسم کی قیمت پر پورا نہ کرتے اور اتنے قلیل معاوضہ پر ! چنانچہ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے دفتر کے نیک نام بڈھے مالک کے ساتھ سونے کے بجائے اور اس کے بدلے تنخواہ میں سو پچاس روپے کا انتظار کرنے کی جگہ خود ہی یہ کام کرے گی ۔۔۔ وہ کتنے ہی مہینوں سے یہ کام خود کر رہی تھی اور خاصی کامیاب تھی ۔۔۔ اس کی ماں کا علاج باقاعدگی سے ہو رہا تھا اور ایک آدھ ہفتے میں اس کے پاس اتنے پیسے بھی جمع ہونے والے تھے کہ وہ اپنے بھائی کو ضمانت پر رہا کروا لیتی ۔۔۔ وہ ہفتے میں چار پانچ دن شام کے اوقات میں یہاں کھڑی ہوتی تھی اور اسے کوئی بھی ساتھ لے جاتا تھا ۔۔۔ یہ کام اس کے یہاں کھڑے ہونے کے دس پندرہ منٹ کے اندر ہو جایا کرتا تھا لیکن آج اسے یہاں کھڑے ایک گھنٹہ ہونے والا تھا ۔۔ وہ مایوس نہیں تھی کیونکہ نہ موسم خراب تھا اور نہ ہی شہر کا شہر رات بھر میں نیک چلن ہو گیا تھا ۔۔۔ پھر نجانے وہ کہاں سے اُس سے ذرا فاصلے پر آن کھڑا ہوا ۔۔۔ لڑکی نے اِدھر اُدھر دیکھا مگر لڑکے کی کار کہیں دکھائی نہ دی ۔۔۔ یہ کیسا گاہک تھا جس کے پاس اپنی کار تک نہ تھی ۔۔۔ ممکن ہے وہ اس سے بات کرنے کے بعد ٹیکسی لے لیتا؟ ہاں یہی ہو سکتا تھا ۔۔۔ اُس نے لڑکے کو مسکرا کر دیکھا ۔۔۔ شاید جواباً وہ بھی مسکرایا تھا ۔۔۔ شاید اس لئے کہ اس کے بعد اس نے فوراً ہی منہ پھیر لیا تھا ۔۔۔ کمبخت مجھے اور کتنی دیر کھڑا رکھے گا ۔۔۔ اس نے تلخی سے سوچا ۔۔۔ ایک مرتبہ مسکراہٹ کا تبادلہ پھر ہوا ۔۔۔ اس نے لڑکے کا لباس غور سے دیکھا ۔۔۔ اب ملگجا اندھیر چھا چکا تھا اور کھمبے کے بلب کی روشنی میں وہ اس کا لباس بہت اچھی طرح نہیں دیکھ سکتی تھی ۔۔۔ پھر بھی اس نے کوشش کی ۔۔۔ لباس معمولی تھا ۔۔۔اونہہ۔۔۔۔اس نے سوچا۔۔۔اسے لباس سے کیا لینا ہے ؟ لڑکا اپنی جگہ سے سرکتا ہوا اس کے قریب آیا ۔۔۔ وہ قدرے گھبرایا ہوا لگتا تھا ۔۔۔ شاید پہلی مرتبہ ہے۔۔۔لڑکی نے سوچا اور لڑکے کو حوصلہ دینے کو بولی ۔۔

‘‘ہلو ۔۔۔ کیسے ہیں آپ؟‘‘

لڑکے چہرے پر اطمینان کی لہر آ کر گزر گئی ۔۔۔ وہ خوشامدانہ لہجے میں بولا۔۔۔

‘‘آپ بہت اچھی ہیں اسی لئے میری آپ سے بات کرنے کی ہمت بھی ہوئی ۔۔۔ مجھے تین سو روپے چاہئیں ۔۔۔ میری چھوٹی بہن بہت بیمار ہے۔۔۔ ہر روز تین سو کا ٹیکہ لگوانا پڑتا ہے۔۔۔ گیارہ ٹیکے اور لگیں گے۔۔۔ میں خراد کا کام کرتا ہوں ۔۔۔ آج دیہاڑی نئیں لگی ۔۔۔ آپ چاہیں تو واپس بھی کر سکتا ہوں ۔۔۔ قسیم خدا کی میں بھکاری نئیں ۔۔۔ بہت مجبوری میں ہاتھ پھیلایا ہے۔۔۔ آپ کو اللہ نے بہت کچھ دیا ہے۔۔۔ آپ کو کیا فرق پڑے گا؟‘‘

اُس نے لڑکے کو غور سے دیکھا ۔۔۔ اپنی ماں کا تصور کیا ۔۔۔ پھر اپنے سراپے پہ نگاہ ڈالی ۔۔۔ بیگ ٹٹولا تو اُس میں چار سو روپے تھے۔۔۔ تین سو اُس نے لڑکے کو دے دئیے۔۔۔ لڑکا فوراً ہی وہاں سے چلا گیا ۔۔۔ وہ تھکی سی بس سٹاپ پر گڑھی پتھر کی بنچ پر بیٹھی اور سوچنے لگی کیا واقعی اُسے اللہ نے بہت کچھ دے رکھا ہے ؟

 

 

 

 

یاد داشت

 

 

ہجوم بے قابو ہونے کو تھا ۔۔۔ سیاسی جماعت کے دفتر سے نکلتے وقت انہیں بتا دیا گیا تھا کہ وہ کن مشکلات کا شکار ہو سکتے تھے لیکن واقعہ ہی ایسا پیش آ گیا تھا کہ عوام اور خاص طور پر جوانوں کے جذبات قابو میں نہیں تھے۔۔۔ گزشتہ رات پولیس والوں نے فائرنگ کر کے ایک ایسے بے گناہ جوان کو مار دیا تھا جو پولیس کے رکنے کے اشارے کے جواب میں اپنی موٹر سائیکل نہیں روک سکا تھا ۔۔۔ پھر ایک چینل یہ خبر لے آڑا ۔۔۔ رات گئے ہی وطن دوست پارٹی نے طے کر لیا کہ وہ اس موقعے کو ہاتھ سے نہیں جانے دے گی ۔۔۔ رات ہی میں ٹی وی چینلز پر خبر نما اعلانات کر دئیے گئے اور اب ایک بڑا ہجوم سڑکوں پر رواں دواں تھا ۔۔۔ وہ پولیس کے اعلیٰ افسر کی برطرفی اور ملوث کارکنوں کی فوری گرفتار اور ان پر قتل کا مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔۔۔ پھر کسی احمق پولیس والے نے ایک گولی ہوا میں چلا دی اور ہجوم بے قابو ہو گیا ۔۔۔ وہ ھراس چیز پر حملہ آور ہو گئے جو ان کے راستے میں آئی ۔۔۔ صورت حال گمبھیر ہو گئی ۔۔۔ بے ترتیب اور بے قابو ہجوم گورنر ہاوس کی طرف بڑھنے لگا ۔۔۔ ایک بے گناہ نوجوان کی موت کا سوال تھا لیکن گورنرہاوس کو ہر صورت بچانا تھا ۔۔۔ پھر اوپر سے احکامات آئے اور ہجوم پر گولی چلا دی گئی ۔۔۔

اگلے دن پھر ایک ہجوم شہر کی سڑکوں پر رواں تھا ۔۔۔ وہ گزشتہ دن مارے جانے والے تین جوانوں کے قتل میں ملوث پولیس والوں پر مقدمہ چلانے کا مطالبہ کر رہے تھے اور کسی کو وہ جوان یاد نہیں تھا جس کے حق میں وہ جلوس نکلا تھا جس میں یہ دو نوجوان مارے گئے تھے !!

 

 

 

اب اور تب

 

 

یہ قصہ مجھے سلطان حسین شاہ صاحب نے سنایا تھا ۔۔۔ وہ پاکستان بننے سے پہلے ہی سے گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس سے منسلک تھے اور ٹکٹ چیکر کے طور پر کام کرتے تھے۔۔۔ یہ بات 1957 کی ہے۔۔۔ ایک دوپہر انہوں نے ایک بس پر حسب معمول چھاپہ مارا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ کنڈکٹر نے دس سے پندرہ افراد کو ٹکٹ ہی نہیں دئیے تھے جبکہ وہ ان سے پیسے لے چکا تھا ۔۔۔ شاہ صاحب نے فوراً ضابطے کی کارروائی کی اور متعلقہ کنڈکٹر کو اگلے دن انچارج کے پاس پیش ہونے کو کہا ۔۔۔ وہ حسب دستور چھٹی کے بعد گھر چلے گئے۔۔۔ وہ عشا کی نماز پڑھ کر آئے تو ملازم نے بتایا کہ ایک شخص ایک بوڑھی عورت، دو بچوں اور ایک جوان عورت کے ہمراہ ان سے ملنے آیا ہے جسے گھر کی بیٹھک میں بٹھا دیا گیا ہے۔۔۔ شاہ صاحب بیٹھک میں پہنچے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ یہ وہی بس کنڈکٹر تھا جس کا چالان وہ آج ہی دوپہر کر چکے تھے۔۔۔ اس نے اپنے بچوں، بیوی اور ماں کی دھائی دی اور سب نے ایسی گریہ و زاری کی کہ شاہ صاحب کا دل پسیج گیا اور انہوں نے اُسے آئندہ ایسی غلطی نہ کرنے کی تنبیہ کر کے چالان واپس لے لیا ۔۔۔

ایسا ہی ایک واقعہ ٹھیک دس سال بعد پیش آیا جب شاہ صاحب نے ایک ایسے کنڈکٹر کو پکڑا جو اسی قسم کے جرم کا ارتکاب کر چکا تھا ۔۔۔ انہوں نے اُسے اگلے دن انچارج کے پاس پیش ہونے کا حکم سنایا، ڈیوٹی ختم کی اور گھر چلے گئے۔۔ وہ عشا کی نماز کے بعد واپس آئے تو ملازم نے بتایا کہ چند لوگ بیٹھک میں ان کا انتظار کر رہے تھے۔۔۔ شاہ صاحب بیٹھک میں پہنچے تو وہی کنڈکٹر جس کا انہوں نے دوپہر چالان کیا تھا وہاں موجود تھا لیکن اس کے ساتھ اس کے اہل خانہ نہیں، تین بندوق بردار آدمی تھے جنہوں نے شاہ صاحب سے کہا کہ اگر انہوں نے ابھی، اسی وقت دوپہر کو کیا گیا چالان پھاڑ کر نہ پھینکا تو پھر ان آدمیوں کو پتہ ہے انہوں نے کیا کرنا ہے ؟

شاہ صاحب نے اسی وقت چالان پھاڑ کر پھینک دیا ۔۔۔۔

 

 

 

سٹوڈنٹ بریانی

 

 

ہم دونوں ہائی سکول سے کالج تک اکٹھے پڑھے تھے۔۔۔ وہ ایم اے کرنا چاہتا تھا لیکن اُنہی دنوں پہلے اس کے والد کو فالج ہوا اور پھر ان کا انتقال تو اس کی تعلیم ادھوری رہ گئی ۔۔۔ میں نے ایم اے کر لیا اور پھر زندگی میں جو بھی جھک مارنا تھی، مارنے لگا ۔۔۔ وہ اچانک کہیں غائب ہو گیا ۔۔۔ گیارہ برس بعداس سے اچانک ملاقات ہوئی تو اس نے بتایا کہ وہ کویت چلا گیا تھا اور وہاں سے پانچ سات لاکھ کی بچت کر کے لوٹا ہے۔۔ اس کی پانچ سال پہلے شادی بھی ہو گئی تھی اور دو پیاری پیاری بیٹیاں بھی تھیں ۔۔۔وہ ہمیشہ سے لکھنے پڑھنے میں بہت دلچسپی لیا کرتا تھا اور یہ شوق اس نے کویت میں بھی برقرار رکھا تھا ۔۔۔ مجھے ایک گھٹنے کی ملاقات میں اندازہ ہو گیا تھا کہ علم کے معاملے میں وہ مجھ سے بہت آگے نکل چکا تھا ۔۔۔ دس پندرہ دن بعد ہماری پھر ملاقات ہوئی تو اس نے بتایا کہ وہ ایک ادبی پرچہ نکال رہا تھا ۔۔۔ مجھے حیرت ہوئی اور میں نے مخالفت کی تو اس نے کہا کہ وہ ساری تیاریاں مکمل کر چکا تھا ۔۔۔ پھر واقعی اس کا ادبی پرچہ جاری ہو گیا ۔۔۔ اس نے پہلا شمارہ مجھے بھی دیا ۔۔۔ اس نے نیا تجربہ کیا تھا ۔۔۔ یہ ضخامت میں کسی بھی اخبار سے قدرے چھوٹا پرچہ تھا ۔۔۔ مضامین، افسانے اور غزلیات کمال کی تھیں۔۔۔ پھراس کا لکھا ہوا اداریہ تو لاجواب تھا ہی ۔۔۔ اسی دوران میں دوسال کے لئے ملک سے باہر چلا گیا ۔۔۔ واپسی پر بھی دو تین مہینوں تک اس سے ملاقات نہ ہو سکی ۔۔۔ ایک مرتبہ اُدھر سے گزرا تو سوچا اس سے ملتا جاؤں ۔۔۔ اس سڑک کے دو تین چکر لگانے کے باوجود اس کے رسالے کا دفتر نہ دِکھا تو ایک دکاندار سے پوچھا۔۔۔وہ ہنس کر بولا۔۔۔

‘‘اچھا اچھا۔۔۔ساغرؔ صاب کو پوچھ رہے ہو؟ وہ ادھر ہی ہوتے ہیں ۔۔۔ یہ ساتھ والی دکان جس پہ سٹوڈنٹ بریانی کا بورڈ لگا ہے ، انہی کی ہے ‘‘۔۔۔میں حیرت زدہ رہ گیا ۔۔۔ میں دکان پر پہنچا۔۔۔دوپہر کا وقت تھا اور وہاں بہت بھیڑ تھی۔۔۔اس نے مجھے پہچان لیا۔۔۔وہ مجھ سے بہت گرمجوشی سے ملا اور اپنی جگہ کسی ملازم کو بٹھا کر میرے ساتھ قریب ہی ہوٹل میں چلا گیا ۔۔۔ ادھر ادھر کی باتوں کے بعد میں نے پوچھا۔۔۔

‘‘یہ ادبی رسالے سے بریانی کی دکان تک کا کیا قصہ ہے بھئی؟‘‘۔۔۔

وہ ہنسا اور بولا۔۔۔‘‘

کوئی ڈیڑھ سال پہلے رات کے وقت ہمارے دفتر کے سامنے ایک کار کھڑی ہوئی۔۔۔اس میں سے ایک موٹا تازہ آدمی باہر نکلا اور اس نے نئے رسالے کے تیس پرچے خریدے۔۔۔مجھے حیرت ہوئی تو میں نے پوچھا۔۔۔‘‘

‘‘جناب کسی لائبریری سے تعلق رکھتے ہیں؟‘‘

وہ آدمی ہنسا اور بولا۔۔۔

‘‘او نئیں جی ۔۔۔ مہمان آرہے ہیں گھر پہ ۔۔۔ سیخ کباب لئے ہیں سامنے والی دکان سے۔۔۔۔ شاپر ختم ہو گئے اس کے پاس۔۔۔اب کسی چیز میں تو باندھ کے لے جانے ہی ہوں گے۔۔۔اچھا کتنے پیسے ہوئے ؟‘‘

میں نے دوسرے دن پرچہ بند کیا ۔۔۔ بہت سوچا ۔۔۔ اور اس نتیجے پر پہنچا کہ یہاں دماغ کی نہیں پیٹ کی احتیاج کہیں زیادہ ہے۔۔۔ اب یہ سٹوڈنٹ بریانی کی دکان کھولے بیٹھا ہوں۔۔۔بہت مزے میں ہوں ۔۔۔ سارے اخراجات کر کے کوئی بیس پچیس ہزار مہینے کے بچ جاتے ہیں‘‘۔۔۔

پھر وہ مسکرا کر سگریٹ سلگانے لگا لیکن میں اس مسکراھٹ کے نیچے دبی غصے اور نفرت کی چنگاری صاف دیکھ سکتا تھا۔۔۔

 

 

 

قدر و منزلت

 

 

کئی برس ہوتے ہیں چینی ادیبوں کا ایک وفد پاکستان آیا ۔۔۔ غالباً گفتگو کی دوسری نشست تھی اور ہمارے ایک محترم شاعر قدرے دیر سے تشریف لائے تھے۔۔۔ وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے بتلایا کہ آج ان کے محکمے کا سیکریٹری اچانک دورے پر نکل آیا تھا ۔۔۔ چینی وفد کے حضرات نے پوچھا کہ کیا آپ شاعری کے علاوہ بھی کچھ کرتے ہیں تو انہوں نے بتلایا کہ وہ ایک حکومتی محکمے میں چیف اکاؤنٹینٹ بھی ہیں ۔۔۔ اس پر وفد کے ممبران نے حیرت کا اظہار کیا تو اس فقیر نے انہیں دو چار اور حضرات اشارے سے دکھائے اور بتایا کہ وہ کون صاحب ہیں اور کیا کیا کرتے ہیں ۔۔۔ کوئی کلرک تھا، کوئی افسر اور کوئی انجنئیر ۔۔۔ اس پر وفد کے اراکین کی حیرت دیدنی تھی ۔۔۔ اس حیرت کو دیکھ کر جب ان سے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا ۔۔۔

‘‘ہمارے ہاں چین میں جو آدمی کسی بھی شعبے میں اپنی قابلیت ثابت کر دے پھر حکومت اس کی اور اس کے اہل خانہ کی ذمہ داری اٹھا لیتی ہے تاکہ وہ اپنا تخلیقی کام پوری یکسوئی سے کر سکے۔۔ حیرت ہے کہ یہاں ایسا کیوں نہیں ہوتا۔۔۔‘‘

اب میں انہیں کیا بتاتا کہ ہمارے ہاں آدھے سے زیادہ تخلیقی کام کو گناہ کے زمرے میں ڈال دیا گیا ہے۔۔۔ موسیقی، رقص اور مصوری مردود افعال ٹھہرے ہیں۔ اور شاعری سر فہرست ہے۔۔ اور حکومتی کار پردازان میں ان کی کمی نہیں جو اس کام کے سلسلے میں مدد تو کیا کریں گے ، اس کام کو ہی قابل نفرین سمجھتے ہیں ۔۔۔ تو ساتھ ہی مجھے اپنے علاقے کا ایک بزرگ یاد آیا جس نے میرے کام یعنی ڈرامہ نگاری کے حوالے سے ، تعارف کرواتے وقت ایک دوسرے بزرگ سے کہا تھا۔۔۔۔‘‘

اچھے بھلے با عزت خاندان کا آدمی ہے ، پتہ نہیں کیوں کنجروں والے کام میں پڑ گیا ہے۔۔۔۔!!!

 

 

 

اک چھوٹی سی کہانی

 

 

وہ شادی کی ایک تقریب تھی ۔۔۔ ایک صاحب میرے قریب آن بیٹھے۔۔۔ دو چار باتوں کے بعد پوچھنے لگے ‘‘ کیوں صاحب آپ کی عمر ما شا اللہ کتنی ہوگی؟‘‘

میں نے کہا ‘‘ صاحبہھندسوں میں تو نہیں بتاؤں گا ۔۔۔ مختصراً عرض کرتا ہوں کہ اب چار چشمے استعمال کرتا ہوں ۔۔۔ ایک قریب کا، ایک دور کا، ایک دونوں کو دیکھنے کا اور ایک کمپیوٹر پر کام کرتے وقت کے لئے ‘‘۔۔۔

وہ چند لمحوں تک سوچ کر بولے۔۔۔‘‘دھوپ کا چشمہ استعمال نہیں کرتے ؟ ‘‘

میں نے عرض کیا ۔۔۔

‘‘نہیں ضرورت ہی نہیں پڑتی‘‘۔۔۔

اس پر مسکرائے اور بولے۔۔۔

‘‘صاب میں تو کرتا ہوں ۔۔۔ اس عمر میں دھوپ کا چشمہ ضرور استعمال کرنا چاہئے کیونکہ ہم عمر خواتین کی طرف بغیر چشمے کے دیکھو تو وہ کہتی ہیں ‘‘لو ۔۔۔بڈھے کو دیکھو۔۔۔کیسے گھور رہا ہے !‘‘

 

 

 

دعا

 

 

مولوی صاحب ہر جمعے کی نماز کے بعد لہک لہک کر دعا مانگتے ہیں کہ اے اللہ سب کافروں کو تباہ و برباد کر دے۔۔۔ ان کا اشارہ بطور خاص عیسائیوں کی طرف ہوتا ہے اور اصرار بھی ۔۔۔ میں اس دعا پر آمین نہیں کہتا ۔۔۔ ذرا ٹھہرئیے ! دل میں یہ خیال ہرگز نہ لائیے گا کہ میں خدا نخواستہ مسلمان نہیں ہوں ۔۔۔ مسلمان ہوں تبھی تو جمعے کی نماز پڑھنے جاتا ہوں لیکن میں جو مولوی صاحب کی اس دعا پر آمین نہیں کہتا تو اس کی چند ٹھوس وجوہات ہیں میرے پاس ۔۔۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے اور اپنے گرد انسانی زندگی کو آسان بنانے والی جتنی بھی اشیا دیکھی ہیں وہ کافروں نے ہی اس دنیا کو دی ہیں ۔۔۔ پھر میں دیکھتا ہوں کہ کافروں نے اپنے ملکوں میں اپنے لوگوں کو انسانیت کے نام پر جو سہولتیں دے رکھی ہیں وہ قدرت کے قانون حکمرانی سے سو فیصد لگا کھاتی ہیں ۔۔۔ کافروں نے وہ دوائیں بنا رکھی ہیں جو موت کے منہ جاتے انسان کو واپس لے آتی ہیں ۔۔۔ کافروں نے مسلمانوں کو حج جیسی عبادت کی سہولت ہوائی جہاز کی ایجاد سے فراہم کر رکھی ہے۔۔ ورنہ اگلے وقتوں میں مسلمانوں کی سواری اونٹ یا زیادہ سے زیادہ گھوڑا ہوا کرتی تھی ۔۔۔ کافر بچوں، عورتوں، بوڑھوں اور جوانوں کے سبھی حقوق دینے کے بعد اب جانوروں کے حقوق کو کما حقہ، پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔۔۔ بات بہت طویل ہو جائے گی اور مجھے پر فتویٰ ٹھونک دیا جائے گا اس واسطے میں یہاں ان مسلمانوں کا کافروں سے تقابل نہیں کروں گا جن کا میں ایک حصہ ہوں ۔۔۔ یہ ضرور کہوں گا کہ کافر معاشروں کے لوگ اپنی دولت سو منزلہ برج خلیفہ بنانے میں ، دنیا کی مہنگی ترین کاریں خریدنے میں، ہر سال ایک نئی شادی کرنے میں، مغرب کے قحبہ اور جوا خانوں میں ایک رات میں لاکھوں ڈالرز اور پاوُنڈز خرچ کرنے وغیرہ میں تباہ نہیں کر تے۔۔۔ وہ اپنی دولت کو انسانیت کی خدمت کے لئے خرچ کرنے میں زیادہ خوشی محسوس کرتے ہیں، جو میرے اور آپ کے اللہ میاں کا بھی حکم ہے۔۔۔تو میں جہاں اپنے مسلمان بھائیوں کی فتح، سربلندی،ترقی اور خوش حالی کی دعا پر آمین کہتا ہوں، وہاں کافروں کی بربادی پر آمین نہیں کہتا ۔۔۔ میرے خیال میں میں ٹھیک ہی کرتا ہوں ۔۔۔ اگر کافر تباہ و برباد ہو گئے اور گلیوں میں ہر طرف مسلمانوں کا مرزا یار پھرنے لگا تو ساری دنیا عراق، شام اور افغانستان بن جائے گی لیکن مولوی صاحب یہ بات نہیں سمجھتے !

 

 

 

احتجاج

 

 

مرزا صاحب پرانے واقف کار ہیں ۔۔۔ دوست اس لئے نہیں کہہ سکتا کہ وہ مجھے دوستی کے قابل نہیں سمجھتے۔۔۔ ان کے خیال میں جھوٹ گھڑ کے لوگوں کے سامنے پیش کرنے والا سخت گناہ گار شخص ہوتا ہے وغیرہ ۔۔۔ انہیں ‘‘فکشن‘‘ کی تعریف سنانے کی کوشش کرتا ہوں تو وہ اولیا اللہ کے سینہ بہ سینے چل کر اپنے تک پہنچنے والے معجزات سنانے لگتے ہیں اور اصرار کرتے ہیں کہ میں یہ فضولیات لکھنے کے بجائے ان معجزات پر مبنی ایک ضخیم کتاب چھوڑ جاؤں اور پہلے ہی جہالت کی دلدل میں ڈوبے ہوئے لوگوں کو مزید گمراہ کر دوں ۔۔۔ لیکن یہ وہ بات نہیں ہے جو میں آپ سے کرنا چاہتا ہوں ۔۔۔ یہ بات ان کے نو سالہ پوتے ارسلان کے بارے میں ہے۔۔۔ پرسوں شام ارسلان ٹیوشن سے واپسی پر دیر تک گھر نہیں آیا تو اس کی ڈھنڈیا پڑی اور بالآخر اسے محلے کی ایک ویڈیو گیم والی دکان سے گھر لایا گیا ۔۔۔ دیر سے آنے پر ارسلان کو اس کی ماں نے مارا تو جواباً ارسلان نے دو تین ایسی حرکتیں کیں کہ گھر بھر پہلے حیران اور پھر پریشان ہو گیا ۔۔۔ اس نے اپنے کرکٹ کے بیٹ سے گھر کا ٹی وی توڑ دیا ۔۔۔ یہی سلوک شیشوں کے ساتھ بھی کیا ۔۔۔ پھر وہ گھر کے باورچی خانے میں گیا اور اس نے ماچس لے کر کسی چیز کو آگ لگانے کی کوشش بھی کی ۔۔۔ اس کی ایک بار پھر مرمت کی گئی ۔۔۔ مرزا صاحب نے اگلی صبح مجھ سے یہ واردات یہ کہہ کر بیان کی انہیں اپنے پوتے کی دماغی صحت پر شبہ ہے۔۔۔ میں نے یہ بات نہیں مانی ۔۔۔ میں ارسلان کو جانتا ہوں اور وہ مجھے۔۔۔ وہ میری چھوٹی سی لائبریری سے کبھی کبھی بچوں کی کتابیں مانگ کر لے جاتا ہے۔۔۔ اگلے دن وہ میرے پاس آیا تو میں نے موقع غنیمت جا ن کر اس سے اس کی ان حرکات کی وجہ پوچھی تو وہ بولا۔۔۔

‘‘انکل میں احتجاج کر رہا تھا ‘‘۔۔۔

‘‘لیکن یہ کس قسم کا احتجاج تھا بھئی۔۔۔تم نے اپنے گھر کی کئی قیمتی چیزیں ہی توڑ ڈالیں!‘‘ میں نے اس کی سرزنش کرنے کے انداز میں کہا ۔۔۔

‘‘تو احتجاج اور کیسے کرتے ہیں؟ آپ ٹی وی نہیں دیکھتے ؟‘‘اس نے معصومیت سے کہا ۔

میرے پاس اس سوال کا جواب نہیں تھا ۔۔۔

 

 

 

اندر کا آدمی

 

 

وہ بھی سڈنی سے آ رہا تھا لیکن میری اس کی ملاقات اس جہاز میں ہوئی جو ہم نے بنکاک میں اسلام آباد کے لئے تبدیل کیا تھا ۔۔۔ اس نے بتایا وہ پندرہ سال سے سڈنی میں تھا ۔۔۔ وہاں کے نظام کی تعریفیں کرتے نہیں تھک رہا تھا ۔۔۔ وہ دل سے چاہتا تھا کہ پاکستان میں بھی ایسا ہی کوئی نظام رائج ہو جاتا ۔۔۔ مجھے اس سے مل کر دلی خوشی ہو رہی تھی ۔۔۔ میں نے اس کا سڈنی کا پتہ اور فون نمبر لے لیا تھا اور دل میں پختہ ارادہ باندھ لیا تھا کہ جب میں دو مہینوں بعد سڈنی واپس لوٹوں گا تو اس سے ضرور ملوں گا ۔۔۔ ہم دونوں ایک ساتھ ہی ایئر پورٹ پر اترے ، ایک ساتھ ہی کسٹم اور امیگریشن سے فارغ ہوئے اور ایک ساتھ ہی ایئر پورٹ سے باہر نکلے۔۔۔ مجھے اپنے گاؤں جانا تھا ۔۔۔ اُس کا گھر اسی شہر میں تھا ۔۔۔ اس نے بتایا کہ اس نے اپنے آنے کی اطلاع کسی کو نہیں کی تھی ورنہ اس وقت ائیر پورٹ اس کے رشتہ داروں سے بھرا ہوا ہوتا ۔۔۔ مجھے اس بات کا یقین تھا کیونکہ وہ آدمی ہی اتنا اچھا تھا ۔۔۔ طے یہ ہوا کہ میں اس کے ساتھ اس کے گھر چلوں اور وہاں کچھ آرام کر لوں ۔۔۔ میری فلائٹ شام کی تھی ۔۔۔ ہم نے ٹیکسی کر لی ۔۔۔ راستے میں ایک جگہ پان کی دکان دیکھ کر وہ مچل گیا ۔۔۔ اس نے برسوں سے پان نہیں کھایا تھا ۔۔۔ پان لے کر ہم پھر ٹیکسی میں آن بیٹھے۔۔۔ وہ آگے بیٹھا تھا۔۔۔اس نے شیشہ اُتارا اور پان کی بھرپور پیک کی پچکاری سڑک پر ماری ۔۔۔ کچھ چھینٹیں مجھ پر بھی آئیں ۔۔۔ پھر وہ گھوم کر بولا ۔۔۔

‘‘تو میں کیا کہہ رہا تھا؟‘‘

 

 

 

سچا ۔ جھوٹا

 

 

بادشاہ بہت بیمار تھا ۔۔۔ شاہی حکیم جواب دے چکا تھا ۔۔۔ شاہی نجومی نے بادشاہ کی زرد ہتھیلی کی مدھم ہوتی لکیریں دیکھیں اور کہا ۔۔۔ ‘‘ایک ہی صورت ہے۔۔۔ کوئی ایسا شخص بادشاہ کے حق میں دعا کرے جس نے کبھی جھوٹ نہ بولا ہو‘‘۔

شام تک ایک ایسا شخص تلاش کر لیا گیا ۔۔۔ وہ شخص بہت گھبرایا ہوا تھا ۔۔۔ اس سے بھرے دربار میں وعدہ کیا گیا کہ اگر اس کے علاج سے بادشاہ کو صحت ہو گئی تو اُسے سونے میں تول دیا جائے گا ۔۔۔ اُس شخص نے بادشاہ کی درازیِ عمر کی دعا یوں مانگی

‘‘ اے اللہ تو جانتا ہے ہم سب اپنے بادشاہ سے کتنی محبت کرتے ہیں ۔۔ اے اللہ اس بادشاہ کا سایہ ہمارے سروں پر تا قیامت قائم رکھ ‘‘۔۔۔ ۔۔۔

کچھ بھی نہ ہوا اور بادشاہ نے آخری سانس لی ۔۔۔ بادشاہ مر گیا ۔۔۔ شاہی سپہ سالار نے اُس شخص کی گردن پر تلوار رکھ کر کہا ۔

‘‘ تیرے بارے میں کہا گیا تھا کہ تُو نے کبھی جھوٹ نہیں بولا ۔۔۔ سچ بتا تو نے جھوٹ کب بولا؟ اُس شخص نے کہا ‘‘ابھی ابھی جب میں نے کہا کہ ہم سب اپنے بادشاہ سے کتنی محبت کرتے ہیں!‘‘

 

 

 

 

 

سالی

 

 

ارشد میرا دوست ہے۔ بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ بہت ہی پرانا دوست ہے۔ کسی فرم میں ملازم ہے۔ اچھی خاصی تنخواہ ملتی ہے اور دیگر سہولیات بھی ۔ فرم کی طرف سے ہی کار بھی ملی ہو ئی ہے۔ ایک صبح جب کہ میں دفتر کی تیاری کر رہا تھا، اُس کا فون آیا ۔ اُس کی کار سٹارٹ نہیں ہو رہی تھی اور وہ مجھ سے کہہ رہا تھا کہ میں دفتر جاتے وقت اُسے بھی ساتھ لے لوں ۔ اُس کا گھر بھی کوئی زیادہ دور نہیں ہے تو میں نے اُسے دفتر جاتے وقت ساتھ لے لیا ۔ ہم اِدھر اُدھر کی باتیں کر رہے تھے۔ میں نے کار ایک سگنل پر روکی تو عجیب نظارہ دیکھا، ایک نوجوان عورت رکشہ چلا رہی تھی اور اُس وقت وہ ہمارے عین برابر میں سگنل پر رکی ہو ئی تھی ۔ سگنل کافی دیر سے کھلنا تھا ۔ میں نے ارشد کی توجہ اُس طرف مبذول کروائی ۔ وہ بھی دیکھنے لگا ۔ اُسی وقت پیچھے سے دو نوجوان لڑکے موٹر سائیکل پر آئے اور اُس عورت پر گندے فقرے کسنے لگے۔ لگتا تھا وہ عورت اُن کی طرف سے بالکل ہی بے نیاز تھی، اُس نے اُنہیں کوئی جواب نہ دیا ۔ سگنل کھلا، لڑکے آگے نکل گئے ، رکشہ بھی کہیں پیچھے رہ گیا اور وہ عورت بھی ۔ ارشد نفرت سے بولا۔

‘‘دیکھا تم نے ؟ سالی کیسی غلیظ باتیں سن رہی ہے مرد بننے کے شوق میں؟‘‘۔

میں نے کہا۔

‘‘یار محنت کر رہی ہے۔ بھیک تو نہیں مانگ رہی ۔ کوئی ایسی ضرورت ہو گی جبھی رکشہ چلا رہی ہے ‘‘۔

ارشد نے تلخی سے کہا۔

‘‘تو پھر بھگتے۔سارا دن پتہ نہیں کیسے کیسے لوگوں کی باتیں سنتی ہو گی‘‘۔

میں نے کہا۔

‘‘اس میں اُس کا کیا قصور ہے ؟ یہ قصور تو معاشرے کا ہے ؟‘‘۔

وہ بولا۔

‘‘پتہ نہیں قانون عورتوں کو ایسے کام کرنے کی اجازت کیوں دے دیتا ہے۔ پچھلے مہینے لاہور سے واپسی پر اسلام آباد ائیر پورٹ پر بھی یہی تماشہ دیکھا، وہاں ایک عورت ٹیکسی ڈرائیور بھی ہے ، اونہہ‘‘۔

کچھ دیر خاموشی رہی ۔ ہم اگلے سگنل پر رکے۔ گاڑی رکتے ہی ایک عورت گود میں بچہ لئے تیزی سے گاڑی کے قریب آئی۔قبول صورت بھی تھی اور جوان بھی۔مجھے ایسی بھکارنوں سے بڑی نفرت ہے کیونکہ مجھے پتہ ہے کہ یہ عورتیں بچے کرائے پر لا کر لوگوں کے دل موم کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔میں نے کہا۔

‘‘ہٹی کٹی ہو۔بھیک کیوں مانگ رہی ہو؟ میں سب جانتا ہوں، تم لوگ ایسے بچے کرائے پر لاتے ہو، دفع ہو جاؤ‘‘۔

ارشد نے مجھے گھورا اور دس کا نوٹ جیب سے نکال کر عورت کو دیتے ہوئے مجھ سے مخاطب ہوا۔

‘‘تم کتنے سنگدل آدمی ہو ؟ پتہ نہیں کس مجبوری کے تحت بے چاری گھر سے بچے سمیت نکلی اور اس دھوپ میں کھڑی لوگوں کی باتیں سن رہی ہے ؟ اگر اُسے کچھ نہیں دے سکتے تو کم از کم صلواتیں تو مت سناؤسالی کو‘‘۔

دیر تک میری سمجھ میں ہی نہیں آیا کہ دونوں میں سے ‘‘سالی‘‘ کونسی عورت تھی؟

 

جلوس

 

 

 

کرنے کو کچھ نہیں تھا ۔ وہ چھٹی والے دن کے سبھی ضروری کام کر چکا تھا یہاں تک کہ شام کے لئے کھانا تک پکا کر رکھ دیا تھا۔جب سے اُس کی بیوی دو ماہ کے لئے اپنے گھر گئی تھی، اُس کی زندگی میں جیسے چھٹی والے دن بہت سی فراغت آ گئی تھی ۔ وہ تین بجنے کا انتظار کر رہا تھا کہ ہر اتوار کو اپنے معمول کی فلم دیکھ سکے۔ سردیوں کی ہلکی دھوپ میں اپنے گھر کے سامنے کرسی ڈال کر بیٹھنا اُسے اچھا لگ رہا تھا۔پھر اُسے لگا جیسے گلی کے نکڑ کے پار جہاں سے بڑی سڑک شروع ہوتی تھی، اُس نے شور سا سنا ہو۔وہ کان لگا کر سننے لگا۔اس وقت اُس کی اپنی گلی سنسان پڑی تھی ۔ بس تھوڑی دیر پہلے ایک بچہ سائیکل چلاتا گزرا تھا، وہ غور سے سننے لگا۔واقعی کہیں شور ہو رہا تھا۔اُسی لمحے مرزا صاحب گلی میں داخل ہوئے۔وہ غالباً بازار سے واپس آ رہے تھے ، اُنہوں نے دونوں ہاتھوں میں تھیلے اُٹھا رکھے تھے۔اُس نے مرزا صاحب سے پوچھا کہ یہ کیسا شور تھا تو اُنہوں نے بتایا کہ بڑی سڑک سے ایک جلوس گزر رہا تھا۔روزانہ ہی کہیں نہ کہیں، کوئی نہ کوئی جلوس گزرا کرتا تھا۔اُس نے کوئی توجہ نہ دی۔پھر اُس نے گھڑی دیکھی۔ابھی تین بجنے میں بہت وقت باقی تھا۔اُس نے سوچا کیوں نہ یہ جلوس دیکھا جائے۔اُسے جلسوں جلوسوں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی لیکن وقت کاٹنے کو یہ بہانہ اچھا ہو سکتا تھا اور وہ وہیں سے سنیما ہال بھی جا سکتا تھا۔اُس نے گھر کو تالا لگایا اور تیزی سے گلی کے نکڑ کی طرف بڑھا۔بڑی سڑک پر واقعی ایک بڑا جلوس جا رہا تھا۔وہ جلوس میں شامل ہوا تو جلوس کا اگلا حصہ گزر چکا تھا۔وہ لوگوں کے ہجوم کے ساتھ چلنے لگا۔اُس سے آگے چلنے والے چند پر جوش لڑکے زندہ باد، مردہ باد کے نعرے لگا رہے تھے۔وہ نعروں کا جواب دینے والوں میں شامل نہیں تھا۔اُسے لوگوں کا جوش و خروش دیکھنے میں بڑا مزہ آ رہا تھا۔پھر یونہی اُس کے ذہن میں خیال آیا کہ یہ وہ کسی سے پوچھے کہ یہ جلوس کس سلسلے میں تھا۔اُس نے اپنے ساتھ چلتے ہوئے ایک ٹھنگنے قد کے آدمی سے پوچھا تو آدمی نے بتایا کہ وہ دراصل جلوس میں شامل نہیں تھا۔وہ اسی راستے پر جا رہا تھا کہ جلوس میں خود بخود شامل ہو گیا۔وہ آگے بڑھا اور چند لمحوں تک چلنے کے بعد اُس نے ایک اور آدمی سے یہی سوال پوچھا۔وہ آدمی نفی میں سر ہلا کر بولا کہ اُسے کچھ پتہ نہیں۔وہ محض وقت گزاری کے لئے جلوس میں شامل ہو گیا ہے اور اگلے چوک پر اس سے جدا ہو کر اپنے سسرال چلا جائے گا۔تیسرے آدمی نے بتایا کہ بے شک وہ جلوس میں شامل ہے لیکن یہ جلوس اُسے راستہ میں ملا تھا۔اُسے ضد سی ہو گئی۔وہ پاگلوں کی طرح ہر آدمی سے پوچھنے لگا کہ وہ اس جلوس میں کیوں شامل تھا۔کسی کو پتہ نہیں تھا لیکن وہ سب اُس کی طرح جلوس کے ساتھ چلے جا رہے تھے !!!

 

 

 

 

ایک ہی بات ہے

 

 

 

میں چھوٹے سے قصبے میں رہتا ہوں ۔ چند دن پہلے کی بات ہے۔ میں سر درد کی دوا لینے ایک میڈیکل سٹور میں گیا ۔ مجھ سے پہلے ایک بوڑھی عورت بھی موجود تھی جو قریب ہی واقع حکومتی ہسپتال میں داخل اپنی بہو کے لئے کوئی ضروری دوا خریدنے آئی تھی ۔ اچانک ہی ‘‘دکانیں بند کرو۔دکانیں بند کرو‘‘ کا شور اُٹھا ۔ پھر کسی نے زور سے کہا ‘‘دکانیں اندر سے بند کر لو، وہ آ رہا ہے ‘‘۔

ہمارے دکاندار نے بھی فوراً دکان اندر سے بند کر دی اور روشنیاں جلا دیں ۔ بوڑھی عورت شور مچاتی رہی کہ وہ ابھی دوائی لے کر جائے گی تب دکان دار نے اُسے سمجھایا کہ اماں، عبدل بدمعاش بازار میں آیا ہو گا ۔ لوگ اُس کے ڈر سے دکانیں بند کر رہے ہیں ۔ تھوڑی دیر میں چلا جائے گا تو دکانیں کھل جائیں گی ۔ عورت جھولی پھیلا پھیلا کر بد دعائیں دینے لگی ۔ ہم باہر سے دکانوں کے شٹر گرنے سے آنے والی آوازیں سن سکتے تھے۔ پھر سائرن سنائی دئیے۔ چونکہ حکومتی ھسپتال سامنے ہی ہے تو ایسی آوازیں وہاں اکثر سنائی دیتی ہیں ۔ کوئی دس منٹ بعد کسی نے باہر سے شٹر بجا کر   کہا ۔ ‘‘دکانیں کھول لو۔ وہ چلا گیا‘‘۔ دکاندار نے طویل سانس لی اور شٹر اُوپر کر دیا ۔ بوڑھی عورت دوا لے کر بکتی جھکتی چلی گئی ۔ میں نے دوائی لی اور دکان سے باہر نکل آیا تو مجھے پتہ چلا کہ عبدل بدمعاش کی وجہ سے دکانیں بند نہیں کروائی گئی تھیں بلکہ وہاں سے صوبے کے چیف منسٹر کی سواری گزری تھی اور حفاظتی اقدامات کے تحت دکانیں بند کروا دی گئی تھیں ۔

میں نے سوچا ایک ہی بات ہے !!

 

 

 

 

احمد علی کو غصہ کیوں آیا؟

 

 

 

احمد علی میرا دوست ہے۔ بہت ہی پرانا ۔ یوں سمجھیں کہ ہم دونوں جب سے دوست ہیں جب ہم دونوں ساتویں جماعت میں پڑھا کرتے تھے۔ ہمارے گھروں کی سبھی خوشیاں اور غم ہمارے سامنے ہی ہوئے اور ہم نے بہت سے موسم ایک ساتھ دیکھے۔ احمد علی کی شادی میری شادی کے کوئی پانچ سال بعد ہوئی تھی چنانچہ اُس کے بچے میرے بچوں سے عمر میں اسی تناسب سے چھوٹے بھی ہیں ۔ احمد علی کا چھوٹا بچہ آٹھویں جماعت میں پڑھتا ہے۔ وہ حساب میں خاصا کمزور ہے چنانچہ احمد علی نے اُس کی ٹیوشن لگوا دی تھی اور اس کام کے لئے ماسٹر اسحاق کو مقرر کیا تھا ۔ ماسٹر صاحب ہمارے محلے کی ایک انتہائی معزز اور خوش اخلاق شخصیت ہیں ۔ وہ کوئی تیس برس سے اس پیشے میں ہیں اور ان کے بارے میں مشہور ہے کہ ان کے شاگرد اس وقت ملک بھر میں کتنے ہی اعلیٰ عہدوں پر ہیں لیکن ماسٹر صاحب اتنے با اُصول شخص ہیں کہ کبھی کسی کام، کسی سفارش کے لئے کسی کے پاس نہیں جاتے۔ چنانچہ وہ ایسے شخص ہیں کہ ان کی عزت کرنے کو خواہ مخواہ جی چاہتا ہے۔ گزشتہ اتوار کی بات ہے کہ احمد علی مجھ سے ملنے آیا ۔ چائے وغیرہ کے بعد اُس نے مجھے بتایا کہ اُس نے اپنے بیٹے کو ماسٹر اسحاق کے پاس ٹیوشن کے لئے بھیجنا بند کر دیا ہے اور یہ بھی کہ وہ ماسٹر صاحب کو ایک انتہائی جھوٹا، فریبی اور مکار شخص سمجھتا ہے۔ میں یہ باتیں سن کر حیران رہ گیا اور جب میں نے اصرار کیا تو احمد علی نے بتایا کہ جمعے کی شام جب وہ اپنی گاڑی میں بازار کی طرف جا رہا تھا اور سڑک پر بہت بھیڑ تھی، اُس نے ماسٹر اسحاق کو مخالف سمت سے موٹر سائیکل پر آتے دیکھا اور وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ماسٹر صاحب ٹریفک قوانین کی کھلے عام مذاق اُڑاتے ہوئے خلاف ورزی کر رہے تھے۔ اُس نے کہا ۔

‘‘ میں اپنے بچے کو ایسے شخص کے پاس کیسے بھیج سکتا ہوں جس کا کام ہی نئی نسل کی تربیت کرنا ہے۔ جو شخص خود تربیت یافتہ نہ ہو وہ میرے بچے کو اچھا شہری کیسے بنا سکتا ہے۔ اب میری سمجھ میں آیا کہ ماسٹر اسحاق جیسے اُستادوں کے شاگرد ہی اس ملک کا انتظام چلا رہے ہیں تبھی تو ہر طرف لوٹ مچی ہوئی ہے ‘‘۔ وہ دیر تک نجانے کیا کیا بکتا جھکتا رہا ۔

 

 

 

نصیحت

 

 

‘‘دیکھو بیٹا میں باپ ہوں تمہارا اور کوئی باپ اپنے بیٹے کو غلط رستے پہ چلتا نہیں دیکھنا چاہتا‘‘

‘‘جی ابا جی‘‘

‘‘میرا فرض ہے کہ میں تمہیں ہر قسم کی اونچ نیچ سے آگاہ کروں۔ہے نا میرا فرض؟‘‘

‘‘جی ابا جی‘‘

‘‘دیکھو میرے بچے سب سے پہلے تو یہ یاد رکھنا کہ کسی کو کبھی برا مت کہنا ۔ غیبت مت کرنا ۔ اس سے ہمارے مذہب نے بڑی سختی سے منع کیا ہے۔ یہ تو تم جانتے ہی ہو گے ؟‘‘

‘‘جی ابا جی‘‘

‘‘تمہارے دادا اللہ بخشے مجھے ہمیشہ یہی نصیحت کرتے تھے اور میں نے ہمیشہ اس پہ عمل کیا اور یقین جانو کبھی کوئی تکلیف نہیں اُٹھائی۔تو میرے بچے غیبت سے ہمیشہ بچنا۔‘‘

‘‘جی ابا جی‘‘

‘‘اپنے چچا کی طرح مت کرنا کبھی کہ وہ جہاں بیٹھتے ہیں، اپنے دوستوں اور سسرالی رشتہ داروں کی غیبت شروع کر دیتے ہیں ۔ یہ بہت بری بات ہے۔ میں مانتا ہوں کہ اس میں کچھ سچ بھی ہو گا ۔ بلکہ ان کے بڑے سالے صاحب کے بارے میں، مَیں تمہیں جو بتانے لگا ہوں وہ تو خیر میری آنکھوں دیکھی بات ہے۔ بھئی تم نے کبھی غور کیا کہ ابھی اُنہیں بزنس کرتے چار سال نہیں ہوئے اور پیسے کی ریل پیل ہو گئی ۔ یہ سب پیسہ کہاں سے آیا؟ بھئی اندر کی بات ہے۔ دو نمبر کام کرتے ہیں ۔ میں تو خیر کبھی نہ مانتا مگر وہ جو میرے دوست ہیں ایف آئی اے والے۔۔۔۔۔۔

‘‘ شکور چاچا؟‘‘

‘‘ہاں وہی ۔ اُنہوں نے مجھے ان حضرت کے بارے میں فائلیں دکھائی تھیں ۔ یوں سمجھو کہ بس حکومت ان پہ ہاتھ ڈالنے ہی والی ہے۔ مجھے تو خیر یہ سوچ سوچ کر ہی تکلیف ہوتی ہے کہ تمہارے چچا کی وجہ سے ہماری بھی ان سے خواہ مخواہ کی رشتہ داری ہو گئی ہے۔ یہ پکڑے گئے تو ہمیں مفت کی شرمندگی جھیلنی پڑے گی ۔ میں نے شکور سے کہا تھا کہ یار اگر ہو سکے تو کسی طرح ان کا نام اس کیس سے نکلوا دو ۔ مگر توبہ ہے بھئی ۔ یہ لوگ کبھی کسی کی سنتے ہیں ۔ خیر شکور صاحب بھی کوئی اللہ میاں کی گائے نہیں ہیں ۔ اگر چھوڑا بھی تو پانچ لاکھ سے کم کیا لیں گے۔ بھئی کہتے اچھا تو نہیں لگتا مگر بڑا رشوت خور ہے۔ اب دوست ہے اور کیا کہوں؟ ۔ تمہیں اس کے لڑکے کا کیس تو پتہ ہی ہو گا؟ ہاں ہاں وہی ۔ جعلی ایجنسی بنائے بیٹھا ہے۔ آدمی ملک سے باہر بھجواتا ہے دو نمبر ویزوں پر ۔ خیر ہمیں کیا ۔ یہ آخر میں اور بتا دوں کہ صرف اپنے باپ کی وجہ سے بچا ہوا ہے۔ دفع کرو ۔ ہاں تو بیٹا میں کہہ رہا تھا کہ بس غیبت سے بچنا ۔ بڑی بری بیماری ہے۔ اور میری ایک نصیحت اور بھی یاد رکھنا ۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 

 

مندر

 

 

اچھا بھلا آدمی تھا وہ ۔ زندگی بھر ایک اعلیٰ عہدے پر رہا ۔ مثالی افسر تھا اسی لئے جب ریٹائر ہو رہا تھا تو اُس کے محکمے کے لوگوں کو بڑا دکھ ہوا تھا ۔ تین بچے تھے۔ دو لڑکیاں ایک لڑکا ۔ تینوں کی شادی ملازمت کے دوران ہی کر چکا تھا ۔ شہر میں رہنا نہیں چاہتا تھا ۔ اُس کا اپنا گاؤں چھوٹے سے قصبے میں تبدیل ہو گیا تھا ۔ آبادی بڑھ گئی تھی ۔ جب اُس نے پینتالیس سال پہلے یہ علاقہ چھوڑا تھا تو بڑی سڑک سے ملانے والی سڑک تک کچی تھی اور اب چوبیس گھنٹے وہاں سے شہر تک جانے کے لئے ہر قسم کی سواری میسر تھی ۔ پڑھا لکھا شخص تھا ۔ عمر بھر کام کیا تھا چنانچہ گاؤں میں بھی نچلا نہ بیٹھا ۔ کچھ تھوڑی بہت زمین تھی، کچھ پنشن آ جاتی تھی، میاں بیوی مزے سے گزارہ کر رہے تھے۔ پانچ وقت محلے کی مسجد میں نماز پڑھنے کی وجہ سے لوگ اُسے کچھ زیادہ ہی پسند کرنے لگے تھے۔ پھر چونکہ مفت ٹیوشن پڑھاتا تھا تو جوان طبقہ میں اُس کی پسندیدگی کچھ زیادہ ہی ہو گئی تھی ۔ جب اُس نے یہ علاقہ چھوڑا تھا تو اُس کے گاؤں میں ہندوؤں کے دو گھر تھے۔ اب اتنے عرصہ میں دس بارہ ہو گئے تھے۔ کچھ ہندو سرحدی علاقوں سے طالبان کی وجہ سے آ کربس گئے تھے۔ ۔ لیکن کیا ہندو کیا مسلمان، سبھی اُسے پسند کرتے تھے۔ لیکن پھر کچھ ایسا ہوا کہ لوگوں نے شروع میں اُسے پاگل سمجھا، کچھ کو یقین نہ آیا اور جب اُس سے بار بار پوچھ لیا تو اُس کے خلاف محاذ بن گیا ۔ اُس نے علاقے میں ایک مندر بنانے کا اعلان کر دیا تھا اور اس مقصد کے لئے اپنی کچھ زمین دینے کا بھی ۔ یہ معاملہ اُس کے علاقے تک محدود نہ رہا ۔ بات پھیلی، بات بڑھی اور سب سے پہلے تو اُسے اپنے ہی علاقے کے لوگوں نے مطعون کیا ۔ اُس کے شاگرد اُسے بہت چاہتے تھے۔ اُنہوں نے سمجھانے کی کوشش کی لیکن اُس کا کہنا تھا کہ علاقے کے ہندوؤں کے لئے کوئی عبادت گاہ نہیں تھی اور اُنہیں اس مقصد کے لئے تیس چالیس میل دور جانا پڑتا تھا چنانچہ یہ ضروری تھا کہ اُن کے لئے اپنے ہی علاقے میں ایک مندر بنایا جائے۔ پہلے مخالفت زبانی ہوتی رہی، پھر ایک رات کسی نے ڈرانے کے لئے اُس کے گھر پہ فائرنگ کر دی ۔ اُس کی بیوی ڈر گئی اور اُس سے یہ ضد چھوڑنے کا مطالبہ کرنے لگی مگر وہ نہ مانا ۔ وہ دھن کا پکا شخص تھا ۔ اُس کا کہنا تھا کہ علاقے میں بلا ضرورت لوگ مسجد پہ مسجد بنائے چلے جا رہے تھے ، ایک مندر کی واقعتاً ضرورت تھی ۔ بات مزید گمبھیر ہوئی ۔ علاقے کے معززین نے سمجھایا ۔ پھر اُس کا بازار میں چلنا مشکل ہو گیا ۔ اُس کے گھر کے سامنے ہر دو چار روز بعد لوگ دھرنا دے کر بیٹھ جاتے اور اُس کے خلاف نعرے لگاتے ، باتیں بناتے ، کچھ اخباروں نے بھی یہ خبر چھاپ دی کیونکہ ملکی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہو رہا تھا کہ ایک مسلمان نے مندر بنانے کا ارادہ کیا تھا ۔ اُس کے نوجوان شاگردوں میں سے کچھ کے والدین نے اُنہیں اُس کے پاس بھیجنے سے انکار کر دیا لیکن اکثریت بہر حال اُس سے فیض اُٹھاتی رہی ۔ علاقے کا کوئی مزدور ڈر کی وجہ سے اس تعمیر میں حصہ ڈالنے کو تیار نہ تھا اسی لئے ابھی تک بنیادیں تک نہ کھدی تھیں ۔ ایک شام وہ بہت دلگیر بیٹھا تھا ۔ اُس نے یہ دکھ اپنے شاگردوں کے سامنے رکھا ۔ وہ فقط یہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ سبھی لوگ اس تعمیر کے خلاف نہیں تھے ، ایک مخصوص ٹولہ تھا ۔ وہ کہتا تھا کہ لوگوں کی اکثریت کو اس پر کوئی اعتراض نہیں تھا، یہ صرف سیاست باز لوگ تھے جنہوں نے بات کا بتنگڑ بنا دیا تھا ۔ اُس نے یہ دکھ اپنے شاگردوں کے سامنے رکھا ۔ لڑکے اُس کا دکھ سنتے رہے اور چپ چاپ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔ اگلی صبح وہ اور علاقے کے لوگ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ راتوں رات کسی نے مندر کی بنیادیں کھود دی تھیں، یہی نہیں چار چار فٹ اُونچی دیوار بھی کھڑی کر دی تھی !!!

 

 

 

تو وجہ یہ ہوئی

 

 

 

شروع میں یہ پُر اسرار بیماری پھیلی تو کسی نے توجہ ہی نہ دی ۔ غریبوں کی بستی تھی ۔ ایسی بستیوں میں موت بہانے بہانے سے ہر وقت گھسی ہی رہتی ہے۔ کون پروا کرے ؟ مگر جب ایک دن میں لگاتار تین تین چار چار جنازے اُٹھنے لگے تو ایک چینل والوں کے کان کھڑے ہوئے۔ پھر دوسرے چینل نے خبر لگائی ۔ تیسرے نے تو کوئی دو تین منٹ کی تصویری خبر لگا دی ۔ پھر تو چل سو چل ۔ ایک ٹی وی پروڈیوسر سے ایک سیاسی لیڈر نے پروگرام میں شمولیت کا وعدہ کر رکھا تھا، اُنہیں وزیر اعظم نے کھانے پہ بلا لیا اور وہ نہ آ سکے۔ اب دس منٹ تک چینل کا پیٹ بھرنا مسئلہ ہو گیا ۔ اسسٹنٹ نے ڈرتے ڈرتے یہ جگہ بھرنے کو اس علاقے کی پر اسرار بیماری کا تذکرہ کیا ۔ گلیمر تو نہ تھا، مگر وقت کی مجبوری تھی ۔ لو جی دو منٹ تبصرے کے ، آٹھ منٹ تصویری جھلکیوں اور اہل علاقے کے انٹرویوز کے ، تین چار بیمار بچوں پر بھنکتی مکھوں کے شاٹس ۔ بہت عمدہ ‘‘فلر‘‘ بنا ۔ ایڈیٹر بھی خوش، پروڈیوسر بھی خوش لیکن اگلے دن ہر چھوٹے بڑے اخبار نے شور مچا دیا تو حکومت جاگی ۔ وزیر صحت سری لنکا کے دورے پہ تھے۔ انہیں وہاں یہ خبر ملی ۔ انہوں نے ہیلتھ سیکریٹری کو رات ہی میں فون کیا ۔ اُنہوں نے اپنے سیکریٹری کو اور انہوں نے اپنے کو ۔ دوپہر سے پہلے سیکشن آفیسر کی لکھی ہوئی رپورٹ ان کی میز پر پڑی تھی ۔ اس اثنا میں تین چار لوگ اور مر چکے تھے۔ اُس وقت تک مرنے والوں کی تعداد اٹھائیس ہو چکی تھی ۔ صرف دو ہفتوں میں ۔ اُسی دن ایک شرارتی لیڈر نے اسمبلی میں سوال داغ دیا ۔ وزیر صحت تو موجود نہیں تھے ، سیکریٹری نے کچھ جوابات دئیے۔ اپوزیشن مطمئن نہ تھی ۔ ایشو گمبھیر ہو گیا ۔ اپوزیشن نے اگلے دن جلوس نکالنے کا اعلان کر دیا ۔ معاملہ اس نہج پہ پہنچا تو چیف منسٹر بھی چونکے۔ انکوائری کے لئے کمیٹی بنا دی گئی مگر اپوزیشن نے پھر بھی ایک کامیاب جلسہ کیا ۔ دن بھر ہنگامہ رہا، بھاری جلوس نکلا، چینلز لائیو کوریج کرتے رہے۔ ایک اور انکوائری کمیٹی بنوائی گئی جس میں ایک شریف آدمی بھی شامل ہو گیا ۔ شریف آدمی نے رپورٹ میں بتایا کہ شہر بھر کی گندگی ساتھ لے کر آنے والا نالہ پلاسٹک کے بیگز کی وجہ سے بند ہے۔ نالہ آگے بہنے کے بجائے اس بستی میں اُچھل گیا ہے۔ لوگوں کے گھروں تک میں گندہ پانی داخل ہو گیا ہے۔ نالے کی بروقت صفائی ہوتی رہتی تو یہ مسئلہ سرے سے پیدا ہی نہ ہوتا ۔ چنانچہ حکومتی مشینری حرکت میں آئی، نالہ صاف کیا گیا، کچھ کام قدرت نے کیا، بارش ہوئی، جگہ صاف ہو گئی، پھر تیز دھوپوں نے کیچڑ کو خشک کر کے مٹی میں ملا دیا ۔ لوگ مرنا بند ہو گئے لیکن اپوزیشن مطمئن نہ تھی ۔ کسی نے تجویز پیش کی کہ مہذب ملکوں کی طرح یہ پلاسٹک کے شاپنگ بیگ بنانا اور استعمال کرنا ہی کیوں نہ بند کر دیا جائے ؟ حکومتی پارٹی کے کچھ لوگ بھی اس رائے سے اتفاق کرتے تھے کہ نہ ہو گا بانس نہ بجے گی بانسری ۔ تجویز بہت عمدہ تھی ۔ پریس نے تائید کی ، ٹی وی چینلز نے لمبی لمبی فلمیں دکھائیں ۔ اس معاملے کو صحت کے ساتھ جوڑ کر اسے زندگی اور موت کا مسئلہ قرار دیا ۔ وزیر اعظم صاحب تک تقریباً اس خاموش موت کی ملک میں درآمد اور استعمال پر آمادہ ہو گئے مگر پھر ایسا نہ ہو سکا ۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا تھا کیونکہ ایسا ہوتا نہیں ہے۔ وجہ یہ تھی کہ وزیر اعظم کی اکلوتی بیٹی کے میاں کا بہنوئی اس جنس کا سب سے بڑا بیوپاری تھا ۔ اُنہی دنوں ریل کا ایک حادثہ ہو گیا اور سبھی نے اطمینان کا سانس لیا، میڈیا کی توجہ اُس طرف مبذول ہو گئی تھی یوں یہ قصہ پھر کسی اور بڑے حادثے تک ختم ہو گیا ۔

 

 

 

محب وطن

 

 

ہم دونوں ہم جماعت تھے۔ تعلیم ختم ہوئی تو مجھے زندگی میں جو جھک مارنا تھی وہ میں مارنے لگا اُس نے ایک اعلیٰ سرکاری نوکری کا امتحان پاس کیا اور پھر وہ ترقی کے زینے طے کرنے لگا ۔ ہم دونوں ہی مصروف تھے۔ ملاقاتیں بہت کم ہوتی تھیں ۔ میں اپنے ہی شہر میں تھا اور اُس کے تبادلے ہوتے رہتے تھے۔ پھر ایک دن مجھے پتہ چلا کہ وہ ہمارے ہی شہر میں تبدیل ہو کر آ گیا تھا ۔ میں اُس سے ملنے گیا ۔ یہ اُس کا آخری تبادلہ تھا جس کے بعد اُسے ریٹائر ہو جانا تھا ۔ میں جب بھی اُس سے ملتا وہ پاکستان کی بات ضرور کرتا ۔ قیام پاکستان اُس نے خود تو نہیں دیکھا تھا، اپنے بزرگوں سے اس کی کہانیاں البتہ سنی تھیں ۔ اُس کے خاندان کا ذاتی نقصان یہ ہوا تھا کہ اُس کی دو پھپیوں کو فسادات کے دوران اغوا کر لیا گیا تھا ۔ اُڑتی اُڑتی خبر یہ بھی تھی کہ اُنہیں اغوا کے بعد سکھوں نے اپنے گھروں میں ڈال لیا تھا ۔ وہ جب پاکستان کی بات کرتا، قربانیوں کی بات کرتا تو اُس کی آنکھیں بھیگ جایا کرتیں ۔ وہ ریٹائر منٹ کے بعد اپنے بیٹوں کے پاس امریکہ جانا چاہتا تھا ۔ یہاں وہ اور اس کی بیوی تنہا تھے۔ بیٹی کی شادی بھی کہیں بیرون ملک ہوئی تھی ۔ اُس روز جب میں اُس سے ملنے گیا، حسب دستور اُس کے جذبہ حب الوطنی کے تاثر سے بھیگا ہوا اُس کے دفتر سے نکلا ۔ کبھی کبھی میں سوچتا اگر ہم میں سے ہر پاکستانی اُس جیسا ہو جائے تو یہ ملک کہیں سے کہیں پہنچ جائے۔ میں اُس کے دفتر سے نکلا ۔ میری کار سڑک کے کنارے کھڑی تھی ۔ سٹارٹ کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا ۔ پتہ نہیں کیا خرابی ہو گئی تھی ۔ سڑک کے پار ایک میکینک کی ورکشاپ دکھائی دی ۔ میں جا کر میکینک کو لایا ۔ میکینک کار ٹھیک کرنے لگا ۔ میں فٹ پاتھ پر ایک پیڑ کے نیچے کھڑا ہو گیا تبھی میں نے دین محمد کو اپنے دوست کے دفتر کی عمارت سے نکلتا دیکھا ۔ میں نے دین محمد کو بہت دنوں بعد دیکھا تھا ۔ وہ مزید بوڑھا اور کمزور دکھائی دے رہا تھا ۔ کچھ لنگڑا کر بھی چل رہا تھا ۔ دین محمد کو میں کوئی بیس بائیس برسوں سے سے جانتا تھا ۔ وہ ہمارے محلے میں رہتا تھا اور کسی دفتر میں چپراسی تھا ۔ شریف اور عیالدار آدمی تھا ۔ دو تین سال پہلے ریٹائر ہوا تھا ۔ میں قریب چلا گیا ۔ وہ مجھ سے مل کر بہت خوش ہوا ۔ باتیں ہونے لگیں تو پتہ چلا وہ اسی سرکاری دفتر میں اپنی پنشن کی سلسلے میں آیا تھا ۔ اُسے ریٹائر ہوئے تین سال ہو گئے تھے مگر اُس کی پنشن ابھی تک جاری نہیں ہوئی تھی، وجہ یہ تھی کہ اُس کے نام کے ہجوں میں کسی کلرک کی حماقت سے کچھ گڑ بڑ ہو گئی تھی ۔ وہ اسلام آباد تک چکر لگا چکا تھا ۔ لیکن آج اُس کا کام ہو گیا تھا ۔ وہ خوشی سے بولا۔

‘‘صاب غلطی میری ہی تھی کہ مجھے پتہ ہی نہیں تھا کہ کام کہاں سے ہو سکتا تھا ۔ وہ تو ایک شریف آدمی نے بتایا، میں پرسوں آیا اور سب معلومات لیں ۔ تیس ہزار روپے رشوت دینا پڑی جو بیوی کے زیور بیچ کر ابھی دے کر آیا ہوں ۔ پچھلے تین سال کی پنشن کا آرڈر بھی ہو گیا ہے اور ماہ بماہ ملنے کے کاغذات بھی تیار ہو گئے ہیں‘‘ ۔ مجھے یہ کہانی سن کر بہت غصہ آیا ۔ میرا دوست اس دفتر کا سب سے بڑا افسر تھا ۔ سچا پاکستانی تھا ۔ میں نے افسوس سے کہا ۔

‘‘کم از کم مجھے تو بتاتے ، میں تمہارا کام ویسے ہی کروا دیتا ۔ ابھی چلو میرے ساتھ ۔ میں اُس آدمی کا وہ حشر کرواؤں گا کہ ہمیشہ یاد رکھے گا ۔ نام کیا ہے اُس خبیث کا؟‘‘

دین محمد نے جواب میں میرے دوست کا نام بتایا ۔ میں نے نظر اُٹھا کر اپنے دوست کے دفتر کی طرف دیکھا تو مجھے لگا جیسے وہ ہر کھڑکی سے سر نکالے مجھے ٹھینگا دکھا رہا ہو ۔

 

 

 

ایک اور کہانی

 

 

بڑے بڑے جلوس نکل رہے تھے اُن دنوں ۔ ہر طرف حکومت کے خلاف نفرت کی لہر تھی ۔ مطالبہ ایک ہی تھا کہ شراب پر مکمل پابندی لگاؤ ۔ ایک اسلامی ملک میں شراب کا بھلا کیا کام ۔ یہ ہماری نئی نسلوں کو تباہ کر رہی ہے۔ حرام ہے۔ پاکستان شراب کباب کے لئے نہیں بنایا گیا تھا وغیرہ ۔ ایک ایسا ہی غصے میں بھرا ہجوم ایڈلجی پارسی کی شراب کی دکان کی طرف رواں تھا ۔ ایڈلجی اور اُس کے ملازمین تو ہجوم کی آمد کی اطلاع سنتے ہی بھاگ نکلے تھے۔ دکان کی حفاظت کے لئے محض دو پولیس والے متعین تھے ، اُنہوں نے ہجوم کا موڈ دیکھا تو وہ بھی فرار ہو گئے۔ اب ہجوم تھا اور شراب کی دکان تھی ۔ بڑے بڑے شیشوں کی دیواریں ہجوم کے لئے ریت کی دیواریں ثابت ہوئیں ۔ منٹوں میں شراب خانے کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی ۔ ہجوم کی اگوائی کرنے والے لڑکوں کا تعلق طالب علموں کی ایک مذہبی جماعت سے تھا اور اُنہی میں سے ایک نے شراب خانے کو آگ لگانے میں پہل بھی کی تھی ۔ شراب خانے میں آگ ویسے بھی بہت تیزی سے پھیلتی ہے۔ منٹوں میں دکان جل کر خاکستر ہو گئی ۔ ہجوم نعرے لگاتا منتشر ہو گیا ۔ پاکستان کی تعمیر و تعبیر کا ایک اور خواب پورا ہو گیا تھا لیکن ایک مقامی ہسپتال میں اُسی شام ایمرجنسی نافذ کرنا پڑی ۔ وہاں شراب خانے کو آگ لگانے والے بہت سے ایسے لوگ لائے گئے تھے جنہوں نے ایسی شراب پی رکھی تھی جس میں کانچ کے بہت باریک ٹکڑے شامل تھے !!!

 

 

 

 

سو کا نوٹ

 

 

یہ تیسرا وقت تھا کہ وہ بھوکا تھا ۔ اُس نے کل رات کھانا کھایا تھا ۔ کھانا بھی کیا تھا ۔ ایک پلیٹ چھولوں کی اور تین نان اور یہ کھانا بھی بچا کھچا تھا ۔ رات کے گیارہ بج رہے تھے اور چوک میں نان چھولے بیچنے والا اپنا ٹھیلا خالی ہونے پر گھر جانے کی تیاری کر رہا تھا ۔ وہ ٹھیلے کے قریب کوئی ایک گھنٹے سے کھڑا تھا ۔ ٹھیلے والے نے اُسے ایک دو مرتبہ شک بھری نگاہوں سے بھی دیکھا تھا ۔ اُسے ڈر تھا کہ وہ کوئی لٹیرا نہ ہو ۔ سڑکوں کی رونق ماند پڑ گئی تھی اور کوئی بھی اُسے اُس ک دن بھر کی کمائی یعنی اٹھارہ سو روپے سے محروم کر سکتا تھا۔ پھر ٹھیلے والے نے قدرے سخت لہجے میں پوچھا۔

‘‘کیا بات ہے ؟ کیوں کھڑے ہو یہاں؟‘‘

سچ تو یہ تھا کہ وہ انتہائی ڈھیٹ بن کر ٹھیلے والے کے پاس مفت کھانا کھانے آیا تھا لیکن اس کی ہمت نئیں پڑ رہی تھی۔پھر اُس نے پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔

‘‘مجھے بھوک لگی ہے مگر میرے پاس پیسے نہیں ہیں ‘‘۔

ٹھیلے والے نے اطمینان کا سانس لیا ۔ اُسے اچانک ہی اس نوجوان پر برتری کا احساس ہونے لگا پھر وہ ہنس کر بولا۔

‘‘پہلے کہنا تھا یار ۔ اب تو کچھ بھی نئیں میرے پاس ۔ تلچھٹ پڑی ہو گی چھولوں کی اور دو تین باسی نان۔کھانے ہیں تو بولو۔‘‘

اور اس طرح اُس نے فوراً ہی تین نان کھا لئے تھے۔لیکن اس بات کو اب بہت وقت گزر چکا تھا ۔ دن بھر اُس نے کوئی کام بھی تلاش کیا تھا کہ روٹی کھا لے مگر ہر طرف سے ناکامی ہوئی تھی۔ اس وقت وہ ایک تقریباً ویران گلی کے گھر کے باہر ایک تھڑے پر بیٹھا تھا ۔ کسی کسی وقت بھوک کی شدت سے اُس کے پیٹ میں درد اُٹھنے لگتا تھا ۔ پھر اُسے وہ بچی دِکھی جو ہاتھ میں سو کا نوٹ پکڑے تیزی سے اُس کے قریب سے گزری ۔ وہ اُسی گھر سے نکلی تھی جس کے تھڑے پر وہ بیٹھا تھا ۔ بچی اطمینان سے چل رہی تھی اور یقیناً اُس دکان پر جا رہی تھی جو وہ گلی میں داخل ہوتے وقت دیکھ چکا تھا ۔ شام گہری ہو رہی تھی لہٰذا بچی کو گھر والے کہیں دُور تو کچھ خریدنے کو بھیج نہیں سکتے تھے۔ اگر اُسے سو روپے مل جاتے تو نہ صرف رات بلکہ شاید کل رات تک کے کھانے کا انتظام ہو سکتا تھا ۔ وہ یکدم ہی اُٹھ کھڑا ہوا اور بچی کے پیچھے چلنے لگا ۔ اُسے دو کرنا تھا بہت جلدی کرنا تھا ۔ بچی زیادہ سے زیادہ دو منٹ میں اُس دکان تک پہنچ سکتی تھی جو اُس نے گلی کے نکڑ پر دیکھی تھی ۔ اُس نے اس سے پہلے کبھی کوئی ایسا کام نہیں کیا تھا لیکن اُسے بڑی بھوک لگ رہی تھی ۔ ایک سنہری موقع اُس کے ہاتھ آ رہا تھا ۔ یہ کام ذرا بھی مشکل نہیں تھا۔ گلی بالکل خالی تھی ۔ ایک آٹھ سالہ بچی جس کے ہاتھ میں سو کا نوٹ تھا اس کے سامنے چلی جا رہی تھی ۔ اُسے تو دھمکانے کی بھی ضرورت نہیں تھی ۔ صرف ہاتھ بڑھانا تھا اور سو کا نوٹ اُس کی جیب میں ہوتا ۔ وہ بچی کے قریب پہنچ گیا ۔ بچی کو غالباً احساس ہو گیا تھا کہ ایک اجنبی بالکل اُس کے قریب پہنچ چکا تھا ۔ اُس نے گھوم کر اُسے دیکھا ۔ بڑی پیاری اور معصوم سی بچی تھی ۔ اُس کی ہمت ہی نہیں پڑ رہی تھی کہ وہ اُس سے سو کا نوٹ چھینتا مگر وہ بہت بھوکا تھا ۔ اُس نے آگے بڑھ کر بچی کے ہاتھ سے نوٹ جھپٹنا چاہا اور پہلی کوشش میں ناکام رہا ۔ بچی نے نوٹ اپنے پیچھے چھپا لیا ۔ وہ خوفزدہ تھی ۔ اتنی خوفزدہ کہ وہ چیخ بھی نہ سکی ۔ وہ یکدم ہی وحشی بن گیا اور اُس نے کہا ۔‘‘یہ نوٹ مجھے دے دو ورنہ میں تمہیں مار دوں ‘‘۔

اُس کا خیال تھا کہ بچی فوراً نوٹ اُسے دے دے گی مگر وہ نفی میں سر ہلا کر بولی ۔

‘‘ہمارے گھر میں کل سے کچھ نئیں پکا ۔ میرے دونوں چھوٹے بھائی اور اماں بھوکی ہیں ۔ ہمارے ابا مر گئے ہیں نا تو یہ نوٹ اماں نے پڑوس والی خالہ سے اُدھار لیا ہے۔ میں دکان پر جا رہی ہوں ۔ میں تمہیں یہ نوٹ نہیں دے سکتی انکل جی ‘‘۔

اُس نے دیکھا ۔ بچی کی آنکھوں میں بڑے بڑے آنسو تھے۔ وہ بچی کے راستے سے ہٹا اور بچی فوراً ہی بھاگتی ہوئی گلی کا موڑ مڑ گئی ۔ وہ تھڑے پر بیٹھا اور گھٹنوں میں سر دے کر رونے لگا !!!

 

 

 

اکیلا

 

 

بلاشبہ احسن میاں ایک خوبصورت شخص تھے اور ان شادی بھی محبت کی شادی تھی کہ ان کی بیوی عفت آرا ان پر ریجھ گئی تھیں ۔ ریجھی تو خیر کئی ایک تھیں مگر احسن میاں حسین ہونے کے ساتھ ساتھ شرمیلے بھی تھے۔ عفت آرا بڑی ہمت والی تھیں اور انہوں نے منہ پھاڑ کے کہہ دیا تھا کہ انہیں احسن میاں سے محبت ہو گئی تھی تو یہ شادی ہو گئی ۔ احسن میاں نے انہی دنوں بی اے کیا تھا اور نوکری ڈھونڈ رہے تھے لیکن یہ مشکل عفت آرا کے ابا نے آسان کر دی اور احسن میاں ریلوے میں کلرک ہو گئے۔ بچہ ایک ہی ہوا ۔ نام تھا جاوید احسن لیکن خاندان اور احسن میاں کی توقعات کے برخلاف وہ ایسا خوبرو نہ نکلا جیسی توقع کی جا رہی تھی ۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی رہی ہو کہ عفت آرا کا رنگ بھی کچھ دبتا ہوا تھا اور نقش بھی بس یونہی سے تھے۔ احسن میاں نے پوری زندگی ایک شریف آدمی کی طرح گزاری ۔ بیٹا سکول سے کالج میں پہنچا اور احسن میاں کلرکی سے ترقی کرتے کرتے سیکشن افسر بن گئے۔ وہ باون برس کے ہو گئے تھے لیکن کچھ نہ کچھ کشش اب بھی تھی ۔ سدا سے اپنی وجاہت کے قصے سنتے آ رہے تھے تو خود نمائی کی عادت بڑی پختہ کر لی تھی ۔ ہر ماہ ایک آدھ نیا سوٹ سلواتے ، بالوں میں چاندی آ گئی تھی جسے وہ ہر ہفتے رنگ لگا کے ابھی تک چھپائے ہوئے تھے۔ ان کا دفتر قریب ہی تھا اور وہ پیدل آیا جایا کرتے تھے۔ وہ عموماً سیدھ میں دیکھ کر چلتے تھے لیکن جانتے تھے کہ لوگ اب بھی گھوم کر انہیں دیکھتے تھے۔ دفتر میں بھی یہی حال تھا ۔ یہ بات تو جیسے سارے محکمے میں مشہور تھی کہ احسن میاں ایک وجیہہ شخص تھے۔ جب سے ان کی ترقی ہوئی تھی یہ بات ان کے سامنے کہنے والوں کی بھی کمی نہ تھی ۔ یہ درست ہے کہ وہ خوش دلی سے ہنس کر اپنی تعریف والوں سے ایسا نہ کہنے کو کہا کرتے لیکن من ہی من پھول جایا کرتے تھے۔

سردیاں آ رہی تھیں ۔ احسن میاں نے نیا گرم سوٹ سلوانے کو کپڑا خریدا اور گھر لائے۔ انہیں اگلے دن یہ کپڑا اپنے پرانے درزی کو دینا تھا ۔ ان کے بیٹے نے یہ کپڑا دیکھا تو اسے بہت پسند آیا ۔ اُس نے اس کپڑے کا سوٹ سلوانے کی فرمائش کر دی ۔ احسن میاں اُسے یہ کپڑا دینا نہیں چاہتے تھے۔ وہ اس کی جگہ کوئی دوسرا کپڑا لے کر دینے کو تیار تھے۔ پھر عفت آرا اس معاملے میں پھاند پڑیں اور انہوں نے بیٹے کی طرفداری کی ۔ رات کے کھانے کے بعد یہ قضیہ طول پکڑ گیا ۔ بیٹا تو خیر اپنے کمرے میں چلا گیا لیکن بیوی پھر یہ کپڑا بیٹے کو دینے پر اصرار کرنے لگیں ۔ جب بات بڑھی تو بیوی بولیں ۔

‘‘تم کیوں سلوانے چاہتے ہو اس کپڑے کا سوٹ؟ اب تمہیں دیکھتا ہی کون ہے ؟ اونہہ۔‘‘

یہ بات احسن میاں کو کھا گئی ۔ یہ بات ان سے نہ تو کبھی کسی نے کہی تھی اور نہ ہی انہیں جیتے جی ایسی بات سننے کی توقع تھی ۔ وہ اس رات اچھی طرح نہ سو سکے۔ یہ عورت جو اس وقت خراٹے لے کر سو رہی ہے میرے بارے میں اتنی بڑی غلط فہمی کی شکار ہے ؟ انہوں نے بار بار سوچا ۔ کپڑا تو خیر انہوں نے اگلی صبح بیٹے کو دے دیا لیکن بیوی کی بات ان کے ذہن سے نہ نکل سکی ۔ وہ آج بھی ناک کی سیدھ میں دیکھتے دفتر جا رہے تھے تو انہوں نے سوچا ان کی بیوی نے کس قدر غلط بات کی تھی ۔ وہ جانتے تھے کہ آج بھی لوگ انہیں گھوم گھوم کر دیکھتے ہیں ۔ انہوں نے کبھی اس بات کی پروا ہی نہیں کی تھی لیکن آج انہوں نے سیدھ میں دیکھ کر چلنے کے بجائے اِدھر اُدھر دیکھ کر چلنا شروع کیا ۔ انہیں یہ دیکھ کر حیرت سے زیادہ دکھ ہوا کہ کوئی بھی انہیں نہیں دیکھ رہا تھا ۔ انہیں لگا جیسے وہ اکیلے چل رہے ہوں ۔ پھر انہیں یہ بھی لگا جیسے وہ ہمیشہ سے اکیلے چل رہے تھے مگر انہوں نے اس کی طرف کبھی دھیان ہی نہیں دیا تھا !!!!

 

 

 

آوے کا آوا

 

 

 

سلطانہ کی آنکھ کھلی تو ساڑھے نو بج رہے تھے۔ وہ آٹھ بجے تک بستر چھوڑ دیتی تھی مگر گزشتہ تین راتوں سے اُسے اچھی طرح نیند نہیں آ رہی تھی اس کی ایک وجہ تھی ۔ اُس کا شوہر ایک ہفتے کے دورے پر شہر سے باہر تھا اور اُس کی خواب گاہ کا اے سی خراب تھا ۔ یہ درست تھا کہ کوٹھی کے اور کمروں میں بھی اے سی لگے ہوئے تھے مگر سلطانہ کو سوائے اپنی خواب گاہ کے اور کہیں نیند نہیں آتی تھی ۔ وہ اتنے دنوں سے مجبوراً پنکھا چلا کر سو رہی تھی اور چونکہ وہ اے سی کی عادی تھی تو نیند ٹوٹ ٹوٹ کر وقفوں میں آتی تھی ۔ صبح کے قریب جب قدرے خنکی ہو جاتی تھی تو سلطانہ دو چار گھنٹے سکون سے سو لیا کرتی تھی ۔ وہ دو مرتبہ اپنے پرانے ملازم خانو کے ذریعے اے سی میکینک کو بھی بلوا چکی تھی لیکن اے سی میکینک کا مرمت شدہ اے سی ایک گھنٹے سے زیادہ نہیں چلا تھا ۔ وہ یہ سب اپنے شوہر کو ہر روز فون پر بتا دیا کرتی تھی ۔ آج وہ غصے میں تھی، اُس نے اپنے شوہر سے فون پر کہا ۔

‘‘تم پتہ نہیں کب واپس آؤ گے ، میں مر چکی ہوں گی اس گرمی کے ہاتھوں۔‘‘

اُس کے شوہر نے وعدہ کیا تھا کہ آج شام سے پہلے پہلے نیا اے سی اُس کی خواب گاہ میں لگا دیا جائے گا ۔ فون رکھ کر وہ مسکرائی تھی ۔ کچھ بھی تھا اُس کا شوہر اُس سے بڑی محبت کرتا تھا ۔

ایک بجے تین چار آدمی نیا اے سی لگا کر چلے گئے۔ پرانا اے سی برامدے میں پڑا تھا ۔ کھانا کھا کر وہ اے سی کی ٹھنڈی اور خوشگوار ہوا والے کمرے میں پہنچی تو فوراً ہی سو گئی ۔ پانچ بجے تک وہ بے خبر سوتی رہی ۔ پھر جاگی اور نہا کر بال سنوارتی لاؤنج میں پہنچی تو اُس نے خانو کے ساتھ کسی مرد کو باتیں کرتے سنا ۔ اُس کی عادت چھپ کر کسی کی باتیں سننے کی تو نہیں تھی لیکن جب اُس نے گفتگو میں اپنے شوہر کا نام سنا تو کھڑکی کا پردہ ذرا سے ہٹا کر دیکھا ۔ خانو اُن آدمیوں میں سے ایک سے بات کر رہا تھا جو دوپہر نیا اے سی لگانے آئے تھے۔ خانو بولا۔

‘‘مانتے ہو اُستاد ۔ تمہارا کام بھی ہو گیا اور میرا بھی ۔ اب نکالو ہزار روپے ‘‘۔

سلطانہ نے غور سے دیکھا ، دوسرا آدمی خانو کو نوٹ گن کر دے رہا تھا ۔

پھر جو گفتگو ہوئی اس سے سلطانہ کو پتہ چلا کہ یہ نیا والا اے سی جو اُس کی خواب گاہ میں لگوایا گیا تھا، اصل میں حکومت کی سرپرستی میں چلنے والے کسی ھسپتال کے لئے خریدا گیا تھا اور جس اے سی کو وہ خراب سمجھ رہی تھی اُس میں محض ایک فیوز کا مسئلہ تھا اور خانو جس میکینک کو بار بار لا رہا تھا وہ اُس کے خاوند کے محکمے کا کوئی آدمی تھا جو اب یہ ‘‘خراب‘‘ اے سی لے جانے آیا تھا کہ اسے دفتر کے کباڑ خانے میں جمع کروا دے جہاں سے کچھ عرصے بعد اسے کوڑیوں کے مول نیلام کر دیا جانا تھا ۔ سلطانہ کا شوہر یقیناً ایک بڑا افسر تھا، وہ ایک اشارے سے کچھ بھی کر سکتا تھا لیکن اُس کو دفتر سے ملا ہوا نوکر خانو بھی کسی سے کم نہیں تھا ۔ سلطانہ مسکرائی اور کھڑکی سے ہٹ کر سوچنے لگی کہ واقعی اُس کا شوہر اُس سے کتنی محبت کرتا تھا !!!

 

 

 

 

عوام

 

 

ہم دونوں کو پرواز تبدیل کرنے کے لئے چھے گھنٹے تک ایک ائیر پورٹ پر رکنا تھا ۔ تعارف تو جہاز ہی میں ہو گیا تھا ۔ وہ نیپال سے آ رہا تھا اور اپنے گھر امریکہ جا رہا تھا ۔ میری منزل کوئی اور تھی اور یہاں سے ہمیں تین گھنٹے تک اکٹھے سفر کرنا تھا ۔ ہم دونوں اپنا اپنا سینڈوچ لئے ایک بار پھر ایک جگہ آن بیٹھے۔ تبھی ایک موٹی سے گوری عورت اپنا کتا لئے سامنے سے گزری ۔ وہ کتا شاید اُس کے ساتھ ہی سفر کر رہا تھا ۔ کتوں کی باتیں شروع ہو گئیں ۔ وہ بولا ۔

‘‘میں نے سنا ہے مسلمان لوگ کتے نہیں پالتے ؟‘‘

‘‘مسلمانوں نے اور بہت سی علتیں پال رکھیں ہیں تو کتا پالنے میں کیا ہرج ہے۔ پالتے ہیں‘‘

میں نے کہا ۔

اُس نے کچھ دیر سوچا اور کوک کا گھونٹ لے کر بولا۔

‘‘تم لوگ بھی پالتے ہو؟ میرا مطلب ہے پاکستان میں بھی کتے پالے جاتے ہیں؟‘‘

‘‘ہاں کیوں نہیں‘‘۔ وہ چند لمحوں تک سوچتا رہا پھر انتہائی سنجیدگی سے بولا۔

‘‘میں نے سنا ہے تمہارا ملک غریب ہے۔ ایک آدمی کتا پالنا کیسے افورڈ کرتا ہو گا؟ کتا پالنا تو بڑا مہنگا شوق ہے۔ تمہیں پتہ ہے ہم امریکہ میں سالانہ سترہ ارب ڈالرز کتوں کی دیکھ بھال پہ خرچ کر تے ہیں۔‘‘

مجھے پتہ تھا ۔ یہ بھی ایک اتفاق تھا کہ میں ے کچھ دیر پیشتر ہی جہاز میں اس بارے میں ایک مضمون پڑھا تھا ۔ میں نے کہا۔‘‘

‘‘ہاں میں جانتا ہوں‘‘۔ وہ یہ جاننے کو بے چین ہو رہا تھا کہ ہمارے ہاں ایک کتے پر ماہانہ کتنا خرچ آ جاتا ہو گا۔

‘‘مجھے بتاؤ تم کتے کو کھانے کو کیا دیتے ہو؟ رہنے کا کیا ہوتا ہے ؟ اُس کے میڈیکل پر کتنا خرچ ہو جاتا ہو گا؟‘‘

میں نے کہا۔

‘‘ جو ہم کھاتے ہیں اُس میں کا بچا کھچا کتوں کو ڈال دیتے ہیں ۔ ہمارے کتے بیمار نہیں ہوتے اور اگر ہوتے ہیں تو ہماری خواہش ہوتی ہے کہ وہ مر جائیں کیونکہ ہمارے ہاں علاج بڑا مہنگا ہے اس لئے یہ خرچ بھی بچا اور رہنا وہنا کیا، پڑے رہتے ہیں کہیں بھی۔‘‘

وہ ہنسا اور مجھے آنکھ مار کر بولا۔

‘‘یہ تو تم اپنے لوگوں کے بارے میں بات کر رہے ہو ۔ میں نے کتوں کا پوچھا تھا!‘‘

 

 

 

ڈاکو

 

 

وہ پانچوں اس گلی میں اتفاقاً جمع ہو گئے تھے۔ تین فلم دیکھ کر آ رہے تھے۔ دو کسی مل میں اپنا کام ختم کر کے گھروں کو جا رہے تھے۔ گلی عموماً تاریک رہا کرتی تھی ۔ بلدیہ کی طرف سے تین بلب لگانے کی جگہ ضرور دکھائی دیتی تھی لیکن مدتوں سے خراب یا ٹوٹے ہوئے بلبوں کی تبدیلی کی طرف کسی نے توجہ ہی نہیں کی تھی ۔ وہ تینوں ایک دوسرے کے لئے اجنبی تھے۔ اس سو گز لمبی اور چھے گز چوڑی گلی میں وہ کبھی کبھی یوں ایک دوسرے کے قریب آ جاتے جیسے ایک دوسرے کو جانتے ہوں ۔ پھر کوئی ایک سگریٹ سلگانے کو یا کھاتے ہوئے پان کی پیک تھوکنے کو پیچھے رہ جاتا لیکن جلد ہی دوسروں سے آن ملتا ۔ وہ گلی کے وسط میں تھے اور ایک دوسرے سے قریب بھی، تبھی وہ دونوں ڈاکو ان کے سامنے اچانک آ گئے تھے۔ وہ اندھیرے میں کسی گھر کے تاریک سائے میں کھڑے تھے اسی لئے تو کسی کی نظر ان پر نہیں پڑی تھی ۔ ڈاکوؤں کے پاس زیادہ وقت نہیں تھا ۔ کبھی بھی نہیں ہوتا ۔ انہوں نے صرف نقدی طلب کی اور ایک منٹ سے بھی کم وقت میں پانچ بٹوے ان کے قبضے میں تھے۔ لیکن وہ رات ڈاکوؤں کی بد نصیبی کی رات تھی ۔ عین اُسی وقت پولیس کی ایک جیپ طویل سائرن بجاتی گلی میں داخل ہوئی ۔ ڈاکوؤں نے بھاگنے کی کوشش ضرور کی لیکن جیپ کی روشنیاں تیز تھیں ۔ وہ پانچوں سہم کر ایک گوشے میں کھڑے ہو گئے کیونکہ پولیس نے گولی چلا دی تھی ۔ پانچوں نے دیکھا ۔ وہ ڈاکو جس کے ہاتھ میں پستول تھا نیچے گرا ۔ دوسرا جس کے قبضے میں ان کے بٹوے تھے ، ہاتھ اُٹھائے جیپ کے سامنے کھڑا ہو گیا لیکن اُس سے پہلے اُس نے پانچوں کے بٹوے گلی کے فرش پر پھینک دئیے۔ پولیس والے زخمی ڈاکو کو سنبھالنے اور جیپ میں ڈالنے کی جلدی میں تھے۔ انہوں نے زخمی اور اُس کے ساتھی کو جیپ میں ڈالا، آدمیوں سے کوئی تعرض کئے بغیر وہاں سے چلے گئے۔ ایک نے آگے بڑھ کر سبھی کے بٹوے جمع کئے اور ہنس کر بولا۔

‘‘بھائیو ہم لوگ خوش نصیب تھے۔ اپنا اپنا بٹوا پہچان کے مجھ سے لے لو۔‘‘

چار ہاتھ آگے بڑھے۔ چاروں نے ایک ایک پرس اُٹھایا ۔ ایک نے سگریٹ لائٹر جلایا کہ ہر کوئی اپنا اپنا پرس پہچان لے۔ جلد ہی وہ قریب پڑے پتھروں اور اینٹوں سے ایک دوسرے کو زخمی کر رہے تھے کیونکہ ایک بٹوا جس میں بھرے ہوئے نوٹ لائٹر کی مدھم روشنی میں دکھائی دے رہے تھے ، ہر کسی کو اپنا لگ رہا تھا !!

 

 

 

اِتنی سی بات !!

 

 

شروع شروع میں علاقے کے لوگ بہت خوش ہوئے کہ آخر حکومت کو اُن کا خیال آ ہی گیا اور اُس سڑک پر جو انکی دکانوں اور مکانوں کے درمیان سے گزرتی تھی سڑکوں کے محکمے نے ‘‘جمپ‘‘ بنا کر اُن گاڑیوں کی رفتار توڑ دی جو اپنی تیزی رفتار کے باعث آئے دن حادثوں کا سبب بنتی تھی ۔ لیکن پھر ایک اور مصیبت آن موجود ہوئی ۔ اس جمپ پر اس کو بناتے وقت جو سفید نشانات لگائے گئے تھے اور جن سے ڈرائیوروں کو دُور سے معلوم ہو جاتا تھا کہ آگے رکاوٹ ہے اور وہ اپنی رفتار کم لیا کرتے تھے ، وہ وقت کے ساتھ پہلے مدھم پڑے اور پھر بالکل غائب ہی ہو گئے۔ اب کسی کو معلوم نہیں ہوتا تھا کہ آگے کوئی ‘‘جمپ‘‘ ہے چنانچہ لوگ تیز رفتار سے آتے اور جب جمپ اُنہیں دکھائی دیتا تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی اور وہ بری طرح اُچھلتے۔ کئ گاڑیاں ٹوٹ گئیں، کئی موٹر سائکل سوار زخمی ہوئے اور لوگ اس جگہ کو خونی کہنے لگے۔ تبھی علاقے کے کچھ لوگوں نے سڑکوں کے محکمے سے رجوع کیا اور سرکار نے اس شکایت کو دُرست مانتے ہوئے اس پر کام شروع کر دیا گیا ۔ چونکہ یہ شکایت محکمے کے چئیر مین صاحب کو کی گئی تھی تو اُنہوں نے اسے اپنے اسسٹنٹ کو ‘‘مارک‘‘ کیا ۔ وہ چھٹی پر تھے۔ ایک ہفتے بعد آئے تو یہ درخواست کہیں کاغذوں میں دب گئی تھی ۔ بارہویں دن ان کی نظر پڑی، اُنہوں نے متعلقہ سیکشن افسر کو فوری اقدام کرنے کا حکم دیا ۔ سیکشن افسر نے چوتھے دن آفس سپرینٹینڈنٹ کو مارک کیا ۔ جس نے اپنے ہیڈ کلرک کو مارک کر کے چیف انجنئیر کے دفتر کو اس نوعیت کا ایک خط لکھنے کو کہا ۔ ایک بار پھر محکمہ جاتی پہیہ حرکت میں آیا اور یہ ہدایت منزلیں طے کرتی چئیرمین صاحب کی میز تک پہنچی ۔ اُنہوں نے یہ ہدایت چیف انجنئیر کے دفتر بھجوا دی جنہوں نے اس ہدایت کو وہی سفر کروایا جیسا سفر علاقے کے لوگوں کے درخواست نے کیا تھا اور چھے ماہ بعد جب یہ درخوست ورکس ڈپارٹمنٹ میں پہنچی تو وہاں کے افسر مجاز نے اُسی دن ٹینڈر نوٹس جاری کر دیا ۔ اس دوران اس جمپ کی وجہ سے کئی حادثات ہو چکے تھے مگر حکومتی سطح پر کام جاری تھا اور کوئی یہ گلہ نہیں کر سکتا تھا کہ حکومت عوامی مسائل کی طرف سے آنکھیں بند کئے بیٹھی ہے۔ ایک دن ایک صاحب جو اپنی موٹر سائیکل پر تین سالہ بچہ اور بیوی کو لئے چلے جا رہے تھے ، اس جمپ سے ٹکرا گئے۔ بیوی کو معمولی چوٹیں آئیں مگر بچہ بری طر زخمی ہو گیا ۔ وہ بچ تو گیا مگر کئی ہفتے ہسپتال میں رہا ۔ لوگ ایک مرتبہ پھر حکومتی محکمے میں گئے جہاں اُنہیں بتایا گیا کہ کار مذکور کے واسطے ٹینڈر جاری ہو چکے ہیں اور بس چند ہفتوں میں یہ شکایت رفع کر دی جائیگی ۔ اوروں کی طرح یہ باتیں ہر روز قریب محلے کا بچہ حامد بھی سنا کرتا تھا ۔ ان دنوں اس کا باپ برسات کی آمد سے پہلے گھر میں سفیدی کر وا رہا تھا ۔ ایک رات بچے نے تھو ڑا سا چونا ایک ڈبے میں ڈالا، سفیدی کرنے والے کی کُوچی اٹھائی اور جمپ پر تین بڑے اور روشن نشانات بنا دئیے۔ وہ کچھ دیر کے لئے وہاں کھڑا رہا ۔ وہ تیز رفتار سے آتی ایک کار کو دیکھ سکتا تھا ۔ اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی جب اُس نے کار والے کو جمپ سے کوئی دس فٹ دُور کار کی رفتار کم کرتے دیکھا اور پھر وہ ایک محفوظ رفتار سے وہاں سے گزر گیا ۔ پھر ایک موٹر سائیکل والے نے بھی یہی کیا ۔ پھر ایک اور ۔۔۔۔۔

 

 

 

مان

 

 

وہ کئی دنوں سے سن رہا تھا کہ اُس کے علاقے میں رشید نامی کوئی شخص اُس کے آدمیوں کو چرس بیچنے سے منع کر رہا تھا ۔ دو تین کو تو وہ بروقت نشاندہی کر کے پکڑوا بھی چکا تھا ۔ خیر وہ اُسی دن چھٹ بھی گئے تھے کیونکہ وہ باقاعدگی سے ‘‘ہفتہ‘‘ تھانے میں جمع کرواتا تھا ۔ پریشانی کی بات یہ تھی کہ اُس کا دبدبہ علاقے کے لوگوں سے اُٹھتا چلا جا رہا تھا اور یہ بات ناقابل برداشت تھی ۔ اُس نے نے چار پانچ آدمی ساتھ لئے اور رشید کے گھر پر چلا گیا ۔ محلے میں یہ خبر آگ کی طرح پھیلی کہ قادو بدمعاش رشید کو سیدھا کرنے اُس کے گھر پہنچ گیا ہے۔ لوگ جمع ہو گئے۔ اُس نے اُنہیں ہٹانے کی کوشش نہیں کی کیونکہ وہ چاہتا تھا کہ اس رشید کو سبق سکھانے کا تماشہ سارا محلہ دیکھ لے۔ ایک ساتھی نے دروازہ کھٹکھٹایا ۔ پہلے ایک بچہ باہر نکلا ۔ وہ دروازے پر اتنے لوگ دیکھ کر حیران رہ گیا ۔ اُنہوں نے بچے کو گالی دے کر کہا کہ وہ رشید کو باہر بھیجے۔ چند لمحوں بعد بنیان دھوتی میں ملبوس رشید دروازے پر آیا ۔ قادو بدمعاش کی ہنسی اُسے دیکھ کر نکل گئی ۔ اُس کے ناتواں بدن کی پسلیاں گنی جا سکتی تھیں ۔ پھر اُس نے ڈپٹ کر کہا ۔

‘‘اوئے تُو اس محلے میں ہمارا دھندہ خراب کر رہا ہے ؟‘‘

رشید نے اطمینان سے مسکرا کر کہا ۔

‘‘ہاں میں ہر غلط کام کو ہاتھ سے روکنا اپنا فرض سمجھتا ہوں ۔‘‘

قادو نے رشید کا بنیان گلے کے پاس سے پکڑ کر جھٹکا دیا اور بولا۔

‘‘اوئے چڑی کے بچے۔ تجھے دیکھ کر مجھے رحم آ گیا ہے۔ باز آ جا نہیں تو مارا جائے گا۔‘‘

بچہ جو باپ کے ساتھ ہی کھڑا تھا اور غصے میں دکھائی دیتا تھا، بلند آواز میں بولا۔

‘‘جا اوئے کام کر اپنا ۔ میرا ابا اس محلے کا سب سے تکڑا بندہ ہے۔ تم سب کو مار مار کے سیدھا کر دے گا ۔ کیوں ابا؟‘‘

بچے کے چہرے پر اطمینان، فخر اور ایسا سکون تھا جیسے اُس کا باپ ابھی ان پانچوں بدمعاشوں کو مار کے وہاں سے بھگا دے گا ۔ قادو کا آدمی آگے بڑھا اور اُس نے بچے پر ہاتھ ڈالنا چاہا ، اُسی لمحے قادو کی آواز گونجی ۔

‘‘ٹھہر جا اوئے۔ چلو واپس‘‘۔

قادو کے آدمی اور محلے کے تماشائی حیران رہ گئے اور قادو ساتھیوں کے ساتھ واپس چلا گیا ۔ رات کو اُس کے ایک قریبی ساتھی نے پوچھا۔‘‘

یہ تُو نے کیا کیا اوئے ؟ تجھے ہو کیا گیا تھا؟ ‘‘

قادو مسکرایا اور بولا۔

‘‘اوئے مجھ سے اُس بچے کا اپنے باپ پہ مان نہیں توڑا گیا ۔ بس اتنی سی بات تھی ۔‘‘

 

 

 

مٹی کا سمندر

 

 

بانو کی جوانی اُس پیلے اُداس چاند جیسی تھی جو کسی اُونچے بام پہ اٹک کے رہ جائے۔ وہ بہت چھوٹی تھی کہ ماں مر گئی، ایک سال بعد باپ بھی ۔ اُسے خالہ نے پالا پھر خالہ کو بھی فالج ہو گیا اور ایسا ظالم فالج کے خالہ کا بس ایک ہاتھ کام کرتا تھا ۔ گھر اپنا تھا ورنہ وہ دونوں سڑک پر پڑی ہوتیں ۔ وہ خالہ کی بہت خدمت کرتی تھی ۔ خالہ کے اُس پہ بے شمار احسانات تھے۔ وہ شاید ایسے ہی ہمیشہ اُس کی خدمت کرتی رہتی مگر پھر اُسے جیدا مل گیا ۔ جاوید نام تھا اُس کا اور وہ گھر گھر گھوم کر ردی جمع کرتا تھا ۔ اُس ردی کے اُس کی ماں اور بہنیں لفافے بنایا کرتی تھیں جنہیں وہ بازار میں فروخت کر دیتا تھا ۔ کمبخت صورت کا بہت ہی اچھا تھا اور بانو کو اُس سے پہلی ہی نظر میں عشق ہو گیا تھا ۔ ویسے تو اُس نے چھوٹے موٹے دو چار عشق پہلے بھی کئے تھے لیکن وہ لوگ بے وفا تھے۔ اُسے چاہتے تھے ، اُس کی زندگی سے اُنہیں کوئی سروکار نہیں تھا ۔ جیدا اُسے چاہتا تھا ۔ ٹھیک تھا وہ جیدے سے کوئی دس سال بڑی تھی مگر جیدا کہتا تھا اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ بانو کو اچھا نہیں لگا کہ وہ خالہ کو دھوکہ دے کر جیدے سے شادی کر لے۔ اُس نے رات کو خالہ کو صاف ستھرا کر کے ، چمچے سے کھیر کھلا کے اور بتی بجھا کے اُسے بتایا کہ وہ کسی سے شادی کرنا چاہتی تھی ۔ اُس کو حیرت ہوئی جب خالہ کے فالج زدہ جسم میں اتنی شدید حرکت پیدا ہوئی یہ خبر سن کے۔ خالہ نے اپنے حلق سے جو چند خوفناک آوازیں نکالیں، بانو اُن کا مطلب بخوبی سمجھتی تھی ۔ بڑھیا اس خوف کا شکار تھی کہ بانو شادی کر کے اس گھر سے چلی جائے گی تو اُس کی دیکھ بھال کون کرے گا ۔ اُس رات بانو چیختی رہی اور خالہ پوری قوت سے غاں غوں کی آوازیں نکالتی رہی ۔ اُس نے جیدے کو بتایا کہ ان کی شادی کی راہ میں صرف خالہ ہی رکاوٹ بھی ۔ جیدے نے سوچنے کا وقت مانگا اور تیسرے دن بانو کے ہاتھ میں ایک پڑیا دے کر بولا۔

‘‘بڑھیا مدتوں سے بیمار ہے۔ کسی کو شک بھی نہیں ہو گا ۔ دودھ یا پانی میں ملا کے دے دینا ۔ یہ زہر بہت تیزی سے اثر کرتا ہے اور اس کی کوئی نشانی بھی موت کے بعد ظاہر نہیں ہوتی کہ کوئی شک کرے۔‘‘ جیدا فوراً ہی واپس چلا گیا ۔ بانو نے خالہ کو صاف ستھرا کیا، اُس کی پسندیدہ کھیر بنا کر چمچے سے کھلائی اور بالکل بھی ظاہر نہیں ہونے دیا کہ وہ خالہ سے روٹھی ہوئی تھی ۔ بڑھیا کی آنکھوں میں بھی تشکر کے آنسو تھے۔ وہ چاہتی تھی کہ وہ کہ کام رات کو دو بجے کے بعد کرے جب بڑھیا ایک مرتبہ پھر کچھ کھانے کو مانگتی تھی ۔ اس عورت کی وجہ سے وہ اُنیس سال سے اپنی جوانی گھلا رہی تھی ۔ اُس نے نفرت سے سوچا ۔ پھر اُسے حیرت ہوئی کہ اُسے پہلے اس بات کا خیال کیوں نہیں آیا۔ بہر حال آج کی رات اُس کی رہائی کی رات تھی ۔ دو بجتے ہی بڑھیا کے بستر سے غوں غان کی آوازیں آنے لگیں ۔ بانو اُٹھی اور باورچی خانے میں جا کر اُس نے رات کی بچی ہوئی کھیر گرم کی اور باورچی خانے میں چھپائی زہر کی پڑیا کھولی ۔ سفید سا، تھوڑا سا سفوف تھا ۔ اُس نے جلدی جلدی سفوف چمچے سے کھیر میں ملایا اور بستر کے قریب گئی ۔ بڑھیا کروٹ کے بل پڑی ہوئی تھی ۔ اُس نے دھیرے سے پکارا، پھر زور سے اور پھر اُس کا سر پکڑ کر اپنی طرف گھمایا ۔ بڑھیا مر چکی تھی ۔ اُس کا منہ اور آنکھیں کھلی ہوئی تھیں ۔ بانو نے بے یقینی سے سرہلایا اور چیخ کر بولی۔

‘‘حرامزادی تُجھے مار کر مجھے جو خوشی ملنے والی تھی، تو نے مرتے مرتے وہ بھی مجھ سے چھین لی ‘‘۔ پھر وہ چارپائی کی پٹی پکڑ کر وہیں بیٹھ گئی اور چپکے چپکے رونے لگی ۔

 

 

 

دل کا چَین

 

 

احسن ان معنوں میں یقیناً بد نصیب آدمی تھا کہ اُس کی شادی اکتیس سال چلنے کے بعد ختم ہو گئی تھی ۔ دو ہی بچے تھے جن کی شادیاں ہو چکی تھیں اور وہ بیرون ملک رہتے تھے۔ بیوی کبھی ایک کے پاس اور کبھی دوسرے کے پاس رہتی تھی ۔ احسن اکیلا رہتا تھا ۔ کامیاب کاروباری شخص تھا اس لئے بے حد مصروف ۔ دن تو جیسے تیسے گزر جاتا تھا لیکن رات کھانے کو دوڑتی تھی ۔ یہی نہیں چھٹی کے دو دن بھی اُس کے لئے عذاب ہو جایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ بہت بارشیں ہوئیں اور گیراج کی چھت گر گئی ۔ اچھا ہوا اُس رات احسن ابھی تک گھر نہیں پہنچا تھا ورنہ اُس کی نئی کار برباد ہو جاتی ۔ جب اُس نے گیراج کی چھت مرمت کروانے کا سوچا تو اُسے گھر میں بے شمار ایسے مقامات دکھائی دئیے جو مرمت طلب تھے۔ عید کی چھٹیاں قریب تھیں ۔ احسن نے سوچا ان چھٹیوں میں وہ یہ کام کرائے گا ۔ اُس نے اس سلسلے میں اپنے ٹھیکیدار دوست صدیقی سے بات کی جس نے دوسرے ہی دن چند مزدور بھجوا دئیے اور اُن کا ایک انچارج بھی جس کا نام انور علی تھا ۔ کام شروع ہو گیا ۔ انور علی بہت مزے کا آدمی تھا ۔ وہ مزدوروں کو ہدایات دے کر احسن کے قریب آن بیٹھتا اور دنیا جہان کی باتیں کرتا رہتا ۔ اُن دنوں احسن نے محسوس کیا کہ اُس کی نیند بھی بہتر ہو گئی تھی اور اُسے بھوک بھی لگنے لگی تھی ۔ اُسے اپنی زندگی میں بہت بڑی تبدیلی یہ بھی محسوس ہو رہی تھی کہ وہ بہت کھل کر ہنسنے لگا تھا ۔ ایک صبح اُس نے شیو کرتے وقت اپنا چہرہ غور سے دیکھا تو اُسے اپنی جگہ ایک ترو تازہ شخص کھڑا دکھائی دیا ۔ وہ اب انور علی کا انتظار کرتا ۔ انور علی آتا اور مزدوروں کو کام پر لگا کر احسن کے قریب بیٹھ جاتا اور وہ دنیا بھر کے موضوعات پر باتیں کرتے۔ انور علی نے دنیا دیکھ رکھی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ اُس کا مطالعہ بھی بہت اچھا تھا ۔ چھے سات روز کے بعد اتفاقاً کام ایک ایسے دن ختم ہوا جب اگلے دن بھی چھٹی تھی ۔ وہ کل شام مزدوروں کے ساتھ ساتھ انور علی کو بھی طے شدہ اُجرت دے کر فارغ کر چکا تھا ۔ اُسے کچھ ہی دیر بعد دن پہاڑ لگنے لگا ۔ وہ دوپہر کو کھانے کے بعد گالف کھیلنے گیا لیکن اُس کا جی نہ لگا ۔ رات دیر تک وہ ٹی وی دیکھتا رہا اور پھر سو گیا ۔ وہی تھکا دینے والا معمول شروع ہو گیا ۔ دفتر، گھر اور ایک طویل رات ۔ وہ پھر بے خوابی کا شکار ہو گیا ۔ زندگی ایک ایسا پہیہ محسوس ہونے لگی جسے وہ نہ چاہتے ہوئے بھی چلانے پر مجبور تھا ۔ ہفتہ وار چھٹی کے دو دن پھر عذاب ہو گئے۔ پھر اُس نے انور علی سے رابطہ کیا اور اُسے شام کی چائے کی دعوت دی ۔ انور علی کہیں اور مصروف تھا لیکن وہ شام کو آ ہی گیا ۔ احسن چونکہ چاہتا تھا کہ انور علی ہر ہفتے مستقلاً اُس کے پاس آیا کرے چنانچہ اُس نے کہا ۔

‘‘میں جانتا ہوں تم مصروف آدمی ہو لیکن اگر تم ہفتے اور اتوار کی شام میرے ساتھ گزار سکو تو میں تمہیں اس کا معقول معاوضہ دینے کو تیار ہوں ۔‘‘

اس پر انور علی سنجیدہ ہو گیا اور بولا۔

‘‘کس بات کے معاوضے کی بات کر رہے ہیں آپ؟‘‘

اس پر احسن مسکرا کر بولا۔‘‘

میں تمہیں اپنے بارے میں سبھی کچھ بتا چکا ہوں ۔ میں چاہتا ہوں کوئی مجھ سے میری باتیں سنے ، اپنی کہے ، اصل میں مجھے دل کا چَین ملتا ہے تم سے باتیں کر کے۔‘‘

پھر وہ ذرا توقف کے بعد بولا۔

‘‘ہزار روپے فی شام ٹھیک رہیں گے ؟‘‘

اس جواب پر انور علی کھڑا ہو گیا اور نفی میں سر ہلا کر بولا۔

‘‘جناب آپ مجھے اپنے دل کے چَین کے لئے اپنے پاس جز وقتی ملازم رکھنا چاہ رہے ہیں اور اس قدر کم پیسے ؟ آپ جانتے نہیں آج کے دَور میں جو چیز سب سے مہنگی ہے ، وہ دل کا چَین ہی ہے ؟‘‘

 

 

 

ڈیوڈ

 

 

ڈیوڈ ہمارے سلمان چچا کے گھر جب آیا تھا تو کوئی بارہ پندرہ برس کا رہا ہو گا ۔ پتہ نہیں وہ اُسے کہاں سے لائے تھے مگر لڑکا بہت محنتی تھا ۔ چچی نے شروع میں ایک غیر مذہب کو گھر میں لانے پر کچھ احتجاج بھی کیا مگر وہ کم بخت اتنا محنتی اور ایماندار تھا کہ چچی کی نظروں میں بھی چڑھ گیا ۔ جب چچا کی سرکاری ملازمت سے ریٹائر منٹ ہو گئی اور سرکاری ڈرائیور کی سہولت واپس لے لی گئی تو ڈیوڈ گھر کی کار چلانے لگا ۔ چچا نے اُسے کار چلانا پہلے ہی سکھوا دیا تھا ۔ تین چار سال پہلے گجرانوالہ کے کسی عیسائی خاندان میں اُس کی شادی بھی ہو گئی تھی ۔ ہمارے بڑے چچا زاد جو بہت دنوں سے امریکہ میں رہتے تھے ایک مرتبہ آئے تو ضد کر کے کوٹھی کی بہت سی خالی پڑی زمین میں ڈیوڈ کے لئے دو کمروں کا ایک گھر بھی بنوا گئے۔ ڈیوڈ اور سب گھر والے مزے میں تھے۔ میں جب بھی سال چھے مہینے میں چچا کے گھر جاتا تو ڈیوڈ مجھے لئے لئے دن بھر گھوما کرتا ۔ میری تعلیم اسی شہر میں ہوئی تھی تو تقریباً سبھی یار دوست یہیں رہتے تھے۔ میں نے ایک بات دیکھی تھی، ڈیوڈ کار جب بھی کسی مزار کے پاس سے گزارتا، کار میں لگی موسیقی یا بند کر دیتا یا پھر آواز بہت ہی کم کر دیتا تھا ۔ یہی کام وہ کسی مسجد کے قریب سے گزرتے ہوئے بھی کرتا تھا ۔ ایک مرتبہ جب اُس ایسے ہی کیا تو میں نے مذاق میں کہا۔

‘‘میں جانتا ہوں تم احتراماً ایسا کرتے ہو مگر تم نہ بھی کرو تو کیا فرق پڑتا ہے۔تم کونسے مسلمان ہو؟‘‘

اس پر وہ مسکرایا اور بولا

‘‘صاب آپ کی بات ٹھیک ہے۔ میں اتنے سالوں سے آپ لوگوں کے ساتھ رہتا ہوں ۔ مجھے مسلمان بہت اچھے لگتے ہیں ۔ اتنے اچھے کہ میں بتا نہیں سکتا ۔‘‘

غالباً وہ چچا کے احسانات کی بات کر رہا تھا ۔ میں نے مذاقاً کہا ۔

‘‘تو مسلمان کیوں نہیں ہو جاتے ؟‘‘

ڈیوڈ مسکرایا اور بولا۔

‘‘اپنے گھر والوں کی وجہ سے ‘‘۔

جب اُس نے گھر والوں کہا تو میں سمجھ گیا کہ غالباً وہ اپنی بیوی کی بات کر رہا تھا ۔ کیونکہ اُس کے تینوں بچے ابھی بہت چھوٹے تھے۔

میں نے چھیڑا ۔ ‘‘اوہ تو تمہاری بیوی نہیں مانتی؟‘‘

ڈیوڈ نے نفی میں سر ہلایا ۔

‘‘نہیں صاحب وہ بہت اچھی ہے۔ اگر میں مسلمان ہو جاؤں تو شاید وہ بھی میرے ساتھ مسلمان ہو جائے۔‘‘

مجھے اب اُلجھن ہونے لگی۔ میں نے کہا۔‘‘

‘‘ابے تو پھر کیا مسئلہ ہے ؟ اور کونسے گھر والے ہیں ؟‘‘

وہ ہنسا اور بولا۔

‘‘صاحب اس ڈر سے مسلمان نہیں ہوتا کہ مسلمان ہوا تو پھر نماز بھی پڑھنا پڑے گی اور نماز کے لئے کسی مسجد میں بھی جانا ہو گا اور اگر کسی نے بم مار دیا تو میرے بچوں کا کیا ہو گا؟‘‘

میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا ۔

 

 

 

کرنٹ

 

 

بابو کا اصلی نام تو پتہ نہیں کیا تھا لیکن سبھی اُسے اسی نام سے پکارتے تھے۔ اُسے شیخ نور الہٰی کی دکان پر کام کرتے اب کوئی سال بھر ہو گیا تھا ۔ شیخ صاحب کپڑا بیچتے تھے۔ دکان خوب چلتی تھی ۔ بابو کے علاوہ چار پانچ اور بھی ملازمین تھے۔ شیخ صاحب کا گھر دکان سے کچھ ہی فاصلے پر تھا اور بابو کی ذمہ داریوں میں یہ بھی شامل تھا کہ وہ ہر دوپہر شیخ صاحب کے گھر سے ان کے اور ملازمین کے لئے کھانا بھی لاتا تھا ۔ چاہے دکان پر عورتوں مردوں کی کتنی ہی بھیڑ ہوتی، بابو ٹھیک پونے بارہ بجے جوتے پہنتا اور شیخ صاحب کے گھر کی طرف روانہ ہو جاتا ۔ ایسا وہ صرف شیخ صاحب کے حکم کی وجہ سے نہیں کرتا تھا ۔ اس میں ایک بات اور بھی تھی ۔ وہ ہر روز بارہ بجے شیخ صاحب کے گھر کی گھنٹی بجاتا، چند لمحوں تک انتظار کرتا اور پھر اُسے ایک مخصوص خوشبو محسوس ہوتی تو وہ سمجھ جاتا کہ اب رومال میں بندھی روٹیاں اور ایک بڑے ڈونگے میں سالن کے ساتھ ایک حنائی ہاتھ باہر نکلے گا اور وہ کھانا لے کر روانہ ہو جائے گا ۔ لیکن اس سے پہلے بھی کچھ ہوتا تھا جو بابو کو بہت اچھا لگتا تھا ۔ پہلی مرتبہ یہ اتفاق سے ہوا تھا لیکن پھر بابو نے جان بوجھ کر اس کا انتظام کرنا شروع کر دیا تھا ۔ حنائی ہاتھ جیسے ہی بابو کے ہاتھ سے ٹکراتا، مانو بابو کے جسم میں ایک کرنٹ دوڑ جاتا ۔ وہ کرنٹ سے ملنے والے اس لطف کو کوئی نام نہیں دے سکتا تھا ۔ شاید نام دینا ہی نہیں چاہتا تھا ۔ بس ہر روز محسوس کرنا چاہتا تھا ۔ جمعے کو دکان بند ہوتی تو بابو کے لئے دن کاٹنا مشکل ہو جاتا ۔ وہ جانتا تھا کہ شیخ صاحب کے گھر میں ان کی بیوی اور بیٹی کے علاوہ اور کوئی نہیں رہتا تھا،چنانچہ اُس کے لئے یہ اندازہ کرنا کچھ بھی مشکل نہیں تھا کہ ہر روز وہ جس ہاتھ سے کرنٹ لے رہا تھا وہ شیخ صاحب کی بیٹی کا ہی ہاتھ تھا ۔ بابو کو اس ہاتھ اور اس خوشبو کی ایسی عادت ہو گئی تھی کہ وہ ہر روز پونے بارہ بجنے کا شدت سے انتظار کرتا اور ہاتھ اور خوشبو کے حوالے سے اتنی گہری سوچوں میں ڈوب جاتا کہ اُسے سامنے کھڑا گاہک بھی دکھائی نہ دیتا ۔ یہ بات پیر والے دن کی ہے۔ بابو حسب معمول کھانا لینے گیا، اُس نے گھنٹی بجائی، لیکن خوشبو نہ محسوس ہوئی، بابو بے چین ہو گیا ۔ پھر چند لمحوں بعد ایک آدمی گھر سے باہر نکلا اور اُس نے بابو کو شیخ صاحب کی بیوی کا کہہ کر بتایا کہ اُسے اندر بلایا جا رہا تھا ۔ بابو مختصر سی ڈیوڑھی سے گزر کر گھر کے آنگن میں چلا گیا ۔ مخصوص خوشبو چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی ۔ بابو نے بے چین نگاہوں سے ادھر ادھر دیکھا لیکن شیخ صاحب کی بیٹی کہیں نہ دکھائی دی ۔ سیاہ چادر میں لپٹی شیخ صاحب کی بیوی نے بابو کو مزدور کی مدد کرنے کو کہا جو ایک بھاری میز کمرے کے اندر پہنچانا چاہتا تھا ۔ گھر میں کسی قسم کا کوئی کام ہو رہا تھا ۔ بابو مزدور کے ساتھ میز کمرے میں پہنچانے لگا تو شیخ صاحب کی بیوی نے سیاہ چادر سے ہاتھ نکال کر کچھ کہا ۔ یہ تو وہی حنائی ہاتھ تھا جو بابو گزشتہ ایک سال سے دیکھ رہا تھا ۔ اُس نے بہانے سے شیخ صاحب کی بیوی سے قریب ہو کر اپنی تسلی کی ۔ بلاشبہ وہ خوشبو اُنہی کے پاس سے آ رہی تھی ۔ پھر وہاں پڑوس کی ایک عورت آ کر شیخ صاحب کی بیوی سے باتیں کرنے لگی تو بابو کو پتہ چلا کہ شیخ صاحب کی ایک بیٹی ضرور تھی لیکن وہ پیدائشی اپاہج تھی اور برابر والے کمرے میں لیٹی رہتی تھی ۔ وہ عورت اُس کی مالش کرنے کو آیا کرتی تھی ۔ بابو رات بھر جاگتا رہا ۔ دوسرے دن وہ بھاری قدموں سے حسب معمول کھانا لینے گیا، حنائی ہاتھ باہر نکلا وہ بابو کے ہاتھ سے ٹکرایا بھی لیکن آج اُس میں کرنٹ نہیں تھا !

 

 

 

مہنگائی

 

 

کام سخت تھا اور موسم بھی گرمیوں کا تھا ۔ مجھے لان کی ساری گھاس کھدوا کر دوبارہ لگوانا تھی اور گھاس لگانے والے نے صاف کہا تھا کہ پہلے اُسے زمین تیار کروا کے دی

چنانچہ میں اپنے شہر کے اُس چوک گیا جہاں صبح سویرے مزدور کام کی آس میں آ کر بیٹھ جاتے ہیں ۔ وہ مزدوروں کی قطار میں بیٹھا مجھے دُور سے دکھائی دیا اور اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ اُس نے گہرے سرخ رنگ کی قمیص پہن رکھی تھی ۔ وہ چار سو مانگ رہا تھا مگر میں نے اُسے تین سو پر راضی کر لیا ۔ کھانے کے پچاس روپے روزانہ الگ سے طے ہوئے۔ میں اس قسم کے مزدوروں سے خوب واقف ہوں اور میں نے اُنہیں موقع ملتے ہی کام چھوڑ کر بیٹھتے یا سوتے بھی دیکھا ہے اس لئے میں نے اُس پر نہ صرف خود گہری نگاہ رکھی بلکہ ملازم سے بھی ایسا کرنے کو کہا ۔ اُسے کام کرتے تیسرا دن تھا اور چونکہ میں نے اُسے کبھی سستانے کو بیٹھا نہیں دیکھا تھا اس واسطے مجھے اُس کی ایمانداری کا یقین ہو گیا لیکن چوتھے روز مجھے اُلجھن ہونے لگی ۔ وہ مجھ سے روزانہ کی مزدوری کے پچاس روپے کھانے کے نام پر وصول ضرور کرتا تھا لیکن کھانا کھانے نہیں جایا کرتا تھا ۔ پھر میں نے سوچا ممکن ہے وہ ایسا کرتا ہو لیکن میں نے نہ دیکھا ہو ۔ اگلے دو دن میں نے عین کھانے کے وقت بیڈ روم کی کھڑکی سے جھانکا ۔ وہ بدستور کام میں مصروف تھا ۔ نو دن کے بعد کام ختم ہو گیا تو میں نے اُسے شام کو اُجرت دیتے ہوئے ہنس کر کہا ۔

‘‘یار تم کھانا کھانے تو جاتے نہیں تھے اور مجھ سے پچاس روپے روز وصول کرتے رہے ، بلکہ آج بھی کر رہے ہو ۔ کیا تم دوپہر میں کھانا نہیں کھاتے ؟‘‘

وہ ہنسا اور بولا۔

‘‘کھاتا ہوں جی مگر مہنگائی اتنی بڑھ گئی ہے کہ یہ چالیس پچاس روپے بچانے ضروری ہیں ۔ دو بچے ہیں، بیوی ہے اور ماں ۔ پہلے تین سو میں رو پیٹ کے گزارہ کر لیتے تھے مگر اب نہیں ہوتا ۔ بیوی بچوں اور ماں کو کھانا دینا ضروری ہے۔ میں جوان آدمی ہوں ۔ ایک وقت کھانا نہ بھی ملے تو کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ اچھا جی چلتا ہوں۔‘‘

اُس شام جب میں اپنا سگریٹ کا ہفتہ وار کارٹن منگوانے کو نوکر کو ساڑھے نو سے روپے دے رہا تھا تو مزدور کی بات مجھے یاد آ گئی ۔ وہ سچ کہہ رہا تھا ۔ یہ کارٹن میں دو مہینے پہلے تک ساڑھے سات سو کا منگوایا کرتا تھا ۔

 

 

 

کیسے نہیں لکھو گے ؟

 

 

یہ کیا بھجوا دیا آپ نے ؟ اقبال صاحب آپ بھی کمال کر تے ہیں ۔ میں نے کچھ اور کہا تھا آپ نے کچھ اور لکھ دیا ۔ کیا کہا معاشرے کی سچی تصویر ہے ؟ ارے صاحب کمال کرتے ہیں آپ بھی ۔ ہم یہاں معاشرے کی سچی تصویریں دکھانے کو نہیں بیٹھے ، چینل چلا رہے ہیں ۔ آپ کو پتہ ہے کتنا سخت کمپیٹیشن چل رہا ہے ؟ اور یہ کیا آپ نے نائیوں، دھوبیوں، قصائیوں کی کہانی لکھ دی؟ یہ کون دیکھتا ہے آج کل؟ مجھے تو لگتا ہے آپ کا ان لوگوں کے طرز زندگی کا مشاہدہ ہی نہیں ہے جن کو لوگ ٹی وی پر دیکھنا چاہتے ہیں ۔ معذرت چاہتا ہوں میرا یہ مطلب نہیں تھا ۔ اب دیکھئے نا اس سکرپٹ میں پوری پوری قسط گزر جاتی ہے ، کوئی فیمیل کیریکٹر ہی نہیں آتا ۔ کہیں بڈھے بیٹھے ہیں، کہیں روتی پیٹتی عورتیں ۔ آپ کو ہو کیا گیا ہے ؟ ارے اف ۔ آپ تو برا مان گئے۔ میرا یہ مطلب نہیں تھا ۔بھائی آپ زمانے کے ساتھ کیوں نہیں چلتے۔اب دیکھئے نا کتنی فنی بات ہے کہ آپ نے لکھا ہے کہ یہ کہانی فیضو رکشے والے کی ہے۔ لاحول ولا۔ کسی فیضو رکشے والے پر کوئی کہانی کیسے بن سکتی ہے۔کہانیاں تو وہاں بنتی ہیں جہاں لوگوں کے پاس کھانے کمانے سے فراغت ہو۔میرے بھائی کوئی فیضو زیادہ سے زیادہ کیا تیر مار سکتا ہے۔اف اقبال صاحب۔اقبال صاحب پلیز پرسنل نہ لیں اس بات کو ۔ اچھا اچھا ذرا میری بات ٹھنڈے دل سے سنیں ۔ دیکھیں ہمیں کوئی بہت بڑا فلسفہ یا کوئی بہت اعلیٰ آئیڈیا نہیں چاہئیے۔ جی جی میں بتاتا ہوں

آپ کو ۔ ایک کالج کی لڑکی رکھیں جس کی منگنی ہو چکی ہے۔ ایک لڑکا رکھیں جو اس پر عاشق ہو جاتا ہے۔ لڑکی، لڑکے میں انٹریسٹڈ ہے۔ لیکن لڑکے کو پتہ نہیں ہے کہ یہ وہی لڑکی ہے جس کی منگنی اُس کے اُس چچا زاد سے ہو چکی ہے جس کے خاندان سے لڑکے کے خاندان کی مقدمہ بازی چل رہی ہے۔ کیسا ٹوئسٹ ہے ؟ ہاہا ۔ اچھا اب کہانی آگے چلائیں ۔ لڑکی کی ماں کو فالج کروا دیں یا باپ کو رشوت کے الزام میں تھانے پہنچا دیں ۔ تھانے میں یہ راز کھلتا ہے۔ اُدھر ایک ڈولیپمنٹ یہ ہوتی ہے۔۔۔۔ سن رہے ہیں نا آپ ۔ کیا کہا یہ سب نہیں لکھ سکتے ؟ کیوں نہیں لکھ سکتے بھائی؟ اس میں پرابلم کیا ہے آپ کو۔ خیر آپ کی مرضی لیکن یہ طے ہے کہ ہم یہ سب ‘‘شٹ‘‘ نہیں چلا سکتے۔ کسی سے کہہ کر اپنا سکرپٹ واپس منگوا لیں۔ آپ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ لوگ بڑے گھر، لمبی کاریں، جینز والی لڑکیاں اور ساڑھیوں والی آنٹیاں دیکھنا چاہتے ہیں۔آپ ابھی تک گلی کے تھڑے پر بیٹھے ماموں، چاچوں اور ماسیوں کی کہانیاں لکھ رہے ہیں۔خدا حافظ۔۔بہر حال سوچ لیں۔ پیسے ہم آج بھی سب سے زیادہ دیتے ہیں ۔ ہاہاہا ۔ میں جانتا تھا آپ سمجھدار آدمی ہیں ۔بالکل بالکل ۔ تو ٹھیک ہے۔ دس دن اور لے لیں ۔ ہاں ہاں جب حکم ہو ۔ ایڈوانس کا چیک میں گھر پر بھجوا دوں گا حضور ۔ ٹیکس کی فکر نہ کریں وہ ہم دیں گے۔ اقبال صاحب آئی لو یو ۔ کسی دن شام میں چکر لگائیں نا ۔ اچھا اچھا خوش رہیں ۔ اللہ حافظ ۔ اللہ حافظ ۔ اور ہاں ہلو۔ جی میں یہ کہہ رہا تھا کہ ایک بات کا خاص خیال رکھیں ۔ ہر سین میں کوئی نہ کوئی تتلی ضرور ڈالیں ۔ ارے کسی بھی بہانے سے۔ ہاہاہا ۔۔ لو یو ۔تھینکس تھینکس۔۔۔اللہ حافظ۔۔۔

 

 

 

کاریگر

 

 

نیاز محمد ہمارا چپراسی تھا ۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب چپراسی کو نائب قاصد نہیں کہا جاتا تھا ۔ ہمارا چھوٹا سا دفتر تھا ۔ یوں نہیں تھا کہ ہم کسی چھوٹے سے دفتر میں کام کرتے تھے ، بس یوں سمجھ لیجئے کہ یہ ایک بہت بڑے دفتر کی چھوٹی سی شاخ تھی ۔ میرے علاوہ وہاں پانچ لوگ اور تھے اور ہم میں سے کسی کی تنخواہ ڈھائی تین سو سے کم نہیں تھی ۔ نیاز محمد بے چارے کو اُس زمانے میں ایک سو اسی روپے ملتے تھے اور وہ بھی اس وجہ سے کہ اُس کی ملازمت کافی لمبی ہو گئی تھی ۔ وہ کثیر العیال شخص تھا۔ پانچ بیٹے اور تین بیٹیاں۔ میں ہمیشہ یہ سوچ سوچ کر حیران ہوتا تھا کہ وہ اتنے سارے بچوں کی تعلیم اور پھر لڑکیوں کی شادیوں کے موقعے پر کیا کرے گا؟ لیکن صاحب اُس نے ایک ایک کر کے اپنی بیٹیوں کی شادیاں بھی کر دیں اور اُس کا چھوٹا لڑکا پڑھ لکھ کر انجینر بھی ہو گیا ۔سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ نیاز محمد کے آخر کونسے ایسے وسائل تھے کہ اُس نے دفتر میں کسی سے ایک پیسہ مانگے بغیر یہ سارے کام سر انجام دے دئیے ؟ جس دن وہ ریٹائر ہو رہا تھا دفتر والوں نے اُس کے اعزاز میں ایک چھوٹی سی تقریب کا اہتمام کیا ۔ جب سب کھانے پینے سے فارغ ہو گئے تو رات ہو چکی تھی ۔ میں جانتا تھا کہ نیاز محمد کا گھر کافی دُور تھا لیکن چونکہ وہ میرے گھر کے راستے میں پڑتا تھا، چنانچہ میں نے اُسے اپنی سائیکل پر پیچھے بٹھا لیا ۔ جب ہم اُس کے گھر پہنچے تو رات کافی ہو چکی تھی مگر وہ مجھ سے ایک پیالی چائے پی کر جانے کی ضد کرنے لگا ۔ جب ہم چائے پی رہے تھے تو میں نے نیاز محمد سے وہ سوال پوچھ ہی لیا جو اکثر میرے ذہن میں اُس کی مالی حالت کے حوالے سے کلبلایا کرتا تھا ۔ نیاز محمد ہنسا اور بولا۔

‘‘صاب بندے کو کاریگر ہونا چاہئے۔پھر کوئی مشکل نئیں ہوتی۔آپ یقین نئیں کریں گے کہ دفتر سے مجھے جو تنخواہ ملتی تھی، میں نے کبھی اُس میں سے ایک پیسہ اپنی یا اپنے گھر والوں کی ذات پہ خرچ نہیں کیا۔‘‘

یہ ایک بم تھا جو اُس نے میرے سر پہ مارا۔میں نے حیرت سے کہا۔

‘‘تو پھر؟ کیا تمہاری کوئی جائیداد وغیرہ ہے ؟ میرا مطلب ہے کہ اتنے سارے بچوں کو پال پوس کے تم نے اُنہیں پڑھا بھی دیا اور لڑکیوں کی شادیاں بھی کر دیں۔یہ سب کیسے ہوا؟‘‘

اس پر نیاز محمد مجھ سے ایک منٹ انتظار کرنے کو کہہ کر دوسرے کمرے میں گیا اور جب

واپس لوٹا تو اُس کے ہاتھ میں ایک سیاہ چوغہ، ایک بیساکھی اور گندے بالوں کی ایک وِگ تھی۔پھر وہ ہنس کر بولا۔

‘‘تیسرے بچے کے بعد مجھے پتہ چل گیا تھا کہ سوکھی تنخواہ میں میرا گزارہ نہیں ہو سکتا۔چنانچہ میں نے رات میں یہ دھندہ شروع کر دیا۔صاب یقین مانو، کسی کسی رات تو دفتر کی پوری مہینے کی تنخواہ سے زیادہ آمدنی ہو جایا کرتی تھی۔‘‘

مجھے گھن آنے لگی۔میں کھڑا ہوا اور میں نے نفرت سے کہا۔

‘‘تم دفتر کے اوقات کے بعد بھیک مانگتے رہے ہو؟ بھکاری کہیں کے۔‘‘

اس پر نیاز محمد ہنسا اور بولا۔

‘‘صاب بجلی پانی گیس کے بل، بچوں کے خرچے ،کھانا پینا، غمی خوشی اور بیماری۔اس سب کے لئے میری تنخواہ بہت تھوڑی تھی۔اور میں فقیر نہیں ہوں صاب۔کاریگر ہوں کاریگر۔‘‘

اُس رات جب میں سائیکل چلاتا گھر کی جانب جا رہا تھا تو میں نے سوچا میں خواہ مخواہ نیاز محمد پر بگڑا تھا۔وہ تو ایک فرد تھا۔یہاں تو حکومتیں کاریگری کرتی رہی ہیں اور کر رہی ہیں۔اپنے لوگوں کے ساتھ بھی اور دنیا بھر کے ساتھ بھی۔میں نے نیاز محمد کو معاف کر دیا۔

 

 

 

 

پتی ورتا

 

 

شادی کے دس سال بعد وہ پہلی مرتبہ اپنے ماں باپ کے گھر امریکہ جا رہی تھی ۔۔۔ اُس کے دونوں بچوں کی خوشی دیدنی تھی اور وہ خو بھی کچھ کم خوش نہ تھی ۔۔۔ اس دوران

اُس کے دونوں چھوٹے بھائیوں کی شادیاں وہیں ہوئی تھیں اور وہ بچوں کے باپ بھی بن گئے تھے لیکن وہ اُن سے کبھی نہ ملی تھی ۔۔۔ ابا جی کچھ بیمار رہنے لگے تھے اور اُسے اُن کی بھی فکر رہتی تھی ۔۔۔ بس دس سال یونہی گزر گئے تھے ورنہ ارادہ تو ہر سال کیا کرتی تھی ۔۔۔ اُسے اپنے شوہر کی بڑی فکر تھی ۔۔ یہ ایک مہینہ وہ کیسے گزارے گا ۔۔۔ پھر اُس کا شوہر بھی تو دنیا بھر کی عجیب عادتیں پالے ہوا تھا ۔۔۔ صبح بیڈ میں چائے کی ایک پیالی، پھر اخبار اور پھر سستی سے اُٹھ کر ایک لمبا وقت غسلخانے میں ۔۔۔ کتنی ہی مرتبہ تو اُسے ناشتہ بھی دو بار گرم کرنا پڑتا تھا ۔۔۔ اس وقت اُس کا شوہر اُسے اور دونوں بچوں کو ائیر پورٹ پہنچانے جا رہا تھا اور وہ مسلسل بول رہی تھی ۔۔۔

‘‘ دیکھو بلڈ پریشر کی گولی ایک دن چھوڑ کر ضرور لینا اور ایک گھنٹے سے زیادہ واک مت کرنا ۔۔۔ دفتر سے وقت پر اُٹھ جایا کرنا ۔۔۔ اور تمہارے ٹخنے پر ملنے والی بام میں نے سامنے ہی رکھ دی ہے۔۔۔ کہیں ڈھونڈتے رہو ۔۔۔ اور یہ مت کرنا کہ میرے جاتے ہی چائے خوب قند کر کے پینا شروع کر دو ۔۔۔ تمہاری شوگر ٹسٹ کی کِٹ باتھ روم کی الماری میں ہے۔۔۔ میں نے تمہارے پانچ سوٹ پریس کر کے رکھ دئیے ہیں ۔۔۔ اگلے ہفتہ شاہانہ کی بیٹی سالگرہ ہے۔۔۔ گرے سوٹ پہن کر جانا ۔۔۔ اور بلیک سوٹ جو تم کراچی سے لائے تھے وہ مت پہننا ۔۔۔ اُس کی آستین پر جلنے کا داغ ہے۔۔۔ میں واپس ہو لوں پھر رفو کروا دوں گی ۔۔۔ ماسی کی بیٹی کی شادی کے لئے جو تحفہ دینا ہے ، وہ میں نے سٹور میں سب سے اُوپر رکھ دیا ہے۔۔۔ ضرور دے دینا اور پانچ ہزار نقد ۔۔۔ منہ مت بناؤ وہ میں نے تھوڑے تھوڑے کر کے بچائے تھے۔۔۔ تم پر ایک دم بوجھ نہیں پڑے گا ۔۔۔ اور ہاں اپنی پڑھنے والی عینک ضرور لے لینا ۔۔۔ رسید تمہارے بریف کیس میں رکھ دی ہے میں نے۔۔۔ اور میں کیا کہہ رہی تھی؟‘‘

وہ مسکرایا۔۔۔‘‘تمہارے پاس مزید کچھ کہنے کا وقت نہیں ہے کیونکہ ائیر پورٹ آ چکا ہے۔۔‘‘

جب اُس کی بیوی اور بچے ائیر پورٹ کی عمارت میں چلے گئے تو اُس نے کار ائیر پورٹ کی

حدود سے باہر نکالی ۔۔۔ کچھ دور تک چلتا رہا ۔۔۔ وہ کہیں رکنا چاہتا تھا مگر ٹریفک کا اژدہام ایسا نہیں کرنے دے رہا تھا ۔۔پھر اُسے ایک جگہ مل ہی گئی ۔۔۔ اُس نے کار روکی ۔۔۔

موبائیل فون نکالا اور ایک نمبر ملا کر مسکراتے ہوئے بولا۔۔۔

‘‘ہاں وہ چلی گئی ہے میری جان ۔۔۔ ایک مہینے تک نہیں آئے گی ۔۔۔ سنو میں تمہارے پاس دس منٹ میں پہنچ رہا ہوں ۔۔۔!!

 

 

 

ننھا ابھی چھوٹا ہے

 

 

ننھا بڑی اُلجھن میں تھا ۔ وہ چھٹی جماعت میں تھا ۔ ابھی اُس کے سالانہ امتحانات ختم ہوئے تھے اور اُس کا حساب کا پرچہ خراب ہو گیا تھا ۔ ننھا اس کا مطلب سمجھتا تھا ۔ اُس کا باپ اُس کا ہر قصور معاف کر سکتا تھا لیکن پڑھائی کے حوالے سے اُس کے پاس کسی بچے کے لئے کوئی معافی نہیں تھی ۔ گزشتہ سال ننھے کا بھائی ایک دن سکول سے بھاگ کر دوستوں کے ساتھ پکنک منانے چلا گیا تھا اور ننھے کے ماموں کی وجہ سے یہ راز کھلا تھا تو ننھے کے باپ نے لڑکے کو ساری رات چھت پر سخت سردی میں کھڑا رکھا تھا اور دادی کی سفارش پر صبح کے قریب اُسے سونے کی اجازت دی تھی ۔ ننھا اس قسم کی کسی بھی سزا سے بچنا چاہتا تھا لیکن سزا سر پہ کھڑی تھی کیونکہ کل نتیجہ آنے والا تھا۔ اُس دن صبح صبح اُس نے دادی کو اپنی ہم عمر کسی خاتون سے کہتے سنا کہ اگر انسان اپنی کوئی قیمتی چیز اللہ کے نام پر دے دے تو آنے والی مصیبت ٹل سکتی ہے۔ یہ بات ننھے کے دل میں ترازو ہو گئی ۔ اُس نے بہت دیر تک سوچا کہ اُس کے پاس ایسی کیا چیز تھی۔ پھر اُسے یاد آ گیا ۔ سات مہینے پہلے اُس کی پھپھی لاہور سے اُنہیں ملنے آئی تھی تو اُس نے جاتے وقت گھر کے بچوں کو پیسے دئیے تھے اور یوں سو کا ایک نوٹ ننھے کو بھی ملا تھا ۔ ننھے نے وہ نوٹ ابھی تک خرچ نہیں کیا تھا اور واقعتاً اُسے وہ نوٹ بڑا عزیز تھا ۔ وہ تقریباً ہر روز ہی سکول سے واپسی پر اُس نوٹ کو نکال کر دیکھتا، سونگھتا اور پیار سے ہاتھ پھیر کر پھر اپنی کتابوں کی الماری میں اردو انگلش کی اُس موٹی سی ڈکشنری میں رکھ دیتا جو غالباً اُس کے باپ کے تعلیمی دَورسے اُن کے گھر میں چلی آ رہی تھی ۔ ننھا باد ل نخواستہ سو کا نوٹ لئے گھر سے نکل آیا ۔ اب اُسے یہ فیصلہ کرنا تھا کہ اُسے یہ نوٹ کسی مستحق کو دینا تھا ۔ وہ نوٹ قمیص کی اندرونی جیب میں احتیاط سے رکھے اپنی گلی سے نکلا، بازار میں آیا اور پھر بڑی سڑک پر ۔ یوں اُسے کتنے ہی فقیر دکھائی دئیے لیکن ذرا غور سے دیکھنے پر ننھے نے کسی کو بھی اس قابل نہ پایا کہ وہ اُنہیں مستحق سمجھتا ۔ ایک عورت جو ایک بچی کو عین فٹ پاتھ پر دودھ پلا رہی تھی، اُس کے بارے میں ننھے نے فیصلہ کیا کہ وہ واقعی امداد کی مستحق تھی لیکن اُسی وقت وہاں ایک آدمی آیا جس سے عورت کی گفتگو سے ننھے کو اندازہ ہوا کہ وہ اس عورت کا شوہر تھا اور دونوں بھیک کے حساب پر جھگڑا کر رہے تھے اور تبھی اُسے یہ بھی پتہ چلا کہ عورت کے پاس پانچسو روپے تھے جو وہ آدمی عورت سے مانگ رہا تھا اور عورت اُسے گالیاں دے رہی تھی ۔ وہ کتنے ہی فقیروں کے پاس سے گزرا لیکن کوئی اُس کی سمجھ میں نہ آیا ۔ شام ہونے کو تھی اور کل نتیجے میں حساب کے پرچے میں فیل ہو کر مصیبت لانے والی گھڑی قریب تر ہو رہی تھی ۔ پھر وہ فقیروں کے ایک غول کے پاس سے گزرا ۔ وہاں دس بارہ فقیر بیٹھے چرس پی رہے تھے ، ہنس بول رہے تھے اور ایک دوسرے کو گالیاں دے رہے تھے۔ اُسے لگا ایسے لوگوں کو خیرات دے کر وہ اللہ میاں کو کبھی راضی نہیں کر سکتا تھا ۔ وہ شام گہری ہونے تک کسی مستحق کی تلاش میں گھوما کیا لیکن اُسے ایک بھی ایسا شخص نہ ملا جسے وہ یہ سو کا نوٹ دے کر حساب کے پرچے میں پاس ہو سکتا ۔ اپنی گلی کے نکڑ پر اُسے دینا بابا ملا ۔ دینا بابا دو سال پہلے تک اُس کے سکول میں چپراسی تھا ۔ وہ بہت مہربان شخص تھا اور ننھے سے بہت محبت سے پیش آتا تھا ۔ ننھے نے سوچا دینا بابا سے مشورہ کرنا چاہئیے۔ دینا بابا نے ننھے کی بات غور سے سنی، مسکرایا اور بولا ۔

‘‘ہاں مجھے پتہ ہے نتیجے کا ۔ تم حساب میں فیل ہو گئے ہو لیکن فکر کی کوئی بات نہیں۔تمہارا پرچہ اصغر صاحب کے پاس تھا اور وہ چاہیں تو تمہیں پاس بھی کر سکتے ہیں ۔ یہ سو کا نوٹ تم مجھے دو اور کل تماشہ دیکھو‘‘۔

ننھے نے کہا ۔

‘‘لیکن میں یہ نوٹ اللہ میاں کے نام پر دینا چاہتا ہوں۔۔‘‘

اس پر دینا بابا ہنسا اور بولا ۔‘‘یار تم کتنے بڑے بیوقوف ہو ۔ اللہ میاں خود زمین پر آ کر تو یہ نوٹ وصول کرنے سے رہے۔ اللہ میاں نے ہر کام کا ایک طریقہ بنایا ہوا ہے۔ نہیں سمجھے ؟ ابھی تم یہ باتیں سمجھنے کے لئے بہت چھوٹے ہو ۔ لاؤ نوٹ مجھے دو اور پھر قدرت کے کام دیکھو۔۔‘‘

ننھے کو اللہ میاں پر بڑا پیار آیا جب وہ اگلے دن حساب میں بھی پاس ہو گیا تھا ۔

 

 

 

قربانی

 

 

اچھی طرح سن لو جی، اس دفعہ میں کسی گائے وائے میں حصہ نہیں ڈالوں گی ۔ بہت ہو گیا ۔ ہمیں اچھا نہیں لگتا ۔ اتنے سارے نوٹ بھی دو اور اتنا سا گوشت؟ گائے خریدیں گے اپنی ۔ سالم ۔ اور ایک بات اور بھی کہے دیتی ہوں ۔ گائے ایسی ہو کہ ایک دفعہ تو سارا محلہ ہی دیکھے۔ میں سامنے والی مسز بٹ کو دکھانا چاہتی ہوں کہ ہم اُن سے بھی بڑی اور تگڑی گائے کر سکتے ہیں ۔ کیا کہا؟ گنجائش نہیں ہے ؟ خبردار جو میرے سامنے ایسا کوئی بہانہ کیا ۔ کیسے نہیں ہے گنجائش؟ تم دفتر میں جس سیٹ پہ بیٹھے ہو اس سیٹ پہ بیٹھنے کے لئے تو ایک آدمی نے ایک دفعہ صدر پاکستان کی سفارش تک لگوائی تھی ۔ میں کوئی بہانہ نہیں سنوں گی ۔ سنا ہے منڈی میں اس دفعہ اچھی تگڑی گائے یا بیل ڈیڑھ سے کم نہیں ۔ ہاں ہاں ڈیڑھ لاکھ ۔ میں کوئی ڈیڑھ ہزار کہہ رہی ہوں؟ میں کچھ نہیں جانتی، کل میرے ہاتھ پہ سیدھی طرح ڈیڑھ لاکھ رکھ دینا ۔ بس ۔ کہاں سے آئیں گے ؟ یہ میرا درد سر نہیں ہے کہ کہاں سے آئیں گے ؟ ارے بٹ صاحب کیا ہیں؟ گریڈ سترہ میں ابھی پچھلے مہینے پہنچے ہیں ۔ ایک گھر ڈیفنس میں بنوایا ہے۔ سنا ہے اگلے مہینے شفٹ ہو رہے ہیں ۔ سجاوٹ ہو رہی ہے۔ تم تو اُن سے کہیں بڑے افسر ہو ۔ ارے ہو یا نہیں؟ ہمارے پاس یہ کھٹارہ ہے ، اُن کے دونوں لڑکے اپنی اپنی کاریں لئے گھومتے ہیں ۔ ہاں ہاں میں اسے کھٹارہ ہی کہوں گی ۔ تین سال پرانا ماڈل کھٹارہ ہی ہوتا ہے۔ خیر اس وقت میں کار وار کی بات نہیں کر رہی ۔ میں قربانی کے جانور کی بات کر رہی ہوں ۔ اور سنو تم کیسے کہہ سکتے ہو کہ تم پیسوں کا انتظام نہیں کر سکتے ؟اُس بُڑھیا کا کیس تمہارے ہی پاس ہے نا جو اُس دن رات کو گھر بھی آئی تھی۔ کیا کہا؟ مجبور ہے ؟ کوئی مجبوری نہیں ہے اُسے چالیس پچاس لاکھ کی جائیداد ہے اُس کی ۔ اگر اُسے مل گئی تو لکھ پتی ہو جائے گی بیٹھے بٹھائے۔ سنو میں نے تم سے کہا نہیں تھا، وہ کہہ رہی تھی کہ بیٹی کے جہیز کے لئے کچھ زیور رکھا ہے اُس نے۔ اگر ضرورت پڑی تو وہ بھی دے دے گی ۔ بس اُس کی جگہ سے قبضہ چھڑوا دو اُن بدمعاشوں کا کسی طرح۔ تمہارے لئے یہ کیا مشکل ہے۔ ذرا سا قلم ہی ہلانا ہے تمہیں ۔ ارے ہاں رو رہی تھی ۔ میں نے بھی دیکھا تھا ۔ تم بے شک بڑے افسر ہو مگر دنیا کو جتنا میں سمجھتی ہوں، تم نہیں سمجھتے۔اُس کے حلئے پر مت جانا۔اندر سے پوری حرافہ ہے۔ احمد دین کو بلوا رہی ہوں میں ۔ وہ اپنے گھر کا پتہ دے گئی تھی۔ اُس سے کہو کہ ڈیڑھ لاکھ کا انتظام کر دے کسی طرح۔دیکھو یہ دہرے ثواب کا کام ہے۔ اُسے اُس کی جائیداد مل جائے گی ۔ ہم قربانی کر کے اللہ کو خوش کر دیں گے۔بھئی یہی حکم اُس پروردگار کا ہے نا؟ ۔ احمد دین، احمد دین،اِدھر آ کمبخت ۔ صاب بلا رہے ہیں !!!

 

 

 

 

وسیلہ

 

 

 

‘‘میں اس خبیث کو اب ایک لمحہ بھر نہیں رکھوں گا۔ اسی وقت نوکری سے نکال رہا ہوں ‘‘۔

چچا نے انتہائی غصے کے عالم میں کہا ۔ مجھے بھی اُن کے اس فیصلے سے خوشی ہوئی کیونکہ میں گزشتہ دس بارہ دنوں سے اُن کے گھر رہ رہا تھا اور میں نے اتنا خبیث نوکر واقعی پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا ۔ طے یہ ہوا تھا کہ وہ صبح سے لے کر مغرب کی اذانوں تک کام کیا کرے گا اور صرف جمعے کی چھٹی ہوا کرے گی ۔ مگر وہ دو ڈھائی بجے ہی غائب ہو جایا کرتا تھا اور کبھی کبھی اُس کا جمعہ دو تین دن طویل ہوتا تھا ۔ گھر میں سبھی کو اس فیصلے کی خوشی تھی بلکہ خانساماں نے تو اُسی وقت اپنے ایک بے روزگار بھائی کی خدمات بھی پیش کر دیں تھیں جو کہیں گاؤں میں رہتا تھا اور موجودہ ملازم سے کہیں بہتر آدمی تھا وغیرہ ۔ نوکر نے غلطی ہی ایسی کی تھی جو ناقابل معافی تھی ۔ چچا کے لکھنے پڑھنے والے کمرے کی صفائی کرتے وقت اُس نے چچا کی کوئی بیس برس کی شاعری بھی اُٹھا کر ردی والے کو بیچ دی تھی ۔ وہ تو اچھا ہوا کہ چچا اُسی وقت کمرے میں آئے اور ان پہ یہ راز کھلا ۔ بڑا داماد اور دس سالہ پوتا کوئی دو گھنٹوں گلیوں گلیوں مارے پھرے اور اُس ردی والے کو چار گنا قیمت دے کر چچا کا خزانہ دوبارہ گھر لے آئے۔ ملازم دہی لینے گیا تھا ۔ چچا نے اُسے کمرے میں بلایا اور اُسی وقت نوکری سے نکالنے کا حکم صادر کر دیا ۔ وہ زبان دراز بھی تھا تو میرا خیال تھا کہ کوئی نہ کوئی سخت جواب دے گا لیکن اُس نے چچا کے پیر پکڑنے کی کوشش کی اور ہاتھ جوڑ کر بولا۔

‘‘اگلے سال بے شک نکال دینا صاب ۔ ایک سال تو مجھے ہر صورت نوکری کرنی ہے۔ بیوی لوگوں کے گھروں کے برتن مانجھتی ہے تو گھر چلتا ہے۔ یہ تنخواہ جو آپ مجھے دیتے ہیں اس سے لڑکی کا علاج چل رہا ہے۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ وہ اگلے سال تک مر جائے گی کیونکہ اس مرض کا کوئی علاج نہیں ۔ مگر مجھے تو علاج کروانا ہے چاہے وہ جئے یا مرے۔‘‘وہ بات ختم کر کے آنسو پونچھنے لگا، بڑی بہو،چچی اور میں اُس وقت کمرے میں تھے۔ شاید چچا کے تاثرات کچھ تبدیل ہوئے تھے لیکن چچی تڑخ کر بولیں ۔

‘‘چپ حرام خور ۔ تیرے پاس ہر روز ایک نئی کہانی سنانے کو ہوتی ہے۔ اس کا حساب کرو جی ۔‘‘

چچا نے ملازم کا حساب کر دیا اور وہ چلا گیا ۔ میں گہری نیند سو رہا تھا جب چچا اُس رات میرے کمرے میں آئے اور بولے۔

‘‘یار سنو ۔ میں رات میں گاڑی نہیں چلا سکتا ۔ گھر میں کسی سے یہ بات نہیں کرنا چاہتا ۔ ذرا مجھے اُس حرام خور کے گھر تک لے چلو ۔ شاید سچ ہی بول رہا ہو ۔ یہ پانچ ہزار جو میں اُسے دیتا ہوں شاید مجھے ملتے ہی اس لئے ہیں کہ اُس کی بچی کا علاج چلتا رہے۔ اُس کی حرام خوری اپنی جگہ لیکن اللہ کے بنائے ہوئے وسیلے کو میں کیسے چیلنج کر سکتا ہوں؟‘‘

پانچ منٹ بعد ہم نوکری سے نکالے ہوئے ملازم کے گھر کی طرف جا رہے تھے۔

 

 

 

گلی کا آدمی

 

 

میں جب کبھی پھپھی کے گھر چھٹیوں میں جاتا سویرے ہی سویرے اُس کی آواز سنائی دیتی ۔۔۔ میں ہمیشہ بیٹھک میں سویا کرتا تھا ۔۔۔ اور وہ کمبخت گلی میں، عین پھپھی کے گھر کے سامنے کھڑا ہو کر نہ صرف مسلسل آوازیں لگاتا تھا بلکہ محلے کی عورتوں اور بچوں سے مول تول بھی کیا کرتا تھا ۔۔۔ ردی خریدنے کے سلسلے میں برسوں آوازیں لگانے کی وجہ سے اُس کی آواز اتنی کراری ہو گئی تھی کہ کانوں کے پردے پھاڑے دیتی تھی۔۔۔ اور پھر وہ اپنے کاروبار کے سلسلے میں ہر روز اتنا چیخا چلایا کرتا تھا کہ اُسے نرم اور دھیمی آواز میں بولنا آتا ہی نہیں تھا ۔۔۔

‘‘اے ردی دے ، چھان بورا دے ، پھٹا پرانا کپڑا جوتا دے ، ٹین لوہا دے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ یہ آواز ہفتے کے ساتوں دن ہماری پھپھی کی گلی میں سنائی دیا کرتی تھی ۔۔۔ وہ سنا تھا کہ اس گلی میں کوئی پچیس برس سے آیا کرتا تھا ۔۔۔ سبھی گلی والے اُسے بخوبی پہچانتے تھے۔۔۔ کئی لڑکیاں جو اب کئی کئی بچوں کی مائیں تھیں، تبھی سے وہ اُن کا مستقل گاہک چلا آ رہا تھا ۔۔۔ جوانی میں مضبوط ہڈ ہاڑ کا آدمی رہا ہوگا اور سائیکل خود ہی چلاتا بھی ہوگا لیکن اب اُس کی پرانی دھرانی سائیکل محض ردی سامان ڈھونے کے کام آتی تھی ۔۔۔ کاروبار میں وقفے کے دوران جب وہ تھک جاتا تو کسی قریب گھر سے پانی مانگ کر پیتا اور پھر پھپھی کے گھر کی دو سیڑھیوں پر بیٹھ کر بیڑی سلگا لیتا ۔۔۔ اُن دنوں موبائل فون نئے نئے آئے تھے۔۔۔ اُس نے نجانے کہاں سے ایک موبائل فون لے لیا تھا۔۔۔فرصت کے اوقات میں وہ بیٹھا اُس سے کھیلا بھی کرتا تھا ۔۔۔ پھپھی اگر پچھلی شام کوئی نذر نیاز کرتیں تو اُس کی آواز سنتے ہی اپنے چھوٹے لڑکے سے کہتیں ۔۔۔‘‘

‘‘روکیو اُس نا مراد بخشو کو۔۔۔یہ چاول دینے ہیں اُسے۔۔۔‘‘

چاول کھانے کے دوران وہ مسلسل پھپھی کو دعائیں دیا کرتا تھا ۔۔۔ یہ انہی دنوں کی بات ہے۔۔۔ ہمارے پھوپھا جو دبئی میں تھے اور روپے پیسے کے معاملے میں بیوی پر قطعی اعتماد نہیں کرتے تھے اور محض اتنے پیسے بھجوایا کرتے تھے جس سے گھر چلتا رہے ، اُس مہینے کسی وجہ سے وقت پر پیسے نہ بھجوا سکے۔۔۔ اُس صبح جبکہ وہ ابھی گلی میں اپنی سائیکل لئے داخل ہی ہوا تھا، پھپھی کو فالج ہو گیا ۔۔۔ ہم بچے کچھ نہ سمجھے۔۔۔پڑوس والی خالہ جن کی بیٹی نرس تھی، بیٹی کو لئے فوراً آ گئی اور طے ہوا کہ پھپھی کو ھسپتال پہنچایا جائے۔۔۔ یہی ہوا ۔۔۔ وہ سیڑھیوں پر بیٹھا یہ سب دیکھ رہا تھا۔۔

پھر ھسپتال والوں نے طے کیا پھپھی کو داخل کیا جائے گا اور پیشگی پندرہ ہزار روپے جمع کروانے کو کہا گیا ۔۔۔ یہ رقم نہ گھر میں تھی اور نہ ہی ہم میں سے کسی کے پاس۔۔۔تب پھپھی کے چھوٹے بیٹے نے ہماری سب سے چھوٹی پھپھی زاد ثمینہ کی شادی کے لئے رکھ زیورات میں سے کچھ بیچنے کا فیصلہ کیا اور میرے ساتھ گھر آیا ۔۔۔ وہ اُس وقت بھی سیڑھیوں پر بیٹھا ہوا تھا ۔۔۔ پھپھی زاد گھر میں چلا گیا تو وہ مجھ سے پھپھی کی خیریت پوچھنے لگا ۔۔۔ میں اُسے پھپھی کے گھر کا ایک فرد سمجھتا تھا اس واسطے میں نے سب کہہ دیا۔۔۔لمحہ بھر کو وہ پریشان ہوا اور بولا۔۔۔‘‘

‘‘ بس تم پندرہ ملٹ میرا انتظار کیجیو اور زیور متی بیچیو ۔۔۔ میں ابھی آیا۔۔۔‘‘

اُس نے اپنی ردی سے لدی سائیکل وہیں چھوڑی اور تیز قدموں سے چلتا کہیں چلا گیا۔۔۔پھپی زاد بھائی گھر سے زیورات لئے نکلا تو میں نے اُسے سارا ماجرا سنایا ۔۔۔ وہ اس وقت پریشان بھی تھا اور جلدی میں بھی، اس لئے اُس نے کہا۔۔۔

‘‘بکواس کرتا ہے سالا۔۔۔اُس کے پاس پندرہ ہزار کہاں سے آئے ؟‘‘

لیکن اُس کی بات مکمل ہوتے ہی وہ لپکتا آیا اور کسی اندرونی جیب سے پندرہ ہزار کے پرانے پرانے نوٹ نکال کر بولا۔‘‘

‘‘بھین جی سے کہیو۔۔۔فکر نہ کریں کسی قسم کا۔۔۔۔برسوں ان کے گھر کی روٹئیں توڑی ہیں ۔۔۔ اب اتا تو ہمارا بھی حق بنتا ہے ‘‘۔۔۔

پھپھی ٹھیک ہو گئیں ۔۔۔ پھوپھا بعد میں اُنہیں دبئی بھی لے گئے۔۔۔ لیکن اس دوران وہ کبھی گلی میں نہیں آیا ۔۔۔ کوئی دس برس بعد وہ مجھے ایک دوسرے شہر کے ریلوے سٹیشن پر مل گیا ۔۔۔ بہت بوڑھا ہو گیا تھا ۔۔۔ میں نے واقعہ یاد دلایا تو اُسے یاد آیا ۔۔۔ وہ سب کی خیریت معلوم کرنے لگا۔۔۔جب میں نے پوچھا کہ اُس نے اُس دن کے بعد گلی میں آنا کیوں چھوڑ دیا تھا تو پہلے تو وہ ٹالتا رہا پھر بولا۔۔۔۔‘‘

‘‘میاں ہم نے تمہاری پھوپھی کو بھین سمجھا تھا اور انہوں نے ہمیں بھائی ۔۔۔ میں گلی میں جاتا تو وہ پیسے واپس کرنے کی کوشش کرتیں ۔۔۔میں ‘‘نالت‘‘ بھیجتا ہوں ایسے بھائی پہ جو بھین کو پیسے دے تو قرضہ سمجھ کے دے۔۔‘‘

پھر وہ مسکراتے ہوئے بیڑی سلگانے لگا۔۔۔۔

٭٭٭

ماخذ:

http://www.iqbalhasan.com/

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید