FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

کچھ کہانیاں

 

                اقبال خورشید

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

 

 

 

 

خبیث حیرت

 

 

شاید وہ مجھے جسم فروش سمجھ بیٹھا!

مجھے اِس بات کا دکھ تو نہیں تھا، تاہم حیرت ضرور تھی۔

اور اِسی حیرت کے زیر اثر، بیتتے لمحات میں مَیں ایک ایسے عمل کا حصہ ہوں، جو فطری ہونے کے باوجود غیر اخلاقی تصور کیا جاتا ہے!

وہ شاید مجھے پیشہ وَر سمجھ بیٹھا مجھے دکھ تو نہیں، تاہم حیرت ضرور تھی!

کیا ویرانی سے بھرپور قبرستان میں، ایک قبر کے کتبے سے لگی بیٹھی عورت کسی بھی زاویے سے جسم فروش معلوم ہوتی ہے؟

خیر، وہ قصور وار نہیں تھا۔ ممکن ہے کہ پیشہ وَر خواتین نے گاہکوں کی تلاش میں اب یہ طریق اپنا لیا ہو۔ شاید قبروں کے کتبے پر سر ٹکا لینا، اپنے پیشے سے متعلق آگاہی فراہم کرنے کے لیے وضع کردہ نیا اشارہ ہو۔

اور ممکن ہے کہ ایسا ہی ہو!

ویسے بھی جوانی سے ادھیڑ عمری کی جانب محو سفر، اچھے نین نقش والی عورت کو یوں تنہا قبرستان میں، کسی قبر سے لگا بیٹھا دیکھ کر انسان بھلا اور کیا سوچ سکتا ہے؟

دیگر لوگوں کی طرح میرے لیے بھی یوں، باقاعدگی سے قبرستان کا رخ کرنا خوش گوار تجربہ نہیں۔ خصوصاً جب میرا باپ فالج جیسی رذیل بیماری سے جُوجھ رہا ہو۔ تاہم میں مجبور ہوں!

اگر میرے بس میں ہوتا، تو میں اِس بے ہودہ عمل سے جان چھُڑا چکی ہوتی، اور گھٹتے بڑھتے لمحات اُس عورت کی صحبت میں گزارتی، جو میری ماں ہے۔ اور اپنے شوہر کے علاج کی غرض سے خود کو سلائی مشین کے ساتھ نتھی کر چکی ہے۔

لیکن اِس عمل کی انجام دہی یا اِسے ترک کرنا اب مزید میرے بس میں نہیں۔

اِس عمل کا آغاز قطعاً اُس روز نہیں ہوا، جب مجھے یہ اطلاع ملی تھی کہ قیوم نے ایک زہریلا سیال اپنے حلق میں انڈیل لیا ہے۔ بلکہ اِس کی شروعات تو قیوم کی خود کُشی کی کوشش کے تین روز بعد، اُس وقت ہوئی، جب اُسے لحد میں اتار کر اُس کے چاہنے والے اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے تھے۔

تب میں دیوانہ وار گھر سے نکلی۔ اور اُس کی تازہ، گلابی پتیوں سے ڈھکی، گیلی قبر پر جا بیٹھی۔

اور میں گذشتہ سات ماہ سے یہ عمل باقاعدگی سے انجام دے رہی ہوں۔ میں روز صبح قیوم کی قبر پر پہنچ جاتی ہوں۔ اور میری صبح کا آغاز طلوع آفتاب یا غروب آفتاب سے نتھی نہیں۔ نہ ہی اِس کا تعلق دن اور رات کے اختلاط — جسے چند افراد ملن بھی کہتے ہیں — سے ہے۔

یہ تو فقط شعوری احساس ہے!

جب مجھے احساس ہوتا کہ میں قیوم کی قبر سے دور ہوں، میں اُس وقت کو "صبح” خیال کرتی، چاہے میرے وجود پر اندھےرا چھایا ہو۔

اور یہ خیال کرتی کہ جس وقت میں نے اُس کی قبر سے اِس مقام تک کا سفر طے کیا ہو گا، جہاں میں اِس وقت موجود ہوں، وہ ضرور رات کے تاریک، مکروہ سیاہ لمحات رہے ہوں گے۔

سو جب جب صبح ہوتی — جب میں خود کو اُس کی قبر سے دور پاتی — میں دیوانہ وار اُس کی جانب دوڑ پڑتی۔

میری کہانی دنیا کی بھونڈی ترین کہانی ہے۔ یہ کائنات میں پائی جانے والی ترتیب پر سوال اٹھاتی ہے۔ اگر کائناتی ترتیب کے مداح، چند لمحات نکال کر میری کہانی پر غور کریں، تو اُنھیں بھونچکا رہ جانے کے لیے خاصا مواد مل جائے گا۔

جب قیوم میری محبت میں گرفتار ہوا، اُس وقت مجھے عدت سے اٹھے چند ہی ہفتے ہوئے تھے!

ہمارا خاندان متوسط گھرانے سے غریب گھرانے کا سفر سرعت سے طے کر رہا تھا۔ اور میں نوکری کی تلاش میں تھی۔ میں ہی گھر کا واحد سہارا تھی۔ اور جس اسپتال میں بہ طور ری سیپشنسٹ میں نے درخواست دی، قیوم وہاں ایڈمن آفیسر تھا۔

ہمیشہ خوش و خرم رہنے والا وہ ہنس مکھ اور ملن سار نوجوان خواہش مند تھا کہ اُس سے جُڑا ہر شخص، ہمہ وقت زندگی کی توانائی سے ہانپتا رہے۔

اُس وقت تک میں مسکرانا ترک کر چکی تھی۔ اور اِسی چیز نے اُسے متوجہ کیا۔ اُس کی حیران آنکھوں میں سوال تھا، بھلا اتنی خوب صورت لڑکی مسرتوں سے کنارہ کش کیوں ہوئی؟

وہ میری کہانی سننے کا خواہش مند تھا، اور میں نے اُسے اپنی کہانی سنائی۔ روایتی طریق کے عین مطابق، یعنی آنسوﺅں اور ہچکیوں کے ساتھ، خود ترسی کی قوت کے زیر اثر!

میں نے اُسے بتایا،  اپنی خوب صورتی کے سبب مجھے کبھی دماغ استعمال کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ ہر جگہ میرا پُر تپاک استقبال کیا جاتا۔ گھر، اسکول، تقریبات، الغرض ہر مقام پر میں مرکز نگاہ بن جاتی۔ گو کہ میں ایک متوسط طبقے کی لڑکی تھی، تاہم درمیانے درجے کے لوگوں کی توجہ نے مجھے اپنی نظروں میں خاص، افسانوی، بلکہ اساطیری بنا دیا تھا۔ اور پھر خاص انسان کی حیثیت سے میں نے عمومی خوابوں اور درمیانے درجے کے سپنوں سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔

اور یہی میری سب سے بڑی غلطی تھی۔

میں نے اپنے سپنے وسیع، گہرے اور روشن کر لیے۔ اور یہ کوشش میرے لیے سم قاتل ثابت ہوئی!

متوسط طبقے کے متوسط طریق کے مطابق میری شادی کا معاملہ ہر گزرتے دن کے ساتھ میرے ماں باپ کے لیے گمبھیر شکل اختیار کرتا گیا۔

نہ جانے کیوں، اُس موقعے پر میری خوب صورتی کام نہیں آئی۔

بالآخر اُنھوں نے فیصلہ کیا، اور مجھے "بدائی” کی راہ پر ڈال دیا گیا۔

ارمانوں کی اُس رات جب گھونگھٹ اٹھانے والا مجھے اپنے باپ سے سات سال چھوٹا اور اپنا چچا سے دو سال بڑا لگا۔ میری چیخ نکل گئی۔

اُس رات میری خوب صورتی کو جس خوب صورتی سے خراج تحسین پیش کیا گیا، اُسے الفاظ میں بیان کرنا میرے لیے کبھی ممکن نہیں رہا۔ اور پھر یہ زخم کبھی مندمل نہیں ہوا، بلکہ گزرے پلوں کے ساتھ گہرا، اور مزید گہرا ہوتا گیا۔

بیتی راتوں نے میرے شعور کو زخمی کر دیا۔ اور میری روح بے چہرگی کی اذیت کا شکار ہو گئی۔

میرے والدین نے عین متوسط طبقے کے والدین کے مانند مجھے برداشت کرنے اور حالات سے سمجھوتا کرنے کی نصیحت کی۔ اور میں ایسا کر بھی رہی تھی کہ نہ جانے کیوں، میرے باپ سے سات سال چھوٹے اور میرے چچا سے دو سال بڑے لگنے والے میرے شوہر نے مجھے طلاق دینے کا فیصلہ کر لیا!

مجھ پر الزام تھا کہ میرا کردار صحیح نہیں۔ اور میں دوسرے مردوں میں دل چسپی لیتی ہوں۔

یہ سوچ کر کہ شاید چند افراد (مثلاً میرا ضعیف العمر شوہر) مجھے مجھ سے زیادہ جانتے ہوں — اور اُن باتوں کا علم رکھتے ہیں، جن سے میں لاعلم ہوں — میں نے خاموشی سے الزام قبول کر لیا!

میری سہیلیوں کا خیال تھا کہ میرا سابق شوہر میری خوب صورتی سے سمجھوتا نہیں کر پایا۔

میں نے یہ الزام بھی قبول کر لیا!

اُس واقعے کے چند روز بعد، جسے متوسط طبقے میں سانحہ تصور کیا جاتا ہے، میرے شوہر سے سات سال بڑے میرے والد پر فالج کا منحوس حملہ ہوا، جس کے لیے بالواسطہ یا بلاواسطہ مجھے ہی قصور وار ٹھہرایا گیا۔

یوں ہم نے متوسط گھرانے سے غریب گھرانے تک کا سفر، روشنی کی رفتار سے طے کیا۔ یوں گھر میں فاقے رینگنے لگے، یوں میں نے مسکرانے سے کنارہ کشی اختیار کی۔ اور سنجیدگی کا برت رکھ لیا۔

یہ پوری کہانی، کئی ہچکیوں کے بعد اختتام پذیر ہوئی، اور اُس کے کئی الفاظ آنسوﺅں سے بھیگ گئے!

میری نیت میں کھوٹ نہیں تھا، میں نہیں چاہتی تھی کہ وہ میرے دکھ کو اتنی ہی شدید سے محسوس کرے، جتنی شدت سے میں کرتی ہوں، تاہم اُس نے ایسا ہی کیا، نہ جانے کیوں؟

ہنس مکھ ایڈمن آفیسر اور خوب صورت ری سیپشنسٹ کے درمیان قائم ہونے والے جذباتی تعلقات کا چرچا اُس چھوٹے سے اسپتال میں یوں ہوا، جیسے جسمانی تعلقات کا ہوتا ہے۔ لیکن مجھے اس کی پروا نہیں تھی۔ قیوم کی ملن ساری میرے زخم تیزی سے بھر رہی تھی۔ ہم ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے حرکت میں تھے، تاہم اُس حرکت کی سمت کا تعین میں کوشش کے باوجود نہیں کر پائی۔

اور ایک روز اُس نے میرا ہاتھ اپنا ہاتھوں میں تھاما۔ اور مجھے — طلاق نامی طوق ندامت سمیت — ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تھامنے کی خواہش کا اظہار کر دیا۔

وہ احساس عجیب تھا، میں اُسے لفظوں میں بیان کرنے سے قاصر ہوں۔

وہ میرے، غریبی میں لُتھڑے، خستہ حال گھر بھی آیا۔ میرے بیمار اور وحشت زدہ والدین سے ملا۔ اور اُن کے سامنے، ادب کے دائرے میں رہتے ہوئے، اپنی خواہش کا اظہار کیا۔

میرے والدین بھی عجیب احساس میں مبتلا تھے۔ میرا اندازہ ہے کہ وہ خوش تھے۔ اور میرا یہ اندازہ بے سبب نہیں

قیوم کے ہمارے گھر آنے کے ایک روز بعد، جب میں اپنے سابق شوہر سے سات سال بڑے اپنے والد کے ہم راہ اُن کے ڈاکٹر سے ملی، تو سفید کوٹ میں ملبوس اُس شخص نے مجھے یہ خوش خبری سنا کر حیران کر دیا کہ میرے والد کے فالج زدہ جسم میں تیزی سے بہتری آ رہی ہے۔

میں عجیب و غریب کیفیت سے گزر رہی تھی، جسے عرف عام میں محبت کہا جاتا ہے۔ ہم خوشی کی توقع کر رہے تھے، اور منتظر تھے کہ کب قیوم اپنے گھر والوں کے ساتھ ہمارے بکھرے ہوئے گھر آتا ہے۔

ہم امیدوں میں گھرے، انتظار کر رہے تھے۔

گو کہ قیوم کبھی ہمارے گھر نہیں آیا، لیکن وہ انتظار طویل ثابت نہیں ہوا۔ چند ہی روز بعد مجھے اطلاع ملی کہ اس نے خود کُشی کی کوشش کی ہے۔ اور یہ کوشش بڑی حد تک کارگر ثابت ہوئی ہے کہ وہ ایک بڑے اسپتال کے انتہائی نگہ داشت وارڈ میں پہنچ چکا ہے۔

یہ کوئی پیچیدہ معاملہ نہیں تھا۔ معاملہ فہمی کے فقدان کے باوجود میں معاملے کی گہرائی تک بہ آسانی پہنچ گئی۔ ایک طلاق یافتہ، انتہائی خوب صورت لڑکی قیوم کی والدہ کے لیے نا قابل قبول تھی۔ اُنھوں نے انکار کر دیا، اور قیوم نے خود کُشی کر لی۔

خودکشی کی وہ کوشش کاری تھی۔ وہ ایک بڑے اسپتال کے انتہائی نگہ داشت کے وارڈ میں تھا۔

اپنی منحوس خوب صورتی کے ساتھ، محبت کے زیر اثر، میں اُس سے ملنے اُس بڑے اسپتال تک گئی، جہاں میرا اُس کی والدہ سے سامنا ہوا، جو نفرت سے حلق تک بھرئی ہوئی تھیں، تاہم وہ قصوروار نہیں تھیں۔ اگر میں اُن کی جگہ ہوتی، تو میری کیفیت بھی اُن ہی سی ہوتی۔

ہنس مکھ قیوم کی، ممتا کے وحشی دکھ سے تڑپتی والدہ نے عین انسانوں سا رد عمل ظاہر کیا۔ اُنھوں نے مجھے صلواتیں سنائیں، گالیاں دیں۔ اور بد دعاؤں سے نوازا۔

اُن کا رد عمل اُن کے انسان ہونے کا ثبوت تھا!

خیر، اپنے چند خیرخواہوں اور مشیروں سے مشورہ کرنے کے بعد —جو میری خوب صورتی سے ششدر رہ گئے تھے — اُنھوں نے انتہائی نگہ داشت وارڈ میں زیر علاج، جُزوی طور پر مرے ہوئے اپنے بیٹے کے کان میں یہ خوش خبری، انتہائی کراہت کے ساتھ انڈیل دی کہ وہ اُس کے ساتھ میرا نکاح کرنے کے لیے تیار ہیں۔

وہاں موجود ششدر گواہوں کے مطابق جب یہ عمل انجام دیا گیا، جُزوی طور پر مرے ہوئے قیوم کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ اُس مسکراہٹ نے قیوم کو جنم دینے والی اور پرورش کرنے والی کو خاصی امید دی۔ وہ بھی مسکرا دی، لیکن وہ مسکراہٹ عارضی ثابت ہوئی۔

خودکشی کی کوشش کے ٹھیک تین روز بعد قیوم دنیائے فانی سے کوچ کر گیا۔ اور میں اُس کی تازہ، خوش بودار قبر پر جا بیٹھی۔ یہ جانتے ہوئے کہ میرا بیمار باپ غربت اور بدنامی جیسے عوارض کے سبب مزید بیمار ہو گیا ہے۔ اور یہ جانتے ہوئے کہ بیوگی کا عذاب سہنے والی میری ماں نے اپنے سانسوں کو سلائی مشین سے باندھ لیا ہے میں اُس کی تازہ قبر پر جا بیٹھی!

اور پھر باقاعدگی سے بیٹھنے لگی۔ اپنی دل کَشی سے بے پروا اور بیتتے پلوں سے ماوراء ہو کر۔ صبح اور شب سے آزاد ہو کر۔

یہ جانتے ہوئے کہ گھر میں بیماری اور بے کاری اژدہا منہ کھولے گھوم رہا ہے۔

اور پھر ایک روز، قبرستان آنے والا ایک شخص مجھے جسم فروش سمجھ بیٹھا!

مجھے اِس بات کا دُکھ تو نہیں تھا، تاہم حیرت ضرور تھی

کیا ویرانی سے بھرپور قبرستان میں، ایک قبر کے کتبے سے لگی بیٹھی عورت کسی بھی زاویے سے جسم فروش معلوم ہوتی؟

کیا ہی بہتر ہوتا کہ وہ مجھے پچھل پیری، چڑیل یا مُردوں کی ہڈیاں جمع کرنے والی منحوس جادوگرنی تصور کر لیتا۔ یا مجھے فقط ایک کفن چور سمجھ کر خاموشی سے چل دیتا۔ لیکن میرے باپ سے چند سال بڑے اُس شخص نے نوٹوں سے بھری اپنی جیب کی جانب اشارہ کر کے مجھے حیرت کا ایک خبیث جھٹکا دیا۔

مجھے دُکھ تو نہیں تھا، لیکن حیرت ضرور تھی۔

اور میں اُس کے ساتھ چل دی۔

فقط خبیث حیرت کے زیر اثر، یا شاید گھر میں رینگتے کرب کے اژدہے کی پھنکار کے زیر اثر!

تاہم مجھے اِس بات کا دکھ نہیں تھا

ہاں، حیرت ضرور تھی۔

٭٭٭

 

 

 

 

کچرا چُننے والے

 

یہ اُس انتہائی غیر اہم المیے کی رُوداد ہے، جس نے میرے طرز زیست کو یک سر بدل دیا!

کچرا چُننے والے باپ بیٹے کے بہیمانہ قتل کو ایک معمول کا واقعہ خیال کرتے ہوئے اُس یخ بستہ شام تو مَیں اپنی غیر ضروری مصروفیات ہی میں جُٹا رہا، لیکن ٹھیک چار روز بعد، یک دم گلی کے نکڑ پر وقوع پذیر ہونے والے اِس مفلس سانحے کی اہمیت مجھ پر آشکار ہوئی، اور یوں کچرا چننے والوں کا سستا المیہ میری زندگی کا حصہ بن گیا۔

شورش زدہ پڑوسی ملک کے یہ باسی گذشتہ تین برس سے محلے میں کچرا چننے کا فریضہ انجام دے رہے تھے۔ میرا اُن سے کئی بار سامنا ہوا، تاہم کبھی اُن کے چہرے میرے ذہن کے پردے پر واضح عکس نہیں چھوڑ سکے۔

باپ بیٹا باقاعدگی سے، ایک دن چھوڑ کر ہمارا دروازہ کھٹکھٹاتے، گھر بھر کا کچرا گدھا گاڑی پر لادتے، اور چل دیتے۔

کبھی کبھار سرخ و سپید بچہ پانی مانگ لیتا۔ میری بیوی ایک اسٹیل کے گلاس میں، جو فقیروں اور کچرا چننے والوں کے لیے مخصوص تھا، فٹافٹ ٹھنڈا پانی انڈیل کر ملازمہ کر پکڑا دیتی۔ اور کبھی کبھار وہ انسانی ہم دردی کے تحت چند سکے بھی ملازمہ کے ہاتھوں اُن تک پہنچا دیتی۔ میرا قیاس ہے کہ اُن چند سکوں میں سے آدھے ضرور ملازمہ اپنی پوشاک میں چھپا لیتی ہو گی۔

ذرائع کے مطابق جب کبھی اسٹیل کا گلاس سکوں کی مسحور کُن آواز سے کھنک اٹھتا، سرخ وسپید بچے پر وجدانی کیفیت طاری ہو جاتی۔

آج سے تین برس قبل، دسمبر کی اک خوش گوار صبح میرا پہلی بار خستہ حال باپ بیٹے سے سامنا ہوا، جن کی خستہ حالی موت تک اُن کے ساتھ رہی۔ پہلی نظر میں وہ بہت ہی بے چارے لگے۔

ہاں، لمبے تڑنگے، کم گو، باریش باپ کی بابت محلے دار ضرور شکوک میں مبتلا تھے۔ البتہ بیٹا گندا سندا ہونے کے باوجود قابل قبول معلوم ہوتا۔

اُن کی مصروفیات دو حصوں میں منقسم تھیں۔ دن کے ابتدائی اوقات میں وہ گدھا گاڑی پر محلے سے کچرا اکٹھا کرتے، اور اختتامی اوقات میں کاندھے پر ایک پلاسٹک کی بوری ڈالے، جسے دیکھ کر کتے نامعلوم وجوہات کی بناءپر بھونکنا شروع کر دیتے، کچرا چننے نکل پڑتے۔

قصہ مختصر، گذشتہ دنوں پھوٹ پڑنے والے لسانی فسادات میں باپ بیٹے کو نامعلوم افراد نے، نامعلوم وجوہ کی بناءپر قتل کر دیا۔

دوسرے روز اخبار میں مختصر سی خبر شایع ہوئی، ٹی وی چینلز پر "ٹکر” بھی چلا، تاہم میں نے اِس واقعے کو اہمیت نہیں دی۔ دفتر میں بہت کام تھے، پارٹ ٹائم مصروفیات الگ۔

میرے باخبر پڑوسی، جو سیاسی طور پر انتہائی بیدار گردانے جاتے ہیں، کہہ چکے ہیں کہ یہ لسانی فسادات کا معاملہ نہیں، باپ بیٹا دراصل شادی کی تقریب میں ہونے والی فائرنگ کی زد میں آ گئے تھے، بس!

اور میں نے سمجھ دار پڑوسی کے خیال کو من و عن تسلیم کر لیا۔

واقعے کے تیسرے روز میں نے بیگم کو مطلع کیا کہ میں باس اور اُن کی بیگم کو ڈنر پر مدعو کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ میں نے کہا، بے اولاد جوڑا انتہائی منکسر المزاج ہے ، اگر ہم انسانی جذبات کو ابھار سکیں، تو میری ترقی کے امکانات روشن ہو سکتے ہیں۔

میری سمجھ دار بیوی نے سازش سمجھ لی۔

اتوار کی صبح ہم جلدی اٹھ گئے۔ میں نے فیصلہ کیا کہ میرا سات سالہ، بدتمیز ہونے کے باوجود معصوم معلوم ہونے والا بیٹا جنید اور گم صم رہنے والی ہما، خوش رنگ لباس میں ملبوس، ہاتھوں میں "خوش آمدید” کا چھوٹا سا بینر اٹھائے دروازے پر بے اولاد جوڑے کا استقبال کریں گے۔ بچے اُن سے بہت محبت سے پیش آئیں گے، تاکہ بے اولادی کی اذیت سے محبت پھوٹ پڑے، اور پھر ترقی

ہم انتظامات میں جُٹے رہے۔ میٹھا تیار کیا گیا، جس پر میری بیوی نے جیلی کی مدد سے، بڑی ہی مہارت سے "دنیا کے بہترین جوڑے کے لیے!” جیسے متاثر کُن الفاظ لکھے۔ بریانی کو دم دینے کے بعد جب وہ سوپ گرم کر رہی تھی، میں گھر کے دروازے پر جا کھڑا ہوا، اور تنقیدی نگاہوں سے گلی کا جائزہ لینے لگا۔ اور اچانک ناگوار بُو میرے نتھنوں سے ٹکرائی۔

"کتنی گندگی ہے۔ کچرا اٹھانے والے نہیں آئے، ہڈ حرام کہیں کے!” میں بڑبڑاتا ہوا اندر دوڑا، خود کو ایک نامعلوم جذبے کے تحت جمع داروں کے اوزاروں سے لیس کیا، اور گلی کی صفائی شروع کر دی۔ جھاڑو لگاتے ہوئے مجھے عجیب سی خوشی محسوس ہوئی۔ میں اپنی صلاحیتوں پر نازاں تھا، اور دفعتاً مجھے غلاظت کے پھیلاؤ کا سبب مل گیا۔

کچرا چننے والوں کو چار روز قبل قتل کر دیا گیا تھا۔

"بے چارے!” میرے منہ سے نکلا۔

بچے تیار تھے، "ایئرفریشنر” چھڑک دیا گیا۔ میز بھی سج گئی۔ ہم میاں بیوی مصنوعی ستائشی مسکراہٹ کی مشق کر رہے تھے کہ مجھے ہارن سنائی دیا۔ میں دروازے کی جانب دوڑا۔ اور تب اچانک میری نظر دروازے کے بالکل ساتھ رکھے کچرے دان پر پڑی، جو غلاظت سے لبالب بھرا ہوا تھا، اور مکھیاں کسی سیاہ، مکروہ چھت کے مانند اُس پر تنی تھیں۔ تعفن ماحول کو بوجھل بنا رہا تھا۔

"یہ کچرا کیوں نہیں اٹھایا؟” میں چیخا۔

"وہ” بیوی کے چہرے پر بوکھلاہٹ تھی۔ "وہ کچرے والے”

"خدایا۔” میں وحشت کے زیر اثر تھا، اور کوئی فیصلہ لینے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ کال بیل کی کرخت آواز نے مجھے جھنجھوڑ دیا۔

"بچے کہاں ہیں؟” میرے لہجے پر سراسیمگی طاری تھی۔ بیوی گھر کے اندرونی حصے کی جانب دوڑی۔

منکسرالمزاج باس اور اُن کی سادہ لوح بیوی گھر کے اندر داخل ہوئے۔ میں نے اُن کے اور کچرے دان کے درمیان اوٹ بننے کی کوشش کی، جو مکھیوں کی بے ترتیب، منحوس حرکت اور تعفن کے سبب ناکامی سے دوچار ہو گئی۔

میری بیوی کو بچے تلاش کرنے میں خاصا وقت لگا، اور مجھے مجبوراً کچرے دان کے سامنے سے ہٹ کر مہمانوں کو گھر کے اندرونی حصہ میں مدعو کرنے کے لیے، تہذیبی اطوار کے مطابق جھکتے ہوئے آگے بڑھنا پڑا۔

بس اسی منحوس پل وضع دار خاتون کی نظر کچرے دان پر پڑی۔ "صاحب” نے بھی تعفن سے پیدا ہونے والے بوجھل پن کو محسوس کر لیا۔

میں عجیب کرب کا شکار تھا۔ احمق بیوی اور بدتمیز بچوں کے دوڑتے قدموں کی آواز قریب آ رہی تھی۔ میں نے فوراً کہا” "معذرت چاہتا ہوں۔ وہ محلے سے کچرا چننے والے باپ بیٹے کو قتل کر دیا گیا ہے۔ اِسی وجہ سے یہ”

"قتل؟” بے اولاد جوڑے کے منہ سے بیک وقت یہ مختصر، پر مکمل سوال برآمد ہوا۔

"جی ہاں، چار روز قبل۔ بچہ تو غالباً سات سال کا تھا۔ بے چارہ!”

"اوہ، صرف سات سال۔” خاتون کے چہرے پر کرب تھا۔

شریف النفس جوڑے نے اِس معمول کے واقعے کو سنجیدگی سے لیا۔ اور اچانک مجھ پر اِس کی اہمیت آشکار ہوئی، اور کم زور انسانی جذبات گرفت میں لینے کا سنہری موقع ہاتھ آ گیا۔

بوکھلائے ہوئے بیوی بچے قریب پہنچ چکے تھے۔

"جی ہاں۔” میں نے روہانسی صورت بنا کر اپنے سات سالہ، بدتمیز اور معصوم بچے کے کاندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔ "بس اِسی کی عمر کا ہو گا۔”

بے اولاد جوڑا شدید تکلیف محسوس کر رہا تھا۔

ماحول پر چھایا تعفن ثانوی حیثیت اختیار کر گیا۔ ہم بوجھل قدموں سے ڈرائنگ روم تک پہنچے۔ گم صم رہنے والی ہما کو تہنیتی کارڈ پیش کرنے کے لیے آگے کر دیا گیا۔ بے اولاد، ادھیڑ عمر عورت نے کارڈ وصول کیا۔

وہ اب تک اُسی واقعے کے زیر اثر تھی، سو میں نے ایک اور کرارا وار کرنے کا فیصلہ کیا۔ "باپ سے تو میرا سامنا نہیں ہوا، تاہم بیٹا اکثر کچرا اٹھانے کے بعد پانی مانگا کرتا تھا۔ بہت خوب صورت بچا تھا۔ میری بیگم نے ہمیشہ اُسے ٹھنڈا، فلٹر کا پانی دیا۔ کیوں بیگم؟”

میں نے اپنی بیوی کی جانب دیکھا۔

"جی ہاں!” اُس کے چہرے پر پاکیزہ مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔

بے اولاد جوڑے کے دکھ نے مزید تحریک دی۔

"گولی بچے کے سینے پر لگی۔ بہت کرب ناک منظر تھا، میں نے” اور میں ذلالت کی انتہا پر پہنچ گیا۔ "میں نے خود اُس کی لاش کو ایمبولینس”

"ہچ” وضع دار خاتون نے اچانک ہچکی لی۔ آنکھوں میں آنسو امڈ آئے۔ صاحب ایک تہذیب یافتہ شخص کی طرح خموشی سے افسردہ ہو گئے۔ میری بیوی نے چہرے پر سوختگی سجا لی۔ اور میرے بچے اُن کے مزید قریب ہو گئے۔

اور یوں مجھے گلی کے نکڑ پر وقوع پذیر ہونے والے معمول کے سانحے کی اہمیت کا احساس ہوا، اور یوں کچرا چننے والوں کا المیہ میری زندگی کا حصہ بن گیا۔

"بہت افسوس ناک واقعہ ہے۔” خاتون نے کہا۔

"جی ہاں” میرے چہرے پر کرب جیسا کچھ تھا۔ "بہت ہی افسوس ناک، مجھے احساس ہے۔” میں نے چہرہ ہاتھوں سے ڈھانپ لیا کہ کہیں میری کیفیت میرے ہونٹوں کے پھیلاؤ سے عیاں نہ ہو جائے۔

میری عقل مند بیوی نے سرد آہ بھری۔ "جی ہاں، بہت ہی افسوس ناک واقعہ ہے، ہمیں اِس کا مکمل احساس ہے۔”

اُس دن کے بعد مجھے پارٹ ٹائم ملازمت کی ضرورت نہیں رہی۔

٭٭٭

 

 

 

 

    چاند ماموں

 

 

"کوئی شے زندگی سے زیادہ حیرت ناک نہیں۔ ماسوائے لکھنے کے۔ ماسوائے لکھنے کے۔ ہاں، بے شک، ماسوائے لکھنے کے۔ یہ اکلوتی ڈھارس ہے۔”

(اورحان پامک کے ناول The Black Book سے)

 

یہ اُن بیت چکے دنوں کا قصّہ ہے، جب تاروں بھرا آسمان ہمارا تھا۔

ہم چاند کو مٹھی میں بند کر لیتے۔ ہوائیں چکھنے کے لیے چہرہ رضائی سے باہر رکھتے۔ تیرتی تاریکی میں دُور کہیں مونگ پھلی والا آواز لگاتا۔ کتے کچھ دیر بھونک کر چپ ہو جاتے۔ اور کوئی زور سے کھانستا۔

ابھی ہماری گلی میں بجلی نہیں آئی تھی۔ گرمیوں میں چھت ایک نعمت ہوتی۔ زینہ چڑھنے سے قبل ہم بھاپ دیتا دودھ پی لیتے کہ ہماری دادیاں نانیاں توہم پرست تھیں۔ رسوئی میں ہم اُن کے پہلو میں بیٹھ جاتے۔ چولھے کی سُوسُو پر دھری کیتلی میں دودھ ابلا کرتا۔ پیالوں کی تہ میں بہت سی چینی ہوتی۔

صبح اترتے ہی پراٹھوں کی خوش بو تیر جاتی، جنھیں چائے میں ڈبو کر دھیرے دھیرے چبانا اہم ترین سرگرمی تھی۔ انڈے خال خال نصیب ہوتے۔ چچا جام کے ساتھ ناشتہ کرتے۔ موڈ میں ہوتے، تو ایک چمچہ میرے پراٹھے پر انڈیل دیتے۔ بڑے ابو کے کمرے میں دھرا ریڈیو نعتیں نشر کرتا۔ کبھی گانے نشر ہونے لگتے، تو وہ آواز دھیمی کر دیتے کہ دادا موسیقی کو حرام سمجھتے تھے۔

تو یہ بیتے ہوئے دنوں کا قصّہ ہے۔

ہم اُس دور سے نکل آئے تھے، جب لوریاں نیند طاری کر دیتیں۔ اب ہم کہانیوں میں پناہ ڈھونڈا کرتے۔ نانی آسیبی کہانیاں سناتیں۔ اُن میں چڑیلوں کا تذکرہ ہوتا۔ بزرگ، جو جنات قابو کر لیتے۔ نوجوان، جن پر پریاں عاشق ہو جاتیں۔

دادی انصاف پسند بادشاہوں کی کہانی سناتیں۔ ان میں دانش مند وزیر ہوتے، جن کے مشورے حکم رانوں کی کایا کلپ کر دیتے۔ کہانیاں، جن میں فقیر اور شہزادے ایک دوسرے کی جگہ لے لیتے۔ جن میں شہزادیوں کی پرورش غریب گھرانوں میں ہوتی۔ ہاں، ان میں بھی پریاں ہوتیں، مگر ان کی حیثیت ان پریوں سے مختلف ہوتی، جن کی کہانی نانی سنایا کرتی تھیں۔

دادی کی کہانیاں سنتے سنتے ہم نیند میں اتر جاتے۔ پر نانی کی کہانیاں ہمیں جگائے رکھتیں۔ یہ احساس اجاگر کرتیں کہ کمرے کے باہر جو صحن ہے، جس کے کنارے رسوئی ہے، جس کے ساتھ غسل خانہ ہے، وہاں چھائی تاریکی میں کچھ چھپا ہے۔ اور گھر کے باہر، جو درخت ہیں، جن کی ہلتی شاخوں کی آواز یہاں تک سنی جا سکتی ہے، وہاں کسی کا بسیرا ہے۔

کہانیوں کا فرق قابل فہم ہے کہ نانی نان بائی کی بیٹی تھیں، جہاں مافوق الفطرت واقعات حقیقی تصور کیے جاتے۔ دادی نمبر دار کی لڑکی۔ وہ اپنے قصوں میں قدیم الفاظ، جو اب متروک ہو چکے، برت سکتی تھیں۔

جب ہم چھت پر سونے جاتے تو ان کہانیوں میں گم ہوتے۔ چاند مٹھی میں بند کر لیتے۔ دُور کہیں مونگ پھلی والا آواز لگاتا۔ اور پھر کوئی زور سے کھانستا۔

اور میں ببو کو دیکھ کر مسکرانے لگتا۔

وہ توتلی زبان میں کہتا” "تاند ماموں تی تبیت تھراب ہے۔” (چاند ماموں کی طبیعت خراب ہے)

ہم ہنسنے لگتے۔

دادی، جو تکیے پر سر رکھے رکھے گھر کے گرد مقدس آیات کا حصار کھینچ چکی ہوتیں، آواز لگاتیں””کم بخت! اب تلک سوئے نہیں۔”

اور ہم سو جاتے۔ مگر پھر کوئی کھانستا۔ ہم پھر ہنسنے لگتے۔

چاند ماموں ساتھ والے مکان میں رہتے تھے۔ ایک بڑا سا خالی پلاٹ، جس کے گرد بے تربیب چار دیواری۔ ایک جانب چھوٹا سا کمرہ۔ کمرے کے باہر اداس صحن۔ اور صحن میں نیم کا توانا درخت۔ جس کی شاخیں ہماری چھت پر سایہ کرتیں۔ جب خسرہ کی وبا پھیلتی تو چچا چھت پر کھڑے کھڑے نیم کی شاخیں توڑ لیتے۔

اس صحن میں، جس کی مدتوں بعد صفائی ہوتی، خشک ٹہنیاں اور پتے بکھرے رہتے۔ کونے میں غسل خانہ تھا، جسے ہم اپنی چھت پر کھڑے ہو کر دیکھتے تو اتنا ہی غلیظ لگتا، جتنے چاند ماموں تھے۔

ان کے بیوی بچے نہیں تھے۔ رنگت سیاہ۔ ٹانگ میں لنگ۔ بیساکھی ساتھ رکھتے۔ عینک کے عدسے موٹے۔ سر پر گندا سا صافہ بندھا ہوتا۔ کپڑے بوسیدہ اور میلے۔ فقط تہوار پر وہ گہرے رنگ کے، نسبتاً نئے کپڑوں میں نظر آتے۔

اب یاد کرتا ہوں، تو لگتا ہے کہ شاید وہ ساٹھ کے پیٹے میں رہے ہوں۔ پر اس وقت تو لگتا تھا، جیسے وہ ہمیشہ سے ہیں، اور ہمیشہ رہیں گے کہ اُس وقت ہم موت نامی واقعے سے ناواقف تھے۔

ان کا اکلوتا رشتے دار دو گلیاں چھوڑ کر رہتا تھا۔ لوگ کہتے، بٹوارے کے سمے چاند ماموں کڑیل جوان ہوا کرتے تھے۔ بہت سے ہندوؤں کو مارا۔ پھر پولیس میں بھرتی ہو گئے۔ ڈاکوؤں کے ایک گروہ سے صدر کے علاقے میں مڈبھیڑ ہو گئی۔ اسی میں ٹانگ ضایع ہوئی۔ دماغ الٹ گیا۔

وہ اچھے زمانے تھے، لوگ چاند ماموں کے گھر دو وقت کا کھانا بھجوا دیتے۔ شام وہ گلی میں کسی بچے کو دیکھتے، تو آواز لگاتے” "باجی سے کہو، چاند بھائی چائے مانگ رہے ہیں۔”

پت جھڑ میں، بڑے ابو کے مشورے پر، گھر میں کچھ تبدیلیاں کی گئیں، تو باہر ایک چبوترا بھی بنایا گیا۔ وہ چبوترا میرے بیتے دنوں کی سب سے توانا یاد ہے۔

ایک شام چاند ماموں نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ وہ دادا کے سینے کی طرف جھک کر بات کر رہے تھے۔ لوٹنے کے بعد دادا نے بڑے ابو کو کمرے میں بلوایا۔

جلد ہی ہم بچوں نے اندازہ لگا لیا کہ کسی بات پر بحث ہو رہی ہے۔ میں نے کھڑکی سے جھانکا۔ دادی، جو پان دان لیے بیٹھی تھیں، غرائیں””کیا بے شرموں کی طرح سلاخ سے چمٹ رہا ہے۔ تیری ماں کہاں ہے؟”

میں بھاگا بھاگا صحن میں بچھے پلنگ کے نیچے چھپ گئے۔ وہاں چچا بیٹھے تھے۔ انھوں نے پلنگ کے نیچے حرکت کرتے معصوم قہقہوں پر توجہ نہیں دی۔ دھیان دادا کے کمرے سے آتی آوازوں پر مرکوز رکھا۔ جو ذرا بلند ہوتیں، تو رسوئی میں عورتیں مزید تن دہی سے اپنے کام سر انجام دینے لگتیں۔ جب تائی کے چھوٹے لڑکے نے، جس نے زیر جامہ گیلا کر دیا تھا، رونا شروع کیا، تو انھوں نے اِس زور سے ڈانٹا کہ میں پلنگ کے نیچے سہم گیا۔

بڑے ابو بڑبڑاتے ہوئے کمرے سے باہر آئے۔ چچا کا بلاوا آیا۔ وہ ایک ایسے نوجوان کی مانند، جو خوف زدہ ہونے کے باوجود پراعتماد تھا، کمرے کی سمت بڑھے۔

رات بھر تجسس نے مجھے گھیرے رکھا۔ صبح عقدہ کھلا۔ چبوترے میں کچھ توسیع ہو رہی تھی۔ چچا کھڑے ہدایات جاری کر رہے تھے۔ بڑھوتری چاند ماموں کی دیوار تک چلی گئی۔ ہم سمجھ گئے کہ ان کی مستقبل بیٹھک کا امکان پیدا کیا جارہا ہے کہ جو کرسی وہ بچھا کر گلی میں بیٹھا کرتے تھے، وہ عرصہ ہوا ٹوٹ چکی ہے۔

چاند ماموں اپنی کھڑکی میں کھڑے معاملے کا جائزہ لیتے رہے۔ وہ چچا کو اور چچا انھیں، بڑی سہولت سے، نظرانداز کر رہے تھے۔ بعد میں تائی نے تصدیق کی کہ ضمیر میاں کے مشورے پر چاند ماموں نے دادا سے چبوترے میں توسیع کی درخواست کی تھی۔

دادا جب نماز کو نکلے، چاند ماموں نے بڑے ادب سے سلام کیا۔ سہ پہر جب بڑے ابو کالج سے لوٹے، تو چاند ماموں کی کھڑکی سے پھر سلام برآمد ہوا۔ بڑا ابو کاندھے پر کوٹ لٹکائے آگے بڑھ گئے۔ ماموں کھسیانی ہنسی ہنسے۔ چچا کے چہرے پر سنجیدگی در آئی۔ اور مزدور اوزار رکھ کر سستانے لگے۔

٭٭

 

موسم بدلتے رہے۔ اور اُن کا بدلاؤ ہمارے شعور پر، جو ابھی ابھی بیدار ہوا تھا، اَن مٹ نقوش چھوڑتا رہا۔

دوپہریں گرم ہوتیں۔ نیم کا درخت، جس کی چھاؤں دھوپ کی شدت کچھ کم کر دیتی، گرد سے اٹ گیا۔ ظہرانے کے بعد آم کھائے جاتے، تو نیند ہمکنے لگتی۔ عورتیں چارپاﺅں پر چلی جاتیں، اور اپنے بچوں کو سلانے کے جتن کرتیں۔ میں، میرا چھوٹا بھائی، جسے بڑی امی ببو کہتیں، اور تائی کا بڑا لڑکا، جسے بڑی امی بھولو میاں کہتیں، سونے کی اداکاری کرتے، اور اپنی ماؤں کی آنکھ لگتے ہی گرم صحن میں نکل آتے۔

ہم چھُپن چھُپائی کھیلتے۔ میں مٹکے کے پیندے سے نمی کے قطرے انگلیوں پر اتار کر چہرے پر مل لیتا، اور اسٹور میں جا چھپتا، جہاں تاریکی اور سیلن کا امتزاج پُرسکون معلوم ہوتا۔ بھولو چھت پر چڑھ جاتا۔ ببو ہماری تلاش میں ناکامی کے بعد دھوپیلے صحن میں اس امید پر کھڑا رہتا کہ ہم ترس کھا کر خود کو ظاہر کر دیں۔ جب ایسا نہیں ہوتا، وہ رونے لگتا۔

اُس کی آواز سب سے پہلے دادی کے کانوں میں پڑتی۔ وہ امی کو کوستی۔ امی جب کمرے سے باہر آتیں، تو چہرے پر نیند اور خجالت دونوں ہی ہوتے۔ وہ روتے ہوئے ببو کو کمرے میں لے جاتیں، اور چانٹا رسید کرتیں، جو اُسے فوراً سُلا دیتا۔

اور اگر وہ نہیں سوتا، اور روتا رہتا، تو بڑی امی اپنے کمرے سے نکل کر اسے آغوش میں بھر لیتیں۔ وہ ببو کو ساتھ لے جاتیں۔ میں اسٹور میں چھپا رہتا۔ اور بھولو چھت پر جل رہا ہوتا، جہاں سے جنات کا گزر ہوتا تھا۔

کالج گرمیوں کی چھٹیوں کی وجہ سے بند تھے۔ بڑے ابو کا زیادہ وقت گھر میں گزرتا۔ ایک شام وہ ہمارے لیے دودھ والی ٹافیاں لے آئے۔ اُنھیں منہ میں رکھتے ہی رس بھر جاتا۔ ہر ایک کے حصے میں پانچ پانچ ٹافیاں آئیں۔

شام کے وقت گلی میں کھیلتے ہوئے، جب میں نے جیب سے ٹافی نکال کر کھولی، تو چبوترے پر بیٹھے چاند ماموں نے آواز لگائی” "باجی سے کہنا، چاند بھائی کو بھی ایک ٹافی بھجوا دیں۔”

میں دوڑا دوڑا گیا۔ الماری میں رکھی ببو کی تین میں سے ایک ٹافی اٹھائی، اور چاند ماموں کے ہاتھ پر رکھ دی۔ ان کی ہتھیلی کھردری تھی۔

ببو کو جلد اپنی ایک ٹافی کی گم شدگی کا علم ہو گیا۔ اُس نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ ہمیں سچ بولنے کی نصیحت اس تواتر سے کی گئی تھی کہ وہ ہمارے ذہنوں پر ثبت ہو گئی۔ میں نے چوری کا اعتراف کر لیا کہ اگر ایسا نہ کرتا، تو میرے منہ میں کیڑے پڑ جاتے۔

امی نے چانٹا رسید کیا، تو بڑے ابو درمیان میں آ گئے۔

"بس کرو دلہن۔” پھر مجھ سے مخاطب ہوئے” "اگر اور ٹافی چاہیے تھی، تو بڑی امی کو کہہ دیتے۔”

میں آنسو پونچھتے ہوئے چلایا” "ٹافی میں نے اپنے لیے نہیں، چاند ماموں کے لیے چرائی تھی۔”

بڑے ابو کا چہرہ تن گیا۔ دادی، جو کھڑکی سے پوری کارروائی دیکھ رہی تھیں، سینے پر دو ہتڑ مارنے لگیں” "ناس پیٹے نے میرے بچے کو چوری کرنا سکھا دیا۔”

چچا درمیان میں کودے۔ چاند ماموں کی معذوری کا حوالہ دیتے ہوئے انھیں معصوم ٹھہرانے لگے۔ میری چوری چکاری کی نوزائیدہ عادت کو بھولو میاں کی تربیت کا فیضان ٹھہرایا۔

تائی، جو سروتے سے چھالیا کتر رہی تھیں، اپنے لخت جگر کا نام سنتے ہی کھڑی ہو گئیں””ضمیر میاں، خبردار۔”

چچا خبردار اور ہوشیار کے مرحلے سے گزر چکے تھے۔ بھولو کی کچھ اور قبیح عادتوں پر روشنی ڈالی۔ بڑی امی نے چمک کر کہا، وہ تو چاند ماموں کا ساتھ دیں گے ہی کہ وہ اور محلے کے اوباش لڑکے رات گئے تک لنگڑے کے ساتھ شطرنج کھیلتے ہیں، اور کیا پتا، نشہ بھی کرتے ہوں۔

چچا غصے میں آگ بگولا ہو گئے۔ اور بڑی امی کو، جو چند برس پہلے تک اُنھیں نہلانے دھلانے کی ذمے دار تھیں کہ اس وقت وہ بہت چھوٹے تھے، یہ تک کہہ گئے کہ وہ زبان سنبھال کر بات کریں۔

بڑے ابو نے آگے بڑھ کر انھیں چانٹا رسید کر دیا۔

"ب ب ھ ا ساب۔” چچا اتنا ہی کہہ سکے۔

آنگن میں لگے پودے مرجھانے لگے۔ شام گہری ہو گئی۔ بڑے ابو کمرے میں غائب ہو گئے تھا۔ رات کسی نے ساتھ بیٹھ کر کھانا نہیں کھایا۔ چچا، جو گھر چھوڑ کر چلے گئے تھے، نہ جانے کس پہر لوٹے۔

آنے والے دن، گزرے ہوئے دنوں سے یک سر مختلف تھے۔ کچھ بھی پہلے جیسا نہیں رہا۔ ظہرانے کے بعد آم کھانے کا مزہ ماند پڑ گیا۔ دھوپیلے صحن میں کھیلنے کا حسن غارت ہوا۔ امی نے میرا کان پکڑ کا اس شدت سے مروڑا کہ میں نے کمرے سے باہر نکلنے سے توبہ کر لی۔

سب جوں کا توں رہتا، اگر گرمیوں کی چھٹیاں ختم نہیں ہو جاتیں۔

معمول کی زندگی لوٹ آئی۔ بڑے ابو صبح کوٹ پہنے کالج کو نکل جاتے۔ چچا کتابیں اٹھائے اسٹاپ کی سمت دوڑتے۔ بھولو میاں چائے پیتے ہوئے ٹسوے بہاتا رہتا۔ میرا بھی اسکول میں داخلہ کروا دیا گیا۔

پورے ایک ماہ تک بڑی امی ہمیں چھوڑنے اور لینے آتی رہیں۔ واپسی میں وہ ہمیں دودھ والی ٹافیاں دلاتیں۔ ایک ٹافی ببو کے لیے ہوتی، جو وہ کبھی میرے حوالے نہیں کرتیں۔ اسے خود دیتیں۔

اسکول سے واپسی پر کبھی چاند ماموں نظر نہیں آئے۔ چبوترا خالی ہوتا۔ اب وہ بیمار رہنے لگے تھے۔ کبھی کبھار سودا سلف لانے والے سستانے کو وہاں بیٹھ جاتے۔

کرکٹ ورلڈ کپ کا آغاز، ایک نئے دور کا آغاز تھا۔ گھر میں اخبار آنے لگا۔ گلی میں اسٹریٹ لائٹ کی پہلی کرن نمودار ہوئی۔ بھوت پریت کا خوف کچھ کم ہوا۔

بڑے ابو کے کمرے میں رکھے ریڈیو نے سب کی توجہ حاصل کرلی تھی۔ چچا کا جوش و خروش عروج پر تھا۔

ہم بھی بڑے ابو کے کمرے میں جا گھستے۔ وہاں کتابوں کی خوش بو تھی۔ ان کی لکھنے کی میز گھر کی ہر اس شے سے، جس سے میں آشنا تھا، یک دم الگ تھی۔

ورلڈ کپ اپنے پیچھے کرکٹ کا شوق چھوڑ گیا۔ ہم نے بڑے ابو سے ضد کر کے گیند اور بلا منگوایا۔ شام ہوتی، تو گلی میں میلہ سج جاتا۔

یہ سلسلہ شروع ہوئے پانچواں دن ہو گا، جب میں نے چاند ماموں کو چبوترے پر براجمان دیکھا۔ خستہ حالی کچھ اور عیاں ہو گئی تھی۔ آنکھوں کی سرخی بڑھ گئی۔ جلد مزید میلی ہو گئی۔

تائی نے ایک روز آٹا گوندھتے ہوئے بتایا، چاند بھائی کو ٹی بی ہو گئی ہے۔ لالچی رشتہ دار زور ڈال رہا ہے کہ وہ پلاٹ اس کے نام کر دیں۔

امی نے کانوں کو ہاتھ لگایا۔ میں نے لقمہ منہ میں ڈالا، اور ان سے چار آنے کا تقاضا کر دیا۔ جواب میں اُنھوں نے مجھے بے طرح گھورا۔ میں نے بن چبائے لقمہ حلق میں اتار لیا۔

٭٭٭

چچا کے رشتے کی بات چل نکلی۔ ہم اُن کی منگنی میں خوب ناچے۔ اور بہت سے سکے جمع کیے۔ ہماری متوقع چچی نے، جو خوب رو، گوری چٹی اور گھبرائی ہوئی تھیں، سب سے زیادہ ببو کو پیار کیا۔

محلے میں مٹھائی بانٹی گئی۔ برفی کی ایک ڈلی میرے ہاتھ چاند ماموں کو بھجوائی گئی۔

وہ سرخ آنکھیں لیے چبوترے پر بیٹھے تھے۔ بے دلی سے پوچھا” "کاکا ہوا ہے؟”

"نہیں۔ چچا کی منگنی ہو گئی۔”

جب میں کچھ دیر بعد گیند اور بلا لیے گھر سے نکلا، چبوترا خالی تھا۔ وہاں برفی کی آدھی ڈلی پڑی تھی۔ اس پر چیونٹیاں رینگ رہی تھیں۔ ایک بھکاری نے اسے اٹھا کر جھاڑا، اور منہ میں ڈال لیا۔

محرم شروع ہو گئے تھے۔ گھر میں شربت بنا۔ حلیم کے لیے چندہ اکٹھا کیا گیا۔ چچا اس عمل میں پیش پیش تھے۔

آٹھ اور نو محرم کو گلی میں کرکٹ نہیں کھیلی گئی۔ تعزیے گزرے۔ امی اور تائی نے بچوں کے تعویذ اتار دیے۔ میں نے تعزیے چومے، اور اُن سے لٹکے چھوہارے توڑ لیے۔ بھولو میاں بچوں کے ساتھ زمین پر لیٹ گیا، تاکہ تعزیے اوپر سے گزر جائیں، اور وہ آسمانی بلاؤں سے محفوظ ہو جائے۔

شاید وہ وہیں لیٹا رہتا کہ محلے کے ایک باریش بزرگ نے اسے کان سے پکڑ کر کھڑا کر دیا۔ جب تعزیے گزر گئے، اور بھولو نے پورا واقعہ چچا کو سنایا، تو اُنھوں نے منہ بنایا” "شیخ صاحب وہابی ہو گئے ہیں۔”

رات بھر حلیم گھوٹا گیا۔ صبح تقسیم ہوا۔ چاند ماموں کی تھیلی چچا نے مجھے پکڑا دی۔ میں نے اُن کے دروازہ پر دستک دی۔

"دروازہ کھلا ہے۔” نحیف سی آواز آئی۔

میں اندر داخل ہوا۔ وہاں کھٹی بو کا بسیرا تھا۔ میری آنکھوں کو تاریکی سے ہم آہنگ ہونے میں وقت لگا۔ جھریوں سے آتی روشنی میں مَیں نے ایک بوسیدہ جسم کو پلنگ پر لیٹا پایا۔

ان کی حالت خاصی بگڑ گئی تھی۔

"جی وہ حلیم۔ چچا نے بھجوایا ہے۔”

"وہاں رکھ دو۔” انھوں نے سلیب کی جانب اشارہ کیا۔ وہاں سنے ہوئے برتن پڑے تھے۔ چولھا اس حال میں تھا، جیسے برسوں سے استعمال نہ ہوا ہو۔ ذرا نیچے مجھے شطرنج کا چوکور خانوں والا تختہ نظر آیا۔ میں نے ایک برتن میں حلیم انڈیل دیا۔

پلٹتے ہوئے میں نے چاند ماموں کے سرہانے کچھ رنگین کاغذات دیکھے۔ بالکل ویسے، جیسے دادا کے پاس تھے۔ فائلوں کی صورت۔ صندوق میں محفوظ۔

"ضمیر بھائی اب شطرنج کھیلنے نہیں آتے۔ اُن کی شادی ہو گئی؟” دروازے سے باہر نکلتے ہوئے میرے کانوں سے ایک آواز ٹکرائی، جو اجنبی تھی۔

"نہیں جی۔ اگلے مہینے ہو گی۔” میں جست لگا کر اس کھٹی اور سیلن زدہ دنیا سے نکل گیا۔

٭٭

 

چیزیں بدل رہی تھیں۔ وہ اسٹور، جو میری پناہ گاہ تھا، گھر کا اہم ترین حصہ بن گیا۔ عورتیں دن میں کئی بار وہاں آتی جاتیں۔ صندوق کھل گئے۔ اُن میں نہ تو کوئی شہزادہ تھا، نہ ہی کوئی پری، بلکہ دمکتے برتن اور زرق برق ملبوسات تھے۔ دادا دادی بیٹھک میں اٹھ آئے۔ خالی کمرے کی دیواروں پر رنگ ہوا۔ کھڑکیوں میں سبز شیشے لگے۔ سلیب پر جزدان میں لپٹا قرآن پاک رکھا گیا۔ قطار میں اسٹیل کے برتن سجا دیے گئے۔

ان ہی دنوں ٹیلی فون پر میرے والد سے رابطہ کیا گیا، جو ملازمت کے سلسلے میں مسقط میں تھے۔

ایک روز دادا شیخ صاحب کے ہاں سے ٹرنک کال کر کے لوٹے، تو دادی کے کان میں کچھ کہا۔ دادی کی آنکھوں میں نمی تیر گئی۔ انھوں نے امی کو بلا کر کچھ سمجھایا۔ امی کے گول مٹول سے چہرے پر خوشی اور شرم، دونوں کیفیات بے یک وقت ظاہر ہوئیں۔

کمرے میں پہنچ کر اُنھوں نے مجھے اور ببو کو گلے لگا لیا۔ بہت دیر تک چومتی رہیں۔ ہم بھی نم ہو گئے۔

شام میں بڑی امی نے بتایا، تمھارے ابو مسقط سے لوٹ رہے ہیں۔

خوف اور خوشی، دونوں مجھ پر وارد ہوئے۔ دو برس ادھر، سوٹ کیس اٹھائے گھر چھوڑنے سے قبل دو آنے مانگنے پر اُنھوں نے مجھے خوب پیٹا تھا۔ اگر بڑی امی درمیان میں نہیں پڑتیں، تو شاید قتل کر ڈالتے۔

ایک ہفتے بعد تایا آ گئے۔ وہ خلاف توقع خاصے چپ تھے۔

جب وہ صحن میں بچھے تخت پر، جس کی عمر دادی کے بہ قول، ہمارے بڑے ابو سے زیادہ تھی، بیٹھے چائے پی رہے تھے، انھوں نے دبی آواز میں کہ دیواروں کے بھی کان ہوتے تھے، دادا ابا کو آگاہ کیا کہ حالات بدل رہے ہیں۔ حکومت مخالف تحریک نے زور پکڑ لیا ہے۔

دادی اماں، جو بٹوارے اور سانحہ¿ مشرقی پاکستان کا ذکر ایک ہی ڈھب پر کیا کرتیں، سر تھام کر بیٹھ گئیں۔

بڑے ابو نے، جو اسلامی سوشل ازم پر یقین رکھتے تھے، نفی میں گردن ہلائی” "حالات پر جلد قابو پالیا جائے گا۔”

"بھائی جان، معاملات بگڑ چکے ہیں۔” تایا اب بھی دبے لہجے میں بات کر رہے تھے۔ "کسی وقت بھی مارشل لا”

"بس کرو۔” دادا نے ہاتھ اٹھایا۔ "خدا سب کی خیر کرے۔”

شادی کی تیاری جاری تھی۔ اور اِسی دوران وہ شام اتری، جسے بھولنے کی میں نے کبھی کوشش نہیں کی۔

ہم بچے گلی میں کھیل رہے تھے۔ شور بلند ہوتا جا رہا تھا۔ اچانک چاند ماموں کے گھر کا دروازہ کھلا۔ وہ بیساکھی تھامے باہر نکلے، اور اپنی نشست سنبھال لی۔ کچھ بچے، جو انھیں دیکھنے کے عادی نہیں تھے، ڈر گئے۔ مگر میری اور بھولو میاں کی تحریک پر دوبارہ کھیل شروع ہوا۔

ببو کا  شاٹ چاند ماموں کی طرف گیا۔ خلاف توقع ان کے جسم میں حرکت ہوئی۔ گیند اٹھانے کو جھکے، مگر بھولو نے پہلے ہی گیند اٹھا لی۔ ہم پھر مست ہو گئے۔ چند ساعتیں گزری ہوں گی کہ گیند پھر چاند ماموں کی طرف گئی، اِس سے پہلے کہ ببو دوڑ کر اُسے اٹھاتا، ماموں حرکت میں آئے۔ اب گیند ان کے کھردرے ہاتھ میں تھی۔ کوئی بچہ آگے بڑھ کر گیند مانگنے کو تیار نہیں تھا۔ میں اپنے ساتھیوں کے خوف پر مسکرایا۔ اعتماد سے آگے بڑھا، اور گیند مانگ لی۔ انھوں نے گیند دائیں سے بائیں ہاتھ میں منتقل کی، اور دائیں ہاتھ سے میرے چہرے پر زناٹے دار تھپڑ رسید کیا۔

اُن کے کھردرے ہاتھ کی بُو مجھ پر ثبت ہو گئی۔

سب بچے بھاگ گئے۔ حیرت کے باعث کچھ دیر تو میں رو ہی نہیں سکا۔ البتہ جب بھولو مجھے گھسیٹتا ہوا گھر لایا، آنکھوں میں تیرتے آنسوﺅں کے باعث ہر منظر دھندلا گیا تھا۔

ببو نے توتلی زبان میں واقعات بیان کیے۔ تایا مجھے چپ کروانے لگے۔ میں نے بڑے ابو کو اپنے کمرے کے دروازے پر کھڑا دیکھا۔ ان کے ہاتھ میں ایک کتاب تھی، اور چہرے پر وہی حیرت تھی، جو تھپڑ کھانے کے بعد میرے چہرے پر ظاہر ہوئی تھی۔

"بڈھا سٹھیا گیا ہے۔” یہ دادی کے الفاظ تھے۔ "بڑی دلہن، چل میرے ساتھ اس ناس پیٹے کو”

جملہ درمیان میں رہ گیا۔ چچا، جو منظر سے غائب ہو گئے تھے، اچانک اسٹور سے برآمد ہوئے۔ اُن کے ہاتھ میں ڈنڈا تھا۔

"ضمیر رک!” بڑی امی نے چادر میں خود کو لپیٹا۔

"شکیل روکو اُسے۔” یہ بڑے ابو کے الفاظ تھے۔ تایا دوڑے۔ تائی نے مجھے آغوش میں لے لیا۔ دوپٹے سے کتھے کی بو آ رہی تھی۔

گلی میں شور بلند ہوا، اور بڑھتا گیا۔ امی، تائی اور بھولو بیٹھک کی سمت لپکے، جس کی کھڑکی گلی میں کھلتی تھی۔ میں اپنا غم بھول کر ساتھ ہولیا۔ وہاں میری آنکھوں نے وہ منظر دیکھا، جسے بھولنے کی میں کوشش بھی کروں، تو کبھی بھول نہیں پاﺅں گا۔

سورج نیچے ہو گیا۔ اسٹریٹ لائٹ چپ تھی۔ چاند ماموں بیساکھی کے سہارے کھڑے تھے۔ چچا کے منہ سے جھاگ اڑ رہے تھے۔ تایا دونوں کے درمیان دیوار بن گئے۔ دادی اور بڑی امی نے چچا کو مضبوطی سے تھام رکھا تھا۔

"سالے تیرے ہمت کیسے ہوئی؟”

"سالے۔” یہ وہ لفظ تھا، جو شاید میں پہلے بھی سن چکا تھا، مگراس شدت سے نہیں۔

"وہ دیوار پر گیند مار رہے تھے۔” یہ چاند ماموں کا جواب تھا، جو مجھے گراں گزرا۔ صریحاً جھوٹ۔

"بکواس بند کر۔ میں تجھے چھوڑوں گا نہیں۔” چچا دہاڑے۔

"ضمیر خود کو سنبھال۔ ” تایا نے کہا۔

"سالے، بھڑوے۔”

"بھڑوے۔” ہاں، یہ وہ لفظ تھا، جو میں نے پہلے کبھی نہیں سنا تھا۔ کبھی نہیں۔

اسٹریٹ لائٹ تاحال چپ تھی۔ چند محلے داروں نے چاند ماموں کو ان کے گھر میں دھکیل دیا۔

"بڈھا پاگل ہو گیا ہے اماں۔” ایک نے دادی سے کہا۔ "بچوں سے کہیں اس سے دور رہا کریں۔”

تایا چچا کو گھر لے آئے۔ سب بیٹھک کی کھڑکی چھوڑ کر صحن کی طرف دوڑے، البتہ میں وہیں رہ گیا۔

اسٹریٹ لائٹس چپ تھی۔

اگلے تین روز تک چاند ماموں گھر سے نہیں نکلے۔ چوتھے روز لالچی رشتے دار ان کے گھر گیا، تو منہ پر رومال رکھے لوٹ آیا۔ اور دروازے پیٹ پیٹ کر محلے والوں کو جمع کرنے لگا۔

چاند ماموں کا انتقال ہو چکا تھا۔

یہ پہلا موقع تھا، جب مجھے ادراک ہوا کہ لوگ مر بھی جاتے ہیں۔

سب اکٹھے ہو گئے۔ کچھ لوگ گیس بتی لیے گھر میں داخل ہوئے۔ سڑانڈ کم کرنے کے لیے کافور چھڑکا۔ لالچی رشتے دار، یہ کہتے ہوئے کہ وہ گھر سے کچھ پیسے لے کر آتا ہے کہ تدفین کا انتظام کر سکے، بغل میں ایک فائل دبائے وہاں سے چلا گیا، اور پھر لوٹ کر نہیں آیا۔

محلے والے یونہی متذبذب رہتے، اگر چچا پُرنم آنکھوں کے ساتھ آگے بڑھ کر تدفین کے انتظامات شروع نہ کرتے۔ تایا مسجد گئے۔ گہوارہ آ گیا۔ چچا کاندھا دینے والوں میں سب سے آگے تھے۔ ان کی آنکھوں میں بہت سا پانی تھی۔

بڑے ابو بھی قبرستان گئے۔ تایا نے لوٹنے کے بعد بتایا، ضمیر نے چاند ماموں کو قبر میں اتارا۔

٭٭

 

ابو کی فلائٹ والے روز شہر میں کرفیو لگ گیا۔ تایا اُنھیں لینے گئے، تو اتنی تاخیر سے لوٹے کہ گھر کی عورتوں نے مصلے بچھا لیے۔ شام ڈھلے جب ابو گھر میں داخل ہوئے، دادی اماں نے اُن کا ماتھا چومنے سے قبل سجدے میں گر کر زمین کو بوسہ دیا۔

ابو نے مجھے گود میں اٹھا لیا۔ میں دو برس پرانی مار بھول گیا۔ اس رات بڑے امی نے ببو اور مجھے اپنے پاس سلایا۔

بارات والے روز بھی شہر میں کرفیو لگا تھا۔ نہ تو ڈھول بجا، نہ ہی گیت گائے گئے۔ عورتیں اور بچے گھر ہی میں ٹھہرے۔ مردوں کے ساتھ صرف دادی گئیں۔ ناچنے اور پیسے لوٹنے کا میرا اور بھولو کا منصوبہ غارت ہوا۔

چند گھنٹے بعد جب وہ لوٹے، تو ہماری گھبرائی ہوئی خوب صورت چچی، سرخ رنگ میں یوں لپٹی تھیں کہ گھبراہٹ اور خوب صورتی، دونوں چھپ گئے۔

دلہن کو کمرے میں بھیجنے سے قبل تمام بچوں کو سُلادیا گیا۔ میں بھی صحن میں بچھے پلنگ پر سو جاتا، اگر اُس رات نانی کے بجائے دادی کہانی سنا رہی ہوتیں۔

آسیبی کہانیوں کے تحیر نے مجھے جگائے رکھا۔ میں نے دلہن کو چھن چھن کرتے کمرے میں جاتے، کچھ دیر بعد چچا کو سر جھکائے کمرے میں داخل ہوتے، اور پھر دروازہ بند ہوتے دیکھا۔

آخر میں کھڑکی بند ہوئی۔ جس کے بند ہونے سے پہلے میں نے جزدان اور دمکتے برتنوں کے پہلو میں پڑا شطرنج کا تختہ دیکھ لیا تھا۔

مارشل لا لگنے کے دور روز بعد لالچی رشتے دار نے نیم کا درخت کٹوا دیا، اور ہم چھاؤں سے محروم ہو گئے۔ بڑے ابو پورے ایک ہفتے خاموش رہے۔

اگلے موسم گرما میں جب چھت پر چارپائیاں بچھیں، تو میں نے تاروں بھرے آسمان کو خود پر ایستادہ پایا۔ چاند مٹھی میں بند کیا۔ چہرہ رضائی سے باہر رکھا۔ مونگ پھلی والے کی آواز سنی۔ کتے بھونکے۔ اور پھر

کوئی کھانسا….

٭٭٭

 

    مکّو دادا کی اساطیر

 

 

وہ تاریخی اہمیت کا حامل ایک عام دن تھا۔

صبح کا آغاز موبائل چھن جانے جیسے عمومی اور "بے ضرر” واقعے سے ہوا۔

دفتر پہنچ کر میں نے تیز پتی والی چائے پی، اور سانحے پر خداوند خدا کا شکر ادا کیا۔

شام ڈھلے، گھر لوٹتے سمے پُراسرارسرگوشیوں کی ہدایت پر نالے والی گلی لے لی۔ کچرا کنڈی کے پاس ایک نشئی بیٹھا تھا۔

"لمحۂ موجود زندہ باد!”اس نے نعرہ لگایا۔ میں نے اسے نظرانداز کر دیا۔

میں ایک لا ابالی شخص کی طرح ہنستا کھیلتا، گیت گاتا گلی سے گزر رہا تھا کہ ایک قدیم آواز نے دبوچ لیا۔

"سالو، جانتے ہو میں کون ہوں؟ مکّو دادا ہوں میں۔ مکّو دادا!”

کیسی دھار تھی۔ اس آواز نے میری بے ساختگی کو قتل کر ڈالا۔ میں پلٹا۔

وہ ایک ہجوم تھا۔ چند لڑکے۔ ایک کے ہاتھ میں بلا۔ ایک کے گیند۔ دو خالی ہاتھ پر وہ آواز کے ماخذ نہیں تھے۔ اُس کا ماخذ تو وہ دھان پان شخص تھا، جس کی بڑی اور بوڑھی آنکھوں میں وحشت تھی۔ اور خشک بالوں میں گنگا بہتی تھی۔ اور منہ سے کف اڑاتا تھا۔

وہ غصیل اور خستہ حال شخص مکّو تھا مکّو دادا۔ جس نے مارشل لا کے آخری دنوں میں پانچ افراد کو چھرا گھونپ کر علاقے میں سنسنی پھیلا دی تھی۔ چندے کے ڈبے سے پیسے چرائے تھے۔ تین پولیس اہلکاروں کے سر پر مٹکے پھوڑ دیے تھے۔ کئی نوجوانوں کی رگوں میں ہیروئن کا نشہ گھولا۔ ایک بچے کو جنسی ہوس کا نشانہ بنانے کا الزام بھی اُس پر عاید کیا جاتا تھا۔

تو وہ مکّو بدمعاش تھا۔ اور اس کی آنکھیں شعلے اگل رہی تھیں۔ ” سالو، تمھیں کہا بھی تھا کہ یہاں دوبارہ قدم مت رکھنا۔ ماؤں بہنوں کو تاڑتے ہو۔ حرامیو!”

لڑکے سراسمیہ اور ناراض دکھائی دیتے۔ ایک کے ہاتھ میں بلا۔ ایک کے گیند۔ دو خالی ہاتھ۔

وہ تاریخی اور لازوال دن تھا،

وہ سرگوشیوں بھری دنیا تھی،

میرے قدم جھنڈ کی سمت بڑھتے تھے،

اور ماضی ذہن کے پردے پر منعکس ہوتا تھا۔

٭٭

 

ابھی مارشل لا نہیں لگا تھا۔ نو گیارہ کا سانحہ کچھ دور تھا۔

یہ اُن دنوں کی کھٹکھٹاہٹ ہے، جب سردی، گرمی، دونوں بھاتے۔ موسم خزاں، موسم بہار ایک سا لطف دیتے۔ ایک روپے میں سموسا مل جاتا، دو روپے میں چاٹ۔

ہم ابھی بچے تھے۔ ایک چھوٹی سی، تاریک اور سیلن زدہ عمارت میں زیر تعلیم تھے۔ اور اپنی استانیوں سے محبت کیا کرتے تھے۔

اُسی زندہ اور شوخ زمانے میں پہلی بار میرا مکّو دادا سے سامنا ہوا۔ گو میں منٹو کے افسانے اور معتزلہ کی تاریخ پڑھ چکا تھا، مگر نہیں جانتا تھا کہ یہ شخص ایک Living Legend ہے۔ "ذاتی اساطیر” رکھتا ہے۔

ہم میٹرک کا نصاب چاٹتے تھے۔ اور انٹرویل کا گھنٹا بجنے کے بعد ظہور میں آنے والی دنیا، ہماری دنیا تھی۔

اسکول کے باہر ایک تنگ گلی تھی۔ وہ ہماری ریاست تھی۔ ٹھیلوں پتھاروں کے باعث وہ سکڑ جاتی، پر ہم جگہ نکال لیتے۔

اس روز ہم کرکٹ سے دل بہلا رہے تھے۔

سرما تھا۔ بلا میرے ہاتھ میں تھا۔ گیند باز المعروف ناصر کالیا نہ جانے کس بات پر خفا تھا۔اس نے باؤنسر سے حملہ کیا۔ میں نے ہُک کھیلا۔ گیند ساتھ والے مکان کی چھت پر غائب ہو گئی۔

مجھے مغلظات بکنے کے بعد مکان کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا۔ چند لحظے بعد ایک پٹ کھلا۔ غلیظ پردہ لہرایا۔ ایک نچلے متوسط طبقے کی عورت برآمد ہوئی۔

مذاکرات کے لیے اصولی طور پر مجھے آگے آنا تھا کہ میں ڈیل کارنیگی کو پڑھ چکا تھا، مگر غفور المعروف غفی چلبلا بازی لے گیا۔

"خالہ۔ تمھاری چھت پر گیند آئی ہے۔”

مجھے اُس کا اندازِ گفتگو ایک آنکھ نہیں بھایا، میں ہوتا، تو کہتا” "محترمہ، زحمت نہ تو ہو ذرا دیکھیں، ہماری گیند غلطی سے آپ کی چھت پر چلی گئی۔”

عورت چلبلے کے لہجے سے آشنا تھی کہ وہ بے ساختہ اور خوش بیاں معلوم ہوتا تھا کہ اُس کے بچے اُسے ایسے ہی مخاطب کیا کرتے تھے۔

اُس نے ہمیں چھت پر چڑھنے کی اجازت دے دی۔

میں اور کالیا کوئی عذر پیش کرنے کی بابت سوچ ہی رہے تھے کہ چلبلا گیس کے میٹر، دیوار میں بنے مشکوک گڑھوں اور اِسی طرح کی کچھ اور سہولیات کے سہارے، مانند لنگور، دیوار پر چڑھ گیا۔ اور زرّافے جیسی گردن استعمال میں لاتے ہوئے ٹین کی چھت پر گیند تلاش کرنے لگا۔

تو اب چلبلا دیوار پر لٹکا تھا۔ میں اور کالیا اُسے دیکھ کر بغلیں بجا رہے تھے، مسعود المعروف ابو اور فیصل المعروف سنیل شیٹھی بھی ہمارے رقص مسرت میں شامل ہو گئے۔

اور تب اُس جادوئی لمحے کا جنم ہوا، جو تا حیات میرے ذہن پر چسپاں رہنے والا تھا۔

دھڑ سے دروازہ کھلا روشنی ہوئی پردہ سلوموشن میں لہرایا ڈرامائی موسیقی سنائی دی۔

وہ ایک آدمی تھا۔ بڑی بڑی آنکھوں میں غضب کا جلال۔ بکھرے بالوں میں لاتعلقی۔ رنگ سیاہ مائل سنہری۔

"ابے سالے۔” یہ وہ تاریخی جملہ تھا، جس نے اُس طلسماتی لمحے کو سبوتاژ کر کے مزید جادوئی کر دیا۔

وہ کسی عظیم سورما کے مانند، بھیم کے مانند، ڈنڈا لیے مکان سے باہر آیا اور اس نے مگدر لہرایا اور اردگرد خندقیں پیدا ہو گئیں۔

میں اور کالیا دم دبا کر بھاگ نکلے۔ مڑ کر دیکھا، چلبلا عین ہمارے پیچھے تھا۔ انتہائی مطمئن اور مسرور۔

اور مکان کے دروازے پر وہ کھڑا تھا۔ ہاتھ میں ڈنڈا لیے۔ ڈنڈا، جو مثل مگدر تھا۔ جو اس کا ہتھیار تھا۔ اُس دیوتاؤں سے جلال والے کی پشت پر ایک پردہ لہرا رہا تھا۔ وہ عورت کھڑی تھی، جسے چلبلے نے خالہ کہہ کر پکارا تھا۔

اُسی سہ پہر کالیے نے مجھے مکّو دادا کے لازوال کارناموں سے آگاہ کیا۔ البتہ بچے کے ساتھ جنسی زیادتی والا قصہ گول کر گیا۔ اُس کا خیال تھا، اِن باتوں کے لیے ابھی میں بہت چھوٹا ہوں۔

مجھے یاد ہے، مکّو کی دل دہلانے دینے والی کہانیاں سناتے سمے وہ بے طرح ہنس رہا تھا، جس سے مجھے گمان گزرا کہ وہ بدمعاش کا مذاق اڑا رہا ہے۔

وقت حسین وقت، برق رفتار وقت، الکس سے گزرتا رہا۔ سموسے کی قیمت ایک روپے ہی رہی۔ چاٹ چٹ پٹی تھی۔ ہمارا اور استانیوں کا پریم سمبندھ اب اٹوٹ تھا۔

اُن ہی دنوں ایک پکی پکائی، گندمی رنگت والی، انتہائی گھریلو عورت نے "نئی مس” کے طور پر انٹری ماری۔ اور ہمیں اسلامیات اور مطالعہ¿ پاکستان جیسے اہم ترین مضامین پڑھانے کا قومی و مذہبی فریضہ سنبھالا۔

وہ اس حد تک عام اور اپنی اپنی تھی کہ چند لڑکیاں ازراہ مذاق اُسے امّی کہنے لگیں، جس پر وہ شرما جاتی۔ مسعود ابو کے مطابق مسکراتے سمے وہ اپنا پیٹ ایک خاص ادا سے چھوتی۔

ایک دن امّی نے انٹرویل میں — وہ مقدس وقفہ جب ہم روٹی شُکر کر کے توڑتے، اور بانٹ کر کھاتے— ہمیں اپنے گھر سے کھانا لانے کی شریفانہ ہدایت کی۔

ہم نے شُکر کیا۔

جب اُس نے پتا بتایا، تو ہم انکشاف کے حصار میں آ گئے۔ انکشاف کہ وہ ہر صبح اُسی گھر سے برآمد ہوتی تھی، جس سے مکّو درآمد ہوتا تھا۔ شاید وہ اس کی ہم شیرہ تھی۔

توہم گذشتہ واقعے کی چٹختی یادوں سے لدے، کھلکھلاتے، ہنہناتے اس مکان کی سمت بڑھنے لگے، جس کی دیوار پر آج بھی چلبلے کے جوتوں کے نشان ثبت تھے۔

دروازہ بجایا گیا۔ وہ کھلا۔ ایک بچی۔ معصوم بچی۔

"مس کا کھانا۔ ہی ہی ہی!” کالیے کا بھونڈا پن عروج پر تھا۔

بچی غائب ہو گئی۔ہم منتظر رہے۔ اور پھر ہواؤں کا رخ تبدیل ہوا۔ خشک پتے— سرخ، چنار کے پتے— مشرق سے ظاہر ہوئے۔ بادل امنڈ کر آئے۔ پرندوں کے جھنڈ دیکھے گئے۔ اور دروازہ کھلا۔

"ابے کیا ہے؟” ایک مکروہ اور زندہ آواز۔

وہ ہی، یقینی طور پر۔

"جی کھانا ہی ہی ہی۔” کالیا، یقینی طور پر۔

"چلو بھاگو سالو۔” اس نے اپنے ٹریڈ مارک انداز میں ہمیں مخاطب کیا۔ ہمیں خوشی ہوئی۔ شاید ہم اس کی توقع کر رہے تھے۔

"ماؤں بہنو ں کو چھیڑتے ہو۔ نکل لو۔”

ہم نکل لیے۔ واپس آ کر پورا واقعہ امّی کو گوش گزار کیا۔ امّی مایوس نظر آئیں۔

دوسری استانی نے، جو قطعی امّی جیسی نہیں تھی، بلکہ ماڈرن اور شوخ اور قابل محبت تھی، مجھے دس روپے کا نوٹ تھمایا۔ "سنو لڑکے، سموسے لے آؤ۔”

"یس مس۔” میں نے نوٹ لیتے ہوئے فوجیوں کے سے انداز میں کہا۔

وہ پری وش مسکرائی۔ "دس سموسے۔ اور دس روپے واپس۔ سمجھے؟”

کنوارے قہقہوں سے اسٹاف روم بھر گیا۔ میں نے بھونچکا رہ جانے کا بھونڈا تجربہ کیا۔

٭٭

 

امیرالمومنین بننے کا سپنا ابھی ٹوٹا نہیں ہے، البتہ جلد ٹوٹنے کو ہے۔ پڑوس میں خلیفہ چنا جاچکا ہے۔ ایٹمی دھماکے ہو چکے ہیں۔

ہمارا دڑبے نما اسکول، ایک چھوٹا سا دڑبے نما اسکول ہے۔ وہاں گھٹن اور تاریکی اور سیلن ہے، جو ہمیں بھاتی ہے۔

وہ ایک گنجان، غریب اور سیاست زدہ بستی کی تنگ سی گلی میں واقع ہے۔ گلی جو پتھاروں اور ٹھیلوں سے بھری رہتی۔ کھانے کے وقفے میں وہاں کنوارے لڑکوں اور باکرہ لڑکیوں کا ظہور ہوتا۔ وہ خود کو روئے زمین کی عقل مند ترین مخلوق خیال کرتے۔ اور وہ گلی، خود کو روئے زمین کی خوش قسمت ترین گلی۔

انٹرویل کے دوران اسکول کے مرکزی دروازے سے پندرہ قدم بائیں، اور پندرہ قدم دائیں گن کر، چند تگڑے لڑکوں کو کھڑا کر دیا جاتا، جو ہوتے تو چوکی دار، مگر خود کو Custodian کہہ کر متعارف کرواتے۔

اُس تنگ سی گلی میں ہمارے لیے خاصی کشادگی تھی۔ ہم مرکزی دروازے کی بائیں جانب پندرہ قدم گنتے، پھر اُن میں پانچ قدم مزید جوڑ دیتے۔ اور یوں اپنی بیٹھک تک پہنچ جاتے۔

یہ مکّو دادا کا علاقہ تھا۔

اُس کے خستہ حال مکان کے باہر ادھڑا ہوا چبوترا تھا، جس پر بیٹھنا یار دوستوں کو تو گوارا تھا، مگر مجھے نہیں کہ یہ سراسر بد تہذیبی کے زمرے میں آتا۔ البتہ اس چبوترے کے کونے میں ایک بڑا سا پتھر، جو کبھی کبھی پوری ایک چٹان کا التباس پیدا کرتا، دھرا تھا۔ پتھر حیران کن حد تک ہموار تھا۔ وہ چبوترے کا سب سے اونچا مقام تھا۔ اس تخت کے مانند، جس پر کبھی شہزادے بیٹھا کرتے تھے۔ اور وہیں بیٹھے بیٹھے رفع حاجت کیا کرتے۔

تو وہ ہمارا تخت تھا۔ وہ ہماری دنیا تھی۔

بیٹھنے سے قبل پھونک مار کر کہ قوی الجثہ پتھر سے مٹی اڑانا باقاعدہ ایک رسم تھی۔ کبھی کبھار وہاں ہمیں پانی گرنے کی، جھرنوں کی آواز سے مشابہ، مشکوک آوازیں سنائی دیتیں۔ پُراسرار طور پر تعفن پھیل جاتا۔

پھر عقدہ کھلا کہ یہ دراصل گٹر ہے، جو مکّو کے مکان کی سیوریج لائن سے جڑا ہے۔ اندر ہونے والی کارروائیاں ہی پانی گرنے کا شور اور تعفن پیدا کرتی ہیں۔

تو ایک دفعہ کا ذکر ہے۔ ہم دوست وہاں، اسی تخت پر، شہزادوں کے مانند براجمان تھے۔ اور اس واقعے کو بیتے، جب مکّو نے چلبلے پر مگدر سے حملہ کیا تھا، خاصا وقت بیت گیا تھا۔ اور بہت سی بارشیں ہو چکی تھیں۔ اور ہم اکھڑ اور پُر اعتماد ہو گئے تھے۔

تو ہم تخت پر بیٹھے قہقہے لگا رہے تھے۔ میرا معصومانہ قہقہہ سب سے بُلند اور پُر قوت تھا۔ ناصر کالیا، مسعود ابو اور غفور چلبلا میرے پھیپھڑوں کا مقابلہ کرنے میں ناکامی کے بعد اوچھی حرکتوں پر اتر آئے۔

چلبلا ایک ٹانگ پر کھڑا ہو گیا، اور بھیک مانگنے لگا۔ کالیے نے جنسی اشارے کیے۔ ابو چار ٹانگوں پر چلتے ہوئے فحش آوازیں نکالنے لگا۔

اچھا خاصا تماشا لگ گیا۔ گلی کی باکرائیں اور کنوارے ہماری سمت متوجہ ہوئے، اور پاس آ کر کھڑے ہو گئے۔

وہ تالیاں بجا کر، نعرے لگا کر سورماﺅں کی حوصلہ افزائی کرنے لگے۔ اس حوصلہ افزائی نے سورماﺅں کو مزید اوچھا کر دیا۔

عجیب، پراسرار طوفان بدتمیزی برپا تھا۔

اور تب مجھے یاد ہے، اچھی طرح ٹھیک تب وہ علامات ظاہر ہوئیں، جو میں اپنی ننگی آنکھ سے پہلے بھی دیکھ چکا تھا۔ ہواؤں کا رخ بدلنا، سیاہ گھٹائیں، خشک پتے، زرد تتلیاں، پروں کی پھڑپھڑاہٹ

وہ ہی دروازہ، جس کے پیچھے ایک بوسیدہ غلیظ پردہ تھا، دھڑ سے کھلا۔ مکّو چھلانگ مار کر باہر آ گیا۔

اُسے دیکھ کر ہمارے مسخرے پن کو بریک لگ گئے۔

اور وہ دہاڑا۔ "سالو، کتنی بار منع کیا ہے۔ یہاں مائیں بہنیں رہتی ہیں۔ حرامیو”

وہ آگے بڑھا۔ ہم پیچھے ہٹے، مگر چلبلا وہیں کھڑا رہا کہ اب وہ بھاگنے کو تیار نہیں تھا کہ اب وہ بڑا ہو گیا تھا، اور مہینے میں ایک بار زیر ناف بال صاف کیا کرتا تھا۔

"سالو” اور اس نے اپنا مگدر گھمایا۔

وہ منظر سلو موشن میں تھا۔ مکّو نے چُلبلے کو گریبان سے پکڑ لیا۔

"تجھے تو میں وہاں پہنچا دوں” کف اڑاتے ہوئے اس عقوبت خانے تذکرہ کیا، جو ایک سیاسی جماعت کے دفتر کے طور پر مشہور تھا۔

چلبلا متاثر نہیں ہوا کہ اُس کے چاچے، مامے، پھپھے، خالو، بھائی، بہن، سب اسی سیاسی جماعت سے وابستہ تھے۔

اس نے مکّو کو زور سے دھکا دیا۔ بدمعاش کا خستہ حال بدن دھکے کی شدت برداشت نہیں کرسکا۔ اور ہم نے ایک Living Legend کو زمین پر پڑا دیکھا۔

وہ افسوس ناک منظر تھا۔

قہقہے بلند ہوئے۔

Living Legend چھلانگ مار کر کھڑا ہو گیا۔ اوراس لمحے میرے کانوں نے وہ طلسماتی آواز سنی، جس نے ہنوز مجھے حصار میں لے رکھا ہے۔

وہ چاقو کھلنے کی آواز تھی۔

پورب، پچھم، اتر، دکن، ہر سو سراسیمگی اور ہیبت پھیل گئی۔ بندر جفتی کے عمل سے باز آئے۔ ہاتھی گوشت کھانے لگے۔

"کیا کر رہے ہیں بھائی۔” ایک عورت ہجوم کو چیرتی آئی۔ اب وہ مکّو اور چلبلے کے درمیان کھڑی تھی۔

میں نے دیکھا۔ یہ وہی عورت تھی، جسے سب امّی کہا کرتے۔

کالیا اور ابو نے آگے بڑھ کر چلبلے کو پکڑ لیا۔ اسے گھسیٹنے لگے۔ ان کی ناکامی نے مجھے تحریک دی۔ ہماری بھرپور کوششوں کے طفیل چلبلا محفوظ علاقے میں پہنچ گیا۔ مکّو بوسیدہ پردے کے پیچھے غائب ہو گیا۔

واقعہ گزر گیا۔

اس دوپہر چلبلا غصے سے پھنکارتا رہا۔ استانیاں اس پر اپنی اجلی محبت اچھالتی رہیں۔

جاتے سمے اس نے انکشاف کیا کہ کل کا دن، مکّو کی زندگی کا آخری دن ہو گا۔

ہم ڈر گئے۔ خطرے کے پیش نظر چھٹی کے بعد ابو، ایک بڑے بھائی کی طرح، اُسے گھر چھوڑنے گیا۔

اگلے روز چلبلا نہیں آیا۔ دوسرے یا شاید تیسرے پیریڈ میں ابو نے، جو ہیڈ بوائے تھا، انکشاف کیا کہ وہ (چلبلا) شلوار قمیص میں ملبوس اپنے چاچے، مامے، پھپھے، خالو اور بھائیوں کے جھرمٹ میں، پرنسپل صاحبہ کے کمرے میں دیکھا گیا ہے۔

مجھے خطرہ محسوس ہوا، مگر پھر یہ سوچ کر مطمئن ہو گیا کہ پرنسپل صاحبہ اپنی دراز میں ریوالور رکھا کرتی ہیں۔

ابو نے یہ بھی بتایا کہ High profile میٹنگ خاصی دیر جاری رہی، جس کے بعد چاچے، مامے چلبلے کو لیے گھر لوٹ گئے۔

"اور جاتے سمے ان کے سر بلند تھے چال میں گستاخی تھی سینے پھولے ہوئے وہ فاتح معلوم ہوتے تھے۔” ابو نے کہا۔

انٹرویل سے کچھ لمحات قبل اسکول میں پُراسرار واقعات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

بتیاں خود بہ خود جلنے بجھنے لگیں۔ سلفر کی بُو پھیل گئی۔ لنچ بکس سے سسکیاں سنائی دینے لگیں۔ تختۂ سیاہ پر بے ربط لکیریں ظاہر ہوئیں۔ اور لڑکیوں کو ماہ واری شروع ہو گئی۔

پیچیدگی پھیلی، تو اسٹاف روم، جو ہماری کلاس سے چسپاں تھا، دھیرے دھیرے خالی ہونے لگا۔ ہیڈ بوائے اور ہیڈ گرل نے بھی ایک دوسرے کو چند ناقابل فہم اشارے کیے، اور اٹھ گئے۔

میں ان دونوں کا تعاقب کرتے ہوئے اسکول سے باہر آ گیا۔

مکّو کے گھر کے پاس رش لگا تھا۔ وہاں سے گڑگڑانے، کسمسانے اور منمنانے کی آواز آ رہی تھی۔

میں آگے بڑھا۔ کہنیاں مار کر ہجوم میں جگہ بنائی۔

وہ پرنسپل صاحبہ تھیں۔ سخت غصے میں۔ منہ سے جھاگ نکل رہے تھے۔ آنکھیں سرخ۔ اُنھوں نے بچوں کی طرح انگلیوں کو ریوالور کی شکل دے رکھی تھی۔

اور اُن کے عین سامنے مکّو مکو دادا ایک اساطیری کردار، بھیگی بلی بنا کھڑا تھا۔ وہ مسکین اور پھٹے حال معلوم ہوتا تھا۔

"باجی نہیں باجی ایسی کوئی بات نہیں میں تو میں”

"تم نے میرے اسٹوڈنٹ پر چاقو سے حملہ کیا۔” پرنسپل صاحبہ المعروف بوڑھی شیرنی دہاڑی۔ "تمھاری ہمت کیسے ہوئی۔ وہ بچہ یہاں پڑھنے آتا ہے۔”

مجھے دُکھ ہوا۔ وہ غلط بیانی سے کام لے رہی تھیں۔ چلبلا کبھی پڑھنے نہیں آیا، وہ ہمیشہ کہا کرتا تھا۔ "میں تو یہاں ٹائم پاس کرنے آتا ہوں۔”

"نہیں باجی میں تو”

"اگر تم نے دوبارہ ایسی حرکت کی، تو میں پولیس بلوا لوں گی۔”

"ارے نہیں ہم تو شریف لوگ ہیں بال بچے دار۔ باجی آپ تو جانتی ہیں۔” گڑگڑاہٹ۔ منمناہٹ۔

"میں نے تمھیں بچا لیا، ورنہ وہ تمھیں گھسٹیتے ہوئے ندی والے اسکول لے جاتے۔”

ندی والا اسکول وہی عقوبت خانہ، جس کی بابت خیال کیا جاتا تھا کہ وہ ایک سیاسی جماعت کا دفتر ہے وہ ہی عقوبت خانہ، جہاں کل دوپہر مکّو چلبلے کو لے جانے کی دھمکی دے رہا تھا۔ اور آج ۔۔

کیسی بلندی کیسی پستی!

"نہیں باجی میں تو یہ تو میرے بچے ہیں میرے بچے۔”

مکو آگے بڑھ کر کالیے سے لپٹ گیا۔ اس کا ماتھا چوما۔ گال چاٹا۔

کالیے نے اسے خود سے پرے دھکیل دیا۔

"آیندہ مجھے کوئی شکایت ملی تو” پرنسپل صاحبہ۔

"نہیں باجی آپ تو میری ماں ہو کوئی شکایت نہیں ملے گی۔ ہم شریف لوگ ہیں”

اُس دن کے بعد میں نے پھر کبھی مکّو کو گلی میں جھاڑو لگاتے نہیں دیکھا۔ خود سے جُڑی اساطیر کم زور پڑتے ہی غائب ہو گیا۔ اس کی بہن کو اسکول سے فارغ کر دیا گیا۔ ہم یہ قصّہ بھول کر پھر اسی چبوترے پر شہزادوں کے طرح بیٹھنے لگے۔

میٹرک کا مرحلہ طے ہوا۔ اس گلی سے جُڑا رومانس اختتام کو پہنچا۔ وہاں کے قصّے، وہیں دفن ہو گئے۔ ہم آگے بڑھ گئے۔ دوست بھی اب کم کم ملنے لگے۔

سب اپنی اپنی جنسی اور پیشہ ورانہ زندگی میں گم تھے ، اور دکھی تھے کہ تاریخی اہمیت کے حامل ایک عام سے دن کا ظہور ہوا۔ اور میرا ماضی میرے سامنے ناچنے لگا۔

"سالو، جانتے ہو میں کون ہوں؟ مکّو دادا ہوں میں۔ مکو دادا!”

آواز مجھے برسوں پیچھے لے گئی۔

میں پلٹا۔

وہ چند لڑکے تھے۔ ایک کے ہاتھ میں بلا۔ ایک کے گیند۔ دو خالی ہاتھ۔ اور ان کے سامنے ایک دھان پان شخص، جس کی آنکھیں بڑی اور بوڑھی تھیں، اور بال خشک، کھڑا کف اڑا رہا تھا۔

وہ ایک اساطیری کردار تھا۔

اور میں اس مختصر سے ہجوم کی سمت بڑھا۔ ایک جانب دھان پان، خستہ حال مکّو۔ اور دوسری طرف چار نوجوان، باغی اور ڈرے ہوئے ۔

اور میں ہجوم کا حصہ بن گیا۔

مکّو دادا نے نظر اٹھا کر مجھے دیکھا۔ شاید پہچان لیا۔ یا شاید نہیں پہچانا۔ شاید مجھے وہ بچہ سمجھ بیٹھا، جس کے ساتھ زیادتی کرنے کا الزام اُس کی اساطیر کا حصہ تھا۔

وہ جھٹپٹے کا وقت تھا۔ مخمصے کا وقت تھا۔ میں مکّو کے سامنے تھا۔ میں چار نوجوانوں کے سامنے تھا۔ اور آج صبح ہی میرا موبائل چھینا گیا تھا۔

میں لڑکوں کی طرف جھکا۔ چلایا۔ "بھاگ جاؤ یہاں سے گدھو۔ جانتے ہو کون ہے؟ مکّو دادا ہے۔ سالو، ایک ہاتھ رکھ دیا، تو تمھاری ماں بہن ہو جائے گی۔”

چاروں لڑکوں نے میری بات بے یقینی، بے زاری اور ناپسندیدگی سے سنی۔

میں نے مزید کہا۔ "چھے آدمیوں کو چھرا گھونپا تھا دادا نے۔ اب بھی چاقو پاس رکھتا ہے۔ دیکھنا ہے؟ دکھائے تمھیں اپنا چاقو؟”

میرے لہجے میں رعب، غصہ اور التجا تھی۔ لڑکوں نے تینوں ہی پر ہم دردانہ غور کیا، اور دھیرے دھیرے کھسکنے لگے۔

جب وہ گلی کے نکڑ پر پہنچے، تو میں نے آواز لگائی۔ "سالو، آیندہ یہاں قدم مت رکھنا۔ یہ مکّو دادا کا علاقہ ہے۔”

وہ چلے گئے۔

میں اور مکّو جھٹپٹے اور مخمصے کے درمیان ایک دوسرے کے پہلو میں کھڑے رہ گئے۔

وہ جادو بھرا لمحہ تھا۔

میں اس کی سمت مڑا۔ اور میرے چہرے پر ایک دوستانہ مسکراہٹ تھی کہ میں اس سے محبت کرتا تھا کہ وہ میرے بچپن کا انوکھا پن تھا۔

وہ ایک یاد تھا۔

ہواؤں نے رخ بدلا۔ ایک زرد تتلی منظر میں ظاہر ہوئی۔ ایک پرندہ ہمارے سروں پر پھڑپھڑا رہا تھا۔

مکّو دھیرے سے مسکرایا۔ آنکھوں میں احساس تشکر تھا۔

وہ چند ساعتیں صدیوں سی طویل اور پَلوں سی مختصر اور کائنات سی بے انت تھیں۔

اچانک مکّو دادا نے پلکیں جھپکیں۔

لمحۂ  موجود لوٹ آیا۔ سردی یک دم بڑھ گئی۔ کہرا چھا گیا۔ اور کہرے کے درمیان اس کی آنکھیں شعلے اگل رہی تھیں۔ وہ شیر کے مانند دہاڑا۔

"ابے، یہاں کھڑا کھڑا کیا کر رہا۔ چل نکل یہاں سے۔ آیندہ دیکھا، تو تو ٹانگیں توڑ دوں گا۔” آخری جملہ کہتے کہتے اُس کی آواز رندھ گئی۔

میں ڈر گیا۔ اور فوراً وہاں سے کھسک لیا۔

٭٭٭

 

 

 

 

    ادراک میں پیوست لمحۂ مرگ

 

 

نہیں۔ مذہب تبدیل کرنے کا فیصلہ میرے قتل کی وجہ نہیں تھا۔ قطعی نہیں۔ گو لمحۂ مرگ مجھے اِس کا کامل یقین تھا۔

میرے قتل کا سبب تو وہ قدیم ترین جذبہ تھا، جو انسان کو گوندھتے سمے اُس کی سرشت میں داخل کیا گیا۔ جس سے ہابیل اور قابیل کی لازوال اساطیر نے — فطرت کو مکمل کرنے کی غرض سے، ایک متوقع سانحے کے مانند — جنم لیا۔

جذبۂ رقابت، بے شک۔ میری حسین محبوبہ، بلا شبہ۔

ہاں، اِسی جذبے نے 24 مارچ 1947 کو دہلی پر اترنے والی دھند میں لپٹی ایک صبح، جب میرے قدم مندر کی سمت اٹھتے تھے، پیچھے سے وار کیا۔ اور میرا سر دو ٹکڑوں میں بانٹ دیا مجھے ختم کر دیا!

کائنات کے مرکز میں دھڑکتا میرا دل شاید ابد تک اِس انکشاف سے کوسوں دور جہل کے صحرا میں بھٹکتا رہتا کہ یہ مجھ پر، بڑے ہی غیر متوقع انداز میں، اور ایک حد تک خاموشی سے اتر آیا۔

یہ اُس وقت کی بات ہے، جب میں تیس کے پیٹے میں تھا۔ اور ایک ضعیف العمر شخص — ایسی صبح جب حادثات غیر امکانی معلوم ہوتے تھے — گرجے چلا آیا۔ یسوع کے کاندھوں کا بوجھ بڑھانے کے لیے۔ میرے روبرو اِس شریفانہ اعتراف کے لیے کہ اُس نے برسوں قبل، بٹوارے کے سمے، اپنی خوب رو بیوی پر تسلط قائم رکھنے کے لیے اُس شخص کو قتل کر دیا تھا، جو اُس کی عزت میں نقب لگانے کو تھا۔

اِس اعتراف نے، جسے اُس نے ایک مذہبی فریضہ سمجھ کر انجام دیا، مجھے اتیت کے اُن پنوں تک رسائی کا موقع فراہم کیا، جن کا تعلق میری موجودہ زندگی سے نہیں تھا، بلکہ گذشتہ زندگی سے تھا۔ بیت چکی زندگی سے۔ ختم ہو چکی زندگی سے۔

میں نے اُن پنوں تک رسائی حاصل کی، جو میرے خوابوں میں گم ہو گئے تھے۔ اور یوں میں دھند میں لپٹی ایک ایسی صبح میں داخل ہوا، جو اِس شہر پر تین دہائیوں قبل اتری تھی۔ اس وقت، جب میں زندہ تھا، اور مرنے والا تھا۔

مذہب تبدیل کرنے کا فیصلہ میرے قتل کا موجب نہیں تھا۔ اور اب میں یہ جانتا تھا۔

میرے ہاتھ میں سریا تھا۔ اور میں اپنے قاتل کی جانب — جس نے گزرے زمانوں میں مجھے قتل کیا تھا — بڑھ رہا تھا۔ وہ یسوع کی شبیہ کے سامنے سرجھکائے بیٹھا تھا۔ اِس بات سے لاعلم کہ ٹھیک ویسے ہی، جیسے اُس نے تین عشروں قبل مجھ پر ایک گھاتک حملہ کیا تھا، میں بھی اُس پر حملہ کرنے والا ہوں۔

حملہ جو اس کے سر کو ٹکڑوں میں بانٹ دے گا۔

٭٭

 

بمبئی پر شام اتر چکی تھی۔ حبس نے شہر کو جکڑ رکھا تھا۔

میں اسٹول پر کھڑا تھا۔ گلے میں پھندا تھا۔ ہوا دان سے گرجے کا مینار دکھائی دیتا تھا، جہاں ایک لاش پڑی تھا۔

میں نے کوئی تحریر نہیں چھوڑی۔ میں اپنی موت کی وجہ بیان نہیں کرسکتا تھا کہ یہ انتہائی گنجلک تھی کہ میری خودکشی کا سبب سمے کی ندی میں بہتا قدیم، مگر بساند سے پاک جذبۂ انتقام تھا۔

اس روز — جب میں اتیت کی جان کاری سے لیس تھا — خود کو قتل کرنے والے کو قتل کرنے کے بعد مجھ پر لازم ٹھہرا کہ خود کو مرگ کے الاؤ میں جھونک دوں کہ ایک مذہبی پیشوا کا سفاک قاتل کے روپ میں سماج کے سامنے آنا — خصوصاً اس باعث کہ خداوند نے اپنے دشمن کو معاف کرنے کی نصیحت کی ہے، اور اس باعث بھی کہ مقتول ایک بوڑھا شخص تھا — کسی طور مناسب نہیں۔

سو 24 مارچ 1979کو بمبئی پر نازل ہونے والی اُس حبس زدہ شام میں نے، بڑی سہولت کے ساتھ ، خود کو موت کے حوالے کر دیا۔

میں نے کوئی تحریر نہیں چھوڑی کہ میں خودکشی کا کوئی جواز پیش نہیں کرسکتا تھا۔ اور اگر پیش کرتا بھی تو بھلا کون یقین کرتا؟

اساطیر حقیقت نہیں ہوتی۔

٭٭

 

24 مارچ 2013 کو لاہور پر حملہ کرنے والی وہ دوپہر، ایک تپتی ہوئی دوپہر تھی۔

اور ایسے میں اگر اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے کسی صحافی کے قتل کی خبر جنم لے، تو جھلسے ہوئے ذہنوں میں جنبش کرنے والا پہلا خیال ماسوائے اِس کے اور کیا ہو گا کہ اُسے بے باکی اور بے احتیاطی کی سزا سنائی گئی۔ بس!

مگر اِس بار بھی، گذشتہ بار کی طرح، یہ میری موت کا حقیقی یا پھر اکلوتا سبب نہیں ہو گا۔ قطعی نہیں۔

اِس واقعے کے وقوع پذیر ہونے کی — جو ہونے کو ہے — ایک وجہ تو وہ درجنوں مشتعل افراد ہیں، جو مذہبی منتروں کا جاپ کرتے ہیں۔ اور ہشاش بشاش ہیں۔ جو اُس مکان کی سمیت، جس میں مَیں خود کو موجود پاتا ہوں، بستی کے کئی مکانات کو نذر آتش کر چکے ہیں۔ وہ میری بے ضرر تحریروں کو اپنے اشتعال کی، جو اُن کے نزدیک ایک نیک جذبہ ہے، وجہ بتاتے ہیں۔ البتہ یہ نہیں بتاتے کہ اُنھیں بھیجنے والے اِس اقلیتی بستی کی زمین پر قبضے کے متمنی ہیں کہ یہ شہر کے بیچوں بیچ ہے۔ اور قیمتی ہے۔

وہ یہ وجہ چھُپا جاتے ہیں۔

جب جلتی ہوئی دیواروں میں سرکتی حدت پہلی بار میرے بدن تک پہنچی، اور موت کے امکان نے انگڑائی لی۔ تب، ٹھیک تب — ٹھیک ویسے ہی جیسے برسوں قبل گرجا گھر میں کچھ وقوع پذیر ہوا تھا — کچھ وقوع پذیر ہوا۔

ایک انکشاف مجھے پر اترا۔

مجھے اپنا پچھلا جنم یاد آ گیا۔ اور پھر، یقینی طور پر، اُس سے پچھلا۔

اور میں نے کرم کے قانون کو سجدہ کیا۔ اور پھر اِس ماجرے کو ضبط تحریر میں لانے کے لیے” لیپ ٹاپ” کے سامنے آن بیٹھا۔ حدت سے جوجھتے ہوئے یا اُسے برداشت کرتے ہوئے، سماجی رابطے کی ایک ویب سائٹ تک رسائی حاصل کی۔ یہ سوچ کر کہ کاغذ پر لکھے شبد تو جل کرخاکستر ہو جائیں گے، مگر سائبر اسپیس کی لامتناہی دنیا اِس کی حفاظت کرے گی۔

تو میں قتل ہونے کو ہوں۔ اپنی بے باکی اور بے احتیاطی کے باعث نہیں، بلکہ اُن شعلوں کی وجہ سے، جنھیں مذہبی تعصب کے پنکھ ہوا دیتے ہیں۔ یا پھریا پھر اُس عفریت کی وجہ سے، جس نے پل بھر پہلے زمین کی اتھاہ گہرائی میں کروٹ لی ہے کہ جس نے میرے پیروں تلے لرزا طاری کر دیا ہے۔ اور مجھے یہ ادراک عطا کیا ہے کہ برسوں بعد زلزلے کے شکار اِس بیتتے لمحے کا ادراک اپنے انوکھے پن کے ساتھ ایک بار پھر مجھ پر اترے گا۔

ہاں، اگلے جیون میں۔ ٹھیک اُس لمحے، جب پچھلے جیون کے کرم تعاقب کرتے مجھ تک آن پہنچیں گے۔

اور مرگ کا عظیم لمحہ خود کو موجود کرے گا۔

٭٭٭

 

 

 

 

    آنند کی بپتا

 

 

"میں تیرے سب عجیب کاموں کو بیان کروں گا!”

(زبور، 9/1)

 

پربت شانت تھے۔ اور ندی چُپ۔

فضائیں لافانی ٹھہراؤ سے ٹھٹھرتی تھیں۔

اور سمے پر سناٹے کا کُہرا چھایا تھا۔

جھاگ چھوڑتے پَل ساکن تھے کہ تتھاگت پیڑ تلے بیٹھا تھا۔ ہاتھ میں پھول لیے۔ خاموش۔ چوکس۔

میری نظر اپنے آدھیاپک پر ٹکی تھی۔ اور میں دیکھ سکتا تھا، خواہش کی جنبش سے آزاد اُس کا شریر۔ عدم وابستگی کی طمانیت سے لشکتا چہرہ۔

میں دیکھ سکتا تھا کہ میں وہیں تھا۔ اس کے پہلو میں۔ ہمیشہ کی طرح، ایک سایے سا۔

تو وہاں سکوت تھا، جس میں اطمینان سانس لیتا۔خاموشی اُس کی بھاشا تھی۔

پر وہ، جو اُس کے درشن کو آئے تھے — ارغوانی لبادوں میں ملبوس، اُسے اپنا کُل ماننے والے، اس کے سیوک….اُن کے من میں اضطراب جوش مارتا کہ وہ خواہشات سے آزاد نہیں تھے، بلکہ نتھی تھے۔ اُس سے جو ہاتھ میں ایک پھول ….معمولی پھول ….لیے چھاؤں میں بیٹھا تھا۔ اور شاخیں اُسے آغوش میں بھرنے کو جھکتی تھیں۔

بھکشو یقین کیے بیٹھے تھے کہ گیان کے ساگر میں کچھ رونما ہونے کو ہے۔ وہ بدھی مان کچھ اَن کہا، کہنے کو ہے کہ اتیت میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ وہ سروشکتی مان یوں ہاتھ میں پھول لیے اُن کے سامنے آن بیٹھا ہو۔

تو وہ مضطرب تھے۔ کسی انکشاف کے منتظر۔ اور میں بھی اُن میں شامل تھا، مگر وہ ….اس صورت حال کا محرک، جسے شاخیں آغوش میں لینے کو لپکتیں ….چپ تھا۔

پل بیتتا تھا۔ اور چپ کی چاپ سنائی دیتی ، جو بھکشوؤں کے من میں جوار بھاٹے لاتی۔

اور تب جب سننے والوں کی آتما میں کچھ انوکھا سننے کی خواہش دہکتی تھی، قہقہہ بُلند ہوا۔ جو وحشی تو نہیں تھا، پر وحشت میں بڑھوتی کرتا ۔

سکوت ٹوٹ گیا۔

وہ مہاکیشپ تھا۔ اُس کے مرکز سے ہنسی پھوٹتی تھی۔

بھکشوؤں میں، مجھے سمیت، ناپسندگی کے جرثومے نے حرکت کی۔ اور یہ متوقع تھا، ایک عظیم انکشاف کے موقعے پر جب سمے پر سناٹے کا کُہرا تیرتا ہو، جسے اُس کی شانت چپ دبیز کرتی، یوں قہقہہ لگانا ماسوائے کٹھورتا کے اور کیا ہے؟

مگر تب ایک احساس کا جنم ہوا۔

وہ — اپنے پورے وجود کے ساتھ، اُس پھول کے ساتھ جو ہاتھ میں تھا — مسکرایا۔

مہاکیشپ اُس کی اُور بڑھا۔ میرے پہلو سے گزرا۔ اور اُس نے — اپنے ہر نرنے کی طرح، جو سادہ ہونے کے باوجود پُراسرار ہوتے، ہمیشہ — پھول مہاکیشپ کے حوالے کر دیا۔

اب، جیوت پل میں مہاکیشپ، پھول اور وہ ایک تھے۔ اور ندی چُپ تھی۔ اور ٹہنیاں اُنھیں گود میں بھرنے کی للک میں جھکتی تھیں۔

اور میرے شریر میں ایک بے بُو بھاؤنا پنپتی ہُوک سی اٹھتی تھی۔ کیا تھی وہ؟ اسپھل رہنے کا دکھ۔ نراشا۔ یا پھر ایرشا؟

میں آنند گوتم کے رشتے کا بھائی بڑا بھائی، جس نے اُس کی شرن میں آنے سے پہلے وچن لیا تھا کہ وہ کبھی مجھے خود سے پرے نہیں کرے گا، اور مجھے ستیہ کا پاٹ پڑھائے گا۔ اور اُس نے ایسا ہی کیا تومیں اُس کا سیوک، اِس انکشاف کے بعد جس کا جنم ہو چکا تھا، اُس جیوت پل میں جو لازوال تھا، ٹھیک اُسی احساس سے گزرا، جس سے میں برسوں سے گزر رہا تھا۔

اور میں ہر اُس موڑ پر اِس بھاؤنا سے گزرتا، جب تتھاگت کے چھُوتے ہی چرنوں میں بیٹھے بھکشو الوہی رقص کرنے لگتے ۔ اور میں اُنھیں تکتا، اچنبھے کے ساتھ کہ اُس کا لمس — آہ اُس کا لمس— اپنے جادوئی اثر کے باوجود میرے خمیر میں گندھے دیوتا کو رقص پر نہیں اُکسا سکا۔ کبھی نہیں۔

اور اُس موڑ پر بھی اسپھل رہنے کا درد میرے بھیتر چبھتا، جب بھکشو سر جوڑے باتیں کرتے کہ سبھوتی پر پھولوں کی بارش ہوئی ہے کہ میں اِس سے محروم تھا۔

اور تب بھی میری آتما میں بھوکمپ آتے، جب کوئی کہتا کہ پیڑوں پر پھول کھلتے ہیں، جب کبھی بَن کی دھرتی اُس مہان منش کے چرنوں کا بوسہ لیتی۔ پر میں، جو اُس کی چھایا تھا، اُس کے کٹیا میں سوتا تھا، جسے پکار کر وہ ہر بات کہتا "اے آنند سن آنند تو آنند” کبھی ایسے انوبھو سے نہیں گزرا۔ نہیں۔ ایک بار بھی نہیں۔

تو پھول مہاکیشپ کے پاس تھا۔ اور میرے شریر میں محرومی کا دھواں پھیلتا تھا، جو معدے سے اٹھ کرسیدھا جبڑے تک آتا، اور پھر رک جاتا، مگر کب تک؟

آخرکار، ایک صبح، جس کی نرمی میرے آدھیاپک کے چہرے پر اترتی، اور وہاں تھرکتے ازلی تبسم سے ہم آہنگ ہوتی، میں نے دھواں اگل دیا” "کب؟ میں کب نواز جاؤں گا؟”

اُس نے میری طرف نظر کی۔

اور اُن آنکھوں میں روشنی تھی۔

اس کے لب وا ہوئے، اور الہامی آواز کی جادوئی چٹخ میری سماعتوں میں اتری۔

"ابھی نہیں۔” اُس نے ایسا کہا تھا۔ "کم از کم میرے جیون میں تو نہیں۔”

"کیوں؟” میرا سوال۔ متوقع، بڑی حد تک۔

جواب میں اس کی چپ۔ سو فی صد متوقع۔

وقت گزرتا رہا۔ پر ٹھہرا رہا۔ اور پھر وہ پل آن پہنچا، جس کی آمد کا ہم نے اپنے جیون میں کبھی وشواس نہیں کرنا چاہا تھا۔ پر وشواس کیا تھا۔

عہد کا نجات دہندہ ابدیت میں داخل ہونے والا تھا۔

ہاں، وہ رخصت ہونے کو تھا۔

آہ، اندھاکار تھا،

ہم نراشاسے زمین پر اوندھے گر پڑے،

اور اس دھرتی کا ذائقہ چکھا، جس پر پل بھر پہلے ایستادہ تھے،

جو ہماری ماں تھی، پر جسے ہم بھُلا بیٹھے تھے۔

اور تب، آنسو ہمارے گلے میں بہتے تھے،

اور دل کو بھگوتے،

اُس نے نقاہت کو پرے دھکیلا۔ کہا۔ "نہ تو میں پہلا ہو، نہ ہی آخری!”

اور باقی بھکشوؤں کو میری، اپنے سائے کی، تعظیم کی ہدایت کی۔ اور پھر، جب ٹھہرتا ہوا سمے، ٹھٹھرتا تھا، اُس نے آنکھیں بند کر لیں۔

وہ جا چکا تھا۔ اور اضطراب تھا۔ کرب تھا۔ محرومی تھی۔

اور تب، جب آخری رسومات انجام پانی تھیں، مہاکیشپ، جو اُس کا سندیسا لیے اَن جانی دھرتی کی اُور نکل گیا تھا، پلٹ آیا۔

کیا یہ بھی متوقع تھا؟

وہ چلا گیا، اور میں — آنند — باقی رہا۔

اور تب، جب غم سے میں اوندھا پڑا تھا، پہلی بار میں نے ایک اچانک اتر آنے والے گیان کی قوت سے جو لشکتا تھا، اُن فضاﺅں میں پھول کھلتے دیکھے، جن میں اس کا سانس ہنوز مہکتا تھا۔

اور اس مٹی کو دمکتے دیکھا، جو اس کا راستہ بنی۔ اور میری نظر افق میں چھید کرتی ہوئی شعور کے پرلے کنارے تک گئی، اور لوٹ آئی۔

سب روشن تھا۔ مہکتا تھا۔ دہکتا تھا۔

"تو اس نے ٹھیک ہی کہا تھا۔” میری آواز، میرے آنسوﺅں سے بھیگتی تھی۔ "اس کے جیون میں نہیں”

اور تب، ٹھیک تب، ایک سوال نے — اُسی سوال نے جس کا جواب اس نے اس پل نہیں دیا تھا، جب وہ موجود تھا — مجھے گھیر لیا۔

"کیوں؟ اُس کی مرتیو ہی کے بعد کیوں؟ اُس کے جیون میں کیوں نہیں؟”

ہرسلگتالہکتامنظر ماند پڑ گیا۔

کیول اندھیرا تھا۔

اور تب اس پرشن نے میرے وچاروں کا رتھ سنبھالا۔

جو آکاش کی اور لپکا،

میں نے چندرما میں پرویش کیا،

اور سورج کی دہک نے میرے اشنان کا سامان کیا،

میں ندی میں اترا، اور مہا ساگر تک جا پہنچا،

جہاں میں نے پانی پر آسن جمایا،

اور گم شدہ ٹاپو کھوج لیے،

اُن پربتوں کو ڈھونڈ نکالا، جو اتھاہ گہرائیوں میں تھے۔

اور جب رتھ نے اڑان بھری، تو میں نے اُن پنچھیوں کے ساتھ پرواز کی، جن کے پنکھ سانس لیتے،

پر مجھے اس پرشن کا جواب نہیں ملا۔ اور نہیں سمجھا سکا کہ اس کے جیون میں مجھے جیون سے کیوں نہیں نوازا گیا۔

اور یوں میں اس تحفے سے، جو اس کے جیون کے وسیلے جگ میں پہنچ تھا — نروان— محروم رہا۔ کوسوں دور۔ باوجود اس کے کہ میں پانی میں سانس لیتا تھا، بن پروں کے پرواز کرتا تھا۔

آنند کو ابھی اور جینا تھا کہ خواہش باقی تھی، جس سے وابستگی جنم لیتی تھی، اور وابستگی سے دکھ کا ظہور ہوتا۔

آنند کو باقی رہنا تھا۔

تو میں باقی رہا۔ ایک سوال کے سہارا، ایک سوال کے سبب، جو میرا سانس تھا۔

تو میں باقی رہا، ہر یُگ میں،

میں اتیت میں اترا،

تیرے جنم سے تین ہزار برس پہلے کی مٹی سونگھی،

جب سمیری لکھت کے بھیدوں پر وچار کرتے تھے،

اور میں نے حمورابی کو ضابطۂ اخلاق مرتب کرتے دیکھا،

اور مصر کی مہا پرواس کا گواہ بنا،

جب کسی تجھ سے نے دریا کو دو پاٹوں میں بانٹ ڈالا،

اور قریبی زمینوں پر میں اُس کے روبرو ہوا، جو آگ کو نیکی کی علامت مانتا تھا،

اور پھر چین کی دھرتی پر ایک خانہ بدوش استاد کو صحرا نوردی کرتے پایا۔

تو میں نے اشوک کو، تیرے پریم کا رس پینے پہلے، دھرتی کو منش کے خون سے سرخ کرتے پایا،

اور دیکھا کہ اُس نے ٹکڑیاں روانہ کیں، جو اہراموں کی سرزمین تک جا پہنچیں، جہاں وہ سانس لیتا تھا، جو چند برسوں بعد پہاڑ پر کھڑا ہو کر وعظ کرنے والا تھا،

زمانے کو منقسم کرنا والا تھا۔

پر اس سے قبل میں نے اسپارٹکس کی بغاوت کی کہانی سنی،

اور نئے یگ میں مانی کو اپنے وچار کا پرچار کرتے پایا،

اور عرب کے ریگستانوں میں گیان کا الاؤ روشن ہوا،

اور جگت گرو کا جنم ہوا، جس کی دمک مصر، ایران، عراق تک پہنچی، اوراسپین سے ہوتی ہوئی پورے یگ پر چھا گئی۔

سمے میرا سہارا تھا۔ اور جیون میرا جیون۔

تیرا آنند صلیبی جنگوں میں گھوڑے کے سموں تلے کچلا گیا،

تیرا سیوک منگولوں کا لقمہ بنا،

اور جب سیاہ موت یورپ کے بخیے ادھیڑتی تھی، میں خوابوں کی تلچھٹ سے گاڑھا بناتا تھا،

اور جب جون آف آیرک کو شعلوں میں اتری تھی، میری سماعتوں میں مقدس پروں کی پھڑپھڑاہٹ گونجی۔

ہاں، میں تھا، اس بحری جہاز میں، جو ایک ایسی زمین کی اُور جاتا ، جو بھوشیہ میں دنیا پر حکم رانی کرنے والی تھی،اور اُس جہاز میں بھی، جو سمندر کو چیرتے ہوئے تیرا دیس کھوجنے آتا تھا،

میں الزبتھ اول کے دربار سے منسلک ہوا، اور آتشیں اسلحے کے استعمال کا آغاز دیکھا،

اور میں نے اس انگریز کی کویتا سنی، جس کا وجود ہمیشہ معما رہا،

اور تیرے سیوک نے اس زمین پر، جہاں تیری چاپ کل کی طرح آج بھی سنائی دیتی، سنگ مرمر کی ایک عظیم عمارت تعمیر ہوتے دیکھی،

جو فقط ایک مقبرہ تھا،

اور پھر نیوٹن کا ظہور ہوا،

اور تاریکی میں پنہاں فطرت کے قوانین روشن ہو گئے،

اور میں نے والٹیر کو قلم تھمایا، اور فرانس میں کرانتی کی زمین تیار کی،

اور مغرب میں صنعتی دور کا آغاز ہوا،

اور ایک جرمن نے معاشی نظام پر قلم اٹھایا،

جس کے وچار نے کئی ریاستوں کو سرخ لبادہ اوڑھا دیا،

پہلی وشو یُد کا آغاز ہوا،

اور پھر دوسری وشو یُد ہوئی،

جس کے انت پر کھمبی نما دھول کے بادل نے جنم لیا، جس نے مجھے چوس لیا۔

اور پھر یُد سرد ہوئی، اور پھر برف پگھل گئی،

اور پھر میں نے اس ریاست میں، جسے کولمبس کے جہازوں نے کھوج نکالا تھا، دو عمارتوں کو زمین بوس ہوتے دیکھا،

اور یوں ایک نیا یُگ ابھرا، ایک اور عہد کا آغاز ہوا،

جو مرگ کا عہد کہلایا،

جہاں بارود کی بو میں چیخیں منجمد ہو گئیں،

اور میں نے— تیرے سیوک، تیرے آنند نے— تیرے جیون کو پُستک میں سموتے ہر لیکھک کی سماعتوں میں سرگوشیاں کیں،

اور حفیظ کے کانوں میں الفاظ انڈیلے، جس نے لکھا تھا”

ہوائیں تیرا راستہ صاف کرتے ہوئے چلتیں راہ میں پھول بکھیر دیتیں آسمان سے پانی کے قطرے خاک بٹھانے کو گرتے ابر سر پر سایہ فگن ہوتا پرندے اپنی نرم اور شیریں آوازوں میں تیرا خیرمقدم کرتے آسمانی نغمہ فضا میں گونجنے لگتا اور انسانوں کے جسم پر موجود گہنے بجنے لگتے۔

اور ہرمین ہیسے کے قلم کی سرسراہٹ سے اپنی دھڑکن کا تال میل بٹھایا، جس نے سدھارتھ کی آنکھ سے تجھے دیکھا، اور تجھے بیان کیا”

اس کے پور پور میں علم بھرا ہوا ہے ایسی سچائی ہے جو کلام کرتی ہے سچائی جو سانس لیتی ہے اور سچائی جو پور پور سے پھوٹتی ہے یہ شخص، بدھ سرسے پیر تک مقدس ہے۔

تو سمجھ، میں — آنند، بدھ کا سایہ — ہر یُگ میں تھا کہ میں جیوت تھا، اُس پرشن کے سہارے جو خواہش کی انتہائی صورت تھا۔ ایک کشٹ تھا۔ جو مجھے چنتت رکھتا تھا، اور تب کچھ ایسا رونما ہوا، جس کے رونما ہونے کی امید میں کھو بیٹھا تھا۔

یہ وہ زمانہ تھا، جب میں ایک تاریک، ساحلی شہر میں سانس لیتا تھا، جو کرنوں کا شہر کہلاتا تھا۔ جہاں پہچان چھپائے رکھنا بدھی مان ہونا ثابت کرتا، اور اپنا آپ ظاہر کرنا اگیانی ہونا۔

تومیں نے اپنی پہچان چھپا لی، ایک پیشے کے پردے میں۔

اب میں ایک موٹر مکینک تھا۔ انجن کی، جو کبھی کبھار مجھے زندہ معلوم ہوتا — جسے اگر میری یُگ کا منش دیکھ لیتا تیرا کوئی بھکشو دیکھ لیتا تو حیرت سے خود کو ہلاک کر ڈالتا— تو اب میں گاڑیوں کے انجن کی الجھنیں سلجھاتا تھا۔

اور ایک روز، میں چار پہیوں کو قوت فراہم کرتے ایک انجمن کے دہانے پر کھڑا تھا، میری سماعتوں سے اس موٹر کے مالک کے الفاظ ٹکرائے۔

بلکہ یہ کہنا غلط ہو گا، کیوں کہ میں ہر آواز سے اُوب گیا تھا، یہ تو ایک شبد تھا، جس نے مجھے تھکن کی اکتاہٹ سے کھینچ کر باہر نکلا۔اور تو ہی نے تو کہا تھا””آنند، کیول شبد باقی رہ جائے گا!”

تو ایک شبد۔

اس کے ہاتھ میں پنّا تھا، جس کا ابھر اس کی آواز میں لرزتا تھا۔ اور اسی لرزے میں ایک شبد —نروان — میرے پیاسے حلق میں اترا۔

"نروان!” اور میرے خشک بدن نے اس کا لیس محسوس کیا۔

اور میں نے جھک کر اپنے کان اس کے بولوں پر لگا دیے۔وہ کوئی کویتا تھی، جو اس نے تیرے تحفے، نروان پر بُنی تھی۔

کتنا انتر تھا۔ اس نے نروان کو شبدوں سے ڈھانپا، اور میں نے عملاً اسے لباس بنایا۔

"نروان” وہ اپنی کویتا سنتا تھا، سنانے والے کو، جو اس کے ساتھ تھا، اس کے مانند بوڑھا۔ الجھا ہوا۔ ناراض۔ اکتایا ہوا۔

میں نے کویتا سنی۔ اور پھر وہ چرچا کرنے لگے راج نیتی پر۔ زمانوں پر۔

آہ، میں نے ہر یگ جیا تھا۔

برسوں قبل، پنڈی کے باغ میں گونجے والی گولی کی آواز میرے کانوں میں منجمد تھی۔ جہاں برسوں بعداِس عمل کو دہرایا گیا۔ اور دونوں ہی مواقع پر میں موجود تھا، قاتل سے فقط سو قدم دور، بائیں جانب۔

اور تیرا آنند ایک قیدی تھا، جب تخت سے اتارے ہوئے ایک شخص کو سولی پر چڑھایا گیا۔

اور میرا رتھ آکاش میں تھا، جب ایک جہاز تباہ ہوا۔

تو میں نے، تیرے بھکشو نے ہر پل جیا تھا۔

تو وہ راج نیتی پر چرچا کرتے ۔ اور میں سنتا تھا۔ اور ان کے ساتھ ساتھ، دور بہ دور آگے بڑھتا تھا۔ اور تب نیتاﺅں کو موضوع بنایا گیا۔

تو اس نے جو پتر کار تھا، یا شاید کوی تھا، کہا” "موروثی سیاست ایک لعنت ہے۔ باپ کے بعد بیٹا، پھر اس کا بیٹا۔ جاگیر دار کی اولاد جاگیر دار۔ پیر کا پسر پیر۔ تف ہے۔”

مشرق سے آتی ہوا میں پراسرار روشنی تھی۔ اور روشنی میں بھیگی ٹھنڈ ۔ اور بادلوں میں بھید کے قطرے تھے۔ اور زمین سے اگتی بارش میں خشکی کا حسین احساس پیوست تھا۔

"موروثی سیاست، خاندان کی حکم رانی، ایک منتخب شدہ کا غلبہ لعنت ہے۔”

وہ شبدوں سے کھیلتے ، پر میں اُس موٹر سے، جس کے دہانے پر میں موجود تھا، اس کوی سے، اور اس کے سامع سے بے پروا ہو گیا۔ اور وہاں نکل گیا، جہاں سے نکل کر آیا تھا۔

اور اب میں نے — بدھ تیرے آنند نے، ترسے ہوئے نے — ہر سانس دوبارہ جیا۔ ہر یُگ میں پرویش کیا۔ اور جانا کہ کیوں، مجھے اُس کے جیون میں نہیں نوازا گیا۔

کیوں، میں — آنند، اس کے رشتے کا بھائی، اس کا سایہ — اس کے ہوتے پیاسا رہا۔

"جدی پشتی حکم رانی۔ ہاں، وہ — میرا ادھیاپک، تتھاگت بدھ — اس کے خلاف تھا۔ ٹھیک ایسا ہی تھا۔ جب ہی تو راہل، اس کا اپنا سپوت، اس کا وارث نہیں ٹھہرا۔ جب اسے نہیں نوازا گیا، تو آنند کو بھلا کیسے نوازا جا سکتا تھا؟

میں نے ہر یگ میں پرویش کیا، اور ہر یگ کو نئے عدسے دیکھا۔ اور مجھے اس کی یوجنا، لمحے کے ہر ٹکڑے میں سمپورن نظر آئی۔

اور تب، سمے کی چٹخ میں، احساس کے بہاؤ میں، پھٹ پڑنے کا عمل ہوا تنسیخ کا وقت آن پہنچا تھا آہ وہ نروان کا دن تھا۔

آنند کے نروان کا دن۔

تو اب میں ایک عظیم قوت میں — جو قدیم ہے، اور اپنی قوت سے سانس لیتی ہے— ضم ہونے جا رہا ہوں۔ پر پلٹنے سے قبل میں اِس دنیا کو وہ سندیسا دینا چاہتا ہوں، جو اس کے شبدوں میں تھا، پر عجیب ڈھنگ سے، ایک انکشاف کی صورت، سموچے کا سموچا مجھ پر اتر آیا۔

سندیسا کہ "موروثی سیاست فقط دُکھ ہے، صدیوں کا دکھ۔ ایک شراپ!”

تو یہ میری بپتا ہے۔ جو میں تمھیں یوں سنانے پر راضی ہوا متر کہ میں دنیا سے جا رہا ہوں، اور ایک سندیسا چھوڑے جا رہا ہوں، وشال بدھ کا سندیسا۔ تو میں یہ تمھارے چہرے ے ے کو کیا ااا ت ت ت تم۔۔۔

 

لمحۂ حال، کراچی

بوڑھے کی آنکھوں میں حیرت ٹھہری ہوئی تھی۔

وہ ایک خاموش پارک تھا۔ قومی الجثہ سفیدے تلے ایک بینچ تھی، جس پر وہ آ کر بیٹھا تھا، اُس سمے جب سورج نے مغرب کی سمت سفر شروع نہیں کیا تھا۔ اور تب ایک نوجوان نے خود کو اس کے پہلو میں موجود کیا، جو اُس کی بپتا سننے کا متمنی تھا۔ جسے سنانے پر وہ راضی تھا، اور جسے سناتے سمے سورج مغرب پر اترنے لگا تھا، اور لگ بھگ اتر چکا تھا کہ ایک "اچانک” کا ظہور ہوا۔ نوجوان الوپ ہو گیا، اور

"ت ت ت تم؟” بوڑھا ہکلا رہا تھا کہ وہ نوجوان — جو کچھ دیر قبل، یا کچھ زمانوں قبل — اس کے پہلو میں آ کر بیٹھا تھا، اب وہ وہاں نہیں تھا۔ بلکہ وہ تھا، جو صدیوں پیچھے ایک قوی الجثہ پیڑ تلے، ہاتھ میں پھول لیے، موجودہ تھا۔

بدھ!

"ت ت ت تو تم آ گئے” بالآخر اچانک رونما ہونے والے کسی لطیف واقعے کے مانند، بوڑھا مسکرایا۔ شاید برسوں بعد۔ اور اگلے ہی پل، غیر متوقع سہولت کے ساتھ اس کی آنکھوں میں آنسو اترنے لگے۔

چند پل دونوں بھائیوں کے درمیان خاموش چھائی رہی۔ صدیوں کی خاموشی۔

پھر آنسوؤں کی دیوار گراتے ہوئے بوڑھے نے اُسے دیکھا، جس کے چہرے پر سورج کی آخری کرنیں پڑتی تھیں۔ اُس کی آنکھوں میں سبک روی سے بہتا سکون تھا۔ اور ایک تبسم تھا، جو اُس کا تھا۔

تبسم، جو کائنات کا راز تھا۔

"اے آنند۔” اُس نے ٹھیک ویسے کہا، جیسے وہ صدیوں قبل کہا کرتا تھا۔ "وقت آن پہنچا ہے۔”

"ہاں۔” بوڑھا مطمئن تھا۔ مسرور تھا۔ "بس، تمھارا آخری پیغام یہاں ثبت کر دوں۔” اس نے ایک بوسیدہ کاغذ پر قلم چلاتے ہوئے کہا۔ "دنیا کو اُس کی ضرورت ہے۔”

یہ لمحۂ حال کی کائنات تھی، جس کا مرکز سفیدے کا درخت تھا، جس کے نیچے بینچ تھی، جس پر دو بوڑھے بیٹھے تھے۔

سورج مغرب میں ڈوبتا تھا۔اور وہ الوپ ہونے کو تھے۔

 

لمحۂ موجود، کراچی

پارک میں اندھیرا تھا۔اور دو سائے سفیدے کی اُور بڑھتے تھے۔

"Brother, something mysterious is going on here.۔ میں تو کہتا ہوں، We are not needed. let’s get out of here.۔” ایک سایے سے آواز ابھری، جس میں لرزا تھا۔

"Don’t be so sissy.۔ چلتے رہو۔” دوسرا، جو آواز سے پراعتماد معلوم ہوتا تھا، کہتا سنائی دیا۔

وہ بینچ تک پہنچ کر رکے، جس پر عین اوپر نصب اسٹریٹ لائٹ پر پتنگے رقصاں تھے۔

وہ دو نوجوان تھے۔ ایک ڈرا ہوا، مگر پُرتجسس ۔ اور دوسرا ڈر اور تجسس دونوں ہی احساسات سے بے پروا۔

ڈرے ہوئے نے دھیرے سے کہا۔ "Sounds spooky.۔ ابھی تو وہ دونوں Old men یہیں تھے۔ نہ جانے کہاں غائب ہو گئے۔”

دوسرے نے کوئی جواب نہیں دیا۔ بس خاموش، بینچ کے کونے پر پڑے اس کاغذ کو تکتا رہا، جو تاریکی میں دمکتا تھا۔

پہلے کی نظر اس پر پڑی۔ وہ جھکا۔ ٹکڑا اٹھا لیا۔

"بھکشو موروثی سیاست لعنت ہے” بدھا” ڈرے ہوئے نے بہ مشکل، ہجے کر

محہہا پہنچےشاش ہےجذبہجاز عبیدز عبیدکے پڑھا۔ "بڈھا؟ I am not getting it.، کون بڈھا۔ Very strange.۔”

"Not really.۔” دوسرے نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا۔ اور اس کے ہاتھ سے کاغذ لے کر ایک غیر متوقع سہولت کے ساتھ پرزوں میں تقسیم کرنے لگا۔

"یہ ک ک ک کیا کر رہے ہو It must be important.” پہلے نے، شاید تجسس، یا شاید خوف کے زیر اثر کہا۔

"Maybe, and maybe not.۔” دوسرے نے کاندھے اچکائے۔ "اب کیا ہر بات کوئی بڈھا ہی سمجھائے گا۔ Our generation need nobody.” یہ کہتے ہوئے وہ مڑا۔ ” Let’s go.”

اُس کے ساتھی نے تقلید کی، مگر مقلد نہ بنا۔ نہ جانے کیسے، نہ جانے کیوں اس سے کئی قدم آگے نکل گیا۔ شاید وہ ڈرا ہوا تھا، یا شاید، جو پیچھے رہ گیا تھا، اس کے قدموں کی رفتار توقع سے زیادہ سست تھی۔

اور وہ، جو پیچھے رہ گئے تھا، اس نے، دیوتاؤں سی بے نیازی سے ہاتھ جھٹکا۔ پرزے ہوا میں بلند ہوئے۔ اور اسٹریٹ لائٹ کی مدھم روشنی میں تاریکی میں گرنے لگے۔

پرزے دھیرے دھیرے زمین کی سمت آتے تھے۔ دھیرے دھیرے۔ پر زمین کے قریب پہنچ کر، انتہائی نزدیک پہنچ کروہ ہوا میں معلق ہو گئے۔

وہ، جس نے انھیں فضاؤں میں آزاد کیا تھا، رکا۔ مڑا۔

اور اس کی آنکھیں چمکیں۔ اور ہوا میں معلق پرزے پل میں خاکستر ہوئے۔

اور راکھ کی صورت اَن جانی دنیاؤں کی سمت روانہ ہو گئے۔

وہ جس کی آنکھیں سے روشنی پھوٹی تھی، دھیرے دھیرے آگے بڑھنے لگا۔

اور ٹھنڈی ہواؤں نے راستہ صاف کیا وہاں پھول بکھیرے اور آسمان سے پانی کے قطرے خاک بٹھانے کو گرے ابر اس پر سایہ فگن ہوا اور آسمانی نغمہ فضا میں گونجنے لگا۔

٭٭

پس نوشت”اور اگر ہیسے ہوتا، تو یوں لکھتا” "اس کے شانت چہرے پر نہ تو دکھ تھا، نہ ہی سکھ وہ من ہی من میں دھیرے دھیرے مسکرا رہا تھا اور بچے سی مسکراہٹ چھپائے خاموشی اور سکون کے ساتھ چلتا جاتا تھا”۔

٭٭٭

ماخذ: مختلف ویب سائٹس سے

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید