فہرست مضامین
کیوں کرتے ہیں ہم صحابہ کرام سے محبت
ترجمہ: مبصرالرحمن قاسمی
نظر ثانی: علاء الدین عین الحق مکی
بسم اللہ والحمدللہ وحدہ والصلاۃ والسلام علی من لانبی بعدہ!
حضراتِ صحابہ کرام سے محبت اہلسنت والجماعت کے نزدیک اصول ایمان میں سے ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بنی نوع انسان کے برگزیدہ و منتخب افراد میں سے ہیں جنہیں اللہ تعالی نے اپنے پیارے رسولﷺ کی مصاحبت و نصرت اور دین کی دعوت و اشاعت کے لیے منتخب فرمایا تھا۔ صحابہ کرام رضی الله تعالی عنهم أجمعین اُمت کا وہ طبقہ ہے جس نے حفاظت دین اور اگلی نسلوں تک اس کی تبلیغ کی اہم اور سنگین ذمہ داری کو اچھی طرح پوری کر چکا ہے۔ اگر یہ منتخب گروہ نہ ہوتا تو اسلامی شریعت بھی یہودیت ومسیحیت کی طرح تحریف کا شکار ہو جاتی۔ اب اگر کوئی شخص صحابہ کرام رضی الله تعالی عنهم أجمعین کی صلاحیت وراست گوئی اور امانتداری کے حوالے سے شک و شبہ کا اظہار کرتا ہے تو دراصل وہ قرآن وسنت کی حقانیت پر طعن کرتا ہے اور ان مآخذ و منابع کو مشکوک بناتا ہے جو صحابہ کرام کے ذریعے ہم تک پہنچے ہوئے ہیں۔
دوسری جانب صحابہ کرام رضی الله تعالی عنهم أجمعین کی فضیلت میں موجود متعدد آیات و احادیث ان کی محبت کو ہم پر واجب بناتی ہیں، نیز جو افراد صحابہ کرام رضی الله تعالی عنهم أجمعین کی شان میں گستاخی کرتے ہیں ان سے دشمنی و بغض کا سبق بھی ہمیں انہی قرآنی آیات و احادیث نبوی سے ملتا ہے۔
ہم صحابہ کرام سے بے پناہ محبت کرتے ہیں چونکہ:
1۔ اللہ تعالی اُن سے راضی ہوا، ارشادربانی ہے:
{لَقَدْ رَضِیَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِینَ إِذْ یُبَایِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِی قُلُوبِهِمْ فَأَنزَلَ السَّكِینَةَ عَلَیْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِیبًا} (الفتح/ 18).
(بیشک اﷲ مومنوں سے راضی ہو گیا جب وہ (حدیبیہ میں ) درخت کے نیچے آپ سے بیعت کر رہے تھے، سو جو (جذبۂ صِدق و وفا) ان کے دلوں میں تھا اﷲ نے معلوم کر لیا تو اﷲ نے ان (کے دلوں ) پر خاص تسکین نازل فرمائی اور انہیں ایک بہت ہی قریب فتحِ (خیبر) کا انعام عطا کیا)
2۔ اس لیے کہ اللہ تعالی نے انہیں ایمان کی صفت سے متصف کرکے یاد کیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(وَإِن یُرِیدُواْ أَن یَخْدَعُوكَ فَإِنَّ حَسْبَكَ اللّهُ هُوَ الَّذِی أَیَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِینَ} (الانفال/ 62).
(اور اگر وہ چاہیں کہ آپ کو دھوکہ دیں تو بیشک آپ کے لئے اللہ کافی ہے، وہی ہے جس نے آپ کو اپنی مدد کے ذریعے اور اہلِ ایمان کے ذریعے طاقت بخشی)
3۔ ہمیں صحابہ کرام رضی الله تعالی عنهم أجمعین سے اس لئے محبت ہے چونکہ اللہ تعالی نے ان کی تصدیق کرکے انہیں کامیاب قرار دیا ہے اور انہیں جنت کا وعدہ بھی دیا ہے، ارشاد باری ہے:
{لَكِنِ الرَّسُولُ وَالَّذِینَ آمَنُواْ مَعَهُ جَاهَدُواْ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ وَأُوْلَئِكَ لَهُمُ الْخَیْرَاتُ وَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ* أَعَدَّ اللّهُ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِینَ فِیهَا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ} (التوبہ/89-88).
(لیکن رسول(ﷺ) اور جو لوگ ان کے ساتھ ایمان لائے اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کرتے ہیں اور انہی لوگوں کے لئے سب بھلائیاں ہیں اور وہی لوگ مراد پانے والے ہیں * اللہ نے ان کے لئے جنتیں تیار فرما رکھی ہیں جن کے نیچے سے نہریں جاری ہیں (وہ) ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں، یہی بہت بڑی کامیابی ہے.)
4۔ ہم صحابہ کرام سے محبت کرتے ہیں اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں یوں مخاطب کیا ہے:
{كُنتُمْ خَیْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (آل عمران/110)؛
(تم بہترین اُمّت ہو جو سب لوگوں (کی رہنمائی) کے لئے ظاہر کی گئی ہے، ) ابن عباس فرماتے ہیں : یہی وہ لوگ تھے جنھوں نے نبی کریمﷺ کے ساتھ ہجرت کی۔
5۔ ہم صحابہ سے محبت کرتے ہیں چونکہ اللہ تعالی بھی صحابہ کرام سے محبت کرتا ہے، چنانچہ فرماتا ہے:
{فَسَوْفَ یَأْتِی اللّهُ بِقَوْمٍ یُحِبُّهُمْ } (المائدہ؛ 54)
(عنقریب اﷲ (ان کی جگہ) ایسی قوم کو لائے گا جن سے وہ (خود) محبت فرماتا ہو گا اور وہ اس سے محبت کرتے ہوں گے).
حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اللہ کی قسم یہ آیت "حروراء” کے لوگوں کے بارے میں نازل نہیں ہوئی بلکہ حضرت ابوبکر و عمر اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
6۔ ہم صحابہ کرام سے محبت کرتے ہیں چونکہ اللہ تعالی نے انہیں سچے مومن قرار دیا ہے، ارشاد ربانی ہے:
(وَالَّذِینَ آمَنُواْ وَهَاجَرُواْ وَجَاهَدُواْ فِی سَبِیلِ اللّهِ وَالَّذِینَ آوَواْ وَّنَصَرُواْ أُولَئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا لَّهُم مَّغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِیمٌ} (الانفال/ 74)؛
(اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور جن لوگوں نے (راہِ خدا میں گھر بار اور وطن قربان کر دینے والوں کو) جگہ دی اور (ان کی) مدد کی، وہی لوگ حقیقت میں سچے مسلمان ہیں، ان ہی کے لئے بخشش اور عزت کی روزی ہے).
7۔ نبی کریمﷺ نے ان سے محبت کرنے کو ایمان کی علامت اور بغض صحابہ کو نفاق کی علامت قرار دیا ہے۔ آپﷺ کا ارشاد ہے:
«آیَةُ الایمان: حب الانصار، وآیَةُ النفاق بغض الانصار»؛متفق علیہ.
ترجمہ: "انصار سے محبت ایمان کی علامت اور ان سے بغض نفاق کی علامت ہے”۔
8۔ ہمیں صحابہ کرام سے پیار ہے چونکہ ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ان کے تعلق سے بُرا کہنے سے منع کیا ہے، ارشاد نبوی ہے: -: «إذا ذُكِر أصحابی فأمسكوا، و إذا ذُكِرتِ النُّجوم فأمسكوا، و إذا ذُكِرَ القدر فأمسكوا ] صحَّحه الألبانی 545 فی صحیح الجامع[
(جب بھی میرے صحابہ کے بارے میں بات ہو رہی ہو تو خاموش رہو، جب بھی ستاروں سے متعلق بات ہوہی ہو تو خاموش رہو، اور جب بھی قدر سے متعلق بات ہوہی ہو تو خاموش رہو)
9۔ صحابہ کرام سے ہمیں محبت ہے چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو امت مسلمہ کے امن و قرار کا سبب قرار دیا ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں :
{النجوم أمنة للسماء، فإذا ذهبت النجوم أتی السماء ما توعد، وأنا أمنة لأصحابی فإذا ذهبتُ أتی أصحابی ما یوعدون، وأصحابی أمنة لأمتی، فإذا ذهب أصحابی أتی أمتی ما یوعدون}؛ (مسلم:2531)۔
(ترجمہ: ستارے آسمان کے لئے امان ہیں جب ستاروں کا نکلنا بند ہو جائے گا تو پھر آسمان پر وہی آ جائے گا جس کا وعدہ کیا گیا میں اپنے صحابہ کے لئے امان ہوں اور میرے صحابہ میری امت کے لئے امان ہیں پھر جب میں چلا جاؤں گا تو میرے صحابہ میری امت کے لئے امان ہیں تو جب صحابہ کرام چلے جائیں گے تو ان پر وہ فتنے آن پڑیں گے کہ جن سے ڈرایا جاتا ہے۔ )
10۔ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو اس امت کے بہترین افراد قرار دیا ہے اسی لیے ہمیں ان سے محبت ہے، چنانچہ فرماتے ہیں :
{ خیر أمَّتی القرن الّذین یلونی ثمَّ الَّذین یلونهم ثمَّ الَّذین یلونهم (مسلم: 2532)۔
ترجمہ: میری امت کے بہترین اشخاص وہ ہیں جن کے درمیان میری بعثت ہوئی (صحابہ کرام)، پھر (وہ نسل) جو ان کے بعد آئے (تابعین)، پھر (سب سے بہترین افراد وہ ہیں ) جو ان کے بعد آئیں (تبع تابعین)۔
11۔ ہم صحابہ سے محبت کرتے ہیں اس لیے کہ ہمارے پیارے نبی علیہ السلام نے ہمیں صحابہ کو بُرا بھلا کہنے سے منع کیا ہے، فرمان نبوی ہے:
{لا تسبوا أصحابی، فوالذی نفسی بیده لو أنَّ أحدكم أنفق مثل أحد ذهباً ما بلغ مُدَّ أحدهم ولا نصیفه}۔ (مسلم: 2540.)؛
ترجمہ: میرے اصحاب کو برا بھلا مت کہو، اگر کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر بھی سونا ( اللہ کی راہ میں ) خرچ کر ڈالے تو ان کے ایک مد( مٹھی) غلہ کے برابر بھی نہیں ہوسکتا اور نہ ان کے آدھے مد کے برابر۔
12۔ ہم صحابہ کرام رضی الله تعالی عنهم أجمعین سے محبت کرتے ہیں چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت بھیجی ہے ہر اس شخص پر جو صحابہ رضی الله تعالی عنهم أجمعین کو گالی دیتا ہے، فرماتے ہیں :
"لعن الله من سبَّ أصحابی” [حسَّنه الألبانی 5111 فی صحیح الجامع[
( ترجمہ: اللہ تعالی کی لعنت ہو اس شخص پر جو میرے صحابہ کو بُرا بھلا کہے۔ )
13۔ ہمیں صحابہ کرام رضی الله تعالی عنهم أجمعین سے محبت ہے چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ان کے ذریعے دین پھیلے گا اور اسلام کی نصرت ہو گی۔ امر واقع بھی یہی ہے۔ ارشاد نبوی ہے:
{یأتی علی الناس زمان، یغزو فئام من الناس، فیقال: فیكم من صاحب رسول الله صلی الله علیه وسلم ؟ فیقولون: نعم، فیفتح لهم، ثم یأتی علی الناس زمان، فیغزو فئام من الناس، فیقال لهم: فیكم من صاحب أصحاب رسول الله صلی الله علیه وسلم ؟ فیقولون: نعم، فیفتح لهم، ثم یأتی علی الناس زمان، فیغزو فئام من الناس، فیقال لهم: هل فیكم من صاحب من صاحب أصحاب رسول الله صلی الله علیه وسلم ؟ فیقولون: نعم، فیفتح لهم}۔ (بخاری ومسلم)؛
ترجمہ: ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ کچھ لوگ جہاد کریں گے، ان سے پوچھا جائے گا تمہارے ساتھ ایسا آدمی ہے جو نبی کریمﷺ کا ہمرکاب رہا ہو؟ وہ کہیں گے: جی ہاں، اس طرح (مقابلے کے بعد) وہ لوگ فتح یاب ہوں گے۔ پھر کسی اور زمانے میں مسلمانوں کا ایک گروہ جہاد کرنے جائے گا، ان سے پوچھا جائے گا کہ کیا تمہارے ساتھ ایسا بندہ ہے جو صحابہ کرام رضی الله تعالی عنهم أجمعین کے ساتھ رہا ہو؟ جواب آئے گا کہ جی ہاں، پھر مجاہدین کا وہ گروہ فتح یاب ہو گا۔ ایک ایسا دور بھی آئے گا کہ بعض لوگ جہاد کے لیے نکلیں گے تو ان سے سوال ہو گا کہ کیا تمہارے ساتھ ایسا آدمی ہے جو صحابہ کرام کے ساتھیوں کے ہمرکاب رہا ہو؟ وہ کہیں گے: جی، تو کامیاب ہوں گے۔
14۔ ہمیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت ہے چونکہ وہ نبی کریمﷺ کے وزیر اور مدد گار ساتھی تھے، اس بارے میں آپﷺ نے فرمایا:
{ان الله تبارك وتعالی اختارنی، واختار لی أصحاباً، فجعل لی منهم وزراء وأنصاراً وأصهاراً، فمن سبهم فعلیه لعنة الله والملائكة والناس أجمعین، لا یقبل منه یوم القیامة صرف ولا عدل}۔ (رواہ حاکم وصحّحہ)۔
ترجمہ: حضور اکرم نے فرمایا: اللہ نے مجھے منتخب فرمایا ہے اور میرے لئے میرے صحابہ کو منتخب کیا ان کو میرا وزیر‘ مددگار اور رشتہ دار بنایا جو ان کو برا کہے اس پر اللہ تعالیٰ کی‘ فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہو اور اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کا کوئی فرض اور کوئی کفارہ قبول نہ کرے گا.
15۔ ہم صحابہ کرام رضی الله تعالی عنهم أجمعین سے محبت کرتے ہیں اس لیے کہ ان سے محبت کرنا نبی کریمﷺ سے محبت کرنا ہے اور صحابہ سے نفرت آپﷺ سے نفرت کی دلیل و علامت ہے، اسی بارے میں فرمان نبوی ہے: {الله الله فی أصحابی، لا تتخذوهم غرضاً بعدی، فمن أحبهم فبحبی أحبهم، ومن أبغضهم فببغضی أبغضهم، ومن آذاهم فقد آذانی، ومن آذانی فقد آذی الله، ومن آذی الله أوشك أن یأخذه} (رواہ احمد وترمذی وجعلہ حسناً)؛ ترجمہ: میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو! میرے بعد ان کو (طعن وتشنیع کا )نشانہ نہ بنانا (یاد رکھو) جس نے اِن سے محبت کی، پس میری محبت کی وجہ سے اِس نے اُن سے محبت کی۔ جس نے اُن سے بغض رکھا پس میرے بغض کی وجہ سے اُن سے بغض رکھا اور جس نے اُن کو اذیت دی پس اس نے مجھے اَذیت دی جس نے مجھے اَذیت دی، اس نے اللہ کو اذیت دی اور جس نے اللہ کو اذیت دی، پس قریب ہے کہ وہ اس کو گرفت کر لے.
16۔ ہمیں صحابہ کرام رضی الله تعالی عنهم أجمعین سے محبت ہے چونکہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ان کے احترام و عزت کو اپنے ہی احترام کے مترادف قرار دیا ہے، چنانچہ فرماتے ہیں : {احفظونی فی أصحابی، ثم الذین یلونهم، ثم الذین یلونهم}۔ (ابن ماجہ: 1927، وصححہ الالبانی)؛
ترجمہ: میری منزلت و عزت کی حفاظت کے لیے میرے صحابہ اور ان کے بعد آنے والے دو صدیوں کے لوگوں کی منزلت و عزت کا خیال رکھو۔
18۔ ہم صحابہ کرام رضی الله تعالی عنهم أجمعین سے محبت کرتے ہیں اس لیے کہ وہ اہل علم و فضیلت، اخلاق اور سچائی والے تھے، ارشاد نبویﷺ ہے:
{أرأف أمتی بأمتی أبوبكر، وأشدهم فی دین الله عمر، وأصدقهم حیاء عثمان، وأقضاهم علی، وأفرضهم زید بن ثابت، وأقرؤهم أبیّ، وأعلمهم بالحلال والحرام معاذ بن جبل، ألا وإن لكل أمة أمیناً، وأمین هذه الأمة أبوعبیدة بن الجراح}۔ (حاکم، صحَّحه الألبانی 868 فی صحیح الجامع.)
ترجمہ: میری امت پرسب سے زیادہ رحیم ابوبکر ہے، دین پر سختی سے عمل کرنے والا عمر ہے، سب سے زیادہ سچے با حیا عثمان ہے، عدل میں سب سے آگے علی ہے، ہر امت کا ایک امین ہوتا ہے اور اس امت کا امین ابوعبیدہ بن الجراح ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ صحابہ کرام کے صفات عالیہ کے ذکر میں کہتے ہیں :
جب اللہ تعالی نے اپنے بندوں کے دلوں پر نظر ڈالی تو محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک کو بہترین پایا۔ تو انہیں منتخب کر کے اپنا نبی بنایا۔ پھر اللہ تعالی نے سارے قلوب پر نظر ڈالی تو صحابہ کرام کے دلوں کو بہترین پایا سو انہیں اپنے برگزیدہ پیغمبر کی صحبت کے لیے منتخب کر کے آپﷺ کے وزیر بنا دیا تا کہ اس کے دین کی راہ میں لڑیں۔ اسی طرح ایک اور جگہ فرماتے ہیں : اگر کوئی شخص سنت پر عمل کرنا چاہتا ہے تو ان کی پیروی کرے جن کا انتقال ہو چکا ہے، چونکہ جو زندہ ہیں معلوم نہیں فتنے کا شکار ہوں گے کہ نہیں۔ جو اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں وہ نبی کریمﷺ کے صحابہ ہیں جو امت میں عقائد کے اعتبار مضبوط ترین اور سب سے زیادہ علم رکھنے والے تھے، دین میں وہ بہت کم تکلف کرنے والے تھے۔ صحابہ کرام وہ لوگ تھے جنہیں اللہ تعالی نے اپنے نبی کے مصاحبت اور دین کے قیام کے لیے منتخب فرمایا تھا۔ ان کی جاہ و مقام کو پہچانو اور ان کے طریقے پر چلو اس لیے کہ وہ ہدایت اور راہ راست پر تھے۔ [رواه ابن عبد البرّ[
صحابہ کرام کے حوالے سے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
واضح اور آشکار مسائل میں سے ایک صحابہ کرام رضی الله تعالی عنهم أجمعین کی تمام خوبیوں کو بیان کرنا، ان کی غلطیوں اور آپس کے اختلافات کو بیان کرنے سے گزیر کرنا ہے۔ لہٰذا جو شخص کسی بھی صحابی کی شاں میں گستاخی کرے، برا بھلا کہے اور طعنہ زنی کرے یا کسی صحابی کی عیب جوئی کرے تو وہ شخص بدعتی، ناپاک، رافضی او اہل سنت کا مخالف ہے۔ اللہ تعالی (قیامت کے دن) نہ اس کی توبہ قبول فرمائے گا نہ کوئی فدیہ و کفارہ اس کی جان چھڑا سکے گا۔
اس کے برعکس صحابہ کرام رضی الله تعالی عنهم أجمعین سے محبت سنت اور ضروری ہے، ان کے لیے نیک دعاء کرنا قرب الہی کا باعث ہے۔ ان کی پیروی باعث نجات ہے اور ان کی راہ پر چلنا فضیلت شمار ہوتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام سب سے اچھے لوگ تھے، کسی انسان کے لیے مناسب نہیں کہ انہیں گالیاں دے یا عیب جوئی کر کے ان کی شان میں گستاخی کرے اور انہیں گندی زبان سے یاد کرے۔ [كتاب السُّنَّة ص78[
امام آجری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
اللہ تعالی کی توفیق سے میں نے اپنی کتاب (شریعہ) میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل تحریر کیا۔ اس کے بعد صحابہ کرام رضی الله تعالی عنهم أجمعین کے فضائل کا تذکرہ ہو گا۔ جنہیں اللہ تعالی نے منتخب فرمایا اور اپنے برگزیدہ نبی کے لیے وزیر، رشتہ دار، ساتھی اور اس کی امت کے لیے خلیفہ مقرر فرمایا۔ مہاجرین و انصار وہ حضرات تھے جن کو اللہ تعالی نے قرآن پاک میں بہترین اوصاف کے ساتھ یاد کیا ہے۔ قرآن میں آیا ہے اللہ تعالی نے توریت میں بھی صحابہ کرام کو اچھے الفاظ و اوصاف میں یاد کیا ہے۔ یہ سب کچھ اللہ تعالی کا فضل و کرم ہے۔ اللہ جلّ وعلیٰ کا فضل بہت بڑا ہے جسے چاہے وہ عطا فرماتا ہے۔
مہاجرین: مہاجرین وہ جاں نثار صحابہ تھے جنہوں نے اللہ تعالی اور اس کے رسولﷺ پر ایمان لایا اور اپنے عمل سے اُسے ثابت کر دکھایا، سختیوں اور برے دنوں میں آپﷺ کے ساتھ رہے، اللہ کی راہ میں ذلت اور بھوک کو غیر اللہ کے راستے میں عزت اور شکم سیری پر ترجیح دی۔ اللہ کی رضا کے لیے رشتہ دار اور اجنبی کی مخالفت کو بخوشی قبول کیا۔ مہاجرین اپنے والدین، خاندان، قبیلہ، جائیداد اور سب کچھ چھوڑ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہم رکابی میں ہجرت کے لیے نکلے۔ ان سب چیزوں سے زیادہ اہم ان کے لیے اللہ اور اس کے رسول تھے اس لیے کہ ان کا ایمان مضبوط، عقل سلیم، نفس پاک، رائے صائب اور صبر زیادہ تھا اور یہ اللہ تعالی کی توفیق تھی۔ ارشاد الہی ہے:
رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ أُوْلَئِكَ حِزْبُ اللَّهِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ } (المجادلہ :۲۲)؛
ترجمہ: اللہ اُن سے راضی ہو گیا ہے اور وہ اللہ سے راضی ہو گئے ہیں، یہی اﷲ (والوں ) کی جماعت ہے، یاد رکھو! بیشک اﷲ (والوں ) کی جماعت ہی مراد پانے والی ہے.
انصار: وہ لوگ تھے جنہیں اللہ تعالی نے اپنے دین کی نصرت اور نبیﷺ کی پیروی کے لیے منتخب فرمایا۔
جب نبی کریم صلی الله علیه وسلم مکہ مکرمہ میں تشریف فرما تھے انصاری صحابہ آپ کے پاس تشریف لا کر مومنوں کی صف میں شامل ہو گئے۔ انصار اپنی بیعت میں مخلص تھے اور ہمہ تن آپﷺ کی نصرت و مدد کیلیے کمر بستہ تھے۔ انصار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی مکمل پیروی کرنے والے تھے اور نبی کریمﷺ سے محبت کی وجہ سے انہوں نے آپ کو مدینہ آنے کی دعوت دی۔ آپﷺ نے فرمایا ابھی تک ہجرت کا وقت نہیں آیا ہے۔ انصار کا وہ دستہ جو آپﷺ کے دست مبارک پر بیعت کر چکا تھا واپس مدینہ چلا گیا تو وہ دیگر اہل مدینہ کے مشرف بہ اسلام ہونے کا ذریعہ بن گئے۔
تمام انصار اپنے ایمان میں ثابت قدم تھے چنانچہ جب مہاجرین مدینہ پہنچے تو انکا شاندار استقبال کیا گیا، انہوں نے نبی کریمﷺ و دیگر مہاجرین کا خوب اکرام کیا۔ انصار کو معلوم ہوا یہ مبارک ہجرت اللہ تعالی کی طرف سے ان کے لیے بڑی نعمت ہے۔ اس کے بعد دیگر مہاجرین جب مدینہ پہنچے تو انصار نے ان کی بھی عزت و خدمت کی۔ اپنے گھروں کو تقسیم کر کے انہیں جگہ دینے کے علاوہ ان کو اپنے بچوں اور بیویوں پر بھی ترجیح دی۔ اللہ تعالی نے ان کے دلوں میں الفت و محبت ڈالی تھی جس کی برکت سے وہ بھائی بھائی بن کر رہ رہے تھے۔ اللہ تعالی صحابہ کرام کی تعریف میں فرماتے ہیں :
{ وَإِن یُرِیدُواْ أَن یَخْدَعُوكَ فَإِنَّ حَسْبَكَ اللّهُ هُوَ الَّذِی أَیَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِینَ* وَأَلَّفَ بَیْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِی الْأَرْضِ جَمِیعاً مَّا أَلَّفَتْ بَیْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَّ اللّهَ أَلَّفَ بَیْنَهُمْ إِنَّهُ عَزِیزٌ حَكِیمٌ }؛ (الأنفال۔ 63۔ 62)؛
ترجمہ: اور اگر وہ چاہیں کہ آپ کو دھوکہ دیں تو بیشک آپ کے لئے اللہ کافی ہے، وہی ہے جس نے آپ کو اپنی مدد کے ذریعے اور اہلِ ایمان کے ذریعے طاقت بخشی اور (اسی نے) ان (مسلمانوں ) کے دلوں میں باہمی الفت پیدا فرما دی۔ اگر آپ وہ سب کچھ جو زمین میں ہے خرچ کر ڈالتے تو (ان تمام مادی وسائل سے) بھی آپ ان کے دلوں میں (یہ) الفت پیدا نہ کر سکتے لیکن اللہ نے ان کے درمیان (ایک روحانی رشتے سے) محبت پیدا فرما دی۔ بیشک وہ بڑے غلبہ والا حکمت والا ہے.
ایک دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِیعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ وَاذْكُرُواْ نِعْمَتَ اللّهِ عَلَیْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَیْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَی شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا كَذَلِكَ یُبَیِّنُ اللّهُ لَكُمْ آیَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ}
(آل عمران۔ 103)
ترجمہ: اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو، اور اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم (ایک دوسرے کے) دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کر دی اور تم اس کی نعمت کے باعث آپس میں بھائی بھائی ہو گئے، اور تم (دوزخ کی) آگ کے گڑھے کے کنارے پر(پہنچ چکے) تھے پھر اس نے تمہیں اس گڑھے سے بچا لیا، یوں ہی اللہ تمہارے لئے اپنی نشانیاں کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم ہدایت پا جاؤ.
ان آیات قرآنی سے معلوم ہوا سارے صحابہ کرام بشمول مہاجرین و انصار اللہ تعالی اور اس کے رسولﷺ کے خاطر ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کی نصرت و مدد پر وہ متفق تھے، شریعت اور احکام کے نفاذ میں وہ متحد اور آپﷺ کے بہترین ساتھی تھے۔ اس راہ میں وہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے اور ہر حال میں نبی کریمﷺ کی نصرت اور اسلام کے لیے جاں نثاری ان کا مقصد حیات بن چکا تھا۔ اسی لیے ایک سے زائد مرتبہ اللہ تعالی نے مہاجرین و انصار کی تعریف کی ہے، انہیں جنت کا وعدہ دیا ہے اور اپنی رضامندی کا اعلان بھی فرمایا ہے
رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ أُوْلَئِكَ حِزْبُ اللَّهِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ }المجادلہ۔ 22)؛
(ترجمہ: اللہ اُن سے راضی ہو گیا ہے اور وہ اللہ سے راضی ہو گئے ہیں، یہی اﷲ (والوں ) کی جماعت ہے، یاد رکھو! بیشک اﷲ (والوں ) کی جماعت ہی مراد پانے والی ہے.)
صحابہ کرام کے بارے میں امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :صحابہ کرام کے فضائل سے وہ شخص واقف ہوسکتاہے جو عہد نبویﷺ میں ان کا تعامل اور اس کے بعد کی زندگی پر گہری نظر ڈالے۔ صحابہ کرام وہ عظیم شخصیات تھے جو ایمان، کفار سے جہاد و قتال، اشاعت دین، قیام دین، اعلائے شان احکامات الہی و نبوی، فرائض اور سنن نبوی کی تعلیم و تعلم میں ایک دوسرے سے سبقت لینے کی کوشش کرتے تھے۔ اگر صحابہ کرام رضی الله تعالی عنهم أجمعین نہ ہوتے تو ہرگز دین کا کوئی اصل یا فرع ہم تک نہیں پہنچ سکتا۔ ہرگز نبی کریمﷺ کی کوئی حدیث یا سنت سے ہم واقف نہیں ہوسکتے تھے۔
اس لیے جو شخص صحابہ کے حوالے سے طعنہ زنی وگستاخی سے کام لے وہ پوری طرح دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے چونکہ جو شخص صحابہ کو گالیاں دے کر طعنہ زنی کرتا ہے وہ اس طرح اپنے عقیدے کا اظہار کرتا ہے کہ صحابہ کرام ہی غلط راستے پر تھے اور قرآن پاک اور احادیث میں ان کے جتنے اوصاف مذکور ہیں یہ لوگ ان تعریفوں کی تردید کرتے ہیں۔ یہ قرآن و حدیث کا انکار ہے۔ جو شخص صحابہ پر طعن کرتا ہے در اصل وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو طعن و تشنیع کا نشانہ بناتا ہے۔ نصوص شریعت کے ناقلین کی توہین وگستاخی درحقیقت نصوص (قرآن وسنت) کی توہین ہے۔ یہ اہم بات ہر اس شخص کے لیے قابل فہم و درک ہے جو تدبر کا اہل ہو، نفاق و کفر اور الحاد سے دور ہو۔ (الکبائر ص۔ ۲۷۴)
فُضیل بن عیاض رحمہ اللہ اس بارے میں فرماتے ہیں :صحابہ سے محبت ذخیرہ آخرت ہے۔ اللہ کی رحمت ہو اس شخص پر جو صحابہ رسولﷺ پر سلام و درود بھیجے۔
عبداللہ بن المبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں :اگر کسی شخص میں یہ دو صفات ہوں مجھے امید ہے کہ وہ قیامت کے عذاب سے محفوظ رہے گا، ایک سچائی اور دوسرا اصحاب رسول سے محبت۔ [الشَّریعة4/1688[
ابوبکر بن الطیب صحابہ رضی اللہ عنہم کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں :
إنِّی رضیت علیًّا قدوةً علمًا
كما رضیتُ عتیقًا صاحبَ الغارِ
وقد رضیت أبا حفصٍ وشیعتَه
وما رضیتُ بقتلِ الشَّیخ فی الدَّارِ
كلُّ الصَّحابة عندی قدوةٌ علم
فهل علیَّ بهذا القولِ من عارٍ
إن كنت تعلم أنِّی لا أحبُّهم
إلا لوجهك فاعتقنی من النَّارِ
(ترجمہ:علی کے مثالی ہونے میں مجھے اتنا یقین ہے جتنا ابوبکر کی جہنم سے نجات پر، میں عمر اور اس کے ساتھیوں سے خوش ہوں مگر عثمان کی اپنے ہی گھر میں شہادت پر افسوس ہے۔ سارے صحابہ کرام میرے نظر میں نمونہ اور عظیم المرتبت ہیں، کیا میں اس طرح عقیدہ رکھنے پر قابل ملامت ہوں ؟! اے پروردگار! آپ جانتے ہیں کہ میں صرف آپ کی خوشنودی و رضا حاصل کرنے کے لیے صحابہ سے محبت کرتا ہوں لہٰذا جہنم کے عذاب سے مجھے بچا دے!
٭٭٭
ماخذ:
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید