فہرست مضامین
کہانی ایک گاؤں کی
نجمہ نکہت
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
زمینداروں کی منڈی
بھوری نے کھڑکی سے باہر دیکھا
چاندنی رات کی خاموشی میں ایک عجیب سا جادو تھا۔ ایک عجیب سا صحرا اس کے اپنے کھیتوں میں خاموش پودے سرجھکائے سورہے تھے اور کوئی اس کے کانوں میں کہہ رہا تھا۔
یہ تیرے کھیت ہیں بھوری۔۔ یہ دور تک پھیلے ہوئے سرسبز کھیت جن میں سے ہوا گاتی ہوئی گذرتی ہے جن کے اوپر بادل جھومتے ہیں۔ جن میں تو نے اپنی امیدیں و آرزوئیں بوئی ہیں اور جو دھرتی کے سینے سے نرم کونپلیں بن کے ابھری ہیں۔ دھیرے دھیرے پروان چڑھی ہیں۔ جوان ہوئیں ، یہ سنہری میٹھی خوشبو والی ، بالیاں۔
یہ چکنی نرم پتیاں ، بہار سبزی ، میٹھی خوشبو ، اور سیاہ مٹی کی مینڈھ جو کھیتوں کے اطراف یوں پھیلی ہوئی ہے جیسے کسی کنواری کے سبز دوپٹے کی گوٹ۔
ان میں اگے ہوئے۔ سونے جیسے دانے جب کٹنے کے بعد کھلیان میں ڈھیر ہوں گے تو ایسا لگے گا جیسے شدید محنت کر کے بہائے ہوئے پسینے کا ایک ایک قطرہ منجمد ہو گیا ہے۔
تیری اپنی محنت ، تیرا اپنا لہو ، تیرا اپنا ارمان ، اور تو دانوں کے اس کھلیان تلے بیٹھ کے سوچے گی۔ کھلیان میں دانوں کی یہ پہاڑی میری محنت نے تخلیق کی ہے۔ میری محنت لہو ، میرے کس بل اور میری امید نے اس پہاڑی کو یہاں میدان میں پیدا کیا ہے۔ ان دانوں میں میرے روپ کا سنہرا پن ہے۔
میری سانسوں کی خوشبو ہے۔ میرے سینے کا گداز ہے۔ میری آنکھوں کی چمک ہے۔ ان دانوں کیلئے میرے دل میں اتنی ممتا ، اتنا پیار اور اتنی شفقت ہے جتنی اولاد کیلئے ماں کے دل میں ہوتی ہے۔ شاید تخلیق دنیا کی سب سے بڑی خوشی ہے۔
بھوری کے کانوں میں شاید اس کا مستقبل بول رہا تھا مگر اس آواز میں اتنی مٹھاس تھی کہ بھوری کے خشک ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی اس نے سوچا اس وقت کی مسکراہٹ بڑی اچھی لگ رہی ہو گی کتنے دنوں بعد اس کے دل میں گدگدی سی ہو رہی ہے۔ دن کا اجالا ہوتا تو وہ اپنی رس بھری مسکراہٹ فضا میں اچھالتی ہوئی اپنے کھیتوں میں چلی جاتی۔ لمبے لمبے پودوں کو سینے سے لگا لیتی۔ بالیوں پر پیار سے ہاتھ پھیرتی اور ان کے پیلے سونے کو چوم لیتی بالکل اسی طرح جیسے زنیو نے پچھلی بہار میں پہلی مرتبہ اس کے ہونٹوں پر کھلتی کلیوں کو چوما تھا اور بھوری نے اپنے دل میں عجیب سی گدگدی محسوس کی تھی۔ ایسا ہی میٹھا میٹھا درد اور ایسی ہی ناقابل فہم کسک ، اس کا دل بہ یک وقت رونا بھی چاہتا تھا اور مسکرانا بھی۔ یہ عجیب سی کیفیت تھی۔ کوئی ایسا جذبہ ابھر آیا تھا جو اس کی سمجھ سے بالا تر تھا۔ اور آج بھی بھوری کے ہونٹ مسکرا رہے تھے اور آنکھیں جھلملا رہی تھیں۔
بھوری سوچنے لگی یہ کیا چیز ہے جو گرداب کی طرح چکر کھاتی ہوئی میری رگ رگ سے اٹھتی ہے۔ پھر میرے ہونٹوں پہ ہنسی بن جاتی ہے تو آنکھوں میں آنسو۔ یہ کیسا نرالا احساس ہے۔ یہ کیسی انوکھی کشمکش ہے۔ یہ مسکراہٹ کے اندر آنسو کیسے ہیں۔ یہ گدگدی کے نیچے درد کیسا ہے ؟یہ تہہ بہ تہہ سوئے ہوئے جذبے کیسے ہیں ؟
جیسے دیہات کے گدلے نالے کے پاس پہاڑی راستہ ہے جس پر کوئی نہیں چلتا۔ کبھی کبھار اس راستے پر جانا پڑے تو یوں لگتا ہے جیسے قدموں کے نیچے پتھر کی تہیں ٹوٹ رہی ہیں۔ پہلی تہہ پر پیر پڑتا ہے تو دوسری بھی ٹوٹ جاتی ہے ایسا کوئی پتھر میرے۔ سینے میں بھی ہے۔ اس پتھر کی تہیں مسکراہٹوں اور آنسووں سے مل کے بنی ہیں۔ ایک تہہ پر چوٹ پڑتی ہے تو دوسری بھی ٹوٹ جاتی ہے اسی لئے تو ہنسی اور آنسو دونوں گھل مل جاتے ہیں۔
بھوری کے ہونٹوں پر مسکراہٹ اور چمک گئی۔ اس نے اپنی دانست میں اپنی سب سے بڑی الجھن کا سبب جان لیا تھا لیکن زینو کہتا تھا کہ اس پہاڑی راستے کے نیچے جوالا مکھی چھپا ہے اور ایک دن پھٹ پڑے گا۔
کون جانے میرے دل کی تہوں کے نیچے بھی کوئی جوالا مکھی ہو۔
اس کی نگاہیں اپنے کھیت کے خاموش پودوں پر جمی ہوئی تھیں۔ جو پندرہ دن بعد بالکل تیار ہو جائیں گے اور جن کو وہ چاند سی ، درانتی لے کے یوں کاٹنے جائے گی جیسے زمیندار اپنے نئے محل کو دیکھنے جاتا ہے۔
بھوری کو زمیندار والی اس غلط تشبیہ سے جھرجھری سی آ گئی۔ نہیں نہیں۔ وہ زمیندار کی طرح نہیں جائے گی۔ زمیندار تو دوسرے کی محنت پر قبضہ جمانے جاتا ہے۔ اس وقت اس کی آنکھوں میں کس قدر خوفناک چمک ہوتی ہے۔ اس کی ساری زندگی نئے نئے محل بنوانے اور ان محلوں میں دیہات کی کنواری لڑکیوں کو قید کرنے میں گذرتی ہے۔ گاؤں بھر کے کھیتوں میں اس کا حصہ ہے۔ گاؤں بھر کے مزدوروں میں اس کا حصہ ہے۔ آخر اس مفت کے حصے کا سلسلہ کب ختم ہو گا؟
بھوری کے ذہن میں ہزاروں بار یہ سوال گونجا تھا مگر وہ جواب نہیں سوچ سکتی تھی۔ جواب سوچنے سے پہلے اس کے دل کی نرم و گرم تہیں ٹوٹنے لگتیں۔ ایسی آگ ابلتی کہ بھوری کو اندیشہ ہونے لگتا کہیں جوالا مکھی پھٹ نہ پڑے۔
وہ کھڑکی کے پاس کھڑی کھڑی سوچتی رہی۔ اس کے دماغ میں ہزاروں خیال تیزی سے پیدا ہوتے۔ تیزی سے ٹکراتے اور ان کا ہجوم بھوری کے لئے پریشان کن ہو جاتا۔
آج بھوری کا ذہن اس کی بچپن سے اب تک گذری ہوئی زندگی کا ایک ایک لمحہ بڑی ایمانداری سے اس کے سامنے لا رہا تھا اور وہ بڑی محتاط نظروں سے ان لمحوں کو بغور دیکھتی۔ ان لمحوں کے پیچھے اپنے ماحول کا پورا عکس اس کو دھندلے خواب کی طرح ہلکے غبار میں لپٹا ہوا دکھائی دیتا۔ بعض لمحے بالکل واضح تھے جن پر نئے سکوں کی سی چمک تھی اور حرص وہوس کی خوفناک جلاء وہ دن ، وہ لمحے ایک ایک کر کے سامنے آتے گئے۔
وہ دن بھی عجیب دن تھا جب زمیندار نے اپنے کھیت کے ایک وٹی کو بھوری کے ہیں بھیجا تھا اور وٹی نے اس کو بتایا تھا کہ زمیندار کی مالن بیمار ہے۔ اس لئے تم کو زمیندار نے باغ میں کام کرنے کا حکم دیا ہے۔ بھوری نے بغیر منہ بنائے حامی بھر لی۔ وہاں اس نے پارو کو دیکھا جو ریشمی ساری اور چمکتے زیورات میں بھی افسردہ تھی جیسے جنگلی آزاد ہوا میں پلنے والے پھول کو شیشے کے صندوق میں بند کر دیا گیا ہو اور جو اپنی خوشبو اور تازگی کھونے کے بعد مرجھا گیا ہو اور اس پھول نے بھوری سے التجا کی۔ یہاں سے چلی جا بھوری۔ بھگوان کیلئے چلی جا۔ اگر بوڑھا زمیندار تجھے دیکھ لے گا تو تجھے بھی اس کال کوٹھری میں رہنا ہو گا۔ یہاں عجیب سی شادی ہوتی ہے۔ نہ دیئے جلتے ہیں۔ نہ مہندی لگتی ہے۔ نہ سھاگ گیت گائے جاتے ہیں اور نہ برات آتی ہے۔ بس بیاہ ہو جاتا ہے پھر کٹھ پتلیوں کی طرح ایک ایک کے ہاتھوں میں کھیلنا پڑتا ہے۔ تو جتنی جلدی ہو سکے یہاں سے بھاگ جا۔
اور وہ بڑا بھاری خوف اپنے دل میں لئے بھاگ آئی۔ اس نے راستے کا چکر بڑی تیزی سے کاٹا اور ہانپتی ہوئی آ کے زینو کے بازوں میں گر گئی۔
زینو اس نے سسکی لی اور اپنا سر زینو کے کندھے سے لگا دیا۔
’’کیا بات ہے بھوری ! زینو پریشان ہو گیا۔
وہ اپنی پارو تھی نا۔ وہی جو بچپن میں ہمارے ساتھ کھیلتی تھی۔ شریر سی لڑکی جب ہم نے ساون میں ہیروں پر جھولے ڈالے تھے اور پارو کے جھولے کی رسی ٹوٹ گئی تھی اور پاروتی پتھر پر گر پڑی تھی ایک نوکیلا پتھر اس کے اپنے گال میں دھنس گیا تھا۔ وہ زخم کا نشان اب تک اس کے گال پر موجود ہے۔ مگر آج میں نے اسے دیکھا۔ زمیندار کے محل میں وہ شریر پارو اب ایک رنجیدہ سی مریل عورت ہے۔ جب میں وہاں کام کرنے گئی تھی تو اس نے مجھے جلدی سے وہاں سے بھگا دیا۔ کہنے لگی اگر زمیندار تجھے دیکھے گا تو یہاں قید کر لے گا۔
اس نے بڑے چمکیلے کپڑے پہن رکھے تھے اور گہنوں سے لدی ہوئی تھی مگر اس کا چہرہ بالکل زرد تھا۔ اس کی آنکھیں بیمار کی آنکھوں کی طرح اداس اور کمزور تھیں۔
زینو سنجیدہ ہو گیا۔ اسی لئے تو کہتا ہوں کہ شادی ہو جائے تو اس زمیندار کے بچے کو اتنی ہمت بھی نہیں پڑے گی کہ تیری طرف نظر اٹھا کے دیکھ سکے پھر چاہے تو گاؤں میں اکیلی گھوم پھر لے۔ مگر اس فصل تک کچھ نہیں ہو سکتا۔ ادھر باپ بیمار ہے۔ کھاٹ سے اٹھنے کا بھی اس میں دم نہیں رات بھر کھانستا ہے اور دم یوں پھولتا ہے جیسے سینے میں دھونکنی چل رہی ہو اور یہاں کا ڈاکٹر کہتا ہے۔ شہر لے جاؤ۔ گاؤں کے دوا خانے میں علاج نہیں ہو سکتا۔ اور میرے پاس پیسہ نہیں ہے۔ زندگی ایسی مجبور ہے کہ ہم جو سوچتے ہیں بس زندگی بھر سوچتے ہی رہتے ہیں۔
زینو کا گلہ رندھ گیا اور اس کی آنکھیں بھوری کی گہری خاموش آنکھوں ملیں تو اس کو احساس ہوا کہ وہ خود اپنا دکھڑا سنانے آئی تھی اور زینو اپنا دکھڑا لے بیٹھا۔ زینو نے سنبھل کے دیوار کا سہارا لیا اور لہجہ میں یقین پیدا کرنے کیلئے حلق صاف کرنے لگا۔
مگر تو یہ نہ سمجھ کہ یہ مجبوری عمر بھر کی ہے۔ تجھے کیا معلوم کہ میری راتیں کتنی ڈراؤنی ہو گئی ہیں۔ رات بھر سوچتا سوچتا الجھنے لگتا ہوں مگر کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ پریشانیوں نے مجھ جیسے کڑیل جوان کو بے آس کر دیا ہے۔ کل گاؤں کے ساہوکار خان بابو کے پاس گیا تھا۔ باتوں باتوں میں اس نے کہا کہ۔۔۔۔۔۔۔ کہ۔۔۔۔
کیا کہا اس نے بھوری نے بڑے تردد سے پوچھا۔
تو سن کے کیا کرے گی۔ تجھے سن کے دکھ ہو گا، زینو کی پیشانی پر ابھری ہوئی ورید پھڑپھڑانے لگی۔ اس نے بھوری کے چہرے سے نظریں ہٹا لیں۔
خان بابو نے کہا۔ بڑا آیا بھوری کو بیاہنے والا۔ اس کو زمیندار کے محل میں بھیج دے تجھے کھانا بھی ملے گا۔ پیسہ بھی ملے گا اور بیمار باپ کی دوا بھی ملے گی۔ تو بے وقوف ہے ایسے رنگ روپ کی چھوکریاں زمینداروں کے محلوں میں اچھی لگتی ہیں۔ زمیندار سب لڑکیوں کے دام تو نہیں لگاتا پر میرا اس کا یارانہ ہے۔ کہہ سن کے تیری قسمت پھیر دوں گا۔ زینو نے ایک ہی سانس میں سب کچھ کہہ دیا اور اس دوران بھوری کی طرف دیکھنے کی اس کو جرات نہ ہوئی۔
بھوری حیرت زدہ سی آنکھیں پھاڑے زینو کو دیکھتی رہی۔ اور مختلف قسم کے رنگ چہرے پر آئے اور جاتے رہے۔
وہ یہ بھی کہتا تھا کہ اس طرح میرا پچھلا قرض بھی چکا دینا۔ سود بہت بڑھ گیا ہے۔
نہیں مانو گے تو مجبوراً کھیتوں پر آفت آئے گی۔
اور میں الٹے قدموں خالی ہاتھ لوٹ آیا۔ میرا تو ہاتھ اس پر اٹھتے اٹھتے رہ گیا میں اس کو ضرور مارتا مگر زمیندار سے کہہ کے اپنے قرض میں میرے کھیت ضبط کروا لیتا تجھ کو ذرا ذرا سی بات کا پتہ ہے۔ تجھ کو یہ بھی معلوم ہے کہ اس نے کتنے کسانوں کی زمین اسی ترکیب سے قبضے میں کر لی ہے۔ اس کے پاس جتنی زمین ہے اتنی گاؤں بھر میں شاید کسی کسان کی نہیں ہے۔ زمیندار تو ہر کسان سے زبردستی زمین لے لیتا ہے مگر خان بابو بہت ہوشیار آدمی ہے۔ وہ میٹھی چھری سے گلا کاٹتا ہے۔ سب کو دل کھول کے قرض دیتا ہے۔ اور بھاری سود لگاتا ہے کسان یہ سمجھ کے خوش ہو جاتے ہیں کہ خان بابو بڑا دریا دل آدمی ہے ، ہر کسان کے آڑے وقت کام آنے والا۔ اگر خان بابو نہ ہوتا تو گاؤں بھر کے لوگ بھوکوں مر جاتے۔
خان بابو اپنی طرف سے جس قدر چاہتا ہے قرض کی رقم کو بڑھا کر کھاتے میں لکھتا ہے کہ میرے کھیتوں کے دانے میں اس کا حصہ بڑھتا جاتا ہے۔ جب بھی اس کے ملنے جلنے والے یار دوست گاؤں آتے ہیں تو وہ ہمیشہ مجھ سے زیادہ سے زیادہ دانے لینے کی کوشش کرتا ہے کہ اس بہانے میں بھوکا مر جاؤں میں تجھے کیا بتاؤں کہ وہ مجھے کس طرح اپنی انگلیوں پر نچانا چاہتا ہے …
مگر میں اُسکا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ اول تو اس کی پشت پنا ہی زمیندار کرتا ہے جاگیردار کرتا ہے حتی کے پٹیل پٹواری تک کرتے ہیں۔ کیونکہ وہ سب کسی نہ کسی وقت اُسکے آگے ہاتھ پھلا تے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ وہ ان سے سودنہیں لیتا کہ زمیندار خوش رہے اور سارے غریب کسان اس کی مٹھی میں دبے رہیں۔ مجھے بھی دانہ کسی نہ کسی طرح دنیا پڑتا ہے جیسے ٹکڑی کی جال میں مکھی پھنس جاتی ہے ویسے ہی میں قرض میں پھنسا ہوا ہوں۔
دانہ کٹنے کے بعد جاگیر دار کا حصہ ، زمیندار کا حصہ ، پٹیل پٹواری کا حصہ اور دوسرے کی حصے جانے کے بعد دانہ ہی کہاں رہی جاتا ہے۔ اتنا بھی تو نہیں رہتا کہ کچھ بیچنے کے بعد گھر کے لئے سال بھر آرام سے نکل جائے۔ تجھ پر بھی۔ یہی سب گذرتی ہے۔ میرے بتا نے کی ضرورت ہی کیا ہے۔
بھوری اپنے ہاتھوں پر تھوڑی رکھے اس کی باتیں سنتی رہی پھر بڑے سوج بچار کے بعد بولی ’’ زینو … میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ آقربیسیوں حصے ہماری محنت میں کیوں لگ جاتے ہیں۔ ؟
زنگیا سوچنے لگا۔۔۔۔ اس کو میں کس طریقہ سے سمجھا سکتا ہوں ساری باتیں۔ میں تو خیر شہر میں رہ کے پڑھ لکھ گیا ہوں اور اسی وجہ سے یہاں آتے ہی میں نے بات کی جڑ کو سمجھنے کی کوشش کی مگر بالماں ( جسکو سب بھوری کہنے تھے ، کیونکہ اس کے بال بالکل بھورے تھے مکئی کے بھٹے کی حفاظت کرنے والے سنہری لچھوں کی طرح ) تو بالکل جاہل کی لٹھ تھی۔
اب تو پھر بھی زنیو نے ہر ہر بات اس کو بڑی اچھی طرح سمجھائی تھی ورنہ وہ تو کئی بار زینوسے لڑ بیٹھتی کہ خان بابو کو بُرا نہ کہو بڑا دیالو انسان ہے مگر جب بھوری کے ماں باپ گاؤں کی بُری وبا میں چل بسے تو زنگیا کے باپ ملیا نے بھوری کی اور اس کی زمین کی حفاظت کی اور جب بھوری ترئی کی بیل کی طرح بڑھنے لگی تو ملیا نے کھیتوں کا کچھ کام اس کے ذمہ بھی کر دیا۔ ان دنوں زنگیا شہر میں پڑھتا تھا۔
شہر گاؤں سے بہت قریب تھا اور ملیا کا بھائی شہر میں جاگیردار کے باغ کا کام کرتا تھا اسلئے زنگیا کو وہاں رہ کر پڑھنے میں زیادہ آسانی تھی۔ گاؤں کا چھوٹا اسکول پاس کر کے وہ شہر چلا گیا تھا۔
بھوری برابر اپنے کھیتوں میں جٹی رہتی۔ پھر رفتہ رفتہ اس کو گاؤں کے ہر آدمی کے بارے میں نئی نئی باتیں معلوم ہوتی گئیں اور پھر ایک دن زنگیا آ گیا۔ صاف ستھری دھوتی ، چھوٹی سی بند گلے کی کرتی اور ذرا ذرا اسی ننھی مونچھیں جو بڑا رعب داب رکھتی تھیں۔
دونوں کے کھیت دانوں سے بھر گئے۔ جن کھلیانوں میں خاک اڑتی تھی ان میں مزدوروں نے بھوری اور زینو نے گیت گائے۔ دھان کے اونچے اونچے ٹیلوں پر چڑھے ، لوٹ پوٹ ہوے اپنے دلوں کو خوشی اور تسلی بخشی مگر اس خوشی کے پیچھے بے اطمنانی اور خوف چھپا تھا۔ دانوں کی تقسیم ، لگا ن اور مزدوری … گھر جگہ جگہ سے شکستہ ہو گیا تھا اس کی مرمت کروانا ضروری ہو گیا تھا۔ زنگیا کے باپ کو مسلسل کھانسی کے دورے پڑنے لگے تھے ، اس کی دوا دارو … نہ جانے ساہوکارنے کب کا قرضہ اکٹھا کر کے تقاضے شروع کر دئیے بھوری و زینو کی مصروفیت بڑھ گئی تھی ، ان کو دوپہر کھانے کی فرصت بھی نہ ملتی جوار کی موٹی روٹیاں اور املی کی کھٹی چٹنی ساراسارادن بھوری کے انچل میں بندھی کمر میں اڑسی رہتیں۔ جب سورج گھنے درختوں اور اونچے پہاڑوں کے درمیان سرخ انگارے کی طرح دہکنے لگتا اور دھوپ کھتیوں کی مینڈھوں پرسے گذرتی ہوئی اونچے اونچے پیڑوں پر چمکنے لگتی … مختلف قسم کی چڑیاں ایک ساتھ شور مچانے لگتیں تو بھوری کیچڑ سے لت پت ہاتھ دھو لیتی اور کمرسے کسا ہوا آنچل کھول کے روٹی ، زنگیا کے سامنے رکھ دیتی۔
آج وہی بالماں بہت بڑی بڑی باتیں سمجھ لیتی تھی۔ بہت مشکل سوالات پوچھ لیتی۔ یہ دراصل زنگیا کے سمجھا نے کا کمال تھا کہ بھوری گاؤں کی سب سے زیادہ سمجھدار لڑکی تھی مگر وہ ہر ایک سے اپنی قابلیت کا اظہار نہیں کرتی تھی۔ زینو کے سوا وہ کسی سے کڑے سوالات نہیں کر تی تھی۔ اور نہ وہ باتیں کسی اور کو بتاتی جن کو کہنے سے زینواس کو منع کر دیتا۔
’’ آخر بیسیوں حصے ہماری محنت میں کیوں لگ جاتے ہیں ؟ ‘‘ کتنا کٹھن سوال تھا یہ اسلئے کہ یہ سارا گاؤں جاگیردار کا ہے ، زمیندار، ساہوکار پٹیل پٹواری سب اس کے ساتھی ہیں جو ہمارے ہاتھ کا ٹ کے اس کے ہاتھ مضبوط کرتے ہیں۔ جیسے پیسوں سے جوا کھیلا جاتا ہے۔ یہ ہمارے تمہارے جیون کا جوا کھیلتے ہیں۔ یہ حکومت کرنے والے لوگ ہیں اسلئے ہم کو ان کے حکم پر چلنا پڑتا ہے۔ ان کو زبردستی ہمارے سروں پر قائم کر دیا گیا ہے۔ ’’ تم ہی بتاؤ یہاں کون ہے جو سرکار سے خوش ہے۔ ایساہی ظلم جاری رہا تو جنتا مر جائے گی۔ میری اپنی تکلیف اب مجھ سے کہی نہیں جاتی ’’میں جانتی ہوں زینو ‘‘… اس نے سراٹھا یاتوآنسوزینو کے قدموں میں گر پڑے تو روتی ہے بھوری ؟تجھے میرے دکھ کا کتنا خیال ہے اور یہ کمینہ خان بابو کہتا ہے ’’ تجھے بیچ دوں۔ ہونھ … میری چمڑی تک تیرے لئے بک سکتی ہے مگر کوئی تجھے ہاتھ بھی نہیں لگا سکتا۔ ‘‘ بھوری نے آنکھ اٹھا کے دیکھا۔ زینو کے بازو بہت مضبوط تھے۔ ‘‘
ایک بات اور پوچھوں ؟
’’پوچھ لے ‘‘
زمیندار گاؤں کی اتنی بہت سی لڑکیوں کو اپنے محل میں کیوں بند کر دیتا ہے ؟ کیا ان کی شادی کبھی نہیں ہوتی۔ ؟ بھوری نے بڑے فکر مندانہ انداز کے ساتھ آنکھیں جھپک کے پو چھا اور دیوارسے نیک لگا کے بیٹھ گئی۔
’’ پچھلے مہینے جب میں جاگیر دار کا سامان شہر والے گھر میں اپنی بنڈی پرلے گیا تھا تو میں نے وہاں سنا تھا کہ زمیندار اپنے محل میں قید کی ہوئی لڑکیوں کو کچھ دن اپنے پاس رکھتا ہے اور پھر جاگیردار کے ہاتھ بیچ دیتا ہے یا کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ زمیندار کنواری لڑکیوں کے زیادہ دام لگا کے جاگیردار کو فروخت کر دیتا ہے اور پھر جاگیر دار شہر لے جاتا ہے اور دلا لوں کے ذریعہ منہ مانگے داموں پر ولی عہد ان کو خرید کر اپنے محل میں داخل کر لتیا ہے۔ یہ سارا کام جاگیردار و زمیندار خود نہیں کرتے۔ ان کے آدمی یہاں گاؤں میں بھی ہیں اور شہر میں بھی۔ لڑکیوں سے جو پیسے ملتے ہیں وہ جاگیر دار و زمیندار لے لیتے ہیں اور دلالوں کو بیچ میں الگ پیسے ملتے رہتے ہیں۔ یہ سمجھو کہ یہ آدمی جاگیردار و زمیندار کے نوکر ہیں شہر میں یہ بات توسب ہی جانتے ہیں کہ وہاں کے ولی عہد نے تین سولڑکیاں قید کر رکھی ہیں۔ اور ہر ماہ ان دلالوں کو بڑی بڑی رقمیں ملتی ہیں یا ان ماں باپ کو جو خود اپنی لڑکیوں کو بیچتے ہیں۔ ‘‘
’’ کیا ماں باپ اپنی لڑکیوں کو خود بھی بیچ دیتے ہیں ‘‘ بھوری نے حیرت سے آنکھیں پھیلا کر پو چھا۔
’’ ہاں جیسے ہمارے میں جاگیر دارکسی لڑکی کو مانگ لیتا ہے اور گاؤں والے دے دیتے ہیں اگر نہیں دیتے تو نقصان اٹھا تے ہیں اور زبردستی ان سے ان کی آنکھوں کا نور چھین لیا جاتا ہے۔ ایک باپ کی ضدسارے گاؤں کے لئے تباہی لا تی ہے اور ہوتا وہی ہے چاہے زبردستی اور جبر سے ہو … اس طرح ہمارے گاؤں کی خوبصورتی ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں اور دوسرے سے تیرے ہاتھ میں پہونچ جاتی ہے۔ ایک منڈی سے دوسری منڈی اور دوسری سے تیسری میں بک جاتی ہے اور جھونپڑے میں پلے پاکیزہ قدم گندے محلوں میں چلے جاتے ہیں۔
وہاں انھیں شراب پلائی جاتی ہے … ان کی ننگی تصویریں لی جاتی ہیں۔ انھیں ناچ گا نا سکھایا جاتا ہے۔ ان پر سخت نگرانی رکھی جاتی ہے … یہ سب مجھے ایک دلا ل نے بتا یا جسکے ہاتھ ہمارے زمیندار لین دین کرتا ہے۔ اس نے یہ بھی بتا یا تھا کہ ایک بار کوئی لڑکی ولی عہد کے محل میں داخل ہونے کے بعد کبھی باہر نہیں نکل سکتی۔ وہاں ہر قسم کی اور ہر ذات و ہر دھرم کی لڑکی موجود ہے۔ کچھ اپنی مرضی سے آتی ہیں جن کیلئے دنیا میں کوئی جگہ نہیں۔ کچھ لڑکیاں ایسی ہیں جن کے ماں باپ ان کو اپنی مفلسی سے تنگ آ کے محل میں لے جاتے ہیں۔ کچھ لڑکیاں زبردستی لائی جاتی ہیں۔ کچھ ایسی ہیں جن پرسرکار اپنا حق جتا کر لے جاتی ہے اور ایسی لڑکیاں ہماری تمہاری طرح غریب کسانوں اور مزدوروں کی ہوتی ہیں۔ غریبوں کی ہر چیز سرکار کی ہے … ہماری زندگی بھی … !
اور وہ بدمعاش ساہوکار کہتا ہے … ‘‘زینو کے ماتھے پربل پڑ گئے اور وہ ڈبڈبائی ہوئی آنکھوں سے بھوری کو دیکھنے لگا ’’اب جانے دو زینو … وہ بات نہ دہراؤ۔ مجھے دکھ ہوتا ہے۔ ‘‘
’’زینو … ! ایک دن دو پہر پیپل کی گھنی چھاؤں میں بیٹھ کے روٹی کھاتے ہوئے بھوری نے بات چھیڑی جب تم چھوٹے سے تھے اور گاؤں کے اسکول میں میلاسا کتابوں کا بستہ لئے پڑھنے جاتے تھے تب میں اپنی سہیلیوں سے بڑی شان سے کہتی ’’پڑھ لکھ کے زینو بہت بڑا آدمی بنے گا‘‘۔ یہ بات باپو کی کہی ہوئی تھی جو میں دہرائے جاتی۔ پھر تم آگے پڑھنے کے لئے شہر چلے گئے۔ بہت سالوں بعد آئے تھے جو مجھے یقین ہو گیا تھا کہ تم گاؤں بھر میں سب سے زیادہ عقلمند اور اچھے آدمی ہو۔ تم ضرور بڑے افسر بن جاؤ گے۔ مگر تم نے چوپال پر سب سے کہہ دیا تھا کہ ’’میں افسر بننا نہیں چاہتا۔ میں تو اپنے باپ کی زمین پر کسان بن کے رہوں گا‘‘۔
سچ۔ مجھے بڑی خوشی ہوئی تھی کہ تم اب دور نہیں جاؤ گے۔ اسی گاؤں میں رہو گے۔
تو کیا میں کسان بن کے اچھا نہیں لگتا؟
میر ایہ مطلب نہیں ہے زینو۔ تم کسان بن کے ہی اچھے لگتے ہو۔ اب یہی دیکھو تم نے مجھے کتنی باتیں بتائیں۔ کتنی نئی باتیں جو میں پہلے کبھی نہیں جانتی تھی۔ پہلے پہل تمہاری باتیں میری سمجھ میں نہیں آتی تھیں۔ بہت وقت لگتا تھا۔ پھر عادت ہو گئی اور اب تمہاری ہر بات بڑی آسانی سے میری سمجھ میں آ جاتی ہے۔ تم سمجھاتے بھی اچھی طرح ہونا۔ تم پڑھے لکھے ہو تم سب گاؤں والوں کو کیوں نہیں سمجھاتے کہ جہاں انھوں نے ہزاروں برسوں سے زمین دانے ، لگان اور محنت کے لئے لڑائی جاری رکھی ہے وہیں وہ اپنی بیٹیوں کے لئے اپنی آبرو اور عزت کے لئے اکٹھے ہو کر جاگیردارو زمین دار سے لڑیں۔
تم کو پتہ ہے کہ ایسا بہت جلد ہو گا شہر میں رہ کے میں گاؤں کو کبھی نہیں بھولا ہوں۔ زینو کی آنکھیں چمکنے لگیں۔
تم نے مجھے اب تک یہ بات نہیں بتائی مگر میں سمجھتی ہوں کہ تم نے اس کام میں ہاتھ ضرور ڈالا ہے۔ اگر میں بھی تمہارا ہاتھ بٹاؤں تو یہ کام جلدی ہو سکتا ہے ؟ ‘‘
تم ہی نہیں سب کو مل جل کر سوچنا ہے۔ جب تک سب مل کر اس کام میں مدد نہ دیں یہ کام اتنی آسانی سے نہیں ہو سکتا۔ رفتہ رفتہ سب ہی لوگ اس بات کو سمجھ گئے ہیں کہ جب تک ہم خود بڑھ کر یہ سرکار نہ توڑ دیں ، خودبخود سرکار نہیں ہٹے گی مگر خاموشی اور وفاداری اس کی بنیاد کو اور مضبوط بنا دے گی۔ صبر کرنے اور ظلم سہنے کی حد ختم ہو چکی۔
اب ہم چپ رہ کر اپنی بے عزتی کا تماشہ نہیں دیکھ سکتے۔ تم ساتھ دو گی تو میری ہمت اور بڑھے گی ’’میں تمہاری مدد ضرور کرونگی۔ اچھا اب تم اٹھو ، بھوکے ہو تو اور روٹی بچی ہے کھالو … شام کو گھر آنا …
پھر فصل کٹی۔ پیلی پتیوں سنہری بالیوں کے لمبے لمبے وزنی پودے درانتیوں سے گیت گا گا کر کنواری لڑکیوں اور جوان عورتوں نے کاٹے۔ نوعمر لڑکوں اور ادھیڑ مردوں نے کاٹے اور کھیتوں میں پودوں کے ڈھیر جمع ہو گئے۔ پھر کھلیانوں میں دانوں کی پہاڑیاں بنیں۔ زینو اور بھوری نے زندگی بھرساتھ رہنے کا وعدہ کیا۔ اپنے کھیتوں کا دانہ مٹھی میں لے کر قسم کھائی۔
پھر گاؤں کے نالے کے قریب مٹی کی اونچی ڈھیری کے قریب دونوں ہاتھ جوڑے کھڑے رہے۔
’’ ہم سب جانتے ہیں یہ اس کسان کی سمادھی ہے جس نے زمیندار کے نئے تعمیر ہونے والے مکان میں بیگار کرنے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ اگر آپ بیگار لینا چاہتے ہیں تومیں کام کرنے کیلئے تیار نہیں ہوں ‘‘
پھر کیا ہوا تھا … گنڈیا کے چھوٹے بیٹے نے پوچھا
زمیندار کے آدمیوں نے اس غریب کو اس قدر مارا پیٹا کہ جسم سار ا زخمی ہو گیا۔
زمیندار کے غضب کی یہ حالت تھی کہ سامنے کھڑے ہو کر چلاتا تھا ’’ اور مارو … اس بدمعاش نے ہم سے بغاوت کی ہے … اور مارو … اور مارو صبح تک اس نے دم توڑ دیا۔ اس کی خود داری اور جرأت کے قصے کسان اپنے بچوں کو سناتے ہیں۔
ہاں۔ میری ماں نے بھی مجھ سے بیان کیا تھا۔ ہمارے گاؤں کے ہر حصے میں ایسے شہید سورہے ہیں جنہوں نے جاگیرداروں ، زمینداروں اور پٹیل پٹواریوں تک سے اپنے حق کیلئے لڑائی کی۔ جبرو ظلم کا منہ توڑ جواب دیا۔ رامو بھیا نے اسی گاؤں میں اپنی کنواری بہن کیلئے زمیندار پر کلہاڑی سے بھرپور وار کیا تھا مگر کمبخت مرا نہیں تھا۔ مگر اس کی سزا رامو بھیا کو موت کی صورت میں ملی۔
ایک دو نہیں ، ہماری اس زمین پر ہزاروں لڑائیاں ہوئی ہیں۔ یہ دباؤ، یہ حکومت اب کی نہیں ، بہت پرانی ہے۔ صدیوں پرانی۔ جتنا ظلم پرانا ہے ، اتنی ہی اس کے خلاف لڑائی پرانی ہے۔ جہاں کسان نے بیگار کے خلاف ،لگا ن کے لئے ، زمین کیلئے اور دانے کے لئے آواز اٹھائی ہے۔ پوری قوت اور سچائی کیسا تھ لڑائی جاری رکھی ہے وہیں اس نے عزت و آبرو کی حفاظت کیلئے بھی زبردست لڑائی جاری رکھی ہے۔ اسی لئے رامو بھیا کا نام ہم سب عزت سے لیتے ہیں …
اس رات تمام کسانوں نے فیصلہ کر لیا کہ اس سال ہم اپنی سرکار کو اپنے دیہات کی کوئی جوان لڑکی نہیں دیں گے۔ ہم کئی سالوں سے اپنی لڑکیاں ، اپنی آنکھوں کا نور اپنے دل کی ٹھنڈک اور اپنے بدن کا لہو نچوڑ نچوڑ کر اس خونیں سرکار کو پلاتے آئے ہیں۔ اب اگر ہماری کھال بھی کھنچوا دی گئی تب بھی ہم اپنے گھروں کا سکون نہیں دیں گے …
’’ہم زمینداروں کی منڈی میں اپنی کنواریاں کبھی نہ بکنے دیں گے۔ ہماری غیرت اس سرکار کے آگے نہیں جھک سکتی۔ ہم اپنا دانہ سرکار کو دے دیں ،ساہو کا رکو دے دیں۔ مولویوں اور پنڈ توں کو دے دیں پٹیل پٹواریوں کو دے دیں۔ ہم سے سرکار بیگار لے ، ہم کو مارے بیٹے ہماری زمین چھین لے اور ہماری بیٹیاں بھی لے لے … ان کی منڈی سجا کے بیٹھ جائے۔ کیاسرکار دلالوں کی سرکار ہے۔ ہم سرکار کی ایک نہ چلنے دیں گے۔ ‘‘
یہ وہ الفاظ تھے جو زینو نے کسانوں کے سامنے ، پورے جوش ، پورے اعتماد اور طاقتور لہجے میں کہے۔ کسانوں نے بھی غیر معمولی جوش و خروش کا مظاہر ہ کیا۔ ہر ماں نے ہاتھ پھیلا کے زینو کیلئے دعا دی ہر باپ نے اس کو گلے لگا کے وفاداری کا عہد کیا۔ ہر کنواری نے سرپرآنچل ڈال کے بڑی عقیدت سے زینو کو دیکھا اور بھوری … ؟ اس کی آنکھوں میں آنسوتھے تو ہونٹوں پہ مسکراہٹ۔
وہ رات عجیب سی رات تھی۔ رات بھر کسان جاگ کے زمیندار کا انتظار کرتے رہے صبح ہونے میں کچھ دیر رہ گئی تھی۔ بھوری سوئی پڑی تھی اور گردن کی سفیدنرم جلد کے نیچے نیلی رگیں دھڑک رہی تھیں۔
بوڑھے کسان نے آواز لگائی
’’ زینو … زنگیا… ‘‘ زینو ہڑبڑا کے اٹھ بیٹھا
’’کیا ہے دیال چاچا ؟ ہم لوگ تو جاگ رہے ہیں ‘‘
’’ ارے بیٹا بڑا غضب ہو گیا۔ زمیندار کے سپاہی آ رہے ہیں۔ ان کو ہمارے فیصلے کا علم ہو گیا ہے اور وہ اس کو سرکار کی توہین سمجھتے ہیں ، سرکا رکے خلاف بغاوت سمجھتے ہیں اور اسی لئے بہت سے سپاہی آ رہے ہیں۔ اب کی بار وہ بھوری کو لے جانا چاہتے ہیں۔ کل بعض خوشا مدی کسانوں نے جو زمین ضبط ہونے کے ڈرسے ہمارے فیصلے کے خلاف تھے۔ بھوری کے روپ کا قصہ خوب نمک مرچ لگا کے سنادیا تھا اگر ہم نے ذرا بھی بزدلی دکھائی توسویرا ہونے ہونے تک وہ بھوری کو لے جائیں گے۔
وہ زبردستی اسے چھین لیں گے۔ تم بھوری کو گاؤں بھر میں کہیں بھی چھپا دو ، وہ ڈھونڈھ نکالیں گے۔ وہ تمھیں کال کو ٹھری میں بند کر دیں گے۔ وہ تمھیں ماریں گے۔ اس لئے صرف یہی بچاؤ کا طریقہ ہے کہ پوری قوت سے ، پوری طاقت سے آج جمع ہو کر مقابلہ کریں چاہے ہم سب مر جائیں مگر ہمارا فیصلہ اپنی جگہ قائم رہے … زندہ رہے۔ ‘‘
بھوری جاگ پڑی تھی اُسکی آنکھیں حیرت اور ہیبت سے پھیل گئیں۔ زینو نے اس کو زور سے بھینچ لیا۔ خوف نہ کر بھوری … میں ابھی زندہ ہوں … میں تجھے اس منڈی میں کبھی نہ جانے دونگا۔ تجھے مجھ سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ میں ان دلالوں سے لڑونگا۔ میں ان سپاہیوں کو مار ڈالونگا مگر تجھے ہاتھ نہیں لگا نے دونگا۔
سارے کسان اکٹھے ہو گئے تھے اور پہاڑی راستے پر گھوڑوں کے ٹاپوں کی آواز تیز ہوتی جا رہی تھی …
بھوری نے پوری خوت سے زینو کے بازو پکڑ لیئے۔ ہوا میں سپاہیوں نے دو تین خالی فائر کئے اور بھوری کا دل جیسے حلق میں آ گیا وہ سرسے پاؤں تک کانپ رہی تھی۔ اس کی آنکھیں بار بار تیزی سے راستے کو دیکھتیں۔ بھر زینوں کو بھر کسانوں کو … سامنے نکڑ پر گھوڑے دکھائی دینے لگے۔ زینو کے آگے سارے کسان جمع ہو گئے ان کی آنکھوں میں خوف اور عزم ملاجلا ساتھ۔ ان کے ہاتھ بار بار اپنے مضبوط ڈنڈوں پر جاتے۔ زینو اور بھوری کے آگے سارے کسان ساحلی چٹانوں کیطرح کھڑے تھے ،
زمیندار سپاہوں کے پیچھے سب سے بانکے گھوڑے پر سوار تھے۔ ایک سپاہی نے آگے بڑھ کر کہا۔
سرکار کہتے ہیں ’’ تم بھوری کو سیدھی طرح دے دو ورنہ گولی چلے گی ‘‘ …
’’سرکار سے کہو ہم گولی کھانے تیار ہیں مگر بھوری کو نہیں دیں گے ‘‘
زمیندار نے سپاہیوں کی طرف مسکرا کے دیکھا پھرکسانوں کی طرف دیکھا جو دور تک انسانوں کا کھیت معلوم ہو رہے تھے …
سرکار کہتے ہیں ’’تمہارا فیصلہ ہمارے خلاف بغاوت ہے ‘‘
’’ ہماری عزت بڑی چیز ہے۔ ہم نہ عزت دیں گے نہ زمین ‘‘ دیال نے زوردار لہجے میں پکار کر کہا۔
’’تم چپ رہو۔ گستاخ آدمی ‘‘ زمیندار نے اپنی سفید مونچھوں پر تاؤ دے کے ڈانٹا چپ رہنے کی حد ہوتی ہے۔ آپ سرکار ضرور ہیں مگر کیا یہ سرکار دلالوں کی سرکار ہے ؟ دیال بھی شیر کی طرح گرجا۔
اس کو پکڑ لو … زمیندار نے دیال کی طرف انگلی اُٹھا کے اشارہ کیا۔ اور سپاہیوں نے اُسے پکڑ لیا۔
سرکار کہتے ہیں ‘‘ اب بھی مان جاؤ۔ ہم تمہاری ہی بھلائی چاہتے ہیں ، اگر بھوری کو چپ چاپ ہمارے حوالے کر دو تو ہم تمھیں معاف کر دیں گے۔ ‘‘
’’سرکا رسے کہو ہم بھوری کو ہر گز نہیں دیں گے چاہے ہم سب کی جان چلی جائے ‘‘ زینو نے کسانوں کو ہٹا کے سامنے آتے ہوئے کہا اور اس کے مضبوط بازو اکڑ گئے
’’یہ کون زبان دراز ہے ؟‘‘
’’ سرکار یہ زینو ہے ، بھوری کا منگیتر … ’’ سپاہی نے ہاتھ جوڑ کر عرض کیا ’’اچھا … تم یہاں آؤ … ‘‘ گھوڑے پر شان و شوکت سے بیٹھے ہوئے زمیندار نے مسکرا کے زینو کو اشارہ کیا۔ زنیو اپنے ڈنڈے کو زمین پر ٹیک کے آگے آیا، اے بیوقوف کسان !ہم تم کو اس کے بدلے انعام دیں گے۔ اب بھی کچھ نہیں گیا ہے۔ ورنہ تم کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ ہم خالی ہاتھ ہرگز نہیں جا سکتے۔ ہم تم کو نقصان بھی نہیں پہنچانا چاہتے۔ اسلئے تم کو ہمارا حکم ہے بھوری کو ہمارے حوالے کر دو۔ جاؤ سپاہیو بھوری کو ڈھونڈ لاؤ… زمیندار نے پھر مونچھوں پر تاؤ دے کر اپنی پیشانی سے پسینہ پونچا۔ اس کے آنکھوں کی بھیانک چمک اور بڑھ گئی۔ سپاہیوں کے درمیان سروں پر پٹرومکس رکھے بہت سے مزدور تھے۔سپاہی کسانوں کو ہٹا ہٹا کے آگے بڑھنے لگے اور جب بھوری نے چیخ ماری تو زمیندار کے پاس کھڑے ہوئے زینو نے بجلی کی سی تیزی سے اپنی لٹھ سے زمیندار پر زبردست وار کیا اور زمیندار گھوڑے کی پشت سے لٹک گیا۔
سارے سپاہوں اور کسانوں میں کھلبلی مچ گئی۔ زمیندار کے سپاہیوں نے زینو کو پکڑ لیا اور کسانوں نے بھوری کو اپنے حلقہ میں لے لیا۔
لاٹھیاں اور بندوقیں چلیں مگر زمیندار کے سپاہوں کو خالی ہاتھ لوٹنا پڑا۔
زمیندار کے جسم پر شدید ضرب پڑی تھی اور سپاہی اس کے بے ہوش جسم کو گھوڑے پر ڈالے محل جا رہے تھے۔ اور زینو رسیوں سے بندھا گھسٹتا ہو ا ان کے پیچھے تھا۔
بھوری دھاڑیں مار مار کے رو رہی تھی میں بھی جاؤنگی زینو کے ساتھ ‘‘
نہیں بھوری … زینو نے آج بہت بڑا کام کیا ہے … اس نے آج ہر روایت توڑ دی تیری خاطر ، گاؤں کی عزت کی خاطر… ہم سب کی خاطر… اب تو اس محل میں نہیں جا سکتی … شوکت نے اس کے سرپر شفقت سے ہاتھ رکھا۔
زینو کو چھڑانے کی کسانوں نے جان توڑ کوشش کی … مگر وہ تو خود ہی ان کا حلقہ توڑ کے زمیندار کے قریب آ گیا تھا اور اس طرح سپاہیوں نے اس کو گھیر لیا تھا۔
کسانوں کا فیصلہ اٹل تھا۔ اور وہ سرکا رکو شکست دے کر آئے تھے۔ انھوں نے سرکا رکے منہ پرزبردست طمانچہ مارا تھا۔ وہ ایک لڑکی کو ظالم ہاتھوں سے بچا کر لے ائے تھے۔ وہ اپنے کھیتوں میں بیٹھے سوچ رہے تھے اگر ہم نے اسی طرح حوصلے سے کام لیا تو یہ کھیت ہمارے ہونگے ، یہ دانہ ہمارا ہو گا۔ یہ زمین ہماری ہو گی اور ہماری عزت منڈ یوں میں بکنے نہیں جائے گی … یہ تجربہ بہت کامیاب تھا۔ یہ مقابلہ بہت سخت تھا جس میں ہماری جیت ہوئی۔ سرکار منہ کی کھا گئی سرکار کی شکست نے کسانوں کو اور مضبوط کر دیا۔ ان کو اپنے آپ پر اپنی قوت پر اپنی طاقت اور سچائی پراور زیادہ اعتماد ہو گیا۔
اور آج کھڑکی میں کھڑی بھوری کو سب یاد آ گیا۔ اپنے کھیتوں کو دیکھ کے اور چاندنی رات کے سحر کو محسوس کر کے آج اُسکا ذہن زندگی کی ایک ایک بات کو دہرانے لگا۔ اس نے بڑے فخر سے اپنے آپ کو دیکھا۔ میرا وجود آج بھی ویساہی پاکیزہ ہے جیسا شاید میری پیدائش پر ہو گا … اس نے سوچا … ہاں مگر ان ہونٹوں پر اب بھی زینو کے ہونٹوں کا لمس تازہ ہے۔ شانوں پر اب بھی زینو کے مضبوط ہاتھوں کا دباؤ باقی ہے اور د ل میں اب بھی زینو کے لئے ویسی ہی چاہت اور پیار ہے۔ منگلو کہہ رہا تھا کل زینو چھوٹ جائے گا۔ اتنے زمانے بعد میں زینو کو دیکھ سکونگی۔ شوکت بھیا کہتے تھے زینو کو سرکار خود نقصان پہونچا نا نہیں چاہتی زینو کسان سبھا کا آدمی ہے۔ اگر زینو کو کچھ ہو گیا تو زمیندار کی خیر نہیں ہے۔ اسلئے سرکار زینو سے ہی نہیں ہم سب سے ڈر نے لگی ہے۔ وہ یہ بھی کہتے تھے زینو بہت دبلا ہو گیا ہے۔ ہو جانے دو۔ میں زینو کو زندہ لینا چاہتی ہوں بس پھر ہم دونوں کھیتوں میں کام کریں گے … کیسا مزہ آئے گا پھر… بھوری نے ہنسں کے دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپا لیا۔ وہ سوچنے لگی پھر میں کسان سبھا میں مل جاؤنگی اور سرکار کو کمزور بنانے میں زنیو کے برابر حصہ لوں گی زندگی ہماری اپنی ہو گی ان کھیتوں کی طرح … جھونپڑے میں پلے ہوئے پاکیزہ قدم ہر طرف پاکیزہ گی بکھیریں گے … اور زمینداروں کی منڈ ی میں خاک اُڑے گی …
٭٭٭
بُرا آدمی
جوگیندر سنگھ اپنی پگڑی ٹھیک کرتا ہوا کا رکے قریب آیا … اب وہ کافی بوڑھا ہو گیا تھا۔ ریڑھ کی ہڈی میں جھکا و پیدا ہو جانے کے باوجود وہ تن کر چلنے کی کو شش کرتا۔ داڑھی کو اسی طرح خوبصورت انداز میں گوندھتاجیسے وہ آج سے تیس سال پہلے گوندھتا تھا۔
اب اس کے کپڑے زیادہ قیمتی ہوتے۔ یوں بھی جو گیندرسنگھ لباس کے معاملے میں اپنی نفاست اور خوش ذوقی کے ثبوت میں ہر روز ہم سب سے قمیض ، پتلون اور ٹائی کے کلر میچنگ کیلئے داد حاصل کر لینا۔ اس کی گھنی داڑھی باریک بٹی ہوئی رسی کی طرح بالوں کے بیچ میں پڑی خوبصورتی سے کسی ہوئی بندھی ہوتی۔ اس کے ساتھ فیشن ایبل اونچی سوساٹی کی عورتیں اکثر دیکھی جاتیں۔
اب تو جوگیند رسنگھ نے ٹکسٹائیل ملز کی معمولی نوکری چھوڑ کے امپورٹ۔ اکسپورٹ کا بزنس اپنا لیا تھا۔ اس کو برج اور رمی کھیلنے کی عادت پڑ گئی تھی۔ دیسی شراب کو وہ ہاتھ بھی نہ لگا تا۔ اب وہ بہت بڑا آدمی بن گیا تھا۔ اپنی کوششوں اور چالاکی سے اس نے بڑے بڑے سرمایہ داروں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ قیمتی گھڑی ، ہیرے کا ٹائی پن اور سونے کے کف لنکس ، جیب میں قیمتی فونٹن پن اور باہر کی شراب کے باٹلز کار میں ہر وقت رکھے رہتے۔
ہر چیز قیمتی اور کمیاب تھی مگر اب جوگیندر خود بہت سستا نظر آتا! میں اس روپ میں اس کو دیکھ کے حیران رہ گیا۔
کیا وہ ایک بڑا آدمی بھی بن سکتا ہے۔ ؟ مجھے یقین نہ آیا۔
مجھے یاد ہے کہ میں اور جوگیندرسنگھ ٹکسٹائیل ملز میں ساتھ ساتھ کام کرتے تھے میں کا ٹن سلکڑتھا اور وہ ویونگ ماسڑ… اسوقت بھی اُسکی تنخواہ مجھ سے دوگنی تھی۔ ملز کا لونی میں اُسکو دو منزل بنگلہ ملا تھا اور فیکٹری کی طرف سے کا رکی سہولت بھی موجود تھی۔ اس نے دو بار جاپان جا کے وہاں کی صنعتی ترقی کے بارے میں معلومات حاصل کی تھیں۔ ہر ایک سے ہنس کے بات کرنا اب اُسکے لہجے کی خصوصیت تھی۔
کام کرنے کی ہمارے دلوں میں لگن ہی نہیں۔ جاپان میں بالکل بڑھے آدمی بھی آرام لئے بغیر دیوانوں کی طرح کام کرتے ہیں۔ لائف انجوائے کرنا اسی کام کے بعد ممکن ہے۔
وہ کاندھے تھپتھپا کے ہنس ہنس کے اپنے ڈیپارٹمنٹ کے لوگوں میں کام کرنے کا جذبہ اُبھارنے کی کوشش کرتا۔ وہ خود بھی بڑا محنتی تھا۔ کام کے بعد اپنے گھر کے ڈیکوریشن اور اپنے کمپونڈ میں پھیلے ہوئے چمن پر بڑی توجہ دیتا۔ مالی ہر وقت اس کی ہدایات پر پریشان رہتے مگر جوگیندر سنگھ بڑا زندہ دل اور ہنس مکھ انسان تھا اسلئے اُسکے ساتھ کام کرنا بھی اچھا لگتا۔
کلب میں آتا تو بلیرڈز کے تین گیمس کھیلنے کے بعد گھر چلا جاتا اس کو رمی یا برج سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ رمی کھیلنے والے دو دو تین تین راتیں ٹیبل پر بیٹھے بیٹھنے گذار دیتے مگر جوگیندر سنگھ ان کی طرف آنکھ اُٹھا کے بھی نہ دیکھتا … وہ اُسکو بیوقوفوں کی جنت کہتا تھا۔ بغیر تھکے محنت کرنا ہی اس کی زندگی کا اُصول تھا۔
ا سکو اپنے وطن سے جنون کی حد تک پیار تھا۔ ایسے لوگ کسقدر گمنام ہوتے ہیں۔ میں اکثر سوچتا۔ اگر ایسے لوگوں کو حکومت کی مشنری میں جگہ مل جائے تو … مگر وہ اپنی جگہ اپنے فرائض خوبصورتی سے سنبھارہا تھا یہی کیا کم تھا …اُس زمانے میں مسڑ دیسا ئی ملز کے جنرل منیجر تھے۔ ملز سے اکثر موریوں کے اندرسے ، وینٹی لیٹرز سے بیسیوں گز کپڑا چوری جاتا۔ سکیورٹی آفسیرنے ان چھوٹی چھوٹی چوریوں پر کڑی نظر رکھی تھی وہ سارے راستے بند کروا دئیے تھے جن راستوں سے کپڑا باہر جاتا تھا۔
پھر ان مزدوروں کی باقاعدہ جھڑتی ہوتی جن کی ڈیوٹی رات کی ہوتی۔
اس طرح چوریاں بالکل ختم تو نہ ہوئی تھیں مگر کم ضرور ہو گئی تھیں۔
ایک شام جو گیند رسنگھ ہاتھ میں ٹیلی گرام لئے میرے گھر آیا آنکھیں سرخ تھیں ، بال پریشان ، ماتھے پر بکھرے ہوئے۔
کیا بات ہے جوگیند ر… ؟ میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کے صوفے پر بٹھا دیا۔
’’میری ماں ، میری ماں … یار … ‘‘
’’کیا ہوا تمہاری ماں کو … ؟‘‘ میں نے ٹیلی گرام اس کے ہاتھ سے لے لیا اب اس کی ماں اس دنیا میں نہیں رہ گئی تھی …
پھر جو گیندر بلک بلک کر رویا۔ اس چھوٹے بچے کی طرح جو کسی میلے میں اپنی ماں سے بچھڑ گیا ہو۔ جو گیند رسنگھ اپنی ماں کو بہت چاہتا تھا۔ چھٹی لے کے دیہات جاتے ہوئے وہ ماں کے لئے گرم شال ، اصلی شہد اور ڈوپٹوں کا ململ لے جانا کبھی نہ بھولتا۔
میں نہ اس کو تسلی دے سکا نہ سمجھا سکا۔ اس قدر ہنس مکھ چہرہ آنسووں میں بھیگ کراُداس ہو گیا تھا۔ جن آنکھوں میں سدا مسکراہٹوں کے چراغ روشن دہتے تھے۔ وہ آنکھیں بجھی بجھی سی تھیں۔ بے نور سی۔
میں اس وقت سے اس کا گہرادوست تھا جب ملز کی بنیاد پڑی تھی اور پہلے پہل کام شروع ہو ا تھا۔ مشینیں باہر سے آئی تھیں۔ برسوں سے ہم ساتھ کام کر رہے تھے۔
پنجابی ، مرہٹے ، بنگالی ، مہاراشٹرین ، گجراتی، مدراسی ، بنگلوری ، نارتھ انڈینس ، ساوتھ انڈینس … سب ہی ایک جگہ کام کرتے تھے ایک دوسرے کے دوست تھے۔ رشتہ داروں سے زیادہ اپنائیت اور یگانگت تھی آپس میں۔ اپنے اپنے شہروں سے دور یہاں ہم نے ایک ایسا شہربسا یا تھا۔
جس میں مختلف مذہبوں ، مختلف طور طریق ، مختلف تہذیبوں اور مختلف روایات رکھتے ہوئے بھی انسانیت کے ناطے ایک بندھن میں بندھے ہوئے ہم ایک دو سرے کے دکھ درد اور خوشیوں میں برابر کے شریک تھے۔ ملز میں کام کرنے والے ہر شام ایک دوسرے کے گھر جاتے کلب میں ملتے۔ تہواروں میں ایک دوسرے کو مبارکباد پیش کرتے۔ اور ان میں کسی قسم کا کوئی دکھاوا یا بناوٹ نہ ہوتی۔
کسی طرح کا بھید بھاؤ آپس میں نہ برتا جاتا۔ ایسی جتنی فیکٹریاں ہیں اور ان کے اطراف ہزاروں گھر دور تک پھیلے ہوئے ہیں وہاں ایسی ہی فضا و ہوا ملتی ہے۔
اس کی ماں کی موت پر میں بھی جوگیندرسے لپٹ کے پھوٹ پڑا۔
اسی رات میں اور جوگیندر دیہات چلے گئے۔
واپسی پر وہ بہت غمز دہ تھا۔ اس کو معمولی دلاسہ اور تکلیف پہنچاتا تھا اس کی ماں نے جوانی کی بیوگی میں پہلا اور آخری سہارایہی سنبھال کے رکھا تھا۔ بڑی بڑی مصیبتیں اور پریشانیاں اُٹھا کے جوگیندر کی پرورش کی تھی۔ پڑھایا لکھایا تھا ، اچھی تربیت دی تھی۔ اور جو گیندر کو اس کا بہت احساس تھا۔ دیہات میں زمینات کا کام وہی سنبھالی تھی۔
ہماری واپسی کی رات ملز میں بہت بڑی چوری ہو گئی۔ کا رجو گیندر سنگھ کی تھی جس میں ڈاکو پگڑیاں پہن کے ملز میں داخل ہوئے تھے کپڑا اور نئی مشینوں کے ضروری پارٹس غائب کرنے والی ٹولی سکیورٹی آفیسر کے ساتھ ملز میں آئی اور پھر یہ ہنگامہ برپا ہوا سکیورٹی آفیسر نے اس تمام واقعہ سے لاعلمی ، ظاہر کی تھی۔ جب جوگیند رسے واقعات پر روشنی ڈالنے کیلئے کہا گیا تواس نے بتایا کہ وہ تمام رات اس نے سفرمیں گذاری تھی اور میں اس کے ساتھ تھا۔
ایک زمانہ تک چھان بین ہوئی اور جب جوگیندر نے ذاتی دلچسپی لے کرکیس آگے بڑھایا اور تحقیقات میں خود حصہ لیا تو پتہ چلا کہ سکیورٹی آفیسر اور جنرل مینجر نے مل کر یہ کا روائی کی تھی۔
اسی زمانے میں جو گیند رکی منگیتر کی شادی کی دوسرے گھرانہ میں ہو گئی کیونکہ وہ اس شادی کو اسوقت تک ملتوی رکھنا چاہتا تھا جب تک اس چوری کے کیس کا کوئی فیصلہ نہ ہو جائے۔
دیسائی کے جانے کے بعد ہرنام سنگھ جنرل منیجر بن کے آ گئے۔ ہر نام سنگھ اپنی فیملی کے ساتھ آئے تھے۔ ہم سب نے کلب میں انھیں مدعو کیا ان کی نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ ہم سب نے مبارکباد دی۔ جوگیندر مبارکباد دینے آگے بڑھا تو مجھ سے ٹکرا کے کرسی پر گر پڑا اور پھر سنبھل کے پیچھے چلا گیا۔
اُسی رات جو گیندر شراب کے شیشے لئے میرے گھر آ پہونچا وہ بے تحاشہ پی رہا تھا۔ کبھی خوب قہقہے لگا تا ، کبھی بلک بلک کے روتا ،کبھی جنرل مینجر کو گالیاں دیتا ، کبھی اس کی نئی نویلی بیوی کو تم کو ایسا نہیں کرنا چاہئے جوگیندر … تم ہمیشہ سے ایک اچھے انسان ہو۔ تمہارا کیریکٹر بے داغ ہے میرے یار۔ تمہارا دل سچے موتی کی طرح خوبصورت ہے۔
اچھا آدمی کیسا ہوتا ہے … ؟ آہاہا … ہاہا اس نے ہنسی اڑائی ارے بیوقوفی کو تم اچھائی کہتے ہو ؟ ہوں ؟
بے داغ کیریکٹر کس کام آتا ہے … ؟ بو لو۔ بولو … میرا کالر پکڑ کے اس نے سرخ آنکھیں میری آنکھوں میں ڈال دیں۔ موتی جیسا خوبصورت دل میں نے اس سریندر کو رکو دیا تھا جسکو بچپن سے دیوی بنا کے اپنے من مندر میں رکھ چھوڑا تھا اور آج وہ اس ہرنام سنگھ کی بیوی بن کر میری ویران زندگی کا مذاق اڑانے آئی ہے دیکھا تم نے کس قدر گہنے پہن رکھے تھے۔ ہر نام سنگھ کے نام کا سیندور اپنی مانگ میں بھر کر میری ، سونی راہوں میں دھول اڑانے آئی ہے۔
اُف … اُف … اس نے کسی ، ہوئی مٹھیوں سے اپنے ماتھے پر زور زور سے مارنا شروع کیا۔
دوسرے دن جو گیند رکا استعفیٰ منیجر کی میز پر رکھا تھا۔ جوگیندر چلا گیا … ایک زمانہ تک اس کا کوئی پتہ نہ چلا۔
اور اب وہ میرے سامنے ایک برے آدمی کے روپ میں آیا تھا شرابی ، دھندے باز اور خود غرض بن کر …
اتنے اچھے انسان کو برا آدمی بنانے کا ذمہ دار کون ہے ؟
ہمارا معاشرہ … ؟ سریندر کور یا ہرنام سنگھ …؟
کا راسٹا رٹ کر کے ریورس میں لیتے ہوئے دیر تک سوجچا رہا اور ہاتھ ملا کر اس کو خدا حافظ کہا۔
آج اس نے باتوں باتوں میں مجھے بتایا تھا کہ ’’ دراصل کبھی عمر میں بڑا بیوقوف تھا۔ نا تجربہ کار ، دنیاداری سے ناواقف ذرا سے دل ٹوٹنے پر رونے والے نا سمجھ بچے کی طرح … مگر اب حالات نے سب کچھ سکھا دیا ہے۔ ہم اس نظام میں اس طرح ایک دم تبدیل ہو کر ہی جی سکتے ہیں یار … اس نے کہا تھا۔
یہ اس کی اپنی آواز نہیں تھی۔ وہ تو ایک اچھا انسان تھا۔ دوستی کی خاطر جان پر کھیل جانے والا … اپنے کیریکٹر کے دامن سے چوری کا داغ دھونے کی کوشش میں محبوبہ کو کھو دینے والا۔
مجھے اس کی موت کا واقعی رنج تھا۔ اس کی شخصیت کی کوئی بھی اچھائی زندہ نہ بچ سکی تھی !
٭٭٭
رات کے گذرتے ہی
جمناں نے آنکھیں کھول کے ادھر ادھر دیکھا۔ اس کا شوہر چار پائی پر بے سدھ پڑا تھا دونوں بچے اس کے پیروں کے پاس سورہے تھے۔ اس کے بالوں کا کسا ہوا جوڑا کھل گیا تھا وہ ہڑبڑا کے بستر سے اٹھ بیٹی۔ پھر کھڑ کی کھول کے باہر دیکھا۔ ابھی تک اندھیرا پھیلا ہوا تھا۔ ہر چیز پر ابھی تک اندھیرے کا لحاف پڑا تھا۔
برقی پول پر بلب جل رہا تھا اور اس کی ہلکی روشنی چھوٹے سے آنگن میں پڑ رہی تھی سستی شراب کی خالی بوتل چار پائی کے نیچے پڑی تھی۔ آنگن میں جھاڑو لگا نے کے بعد اس نے چولھا جلایا۔ چاٹے بنا کے پی اور پھر رات کے بچے ہوئے پانی سے برتن دھوئے۔ ساری بکھری ہوئی چیزوں کو ترتیب سے رکھا۔
چاول پکائے۔ دال دھوکے ہانڈی چولھے پر چڑھا دی
آہستہ آہستہ رات کا سیاہ لحاف کھیسکا کرسویراپھلیتا گیا۔
اس نے بہو کو آواز دی ’’ دروازہ بند کر لے میں ڈیوٹی پر جا رہی ہوں اور بغیر جواب سنے وہ جلدی سے گلی پار کر کے سڑک پر آ گئی۔ صفائی کے دفتر جا کے ، جھاڑ و ، گمپے ( ٹوکرے ) لے کے وہ جمعدار کے بتائے ہوئے پتہ پر پہونچ گئی۔ ہمیشہ پانچ چھ عورتیں مل کے چلتی تھیں۔ سبنر رنگ کی ہنڈ لوم ساڑیاں جن کے سرخ باڈر تھے۔ وہ اوڑھنیوں کے طور پر استعمال کرتی تھیں ، جھاڑو کے بڑے بڑے کٹٹے جو اک خاص طریقہ سے بنائے جاتے جن سے لمبی چوڑی سڑکیں جھاڑ نے میں آسانی ہوتی تھی۔
جمعدار کچھ دیر بعد ہوٹل سے چائے و بن کھا کے کلے میں پان دبا کے سائیکل پر آتا۔ ان کے کام کی نگرانی کرتا۔ انھیں نئی نئی ہدایتیں دیتا۔ ہر جھاڑنے والی عورت یا مرد اس کو اپنی تنخواہ سے پچاس روپئے دے دیتے تاکہ جمعدار وقت پران کی حاضری رجسڑ میں درج کر دے۔ پیسے نہ دینے کی صورت میں خوف و دہشت کے علا وہ نوکری ہر وقت خطرہ میں نظر آتی۔
جمعدارسے بڑا انسپکٹر تھا ایسی عورتیں جو صفائی کے دفتر میں ملازمت کرتی تھیں مگر کبھی سڑکیں جھاڑ نے نہ آتی تھیں گھر بیٹھے گیارہ سوروپئے مل جا تے تھے۔ انسپکٹر صاحب کے تین سوروپئے اس تنخواہ سے مقرر تھے۔ جمعدار سوروئیے لیتا تھا ایسی عورتوں سے مقررہ تنخواہ انسپکٹر اور جمعدار کواس لئے ملتی تھی کہ وہ ان عورتوں کی غیر حاضری کو کامیاب اداکاری سے چھپائے رکھتے۔ انسپکٹر سے کوئی پو چھتا تو وہ بتاتا کہ آجکل اس کی ڈیوٹی بشیر باغ پر لگا دی گئی ہے یاوہ پنجہ گٹہ میں ڈیوٹی کرتی ہے۔ اوپر والے عہدہ دارا تواس سے زیادہ نئی نئی ترکیبوں اور منصوبوں میں ملوث تھے۔
مگر جمناں کو ان تمام باتوں سے کیاسروکار تھا۔ وہ پندرہ برس سے کام کر رہی تھی اور پابندی سے اپنے عہدہ داروں کی مٹھی گرم کر رہی تھی اس طرح اس کی نوکری ایکساں بغیر ریکارڈ خراب ہوئے چل رہی تھی۔ اس نوکری میں سب بڑی شرط منہ بند رکھنا تھی۔
…
ویسے وہ نہ صرف نوکری میں بلکہ گھر میں بھی منہ بند رکھنے کی شرط پر عمل کرتی تھی۔ اس کا شوہر اس کی تنخواہ کا بڑا حصہ پی کھا کے اڑا دیتا۔ لے پالک لڑکا اور بہو اس کے پیسوں پر عیش کرتے۔ ایک کمرہ اور پتلے سے ورانڈے کا گھر اس نے اس زمانہ میں بنایا تھا جب ہر چیز آسانی سے اور کم مہسول میں مل جاتی تھی۔ اب تو مرمت کروانا بھی مشکل تھا۔ لے پالک لڑکے کی شادی کا قرض بھی وہی برسوں سے اتار رہی تھی۔ جس مہینہ میں زیادہ تنگی محسوس ہوتی وہ اپنے گلے کے سونے کے ’’گنڈلو‘‘ کسی ساہوکار کے پاس گروی رکھ دیتی۔ اس کے پیروں کے آدھ سیر وزنی چاندی کے توڑے پچاس روپئے میں ڈوب گئے تھے۔ یہ ڈوب جانا بھی یوں ہوتا کہ جب سود کی ندی چڑھتے چڑھتے باڑھ بن جاتی تو چھوٹی موٹی چیزوں سے لے کر سونے چاندی تک اس باڑھ میں ختم ہو جاتی، بہہ جاتی۔
امیر بننے کا کیسا آسان طریقہ ہے یہ … وہ سوچتی۔
وہ جس محکمہ میں کام کرتی تھی اس کے بل کلکٹر بھی لکھ پتی تھے۔ پیسے اینٹھنے کی ترکیبیں تو یہاں کے بابو لوگ جانتے ہی تھے۔
کروڑ ہا روپئے کی رقم کا حساب کتاب برابر ہو جاتا تھا۔
معمولی جمعدار، انسپکٹر اور بل کلکٹر کے کئی کئی منزلہ پختہ مکان تھے جو کرایہ پردے رکھے تھے ان لوگوں نے۔
’’اس طرح پیسہ کمانے اور اس کو صحیح مد میں لگانے کا ہنر بھی جانتے ہیں ہم…‘‘ ایک دن بل کلکٹر نے انسپکٹر سے کہا تھا۔ تب ہی وہ دونوں کے لئے سامنے والی ہوٹل سے چائے لے آئی تھی اور اس کو بیوقوف و جاہل سمجھ کے وہ دونوں گفتگو میں مصروف رہے۔ وہ اپنی عمر، تجربہ اور عقل سے تو یہ بات سمجھ لیتی تھی مگر ایسی باتیں کرنا، یا سمجھانا اس کو نہیں آتا تھا۔ بس اس کی زندگی میں تو ایک ہی جیسی اندھیری صبح تھی جب وہ جاگ جاتی تھی۔ جلدی جلدی اپنے حصے کا کام نمٹا کے وہ صفائی کے دفتر جاتی۔ جمعدار بڑا ایماندار آدمی تھا۔ پیسے لیتا تھا تو کیا ہوا۔ حاضری بھی ہو صحیح وقت کی ڈالتا تھا۔ چاہے سات بجے جاؤ، حاضری تو پانچ بجے صبح کی پڑتی تھی۔ کبھی بہت دور جھاڑو و گمپے اٹھا کے پیدل جانا پڑتا۔ کبھی دو میل دور کی سڑکیں جھاڑو، کبھی چار میل دور کی … نوکری تو نوکری ہی ہے۔
جس گھر کی عورتیں پیسہ کما کے لاتی ہیں ، اس گھر کے مردوں میں نسوانیت بڑھ جاتی ہے۔ حکیم صاحب اکثر ہنس کے اپنے ساتھی سے کہا کرتے جن کے مطب کے آگے وہ روز جھاڑو لگاتی تھی جب جمناں نے ہاتھ جوڑ کے مطلب پوچھا وہ بولے ’’بھئی جب عورتیں مرد بن کے میدان میں آ جائیں تو مرد شرما کے منہ پھیر ہی لیں گے ، تم کماتی ہو تو تمہارا مرد گھر میں کھاٹ پر پڑا اینٹھتا ہو گا، اس کو کیا پڑی ہے کہ محنت کرے۔
دل ہی دل میں جمناں قائل ہو گئی۔ حکیم صاحب کی قابلیت اور اندازے کی… جھاڑو سے سڑکوں کی دھول اڑتی رہتی اور اس کے بالوں پر جمتی رہتی۔
صبح کب ہوئی، پنچھی گھونسلوں سے کب اڑے ، کرنیں پھولوں پر کب چمکیں اندھیرے کا لحاف کب تار تار ہوا۔ اسے کچھ خبر نہ ہوتی۔ پانچ بجے صبح سے پیٹھ جھکائے وہ سڑکیں جھاڑتی تھی۔
لوگ کس قدر گندہ اور غلیظ کر دیتے ہیں سڑکوں کو… سڑی بسی سبزیوں کا ڈھیر، اخبار کاغذ اور پھٹی ہوئی پالی تھِن کی تھیلیاں۔ دھجیاں ، باسی کھانے اور سالن کی بدبو… جگہ جگہ پان کی پیک، جانوروں اور انسانوں کی غلاظت! وہ اپنا جی مار کے صفائی کرتی رہتی کوڑے کے ڈھیر جانے کتنے دنوں سے نہیں اٹھے … حلق میں متلی و جلن کا احساس ہوتا۔ وہ ابکائی روک لیتی۔ وہ بھی تو انسان ہے صبح پانچ بجے سے دس بج جاتے۔ وہ پسینہ و دھول میں نہا جاتی جب جھاڑو رکھ سر اٹھاتی تو بس ملنے اور گھر جانے کی جلدی ہوتی کبھی بس نکل جاتی تو بس کے ساتھ ساتھ اس کی جان بھی نکل جاتی۔
پھر دو بجے اس کو دفتر میں رپورٹ بھی دینا ہے۔ پانچ بجے وہ گھر پہنچے گی۔ نہا دھو کے کپڑے بدل کے وہ انجینیر صاحب کے باغیچے میں درختوں کو پانی دے کر گھر آئے گی، تھکی ہاری …
آدھی رات کو جنگیا کی بھاری آوازیں اس کا سکون برباد کر دے گی اس کی کسی بات کا جواب دے گی تو وہ دانت کچکچا کے اسے مارنے دوڑے گا آخر وہ اپنے احساس کمتری کو کس طرح دور کرے ؟ ہر روز کی طرح وہ بار بار دہرائے گا۔ ایک ہی سوال ’’مجھے اس کوٹر دلائے گی یا نہیں ؟ بول کب دلائے گی؟ سینکڑوں روپئے کماتی ہے مگر اپنے مرد کو نہیں دیتی۔ کیا کرتی اس پیسے کا؟ کس کو دیتی ہے ؟ کون ہے وہ؟
وہ خاموش بیٹھی رہے گی جیسے بہری ہے ، گونگی ہے۔ سارے گھر کو سنبھالنے والی، اپنے گھر آ کے معذور و مجبور بن جاتی ہے ورنہ وہ مار مار کے بال کھینچ کھینچ کے اس کو ادھ موا بنا دیتا ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ بیٹھے بیٹھے روٹی توڑنے والا اس طرح ظلم کرتا ہے۔ ہزاروں گھر ہیں ایسے جن میں یہی مجبوری و محتاجی ہے۔
عورتوں کے نصیب میں گھر بار سنبھالنے کی یہ سزا ضرور لکھی ہے۔ وہ روئے گی، سسکیاں لے گی اور اپنے بستر پر پڑ رہے گی۔
اس صبح کے انتظار میں جو کبھی نہیں آئی۔ اس روشنی کے انتظار میں جو کبھی نہیں پھیلی۔ اس زندگی پر تو مہیب سائے منڈلاتے رہے۔ امید کی کرن ان سایوں میں چمکتی رہی۔ شاید … شاید کبھی ایسی صبح آسمان کے دامن سے جنم لے جو ساری دنیا میں اجالے اور خوشیاں بھر دے۔ ہر چند خوبصورت و سہانی لگے دور دور تک اندھیرے کا نام و نشان نہ ہو۔ انسان ایک دوسرے پر بہانے بنا کے ظلم نہ کر سکے۔ محنت و جان توڑ محنت کے بعد تسلی اور سکون مل سکے۔ آرام و راحت کا احساس ہو۔
یہ نہیں کہ سویرا ہو اور اجالا نہ پھیلے ، سورج نکلے مگر روشنی نہ ہو کرنیں صرف اندھیرے کو چمکا دیں۔
دل پر بوجھ نہ ہو، زندگی وزنی پتھر بن کر شانے پر دھری ہو۔ انسان جو سوچے وہ کبھی تو پورا ہو۔ مگر کیسے ؟ وہ سوچتی رہی۔
میری زندگی میں تو بس رات کے گزرتے ہی اور ایک رات آ جاتی ہے کب سے ترس رہی ہوں روشنی کے لئے۔
زندگی ہے تو دھول، اور غلاظت بھری …گھر ہے تو ایساجس میں کوئی اپنا نظر نہیں آتا۔ آخر سب ہی کو کھلا کے تو کھاتی ہوں صرف اپنے لئے محنت نہیں کرتی۔ اس گھر کے لئے مرتی ہوں مگر کسی کی آنکھوں میں مروت نہیں ہے۔ ہر کوئی اپنی غرض کے لئے میرے آگے ہاتھ پھیلاتا ہے۔ سوتی ہوں تو نیند میں بھی بے چین رہتی ہوں جیسے اندھیرے میں کچھ ٹٹول رہی ہوں۔ کیا مجھے روشنی نہیں ملے گی؟ گھپ اندھیرے کے بعد کیا کبھی اجالا نہیں پھیلے گا؟
اجالا ضرور پھیلے گا۔ رات کے بعد ہی تو دن نکلتا ہے
میری زندگی کا دن بھی آئے گا۔ وہ دن کس قدر چمکیلا اور سہانا ہو گا پھر اندھیرے میں پلنے والی ساری بدصورتی ختم ہو جائے گی۔ تیز دھوپ ساری گندگی اور غلاظت چوس لے گی ، روشنی اندھیرے پر پھیل جائے گی۔
سوچتے سوچتے وہ سوگئی تھی، صبح کے انتظار میں
روشنی کے آرزو لئے۔
٭٭٭
نیلی جھیلیں
جوبلی ہلز بہت خوبصورت جگہ ہے یہاں دو نیلی نیلی حسین جھیلیں ہیں۔ کنول راج اور نندن سر۔ ان کے کنارے سبز کائی میں چھپی ہوئی چٹانیں ہیں اور دور تک پھیلا ہوا سبزہ۔ یہاں برستا کا حسن نکھر جاتا ہے لہریں لیتا ہوا پانی بیقرار موجوں میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی موجیں جو تڑپتی ہیں۔ اچھلتی ہیں اور پھر سوجاتی ہیں۔ سوتی جاگتی لہریں ، چھل چھل، ایک تڑپتا ہوا نغمہ جس میں برسات کا پر شور ابھار ہوتا ہے۔ کنارے مخملی ڈوب پر ننھے قطرے ، پڑے تھرتھراتے رہتے ہیں۔ سورج کی شعاعوں میں نہائے رنگین قطرے۔ جو جمع ہو کر بھی جھیل میں گر جاتے ہیں۔ نئی لہریں بن جاتے ہیں۔
یہ جھیلیں جن کی گہرائی کو آنکھیں کھولے دیکھتے رہنے میں بڑا لطف آ جاتا ہے جیسے آئنہ گھما کر نئے نئے منظر دیکھے جا سکتے ہیں۔ ویسے ہی اس جھیل میں کائی سے لپتی چٹانیں ، کچی سڑک پر اکا دکا چلتے آدمی اور آفتاب کا دہکتا ہوا چہرہ، سب ڈولتے رہتے ہیں اور چاندنی راتوں میں اس میں جھلملاتے تاروں اور پورے چاند کا رقص واقعی دیکھنے کے قابل ہوتا ہے۔ ان سے کرنیں پھوٹ کر ننھے گرداب پر پھیلتی ہیں۔ تارے سرک سرک کر اس کنارے سے اس کنارے تک جاتے ہیں۔ لرزتے ، کانپتے ستارے۔
جب میں زندگی کی یکسانیت سے اکتا جاتا ہوں توسنیما دیکھنے یا سڑکوں پر آدھی رات تک آوارہ گھومنے کے بجائے جوبلی ہلز چلا جاتا ہوں گھنٹوں چٹان پر بیٹھے آنکھیں کھولے ان جھیلوں میں ان کی نیلی گہرائیوں میں دیکھا کر تا ہوں … اور صبح میری گردن اکڑی اکڑی محسوس ہوتی ہے اور میں بڑی دیر تک اپنی گردن سہلاتا رہتا ہوں مگر نہ جانے ان جھیلوں میں کیا جادو ہے کہ میں کھنچا چلا جاتا ہوں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ کوئی نیلی گہرائیوں سے اپنا گلابی ہاتھ نکالے بلاتا ہے ، اشارے کرتا ہے۔
پھر ایک دن راک کاسل ہوٹل میں چائے پیتے ہوئے میں نے دو نیلی آنکھیں دیکھیں شاداب غنچے کی طرح کھیلے ہوئے سرخ ہونٹ اور ملائم نازک ہاتھ۔ گرے اسکرٹ اور سرخ بلاؤز۔ میں نے گرم چائے کی پیالی ہونٹوں سے لگا لی اور ا سکی طرف کن انکھیوں سے دیکھا … اور وہ میری طرف دیکھ رہی تھی مگر میری طرح کن انکھیوں سے نہیں بلکہ حیرانی سے۔ اس کی بھوئیں چڑھی ہوئی تھیں اور آنکھیں حیرانی سے کھلی ہوئی۔ شاید میرے مسلسل گھورنے پر اس کو تعجب ہو رہا تھا۔ وہ سمجھ رہی ہو گی کہ عام ہندوستانیوں کی طرح عورت کے معاملہ میں ، میں بھی میں بھی گونگا ہوں جو صرف خوبصورت عورتوں کو گھور سکتا ہے ، پیار بھری نظریں قربان کر سکتا ہے مگر زبان سے کچھ نہیں کہتا۔ مسکراتا ہے مگر بے باکی سے دلی جذبات کا اظہار نہیں کر سکتا۔
میں نے چائے کی پیالی میز پر رکھ دی۔ شیشے کی میز پر اس کا پر تو پڑ رہا تھا مرمریں جسم، شانوں پر بکھری لٹیں جن سے ایک سرخ کلی جھانک رہی تھی اور بے چین، بے کل آنکھیں جن میں دو جھیلیں بند تھیں۔ میں نے نظر اٹھا کے پھر اس کی طرف دیکھا اور اس نے میری طرف۔ ان آنکھوں میں عجیب سی تحریر تھی جیسے اس کو میری جھجک پر ہنسی آ رہی تھی، میری بے بسی پر ترس کھا کے اس نے غور سے میری طرف دیکھا اور میں بھی بڑی دیر تک اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے سامنے چائے کی خالی پیالی رکھے بیٹھا رہا۔
’’بیرا‘‘ دفعتاً وہ اٹھ کھڑی ہوئی
’’یس میڈم‘‘ بیرا ہوٹل کے آخری کونے سے تیز تیز قدم رکھتا آیا۔
لڑکی کے ہونٹ ہلے بالکل اس انداز سے جیسے رنگین کلی چٹک جائے۔ اس سے قبل کہ وہ کچھ کہتی میں نے مسکراتے ہوئے بیرے سے کہا جاؤ کچھ بسکٹ لاؤ، بٹر سیڈس، کیک اور جو تمہارا جی چاہے۔
بیرا ہنس پڑا۔ جو میرا جی چاہے ؟ ایں سر
’’ہاں جو تمہارا جی چاہے ‘‘۔ جاؤ۔ میں نے تیز لہجہ میں کہا تو وہ چلا گیا۔ میں نے اس لڑکی کی طرف دیکھا۔
’’آپ کو جلدی نہ ہو تو بیٹھ جائیے ، پلیز، میرے ساتھ ایک چائے اور …‘‘ اس نے تعجب سے میری طرف دیکھا جیسے اسے میری قوت گویائی پر شبہ ہے۔ جیسے گونگا یکلخت بول اٹھے۔
مگر جلدی ہی ایک نیا رنگ اس کے چہرے پر پھیل گیا۔ اس کی نظروں کی حیرانی مٹ گئی اس کی جگہ حقارت تھی، احساس برتری تھا۔ اس کی نگاہیں کہہ رہی تھیں ’’تم ہندوستانی ہونا؟ ہندوستانی بہت بدتمیز ہوتے ہیں۔ ان کو ملنے ملانے کا ایٹی کیٹ نہیں معلوم ہوتا، یعنی بغیر متعارف ہوئے تم کس قدر بے تکلفی سے باتیں کرتے ہوں۔ گنوار، اجڈ، جاہل ہندوستانی ‘‘۔
میں نے لڑکی کے اس جذبہ کی طرف قطعاً توجہ نہیں دی جو طوفان کی طرح اٹھا تھا۔ اس کے دل سے آنکھوں میں اور پھر آنکھوں سے چہرے پر اتر آیا تھا۔ اس کے دونوں ابروؤں کے درمیان جلد کی سلوٹ میں ایک رگ غصہ سے پھڑک رہی تھی۔ میرا جی چاہا اس رگ کو اپنے جلتے ہوئے ہونٹوں سے چوم لوں۔ اس طرح اس کا غصہ اتر سکتا تھا مگر میں اس جلد بازی سے کام لینا نہیں چاہتا تھا۔ بلکہ اس لمحے کا انتظار کرنا چاہتا تھا۔
بیرا اپنی پسند سے نہ جانے کیا کیا اٹھا لایا تھا۔ میں نے بٹر سیڈس کی پلیٹ اس کے سامنے سرکا کر حکم یا
’’لیجئے ‘‘
اس نے بادل ناخواستہ اپنی گداز انگلیوں میں تھام لیا۔ ہونٹوں تک لائی پھر بولی۔
تمہارا نام کیا ہے ؟
’’رنچو ‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’رنچو‘‘ وہ آنکھیں پھاڑ کے پوچھنے لگی
’’ہاں۔ اتنا لمبا تڑنگا ہو گیا ہوں مگر ماں پیار سے پکارتی ہے۔ دراصل ہندوستانی ماؤں میں ممتا بہت ہوتی ہے نا!‘‘
’’تمہاری ماں کیا کرتی ہے ؟ ‘‘
برتن مانجھتی ہے ، کھانا پکاتی ہے ، بچے پالتی ہے اور آدھی رات تک میرے بوڑھے باپ کے پیر دباتی ہے۔
چھی …بڑی گندی زندگی ہے۔ وہ بناوٹی لہجے میں بولی۔
’’تمہارا نام کیا ہے ؟‘‘ میں نے اس کی نفرت کو نظر انداز کر کے پوچھا
’’مرلن‘‘ وہ مدھم آواز میں بولی، اس نے ننھے سے رومال سے ہونٹ پونچھے ان پر زبان پھیری۔ ہونٹ گیلے ہو گئے ، شگفتہ ہوئے ان میں رس بھر گیا۔ اب وہ باتیں بھی کر رہی تھی، بسکٹ بھی کھا رہی تھی اور لہجے میں بیزاری بھی نہیں تھی۔ عورت بھی کیا چیز ہے۔ میں نے سوچا۔
عورت کہیں کی ہو، کہیں بھی ہو عورت ہی رہتی ہے۔ پہلے رعب ڈالے گی بیزاری سے منہ پھیر لے گی۔ وقار تمکنت کی دھونس جمائے گی، تکلف برتے گی پھر گھل مل جائے گی۔ باتیں کرے گی اور بسکٹ کھائے گی۔
یہی سوچ کے میں ہنس پڑا۔
مرلن بولی ’’تم اتنی زور سے کیوں ہنستے ہو‘‘؟
’’اس لئے کہ مجھے نیلی جھیلوں سے عشق ہے اور جب میں آنکھیں کھولے ان کی گہرائیوں میں دیکھتا ہوں تو فرط مسرت سے ایسا ہی گونجتا ہوا قہقہہ میرے ہونٹوں سے پھوٹ پڑتا ہے ‘‘۔
’’جھیل…‘‘ وہ حیران لہجہ میں بولی ’’یہاں کہاں ہے جھیل‘‘؟
’’تمہاری آنکھوں میں ‘‘۔
وہ یوں دیکھنے لگی جیسے میں پاگل ہوں۔
آنکھوں میں بھی جھیل ہوتی ہے ؟ اس نے بڑی معصومیت سے پوچھا
میں نے جھلا کر کہا ’’تم بات کی لطافت کو نہ سمجھ سکو گی‘‘۔
اور وہ خاموش ہو گئی۔
……
اس ملاقات کے بعد مرلن مجھ سے قریب آتی گئی۔ اس کی نفرت فنا ہو چکی تھی اور نفرت کے مٹے ہوئے احساس پر محبت کا نیا احساس گہرے نقوش ابھارتا رہا۔ پہلی ملاقات میں پیار کا جو بیج بویا تھا اس کی کونپل، بڑھتی رہی، ہری بھری شاخیں ، چکنے تازہ پتے اور موٹا مضبوط تنا۔ بڑی بڑی جڑیں جو پودے کو درخت میں تبدیل کر چکی تھیں۔
ایک بار مل لینے کے بعد نہ معلوم کتنی بار میں مرلن سے ملا اور پھر جوبلی ہلز کی جھیلوں نے مجھے کبھی نہیں بلایا اور نہ میں ان کی طرف کھنچا ہوا گیا۔
ان جھیلوں سے زیادہ خوبسورت پیاری جھیلیں مجھے مل گئی تھیں۔
گہری، عمیق جن کی تہہ کا پتہ ہی نہ چلتا تھا۔
میں جھکا ہوا، آنکھیں کھولے ان جھیلوں میں دیکھتا رہا اور مرلن میرے شانے سے سر لگائے بیٹھی رہی اور چار سال گزر گئے ان چار سالوں میں میری زندگی کے ہزاروں یادگار لمحے چھپے ہوئے ہیں وہ مدت اپنے دامن میں زندگی کی جنت سمیٹ لے گئی۔ ایک ایک لمحہ اب تک میرے ذہن میں جوں کا توں محفوظ ہے۔
ایک زمانہ گذر چکا ہے۔ مگر ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کل ہی تو میں مرلن سے متعارف ہوا تھا۔ میرے ہونٹوں پر اب تک مرلن کے گرم شیریں ہونٹوں کا لمس زندہ ہے وہ حیران ، کھوئی کھوئی سی لڑکی جس کے گالوں کا رنگ کشمیر کے سیبوں کی طرح سرخ تھا، جس کی آنکھوں جوبلی ہلز کی جھیلوں کی نیلاہٹ تھی۔جس کے ہونٹوں میں گلاب کے ادھ کھلے غنچوں کی ملائمت و تازگی تھی جس کے سینے کی دھڑکنیں بارہا سن چکا تھا۔ جس کی آنکھوں میں میرا ہی پرتو رہتا تھا۔ وہ اکثر ہری ہری لمبی گھانس پر بیٹھی مجھ سے کہا کرتی رنجو … میری آنکھوں میں دیکھو۔ کون ہے اور میں مرلن پر جھک جاتا جیسے آئنہ دیکھ رہا ہوں اور وہ غور سے پلک جھپکے بغیر مجھے دیکھتی رہتی۔
چودھویں رات کا پورا چاند نکل آیا تھا۔ ہر طرف نور کی بوچھار ہو رہی تھی رات کی رانی کی مہک ہوا کے تیز جھونکوں سے دور تک پھیل رہی تھی اور مرلن میرے پاس آ گئی تھی اس نے سفید بلاؤز اور سیاہ اسکرٹ پہن رکھا تھا۔ اس کی سفید پنڈلیاں کھلی ہوئی تھیں۔
وہ رات ہم نے بوٹ کلب میں گذاری۔ ایک چھوٹی سی کشتی میں میں نے مرلن کو بٹھا دیا اور قریب بیٹھ گیا۔ وہ کانپتی ہوئی آواز میں اپنے دیس کا نغمہ الاپ رہی تھی۔
میں اور تم دونوں آسمانی فرشتے ہیں
اڑتے ہوئے امن کے پنچھی ہیں
جو پیار کرتے ہیں اور سکون چاہتے ہیں
مگر سکون زندگی میں نہیں ہے
سکون موت کی وادی میں ملتا ہے
یہ نہ گاؤ مرلن۔ آج چاندنی رات ہے اور تم موت کی باتیں کر رہی ہو۔
مرلن نے میرے شانے سے سر لگا دیا اور سسکی لی۔
’’مرلن …مرلن ڈیر‘‘ مگر مرلن چپ تھی۔ نیلی جھیلوں میں جوار بھاٹا چڑھ رہا تھا اور پھر سیلاب بہہ نکلا۔
رنجو… کیا تم کو نہیں معلوم ہے کہ جنگ شروع ہو چکی ہے نہ معلوم دنیا سے جنگ کی بلا کب دور ہو گی۔ میرا باپ فوج میں کیپٹن ہے اس کی چٹھی آئی ہے کہ جلدی دیس پہونچو ورنہ راستے بند ہو جائیں گے۔ اب ہم دیس جا رہے ہیں رنجو، اس لئے آج رات میں تمہارے پاس آ گئی ہوں۔ میری ماں کو ہندوستانیوں سے شدید نفرت ہے۔ ڈانس ہال میں مجھے گوری نسل کے انسانوں کے جسم سے جسم لگائے سب کے سامنے ناچنے کی مکمل آزادی ہے مگر ایک ہندوستان کے ساتھ میری یہ آزادی برقرار نہیں رہ سکتی۔ صرف ان سے میٹھی باتیں کر کے میری ماں انھیں لوٹنا چاہتی ہے۔ پچھلے ہفتے ایک ہندوستانی نے میری ماں کو سونے کی ایک چھوٹی سی مورتی تحفتاً دی۔ اس وقت تو اس نے بہت تعریف کی مگر اس کے جاتے ہی فوراً بولی
’’بے وقوف۔ کالا آدمی‘‘
مگر سب ایک جیسے نہیں ہوتے رنجو ڈارلنگ۔ ہمارے دیس میں جنگ بازوں کے ساتھ ساتھ امن پسند بھی موجود ہیں۔ کل میں اور میری ماں دونوں چلے جائیں گے۔ ہماری کوٹھی ویران ہو جائے گی اور باغ کے سارے پودے شاید سکوھ جائیں گے۔ تم راک کا سل ہوٹل میں اکیلے جاؤ گے۔ تم بوٹ کلب بھی شاید کبھی نہیں جاؤ گے۔ اس چھوٹی سی کشتی میں کبھی نہیں بیٹھو گے۔ تم بہت پر خلوص ہو۔ تم ہندوستانی ہو اور ہندوستانیوں کا دل بہت نرم ہوتا، ان کو نیلی سے پیار ہوتا ہے ، میں سات سمندر پار چلی جاؤں گی۔ میں شادی نہیں کرونگی۔ میں وہاں جا کے انقلابیوں میں مل جاؤنگی۔ میں یوروپین ہوں ، میں امن چاہتی ہوں۔ تم ہندوستانی ہو۔ تم امن چاہتے ہو بالکل ایسا ہی امن جو اس چھوٹی سی کشتی میں میسر ہے۔ ہماری کوٹھی کے پاس والی کوٹھی میں ایک امریکن بڑھیا رہتی ہے۔ جنوبی امریکہ میں اس کے گیارہ بیٹے ہیں۔ تین فوجی ہیں اور آٹھ امن چاہتے ہیں۔ کل رات وہ رو رہی تھی مگر رنجو! جنگ کروانے والے امن کیوں نہیں چاہتے ، کیا اس لئے کہ رنجو اور مرلن الگ ہو جائیں۔ اس لئے کہ انسان بوڑھا ہوکے بھی اپنے جوان فوجی بیٹوں کی لاش پر آنسو بہائے ؟ کیا خدا انسان کو اسی لئے تخلیق کرتا ہے کہ وہ بلاوجہ مار ڈالا جائے ؟ یہ کیسی مجبوری ہے۔ اب تم مجھ کو خط بھی نہ لکھ سکو گے۔ راستے بند ہو جائیں گے۔ پھر ہم دونوں مل بھی نہ سکیں گے۔ آہ۔ پھر کیا ہو گا؟
وہ رات بھر میرے سینے سے سر لگائے بڑبڑاتی رہی۔ میں نے اس کے آنسو پونچھ دیئے۔ اس کے سنہری بالوں کے لچھے سلجھا دیئے۔ اور صبح میں اس کو راک کا سل ہوٹل لے آیا۔ وہی چند بیوقوف ہیرا ، وہی ہوٹل ، وہی مرلن اور وہی میں۔ مگر مرلن کے چہرے پر بیزاری نہیں تھی بلکہ کرب و اضطراب گھلا ملا سا تھا۔ اس کے سرخ ہوئے سوجے ہوئے تھے اور آنکھوں میں نمی تھی۔
میرا حال بھی خراب تھا۔ جیسے کوئی مجھ سے میری زندگی چھین لئے جا رہا ہو۔ میرے سینے میں خشک ریت سی پھنس گئی تھی۔ مجھے اپنی پریشانی کا خود اندازہ نہیں تھا۔ میں خالی الذہن میز کے موٹے شیشے ہر نظریں جمائے بیٹھا تھا۔ آج اس نے دانستہ وہی سرخ بلاؤز اور گہرے اسکرٹ پہن رکھا تھا جو پہلی ملاقات کے وقت اس کے جسم پر تھا مگر وہ خود پہلے سے ہزار گنا بدلی ہوئی تھی۔ اسد کی لٹیں بکھر گئی تھیں مگر ان میں کوئی پھول نہیں تھا۔ اس کے ہونٹ ، خشک تھے ، اس کی باتیں ادھوری تھیں۔ اور میں کس قدر پریشان تھا۔ میں نے کہا۔
جاؤ مرلن اپنے دیس چلی جاؤ میں نے بچپن سے اب تک زندگی اتنی تکلیفوں اور مصیبتوں میں گذاری ہے کہ اب میں اذیت پسند ہو گیا ہوں۔ ہاں اس تاریکی میں تم ایک تابناک ستارا بن کر چمکیں اور پھر اندھیرا ہو رہا ہے تابناکی کے بعد کا اندھیرا بہت تکلیف دہ ہوتا ہے مگر میں اس کا عادی ہوں۔ اس لئے مجھے زیادہ الجھن نہیں ہو گی۔
میں اسے ایر پورٹ چھوڑنے گیا اور خدا حافظ کہنے سے پہلے میں نے اس کی آنکھیں چوم لیں۔ وہ گہری نیلی آنکھیں جن میں میری چار سال کی خوشیاں اور مستقبل کی ویرانیاں تیر رہی تھیں۔
مجھے مت بھولنا رنجو۔ وہ جذبات میں ڈوب کر بولی۔ تم نہیں بھولو گے تم ہندوستانی ہو۔ چاہت تمہارے خون میں رچی ہے۔
میرے اور مرلن کے درمیان سات سمندر حائل ہو گئے۔ ابھی ابھی مرلن مجھ سے اتنی قریب تھی کہ میں اس کی معطر لٹوں کو دیکھ رہا تھا۔
اس کی گرم سانس محسوس کر رہا تھا اور ابھی وہ مجھ سے اتنی دور ہو گئی جیسے کبھی میرے قریب نہیں آئی تھی جیسے میر لئے اس کا وجود ہی نہ تھا۔
میں گھبرا کر جوبلی ہلز بھاگا۔ اپنی وحشت کو جو بلی ہلز کی جھیلوں میں گھول دینے کیلئے۔
مگر چٹانوں کی سبز کائی سیاہ دھبوں میں تبدیلی ہو چکی تھی۔ جھیلیں خشک ہو چکی تھیں۔ ایک بوند بانی بھی نہ بچا تھا۔ ان کی گہرائیوں کا مجھے اب پتہ چلا۔ زیادہ گہری نہ تھیں مگر پانی کی نیلاہٹ ان کی تصورات گہرائی تک پہونچے نہ دیتی تھی۔
پانی کی جگہ اب ہیلی بہتوں اور سرخ پھولوں والی جھاڑیاں اُگ آئی تھیں جن میں لمبے کانٹے بھرے ہوئے تھے اور خشک سطح پر لاکھوں زرد پتیاں اور سرخ مرجھائی پنکھڑیاں اڑ رہی تھیں۔ وہ نیلی لہریں سوکھی مٹی میں جذب ہو چکی تھیں ہر طرف سنگدل چٹانیں بکھری پڑی تھیں۔
میں ایک مدت تک دیوانوں کی طرح گھومتا رہا۔ وحشتوں کی طرح کھویا ہوا جیسے میری زندگی کا ایک ایک لمحہ کہیں کھو گیا ہے ، اور ہر کرن تاریکی میں۔ گھل کر سیاہ ماحول بن گئی ہے جس میں میرا دم الجھ رہا ہے جس میں اپنی خواہشیں اپنی تمنائیں ، ٹٹولتا ہوں ، ڈھونڈھتا ہوں مگر تو پاؤں لڑکھڑا جاتے ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ان ڈگمگاتے قدموں سے کس منزل کی سمت بڑھوں۔ میں اس یتیم بچے کی طرح تھا جس سے شفقت و محبت دور ہو گئی۔ اک مدت بعد میں سنبھلنے لگا۔
شاید مرلن بھی سنبھل گئی ہو۔ شاید اس نے بھی وحشتوں کا گلا گھونٹ کے مسکرانے کی کوشش کی ہو۔
ماں کے مرنے کے بعد میں شادی کر لی اور یہ سوچ کر مجھے بڑا دکھی ہوا کہ شاید مرلن نے بھی شادی کر لی ہو۔ میں نے تو بے شمار مجبوریوں کے تحت کی تھی۔ جبراً جیسے کوئی زندگی سے تنگ آ کر خود کشی کر لے۔
جب میں زندگی کی جلتی دھوپ میں ہانپتے ہانپتے تھک گیا تو میں نے چھدری چھدری جھاڑیوں میں پناہ لی۔ مگر مرلن ؟ کیا وہ بھی تپتی ہوئی دھوپ سے گھبرا کر ٹھنڈی چھاؤں میں بیٹھ گئی۔ ؟
مجھے نیلی جھیلوں کی ٹھنڈک نہ مل سکی۔ میں نے جنگ کے بعد انقلابی پارٹی میں شرکت کر لی۔ جنگ بازوں کے خلاف میری قوتوں اور میری خواہشوں نے امن کا محاذ بنا لیا۔ اس محاذ میں میرے ساتھ ساری دنیا کے امن پسند کھڑے ہیں مرلن ، امریکن بڑھیا اور اس کے بیٹے ، میری بیوی ، میرے بچے اور میرے ساتھی ، سب میرے ساتھ ہیں۔
اب جب کہ میری زندگی کے صحرا میں میرے بچے نخلستان بن کے ابھرے ہیں۔ میرے چہرے پر ٹھنڈی ننھی منی انگلیوں کا لمس ، میری الجھنوں کو کم کر دیتا ہے۔ میری ٹانگوں سے لپٹے ہوئے گول مول ہاتھ مجھے روکتے ہیں۔ میرے چہرے سے چہرہ ملائے معصوم قہقہے لگا کر یہ پیارے بچے ہلکی ہلکی خوشیاں بخشتے ہیں تو تیسری جنگ ایک بار پھر مجھے لوٹنے آئی ہے۔
یہ نخلستان کا آسرا بھی چھین کر مجھے ایسے بے برگ و بار درخت میں بدل دینا چاہتی ہے جو برق کی مسلسل مہربانی سے جھلس گیا ہو۔ دوسری جنگ نے نہ معلوم میرے ساتھ کتنی زندگیوں کو تباہ کیا۔ کتنے ارمان ، کتنی خواہشیں ، کتنی خوشیاں ، دہکتے بموں سے ، مشین گنوں ، تار پیڈو اور گولہ بارود سے فنا ہو گئیں۔
شاید مرلن مر گئی ہو۔ اگر مرلن مر گئی تو ایک عورت مر گئی۔ ایک محبوبہ ایک ماں ، ایک بیوی ، ایک بہن اور ایک بیٹی مر گئی ، ایک خاندان مرگیا ، اس کے ساتھ لا تعداد زندگیاں موت کی آغوش میں گر گئیں۔ ممتا شفقت و محبت مر گئی۔
میں خود اس کے بغیر زندہ درگور ہوں۔ اب بھی اس کو خوابوں میں تلاش کرتا ہوں۔ مرلن مجھ سے نہیں بچھڑی ، میرے جسم سے روح الگ ہو گئی ایک پھانس میرے دل میں ٹوٹ کر رہ گئی۔
آج میں اپنے پلنگ پر پیر پھیلائے ، منہ کھولے سورہا تھا تو میرے خواب میں مرلن آ گئی۔ میں نے دیکھا اس کے بالوں کے نرم لہجے چاندی کے تاروں جیسے ہو گئے ہیں۔ چہرے پر جھریاں پڑ گئی ہیں اور وہ میرے ساتھ ہوٹل میں بیٹھی چائے پی رہی ہے۔ مجھ سے کہہ رہی ہے۔
رنجو۔ میرے آٹھ لڑکے ہیں۔ میں نے انہیں جنگ پر نہیں بھیجا ہم نے اپنے دیس میں جنگ کے خلاف مخالف محاذ تعمیر کر لیا ہے۔ اس امن کے مورچے پر میرے آٹھ بیٹے میرے ساتھ ہیں۔ میں اب بوڑھی ہو گئی ہوں۔ میں چاہتی ہوں اپنے بچوں کی خوشیاں دیکھوں۔
اپنی زندگی میں جو خوشیاں میں نے نامکمل چھوڑ دی تھیں وہ میری اولاد مکمل کرے گی میں اپنے دیس جا رہی ہوں مگر آج تم سے الگ ہوتے ہوئے مجھے غم نہیں ہو رہا ہے۔
اور میں نے کیا۔ مجھے بھی غم نہیں ہے مرلن۔ میں بھی رنجیدہ نہیں ہوں۔ لو یہ ایر پورٹ آ گیا۔ میرا ننھا بچہ تمہاری گڑیا جیسی بیٹی کی آنکھیں چوم رہا ہے اس لئے میں تمہاری آنکھوں پر اپنے ہونٹ نہیں رکھوں گا۔
جاؤ مرلن۔ اپنی مردہ خواہشوں کو اپنے بچوں میں زندہ رکھنے کی کوشش کرو۔ آنے والی نسل اپنی زندگی کو موت بنا کر نہیں رکھے گی۔ خدا حافظ اور میری بیوی نے مجھے نیند سے جگا دیا۔ مجھے یقین نہیں کہ میں سورہا تھا بلکہ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کسی نے نا معلوم طریقہ پرمستقبل کا انجان ماحول میرے سامنے کھول کر رکھ دیا تھا میری بیوی کا خیال ہے میں خواب میں بڑبڑا رہا تھا مگر اس کو کیا معلوم کہ میں مرلن سے سے باتیں کر رہا تھا مگر میرے چہرے پر جھریاں نہیں ہیں۔ میرے بال سفید نہیں ہیں اور مرلن شاید مستقبل کا ایک تصور بن کے میرے خوابوں میں لہرائی ہو۔
وہ تو اب بھی ویسی ہی حسین ہو گی۔ ویسی ہی تندرست ، وہی سنہری زلفیں ، وہی تر و تازہ ہونٹ ، وہی میٹھا لہجہ۔
مرلن ان دو جھیلوں کا نام ہے جن میں چار سال تک غلطاں رہا۔ آج تک سوتے جاگتے ان کو دیکھتا ہوں۔
مگر جوبلی ہلز کی جھیلیں اب بھی برسات میں لہراتی و گاتی ہیں۔ ان میں وہی بے چین لہریں اب بھی اٹھتی ہیں۔ شبنم سبز دھوپ پر اب بھی تھرتھراتی ہے مگر میں وہاں نہیں جاتا۔ وہاں میرے جسم سے روح الگ کر دی گئی ہے۔ وہاں میں لٹ کر آیا ہوں۔ مجھے کنول راج و نندن سہ دونوں سے نفرت ہو گئی ہے۔ وہاں صرف سنگدل چٹانیں ہیں۔ مجھے تو ان دو جھیلوں سے عشق تھا جن کا نام ہے مرلن۔ جن کی گہرائیوں میں ڈوب ڈوب کر ٹھنڈی نیلی جھیلیں اور مرلن۔
٭٭٭
چراغ کی لو
اے لو۔ اب کہنے کی بات نہیں مگر بن کہے رہا بھی نہیں جاتا۔ لوگ کہتے ہیں ماں مر جائے مگر تائی جیتی ہو تو آدھی فکر دور ہو جاتی ہے۔ میرا تو ان باتوں پر ذرا بھی ایمان نہیں رہا۔ اب دیکھو نا یہی تائی آسیب بنی گھر پہ منڈلایا کرتی تھی۔ قسم لے لو جو مارے ممتا کے کبھی میرے سر پر ہاتھ رکھا ہو۔ بالکل رنڈی کے نخرے تھے۔
ہمیشہ ابا کے کمرے میں بیٹھی اونچی اونچی آواز میں قہقہے لگائے جاتی اور شطرنج کھیلتے سمئے تو مہروں پر نگاہیں نہ ٹکتیں۔ بس ٹکر ٹکر ابا کا منہ تکتے جاتی۔ ذرا کی ذرا جو ہم ابا کے پاس جا بیٹھتے تو قہر آلودہ نظروں سے دیکھتی پھر بڑے میٹھے لہجے میں باہر جا کے کھیلنے کا مشورہ دیتی تو میرا جی چاہتا گردن مڑوڑ کے رکھ دوں۔
لمبا سا قد ، سوکھے مارے ہاتھ پاؤں ، خضاب کئے ہوئے سیاہ بال اور ناک کے نیچے لکی جھولوں میں سے جھانکتا ہوا برا سا دہانہ ، اماں کی عمر گذر گئی اس کے ناز اٹھاتے۔ ہمیشہ جٹھانی کا پاس لحاظ کرتی رہیں۔ اس کمبخت نے کبھی مہربان نظر اماں پر نہ ڈالی۔ بڑے پن کے رعب کو اس نے کبھی ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ یوں ڈانٹ ڈپٹ کے اماں سے کام لیتی جیسے وہ زر خرید لونڈی ہوں اور اماں بھی گائے کی طرح بے زبان ہے۔ ہر وقت کام کاج میں جٹی ہلکے ہلکے قدموں سے گھر کا آنگن ماپتی پھرتیں۔ کوئی ماں کی اطلاع کیلئے طعن تشنیع سے کام لیتا تو اماں الٹی ہمدردی جتاتیں۔
اے ہئے بیوگی کے پالے نے تو ساری آرزوئیں ملیا میٹ کر دیں۔ ایک ہمارا گھر رہ گیا ہے۔ یہاں بھی دل نہ لگائے تو غریب کیا کرے۔ کیسے غم غلط ہو۔
مگر یہ کہتے وقت امان کی جھکی جھکی آنکھیں اور زرد چہرہ چغلی کھا جاتا۔ اے بہن اتنی نیک نہ بنو کہ لوگ بیوقوف سمجھ کے لوٹ لیں تمہیں۔ خالہ اپنا قیمتی مشورہ پیش کرتیں۔
یہ روز روز کا آنا اور تمہارے میاں سے دل بہلانا یونہی نہیں ہے۔ ان کی ان کی ذمہ داری مفت میں اپنے سر لیتی ہو۔ ایک دن چیونٹیوں بھرا کباب ہو کے رہ جاؤں گی۔ جان چھڑانا دو بھر ہو جائے گا۔ سمجھ لو ، پڑوسین الگ اماں کی ناعاقبت اندیشی پر دانت پیستیں مگر اماں تھیں کہ کند ذہن بچے کی طرح سارے سبھ بھلا کے بے غیرتی کا لبادہ اوڑھ لیتیں۔ دو پہر کے سناٹے میں محلے ٹولے کی عورتوں کے بیچ سگھڑ بیوی بنی سوئی دھاگا لے کے بیٹھتیں تو باری باری سب عورتیں اماں پر ریمارک پاس کرنا شروع کر دیتیں۔
بھئی تم جانو۔ تمہارے آگے تو بچے ہیں۔ اپان نہ سہی معصوموں کا خیال کرو۔ ‘‘
عالیہ بانو ڈلی کاٹتے ہوئے نصیحت بھی کرتی جاتیں۔
اے یہ تو بڑی سیدھی ہیں۔ اس اللہ ماری کو دیکھو کہ بیوہ ہوئے چار چار آٹھ دن بھی نہیں ہوئے اور بھرا پُرا گھر ڈھونڈ لیا موئی نے۔
اکبر جولاہے کی بیوی اماں کو بے قصور ٹھہراتیں۔
اے ہٹو۔ ایسی بچہ بھی نہیں ان باتوں کو سمجھنے کی عقل نہ ہو۔ اللہ رکھے بچے والی ہو گئیں۔ لگاوٹ کی نظر ہم غیر پہچان لیتے ہیں۔ زیبو خالہ کھڑے پائینچوں میں گوٹا ٹانکتے ہوئے جھنجلا جاتیں۔
اے دلہن۔ ! آخر تم اپنے میان سے بھی کچھ پوچھتی ہو کہ خوبصورت جوان بیوی کے ہوتے۔ اس ادھیڑ چڑیل میں کون لعل ٹکے ہیں کہ مٹے جاتے ہو؟ نورانی بو بہت رازدارانہ انداز میں اماں سے سوال کرتیں تو سوئی میں۔ دھاگا ڈالتے ہوئے اماں آبدیدہ ہو جاتیں۔ تو یہ ہے۔ اب سوئیوں کے نا کے اس قدر باریک بنتے ہیں کہ دھاگہ ڈالتے ڈالتے آنکھیں بھر آتی ہیں کب سے اس سوئی کو گھورے جا رہی ہوں۔ اور جلدی سے دوسری سوئی لانے کیلئے کمرے سے باہر نکل جاتیں۔
باورچی خانے کو اماں نے گویا اپنا کمرہ بنا لیا تھا۔ ہر وقت مصروف رہتیں کبھی ابا کیلئے شامی کباب بنانے کی ترکیب ماما کو سمجھا رہی ہیں تو کبھی کوٹنے پیسنے میں ہاتھ بٹا رہی ہیں۔ کبھی سمو سے تل رہی ہیں تو کبھی بچوں کیلئے کیری کا اچار پڑ رہا ہے۔ کچھ تو بے ضرورت کی اٹھا دھری میں لگی ہیں۔
اماں ! آپ کہئے تو آپ کا پلنگ بھی یہاں اٹھا لاؤں۔ بھیا بیزار ہو جاتے مگر اماں روتے ہوئے چہرے کے ساتھ مسکراکر رہ جاتیں۔ انہوں نے اپنے آپ کو طعن و تشنیع پروف بنا لیا تھا۔ آپ چاہے جس قدر نمک مرچ لگا کے اس مسئلہ کے چھپے ہوئے پہلو اجاگر کیجئے مگر کیا مجال ہے کہ اماں ہاں میں ہاں ملانے بیٹھ جائیں۔
ساسیں اپنی نئی نویلی بہووں سے پہلی بات اماں کا قصہ سنا کر کرتیں۔ اللہ کسی کو بیوی دئے تو کنویں والی باجی کی طرح۔ شوہر نے آنکھوں کے سامنے جٹھانی سے عشق جتایا اور وہ کلموئی تو جیسے ان کی جان پر ادھار کھانے بیٹھی ہے۔ دکھا دکھا کے میٹھی بولیاں بولتی ہے دیور سے میاں کو کھا گئی پر جی نہ بھر ا۔ اب بھر گھر میں چنگاری ڈالنے آئی ہے۔ مگر گھر والی نے خود زبان ہلائی نہ گھر میں لڑائی جھگڑا کھڑا کیا۔ نہ رو رو کے پاس پڑوس کو اپنی کتھا سنائی۔ ہیرا تو ہیرا ہی ہوتا ہے چاہے گھوڑے پر پڑا ہو ، چاہے راجہ کے تاج میں جڑا ہو۔ قیمت کم نہیں ہوتی۔
مائیں سسرال جانے والی بیٹیوں سے بچھڑتے ہوئے کنویں والی باجی کا واقعہ سنا کر عبرت دلایا کرتیں۔ شوہر کسی بات پہ جھنجلا جاتے بیویوں کو جھاڑ پلاتے۔
گھر آنے میں ذرا دیر ہوئی تو میرے سر ہو گئیں۔ ذرا کنویں والی باجی کو دیکھو سامنے بیٹھی سارے کرتوت دیکھ رہی ہیں مگر اف نہیں کرتیں۔ کیا قسمت والا شوہر ہے۔
ساری دنیا اماں کے گن گایا کرتی مگر اماں ان ساری باتوں سے بے نیاز اپنی دنیا میں گم رہتیں۔
کبھی رات کو آنکھ کھل جاتی تو میں چپکی پڑی انہیں دیکھا کرتی۔ کبھی اماں کی دبی دبی سسکیاں سنائی دیتیں مگر میرے پکارنے پر صاف آواز میں جواب ملتا۔
شاید میرے ہی کان بجتے ہیں کبھی اماں ہتھیلی پر تھوڑی رکھے لحاف اوڑھے بیٹھی ہوتیں۔
آپ سوئیں نہیں اب تک ؟ بھیا پڑھتے پڑھتے پانی پینے برآمدے میں آئے تو اماں کو بیٹھا دیکھ کے پوچھتے
میں تو سو گئی تھی مگر وجو کو شاید کھٹمل ستا رہے ہیں۔ بار بار چونک پڑتی ہے۔ اسی لئے اٹھ بیٹھی۔ اماں کی ساس پھول جاتی جیسے بہت دور سے چل کر آئی ہوں۔
ہائے۔ یہ اماں کو کیا ہو گیا ہے۔ میرے پلنگ میں تو کھٹمل وٹمل خاک نہیں۔ میں تو کب سے پڑی دیکھ رہی ہوں۔
پہلی بار ایک نامعلوم خوف نے میرے دل میں سر اٹھایا۔
وہ ساری باتیں جن کو معمولی سمجھ کے نظر انداز کر جاتی تھی۔ اپنی پوری اہمیت کے سامنے آ گئی تھیں۔ اب شاید مجھ میں چھپی ہوئی باتوں کو سمجھنے کا شعور آ گیا تھا۔ تب ہی تو میں گھر بھر کی ذرا ذرا سی حرکتوں پر گہری نظر رکھنے لگی تھی۔
جائیداد کے سارے جھگڑے تایا حی کے مرتے ہی تائی نے ابا کے سپرد کر دیئے تھے اور ابا یہ مقدمے کورٹ میں اس طرح لڑتے جیسے یہ ان کی اپنی جائیداد کے جھگڑے ہیں۔
ان دنوں رات رات بھر آرام کرسی پر پڑے سگریٹ پر سگریٹ پھونکا کرتے۔ دن دن بھر عدالتوں میں بحث کرنا اور رات کو بیٹھ کے تائی کو رپورٹ سنانا ان کا خاص مشغلہ تھا۔ وہ جب بھی آتی ابا کے پاس بیٹھی باتیں کیا کرتی۔ اور اس طرح مقدموں کی بات چیت کے سہارے وہ ابا کی زندگی میں آہستہ آہستہ یوں داخل ہو رہی تھی جیسے زہر چپکے چپکے جسم میں سرایت کر جاتا ہے۔
اماں چولھے کی آگ بار بار کرید لیتیں۔ چولھے میں خواہ مخواہ پھونکیں مارتیں اور اپنے سوجے ہوئے پپوٹوں کو ہتھیلی سے مل جل کے انگاروں کو گھورتیں۔ شاید وہ یہ سوچتیں کہ ان کی اپنی ذات بھی ان انگاروں کے سچ جل رہی ہے۔ جب وہ بے مقصد انگاروں کو گھورے جاتیں تو تائی باتیں کرتے کرتے ابا کے قریب کھسک آتی اور کھچڑی بالوں پر اس طرح ہاتھ پھیرنے لگتی جیسے وہ کوئی تھکا ماندہ بچہ ہو جو زندگی کا چڑھاؤ چڑھتے چڑھتے تھک گیا ہو۔
مگر اماں چپ چاپ یہ چڑھائی چڑھ رہی رہی تھیں۔ نہ آنکھوں میں آنسو نہ منہ میں زبان جیسے کافوری گڑیا لٹانے پر آنکھیں موند لیتی ہے اور بٹھانے پر کھول دیتی ہے مگر اماں خود سے چل پھر بھی لیتی تھیں۔ ا پنے نہ تھکنے والے ہاتھوں سے گھر بھر کا کام بھی کرتی تھیں۔
ان کی آنکھوں میں چمک نہیں تھی۔ ان میں عجیب سے اداسی تھی جیسے خزاں کی ویران شام میں ہوتی ہے۔
تائی نے گھر کے نوکروں کو اپنا قاصد بنا رکھا تھا اور ان ہی کے ہاتھوں ابا تک اپنے محبت نامے پہونچایا کرتی تھی جب کبھی نوکر تائی سے ناراض ہو جاتے تو وہ سارے خطوط اماں کو بھی دکھا دیتے۔ ان چٹھیوں کو وہ یوں سرسری نظروں سے دیکھتیں جیسے وہ کسی ناول کا باب ہو۔ ان میں سے بہت سے خط اماں نے اس طرح پھینک دیئے تھے جس طرح کوئی دال موٹھ باندھا ہوا بیکار کاغذ پھینک دیتا ہے۔
ہائے۔ اماں تو بس صرف کاتو راہیں اللہ جانے کیا ہو گیا ہے کہ زبان نہیں کھولتیں۔ مجھے تو بڑا ارمان تھا کہ کسی دن اماں کمر کس کے آنگن میں گھڑی ہو جائیں پھر خوب سلواتیں سناتیں اس تائی کی بچی کو۔ اور ابا کو بھی نوٹس دے دیں کہ آئندہ مداری کا تماشہ قطعی بند۔
مگر لاحول ولا قوۃ۔ اماں کا تو سمندر کی طرح وسیع و گہرا دل تھا۔
مجھے یاد ہے ایک دن مرغیوں کے ڈبے کے قریب پھنکے گئے بڑے بڑے کاغذوں کو سنبھال کے رضو باجی کے ہاں لے گئی تھی کہ خوب بڑی بڑی کشتیاں بنا دو جس میں چھوٹی سی گڑیا بھٹا کے ٹب میں چھوڑ سکوں۔ اور جب ان تڑے مڑے کاغذوں کو کھولا تا جانی پہچانی تحریر تھی۔ تائی موئے موئے بدصورت حروف بناتی تھی اور یہ حروف کاغذ پر یوں بکھرے پڑے تھے جیسے گھورے پر گندگی و کوڑا پڑا ہو۔
اس زمانہ میں مجھ کو لکھنا پڑھنا آ گیا تھا۔ اور ہر تحریروں کو پڑھنے کی عادی تھی جیسے اس کو نہ پڑھنے سے جاہل گئی جاؤنگی۔
میں نے اور رضو باجی نے ان کو پڑھا تو رضو باجی ناک پر انگلی رکھ کے بیٹھ گئیں اور میرا نا تجربہ کار دماغ الجھ کے رہ گیا۔ میں نے وہ سارے کاغذ کھلونوں کے ڈبے میں رکھ دیئے تھے۔ آج وہ کاغذ کھلونے کے ڈبے سے نکل کے میری الماری میں پہونچ گئے ہیں۔ جن باتوں کو کل تک ٹھیک طرح سے سمجھ نہ سکتی تھی۔ آج وہ باتیں حل کئے ہوئے معمے کی طرح سامنے رکھی ہیں۔ ہزاروں حرکتیں جن کو میں نے کبھی قابلِ توجہ نہ سمجھا تھا۔ اب اپنے پورے معنوں کے ساتھ آگے آئی ہیں۔
کتنی عجیب بات ہے کہ جن باتوں کو ہم اپنے بچپن میں سنتے ہیں ، جن چیزوں کو دیکھتے ہیں۔ ان کی گہرائی میں کبھی نہیں جھانکتے اور برسوں گذر جانے کے بعد وہ باتیں لاشعوری سے نکل کر نظروں کے سدامنے اپنے پورے مفہوم کا لباس پہن کے آتی ہیں۔
اس زمانے میں میں سوچتی کاش اماں رضو باجی کی طرح خوب ، پڑھی لکھی ہوتیں اور ڈھیر ساری تنخواہ کمایا کرتیں۔ پھر کون انہیں تتلی کی طرح مٹھی میں داب کے مارتا۔ پھر اماں بھی گائے کی بجائے انسان ہوتیں۔ ہر قسم کے احساسات کے اظہار کا طریقہ آتا۔
اب تو انہوں نے اپنا جی مار دیا تھا۔ گھریلو عورتیں بھی عجیب ہوتی ہیں صبر و ضبط کا ڈھنڈورا پیٹتی پھرتی ہیں مگر کوئی یہ تھوڑی ہی جانتا ہے کہ یہ مجبوری کی دوسری شکل ہے۔ خوشی ، غم ، غصہ و گرمی کے سارے احساسات قانع زدہ تھے۔ کبھی کبھی اماں پر بیحد غصہ آتا۔ جانے کیسے اس بیہودہ سی زندگی سے سمجھوتا کئے بیٹھی ہیں۔ میں اماں کی جہالت پر کئی بار چھپ کے روئی تھی۔
اماں کے میکے میں کوئی نہ رہ گیا تھا جو ان ساری کٹھن منزلوں میں اماں کو ڈھارس دیتا۔ یا اماں کی سرپرستی کر کے ان کے حق کیلئے لڑائی مول لیتا حالات اتنے نازک ہیں۔ یہ میں نے کبھی نہ سوچا تھا۔
برسات کی اندھیری رات تھی۔ مینہ کی موٹی موٹی بوندیں کنکریوں کی طرح باورچی خانے کی ٹین پر سے جا رہی تھیں اور اماں بجلی کے کوندے کے ساتھ لپک کر کلیجہ پکڑ لیتیں۔ آنکھوں سے آنسو بہہ بہہ کے تکیہ کی لیس بھگو رہے تھے بھیا سرہانے بیٹھے تھے۔ میں بار بار کھڑکی تک جا کے لوٹ آتی۔ بجلی چھک سے لمحہ بھر کو برآمدے میں روشنی پھینکتی تو اماں چونک کے دروازے کی طرف دیکھنے لگتیں جیسے انہیں کسی کا انتظار تھا۔
’’اماں۔ میں ابھی آیا۔ جواب سنے بغیر بھیا برساتی کیلئے جھپاک سے باہر نکل گئے۔
ارے روک لیا ہوتا وجو۔ اتنی اندھیری رات میں بارش میں بھیگنے کہاں چلا گیا۔ اماں تڑپ کے بولیں۔ درد کی ٹیپس سینے میں جلدی جلدی اٹھنے لگیں۔ دور گھنٹے بعد بھیا بھیگی چڑیا بنے برآمدے میں آئے تو دوا کی شیشی کے ساتھ ابا بھی تھے۔ وہ پریشان گھبرائے سے آگے پلنگ کی پٹی پر بیٹھ گئے بالکل اس بچے کی جو اپنی کلاس میں مسلسل غیر حاضر رہا ہو اور جسے کسی نے پکڑ کے اچانک مولوی صاحب کے سامنے کھڑا کر دیا ہو۔ عین مین وہی حال۔ ابا کا تھا۔ رات بھر وہ اماں کے پاس بیٹھے رہے۔ انہوں نے اپنے ہاتھ سے اماں کو سویدا ہونے تک دو خوراک دوا پلائی مگر ہر بار اماں کو قئے ہو جاتی۔ ڈاکٹر نے انجکشن لگا دیا تھا اور ہم سب امتحان میں خراب پرچے کرنے والوں کی طرح مایوسی کی آغوش میں بڑے تھے۔
وجو ! اماں آہستہ سے بڑبڑائیں۔ تم لوگ مجھے ٹھنڈی راکھ سمجھے بیٹھے ہو مگر میں اپنے سینے میں دھکتی ہوئی چنگاریاں چھپائے ہوئے جیتی رہی۔ ہاتھ پیر کٹے ہوں تو انسان دوسرے کا محتاج ہو جاتا ہے۔ بیتا۔ عمر بھر طعنے سن کے چپکی رہ جانے والی اماں مجھ پر ڈال کے ابا کو طعنہ دے رہی تھیں۔ خیر مجھے معاف کیجئے۔ اماں کے تھرتھراتے ہونٹوں سے نکلا۔
ابا کچھ کہنے کو آگے جھکے مگر اب وہاں کوئی ایک لفظ سننے کو تیار نہ تھا میں اور بھیا اماں کے سینے سے لگے سسک رہے تھے اور ابا بے جان بت تھے اماں کو تکے جا رہے تھے۔
میں آج سوچتی ہوں کہ اس گندے معاشرے کو بدلنے کیلئے اماں نے کتنی خاموش جدوجہد کی تھی جس کو ہم برف کا تودا کہا کرتے تھے اس کے اندر کتنی گرم و تند لہریں دوڑا کرتی تھیں۔
’’پورے سماجی ڈھانچے کو بدلنے کیلئے سچ سچ عورتوں کو معاشی اعتبار سے قومی ہونے کی ضرورت ہے بھیا۔ اب بھی کبھی کبھی میں اماں کو یاد کر کے بھیا سے بحث کرنے میں ان کو باتیں دوسرے انداز میں دہراتی ہوں۔ اماں تو چراغ کی لو تھیں جو ہماری زندگی میں روشنی بکھیرنے کیلئے سدا آندھیوں سے لڑتی رہیں۔
سڑے گلے نظام کی تشبیہ کے طور پر مجھے تائی کا گھناؤنا چہرہ یاد آ جاتا۔
اماں کے بعد تائی آسیب کی طرح گھر پر منڈلایا کرتی مگر چراغ کی وہ لو زندگی کی اونچی اونچی راہوں میں اپنے پیچھے دور تک روشنی کی لکیر چھوڑ گئی تھی۔ ا ب کسی آسیب کیلئے تاریکی کہاں ہے ؟
٭٭٭
میرا گھر
جب کبھی میں سنجیدگی سے اپنے گھر کے بارے میں سوچتی ہوں تو مجھے یوں لگتا ہے جیسے میرا گھر سیکولر ہندوستان کی نمائندگی کرنے والا واحد گھر ہے جہاں ہر قوم ، ہر نسل و ہر فرقہ سے تعلق رکھنے والے لوگ رہتے بستے ہیں جہاں مختلف زبانیں بولی وسمجھی جاتی ہیں۔ جہاں مذہب ، زبان و قلم کی آزادی ہر انسان کو حاصل ہے۔
ہر کمرہ اپنی الگ تہذیب ، کلچر ، روایات کا آئینہ دار ہے۔ ہی نہیں بلکہ مختلف لباس ، رسم و رواج و رہن سہن کے مختلف طور طریقے رائج ہیں۔ ہر قوم کو اپنی خود مختاری قائم رکھنے کا حق حاصل ہے۔ اس گھر کی جھلکیاں نری دلچسپ ہیں۔
پرانے شہر میں دیوڑھی نما آٹھ کمروں ، در عمل اور دو آنگن والا مکان ہمارا آبائی مکان ہے۔ جس کو شاہی خاندان سے خرید لیا تھا۔
میرے والدین کا کمرہ قدیم طرزِ معاشرت کا نمونہ ہے۔ تخت پر فرش و گاؤ تکیہ کا استعمال ، تکیہ سے قریب پاندان ، تخت سے نیچے مراد آبادی بڑا سا اگالدان ، قدیم چھپر کھٹ پر مچھر دانی اور قدیم طرز وضع کا بستر ،سرہانہ جس قدر چوڑا ہے۔ اتنے لمبے تکیے ہیں۔ بیٹھنے کیلئے بڑی بڑی لمبی آرام کرسیاں جس پر نیم دراز ہونے کے ساتھ ساتھ پیر لمبے کر کے آرام لینے کیلئے لکڑی کی پٹیاں بھی لگی ہیں۔ الماریوں کے شیشوں سے قانون کی کتابیں سلیقے سے سجی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ یہاں کی دیواروں پر تین انچ موٹے فریم میں قریبی رشتہ داروں کی تصویریں آویزاں ہیں۔ نکھری ستھری شائستہ لب و لہجہ والی اردو زبان بولی وسمجھی جاتی ہے۔ بزرگوں کا ادب ، آواز دبا کے آہستہ بات کرنا ، وقت کی پابندی اور بندھے ٹکے اصولوں پر عمل آوری پہلا درس ہے۔ کر دار کی عظمت تمام دنیاوی بلندیوں سے بھی بلند مانی جاتی ہے۔
مہمان نوازی ، حوصلہ افزائی اور سخاوت تہذیب وشائستگی کی علامت ہے صبح ہر کام چھوڑ کے قدم بوسی کیلئے حاضر ہونا اور کھانے کے وقت سب کا اکٹھا ہونا لازمی ہے۔ تبادلۂ خیال کا یہی موقع ملتا ہے۔
اس کمرے سے آگے بڑھئے تو ایک اور کمرہ ہے۔ دو الگ اصولوں دو الگ مسلک اور دو الگ طبیعتوں کا ملاپ رعب داب۔ تحکمانہ لہجہ ، اونچا قد ، سرخ وسفید ، رنگ اپنی نسل اور فرقہ کو ظاہر کرتے ہیں۔
دکن کا سانولاپن۔ احتیاط ، دکھنی بولی ، در گذر کرنے اور ہر سانچے میں ڈھل جانے والی فطرت ، جلد غصہ کرنے اور جلد بہل جانے والی طبیعت ہی ایک کمرہ میں دو مختلف الخیال گروہ کے نمائندے میاں بیوی کے روپ میں مل جائیں گے۔ ایک بنک آفیسر اور ایک افسانہ نگار ایک وقت کا پابند ، پیسہ کمانے اور زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھنے کی جدوجہد میں مصروف۔
در میری قدرتی نظاروں میں کھوئی رہنے والی نفسیات واحساسات کی بھول بھلیوں میں گم ، زندگی کی الجھنوں کو سلجھانے ، صحیح نفسیاتی تجزیہ پیش کرنے کی دھن میں مگن۔
گھر کے سارے افراد کی خوشی ، ضروریات ، پسند وناپسند کا خیال رکھنے اور ان کے ساتھ مناسب برتاؤ کرنے والی حساس عورت ، رہن سہن بھی ترقی پسند ہے۔ ڈبل بڈ کے سرہانے در پٹیل لیمپ سائیڈ ٹیبل ، کتابیں ہی کتابیں ، شلف پر لکھنے کی میز پر ، اخبار ورسائل ایک میں رکھے ہوئے۔ دو الماریاں ، قدیم و جدید لباس اپنی آغوش میں لئے کھڑی ہیں۔ یعنی یہ کمرہ میرا ہے۔
سیڑھیاں اتر کے نیچے آئیں تو بڑی بیٹی کا کمرہ ہے۔ اس گھر میں یہ تیسری نسل ہے۔ اس کے کمرے کی ہر چیز ماڈرن ہے۔ نئی تہذیب و نئے تمدن کی دلدادہ غالب کی غزل انگریزی دھن میں گنگنانے والی۔ روایات شکن ، پرانی سوچ اور قدیم طرزِ زندگی سے باغی ،نئے کلچر کی داغ بیل ڈالنے میں آگے آگے پرانے راستوں سے ہٹ کے نئی راہ بنانے والی۔ یہ لڑکی نظام کالج میں پڑھتی ہے۔ انگلش لٹریچر سے ایم۔ اے کر رہی ہے۔ کبھی انتہائی نرم مزاج انکسار و خلوص کا پیکر ، کبھی اجنبی لا پرواہ و بے تعلق خدا کی قدرت سے زیادہ اپنی محنت اور جدوجہد پر یقین رکھنے والی اس کی سوچ سارے گھر سے الگ اور دماغ من مانی کرنے کا عادی ہے۔
رہن سہن بھی نئی تہذیب کو اجاگر کرتا ہے۔
بستر پر ، میز پر اور قالین پر کتابیں رات دیر گئے تک پڑی رہتی ہیں دونوں میاں بیوی پڑھتے رہتے ہیں۔ اس کا شوہر بھی فلاسفی سے پی ایچ ڈی کر رہا ہے۔ اپنے پیارے پروفیسر کا نام بھی وہ انتہائی عزت و عقیدت کے ساتھ لیتا ہے۔
ان دونوں کے دوست بھی جدوجہد ترقی پسند و نئی روشنی کے دیوانے ہیں۔ بعض دوست تو ایسے ہیں جو ان دونوں سے زیادہ ان دونوں کی زندگی میں دلچسپی لیتے ہیں۔ ہر آڑے وقت دوڑ کے آتے اور مشورہ دیتے ہیں بعض کمر ، باندھ کے کارزار حیات میں ان دونوں کے ساتھ ساتھ دوڑنا چاہتے ہیں۔ ان کے مسائل کو اپنے مسائل سمجھتے ہیں اور سگریٹ پر سگریٹ پھونک کے ہر پہلو پر غور کرتے ہیں۔ بعض اوقات وہ مجھ سے مسکرا کے پوچھتی ہے۔ آپ نے ایسے دوست کبھی دیکھے ہیں۔ ایک آپ لوگوں کے وقت کے دوست تھے کہ ہر شاعر نے انہیں ’’خنجر بکف ‘‘ لکھا ہے۔
دوستوں ہی نے زخم بخشے ہیں۔ جیسا مصرعہ ان کی زبان پر آتا ہے۔
کتنا ڈفرنس ہے آپ کے دوستوں اور ہمارے دوستوں میں
میں بے اعتباری سے اس کی طرف دیکھتی ہوں۔ نئی نسل میں خلوص و محبت کی کمی پر اب بھی میرا خیال بدلا نہیں ہے۔ زندگی اس قدر تیز گام ہے کہ لوگوں کو خلوصِ دل سے مسکرانا بھی نصیب نہیں ہوتا۔ مگر میں اس کے دوستوں کے خالص خلوص کو بھی سراہتی ہوں۔
اشٹرے میں ادھ جلے سگریٹوں کے انبار اور چائے کی پیالیوں کے ڈھیر کو دیکھتی ہوں۔ میرا داماد بھی بیٹی کی تائید میں مسکراتا ہے۔ یہ لڑکا جو نہ صرف نئی نسل کے رہن سہن ، احساسات و جذبات کی ترجمانی کرتا ہے بلکہ رجعت پسند روایتی زندگی سے بغاوت اور بعض نام نہاد ترقی پسندوں کی سڑی گلی ذہنیت کے خلاف آواز بلند کرنے کی جرات کو بھی ضروری سمجھتا ہے۔
رات دن بحث مباحثہ ، علمی و ادبی محفلیں سجانا ، دوستوں کے برے وقت کام آنا اور اپنی ہر خوشی میں دوستوں کو شریک کرنا اس کیلئے ناگزیر ہے۔ دوستوں کے ساتھ آدھی آدھی رات تک باہر رہنا اور گھر آ کے بیوی کا غصہ سہہ لینا اسے آتا ہے۔
دوسرا کرمہ جو اس کمرے کے بعد آتا ہے۔ چھوٹی بیٹی کاہے ،اس نے بی ای کیا ہے۔ الکٹریکل انجینئرنگ کرتے ہوئے اس نے ہمیشہ امتیازی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ کمرہ بہت ہی نفاست و دلکشی سے سجا ہوا ہے۔ سادگی میں بھی پُرکاری ہے۔ ہر چیز کی جگہ مقرر ہے اور کوئی کسی چیز کو ہٹا نہیں سکتا سوائے قدرتی ہوا اور زلزلے کے !
کوئی چیز بے جگہ پڑی نظر نہیں آتی۔ اس دور میں سانس لیتے ہوئے بھی پرانی قدروں کی دلدادہ ، قدیم تہذیب و تمدن ، فنونِ لطیفہ و آثار قدیمہ کی قدر دان، انگریزی زبان میں شاعری وافسانہ نگاری کرتی ہے۔
خاموشی وسکون کو پسند کرنے والی۔ تلگو اور ملیالی زبان کے گیت ان کے اصلی ٹیون میں گاتی ہے۔ مصوری وموسیقی سے بے حد دلچسپی ہے۔ صبح و شام اسٹوڈنٹس گھیرے رہتے ہیں لڑکے و لڑکیاں پڑھنے آتی ہیں۔ اور پڑھتے پڑھتے اک دور وہ آ جاتا ہے کہ وہ چھوٹی بہنیں و بھائی بن جاتے ہیں اور اپنی بہت سی پریشانیاں ومسائل اس کے آگے رکھ کے رائے لیتے ہیں۔ وہ بڑے سوچ بچار کے بعد انہیں ان مسائل کا حل سمجھاتی ہے۔ سمجھاتے ہوئے وہ بھول جاتی ہے کہ کتنے مسائل اس کی زندگی کے ایسے پڑے ہیں جن کا کوئی حل اس کی سمجھ میں نہیں آتا۔ پھر بھی اس کو خدائے برتر پر یقین ہے کہ وہی نا مساعد حالات میں اس کا ساتھ دے گا۔ ہر نئی چیز کو ہر نئے خیال کو وہ محض یہ سمجھ کر قبول نہیں کرتی کہ وہ نیا ہے یا اس پر جدیدیت کی چھاپ ہے۔ وہ گہرائی میں اتر کر ہر چیز کی ، ہر جذبہ کی اور ہر احساس و ہر اصول کی اچھائی و برائی ضرور ٹٹولتی ہے۔
ان کمروں کے سامنے والا کمرہ جوان کمروں سے بڑا ہے۔ چاروں بیٹیوں کا مشترکہ کمرہ ہے۔ اس کمرہ میں میری وہ بیٹیاں رہتی ہیں جن کو میں نے صرف جنم نہیں دیا ورنہ ننھی منی جانوں کو پال پوس کے پروان چڑھایا ہے۔ جن کی ہر قدم پر نگرانی و رہبری کی ہے۔ یہ میرے شوہر کی پہلی بیوی کی لڑکیاں ہیں۔
بڑی لڑکی پر اپنی خالہ کی طرح مذہبی رنگ غالب ہے۔ مذہبی کتابوں کا مطالعہ اس کی عادت میں شامل ہے۔ اس کی شادی بھی ایسے ہی کٹر مذہبی گھرانہ میں طئے ہوئی ہے۔ گفتگو میں اصطلاحات استعمال کرنے کا شوق ہے۔ اس نے بی ایس سی کیا ہے۔
اس سے چھوٹی فلمیں دیکھنے کی حد درجہ شوقین ہے۔ اس نے میٹرک کے بعد پڑھنا چھوڑ دیا۔ وہ خلوص و محبت گھر بھر میں باٹتی پھرتی ہے۔ سب اس کو چاہتے ہیں اور وہ سب کو بے اندازہ پیار دیتی ہے۔ ہر نیا لباس بہنوں کو پہنا کے خوش ہونا ، ان کے چھوٹے موٹے کام انجام دینا اس کا محبوب مشغلہ ہے۔ اچھے لباس و زیورات کا اس کو جنون کی حد تک شوق ہے کام کاج میں سلیقہ مندی ، پہننے اوڑھنے میں وہ ماہرانہ صلاحیتوں کی مالک ہے۔
اس سے چھوٹی دو جڑواں یا قوام بہنیں ہیں۔ جب میری گود میں انہیں دیا گیا تھا تو وہ آٹھ ماہ کی تھیں۔ اب ماشاء اللہ چودہ پندرہ سال کی ہیں۔ دونوں ہم شکل ، ایک جیسا رنگ روپ و قد و قامت ، بے انتہا ہنسوڑ لطیفے گڑھنے والی ، بعض اوقات وہ مقابل کو لا جواب بھی کر دیتی ہیں۔ یوں تو سب پڑھی لکھی ہیں مگر یہ دونوں اب تک پڑھ رہی ہیں۔ بات میں بات نکالنا اور رونے والے کو قہقہے لگانے پر مجبور کر دینا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ سارے گھر کیلئے وہ اس شہہ رگ کی طرح ہیں جو جسم بھر کو خون پہونچاتی ہے۔ دونوں اردو اور ہندی سے بھی برابر کی دلچسپی لیتی ہیں۔
میں اس سارے گھر کو گھوم پھر کر دیکھتی ہوں۔ اس میں تین نسلیں اپنے الگ الگ روایتی دور کے ساتھ رہتی بستی ہیں۔ میرا یہ گھر جو سارے ہندوستان کی نمائندگی کرنے کیلئے کافی ہے۔ جہاں مختلف فطرتوں ، مختلف طبیعتوں اور مختلف خیالات کے حامی رہتے بستے ہیں ایک دوسرے کے کام آتے ہیں۔ ایک دوسرے کے لئے قربانیاں دیتے ہیں۔ ایک دوسرے سے پیار کرتے ہیں اپنے الگ الگ اصولوں اور الگ الگ تہذیب و تمدن الگ الگ زبانوں کے ساتھ ، الگ پسند وناپسند کے ساتھ مل جل کر رہتے ہیں۔ ایک دوسرے کی بھلائی کے متعلق سوچتے ہیں۔ اس یکجہتی کو کوئی نقصان نہیں پہونچا سکتا۔ ایک دوسرے کے متعلق کوئی زہر نہیں گھول سکتا۔ ایک دوسرے کے درمیان کوئی دراڑ نہیں ہے۔ کوئی اختلاف نہیں ہے۔
یہ سب ایک گھر کے لوگ ہیں۔
٭٭٭
آئی برسات
مینہہ کی موٹی موٹی بوندیں کھڑکی کے شیشوں پر ٹپاٹپ گر رہی تھیں۔ اودی گھٹائیں امنڈ امنڈ کر برس رہی تھیں۔ ورانڈے سے دوڑ کر وہ اندر گئی۔ ساری کھڑکیوں کے پٹ بند کر کے جب وہ دوبارہ ورانڈے میں آئی تو آدھی بھیگ چکی تھی۔ نیم اور جامن کے پیڑ تیز ہوا میں جھوم رہے تھے۔ پکی جامنیں نیچے آنگن میں ڈھیر ہو رہی تھیں۔ بچے ہوتے تو آنگن میں خوشی سے بھری چیخوں اور قہقہوں سے ہنگامہ برپا ہو جاتا۔ اس نے سوچا۔ ورانڈے کے ستون کے اطراف باہیں ڈال دیں اور کوئی پرانا گیت گنگنانے لگی۔ یہ پرانے گیت بھی کتنے پیارے ہوتے ہیں۔ خوبصورت دھنیں اور جادو کی طرح اثر کرنے والے بول جیسے دل کو چھو لیتے ہیں۔
نمولیاں اور جامنیں آنگن کی ریت پر بچھ گئی تھیں۔ ہوا میں تازگی اور خنکی تھی۔ تپتے ہوئے دنوں اور امس بھر راتوں کے بعد اس کو برسات کے پھوار بڑی اچھی لگتی۔ ہر سال برسات اودی گھٹاؤں اور ٹھنڈی پھواروں کے ساتھ آ جاتی ہے مگر پھر بھی اس کو برسات کا شدید انتظار رہتا۔
وہ گرم چائے کی پیالی لئے باہر منڈیر پر جا بیٹھی اور ایک زمانہ تک ذہن میں پروان چڑھنے والی کہانی کاغذ پر اتر آتی۔
اسکول اور کالج ابھی کچھ دن بند رہیں گے۔ بچے پہاڑ سے واپس آ جائیں تو پھر وہی گہما گہمی و چہل پہل ہو جائے گی۔ وہ کچن میں جلدی جلدی روٹی بنانے ، ناشتہ دینے ، اور ٹفن تیار کرنے میں مصروف ہو جائے گی۔ لڑکیاں تیار ہوکے چوٹیاں گندھوانے کیلئے اس کے پاس آ کھڑی ہوں گی اور وہ جلدی سے نل پر ہاتھ دھو کے ان کے بالوں سے الجھ جائے گی۔
اس نے دیکھا ، سامنے کیاری میں زرد ڈیزیز کے ہزاروں پھول مسکرا رہتے تھے۔ دور تک پھیلے ہوئے گلابی، اودے اور سفید وربینا کے ننھے ننھے پھولوں کی شاخیں موٹی موٹی بوندوں کے وزن سے تھرا رہی تھیں۔ پرسوعں کی ژالہ باری سے کٹے پھٹے انجیر کے پتے اور کھڑکی کے ٹوٹے ہوئے شیشے پر اس کی نگاہ رک گئی۔ بیگم صاحب چائے پی لیجئے۔ کام کرنے والی لڑکی ٹرے لئے کھڑی تھی۔
شاہ خاں ڈرائنگ روم میں بیٹھے مسز قریشی سے باتیں کر رہے تھے۔ اس نے ورانڈے سے جھانک کر نیچے دیکھا ،دروازے حسب معمول بند تھے۔ کمبخت ، بڑی بد ذوق ہے اور اس کی عمر کا تقاضہ بھی تو یہی ہے۔ مسز قریشی کے مصنوعی سفید دانت یاد کر کے اس کو ہنسی آ گئی رنگے ہوئے سیاہ بال جن کی چوٹی کمر تک آتی ہے۔ شاید انہوں نے کسی ہوئی ہالر میں ڈائی کرائے تھے۔ چہرے پر جھریاں تھیں۔ بلڈ پریشر اکثر بڑھ کر دو سو تک جا پہونچا۔
بارہ کرسیوں والے لمبے ڈائننگ ٹیبل پر پھول دار میز پوش پڑا رہتا۔ شاید وہ دونوں گرم چائے کی چسکیاں لے رہے ہوں۔ یا شاید جائیداد سے متعلق باتیں کر رہے ہوں یا پھر مسز قریشی اپنے بچوں کے بارے میں خان کو بتا دی ہوں گی کہ کس طرح ان کے چھ کے چھ بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ملک سے باہر چلے گئے۔ اب انہوں نے سویڈن میں ، نیروبی اور کینڈا ہن رہائش اختیار کر لی ہے۔
میں اپنی تنہائی سے پریشان ہو گئی تھی۔ تم آ گئے ہو تو میری کوٹھی اور میری زندگی ، دونوں میں رونق آ گئی۔ اب بچے آتے بھی ہیں تو پیسہ بٹور کے چلے جاتے ہیں۔ ان کو ہندوستان میں رہنا پسند نہیں ہے۔ میری جائیداد کا اتنا روپیہ ملتا ہے کہ میں کھلے ہاتھ سے خرچ کر تی بھی ہوں تو بتک میں جمع کروانا پڑتا ہے۔ اس طرح میں کسی کی محتاج نہیں ہوں۔
یا شاید وہ دونوں ایک دوسرے کو شدید چاہت آنکھوں میں لئے گھورے جا رہے ہیں۔ شاید شاہ خان دل ہی دل میں اس سے کہہ رہا ہو۔ اے ساٹھ سالہ دوشیزہ تم اپنے سیاہ بال میرے کندھوں پر اسی طرح بکھیرتی رہو۔ اپنے مصنوعی دانتوں کی چمک سے میری آنکھیں خیرہ کر دون۔ اپنی جائیداد کے تذکرے صبح و شام کرو۔ تاکہ میں تمہارے پہلو میں بیٹھ کے دوسری جوان عورتوں کو گھور سکوں ، جس کا بنک بیلنس زیادہ ہوتا ہے اس کے گھور پر عورتوں کو اعتراض نہیں ہوتا۔
بھی اب تم اپنا گھر بسا لو۔ یوں کب تک پریشان گھومتے رہو گے۔ ابھی جوان ہو گورے چٹے مضبوط انسان ہو ، اب مرنے والی نے اپنی نشانیاں چار لڑکیوں کی شکل میں چھوڑی ہیں تو کیا ہوا کیا مرنے والے کے ساتھ کوئی مر جاتا ہے۔ جینے کیلئے بہانہ تو ڈھونڈتا ہی پڑتا ہے۔ آخر بنک آفیسر ہو، کل ترقی ہا کے اونچے ہو جاؤ گے۔ اس کے ایک پرانے دوست عظمت نے اس کی اہمیت بڑھا چڑھا کے بیان کی۔
یار۔ ہم کونسی کنواری لڑکی چاہتے ہیں۔ بس کوئی بیوہ ہو چکی اپنی جائیداد ہو۔ اگر اس کا بڑا پکا مکان ہو تو سمجھو وہیں ڈیرہ ڈال دیں گے۔ مگر شرط یہ ہے کہ ہو پیسے والی۔ اس نے ایک آنکھ دبا کے اپنے دوست کو دیکھا۔
پیسہ والی۔ پیسہ والی۔ عظمت نے آہستہ آہستہ دہرایا پھر یاد کرنے کے انداز مین ماتھے سے ہتھیلی ٹکا کے بیٹھ گیا۔
لا اپنا ہاتھ۔ اس نے زور سے اس کے بڑھے ہوئے ہاتھ پر ہاتھ مارا
اور بے چینی سے کھڑا ہو گیا۔
جوان بیوہ بھی ہے اور جائیداد والی بھی ہے۔ مگر اس کی دو ننھی منی لڑکیاں ہیں۔ مگر کیا ؟ وہ ایسی انداز میں پوچھنے لگا میری بھی تو سب لڑکیاں ہی ہیں۔ اس کی یتیم لڑکیوں کیلئے مجھے تو کچھ کرنا نہیں پڑے گا۔ جب وہ صاحب جائیداد تھے تو مجھے کیا فکر۔
پڑھی لکھی۔ سمجھدار عورت ہے مگر اس کو ایک بیماری بھی ہے۔ کہانیاں لکھنے کی اچھا۔ ہوا کرے۔ مجھے کیا فرق پڑے گا۔ میں تو فلک سے گھر آؤں تو مجھے سرچھپانے کیلئے ایک شلٹر کی ضرورت ہو گی۔ مکان ہو گا تو میں بچوں کے ساتھ ایک جگہ وہ سکون گا۔ شاہ خان عظمت کو سمجھانے گلا۔
تمہیں کہیں آنے جانے کی ضرورت نہیں۔ بس تمہاری تھوڑی سی چاہت اور محبت اس کو تمہاری ہر ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے پر مجبور کر دے گی۔ تم خود ماہر کھلاڑی ہو یار۔ تمہیں زیادہ سمجھانے کی ضرورت نہیں۔ یہ جتنے فنکار ہوتے ہیں نا بڑے جذباتی ہوتے ہیں۔ انہیں تم ذرا سی محبت دے کر بڑی سے بڑی ذمہ داری سونپ دو ، وہ آسانی سے ہنس کر اٹھا لیں گے۔ سمجھے ؟ وہ اپنی دانست میں قیمتی مشورہ دے چکا تھا۔
پھر وہ دونوں رات گئے تک اپنے اپنے پلنگ پر لیئے مستقبل کے خاکے بناتے رہے۔
یہ سب واقعات و تجویز میں شادی کے بعد خان نے اس کو بتا دی تھیں۔ وہ ہنس کے ٹال گئی۔
اس نے نہ صرف شاہ خان و بچوں کی ذمہ داریاں قبول کر لی تھیں۔ بلکہ شاہ خان کو ہر فکر سے آزاد کر دیا تھا۔ مگر شاہ خان کسی پر بھی زیادہ عرصہ تک بھروسہ کرنے والا آدمی نہیں تھا۔ جب اس کو پتہ چلا کہ مکان اس کی بیوی کا نہیں بلکہ اس کی لڑکیوں کے نام ہے تو اس کو اس گھر اور اس گھر کے تمام افراد سے عجیب سی بے زاری و بے تعلقی محسوس ہوئی حالانکہ وہ نہ صرف بچوں کی دیکھ بھال اچھی طرح کرتی تھی بلکہ شاہ خان کا ذرا ذرا سا کام بھی اپنے ہاتھوں سے کرنے کی عادی تھی۔
وہ اس خدمت و محنت کو غیر اہم سمجھتا اور چانوی حیثیت دیتا تھا۔
اس کی تلاش جاری تھی۔ کوئی ایسی عورت مل جائے جو دولت مند ہو۔ جس کی اپنی بڑی جائیداد ہو۔ اور وہ یکایک دولت مند نواب بن جائے۔ پھر شاہ خان اس سے دور ہوتا گیا۔ وہ بنک میں آنے والی اور اپنے اکاونٹ میں پیسہ رکھوانے کیلئے اس سے مشورہ لینے والی عورتوں سے ایک بہت ہی سنجیدہ وبا اخلاق آفیسر کی حیثیت سے بات کرنا۔ ان کے ذاتی معاملات و نجی حالات کے متعلق اور جائیداد کے بارے میں بھی معلومات حاصل کرتا رہتا اور جب اسے کسی دولت مند بیوہ یا مطلقہ عورت سے ملنے ،۔ ان کا پیسہ جمع کرنے اور قیمتی مشورہ دینے کا موقعہ ہاتھ آتا تو وہ کسی شام ان کے بتائے ہوئے پتہ پر ان کے گھر پہونچ جاتا۔ اس کے یوں آنے پر عورتیں مرعوب ہو جاتیں۔ شام کی جائے بہت پر تکلف ہو جاتی۔ وہ بظاہر بہت بے تعلق اور محض ایک ہمدرد دوست کی حیثیت سے واپس آ جاتا۔
آپ پھر خود تشریف لائیے۔ ا سے ایک موقع اور ہاتھ آتا۔ پھر جیسے موقعہ ایسی کڑیاں بن جاتے ہیں جن کی زنجیر بہت دور تک پہونچتی۔
آہستہ آہستہ غیر محسوس طور پر وہ گھر والوں اور خصوصاً اس عورت کے دل میں اپنا ایک گھر ضرور بنا لیتا تاکہ اس عورت کا گھر حاصل کرنے میں مدد مل سکے۔ اس طرح دوستی مضبوط ہوتی جاتی۔
ان تمام باتوں کا علم اس کی بیوی کو بہت کم ہوتا۔ وہ بہت احتیاط سے کام لیتا۔ ایسا نہ ہو کہ اس کے کسی جملے یا حرکت سے اس ڈرامے کا انجام خراب نکلے۔ وہ بہت ہی مہذب و با کردار آفیسر بنا رہتا۔ لوگ اس سے مل کر متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتے۔
گورا چٹا ،۔ اونچے قد و قامت و مردانہ وجاہت کا نمونہ ، سیاہ شیروانی یا چاکلیٹی رنگ کے سوٹ میں ملبوس ، سنہری فریم والی عینک لگاتا تو کندن کی طرح چمکتے چہرے پر عجیب سا حسن پیدا ہو جاتا۔ اتنی عمر میں بھی جب کہ اس کے ریٹائر ہونے میں پانچ چھ سال باقی تھے وہ بڑا مقناطیسی چہرہ لئے گھومتا۔
ایک عرصہ تک بیوگی کی پھیکی اور بے رنگ زندگی گذارنے والی عورتوں میں وہ بے حد مقبول تھا ان عورتوں کے سامنے وہ اپنے بے ماں کے بچوں کا تذکرہ کر کے انہیں ہمدرد و غمخوار بنا لیتا۔ پھر رفتہ رفتہ ان سے قریب ہونے لگتا۔
ستون سے چمٹی وہ اپنے ماضی کی ایک ایک بات کو یاد کر رہی تھی۔
وہ کونسی گھڑی تھی جب وہ شاہ خان سے اپنے مستقبل کی ایک ایک ادھوری تمنا وابستہ کئے اس کے ہاتھ میں ہاتھ دیئے اس کے بچوں کا مستقبل بنانے میں ساتھی اور سانجھی بن گئی تھی۔ ان ہاتھوں سے اس نے آٹھ آٹھ ماہ کی توام لڑکیوں کی پرورش کی تھی۔ اپنے گھر ، اپنے فرنیچر اور اپنے سے متعلق ساری چیزوں میں حصہ دار بنایا تھا۔ چار سال اور دس سال کی جو لڑکیاں تھیں وہ اب کالج و ہائی اسکول میں پڑھتی تھیں۔
ہر زخم مرہم رکھنے کی کوشش میں اس کے اپنے دل میں سینکڑوں گھاؤ پڑ گئے تھے۔ دوسروں کی ذمہ داریاں سنبھالنے کی دھن میں وہ اپنی ذمہ داریاں پہس پشت ڈال چکی تھی۔ شوہر اور بچوں کا دکھ درد سمیٹنے میں اسے اپنا وجود یاد نہ رہا تھا۔
شاہ خان اپنے مقصد کے پیچھے بھاگتا رہا۔ اور آج پھر ایک قدیم فوجداری کے وکیل صاحب کی دولت مند بیوہ کے چکر میں پھنس کے رہ گیا ہے۔ ایسے واقعات بار بار دہرائے گئے تھے اور اب شاہ خان ایک ماہر شکاری تھا۔ اس کو دولت مند عورتوں سے درستی بڑھانے اور پھر آہستہ آہستہ انہیں قابو میں کر کے ان سے فائدہ اٹھانے کی عادت پڑ گئی تھی۔ جو موقع سے فائدہ نہیں اٹھاتا وہ بیوقوف ہے۔ وہ اکثر دوستوں کی محفل میں کیا کرتا۔
وہ کہانیاں لکھتی تھی۔ مختلف کر داروں کی نفسیات سے واقف جب وہ اپنے کسی کر دار کا نفسیاتی تجزیہ کرتی تو لوگ اسے تعریفی خطوط لکھتے۔ اسے انسانی نفسیات کا ماہر بتاتے مگر وہ اپنی زندگی کے ایک اہم کر دار کی نفسیات کے بارے میں حیران رہ جاتی۔ اس نے بڑی محنت سے اس کا نفسیاتی تجزیہ کیا تھا۔
وہ ایک غریب گھرانے سے آیا تھا۔ اپنی انتھک محنت و جد و جہد سے وہ بنک آفیسر بنا تھا۔ اور اب وہ اپنے ساتھ والے آفیسرز میں ایک اونچے معیار کی زندگی چاہتا تھا۔ خواہ کسی قسمت پر ملے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ فوجداری کے ایک سینئر وکیل کی بیوہ سے چاہت کا کھیل ، کھیل رہا تھا۔ یہ عورت جس کے تین لڑکے و تین لڑکیوں کی شادی ہوئے زمانہ گذر گیا تھا اب تو اس کے نواسے بھی جوان تھے۔
یہ عورت جو کسی کی نانی ہے۔ کسی کی دادی ہے۔ اچانک اس میں کسی کو چاہنے اور چاہے جانے کا جذبہ جاگ پڑا ہے۔ وہ بری طرح شاہ خان کے ہوش وحواس پر چھاتی چلی جا رہی ہے۔ ایک اودھی گھٹا بن کر ، جس سے زندگی کی روشنی مدھم پڑ گئی۔
اب بارش تھم چکی تھی۔ بس ہلکی پھوار بغیر کسی آواز کے گھر رہی تھی۔ نیم اور جامن کہے پیڑوں سے قطرے تیزی سے گر رہے تھے۔
وہ دبے قدموں سے در انڈے کی چھت پر اتر آئی۔ ڈائننگ روم کے دروازے تو بند تھے ہی۔ وینٹی لیٹرز بھی بند تھے مگر ذرا انگلی سے ڈھکیلنے پر ایک بڑی دراز پیدا ہو گئی تھی۔ سب کچھ اس کی آنکھوں کے سامنے تھا وہ دونوں ڈائننگ ٹیبل کی کرسیوں پر ساتھ ساتھ بیٹھے تھے۔ شاہ خان مسز قریشی کو چمچے سے میٹھا کھلا رہے تھے۔ اچانک مسز قریشی نے شاہ خان سے سوال کیا۔ آخر آپ نے اپنی بیوی کے بارے میں کیا سوچاہے۔ ؟
خان نے بائیں ہاتھ کی انگلی کو دائیں ہاتھ کی انگلی سے کاٹ کر غالباً چھوڑ دینے کا اشارہ کیا۔ مسز قریشی نے ہونٹوں پر زبان پھیر کر شاہ خان کو مسکرا کر ترچھی نظروں سے دیکھا اور شاہ خان اس کے میٹھے ہونٹوں پر جھک گئے۔
دھڑ دھڑ۔ دھڑ۔ جیسے اس کا دل حرکت کرتے کرتے بند ہو جائے گا۔ شاہ خان کی ان حرکتوں کے بارے میں اس نے صرف سنا تھا مگر اپنی آنکھوں سے دیکھنا کتنا جان لیوا ہے۔
کان کی لو میں گرم ہو گئی تھیں۔ کنپٹیاں جیسے تڑخ رہی تھیں۔ اس کیفیت کا وہ کوئی صحیح نام نہ دے سکی۔ اس کی توساری زندگی تپتے ہوئے صحرا کی طرح گذری۔ ایسے ہی حالات میں ایسی ہی غیر محفوظ۔ تیز آندھی میں رکھے کے ننھے دیئے کی کانپتی لو کی طرح۔
مٹی کے کچے گھروندے کی طرح جو تیز بارش میں بہہ جاتا ہے۔ وہ کب تک اس گھروندے کو اپنے آنچل سے ڈھکتی رہے گی۔
ننھے منے بچوں کو اس کے ہاتھوں نے پال پوس کے بڑا کیا ہے۔ بچے اس پر بھروسہ کرتے ہیں۔ اس کو ماں کہہ کے پکارتے ہیں مگر۔
اے میرے بچو! جس کشتی میں ہم سب سوار ہیں اس کے پتوار ایک ظالم ملاح کے ہاتھوں میں ہیں۔ کچھ پتہ نہیں پار لگائے گا یا کنارے سے قریب لا کے غرق کر دے گا۔ وہ ایک غیر ذمہ دار انسان ہے۔ اس کے پہلو میں تحفظ کا احساس نہیں ہوتا۔ وہ خود اپنے لئے ایک محفوظ پہلو ڈھونڈ رہا ہے۔ جہاں پہونچ کر اس کو دولت مندی ، مضبوطی و اونچائی کا احساس ہو۔
کیا ایسا سوچنا کر دار کی انتہائی پستی نہیں ہے۔
آج اس طرح بارش میں بھیگتے بھیگتے اور اس کی شخصیت کا تجزیہ کرتے کرتے اسے یاد آیا کہ بھائی میاں نے بتایا تھا کہ جس طرح آدم خور شیر کو انسان کے خون کی چاٹ لگ جتی ہے اسی طرح شاہ خان کو بیوہ عورت کے پیسے کی چاٹ لگ گئی ہے آسانی یہ ہے کہ وہ خوش شکل واسمارٹ ہے اور ایک نیک آفیسر ہے۔ یہ دولت مند عورتوں سے قریب ہونے کا بڑا اچھا ذریعہ ہے۔ اور پھر کسی کو کوئی شبہ بھی نہیں ہوتا تمہیں معلوم ہے۔ میں اسے بیوہ خور کہہ کے پکارتا ہوں۔ انہوں نے قہقہہ لگایا تھا۔ افوہ۔ کس قدر خطرناک نام ہے۔
اس خنک ہوا میں بھی اس کے ماتھے پر پسینے کی بوند میں ابھر آئی تھیں اور آنکھوں سے جھر جھر برسات ہو رہی تھی جو اس کے سینے میں شعلے بھڑکا رہی تھی
ہم تو سمجھے تھے کہ برسات میں برسے گی شراب
آئی برسات تو برسات نے دل توڑ دیا
دور سے بیگم اختر کی آواز آ رہی تھی۔
٭٭٭
راستے کا پیڑ
میں بالکنی میں کھڑی سڑک کے کنارے اس درخت کو دیکھ رہی ہوں جس کے نیچے کئی راہگیر بارش سے بچنے کیلئے جمع ہو گئے تھے۔ ان تک صرف خنک ہوا کے جھونکے ہی پہونچ پائے اور سکڑے سکڑائے جسم شاید یہ سوچ کر خوش ہو جاتے کہ بارش سے بھیگنے اور سرد ہواؤں کے تیز جھونکوں سے محفوظ رکھنے کیلئے یہ پیڑ کس قدر ضروری و اہم ہے۔
اس نے پلٹ کے ورانڈے میں بیٹھی اماں کی طرف دیکھا۔ مہربان شفیق مسکراہٹ ہونٹوں پہ لئے رہ منے چما کے لڑکے کو پڑھا رہی نہیں۔ اسٹو پر جائے کی کیتلی رکھی تھی اور ان کے ہاتھوں میں نوازش بھائی کا ادھورا سوئیٹر تھا جسے وہ بغیر آرام لئے جلدی جلدی بن رہی تھیں۔
نیچے سیڑھیوں سے ہٹ کے ابن میاں اور عالیہ بانو کا کمرہ تھا۔ اور بڑے بھیا چھوٹے بھیا اور نسیم بھیا کے قہقہے ستونوں والے دالان سے سنائی دے رہے تھے۔ اور اماں کے چہرے پر ان قہقہوں کو سننے سے ایسی تازگی اور مسکراہٹ آ جاتی جیسے ان کی جوانی پھر لوٹ آئی ہو ، مگر بیچاری اماں نے تو مشکل ہی سے زندگی کے کچھ دن اچھے گذارے ہوں گے۔ ابا میاں دکن گئے۔ وہیں کے ہو رہے ، جب بھی انہوں نے اماں کو دکن بلایا اور آنے کیلئے منی آرڈر بھیجا تو یہ بار اماں ہم سب کو سینے سے لگا کے پیار سے بڑبڑائیں۔ ’’کیسے چلی جاؤں ان کمبخت ماروں کو چھوڑ کے۔ بڑی مشکل سے ان بے ماں باپ کے بچوں کو پرورش کیا ہے۔ اب کس کے بھروسے چھوڑ دوں۔ اور پھر وہ سارے ہیں اماں بچوں کی ضروریات پر خرچ کر ڈالتیں۔
اماں کو کوئی اماں کہتا ، کوئی ننھی دلہن اور کوئی جگور والی باجی کیلئے پکارتا ، دیہات کی بڑی بوڑھیاں انہیں ننھی دلہن کہتیں ، ادھیڑ عمر کی عورتیں اور مرد جگور والی باجی کہتے اور دیہات کے سارے بچوں کیلئے وہ اماں تھیں۔ اماں کے نام کے ساتھ آنکھوں کے سامنے ایک مہربان ، پر خلوص اور پر شفقت ہستی کا تصور آ جاتا۔
ہاشم میاں اپنی برف کی طرح سفید داڑھی پر ہاتھ پھیر پھیر کے ان کی شادی کے حالات سنایا کرتے۔ وہ تھیں بھی ایسی ہی جب بیاہ کے سسرال آئیں تو آنچل میں بہت سے گڈگے ،گردیاں بھی میکے سے ساتھ لے آئیں۔ انہوں نے ابھی ابھی تو اپنی لاڈلی گڑیوں کا بیاہ رچانا، اور ڈھولک پر سکھی سہیلیوں کے ساتھ لہک لہک کے گانا اور رسم و رواج کی پابندی کرنا سیکھا ہی تھا کہ ان کا بیاہ رچا دیا گیا۔ اور ننھی سی سگھڑ اور مہربان دلہن پا کے سسرال والے نہال ان کے دھان پان جسم میں بہت بڑا دل دھڑکتا رہتا۔ سب کے دکھ درد پہ کراہتا ہوا یہ دل ان کے سخی و لمبے ہاتھوں کا ساتھ نہ دے پانا۔
اللہ رکھے ان ننھی منی جانوں کو پیسہ تو بہت مل جائے گا۔ وہ اکثر دیہات کے مفلس اور یتیم بچوں کی مدد کرتے ہوئے دعا مانگا کریں۔
ابا میاں کو بڑا ارمان تھا کہ بس ایک ہونہار بچے کے باپ بن جائیں۔ اے جی سنتی ہو ؟ جانے وہ دن کب آئے گا جب میں باہر سے آؤں گا تو میاں صاحبزادے فوراً دوڑے ہوئے آئیں گے اور میری ٹانگوں سے لپٹ جائیں گے کبھی میری اچکن اٹھائے لئے آ رہے ہیں تو کبھی میرے جوتے اپنی کمزور گرفت میں پکڑے چلے جا رہے ہیں۔ دیکھنا شہر کے سب سے اچھے اسکول میں پڑھاؤں گا صاحبزادے کو آہا ہا ، وہ خوش ہو کر یوں قہقہہ لگاتے کہ اماں سسپٹا کے نگاہیں چرانے لگتیں۔
خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ بہار کی پہلی کونپل ان کی کوکھ سے پھوٹی۔ دیکھتے دیکھتے ننھی دلہن ، ننھی ماں بھی بن گئیں۔ اب ابا میاں دن رات گھر میں پڑے رہتے۔ نیاز نذر میں۔ مرادوں ، منتوں میں پیسہ پانی کی طرح بہایا گیا۔
اب دونوں کو اس دن کا انتظار تھا جب سرخ وسفید چہرے والا گول مٹول بچہ بیاں چلے گا۔ پھر کسی کرسی یا دیوار کا سہارا لے کر کھڑا ہو گا۔ پھر چلنے لگا۔ پھر ابا میاں کی اچکن لے آئے گا۔ ان کے جوتے لئے گرتا پڑتا پنگ کے نیچے رکھ آئے گا۔
وہ اپنے بچے کے متعلق سوچتے سوچتے آپ ہی مسکرانے لگتے اپنے دوستوں اور ساتھیوں سے شہر کے سب سے اچھے اسکول کے متعلق معلومات حاصل کرتے۔
وہ اپنے بچے کو یوں گود میں اٹھائے جیسے وہ کانچ کا بنا ہوا حسین گڈا سے ابا میاں کے حد بزرگ انہیں منجھلے میاں کہتے مگر دیہات کے سب بچے ابا میاں کی رٹ لگائے رہتے جب بچہ رینگنے لگا اور فرش پر پڑی ساری ضروری و غیر ضروری چیزوں کی اُٹھا دھری۔ توڑ پھوڑ اور ہر چیز پر توجہ دینے کی ذمہ داری اس کی چھوٹی سی ذات پر آ پڑی تو ننھی دلہن اور منجھلے میاں ہر حرکت پر قربان ہو جاتے۔ اب سارے دیہات میں ننھی دلہن کا طوطی بولتا تھا۔ یوں بھی ان کی مہربانی ، سخاوت اور آڑے وقت کام آنے والی عادتوں سے سب ہی متاثر تھے۔
ان کے ارمانوں پر اچانک خزاں چھا گئی۔ خوشیوں کے پھول مرجھا گئے۔ اچھا خاصہ ہنستا کھیلتا بچہ ہمیشہ کیلئے چپ ہو گیا۔
پھر ننھی دلہن اولاد کیلئے ترستی رہیں۔ مگر کوکھ تو ہمیشہ کیلئے اجڑ گئی تھی پھر اس سے کوئی کونپل نہ پھوٹ سکی۔
منجھلے میاں ایسے دل شکستہ ہوئے کہ اپنے بڑے بھائی کے پاس دکن چلے گئے اور وکالت شروع کی۔
ادھر دیہات میں ہیضہ کی وباء نے گھر کے گھر ویران کر ڈالے۔ اگلے وقتوں میں یہی تو ہوتا تھا کہ جب کوئی وبائی مرض پھوٹ پڑتا تو دیہات کے دیہات اجڑ جاتے جگور میں جس تیزی سے وباء پھیلی اسی تیزی سے دیہات ویران ہو گئے ایسے وقت ننھی دلہن نے لا وارث بچوں کو ڈھونڈ ڈھونڈھ کے اپنی حویلی میں بسانا شروع کیا۔ وہ یوں پریشان وہراساں تھیں جیسے ان کی اولاد موت کے منہ پر کھڑی ہے۔
جب بھی منجھلے میاں چھٹیوں میں آتے تو لکھنو کی کوٹھی میں قیام کرتے اور ننھی دلہن کو اپنے ساتھ لے جانے پر ضد کرتے مگر ان چھوٹی چھوٹی یتیم جانوں کو چھوڑ کے ننھی دلہن کہاں جاتیں۔ ان سب کا بار تو ان ہی کندھوں پر تھا۔
اب دیہات میں کسی صورت منجھلے میاں کا دل نہ لگتا۔ انہیں یہاں کی ہوا بھی بری لگتی اور فضا بھی۔
ننھی دلہن تو سانپ کے منہ کی چھچھوندر تھیں نہ اگلے بنے نہ نگلتے۔ جب رات کو سب بچے اکٹھے ہوتے تو وہ پلنگ پر لپٹی ہوئی کہانیاں سنایا کرتیں۔ ان کی ہر ضرورت پوری کرتیں۔ انہیں پڑھاتیں لکھاتیں تیار کر کے اسکول بھیجتیں۔ انہیں سلیقہ مند اور سوگھڑ بنانے میں وقت کا بڑا حصہ صرف کرتیں۔ ا نہیں ادب لحاظ سکھانے ، تمیز دار اور محنتی بنانے کے لئے ہر ممکن طریقہ اختیار کرتیں۔ ان مصروفیات کیلئے انہیں بعض وقت سارا دن بھی ناکافی محسوس ہوتا۔ لڑکیوں کو وہ سینا پرونا کاٹ بیونت و پکوان بھی سکھاتیں۔ اماں انہیں دنیا میں ایک مکمل انسان کی طرح جینا سکھاتی رہیں ان کے دکھ درد میں جاگتی رہیں ان کی خدمت کرتیں ان کی خدمت کرتیں ، کھیت کٹنے اور ان کے باغات کی فصلیں فروخت ہوتیں تو ننھی دلہن بہت خوش ہوتیں۔ پھر مہینوں بچوں کے کام کاج چھٹی نہ ملتی۔ اس طرح انہوں نے اپنی ساری جائیداد سے وصول ہونے والا پیسہ ان بچوں کی پڑھائی لکھائی و پرورش پر صرف کر دیا۔
میں نے پلٹ کے پھر امان کی طرف دیکھا ان کے چہرے پر بے شمار جھریاں پڑ گئی ہیں وہ پہلے سے زیادہ کمزور ہو گئی ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں ہلکا سا رعشہ پیدا ہو گیا ہے۔ مگر ان کے سوچنے سمجھنے کی قوت کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ یہ جوان و ادھیڑ عمر کے لوگ جو اس حویلی میں چلتے پھرتے نظر آتے ہیں وہ اماں کی آغوش کے پالے ہوئے ہیں ان کے کپکپاتے ہاتھ یقیناً کمزور ہیں مگر ان کی صحت مند فکر و نظر نے انہیں عظیم بنا دیا ہے۔ ہائے اماں تم راستے کے اس پیڑ کی طرح ہو جو یونہی سربلند کئے ہیں پھیلائے ہر انسان کی خدمت کرتا ہے۔ اس کو اپنی وسیع آغوش میں پناہ دیتا ہے۔ طوفان ، آندھی وجھلسا دینے والے بگولوں سے بچاتا ہے اور حالات کا ہر ستم اپنی ذات پر سہہ لیتا ہے اگر ہماری زندگی کی راہ میں تم جیسا طاقت ور و گھنا پیڑ نہ آتا تو ہم کہاں جاتے ؟
٭٭٭
کہانی ایک گاؤں کی
رگھو کھانا کھانے کے بعد چلم کے کش لینے لگا۔ شانی برتن سمیٹ کر نالہ پر دھونے چلی گئی۔ کھیتوں کے بیچ سے عجیب سونچھی ٹھنڈک نکل رہی تھی۔ دھان کی بالیاں سنہری ہو رہی تھیں۔ دھان خوشبو دار تھے یہ دھان وہ وینکٹ ریڈی زمیندار سے مانگ کے لایا تھا کتنا ارمان تھا اسے خوشبو دار دھان اگانے کا کھیتوں کے اطراف سورج مکھی کی باڑھ بھی اس کی حسن پرستی ظاہر کرتی۔
رگھو سب سے الگ تھلگ نظر آتا۔ صورت شکل میں ، لباس، بات چیت ، پسند ناپسند سب الگ تھی۔ ان سب کے درمیان رہتے ہوئے کبھی اس کا اپنا رنگ الگ پہچانا جاتا تھا۔ اس کے کھیتوں کے اطراف پھول دار موسمی پودے ضرور لگے ہوتے۔ جب بھی شہر جاتا پھولدار پودوں کی نام گیلے کپڑے میں لپٹ کے ساتھ لاتا۔ ان پھولوں کا نام اس کو یاد نہ رہتا مگر الگ ، پھولوں کی بناوٹ پتیوں کی قسم ، اسے اچھی طرح یاد رہتی۔
اس چھوٹے سے دیہات میں ، اس کی بیوی سب عورتوں سے زیادہ اچھی شکل و صورت کی تھی۔ ملی ہوئی گہری بھنویں ، سیدھی پگڈنڈی کی طرح بازوں کے درمیان چلی گئی۔ لمبی مانگ اور ٹھڈی کا کالا تل۔ کسے ہوئے بدن پر ہری ساری باندھ کر ، پلو کمر میں اڑس کر لمبے لمبے قدم رکھتی کھیتوں کو جانے والے راستے پر چلتی تو دور سے دیکھ کر یوں لگتا جیسے مندر کی سیاہ چمکدار پتھر والی مورتی میں جان پڑ گئی۔ پتلی کمر پر چاندی کا کمر پٹہ وہ ضرور لگاتی۔ مسلسل محنت نے اس کا بدن بڑی خوبصورتی سے تراشا تھا۔ یہ کمر پٹہ واحد گہنا تھا جو اسے میکے سے ملا تھا۔ جب بھی دونوں میاں بیوی مندر جاتے وہ اشارے سے شانی کو بتاتا کہ یوں لگتا ہے جیسے یہ تیری ہی مورتی ہے۔
اتنا گہنا کہاں ہے میرے بدن پر۔ صرف دھاگے سے بنی ڈوری میں پشتہ پڑا ہے۔
یہ دیکھ ، وہ پشتے کی ڈوری ، چولی سے کھینچ کے نکالتی یہ دیکھ اتا سا سونا ، رگھو کا جی چاہتا موتی کے گلے سے سارے گہنے نکال کر شانی کو پہنا دے یوں بھی عورتیں گہنے پاتوں سے بہت خوش ہوتی ہیں نا؟ جیسے مورتی پتھر کی بنی ہوئی ہے ویسے ہی اس کے گہنے بھی پتھر ہی میں کھود کی بنائے گئے ہیں۔
یہ گاؤں بھی کتنا چھوٹا سا ہے۔ پرگی سے پندرہ سولہ میل دور غریبی ، ناداری وافلاس کی گہری چھاپ ہے اس گاؤں کے ذرے ذرے پر ، بچی ریڈی اور وینکٹ ریڈی یہاں پکی حویلیوں میں رہتے ہیں۔ ان کے قلعہ نما گھروں کو دیکھ کے آنکھیں حیران رہ جاتی ہیں۔
خصوصاً وینکٹ ریڈی کا عالیشان قلعہ۔ اس گاؤں میں جہاں جھونپڑیاں ہیں کچے گھر ہیں ، مٹی سے بنے گھر جن کی چھتوں پر کویلو کی طرح شاہ آبادی پتھر جائے جاتے ہیں۔ بعض دو منزلہ گھر بھی مٹی سے بنے ہوئے ہیں اور چھتوں پر شاہ آبادی پتھر۔ وینکٹ ریڈی اور بچی ریڈی بڑی عزت والے زمیندار ہیں۔ ان کے گھرانے میں خوشبودار چاول اور اصلی گھی روزہ استعمال ہوتا ہے۔ گاؤں پتھر کے قریب آدمی آج بھی ان کے کھیتوں میں کام کرنے کیلئے مجبور ہیں۔
وینکٹ ریڈی نوجوان زمیندار ہے۔ اس کے دیوان خانے میں شیر کی کھالیں اور ہرن دوبارہ سنگھا کی سینگین دیواروں کی زینت ہیں۔ ریچھ کی لمبے سیاہ بالوں والی کھال درمیانی میز کے نیچے بچھائی گئی ہے۔ اس قلعہ نما حویلی کی چھت سے پورے گاؤں کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ اس حویلی میں چور دروازے اور تہہ خانے بھی ہیں۔ وینکٹ ریڈی کو شکار کا شوق ہے۔ دیواروں پر جانوروں کی کھالیں اور سجی ہوئی بندوقیں اس کے شوق کا اظہار کرتی ہیں۔
چھت پر کروٹن کے گملے سلیقے سے رکھے ہیں۔ حویلی کی بنیاد کے ساتھ ساتھ گودام ہیں جہاں زمینات سے آیا ہوا اناج رکھا جاتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اگلے وقتوں میں اس حویلی کو بنانے والے مستری شہر سے آئے تھے۔ ہاں مٹی ڈھونے و پتھر اٹھانے والے مزدور اسی گاؤں کے تھے۔ افلاس و غریبی کے مارے ہوئے جنہیں دیکھ کے رحم آتا ہے ، پھٹے ہوئے میلے کپڑے گھر میں تھوڑے سے مٹی کے برتن ، موٹی دھوتیاں ، موٹی ساریاں جن میں کئی کئی پیوند پڑے ہیں۔ دھجی دھجی کپڑے جنہیں پہن کر جانے یہ کیوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے کچھ پہنا ہے کہیں سے بدن ڈھک گیا ہے تو کہیں سے کھل گیا ہے۔ یہ لوگ پچکے ہوئے پیٹ اور ابھری ہوئی ہڈیاں بجھ نہیں چھپا سکتے۔ اکثر موٹا چاول لال مرچ کی چٹنی سے کھاتے ہیں۔ دال یا ساگ کم ہی بنتا ہے۔ دال اور چاول کھانا بھی ایک طرح کا عیش ہے۔
بچی ریڈی نے ایک مسلمان گماشتہ رکھا ہے جو ہر روزہ سود کاپیسہ وصول کرنے کیلئے قریب کے دیہاتوں میں گھومتا ہے۔ اس کے سینے پر تین جوان بیٹیاں لدی ہیں۔ بجی ریڈی ہر آڑے وقت اس کے کام آتا ہے۔ گماشتے نے بھی دنیا دیکھی ہے۔ وہ کسی قیمت پر زمیندار کو ناراض نہیں کرتا، اس کے لئے اصلی گھی ، انڈے وسستی مرغیاں آس پاس کے دیہاتوں سے اکٹھی کر کے لے آتا ہے۔ کہیں کسی پیر کے مزار پر منتیں پوری کرنے پر کچھ پکتا ہے۔ فاتحہ دینے کیلئے بجی ریڈی کا گماشتہ بلایا جاتا ہے۔ مرغیاں ذبح کرنا ہو یا فاتحہ دینا ہو، وہ نل پر نہا کے صاف کپڑے اور جالی دار ٹوپی اوڑھ کے فوراً حاضر ہو جاتا ہے۔ اسی طرح اس نے اپنی گرہستی چلائی۔ بیوی اور تین بیٹیوں کی سرپرستی کی۔ وہ خود کسی درگاہ کا متولی تھا مگر کم ہی درگاہ میں حاضری دیتا۔ ہر وقت نشہ میں مدہوش رہنے والے کا وہاں کیا کام۔ پھر یہ پینے پلانے کی عادت ایسی پختہ ہو گئی تھی کہ اب وہ بغیر پئے رہ بھی نہ سکتا تھا۔ خدا بھلا کرے بچی ریڈی کا اس کے وصول شدہ پیسوں میں سے وہ اپنے لئے سستے گڑمبے کی بوتل ضرور خرید لیتا۔ زمیندار سب جانتے ہوئے بھی اسے کچھ نہ کہتا۔ کام کا آدمی تھا نہ ہو
ہر وقت اس کے ہاتھ میں ایک موٹا سا ڈنڈا ہوتا جس کے آخری سرےر لوہے کی پٹی ٹھنکی ہوتی۔ مشہور تھا کہ اس زمیندار کے گماشتہ نے کئی سرکش آدمیوں کے سر کھول دیئے تھے۔
گاؤں کے درمیان بڑا سا تالاب تھا جس کے اطراف مویشی گھاس چرتے۔ بھینس پانی کے اندر بیٹھی جگالی کرتی رہتیں۔ گاؤں کے بچے اور مویشی چرانے والے گڈریے سامنے میدان میں کھیلتے رہتے۔ چھوٹے چھوٹے بچوں میں ذمہ داری کا یہ احساس بتاتا ہے کہ وہ کمسنی ہی میں اپنا بوجھ خود اٹھانے کے قابل بن جاتے ہیں اور ماں باپ کا بوجھ ہلکا کرنا چاہتے ہیں۔
مویشی چرانا، کھیتوں کی مینڈھیں بنانا ، ماں کے ساتھ گھر کو چونے و لال مٹی سے پوتنا اور پھر گاؤں کے اسکول میں پڑھنے جانا ، اپلے جلا کر پانی گرم کرنا ، مویشیوں کو چارہ ڈالنا ، تالاب پر کپڑے دھوتے ہوئے گھانس چرنے والے مویشیوں پر نظر رکھنا ، کتنے کام ہیں ان ذرا ذرا سی جانوں کیلئے اسی طرح گاؤں کے کچے راستوں پر بھاگتے بھاتے وہ جوان ہو جاتے ہیں۔
بدھ کو بازار لگتا ہے جس میں ضرورت کی ساری چیزیں بکتی ہیں۔ ش ہر سے دو چار سستے کپڑوں کی دوکانیں بھی آ جاتی ہیں۔ اس بازار میں مویشی المونیم کے کم قیمت والے برتن ، صراحیاں ، گھڑے ، بٹیاں ، ٹوکرے ، چٹائیاں ، بوریئے ، آئینے ، پاوڈر ، ہینڈ لوم کی ساڑیاں ، چہلواری ، موٹی ململ اور بچوں کیلئے ریڈی میڈ رنگین کپڑے۔ کم از کم دو فرلانگ تو لگتا ہی ہے بازار ، جس میں گوشت ترکاری اور کبھی مچھلی بھی ملتی ہے۔ گوشت صرف بازار کے دن ملتا ہے۔
یہاں ایک پکی دوکان قادر بی کی ہے جس میں ہر وقت ٹیپ ریکارڈ بجتا رہتا ہے۔ اس کا شوہر مزدوروں میں بھرتی ہو کر باہر چلا گیا تھا۔ قادر بی نے چھ ایکڑ زمین خرید لی ہے۔ اور اب دوکان پکی بن گئی ہے۔ اکثر ضرورت کی چیزیں قادر بی کی دوکان پر مل جاتی ہیں۔ اس کے پاس باہر کا کچھ سامان بھی جمع ہو گیا ہے مگر گاؤں کی عام حالت افلاس زدہ ہے۔ ونوبا بھاوے جی کی پد یاترا میں پچاس ساٹھ ایکڑ زمین بھو دان تحریک کے تحت دی گئی تھی۔ مگر دی گئی صرف کاغذ پر وہ زمین اب بھی وینکٹ ریڈی کے قبضے میں ہے۔
یوں بھی صرف زمین سے کیا ہوتا ہے۔ دانہ چاہئے ، کھاد چاہئے ، کام کرنے والے چاہئے ، ہل چلانے کیلئے بیل چاہئے ، پانی کیلئے چاہئے۔ پھر الٹا زمیندار کا قرض چڑھتا چلا جاتا ہے ، بہتر طریقہ وہی ہے کہ بڑے زمینداروں کے کھیتوں اور گھروں میں کام کرو اور موٹا جھوٹا کھاؤ ، اور کوئی صورت بہتری کی ہو نہیں سکتی۔
کبھی کبھی شانی کے طعنوں سے تنگ آ کے وہ سوچتا کیوں نہ قادری بی کے گھر والے کی طرح مزدوروں میں بھرتی ہو کر باہر چلا جائے۔ مگر یہ باہر کا چکر بھی تو ہزاروں روپئے چاہتا ہے۔ یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ اب کمائی کے لئے باہر جانا بھی بند ہو جائے گا۔ لوگ واپس آ جائیں گے۔ بس بھگوان جس حال میں رکھے خوش رہو۔
کیا بھگوان کی زبردستی ہے ؟ رگھو کے ، اندر کہیں سے ایک چنگاری اڑتی۔ پھر اس کا سارا وجود دہک اٹھتا۔ وہ ایک ایسی بھٹی بن جاتا ہے جس میں لوہا، فولاد ، سب کچھ پگھل جاتا ہے۔ وہ آنسو پی جاتا اور مٹھیاں کس کے دیوار پر مکے برسانے لگتا۔
وہ دن بدن بدلتا گیا۔ زمیندار کے کارندے پکڑ کر لے جاتے۔ مار پیٹ کرتے ، وہاں سے چھوٹ کر وہ اور زیادہ خطرناک منصوبہ بناتا ، جب شہر جانا وکیلوں سے مل کے گاؤں کے حالات کے بارے میں مشورے لیتا۔ وینکٹ ریڈی بھی اس کی آگ سے پگھلتا گیا۔ اس کا قرض معاف کر کے اس کی زمین واپس کر دی۔ زمیندار جانتا تھا کہ مخالفت کرنے والے پر عنایات کی بارش کر دو تاکہ آگ پھیل نہ سکے۔ رگھو کی کامیابی نے دوسرے کاشتکاروں کی ہمت بندھائی۔ اب وہاں بہت سے کسان اپنی زمین اور کھیت رکھتے ہیں یہ سب رکھو کی لگائی ہوئی آگ ہے۔ اب اس کو آگ سے کھیلنا آ گیا ہے جب آگ سے کھیلنے کا فن آ جاتا ہے تو زندگی کی ، کٹھنائیاں ، پریشانیاں اور تکلیفیں سب حقیر لگتی ہیں۔ اس کا دل و دماغ عام لوگوں سے الگ کام کرتا۔ وہ دنیا بھر سے بے خبر اپنی گرہستی ، اپنے کھیت اور صرف اپنی زمین کے بارے ہی میں نہیں سوچتا تھا بلکہ سارے کسانوں کی عام زندگی کے بارے میں بھی اس نے خیالوں ہی خیالوں میں کئی نقشے بنائے تھے۔
پھر وہ نیک بند ہونے کے بعد شام میں بنک کے سامنے والے چبوترے پر بیٹھ کے چلم کے کش لیتا تو وہ سارے نقشے اپنے ساتھیوں کو بھی دکھاتا جاتا۔ کچھ سمجھ میں آ جاتے اور کچھ لاکھ کوشش پر بھی لوگوں کو وہ سمجھا نہ سکتا اور سامنے سڑک پر کسی نہ کسی کے گذرنے پر سرگوشیاں بند ہو جاتیں۔
پچھلے سا ل جب سوکھا بڑا تھا تو زمیندار کے گودام سے کسی نے آدھا اناج غائب کر دیا تھا۔ زمیندار کے کا رندے رگھو کو پکڑ کے لے گئے مگر کب تک حبس بیجا میں رکھتے ؟ آخر چھوڑ دیا۔
رگھو اکیلا کسان تھا جس نے گاؤں کے اسکول سے ساتویں کلاس پاس کی پھر پرگی جا کے میٹرک کیا۔ اس نے فرسٹ کلاس مارکس لئے تھے۔
وہ آگے پڑھنا چاہتا تھا اور اس کا باپ اس کو پڑھانا نہ چاہتا تھا ۔ اتنے فاضل پیسے کس کے پاس ہیں کہ شہر بھیج کر آگے پڑھا یا جائے۔
وہ خوب رویا تھا ، چیخا و چلایا تھا۔ مگر بغاوت کا جوالا مکھی تب بھی اس کے سینے میں سلگ رہا تھا۔ اُس نے گاؤں کی اس چھوٹی سی کنٹین میں کام کرنے سے انکار کر دیا تھا جو اُسکا باپ اور چاچا مل کر چلاتے تھے اور جو دو بڑے جھونپڑوں پر مشتمل تھی۔
اب گاؤں میں بنک بھی کھل گیا تھا اور کسانوں کا پچھڑا ہوا ، حالات سے مجبور اور پسا ہو ا جتھا بھی بنک سے قرض لے سکتا تھا مگر یہ بھی سچ تھا کہ یہاں کا چند افراد پر مشتمل ، اونچے زمینداروں انکے رشتہ داروں اور دوستوں کا حلقہ جو انسانوں کو مختلف خانوں میں بانٹ کر اپنا نام سر فہرست رکھتا تھا اور اپنی ٹانگ ان معاملات میں پھنسا کر رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوشش میں مصروف تھا۔
بنک کے منیجر کو اپنے گھر دعوتیں دیکے بلانے ، اس کو مختلف لوگوں کے بارے میں غلط باتیں بتانے ، وقت پڑنے پر گواہی نہ دینے اور الٹی سیدھی باتیں بنا کر بہکا نے میں یہ مٹھی بھر آدمی اپنی اور اپنے ساتھوں کی ساری قوت سمیٹ کراس کام میں جٹ گئے تھے۔ مگر رگھو نے مویشی اور دانہ بھی خرید لیا تھا۔ اپنی زمین پراس نے دوسرے کسانوں سے مل کے دھان کی کا شت کی تھی۔ کچھ کسانوں نے رگھو کی ہدایت پر ایک دوسرے کی مدد کرنے اور ایک دوسرے کے کھیتوں میں کام کر کے دوستی کی بنیادوں کو مضبوط بنانے کا وعدہ بھی کیا تھا۔ پھر ان کی بیویاں و بچے بھی تھے۔ اس طرح ہمت کر کے رگھو کے آگے ڈھکیلنے پردہ زمیندار کی نظروں میں کھٹکنے لگے تھے۔
دوسرے مسائل بھی تھے اناج کو پہلے جاگیر دار ، زمیندار ، انکے کا رندوں میں اور گاؤں کے بڑے لوگوں میں بانٹ دیا جاتا تھا۔ تھوڑ ابہت اناج جو بنڈیوں پر لاد کر شہر کی منڈ یوں میں بیچنا پڑتا تھا۔ وہ ان کسانوں کیلئے پورا نہ پڑتا۔ نہ رکھا ہوا ، نہ فروخت کیا ہوا۔ پھر توکسی کسان کے پاس زمین ہی نہیں رہ گئی تھی۔ کسی نہ کسی ضرورت سے یا کھیتی باڑی کی سہولتیں نہ ملنے پر زمین کوڑیوں کے دام زمیندار کے پاس خود بخود چلی جاتی تھی زیادہ آسانی اس میں تھی کہ زمینداروں کے کھیتوں میں مزدوری کر کے پیٹ بھر نے کا سامان کیا جائے پھر ان کی یہ محنت تو منڈیوں میں فروخت ہو جاتی مگر دام گھٹا کے صرف مزدوری زمیندار ان کو دیتا تھا۔ اس طرح وہ معمولی مزدور تھے۔ اپنے کھیتوں پربھی ان کی حیثیت ایک مزدور کی تھی رگھو نے آہستہ آہستہ اپنے کھیتوں پر اناج اگانا شروع کیاتوسارے ساتھیوں نے ساتھ دیا۔
شانی نے ڈھولک اور زمانے سے بیکار پڑے سامان سے گھنگھرو نکال کے لنگیا و گھومری کو دیئے تھے۔ ناچ گا کے ان سب نے ان کی خوشیوں میں برابر کا حصہ لیا۔
اس افلاس زدہ گاؤں میں بنک صرف کچھ سال پہلے کھولا گیا تھا ورنہ حالات شاید بد سے بتر ہو گئے ہوتے۔
یو بھی عام زندگی غربت ، افلاس اور تنگدستی میں گذر رہی تھی۔
رگھو نے بنک کے گاؤں میں آتے ہی ساری مردہ زندگیوں میں جان ڈالنے کی کوشش کی۔ نہ صرف خود بنک سے قرض لے کے مویشی خریدے بلکہ دوسروں کو بھی جھنجھوڑا خود میر کا رواں بن کر سب کا ہاتھ پکڑ پکڑ کے اپنے سا تھ کھینچتا رہا۔
ان کو لے کر چلتا رہا۔ ان کے راستوں میں اپنے ارادوں ، اپنی پر عزم باتوں اور منصوبوں کی مشعلیں جلاتا رہا۔ ان کے ساتھ ساتھ چلتا رہا ایک کمرہ کے پوسٹ آفس میں ، وہ اکثر پوسٹ ماسڑ سے ملنے آتا۔ شہرسے آئی ہوئی اپنی چھٹیاں ، پرچے اور دوستوں کے خطوط لینے آتا۔
کبھی وہ دیر تک پو سٹ ماسڑ سے باتیں کرتا رہتا۔ وہی ایک پڑھا لکھا دوست تھا اس کا … اس کے کسان ساتھوں میں چوتھی ، پانچویں کلاس تک پڑھے ہوئے کچھ دوست ضرور تھے مگر پچھلی پیڑھی نے تو کچھ بھی پڑھنا لکھنا نہیں سیکھا تھا۔ انھیں زمینداروں نے ساہوکاروں نے اور چھوٹے موٹے بنیوں نے کو مٹیوں نے خوب لوٹا تھا۔ گاؤں میں ان کے تنگ تاریک پکے مکان تھے جن کی چھتوں پر لوہے کی سلاخیں سمینٹ اور گارے میں بٹھائی گئی تھیں تاکہ چور اچّکے چھت کھول کر اندر نہ کو دسکیں۔
باہر دوکانیں تھیں ، اندر گھر بھی تھے اور گو دام بھی … زندگی کی چھوٹی چھوٹی چیزیں یہاں سے مل جاتی تھیں۔ اُدھار کھاتے بھی چلتے مگر لکھنے والے صرف بیوپاری تھے۔ خرید نے والے تو جاہل تھے۔ بے چارے تو اپنی ذہنیت سے مجبور تھے چھوٹے چھوٹے قرضے اکھٹے کر کے کوئی بڑی چیز ہتھیا لیتے۔ غریب اور غریب ہو جاتے۔ پیسہ والوں کے یہاں اور پیسہ آ جاتا۔
رگھو نے اپنی زمین وینکٹ ریڈی سے چھڑائی تواس پر ہل چلا کر، دانہ ڈال کر ، اس کی دیکھ بھال کرتے ہوئے بھی ہزاروں فکریں تھیں جواس کو دبوچے ہوئے تھی
کچھ دن بعداس نے دیکھا کہ فوڈ کارپوریشن آف انڈیا کی طرف سے ڈھنڈ ورا پیٹا جا رہا ہے کہ وہ گاؤں والے جوکسان ہیں اور جن کا اناج درمیانی لوگ خرید کراورکسانوں سے کم دام میں لے کے و اکٹھا کر کے کارپوریشن کو مقررہ لیوی پر فروخت کرتے ہیں۔ کسان خود اپنے آپ میں ہمت پیدا کریں اور خود کارپوریشن سے راست معاملت کریں تاکہ دھان بہتر ہونے کی صورت میں لیوی کے مقر رہ نرخ سے بڑھا کر لیا جا سکے ورنہ یہ بڑھی ہوئی رقم درمیانی آدمی ہضم کر جاتے ہیں۔ پھر کسانوں سے یہ لوگ الگ اپنا حصہ وصول کر لیتے ہیں۔ اور اس طرح کسان اپنے آپ سے انصاف نہیں کر پاتا۔ اگر کسان کے پاس پانچ بورے بھی اناج کے ہیں تو وہ راست معاملت کر سکتا ہے ‘‘ رگھو دوڑا دوڑا پوسٹ ماسڑ کے پاس گیا وہاں سے فوڈ کارپوریشن کو چھٹی پوسٹ کی اور گھر چلا گیا۔ بہت دیر تک وہ شانی سے باتیں کرتا رہا۔ آج کتنی مدت بعد اس نے شانی سے اتنی باتیں کی تھیں … پھر بنک میں آ کے کلرک سے باتیں کرتا رہا وہیں دیوار پر اس نے اشتہار لگا دیکھا۔ وہی باتیں لکھی تھیں جنکا ڈھنڈورا پیٹا گیا تھا … یہ اشتہار بھی فوڈ کارپوریشن آف انڈیا کی طرف سے تھا۔ اس کی فصل کٹی توساتھیوں کے اناج کی بات بھی چھڑی اور دھان کے بورے دو بیل والی بڑی بنڈیوں میں لاد کے سب شہر چلے۔ رات بھر سڑک کے کنارے قطار کی صورت میں بنڈیوں چلتی رہیں۔
صبح دفتر کے بڑے احاطے میں وہ سب بیلوں کو کھول کر باہر لے جا رہے تھے۔
سارے کام ان کی امیدسے بہتر ہوئے تھے اور اس پہلی کامیابی پران کے دل خوشی سے جھوم رہے تھے۔ ورنہ ہوتا یہ تھا کہ گاؤں کے ’’دادا‘‘ قسم کے لوگ اپنی ہمدردی جتا کے کسانوں سے ان کا اناج لے کے اکٹھا کر لیتے اور دونوں طرف سے پیسہ بٹورتے کسان کو فائدہ کم ہی پہونچتا۔ یہ درمیانی آدمی مقررہ لیوی سے گھٹا کے رقم کسانوں کو دیتے جبکہ کارپوریشن کبھی مقررہ لیوی سے کم قیمت ادانہ کرتا بلکہ دھان کی بہتر قسم پر مقررہ لیوی سے زیادہ قیمت ادا کرنے کا طریقہ رائج تھا ۔
اکثر یہ درمیانی آدمی ملر بھی ہوتا اور وہ دھان سے چاول نکال کے وصاف کر کے بیچتا۔ کوالٹی انسپکٹر نے رگھو کو بتا یا تھا کہ وہ کم اناج بھی لا سکتا ہے اور زیادہ سے زیادہ بھی فروخت کر سکتا ہے۔
کارپوریشن اور کسان کے درمیان یہی کوالٹی انسپکٹر کام کرتا ہے اس طرح گاؤں کے دادا یا ملر کی ضرورت درمیان میں بالکل نہیں پڑتی۔
اب چھوٹے چھوٹے گاؤں بھی ان باتوں کو سمجھتے ہیں اور درمیانی لوگ انھیں دھوکہ نہیں دے سکتے۔ یہ جاگرتی اس طرح آئی ہے کہ زمیندار کے کا رندے بھی چوکنے رہتے ہیں۔
جہالت کے اندھیرے میں لپٹی ہوئی زندگیاں بھی اپنے اطراف اجالے کی بکھری ہوئی کرنوں کو محسوس کر رہی ہیں۔
رگھو نے کسانوں کا اعتماد حاصل کر لیا ہے اور اب تواس گاؤں کی اہم ضرورت بن گیا ہے۔ ابتداء میں جب رگھو نے اور اس کے ساتھیوں نے اپنی زمین پر اناج اگایا تھا تو یہ کام ان سب نے مل جل کر لیا تھا ورنہ زمینداروں کے لئے تو گاؤں کے سارے لوگ مزدوری کیلئے نا کا فی تھے۔ پھر انھیں مزدور کہاں سے ملتے ؟
سب نے مل جل کرکام کیا تھا گھر والی اور بچے تک ہاتھ بٹا تے۔ اب دیکھتے ہی دیکھتے رگھو نے سب کو اپنے اعتماد میں لے لیا تھا۔ لوگ اس میں بڑی مہانتا ڈھونڈھتے ارے رگھو تو ضرورکسی بھگوان کا اوتار ہے … کوئی اسے بلند ترین مقام تک لے جاتا … اونچا … اور اونچا۔ مجھے اس قدر اونچا مت اٹھا و جہاں پہونچ کر میری ساری اچھائیاں و برائیاں ،میری انتھک محنت اور جدوجہد صرف ایک ٹھنڈے کھردرے پتھر میں تبدیل ہو جائے۔ پھر میں مہمان کہاں رہ جاؤں گا۔ ایک ایسا پتھر بن جاؤں گا جو اپنی جگہ سے ذرا برابر بھی نہیں ہٹ سکتا۔ جس کے قدموں میں ناریل کے ڈھیر اور چہرے پر کم کم کے سرخ دھبے ہونگے۔۔ بے چین پتھریلی آنکھوں والے بتوں میں مہانتا کہاں دکھائی دیتی ہے۔ زندگی کو ایک زندہ آدمی کی طرح محسوس کرو۔ زندہ رہنے کیلئے محنت کرو۔ جدوجہد کرو جلانے جھپٹنے اور چھیننے کی طاقت پیدا کرو کہ یہی انسان کیلئے ضروری ہے انتھک محنت اور کوشش نے ہی خوبصورت بت بنائے ہیں اور انسان نے ہی اپن فن کی خوبصورتی ، کاوش اور عقیدت کو بھگوان کی مورتیوں میں منتقل کیا ہے۔ انسان کا زندہ وجود بے جان پتھر سے کہیں اہم ہے۔ وہ اپنے الفاظ میں ان کو سمجھاتا رہا، مفہوم یہی تھا۔
اس چھوٹے سے غربت کے مارے گاؤں کی کہانی لکھتے ہوئے میں نے اپنے احساسات اپنے جذبات اور اپنے الفاظ کو بھی استعمال کیا ہے مگر میں سمجھتی ہوں کہ رگھو نے اس سے زیادہ پر اثر اور سب کی سمجھ میں آنے والے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ ہاں اس کے سوچنے اور سمجھنے کا ڈھنگ سب سے الگ تھا۔ عام انسانوں سے الگ اس کو پہچانا جا سکتا تھا ایسے ہی لوگ انقلاب لاتے ہیں۔ پرانی روایات کو تہس نہس کر دیتے ہیں۔
انہیں آگ سے کھیلنے کا فن آتا ہے۔ وہ جس طرح جینا چاہتے ہیں ویسی ہی زندگی بنا لیتے ہیں۔ مجھے یوں لگا جیسے رگھو آگے ہی آگے پڑھتا جا رہا ہے۔ کیا پتہ آنے والی پیڑھی اس کے قدموں کے نشان ڈھونڈھتی ہوئی آگے نکل جائے۔ میں وہاں بنک منیجر کی بیوی کی حیثیت سے گئی تھی اور ایک عرصہ تک وہاں رہ کے میں نے اس کہانی کو اپنی آنکھوں سے خود دیکھا اور محسوس کیا ہے۔ میں ایک کہانی کار بھی تو ہوں۔ میں نے اپنا کام مکمل کیا اس ……کو لکھتے ہوئے جیسے میرا قلم بھی آگ اگلتا رہا۔ جس سے بغاوت کی آنچ آتی رہی۔
٭٭٭
گُل
میں نے پہلے پہل گل بانو کو اماں کے پیروں کے پاس بیٹھا دیکھا تھا۔ میلے کچیلے گھیر دار لہنگے کو سمیٹتے ہوئے ، پھٹے ہوئے گریباں پر باریک ملگجی ڈوپٹہ لپیٹے ، منے ، ہاتھوں کے پیالے میں تھوڑی ٹکائے وہ اماں کو ٹکر ٹکر دیکھے جا رہی تھی۔ اس کے بیٹھنے کا انداز اور بغیر پلکیں جھپکائے ایک ٹک دیکھتے رہنے سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ انتہائی انہماک سے ان کی باتیں سن رہی ہے۔ باورچی کے پاس ہی ستون کی آڑ میں کھڑا تھا۔
میں ورانڈے سے گذر کے اپنے کمرے میں جاتے ہوئے باورچی سے پوچھا ہت خان یہ کون لڑکی ہے۔
بی بی جی یہ گل ہے۔ وہ بے تکے انداز سے مسکرا کے بولا۔
گل۔
جی ہاں اس کا نام گل بانو ہے۔ اس بھری پوری دنیا میں بالکل اکیلی ہے سرکار ایک پھوپی تھی سو وہ اللہ کو پیاری ہو گئی۔ سوچا چھوٹے ہوئے کام نپٹانے میں تکلیف ہوتی ہے۔ دوڑ بھاگ کے کام کاج کرے گی تو پاو روٹی اس کے حصہ میں بھی آ جائے گی۔ ورنہ بھوکوں مر جائے گی مالک۔ پھر اس دیہات میں یوں بھی مہنگائی کے مارے تاک میں دم آ گیا ہے۔
اچھا اچھا۔ اب جا کے چائے پانی کا انتظام کرو۔ اماں نے اس کو ٹوک دیا۔ اور میں اسٹول پر کتابیں ڈال کے ہاتھ منہ دھونے چلی گئی۔
بڑی دیر تک برآمدے سے اماں کی آواز سنائی دیتی رہی۔ وہ کبھی گل سے اور کبھی ہمت خان سے باتوں میں لگی رہیں۔ اور میں چائے پی کر ، اپنے کمرے میں آ گئی۔ اسکول کا کام اس دن کی معمول سے زیادہ ہی تھا۔ میز پر کتابیں پھیلائے میں کرسی پر سکڑی سکڑائی بیٹھی ہوم ورک کر رہی تھی۔ رات کے دس بج چکے تھے۔ کھڑکی سے گذر کر آنے والی سرد ہوا جس میں تیر کی طرح لگتی تو روئیں بھرا جاتے۔ میں کتاب بند کر کے دلائی سنبھالتی ہوئی اٹھی تو کرسی کے پاس گل کو دیکھا جو سردی سے بچنے کیلئے گٹھری بنی میری دلائی کے اس حصہ کے نیچے پڑی تھی جو کرسی سے نیچے لٹک رہا تھا۔
اس کے گھٹنے پیٹ میں لگے ہوئے تھے۔ دونوں ہاتھ چہرے کے اطراف احتیاط سے رکھے تھے اور اس کی بڑی بڑی سیاہ آنکھیں بند تھیں۔
ہائے یہ بیماری یہاں پڑی ہے۔ نہ جانے اس نے اپنا کام اب ختم کیا اور کب دبے پاؤں یہاں آ کے پڑ گئی۔
میں نے نظر بھر کے اس کو دیکھا سرخ وسفید رنگت ، بڑی ، بڑی خوبصورت آنکھیں جو بند تھیں۔ گول گول سفید بازو، گداز انگلیاں ، عمر مشکل سے اٹھ سال ہو گی۔ دلائی اچھی طرح اس کے اطراف لپیٹ کے اس میں نے اس کو اٹھا لیا اور تخت پر لٹا کے ایک پرانی کمبل بھی اس پر ڈال دی اور خود اپنے پلنگ پر آ کے لحاف اوڑھ لیا۔
سویرے اماں مجھے نیند سے جگانے کیلئے کمرے میں آئیں تو گل کو تخت پر لٹا دیکھ کر آگ بگولہ ہو گئیں۔ کان کھول کے سن لو۔ یہ نخرے نوکروں کے ساتھ اچھے نہیں لگتے کیا پتہ کس کی لڑکی ہے کب تک رہے۔ اب نوکر ڈلائیاں اور کمبل اوڑھ کے ہمارے ساتھ سوئیں گے۔ وہ بی بی واہ۔ اس میلی کچیلی لڑکی کو نئی دلائی میں لپیٹ دیا۔ ہائے ہائے ، دلائی غارت کر دی۔
گل نے اماں کی آواز سن لی تھی اور چھلانگ لگا کے تخت سے فرش پر اتر آئی جلدی جلدی پلکیں جھپکاتی وہ حیرانی سے کبھی ماں اور کبھی تخت کو دیکھتی رہی۔
نہیں بی بی جی۔ میں تخت پر نہیں سوئی تھی۔ میں تو یہاں نیچے فرش پر پڑی تھی چھوٹی سرکار کے قدموں میں۔ یہاں ! اس نے کرسی کے نیچے اشارے سے بتیا۔ لمحہ بھر کو مجھے اس کی بے بسی اور بے چارگی پر ترس آ گیا۔
اماں یہ سچ کہتی ہے۔ میں نے ان کو یقین دلانا چاہا مگر اماں کا دل نہ جانے نوکروں کے معاملے میں انتا سخت کیوں تھا۔ وہ گل کا ہاتھ پکڑ کے گھسیٹی ہوئی باہر لے گئیں۔
شام تک اتنے سے واقعہ پر ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔
میں اسکول سے آئی تو کچھ دیر بعد اس واقعہ کی گونج میں مجھے اپنے کمرے میں سنائی دی۔
گل دور کر میرے پاس آئی اور میرا سینڈل اتارنے لگی۔ اس نے میرے پرانے کہرے جو کانٹ چھانٹ کے اس کیلے سی دیئے گئے تھے۔ پہن رکھتے تھے نہانے کے بعد اس کا چہرہ خوب نکھر آیا تھا۔گھونگریالے ، بال کپڑے کی ایک دھجی کی مدد سے سر کے پیچھے باندھ دیئے گئے تھے۔ اتنے بے تکے ڈھیلے ڈھالے لباس میں بھی گل بہت پیاری لگ رہی تھی۔
اس نے چپکے سے مجھے بتایا کہ وہ پرانی کمبل اماں نے دے دی ہے اور وہی استعمال کرے گی۔ نئی دلائی کے ٹانکے ادھیڑ دیئے گئے تھے۔ باورچی خانے میں پڑا ہوا بان کا کھٹولا اسے دے دیا گیا تھا۔ اس طرح گل کی زندگی میں کچھ ترتیب آ گئی تھی۔ اسے کام کرتا دیکھ کر حیرت ہوتی تھی کہ اتنی ذرا سی عمر میں کام کا یہ سلیقہ ، ترتیب اور تیزی اس نے کیسے اپنی طبیعت میں پیدا کر لی۔
رفتہ رفتہ اماں جیسی پتھرول بھی اس کے لئے موم بن رہی تھیں۔ اب گل کے کانوں میں کم قیمت آویزے جھولتے رہے تھے بال پابندی سے چوٹیوں کی شکل میں گوندھے جاتے تھے۔ پیروں میں ربر کی معمولی چپل بھی آ گئی تھی۔
اس طرح گل اپنی ذاتی خوبیوں ، سلیقہ مندی اور انتھک محنت سے پتھر دلوں کے درمیان اپنے لئے راستہ بنائی ہوئی تھی۔ ننھا منو اور ڈالی بھی اس کے بغیر تنہائی محسوس کرتے۔
اماں کے سر میں تیل لگانے ، وضو کرانے سے لے کے ،ناشتہ میز پر لگانے اور چھوٹے بچوں کو دودھ دینے ، ٹفن رکھنے اور ان کی کتابیں بیاگ میں رکھنے کی ذمہ داری تک اس نے اپنے سر لے لی۔
میرے اسکول سے آنے پر وہ دوڑ کے کتابوں کا بیاگ ہاتھ سے لے لیتی۔ میرے لاکھ منع کرنے پر بھی میرا سینڈل اتارتی اور جب میں ہوم ورک کرنے بیٹھی تو وہ بھی منو سے کاپی پنسل مانگ کے میرے پاس آ بیٹھتی۔ اس کو پڑھنے کا بے انتہا شوق تھا۔ چلتے پھرتے ،کام کاج کرتے وہ میرے لکھ کر دیئے گئے الفاظ دہراتی۔ یاد کرتی اور رات کو مجھے وہ سارے الفاظ اس کی کاپی میں لکھے ہوئے ملتے جن کو لکھنے کی میں اسے تاکید کر جاتی۔ اس طرح گل خوبیوں کا ایک مجموعہ تھی۔ لاکھ سوچنے پر بھی اس میں کوئی برائی نظر نہ آتی۔ اس کی سیاہ آنکھوں میں عجیب سی اداسی چمکتی۔
ہم سب میں گھلے ملے رہنے کے باوجود اس کی اپنی ایک تنہا شخصیت تھی گھر بھر میں سب ہی کی اس سے کوئی نہ کوئی غرض وابستہ تھی۔ مگر وہ اپنے لئے تنہا کچھ نہ چاہتی ہم سب کی ضروریات کا خیال رکھنا۔ ہمارے ہر اشارے پر دوڑنا ، اور ہماری خوشی و ناراضگی کا پاس و لحاظ کرنا اس کو آتا تھا۔ مگر ہم نے کبھی اس کی کسی خواہش کو جاننے کی کوشش نہ کی۔ ہم میں سے کسی نے اس کی پسند وناپسند پر توجہ نہ دی پھر بھی وہ اپنی اداس آنکھوں کے ساتھ مسکراتی رہتی۔ ہماری پسند سے پرانے کپڑے پہن لیتی۔ ہماری پسند کا باسی سالن ، اور کھانا کھا لیتی ، منو اور ننھے کی پسند کا کھیل خود بھی کھیلتی۔ اپنی اچھائی کا نقاب پر برائی کے چہرے پر ڈال کے وہ خوبصورتی وحسن پیدا کر دیتی۔
ابا کی بدلی ہو گئی اور ہم لوگ دکن آ گئے۔ باورچی اتنی دور آنا بھی نہ چاہتا تھا۔ مگر گل کہاں جاتی ؟ اور پھر ہم سب کے بغیر اس کی زندگی کس قدر سپاٹ اور یکسانیت سے بھر پور ہوتی۔ مکان سجانے اور چیزیں ٹھکانے پر رکھنے میں وہ دوسرے نوکروں کا ہاتھ بٹاتی۔ سارا سارا دن نئے گھر کی سجاوٹ اور آرائش میں لگی رہتی تھی۔ پردے لگانے ، صوفے ، کشن ، ستڑ پیس ،ترتیب سے رکھنے ، بڈ روم اور منو ڈالی کے کمرے سجانے سے لے کے ننھے کیلئے جگہ کا انتخاب بھی اسی نے کیا تھا۔ میرا کمرہ بھی اٹھا اپنے ہاتھوں سجایا تھا۔
اب تو ا سنے ابا کے ضروری کاغذات اور فائلس بھی اپنی گرانی میں لے لئے تھے۔ ابا کے ضروری کاغذات نہ ملتے تو گل فوراً ڈھونڈ نکالتی منو اکثر کنجیاں اور پن بھول جاتا اور گل اس کی الماری میں رکھ آتی۔ میں سردیوں کے موسم میں کبھی اپنا سوئیٹر پہننا بھول جاتی تو گل تیزی سے چل کے بس اسٹیج مرجھا جاتی۔ ابا دفتر جانے لگتے تو گل سے زیادہ مصروف اماں بھی نہ دکھائی دیتیں۔ ناشتہ میز پر لگاتا ، پانی سے بھرا گلاس ان کے ہاتھ میں تھمانا کوٹ پہننے میں ابا کی مدد کرنا ، ان کے سارے ضروری کاغذات احتیاط کے ساتھ منشی صاحب کے حوالے کرنا ، اور چلتے وقت پان کی ڈبیہ دینا وہ کبھی نہ بھولتی۔ اب تو گل کے بغیر ہم سب بالکل فالج زدہ بڈھوں کی طرح فائل ہو گئے تھے۔ ان سات برسوں میں گل نے سب کو اپنا محتاج بنا لیا تھا۔ اس کے بغیر تو کوئی کام جی کو نہ لگتا۔ وہ گھر میں سب سے زیادہ خوبصورت تھی۔ نئے لوگ اس سے بڑے احترام سے بات کرتے۔ کوئی بھی اس نے لے پالک یا نوکر ماننے کو آسانی سیتیار نہ تھا۔ گل تھی بھی ایسی ہی۔ بے حد شائستہ اور تمیز دار ، کوئی ایک بار اس سے ملتا تو دوبارہ ملاقات کا خواہش مند رہتا۔
ڈرائنگ روم میں ، ہر ملنے جلنے والے کی چائے پان سے خاطر کرنے کا گر خاص طور سے اسے معلوم تھا۔ گھر میں اماں سے ملنے آنے والیوں کے ساتھ نرم میٹھی گفتگو کر کے اس نے پورے ماحول کو سوشل اور خوشگوار بنا دیا تھا۔ ہر شخص اسے اپنے جسم کا ایک بے حد کام کرنے والا عضو سمجھتا تھا۔ اس طرح وہ ہم سب کی زندگی کا لازمی جز بن گئی تھی۔
ایسا مٹھیا ٹھنڈا جھرنا جس سے ہم سب کی پیاس بجھ جاتی۔
عید برات میں سب سے زیادہ گھر کی صفائی ،سجاوٹ ، کپڑوں کی سلائی اس کو کئی کئی دن مصروف رکھتی۔ ما اں کو تو یہ سوچ سوچ کر ہول آتا کہ ایک دن گل بھی کسی شریف آدمی سے بیاہ دی جائے گی۔ پھر ہم سب کا کیا ہو گا۔ ہمارا گھر خزاں نصیب چمن کی طرح ویرانہ لگے گا۔ گل اپنی ساری مہک ساتھ لے جائے گی جہاں رہے گی اپنی جنت خود ہی تخلیق کر لے گی۔ وہ سچ مچ گل ہے۔
کبھی کبھی میں بھی ان سارے مسائل پر بڑی سنجیدگی سے سوچتی اس نے ہائی اسکول کا پرائیوٹ امتحان بھی کامیاب کر لیا تھا۔
میں جب رات رات بھر تھیسس لکھنے میں مصروف رہتی تو وہ بھی اپنی کتابیں لئے وہیں آ جاتی۔ زیادہ دیر گذرتی تو تھرموس سے گرم چائے پیالی میں انڈیل کر میرے آگے میز پر رکھ دیتی۔ اس کی آنکھوں میں خلوص و محبت کی ایک دنیا آباد تھی۔ میں اکثر اس کی شخصیت کے حسن سے مرعوب ہو جاتی سرخ وسفید چہرے پر سیاہ بڑی بڑی آنکھیں ، گداز جسم ، لمبی جھولتی ہوئی دو چوٹیاں جو اکثر کام کاج کے وقت سامنے آ پڑتیں اور وہ جھنجھلا کر انہیں پیچھے ڈال دیتی۔
سنجیدہ پر وقار مسکراتی شخصیت جو ہر ایک کو آرام پہونچانے کیلئے بنی تھی مگر اپنے آرام کے بارے میں جس نے کبھی نہ سوچا تھا۔
ایک دن عجیب سا اتفاق ہو اوہ اسی طرح پڑھ رہی تھی میں اپنے اطراف بہت سی کتابیں پھیلائے تحقیقاتی مقالے کے بارے میں سوچ رہی تھی کہ اس کی کتاب سے ایک کاغذ کا پرزہ نکل کے نیچے گر پڑا۔ اس کو پتہ نہ چلا گل کے جانے کے بعد میں نے وہ کاغذ اٹھا لیا۔ یہ منو کی تحریر تھی جو اس نے میڈیکل کالج کے ہاسٹل سے گل کے نام بھیجی تھی۔ اس تحریر نے مجھے چونکا دیا۔
اس نے لکھا تھا کہ ’’دوسروں کی پسند پر تو وہ زندگی گذارتی رہی۔ کیا اپنی پسند کی زندگی سمجھی نہ ملے گی۔ اور اگر اپنی پسند کے ساتھی کا نام اماں سے بتا کے وہ جدوجہد نہیں کر سکتی تو اب کی بار چھٹیوں میں خود اماں کو اپنی پسند کی لڑکی کا نام بتا دوں گا جس کو بچپن سے پوجتا آیا ہوں اور وہ نام ہے گل !
میں نے آہستہ سے وہ پرچہ کتاب میں رکھ دیا اور اس عزم کے ساتھ پلنگ پر لیٹ گئی کہ میں گل اور منو کی مدد ہر قیمت پرکروں گی۔
گل میں تو ساری خوبیاں اکٹھی ہو گئی ہیں۔ ہر وہ خوبی جو اونچے درجے کے خاندان کی لڑکیوں میں مشکل سے ملے گی۔ اماں کا قہر آلودہ چہرہ میرے آگے گھومتا رہا۔ ابا اور اماں کی پسند پر اس نے اپنی زندگی ، کے سات سال گذارے اور اپنی اتنی اونچی پسند پر شرما کے رہ گئی۔ کیا ہم اس کی کوئی خواہش کبھی پوری نہ کر سکیں گے۔ میں نے اداسی اور نیند کے ملے جلے احساس کے ساتھ سوچا۔
ہم سب پر تمہارا احسان ہے گل اور جھانسا تم نے ہماری ذرا ذرا سی خواہش پوری کی ہے وہاں منو کی یہ پسند اور تمہاری خواہش کو پورا کرنا ہمارا فرض ہے۔ شاید تمہارے احسانات کا کچھ بوجھ اس طرح ہلکا ہو سکتا ہے۔
اور میں نے ایک آہنی عزم کے ساتھ کروٹ بدلی۔
٭٭٭
ہڑتال
گوپی کی اداس آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے اور ماتھے پر ایک نیلی رگ ابھر آئی تھی پچیس برس میں وہ صرف دو بار رویا تھا۔ بچپن میں نہ معلوم کتنی بار مچل مچل کے آنسو بہائے تھے۔ کتنی بار بلک بلک کے رویا تھا مگر وہ لمحے اسے اب یاد نہیں تھے اس کی تازہ یادداشت میں تو صرف دو بار بہائے ہوئے آنسو محفوظ تھے۔
پہلی بار تو وہ اس وقت رویا تھا جب اس کی ماں مر گئی تھی اور دوسری بار اب جب کہ اس کو خود اپنے رونے کی وجہ معلوم نہیں تھی۔
میلے طاق پر پڑے ٹوٹے ہوئے آئینہ میں اس نے اپنے عکس کو گھور کر غور سے دیکھا اور اپنے آپ سے بولا۔ یہ آنکھوں کی اداسی ، یہ خشک ہونٹ اور یہ الجھے بال۔ کیا میں عمر میں صرف دو بار رویا ہوں۔ پھر یہ اداسی ، یہ وحشت کیوں ؟
نہیں نہیں۔ میں ہزاروں بار رویا ہوں۔ کیا ہوا جو آنسو نہیں ٹپکے۔ کیا ہوا جو کسی نے میرے آنسو نہیں پونچھے۔ مگر میں رویا ضرور ہوں۔ میں اپنے آپ کو صرف یہ سمجھا کہ بہلا لیتا ہوں کہ میں کبھی نہیں روتا۔ میں تو صرف قہقہے لگاتا ہوں۔ ہنستا ہوں دوسروں کوہنساتا ہوں اور ہمیشہ خوش رہتا ہوں۔ میں آج تک اپنے آپ کو دھوکہ دیتا آیا ہوں۔
اس نے اپنی میلی آستین میں گرم آنسو خشک کر لئے اور زبرسدتی ہونٹ پھیلا کر مسکرانے لگا۔ بالکل ایسے جیسے بچہ پیٹنے کے بعد مسکراتا ہے۔ رونے کے بعد کی ہنسی کتنی عجیب ہوتی ہے۔ آنسووں میں گھلی تلخ ہنسی۔
اپنی موٹی کھردری انگلیوں سے اس نے الجھے ہوئے سخت بالوں میں کنگھی اور سوکھے ہونٹوں پر زبان پھیری گر اس کے ہونٹوں کی خشکی دور نہ ہوئی۔ اس کی روح میں ایک عجیب سی تشنگی بس گئی تھی جو کسی طرح دور ہی نہ ہوتی تھی۔
بلکہ روز بروز بڑھتی جاتی تھی۔ آنسووں کی یہ دو بوندیں کیا پیاس بجھا سکتی تھیں۔ اس کا جی چاہتا تھا خوب پھوٹ پھوٹ کر روئے اندر ہی اندر جیسے بھٹی سلگ رہی ہو۔ جیسے دھواں اٹھ رہا ہو۔ اس کا دم گھٹنے لگا۔ اس نے گھبرا کر میل سے اٹے ہوئے چیکٹ تکیہ پر اپنا سر ڈال کے تکھے ہوئے بازوں میں منہ چھا لیا۔
اس کی اندھیری کو ٹھری میں ساری دنیا کی اداسی سمٹ آئی تھی۔ نا امیدی بے چینی اور الجھن ، جس نے اس کے دماغ میں اس قدر کشمکش پیدا کر دی تھی کہ کنپٹیوں میں درد ہونے لگا۔ اک نہ مٹنے والا اضطراب اس کے چہرے پر پھیل گیا۔ اس کے پپڑائے ہونٹ کانپ گئے۔ ہر دھڑکن ایک آہنی ہتھوڑا بن گئی کر اس کا سیند توڑ رہی تھی۔
دھڑ۔۔۔ دھڑ۔۔۔ دھڑاک
کیوں شور مچاتے ہو جی۔ انسان ہو کہ جانور۔ سٹھانی کی جوان لڑکی نے گلے میں چاندی کی ہنسلی گھما کر غصہ سے گوپی کو گھورا۔ وہ بوکھلا گیا ٹین کے بٹن میں کاج الجھ کر اس نے کرتے کا گلا بنہ کیا اور حواس ٹھیک کر کے لجاجت سے بولا۔ وہ وہ ذرا سٹھانی کو ادھر بلا دو۔ بڑا ضروری کام ہے۔
وہ وہ کیا کر رہے ہو؟ صاف بتاتے کیوں نہیں کیا کام ہے۔ ان کے سر میں درد سمجھے ؟ وہ نفرت سے جھڑک کے بولی۔
گوپی نے سوچا لہجے کے اعتبار سے تو بالکل سٹھانی ہے۔ پھرسنبھل کے نرمی سے بولا۔ بات یہ ہے کہ ان کے پاس میرے پیسے ہیں۔ آج ہڑتال کا دن ہے۔ ان سے کہا کہ۔ بھیک لینے کو اتنا غل مچایا ہے مفت خور کہیں کا۔ لڑکی پیر پٹکتی جھانجھن بجاتی چلی گئی۔
وہ سکتہ میں آ گیا تو وہ بھکاری ہے۔ آخر اس نے محنت کر کے ، خون پسینہ ایک کر کے پونجی جمع کی ہے کیا اپنی چیز واپس لینا بھیک مانگنے کے برابر ہے کیا۔ اس سے قبل کہ وہ اور کڑھتا۔ پنج کھاتا۔ سٹھانی دندناتی ہوئی اس کے سر پر آ گئی۔
اے ہے ، کلمو ا ابھیشک بے صبرا کہیں کا۔ ارے میں تیرے باپ کی قرض دار ہوں۔ کیا لینا اور کیا دینا تو نے کھولی کا کرایہ یا اب تک رہتا ہے نوابوں کے ٹھاٹ سے تین کوڑی کا مزدور ، اور دماغ دیکھو کمینے کا۔ میں تیرا ایک پیسہ باقی نہیں ہوں۔ ذرا کھڑکی سے میٹھی بات کر لی تو سر چڑھ گیا بے ایمان۔ آج ہی خالی کر دیجیو ہماری کھولی ورنہ سیٹھ سے کہہ کے نکلوا دوں گی۔ سٹھانی سے زور سے کھڑکی بند کر دی اور اس کو یوں لگا گویا ساری دنیا کے دروازے اس پر بند ہو گئے۔ وہ گھبرا کر کھڑکی سے ہٹ گیا اس کو محسوس ہو رہا تھا زمین اس کے قدموں تلے سے بھاگی جا رہی ہے۔ بڑی دیر تک اس کے دماغ میں کھڑکی کے پٹ دھڑدھڑاتے رہے۔ ممکن تھا وہ تیسری بار آنسو بہاتا مگر خشک آنکھیں جل کر رہ گئیں۔ آنسو نہیں بہہ رہے تھے مگر وہ رو رہا تھا۔ اس کا دل بیٹھا جا رہا تھا۔ اس کے گرد ہر چیز گھوم رہی تھی۔ آدھی جلی ہوئی موم بتی۔ ٹوٹا ہوا آئینہ کا ٹکڑا۔ میلی دھوتی ، بان کا کھٹولا اور بیڑی کے ادھر جلے ٹکڑے سب اس کے گرد ناچ رہے تھے۔ چکر کاٹ رہے تھے۔ اور وہ مبہوت بنا ان کے درمیان حیرت سے منہ پھاڑے کھڑا تھا۔
اس کا چہرہ سیاہ پڑ گیا تھا اور کمزور ہاتھ پاؤں کانپ رہے تھے۔ ایک دم وہ ناتواں ہو گیا تھا۔ اس مریض کی طرح جس کو ڈاکٹر نے لا علاج بتا دیا ہو۔
وہ پھر کھڑکی کے بند مٹیوں سے لگ کر کھڑا ہو گیا۔ اس دنیا میں کسی کو بھی تو اس کا خیال نہ تھا۔ دنوں بال مٹی میں آٹے رہیں۔ ہفتوں غلیظ کپڑوں میں سڑتا رہے یا گھنٹوں بھوکا مرے۔ کوئی جو ذرا بھی پرواہ کر جائے۔ اور آج تو رات بھر بھوکا رہنے کے بعد بھی اس کو پیٹ بھرنے کی کوئی امید نہیں تھی۔ کوئی اس کی آنتوں کو مسئلہ ڈال رہا تھا۔ کلیجہ کھینچ کے منہ کو آ رہا تھا۔ اندرونی کشمکش وہ کسکو جا کر دکھاتا؟ رہنے کو اب تو قبر جیسی کھولی بھی اس کی نہیں تھی۔ آج کی رات بھی اس کے ساتھ بیکل تھی۔ اس کی آنکھوں میں نہ دکھائی دینے والے ہزاروں آنسو مچل رہے تھے۔ نہ جانے کس جرم کی پاداش میں وہ اس قدر بے بسی سے سیٹھ کے فرش سے منہ لگائے سسک رہا تھا۔ مقصود سٹھانی کا نہ تھا قصور کارخانے کے مالک کا نہ تھا۔ قصور حکومت کا نہ تھا۔ قصور تو گوپی کا تھا۔ نہ وہ تین کوڑی کا ذلیل مزدور تھا یہ نوبت آتی۔
ساری عمر کا سرمایہ سٹھانی نے لوٹ لیا اور کھولی سے نکال باہر کیا۔ جیسے گنے کا سٹھیار میں چوس لینے کے بعد گنا بیکار ہو جاتا ہے ویسے ہی گولی ، سٹھانی کیلئے ناکارہ ہو گیا تھا۔ وہ راتس نے سوامی کے جھونپڑے کی ننگی دہلیز پر تڑپتے گذار دی۔
دوسرے دن سوامی سے اکنی ادھار مانگ کر اس نے چینے کھائے۔ ہڑتال برابر جاری تھی روزانہ مل مالک دھمکیاں دیتا۔ کام سے الگ کر دینے کا اعلان کرنا۔ گڑ بڑ تالی مزدور مزے سے بھوکے بیٹھے مستقبل کے سپنے دیکھتے۔ ان کے پیٹ جلتے رہیں وہ خود ننگے رہیں پرواہ نہیں مگر اپنے بچوں کو بھوک سے روتا نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ سردی میں ان کے ننگے جسموں کو اکڑتا دیکھنے کی ان میں تاب نہیں تھی۔ ظلم کی کوئی حد ہوتی ہے۔ کہاں تک بے زبان جانوروں کی طرح چپ رہیں کب تک صبر کریں۔ بڑھتے ہوئے بوجھ کو کب تک ڈھوئے پھریں۔ وہ سوچتے خواہ کچھ ہو جائے ایک بار پوری قوت سے ہر تکلیف کو سہہ کے بڑی ہڑتال کریں گے۔ چاہے جان جائے یار ہے۔ بلا سے روز روز مرنا تو نہیں پڑے گا۔
سرخ جھنڈے والے ان کی ہمت بڑھاتے ان کوتسلی دیتے ان کے زخموں پر چھاپا رکھے اور مستقبل کا خاکہ دکھا کے ان کا عزم مضبوط کرتے جاتے۔
گوپی سب سے پیش پیش تھا۔ وہ ہڑتال کر کے مطالبات منو ا کے سسھانی سے انتقام لینا چاہتا تھا۔ وہ گھنٹوں سوچتا کہ ہڑتال سے سٹھانی کا کیا تعلق مگر اس کا دل کہتا نہیں سٹھانی سے انتقام لینے کیلئے ہڑتال ضروری ہے۔ وہ بڑی سرگرمی دکھاتا۔ ہر جلسہ میں اس کی شرکت ضروری بھی۔ صراحی گلاس لے کے مزدوروں کو پانی پلاتا پھرتا اور جب جلسہ ختم ہو جاتا تو ہڑتالیوں کے درمیان بیٹھ کے جلسہ کی تقریروں پر جوش انداز سے بحث کرتا۔ اپنی باتوں سے خوش ہو کہ سوامی اور رام بھروسے اس کو تین تین پیسے روز دیا کرتے تھے۔ کبھی کبھی تو وہ چنے لینا بھی بھول جاتا اور شام تک اکنی اس کی جیب میں پڑی رہتی۔
وہ دن بھی آیا جب ہڑتالیوں کا لمبا جلوس بڑی آن سے نکلا۔ گوپی کو سب سے آگے رکھا گیا تھا اور پرچم سر پر لہرا رہا تھا۔ جیسے جیسے پرچم ہوا میں ہلکورے لیا ویسے ویسے مزدوروں کے چہروں پر خوشی کا رنگ لہریں لیتا۔
سڑک کے موڑ پر پہونچ کر گوپی نے سیٹھ کی دوکان کے پاس سے گذرتے ہوئے اکڑ کر سیٹھ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں اور مسکرا کے آگے بڑھ گیا جب مڑ کر گوپی نے پیچھے دیکھا تو سیٹھ مخبوط الحواس دوکان بند کر کے تالا لگا رہا تھا۔ خوشی کی ایک لہر گوپی کے جسم میں سر سے پیر تک دوڑ گئی۔ حوصلے سمجھا سمجھا کر قدم بڑھا رہے تھے۔ وہ سوچنے لگا اب تنخواہ بڑھنے کیا دیر لگتی ہے۔ سٹھانی نے بے ایمانی کی تو کیا ہوا وہ پھر اپنی شادی کیلئے پیسہ اکٹھا کرے گا۔ ا سکو ایک ساٹھی کی بری شدید ضرورت تھی۔ جو رات دیر گئے تک اس کا انتظار کرے۔ اس کے الجھے الجھے بالوں میں ٹھنڈی پتلی انگلیاں پھیرے۔ اس کے دکھ درد میں آنکھوں میں آنسو اور ہونٹوں پر مسکراہٹ لئے اس کو دلاسہ دے۔ آس بندھائے۔ اور یہ سوچ سوچ کر اس کی بھوک مٹ گئی۔
قدم جم کر پڑنے لگے اس نے پلٹ کر اپنے ساتھیوں کو مسکرا کر دیکھا جیسے کہہ رہا ہو۔
تیز تیز قدموں سے بڑھے چلو۔ دیکھتے نہیں اس شاہراہ کے آخری سرے پر کتنی حسین دلہنیں بیٹھی ہمارا انتظار کر رہی ہیں۔ آؤ آؤ بڑے چھو کیا روشن مستقبل کیلئے تم تیز قدم بھی نہیں ڈال سکتے۔ ؟
کب تک تین کوڑی کے مزدور بن کر سٹھانیوں کے ہاتھ بکتے رہو گے۔
اور اس کے ساتھی تیز تیز قدموں سے چلنے لگے۔ سیٹھ تالا لگا کے ایک ہاتھ سے باریک دھوتی کا زرین سرا پکڑے ، تالو پر گلابی پگڑی چپکائے کھڑا تھا۔ اور جلوس بڑھ رہا تھا جلوس کے سامنے پولیس کے دستے آ گئے۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ کیا ہوا۔ اس لکر دو قدم پیچھے ہٹا۔
ہٹ جاؤ۔ پولیس شیر کی طرح دھاڑ رہی تھی۔
ہم نہیں ہٹیں گے۔ جلوس بپھر گیا۔
وہ سب اپنا حق مانگ رہے تھے۔ مگر حق و انصاف اشک اور گیس اور لاٹھیوں سے دور نہ معلوم کہاں پڑے دم توڑ رہے تھے۔ وہ کارخانے کے مالک سے انصاف ہی تو چاہتے تھے مگر شاید مالک بن کے انسان سب سے پہلے اپنی انسانیت کھو دیتا ہے۔
وہ اپنی حکومت سے زندہ رہنے کا حق مانگ رہے تھے جینے کی آزادی ظلم کے خلاف ایک بھر پور نعرہ ہی تو تھا یہ جلوس۔ گوپی سمجھتا تھا کہ یہاں تو ظلم کے خلاف زبان بھی پلانے کی اجازت نہیں۔ ظلم کی لاٹھی ہر وقت عام کے سر پرسوار ہو کے حکومت کرتی ہے۔ خیال ہی خیال میں اس نے ظلم کی لاٹھی توڑ کے پھینک دی۔
سنسناتی ہوئی گولی اس کے سینے میں دھنس گئی اور لڑکھڑا تا ہوا گوپی زمین پر لیٹ گیا سوامی ہیبت زدہ سا اس پر جھک گیا۔ دم توڑتے ہوئے انسان کو سوامی بھگوان کی یاد دلا رہا تھا۔
رام رام کرو بھیا۔
رام۔ آں ہاں۔ مشاہرہ کا آخری میرا اس کو اشارے کرنے لگا۔ چپکے چپکے بلانے لگا۔ اس کے تصور میں چھلکتی آنکھیں اور مسکراتے ہوئے ہونٹ ابھرے اور ڈوب گئے۔ گوپی کے خون سے تر بتر جھنڈا اس کے پہلو میں پڑا تھا۔ اس نے ایک نظر سوامی پر ڈالی اور اس کی گردن ڈھلک گئی۔
رام بھروسے نے گوپی کی لاش کو بڑھ کے اپنے کندھے پر ڈال لیا اور سوامی نے جھنڈا تھام لیا جس سے خون کے قطرے ٹپک رہے تھے۔ رام بھروسے کو یوں لگا جیسے وہ اپنا جنازہ اٹھائے آگے بڑھ رہا ہے۔ گوپی کے ساتھ اور چار لاشیں اٹھیں سامنے پولیس کا آدمی اپنی مونچھوں کو تاؤ دے رہا تھا۔ اور خاکی وردی غرور سے تن گئی تھی۔
دوسرے دن بہت سے کھادی پوش مزدوروں کو بہلا پھسلا رہے تھے۔ ان میں سیٹھ کا منجھلا لڑکا بھی شامل تھا اور مزدوروں کو مشورہ دے رہا تھا کہ ہڑتال ختم کر دیں۔
تاریخی ہڑتال کا افسوسناک طریقہ پر خاتمہ ہو گیا۔ مزدوروں کے نام نہاد لیڈروں نے خود بڑھ کے ان کا گلہ دبا دیا۔
سوامی سوچنے لگا۔ نہ معلوم کب تک ہمارے غضب شدہ حقوق واپس نہیں دیئے جائیں گے۔ کب تک بچے بھوکے مریں گے۔ کب تک پہاڑ جیسے سیٹوں کو آہنی گولیاں توڑتی رہیں گی۔ کب تک طوفان کے آگے خاکی وردیوں کا بند ٹھہر سکے گا۔
کب تک گولیوں سے انسانیت کو چپ کرایا جائے گا۔
سیٹھ کا چھوٹا بیٹا سوامی کی پیٹھ پر ہاتھ رکھ کر بولا۔
تم دیکھ لینا سوامی۔ شہیدوں کے سرخ لہو سے نئی زندگی پیدا ہو گی۔ ہماری زندگی کسیلی نہیں جا سکتی۔ ہمکو روندا نہیں جا سکتا۔
اور سوامی سنسناتی گولیوں سے لا پرواہ ہو کر مضبوط لہجہ میں بولا۔ ہم اپنا حق ضرور منوا دیں گے۔ ہم پھر بڑی ہڑتال کریں گے۔
٭٭٭
تشکر: پروفیسر رحمت یوسف زئی جنہوں نے فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
بہت خوب میں مکمل پڑھنے کی کوشش کی بہت طویل کہانی ہے