FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

إذهب إلی الترجمة العربیة للصفحة

نگاہ حرام شریعت کی نظر میں

 

 

               ترجمہ: مبصرالرحمن قاسمی

نظر ثانی: علاء الدین عین الحق مکی

 

 

 

 

 

 

کاش کہ لوگ اس عظیم وبا سے واقف ہوتے، غلط نگاہ موجودہ زمانے کا ایک عظیم مرض بن چکا ہے، شہوت، فحش، بے حیائی، عریانیت اور بے ڈھنگے پن کا یہ آغاز ہے، لیکن اس کا اختتام ہلاکت و بربادی اور دردناک عذاب ہے۔

آج عریانیت اور ننگے پن کو ترقی کی علامت سمجھا جا رہا ہے، اسے تہذیب و تمدن کا عنوان بتایا جا رہا ہے، عریانیت اور ننگا پن بازاروں کی زبان بن چکی ہے، تجارت اور لین دین کے معاملات عریانیت اور ننگے پن کی بنیادوں پر قائم کیئے جا رہے ہیں، ٹی وی چینلوں اور فحش میگزنس اور لٹریچر نے عریانیت، بے حیائی اور ننگے پن کو جلد نفع حاصل کرنے کا ذریعہ قرار دیا ہے، میڈیا کا اس معاملے میں رول سب سے اہم ہے۔ اشتہار بازی، ڈرامہ، ٹاک شو اور دیگر پروگراموں کو کامیاب بنانے کے لئے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا بے دریغ صنفِ نازک کی کشش کا فائدہ اٹھا رہا ہے۔ الغرض عریانیت اور بے حیائی کے نام پر یہ کمائی اور یہ فوری نفع برکت سے سراسر خالی ہوتا ہے بلکہ ایسی کمائی خبیث کمائی ہے جو عفت و پاک دامنی اور اخلاق کی بنیادوں کو مسمار کر کے حاصل کی جا رہی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

قُل لِّلْمُؤْمِنِینَ یَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَیَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَزْكَیٰ لَهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ خَبِیرٌ بِمَا یَصْنَعُونَ ﴿٣٠﴾ وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ یَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ]

ترجمہ: مومن مردوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں۔ یہ ان کے لئے بڑی پاکیزگی کی بات ہے اور جو کام یہ کرتے ہیں خدا ان سے خبردار ہے، اور مومن عورتوں سے بھی کہہ دو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں۔ [سورة النور: 30-31].

امام سیوطی ؒ آیت کی تفسیر میں رقم طراز ہیں :آیت میں عورتوں نیز مردوں کی ستروں کو دیکھنا حرام قرار دیا گیا۔

ابن قیم ؒ اپنی کتاب الجواب الکافی میں رقم طراز ہیں : زنا کا آغاز نظروں سے ہوتا ہے، اسی لئے شرمگاہ کی حفاظت سے پہلے نگاہوں کی حفاظت کی تاکید کی گئی، چونکہ تمام واقعات کا آغاز نگاہوں سے ہوتا ہے۔ جس نے اپنی نگاہوں کو آزاد چھوڑ دیا، اس نے اپنے آپ کو ہلاکت کے منہ میں ڈالا، انسان کو پہنچنے والی عام مصیبتوں اور آفات میں سب سے پہلے نظر کے ذریعے ہی مصیبت اور پریشانیاں پہنچتی ہیں، جب انسان نظروں کی لاپرواہی کے سبب مصیبت میں پڑ جاتا ہے تو پھر اسے سوائے افسوس کے کچھ حاصل نہیں ہوتا، وہ ایسی حالت میں پہنچ جاتا ہے کہ اس پر اسے نہ صبر کرنے کی طاقت ہوتی ہے اور نہ اسے چھوڑنے کی، اور یہ انسان کے لئے سب سے بڑا عذاب ہوتا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

ذَٰلِكَ أَزْكَیٰ لَهُمْ [

یہ ان کے لئے بڑی پاکیزگی کی بات ہے] [سورة النور: 30-].

یعنی نگاہوں اور شرمگاہ کی حفاظت نفس کے لئے زیادہ پاکیزہ اور دین کے لئے زیادہ مفید اور مومن کے لئے دنیا و آخرت میں زیادہ کارآمد ہے۔

اللہ تعالیٰ نے غض بصر یعنی نگاہوں کو نیچی رکھنے اور شرم گاہ کی حفاظت کا حکم بندوں پر مشقت کے طور پر ہرگز نہیں دیا، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کے لئے ایک عظیم رحمت ہے، اگر اللہ تعالیٰ اس باب کو کھول دیتے یعنی بندوں کو اختلاط اور غیر محرم عورتوں سے ملنے جلنے کی عام اجازت ہوتی تو عزتیں پامال ہوتیں، حسب ونسب کا خیال نہ رہتا اور روئے زمین میں فساد مچ جاتا۔

 

               غیر محرم کو دیکھنا آنکھوں کا زنا ہے

 

مسلم شریف میں حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:

ابنِ آدم کا زنا اس کے ذمہ لکھ دیا گیا ہے۔ جسے وہ لامحالہ پالے گا؛ آنکھوں کا زنا (شہوت سے) دیکھنا ہے۔ زبان کا زنا (شہوت کی بات) بولنا ہے۔ کانوں کا زنا (شہوت کی بات) سننا ہے۔ ہاتھوں کا زنا (شہوت سے) تھامنا ہے اور پیروں کا زنا (شہوت کی ناجائز تکمیل کے لیے) چلنا ہے۔ دل خواہش، تمنا اور آرزو کرتا ہے۔ پھر شرم گاہ یا تو سب کو سچا کر دیتی ہے یا جھوٹا بنا دیتی ہے۔

حدیث میں آپﷺ نے آنکھ کے زنا سے آغاز فرمایا، اس لئے کہ ہاتھ، پیر، دل، اور شرمگاہ سب کی اصل آنکھ ہے۔

مسلم شریف میں حضرت جریر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں میں نے نبی کریمﷺ سے اچانک پڑنے والی نظر کے بارے میں دریافت کیا، آپ نے فرمایا: ”اپنی نظروں کو پھیر دیا کرو” اور ایک روایت میں اس طرح ہے: ” آپﷺ نے مجھے نگاہوں کے پھیرنے کا حکم دیا”

نبیﷺ نے نگاہوں کو نیچی رکھنے کے عمل کو راستے کے حقوق میں شامل فرمایا، راستے میں بیٹھنے والے ہر مسلمان پر اپنی نگاہوں کو جھکائے رکھنا ضروری ہے، اس لئے کہ یہ راستے کا حق ہے، مسلم شریف میں حضرت ابوسعید خدری ؓ کی روایت ہے:آپﷺ نے ارشاد فرمایا: راستوں میں بیٹھنے سے بچو”، صحابہ نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول، راستے میں ہمارے بیٹھنے سے کیا فرق پڑتا ہے، ہم تو بیٹھے بیٹھے گفت و شنید کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: اگر تم بیٹھنا ہی چاہتے ہو تو راستے کو اس کا حق دو، صحابہ نے پوچھا : راستے کے کیا حقوق ہیں ؟ آپ نے فرمایا: نگاہوں کو جھکائے رکھنا، تکلیف دہ چیز کو ہٹانا، سلام کا جواب دینا، نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا۔

حضرت انسؓ کہتے ہیں : جب تمہارے پاس سے کوئی (غیر محرم )عورت گذرے تو تم اپنی نگاہوں کو نیچے کر دو، یہاں تک کہ عورت تمہارے پاس سے گذر جائے۔

ربیع ابن خیثم ایک مرتبہ راستے سے گذر رہے تھے، تو ان کے پاس سے چند عورتیں گذریں، آپ نے اپنی نگاہوں کو جھکا دیا، عورتوں نے جب انہیں دیکھا تو سمجھنے لگی کہ وہ نابینا ہے، تو انھوں نے نابینا آدمی کو دیکھ کر اندھے پن سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگی۔

وکیع ؒ کہتے ہیں : ایک عید کے دن ہم حضرت ثوری کے ساتھ نکلے، تو ہم نے دن کا آغاز اپنی نظروں کو جھکا کر یعنی نظروں کی غیر محرم عورتوں سے حفاظت کر کے کیا۔

حسان بن ابی سنان عید کے روز نماز عید کے لئے، جب عید پڑھ کر گھر لوٹے تو ان کی اہلیہ نے پوچھا: آپ نے کتنی خوبصورت عورتوں کو دیکھا ہے؟ حسان نے کہا: بخدا، تمہارے پاس سے جانے کے بعد سے میں نے کسی غیر محرم پر نظر نہیں ڈالی، یہاں تک کہ میں صحیح سلامت گھر لوٹ آیا ہوں۔

یہ تھے وہ لوگ جن کے دل حرام سے پاک تھے، جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے انہیں حلاوت ایمانی سے نوازا اور دنیا و آخرت میں کامیابی و کامرانی سے سرفراز فرمایا۔

مولانا ابو الاعلی مودودی کے بقول: دنیا میں آج تک رونما ہونے والے تمام فحش و فجور کا اصل سبب نگاہ کا فتنہ ہے۔

یقینا اللہ رب العزت کان، آنکھ، اور دل کے بارے میں بندے سے سوال کریں گے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

: إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَٰئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا [سورة الإسراء: 36]

بلکہ یہ آنکھ کل روز قیامت بندے کے خلاف گواہی دیں گی، فرمان الہٰی ہے:

{حَتَّیٰ إِذَا مَا جَاءُوهَا شَهِدَ عَلَیْهِمْ سَمْعُهُمْ وَأَبْصَارُهُمْ وَجُلُودُهُم بِمَا كَانُوا یَعْمَلُونَ [سورة فصلت: 20]

ترجمہ:یہاں تک کہ جب اس کے پاس پہنچ جائیں گے تو ان کے کان اور آنکھیں اور چمڑے (یعنی دوسرے اعضا) ان کے خلاف ان کے اعمال کی شہادت دیں گے

اللہ تعالیٰ نظروں اور دلوں کے تمام بھیدوں کو جاننے والے ہیں، فرمان الہٰی ہے:

یَعْلَمُ خَائِنَةَ الْأَعْیُنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُور۔

ُ ترجمہ: وہ آنکھوں کی خیانت کو جانتا ہے اور جو (باتیں ) سینوں میں پوشیدہ ہیں (ان کو بھی) ]سورة غافر19.]

آیت بالا کی تفسیر میں حضرت ابن عباس فرماتے ہیں : یہ وہ آدمی ہے جو لوگوں کے درمیان میں ہو، اس کے پاس سے عورت گذرتی ہے، تو وہ لوگوں کو یہ دکھاتا ہے کہ اس کی نگاہیں نیچی ہیں اور وہ عورت کو دیکھ نہیں رہا ہے، وہ لوگوں کو اگر غفلت میں دیکھتا ہے تو پھر عورت پر نظریں ڈالنے لگتا ہے، اگر اسے خدشہ ہوتا ہے کہ لوگ اسے سمجھ جائیں گے تو اپنی نظروں کو جھکا دیتا ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ اس کے دل کے بھید سے بخوبی واقف ہے کہ وہ آدمی نہ صرف عورت کو دیکھنا چاہتا ہے بلکہ اس کی خواہش تو اس کی ستر بھی دیکھنے کی ہے۔

جنید بغدادی سے پوچھا گیا: نگاہوں کی حفاظت کا کیا علاج ہے؟ فرمایا: یہ یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کی نظر تمہاری نظر سے تیز ہے۔

انٹرنیٹ، ٹی وی، اور ذرائع ابلاغ نے نظر حرام کے سلسلے میں بہت سارے مسلمانوں کو غفلت میں ڈال دیا ہے، ٹی وی، انٹرنیٹ اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے، گندی فلمیں اور بے حیا ئی اور عریانیت پر مبنی تصاویر   کی اشاعت نے آج نظروں کی حفاظت کے سلسلے میں عظیم خلا پیدا کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں مسلمان گھروں میں بے حیائی، عریانیت اور فحش وفجور کے واقعات دن بدن بڑھتے جارہے ہیں، خصوصا مسلم لڑکیوں میں بے حیائی اور عریانیت کی تباہی تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہے، مسلم نوجوان لڑکے اور لڑکیاں، تعلیم کے نام پر عریاں لباس زیب تن کر کے دین و دنیا میں اپنے ہاتھوں سے تباہی و بربادی کو دعوت دے رہے ہیں۔

               قدروں کی پالی اور جرائم کی کثرت میں بد نگاہی کے اثرات

 

گھروں میں ٹی وی چینلوں اور انٹرنیٹ کے نتیجے میں تباہ کن نتائج سامنے آرہے ہیں، بچے اپنی بہنوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے شکار ہو رہے ہیں، امریکہ کی ایف بی آئی ایجنسی نے امریکی جیلوں میں مقید چوبیس قیدیوں کا انٹریو لیا، ان تمام قیدیوں کا تعلق بچوں اور بالغوں کے ساتھ جنسی زیادتی یا قتل جیسے جرائم سے تھا، پوچھے جانے پر 81% قیدیوں نے اس جرم کی اصل وجہ اباحیت اور فحش مواد کی کثرت بتائی۔ ان ہی قیدیوں میں ایک مشہور نصرانی داعی ”جارج پشوپ ”تھا، جس نے اپنی گرفتاری اور جیل میں قید ہونے کے بعد یہ جملے کہے تھے: اگر بچپن میں مجھے زناکاری اور بدکاری کا مواد نہیں دیا جاتا تو میں آج جنسی زیادتی اور دیگر جرائم کا شکار ہرگز نہ ہوتا”۔ اس نے مزید کہا: زناکاری اور بدکاری کے مواد کا مجھ پر اس قدر اثر ہے کہ اگر اس کا مجھے موقع نہ ملے تو میں بچوں اور عورتوں کو قتل کر دیتا ہوں۔

(Ted Bundy). کی زندہ مثال ہے، جس کو امریکا کے کونے کونے میں قاتل اور سفاح سے جانا جا رہا ہے، ٹیڈ بنڈی کا تعلق ایک خوشحال گھرانے سے تھا، بلکہ یہ خود قانون کا طالب علم تھا، تاہم اس کی گرفتاری چالیس عورتوں کو قتل کرنے کے بعد عمل میں آئی، یہ ایک ایسا انسان تھا، جو انسانوں کا گوشت کھانا پسند کرتا تھا، اس کے ذبح کیئے ہوئے انسانوں میں دس سالہ ایک بچہ بھی تھا جو اس سفاح کا آخری انسانی شکار بنا تھا۔ اسے تخت دار پر چڑھانے سے قبل اس نے ایک انٹرویو میں کہا : تم مجھے عنقریب قتل کردو گے، اور دنیا میرے شرور سے محفوظ ہو جائے گی، لیکن دنیا میں میرے جیسے لوگوں کی ایک بڑی تعداد ہے، جو بدکاری کی شکلوں کے نشہ آور ہیں اور تم اس مسئلہ کے حل کے لئے کچھ بھی نہیں کر رہے ہو۔

اس نے مزید کہا : میں اور میرے جیسے لوگ، وحشی درندے بن کر پیدا نہیں ہوئے، ہم اور تمہاری اولاد اور تمہاری بیویاں محفوظ گھروں میں پرورش پائے، لیکن بدکاری اور زناکاری کے ذرائع نے ہمیں کسی بھی گھر میں ہاتھ ڈالنے اور بچوں کو اچکنے پر مجبور کر دیا ہے۔

اس شخص نے پھانسی کی سزا سے چند گھنٹے پہلے کہا تھا: ”میں نے جیلوں میں طویل عرصہ گذارا، اور بہت سارے ایسے لوگوں کے ساتھ مجھے رہنے کا موقع ملا، جو میری ہی طرح جرائم کے مرتکب ہیں، لیکن بلا امتیاز یہ سب لوگ زناکاری اور فحش ذرائع سے بری طرح متاثر ہیں اور ان ذرائع کے بغیر انہیں سکون و چین نہیں آتا۔ ”

ٹی وی سیریل اور عریاں اور بے حیائی و فحش سے بھری فلموں کے دیکھنے کے نتیجے میں عریانیت، اختلاط، فساد اور قدروں کی پامالی کے واقعات روز افزوں ہیں۔ بلکہ اس غفلت کے سبب انسان کی غیرت ختم ہو چکی ہیں اور وہ اپنے جیسے ہی انسان کو اپنی ہوس کی خاطر موت کے گھاٹ اتارنے پر تیار ہو جاتا ہے۔

امریکی وزارت عدل کے ایک اعلان کے مطابق: امریکی ذرائع ابلاغ کی تاریخ میں بدکاری کے ذرائع کے نتیجے میں گھروں سے بغیرکسی خوف و ڈر کے بچوں کو اچکنے کی موجودہ روایت کبھی نہیں دیکھی گئی۔

ایک سروے رپورٹ کے مطابق بدکاری کے ذرائع استعمال کرنے والوں میں بارہ سے سترہ برس کے بچوں کی تعداد سب سے زیادہ ہیں۔ اور قابل غور بات یہ ہے کہ یہ تمام سروے کسی مسلمان تنظیم یا ادارے نے نہیں کیئے ہیں بلکہ یہ سروے مغربی محققین نے کیئے ہیں۔

یقیناً اسلامی اقدار، اخلاق اور اسلامی اصول و ضوابط کافروں کے اصول و ضوابط کے مقابلے میں اعلی و برتر اور پاک وصاف واقع ہوئے ہیں، کافروں کے پاس زنا کی کوئی سزا نہیں اس لئے کہ ان کے پاس یہ کوئی جرم ہی نہیں ہے۔

 

               آزادی کے نام پر اباحیت پسندی اور بدکاری کی اشاعت کی کوشش

 

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

إِنَّ الَّذِینَ یُحِبُّونَ أَن تَشِیعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِینَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ ۚ وَاللَّهُ یَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ [سورة النور: 19]

ترجمہ: اور جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ مومنوں میں بےحیائی یعنی (تہمت بدکاری کی خبر) پھیلے ان کو دنیا اور آخرت میں دکھ دینے والا عذاب ہو گا۔ اور خدا جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔

ہمارے زمانے میں اہل مغرب اپنے بگڑے ہوئے اقدار، خبیث بیماریوں اور مذموم اصولوں کے نتیجے میں یہ چاہتے ہیں کہ ساری دنیا میں گناہ عام ہو جائیں اور خصوصاً اسلامی ممالک میں بے حیائی اور عریانیت عام ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ہیومن رائٹس واچ خلیجی ممالک کی انٹرنیٹ کو محدود رکھنے کی کوششوں پر نالاں ہیں اور وہ چاہتی ہیں کہ خلیجی ممالک حریت پسندی کو رواج دیں۔

               فحش اور حرام تصویروں کے مشاہدے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بیماریاں

 

۱۔ توجہ بٹ جاتی ہے اور اس کے نتیجے میں یادداشت کمزور ہونے لگتی ہے، اور آدمی سرعت نسیان یعنی جلد بھولنے کا شکار ہو جاتا ہے، ظاہر بات ہے کہ جب انسان اس طرح کی فلموں کا مشاہدہ کریں گا تو اس کی ثمر آور انرجی ضعف کا شکار ہو گی۔

۲۔ اباحیت اور بدکاری پر مبنی فلمیں دیکھنے سے انسان بے خوابی، نیند کی کمی اور عقل و فہم سے بعید فکروں میں الجھنے جیسی بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے۔

۳۔ اسی طرح انسان کاہلی، سستی، اجتماعی و خاندانی سرگرمیوں سے دور رہنے اور انفرادی زندگی گزارنے کا عادی ہو جاتا ہے۔

۴۔ اسی طرح اسے ذہنی پریشانی بھی لاحق ہونے لگتی ہے جس کے نتیجے میں مزاج میں سختی، جلد غصہ اور معمولی معمولی بات پر بھڑکنے کا عادی بن جاتا ہے۔

۵۔ ان کے علاوہ فلموں اور گندی چیزوں کے مشاہدے سے انسان بیشمار جسمانی امراض کا بھی شکار ہوتا ہے۔

۶۔ اور اخیر میں انسان افسردگی، اداسی اور غم اندوہ کا شکارہ ہو جاتا ہے، اسے اپنی قیمتی چیزوں کے کھو جانے کے احساس کے علاوہ کوئی چیز نظر نہیں آتی۔

 

               حل اور علاج

 

۱۔ مومن کو اس بات کا علم ہو کہ بد نگاہی کے نتیجے میں انسانی قلب و دل اور خاندان و معاشرہ میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے، نفس منتشر ہو جاتا ہے، ایمان کی حلاوت اور مٹھاس مفقود ہو جاتی ہے، عبادت و خشوع کی لذت ختم ہو جاتی ہے، علم میں بھول پیدا ہوتی ہے، یادداشت کمزور ہونے لگتی ہے اور دل کی سنگینی اور سختی میں اضافہ ہوتا ہے، انسان آخرت سے غافل ہونے لگتا ہے نیز وحشت، ظلم و تاریکی، بے چینی اور پریشانی غالب آنے لگتی ہے اور شیطان کے لئے انسان کے اندر داخل ہونا آسان ہو جاتا ہے۔ چونکہ دل کا دروازہ آنکھ ہے۔

۲۔ دعاء:

نبیﷺ فرمایا کرتے تھے، جیسا کہ امام ترمذی نے روایت کیا، ”

«اقسم لنا من خشیتك ما یحول بیننا وبین معاصیك».

بلکہ آپﷺ فرمایا کرتے تھے، جیسا کہ ابوداؤد نے روایت کیا:

” اللهم إنی أعوذ بك من شر سمعی، ومن شر بصری، ومن شر لسانی، ومن شر قلبی».

ترجمہ: اے میرے اللہ! میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں، میرے کانوں کے شر سے، میری آنکھوں کے شرسے، میری زبان کے شر سے اور میرے دل کے شر سے۔

۳۔ شادی:

ارشاد نبویﷺ ہے:

یا معشر الشباب، من استطاع منكم الباءة فلیتزوج؛ فإنه أغض للبصر، وأحصن للفرج، ومن لم یستطع فعلیه

ترجمہ: اے نوجوانوں کی جماعت! تم میں سے جو شادی کی استطاعت رکھتا ہو، وہ شادی کرے، کیونکہ یہ آنکھوں اور شرمگاہ کی حفاظت کے لئے زیادہ کارآمد ہے، اور جو استطاعت نہ رکھتا ہو تو وہ روزہ رکھے، کیونکہ روزہ شہوت کو روکتا ہے۔

میری مسلم بہن! آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ خاتون مسلم نے فحش اور بدکاری کے کاموں کے سد باب میں اہم کردار ادا کیا؛ ہمیں نوجوانوں سے امید ہے کہ وہ اپنی نگاہوں کی حفاظت کا اہتمام کریں گے، ہمیں یہ بھی بھولنا نہیں چاہئے کہ ہم بد نگاہی کے مرض کی بنیادی وجہ کو نظر انداز کر دیں، یہ بنیادی وجہ عورت کا بے پردہ، عطر لگا کر، اپنی خوبیوں اور چال ڈھال کو ظاہر کر کے نکلنا ہے، یہی وہ بنیادی چیز ہے جو نوجوان مردوں کو بد نگاہی اور فحش فعل پر آمادہ کرتی ہے؛ امام بخاری نے حضرت اسامہ بن زید کی روایت کو نقل کیا: آپﷺ کا ارشاد ہے: ترجمہ: میں نے اپنے بعد مردوں پر عورت سے زیادہ ضرررساں فتنہ نہیں چھوڑا۔

اور صحیح مسلم کی روایت ہے، حضرت ابوسعیدخدری روایت کرتے ہیں، نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:

«فاتقوا الدنیا واتقوا النساء»

ترجمہ: ”دنیا سے بچو اور عورتوں سے بچو”

میری مسلمان بہن!ہمیں یہ پسند نہیں کہ آپ مردوں کی خواہشات اور جذبات کے بھڑکانے کا ذریعہ بنیں، ہمیں یہ پسند نہیں کہ آ پ ان خواتین میں شامل ہوں جن کے بارے میں ارشاد نبوی ہے، جسے امام مسلم نے اپنی صحیح میں روایت کیا: ترجمہ: اہل جہنم کی دو قسموں کو میں نے دیکھا۔ پہلی قسم ان لوگوں کی ہے جن کے پاس گائے کی دم جیسے کوڑے ہوں گے جن کے ساتھ وہ لوگوں کو ماریں گے، دوسری قسم ان عورتوں کی ہے جو کپڑے پہننے کے باوجود ننگی ہوں گی، مائل ہونے والیاں اور مائل کرنے والیاں، ان کے سر دبلے پتلے بختی اونٹوں کی کوہان کی مانند ہوں گے، وہ نہ تو جنت میں داخل ہوں گی اور نہ ہی اس کی خوشبو کو پائیں گی۔ باوجودیکہ اس کی خوشبو لمبی مسافت سے محسوس کی جا سکے گی۔ (صحیح مسلم:۲۱۲۸)

۴۔ نگاہوں کی حفاظت کے نتیجے میں دل شہوت کے جذبات سے پاک رہتا ہے، اور جہنم کے دروازوں میں سے ایک دروازہ بند ہو جاتا ہے، کیونکہ نگاہ شہوت کا ایک دروازہ ہے، جو انسان کو فعل پر آمادہ کرتا ہے۔ نیز نگاہوں کی حفاظت کے نتیجے میں عقل و ذہن میں پختگی پیدا ہوتی ہے، چونکہ بد نگاہی خطرناک انجام سے نظروں کو ہٹا دیتی ہے اوراس کے نتیجے میں عقل پر زور پڑتا ہے۔ نگاہوں کی حفاظت دل کو شہوت کے نشے اور غفلت کی نیند سے محفوظ رکھتی ہے، جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

{لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِی سَكْرَتِهِمْ یَعْمَهُونَ [سورة الحجر: 72]

(اے محمد) تمہاری جان کی قسم وہ اپنی مستی میں مدہوش (ہو رہے) تھے۔

نگاہ شراب کا ایک پیالہ ہے، عشق اس کا نشہ ہے، اور عشق کا نشہ شراب کے نشے سے زیادہ نقصان دہ ہے، چونکہ شراب کا نشہ آور ہوش میں آ جاتا ہے، لیکن عشق کا نشہ آور بہت کم ہوش میں آتا ہے، ہاں ہوش اس وقت آتا ہے جب موت سامنے ہوتی ہے۔

 

۵۔ ہماری آپ کے لئے یہ خاص نصیحت ہے کہ آپ ایسے مقام سے دور رہئے جہاں حرام دیکھی جانے والی یا سنی جانے والی چیزیں ہیں، آپ ایسے مقام سے الگ ہو کر ہدایت کے راستے کو اختیار کرتے ہوئے حفظ قرآن مجید، علم دین، اہل خیر کی ہم نشینی، نمازوں کی پابندی اور اہل علم کی محفلوں میں شرکت ؛جیسے کاموں میں مصروف ہو جائیے۔

۶۔ یاد رکھیئےانحرافات اور خرافات کے علاج کے لئے سب سے بہتر اور اولی طریقہ یہ ہے کہ ایمان کی تقویت، دلوں کی اصلاح، نمازوں کی اصلاح، اللہ تعالیٰ سے تعلق کی کوشش، آخرت کے اجر و ثواب کی رغبت، مراقبہ، آخرت، جنت اور دوزخ کی باتوں کے تذکرے، اللہ تعالیٰ کے ذکر کی ترغیب اور علوم دینیہ کے حصول پر بھرپور توجہ دیں۔ حدیث شریف میں اس بات کی دلیل ہے کہ قبر و آخرت کے احوال کا علم شہوتوں اور خواہشات کو ختم کر دیتا ہے، نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے:

والله لو تعلمون ما أعلم، لضحكتم قلیلا، ولبكیتم كثیرا، وما تلذذتم بالنساء علی الفرش، ولخرجتم إلی الصعدات تجأرون إلی الله»

ترجمہ: بخدا، اگر تمہیں وہ معلوم ہو جائے جو میں جانتا ہوں، تو تم بہت کم ہنسوں گے، اور بہت زیادہ رونے لگو گے، اور تم بستروں پر عورتوں سے لذت حاصل نہیں کروں گے، اور تم ضرور اللہ کی پناہ کی تلاش میں جنگلات میں نکل جاؤں گے۔

بندۂ مومن سے اللہ تعالیٰ نے عظیم نعمت کا وعدہ فرمایا ہے، حرام اور ممنوعہ امور سے بچنے پر اللہ تعالیٰ آخرت میں بندۂ مومن کو ایسی ایسی حوریں عطا فرمائیں گے، جسے کسی بھی انسان آنکھ نے نہیں دیکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان حوروں کی تعریف میں بیان فرماتے ہیں :

وَعِندَهُمْ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ عِینٌ ﴿٤٨﴾ كَأَنَّهُنَّ بَیْضٌ مَّكْنُونٌ} [سورة الصافات: 48-49]

ترجمہ: اور ان کے پاس عورتیں ہوں گی جو نگاہیں نیچی رکھتی ہوں گی اور آنکھیں بڑی بڑی، گویا وہ محفوظ انڈے ہیں۔

اور ارشاد ہے:

َأَنَّهُنَّ الْیَاقُوتُ وَالْمَرْجَانُ} [سورة الرحمن: 58]

ترجمہ: گویا وہ یاقوت اور مرجان ہیں۔

یاقوت اور مرجان ایسے دو پتھر ہیں، جو نظر آنے میں بڑے دلکش اور دلربا ہوتے ہیں، نیز اللہ تعالیٰ نے ان حوروں کا وصف بیان فرماتے ہوئے فرمایا کہ ان کی نگاہیں جھکی ہوئی ہوں گی، ان کی نگاہوں نے اپنے شوہروں کے علاوہ کسی دیگر مرد کی خواہش نہیں کی ہو گی، اللہ تعالیٰ نے حور کے حسن و جمال خود گواہی دی ہیں، یہ حوریں دنیاوی عورتوں کے مقابلے بے پناہ حسن و جمال والی اور دنیاوی عورتوں میں پائے جانے والے تمام عیوب جیسے حیض وغیرہ سے بالکل پاک وصاف ہوں گی، ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَلَهُمْ فِیهَا أَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ ۖ وَهُمْ فِیهَا خَالِدُونَ ][سورة البقرة: 25]

ترجمہ: اور وہاں ان کے لیے پاک بیویاں ہوں گی اور وہ بہشتوں میں ہمیشہ رہیں گے۔

وَحُورٌ عِینٌ ﴿٢٢﴾ كَأَمْثَالِ اللُّؤْلُؤِ الْمَكْنُونِ [سورة الواقعة: 22-23]

ترجمہ: اور بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں، جیسے (حفاظت سے) تہہ کئے ہوئے (آب دار) موتی۔

اور آپﷺ نے جنت کی عورتوں کے حسن و جمال کے بارے میں ہمیں ترغیب دی ہیں، حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے

”ولكل واحد منهم زوجتان، یری مخ سوقهما من وراء اللحم من الحسن». ”

ترجمہ: اور ہر بہشتی کے پاس دو بی بیاں ایسی نازک اور خوبصورت ہوں گی جن کی پنڈلی کا گودا(مغز) گوشت میں سے دکھلائی دے گا۔ [بخاری، کتاب بدءالخلق]

اور اس حسن و جمال کے بارے میں ذرا غور کرو جس کے بارے میں نبی کریمﷺ بیان فرماتے ہیں

”«ولو أن امرأة من أهل الجنة اطلعت إلی أهل الأرض لأضاءت ما بینهما، ولملأته ریحا، ولنصیفها علی رأسها خیر من الدنیا وما فیها» [

ترجمہ: اور اگر بہشت کی کوئی عورت (حور)زمین والوں کو جھانکے (ان کی طرف رخ کرے)تو زمین سے آسمان تک روشنی ہو جائے اور خوشبو سے مہک جائے اور حور کی اوڑھنی دنیا وما فیہا سے بہتر ہے۔ [بخاری، کتاب الجھاد والسیر]

ہم میں کا ہر ایک ذمہ دار ہے، انٹرنیٹ سروسیس سے اب کوئی مفر نہیں، اس سروس نے بے شمار نفع بخش اور کارآمد چیزوں کو ہمارے لئے کھول کر رکھ دیا ہے، تاہم یہ ایسی چیز ہے جس کے تئیں ہم پر کئی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، سب سے پہلے ہم خود اس کا بہتر استعمال کرے اور پھر ہم ہمارے ماتحت پرورش پانے والی اولاد اور بچوں کی انٹرنیٹ کے تئیں بہترین راہ نمائی انجام دیں جو انہیں بے دینی، عریانیت، فحش اور حرام امور سے بچنے میں ممد و معاون ثابت ہو۔

ہم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور ہر شخص سے اس کے ماتحتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔

لہٰذا ہر گھر کے ذمہ دار فرد سے ہماری گذارش ہے کہ وہ اپنی اولاد کے بارے میں خیال رکھے، کہ وہ بند کمروں میں انٹرنیٹ پر کتنا وقت گذار رہے ہیں، اور اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھے کہ کیا ہم نے اپنی اولاد سے کبھی دریافت بھی کیا کہ وہ انٹرنیٹ کیفوں، اور چیٹنگ روموں میں گھنٹوں بیٹھ کر کیا کرتے ہیں۔

بہر حال حقیقت حال سے ہر ذمہ دار بخوبی واقف ہے۔

پہنچانا ہماری ذمہ داری تھی، لہٰذا ہم نے پہنچا دیا۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں انٹرنیٹ کے نقصانات سے محفوظ رکھے اور اس کے صحیح استعمال کی توفیق دے۔

٭٭٭

ماخذ:

http://www.wathakker.info

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید