FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

کچھ صحابہ

 

 

 جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

 

ماخذ: اردو ڈائجسٹ

 

 

حضرت عائشہ صدیقہؓ

ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی

حضرت عائشہؓ  بنت ابو بکرؓ اسلامی تاریخ میں ام المومنین اور صاحب ایمان فقہا کی حیثیت سے مشہور ہیں۔ آپؓ کا لقب صدیقہ اور حمیرہ تھا جب کہ آپ کے بھانجے حضرت عبداللہ کے حوالے سے آپ کی کنیت ام عبداللہ تھی۔ حضرت عائشہؓ اسلام کی ان برگزیدہ شخصیات میں سے ہیں جن کے کانوں نے کبھی کفر و شرک کی آواز نہیں سنی۔ ولادت عائشہؓ  سے چار سال قبل حضرت ابوبکرؓ  اسلام قبول کر چکے تھے۔

ایک مسلمان عورت کے لیے سیرت عائشہؓ  میں عورت کی زندگی کے تمام پہلو شادی، رخصتی، شوہر کی خدمت و اطاعت، سوکن سے تعلقات، لاولدی، بیوگی، غربت، خانہ داری رشک و حسد غرض ہر حالت کے لیے تقلید کے نمونے موجود ہیں۔ آپؓ  کی زندگی علمی، عملی، اخلاقی غرض ہر قسم کے گوہر گراں مایہ سے مالا مال ہے۔ یہ ایک حجلہ نشین حرم نبوت کی پاک زندگی کا مجموعہ ہے جو نو سال تک نبوت عظمی کے حامل دنیا کے افضل ترین انسانﷺ کی شریک حیات رہیں۔

حضرت عائشہؓ  نے اپنی پوری زندگی عورتوں اور مردوں میں اسلام اور اس کے احکام و قوانین اور اس کے اخلاق و آداب کی تعلیم دینے میں صرف کر کے اسلام کی بیش بہا خدمات انجام دیں۔حضرت عائشہؓ  کے ذریعے سے جتنا علم دین مسلمانوں تک پہنچا اور فقہ اسلامی کی جتنی معلومات لوگوں کو حاصل ہوئیں، عہد نبوت کی عورتیں تو درکنار مرد بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔

آپ فقیہہ، مفسرہ اور مجتہدہ بھی تھیں۔ آپؓ کو بالاتفاق مسلمان عورتوں میں سب سے بڑی فقیہہ جا نا اور تسلیم کیا جاتا ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہؓ  کا شمار مدینے کے ان چند علما میں ہوتا تھا جن کے فتوے پر لوگوں کو کلی اعتماد تھا۔ آپؓ غیر معمولی ذہانت کی مالک تھیں۔

آپؓ کو اپنی عظیم صلاحیتوں کی بنا پراس انقلابی معاشرے میں حضور کے ساتھ مل کر اتنا بڑا کارنامہ سرانجام دینا تھا جتنا دوسری تمام ازواج مطہرات سمیت اس وقت کی کسی بھی خاتون نے نہیں دیا تھا، بلکہ دنیا کے کسی راہنما کی زوجہ بھی اپنے شوہر کے کام کی تکمیل میں ایسی زبردست معاون و مددگار ثابت نہیں ہوئی جیسی حضرت عائشہؓ  ثابت ہوئیں۔

آپ کے بچپن میں آپؓ کی صلاحیتوں کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہ تھا۔ اس بناء پر اللہ تعالی نے اپنے رسول کی رفاقت کے لیے حضرت عائشہؓ  کا انتخاب خود کیا۔ صحیح بخاری میں باب ترویج عائشہؓ  میں ہے کہ حضور اکرمؐ نے حضرت عائشہؓ  سے فرمایا ’’ مجھے خواب میں تمہیں دو مرتبہ دِکھایا گیا اور کہا گیا کہ یہ آپؐ کی زوجہ ہیں۔ ‘‘

حضورؐ کی کثرت ازواج اور خصوصاً حضرت عائشہؓ  کی کم سنی کی شادی میں ایک بڑی حکمت اور مصلحت پوشیدہ تھی۔ اگرچہ حضورؐ کے دائمی فیضان صحبت نے سینکڑوں مردوں کو سعادت کے درجے پر پہنچایا، لیکن فطرتاً یہ موقع عام عورتوں کو میسر نہیں آ سکتا تھا۔ صرف ازواج مطہرات ہی اس سے فیض یاب ہو سکتی تھیں اور یہ نور آہستہ آہستہ اپنے ستاروں کے ذریعے سے پوری کائنات نسوانی میں پھیل سکتا تھا۔

حضرت عائشہؓ  کا لڑکپن حضورؐ کی صحبت میں گزرا۔ حضرت ابو بکرؓ  صدیق سارے قریش میں علم الانساب کے ماہر تھے۔ شعر و ادب میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ حضرت عائشہؓ  نے بھی اسی باپ کی گود میں پرورش پائی تھی، اس لیے علم الانساب کی واقفیت اور شاعری ان کا خاندانی وصف تھا۔ حضرت ابو بکرؓ  صدیق اپنی اولاد کی تربیت میں بہت سخت تھے۔ شادی کے بعد بھی حضرت عائشہؓ پر روک ٹوک کرتے تھے اور انہیں ہدایات سے سرفراز کرتے رہتے تھے۔

حضرت عائشہؓ  کی تعلیم و تربیت کا اصل زمانہ ان کی رسول کریمﷺ سے شادی کے بعد شروع ہوا۔ ام المومنین نے اسی زمانے میں قرآن پڑھنا سیکھا۔ آپؓ کو علوم دینیہ کے علاوہ تاریخ، ادب، اور طب میں بھی مہارت حاصل تھی۔آپ نے علوم دینیہ کی تعلیم تو ہر لمحہ معلم شریعت ﷺ سے حاصل کی تھی۔ حضور اکرمؐ کی تعلیم و ارشادات کی مجلسیں مسجد نبوی میں منعقد ہوا کرتی تھیں۔

یہ مسجد حجرۂ عائشہ سے ملحق تھی۔ اس بنا پر آپؓ اپنے حجرے ہی میں بیٹھ کر اس مجلس میں ذہنی طور پر شریک رہتی تھیں۔ اگر کوئی بات سمجھ میں نہ آتی تو بعد میں حضور اکرمؐ  سے دریافت فرما لیتیں۔ آپؓ نے عورتوں کی درخواست پر ہفتے میں ایک دن ان کی تعلیم و تلقین پر مخصوص کر دیا تھا۔ حضرت عائشہؓ  کی یہ عادت تھی کہ ہر مسئلہ کو بلا تامل حضورؐ کے سامنے پیش کرتیں اور جب تک تسلی نہ ہو جاتی، سوال کرتی رہتیں۔

وہ فہم مسائل، اجتہاد فکر اور حفظ احکام میں تمام ازواج مطہرات سے ممتاز تھیں۔ حضرت عائشہؓ  انسانیت کی تکمیل، اخلاق کے تزکیے، ضروریات دین سے واقفیت، اسرار شریعت کی آگاہی، کلام الہٰی کی معرفت احکام نبویؐ کے علم سے مکمل طور پر بہرہ ور تھیں۔ آپؓ  کے نکاح کے ذریعے عرب کی بہت سی لغو رسموں کو توڑا گیا۔ سب سے پہلے تو یہ کہ عرب منہ بولے بھائی کی لڑکی سے شادی نہیں کرتے تھے، مگر حضور اکرمؐ نے اس رسم کو توڑا۔

اسلامی بھائی کی بیٹی سے نکاح کر کے اس تصور کو غلط قرار دیا۔ دوسری رسم یہ تھی کہ اہل عرب ماہ شوال میں شادی کو منحوس سمجھتے تھے، کیوں کہ گزرے وقتوں میں شوال میں اس علاقے میں طاعون پھیلا تھا، اس لیے اس مہینے کو منحوس سمجھا جاتا تھا۔ لیکن حضرت عائشہؓ  کی شادی اور رخصتی دونوں شوال میں ہوئیں۔ عرب میں قدیم دستور تھا کہ دلہن کے سامنے آگ جلاتے تھے، مگر اس رسم کو بھی ختم کیا گیا۔

حضرت عائشہؓ  کا گھر مال و اسباب سے خالی تھا مگر آپؓ  کو اس کی پرواہ نہیں تھی۔ آپؓ روایت کرتی ہیں کہ حضور اکرمؐ نے ہمیں پانچ چیزوں کے استعمال سے منع فرمایا ’’ریشمی کپڑے، سونے کے زیور، سونے اور چاندی کے برتن، نرم گدے اور کتان آمیز ریشمی کپڑے۔‘‘

چناں چہ ام المومنین حضرت عائشہؓ  نے ان چیزوں سے زندگی بھر اجتناب فرمایا۔ آپؓ  اپنے شوہر کی محبوب بیوی تھیں۔ شوہر کی زندگی میں اکثر عورتیں اطاعت گزار ہوتی ہیں، لیکن شوہر کے انتقال کے بعد وہ آزاد ہو جاتی ہیں۔ مگر حضرت عائشہؓ  صدیقہ مرتے دم تک اطاعت رسولؐ  پر قائم رہیں۔ انھوں نے حضورؐ سے جہاد کی اجازت چاہی تھی۔

اس موقع پر نبی پاکؐ نے ارشاد فرمایا ’’ عورتوں کا جہاد حج ہے۔‘‘ یہ حکم سن کر آپ اس کی تا حیات پابندی کرتی رہیں، اور آپ کا کوئی سال حج سے خالی نہ گیا۔ حضرت خدیجہؓ  حضورؐ کی پہلی زوجہ محترمہ تھیں۔ حضرت عائشہؓ  سے نکاح کے وقت وہ حیات نہیں تھیں، مگر حضور اکرمؐ  کے قلب مبارک میں ان کی یاد ہمیشہ زندہ رہی۔ حضرت عائشہؓ  ان پر رشک کرتی تھیں۔ ’’جس قدر خدیجہ پر مجھے رشک آتا ہے، کسی دوسری بی بی پر نہیں آتا تھا۔‘‘

رسول کریمؐ اپنی محبوب زوجہ کو بہت یاد کرتے تھے۔ حضرت عائشہؓ  نے حضرت خدیجہ کی فضیلت اور شرف سے کبھی انکار نہ کیا۔ حضرت عائشہؓ  ہر سال حج کے لیے مکہ جاتیں۔ آپؓ کے خیمے میں سائلوں کا حجوم رہتا۔ جن مسائل میں صحابہ میں اختلاف ہوتا تھا، ان مسائل پر لوگ فیصلے کے لیے ام المومنین سے رجوع کرتے تھے۔ آپؓ کے زیادہ تر مسائل زن و شوہر کے تعلقات، حضورؐ کی عبادات اور ذاتی اخلاق کے متعلق ہیں۔

حضرت عائشہؓ  نے مذہب، اخلاق اور تقدس کے ساتھ مذہبی، علمی، سیاسی، فقہی، حدیث، فرائض احکام، حلال و حرام، طب و حکمت، غرض بہت سے علوم کی جامع تشریحات کیں، اور اپنے زمانے میں ان علوم میں سب سے آگے تھیں۔آپؓ نے اپنی زندگی کے کارناموں سے، خدا پرستی کے نمونوں سے، اخلاق کی عملی مثالوں سے، روحانیت کی پاک تعلیمات سے، دین و شریعت اور قانون کی تعلیم و تشریح سے دنیا کی عورتوں کے لیے ایک کامل زندگی کا بیش بہا نمونہ چھوڑا۔

ابو مسلم عبدالرحمٰن کا قول ہے ’’رسول کریمؐ  کی احادیث و سنن، فقہی آراء، آیات کے شان نزول اور فرائض میں حضرت عائشہؓ  سے بڑھ کر کوئی عالم نہ تھا۔‘‘ علمی کمالات، دین کی خدمات اور حضور اکرمؐ کی تعلیمات و ارشادات کی تبلیغ و اشاعت میں ام المومنین حضرت عائشہؓ  کا کوئی ثانی نہیں۔

٭٭

حضور سید عالم ﷺ نے سیدہ فاطمہ سے ارشاد فرمایا : ’’کیا تم اسے محبوب نہیں رکھو گی جسے میں محبوب رکھتا ہوں ؟‘‘

جناب فاطمہ نے جواب دیا :’’کیوں نہیں ؟‘‘

نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’تو عائشہ سے محبت کرو۔‘‘ (مسلم)

حضورؐ کو آپؓ سے بہت محبت تھی۔ اسی محبت کی وجہ سے نبی کریم ﷺ نے اپنے مرض وفات میں تمام ازواج مطہرات سے اجازت لے کر اپنی مقدس زندگی کے آخری ایام سیدنا عائشہ صدیقہؓ  ے حجرۂ نوری میں بسر فرمائے تھے۔

حضرت عائشہ صدیقہؓ خود ہی تحدیث نعمت کے طور پر ارشاد فرماتی ہیں : ’’مجھے اللہ نے نو خوبیاں ایسی عطا فرمائیں جو کسی عورت کو نہ ملیں۔

٭ عقد سے پیشتر میری تصویر حضرت جبرئیل امین نے نبی کریمؐ  کی خدمت میں پیش کی۔

٭ حضورؐ نے میرے سوا کسی کنواری عورت سے نکاح نہیں فرمایا۔

٭ میں آپؐ کے خلیفہ اور آپؐ کے صدیق کی صاحبزادی ہوں۔

 ٭ مجھے پاکیزہ گھرانے میں پیدا فرمایا گیا۔

٭ بہ وقت وصال حضور علیہ السلام کا سر اقدس میری گود میں تھا۔

٭ حضورؐ میرے حجرے میں دفن ہوئے۔

٭ حضورؐ میرے لحاف میں ہوتے تو بھی وحی نازل ہو جاتی تھی۔

٭ مجھ سے اللہ تعالیٰ نے مغفرت اور رزق کریم کا وعدہ فرمایا۔

٭ میری برأت آسمان میں نازل ہوئی۔

حضرت خدیجۃ الکبریٰ کے انتقال کے بعد خولہ بنت حکم کی وساطت سے یہ نکاح ہواجس کے لیے چار سو درہم مہر مقرر ہوا۔ نکاح کے بعد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام تین سال مکہ میں مقیم رہے۔ جب آپ نے ہجرت فرمائی تو حضرت ابو بکرؓ صدیق ساتھ تھے، لیکن اہل و عیال کو مکہ چھوڑ آئے تھے۔ جب مدینہ پہنچ کر اطمینان ہوا تو حضرت ابو بکر صدیق نے اپنے اہل و عیال کو مدینے بلوا لیا۔ حضورؐ نے بھی حضرت فاطمہؓ ، ام کلثوم اور حضرت سودہ وغیرہ کو لانے کے لیے حضرت عبداللہ بن اریقط کو مکہ روانہ کر دیا۔ ماہ شوال ایک ہجری میں حضرت عائشہؓ  صدیقہ کی رخصتی ہوئی۔

عملی زندگی ازواج مطہرات میں حضرت عائشہ صدیقہؓ  علم و فضل کے لحاظ سے سب سے ممتاز ہیں۔ حضرت ابو بکر، حضرت عمر، حضرت عثمان کے زمانۂ  خلافت میں فتوے دیتی تھیں۔ اکابر صحابہ بھی آپؓ  کے علم و فضل کے معترف تھے اور مسائل میں آپؓ سے استفسار کرتے تھے۔ آپ سے ۲۲۱۰؍ احادیث روایت کی گئی ہیں۔ جن میں سے ۴۷۱؍ حدیثوں پر بخاری و مسلم نے اتفاق کیا۔ بخاری نے منفرد ان سے ۴۵؍ حدیثیں روایت کی ہیں۔ ۸۶؍ حدیثیں امام مسلم نے منفرد طور پر روایت کی ہیں۔ علمائے کرام فرماتے ہیں کہ احکام شرعیہ کا چوتھائی حصہ حضرت عائشہ صدیقہؓ  سے منقول ہے۔

حضرت عائشہ صدیقہؓ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی رفاقت میں عمدہ زندگی بسر کی۔ جب حضورؐ نے دنیا سے پردہ فرمایا تو سیدہ عائشہ کی عمر اٹھارہ سال تھی۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ  نے ۱۷؍ رمضان کو وفات فرمائی۔ اس وقت آپ کی عمر۶۶؍ برس تھی۔ وصیت کے مطابق جنت البقیع میں رات کے وقت دفن ہوئیں۔ حضرت ابو ہریرہ اُس وقت مروان بن حکم کی طرف سے حاکمِ مدینہ تھے، انہوں نے اُم المومنین حضرت عائشہؓ  کی نماز جنازہ پڑھائی۔

٭٭٭

ماخذ:

http://urdudigest.pk/2011/10/hazrat-ayesha-siddique#sthash.3q9NanDH.dpuf

http://urdudigest.pk/2011/10/hazratpbuh-ko-hazrat-ayesha-sey-behad-muhabbat-thee#sthash.wrCCqKMP.dpuf


حضرت مصعب بن عمیرؓ

خالد محمد خالد

وہ مکہ میں سب سے زیادہ خوشبو پسند تھے۔ ناز و نعم میں پیدا ہوئے اور اسی فضا میں پرورش پا کر جوانی تک پہنچے۔ شاید مکہ کے نوجوانوں میں کسی کو اپنے والدین کی محبت و شفقت اس حد تک میسر نہ آئی ہو جس قدر حضرت مصعب بن عمیرؓ  کے حصّے میں آئی۔

قریش کا یہ قابل توجہ نوجوان گفتگو کو سب سے زیادہ دلچسپی اور انہماک سے سنتا۔اِسی لیے اپنی کم عمری کے باوجود مکی مجلسوں اور محفلوں کی زینت بن گیا۔ ہر مجلس کے شرکاء کی یہ شدید خواہش ہوتی کہ مصعبؓ ان کی محفل میں بیٹھے۔ وجہ یہ تھی کہ حسن و عقلمندی مصعبؓ کی وہ دو خوبیاں تھیں جو دِلوں اور دروں کو وا کر دیتی۔

یہ بھر پور و رعنا جوان، نازو نعمت کا پروردہ، مکہ کا نوخیز حسین اور اس کی مجلسوں اور محفلوں کا نگینہ…کیا یہ ممکن تھا کہ وہ ایمان و جاں سپاری کی تاریخی داستانوں میں سے ایک داستان بن جائے؟

ایک روز اس جوان نے بھی وہ بات سنی جو اہل مکہ، جناب محمد الامینﷺ کے بارے میں کہہ رہے تھے:’’ محمد کہتا ہے کہ اللہ نے اس کو بشیر و نذیر رسول بنا کر بھیجا ہے اور اللہ واحد الاحد کی عبادت کی طرف بلانے کی ذمہ داری سونپی ہے۔‘‘

ان دنوں اہل مکہ کو صبح و شام اس بات کے سوا کوئی اور غم تھا ہی نہیں، کرنے کو کوئی اور بات تھی ہی نہیں سوائے اس کے کہ وہ رسول ﷺ اور آپؓ کے دین کے متعلق محو گفتگو رہتے۔

آپؓ نے جو باتیں اہل مکہ سے سنیں ان میں یہ بات بھی تھی کہ رسولﷺاور مسلمان قریش مکہ کی مشغولیات، فضولیات اور ایذا و تکالیف سے دُور کوہِ صفا کے اوپر ارقم بن ابی ارقم کے گھر جمع ہوتے ہیں۔ حضرت مصعبؓ  نے یہ سنا تو انتظار و تردّد کیے بغیر شام کو دارِ ارقم جا پہنچے۔ آپؓ  کی تمنائیں اور نگاہیں تو پہلے ہی وہاں پہنچ چکی تھیں۔ وہاں رسول ﷺ اپنے صحابہؓ سے ملتے، ان کے سامنے قرآن کی تلاوت کرتے اور انہیں نماز پڑھاتے تھے۔

حضرت مصعبؓ  ابھی جا کر بیٹھے ہی تھے کہ آیاتِ قرآن قلب رسولﷺسے لبِ رسول ﷺ پہ تاباں ہونا شروع ہو گئیں۔یہ آیات کانوں سے ٹکراتیں اور اپنا راستہ بناتی ہوئی دلوں میں اتر جاتیں۔یہاں تک کہ ابنِ عمیرؓ کے دل کی گہرائیوں میں بھی اتر گئیں۔ دل پر پڑا پردہ اپنی جگہ سے ہٹنا شروع ہو گیا۔

ادھر رسولﷺ نے اپنا دستِ شفقت و برکت آگے بڑھایا اور جذبات کی آتش سے بھڑکتے اور دھڑکتے دل کو چھوا تو سکون و راحت کی شعاعیں دل کی گہرائیوں میں اتر گئیں۔جو نوجوان ایمان و اسلام لے آیا تھا، وہ پلک جھپکنے میں اس طرح نمایاں ہوا کہ حکمت اس کی عمر سے دوگنا نظر آنے لگی۔ اس کے اندر عزم و ارادے کی وہ قوت بھی آ گئی جو وقت کا دھارا بدل ڈالنے پر قادر تھی۔

٭٭

حضرت مصعبؓ کی والدہ خناس بنت مالک غیر معمولی شخصیت کی مالک تھیں۔اس کی دہشت انگیزی بھی حد کو پہنچی ہوئی تھی۔جب حضرت مصعبؓ  اسلام لائے تو روئے زمین پر ماں کے علاوہ کوئی قوت ایسی نہ تھی جس سے وہ بچتے یا خوف محسوس کرتے۔

اگرچہ قریش مکہ نے اپنے بتوں اور اشراف کا سارا زور لگا کر حضرت مصعبؓ  کو ڈرانا اور بھگانا چاہا مگر آپؓ کسی سے مرعوب ہوئے نہ خوفزدہ۔لیکن ماں کا جھگڑا ہی ایسا خطرہ تھا جس کا سامنا کرنے کی آپؓ قوت نہیں رکھتے تھے۔ لہٰذا آپؓ  نے اس پر فوری غور و فکر کیا اور اس فیصلے پر پہنچے کہ جب تک اللہ تعالیٰ معاملے کا فیصلہ نہیں کرتا، وہ اپنے اسلام کو چھپائے رکھیں گے۔

پھر دارِ ارقم آتے اور بارگاہ رسول ﷺ میں بیٹھتے رہے۔ آپؓ  اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھے تا کہ ماں کے غضب سے بچ سکیں جسے ابھی تک آپؓ کے اسلام لانے کی خبر نہیں ہوئی تھی۔

مگر مکہ…!اور خصوصاً ان دِنوں …اُن دِنوں تو وہاں کوئی بات چھپی نہیں ر ہ سکتی تھی۔ قریش کے جاسوس و کارندے ہر راستے پر موجود ہوتے، نرم گرم ریت پر پڑنے والے نشان کے پیچھے ایک قدم اور ہوتا۔

یہی ہوا کہ حضرت مصعبؓ  چھپ چھپا کر دارِ ارقم میں داخل ہو رہے تھے،عثمان بن طلحہ نے آپؓ  کو دیکھ لیا۔ اس کے بعد دیکھا کہ آپؓ  جنابِ محمد ﷺ کی طرح نماز پڑھ رہے ہیں، عثمان صحرا کی آندھی اور بگولوں سے بھی تیز نکلے اور فوراً اُمِ مصعب کو جا خبر دی، جو پوری حقیقت کے ساتھ مکہ میں پھیل گئی۔

حضرت مصعبؓ تب اپنی والدہ، خاندان اور سردارانِ مکہ کے درمیان کھڑے حق و ثبات کی یقینی کیفیت میں اس قرآن کی تلاوت کر رہے تھے جس کے ذریعے رسول ﷺ نے اپنے صحابہؓ کے دلوں کو دھو ڈالا اور انہیں حکمت و عزت اور عدل و تقویٰ سے بھر دیا تھا۔

ماں نے چاہا کہ ایک زبر دست تھپڑ لگا کر آپؓ کو خاموش کرا دے مگر تیر کی مانند حضرت مصعبؓ کی جانب بڑھنے والا ہاتھ فوراً اس نور کے سامنے ڈھیلا پڑ گیا جس نے آپؓ  کے چہرے کی چمک دمک میں رعب و جلال کو یوں بڑھا دیا گویا بیٹے کا احترام ماں کے اوپر فرض ہو گیا ہے۔ہاتھ سکون کے ساتھ وہیں رک گیا۔

جس طرح ماں کی ممتا کا یہ تقاضا تھا کہ وہ بیٹے کے چہرے پر مارنے اور اسے تکلیف دینے سے رک جائے، اسی طرح یہ بھی اس کے بس میں تھا کہ وہ ان معبُودوں کی محبت میں جوشِ غضب سے بھڑک اٹھے جنھیں بیٹے نے چھوڑ دیا تھا۔

ماں انھیں گھر کے ایک گوشے میں لے گئی اور وہاں بند کر کے تالا لگا دیا۔ پھر حضرت مصعبؓ  اسی قید میں رہے، حتیٰ کہ کچھ مومنین نے حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ جب آپؓ  نے ان لوگوں کے یہاں سے چلے جانے کی خبر سنی تو خود کو آزاد کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

ماں اور اپنے چوکیداروں کو غافل پا کر حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے۔ وہاں اپنے مہاجر بھائیوں کے ساتھ کچھ عرصہ رہے، پھر ان کے ساتھ مکہ آ گئے۔پھر دوبارہ حکمِ رسول اﷲ ﷺ پر دیگر مسلمانوں کی معیت میں حبشہ ہجرت کر گئے۔

حضرت مصعبؓ  کا ماں کے ساتھ آخری ٹکراؤ اس وقت ہوا جب ماں نے واپسی پر دوبارہ آپؓ کو محبوس کرنے کی کوشش کی۔ حضرت مصعبؓ  نے اس وقت قسم کھائی کہ اگر تم ایسا کرو گی تو میں ہر اس شخص کو قتل کر ڈالوں گا جس سے تم میرے خلاف مدد لو گی۔

ماں، بیٹے کے عزم و ارادے سے واقف تھی کہ وہ جب کسی کام کا عزم کر لے،تو اسے کر گزرتا ہے، لہٰذا اس نے روتے ہوئے اسے چھوڑ دیا۔بیٹے نے بھی روتے ہوئے ماں کو چھوڑ دیا۔ ایک دوسرے کو چھوڑتے وقت ماں کی جانب سے کفر اور اپنے بیٹے کی جانب سے اسلام پر قائم رہنے کا عجیب عزم و اصرار سامنے آیا۔

ماں نے گھر سے نکلتے وقت کہا’’ جاؤ اپنی مرضی کرو، میں دوبارہ تیرے پاس آؤں تو میں تیری ماں نہیں ہوں گی۔ بیٹا، ماں کے قریب ہوا اور کہنے لگا ’’ماں …! میں تیرا خیر خواہ ہوں، میرے دل میں تیرے لیے نرم جذبات ہیں، تو یہ گواہی دے ڈال کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺاس کے بندے اور رسول ہیں۔‘‘

ماں نے غضب ناک کیفیت میں جواب دیا ’’ستاروں کی قسم۔۔۔! میں تیرے دین میں داخل نہیں ہوں گی۔ یہ تو میری رائے کو بے وقعت اور عقل کو کمزور کر دے گا۔‘‘ پھر حضرت مصعبؓ  نعمتوں بھری زندگی پر فقر و تنگ دستی کو ترجیح دیتے ہوئے باہر نکل آئے اور خوش لباس و خوشبو پسند جوان یوں نظر آنے لگا کہ کھر درے کپڑے کی قمیص زیب تن کیے ہوتا۔

ایک دن کھا لیتا تو کئی روز بھوکوں رہتا، لیکن عقیدے کی بلندی کو پہنچی اور نور الٰہی سے منور خوبصورت روح نے ان کے اندر دوسرا ہی انسان پیدا کر دیا تھا۔ ایسا انسان جو اپنے جلال سے آنکھوں کو خیرہ کر دے اور دلوں پر اپنی دھاک بٹھا دے۔

حضرت مصعبؓ مکہ میں ہوں یا حبشہ، ان کے لیے ہر جگہ برابر تھی۔ ان کا ایمانی تجربہ ہر زمان و مکان میں اعلیٰ نتائج دیتا رہا۔ وہ اپنی زندگی کو نئی نہج کے اس سانچے میں ڈھال کر فارغ ہو چکے تھے جو سانچا جنابِ محمدﷺ نے صحابہؓ  کو عطا کیا تھا۔حضرت مصعبؓ اس بات پر مطمئن تھے کہ ان کی زندگی اب اس قابل ہو چکی کہ وہ اپنے عظیم و اعلیٰ خالق و باری کے سامنے قربانی پیش کر سکیں۔

ایک روز آپؓ مسلمانوں کے پاس آئے جو رسول اللہؐ کے گرد و پیش مجلس آرا تھے۔ ان لوگوں نے حضرت مصعبؓ کو دیکھتے ہی سر اور نگاہیں جھکا لیں۔ بعض کی تو آنکھیں اشک بار ہو گئیں۔ان کی یہ کیفیت کیوں ہو گئی تھی؟

اس لیے کہ وہ آپؓ کو اس حالت میں دیکھ رہے تھے کہ آپؓ  پیوند لگی بوسیدہ قمیص پہنے ہیں۔ صحابہؓ نے تو آپؓ  کے اسلام سے قبل آپؓ  کی جو تصویر دیکھی تھی وہ تو کچھ اور تھی، اس وقت تو آپؓ کے کپڑے باغ کے پھولوں کی مانند چمکدار اور عطر بیز ہوا کرتے تھے۔

 رسول اللہ ﷺ دیر تک آپؓ کو حکمت و عزت اور محبت بھری نگاہوں سے دیکھتے رہے۔ پھر آپﷺ کے مبارک لبوں پر رعب دار مسکراہٹ نمودار ہوئی۔آپﷺ نے فرمایا: ’’ میں نے مصعبؓ کو دیکھا ہے کہ مکہ میں والدین کا کوئی بیٹا ایسا نہ تھا جو اس سے بڑھ کر نعمتوں سے بہرہ اندوز ہوتا ہو۔ لیکن مصعبؓ  نے ہر چیز کو اللہ و رسول کی محبت میں خیر باد کہا ہے۔‘‘

٭٭

یہی وہ دن ہیں جب رسول اکر م ﷺ نے ایک بہت بڑی مہم کے لیے آپؓ  کو منتخب فرمایا آپؓ  مدینہ میں اسلام کے پہلے سفیر ہوں گے اور ان انصار مدینہ کو دینی تعلیم دیں گے جو عقبہ کے مقام پر رسول اللہ ﷺ کی بیعت کر چکے تھے۔ ان کے علاوہ دیگر لوگوں کو بھی دعوتِ اسلام دے کر حلقہ دین میں داخل کریں گے۔

ان دنوں رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو عمرو مرتبہ میں حضرت مصعبؓ سے بڑے اور رسول اللہ ﷺ کے زیادہ قرابت دار تھے۔ مگر رسول اللہ ﷺ نے حضرت  صعب الخیرؓ  کو اس کام کے لیے منتخب کیا۔

حضرت معصبؓ کو بھی خوب معلوم تھا کہ انتہائی خطرناک معاملہ ان کے سپرد کیا جا رہا ہے۔اس مدینہ میں اسلام کو پھیلانے اور بڑھانے کا معاملہ ان کے سامنے رکھا گیا ہے جو عنقریب دار الہجرت قرار پانے اور دعوت و داعیان اور غازیان و فاتحین کا مرکز بننے والا ہے۔

حضرت مصعبؓ رسول اللہ ﷺ کی رسالت کو مکمل طور پر سمجھ چکے تھے۔ آپؓ  جان گئے تھے کہ رسول اللہ ﷺ اللہ کے داعی اور اس دین کی طرف دعوت دینے والے ہیں جو انسانیت کو ہدایت اور صراط مستقیم کی طرف لے جاتا ہے۔ یوں حضرت معصبؓ  بھی اس رسول کی مانند تھے کہ جو اللہ پر ایمان لائے تو اسؓ پر تبلیغ فرض ہو جاتی ہے۔

حضرت مصعبؓ  اسی وقت حضرت اسعدؓ بن زرارہ کی مہمان داری میں اُٹھتے اور قبائل و مجالس اور بستیوں پر چھا جاتے ہیں۔ آپؓ لوگوں کے پاس اپنے رب کی کتاب لے کر جاتے۔اور بڑی دلسوزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے اس جملے کو بیان کرتے ہیں۔ترجمہ ’’اللہ ہی واحد معبود ہے۔‘‘

حضرت مصعبؓ نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ بہترین دانش و کمال اخلاق کا سہارا لیتے ہوئے اس امانت کا بار اُٹھایا۔ آپؓ  نے اپنے زہد و ترفع اور اِخلاص کے زور پر اہل مدینہ کے دلوں کو فتح کر لیا اور وہ فوج در فوج دین میں اترنا شروع ہو گئے۔

جس دن رسول اللہ ﷺ نے آپؓ کو مدینہ بھیجا تھا، وہاں ان بارہ آدمیوں کے علاوہ کوئی اور مسلمان نہیں تھا جنھوں نے عقبہ کے مقام پر نبی ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ لیکن حضرت مصعبؓ  کو ان کے درمیان آئے ابھی چند ماہ گزرے تھے کہ اہل مدینہ نے اللہ و رسول کی دعوت پر لبیک کہہ دیا۔

بیعت عقبہ کے بعد آنے والے حج میں مسلمانانِ مدینہ نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اپنی نمائندگی کے لیے جو وفد مکہ بھیجا اس کے شرکاء کی تعداد مرد و خواتین سمیت ستّر تھی۔ وہ نبیﷺ کی طرف سے ارسال کردہ معلم حضرت مصعبؓ بن عمیر کی قیادت میں مکہ آئے۔

حضرت مصعبؓ نے اپنی فطری دانائی اور جاں کاہی کے ساتھ ثابت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے انھیں کیوں منتخب کیا تھا۔ آپؓ  کو بارہا ایسے حالات سے سابقہ پڑا کہ اگر آپؓ  کی تیز ترین ذہانت اور عظیم ترین روحانی قوت ساتھ نہ ہوتی تو خود آپؓ  اور رفقاء کو اس کا بہت بڑا خمیازہ بھگتنا پڑتا۔

ایک روز آپؓ  مدینہ میں لوگوں کو وعظ کر رہے تھے کہ اچانک بنی الاشہل کے ایک سردار، اُسید بن حضیر نے وہاں آ کر اپنا نیزہ گاڑ دیا۔ وہ اس آدمی کے خلاف غیظ و غضب سے بھڑک اٹھا تھا جو اس کی قوم کو کفر سے برگشتہ کر رہا تھا۔ انھیں اپنے معبود کو چھوڑنے کی تبلیغ کر رہا اور صرف ایک اللہ کے بارے میں بتا رہا تھا جس کے متعلق انھیں اس سے قبل کوئی علم تھا نہ وہ اس سے مانوس تھے۔

حضرت مصعبؓ  کے ساتھ بیٹھے مسلمانوں نے غیظ و غضب سے بھڑ کتے اُسید بن حضیر کو دیکھا تو سہم گئے لیکن حضرت معصبؓ سکون و اطمینان سے اللہ کی توحید کا اظہار کرتے رہے۔اُسید غصّے کی آگ میں جلتے ہوئے حضرت مصعبؓ کے سامنے کھڑا ہو گیا، پھر حضرت مصعبؓ  اور حضرت اسعدؓ  بن زرارہ کو مخاطب کر کے کہنے لگا:

 ’’تمہیں ہمارے محلے میں کون لایا، تم ہمارے کمزور لوگوں کو بے وقوف بناتے ہو؟ اگر زندگی چاہتے ہو تو یہاں سے چلے جاؤ…!‘‘ لیکن ادھر سمندر کی قوت و روانی کی مانند اور سپیدۂ سحر کے نمودار ہونے کی طرح حضرت مصعبؓ  کے چہرے پر خوشی کے آثار تاباں ہوئے۔وہ بزبان شیریں مقال گویا ہوئے: ’’کیا آپ بیٹھ کر سنیں گے نہیں ؟ اگر آپ کو ہمارا معاملہ اچھا لگے تو اسے مان لیجئے گا۔ناگوار گزرے تو ہم مزید کوئی بات نہیں کریں گے۔‘‘

اللہ اکبر…! اس چیز کا آغاز کتنا دلکش تھا جس کا اختتام عنقریب با سعادت ہونے ولا تھا! اُسّید ایک دانا و بینا آدمی تھے اور ادھر حضرت مصعبؓ  نے ان کے ضمیر پر دستک دے ڈالی تھی کہ وہ صرف یہ کلام سن لیں اور کچھ نہ کریں۔ اگر وہ اس پر مطمئن ہوں تو اچھی بات ! ورنہ وہ ان کا محلہ چھوڑ کر چلے جائیں گے اور کسی دوسرے قبیلے کنبے کے پاس جا کر اپنی بات کریں گے جسے وہ تکلیف پہنچائیں نہ ان سے تکلیف اُٹھائیں۔

اُسید نے جواب دیا’’ تم نے بات تو انصاف کی کہی۔‘‘ یہ کہہ کر اپنا نیزہ زمین پر پھینکا اور بیٹھ گئے۔حضرت مصعبؓ تلاوتِ قرآن پاک کرنے لگے۔ اُنہوں نے اس دعوتِ جانفزا کی تفسیر پیش کرنا شروع کی ہی تھی جناب محمد ﷺ بن عبداللہ پیش کر رہے تھے کہ اُسید کے خوابیدہ جذبات بیدار ہونا شروع ہو گئے۔ حضرت مصعبؓ  نے بات مکمل کی تو اُسید بن حضیر بآواز بلند کہہ اُٹھے:

’’یہ بات کس قدر حسین اور حق ہے…اس آدمی کو کیا کرنا چاہیے جو اس دین میں داخل ہونا چاہتا ہو؟‘‘

حضرت مصعبؓ  نے کہا’’ وہ اپنے کپڑے اور بدن پاک صاف کرے اور یہ شہادت دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبُود نہیں ہے۔‘‘ اُسید وہاں سے غائب ہو گئے۔تھوڑ ی دیر بعد آئے تو سر کے بالوں سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے۔وہ پھر کھڑے ہو کر یہ اعلان کرنے لگے کہ ’’اللہ کے سوا کوئی معبُود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔‘‘

یہ خبر روشنی کی طرح پھیل گئی…اب سعدؓ  بن معاذ آ گئے، یہ بھی مصعبؓ  کے سامنے ہتھیار ڈال کرمسلمان ہو گئے ہیں، پھر سعدؓ  بن عبادہ آتے اور نعمت اسلام سے بہرہ ور ہو جاتے ہیں۔ اُدھر اہل مدینہ آپس میں ایک دوسرے سے کہہ رہے ہیں اگر اُسیدؓ  بن حضیر، سعدؓ بن معاذ اور سعدؓ بن عبادہ اسلام لے آئے تو ہم کس لیے پیچھے رہ گئے۔ آؤ مصعبؓ کے پاس چلتے ہیں تا کہ ان کے ہاتھ پر ہم بھی ایمان لے آئیں۔یہ لوگ باتیں کر رہے تھے کہ مصعبؓ کے منہ سے جو بات بھی نکلے،حق ہوتی ہے…!

٭٭

اِس طرح اوّلینِ سفیرِ رسول ﷺ مدینہ منورہ میں بے مثال کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔۔۔ایسی کامیابی جو ان کے شایانِ شان تھی اور وہ اس کے اہل تھے۔ اب مہ وسال گزرنے لگے۔ رسول اللہ ﷺ اور آپؐ کے صحابہؓ  مدینہ ہجرت کر جاتے ہیں۔اُدھر قریش اپنے سینوں میں حسدو بغض کی آگ جلا رہے ہیں۔وہ اپنے باطل کو حق ثابت کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں تا کہ اللہ کے نیک بندوں کو ظالمانہ انداز میں کچل کر رکھ دیں۔

پھر غزوۂ بدر برپا ہو تا ہے جو ہوش گوش رکھنے والے قریشیوں کے لیے ایک سبق چھوڑ جاتا ہے جس سے وہ آتش انتقام میں جلنے لگے۔ نتیجے میں غزوۂ اُحد برپا ہوتا ہے۔ مسلمان بھی تیار ہو کر میدانِ جنگ میں آ جاتے ہیں۔

رسول اللہ ﷺ صفوں کے وسط میں کھڑے ہو کر مومنوں کے چہروں کو متلاشی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔آپ ﷺ ایسے شخص کی تلاش میں ہیں جسے جنگ کا پرچم تھمائیں۔ آپ ﷺ حضرت مصعب الخیرؓ کو پکارتے ہیں۔ حضرت مصعبؓ  آگے بڑھتے اور علم تھام لیتے ہیں۔

اب خوفناک معرکہ برپا ہوتا ہے۔ قتل و غارت کا مقابلہ تیز ہو جاتا ہے۔ کچھ تیر انداز جب دیکھتے ہیں کہ مشرکین میدان سے بھاگ کھڑے ہوئے تو وہ فرمانِ رسولﷺ کی پرواہ نہ کرتے ہوئے مخالفت کرتے اور پہاڑ کی چوٹی پر سے اپنی جگہ چھوڑ دیتے ہیں۔

ان کا یہ عمل مسلمانوں کی فتح فوراً شکست میں بدل دیتا ہے۔ اچانک قریش کے گھوڑ سوار پہاڑ کی بالائی جانب سے حملہ آور ہوتے ہیں اور خونخوار و تشنہ لب تلواریں مسلمانوں کو گہرا گھاؤ لگاتی ہیں۔ جب قریش دیکھتے ہیں کہ انتشار و بد دلی نے مسلمان لشکر کی صفوں کو توڑ ڈالا تو وہ رسول اللہ ﷺ تک پہنچنے کے لیے حملہ کرتے ہیں۔

حضرت مصعبؓ پیش آمدہ خطرہ بھانپ لیتے ہیں۔ آپؓ  علم بلند کرتے اور چنگھاڑتے ہوئے شیر کی مانند نعرۂ تکبیر لگاتے ہیں۔پھر دائیں بائیں دُور تک دشمن کی صفوں میں گھس جاتے ہیں۔ آپؓ  کو یہ شدید فکر لاحق ہے کہ بنفس نفیس دُشمنوں کی نظروں کو رسول اللہ ﷺ سے پھیر دیں۔ اس دوران آپؓ  تنہا ایک لشکر ثابت ہوتے ہیں۔ اللہ اکبر۔۔۔حضرت معصبؓ تنہا ایسے لڑتے ہیں گویا آپؓ  طاقت و قوت کا پہاڑ، لشکر جرار ہوں۔

ادھر اس تنہا جان پر دشمن کی جمعیت حملہ آور ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ا س شخص کے اوپر سے گزر کر رسول اللہ ﷺ تک جا پہنچیں۔حضرت مصعبؓ  کی زندگی کے اس فیصلہ کن لمحے کی روداد کا بیان ہم ایک عینی شاہد پر چھوڑتے ہیں۔ معروف سیرت نگار ’’ابن سعد ‘‘لکھتے ہیں ’’ہمیں ابراہیم بن محمد بن شرجیل عبدری اپنے باپ کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ انہوں نے کہا:

’’اُحد کے روز مصعبؓ  نے علم اُٹھایا۔ جب مسلمانوں کے قدم اُکھڑ گئے تو مصعبؓ  ثابت قدم رہے۔ مشرکین کا ایک گھڑ سوار ابن قمیہ اُن پر حملہ آور ہوا اور تلوار کا وار کر کے ان کا دایاں ہاتھ کاٹ دیا۔مصعبؓ کہہ رہے تھے: ’’اور محمدؐ اللہ کے رسول ہیں، ان سے قبل بھی تو رسول گزر چکے ہیں ‘‘۔

پھر اُنہوں نے علَم اپنے بائیں ہاتھ میں تھام لیا اور اس پر جھک گئے۔ ابن قمیہ نے اس ہاتھ پر وار کر کے اسے بھی کاٹ ڈالا۔ اب مصعبؓ  علَم کو سینے کے ساتھ لگا کر اپنے بازوؤں کی گرفت میں لیے جھکے کھڑے اور کہہ رہے ہیں : ’’اور محمدؐ اللہ کے رسول ہیں، ان سے قبل بھی تو رسول گزر چکے ہیں ‘‘۔

اب ابن قمیہ تیسری بار نیزہ سے حملہ آور ہوا، اس نے نیزہ مار ا اور نیزہ مصعبؓ  کے جسم میں دھنس گیا، مصعبؓ  گرے اور علم بھی بازوؤں کی گرفت سے نکل کر گر گیا۔‘‘ مصعبؓ  گر گئے…اور…علَم گر گیا…! زیورِ شہادت گر گیا، کو کبِ شہدا ء گر گیا…! حضرت مصعبؓ گرے مگر ایمان و جاں سپاری کے معرکہ میں شجاعت و بسالت کی بے نظیر تاریخ رقم کرنے کے بعد۔

ان کا خیال تھا کہ اگر وہ گرے تو رسول اللہ ﷺ کے قتل تک پہنچنے کی راہ محافظین و مدافعین سے خالی ہو جائے گی۔ لیکن وہ اپنے اوپر آنے والی اس مصیبت پر رسول اللہ ﷺ سے فرط محبت اور آپ ﷺ کی زندگی کو معرض خطرہ میں دیکھ کر صبر کا یوں اظہار کر چکے تھے: ’’اور محمدؐ اللہ کے رسولؐ ہیں، ان سے قبل بھی تو رسول گزر چکے ہیں ‘‘۔

بعد میں حضرت مصعبؓ  کے ان الفاظ کو مکمل کر کے قرآن کا جز بنا دیا گیا جس کی تا قیامت بار بار تلاوت ہوتی رہے گی۔

٭٭

رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرامؓ  اس ارضِ معرکہ کا جائزہ لیتے ہیں تو حضرت حمزہؓ  کے المناک و غم انگیز واقعہ کے باوجود جس سے قلبِ رسول حزین و ملول ہو کر رہ گیا تھا کہ مشرکین نے ان کی نعش کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور ان اصحابِ رسول اور ر فقائے رسول ﷺ کی نعشوں سے ارضِ معرکہ کے بھر جانے کے باوجود جن میں سے ہر ایک طہارت و صداقت اور روشنی کا پیکر عالم تھا،جی ہاں ! اس سب کچھ کے باوجود رسول اللہ ﷺ اپنے اوّلین سفیر کے جسد کے قریب جا کر ٹھہرے۔ آپ ﷺ انھیں الوداع اور ان کی خوبیاں بیان کر رہے تھے۔۔۔اللہ اکبر !

رسول اللہ ﷺ حضرت مصعب بن عمیرؓ  کے پاس کھڑے ہو کر گویا ہوئے تو آپ ﷺ کی پر نورو محبت بھری اور وفا کیش نگاہیں ان کے جسم پر پڑ رہی تھیں۔ پھر زبانِ رسالتؐ اظہار ِ صداقت کرتی ہے: ترجمہ ’’مومنین میں ایسے مرد ان ِ کار بھی ہیں جنھوں نے اس عہد کو سچ کر دکھایا جو اللہ سے انھوں نے کیا تھا۔‘‘

پھر آپﷺ حسرت بھری نظر اس چادر پر ڈالتے ہیں جس میں ان کو کفن دیا گیا ہے اور فرماتے ہیں : ترجمہ ’’میں نے تجھے مکہ میں دیکھا تو تجھ سے عمدہ و دیدہ زیب لباس پہننے والا اور خوبصورت زلفوں والا کوئی نہ تھا۔۔۔آج تو ایک چادر میں غبار آلود سر چھپائے ہوئے ہے۔‘‘

حضرت خبابؓ  بن الارت کہتے ہیں : ’’ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اﷲ کی راہ میں ہجرت کی تو ہم اللہ کی رضا کے طلب گار تھے اور اللہ کے ذمے ہمارے اس عمل کا اجر واجب ہو گیا۔ ادھر ہم میں سے کچھ لوگ اپنی زندگی پوری کر چکے مگر انھوں نے اس دنیا میں اپنے اس اجر (مال غنیمت)سے کوئی چیز نہیں کھائی…

مصعبؓ  اُنہی لوگوں میں شامل ہیں، وہ یومِ اُحد کو شہید ہوئے تو انھیں کفن دینے کے لیے ایک چادر کے سوا کچھ نہ تھا۔ہم اس چادر سے ان کا سر ڈھانپتے تو پاؤں ننگے ہو جاتے اور پاؤں ڈھانپتے تو سر ننگا ہو جاتا…رسول اللہﷺ نے یہ دیکھ کر فرمایا: ’’چادر کو ان کے سر کی جانب سے اوپر ڈال دو اور قدموں پر اذخر گھاس ڈال دو‘‘۔

رسول اللہ ﷺ نے ارضِ معرکہ میں ان تمام لوگوں (شہداء) کو بآواز بلند پکارا جو حضرت مصعبؓ  کے ساتھ تھے : ’’اللہ کا رسول بلا شک و شبہ یہ شہادت دیتا ہے کہ تم قیامت کے روز اللہ کے حضور حقیقی شہدا ء ہو گے۔‘‘ پھر آپ ﷺ اپنے صحابہؓ  کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ’’لوگو!اِن شہداء کی زیارت کرو، ان کے پاس آؤ، ان پر سلام بھیجو،اُس اللہ کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے، قیامت تک جس نے بھی اُن پر سلام بھیجا وہ اسے جواب دیں گے۔‘‘

٭٭٭

ماخذ:

http://urdudigest.pk/2011/10/hazrat-musab-bin-umair-2#sthash.TdDSdznX.dpuf

حضرت طلحہؓ بن عُبَیداللہ

ادارہ

حضرت حضرت طلحہؓ کی داستانِ زندگی بھی خوب ہے کہ آپؓ سرزمین بُصریٰ میں تجارت کے سلسلے میں گئے ہوئے تھے کہ وہاں انھیں ایک اچھا راہب ملا۔ اُس نے آپؓ کو بتایا کہ جس نبی کے بارے میں انبیاء نے خبر دی ہے اس کا ظہور حرم کی زمین میں ہو گا اور اس کا وقت آ گیا ہے۔ یہ سن کر طلحہؓ کو فکر لاحق ہوئی کہ کہیں وہ اس قافلہ میں شامل ہونے سے نہ رہ جائیں کیونکہ یہ ہدایت و رحمت اور نجات کا قافلہ ہے۔

پھر کئی ماہ بعد جب آپؓ واپس اپنے شہر مکہ آئے تو اہل مکہ کے اندر کچھ اشتعال پایا۔ آپؓ جب بھی کسی شخص یا گروہ سے ملتے، تو انھیں اس وحی کے بارے میں باتیں کرتے پاتے جو جناب محمدؐ پر نازل ہوئی تھی۔ حضرت طلحہؓ نے سب سے پہلے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے بارے میں پوچھا تو معلوم ہوا کہ وہ تھوڑی دیر پہلے ہی اپنے تجارتی قافلے کے ساتھ سفر سے واپس آئے ہیں اور ایک فرمانبردار و مطیع مومن کی حیثیت سے حضرت محمدﷺ کے ساتھ کھڑے ہیں۔

حضرت طلحہؓ نے اپنے دل میں کہا: محمدؐ اور ابوبکرؓ؟ اللہ کی قسم یہ دونوں کبھی گمراہی پر مجتمع نہیں ہو سکتے! حضرت محمدﷺ عمر کے چالیسویں برس کو پہنچ چکے ہیں اور ہم نے اس دوران ان سے ایک بھی جھوٹ نہیں سنا۔ کیا وہ آج اللہ کے بارے میں جھوٹ کہیں گے کہ اللہ نے مجھے رسول بنا کر بھیجا ہے اور میرے اوپر وحی نازل کی ہے؟

حضرت طلحہؓ فوراً حضرت ابوبکر صدیقؓ کے گھر کی طرف چل پڑے۔ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت طلحہؓ کے درمیان کوئی زیادہ دیر گفتگو نہیں ہوئی تھی کہ رسول اللہﷺ سے ملاقات اور آپؐ کے اِتباع کے شوق کی رفتار حضرت طلحہؓ کے دل کی دھڑکن سے بھی تیز ہو چکی تھی۔

حضرت ابوبکرؓ نے ان کو ساتھ لیا اور رسول اللہﷺ کی خدمت میں آگئے۔ جہاں حضرت طلحہؓ مسلمان ہو کر قافلۂ ایمان میں شامل ہو گئے اور اوّلین مسلمانوں میں شمار ہونے لگے۔ حضرت طلحہؓ اپنی قوم میں اپنے مقام و مرتبہ، دولت کی فراوانی اور منافع بخش تجارت کا مالک ہونے کے باوجود قریش کی تعذیبات کا شکار ہوئے۔ جب انھیں اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کو نوفل بن خویلد کے حوالے کیا گیا جس کو ’’قریش کا شیر‘‘ کہا جاتا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کو سزا میں مبتلا کیے ہوئے زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ قریش کو اپنے اس عمل پر شرمندگی کا احساس ہوا اور اس کے انجام کا خوف بھی لاحق ہو گیا۔

جب مسلمانوں کو ہجرت کا حکم دیا گیا تو حضرت طلحہؓ بھی مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے۔ پھر رسول اللہﷺ کے ساتھ سوائے غزوۂ بدر کے ہر غزوہ میں شریک رہے۔ غزوۂ بدر میں آپؓ اس لیے شریک نہ ہو سکے تھے کہ رسول اللہﷺ نے آپؓ اور حضرت سعید بن زیدؓ کو مدینہ سے باہر کسی مہم پر بھیجا ہوا تھا۔ جب وہ مہم سر کر کے واپس مدینہ آئے تو نبیﷺ اور صحابہؓ غزوۂ بدر سے واپس آ رہے تھے۔ ان دونوں اصحاب کو دلی صدمہ ہوا کہ وہ پہلے ہی غزوہ میں رسول اللہﷺ کے ساتھ شرکت کرنے کے اجر سے محروم رہ گئے۔ اس پر رسول اللہﷺ نے یہ خبر دے کر انھیں مطمئن کر دیا کہ جنگ لڑنے والوں کی طرح ان کو بھی پورا پورا اَجر ملے گا بلکہ رسول اللہﷺ نے انھیں بھی مالِ غنیمت میں اسی قدر حصہ دیا جس قدر جنگ میں شرکت کرنے والوں کو دیا تھا۔

٭٭

اب غزوۂ اُحد آیا کہ قریش کی پوری طاقت اور شدت بروئے کار آئے جس طرح وہ یومِ بدر کو جوش میں آئی تھی تاکہ مسلمانوں کو آخری شکست سے دوچار کر کے نیست و نابود کر دیا جائے۔سب کچھ پیس کر رکھ دینے والی جنگ فوراً شروع ہو گئی جس نے زمین کو اپنی المناک لپیٹ میں لے لیا اور مشرکین کی بدبختی آ گئی۔ مسلمانوں نے جب دیکھا کہ کفار اپنا اسلحہ پھینک کر بھاگ کھڑے ہوئے ہیں تو پہاڑی درے پر موجود تیر انداز اپنی جگہوں سے نیچے اتر آئے تاکہ غنائمِ جنگ لوٹ سکیں۔ اُدھر قریش کا لشکر اچانک پیچھے سے حملہ آور ہوا اور عنانِ جنگ اپنے ہاتھ میں لے لی۔

پھر جنگ نئے سرے سے اپنی شدت و سختی اور ہولناکی کے ساتھ شروع ہو گئی۔ اس اچانک حملہ نے مسلمانوں کی صفوں میں کھلبلی مچا دی۔ حضرت طلحہؓ نے اُدھر نظر ڈالی جہاں رسول اللہﷺ کھڑے تھے۔ دیکھا کہ آپؐ شرک و کفر کی قوتوں کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ حضرت طلحہؓ تیزی سے رسول اللہﷺ کی جانب چلے اور اس فاصلے کو عبور کرنے لگے۔ ایک ایسا فاصلہ جس میں دسیوں زہر آلود تلواریں اور جنون زدہ نیزے لہرا رہے تھے۔ حضرت طلحہؓ نے دُور سے دیکھا کہ رسول اللہﷺ کے رخسارِمبارک سے لہو بہہ رہا ہے اور آپؐ سخت تکلیف میں ہیں۔ یہ صورتِ حال حضرت طلحہؓ کو کھا گئی اور آپؓ نے ہولناک فاصلے کو چند چھلانگوں میں ہی طے کر ڈالا جبکہ مشرکین کی چھائیں چھائیں کرتی تلواریں رسول اللہﷺ کو حصار میں لیے ہوئے تھیں اور آپ ﷺ کو کاری ضرب لگانا چاہتی تھیں۔

حضرت طلحہؓ اس خوفناک صورتِ حال میں رسول اللہﷺ کے لیے ڈھال بن کر کھڑے ہو گئے۔ آپؓ اپنے دائیں بائیں بوٹیاں اڑانے والی تلوار کے وار کر رہے تھے۔ آپؓ نے دیکھا کہ رسول اللہﷺ کا خون بہہ رہا ہے اور آپؐ کی تکلیف بڑھ رہی ہے تو آپﷺ کو سہارا دیا اور اس گڑھے سے باہر نکالا جس میں آپؐ کا پاؤں پھسل گیا تھا۔آپؓ اپنے بائیں ہاتھ اور سینے سے رسول اللہﷺ کو سہارا دیے ہوئے تھے اور محفوظ مقام پر لے جا رہے تھے ساتھ ساتھ اپنے دائیں ہاتھ سے تلوار بھی چلا رہے تھے اور ان مشرکوں سے لڑ رہے تھے جو رسول اللہﷺ کو گھیرے ہوئے تھے۔حضرت عائشہ فرماتی ہیں : ’’جب اُحد کے روز کا ذکر کیا جاتا تو حضرت ابوبکرؓ فرمایا کرتے تھے یہ دن تو سارے کا سارا طلحہؓ کا تھا۔ میں پہلا شخص تھا جو نبیﷺ کے پاس آیا تو آپؐ نے مجھے اور ابو عبیدہؓ بن جراح سے فرمایا: اپنے بھائی کی حالت کو دیکھو! ہم نے دیکھا تو طلحہؓ کے جسم پر نیزے، تلوار اور تیر کے ۸۰ کے قریب زخم تھے۔ان کی ایک انگلی بھی کٹ گئی تھی۔ پھر ہم نے ان کی مرہم پٹی کی۔‘‘

٭٭

حضرت طلحہؓ تمام غزوات میں اگلی صفوں میں ہوا کرتے تھے۔ آپؓ پرچمِ رسولﷺ پر قربان ہو کر اللہ کی رضامندی چاہتے تھے۔ اسلام لانے کے بعد حضرت طلحہؓ مسلمان جماعت کے وسط میں زندگی گزارنے لگے۔ عبادت گزاروں کے ساتھ اللہ کی عبادت کرتے رہے اور مجاہدین کے ساتھ جہاد فی سبیل اللہ میں مصروف رہے۔ مسلمان بھائیوں کے ساتھ مل کر دین کی بنیادیں مضبوط کرتے رہے۔ جو دین اس لیے آیا تھا کہ انسانیت۔۔۔ساری کی ساری انسانیت۔۔۔کو اندھیروں سے نکال کر روشنیوں کی طرف لے آئے۔ جب آپؓ ربّ کا حق ادا کر لیتے تو پھر اللہ کا فضل تلاش کرنے کے لیے نکل کھڑے ہوتے۔ اپنی منافع بخش تجارت اور سودمند کاروبار میں مصروف ہو جاتے۔

حضرت طلحہؓ بہت زیادہ دولت مند اور اہل ثروت مسلمانوں میں سے تھے۔ آپؓ کی ساری دولت و ثروت اس دین کی خدمت کے لیے وقف تھی جس کا علَم آپؓ نے رسول اللہﷺ کی معیت میں اٹھا رکھا تھا۔ آپؓ اس دولت سے بے حساب خرچ کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ بھی آپؓ کی اس دولت کو بے حساب بڑھاتا تھا۔ رسول اللہﷺ نے بے انتہا جودوسخا کی بنا پر آپؓ کو طلحہ الخیر، (سراپا خیر طلحہ)، طلحہ الجود (سراپا سخاوت طلحہ) اور طلحہ الفیاض (بحر سخاوت طلحہ ) کا نام دے رکھا تھا۔ آپؓ کی دولت سے ایک مرتبہ جو چیز نکل جاتی اللہ اس کو کئی گنا بڑھا کر انھیں واپس کرتا۔ آپؓ کی اہلیہ سُعدیٰ بنت عوفؓ بیان کرتی ہیں ’’ایک روز میں طلحہؓ کے پاس گئی، میں نے انھیں غمگین دیکھا تو ان سے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ غمگین کیوں ہیں ؟‘‘

انھوں نے جواب دیا ’’میرے پاس جو مال ہے وہ بہت زیادہ ہو گیا ہے یہاں تک کہ اس نے مجھے تکلیف دہ پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے۔‘‘ میں نے ان سے کہا’’ تو پھر کیا ہوا اس کو تقسیم کر دیں۔‘‘ وہ اٹھے اور لوگوں کو بلا کر ان میں دولت تقسیم کرنے لگ گئے یہاں تک کہ اس دولت میں سے ایک درہم بھی باقی نہ رہا۔‘‘ ایک بار حضرت طلحہؓ نے اپنی ایک زمین بہت زیادہ قیمت پر فروخت کی۔ جب دولت کے ڈھیر کو دیکھا تو ان کی آنکھیں ڈبڈبا آئیں اور کہنے لگے ’’وہ شخص جس کے گھر میں اس مال کو ایک رات گزر جائے اسے نہیں معلوم کہ راتوں رات اسے کس قدر اللہ کے بارے میں دھوکے میں ڈال دیا جائے۔‘‘

پھر انھوں نے اپنے کچھ دوستوں کو بلایا اور ان سے یہ مال اٹھوا کر مدینہ کی گلیوں، شاہراہوں اور گھروں میں جا کر تقسیم کرنے لگے یہاں تک کہ اِدھر صبح ہوئی اور اُدھر ان کے پاس کوئی درہم نہ رہا۔ حضرت جابر بن عبد اللہؓ ان کی جودوسخا کا حال بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’میں نے طلحہؓ بن عبید اللہ کے علاوہ کسی آدمی کو نہیں دیکھا جو بغیر مانگے اس قدر مال عطا کرتا ہو۔‘‘ حضرت طلحہؓ اپنے اہل و عیال اور اقرباء کے ساتھ بہترین سلوک کرنے والوں میں سے تھے۔ آپؓ ان لوگوں کی کثرتِ تعداد کے باوجود ان کی کفالت کرتے۔ اس سلسلہ میں آپؓ کے بارے میں کہا گیا ہے:

’’بنی تیم کے کسی گھرانے کا کوئی سرپرست ایسا نہیں جس کی وہ ضروریات پوری نہ کرتے ہوں اور اس کے عیال کا خیال نہ رکھتے ہوں ! آپؓ بنی تیم کی بیواؤں کی شادیوں کا انتظام کرتے اور لوگوں کے تاوان ادا کرتے۔‘‘ حضرت سائب بن یزیدؓ کہتے ہیں ’’میں سفر و حضر میں طلحہؓ بن عبید اللہ کے ساتھ رہا ہوں۔ میں نے کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا جو طلحہؓ سے زیادہ درہم و دینار اور لباس و طعام کی سخاوت کرنے والا ہو۔‘‘

٭٭

خلافتِ عثمانؓ میں فتنہ رونما ہوا تو حضرت طلحہؓ، حضرت عثمانؓ کا محاسبہ کرنے والوں کی تائید کر رہے تھے۔ اگر انھیں معلوم ہوتا کہ یہ فتنہ اس افتراق و انتشار اور انتہا و انجام تک جا پہنچے گا تو وہ اس کے سدِباب کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے اور ان کے ساتھ وہ صحابہؓ بھی ہوتے جنھوں نے اس تحریک کی ابتدا میں محض اس لیے تائید کی تھی کہ یہ دباؤ اور محاسبے کی ایک تحریک ہے اور اس سے زیادہ اس کی حیثیت کچھ نہیں۔

تاہم حضرت عثمانؓ کے محاصرہ اور پھر مظلومانہ قتل کے بعد حضرت طلحہؓ کا یہ مؤقف تبدیل ہو گیا۔ حضرت علیؓ نے مدینہ میں مسلمانوں سے بیعت لی تو حضرت طلحہؓ و حضرت زبیرؓ ان لوگوں میں شامل تھے۔ پھر دونوں بزرگوں نے حضرت علیؓ سے عمرہ کی ادائی کے لیے مکہ جانے کی اجازت طلب کی اور مکہ چلے گئے۔ وہاں سے بصرہ چلے گئے۔ جہاں پر حضرت عثمانؓ کے خون کا بدلہ لینے کے لیے بہت سی قوتیں جمع تھیں۔ یعنی اس جنگ جمل کی سرزمین جس میں حضرت عثمانؓ کے خون کا بدلہ لینے والے لشکر اور حضرت علیؓ کے حامیوں کا آمنا سامنا ہوا۔ یہ جنگ اسلامی تاریخ کا ایک ایسا حصہ ہے جس کی کبھی صفائی نہیں دی جا سکی۔ اپنی اپنی محبت اور رائے پر شدید اصرار نے مسلمانوں کو مسلمانوں سے لڑا دیا۔ اس جنگ میں سازشیوں اور اپنوں کی غلطیوں سے اُمت کے بڑے ہی قیمتی لوگوں کی جانیں گئیں۔ حضرت طلحہؓ کو جیسے ہی اپنی غلطی کا احساس ہوا انھوں نے اس ماحول سے نکلنے میں دیر نہیں لگائی۔

حضرت علیؓ نے جب اُمّ المؤمنین حضرت عائشہؓ کو اپنے ہَودَج میں بیٹھے اس لشکر کی قیادت کرتے ہوئے دیکھا جو جنگ کے لیے آ رہا تھا تو رو پڑے۔ کچھ دیر بعد انھوں نے رسول اللہﷺ کے ۲ حواریوں حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ کو لشکر کے وسط میں دیکھا تو دونوں کو لشکر سے باہر آنے کے لیے کہا۔ یہ دونوں حضرات باہر آئے تو حضرت علیؓ نے حضرت طلحہؓ کو مخاطب کر کے کہا ’’اے طلحہؓ! تو رسول اللہﷺ کی بیوی کو ساتھ لے کر لڑائی کے لیے نکلا ہے اور اپنی بیوی کو گھر میں بٹھا رکھا ہے؟‘‘

پھر حضرت زبیرؓ سے کہا : ’’اے زبیرؓ ! میں تجھے قسم دے کر پوچھتا ہوں، کیا تجھے وہ دن یاد ہے جب تیرے پاس سے رسول اللہﷺ گزرے تھے اور ہم فلاں جگہ پر تھے اور آپؐ نے تجھ سے فرمایا تھا: اے زبیرؓ! کیا تو علیؓ سے محبت نہیں کرتا؟ تُو نے کہا تھا: کیا میں اپنے خالہ زاد، عم زاد اور اس شخص سے محبت نہ کروں جو میرے دین پر ہے؟ پھر رسول اللہﷺ نے تجھ سے فرمایا تھا’’ اے زبیرؓ! اللہ کی قسم! تو ضرور اس سے جنگ آزما ہو گا جبکہ تو ظلم کر رہا ہو گا۔‘‘

حضرت زبیرؓ نے حضرت علیؓ کی یہ بات سن کر جواب دیا ’’ہاں مجھے یاد آ گیا ہے! میں تو اسے بھول گیا تھا۔ اللہ کی قسم۔۔۔میں تم سے اب لڑائی نہیں کروں گا۔‘‘ پھر حضرت زبیرؓ اور حضرت طلحہؓ دونوں اس اندرونی جنگ سے دست بردار ہو گئے مگر اس موقع پر جنگ سے دست برداری انھیں اپنی جانیں دے کر چکانی پڑی۔ حضرت زبیرؓ کو حالتِ نماز میں عمرو بن جرموز نامی شخص نے قتل کر دیا اور حضرت طلحہؓ کو مروان بن حکم نے تیر کے نشانہ پر لے کر زندگی سے محروم کر دیا۔

٭٭

حضرت طلحہؓ جنگِ جمل کے روز حضرت علیؓ کے مقابل لشکر میں شریک ہو کر جنگ آزما ہونے کے لیے پابہ رکاب ہوئے، تو آپؓ  اُمید یہ رکھتے تھے کہ آپؓ کا یہ اقدام حضرت عثمانؓ کے محاسبے پر مبنی ان کے اس پہلے مؤقف کا کفارہ بن جائے گا جو آپؓ کے ضمیر کے لیے کانٹا بن کر رہ گیا تھا۔ آپؓ معرکہ شروع ہونے سے قبل دعا کے لیے ہاتھ بلند کرتے ہیں اور آہ و زاری کے الفاظ میں دعاگو ہوتے ہیں تو آپؓ کی آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔ آپؓ کہتے ہیں ’’اے اللہ آج مجھ سے عثمانؓ کا بدلہ لے لے کہ تُو مجھ سے راضی ہو جائے۔‘‘

حضرت علیؓ نے جب انھیں اور حضرت زبیرؓ کو متوجہ فرمایا تو جناب علیؓ کے الفاظ نے ان دونوں حضرتِ گرامی کے دلوں کو بدل کر رکھ دیا۔ وہ حق پر ڈٹنے والے اور اس کے لیے لڑنے والے تھے۔ جونہی انھیں اندازہ ہوا کہ اُن کا قدم درست نہیں ہے اور اللہ کے رسولؐ نے بھی اسی بارے میں فرمایا اور سمجھایا تھا۔ انھوں نے میدان جنگ چھوڑنے کا فیصلہ کرنے میں دیر نہیں کی مگر سازشی عناصر کو ان کا یہ فیصلہ نہ بھایا اور اُنھوں نے دونوں صحابہ کو کچھ ہی دیر بعد زندگی کی قید سے آزاد کر دیا۔ شہادت اُن کے مقدر میں لکھی جا چکی تھی۔

اللہ اکبر۔۔۔شہادت حضرت طلحہؓ کے مقدر میں تھی۔ وہ جہاں بھی واقع ہوتی حضرت طلحہؓ اسے پا کر رہتے اور وہ انھیں پا کر رہتی۔ کیا رسول اللہﷺ نے ان کے بارے میں فرمایا نہیں تھا ’’یہ وہ شخص ہے جس نے اپنی نذر پوری کر دی ہے اور جس کو یہ بات خوش کرے کہ وہ زمین پر کسی شہید کو چلتا ہوا دیکھے تو وہ طلحہؓ کو دیکھ لے۔‘‘ شہید نے اپنے عظیم انجام کو پا لیا اور واقعۂ جمل اپنے اختتام کو پہنچا۔ اُم المومنین حضرت عائشہؓ کو احساس ہوا کہ انھوں نے معاملہ فہمی میں عجلت سے کام لیا ہے جس کے باعث مسلمانوں کے ہی ۲ لشکروں کا آمنا سامنا ہو گیا ہے تو اس تصادم سے کنارہ کش ہو کر فوراً بصرہ چھوڑ کر مدینہ چلی گئیں۔ حضرت علیؓ نے پوری عزت و تکریم کے ساتھ انھیں سفر کی تمام سہولیات بہم پہنچائیں۔

٭٭

حضرت علیؓ اور ان کے ساتھی اور وہ لوگ جو ان کے خلاف تھے جب شہدائے جنگ کا معاینہ کر چکے تو حضرت علیؓ نے سب کی نماز جنازہ پڑھی۔ جب حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ کی تدفین سے فارغ ہوئے تو ان دونوں محترم اور جلیل القدر ہستیوں کو عظیم الفاظ میں الوداع کہا۔ حضرت علیؓ کے ان الوداعی کلمات کے آخری الفاظ یہ تھے:

’’مجھے امید ہے کہ میں، طلحہؓ زبیرؓ اور عثمانؓ ان لوگوں میں سے ہوں گے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

’’ان کے دلوں میں جو تھوڑی بہت کھوٹ کھپٹ ہو گی اسے ہم نکال دیں گے، وہ آپس میں بھائی بھائی بن کر آمنے سامنے تختوں پر بیٹھیں گے۔‘‘ (الحجر: ۴۷)

پھر دونوں حضراتؓ کی قبروں پر غم ناک اور محبت بھری نگاہ ڈالتے ہوئے فرمایا ’’میرے ان کانوں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے ’’طلحہؓ اور زبیرؓ جنت میں میرے ہمسائے ہوں گے۔‘‘

٭٭٭

ماخذ:

http://urdudigest.pk/2012/10/hazrat-talha-bin-ubadallah#sthash.WdHWQn0k.dpuf

 

حضرت خُبَیب بن عدیؓ

ادارہ

اور اب…

لوگو!۔۔۔اب اس بہادر کے لیے راستہ چھوڑ دو۔

آؤ۔۔۔ہر طرف اور ہر مقام سے آؤ۔

آؤ۔۔۔ہلکے ہو یا بوجھل، چلے آؤ۔

تیزی کے ساتھ آؤ مگر پورے ادب و احترام اور انکسار و تواضع کے ساتھ آؤ…! اور ہمہ تن گوش ہو جاؤ کہ تم فدا کاری و جاں سپاری کا ایسا درس سننے والے ہو جس کی کوئی نظیر نہیں۔

یقیناً وہ بھی ایسے ہی دروس تھے۔ ان کے حسن و جمال کی خوبی یہ تھی کہ وہ اپنے مثیل و نظیر سے ایک انفرادیت رکھتے تھے۔ مگر اب آپ فنِ فدا کاری و جاں بازی کے ایک نئے استاذ کے سامنے بیٹھے ہیں۔

ایسے استاذ۔۔۔کہ اگر آپ ان کی جائے شہادت کا تذکرہ سننے سے محروم رہ گئے تو آپ خیرِ کثیر و خیرِ عظیم سے محروم رہ جائیں گے۔

اے ہر قوم و ملک کے صاحبِ عقیدہ لوگو! ہماری طرف توجہ کرو۔

اے ہر وقت اور ہر جگہ بلندیوں سے عشق کرنے والو ہماری طرف دیکھو۔

اے غرور و تکبر سے بوجھل دماغو! تم بھی توجہ کرو…! تم نے تو دیگر ادیان اور ایمان کے بارے میں بُرے تصورات قائم کر رکھے ہیں۔ تم اپنے دماغوں میں غرور و تکبر رکھو، لیکن ہماری بات بھی سنو۔

آؤ۔۔۔اور دیکھو کہ اللہ کا دین۔۔۔اسلام کس طرح کے انسان تیار کرتا ہے۔

مشرکین خبیبؓ بن عدی کے ایمان کا سودا کرنے لگے اور ان سے کہنے لگے کہ تم اللہ اور محمدؐ پر جو ایمان رکھتے ہو اگر اس سے انکار کر دو گے تو ہم تجھے چھوڑ دیں گے۔ لیکن افسوس اِن عقل کے اندھوں پر…! ان کی کوشش تو اُس آدمی جیسی تھی جو سورج کو پتھر مارنے کی کوشش کر رہا ہو

آؤ۔۔۔اور دیکھو کہ اس دین کے ماننے والوں کے اندر کیسی عزت نفس، کیسی پختگی، کیسی ثابت قدمی، کیسی اطاعت شعاری اور کیسی فدا کاری اور کیسی وفاداری موجود ہے۔ اگر ہم اس بات کو ایک جملہ میں بیان کرنا چاہیں تو کہیں گے کہ کیسی ماورائے عقل عظمت ہے جسے حق پر ایمان و یقین اپنے ماننے والے مخلصین پر پانی کی طرح بہاتا ہے!!

توجہ فرمائیے…!!

کیا آپ اس مصلوب نعش کو دیکھ رہے ہیں ؟

اے بنی نوع انسان!۔۔۔آج ہمارے درس کا موضوع یہی ہے!

ہاں۔۔۔یہی مصلوب جسد ہمارا موضوع درس ہے۔

یہی درس اور یہی استاذ ہے۔

اس جلیل القدر اور عظیم المرتبت اسمِ گرامی کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیجیے!

اسے یاد بھی کر لو اور گنگناتے بھی رہو کیونکہ یہ ساری انسانیت کا شرف ہے، وہ انسانیت جو کسی اور دین و مذہب سے وابستہ ہو یا کسی بھی دَور کی کسی بھی نسل سے تعلق رکھتی ہو۔

جی ہاں آبروئے ملت اور تحفظِ دین کی خاطر کٹ مرنے والوں کے لیے ابدی و دائمی درس ہے۔

حضرت خبیبؓ بن عدی مدینہ کے اوس انصاریوں میں سے تھے۔ جب رسول اللہﷺ مدینہ کی طرف ہجرت فرما گئے تو آپؓ متعدد بار دربارِرسالت میں حاضر ہوئے اور اللہ ربّ العالمین پر ایمان لے آئے۔

آپؓ شیریں روح، پاکیزہ نفس، پختہ ایمان اور شاداب ضمیر کے مالک تھے۔

جب غزوۂ بدر میں اسلامی لشکر نے اپنے جھنڈے بلند کیے تو اس موقع پر حضرت خبیبؓ بن عدی ایک جرأت مند سپاہی اور پیش قدم جنگجو تھے۔ ابتدائے معرکہ میں وہ ان مشرکین کے حصار میں آ گئے جو اِن کے راستے میں رکاوٹ بن رہے تھے۔ حضرت خبیبؓ نے انھیں اپنی تلوار کے زور پر بھگا ڈالا اور حارث بن عامر بن نوفل کو زندگی سے محروم کر دیا۔

اختتام جنگ کے بعد مشرکین کا شکست خوردہ بقیہ لشکر مکہ کی طرف لوٹا تو حارث کے بیٹوں نے اپنے باپ کے مقتل کو معلوم کیا اور اس مسلمان کا نام اچھی طرح ازبر کر لیا جس نے حارث کو میدان جنگ میں قتل کیا تھا یعنی خبیبؓ بن عدی کا نام ذہن نشین کر لیا۔

٭٭

مسلمان اپنے دلوں میں ایک نئے معاشرے کی تعمیر و تشکیل کے ارمان لے کر بدر سے مدینہ کی طرف لوٹے۔ حضرت خبیبؓ ایک عابد و زاہد آدمی تھے۔ وہ صوفیوں جیسی طبیعت اور عابدوں جیسا شوقِ عبادت رکھتے تھے۔ وہ عشق سے لبریز روح کے ساتھ عبادت کی طرف مائل ہو گئے۔ رات کو قیام کرتے، دن کو روزہ رکھتے اور اللہ ربّ العالمین کی تحمید و تقدیس بیان کرنے میں ہمہ وقت مصروف رہتے۔

ایک روز رسول اللہﷺ نے چاہا کہ قریش کی خفیہ سرگرمیوں کا کھوج لگایا جائے اور نئی جنگ کے لیے ان کی حرکات و سکنات اور تیاری کے بارے میں آگاہی حاصل کی جائے۔ اس مقصد کے لیے آپؐ نے اپنے صحابہ میں سے ۱۰ آدمیوں کا انتخاب کیا اور عاصمؓ بن ثابت کو ان کا امیر مقرر کیا۔ خبیبؓ بن عدی بھی ان میں شامل تھے۔

قافلہ اپنی منزل کی طرف چل پڑا یہاں تک کہ عسفان اور مکہ کے درمیان ایک جگہ پہنچ گیا۔ جس کی خبر ’’ھذیل‘‘ کے ایک محلہ کو ہو گئی جسے ’’بنولحیان‘‘ کہا جاتا تھا۔ وہ فوراً اپنے ۱۰۰  ماہر تیر اندازوں کے ساتھ اِن کے تعاقب میں نکل کھڑے ہوئے اور اِن کا کھوج لگاتے ہوئے ان کے پیچھے چل پڑے۔

اگر بنولحیان کا ایک آدمی وہاں گری کھجور کی بعض گٹھلیاں نہ دیکھتا تو قریب تھا کہ وہ ۱۰ افراد کے اس قافلے کو نہ پا سکتے۔ ایک نے گٹھلی پکڑی اور اہل عرب کی سی عجیب قیافہ شناسی کے انداز میں قیافہ لگایا۔ پھر اپنے ساتھیوں سے بآواز بلند یوں مخاطب ہوا ’’یہ تو یثرب کی گُٹھلی ہے۔ ہمیں اِن گٹھلیوں کے ساتھ ساتھ چلتے جانا چاہیے یہاں تک کہ یہ ہمیں ان لوگوں تک پہنچا دیں۔‘‘ بنولحیان زمین پر گری ہوئی ان گٹھلیوں کے ساتھ ساتھ چلتے رہے یہاں تک کہ انھوں نے دور سے اپنا گمشدہ شکار دیکھ لیا۔

مسلمانوں کے امیرِ قافلہ حضرت عاصم بن ثابتؓ نے سوچا کہ وہ ہمیں بھگا ماریں گے۔لہٰذا انھوں نے اپنے ساتھیوں کو پہاڑ کے اوپر بلند چوٹی پر چڑھ جانے کا حکم دیا۔ اُدھر بنولحیان کے یہ تیر انداز پہاڑ کے قریب پہنچ گئے اور مسلمان دستہ کو دامنِ کوہ میں گھیر لیا، ان کا محاصرہ سخت کر دیا اور پیشکش کی کہ تمھیں کچھ نہیں کہا جائے گا لہٰذا اپنا آپ ہمارے حوالے کر دو۔

دستہ کے افراد نے اپنے امیر جناب عاصم بن ثابت انصاریؓ کی طرف مشاورتی نظروں سے دیکھا اور اس انتظار میں رہے کہ وہ انھیں کیا حکم دیتے ہیں۔ اتنے میں حضرت عاصمؓ نے فرمایا ’’جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے، اللہ کی قسم میں تو کسی مشرک کی پناہ میں نہیں جاؤں گا۔ اے اللہ ہمارے بارے میں اپنے نبی کو خبر دے دے۔

اُدھر بنولحیان کے تیر اندازوں نے ان پر تیر و نیزے پھینکنے شروع کر دیے۔ مسلمان دستہ کے امیر حضرت عاصمؓ بن ثابت زخمی ہو گئے اور شہادت کے اعزاز سے سرخرو ہوئے۔ ان کے ساتھ ان کے ۳ ساتھی بھی زخمی ہو کر جامِ شہادت نوش کر گئے۔ باقی بچ جانے والے ۳  آدمیوں سے کافروں نے کہا کہ اگر وہ اپنا آپ ہمارے حوالے کر دیں تو پختہ وعدہ ہے کہ انھیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔

یہ تینوں آدمی پہاڑ سے نیچے اُتر آئے۔ کفار کے تیر انداز اور نیزہ باز حضرت خبیبؓ اور حضرت زید بن دثنہؓ کے قریب ہوئے اور اپنے ازاربند کھول کر انھیں باندھ لیا۔

تیسرے مسلمان نے اپنے آپ کو دشمن کے حوالے کرنا اطاعت امیر کی خلاف ورزی سمجھا اور عزم کر لیا کہ وہ بھی موت کو ویسے ہی قبول کرے گا جس طرح عاصمؓ اور ان کے ساتھیوں نے ایمان قبول کیا ہے۔ پھر یہ صاحب بھی اپنی آرزو کے مطابق رتبۂ شہادت پر فائز ہو گئے اور اس طرح ایمان کے اعتبار سے عظیم ترین اور عہد کے اعتبار سے مضبوط ترین یہ آدمی ۸ کی تعداد کو پہنچ گئے، جنھوں نے اللہ و رسول سے کیے ہوئے عہد کو زندگی کے آخری سانس تک نبھایا۔

حضرت خبیبؓ اور حضرت زیدؓ نے اپنے بندھن کھولنے کی کوشش کی مگر وہ اس قدر مضبوط تھے کہ یہ اس کوشش میں کامیاب نہ ہوسکے۔ پھر سرکش و جابر تیر انداز اِن دونوں اصحاب کو لے کر مکہ چلے گئے جہاں انھیں مشرکین کے ہاتھوں فروخت کر دیا۔

شہر میں ہونے والی نیلامی میں ’’خبیبؓ‘‘ نام پکارا گیا تو مقتولِ بدر حارث بن عامر کے بیٹوں کا ماتھا ٹھنکا۔ انھوں نے ذہن پر دباؤ ڈال کر اس نام کو پرکھا تو ان کے دلوں میں حسد و بغض کی آگ بھڑک اٹھی۔ وہ فوراً اس نام کے شخص کو خریدنے کے لیے بھاگے۔ ان کی اس انتقامی دوڑ میں مکہ کے وہ لوگ بھی شامل ہو گئے جو میدانِ بدر میں اپنے باپ اور سرداروں کو قتل کرا چکے تھے۔

بالآخر یہ سب اِن پر پل پڑے اور انھیں اس مقام کی طرف لے جانے لگے جہاں جا کر وہ ان کے، بلکہ تمام مسلمانوں کے خلاف اپنے حسد کی آگ ٹھنڈی کرنا چاہتے تھے۔کچھ لوگوں نے اپنے ہاتھ حضرت خبیبؓ کے ساتھی زید بن دثنہؓ پر ڈالے اور ان کو بھی تشدد سے دوچار کرنے لگے۔

حضرت خبیبؓ نے اپنا دل، اپنا معاملہ اور اپنا انجام، سب کچھ اللہ ربّ العالمین کے حوالے کر دیا اور قلبی اطمینان اور نفسی جرأت کے ساتھ عبادت کی طرف متوجہ ہوئے تو ان پر اللہ تعالیٰ کی ایسی سکنیت نازل ہوئی جو پتھر پر نازل ہوتی تو اسے پگھلا کر رکھ دیتی اور خوف و ہیبت پر اس کا نزول ہوتا تو اسے معدوم کر ڈالتی۔ دراصل اللہ ان کے ساتھ اور وہ اللہ کے ساتھ تھے۔ اللہ کا ہاتھ ان کے اوپر تھا۔ قریب تھا کہ وہ دستِ قدرت کی انگلیوں کی ٹھنڈک اپنے سینے میں محسوس کرنے لگتے۔

حضرت خبیبؓ، حارث کے گھر میں قید تھے۔ ایک روز حارث کی ایک بیٹی ان کے پاس آئی تو فوراً بھاگتی ہوئی باہر چلی گئی اور لوگوں کو عجیب و غریب چیز دیکھنے کے لیے پکارنے اور کہنے لگی ’’اللہ کی قسم! میں نے اسے انگور کا ایک بہت بڑا گچھا پکڑے دیکھا ہے جس سے یہ انگور کھا رہا تھا جبکہ یہ زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے اور مکہ میں انگوروں کا موسم بھی نہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہ وہ رزق ہے جو اللہ نے خبیبؓ کو عطا کیا ہے۔‘‘ یقیناً۔۔۔یہ وہ رزق تھا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے صالح بندے کو عنایت کیا، جس طرح اس سے قبل مریمؑ بنتِ عمران کو عطا کیا تھا جسے قرآن نے یوں بیان کیا ہے:

’’زکریاؑ جب کبھی اس کے پاس محراب میں جاتا تو اس کے پاس کچھ نہ کچھ کھانے پینے کا سامان پاتا، پوچھتا: مریم یہ تیرے پاس کہاں سے آیا؟ وہ جواب دیتی’’ اللہ کے پاس سے آیا ہے، اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے۔‘‘  اٰل عمران: ۳۷

ایک روز ان مشرکوں نے حضرت خبیبؓ کو ان کے ساتھی حضرت زید بن دثنہؓ کی شہادت کی خبر سنائی۔ ان کا خیال تھا وہ یہ خبر سنا کر ان کے اعصاب شل کر دیں گے اور اس طرح اسے دگنی سزا دیں گے لیکن انھیں یہ معلوم نہ تھا کہ اللہ نے اپنے اس بندے کو اپنا مہمان بنا لیا ہے اور اس کے اوپر اپنی رحمت و سکنیت نازل فرما دی ہے۔

جب دشمنانِ حق اپنے اس منصوبے میں ناکام ہو کر نا امید اور مایوس ہو گئے تو وہ اس ’’بہادر‘‘ کو پھانسی گھاٹ کی طرف لے چلے۔ وہ انھیں اس مقام کی طرف لے جا رہے تھے جس کا نام ’’تنعیم‘‘ تھا اور یہی حضرت خبیبؓ کا مقتل قرار پایا۔ وہ حضرت خبیبؓ کو لے کر اس مقررہ جگہ پر پہنچے ہی تھے کہ آپؓ نے ان سے ۲  رکعت نماز ادا کرنے کی مہلت مانگی۔ انھوں نے اس خیال سے اجازت دے دی کہ شاید وہ اس طرح اللہ و رسول اور دین سے کفر کے اعلان کرنے کے لیے کچھ سوچنا چاہتا ہو۔

حضرت خبیبؓ نے بڑے سکون اور خشوع سے بآواز خفی ۲ رکعت نماز ادا کی۔ اس دوران ان کی روح میں حلاوتِ ایمان یوں مچل رہی تھی کہ ان کا جی چاہ رہا تھا وہ اِن رکعات کو لمبا کریں اور پڑھتے ہی رہیں لیکن انھوں نے اپنے قاتلوں کی طرف دیکھا اور فرمایا: اللہ کی قسم! اگر تم یہ گمان نہ کر لو کہ میں موت سے خائف ہوں تو میں ضرور اس نماز کو مزید طویل کرتا۔‘‘ پھر انھوں نے آسمان کی طرف اپنا ہاتھ لہراتے ہوئے بددعا کی’’اے اللہ! ان کو ایک ایک کر کے گن لے اور ٹکڑے ٹکڑے کر کے مار دے۔ پھر بڑی جرأت اور اطمینان سے ان کی طرف متوجہ ہو کر یہ اشعار پڑھنے لگے

اور جب میں مسلمان کی حیثیت سے قتل ہو رہا ہوں تو مجھے اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ کس پہلو پر مجھے موت آتی ہے۔ میں جس پہلو پر بھی مارا جاؤں گا اللہ کی خاطر ہی جان دوں گا اور موت تو اللہ کی خاطر قبول کر رہا ہوں اگر وہ چاہے تو ان ٹکڑے ٹکڑے ہڈیوں میں بھی برکت ڈال دے گا۔

دشمنانِ حق نے کھجور کے تنوں سے ایک بہت بڑی صلیب تیار کی اور اس کے اوپر حضرت خبیبؓ کو باندھ دیا۔ ہر طرف سے مضبوطی کے ساتھ انھیں باندھا ہوا ہے اور مشرک دشمنی کا بدترین مظاہرہ کرنے کے لیے تیار کھڑے ہیں۔نیزہ باز اٹھتے اور اپنے نیزے پھینکنے کے لیے نیزہ بدست کھڑے ہو جاتے ہیں۔

سُولی پر لٹکے بہادر کے ساتھ بہیمیت کا یہ بدترین مظاہرہ بڑے سکون سے جاری ہونے والا ہے۔ اس کے باوجود یہ بہادر اپنی آنکھیں بند نہیں کرتا۔ ان کے چہرے پر عجیب نورانی سکینت نازل ہو رہی ہے۔ نیزے ان کے بدن میں پیوست ہونے اور تلواریں ان کی بوٹیاں اُڑانے کے لیے تیار ہیں۔

اس موقع پر قریش کا ایک سردار اِن کے قریب آتا ہے اور ان سے کہتا ہے ’’کیا تو چاہتا ہے کہ اس وقت محمدؐ تیری جگہ ہو اور تو صحیح سلامت اپنے اہلِ خانہ میں ہو؟

حضرت خبیبؓ نے لمحہ بھر کا توقف کیے بغیر اپنے قاتلوں کو مخاطب کر کے بآواز بلند کہا: اللہ کی قسم! مجھے تو یہ بھی پسند نہیں کہ رسول اللہﷺ کو ایک کانٹا چبھے اور میں اپنے اہل و اولاد میں رہوں اور دنیا کی نعمت و سلامتی مجھے میسر ہو۔

یہی وہ عظیم اور غضب ناک الفاظ ہیں جو حضرت خبیبؓ کے ساتھی حضرت زید بن دثنہؓ نے بھی اپنی شہادت کے موقع پر فرمائے تھے۔ کفر کے ایوانوں میں لرزہ طاری کر دینے والے یہ ہیبت ناک الفاظ کل حضرت زیدؓ نے کہے تھے اور آج حضرت خبیبؓ کہہ رہے تھے۔ ان الفاظ نے ابوسفیان کو یہ کہنے پر مجبور کر دیا تھا  اللہ کی قسم! میں نے کسی سے محبت کرنے والا کوئی آدمی نہیں دیکھا جس طرح محمدؐ کے ساتھی محمدؐ سے محبت کرتے ہیں۔

حضرت خبیبؓ کے یہ الفاظ گویا نیزوں اور تلواروں کو اپنا کام کر دکھانے کی اجازت دینا تھا اور یہی ہوا کہ یہ نیزے اور تلواریں وحشیانہ انداز میں ان کے جسم پر برس پڑیں۔ اس مقتل کے قریب آسمان پر پرندے اُڑ رہے تھے۔ گویا وہ اس انتظار میں تھے کہ یہ قصاب اپنے کام سے فارغ ہوں تو ہم اپنا کام شروع کریں۔ لیکن یہ چیل اور گِدھ چیختے اور ایک جگہ جمع ہو جاتے ہیں، اپنی چونچیں ایک دوسرے کے قریب کرتے ہیں گویا یہ آپس میں کوئی سرگوشی اور مشاورت کر رہے ہوں۔ پھر اچانک اُڑتے اور فضا میں بکھر کر دور دور چلے جاتے ہیں۔ شاید ان پرندوں نے صالح اور فرمانبردار آدمی کے جسم سے آنے والی خوشبو کو محسوس کر لیا تھا اور شرمندہ ہو گئے تھے کہ اس پاکیزہ جسد سے کوئی بوٹی نوچ کھائیں۔

پرندوں کا یہ غول حضرت خبیبؓ کے جسد کو چھوئے بغیر دور فضا میں جا چھپا اور مشرکین ظلم و شقاوت کا بدترین مظاہرہ کرنے کے بعد واپس مکہ میں اپنے حسد بھرے گھروں میں آ گئے اور حضرت خبیبؓ کا جسدِشہید اس حال میں وہیں چھوڑ آئے کہ نیزہ بازوں اور تلوار زنوں کی ایک جماعت اس کی نگرانی پر مامور تھی تاکہ مسلمان اس کو اتار کر لے نہ جائیں۔ جس وقت ان لوگوں نے حضرت خبیبؓ کو باندھ کر صلیب پر لٹکایا تھا تو حضرت خبیبؓ نے آسمان کی طرف رُخ کر کے گڑگڑا کر اپنے رب سے عرض کیا تھا:

اے اللہ! ہم نے تو تیرے رسولﷺ کا پیغام پہنچا دیا۔ اب تو بھی اپنے رسولؐ تک اس کی خبر پہنچا دے جو ہمارے ساتھ ہوا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے آپؓ کی دعا قبول فرمائی۔ رسولؐ اللہ مدینہ میں تشریف فرما تھے کہ آپؐ کے اندر یہ شدید احساس پیدا ہوا کہ آپؐ کے صحابہ مشکل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ آپؐ کو ان میں سے ایک صحابی کا جسد سُولی پر لٹکا ہوا بھی دکھایا گیا۔ آپؐ نے فوراً حضرت مقدادؓ بن عمرو اور زبیرؓ بن عوام کو بلایا اور ان آدمیوں کی خبر کے لیے روانہ کر دیا۔ دونوں جوانمرد اپنے گھوڑوں پر سوار ہوئے اور نہایت تیز رفتاری سے چل پڑے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں اس مطلوبہ جگہ پر پہنچا دیا اور انھوں نے اپنے ساتھی حضرت خبیبؓ کو صلیب سے نیچے اتار لیا۔ آج تک کسی کو معلوم نہیں کہ حضرت خبیبؓ کی قبر کہاں ہے۔ شاید یہی ان کے زیادہ شایانِ شان تھا کہ وہ تاریخ کے تذکرے اور زندگی کے ضمیر میں باقی رہیں تو انھیں ’’تختۂ دار پر موجود جوانمرد‘‘ کے طور پر ہی یاد کیا جائے۔

٭٭٭

ماخذ:

http://urdudigest.pk/2012/11/hazrat-khubaib-bin-addi#sthash.7H4EGwoO.dpuf


حضرت ابو ایوب انصاریؓ

خالد محمد خالد

ہجرت کے کامیاب سفر کا اختتام کرتے ہوئے آنحضرتؐ مدینہ میں داخل ہو رہے تھے۔ وہ دار الہجرت میں مستقبل کے مبارک ایام کا آغاز کر رہے تھے۔ رسول اللہﷺ اس جمِ غفیر کی صفوں کے درمیان سے گزر رہے تھے جس کے دل جرأت، محبت اور خوشی سے جوش مار رہے تھے۔ آپؐ اپنی اونٹنی پر سوار تھے۔ ہر کوئی اونٹنی کی مہار تھامنے کے لیے ہجوم کیے ہوئے تھا کہ رسول اللہﷺ کی مہمان نوازی میں کروں گا۔

سواری بنی سالم بن عوف کے گھروں کے قریب سے گزری تو انھوں نے یہ کہتے ہوئے اونٹنی کی راہ روک لی کہ: یا رسول اللہﷺ ہمارے پاس قیام فرمائیے۔ ہم نفری والے بھی ہیں اور سازوسامان کے مالک بھی اور دفاع بھی کر سکتے ہیں۔

بنی سالم بن عوف کے لوگ اونٹنی کی مہار تھامے ہوئے تھے کہ رسول اللہﷺ نے انھیں جواب دیا: خلو سبیلھا، فانھا مامورۃ ’’اس کی راہ چھوڑ دو، یہ حکم کی پابند ہے۔‘‘

اونٹنی بنی سالم بن عوف کے گھروں سے گزر کر بنی بیاضہ کے گھروں پھر بنی ساعدہ کے محلے پھر بنی حارث بن خزرج کے محلے پھر بنی عدی بن نجار کے محلوں اور ان تمام گھروں کے پاس سے گزر رہی تھی جو اس کی راہ میں آ رہے تھے۔ ہر قبیلہ اونٹنی کا راستہ روک رہا تھا کہ رسول اللہﷺ ان کے گھروں میں نزول فرما کر انھیں سعادت بخشیں لیکن رسول اللہﷺ کے ہونٹوں پر تبسم تھا اور آپؐ فرما رہے تھے: خلو سبیلھا، فانھا مامورۃ ’’اس کی راہ چھوڑ دو، یہ حکم کی پابند ہے۔‘‘

نبی اکرمﷺ نے اپنے نزول کا معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ رکھا تھا کیونکہ عنقریب اس جائے نزول کو بہت بڑا اعزاز و اکرام ملنے والا تھا۔ اس جگہ وہ مسجد تعمیر ہونا تھی جس سے توحید کی صدائیں اور نور کی کرنیں پھوٹ پھوٹ کر چہار دانگِ عالم میں پھیلنے والی تھیں۔ اس مسجد کے پہلو میں مٹی اور گارے کے وہ حجرے بھی تعمیر ہونا تھے جن کے اندر ’’گزارے‘‘ یا شاید ’’گزارے‘‘ سے بھی کم یعنی دنیاوی زندگی کا ’’ناگزیر‘‘ سامان بھی موجود نہ ہو۔

دنیا و مافیہا سے زیادہ قیمتی ان کٹیاؤں میں انسانیت کے اس معلم اور رسولﷺ نے قیام پذیر ہونا تھا جو اس لیے مبعوث ہوئے تھے کہ زندگی کے جامد ہو چکے جسد میں روح پھونکیں اور شرف و عزت کا حق دار اُن لوگوں کو قرار دیں جو یہ کہیں کہ ’’اللہ ہمارا رب ہے‘‘ اور پھر اس پر ثابت قدم ہو جائیں، یعنی ’’وہ لوگ جو اپنے ایمانوں کو ظلم کے ساتھ نہیں ملاتے۔‘‘ ہاں وہ جنھوں نے دین کو اللہ کے لیے خالص کر لیا تھا۔ جی ہاں وہ خیرخواہ ِ انسانیت کو زمین میں اصلاح کرنا چاہتے تھے، فساد برپا نہیں کرنا چاہتے تھے۔

رسول اللہﷺ نے اونٹنی کے ٹھہرنے کا معاملہ مکمل طور پر اس ذاتِ قدیر کے حوالے کر رکھا تھا جو آپؐ کی رہنمائی کر رہی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ آپؐ نے اونٹنی کی نکیل چھوڑ دی تھی۔ آپؐ اس کی نکیل کھینچ کر اس کا رخ کسی طرف موڑتے تھے نہ اس کے قدم روکتے۔ آپؐ کا قلبِ اطہر اللہ تعالیٰ کے ساتھ وابستہ تھا۔ آپؐ کی زبانِ مبارک پر یہ الفاظ جاری تھے: اللھم خرلی و اخترلی ’’اے اللہ! میرے لیے انتخاب فرما اور بہترین انتخاب فرما۔‘‘

بالآخر اونٹنی مالک بن نجار کے گھر کے سامنے آ کر بیٹھ گئی پھر اٹھ کھڑی ہوئی اور مکان کے گرد چکر لگایا۔ پھر اسی جگہ واپس آ گئی جہاں بیٹھی تھی اور پہلو زمین پر لگا دیا۔ پھر وہیں سکون سے بیٹھی رہی یہاں تک کہ رسول اللہﷺ خوش و خرم اس سے نیچے اتر آئے۔ اس موقع پر ایک مسلمان آگے بڑھتا ہے، اس کا چہرہ خوشی و سعادت سے چمک رہا ہے۔ وہ آگے بڑھتا ہے اور اونٹنی کا کجاوہ اٹھا کر اپنے گھر کے اندر لے جا کر رکھ دیتا ہے۔ پھر رسولِ رحمتﷺ سے درخواست کرتا ہے کہ آپؐ اس گھر میں قدم رنجہ فرمائیں۔ رسول اللہﷺ اپنا سعادت و برکت سے معمور دامن لے کر آدمی کے پیچھے پیچھے گھر میں داخل ہو جاتے ہیں۔

حضرات! کیا آپ کو معلوم ہے کہ یہ خوش نصیب مسلمان کو ن تھا جس کے گھر کے سامنے اونٹنی بیٹھی تھی اور رسول اللہﷺ اس آدمی کے مہمان بنے تھے اور تمام کے تمام اہلِ مدینہ اس آدمی کی بلند بختی و سعادت مندی کو رشک کی نظروں سے دیکھ رہے تھے؟ سنیے! یہ مسلمان، ہماری آج کی گفتگو کا عنوان ’’ابو ایوب انصاریؓ‘‘ یعنی مالک بن نجار کے پوتے ’’حضرت خالدؓ بن زید‘‘ ہیں۔

٭٭

قارئین کرام! رسول اللہﷺ کے ساتھ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کی یہ پہلی ملاقات نہیں تھی بلکہ اس سے قبل بیعت عقبۂ ثانیہ کے موقع پر جب اہلِ مدینہ کا ایک وفد مکہ میں رسول اللہﷺ سے بیعت کرنے کی غرض سے آیا تھا تو حضرت ابو ایوب انصاریؓ ان ستر مومنوں میں سے ایک تھے جنھوں نے دستِ رسولﷺ میں ہاتھ دے کر آپؐ کی مدد و نصرت کی پختہ قسمیں کھائی تھیں۔

اور اب جبکہ رسول اللہﷺ اپنے نزول و قیام سے مدینہ منورہ کو اعزاز بخش رہے تھے اور اسے اللہ کے دین کا مرکز بنا رہے تھے، مقدر نے جناب ابو ایوب انصاریؓ کے مکان اور گھر کو شرف بخشا کہ وہ سب سے پہلا گھر قرار پائے جہاں دنیا کے عظیم مہاجر اور کریم رسول جناب محمدﷺ آرام فرما ہوں۔ ابتدا میں رسول اللہﷺ نے فیصلہ کیا کہ آپؐ مکان کی پہلی منزل میں ہی قیام فرمائیں گے مگر ہوا یوں کہ حضرت ابو ایوبؓ  گھر کی بالائی منزل پر جانے کے لیے اوپر چڑھنے لگے تو کانپنا شروع ہو گئے۔

ان کے لیے یہ تصور بھی محال ہو گیا کہ میں حالتِ بیداری میں یا حالتِ خواب میں رسول اللہﷺ سے اونچی منزل میں رہوں پھر جناب ابو ایوب انصاریؓ رسول اللہﷺ سے درخواست کرنے لگے کہ آپؐ بالائی منزل پر تشریف لے جائیں۔ رسول اللہﷺ نے ان کی درخواست قبول فرمائی اور بالائی منزل پر قیام پذیر ہو گئے کہ اب رسول اللہﷺ کو مسجد کی تعمیر اور حجروں کی تیاری تک یہاں قیام فرمانا تھا۔

٭٭

قارئین کرام! آئیے آپ کو اس سہانے دور کا ایک یادگار واقعہ سنائیں جس کے اندر محبت کے جذبات بھی ہیں اور حالات کی سختی کے نشتر بھی، تاہم یہ جناب ابو ایوب انصاریؓ کی سعادت و خوش بختی کی ایک دلآویز تصویر بھی ہے! حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز سخت دوپہر کے وقت جناب ابوبکرؓ مسجد کی طرف جا رہے تھے تو جناب عمرؓ نے آپؓ کو دیکھ کر پوچھا، ابوبکرؓ! اس وقت کس چیز نے تمھیں باہر نکلنے پر مجبور کیا ہے؟

جناب ابوبکرؓ نے کہا: میں بھوک کی شدت سے دوچار ہوں اس لیے باہر نکلا ہوں ! حضرت عمرؓ نے کہا: اللہ کی قسم! مجھے بھی کسی اور چیز نے باہر نہیں نکالا، میں بھی اسی وجہ سے باہر آیا ہوں۔ جناب صدیقؓ و فاروقؓ ابھی یہی گفتگو کر رہے تھے کہ رسول اللہﷺ بھی ان کے پاس آ نکلے اور پوچھا تمھیں اس وقت کس چیز نے باہر نکالا ہے؟

جناب ابوبکرؓ و عمرؓ نے بتایا کہ اس لیے باہر نکلے ہیں کہ بھوک کی شدت سے دوچار ہیں۔

رسول اللہﷺ نے فرمایا! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ مجھے بھی اس کے علاوہ کسی اور چیز نے باہر نکلنے پر مجبور نہیں کیا، آؤ میرے ساتھ چلو!

پھر صدیقؓ و فاروقؓ اور سراپا رحمت رسولﷺ چلے اور جناب ابو ایوب انصاریؓ کے دروازے پر جا پہنچے۔ دراصل حضرت ابو ایوبؓ نے روزانہ رسول اللہﷺ کے لیے کھانا رکھا ہوتا تھا۔ جب آپؐ معمول کے وقت پر تشریف نہ لاتے، ابو ایوبؓ یہ کھانا اپنے اہل خانہ کو کھلا دیتے۔

جناب ابو ایوبؓ کی اہلیہ محترمہ نے رسول اللہﷺ اور آپؐ کے ساتھیوں کو دروازے پر دیکھا تو آپؐ کو خوش آمدید کہا، رسول اللہﷺ نے پوچھا ابو ایوبؓ کہاں ہیں ؟ ابو ایوبؓ اس وقت قریب ہی کھجوروں کے باغ میں کام کر رہے تھے۔ رسول اللہﷺ کی آواز سنتے ہی جلدی سے آ گئے اور آپؐ کو خوش آمدید کہا پھر ساتھ ہی عرض کیا: یا نبی اللہﷺ! یہ وہ وقت نہیں ہے جس میں آپؐ تشریف لایا کرتے ہیں یعنی جس وقت آپؐ کے لیے کھانا رکھا ہوتا ہے یہ وہ وقت نہیں۔رسول اللہﷺ نے فرمایا: تو نے ٹھیک کہا۔ پھر جناب ابو ایوبؓ باغ میں گئے اور کھجور کی ایک گچھے دار شاخ کاٹ لائے۔

رسول اللہﷺ نے دیکھا تو فرمایا میرا مقصد یہ نہیں تھا کہ تم شاخ ہی کاٹ کر لے آؤ، تم کھجوریں کیوں نہ توڑ لائے؟ حضرت ابو ایوبؓ نے عرض کیا: یارسول اللہﷺ میں نے چاہا کہ آپ اس سے تمر، رطب اور بُسر (پکی، کچی اور خشک) کھجوریں کھائیں، البتہ میں آپؐ کے لیے کچھ ذبح بھی کرتا ہوں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اگر ذبح ہی کرنا ہے تو کوئی دودھ دیتا جانور ذبح نہ کرنا۔ پھر ابو ایوبؓ نے بکری کا ایک بچہ ذبح کیا اور بیوی سے کہا کہ آٹا گوندھو اور روٹیاں پکاؤ۔ پھر خود آدھے گوشت کو لیا اور اس کو پکایا اور آدھے کو بھونا۔

جب کھانا تیار ہو گیا اور نبیﷺ اور آپؐ کے ساتھیوں کے سامنے رکھ دیا تو آپؐ نے ایک بوٹی لی اور اس کو ایک روٹی کے اندر رکھا اور فرمایا: یا ابا ایوب بادر بھذۃ القطعۃ الیٰ فاطمۃ فانھا لم تصب مثل ھذا منذ ایام ’’ابو ایوبؓ یہ بوٹی جلدی سے فاطمہ کو دے آؤ، اس کو کئی دنوں سے ایسی کوئی چیز میسر نہیں آئی۔‘‘ پھر رسول اللہﷺ اور آپؐ کے ساتھی کھانا کھا چکے تو آپؐ نے فرمایا: خبز و لحم و تمر و بسرور طب!! ’’روٹی اور گوشت، پکی، خشک اور تر کھجوریں !!‘‘ ساتھ ہی نبیﷺ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور آپؐ کی زبان مبارک سے یہ الفاظ نکلے:

’’ولاذی نفسی بیدہ ان ھذا ھو النعیم الذی تسالون عنہ یوم القیامۃ فاذا اصبتم مثل ھذا فضربتم بایدیکم فیہ فقولو۱: بسم اللہ فاذا شبعتم فقولوا: الحمد اللہ الذی ھو اشبعنا و انعم علینا فافضل‘‘

’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یہ وہ نعمت ہے جس کے بارے میں قیامت کے روز تم سے پوچھا جائے گا۔ جب تمھیں ایسی نعمت میسر آئے اور تم اس پر ہاتھ ڈالنے لگو تو بسم اللہ پڑھ لیا کرو اور جب شکم سیر ہو جاؤ تو پڑھا کرو الحمد اللہ الذی ھو اشبعنا و انعم علینا فافضل ’’تعریفوں کا حق دار وہی ہے جس نے ہمیں شکم سیر کیا اور ہمارے اوپر اپنی نعمت فرمائی تو بہترین نعمت فرمائی!‘‘

پھر رسول اللہﷺ اٹھے اور جاتے ہوئے حضرت ابو ایوبؓ سے فرمایا، کل ہمارے پاس آنا۔ دراصل رسول اللہﷺ کے ساتھ اگر کوئی آدمی بھلائی کرتا تو آپؐ اس کو بہترین بدلہ دینا پسند کیا کرتے تھے۔ دوسرے روز جناب ابو ایوبؓ نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو نبیﷺ نے اپنی ایک کنیز جو آپؐ کی خدمت کرتی تھی، حضرت ابو ایوبؓ کو عنایت کر دی اور فرمایا: ’’ابو ایوبؓ اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنا، یہ جب تک ہمارے پاس رہی ہے ہم نے اس کے اندر خیر ہی دیکھی۔‘‘

جناب ابو ایوبؓ کنیز کو لے کر گھر پہنچے تو ام ایوب نے دیکھ کر پوچھا، ابو ایوب یہ کس کی کنیز ہے؟ آپؓ نے کہا! یہ رسول اللہﷺ نے ہمیں تحفہ دی ہے۔ ام ایوب نے کہا: دینے والا کس قدر عظیم ہے اور دی گئی چیز کس قدر معزز ہے!! پھر جناب ابو ایوبؓ نے کہا، رسول اللہﷺ نے نصیحت کی ہے کہ اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔ اُم ایوبؓ نے کہا تو پھر رسول اللہﷺ کی نصیحت پر عمل کیے بغیر ہم کیسے رہ سکتے ہیں ؟ حضرت ابو ایوبؓ نے کہا: میں اس نصیحت پر عمل کرنے کا بہتر طریقہ اس کے سوا اور کوئی نہیں سمجھتا کہ اسے آزاد کر دوں ! پھر آپؓ نے اس کنیز کو آزاد کر دیا۔

٭٭

جب سے کفارِ مکہ اسلام کے خلاف سازشیں کرنا، دار الہجرت مدینہ منورہ پر چڑھائی کے پروگرام بنانا اور قبائل اکٹھے ہونا شروع ہوئے تھے کہ اللہ کے نور کو گل کر دیں، بالکل اسی وقت سے حضرت ابو ایوبؓنے جہاد فی سبیل اللہ کو بطور پیشہ اختیار کر لیا۔ بدر ہو یا اُحد، خندق ہو یا کوئی اور غزوہ و مشہد، ہر ایک میں اس بہادر نے اپنا جان و مال اللہ رب العلمین کے حضور فروخت کر دیا۔ وفاتِ رسولﷺ کے بعد بھی وہ کسی ایسے معرکے سے پیچھے نہیں رہے جس میں مسلمانوں کی شرکت لازمی قرار دی گئی ہو خواہ یہ معرکہ کتنا ہی سخت کیوں نہ ہو! انفرو اخفافا و ثقالا ’’نکلو خواہ ہلکے ہو یا بوجھل!‘‘ جناب ابو ایوب انصاریؓ کا شعار تھا جس کو وہ دن رات اور چھپے کھلے ہر حال میں گنگناتے تھے۔

ایک بار آپؓ اس لشکر میں شرکت سے رہ گئے جس کا امیر خلیفۂ وقت نے ایک نوجوان مسلمان کو بنا دیا تھا اور آپؓ اس نوجوان کی امارت پر راضی نہ تھے۔ صرف اس ایک بار۔۔۔اس کے علاوہ اور کبھی نہیں ! وہ اس لشکر جہاد میں شرکت نہ کر سکے اور اس عدم شرکت کے اپنے موقف پر اظہارِ ندامت سے ان کا دل مسلسل مضطرب رہتا۔ فرماتے:

ما علی من استعمل علی ’’جو میرے اوپر ذمہ دار بنایا گیا، اس کی جواب دہی میری ذمہ داری نہیں ہے۔‘‘

یعنی مجھے تو جہاد میں شریک ہو کر اپنی ذمہ داری ادا کرنی چاہیے تھی۔ اس ایک مرتبہ کے بعد وہ کبھی جہاد و قتال سے غیر حاضر نہ رہے! ان کے لیے بس یہی سب کچھ تھا کہ وہ ایک سپاہی کی حیثیت سے لشکرِاسلام میں زندہ رہیں، اس کے پرچم تلے لڑتے رہیں، اس کی حرمت کا دفاع کرتے رہیں اور اس کی پاسبانی کا حق ادا کرتے رہیں۔ جب حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ کے درمیان اختلاف رونما ہوا تو آپؓ کسی تردد کے بغیر قافلۂ علیؓ میں شریک ہو گئے۔ جب جناب علیؓ شہید کر دیے گئے اور خلافت کا سارا معاملہ حضرت معاویہؓ کے ہاتھ میں چلا گیا تو آپؓ دل میں کوئی خیال لائے بغیر پاک دل و پاکباز انداز میں اس طرح مجاہدین کی صفوں میں جا شامل ہوئے کہ انھیں دنیا میں کسی چیز کی کوئی خواہش و تمنا نہ تھی سوائے اس کے کہ شہیدانِ جہاد میں ان کو جگہ ملے۔

وہ جونہی لشکر اسلام کو قسطنطنیہ کی طرف حرکت کرتا دیکھتے ہیں تو تلوار اٹھاتے ہیں، گھوڑے پر سوار ہوتے ہیں اور اس شہادت کی تمنا میں نکل کھڑے ہوتے ہیں جس کا مدتِ مدید سے انھیں شوق تھا۔ اس معرکہ میں انھیں کاری زخم آئے۔ حضرت معاویہؓ کا بیٹا یزید لشکر کا کمانڈر تھا، وہ عیادت کے لیے آیا تو اس وقت آپؓکے سانس اللہ سے ملاقات کی تیاری میں تھے۔

یزید نے پوچھا:’’جناب ابو ایوبؓ ! آپ کی کوئی ضرورت؟‘‘ قارئین کرام جناب ابو ایوبؓ نے اس موقع پر اپنی جو ضرورت بیان کی، ذرا غور کیجیے کہ کیا ہم میں سے کوئی اس ضرورت کو اپنے تخیل و تصور میں لا سکتا ہے؟ ہرگز نہیں، ہم میں سے کوئی اس بلند خیالی اور دور اندیشی تک ہرگز نہیں پہنچ سکتا۔ کیونکہ ان کی اس وقت کی ضرورت جبکہ ان کی روح پرواز کر رہی تھی، ایک ایسی شے تھی جو بنی نوعِ انسان کے تصور و تخیل کو عاجز کر کے رکھ دے!

 جان کنی کے لمحات میں جناب ابو ایوب انصاریؓ نے یزید سے مطالبہ کیا کہ جب میں موت کی آغوش میں چلا جاؤں تو میری میت کو میرے گھوڑے پر لاد لیا جائے پھر اس گھوڑے کو دشمن کی زمین میں جس قدر ممکن ہو سکے طویل ترین مسافت تک دوڑایا جائے اور وہاں لے جا کر دفن کیا جائے پھر کمانڈر اپنا لشکر لے کر اس راہ پر چلتا ہوا دشمن پر لشکر کشی کرے یہاں تک کہ مسلمان لشکر کے گھوڑوں کے قدموں کی چاپ مجھے میری قبر میں سنائی دے! اس وقت کمانڈر سمجھ لے کہ مسلمانوں نے اس فوز و نصرت کو پا لیا ہے جس کی تلاش میں وہ نکلے تھے! قارئین کرام! کیا آپ اسے شاعرانہ تصور سمجھتے ہیں ؟

نہیں۔۔۔نہیں ! یہ محض خیال اور تصور نہیں ہے بلکہ دنیا پر رونما ہونے والا ایک حقیقی واقعہ ہے جس کا دنیا نے مشاہدہ کیا اور اپنی نگاہیں اور سماعتیں اسی واقعہ پر مرکوز کر رکھی تھیں کہ انھیں اس بات پر یقین نہیں آ رہا تھا جو ان کی آنکھیں دیکھ اور کان سن رہے تھے! یزید بن معاویہ نے حضرت ابو ایوب انصاریؓ کی وصیت پر عمل کیا اور قسطنطنیہ جسے آج کی دنیا ’’استنبول‘‘ کے نام سے جانتی ہے، اس کے قلب میں اس عظیم آدمی کی میت کو دفن کیا! جب اسلام نے اس بقعۂ زمین کو اپنی روشنی سے منور نہیں کیا تھا تب بھی روم کے اہل قسطنطنیہ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کو قبر کے اندر ہونے کے باوجود پاکباز تصور کرتے تھے۔

اس وقت تو آپ اور زیادہ حیران ہو جائیں گے جب ان واقعات کو قلمبند کرنے والے مؤرخین کو یہ کہتے ہوئے سنیں گے کہ ’’اہل روم حضرت ابو ایوب انصاریؓ کی قبر کو بڑی اہمیت دیتے تھے، قبر کی زیارت کے لیے جاتے اور جب قحط سے دوچار ہوتے تو اس کے ذریعے بارش کی دعا کرتے!‘‘

٭٭

حضرت ابو ایوب انصاریؓ کی زندگی نے انھیں معرکوں میں مشغول رکھا اور تلوار کندھے سے اتار کر ذرا آرام کرنے کی مہلت نہ دی۔ معرکہ آرائی کی اس بھرپور زندگی کے علاوہ ان کی بقیہ زندگی نسیم فجر کی مانند نہایت پرسکون اور رواں دواں تھی۔ اس لیے کہ انھوں نے رسول اللہﷺ سے ایک حدیث مبارک سماعت کی پھر اس کو ازبر کر لیا کہ:

اذا صلیت فصل صلاۃ مودع

ولا تکلمن بکلام تعتذر منہ

والزم الیاس مما فی ایدی الناس

’’جب تم نماز پڑھو تو دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے آدمی کی مانند نماز پڑھو اور کوئی ایسی بات مت کہو جس پر بعد میں معذرت کرنا پڑے جو کچھ لوگوں کے ہاتھوں میں ہے، اس سے مکمل طور پر مایوس رہو!‘‘

شاید یہی وجہ تھی کہ انھوں نے اپنی زبان کو کسی فتنہ میں ملوث اور اپنے دل کو کسی حرص و آزد کی طرف مائل نہ ہونے دیا۔ زندگی عابدوں کے سے شوق اور قریب المرگ لوگوں کی سی بے نیازی میں بسر کی اور جب ان کی موت آئی تو دنیا کے طول و عرض میں اس کے سوا کوئی خواہش نہ تھی کہ میری میت کو روم کی بعید ترین سرزمین پر لے جانا اور وہاں دفن کرنا! آج آپؓ وہیں آرام فرما ہیں اور فضا میں مسجدوں کے بلند میناروں سے اذان کی بہار آفریں آوازیں سنتے ہیں کہ: ’’اللہ بہت ہی بڑا ہے۔‘‘ ’’اللہ بہت ہی بڑا ہے۔‘‘ آپ کی روح یہ حسین کلمات سن کر اپنے جنتی گھر اور بلند و بالا محل میں یہ جواب دیتی ہو گی: ھذا ما وعدنا اللہ وہ رسولہ ’’یہ ہے وہ چیز جس کا اللہ اور اس کے رسولﷺ نے ہم سے وعدہ فرمایا تھا۔‘‘

٭٭٭

ماخذ:

http://urdudigest.pk/2013/01/hazrat-abu-ayub#sthash.ZyKK5OuD.dpuf


اپنی ہی طرز کا آدمی حضرت عمیر بن سعدؓ

خالد محمد خالد

حضرت عمیر بن سعدؓ خوبیوں میں حضرت سعید بن عامرؓ کے جڑواں ہیں۔

مسلمانوں نے انھیں ’’ اپنی ہی طرز کا آدمی ‘‘کا لقب دے رکھا تھا۔

قارئین کرام! آپ کے لیے تو یہی کافی ہے کہ آپ ایک ایسے شخص کا تذکرہ پڑھ رہے ہیں جس کو صحابہ نے اپنے فضل و فہم اور نورو فراست کے باوجود ’’اپنی طرز کا آدمی‘‘ کا لقب دے رکھا تھا۔ ان کے والد حضرت سعد القادریؓ رسول اللہﷺ کے ساتھ غزوۂ بدر اور بعد کے غزوات میں شریک رہے اور اس دوران اپنے عہد کو وفا کرتے رہے یہاں تک کہ جنگ قادسیہ میں جام شہادت سے شادکام ہوئے۔

حضرت سعدؓ اپنے بیٹے کو ساتھ لے کر رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپﷺ کے ہاتھ پر بیعت کر کے مسلمان ہو گئے۔ باپ کے ساتھ عمیرؓ بھی مسلمان ہو گئے۔ حضرت عمیرؓ اسلام قبول کرنے کے بعد بارگاہِ ربّ میں ایک عبادت گزار کی حیثیت سے مشغولِ عمل ہو گئے۔

وہ روشنیوں سے بھاگتے اور چھاؤں کی طرف لپکتے۔ بعید ہے کہ نماز یا جہاد کے علاوہ کہیں انھوں نے پہلی صفوں میں داخل ہونے کی کوشش کی ہو۔ نماز میں وہ اس لیے صف اوّل میں جاتے

کہ وہاں جگہ حاصل کر کے پہلے آنے والوں جیسا ثواب حاصل کریں اور جہاد میں اس لیے پہل کرتے کہ شہادت کی تمنا بر آئے گی۔

اگر ان دونوں مواقع کے علاوہ کوئی تیسرا موقع ہوتا تو وہ اپنے ٹھکانے پر بیٹھے اپنے اعمالِ صالحہ میں مشغول رہتے۔ وہ ایسے فرمانبردار تھے کہ اپنے گناہوں پر رویا کرتے تھے اور ایسے گوشہ نشین تھے کہ اپنی توبہ کی فکر میں ہی مگن رہتے تھے۔ ان کا سفر اللہ کی طرف ہوتا تھا اور وہ ہر مقام پر اللہ کی طرف مائل رہتے تھے۔

٭٭

انھوں نے اپنے احباب و رفقاء کے دلوں میں اس قدر گھر کر لیا تھا کہ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور دلوں کا سرور بن گئے تھے۔ یہ ان کے ایمان کی قوت، دل کی صفائی، مزاج کی نرمی، صفات کی خوشبو اور شخصیت کی چمک تھی کہ جو بھی ان کے پاس بیٹھتا یا انھیں دیکھتا تو فرحت و انبساط سے جھوم اٹھتا۔

آپؓ دین پر کسی انسان کو کوئی اہمیت دیتے تھے نہ کسی چیز کو اس سے اہم سمجھتے تھے۔’’حضرت جُلَّاس بن سوَید بن صامت‘‘ ان کے قریبی عزیز تھے، غزوۂ تبوک کے موقع پر سفر کی تیاریاں ہو رہی تھیں، لیکن حضرت جُلَّاس ان میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہے تھے۔ حضرت عمیرؓ نے ان سے دوسرے لوگوں کی تیاریوں کا ذکر کر کے انھیں بھی تیاری کرنے کے لیے کہا تو انھوں نے ایک ایسا کلمہ کہہ دیا جو ایک مسلمان کو دائرہ اسلام سے خارج کر دینے والا تھا۔ انھوں نے کہا:

’’اگر یہ آدمی سچا ہے تو پھر ہم گدھوں سے بھی بدتر ہیں !‘‘

’’اس آدمی‘‘ سے جُلَّاس کی مراد رسول اللہﷺ تھے۔ اور جُلَّاس ان لوگوں میں سے تھے جو خوف کے مارے اسلام میں داخل ہو گئے تھے۔

حضرت عمیرؓ بن سعدؓ نے ان کے یہ الفاظ سنے تو آپؓ کے پُرسکون دل میں غضب و حیرت کا طوفان برپا ہو گیا۔

غضب…اس لیے کہ ایک شخص جو اپنے آپ کو مسلمان سمجھتا ہے وہ رسولﷺکے بارے میں اس سطحی لہجے میں بات کرے!

حیرت…اس لیے کہ آپؓ  کا ذہن فوراً اس ذمہ داری اور جواب دہی کی طرف منتقل ہو گیا جو یہ الفاظ سننے کے بعد آپؓ کے اوپر عائد ہو رہی تھی کہ کیا وہ ان الفاظ کو رسول اللہﷺ تک پہنچا دیں ؟

اور پہنچائیں تو کس طرح؟ مجلس کی باتیں تو راز اور امانت ہوتی ہیں !

تو پھر انھیں کیا کرنا چاہیے؟

یہی کہ جو کچھ سنا تھا اس پر خاموش ہو جائیں اور اسے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لیں !

لیکن یہ کیسے ہوسکتا تھا؟

اگر وہ ایسا کرتے تو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کیے گئے اسعہد وفا کا کیا بنتا جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ان کو گمراہی سے نکال کر ہدایت سے سرفراز کیا اور اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف مائل کیا!

ان کی یہ حیرانی زیادہ دیر قائم نہ رہی۔ ان کے اس دل نے ان کی رہنمائی کی جو مشکلات میں ہمیشہ اپنے مالک کے لیے راہیں نکالا کرتا تھا۔ حضرت عمیرؓ فوراً ایک طاقت ور مرد اور متقی مومن کی حیثیت سے پلٹے اور حضرت جُلَّاس بن سوید کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگے:

’’اے جُلّاس! اللہ کی قسم! تم مجھے لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب اور عزیز ہو! تمھارے میرے اوپر سب سے زیادہ احسانات ہیں، میرے لیے یہ بڑا ناگوار ہے کہ تجھے کوئی تکلیف پہنچے! لیکن تو ایسی بات کر گیا ہے کہ اگر میں اس کو پھیلاتا ہوں تو تجھے تکلیف ہو گی اور اگر چھپاتا ہوں تو میرا دین مجھے ہلاکت کی نوید سناتا ہے۔ اور میرے نزدیک دین کا حق سب سے فائق ہے کہ اس کو ادا کیا جائے۔ لہٰذا میں یہ بات رسول اللہﷺ کو پہنچانے جا رہا ہوں !‘‘

اس طرح حضرت عمیرؓ نے سب سے پہلے مجلس کی امانت کا حق ادا کیا اور اپنے عظیم نفس کو چغل خور سامع کے ناپسندیدہ کردار سے اوپر اٹھا لیا۔ اس کے بعد دین کا حق بھی ادا کر دیا کہ مشکوک نفاق سے پردہ اٹھا دیا اور حضرت جُلَّاس کو اپنی غلطی پر اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرنے اور اس پر رجوع کرنے کا موقع فراہم کر دیا۔

اب اگر حضرت عمیرؓ اس بات کی خبر رسول اللہﷺ کو دے دیتے تو ان کے ضمیر کو یہ اطمینان تھا کہ وہ کسی چغل خوری کا ارتکاب نہیں کر رہے اور نہ مجلس کے کسی راز کو افشا کر رہے ہیں۔ لیکن جُلَّاس اپنے گناہ پر اَڑے رہے اور اپنے کیے پر افسوس و معذرت کا ایک لفظ تک نہ کہا۔لہٰذا حضرت عمیرؓ یہ کہتے ہوئے وہاں سے چلے گئے: ’’قبل اس کے کہ وحی نازل ہو اور مجھے بھی تمھارے گناہ میں شریک کر دے، میں رسول اللہﷺ تک یہ خبر پہنچا کر رہوں گا۔‘‘

رسول اللہﷺ نے حضرت جُلَّاس کو بلانے کے لیے آدمی بھیجا۔ جُلَّاس سے پوچھا گیا تو انھوں نے انکار کر دیا کہ انھوں نے یہ بات کہی ہے بلکہ قسم کھا گئے، حالانکہ وہ جھوٹ بول رہے تھے۔

اس پر قرآن کی آیت نازل ہو گئی اور حق و باطل کے درمیان فرق کر کے رکھ دیا گیا:

’’یہ اللہ کی قسمیں کھاتے ہیں کہ ہم نے یہ بات نہیں کہی حالانکہ وہ کفر کی بات کہہ چکے ہیں اور اسلام لانے کے بعد پھر وہ کافر بن گئے اور ایسی بات چاہی جس کو نہ کرسکے اور یہ لوگ اس لیے بگڑے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ نے اپنی مہربانی سے ان کو مال دار بنا دیا۔ اگر یہ لوگ توبہ کر لیں تو ان کے حق میں بہتر ہو گا اور اگر نہ مانیں تو اللہ تعالیٰ ان کو دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب دے گا اور زمین پر اُن کا کوئی حمایتی اور مددگار نہ ہو گا۔‘‘

حضرت جُلَّاس نے جب دیکھا کہ جو آیت کریمہ ان کا مواخذہ کر رہی ہے وہ یہ خوشخبری بھی دے رہی ہے کہ اگر وہ توبہ کر لیں اور اپنی غلطی پر رجوع کر لیں تو اللہ کی رحمت کے وہ مستحق بن سکتے ہیں۔ لہٰذا حضرت جُلَّاسؓ مجبور ہو گئے کہ اپنی کہی ہوئی بات کا اعتراف کریں اور اپنی غلطی پر معذرت کریں۔

حضرت عمیرؓ کا یہ اقدام حضرت جُلَّاسؓکے لیے خیر و برکت کا باعث بن گیا اور وہ تائب ہو گئے انھوں نے اپنے اسلام میں موجود کمی کو بھی دور کر لیا۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمیرؓ کا کان پکڑا اور انھیں شاباش دی کہ:

’’اے بچے! تیرے کانوں نے وفاداری کا حق ادا کیا اور تیرے رب نے تیری بات کی تصدیق فرمائی۔‘‘

حضرات! آپ جانتے ہیں امیر المومنین حضرت عمرؓ بن خطاب علاقوں شہروں کے امرا و والیان کو منتخب کرتے تھے تو گویا وہ ان کی قدر و قیمت کا انتخاب کرتے تھے۔ آپؓ زہد و ورع سے متصف اور راست باز و امانت دار لوگوں میں سے ذمہ دار مقرر کرتے تھے…ایسے لوگ جو عہدوں اور منصبوں سے دور بھاگتے تھے، ان کو قبول نہ کرتے تھے مگر اس وقت جب امیر المومنین ان کے نہ چاہنے کے باوجود ان پر ذمہ داری ڈال دیتے تو انھیں چار و ناچار یہ ذمہ داری اٹھانا پڑتی!

حضرت عمرؓ اپنی دور اندیش بصیرت اور وسیع و عمیق باخبری کے باوجود طویل غور و خوض اور تفکر و تامل سے کام لیتے اور امرا و معاونین حکومت کے انتخاب میں گہری چھان بین کرتے تھے۔ وہ اپنے یہ مشہور الفاظ کسی بھی موقع پر دہرانا نہ بھولتے تھے کہ:

’’میں ایسا آدمی منتخب کرنا چاہتا ہوں کہ جب وہ اپنی قوم کے درمیان ہو اور ان کا امیر نہ ہو لیکن لگتا امیر ہو….اور جب وہ ان کے درمیان ہو اور ان کا امیر بھی ہو لیکن امیر دکھائی نہ دے بلکہ ان میں سے ایک عام آدمی دکھائی دے۔‘‘

میں ایسا گورنر چاہتا ہوں جو اپنے آپ کو لباس میں، نہ کھانے میں اور نہ رہائش میں لوگوں سے ممتاز سمجھے۔

وہ ان کے درمیان نماز قائم کرائے، ان کے حق انھیں دلائے، عدل کے ساتھ ان کے درمیان فیصلے کرے اور ان کی ضرورتیں پوری کرنے سے اپنا دروازہ بند نہ کرے۔‘‘

اس سخت اور کڑے معیار کی روشنی میں ایک روز حضرت عمرؓ نے حضرت عمیرؓ کو حمص کا گورنر مقرر کر دیا۔ حضرت عمیرؓ نے کوشش کی کہ وہ اس ذمہ داری سے خلاصی پالیں اور جان چھڑا لیں مگر امیر المومنین عمرؓ فاروق نے اِسے ان پر عائد اور فرض کر دیا۔

جناب عمیرؓ نے اللہ تعالیٰ سے استخارہ کیا اور اپنی ذمہ داری پر چلے گئے۔ حمص میں منصب امارت کی انجام دہی میں انھیں ایک سال گزر گیا مگر مدینہ میں دارالحکومت کو ان سے کوئی ٹیکس موصول نہ ہوا بلکہ امیرالمومنین کو کوئی خط بھی موصول نہ ہوا۔

حضرت عمرؓ نے کاتب کو بلایا اور فرمایا: ’’عمیرؓ  کو خط لکھو کہ وہ ہمارے پاس آئے۔‘‘

قارئین کرام! اجازت چاہوں گا کہ عمرؓ و عمیرؓ کے درمیان ہونے والی اس ملاقات کا تفصیلی تذکرہ کروں! سنیے:

’’ایک روز مدینے کی شاہراہوں نے گردو غبار سے اٹے ہوئے ایک شخص کا مشاہدہ کیا، سفر کی ماندگی نے اسے ڈھانپ رکھا تھا۔ طویل سفر سے پہنچنے والی تھکاوٹ اور تکلیف کے باعث اس کے قدم بمشکل زمین سے اٹھ رہے تھے۔ اس کے دائیں کندھے پر ایک تھیلا اور ایک پیالہ تھا اور بائیں کندھے پر ایک چھوٹا سا مشکیزہ جس میں پانی تھا۔ یہ ہلکا سازادِ سفر اس کے اوپر کیا بوجھ ڈال سکتا تھا۔ لیکن صعوبتِ سفر کے باعث یہ شخص بوجھل قدموں کے ساتھ بار گاہِ خلافت میں پہنچا۔

امیر المو منین!السلام علیکم!

خلیفۃ المسلمین عمر فاروقؓ  سلام کا جواب دیتے ہیں۔ مسافر کی پراگندہ حالت اور تھکاوٹ کو دیکھ کر تکلیف محسوس کرتے ہیں۔ پھر پوچھتے ہیں : عمیرؓ!یہ تمھاری کیا حالت بنی ہوئی ہے؟

حضرت عمیرؓکہتے ہیں : میری حالت یہی ہے جو آپ دیکھ رہے ہیں ! کیا آپ مجھے صحت مند جسم اور تازہ دم نہیں دیکھ رہے کہ میں اپنی دنیا کو دونوں سینگوں سے پکڑ کر کھینچے چلا آ رہا ہوں ؟

حضرت عمر فاروقؓ  پوچھتے ہیں : تمھارے پاس کیا ہے؟

حضرت عمیرؓ جواب دیتے ہیں : میرے پاس میرا تھیلا ہے اس کے اندر میں اپنا سامانِ دنیا رکھتا ہوں اور لاٹھی ہے جس پر ٹیک لگاتا ہوں اور اگر دشمن آڑے آ جائے تو اس سے بھی اسی کے ذریعے نپٹ لیتا ہوں۔ اللہ کی قسم! دنیا میرے اس سامان کے سامنے ہیچ ہے۔‘‘

جناب عمر فاروقؓ  پوچھتے ہیں : کیا تم پیدل آئے ہو؟

حضرت عمیرؓ: ہاں پیدل آیا ہوں۔

حضرت عمرؓ: کیا تمھیں کوئی نہیں ملا جو سواری دیتا اور تم اس کے اوپر سوار ہو کر آ جاتے؟

حضرت عمیرؓ: لوگوں نے اس کا اہتمام نہ کیا اور میں نے ان سے سوال نہ کیا!

حضرت عمرؓ: ہم نے تمھارے ذمے جو کچھ لگایا تھا اس سلسلے میں تم نے کیا کام کیا ہے؟

حضرت عمیرؓ: میں اس علاقے میں گیا جہاں آپ نے مجھے ذمہ دار بنا کر بھیجا تھا۔ میں نے وہاں کے نیک لوگوں کو اکٹھا کیا اور ان کو ان کے فے اور مال کے ٹیکس کا ذمہ دار بنا دیا۔ وہ یہ چیزیں جمع کر کے آئے تو میں نے اس مال و دولت کو اس کی جگہ رکھ دیا۔ اگر اس میں سے کوئی چیز بچ گئی تو میں آپ کے پاس لے آؤں گا!

حضرت عمرؓ: تو پھر تم ہمارے پاس کوئی چیز نہیں لائے؟

حضرت عمیرؓ : نہیں !

حضرت عمرؓ خوشی سے جھوم اٹھے اور پکار کر کہا: ـ’’عمیرؓ کی ذمہ داری کی آئندہ عرصہ کے لیے تجدید کر دو۔‘‘

حضرت عمیرؓ نے بڑی شانِ بے نیازی میں کہا: یہ تو دن ہیں جو گزر گئے۔ میں نے یہ کام آپ کے لیے کیا ہے نہ آپ کے بعد کسی اور کے لیے!‘‘

قارئین کرام! یہ تصویر کوئی مصنوعی منظر نہیں جس کو ہم نے اپنے الفاظ سے رنگین بنادیا ہو اور نہ کوئی ایسا مکالمہ ہے جس کو ہم نے از خود گھڑ لیا ہو۔ بلکہ یہ ایک تاریخی واقعہ ہے جو ایک روز اسلام کے دارالحکومت سرزمین مدینہ میں مشاہدہ کیا گیا جب اسلام تاریخ کے صفحات پر عظیم اور دائمی نقوش رقم کررہا تھا۔

اللہ اکبر …یہ عظیم الشان اور فقید المثال انسان کس طرز کے لوگ تھے!

حضرت عمرؓ  تمنا کیا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے: ’’کاش مجھے عمیرؓ جیسے افراد مل جائیں اور میں مسلمانوں کے امور حکومت میں ان سے مدد لوں۔‘‘

٭٭

یہ ہیں حضرت عمیرؓ۔۔۔جن کے ساتھیوں نے انھیں ’’اپنی ہی طرز کا آدمی‘‘ کا لقب دے رکھا تھا جو سچ اور حق ہی تھا۔ حضرت عمیرؓ ان انسانی کمزوریوں سے مبرا تھے جن کے پیدا ہونے کا سبب ہمارا مادی وجود اور پُر خار زندگی ہوتی ہے۔ جس روز سلطنتِ اسلام کے دار الحکومت سے احکامات جاری ہوئے کہ عمیرؓ گورنری و حکمرانی کا تجربہ کریں تو اس عظیم درویش کی کسی چیز میں اضافہ ہوا تو وہ ان کا زہد و ورع تھا جو مزید چمک اور نکھر گیا۔

جب وہ حمص کے امیر تھے تو انھوں نے ایک مسلمان حکمران کی ذمہ داریوں کا خاکہ اپنے ان الفاظ میں بیان کیا جو وہ اکثر مسلمانوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے برسرِ منبر کہا کرتے تھے۔

ذرا ملاحظہ فرمائیے:

’’خبردار…اسلام کی حفاظتی دیوار ناقابل شکست ہے اور اس کا دروازہ بڑا مضبوط ہے۔ عدل اسلام کی دیوار اور حق اس کا دروازہ ہے۔ جب دیوار ڈھے جائے گی اور دروازہ ٹوٹ جائے گا تو اسلام مفتوح ہو جائے گا۔ اور اسلام اس وقت تک ناقابل فتح رہے گا جب تک حکمران مضبوط رہے گا۔ اور حکمران کی مضبوطی تلوار چلا کر لوگوں کو قتل کرنے اور کوڑے لگا کر اُن کو سزا دینے سے قائم نہیں ہوتی یہ کام لوگوں کے حق ادا کرنے اور عدل کے ساتھ مواخذہ کرنے سے ہو گا!!‘‘

دنیا کے بہترین معلم، تقویٰ شعاروں کے امام، انسانیت کو زندگی کی سختیوں سے نکال کر اللہ کی رحمت کی طرف لانے والے رہنما و مرشد حضرت محمد صلوۃٰ اللہ علیہ و سلامہ کے اوپر اللہ کی تحیات اور برکات ہوں۔

سلام ہو اس عظیم انسان کے آلِ اَطہار پر!

سلام ہو اس کے اصحابِ اَبرار پر! جس کی تربیت و تعلیم نے ایسے کردار پیدا کیے جو رہتی دنیا تک انسانیت کی رہنمائی کرتے رہیں گے اور اسے حق و صداقت کا درس دیتے رہیں گے!

٭٭٭

ماخذ:

http://urdudigest.pk/2013/08/apne-hee-tarz-ka-admee-hazrat-tameer-bin-sayeed#sthash.3YmnVpol.dpuf

 

حضرت خالد بن ولیدؓ

خالد محمد خالد

ان کا معاملہ بھی عجیب ہے! اُحد کے روز مسلمانوں کو گھاؤ لگایا اور باقی زندگی اَعدائے اسلام کو ناکوں چنے چبوائے۔

آئیے ان کی داستانِ حیات ابتدا سے سنیں !

مگر کون سی ابتدا؟۔۔۔وہ تو خود اس روز کے علاوہ کسی روز کو اپنی زندگی کا آغاز نہیں سمجھتے جس روز انھوں نے رسول اللہﷺ سے بیعت کرتے ہوئے آپؐ کے دست مبارک سے مصافحہ کیا تھا۔ اگر ان کے بس میں ہوتا تو وہ اس ساری عمر اور زندگی کو خود سے دور کر دیتے جو اس روز سے قبل مہینوں اور برسوں کی صورت میں گزر چکی تھی۔

ہم بھی ان کی کہانی وہیں سے شروع کرتے ہیں جہاں سے وہ شروع کرنا پسند کرتے ہیں یعنی وہ حسین لمحہ جس میں ان کا دل اللہ سے ڈر گیا اور ان کی روح نے رب الرحمن کے دائیں ہاتھ کا لمس محسوس کیا۔ (رحمن کے تو دونوں ہاتھ دائیں ہیں ) تو وہ روح اُس کے دین، اُس کے رسول اور راہِ حق میں تمنائے شہادت کے شوق سے کھل اٹھی۔ ایسی شہادت جو ایام ماضی کا وہ بوجھ اتار پھینکے جو باطل کی حمایت و نصرت کی صورت میں ان کے کندھوں پر پڑا ہوا تھا۔

ایک روز وہ تنہائی میں بیٹھ گئے اور اپنے سنجیدہ احساسات اور صحیح عقل و شعور کو اس دینِ جدید پر مرکوز کر دیا جس کے پرچم روز بروز بلند بھی ہو رہے تھے اور ان میں اضافہ بھی ہو رہا تھا۔ ان کے دل میں تمنا پیدا ہوئی کہ اللہ عالم الغیب ان کے لیے ہدایت کا کوئی ذریعہ پیدا کر دے۔

یعنی ان کے بیدار دل میں یقین کے احساسات جاگ اٹھیں۔ وہ خود سے ہم کلام ہوئے: ’’اللہ کی قسم راستہ درست ہے اور آدمی رسولﷺ ہے۔ لہٰذا کہاں تک اور کب تک (میں اس سے دور رہوں گا)؟ اللہ کی قسم! میں جاتا ہوں اور اسلام قبول کر لیتا ہوں !‘‘ قارئین کرام! ہم انھی کے الفاظ کی طرف کان لگاتے ہیں۔ وہ رسول اللہﷺ کے پاس جانے اور قافلۂ مومنین میں اپنا نام درج کرانے کے لیے مکہ سے مدینہ کی طرف اپنے سفرِمبارک کی روداد بیان کرتے ہیں :

’’میں نے چاہا کہ کوئی ایسا آدمی ملے جس کو ساتھ لے چلوں ! میں عثمانؓ بن طلحہ کو ملا اور اس سے اپنے ارادے کا ذکر کیا تو اس نے فوراً بات مان لی۔ ہم دونوں بوقتِ سحر نکل پڑے۔ جب ہم سہل کے مقام پر پہنچے تو وہاں ہمیں عمروؓ بن العاص ملے۔ انھوں نے کہا: آنے والوں کو خوش آمدید۔

ہم نے کہا: ’’آپ کو بھی خوش آمدید۔‘‘

انھوں نے پوچھا: ’’کہاں کا ارادہ ہے؟‘‘

ہم نے انھیں بتایا تو انھوں نے بھی ہمیں بتا دیا کہ وہ بھی نبیﷺ کی طرف جا رہے ہیں تاکہ اسلام قبول کریں۔

پھر وہ بھی ہمارے ساتھ ہو لیے۔ یہاں تک کہ ہم ۸؍ ہجری یکم صفر کو مدینہ پہنچ گئے۔ میں جب رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپﷺ کو نبی کہہ کر سلام کیا۔ آپﷺ نے بھی خندہ روئی سے سلام کا جواب دیا۔ پھر میں نے کلمۂ شہادت پڑھا اور مسلمان ہو گیا۔

رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’میں تمھارے اندر ایسی عقل دیکھ رہا ہوں کہ وہ تمھیں خیر کے سوا کسی اور چیز کے حوالے نہیں کرے گی۔‘‘

میں نے رسول اللہﷺ سے بیعت کی اور عرض کیا: راہِ حق میں رکاوٹ ڈالنے کی خاطر مجھ سے سرزد ہونے والے ہر عمل کی میرے لیے استغفار کیجیے!

آپؐ نے فرمایا: ان الاسلام یجب ما کان قبلۃ (اسلام ان تمام (گناہوں ) کو مٹا دیتا ہے جو اس سے پہلے سرزد ہوئے ہوں )۔

میں نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ پھر بھی آپﷺ میرے لیے مغفرت کی دعا کیجیے۔

پھر آپ یوں گویا ہوئے:

اللھم غفر لخالد ابن الولید کل ما اوضع فیہ من صد عن سبیلک ’’اے اللہ! خالد بن ولیدؓ کے ان تمام گناہوں کو معاف فرما دے جو اس نے تیری راہ روکنے کے لیے کیے ہیں۔‘‘

اس کے بعد عمروؓ بن العاص اور عثمانؓ بن طلحہ بھی مسلمان ہو گئے اور رسول اللہﷺ کی بیعت کر لی۔‘‘

آئیے ان ’’حضرت خالدؓ، کی معیت میں چند لمحات گزاریں جو اپنی قوت بازو کے بل بوتے پر اسلام لائے تھے۔

جنابِ خالدؓ جب مسلمان ہو جاتے ہیں تو ان کا معاملہ بھی بڑا عجیب ہو جاتا ہے۔ قارئین کرام! آپ معرکہ مؤتہ کے مردِ میدان تین شہدا جناب زید بن حارثہؓ، جناب جعفرؓ بن ابی طالب اور جناب عبد اللہؓ بن رواحہؓ ہیں۔مؤتہ وہ غزوہ ہے جس کے لیے روم نے دو لاکھ فوج جمع کی تھی اور جس کے مقابلے میں مسلمانوں نے بے مثال دادِ شجاعت دی تھی۔

آپ کو وہ غم انگیز الفاظ بھی یاد ہوں گے جو رسول اللہﷺ نے تینوں قائدینِ معرکہ کے شہادت کی خبر دیتے ہوئے فرمائے تھے کہ: اخذ الرایۃ ’’زید بن حارثۃ‘‘ فقاتل بھا حتیٰ قتل شھیدا…’’ثم اخذھا ’’جعفر‘‘ فقاتل بھا، حتیٰ قتل شھیدا۔۔۔ثم اخذھا ’’عبداللہ بن رواحۃ‘‘ فقاتل بھا، حتیٰ قتل شھیدا ’’زید بن حارثہ نے پرچم پکڑا اور وہ لڑتے رہے حتیٰ کہ وہ قتل ہو کر شہید ہو گئے۔ پھر پرچم جعفرؓ نے پکڑا اور وہ بھی لڑتے رہے حتیٰ کہ قتل ہو کر شہید ہو گئے۔ پھر پرچم عبداللہ بن رواحہؓ نے تھاما اور لڑتے رہے حتیٰ کہ قتل ہو کر شہادت پا گئے۔‘‘

اس حدیثِ رسولﷺ کا کچھ حصہ باقی ہے۔آپ نے مزید فرمایا:

ثم اخذ الرایۃ سیف من سیوف اللہ ففتح اللہ علیٰ یدیہ ’’پھر پرچم اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار نے تھاما اور اللہ نے اس کے ہاتھوں فتح عطا فرما دی۔‘‘

یہ سیف من سیوف اللہ کون تھا؟

یہ حضرت خالدؓ بن ولیدؓ تھے جو ایک عام سپاہی کی حیثیت سے تین کمانڈروں حضرت زیدؓ، حضرت جعفرؓ اور حضرت عبد اللہؓ کی قیادت میں غزوۂ  مؤتہ میں شرکت کے لیے گئے تھے۔ یہ تینوں کمانڈر اسی ترتیب سے اس خوفناک جنگ میں شہادت سے سرفراز ہوئے۔

آخری کمانڈر کے شہید ہو کر زمین پر گرنے کے بعد حضرت ثابت بن اقرمؓ جلدی سے جھنڈے کی طرف بڑھے اور اسے داہنے ہاتھ میں تھام کر لشکرِاسلام کے وسط میں بلند کر دیا تاکہ مسلمانوں کی صفوں میں کوئی بد دلی نہ پیدا ہونے پائے۔

حضرت ثابتؓ نے جھنڈے کو تھامتے ہی یہ کہتے ہوئے فوراً اسے حضرت خالد بن ولیدؓ کی طرف بڑھا دیا کہ: ’’اے ابو سلیمان! پرچم پکڑ لیجیے!‘‘

حضرت خالدؓ جھنڈے کو اٹھانا اپنا حق نہیں سمجھتے تھے کیونکہ آپ نئے نئے مسلمان ہوئے تھے اور نہیں چاہتے تھے کہ آپ اس وقت مسلمانوں کی قیادت کریں جب وہ انصار و مہاجرین ان کے درمیان ابھی موجود ہوں جنھوں نے اسلام لانے میں سبقت حاصل کی تھی۔

ادب، انکسار، علم اور اخلاقی خوبیاں ! یہ انھی کے لائق تھیں اور وہ ان کے اہل تھے۔ اس وقت انھوں نے حضرت ثابت بن اقرمؓ کو جواب دیتے ہوئے فرمایا:

’’نہیں۔۔۔میں پرچم نہیں تھام سکتا۔ آپ اس کے زیادہ حق دار ہیں۔ آپ عمر میں بھی بڑے ہیں اور غزوۂ بدر میں بھی شریک ہو چکے ہیں۔‘‘

حضرت ثابتؓ نے اِن کو جواب دیا: اسے آپ پکڑیں، آپ مجھ سے زیادہ جنگ کے ماہر ہیں اور اللہ کی قسم! میں نے یہ آپ کو پکڑانے کے لیے پکڑا تھا۔

پھر حضرت ثابتؓ نے مسلمانوں میں بآواز بلند کہا: ’’کیا تمھیں خالدؓ کی امارت منظور ہے؟

لوگوں نے کہا: ہاں منظور ہے!

جناب خالدؓ اس وقت لشکر کی کمان سنبھالتے ہیں جب لڑائی اپنے انجام کے قریب پہنچ رہی ہے اور مسلمانوں کی شہادتیں بہت ہو چکی ہیں، ان کے بازو کٹ چکے ہیں، لشکر روم اپنی بے حساب کثرت کے بل بوتے پر تباہی بھی پھیلا رہا ہے اور مسلسل کامیابی بھی حاصل کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ اب کوئی جنگی چال یا داؤ پیچ ایسا نہیں تھا جو معرکہ کے انجام کی سمت کو تبدیل کر سکے اور مغلوب کو غالب اور غالب کو مغلوب کر دے۔

جو واحد عمل کسی عبقری کا انتظار کر رہا تھا کہ وہ مجھے آزمائے وہ یہ تھا کہ لشکرِ اسلام میں جانی نقصان کو مزید بڑھنے سے روکا جائے اور بقیہ قوت کو بچا کر یہاں سے نکالا جائے۔ یعنی محتاط پسپائی اختیار کی جائے جو بقیہ قوت کو ارضِ معرکہ میں تباہ ہو جانے سے بچا سکے۔ لیکن ان حالات میں اس طرح کی پسپائی کسی بھی جگہ ناممکن ہوتی ہے۔ مگر جب یہ بات صحیح ہے کہ یہ کام کسی بہادر دل کے لیے ذرا مشکل و ناممکن نہیں تو ہم کہیں گے کہ حضرت خالدؓ سے بڑا بہادر دل کون ہو سکتا ہے۔

سیف اللہ آگے بڑھتے ہیں۔ پورے میدانِ جنگ پر عقاب جیسی نگاہ ڈالتے ہیں اور روشنی جیسی تیزی سے فوراً منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ جنگ جاری ہے اور اسی دوران لشکر کو کئی ٹولیوں میں تقسیم کر دیتے ہیں۔ پھر ہر ٹولی کو اس کی مہم اور ذمہ داری سونپتے ہیں اور مشکل میں ڈال دینے والے اپنے فن اور گہری چالاکی کو استعمال میں لاتے ہیں۔ یہاں تک کہ لشکرِ روم کی صفوں میں بہت بڑا شگاف ڈال دیتے ہیں جس کے درمیان سے مسلمان لشکر بسلامت گزر جاتا ہے۔

حضرت خالدؓ اسلام لائے تو اس دین کے لیے اپنی عظیم خدمات رسول اللہﷺ کی خدمت اَقدس میں پیش کر دیتے ہیں جس دین پر وہ پورے یقین کے ساتھ ایمان لائے تھے اور پوری ندگی اس کی نذر کر دی۔ رسول اللہﷺ کے رفیق اعلیٰ سے وصال کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ خلافت کی ذمہ داری سنبھالتے ہیں تو اِرتداد کی غدّارانہ و مکارانہ آندھیاں چل پڑتی ہیں۔

ان طوفانوں نے کانوں کو بہرا کر ڈالنے والی خوفناک چنگھاڑ اور مسلسل تحریک کے ذریعے دین اسلام کا گھیراؤ کرنے کی ٹھانی ہے۔ حضرت ابوبکرؓ اس اولین بغاوت کی سرکوبی کے لیے مردِ عصر و مردِ دہر حضرت خالد بن ولیدؓ پر نظر ڈالتے ہیں ! یہ بات صحیح ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے اِرتداد کے خلاف معرکے کا آغاز اس لشکرِاسلام کے ذریعے کیا تھا جس کی قیادت خود فرمائی تھی لیکن یہ بات بھی غلط نہیں ہے کہ انھوں نے فیصلہ کن دن کے لیے حضرت خالد بن ولیدؓ کو سنبھال رکھا تھا اور پھر حضرت خالد بن ولیدؓ ہی اِرتداد کے خلاف ان تمام معرکوں میں بے مثل و عظیم مردِ میدان رہے۔

جب مرتدین کے لشکروں نے اپنی بڑی بڑی سازشوں کو عملی رنگ دینے کی تیاری شروع کر دی تو خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ نے بھی عزم صمیم کر لیا کہ آپؓ خود لشکر اسلام کی قیادت کریں گے۔ بڑے بڑے صحابہ جو کسی قدر مایوسی میں آ گئے تھے وہ خلیفہ کو اس عزم سے روک رہے تھے، لیکن خلیفہ کا عزم بتدریج پختہ ہوتا گیا۔

شاید اس طرح وہ اس مسئلہ کو جس میں کودنے کے لیے لوگوں کو دعوت دے رہے تھے، ایسی اہمیت دینا چاہتے تھے جو اس خوفناک معرکے میں بنفس نفیس شرکت کے بغیر نہیں دی جا سکتی تھی جو معرکہ ابھی ایمان و اسلام اور ارتداد و ضلال کی قوتوں کے مابین برپا ہونے والا تھا۔

باوجود اس کے کہ یہ تمرد عارضی تھا تاہم مرتدین کی یہ حرکات بہت بڑا خطرہ تھیں۔ اس مہم میں اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات رکھنے اور پس و پیش کرنے والے عناصر کو اپنے بغضِ قلب کی آتش کو ٹھنڈا کرنے کا سنہری موقع ہاتھ آیا تھا۔ اس فتنے کی آگ اسد، غطفان، عبس، طیئ، ذیبان، بنی عامر، ہوازن، سلَیم اور بنی تمیم کے قبائل کے اندر بھی بھڑک اٹھی تھی۔

یہ سازشیں سر اٹھاتے ہی ہزاروں جنگجوؤں کے لشکر جرار میں تبدیل ہو گئیں۔ اس خوفناک بغاوت کو بحرین، عمان اور مہرہ کے لوگوں نے بھی قبول کر لیا تھا اور اسلام کو خطرناک صورت حال سے دوچار کر دیا تھا۔ گویا زمین نے مسلمانوں کے چہار اطراف آگ بھڑکا دی تھی۔ لیکن ادھر دوسری طرف حضرت ابوبکرؓ تھے!! حضرت ابوبکرؓ نے مسلمانوں کو جنگ کے لیے تیار کیا اور خود ان کی قیادت فرما کر اس مقام پر جا پہنچے جہاں بنی عبس، بنی مرہ اور ذبیاں ایک لشکر جرار کی صورت نکل آئے تھے۔ لڑائی چھڑ گئی اور شدت پکڑتی گئی۔۔۔بالآخر عظیم فتح مسلمانوں کے حصے میں آئی۔

کامیاب و فاتح لشکر ابھی مدینہ میں قدم ہی رکھ پایا تھا کہ خلیفہ نے اسے ایک اور معرکہ کے لیے آواز دے دی۔ چونکہ مرتدین کی خبریں اور ان کی جتھا بندی ہر لمحہ خطرناک صورت اختیار کرتی جا رہی تھی۔ اس لیے اس دوسرے لشکر کی قیادت کے لیے بھی حضرت ابوبکرؓ خود نکلے مگر کبار صحابہؓ کا پیمانۂ صبر لبریز ہو گیا اور وہ سب اس بات پر متفق و جمع ہو گئے کہ خلیفہ کو مدینہ میں ہی رہنا چاہیے۔ حضرت علیؓ حضرت ابوبکرؓ کے راستے میں جا کھڑے ہوتے ہیں اور ان کی اس سواری کی لگام پکڑ لیتے ہیں جس پر سوار ہو کر حضرت ابوبکرؓ لشکر کی قیادت کرنے جا رہے تھے۔

حضرت علی کہتے ہیں : ’’خلیفۂ رسولﷺ! کہاں جا رہے ہیں ؟

میں آپ سے وہی بات کہوں گا جو رسول اللہﷺ نے اُحد کے روز فرمائی تھی کہ

لم سیفک یا ابا بکر ولا تفتجعنا بنفسک ’’ابوبکر! ذرا اپنی تلوار کو بند رکھو اور اپنے بارے میں ہمیں صدمہ نہ پہنچاؤ!‘‘ مسلمانوں کے اس مصمم اجتماعی موقف کے پیشِ نظر خلیفۂ وقت مدینہ میں رہنے پر راضی ہو گئے اور فوج کو گیارہ گروپوں میں تقسیم کر کے ہر گروپ کے لیے اس کا کام  تعین کر دیا۔ فوج کے ان یونٹوں میں سے سب سے بڑے یونٹ کے امیر حضرت خالد بن ولیدؓ تھے۔

خلیفہ نے جب کمانڈروں کو جھنڈے تفویض کیے تو حضرت خالدؓ کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: میں نے رسول اللہؐ کو یہ فرماتے سنا کہ نعم عبداللہ و اخو العشیرۃ خالد بن ولید سیف من سیوف اللہ، سلہ اللہ علی الکفار و المنافقین ’’اللہ کا بہترین بندہ اور خاندان کا وفادار خالد بن ولید اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے، اللہ اسے کفار و منافقین پر تان رکھے۔‘‘

حضرت خالدؓ اپنے لشکر کو ایک سے دوسرے معرکے میں منتقل کرتے ہوئے اپنی راہ پر گامزن ہیں اور فتح پر فتح پا رہے ہیں یہاں تک کہ فیصلہ کن معرکے کا روز آ گیا۔ یہ یمامہ کا مقام ہے جہاں بنوحنیفہ اور ان کے ساتھ آ ملنے والے قبائل مرتدین کے لشکروں کو اکٹھا کر لائے ہیں جن کی قیادت (نبوت کا دعوے دار) مُسَیلمہ کذّاب کر رہا ہے۔

اس موقع پر کچھ مسلمان قوتوں نے بھی لشکرِ مُسَیلمہ کا ساتھ دینے کا تجربہ کیا مگر انھیں کچھ حاصل نہ ہوسکا۔

ادھر خلیفہ کا حکم فاتح سالار تک پہنچا کہ بنو حنیفہ کی طرف پیش قدمی کرو۔ حضرت خالدؓ لشکر کو لے کر چل پڑے۔ جب مسیلمہ کو علم ہوا کہ اس کی راہ میں آنے والے لشکر کی قیادت حضرت خالد بن ولیدؓ کر رہے ہیں تو اس نے اسے حقیقی اور خوفناک تصادم سمجھا۔ پھر اپنے لشکر کو ازسرنو ترتیب دینا شروع کر دیا۔

حضرت خالدؓ نے لشکر کو یمامہ کی بلند جگہ پر اتار دیا اور لشکر کے کمانڈروں کو پرچم عنایت کیے اور دونوں لشکر ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑے۔ خوفناک جنگ شروع ہو گئی۔ پھر اس میں شدت آتی گئی۔ مسلمان شہید ہو کر ایسے گر رہے تھے جیسے تند و تیز ہوا باغ کے پھولوں کو گراتی ہے!! جناب خالدؓ نے دشمن کا پلّہ بھاری ہوتا دیکھا تو فوراً گھوڑے پر سوار ہو کر قریب ہی اونچی جگہ سے وسیع و عمیق میدان جنگ پر نظر ڈالی اور اپنے لشکر کے کمزور پہلوؤں کا جائزہ لیا۔

آپؓ نے دیکھا کہ مسلمانوں میں ذمہ داری کا احساس اس تابڑ توڑ پیش قدمی کی بنا پر کمزور ہو گیا ہے جو مسیلمہ کی فوج نے ان پر کی ہے۔ لہٰذا آپؓ نے سوچا کہ تمام مسلمانوں کے دلوں میں ذمہ داری کے احساس کو پوری طرح اجاگر اور مضبوط کر دیا جائے۔

اس مقصد کے لیے آپؓ لشکر کے یونٹوں اور ٹولیوں کو بلا رہے تھے، میدان جنگ میں ہی اس کی تنظیمِ نوکر رہے تھے پھر اپنی فاتحانہ آواز میں کہا: الگ الگ ہو جاؤ۔ تاکہ ہم آج ہر قبیلے کی شجاعت کو دیکھ سکیں ! سب قبیلے الگ الگ ہو گئے۔ مہاجر ایک جھنڈے تلے آگئے اور انصار دوسرے جھنڈے کے نیچے چلے گئے۔ اور ایک باپ کی اولاد ایک جھنڈے تلے جمع ہو گئی اور دوسرے کی دوسرے جھنڈے تلے چلی گئی۔ اس طرح واضح ہو گیا کہ شکست کس جگہ سے در آ رہی تھی۔ پھر دل بہادری کی آتش سے جل اٹھے اور عزم و جذبے سے سرشار ہو گئے۔

حضرت خالدؓ لمحہ بہ لمحہ تکبیر و تہلیل کا نعرہ بلند کرتے یا گرجدار آواز میں کوئی حکم دیتے تو لشکر کی تلواریں ایسی موت ثابت ہوتیں جنھیں کوئی موڑ نہیں سکتا اور اپنے ہدف تک پہنچنے سے روک نہیں سکتا۔ چند ہی ثانیوں میں جنگ کا پانسہ پلٹ گیا اور مسیلمہ کا لشکر دس دس کر کے پھر سیکڑوں اور پھر ہزاروں کی تعداد میں تلواروں کی نذر ہونے لگا۔ اس طرح ارتداد کا انتہائی خطرناک اور شدید معرکہ انجام کو پہنچا۔ مسیلمہ قتل ہو گیا، میدان جنگ اس کے لشکر کی نعشوں سے بھر گیا اور کذّاب مدّعیِ نبوت کا جھنڈا مٹی تلے دب گیا۔

خلیفہؓ نے مدینہ میں اللہ ربُّ العِزّت کے لیے نماز شکر ادا کی کہ اس نے مسلمانوں کو اس فتح سے نوازا۔

٭٭٭

ماخذ:

http://urdudigest.pk/2013/04/hazrat-khalid-bin-waleed#sthash.gkFBIZns.dpuf

مکمل کتاب کا ماخذ:

http://urdudigest.pk/category/deen-o-danish/islami-shakhsiyat/

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید