فہرست مضامین
کچھ دینی مضامین
علامہ عبدالحق مجاہد
عید الفطر اور مسائل
قول النبی ﷺ ہے کہ قوم کے لئے عید کا دن ہوا کرتا ہے۔ شوال المکرم کی پہلی تاریخ ہمارا عید کا دن ہے اللہ تبارک و تعالیٰ جل جلالہٗ نے حضور اکرم ﷺ کی امت پر پورے ماہ رمضان المبارک کا روزہ فرض فرمایا۔ یہ ایک بہت بڑی طویل اور پر مشقت عبادت ہے۔ جسے لوگ رضائے الٰہی و خوشنودی رسول پاک ﷺ کے لئے خوشی خوشی ادا کرتے ہیں۔ اس محنت شاقہ کرنے کے عوض اللہ تبارک و تعالیٰ انہیں بہت بڑے انعام سے نوازتے ہیں۔ اور اس انعام کے نوازنے کے لئے یکم شوال المکرم کا دن مقرر کیا ہے۔
ان انعامات کے ملنے کی خوشی میں اس روز عیدالفطر منائی جاتی ہے۔ اس دن کا انتخاب کرنے میں بھی بہت بڑی مصلحت ہے۔ یہ دن ہمیشہ حضرات انبیاء کرام صلوۃ اللہ علیھم اجمعین کی عزت وسربلندی اور اللہ تعالیٰ کے نافرمانوں کی پسپائی کا دن رہا ہے۔ قوم لوط ہفتہ کے روز تباہ ہوئی اس دن یکم شوال تھا۔ اخدود والے اتوار کے روز ہلاک ہوئے اس دن بھی یکم شوال تھا۔ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم سوموار کے روز غرق آب ہوئی اس دن یکم شوال تھا۔ حضرت موسی علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے فتح مبین عطاء فرمائی اور فرعون غرق ہوا اس دن یکم شوال اور منگل کا دن تھا۔ حضرت ہود علیہ السلام کی نافرمان قوم بدھ کو تباہ ہوئی اس دن یکم شوال تھا۔ حضرت صالح علیہ السلام کی نافرمان قوم پر جمعرات کو عذاب آیا اس دن یکم شوال تھا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے تخلیق کائنات جمعہ کے روز فرمائی اس دن یکم شوال تھا۔ یہ دن اللہ تبارک و تعالیٰ کے نزدیک بڑی عزت اور عظمت والا ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے اس دن کو خوشی منانے کا حکم ارشاد فرمایا ہے اور اس روز کا روزہ سختی سے منع فرمایا ہے۔
عیدالفطر کے روز تیرہ چیزیں مسنون ہیں۔ 1۔ غسل کرنا۔ 2۔ مسواک کرنا۔ 3۔ زیب و زینت اختیار کرنا۔ 4۔ عمدہ سے عمدہ کپڑے جو میسر ہوں وہ پہننا۔5۔ خوشبو لگانا۔ 6۔ صبح سویرے اٹھنا۔ 7۔ عیدگاہ میں اولین جماعت میں شامل ہو کر پہنچنا۔ 8۔ عید کی نماز کے لئے نکلنے سے پہلے کوئی میٹھی چیز مثلاً کھجوریں چھوہارے کھانا۔ 9۔ عید کی نماز سے پہلے صدقہ فطر دینا۔ 10۔ بچوں کو عیدی دینا۔ 11۔ کھلی جگہ پر عید پڑھنا۔12۔ جس راستے سے عید کے لئے جانا ہو واپسی دوسرے راستے سے کرنا۔ 13۔ رستہ میں تکبیرات: اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر واللہ الحمد۔ آہستہ آواز سے پڑھتے ہوئے جانا۔
عید پڑھنے کا طریقہ:۔ یہ نیت کر کے میں دور رکعت نفل نماز عید پڑھ رہا ہوں جس میں چھ تکبیرات واجب ہیں۔ دونوں ہاتھ اللہ اکبر کہ کر کانوں تک لے جائے اور نیت باندھ لے۔ پھر ثناء پڑھے اس کے بعد تین مرتبہ تکبیرات، اللہ اکبر کہے۔ اور ہر مرتبہ دونوں کانوں تک ہاتھ اٹھائے اور تکبیر کے بعد ہاتھ سیدھے کر لے تیسری تکبیر کے بعد ہاتھ باندھ لے۔
اور اعوذ باللہ بسم اللہ پڑھ کر سورۃ فاتحہ اور کوئی دوسری سورت پڑھے۔ پھر حسب دستور رکوع سجدہ کرے۔ اور کھڑا ہو جائے۔ دوسری رکعت میں سورہ فاتحہ اور کوئی دوسری سورت پڑھ کر پھر تین تکبیرات کہیں اور چوتھی تکبیر کہہ کر رکوع میں چلا جائے۔ اور حسب دستور سجدوں کے بعد التحیات پڑھے درود شریف پڑھے، دعا پڑھے اور سلام پھیر کر نماز مکمل کر لے۔ اس کے بعد بغور امام سے دو خطبے سنے۔ اور عید سے فارغ ہو کر جہاں دل چاہے چلا جائے۔
صدقہ الفطر کے مسائل:۔ ہر وہ شخص جس پر زکوۃ واجب ہے اس پر صدقۃ الفطر بھی واجب ہے۔ صبح صادق کے طلو ع ہونے کے بعد جتنے افراد گھر میں موجود تھے۔ ان سب کی طرف سے صدقہ فطر دینا واجب ہو جاتا ہے۔ اور یہ سوا دو کلو گندم یا آٹا ہے اور اگر کھجور چھوارے منقیٰ اور جو کا صدقہ فطر دے تو دگنا دیا جاتا ہے۔ صدقۃ الفطر غرباء مساکین، کا حق ہے۔ چاہے ایک مستحق کو دے دے یا بہت سے مستحقین میں تقسیم کر دے۔ یہ صدقہ فطرہ روزوں کی تطہیر کے لئے ہے۔ کہ کوئی کمی کوتاہی رہ گئی ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے عوض میں معاف فرما دے۔
عید کا دن دراصل اللہ تبارک و تعالیٰ سبحانہ کے شکر کا دن ہے کہ اس نے ہمیں کتنی بڑی عبادت کی توفیق عطاء فرمائی ہے۔ عید کے دن اللہ تبارک و تعالیٰ کے انعامات تقسیم ہوتے ہیں۔ اور اعلان ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے روزے رکھے ان سب کو بخش دیا گیا اور ان کے تمام سابقہ گناہ معاف کر دیئے گئے۔
٭٭٭
محرم الحرام اور شہادت حسین
اس وقت اسلامی سال نو 1434 ھ کا مہینہ محرم الحرام شروع ہے۔ عربی قواعد کے مطابق یہ اسم مفعول ہے۔ جو کہ تحریم سے بنا ہے تحریم باب تفعیل ہے۔ تحریم کے بہت سے معنی ہیں۔ ایک معنی تعظیم کرنے کا بھی ہے۔ اس لحاظ سے محرم کا معنی ہے عظمت والا احترام والا مہینہ۔ حضور اکرم ﷺ کی آمد سے قبل بھی دوسری شریعتوں میں چار مہینے بہت فضیلت والے گنے جاتے تھے جن کا قرآن کریم میں یوں تذکرہ ہے۔ یسلونک عن الشھر الحرام۔ ان مہینوں کا اہل عرب بھی بہت احترام کرتے تھے۔ عرب قتل و غارت میں مصروف رہنے کے باوجود ان مہینوں میں جنگ و جدال سے پرہیز کرتے تھے یہ رجب المرجب، ذیقعد ذی الحج اور محرم الحرام تھے۔ حضور اکرم ﷺ کی آمد کی تشریف آوری کے بعد بھی یہ مہینے اسی طرح سے حرمت والے کہلاتے تھے۔ محرم الحرام کی دسویں تاریخ کو تاریخ عالم میں خاص اہمیت حاصل ہے۔
مشہور قول کے مطابق سید نا حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش کی تاریخ دس محرم الحرام ہے۔ اس لئے آپ کی شریعت میں دس تاریخ کا روزہ فرض تھا اور آدم علیہ السلام ہمیشہ دس تاریخ کا روزہ رکھا کرتے تھے۔ دس محرم الحرام وہ اہم تاریخ ہے جس دن مصر کا نافرمان خدا بادشاہ فرعون قلزم میں غرق ہوا تھا۔ اور حضرت موسی علیہ السلام نے مع اپنی قوم بنی اسرائیل اس کے مظالم سے نجات پائی تھی۔ حضرت موسی علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے شکرانہ کی ادائیگی کے لئے ہمیشہ دس محرم کا روزہ رکھا کرتے تھے۔ آپ کی اقتداء میں قوم یہود نے بھی ہمیشہ اس تاریخ کا روزہ رکھا۔ حضور اکرم ﷺ جب مدینہ طیبہ تشریف لائے تو آپ نے یہودیوں کو اس تاریخ کو روزہ رکھتے ہوئے دیکھا تو اپ نے فرمایا ہمارے لئے بھی دس محرم اسی طرح سے قابل احترام ہے لیکن مسلمان اپنا امتیاز اور تشخص قائم رکھنے کے لئے نویں اور دسویں محرم کا روزہ رکھا کریں۔ اس لئے صحابہ اکرام ہمیشہ یہ دو روزے رکھ کرتے تھے۔ حضور اکرم ﷺ دس محرم الحرام کو کثرت سے خیر خیرات کرنے کی بھی تبلیغ فرمایا کرتے تھے آپ کے فرمودات عالیہ سے یہ بات ملتی ہے۔ کہ جو شخص دس محرم الحرام کو خیر خیرات کرے گا تو اللہ تبارک و تعالیٰ جل جلالہ و عم نوالہ اس کے رزق میں فراخی پیدا کر دیں گے۔ یہی وہ دس تاریخ ہے جس دن قیامت آئے گی اور اللہ تبارک و تعالیٰ اس کائنات کی بساط لپیٹ دیں گے۔
محرم الحرام کو اسلامی تاریخ میں اس لئے بھی خصوصی اہمیت حاصل ہو گئی کہ اس کی یکم تاریخ خلیفہ دوم سید نا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کی تاریخ ہے۔ دوسری اہمیت محرم الحرام کو اس عظیم دردناک واقعہ سے ہوئی جو کہ کربلاء معلی میں نواسہ رسول پاک ﷺ جگر گوشہ بتول سیدہ فاطمۃ الزہرا فرزند ارجمند شیر خدا سید نا حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور آپ کے ساتھیوں کی شہادت کا ہوا۔ یہ وہ کربناک افسوسناک دکھ بھری شہادت کی کہانی ہے کہ جس پر امت مسلمہ نے اتنے آنسو بہائے ہیں کہ اگر قدرت خدا سے وہ سب آنسو جمع ہو جائیں تو دنیا میں ایک دجلہ اور فرات اور بہہ پڑیں۔
سیدنا حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ وہ نسبی شرافت رکھتے ہیں جس کا کوئی جواب نہیں ہے۔ آپ ہمارے پیارے پیغمبر سیدالکائینات فخر کون و مکاں رحمۃ اللعالمین سید نا حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰ ﷺ کے نواسے ہیں۔ شیر خدا سید نا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ کے صاحبزادے ہیں۔ وہ علی المرتضی کرم اللہ وجہہ جنہیں حضور اکرم ﷺ نے باب العلم کا خطاب عطاء فرمایا۔ جن کی فضیلت عظمت سے کتابیں بھری پڑی ہیں۔ جو دس سال کی عمر میں اسلام لا کر اول المسلمین میں شمار ہوئے۔ اور پوری زندگی میں اسلام کی شان و شوکت کو دوبالا کرنے میں گزار دی۔ اور بالآخر اللہ کی راہ میں ہی کوفہ کی جامعہ مسجد میں نماز پڑھاتے ہوئے شہید ہو گئے۔
سید نا حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی والدہ ماجدہ سیدہ طاہرہ اللہ کے رسول کے دل کا ٹکڑا سیدہ فاطمۃ الزہرا ہیں۔ حضور اکرم ﷺ کی رحلت طیبہ کے 6 ماہ بعد ماہ رمضان المبارک گیارہ ہجری میں اس جہان فانی سے عالم جاودں کی طرف سفر کر گئیں۔ ان اللہ وانا الیہ راجعون۔ جیسے کہ ایک فطری امر ہے کہ سب سے چھوٹا بچہ بہت لاڈلا ہوا کرتا ہے۔ کیونکہ وہ دیر تک ماں کی گود میں کھیلتا رہتا ہے۔ اس لحاظ سے بھی اور دیگر خصوصی خوبیوں اور کمالات کی بناء پر بھی سرکار دو عالم ﷺ کو اپنی اس شہزادی سے والہانہ محبت تھی۔ فرمایا کرتے تھے فاطمہ میرے دل کا ٹکڑا ہے۔ جس نے فاطمہ کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے ان کے بھتیجے جمیع بن عمیر نے پوچھا حضور اکرم ﷺ سب سے زیادہ کس سے محبت رکھتے تھے انہوں نے فرمایا سیدہ فاطمۃ الزاہراؓ سے۔ پھر انہوں نے سوال کیا کہ مردوں میں سب سے زیادہ کس پر شفقت فرماتے تھے۔ جواب دیا حضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ سے۔
حضرت فاطمۃ الزہراؓ کا گھر حضور اکرم ﷺ کے گھر سے متصل تھا۔ اس لئے آپ اکثر و بیشتر ان کے گھر میں تشریف لے جاتے اور اسی طرح بیٹی والد محترم کے دولت کدہ پر تشریف لاتی رہتیں۔ جب حضرت فاطمۃ الزہرا حضور اکرم ﷺ کے گھر تشریف لاتیں تو آپ کھڑے ہو جاتے۔ بیٹی کو گلے لگاتے اور جہاں سے بال شروع ہوتے ہیں یہاں سے بیٹی کی پیشانی چومتے تھے۔ اس کے جواب میں حضرت فاطمہ اباجی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر پشت کی طرف سے چوم لیا کرتی تھیں۔ آپ ﷺ جب سفر میں تشریف لے جاتے امہات المومنین کے تمام گھروں سے ہو کر آخری گھر جس میں تشریف لے جاتے وہ بیٹی کا گھر ہوا کرتا۔ اور جب سفر سے واپس آتے تو سب سے پہلے بیٹی کے گھر میں تشریف لے جاتے۔ جب کبھی کوئی ہدیہ اور تحفہ پیارے پیغمبر ﷺ کو پیش کیا جاتا تو اکثر و بیشتر اسے بیٹی کے گھر میں بھیجتے تھے۔
آپ صلعم نے زندگی کے آخری لمحات میں حضرت فاطمہ کو بتلا دیا کہ میرا سفر آخرت قریب ہے اور سب سے پہلے میرے اہل بیعت سے آپ مجھ سے ملیں گی۔ یہی ہوا کہ آپ کی رحلت طیبہ کے چھ ماہ بعد اہل بیعت میں سے سب سے پہلے آپ والد محترم کے پاس تشریف لے گئیں۔ آپ کو خاتون جنت کا خطاب بھی اسی روز عطاء فرمایا گیا۔ تسبیحات فاطمہ 33 دفعہ سبحان اللہ 33 دفعہ الحمد اللہ 34 دفعہ اللہ اکبر — جس کے پڑھنے سے زمین وآسمان کے فاصلہ کے برابر نیکیاں ملتی ہیں — یہ حضور اکرم ﷺ کا عطا کردہ تحفہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عہنا کے لئے تھ۔ا اور آپ نے یہ تحفہ پوری امت کو عطا فرمایا۔ علاوہ ازیں بے شمار فضائل و مناقب اس عظمت والی شہزادی کے موجود ہیں۔ جن سے کتب احادیث وسیرت بھری پڑی ہیں۔
3 ہجری میں سیدنا حضرت حسن رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے۔ اور 4 ہجری ماہ شعبان میں سیدنا حضرت حسین رضی للہ تعالیٰ عنہ کی ولادت باسعادت ہوئی۔ ان دونوں شہزادوں کی شکل و صورت امی جان کی نسبت کی بناء پر اپنے نانا جان حضور اکرم ﷺ سے بہت زیادہ مشابہت رکھتی تھی۔ حضور اکرم ﷺ کو ان دونوں صاحبزادوں سے والہانہ محبت تھی۔فرمایا کرتے تھے حسن اور حسین دنیا میں میرے دو پھول ہیں اور یہ بھی فرمایا حسن اور حسین جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔ ان پر شفقت کے کئی پیارے واقعات ہیں۔ ایک دفعہ آپ ممبر پر واعظ فرما رہے تھے کہ یہ دونوں شہزادے آرہے تھے اور قمیض میں پاؤں پھنسنے سے گر پڑے۔ حضور اکرم ﷺ نے دونوں کو اٹھا کر ممبر پر اپنے پہلو میں بٹھا لیا حضرت اسامہ بن زید سے فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کی دونوں رانوں پر حسنؓ اور حسینؓ کو بیٹھے دیکھا اور فرما رہے تھے یہ دونوں میرے بیٹے ہیں اور میری بیٹی کے بیٹے ہیں۔ اے اللہ میں ان دونوں سے محبت رکھتا ہوں تو بھی ان سے محبت فرما۔ اور ہر اس شخص سے محبت فرما جو ان سے محبت کرتا ہو۔ آپ کا یہ بھی ارشاد عالی موجود ہے کہ حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔ جو حسینؓ سے محبت رکھے اللہ تعالیٰ اس سے محبت رکھے۔
حضرت حسینؓ کی شہادت کی خبر آپ نے اپنی زندگی مبارک میں ہی دے دی تھی۔ واقعہ کربلاء معلی میں بہت تفصیلی ہے مگر اسے اختصار کے ساتھ بیان کیا جا رہا ہے۔ 35 ہجری میں سید حضرت عثمان غنی رضی للہ تعالی عنہ شہید کر دیئے گئے۔ ان کی شہادت کے بعد مسلمانوں میں بعض ناعاقبت اندیش لوگوں کی سازش سے غلط فہمی پیدا ہو گئی اور سلطنت اسلام دو حصوں میں بٹ گئی شام کا علاقہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی فرمان روائی میں چلا گیا اور عراقی علاقہ سید نا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت میں آ گیا۔ 17 رمضان المبارک چالیس ہجری کو سیدنا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کوفہ کی جامع مسجد میں شہید کر دیا گیا۔آپ کے بعد آپ کے بڑے صاحبزادے سیدنا حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفہ مقرر ہوئے۔ ان کو اپنے نانا جان کی ایک حدیث پہنچی تھی کہ یہ میرا بیٹا حسن سید ہے قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ سے مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں میں صلح کرا دے گا۔ آپ نے اس بشارت کا مستحق بننے کے لئے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صلح کر لی اور خود 41 ہجری میں خلافت سے دستبردار ہو گئے۔
اس طرح سے ملت اسلامیہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سربراہی میں ایک جھنڈے کے نیچے آ گئی۔ 5 ربیع الاول 50 ہجری کو سید نا حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان کی بیوی جعدہ دختر اشعت ملعونہ نے زہر دے دیا۔ اس طرح سے آپ نے جام شہادت نوش فرمایا۔ 60 ہجری میں حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وفات پائی۔ ان کے بعد ان کا بیٹا یزید تخت نشین ہوا۔جس کے دور میں تاریخ اسلام کا وہ اندوہناک واقعہ پیش آیا جس پر امت قیامت تک آنسو بہاتی رہے گی۔ واقعہ کی مختصر تفصیل یہ ہے کہ جب یزید نے بیعت لی تو چار عظیم المرتبت ہستیوں نے بیعت سے انکار کر دیا۔ 1۔ سید نا حضرت امام حسینؓ بن سید نا علی المرتضیؓ کرم اللہ وجہ 2۔ سید نا حضرت عبداللہؓ بن عمرؓ 3۔ سید نا حضرت عبداللہؓ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ 4۔ سید نا حضرت عبداللہؓ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔
یہ چاروں عظیم المرتبت ہستیاں مکہ المکرمہ میں مقیم تھیں۔ چند روز بعد کوفہ جو کہ سید نا حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ کا پایہ تخت رہا تھا۔ وہاں کے لوگوں نے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خطوط لکھے کہ ہمارے اوپر بہت سے مظالم ڈھائے جا رہے ہیں ہمیں ان سے نجات دلانے کے لئے آپ کوفہ تشریف لائیں۔ آپ نے پہلے تو انکار کیا مگر پھر ان کا اصرار بڑھنے پر ارادہ فرما لیا۔حضرت عبداللہؓ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عبداللہؓ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس ارادے سے منع کیا۔ مگر آپ کوفیوں کے آئے ہوئے 1200 خطوط سے اس قدر متاثر ہو چکے تھے کہ آپ نے بہرحال ارادہ سفر کر لیا اور آپ 10 ذوالحج 60 ہجری کو گھر کے تمام افراد جن میں مرد عورتیں اور بچے وغیرہ شامل تھے مکہ المکرمہ سے عراق کی جانب روانہ ہو گئے۔
یزید نے یہ خبر پاکر کوفہ کے گورنر عبید اللہ بن زیاد کو اس معاملے سے نمٹنے کے لئے مقرر کیا اور اس نے کوفہ کی فوجی چھاؤنی کے کمانڈر عمرو بن سعد کو یہ ذمہ داری سونپ دی۔ اس اثناء میں حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کربلا معلی کے مقام پر پہنچ چکے تھے۔ عمر بن سعد نے معلومات پاکر کربلا معلی کے میدان میں حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ہمراہیوں کو گھیرے میں لے لیا اور مذاکرات شروع ہو گئے۔آپ نے فرمایا کہ میری تین باتیں ہیں یا تو مجھے واپس مکہ المکرمہ لوٹنے دیا جائے۔ یا دمشق جانے دیں تا کہ میں خود یزید سے معاملات طے کر لوں۔ تیسری بات یہ ہے کہ مجھے کسی غیر مسلم کی سرحد تک جانے دی۔ں میں وہاں اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کروں گا۔
عمرو بن سعد رضا مند ہونے کے قریب تھا کہ نائب سپہ سلار شمر ذی الجوشن جو اول درجے کا بدبخت اور دشمن اہلبیت عظام تھا، اس نے کوفہ کے گورنر عبداللہ بن زیاد۔۔۔ جس نے حضرت امام حسینؓ کے چچا زاد بھائی حضرت مسلم بن عقیلؓ کو بے دردی سے شہید کر دیا تھا۔۔۔ سے کہا اگر حسینؓ بچ گئے تو وہ یزید سے مسلم بن عقیل کے قصاص کا مطالبہ کریں گے۔ جس کے عوض میں تم قتل کر دیئے جاؤ گے۔ بہتر ہے کہ حضرت حسینؓ کا یہاں ہی کام تمام کر دیا جائے۔ ابن زیاد کی بدبختی غالب آ گئی اس نے شمر ذی الجوشن سے اتفاق کیا اور عمر بن سعد کو پیچھے ہٹا کر شمر بن جوشن کو اس دستے کا سربراہ مقرر کر دیا۔ جو حضرت حسینؓ سے نمٹے گا۔ اس پر شمر نے کمان سنبھال لی اور دریائے فرات کا پانی بند کر دیا۔ اہل بیت پانی کی بوند بوند کو ترس گئے اور مطالبہ کیا کہ اس کے ہاتھ پر نائب یزید ہونے کی حیثیت سے پہلے بیعت کی جائے پھر یزید کے ہاتھ پر۔ اس ناپاک کے ہاتھ پر بیعت کرنے سے حضرت امام حسینؓ نے انکار فرما دیا۔ دراصل یہ ملعون شمر کی محض خباثت تھی وہ ہر حال میں نواسہ رسولؓ کو ختم کرنے کے درپے تھا۔ اس کے بعد شمر کی فوج سامنےآئی تو اس میں بہت سے کوفی بھی موجود تھے جن کے خطوط حضرت حسینؓ کو وصول ہو چکے تھے۔
آپ نے ایک ایک کو خطاب کر کے ان کے خطوط دکھلائے مگر کسی کو غیرت نہ آئی۔ یہ خوفناک حالات سات محرم سے دس محرم تک جاری رہے۔ آخر دس محرم الحرام 61 ھ کو ان ظالموں نے نواسہ پاکؓ حضور اکرم ﷺ کو سجدے کی حالات میں شہید کر دیا۔ اور آپ کا سر مبارک ایک طشت میں رکھ کر ملعون ابن زیاد کے پاس روانہ کر دیا۔ حضرت امام حسینؓ کے ساتھ 16 افراد آپ کے گھر والے بھی شہید ہوئے۔ باقی مظلومین کو حضرت اما م حسینؓ کے سرمبارک سمیت ایک گاڑی پر سوار کر کے دمشق بھیج دیا گیا۔ جب یہ لٹا پٹا قافلہ دمشق پہنچا تو ایک کہرام مچ گیا چونکہ بہت سی خواتین کی رشتہ داری آپس میں موجود تھیں اس دردناک منظر کو بیان نہیں کیا جا سکتا۔ اس موقع پر اگرچہ یزید نے بظاہر افسوس کا اظہار کیا مگر یہ بعد از وقت تھا جو ہونا تھا وہ ہو چکا تھا۔ اس شہادت پر کیا خوب کہا گیا ہے۔
کرتی ہے پیش اب بھی شہادت حسین کی
کٹ کے سر تیرا چڑھ جائے نیزے کی نوک پر
آزادی حیات کا یہ سرمدیں اصول
لیکن تو فاسقوں کی اطاعت نہ کر قبول
دس محرم الحرام ہمیں صبر و تحمل کا سبق دیتا ہے اس روز کثرت سے تلاوت کلام پاک اور درود شریف پڑھ کر اور جو کچھ اللہ تعالیٰ توفیق دے اہل بیت عظام کو ایصال ثواب کرنا چاہئے۔ اور ہر اس کام سے اجتناب کرنا چاہئے جس سے اللہ تبارک و تعالیٰ جل جلالہ اور حضرت رسول اکرم ﷺ، اہل بیت عظامؓ اور صحابہ کرامؓ کی ناراضگی کا اندیشہ ہو۔
٭٭٭
روزہ کے مسائل
روزہ کی فرضیت : حضور اکرم ﷺ کا ارشاد عالی ہے کہ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان ہیں ایمان، نماز، زکوۃ، روزہ، حج۔
روزہ کی نیت : حضور اکرم ﷺ کا ارشاد عالی ہے انما الاعمال بالنیات اور روزہ کی یہی نیت ہے کہ صبح سحری کرتے وقت یہ ارادہ کر لیں کہ میں رمضان شریف کا روزہ رکھ رہا ہوں اور برکت کے لیے یہ کلمات پڑھے وبصو م غد نویت من شھر رمضان، تو اجر میں مزید اضافہ ہو جائیگا۔ روزہ کھولنے کی نیت بھی دل میں ہی کر لے کافی ہے۔ اگر چا ہے تو برکت کی خاطر زبان سے پڑھ لے۔ اللھم انی لک صمت وبک آمنت وعلیک توکلت وعلی رزقک افطرت
صبح سویرے آنکھ نہ کھلے تو بلا سحری کھائے پئیے روزہ رکھ لینا درست ہے۔ روزہ رکھنے کا ارادہ نہ کیا مگر نہ کچھ کھایا نہ پیا تو تب بھی نصف النہار سے ایک گھنٹہ قبل روزہ کی نیت کر سکتا ہے۔
روزہ کا وقت : صبح صادق کے طلوع ہوتے ہی روزہ شرع ہو جاتا ہے اور غروب آفتاب تک جاری رہتا ہے۔
ممنوعات روزہ : روزہ کی حالت میں کھانا پینا، ہر قسم کا جنسی عمل، سگریٹ نوشی، پان چبانا، آنکھ اور کان میں دوائی ڈالنا منع ہے۔ اگر بتی وغیرہ کا دھواں ارادتاٌ سونگھنا بالکل منع ہے۔ اور اگر روزہ رکھ کر توڑ لیا تو اس کا کفارہ دینا پڑے گا۔ جو کہ سا ٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا یا فی مسکین صدقۃ الفطر کے برابر غلہ یا نقدی دینا ہے۔
یہ بھی بات یاد رکھیں کہ کفارہ صرف رمضان شریف کا روزہ توڑنے سے لازم آ تا ہے۔ دوسرے مہینوں میں اگر نفلی روزہ یا قضا روزہ رکھ رہا ہو اور اسے توڑ ڈالا تو صرف قضاء یعنی ایک روزہ لازم ہے۔ کفارہ نہیں ہے۔ بھول چوک کر کوئی بھی عمل کر بیٹھا تو روزہ نہیں ٹوٹتا۔ خو شبو، سرمہ تیل لگانے سے، منہ کا لعاب نگلنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ خود بخود قے آ گئی تھوڑی ہو یا زائد باہر نکل گئی اندر واپس نہیں ہوئی تو روزہ نہیں ٹوٹتا۔ اگر اپنی مرضی سے منہ بھر کر قے کی تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔
اس طرح بیماری کی وجہ سے مرد ہو یا عورت شرم گاہ میں کوئی دوائی رکھ لی تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔ مسواک کرنا بڑا ثواب ہے مگر منجن کا استعمال منع ہے۔ احتلام آ نے سے یا لیکوریا کی بیماری سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ رات کو نہانے کی حاجت ہو گئی مگر آنکھ دیر سے کھلی تو کلی کر کے سحری کھا سکتا ہے۔ روزہ بند ہونے کے بعد جب چا ہے نہا لے۔ روزہ میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ مگر خیال کرے کہ نماز ضائع نہ ہو۔ کیونکہ اس کا بہت بڑا گناہ ہے۔
دانتوں میں کوئی ریشہ وغیرہ اٹکا رہا اور روزہ بند ہونے کے بعد اسے نگل گیا اگر وہ دیسی چنے سے کم تھا اور اسے منہ سے باہر بھی نہیں نکالا تو روزہ نہیں ٹوٹتا اور اگر منہ سے نکال لیا پھر نگلا یا وہ چنے کی مقدار سے بڑا تھا اور اندر ہی اندر نگل لیا دونوں صورتوں میں روزہ ٹوٹ گیا۔ مسافر کو اجازت ہے کہ وہ سفر کے دوران روزہ نہ رکھے رمضان کے بعد اس کی قضاء کر لے۔
فدیہ رمضان : ایسے حضرات جو شدید بڑھاپے کی بناء پر روزہ نہ نبھا سکتے ہوں نیز ایسے حضرات جو خدانخواستہ کسی ایسی مرض میں مبتلاء ہیں کہ روزہ رکھنے سے مرض کے بڑھنے یا کسی خطرناک پوزیشن میں چلے جانے کا خطرہ ہو تو وہ اپنی جگہ دوسرے کسی مسکین شخص کو روزہ رکھوا سکتے ہیں۔ یا صدقۃ الفطر کی رقم کے برابر فی روزہ فدیہ دے سکتے ہیں۔ اگر کسی صاحب کو یہ مجبوری لاحق ہو تو وہ کسی دینی مدرسہ کے طلباء کو روزے رکھوا کر اپنا فدیہ ادا کر سکتا ہے۔ اس وقت اس کا خرچہ یومیہ 115 اور پورے رمضان کا 3500 روپے بنتا ہے۔
نماز تراویح: رمضان شریف میں بیس رکعت نماز تراویح سنت موکدہ ہے جس کا ترک کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔ البتہ مسافر اگر نماز تراویح نہ پڑھے تو گناہ نہیں۔
شوال کے 6 روزے : شوال کے مہینے میں جس عشرے میں بھی چا ہے چھ روزے رکھنا بہت بڑا ثواب ہے۔ جو شخص رمضان شریف کے روزے رکھے اور پھر شوال کے بھی چھ روزے رکھ لے تو وہ ایسا سمجھا جاتا ہے جیسے وہ پورا سال روزہ دار رہا ہو۔
عید الفطر و فطرانہ : یکم شوال مسلمانوں کا خوشی کا دن ہے۔ اس دن کا روزہ رکھنا حرام ہے۔ نماز عید میں دو رکعت نفل اور چھ تکبیریں ہیں اور چھ تکبیریں واجب ہیں۔ دونوں خطبوں کا سننا سنت ہے۔ عید الفطر کی خوشیوں میں غرباء و مساکین کو شریک کرنے کے لیے فطرانہ کی ادائیگی واجب ہے۔ گھر میں جتنے افراد مع مہمان کے یکم شوال المکرم کی صبح کو موجود ہوں گے فی کس پونے دو کلو گندم اور احتیاطاٌ پوری دو کلو کر دیں یا اس کی قیمت کے برابر ادا کریں۔ وہ غلے جن سے گھٹلی یا آدھا آدھا چھلکا اتر جاتا ہے ان کا وزن دو کی بجائے چار کلو ہو گا۔
نفلی نمازیں: فرض نمازوں کے علاوہ نفلی نمازیں پڑھنا بہت بڑا ثواب ہے۔ رات ڈھلنے کے بعد نماز تہجد جس کی ادائیگی دو تا بارہ رکعتیں ہیں۔ سورج نکلنے کے بعد اشراق کے دو نفل، مزید سورج اونچا ہونے کے بعد چاشت کے دو تا آٹھ نوافل اور نماز مغرب کے بعد اوابین کے چھ نوافل پڑھنا آخرت کی دولت سمیٹنا ہے۔
صدقہ و خیرات و ادائیگی زکوۃ : کسی روزہ دار کو روزہ رکھوانا اور افطار کرانا بہت بڑا ثواب ہے۔ رمضان شریف میں جو بھی صدقہ و خیرات کیا جاتا ہے یا اللہ تعالی کی طرف سے فرض عبادت زکوۃ رمضان شریف میں ادا کی جاتی ہے تو اس کا ثواب ستر گناہ ملے گا۔ فطرانہ کی رقم رمضان شریف میں بھی پیشگی دی جا سکتی ہے۔
نوٹ:۔ روزہ سے متعلق اور دین اسلام کے تمام شعبہ جات سے متعلق کسی قسم کی بھی معلومات درکار ہیں بالخصوص وراثت کے متعلق مشورے یا فتاوی درکار ہوں تو جامعہ انوارالاسلام القائم ٹاؤن بہاولپور بائی پاس ملتان پاکستان کے دارالافتاء سے رجوع فرمائیں۔ اپنا ای میل ایڈریس یا پوسٹل ایڈریس اور رابطہ نمبر تحریر فرمائیں جواب آپ کے گھر پر پہنچ جائے گا۔
٭٭٭
عمرہ و حج کا طریقہ و ضروری مسائل
الحمد للہ آج کل حجاج کرام کی سفر حج کی تیاریاں شروع ہیں۔ اس حوالے سے مسائل حج و عمرہ پیش کیے جا رہے ہیں اس لیے کہ جہاں سفر حج کی دیگر ضروریات کے لیے تیاری کی جا رہی ہے وہاں سب سے اہم ترین کام یہ ہے کہ حج اور عمرہ کے مسائل کو اچھی طرح سے ذہن نشین کر لیا جائے۔
دین اسلام کی بنیا د پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے۔ وہ یہ ہیں۔ کلمہ شہا دت،نما ز، زکو ۃ، روزہ اور حج۔
لغت کے اعتبار سے حج کا معنی ہے زیارت یا ارادہ۔ شریعت کی اصطلاح میں حج اس عبا دت کا نام ہے جو آٹھ ذی الحج سے تیرہ ذی الحج تک حرم پاک مکہ مکرمہ میں کی جا تی ہے۔ حج ہر اس بالغ مسلمان مرد ہو یا عورت پر فرض ہے، جس کے پاس سفر حج کی استطاعت ہے۔ اور اسے کو ئی شرعی عذر نہ ہو۔ عذر کا مطلب ہے زادہ راہ کا نہ ہو نا، نا بینا یا جسمانی طور پر معذور ہو نا، راستہ کا سفر کے لیے غیر محفوظ ہو نا اور عورت کے لیے سا تھ خاوند یا کسی محرم کا نہ ہونا ہے۔ ایک شخص جب اس کے پاس حج کے اخراجات کے لیے رقم آ جائے تو اسی سال اس پر اس فرض کی ادائیگی لا زم ہو جاتی ہے۔ بلا وجہ اگر تا خیر کرے گا تو گناہ گار ہو گا۔
اللہ تبارک و تعالی جلہ جلا لہ و عم نوا لہ نے حج کی فرضیت کے لیے اس طرح حکم ارشاد فرمایا ولللہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلاومن کفر فان اللہ غنی عن العلمین ( ال عمران ایت نمبر 97)۔ اور لو گوں پر اللہ تعالی کا حق ہے کہ جو بھی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کے گھر کا حج کرے۔ اور جس نے کفر کی روش اختیار کی وہ جان لے کہ اللہ تعالی تمام جہا ن وا لوں سے بے نیا ز ہے۔
حج کی فرضیت کے بارے میں متعدد احادیث مو جود ہیں۔ ایک حدیث پاک میں جسے حضرت ابی اما مہ رضی اللہ تعالی عنہا نے روایت فرمایا ہے حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا اگر کسی شخص کو کسی ظالم بادشاہ نے حج سے روک نہ دیا ہو یا اس کے سا منے کو ئی اور سخت مجبوری یعنی شرعی عذر نہ ہو اور وہ پھر بھی حج نہ کرے تو برابر ہے کہ وہ مسلمان ہونے کی حالت میں فوت ہو یا یہودی اور نصرانی ہو نے کی حا لت میں۔ اس حدیث پاک کی روشنی میں سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے دور خلافت میں فرمایا تھا جو لوگ باوجود قدرت کے اور کو ئی دوسری مجبوری نہ ہو نے کے پھر بھی حج نہیں کر تے میرا دل چا ہتا ہے کہ ان پر جزیہ لگا دوں کہ وہ لوگ حقیقی مسلمان نہیں ہیں۔
خانہ کعبہ کی تاریخ اور اہمیت
روئے زمین کے ہر خطے پر کفر و شرک بت پرستی اور جہا لت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے چھائے ہوئے تھے کہ اللہ تعالی نے اپنے پیا رے خلیل حضرت ابرا ھیم علیہ السلام کو حکم ارشاد فرمایا کہ وہ اللہ کی عبادت کے لیے ایک گھر بنا ئیں۔ جہاں وہ کئی برس قبل اپنی اہلیہ محترمہ حضرت حا جرہ اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو چھو ڑ گئے تھے۔ چنانچہ آپ نے اپنے بیٹے کی مدد سے بیت اللہ شریف کی تعمیر کی۔ اور اللہ کے حکم پر صفاء پہاڑی پر کھڑے ہو کر لو گوں کو حج کے لیے پکا را۔
اللہ تعالی نے یہ آ وا ز پو رے روئے زمین پر مو جود لو گوں کے کا نوں تک پہنچا دی بلکہ عالم ارواح میں آئندہ پیدا ہو نے والی روحوں نے بھی اس آواز کو سنا۔ پھر جس کی قسمت میں حج تھا وہ پکار اٹھا لبیک اللھم لبیک۔ بس اس جواب کے بعد جسکے مقدر میں حج ہے اسے مو سم حج میں بیت اللہ شریف اپنی طرف اسی طرح کھینچ لیتا ہے جس طرح مقناطیس لو ہے کو کھینچ لیتا ہے۔ ذی الحج کے ان پا نچ ایام میں جو عبا دت کی جا تی ہے اسے حج کہتے ہیں باقی سال جو زیارت بیت اللہ شریف اور وہاں دیگر اعمال کیے جا تے ہیں اس کا نام عمرہ ہے۔
حج کے کئی مصالح ہیں۔ 1۔ انفرادی فوائد۔ 2۔ اجتماعی فوائد۔ 3۔ معاشی فوائد۔ 4۔ سیا سی فوائد۔ 5۔ خالص دینی و اخروی فوائد۔
انفرادی مصالح
حج سے احساس عبدیت پیدا ہو تا ہے۔ آ دمی جب اپنا وطن گھر با ر اعزا ء و اقربا ء اور اپنی محبوب اشیا ء کو چھو ڑ کر اپنی مرغوبات اور تعیشات کو خیر باد کہ کر اس سفر دشوار کے لیے نکلتا ہے تو زبان حال سے یہ ظاہر ہو رہا ہو تا ہے کہ یہ بندہ اقرار کر رہا ہے کہ میں اپنے رب کا غلام ہوں اور اس کے ہر حکم پر لبیک کہنے کے لیے تیار ہوں۔
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لیے ہے۔
حج اظہار محبوبیت کا ذریعہ ہے انسان جب سب کو چھو ڑ کر کفن والا سفید لبا س پہن کر لبیک اللھم لبیک کا نغمہ حجا زی الاپتے ہوئے دیوا نہ وا ر گھر سے نکلتا ہے تو ہر چیز یہ کہتے ہوئے نظر آ تی ہے کہ یہ عاشق خدا ورسولﷺ ان دونوں کے پیار میں ہر چیز کو چھوڑے جا رہا ہے۔ یہ نور جمال کا مشاہدہ کر نے کے لیے جس اشتیاق سے نکلا ہے اس کے نزدیک اس کی جان مال، آبروسے زیادہ پیا رے اللہ اور اس کے رسول ہیں
حج جہاد زندگی کی تربیت بھی دیتا ہے۔ انسان کو اپنے گھر میں جو آ رام و اسائش حا صل ہو تا ہے وہ اس صبر آزما سفر میں کا فور ہو جا تا ہے۔ مگر وہ باوجود نازک اندام ہو نے کے سب کچھ برداشت کر نے کے لیے تیار ہو جا تا ہے یہ صعوبتوں کو برداشت کر نے کے لے جہاد زندگی کی ایک بڑی تربیت ہے۔ حج ماضی سے وابستگی کا بھی اظہار ہے۔ یہاں قدم قدم پر حضرت ابراھیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام اور حضرت حاجرہ رضی اللہ تعالی عنہا کی یا دیں ہیں۔ حج سے معاشی فائدہ بھی ہو تا ہے۔ اس مبارک سفر کے شوق میں بچت کی عا دت پڑتی ہے۔ محنت کا داعیہ ابھرتا ہے۔
سیا سی مصالح
حج کے سفر میں انسان کو احساس مرکزیت بھی پیدا ہو تا ہے جب مشرق و مغرب شمال و جنوب تمام انسانوں کو ایک ہی بیت اللہ شریف کا طواف کرتے ہوئے ایک ہی پیغمبر ﷺ کے درا قدس پر حاضری دیتے ہوئے دیکھتا ہے تو خود بخود احساس ہو نے لگتا ہے کہ امت مسلمہ ایک ہی بدن کے حصے ہیں۔ پھر یہ چیز سامنے آتی ہے کہ ہمیں اپنے تمام مسائل کے حل کے لیے ایک ہو جانا چاہیے۔ اور سب کے دکھ درد کو یکساں سمجھنا چاہیے۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاک کا شغر
حج کے خالص دینی و اخروی فوائد
اس سفر مقدس کا حقیقی مقصد اپنی آخرت کو سنوارنا ہو تا ہے۔ اس کے لیے یاد آخرت گنا ہوں سے معافی جنت کی طلب کثرت سے پیدا ہو تی ہے۔ سفر مبارک میں نماز کی پا بندی کی عادت زکو ۃ، خیر خیرات، کر نے کا جذبہ پیدا ہو تا ہے۔ روزہ کی روح بھی یہی ہے کہ انسان اپنی نفسانی خواہشات پر قا بو پا نا سیکھ لے۔ حج اس کی بھی ایک ٹریننگ ہے۔ گو یا کہ یہ ایک ایسی عبادت ہے جس میں تمام عبادات کی رو ح آ جاتی ہے۔ اسی لیے اللہ تعالی نے اپنے پیا رے پیغمبر ﷺ کی زبان مبارک سے حجاج کرام کو یہ خوشخبری سنا ئی ہے کہ جو شخص حج کے سفر سے واپس آ تا ہے وہ گناہوں سے ایسے پاک ہو جا تا ہے جیسے آج ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو۔ اور پیا رے پیغمبر ﷺ فرما تے ہیں کہ حج کا بدلہ اللہ کے نزدیک صرف جنت ہے۔
مسائل حج و عمرہ و آسان طریقہ
حج کرنے کے تین طریقے ہیں۔ نمبر 1۔ صرف حج کے ارادے سے جائے اور احرام صرف حج کی نیت کا کر کے باندھے اسے حج افراد کہتے ہیں۔ دوسری قسم ہے کہ عمرہ اور حج دونوں کی نیت کر کے جائے اور احرام باندھتے وقت عمرہ اور حج کا اکٹھے احرام باندھ لے۔ اس کو حج قران کہتے ہیں۔ ان دونوں صورتوں میں آدمی جب احرام باندھ لے گا تو اس وقت تک احرام نہیں کھول سکتا۔ جب تک حج مکمل نہیں ہو جاتا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ نیت ارادہ تو حج اور عمرہ دونوں کا ہی ہے۔ مگر جب احرام باندھنے لگے تو صرف عمرہ کی نیت کر کے احرام باندھے دل میں یہ بات اچھی طرح رکھ لے کہ آج میں صرف عمرہ کا احرام باندھ رہا ہوں۔ انشاء اللہ العزیز حرمین شریفین پہنچ کر آٹھ ذوالحج سے حج کا احرام باندھوں گا۔ اس کو حج تمتع کہتے ہیں عموماً حجاج کرام حج تمتع ہی کیا کرتے ہیں۔
عمرہ کی تیاری
یاد رکھیں کہ عمرہ میں دو چیزیں فرض ہیں نمبر 1۔ احرام باندھنا نمبر 2۔ طواف کرنا۔ دو چیزیں واجب ہیں نمبر 1۔ صفا اور مروا کے درمیان سعی کرنا۔ 2۔ سر کے بال منڈوانا یا کم از کم چوتھائی حصہ بالوں کا ترشوانا۔
عمرہ کا احرام باندھنے سے پہلے حجامت کی ضرور ت ہو تو کرا لیں، زیر ناف بال اور بغلوں کے بال صاف کر لیں۔ ناخن ترشوا لیں کوئی بھی شخص جب حج اور عمرہ کی نیت کر کے چلتا ہے تو وہ میقات سے بغیر احرام کے نہیں گذرسکتا۔ ہند و پاک کے حجاج کرام کے لیے میقات یلملم ہے۔ یہ جہاز میں ہی گذر جاتا ہے۔ اس لیے تمام حجاج کرام جہاز میں سوارہونے سے قبل احرام باندھ لیں۔ بعض لوگ جدہ جاکر احرام باندھتے ہیں۔ جو بالکل غلط ہے۔
احرام باندھنے کا طریقہ
احرام میں دو چادریں سفید بغیر سلی ہوئی استعمال کی جاتی ہیں۔ سب سے پہلے غسل کریں اگر وقت نہ ہو اور اپنے ہر طرح سے پاک ہونے کا یقین بھی ہو تو صرف وضو کر لیں۔ایک چادر ناف تک نچلے دھڑ پر باندھ لیں اور ایک چادر اوپر کے دھڑ پر لپیٹ لیں۔ سر ڈھانپ کر عمرہ کے نفلوں کی نیت کر کے دو رکعت نماز نفل پڑھیں جب سلام پھیریں اسی وقت سر کو ننگا کر لیں۔ اور بلند آواز سے تلبیہ پڑھیں۔ لَبَّیک اَلّٰھُمَّ لَبَّیک لَبَّیک لَا شَرِیکَ لَکَ لَبَّیک اِنَّ الْحَمْدَ وَ النِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ لَا شَرِ یکَ لَکَ۔ اس تلبیہ کو سفر عمرہ کے دوران بار بار پڑھتے رہنا ہے۔ جب طواف شروع کرنے لگے تو پڑھنا بند کر دے۔
احرام باندھنے کے بعد پابندیاں
احرام باندھنے کے بعد زبان سے کسی قسم کی فسق و فجور کی بات گالی گلو چ نہیں نکال سکتا۔ جنگ و جدل نہیں کر سکتا۔ کسی جانور کا شکار نہیں کر سکتا۔ مکھی مچھر چیونٹی یا کوئی بھی ذی روح چیز کو نہیں مار سکتا۔ سر کا ننگا رکھنا ضروری ہے۔ اور پاؤں میں ہوائی چپل پہنے یاایسا جوتا جو صرف انگلیوں کو ڈھانپے۔ ابھرتی ہوئی ہڈی ننگی رہے۔ہ رقسم کی خوشبو لگا نا بالکل منع ہے۔ جسم کے کسی بھی حصے سے بال نا خن کٹانا اکھاڑنا منع ہے۔احرام کے دوران ہمبستری منع ہے۔
سفرحج و عمرہ مبارک
احرام باندھنے کے بعد تلبیہ واللہ تعالی کا ذکر حضور اکرمﷺ پردرودسلام پڑھتے ہوئے جہازپرسوارہو۔ جب حرم پاک میں پہنچے تو با وضو ہو کر انتہائی عجز نیاز کے سا تھ بیت اللہ شریف کی طرف چلے۔ آنکھوں کو نیچی رکھے جب دیکھے کہ اب اللہ تعالی کا پاک گھر پوری طرح نظر آ نے لگ گیا ہے تو اس کی زیارت کرے یہ وہ موقع ہے جب ہر دعا قبول ہو تی ہے۔ اپنے مہربان رب سے جو دل چاہے اپنے لیے بھی مانگے اور اپنے احباب کے لیے بھی مانگے۔دعا میں مختصر یہ دعا ضرور کر لے کہ اے اللہ ہمیں دنیا و آخرت کی ہر بھلائی عطا فرما۔ اور یہ کہے کہ اے اللہ ہمارے پیارے پیغمبر ﷺ نے ان تمام مقامات پر جو جو خیر کی دعائیں مانگی ہیں و ہ آپ کے علم میں ہیں۔ ہماری طرف سے بھی ان تمام دعاؤں کو قبول فرما پھر کالی پٹی پر حجر اسود کے سامنے چلا جائے جہاں سے طواف شروع کرنا ہے۔
طواف کا طریقہ
بیت اللہ شریف اورسا تھ چھٹی ہوئی خالی جگہ حطیم کو اندر لے کراردگردسات چکر لگانے کو ایک طواف کہتے ہیں۔ طواف کا طریقہ یہ ہے۔ کہ اگر آسانی سے ممکن ہو تو حجرے اسود کے پاس جا کر دونوں ہا تھ حجر اسود پر رکھ کر دونوں ہونٹوں سے حجر اسود کو بوسہ دے۔ اگر دھکم پیل کا خطرہ ہو تو قطعاً ایسا نہ کرے۔ حجر اسود چومنے کے لیے دھینگا مشتی کرنا سخت گناہ ہے۔ بس اس سیاہ پٹی پر کھڑا ہو جائے جو حجر اسود سے شروع ہو تی ہے اور برآمدے تک چلی جاتی ہے۔ اس پٹی پر کھڑے ہو کر تلبیہ پڑھنا بند کر دے۔ احرام والی چادر کو دائیں بغل سے نکال کر بائیں کندھے پر ڈال لے۔ اس کو اضطباع کہتے ہیں۔ یعنی دائیں کندھے کو ننگا رکھنا۔
اب رخ حجر اسود کی طرف کر کے یعنی سینہ اور منہ حجر اسود کی طرف موڑ کر حجر اسود کا استقبال کریں۔ اور یہ دعا مناسب اونچی آواز سے پڑھیں۔ بِسْمِ اللّٰہِ اَ اللّٰہُ اَ کْبَرْ وَ لِلّٰہِ الْحَمْد یہ کہتے ہوئے دونوں ہا تھ کانوں تک اٹھا کر نیچے کرے پھر حجر اسود کا استلام کرے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ حجر اسود کی طرف دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیاں کر کے اسے چوم لے اور دائیں طرف رخ بدل کر طواف شروع کر دے۔ پہلے تین چکروں میں رمل کرنا ضروری ہے۔ رمل کہتے ہیں کہ سینہ نکال کر اکڑتے ہوئے دونوں شانوں کو ہلاتے ہوئے چھوٹے چھوٹے قدم بھرتے ہوئے طواف کرے۔ یہ رمل صرف پہلے تین چکروں میں کیا جاتا ہے۔ دوسرے چار چکر عام طریقے سے چل کر لگائے جاتے ہیں۔ جب کالی پٹی سے چل کر دوبارہ کالی پٹی پر پہنچیں تو سینہ اور منہ پھر حجر اسود کی طرف کریں۔ اور استلام کریں اب ہا تھ کانوں تک نہ لے جائیں بلکہ صرف ہتھیلیاں حجر اسود کی طرف کر کے انہیں چوم لیں اور پھر دائیں طرف مڑ کر دوسرا چکر شروع کر دے۔
اس طرح جب سات چکر پورے ہو جائیں تو آخری بار استلام کر کے گویا کہ ایک طواف میں استلام آٹھ دفعہ ہو جائے گا۔اب کالی پٹی سے ہٹ کر دونوں کندھوں کو دوبارہ ڈھانپ لیں۔اور ملتزم پر آ کر۔۔ یہ حجر اسود اور دروازہ بیت اللہ شریف کی درمیانی دیوار کو کہتے ہیں۔ یہاں خشوع خضوع سے دعا مانگے۔ پھر پیچھے ہٹ کر جگہ مل جائے تو مقام ابراھیم کے پاس دو رکعت نماز نفل واجب الطواف پڑھیں۔ مقام ابراھیم کے پاس جگہ نہ ہو تو مسجد الحرام میں جہاں جگہ ملے وہیں پڑھ لیں۔
نفلوں سے فارغ ہو کر حسب ضرورت آب زم زم جو پورے حرم پاک میں ہر جگہ دستیاب ہے وہ پئیں۔ بہتر ہے کہ ٹھنڈے زم زم کی بجائے جسے وہاں مبرد کہتے ہیں۔ دوسرا زم زم جیسے غیر مبرد کہتے ہیں پئیں۔ اس لیے کہ بعض دفعہ زیادہ ٹھنڈا پانی پینے سے گلے میں تکلیف ہو جاتی ہے۔اب دوسرے اہم عمل سعی صفاء مروہ کی تیاری کرے اور صفاء پہاڑی پر آ جائیں اتنے بلند ضرور ہوں کہ بیت اللہ شریف صاف نظر آ جائے۔
اب قبلہ رو ہو کر دونوں ہا تھ کانوں تک اٹھانے کی بجائے ایسے اٹھائیں جیسے دعا میں اٹھائے جاتے ہیں۔ پھر بلند آواز سے تین مرتبہ پڑھیں اَ للّٰہُ اَ کْبَرْ اَ للّٰہُ اَ کْبَرْ اَ للّٰہُ اَ کْبَرْ وَ لِلّٰہِ الْحَمْد۔ اور تیسرا کلمہ و چوتھا کلمہ و درود شریف پڑھ کر دعا مانگیں۔ اور مروہ کی طرف چل پڑیں۔
سعی کے دوران چوتھا کلمہ جو نماز کی کتابوں میں عام لکھا ہوا ہے یہ یاد کر کے جائیں۔ اور وہاں پڑھتے رہیں۔ جب صفاء سے چلیں گے تو تھوڑی دور سبز ستون آ جائیں گے وہاں بتیاں بھی سبز ہیں وہاں سے تیز چلنا شروع کر دیں دوڑنا نہیں ہے مگر دوڑنے کے قریب تیز چلیں اور پڑھیں رَ بِّ ا غْفِرْ وَ ارْ حَمْ اِ نَّکَ اَنْتَ الْاَ عَزُّ الْاَ کْرَمُ۔ جب سبز بتیاں ختم ہو جائیں تو تیز چلنا بند کر دیں۔ مروہ پر پہنچ کر ایک چکر پورا ہو گیا پھر صفاء کی طرف آئیں۔ صفاء پر دوسرا چکر پورا ہو گیا۔ اس طرح ساتواں چکر مروہ پر ختم ہو جائے گا۔
سعی سے فارغ ہو کر مسجد حرام میں دو رکعت نفل ادا کریں۔ اس کے بعد حجام کے پاس جائیں اور سر پر استرا پھروا دیں۔ یا موٹی مشین سے بال منڈھوا دیں۔ یاد رکھیں کہ بالوں کو منڈھوانا کتروانے کی نسبت بہت زیادہ ثواب رکھتا ہے۔ بعض لوگ انتہائی غلطی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ کہ وہ وہاں پر صرف ایک چھوٹی سی لٹ قینچی سے کاٹ لیتے ہیں۔ یاد رکھیے کہ ایسا کرنے سے آدمی احرام سے نہیں نکلتا کم از کم چوتھائی حصہ بالوں کا کٹوانا واجب ہے سر منڈوانے کے بعد اب عمرہ مکمل ہو گیا۔ عورتیں تمام بالوں کو اکٹھے کر کے آخر سے انگلی کے پورے کے برابر کاٹ لیں اس کے بعد غسل کریں عام کپڑے پہن لیں۔
اب حج کی روانگی کے دن تک حرم پاک میں رہیں۔ نماز با جماعت ادا کریں۔ جتنے زیادہ سے زیادہ طواف ہو سکتے ہوں وہ روزانہ کرتے رہیں ہے۔ یہ تمام طواف عام سادہ کپڑوں میں کیے جاتے ہیں ان میں نہ رمل ہوتا ہے نہ اضطباع ہوتا ہے۔ جتنا بھی وقت ہو سکے مسجد الحرام میں گذاریں اور تلاوت کلام پاک درود و سلام کی کثرت کریں۔ عورتیں احرام میں سلاہوا اور رنگ دار لباس پہن سکتی ہے۔ مگر خوشبو لگانا سخت منع ہے۔ زیور پہن سکتی ہیں عورت احرام کے دوران سرکوڈھانپ کر رکھیں اور صرف چہرہ کھلا رکھیں۔
عورت کے لیے سرمنڈھانا حرام ہے صرف قصر یعنی آخرسے انگلی کے پورے کے برابر بال کاٹ لے۔احرام کے دوران منہ دھو کر کپڑے سے صاف کرنا منع ہے اگرکسی وجہ سے احرام کی چادریں ناپاک ہو جائیں تودوسری چادریں بدل لیں یا ان کو دھو کر استعمال کریں۔غسل کی ضرورت ہو تو کرسکتے ہیں دوران غسل چادریں اتارنے سے احرام ختم نہیں ہوتا۔
حج کا طریقہ
حج میں تین چیزیں فرض ہیں جن کو ترتیب وار ادا کرنا اور اس کے مخصوص مقام اور وقت پر ادا کرنا فرض ہے اگر ان میں سے کوئی فرض بھی چھوٹ گیا تو حج بالکل نہ ہو گا اس کا بدل کوئی چیز نہیں بن سکتی۔ 1۔ حج کی نیت سے احرام باندھنا احرام باندھنے طریقہ اوپر لکھا جا چکا ہے۔ 2۔ وقوف عرفات نو ذی الحج کو زوال آفتاب کے بعد رات صبح صادق تک عرفات میں ٹھرنے کا وقت ہے۔اس دوران عرفات میں تھوڑا سا وقت بھی ٹھہر گیا تو یہ فرض ادا ہو جائے گا۔ 3۔ طواف زیارت جس کا وقت 10 ذو الحج کی صبح سے 12ذی ا لحج کو غروب آفتاب تک ہے۔اور یہ طواف قربانی اور سرمنڈھوانے کے بعد کیا جاتا ہے۔
حج کے واجبات
چھ ہیں اگر کوئی واجب چھوٹ جائے تو اس کا ازالہ قربانی یا صدقہ سے ہو جاتا ہے۔ واجبات یہ ہیں 1۔ وقوف مزدلفہ 2۔ سعی صفا مروا 3۔ رمی جمار یعنی کنکریاں مار نا 4۔ قربانی کرنا 5۔ حلق یا قصر کرنا یعنی بال منڈھوانا 6۔ طواف وداع کرنا۔
حج کی سنتیں
سنت کا مطلب ہوتا ہے کہ جس پر عمل بہت بڑا ثواب ہے اور بلا وجہ ترک کرنا نہایت بری بات ہے۔ فرق صرف یہ ہے اگر سنت حج چھوٹ جائے تو کسی قسم کی جزا لازم نہیں آتی۔ سنتیں یہ ہیں۔ طواف قدوم کرنا یعنی منا جانے سے پہلے طواف کرنا۔ سات ذو الحج کو بعد نماز فجر منا کی طرف چلنا وہاں پانچ نمازیں پڑھنا۔عرفہ کی رات منا میں قیام کرنا۔ عرفہ کے دن طلوع آفتاب کے بعد منا سے عرفات جانا۔ منا سے مکہ واپس ہوتے ہوئے تھوڑی دیر محصب میں ٹھرنا۔ امام کا خطبہ پڑھنا اور اسے سننا گیارہ تاریخ کو مسجد نمرہ میں جانا۔
یوم حج
آٹھ ذو الحج کی صبح کو اپنی قیام گاہ میں نہا دھوکر صاف ستھرے ہو کر صاف چادروں کا احرام باندھ لیں۔ وقت ملے تو ایک طواف بھی کر لے اور منا کی طرف روانہ ہو جائیں۔ وہاں ظہر عصر مغرب عشاء اور رات کے قیام کے بعد نماز فجر ادا کر کے عرفات چلے جائیں۔ مسجد نمرہ کے قریب کوشش کریں کہ قیام ہو جائے۔ اذان نماز ظہر کے بعد امام صاحب دو خطبے دیں گے۔ پھر اقامت ہو گی ظہر اور عصر دونوں نمازیں ملا کر ظہر کے وقت میں ادا کریں۔ ہر نماز کی اقامت جدا جدا ہو گی عرفات کے قیام کے دوران تلبیہ پڑھتے رہیں اور اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں۔ پھر جو جو دل چاہے اسکا سوال کریں۔ دل میں آئندہ کے لے تمام گناہوں سے توبہ کر لیں۔
غروب آفتاب کے بعد مزدلفہ آ جائیں اور جبل قزح کے پاس قیام کریں۔ نماز عشاء کے وقت میں اذان اور اقامت کے بعد مغرب اور عشاء ملا کر پڑھیں۔ یہ رات شب قدرسے بھی افضل ہے 10ذی الحج کو نماز فجر مزدلفہ میں ادا کر کے سورج نکلنے سے پہلے منا کی طرف چل پڑیں آج صرف ایک جمرے کی جیسے جمرہ عقبہ اور عام زبان میں بڑا شیطان کہتے ہیں اس کی رمی کریں۔ یعنی سات کنکریاں اسے ماریں۔ بہتر ہے کہ زوال آفتاب سے پہلے رمی جمرہ عقبہ کر دیں۔ واپس اپنے خیمہ میں آ کر خود قربانی کرنا ہو تو قربان گاہ جا کر اپنے ہاتھ سے قربانی کر دے۔ اگر بینک میں پیسے جمع کرائے ہیں تو جو وقت قربانی کا دیا گیا ہے تو اس کا انتظار کریں۔ تھوڑا سا وقت احتیاطاٌ مزید گزارکرپھرسرکے بال منڈوا لیں۔ عورتیں سارے بال اکھٹے کر کے انگلی کے پورے کے برابر کاٹ لیں۔
اس کے بعد مکہ مکرمہ آ کر طواف زیارت کریں اورسعی صفا مروہ کریں۔اور واپس منیٰ چلے جائیں۔ وہاں گیارہ اور بارہ تاریخ کو تینوں جمرات کی کی رمی زوال آفتاب سے غروب آفتاب تک کریں۔ سب سے پہلے جمرہ اولی کی پھر جمرہ وسطہ کی پھر جمرہ عقبہ کی رمی کی جاتی ہے۔ اگر بارہ زی الحج کو غروب آفتاب سے پہلے منیٰ سے چلا آیا تودرست ہے اگر تیرہ ذو الحج کو وہاں ٹھہرا رہا تو پھر جمرات کی رمی کرنا پڑے گی۔ بارہ تاریخ کو واپس مکہ مکرمہ آ جائے اور طواف وداع کی نیت کر کے طواف کر لے۔ الحمدللہ حاجی کا حج مکمل ہو گیا۔اگر صفر میں کچھ دن بقایا ہوں تو طواف کرتا رہے۔ اور معمولات جاری رکھیں۔ جس دن واپسی ہو بیت اللہ شریف جائے طواف کرے۔ جی بھر بھر کر دعائیں مانگیں۔ پھر الٹے پاؤں بیت اللہ شریف کو پیچھا کئے بغیر مسجدحرام سے باہر نکل آئے۔
اگر مدینہ طیبہ کی حاضری ہو چکی ہے تو اپنے وطن کی تیاری کرے اگر حاضری نہیں ہوئی تو مدینہ طیبہ کی حاضری کے لیے وہاں جائیں۔ مدینہ طیبہ کی حاضری حج کی روح ہے اس مقدس شہر میں انتہائی ادب و احترام سے رہے۔
مسجد نبوی میں چالیس نمازیں با جماعت ادا کریں۔ روضہ اطہر پر کثرت سے درود و سلام کا تحفہ پیش کرے۔ سرکار دو عالم ﷺ کے حضور جب حاضری ہو تو انتہائی ادب کے سا تھ کھڑا ہو۔ سانس بھی اونچی لینے کی کوشش نہ کرے۔ یوں تصور کرے کہ ایک ادنی غلام بہت بڑے آ قا کے حضور کھڑا ہے۔ حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں درخواست کرے کہ میری حاضری قبول فرمائیں اور اللہ کے حضور شفاعت کے لیے درخواست کرے۔ پھر قریب ہی موجود سیدنا صدیق اکبرؓ کے حضور سلام پیش کرے دل دل میں ان سے محبت عقیدت کا اظہار کرے۔ پھر سیدنا عمر فاروقؓ کے حضور سلام پیش کرے اور عقیدت کا ظہار کرے۔ بعد اذاں جنت البقیع میں جا کر تمام ہستیوں کے لیے دعائے مغفرت کرے اور اپنے لیے مغفرت اور ترقی درجات کی دعا کرے۔
مدینہ پاک میں بہت سی زیارات ہیں۔ جن میں اہم زیارت مسجد قبا کی حا ضر ی ہے۔ جس میں دو نفل ادا کرنا مقبول عمرہ کا ثواب ہے۔ حضرت امیر حمزہ اور دوسرے شہدائے احد کی قبور پر حاضری دے۔ اس کے علاوہ مسجد جمعہ خمصہ مساجد احد پہاڑ اور دوسری بہت سی زیارات مسجد نبوی میں ریا ض الجنہ میں لازمی طور پر نفل پڑھے اور دعا مانگے۔ حرمین میں نمازوں کے بعد جنازے کی نمازیں ہو تی ہیں ان میں لازماٌ شریک ہوا کرے۔
نابالغ بچوں کا حج :۔ جو بچے بڑے ہوں مگر ابھی بالغ نہیں ہوئے اور تمام ارکان ادا کرنے کی سمجھ بوجھ رکھتے ہوں تو والدین ان سے تمام افعال حج اسی طرح اپنے سا تھ کراتے رہیں۔ جو بچے بالکل چھوٹے ہیں مگر دوڑتے پھرتے ہیں ان کو چاہیے کہ دو چھو ٹی چھو ٹی چادریں احرام کی بندھوا دی جائیں۔ اور والدین بچے کی طرف سے تلبیہ پڑھیں اور ہر مقام پر جو نیت اپنے لیے کریں وہ بچے کے لیے بھی کرتا رہے۔ بچوں کا بھی حج ہو جائے گا
جنایات
ممنوعات احرام یا ممنوعات افعال حج میں سے کوئی بھی چیز بلا عذر سرزد ہو گئی تو اس کی جزا یا کفارہ لا زم ہو گا۔ اگر کسی جانور کا شکار کیا تو اس کے بدلے میں اسی طر ح کا جانور وہاں خیرات کرنا پڑے گا۔ مثلاً ہرن شکار کیا تو بکرا یا دنبہ نیل گائے شکار کی تو اس کے بدلے میں گائے ذبح کرنی پڑے گی۔ جوں، ٹڈی، مچھر یا مکھی مار دی تو ایک دو ریال صدقہ کر دے۔ اگر سر کے بال داڑھی کے بال منڈھوا دیے یا ہا تھ پیروں کے نا خن کٹوا دیے یا سلا ہوا کپڑا تمام دن پہنے رکھا۔ ان حالتوں میں ایک بکرا یا دنبہ ذبح کرنا پڑے گا۔
اگر خوشبو کا استعمال کیا پھر بھی یہ ہی جزا ہو گی۔ اگر خوشبو بھی لگائی اور احرام کی حالت میں سلے ہوئے کپڑے بھی پہنے تو دو جانور ذبح کرنے پڑیں گے۔اگر عورت کو شہوت سے ہا تھ لگایا یا بوسہ لیا تو ایک جانور دینا پڑے گا۔ اگر کسی صاحب نے احرام کی حالت میں دوسرے کا سر مونڈھا تو ایک دو ریال صدقہ کر دے۔ پھول سونگھنے سے کچھ جزا نہیں ہے۔احرام باندھنے سے وقوف عرفات تک جماع کیا تو حج فاسد ہو جائے گا۔ احتلام آ نے سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ یاد رکھیں جو بھی دم دینا پڑے گا اسے حدود حرم میں ہی دینا پڑے گا۔ مزید مسائل کے لیے کسی عالم دین سے رجوع فرمائیں۔
٭٭٭
مسائل قربانی
قربانی کرنے کا بہت بڑا ثواب ہے۔ نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا ہے قربانی کے دنوں میں قربانی سے زیادہ کوئی چیز اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں۔ قیامت کے روز قربانی کے جانور کو اسی طرح میزان میں تول دیا جائے گا اور جانور کے ہر ہر بال کے عوض ایک ایک نیکی نامہ اعمال میں لکھ دی جا تی ہے۔
ہر بالغ مسلمان مرد و زن جو صاحب نصاب ہو یعنی جس پر زکوۃ فرض ہے یا صدقہ فطر واجب ہے اس پر قربانی بھی واجب ہے۔ قربانی فی گھر نہیں بلکہ گھر کے تمام افراد جو صاحب نصاب ہوں سب پر واجب ہوتی ہے۔ قربانی متوفیان کی طرف سے بھی کی جا سکتی ہے۔ بالخصوص فخر کون و مکاں پیارے پیغمبر حضرت محمد مصطفی احمد مبتبی ﷺ کی طرف سے قربانی کرنا بہت بڑا اجر و ثواب ہے۔ مسافر پر قربانی واجب نہیں ہے۔ مسافر اسے کہتے ہیں جو 48 میل یعنی 72 کلومیٹر گھر سے دور جا چکا ہے۔
وہ حجاج کرام جن کو سات ذولحج کو مکہ مکرمہ میں قیام کیے ہوئے پندرہ دن گذر گئے ہوں، وہ حج تمتع یا قران کر رہے ہوں تو وہ دو قربانیاں کریں گے۔ ایک حج کی قربانی ایک عید کی قربانی۔ ایسے حجاج کرام جن کو سات ذ اولحج کو مکہ مکرمہ میں پندرہ روز نہ گذرے ہوں تو وہ صرف حج کی ایک قربانی کریں گے۔ ان پر عید الاضحی کی قربانی بوجہ مسافر ہونے کے واجب نہیں۔ یہ حجاج کرام حج کی قربانی تو منیٰ میں کریں گے عید کی قربانی اپنے وطن میں بھی کسی کو کہہ کر کرواسکتے ہیں۔
قربانی صرف پالتو جانوروں کی کی جاتی ہے۔ جنگلی جانور کی قربانی مثلاً ہرن، نیل گائے وغیرہ کی جائز نہیں ہے۔ قربانی کے جانور اور ان کی عمریں یہ ہوں گی۔ اونٹ کی عمر پانچ سال، گائے بھینس کی عمر دو سال، بکرا بکری کی عمر ایک سال، مینڈھا دنبہ نر مادہ کی عمر ایک سال سے کم بھی ہو مگر موٹا تازہ ہو تو بھی جائز ہے۔ قربانی کے جانوروں کا صحیح سالم تندرست ہو نا شرط ہے۔ اگر کوئی جانور اتنا دبلا پتلا ہو کہ قربانی گاہ کی طرف اپنے قدموں پر چل کر بھی نہ جا سکے تو اس کی قربانی درست نہیں۔
جو جانور اندھا یا کانا ہویا ایک آنکھ کی تہا ئی یا اس سے زیادہ بینائی جاتی رہی ہو، ایک کان یا دونوں کان تہائی یا تہائی سے زیادہ کٹ گئے ہوں۔ دم تہائی سے زیادہ کٹ گئی ہو۔ سینگ جڑ سے اکھڑ گئے ہوں ایسے جانور جس کے منہ کے دانت تمام کے تمام نکل گئے ہوں۔ ایسا جانور جس کے پیدائش سے ہی کان نہ ہوں تو ان سب جانوروں کی قربانی جائز نہیں ہے۔ سینگ ٹوٹ چکے ہیں اندر کچھ نشان باقی ہیں کان پیدائشی طور پر بالکل چھوٹے چھوٹے ہیں سینگ پیدائشی طور پر ہی اگے ہوئے نہیں ہیں۔ جانور خصی کیا ہوا ہے۔ منہ میں دانت اکثر ٹوٹ گئے مگر کچھ باقی ہیں۔ تو ان سب جانوروں کی قربانی جائز ہے۔
جنگلی و پالتو جانور کے ملاپ سے کوئی بچہ پیدا ہوا ہو تو قربانی کرنے کے لیے نر جانور کی طرف اس کی نسبت ہو گی۔ گابھن جانور کی قربانی بھی جائز ہے۔ بچہ زندہ نکل آیا تو اسے بھی ذبح کرنا پڑے گا۔ مناسب یہ ہے کہ جانور خریدتے وقت خیال کریں کہ گابھن نہ ہو۔
قربانی کا وقت عید الاضحی کی نماز پڑھ کر شروع ہوتا ہے۔ اور بارہ ذو الحج کے غروب آفتاب کے ساتھ ہی ختم ہو جاتا ہے دن ہو یا رات قربانی کی جا سکتی ہے۔
قربانی کے جانور اونٹ گائے بیل بھینس بھینسامیں سات حصے دار شامل ہو سکتے ہیں۔ کچھ حصہ داران کا ارادہ قربانی کا ہے، کچھ کا عقیقے کا تب بھی قربانی درست ہے۔ اس کے علاوہ کسی دوسری نیت سے شمولیت درست نہیں۔ قربانی کے جانور میں سات حصے دار شریک ہوں تو گوشت تول کر وزن کر کے پورا پورا بانٹا جائے گا۔
قربانی کے جانور کے گوشت کے تین حصے کیے جا تے ہیں ایک گھر میں ایک قریبی احباب میں اور ایک دور کے احباب میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ایک تہائی حصے سے زیادہ بھی گھر میں استعمال کر لے تو غیر مستحب ہے گناہ نہیں۔ قربانی کے جانوروں کی کھال اس کی رسی جھول جھانجھریں وغیرہ سب کی سب خیرات کرنا واجب ہے۔ قربانی کی کھال سے مصلی ڈول بنا لیا جائے تو جائز ہے۔ اگر کھال فروخت کر دی تو قیمت صدقہ کرنا واجب ہے۔ قربانی کے جانور کا گوشت غیر مسلم کو بھی دیا جا سکتا ہے۔ قصاب کو ذبح کے عوض کھال دینا یا گوشت دینا جائز نہیں ہے۔ تمام قربانی ضائع ہو جائے گی۔ کسی فوت شدہ کی وصیت پر یا منت مان کر قربانی کی گئی ہو تو اس جانور کا گوشت گھر میں استعمال کرنا جائز نہیں۔ تمام تر خیرات کرنا پڑے گا۔
قربانی کا جانور خریدا تھا گم ہو گیا، نیا خرید لیا چند دن بعد گم شدہ بھی مل گیا۔ اگر امیر آدمی ہے تو دونوں جانور ذبح کرے گا اگر غریب آدمی ہے تو کسی ایک کو ذبح کر دے۔ قربانی کے دنوں میں جانور ذبح نہیں کر سکا تو اسی قسم کا جانور لے کر دوسرے دنوں میں خیرات کرنا واجب ہے۔ قربانی کا جانور خود ذبح کرنا نا زیادہ ثواب ہے یا کم از کم پاس کھڑا ہو اجازت دینا ضروری ہے۔ چاہے کسی وقت بھی دے ڈالے قربانی کی کھالیں فقراء مساکین بالخصوص دینی مدارس کے طلباء کا حق ہے۔ ان کی قیمت تعمیرمساجدپر لگانا بالکل ناجائز ہے۔
٭٭٭
محرم الحرام و شہدائے کربلا
اس وقت اسلامی سال نو 1435ھ کا مہینہ محرم الحرام شروع ہے۔ عربی قواعد کے مطابق یہ اسم مفعول ہے۔ جو کہ تحریم سے بنا ہے تحریم باب تفعیل ہے۔ تحریم کے بہت سے معنی ہیں۔ ایک معنی تعظیم کرنے کا بھی ہے۔ اس لحاظ سے محرم کا معنی ہے عظمت والا احترام والا مہینہ۔
حضور اکرم ﷺ کی آمد سے قبل بھی دوسری شریعتوں میں چار مہینے بہت فضیلت والے گنے جا تے تھے جن کا قرآن کریم میں یوں تذکرہ ہے ےَسْءَلُوْنَکَ عنَِ الشَّھْرِ الْحَرَامْ۔ان مہینوں کا اہل عرب بھی بہت احترام کرتے تھے۔ عرب قوم باوجود اکثر قتل و غارت میں مصروف رہنے کے پھر بھی ان مہینوں میں جنگ و جدال سے پرہیز کرتے تھے یہ رجب المرجب، ذیقعد ذی الحج اور محرم الحرام تھے۔ حضور اکرم ﷺ کی تشریف آوری کے بعد بھی یہ مہینے اسی طرح سے حرمت والے کہلاَئے ہیں۔
محرم الحرام کی دسویں تاریخ کو تاریخ عالم میں خاص اہمیت حا صل ہے۔ مشہور قول کے مطابق سیدنا حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش کی تاریخ دس محرم الحرام ہے۔ اس لیے آپ کی شریعت میں دس تاریخ کا روزہ فرض تھا اور آدم علیہ السلام ہمیشہ دس تاریخ کا روزہ رکھا کرتے تھے۔ دس محرم الحرام وہ اہم تاریخ ہے جس دن مصر کا نافرمان خدا بادشاہ فرعون قلزم میں غرق ہوا تھا۔ اور حضرت موسی علیہ السلام نے مع اپنی قوم بنی اسرائیل اس کے مظالم سے نجات پائی تھی۔ حضرت موسی علیہ السلام اللہ تعالی کے شکرانہ کی ادائیگی کے لیے ہمیشہ دس محرم کا روزہ رکھا کرتے تھے۔ آپ کی اقتداء میں قوم یہود نے بھی ہمیشہ اس تاریخ کا روزہ رکھا۔
حضور اکرم ﷺ جب مدینہ طیبہ تشریف لائے تو آپ نے یہودیوں کو اس تاریخ کو روزہ رکھے ہوئے دیکھا تو آپ نے فرمایا ہمارے لیے بھی دس محرم اسی طرح سے قابل احترام ہے۔ لیکن مسلمان اپنا امتیاز اور تشخص قائم رکھنے کے لیے نویں اور دسویں محرم کا روزہ رکھا کریں۔ اس لیے صحابہ کرام ہمیشہ یہ دو روزے رکھا کرتے تھے۔ حضور اکرم ﷺ دس محرم الحرام کو کثرت سے خیر خیرات کرنے کی بھی تبلیغ فرمایا کرتے تھے آپ کے فرمودات عالیہ سے یہ بات ملتی ہے کہ جو شخص دس محرم الحرام کو خیر خیرات کرے گا تو اللہ تبارک و تعالی جل جلالہ و عم نوالہ اس کے رزق میں فراخی پیدا کر دیں گے۔ یہی وہ دس تاریخ ہے جس دن قیامت آئے گی اور اللہ تبارک و تعالی اس کائنات کی بساط لپیٹ دیں گے۔
محرم الحرام کو اسلامی تاریخ میں اس لیے بھی خصوصی اہمیت حا صل ہو گئی کہ اس کی یکم تاریخ خلیفہ دوم سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کی تاریخ ہے۔ جنہیں نبی کریم ﷺ نے اللہ تبارک و تعالی سے مانگ کے لیا تھا اور اللہ تعالی نے آپ کو رسول اللہ ﷺ کی مراد بنا کر آپ کی جھولی میں ڈال دیا تھا۔ جن کے فضائل سے کتب بھری پڑی ہیں۔
دوسری اہم ترین اہمیت محرم الحرام کو اس عظیم درد ناک واقعہ سے ہوئی جو کہ کربلاء معلی میں نواسہ رسول پاک ﷺ جگر گوشہ بتول سیدہ فاطمۃ الزہرا فرزند ارجمند شیر خدا سیدنا حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ اور آپ کے ساتھیوں کی شہادت کا ہوا۔ یہ وہ کربناک افسوس ناک دکھ بھری شہادت کی کہانی ہے کہ جس پر امت مسلمہ نے اتنے آنسو بہائے ہیں کہ اگر قدرت خداوندی سے وہ سب آنسو جمع ہو جائیں تو دنیا میں ایک دجلہ اور فرات اور بہنے لگیں۔
سیدنا حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ وہ نسبی شرافت رکھتے ہیں جس کا کوئی جواب نہیں ہے۔ آپ ہمارے پیارے پیغمبرسید الکائنات فخر کون و مکاں رحمۃ اللعلمین شفیع المذنبین سیدنا حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیﷺخاتم النبیین کے نواسے ہیں۔ شیر خدا سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ کے صاحبزادے ہیں وہ علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کرم اللہ وجہہ جنہیں حضور اکرمﷺ نے باب العلم کا خطاب عطاء فرمایا جن کی فضیلت عظمت سے کتب بھری پڑی ہیں۔ جو دس سال کی عمر میں اسلام لا کر اول المسلمین میں شمار ہوئے۔ اور پوری زندگی میں اسلام کی شان و شوکت کو دوبالا کرنے میں گذار دی۔ اور بالاخر اللہ کی راہ میں ہی کوفی کی جامعہ مسجد میں نماز پڑھاتے ہوئے شہید ہو گئے۔
آپ کی نانی صاحبہ پوری امت کی ماں ام المومنین سیدہ خدیجۃ الکبری رضی اللہ تعالی عنہا جو کہ محسنہ نبوت ہیں۔ جو خواتین میں سب سے قبل اسلام لا کر او ل المسلمات کہلائیں۔ جو چالیس برس کی عمر میں جب کہ پیارے پیغمبرﷺ کی عمر مبارک 25 برس تھی نکاح میں آئیں اور 25 سالہ جانثاری کی رفاقت کے بعد خالق حقیقی سے جا ملیں۔ جن سے اللہ تبارک و تعالی نے حضور اکرم ﷺ کو صالح اولاد یعنی چار بیٹے اور چار بیٹیاں عنایت فرمائیں۔ ام المومنین نے اپنا تمام مال نبی کریم ﷺ کے قدموں پر نچھاور کر دیا۔ یہ وہ عظیم ہستی ہیں جن کو اللہ تبارک و تعالی نے عرش سے جبرائیل امین ؑ کے ذریعے سلام بھیجا تھا۔
اور بشارت دی تھی کہ اے اللہ کے پیارے پیغمبر ﷺ اللہ تبارک و تعالی نے سیدہ خدیجۃ الکبری رضی اللہ تعالی عنہا کے لیے جنت میں ایک خوبصورت محل بنایا ہے جو صرف ایک ہی موتی سے بنا ہوا ہے۔ حضرت خدیجۃ الکبری تاریخ اسلام میں خاتون اول کے لقب سے یاد کی جاتی ہیں۔ سیدنا حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی والدہ ماجدہ اللہ کے رسول کے دل کا ٹکڑا سیدہ طاہرہ بتول فاطمۃ الزہرا ء رضی للہ تعالی عنہا ہیں۔
آپ کے بطن مبارک سے تین بیٹے حضرت حسن حضرت حسین حضرت محسن اور دو بیٹیاں حضرت ام کلثومؓ اور حضرت زینبؓ پیدا ہوئیں۔ حضور اکرم ﷺ کی نسل اسی شہزادی حضرت فاطمۃ الزہراء کی نسل سے چلی۔ آج دنیا میں جتنے بھی اصلی اور نسلی حقیقی سادات کرام ہیں یہ آپ کی ہی اولاد ہیں۔ حضور اکرم ﷺ کی رحلت طیبہ کے 6 ماہ بعد ماہ رمضان المبارک گیارہ ہجری میں اس جہان فانی سے عالم جاوداں کی طرف سفر کر گئیں۔ انا لللہ وانا الیہ راجعون۔
جیسے کہ ایک فطری امر ہے کہ سب سے چھوٹا بچہ بہت لاڈلا ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ دیر تک ماں کی گود میں کھیلتا رہتا ہے۔ اس لحاظ سے بھی اور دیگر خصوصی خوبیوں اور کمالات کی بناء پر بھی سرکار دو عالمﷺ کو اپنی اس شہزادی سے والہانہ محبت تھی۔ فرمایا کرتے تھے فاطمہ میرے دل کا ٹکڑا ہے۔ جس نے فاطمہ کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے ان کے بھتیجے جمیع بن عمیر نے پوچھا حضو راکرم ﷺسب سے زیادہ کس سے محبت رکھتے تھے انہوں نے فرمایا سیدہ فاطمۃ الزہرا ؓ سے۔ پھر انہوں نے سوال کیا کہ مردوں میں سب سے زیادہ کس پر شفقت فرما تے تھے۔ جواب دیا حضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ سے۔
حضرت فاطمۃ الزہرا کا گھر حضور اکرم ﷺ کے گھر کے متصل تھا۔ اس لیے آپ اکثر و بیشتر ان کے گھر میں تشریف لے جاتے اور اسی طرح بیٹی والد محترم کے دولت کدہ پر تشریف لا تی رہتیں۔ جب حضرت فاطمۃ الزہرا حضور اکرم ﷺ کے گھر تشریف لاتیں تو آپ کھڑے ہو جا تے بیٹی کو گلے لگا تے اور جہاں سے بال شروع ہو تے ہیں یہاں سے بیٹی کی پیشانی چومتے تھے اس کے جواب میں حضرت فاطمہ ابا جی کا ہا تھ اپنے ہا تھ میں لے کر پشت کی طرف سے چوم لیا کرتی تھیں۔ آپ ﷺ جب سفر میں تشریف لے جا تے امہات المومنین کے تمام گھروں سے ہو کر آخری گھر جس میں تشریف لے جا تے وہ بیٹی کا گھر ہوا کرتا۔ اور جب سفر سے واپس آ تے تو سب سے پہلے بیٹی کے گھر میں تشریف لے جا تے۔
جب کبھی کوئی ہدیہ اور تحفہ پیارے پیغمبر ﷺ کو پیش کیا جاتا تو اکثر و بیشتر اس سے بیٹی کے گھر میں بھیجتے تھے۔ آپ نے زندگی کے آخری لمحات میں آپ کو بتلا دیا کہ میرا سفرآخرت قریب ہے اور سب سے پہلے میرے اہل بیعت سے آپ مجھ سے ملیں گی۔ یہی ہوا کہ آپ کی رحلت طیبہ کے چھ ماہ بعد اہل بیعت میں سے سب سے پہلے آپ والد محترم کے پاس تشریف لے گئیں۔آپ کو خاتون جنت کا خطاب بھی اسی روز عطاء فرمایا گیا۔ تسبیحات فاطمہ 33 دفعہ سبحان اللہ 33 دفعہ الحمد للہ 34 دفعہ اللہ اکبر جس کے پڑھنے سے زمین و آسمان کے خلاء کے برابر نیکیاں ملتی ہیں، یہ حضور اکرم ﷺ کا عطاء فرمودہ تحفہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے لیے تھا اور آپ نے یہ تحفہ پوری امت کو عطاء فرمایا۔
علاوہ ازیں بے شمار فضائل و مناقب اس عظمت والی شہزادی کے مو جود ہیں جن سے کتب احادیث و سیرت بھری پڑی ہیں۔ 3 ہجری میں سیدنا حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ پیدا ہوئے۔اور 4 ہجری میں ماہ شعبان میں سیدنا حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی ولادت باسعادت ہوئی۔ ان دونوں شہزادوں کی شکل و صورت امی جان کی نسبت کی اپنے نانا جان حضور اکرمﷺسے بہت زیادہ مشابہت رکھتی تھی۔ حضور اکرم ﷺ کو ان دونوں صاحبزادوں سے والہانہ محبت تھی۔ فرمایا کرتے تھے حسن اور حسین دنیا میں میرے دو پھول ہیں اور یہ بھی فرمایا حسن اور حسین جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔
ان پر شفقت کے کئی پیارے واقعات ہیں۔ایک دفعہ آپ ممبر پر واعظ فرما رہے تھے کہ یہ دونوں صاحبزادے آ رہے تھے اور قمیض میں پاؤں پھنسنے سے گر پڑے تو حضور اکرم ﷺ نے ان دونوں کو اٹھا کر ممبر پر اپنے پہلو میں بٹھا لیا۔ حضرت اسامہ بن زید سے فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کی دونوں رانوں پر حسنؓ اور حسینؓ کو بیٹھے دیکھا اور فرما رہے تھے یہ دونوں میرے بیٹے ہیں اور میری بیٹی کے بیٹے ہیں۔ اے اللہ میں ان دونوں سے محبت رکھتا ہوں تو بھی ان سے محبت فرما۔ اور ہر اس شخص سے محبت فرما جو ان سے محبت کرتا ہو۔ آپ کایہ بھی ارشاد عالی موجود ہے کہ حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔ جو حسینؓ سے محبت رکھے اللہ تعالی اس سے محبت رکھے۔
حضرت حسینؓ کی شہادت کی خبر آپ نے اپنی زندگی مبارک میں ہی دے دی تھی۔ واقعہ کربلا ء معلی میں بہت تفصیل ہے مگر اس وقت اختصار کے ساتھ بیان کیا جا رہا ہے کہ 35 ہجری میں سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ شہید کر دیے گئے۔ ان کی شہادت کے بعد مسلمانوں میں بعض نا عاقبت اندیش لوگوں کی سازش سے غلط فہمی پیدا ہو گئی اور سلطنت اسلام دو حصوں میں بٹ گئی۔ شام کا علاقہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فرمان روائی میں چلا گیا اور عراقی علاقہ سیدنا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت میں آ گیا۔17 رمضان المبارک چالیس ھجری کو سیدنا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کوفہ کی جامع مسجد میں شہید کر دیا گیا۔ آپ کے بعد آپ کے بڑے صاحبزادے سیدنا حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفہ مقرر ہوئے۔
ان کو اپنے ناناجان کی ایک حدیث پہنچی تھی کہ یہ میرا بیٹا حسن سید ہے قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ سے مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں میں صلح کرا دے گا۔ آپ نے اس بشارت کا مستحق بننے کے لیے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صلح کر لی اور خود 41 ہجری میں خلافت سے دستبردار ہو گئے۔ اس طرح سے ملت اسلامیہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سربراہی میں ایک جھنڈے کے نیچے آ گئی۔ 5 ربیع الاول 50 ھجری کوسیدنا حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان کی بیوی جعدہ دختر اشعث ملعونہ نے زہر دیدیا اس طرح سے آپ نے جام شہادت نوش فرمایا۔
60 ہجری میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وفات پائی۔ان کے بعد ان کا بیٹا یزید تخت نشین ہوا جس کے دور میں تاریخ اسلام کا وہ اندوہ ناک واقعہ پیش آیا جس پر امت قیامت تک آنسو بہاتی رہے گی۔ واقعہ کی مختصر تفصیل یہ ہے کہ جب یزید نے بیعت لی تو چار عظیم المرتبت ہستیوں نے بیعت سے انکار کر دیا۔ 1۔سیدنا حضرت امام حسینؓ بن سیدنا علی ا لمرتضیؓ کرم اللہ وجہ-2سیدنا حضرت عبداللہؓ بن عمرؓ 3۔ سیدنا حضرت عبداللہؓ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ 4۔ سیدنا حضرت عبداللہؓ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ یہ چاروں عظیم المرتبت ہستیاں مکۃ المکرمہ میں مقیم تھیں۔ چند روز بعد کوفہ جو کہ سیدنا حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ کا پایہ تخت رہا تھا وہاں کے لوگوں نے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خطوط لکھے کہ ہمارے اوپر بہت سے مظالم ڈھائے جا رہے ہیں ہمیں ان سے نجات دلانے کے لیے آپ کوفہ تشریف لائیں۔
آپ نے پہلے تو انکار کیا مگر پھر ان کا اصرار بڑھنے پر ارادہ فرما لیا حضرت عبداللہؓ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عبداللہؓ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس ارادے سے منع کیا۔ مگر آپ کوفیوں کے آئے ہوئے 1200 خطوط سے اس قدر متا ثر کر چکے تھے کہ آپ نے بہر حال ارادہ سفر کر لیا اور آپ 10 ذو الحج 60 ہجری کو گھر کے تمام افراد جن میں مرد عورتیں اور بچے وغیرہ شامل تھے مکۃ المکرمہ سے عراق کی جانب روانہ ہو گئے۔ یزید نے یہ خبر پاکر کوفہ کے گورنر عبیداللہ بن زیاد کو اس معاملے سے نمٹنے کے لیے مقرر کیا۔
اس نے کوفہ کی فوجی چھاؤنی کے کور کمانڈر عمرو بن سعد کو یہ ذمہ داری سونپ دی۔ اس اثناء میں حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کربلاء معلیٰ کے مقام پر پہنچ چکے تھے۔ عمر بن سعد نے معلومات پاکر کر بلاء معلی کے میدان میں حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ہمراہیوں کو گھیرے میں لے لیا اور مذاکرات شروع ہو گئے۔ آپ نے فرمایا کہ میری تین باتیں ہیں یا تو مجھے واپس مکۃ المکرمہ لوٹنے دیا جائے یا دمشق جانے دیں، میں خود یزید سے معاملات طے کر لوں گا۔ تیسری بات یہ ہے کہ مجھے کسی غیر مسلم کی سرحد تک جانے دیں میں وہاں اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کروں گا۔
عمر و بن سعدؓ رضامند ہونے کے قریب تھا کہ نائب سپہ سالار شمر ذی الجوشن جو اول درجے کا بدبخت اور دشمن اہل بیت عظام تھا اس نے کوفہ کے گونر عبید اللہ بن زیاد جس نے حضرت امام حسینؓ کے چچا زاد بھائی حضرت مسلم بن عقیلؓ کو بے دردی سے شہید کر دیا تھا سے کہا اگر حسینؓؓ بچ گئے تو وہ یزید سے مسلم بن عقیل کے قصاص کا مطالبہ کریں گے۔ جس کے عوض میں تم قتل کر دئے جاؤ گے۔ بہتر ہے کہ حضرت حسین کا یہاں ہی کام تمام کر دیا جائے۔ ابن زیاد کی بدبختی غالب آ گئی اس نے شمر ذی الجوشن سے اتفاق کیا اور عمر بن سعدؓ کو پیچھے ہٹا کر شمر بن جوشن کو اس دستے کا سربراہ مقرر کر دیا جو حضرت حسینؓ سے نمٹے گا۔
اس پر شمر نے کمان سنبھال لی اور دریائے فرات کا پانی بند کر دیا۔ اہل بیت پانی کی بوند بوند کو ترس گئے اور مطالبہ کیا کہ اس کے ہاتھ پر نائب یزید ہونے کی حیثیت سے پہلے بیعت کی جائے۔ پھر یزید کے ہاتھ پر اس ناپاک کے ہاتھ پر بیعت کرنے سے حضرت امام حسینؓ نے انکار فرما دیا در اصل یہ ملعون شمر کی محض خباثت تھی وہ ہر حال میں نواسہ رسولؓ کو ختم کرنے کے درپے تھا۔ اس کے بعد شمر کی فوج سامنے آئی تو اس میں بہت سے وہ کوفی بھی موجود تھے جن کے خطوط حضرت حسینؓ کو وصول ہو چکے تھے۔ آپ نے ایک ایک کو خطاب کر کے ان کے خطوط دکھلائے مگر کسی کو غیرت نہ آئی۔
یہ خوفناک حالات سات محرم سے دس محرم تک جاری رہے آخر دس محرم الحرام 61 ھ کو ان ظالموں نے نواسہ پاکؓ حضور اکرم ﷺ کو سجدے کی حالت میں شہید کر دیا۔ اور آپ کا سر مبارک ایک طشت میں رکھ کر ملعون ابن زیاد کے پاس روانہ کر دیا۔ حضرت امام حسینؓ کے ساتھ 16 افراد آپ کے گھر والے بھی شہید ہوئے باقی مظلومین کو حضرت امام حسینؓ کے سر مبارک سمیت ایک گاڑی پر سوارکرکے دمشق بھیج دیا گیا۔ جب یہ لٹا پٹا قافلہ دمشق پہنچا تو ایک کہرام مچ گیا۔ چونکہ بہت سی خواتین کی رشتہ داری آپس میں موجود تھیں اس درد ناک منظر کو بیان نہیں کیا جا سکتا۔
دس محرم الحرام ہمیں صبر و تحمل کا سبق دیتا ہے اس روز کثرت سے تلاوت کلام پاک اور درود شریف پڑھ کر اور جو کچھ اللہ تعالیٰ توفیق دے اہل بیت عظام کو ایصال ثواب کرنا چاہیے اور ہر اس کام سے اجتناب کرنا چاہیے جس سے اللہ تبارک و تعالیٰ جل جلالہ وعم نوالہ حضور اکرم ﷺ اہل بیت عظامؓ اور صحابہ کرامؓ کی ناراضگی کا اندیشہ ہو۔ وآخر دعوانا عن الحمد اللہ رب العالمین
٭٭٭
معراج النبی ﷺ
اسلامی سال کے مہینہ رجب کی آ مد سے عرش معلیٰ کے معزز مہمان سیدہ آمنہ کے در یتیم رحمۃ اللعلمین شفیع المذنبین ﷺ کے اس خیرو برکت سے معمور سفر کی یاد تازہ ہو جاتی ہے جو آپ کے معجزات میں سے ایک انوکھا معجزہ ہے۔ معراج سب انبیاء کرام کو نصیب ہوا مگر مقام جد ا جدا تھا۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو نار نمرود میں دیدار خداوندی نصیب ہوا۔ سیدنا اسماعیل علیہ السلام کو باپ کی چھری کے نیچے ذبح ہو تے وقت انوارات الہیہ نظر آئیں۔ حضرت موسیؑ کلیم اللہ علیہ السلام کو طور پر بلا کر اپنی تجلیات دکھلائیں۔ حضرت عیسی ؑ روح اللہ علیہ السلام کو آسمانوں پر اٹھاتے وقت اپنی زیارت کرائی۔ جیسے سرور کون و مکاں کی ذات اور تمام صفات سب انبیاء کرام سے افضل و اعلیٰ ہیں اسی طرح آپ کو جن معجزات سے سرفراز فرمایا گیا وہ معجزات بھی اسی طرح اعجازی شان میں بہت اعلی و بالا ہیں۔ اللہ تعالی نے وہ تمام کمالات اور معجزات جو حضرات انبیاء کرام علیہم الصلوۃ ولسلام کو دئے تھے، وہ سب کے سب آپ میں جمع کر دئے: حسن یوسف دم عیسی ید بیضا داری آں چہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
معراج کیا ہے
معراج شریف در اصل محبوب و محب، ساجد و مسجود، عابد و معبود، طالب و مطلوب کی داستان محبت اور اسرار شریعت کا وہ انمول خزانہ ہے جس سے عشاق کے دامن ہیروں و جواہرات سے بھر جاتے ہیں۔ معراج در اصل حقیقت محمدی اور عظمت محمدی کی عملی تصویر کا دوسرا نام ہے۔
حرم مکہ مکرمہ سے مسجداقصی تک
حضور اکرم ﷺ کے اس سفر مقدس کے دو حصے ہیں۔ جو سفر مکہ مکرمہ سے مسجد اقصی تک ہوا اسے اسریٰ کہتے ہیں۔ اور سفر کا وہ حصہ جو مسجد اقصی سے عرش معلی تک ہوا اسے معراج کہتے ہیں۔ قرآن کریم میں اس واقعہ کو دو حصوں میں بیان کیا گیا ہے۔ سورہ بنی اسرائیل آیت نمبر1 جس کا ترجمہ ہے: “ پاک ہے وہ ذات جس نے سیر کرائی اپنے بندے کو رات کے ایک حصہ میں مسجدالحرام سے مسجد الاقصیٰ تک جس کے اردگرد ہم نے برکتیں رکھیں ہوئی ہیں۔ تاکہ ہم دکھلائیں اپنی قدرت کی نشانیاں بیشک وہ سب کچھ سننے والا دیکھنے والا ہے۔“ دوسری جگہ سورہ نجم آیت نمبر 8 تا 18 جس کا ترجمہ ہے: “ پھر وہ قریب ہوتے گئے اور بہت آگے بڑھ گئے کہ فاصلہ رہ گیا دو کمانوں کے برابر یا اس سے بھی کم۔ پھر وحی کی اپنے بندے کی طرف جو وحی کرنا تھی جو انہوں نے دیکھا اسے سچ جانا۔ اے لوگو جو کچھ وہ دیکھ چکے ہیں کیا تم اس میں جھگڑتے ہو۔ انہوں نے جبرئیل کو ایک بار پھر اصلی شکل میں سدرۃ المنتھیٰ پہ دیکھا جس کے قریب ہی جنت الماویٰ بھی ہے۔ اس وقت بیری کے درخت پر چھا رہا تھا جو چھا رہا تھا ان کی آنکھ نہ تو اور طرف مائل ہوئی اور نہ حد سے آگے بڑھی۔ انہوں نے اپنے پروردگار کی قدرت کی بہت بڑی بڑی نشانیوں کو دیکھا۔“
بہن کے گھر بھائی مہمان
آپ معمولات روز مرہ سے فارغ ہو کر اپنی چچا زاد بہن سیدہ حضرت ام ہانیؓ بنت جناب ابی طالب کے گھر مہمان تھے اور آرام فرما رہے تھے کہ حضرت جبرئیل ؑ تشریف لائے اور آپ کو انتہائی ادب و احترام سے بیدار کیا اور سفر معراج کی خوش خبری سنائی اور آپ کو ہمراہ لیکر مسجد حرام میں تشریف لے آئے۔ وضو کرنے کے لیے فرمایا اور لیٹنے کے لیے گذارش کی اور شق صدر کے ذریعہ قلب مبارک کو نکال کر زریں تشت میں رکھ کر آب زمزم سے دھویا۔ پھر اسے کھولا اور اس میں نور حکمت بھرکر بند کر دیا اور اپنے اصلی مقام پر رکھ کر سینے کو سی دیا اور سفر کی تیاری کے لیے عرض کی آنجناب نے دو نفل شکرانہ کے ادا فرمائیے۔ اتنے میں ایک نہایت خوبصورت سواری نمودار ہوئی جس کے متعلق جبرئیل ؑ نے کہا یہ براق ہے جو آپ کے اس سفر کی سواری ہے۔ اس پر تشریف رکھئیے۔ حضور اکرم ﷺ اس پر سوار ہو گئے۔ حضرت جبرائیل ؑ نے دائیں رکاب تھام لی اور حضرت میکائیل ؑ نے بائیں رکاب تھام لی۔
براق نے چشمہ زدن میں سفر شروع کر دیا۔ اور آنکھ جھپکنے کی دیرسے بھی پہلے کھجوروں کے ایک جھنڈ میں جا اترا۔ حضرت جبرائیل ؑ نے فرمایا یہ یثرب یعنی شہر مدینہ طیبہ ہے چند روز بعد آپ ہجرت کر کے یہاں تشریف لائیں گے۔ وہاں دو نفل کی ادائیگی کے بعد براق فضاء میں اڑا اور وادی سینا میں اس پہاڑ پہ جا اترا جہاں حضرت موسی ؑ کو اللہ تعالیٰ سے ہمکلامی کا شرف حاصل ہوا تھا۔ وہاں بھی دو نفل کی ادائیگی کی گئی۔ بعد میں ایک اور جگہ اتراجس کے متعلق بتلایا گیا یہ بیت اللحم جائے پیدائش نبی اللہ حضرت عیسیٰ ؑ ہے۔ وہاں بھی دو نفل ادا کئے۔ پھرمدین جائے مسکن و نبوت حضرت شعیب علیہ السلام کا نظارہ کرایا گیا۔
انبیاء سابقین کی امامت
ان تمام مقدس مقامات کی سیر کراتے ہوئے اللہ کے فرشتے آں جناب ﷺ کو بیت المقدس لے کر پہنچے جہاں سابقہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی ارواح مبارکہ جسمانی شکلوں میں استقبال کے لیے ہمراہ فرشتوں کے موجود تھیں۔ جبرائیل امین نے براق کو ایک پتھر سے باندھ دیا اور حضور اکرم ﷺ کے ہمراہ مسجد میں داخل ہوئے۔ سب انبیاء کرام علیہم السلام نے آپ کا والہانہ استقبال کیا اس کے بعد صخرہ بیت المقدس پر جبرائیل ؑ امین نے اذان دی اور تکبیر کہی۔ تکبیر شروع ہوتے ہی تمام انبیاء کرام کی مسجد اقصیٰ میں صفیں لگ گئیں۔اور فرش سے سدرۃ المنتہیٰ بلکہ اس سے اوپر بھی تمام فرشتوں نے صف بندی کر لی۔ مصلی نماز با جماعت خالی تھا جبرائیل ؑ امین نے آپﷺ کا دست مبارک پکڑ کر مصلیٰ پر کھڑا کر دیا۔ یوں آپ نے جب جماعت کرائی تو اللہ کی تمام نوری خاکی مخلوقات کے امام و پیشوا ہونے کا شرف پا لیا۔
نماز سے فارغ ہو کر حضرات انبیاء کرام نے آپﷺ کی خدمت میں سپاسنامے پیش فرمائے۔ آخر میں حضور اکرم ﷺ سب کے جواب میں کھڑے ہوئے اور پہلے اپنے پیارے خالق و مالک رب العالمین کی صفت و ثناء بیان کی پھر اس کے جو جو خصوصی انعامات آپ پر تھے ان کا تذکرہ کیا۔ دین اسلام کے مکمل ہو نے اور تا قیامت باقی رہنے اور اپنے خاتم النبین ہونے کا بھی اعلان کیا۔ سرورکائنات فخر موجودات فداہ ابی و امی ﷺ جب خطبے سے فارغ ہوئے تو جد الانبیاء حضرت ابراہیم ؑ نے تمام انبیاء کرام کی طرف سے آپ ﷺ کا شکریہ ادا کیا اور سب انبیاء پر آپ کی عظمت اور رفعت مقام کا اعتراف کیا اور ساتھ ہی یہ مجلس برخواست ہو گئی۔ اور تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی ارواح مقدسہ اپنے اپنے مقامات کی طرف تشریف لے گئیں۔ جبرائیل ؑ امین نے آپ کو دو پیالے پیش فرمائے ایک جام شراب الطہور تھا اور ایک خالص دودھ سے لبریز تھا۔ آپ نے دودھ والا پیالہ قبول فرما کر نوش جان فرمایا۔
مسجد اقصی سے عرش معلی تک
مسجد اقصی میں منعقدہ تقریبات سے فارغ ہو کرآسمان کی طرف سفر کی تیاری شروع ہوئی۔اسی طرح حضرت جبرائیل و میکائیل ؑ نے رکابیں تھام لیں۔اور آپ براق پر سوار ہوئے بعض روایات میں آتا ہے کہ آپ کے لیے ایک نوری سیڑھی لگائی گئی براق پر سوار ہونا تھا کہ جبریل ؑ نے اسے پرواز کا حکم دیا۔ براق نے ایک ہی چوکڑی لگائی ہو گی کہ آسمان اول کا دروازہ جسے باب الحفظہ کہتے ہیں آب و تاب سے چمکتا ہوا سامنے تھا۔ جبرائیل ؑ نے دروازہ کھلوایا تو حضرت آدم ؑ استقبال کے لیے موجود تھے۔
آپ ﷺ نے حضرت آدم ؑ کو سلام کیا انہوں نے جواب میں فرمایا مرحبا ا لابن الصالح والنبی الصالح۔ پہلے آسمان کے عجائبات دیکھنے کے بعد آپ ﷺ دوسرے آسمان پر تشریف لے گئے وہاں حضرت یحیےٰ ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ سے ملے۔ پھر تیسرے آسمان پر تشریف لے گئے وہاں آپ کی ملاقات حضرت یوسف ؑ سے ہوئی۔ اور پھر چوتھے آسمان پر تشریف لے گئے وہاں حضرت ادریس ؑ سے ملاقات ہوئی۔پانچویں آسمان پر حضرت ہارون سے ملاقات ہوئی۔ چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ ؑ سے ملاقات ہوئی۔ ساتویں آسمان پر تشریف لے گئے وہاں حضرت ابراہیم ؑ سے ملاقات ہوئی۔ دیکھا کہ حضرت ابراہیم ؑ بیت معمور سے پشت لگائے بیٹھے ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے حضرت ابراہیم ؑ کو سلام کیا انہوں نے بھی سلام کا جواب دیا۔آپ نے دیکھا کہ دادا جان بہت سے بچوں کو پڑھا رہے ہیں پو چھا کہ یہ کیا سلسلہ ہے جواب ملا جو طالبان دین بچپن میں فوت ہو جاتے ہیں انکی ارواح کی یہاں تکمیل علم کی جاتی ہے۔آپ بے حد خوش ہوئے۔ جبرائیل ؑ سے پو چھا یہ بیت المعمور کیا ہے انہوں نے بتلایا بیت معمور قبلہ ملائکہ ہے جو ٹھیک خانہ کعبہ کی سیدھ یعنی عمود میں آسمانوں پر قائم ہے۔ روزانہ ستر ہزار فرشتے اس کا طواف کرتے ہیں ایک جماعت جس نے ایک مرتبہ اس کا طواف کر لیا ہے اب قیامت تک اس کی باری نہیں آئے گی۔
حضرت جبریل ؑ کا مسکن
بیت المعمور سے گذر کر ایک مقام پر پہنچے جسے سدرۃ المنتہی کہتے ہیں۔ جو ایک بیری کا درخت تھا۔ جس پر بڑے بڑے مٹکوں جیسے پھل لگے ہوئے تھے۔ جبریل ؑ امین نے کہا میرے آ قا یہ آپ کے خادم کا گھر ہے۔ اس نوری پرندے کا مسکن اور آشیانہ اسی درخت کی ایک ٹہنی ہے۔ سدرۃ المنتہیٰ وہ مقام ہے جہاں زمین سے اوپر جانے والی چیز پہلے اس مقام پر رکتی ہے پھر اوپر جاتی ہے اور جو چیز اوپر سے آسمان کی طرف سے آتی ہے پہلے یہاں رکتی ہے پھر نیچے آتی ہے۔ اس لیے اس کو سدرۃ المنتہیٰ کہا جاتا ہے۔
مومنین کے اصلی گھروں میں ورود مسعود:۔سدرۃ المنتہی گذر کر آپ کو بتلایا گیا کہ اب آپ وہاں چلیں گے جہاں آپ کے والد محترم آدم علیہ السلام اور اماں جان حوا علیہا السلام رہتے تھے۔اور پھر دنیا میں بھیج دیے گئے۔ اور ان کی اولاد میں سے جو بھی نیک اعمال کرنے والے ہوں گے ان کو یہاں لایا جائے گا۔
اور یہ اللہ تعالی کے انعام و اکرام کی جگہ جنتیں تھیں۔ جیسا کہ قرآن مقدس میں حق تعالیٰ شانہ نے ارشاد فرما یا عند سدرۃ المنتہیٰ عند ھا جنت المآ وی تو آپ ﷺ کو سدرۃ المنتہیٰ کے بعد جنت کی سیر کرائی گئی جہاں آپ نے اپنا محل دیکھا اور اپنے صحابہؓ اور دوسرے مومنین کے محلات کو دیکھا اور جنت کی دوسری نعمتوں کا ملاحظہ فرمایا۔ جنت کے باغات خوبصورت نہریں چشمے آبشاریں اور جنت کی مخلوقات دیکھی۔
غیض و غضب خداوندی کی جگہ
اس کے بعد جہنم کا معائنہ کرایا گیا۔ اس کے بھیانک مناظر دکھلائے گئے۔ جہاں آپ نے مختلف مجرموں کو مختلف سزاؤں میں دیکھا۔ اور جہنم میں جتنے خوف ناک عذاب تھے سیل ہیں وہ سب آپکو دکھلائے گئے جس کا مقصد یہ تھا کہ آپ ہر چیز بنظر خود دیکھ لیں۔ پھر اس کا کما حقہ پوری طرح نقشہ امت کے سامنے پیش کر سکیں۔ اس کے بعد آپ کو ایسے بلند مقام پر لے جایا گیا جہاں احکامات خداوندی کی تحریرات سامنے آتی ہیں اس مقام کو صریف الاقلام کہتے ہیں یہ ایک بہت بڑی نور کی دیوار تھی جس پر تیزی سے حروف آ رہے تھے یعنی اس مقام پر قضاء قدر کے قلم مشغول کتابت تھے۔اللہ تعالی نے نظام قدرت چلانے کے لیے جن جن شعبہ جات کے انچارج جن بڑے فرشتوں کو بنا رکھا ہے ان کی وہ نشست گاہ ہے۔ وہاں آپ نے دیکھا کہ وہ ملائکۃ اللہ امور الٰہیہ کی کتابت اور احکام خداوندی کو نوٹ کر رہے تھے۔
ہم سفر ساتھیوں کا الوداعی سلام
مقام صریف الاقلام پہنچ کر حضرت جبرئیل امین ؑ نے عرض کی اے اللہ کے پیارے پیغمبر ﷺ میری پرواز کی حد یہاں تک تھی اور براق کی طاقت بھی جواب دے گئی۔ اس سے آگے اب آپ کی شان اور آپ کاہی مقام ہے کہ آپ جا سکتے ہیں اس لیے مجھے اجازت بخش دیجئے۔
جب جبرئیل ؑ اور براق رک گئے تو آپ ﷺ نے وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا اس سے آگے انوارات الہیہ کی تجلیات اتنی تیز ہیں کہ ایک قدم بھی آگے بڑھا تو میرے پر جل جائیں گے۔
دیدار خداوندی
جہاں جبریل امین نے خدا حافظ کہا اس سےآ گے ایک بہت بڑی نور کی دیوار تھی۔ آپ ان نوری پردوں میں مسطور ہو گئے۔اور دیوار سے آگے نکل گئے۔ وہاں عرش معلی کے خاص فرشتوں نے آپ کا استقبال کیا اور اگلے سفر کے لیے ایک خاص قسم کا تخت سواری کے لیے مہیا کیا گیا۔ جس پر آپ رونق افروز ہو کر عرش معلیٰ تک پہنچے۔آپ ﷺ کو یہاں اللہ تعالیٰ کی پیاری آواز کانوں میں رس گھولتی ہوئی سنائی دی۔ پھر کیا ہوا۔ قرآن کی زبان میں ہے: “ ثم دنا فتدلی۔ فکان قاب قوسین اَوْ ادنی۔“ پھر وہ قریب ہو گئے پھر اور زیادہ قریب ہوئے یہاں تک کہ فاصلہ رہ گیا دو کمانوں کا یا اس سے بھی کم پھر کیا گفتگو ہوئی قرآن نے اسے اجمالی انداز میں یوں بتا کر بات مکمل کرد۔“ فا وحیٰ الیٰ عبدہ ما اوْ حیٰ۔“ پھر اللہ تعالیٰ نے وحی کی اپنے بندے کی طرف جو کرنا تھی۔ حضور اکرم ﷺ جب اس عظیم مقام پر پہنچے تو ادائیگی شکر کے لیے بارگاہ خداوندی میں سجدہ نیاز بجا لائے۔اور نورالسمٰوات والارض کے جمال بے مثال کو حجاب کبریائی کے پیچھے سے دیکھا اوربلاواسطہ کلام ربانی وحی ایز دی سے مشرف اور سرفراز ہوئے۔
محب اور محبوب میں تحائف کا تبادلہ
اللہ تبارک و تعالی نے فرمایا اے میرے پیارے حبیب پاک آپ میرے لیے کیا تحفہ لائے ہیں۔ تو محبوب خدا ﷺ نے جواب دیا اتحیات لللٰہ والصلوت والطیبات۔ یعنی میری تینوں قسم کی عبادتیں مالی بدنی جانی صرف آپ کے لیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب آیا السلام علیک ایھا النبی و رحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اگر آپ تین تحفے لائے ہیں تو میری طرف سے بھی تین تحفے قبول فرمائیں۔ میری طرف سے آپ کو ہمیشہ سلام پہنچے۔ میری ہمیشہ آپ پر رحمت برستی رہے اور میری طرف سے تمام برکتیں آپ پر نازل ہوتی رہیں۔غرضیکہ اللہ جل شانہ نے اس مقام پر حضور اکرم ﷺ کو گوناگوں الطاف و عنایات سے نوازا اور طرح طرح کی بشارات سے مسرور فرمایا اور خاص خاص احکامات دئیے۔
مومنین کا معراج
آپ ﷺ کو آپ کی امت کے لیے پچاس نمازوں کا تحفہ عنایت فرمایا گیا۔آپ ﷺ یہ تمام انعامات سے مالا مال ہو کر فرحاں و شاداں واپس لوٹے۔ چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ کلیم اللہ سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے سوال کیا آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ سے کیا تحفہ میں ملا آپ نے ارشاد فرمایا کہ دن و رات میں پچاس نمازیں فرض ہوئیں۔ حضرت موسیٰ ؑ نے فرمایا میں اپنی امت کا تجربہ کر چکا ہوں ان پر دو نمازیں فرض تھیں اور وہ انہیں بھی نہیں پڑھتے تھے۔آپ کی امت ضعیف اور کمزور ہے اس فریضہ کو انجام نہیں دے سکے گی اس میں تخفیف کرائیں۔ آپ ﷺ دوبارہ اللہ تعالےٰ کے پاس تشریف لے گئے اللہ پاک نے پانچ نمازیں کم کر دیں۔ پھر موسی ؑ کے پاس آئے انہوں نے پھر یہی کہا۔ آپ پھر تشریف لے گئے اللہ تعالیٰ نے پھر پانچ کم کر دیں اس طرح آپ نے 9 بار درخواست کی اور 45 نمازیں معاف ہو کر صرف پانچ باقی رہ گئیں۔ اسی لیے نماز کو تحفہ معراج کہتے ہیں۔ اسی لیے فرمان عالی ہے الصلوۃ معراج المومنین مومنین کے لیے نماز معراج کے درجے میں ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر ایک انوکھے انعام سے نواز دیا فرمایا۔ میرے پیارے نبی ﷺ میں نے آپ کی امت کے لیے ایک نیا ضابطہ بنا دیا ہے من جاء بالحسنۃ فلہ عشر امثالھا۔ آپ کی امت کا جو شخص بھی ایک نیکی کیا کرے گا ہم اس کو دس گنا شمار کر کے دیا کریں گے۔اسی ضابطے کے تحت آپ کی امت پڑھے گی پانچ نمازیں اور ہم شمار کیا کریں گے پچاس نمازیں۔ یہ سن کر آپ بے حد مسرور ہوئے۔
سفر مقدس سے واپسی:۔آپ آسمانوں سے دوبارہ گذرتے ہوئے واپس بیت المقدس پہنچے وہاں سے جبریل ؑ امین اور براق آپ کو مکۃ المکرمہ چھوڑ کر واپس چلے گئے۔ جب واپسی ہوئی تو جس پانی سے وضو کیا تھا وہ ابھی بہ رہا تھا جس بستر سے اٹھے تھے وہ بھی ابھی گرم تھا۔ آپ ﷺ نے صبح کو یہ واقعہ اہل مکہ سے بیان فرمایا وہ سن کر حیران ہو گئے۔ تصدیق کی بجائے پھبتیاں کسنے لگے شہر میں شور و غوغا برپا ہو گیا۔
زندیق کا انکار اور صدیقؓ کی تصدیق:۔ ابو جہل یہ واقعہ سنکر جا رہا تھا کہ حضرت ابو بکر صدیقؓ سے ملاقات ہو گئی۔ سوالیہ انداز میں واقعہ معراج بیان کر کے کہنے لگا اے ابوبکرؓ کیا ایسا سچ ہوسکتا ہے۔ صدیق اکبرؓ نے پوچھا یہ واقعہ کس نے بیان فرمایا ابو جہل نے آپ ﷺ کا نام لیا۔ جس پر صدیق اکبرؓ نے فرمایا آمنا وصدقنا۔ آپ کی اس تصدیق کی بنا پر حضرت ابو بکر کو صدیق اکبر کے خطاب سے نوازا گیا۔
کفار نے واقعہ سنکر آپ کا امتحان لینے کی غرض سے آپ سے بیت المقدس کے بارے میں چند سوالات کئے جو اس کی عمارت سے متعلق تھے۔ اللہ تعالیٰ نے مسجد اقصیٰ کا ماڈل آپ کے سامنے پیش کر دیا آپ ﷺ نے ہر سوال کا دندان شکن جواب دیا تو کفار مبہوت ہو گئے۔ اب کوئی اور سوال باقی نہ رہا تو کہا کہ راستے کا کوئی واقعہ سنائیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا راستے میں مجھے ایک قافلہ ملا ہے جو شام سے مکۃ المکرمہ واپس آ رہا ہے اور تیسرے دن مکہ پہنچے گا۔ اس کا ایک اونٹ گم ہو گیا اس کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ اس کا ایک خاکستری رنگ کا اونٹ سب سے آگے ہو گا۔ پھر اسی شان کے ساتھ تیسرے دن وہ قافلہ مکہ مکرمہ پہنچا اور انہوں نے اونٹ کے گم ہونے کا واقعہ بھی بیان کیا۔ یہ ہے وہ سچا واقعہ معراج جو حضور اکرم ﷺ کے بڑے بڑے معجزات میں سے ایک معجزہ ہے۔ جس کے پنتالیس صحابہؓ راوی ہیں۔
یہ خواب ہے یا حقیقت
بعض لوگوں کا یہ خیال ہے یہ نبی کریمﷺ کا ایک خواب تھا جس میں صرف روح مبارک کو سیر کرائی گئی اور یہ روحانی معراج تھا۔ یہ تحقیق بالکل غلط اور خلاف واقعہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ واقعہ جاگتے ہوئے عین بیداری کی حالت میں روح مع الجسد ہوا جس پر سیکڑوں دلائل موجود ہیں۔ایک مسئلہ رؤیت باری تعالیٰ کا ہے اس سلسلہ میں یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ حضور اکرمﷺ نے مشاہدہ انوارات الہیہ و تجلیات الہیہ ضرور کیا ہے۔ مگراس کی کیفیت کیا تھی اسے سمجھنے کے لیے اور بیان کرنے کے لیے انسانی عقل و زبان قاصر ہے۔ ہمیں اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ ہمارا ایمان ہے کہ معراج میں رؤیت باری تعالیٰ ہوئی ہے۔ایک سوال براق کی تیز رفتاری پر کیا جاتا ہے آج کے دور میں سائنسی ترقی نے تو اس کی مکمل تصدیق کر دی ہے۔ سائنس کہتی ہے کہ سورج زمین سے نو کروڑ تئیس لاکھ میل کے فاصلے پر ہے۔ اس کی روشنی ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے زمین تک سوا آ ٹھ منٹ میں پہنچتی ہے۔ اسی طرح مشتری ایک سیارہ ہے جو تیس ہزار میل فی گھنٹے کی رفتار سے دوڑ رہا ہے۔ اگر اللہ تعالی کی یہ مخلوقات اتنی تیز رفتاری سے سفر کر سکتی ہیں تو کیا اسے یہ قدرت نہیں کہ وہ براق کو یہ طاقت بخش دے۔
سبحان سے معراج کا آغاز
قرآن کریم میں جب یہ واقعہ بیان ہوا تو لفظ سبحان سے شروع کیا گیا۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ یہ بتلانا مقصود ہے کہ تم جس وجہ سے سمجھتے ہو کہ انسان معراج پر نہیں جا سکتا۔ خوب خوب سمجھ لیجیے کہ سیدالانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ کو معراج کی رفعتوں سے مالا مال کرنے والا اور اپنے محبوب پاک کو اس سفر مقدس کے انوارات سے سرفراز کرنے والا کوئی معمولی طاقت کا مالک نہیں ہے۔ بلکہ وہ وہ ذات ہے جسکے ہاں ہر کام کا فیصلہ کن فیکون ہے۔ اس کی یہ طاقت ہے کہ جہاں سب طاقتیں عاجز آ جائیں اسے وہاں بھی قدرت کاملہ حاصل ہے۔ سبحان کا مفہوم یہ ہے کہ وہ ہر نقص اور کمی سے پاک ہے ہر عجز سے منزہ ہے۔ ہر قید اور حدبندی سے بالا تر ہے۔
٭٭٭
حضرت عمر فاروقؓ۔ سوانحی خاکہ
حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا اگر میرے بعد سلسلہ نبوت جا ری رہتا تو عمر فاروقؓ نبی ہو تے۔آپ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالی نے عمر فاروق کی زباں پر حق جاری کر دیا ہے۔سیدناعمر فاروقؓ کااسلام لاناسرکار دو عالمﷺ کی دعا کا نتیجہ تھا۔ آپ نے اللہ تبارک و تعالی سے درخواست فرمائی تھی کہ اے اللہ اسلام کو عزت دے۔ عمرو بن ہشام کے ذریعے سے یا عمر بن خطاب کے ذریعے سے۔ اللہ تعالی نے عمر بن خطابؓ کو قبول فرما لیا۔ اور انہیں نور ایمان سے منور اور دولت اسلام سے مشرف فرما دیا۔
آپ کا اسم گرامی عمر کنیت ابو حفص لقب فاروق تھا۔والد کا نام خطاب والدہ کا نام ختمہ تھا۔آپ نویں پشت پر جناب کعب سے حضور اکرم ﷺنسے سلسلہ نسب میں جا ملتے ہیں۔ سلسلہ نسب یہ ہے عمر بن خطاب بن نوفیل بن عبدالعزیٰ بن رباح بن عبداللہ بن قرط بن رزح بن عدی بن کعب۔ عدی کے نام پر آپ کا قبیلہ بنو عدی مشہور ہے۔ایام جاہلیت میں بھی آپ کا خاندان پڑھا لکھا شمار ہو تا تھا۔ قریشیوں کو اگر کسی جگہ سفارت کے لیے کسی نمائندہ کی ضرورت پڑتی تھی تو اس کا انتخاب آپ کے خاندان سے ہوا کرتا تھا۔ آپ عمر میں حضور اکرم ﷺنسے تیرہ سال چھو ٹے تھے۔ بچپن سے ہی لکھنا پڑھنا سیکھ لیا۔ سپاہ گری، شہسواری اور پہلوانی میں کمال حاصل کیا۔ نہا ئیت فصیح اللسان خطیب تھے۔
اسلام حضرت عمرؓ
سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کی عمر کا ستا ئیسواں سال تھا جب اعلان نبوت ہوا۔قریش کے دوسرے سرداروں کے ساتھ یہ بھی مخالفت اسلام میں سرگرم عمل ہو گئے۔ایک روز کفار نے انہیں اپنا نمائندہ بنا کر حضور اکرمﷺ کو شہید کر نے کے لیے بھیجا۔راستے میں نعیم بن عبداللہ مل گئے جنہوں نے حالات سے واقفیت پا کر ان کا رخ یوں مو ڑ دیا کہ تمہاری تو بہن اور بہنوئی دونوں مسلمان ہو چکے ہیں۔ یہ سن کر عمر فاروق آگ بگولا ہو گئے اور سیدھے بہن کے گھر گئے جنہیں موقع پر قرآن پاک پڑھتے ہوئے پایا یہ دیکھتے ہی انہیں مارنا شروع کر دیا۔ جب تھک گئے تو بہن نے کہا عمر تم جان جسم سے نکال سکتے ہو دل سے ایمان نہیں نکال سکتے۔بہن کی اس ثابت قدمی کو دیکھ کر حیران ہو گئے اور کہنے لگے کہ مجھے بھی وہ کلام پاک سنا ؤ۔ بہن نے انہیں غسل کرنے کے لیے کہا۔ جب فارغ ہوئے تو انہوں نے سورہ حدید کی آیات سنائیں سبح لللہ مافی السموات والارض وھو العزیز الحکیم۔جب اس آیت پر پہنچیں آمنو باللہ و رسولہ تو عمر فاروقؓ زار و قطار رونے لگے اور بے ساختہ پکار اٹھے۔اشہد اللہ لا الہ اللہ و اشہد ان محمدا عبدہ ورسولہ۔
آپ کا ایمان لانا دراصل حضور اکرمﷺ کی دعا کا اثر تھا۔ حضرت عمر چالیسویں مسلمان تھے۔بہن کے گھر میں اقرار ایمان کر نے کے بعد دار ارقم میں حضور اکرمﷺ کی خدمت میں حا ضر ہو کر اعلان اسلام کیا۔ اسلام لانے کے بعد پھر سا ری زندگی آ پ کا طرہ امتیاز حب و اطاعت رسول پاکﷺ رہا۔ایمان لانے کے بعد بر ملا اظہار اسلام کیا۔تمام جماعت مسلمین کو سا تھ لے کر بیت اللہ شریف میں آئے اور اعلانیہ نماز ادا کی۔تیرہ نبوی 632 ء میں جب ہجرت کا فیصلہ ہوا تو آفتاب رسالت نے اس ستا رے کو مدینہ طیبہ اپنے سے پہلے جا کر فضا ء کو ہموار کر نے کا حکم دیا۔آپ نے اعلانیہ ہجرت کی اور مدینہ طیبہ پہنچ کر اپنے علم اور خداداد صلاحیت سے دوسرے اصحاب کی محنت کو سا تھ شامل کرتے ہوئے پو رے مدینہ طیبہ کو دولت ایمان سے مشرف فرما دیا۔حضور اکرمﷺ کی ہجرت طیبہ کے وقت مدینہ طیبہ کی آ با دی نے جو فقید المثال استقبال کیا تھا، اس میں آپ کی محنت کا بہت بڑا دخل تھا۔
مدینہ طیبہ جانے کے بعد کفر نے اس شہر مقدس پر جب یلغار شروع کی تو ہر غزوہ میں آپ کا کردار نمایاں رہا۔ جنگ بدر میں جب کا فر پکڑے گئے تو انہیں قتل کر دینے کی رائے دی۔جمہور کی رائے کے مطابق جب انہیں فدیہ لے کر چھو ڑ دیا گیا تو وحی الہی نے اگر چہ اس رائے کی بھی تا ئید کی مگر میلان خداوندی فاروق اعظم کی رائے کی طرف تھا۔ جنگ احد میں جب بعض مسلمانوں کی لغزش کی وجہ سے وقتی طورپرشکست ہو گئی اور ابو سفیان نے احد پہا ڑ پر کھڑے ہو کر اعل ھبل کا نعرہ لگایا تو عمر فاروق ہی تھے جن کی گرج دار آواز نے اللہ اعلی و اجل سے جواب دے کر اس کے دانت کھٹے کر دئے۔اس کے بعد غزوہ خندق میں و اقع حدیبیہ میں، فتح خیبر میں، فتح مکہ میں اور غزوہ حنین اور غزوۂ تبوک میں آپ کا کردار ہمیشہ نمایاں رہا۔ 10 ہجری میں حضور اکرمﷺ نے سا تھ حجۃ الوداع کیا۔
11 ہجری میں جب سرور کائناتﷺ کاسفر آخرت ہوا تو اس موقع پر اس قدر غم محسوس کیا کہ ہو ش و حواس کھو بیٹھے اور صدیق اکبرؓ کے دلاسے اورسہارے سے طبیعت سنبھلی۔حضور اکرمﷺ کے بعد جب سیدنا ابو بکر صدیقؓ خلفیہ منتخب ہوئے تو تمام عمر ان کے مشیر اور فرمانبردار سپا ہی کی حیثیت سے وقت گذارا۔ جمادی الثانی13 ہجری میں جب یار غار رسولﷺ خالق حقیقی سے جا ملے تو امت مسلمہ نے وصیت صدیق اکبر پرآپ کو تا ج خلافت پہنایا۔ آپ نے خلیفہ بنتے ہی ملکی انتظام پر خصوصی توجہ دی۔ مملکت کے تمام حالات کو مکمل کنٹرول میں لا نے کے بعد بلا تا خیر جہا د کی طرف توجہ دی۔ اور غلبہ اسلام کے لیے پو ری طرح فکر مند ہو گئے۔
فتوحات
آپ نے با ر خلافت سنبھالتے ہی کبار صحابہ کرام اور کہنہ مشق اکابرین کا اجلاس بلایا اور اس میں انتہا ئی غور خو ض کے بعد فوج کی مختلف اطراف میں روانگی کے لئے فیصلے کئے۔ آپ ذا تی طور پر فنون جنگ کے بہت بڑے ما ہر تھے۔اور مکہ کی زندگی میں ہی اطراف عرب اور بہت سے ممالک کا سفر کر چکے تھے اور جغرافیائی حدود سے و اقف تھے۔ چنانچہ آپ نے بلا تا خیر چاروں طرف فوج کشی کی اور اللہ تعالی کی مدد سے فتوحات کے دروز ے کھل گئے۔ آپ نے سیدنا حضرت ابو عبید ثقفی کو سپہ سالار بنا کر عراق کی مہم پر بھیجا۔ بعد میں سیدنا حضرت سعد بن وقا صؓ کو بھی اس مہم میں شامل کر دیا گیا۔ اسلام کے ان عظیم فرزندوں نے عراق کے مختلف شہروں کو فتح کرتے ہوئے قادسیہ کے میدان میں کسریٰ کی فوجوں کو شکست فا ش دیکر سپہ سالا ر رستم کو آخری انجام تک پہنچایا۔ اس طرح عرا ق کی قسمت کا فیصلہ کر دیا۔
قادسیہ کی فتح کے بعدمسلمانوں نے بابل قم مدائن وغیرہ پر قبضہ کر لیا پھر عراق و ایران کے سرداروں نے پورے ملک کی قوت کو نہاوند میں جمع کر لیا۔ قادسیہ کی جنگ کے بعد یہ سب سے بڑی خوف ناک جنگ ہوئی۔ آخر اللہ تعالےٰ نے یہاں بھی فتح عطاء فرمائی۔ فیروز لوئلو مجوسی اسی جنگ میں گرفتار ہوا تھا جس کے ہاتھوں سیدنا فاروق اعظمؓ کی شہادت مقدر تھی۔ اس جنگ کے بعد خاندان کیانی کا آخری تاجدار ایران سے خاقان چین کے پاس بھاگ گیا۔ اللہ تعالیٰ نے پورے ایران و عراق پر اسلام کا جھنڈا بلند کر دیا۔ان مہمات کے بعد آپ نے ملک شام کی مہم پر خصوصی توجہ دی۔شام پر حملہ سیدنا صدیق اکبرؓ کے دور میں ہو چکا تھا اور دمشق محاصرہ کی حالت میں تھا۔ سیدنا حضرت خالد بن ولیدؓ اس مہم پر مامور تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہی دنوں دمشق فتح کروا دیا اس کے بعد اردن فتح ہوا۔ ان فتوحات نے قیصر روم کو آگ بگولہ کر دیا اور وہ میدان یرموک میں دو لاکھ فوج لیکر کود پڑا۔ان کے مقابلے میں مسلمانوں کی فوج تیس ہزار تھی۔ مگر ان میں ایک ہزار وہ قدسی بھی شامل تھے جن کی آنکھوں نے جمال مصطفی ﷺ کا دیدار کررکھا تھا اور ایک صد وہ خلد نشین بھی تھے جو غزوہء بدر میں بھی شریک ہو چکے تھے۔ پانچ رجب پندرہ ہجری کوسیدنا حضرت ابو عبیدہ بن جراح سیدنا حضرت خالد بن ولید سپہ سالاروں نے اسلامی فوج کو لیکر دولاکھ فوج سے ٹکرائے۔ اللہ تعالیٰ نے عظیم الشان فتح عطا فرمائی۔ دشمن کے ایک لاکھ سپاہی قتل ہوئے۔ مسلمان صرف تین ہزار شہید ہوئے۔
اس ہزیمت کے بعد قیصر روم ملک شام کو آخری سلام کر کے قسطنطنیہ روانہ ہو گیا۔ اسی مہم کے دوران سیدنا حضرت عمروبن عا صؓ فلسطین کی مہم پر روانہ تھے۔ انہوں نے نا بلس، لد، عمواس، وغیرہ پر قبضہ کر کے 16 ھ میں بیت المقدس کا محا صرہ کر لیا۔ اسی اثنا ء میں سیدنا حضرت ابو عبیدہ بھی اپنی مہم سے فراغت پا کر ان کے سا تھ جا ملے۔ بیت المقدس کے علما ء صلحا ء اور راہبوں نے مسلم جرنیلوں سے کہا ہماری الہامی کتابوں میں اس شخص کا نام اور چہرہ تحریر ہے جس نے اس شہر کو فتح کرنا ہے۔ آپ خلیفۃ المسلمین حضرت عمر فاروقؓ کو بلوائیں اگر وہ وہی شخص ہوئے تو ہم بیت المقدس کی چابیاں آپ کے حوالے کر دیں گے۔ جرنیلوں نے یہ با ت دارالخلافہ تک پہنچا ئی۔ سیدنا حضرت عمر فاروقؓ نے سیدنا حضرت علیؓ کو نا ئب مقرر فرما کر رجب 16ھ میں یہ مقدس سفر شروع کیا۔ سفر اس سادگی سے تھا کہ ایک ہی اونٹنی پر آ قا و غلام سفر کر رہے تھے۔ اور با ری باری سوار ہو رہے تھے۔ جب آخری منزل آ ئی۔ غلام کی با ری سوار ہو نے کی اور آ قا کی باری پیدل چلنے کی آ گئی باو جود غلام کے اصرار کے وہ سفر پیدل کیا۔ بیت المقدس کے راہبوں کی نظر جب فاروق اعظم کے چہرہ پر پڑی تو انہوں نے بغیر کسی مزاحمت کے شہر کی چا بیاں آپ کے حوالے کر دیں۔ بیت المقدس سے واپسی پر آپ نے تمام ملک کا دورہ کیا۔ سرحدوں کا معائنہ کر کے ملک کی حفاظت کے انتظامی احکامات اور مشورے صادر فرمائے اور بخیر و خوبی مدینہ طیبہ آ گئے۔ ان اہم مہمات کے بعد سیدنا حضرت عمر و بن عاص کو فتوحات مصر پر روانہ کیا گیا۔ جنہوں نے اللہ تعالی کی کا مل تائید و نصرت سے بر اعظم افریقہ کے بہت سے ممالک فتح کر لیے۔
شہا دت
مسلمانوں کا یہ لشکر ایک بحری سیلاب کی طرح بہ رہا تھا جس کا مقابلہ کر نے کے لیے کو ئی بھی طاقت سا منے نہ ٹھہر سکتی تھی کہ فاروق اعظم کی روانگی کا وقت آ گیا۔ حضرت مغیرہ بن شعبہؓ کے ایک پا رسی غلام فیروز نامی جس کی کنیت ابو لولو تھی، نے اپنے آ قا کی شکایت کی۔ آپ نے اسے بے جا سمجھتے ہوئے مسترد فرما دیا۔ جس پر اس نے اسلام کے اس سب سے بڑے فاتح انسان کو صبح کی نماز میں زہر آلود خنجر کے چھ وار کر کے گھا ئل کر دیا۔ سیدنا حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے بقیہ نماز مکمل کی۔اس کے بعد تین دن با ہو ش و ہوا س مگر شدید تکلیف میں رہ کر یکم محرم الحرام بروز ہفتہ 24 ھ کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ وفات سے قبل سیدہ طا ہرہ عفیفہ کائنات حضرت عائشہؓ صدیقہ بنت صدیقؓ سے اجازت چا ہی کہ مجھے میرے محبوب کے قدموں میں دفن ہو نے کے لیے جگہ دی جائے۔ انہوں نے واقعہ افک میں حق با ت کہنے پر جس کی من و عن تائید عرش معلی سے سورہ نور کی 18آیات سے ہو ئی تھی یعنی اعتراف احسان مندی کے لیے بخوشی اجازت دے دی۔ اور آپ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سرور کائناتﷺ کے قدموں میں سو گئے۔
اس جگہ کے بارے میں حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے۔”ما بین بیتی و منبری روضۃ من ریا ض الجنۃ” میرے گھر اور میرے ممبر کے درمیان جو جگہ ہے یہ جنت کے باغوں میں سے ایک با غ ہے۔ یہ گنبد خضرا ء جو پو ری دنیا کی آنکھوں کو نور اور طراوت بخش رہا ہے یہ سیدہ عائشہؓ صدیقہ کا گھر ہے جس میں حضور اکرم ﷺ آ رام فرما یا کرتے تھے۔
نظام خلافت
سیدنا فاروق اعظمؓ نے مفتوحہ علاقوں میں ایک مثالی امن قائم کیا آپ کی حکومت جمہوری طرز کی تھی صا ئب الرائے حضرات پر مشتمل ایک مجلس شوری تھی جس کے مشورے سے تمام کام ہو تے تھے۔آپکے نظام حکومت کا طرہ امتیاز عدل و احتساب ہے۔ آپ نے جو نظام عدل قائم کیا وہ اپنی مثال آپ تھا۔ اور احتساب اتنا سخت تھا کہ کو ئی بھی افسر یا حکمران اس سے بچ نہیں سکتا تھا۔ مالیات کے استحکام کے لیے جزیہ کا حصول پو رے رحم و انصاف اور پو ری دیانت سے کیا۔غیر ملکی مال پر کسٹم لگایا۔تمام محصولات کے لیے بیت المال تعمیر کرائے۔ مجرمین کے لیے جیل خانے تعمیر کرائے اوراس بات کو یقینی بنا دیا کہ بے قصور انسان کبھی سزا نہیں پا سکتا اور مجرم قا نون کے شکنجے سے کسی حال میں بچ نہیں سکتا۔ عرب میں پہلے سنہ کا رواج نہ تھا آپ نے 16 ھ میں سنہ ہجری ایجاد کیا۔
مستعمرات
آپ کے دور میں کئی نئے شہر آ با ہوئے مثلاً بصرہ، کو فہ، فسطاط، مو صل، جیزہ، ان کے علاوہ کئی قصبات شہروں کی شکل اختیار کر گئے۔ پہلی دفعہ با قاعدہ فو جی نظام قائم کیا اور چھاؤنیاں تعمیر کیں اور سپاہیوں کی معقول تنخواہیں اور بروقت چھٹیاں مقرر کیں۔
علم و فضل
آپ حافظ قرآن تھے ہزاروں احادیث کے حافظ تھے۔ بہت بڑے فقیہ تھے، بلا کے خطیب تھے۔ اپنی بات دو سروں کو سمجھانے کا بہت بڑا ملکہ رکھتے تھے تعلیم پھلا نے میں جذباتی حد تک آ گے بڑھے ہوئے تھے آپ کے دور میں بے شمار مدا رس اور تعلیم گاہیں قائم ہوئیں جن میں علوم عربیہ، اسلامیہ، اور فنون کی تعلیم ہو تی تھی۔ فو جی تربیت لا زمی تھی۔ بہت سی درس گاہوں میں غیر ملکی زبانیں سکھا ئی جا تی تھیں تاکہ دنیا کے کو نے کونے میں مبلغین دین بھیجے جا سکیں۔ شعر و شاعری میں بھی بہت بڑا ملکہ رکھتے تھے۔
اخلا ق و عادات
بلاشبہ اخلاق کی پختگی اور استوای کا اصلی سرچشمہ خشیت الہی ہے۔ سیدنا فاروق اعظم کے دل میں جو خوف خداوندی تھا اس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ حب رسولﷺ اور اتباع سنت آپ کی سرشت کا حصہ تھا۔ سیدنا حضرت علیؓ، اور دوسرے افراد اہل بیت سے انتہا ئی محبت کرتے تھے۔
زہد و قناعت اور سا دگی اپنانے پر فخر محسوس کرتے تھے۔ دیانت و امانت کے بہت پکے تھے۔تشددو ترحم میں حکم الہی و حکم رسول اللہ ﷺ کے پو ری طرح پا بند تھے۔ عفو و کرم سے بھی کبھی دریغ نہ کرتے تھے۔اپنی حیثیت سے بڑھ کر سخاوت کر نے والے تھے۔ رفاہ عامہ کے کاموں میں خصوصی دلچسپی لیا کرتے تھے۔ مساوات کا بہت خیال کرتے تھے۔ غیرت آپکی طبیعت کا جز تھی۔ حصول معاش کا ذریعہ تجارت تھی تاہم مدینہ طیبہ پہنچ کر زراعت بھی شروع کی تھی۔ خلافت کے بار گراں نے حصول معاش اور ذاتی مشاغل سے روک دیا تو انتہائی عسرت کی زندگی گذارنے لگے۔ صحابہ کرامؓ نے مشورہ کر کے وظیفہ مقرر کرنا چا ہا تو عہد فاروقی میں بے روزگار لوگوں کے لیے پانچ ہزار درہم سالانہ جو وظیفہ تھا صرف وہی اپنے لیے قبول کیا۔ گو یا اس شخص کی 416 درہم ماہانہ تنخواہ تھی جس کی حکومت دنیا کے چھ بر اعظموں تک پھیلی ہو ئی تھی۔
رعا یا کا بے حد خیال کرتے تھے را توں کو جا گ جاگ کر دوسرں کے دکھ درد میں شریک ہوا کرتے تھے۔ فوت ہو تے وقت کچھ قرضہ آپ کے ذمہ تھا۔ وصیت کی کہ میرا ذاتی مکان فروخت کر کے ادا کر دیا جائے۔ چنانچہ بعد وفات آپ کے صاحبزادے حضرت عبداللہ بن عمرؓ جو علم و فضل میں باپ کی طرح ہی مینارہ نور تھے اسے فروخت کیا اور باپ کا قرضہ ادا کر دیا۔ حضرت عثمان غنیؓ نے اس مکان کو دارالقضاء قرار دے دیا۔ جہاں عدل فاروقی کی یا دیں تا زہ ہوا کرتی تھیں۔ آپ کی غذا نہا یت سادہ تھی۔سا دہ روٹی روغن زیتون پر گذارا کیا کرتے تھے۔ گو شت دودھ ترکا ری اور سرکہ کا بھی استعمال فرماتے تھے۔ قمیض اور تہ بند استعمال فرماتے تھے سر پر با رعب عمامہ ہوتا تھا جو عرب کے سرداروں کی خاص علامت تھی۔ قد لمبا جسم گو شت سے بھرا ہوا۔ رنگ گندمی، داڑھی گھنی اور لبوں کے آخری کنا رے پر مو ٹی مو ٹی مونچھیں ہو تی تھیں۔ چہرہ مبارک کو دیکھتے ہی انسان مرعوب ہو جا تا تھا۔ انتہائی پر جلال شکل و صورت تھی مو ٹی چمکدار آنکھیں تھیں۔ نہایت سنجیدہ مزا ج تھے کم گو تھے۔ با مقصد مدلل بات کر نے کے عا دی تھے۔ انتہا ئی سا دہ ہو نے کے باوجود نہایت صاف ستھرا لباس اور پاکیزہ بدن رکھتے تھے۔ ہر وقت با وضو رہتے تھے۔ خو شبو کا اکثر استعمال کرتے تھے۔ یہی وہ عمر فاروق ہیں جن کے بارے میں غیرمسلم مفکرین نے کہا ہے کہ اگر عمر دس سال اور زندہ رہتے یا ایک عمر دنیا میں اور پیدا ہو جاتا تو سوائے اسلام کے دنیا میں کو ئی دوسرا مذہب نظر نہ آ تا۔
٭٭٭
سانحہ کربلا
اس وقت اسلامی سال 1436ھ کا مہینہ محرم الحرام شروع ہے۔ عربی قواعد کے مطابق یہ اسم مفعول ہے۔ جو کہ تحریم سے بنا ہے تحریم باب تفعیل ہے۔ تحریم کے بہت سے معنی ہیں۔ ایک معنی تعظیم کرنا بھی ہے۔ اس لحاظ سے محرم کا معنی ہے عظمت والا احترام والا مہینہ۔ حضور اکرم ﷺ کی آمد سے قبل بھی دوسری شریعتوں میں چار مہینے بہت فضیلت والے گنے جا تے تھے جن کا قراٰن کریم میں یوں تذکرہ ہے ےَسْءَلُوْنَکَ عنَِ الشَّھْرِ الْحَرَامْ۔ان مہینوں کا اہل عرب بھی بہت احترام کرتے تھے۔
عرب اکثر قتل و غارت میں مصروف رہنے کے باوجود ان مہینوں میں جنگ و جدال سے پرہیز کرتے تھے۔ یہ مہینے رجب المرجب ذیقعد ذی الحج اور محرم الحرام تھے۔ حضور اکرم ﷺ کی تشریف آوری کے بعد بھی یہ مہینے اسی طرح سے حرمت والے کہلاَئے۔ محرم الحرام کی دسویں تاریخ کو تاریخ عالم میں خاص اہمیت حا صل ہے۔ مشہور قول کے مطابق سیدنا حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش کی تاریخ دس محرم الحرام ہے۔ اس لیے آپ کی شریعت میں دس تاریخ کا روزہ فرض تھا اور آدم علیہ السلام ہمیشہ دس تاریخ کا روزہ رکھا کرتے تھے۔ دس محرم الحرام وہ اہم تاریخ ہے جس دن مصر کا نافرمان خد ا بادشاہ فرعون قلزم میں غرق ہوا تھا۔ اور حضرت موسی علیہ السلام نے مع اپنی قوم بنی اسرائیل اس کے مظالم سے نجات پائی تھی۔ حضرت موسی علیہ السلام اللہ تعالی کے شکرانہ کی ادائیگی کے لیے ہمیشہ دس محرم کا روزہ رکھا کرتے تھے۔ آپ کی اقتداء میں قوم یہود نے بھی ہمیشہ اس تاریخ کا روزہ رکھا۔
حضور اکرم ﷺ جب مدینہ طیبہ تشریف لائے تو آپ نے یہودیوں کو اس تاریخ کو روزہ رکھتے ہوئے دیکھا تو آپ نے فرمایا ہمارے لیے بھی دس محرم اسی طرح سے قابل احترام ہے۔ لیکن مسلمان اپنا امتیاز اور تشخص قائم رکھنے کے لیے نویں اور دسویں محرم کا روزہ رکھا کریں۔ اس لیے صحابہ کرام ہمیشہ یہ دو روزے رکھا کرتے تھے۔ حضور اکرم ﷺ دس محرم الحرام کو کثرت سے خیرات کرنے کی بھی ہدایت فرمایا کرتے تھے۔ آپ کے فرمودات عالیہ سے یہ بات ملتی ہے۔ کہ جو شخص دس محرم الحرام کو خیر خیرات کرے گا، اللہ تبارک و تعالی جل جلا لہ و عم نوالہ اس کے رزق میں فراخی پیدا کر دیں گے۔ یہی وہ دس تاریخ ہے جس دن قیامت آئے گی اور اللہ تبارک و تعالی اس کائنات کی بساط لپیٹ دیں گے۔
محرم الحرام کو اسلامی تاریخ میں اس لیے بھی خصوصی اہمیت حا صل ہو گئی کہ اس کی یکم تاریخ خلیفہ دوم سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کی تاریخ ہے۔ جنہیں نبی کریم ﷺ نے اللہ تبارک و تعالی سے مانگ کے لیا تھا۔ دوسری اہم ترین اہمیت محرم الحرام کو اس عظیم درد ناک واقعہ سے ہوئی جو کہ کربلاء معلی میں نواسہ رسول پاک ﷺ، جگر گوشہ بتول سیدہ فاطمۃ الزہر، ا فرزند ارجمند شیر خدا سیدنا حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ، حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ اور آپ کے ساتھیوں کی شہادت کا ہوا۔ یہ وہ کربناک افسوس ناک دکھ بھری شہادت کی کہانی ہے کہ جس پر امت مسلمہ نے اتنے آنسو بہائے ہیں کہ اگر قدرت خداوندی سے وہ سب آنسو جمع ہو جائیں تو دنیا میں ایک دجلہ اور فرات اور بہ پڑتے۔
سیدنا حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ وہ نسبی شرافت رکھتے ہیں جس کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ آپ ہمارے پیارے پیغمبرسید الکائنات فخر کونوں مکاں رحمۃ اللعلمین شفیع المذنبین سیدنا حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیﷺخاتم النبیین کے نواسے ہیں۔ شیر خدا سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ کے صاحبزادے ہیں۔ وہ علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کرم اللہ وجہہ جنہیں حضور اکرمﷺ نے باب العلم کا خطاب عطاء فرمایا، جن کی فضیلت عظمت سے کتب بھری پڑی ہیں۔ جو دس سال کی عمر میں اسلام لا کر اول المسلمین میں شمار ہوئے۔ اور پوری زندگی میں اسلام کی شان و شوکت کو دوبالا کرنے میں گذار دی۔ اور بالآخر اللہ کی راہ میں ہی کوفہ کی جامعہ مسجد میں نماز پڑھاتے ہوئے شہید ہو گئے۔ آپ کی نانی صاحبہ پوری امت کی ماں ام المومنین سیدہ خدیجۃ الکبری رضی اللہ تعالی عنہا جو کہ محسنہ نبوت ہیں۔ خواتین میں سب سے قبل اسلام لا کر او ل المسلمات کہلائیں۔ وہ چالیس برس کی عمر میں پیارے پیغمبرﷺ کے نکاح میں آئیں۔ اس وقت حضور کی عمر مبارک پچیس برس تھی۔ حضرت خدیجہ 25 سالہ رفاقت کے بعد خالق حقیقی سے جا ملیں۔ ان سے اللہ تبارک و تعالی نے حضور اکرم ﷺ کو صالح اولاد یعنی چار بیٹے اور چار بیٹیاں عنایت فرمائیں۔
سیدنا حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی والدہ ماجدہ اللہ کے رسول کے دل کا ٹکڑا سیدہ طاہرہ بتول فاطمۃ الزہرا ء رضی للہ تعالی عنہا ہیں۔آپ پیارے پیغمبر ﷺ کی سب سے چھوٹی شہزادی تھیں۔ ان کی بڑی بہن کا نام حضرت زینب ان کے بعد حضرت رقیہ پھر حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہن اجمعین پیدا ہوئیں۔ مدینہ طیبہ میں 15 سال ساڑھے پانچ ماہ کی عمر میں شیر خدا سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ کے نکاح مبارک میں آئیں۔چار سو درہم مہر مقر ہوا جس کی مقدار 150 تولہ چاندی کے برابر ہے۔ اسی کو مہر فاطمی کہتے ہیں۔ جہیز میں ایک چار پائی ایک گدا ایک تکیہ چاندی کے دو بازہ بند ایک مشکیزہ،دو چکیاں، اور دو مٹی کے گھڑے دیے گئے۔ آپ کے بطن مبارک سے تین بیٹے حضرت حسن، حضرت حسین اور حضرت محسن اور دو بیٹیاں حضرت ام کلثومؓ اور حضرت زینبؓ پیدا ہوئیں۔
حضور اکرم ﷺ کی نسل اسی شہزادی حضرت فاطمۃ الزہراء کی نسل سے چلی آج دنیا میں جتنے بھی اصلی اور حقیقی سادات کرام ہیں یہ آپ کی ہی اولاد ہیں۔حضور اکرم ﷺ کی رحلت طیبہ کے 6 ماہ بعد ماہ رمضان المبارک گیارہ ھجری میں اس جہان فانی سے عالم جاوداں کی طرف سفر کر گئیں۔ انا لللہ وانا الیہ راجعون۔جیسے کہ ایک فطری امر ہے کہ سب سے چھوٹا بچہ بہت لاڈلا ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ دیر تک ماں کی گود میں کھیلتا رہتا ہے۔ اس لحاظ سے بھی اور دیگر خصوصی خوبیوں اور کمالات کی بناء پر بھی سرکار دو عالمﷺ کو اپنی اس شہزادی سے والہانہ محبت تھی۔ فرمایا کرتے تھے فاطمہ میرے دل کا ٹکڑا ہے۔ جس نے فاطمہ کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے ان کے بھتیجے جمیع بن عمیر نے پوچھا حضو راکرم ﷺسب سے زیادہ کس سے محبت رکھتے تھے انہوں نے فرمایا سیدہ فاطمۃ الزہرا ؓ سے۔ پھر انہوں نے سوال کیا کہ مردوں میں سب سے زیادہ کس پر شفقت فرما تے تھے۔ جواب دیا حضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ سے۔
حضرت فاطمۃ الزہرا کا گھر حضور اکرم ﷺ کے گھر سے متصل تھا۔ اس لیے آپ اکثر و بیشتر ان کے گھر میں تشریف لے جاتے اور اسی طرح بیٹی والد محترم کے دولت کدہ پر تشریف لاتی رہتیں۔ جب حضرت فاطمۃ الزہرا حضور اکرم ﷺ کے گھر تشریف لاتیں تو آپ کھڑے ہو جا تے بیٹی کو گلے لگا تے اور جہاں سے بال شروع ہو تے ہیں، وہاں بیٹی کی پیشانی چومتے تھے۔ اس کے جواب میں حضرت فاطمہ ابا جی کا ہا تھ اپنے ہا تھ میں لے کر پشت کی طرف سے چوم لیا کرتی تھیں۔ آپ ﷺ جب سفر میں تشریف لے جا تے امہات المومنین کے تمام گھروں سے ہو کر آخری گھر جس میں تشریف لے جا تے وہ بیٹی کا گھر ہوا کرتا۔ اور جب سفر سے واپس آ تے تو سب سے پہلے بیٹی کے گھر میں تشریف لے جا تے۔ جب کبھی کوئی ہدیہ اور تحفہ پیارے پیغمبر ﷺ کو پیش کیا جاتا تو اکثر و بیشتر اس سے بیٹی کے گھر میں بھیجتے تھے۔ آپ نے زندگی کے آخری لمحات میں آپ کو بتلا دیا کہ میرا سفرآخرت قریب ہے اور سب سے پہلے میرے اہل بیعت میں سے آپ مجھ سے ملیں گی۔ یہی ہوا کہ آپ کی رحلت طیبہ کے چھ ماہ بعد اہل بیعت میں سے سب سے پہلے آپ والد محترم کے پاس تشریف لے گئیں۔آپ کو خاتون جنت کا خطاب بھی اسی روز عطا فرمایا گیا۔
تسبیحات فاطمہ 33 دفعہ سبحان اللہ 33 دفعہ الحمد للہ 34 دفعہ اللہ اکبر جس کے پڑھنے سے زمین و آسمان کے خلاء کے برابر نیکیاں ملتی ہیں یہ حضور اکرم ﷺ کا عطا کردہ تحفہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عہنا کے لیے تھا اور آپ نے یہ تحفہ پوری امت کو عطا فرمایا۔علاوہ ازیں بے شمار فضائل و مناقب اس عظمت والی شہزادی کے مو جود ہیں، جن سے کتب احادیث و سیرت بھری پڑی ہیں۔ 3 ہجری میں سیدنا حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ پیدا ہوئے۔اور 4 ہجری میں ماہ شعبان میں سیدنا حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی ولادت باسعادت ہوئی۔ ان دونوں شہزادوں کی شکل و صورت اپنے نانا جان حضور اکرم ﷺسے بہت زیادہ مشابہت رکھتی تھی۔حضور اکرم ﷺ کو ان دونوں صاحبزادوں سے والہانہ محبت تھی۔ فرمایا کرتے تھے حسن اور حسین دنیا میں میرے دو پھول ہیں اور یہ بھی فرمایا حسن اور حسین جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔
ان پر شفقت کے کئی پیارے واقعات ہیں۔ایک دفعہ آپ ممبر پر واعظ فرما رہے تھے کہ یہ دونوں صاحبزادے آ رہے تھے اور قمیض میں پاؤں اٹکنے سے گر پڑے تو حضور اکرم ﷺ نے ان دونوں کو اٹھا کر ممبر پر اپنے پہلو میں بٹھا لیا۔ حضرت اسامہ بن زید سے فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کی دونوں رانوں پر حسنؓ اور حسینؓ کو بیٹھے دیکھا اور فرما رہے تھے یہ دونوں میرے بیٹے ہیں۔ یہ میری بیٹی کے بیٹے ہیں۔ اے اللہ میں ان دونوں سے محبت رکھتا ہوں تو بھی ان سے محبت فرما۔ اور ہر اس شخص سے محبت فرما جو ان سے محبت کرتا ہو۔ آپ کا یہ بھی ارشاد عالی موجود ہے کہ حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔ جو حسینؓ سے محبت رکھے اللہ تعالی اس سے محبت رکھے۔حضرت حسینؓ کی شہادت کی خبر آپ نے اپنی زندگی مبارک میں ہی دے دی تھی۔
واقعہ کربلا ء معلی: 35 ہجری میں سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ شہید کر دیے گئے۔ ان کی شہادت کے بعد مسلمانوں میں بعض نا عاقبت اندیش لوگوں کی سازش سے غلط فہمی پیدا ہو گئی۔اور سلطنت اسلام دو حصوں میں بٹ گئی شام کا علاقہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فرمانروائی میں چلا گیا اور عراقی علاقہ سیدنا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت میں آ گیا۔17 رمضان المبارک چالیس ہجری کو سیدنا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کوفہ کی جامع مسجد میں شہید کر دیا گیا۔ آپ کے بعد آپ کے بڑے صاحبزادے سیدنا حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفہ مقرر ہوئے۔ان کو اپنے نانا جان کی ایک حدیث پہنچی تھی کہ یہ میرا بیٹا حسن سید ہے۔ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ سے مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں میں صلح کرا دے گا۔ آپ نے اس بشارت کا مستحق بننے کے لیے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صلح کر لی اور خود 41 ہجری میں خلافت سے دستبردار ہو گئے۔ اس طرح سے ملت اسلامیہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سربراہی میں ایک جھنڈے تلے آ گئی۔
5 ربیع الاول 50 ہجری کوسیدنا حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان کی بیوی جعدہ دختر اشعث ملعونہ نے زہر دیدیا اس طرح سے آپ نے جام شہادت نوش فرمایا۔60 ہجری میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وفات پائی۔ان کے بعد ان کا بیٹا یزید تخت نشین ہوا جس کے دور میں تاریخ اسلام کا وہ اندوہ ناک واقعہ پیش آیا جس پر امت قیامت تک آنسو بہاتی رہے گی۔ واقعہ کی مختصر تفصیل یہ ہے کہ جب یزید نے بیعت لی تو چار عظیم المرتبت ہستیوں نے بیعت سے انکار کر دیا 1۔سیدنا حضرت امام حسینؓ بن سیدنا علی ا لمرتضیؓ کرم اللہ وجہ۔
-2سیدنا حضرت عبداللہؓ بن عمر۔3۔ سیدنا حضرت عبداللہؓ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ 4۔ سیدنا حضرت عبداللہؓ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ یہ چاروں عظیم المرتبت ہستیاں مکۃ المکرمہ میں مقیم تھیں۔چند روز بعد کوفہ جو کہ سیدنا حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ کا پایہ تخت رہا تھا وہاں کے لوگوں نے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خطوط لکھے کہ ہمارے اوپر بہت سے مظالم ڈھائے جا رہے ہیں ہمیں ان سے نجات دلانے کے لیے آپ کوفہ تشریف لائیں۔ آپ نے پہلے تو انکار کیا مگر پھر ان کا اصرار بڑھنے پر سفر کا ارادہ فرمالیا۔
حضرت عبداللہؓبن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عبداللہؓ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس ارادے سے منع کیا۔ مگر آپ کوفیوں کے آئے ہوئے 1200 خطوط سے اس قدر متا ئثر ہو چکے تھے کہ آپ نے بہر حال ارادہ سفر کر لیا اور آپ 10 ذو الحج 60 ہجری کو گھر کے تمام افرادجن میں مرد عورتیں اور بچے شامل تھے، مکۃ المکرمہ سے عراق کی جانب روانہ ہو گئے۔ یزید نے یہ خبر پاکر کوفہ کے گورنر عبیداللہ بن زیاد کو اس معاملے سے نمٹنے کے لیے مقرر کیا اس نے کوفہ کی فوجی چھاؤنی کے کور کمانڈر عمرو بن سعد کو یہ ذمہ داری سونپ دی۔ اس اثناء میں حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کربلاء معلیٰ کے مقام پر پہنچ چکے تھے۔ عمر بن سعد نے معلومات پاکر کر بلاء معلی کے میدان میں حضرت امام حسینرضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ہمراہیوں کو گھیرے میں لے لیا اور مذاکرات شروع ہو گئے۔
آپ نے فرمایا کہ میری تین باتیں ہیں یا تو مجھے واپس مکۃ المکرمہ لوٹنے دیا جائے یا دمشق جانے دیں، میں خود یزید سے معاملات طے کر لوں گا۔ تیسری بات یہ ہے کہ مجھے کسی غیر مسلم کی سرحد تک جانے دیں میں وہاں اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کروں گا۔ عمر و بن سعدؓ رضامند ہونے کے قریب تھا کہ نائب سپہ سالار شمر ذی الجوشن جو اول درجے کا بدبخت اور دشمن اہل بیت عظام تھا اس نے کوفہ کے گونر عبید اللہ بن زیاد سے کہا اگر حسینؓؓ بچ گئے تو وہ یزید سے مسلم بن عقیل کے قصاص کا مطالبہ کریں گے جس کے عوض میں تم قتل کر دئے جاؤ گے۔ بہتر ہے کہ حضرت حسین کا یہاں ہی کام تمام کر دیا جائے۔ ابن زیاد کی بدبختی غالب آ گئی اس نے شمر ذی الجوشن سے اتفاق کیا اور عمر بن سعدؓ کو پیچھے ہٹا کر شمر بن جوشن کو اس دستے کا سربراہ مقرر کر دیا جو حضرت حسینؓ سے نمٹنے کے لئے بھیجا گیا تھا۔ شمر نے کمان سنبھال لی اور دریائے فرات کا پانی بند کر دیا۔ اہل بیت پانی کی بوند بوند کو ترس گئے۔
شمر نے مطالبہ کیا کہ اس کے ہاتھ پر نائب یزید ہونے کی حیثیت سے پہلے بیعت کی جائے پھر یزید کے ہاتھ پر بیعت کی جائے۔ حضرت امام حسینؓ نے اس ناپاک کے ہاتھ پر بیعت کرنے سے انکار فرما دیا۔ در اصل یہ ملعون شمر کی محض خباثت تھی وہ ہر حال میں نواسہ رسولؓ کو ختم کرنے کے درپے تھا۔ اس کے بعد شمر کی فوج سامنے آئی تو اس میں بہت سے وہ کوفی بھی موجود تھے جن کے خطوط حضرت حسینؓ کو وصول ہو چکے تھے۔ آپ نے ایک ایک کو خطاب کرکے ان کے خطوط دکھلائے مگر کسی کو غیرت نہ آئی۔یہ خوفناک حالات سات محرم سے دس محرم تک جاری رہے۔آخر دس محرم الحرام 61 ھ کو ان ظالموں نے نواسہ پاکؓ حضور اکرم ﷺ کو سجدے کی حالت میں شہید کر دیا۔ اور آپ کا سر مبارک ایک طشت میں رکھ کر ملعون ابن زیاد کے پاس روانہ کر دیا۔ حضرت امام حسینؓ کے ساتھ 16 افراد آپ کے گھر والے بھی شہید ہوئے۔ باقی مظلومین کو حضرت امام حسینؓ کے سر مبارک سمیت ایک گاڑی پر سوارکرکے دمشق بھیج دیا گیا۔
جب یہ لٹا پٹا قافلہ دمشق پہنچا تو ایک کہرام مچ گیا چونکہ بہت سی خواتین کی رشتہ داریاں آپس میں تھیں۔ اس درد ناک منظر کو بیان نہیں کیا جا سکتا اس موقع پر اگر چہ یزید نے بظاہرافسوس کا اظہار کیا مگر یہ بعد از وقت تھا جو ہونا تھا وہ ہو چکا تھا۔ اس شہادت پر کیا خوب کہا گیا۔
کرتی ہے پیش اب بھی شہادت حسین کی
آزادی حیات کا یہ سرمدیں اصول
کٹ کے سرتیرا چڑھ جائے نیزے کی نوک پر
لیکن تو فاسقوں کی اطاعت نہ کر قبول
دس محرم الحرام ہمیں صبر و تحمل کا سبق دیتا ہے اس روز کثرت سے تلاوت کلام پاک اور درود شریف پڑھ کر اور جو کچھ اللہ تعالیٰ توفیق دے اہل بیت عظام کو ایصال ثواب کرنا چاہیے۔ ہر اس کام سے اجتناب کرنا چاہیے جس سے اللہ تبارک و تعالیٰ جل جلالہ وعم نوالہ حضور اکرم ﷺ اہل بیت عظامؓ اور صحابہ کرامؓ کی ناراضگی کا اندیشہ ہو۔ وآخر دعوانا عن الحمد اللہ رب العالمین
٭٭٭
ہمسایہ کے حقوق
سرور کائنات ﷺ کی نظر میں اللہ تعالی نے قران حکیم میں اور نبی آخر الزماں سیدنا حضرت محمد مصطفی ﷺ نے اپنی تعلیمات میں متعدد جگہ تمام انسانوں کو ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی تاکید فرمائی ہے اور تمام انسانوں کے حقوق کی تفصیل بیا ن فرمائی ہے۔ کوئی مسلمان کسی کا حق غصب نہیں کرسکتا۔
نبی کریم ﷺ نے اور رب ذو الجلال نے تمام انسانوں کے حقوق کی ادائیگی پر زور دیا ہے چنانچہ سورہ نسا ء میں ماں، با پ، رشتہ دار، یتیموں، محتاجوں، ہمسا یوں، مسافروں، خا دموں وغیرہ کے حقوق کی ادائیگی پر توجہ دلائی گئی ہے۔ آج کل معاشرے میں بندوں کے حقوق کی طرف سے لا پروا ئی کا مظاہرہ ہو رہا ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ پریشانی، تنگ دلی، تنگ نظری، افلاس اور خود غرضی وغیرہ کی صورت میں ظاہر ہو رہا ہے۔ اولاد ماں باپ کی نافرمانی کر رہی ہے۔ ماں باپ اولاد کے رویے سے بیزار ہیں۔ بھا ئی بھا ئی کا دشمن ہے۔ خویش و اقارب ایک دوسرے کے حق میں سانپ اور بچھوؤں کے مانند ہو گئے ہیں۔ پڑوسی اپنے پڑوسی سے نالاں ہے اہل شہر ایک دوسرے کے شاکی ہیں۔غرضکہ دنیا میں ہر جگہ معاشرہ افرا تفری کا شکار ہے حالانکہ اسلام نے ہمیں ایک ایسا مربوط معاشرتی نظام دیا ہے کہ جس پر چل کر ہماری زندگی نہایت خوشگوار بن سکتی ہے۔
ہمسایوں کے حقوق کے بارے میں سورۂ نساء کی ایک آیت میں مذکور ہے۔ تم اپنے پاس والے پڑوسی کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرو اور دور والے پڑوسی کے ساتھ بھی ( سورۃ النساء آیت نمبر 36) پاس والے پڑوسی سے مراد وہ ہے جس کا گھر اپنے گھر کے پاس ہو یا نسب میں قریبی ہو یا جو دین کے اعتبار سے قریبی ہو۔ اور دور والا وہ ہے جس کا گھر فاصلے پر ہو۔ مگر محلہ ایک ہی ہو۔ جو پڑوسی رشتے دار نہ ہو یا دین میں شریک نہ ہو، اس سے معلوم ہوا کہ اگر اہل حقوق کافر ہوں تب بھی ان کے ساتھ احسان کیا جائے۔ البتہ مسلمان کا حق اسلام کی وجہ سے ان سے پہلے درجے میں ہو گا۔چنانچہ حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ پڑوسی تین طرح کے ہیں۔1۔ ایک پڑوسی وہ ہے جس کے تین حق ہیں (الف) یعنی پڑوسی ہونے کا حق (ب) رشتہ دار ہونے کا حق(ج) اور اسلام کا حق۔ 2۔ اور ایک پڑوسی وہ ہے جس کے دو حق ہیں (الف) یعنی پڑوسی ہونے کا حق (ب) اور مسلمان ہونے کا حق۔3۔ تیسرا پڑوسی وہ ہے جس کا صرف ایک ہی حق ہے یعنی صرف پڑوسی ہونے کا حق اور وہ مشرک یا اہل کتاب ہے۔
اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ ہمسایہ کا ایک حق محض انسان ہونے کی حیثیت سے ہے۔اگرچہ وہ اس کا ہم مذہب و ہم خیال نہ بھی ہو۔اور کوئی قرابت بھی نہ رکھتا ہو۔ اس کے بعد جس قدر قرابتیں زیادہ ہوتی جائیں گی اس قدر اس کا حق دوسرے سے فائق ہوتا جائے گا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ میرے دو ہمسائے ہیں، میں ان دونوں میں سے کس کی طرف ہدیہ بھیجوں ؟ (یعنی جب ایک ہی کی طرف بھیجنا ہو۔) آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ان دونوں میں سے جو تیرے مکان کے زیادہ قریب ہے اس کو بھیج۔ اس کو امام بخاری ؒ نے روایت کیا ہے۔ ہمسائے کے حقوق میں کثرت سے احادیث مبارکہ آئی ہیں جن سے ان کے حقوق کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ ام المومنین حضرت عائشۃ صدیقہؓ اور حضرت ابن عمرؓ کی روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام مجھے ہمسائے کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی ہمیشہ تاکید کرتے رہے، یہاں تک میں نے گمان کیا کہ وہ ہمسائے کو وارث بنا دیں گے۔ اس مبارک حدیث کو امام بخاری و امام مسلم نے روایت کیا ہے۔
ترمذی شریف میں ایک حدیث مبارکہ میں ہے کہ نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ پاک کے ہاں اچھا دوست وہ ہے جو اپنے دوستوں سے اچھا ہو اور اچھا ہمسایہ وہ ہے جو اپنے ہمسائیوں سے اچھا ہو۔حضرت امام مسلم ؒ نے حضرت ابوزرؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب تو سالن پکائے تو اس میں شوربہ زیادہ کر لیا کرو اور اس سالن سے اپنے ہمسائے کی خبر گیری کیا کر۔ اور جو لوگ اپنے ہمسائے کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتے بلکہ ان کو ستاتے ہیں، ان کے بارے میں احادیث مبارکہ میں سخت تنبیہ آئی ہے۔چنانچہ بخاری ومسلم شریف کی روایت میں ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ کی قسم وہ ایماندار نہیں، اللہ کی قسم وہ ایمان دار نہیں، اللہ کی قسم وہ ایماندار نہیں تین مرتبہ یہی الفاظ آپ ﷺ نے دہرائے۔ سوال کیا گیا یارسول اللہ ﷺ وہ کون شخص ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا جس کا ہمسایہ اس کی شرارتوں سے محفوظ نہیں۔ بہت سے لوگوں کے پڑوسی بھوکے سوتے ہیں اور وہ خود خوب سیر ہو کر سوئے ہیں ان کو ہمسائے کی کوئی خبر نہیں۔ایسے لوگوں کے بارے میں حضرت عبداللہ ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ میں نے آپ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا وہ شخص مومن نہیں جو خود پیٹ بھر کر کھائے اور اس کا پڑوسی اس کے پہلو میں بھوکا ہو۔
ایک اور حدیث شریف میں ہے ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ !فلاں اپنی نماز روزہ اور خیرات کی کثرت کے باعث مشہور ہے مگر وہ اپنے ہمسائیوں کو اپنی زبان سے تکلیف پہنچاتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ جہنم میں ہے۔ان احادیث سے معلوم ہوا کہ ہمسائیوں کا ایک دوسرے پر کسقدر حق ہے۔
ہمسائیوں کے حقوق کئی طرح کے ہیں۔ مثلاً یہ کہ اس کے ساتھ احساس کرے اور رعایت سے پیش آئے۔ اس کے بیوی بچوں کی آبرو کی حفاظت کرے۔کبھی کبھی اس کے گھر تحفہ وغیرہ بھیجتا رہے۔ خاص طور پر جب پڑوسی اتنا غریب ہو کہ فاقہ تک نوبت پہنچ جا تی ہو۔ تو اس کو کچھ نہ کچھ کھانا ضرور دیا کرے اس کو تکلیف نہ دیں بلا وجہ معمولی باتوں میں اس سے رنج و تکرار نہ کرے۔ اگر کوئی ہمسایہ غیر مسلم ہو تو اس کے بھی حقوق ہیں مثلاً یہ کہ بلا قصور کسی کو جان و مال کی تکلیف نہ دیں۔ اس کے ساتھ بد زبانی نہ کرے اگر کسی کو مصیبت یا فاقہ یا بیماری میں مبتلا دیکھے تو اس کی مدد کرے، کھانا وغیرہ دے۔ علاج معالجہ کرا دے۔
جس طرح شہر و بستی میں ہمسایہ ہوتا ہے۔اس طرح سفر میں بھی ہوتا ہے۔ یعنی سفر میں روانہ ہوتے ہی جو اس کا رفیق سفر ہو یا راستے میں اتفاقاً اس کا ساتھ ہو گیا ہو تو اس کے حقوق بھی آبادی کے ہمسائے کی طرح ہیں۔ اس کے آرام کو اپنے آرام پر ترجیح دے۔ ریل گاڑی یا موٹر وغیرہ پر سوار ہوتے وقت اس کو آرام پہنچائے۔ وغیرہ وغیرہ۔ بعض ہمسائے نادا ر، غریب یا محتاج ہوتے ہیں۔ محتاج ہونے کی وجہ سے اور بھی زیادہ توجہ کے مستحق ہوتے ہیں۔ نہ وہ خود کماسکتے ہیں اور نہ ہی ان کا کوئی کمانے والا ہوتا ہے۔ پس وہ لوگ رب کے بھروسے پر پڑے ہوئے ہیں جیسے یتیم معصوم بچے جن کا کوئی وارث نہیں۔ بیوہ جس کا کوئی سہارانہیں، عاجز جو کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں ہے، اس قدر بوڑھا ہو چکا کہ خود محنت مزدوری نہیں کرسکتا، مسکین، بیمار کمانے کے قابل ہی نہیں رہا، اپاہج کسی حادثے کی وجہ سے اس حال کو پہنچ گیا کہ اب دوسروں کی طرف دیکھنے کے سوا اس کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے، وغیرہ۔ ان کے اور بھی زائد حقوق ہیں وہ یہ کہ جہاں تک ہو سکے تو مال سے ان کی خدمت کرے اپنے ہاتھ پاؤں سے ان کا کام کر دیا کرے۔ ان لوگوں کی دل جوئی اور تسلی کرتا رہے اور جہاں تک ہوسکے ان کی حاجت اور سوال کو رد نہ کرے اور اگر ان اہل حقوق کے کسی حق کی ادائیگی میں کچھ کمی ہو گئی ہو تو اس کو پورا کرے یا ان سے معاف کرائے اور آئندہ اس بات کا خیال رکھا کرے کہ کوئی کوتاہی نہ ہونے پائے۔ ہمیشہ ان کے حق میں دعائے خیر کرتا رہے۔اگر اس کے پڑوسی کی طرف سے کوئی زیادتی ہوئی ہو یا حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہوئی ہو تو اس کو معاف کر دے۔ اس میں بہت ثواب ہے خاص کر جب کوئی شخص منت سماجت کر کے معافی چاہے تو معاف کر دینے میں بہت ہی ثواب ہے اور اس کا اجر ہرحال میں اللہ کے ہاں محفوظ ہے۔جو روز قیامت کام آئے گا۔
اگر ہر شخص اس ذمہ داری کو محسوس کرے اور اپنے ہمسائے کے حقوق کا پوری طرح خیال رکھے اور انفرادی احساس کے ساتھ اگر ہر محلے والے اپنے اپنے محلوں میں ۱جتماعی تنظیمیں قائم کرکے اہل محلہ اور ہمسائیوں کے لیے کام کریں تو ہمارے معاشرے کی اصلاح ہو کر نہایت پُر سکون ماحول پیدا ہوسکتا ہے اور ہماری زندگی آرام و راحت میں تبدیل ہوسکتی ہے۔ ہم دین و دنیا کی سعادت سے بہرہ ور ہوسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ااس اُسوۂ حسنہ پر عمل کرنے کی توفیق اور اس پر استقامت عطا فرمائے۔آمین۔ ایک حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص نے اپنے ہمسائیوں کو تکلیف دی اس نے مجھ کو تکلیف دی۔اور جس نے مجھ کو تکلیف دی اس نے اللہ تعالی کو تکلیف دی۔اور جو شخص اپنے پڑوسی سے لڑا وہ مجھ سے لڑا اور جو مجھ سے لڑا وہ اللہ تعالیٰ سے لڑا۔ ہمسائے کے حقوق کے متعلق آپ ﷺ کی اتنی سخت ہدایت سے ہمسائے کے حقوق کے متعلق اس کی اہمیت سے کو ن انکار کرسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل و کرم سے ہمیں ہر چھوٹے بڑے گناہ سے محفوظ فرمائے۔آمین۔
٭٭٭
اتفاق و اتحاد کی ضرورت
اسلام ایک آفاقی دین ہے اور عالم گیر مذہب ہے اسے خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ لے کر آئے۔ اور یہ دین پورے کرہ ارض کے انسانوں اور جنوں کے لیے ہمیشہ کے لئے ہے۔ اس دین میں جامعیت اور کاملیت ہے اور ساتھ سا تھ لچک بھی ہے کہ یہ ہر طبقہ کے انسانوں کے لیے اور کرہ ارض کے ہر باسی کے لیے قابل عمل ہے۔ اور اس دین کو اللہ تبارک و تعالی نے تمام ادیان پر غلبہ عطاء فرمانے کے لے نازل فرمایا ہے۔
قرآن کریم میں واضح طور پر ارشاد ہے۔ ہُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہُ بِالْھُدٰی وَدِینِ الْحَقِّ لِےُظْہِرَہُ عَلَی الدِّینِ کُلِّہِ۔وَکَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیدَا۔ اللہ تعالی وہ ذات ہے جس نے اپنے رسول ﷺ کو ہدایت کا پیغام دے کر بھیجا تاکہ ان کا لایا ہوا دین تمام ادیان پر غالب آ جائے۔ اور پھر اعلان کیا کہ یہ دین کونسا ہے ؟ فرمایا اِنَّ الدِّینْ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامَ بے شک دین اللہ تعالی کے نزدیک اسلام ہے۔اور دین اسلام کے ماننے والوں کا نام مسلمان رکھا اور اعلان کیا ھو سمکم المسلمین ( سورہ حج آیت نمبر 78) اور حضور اکرم ﷺ نے تمام مسلمانوں کو بھائی قرار دیا ارشاد رفرمایا اَلْمُسْلِمُ اَخُوْ الْمُسْلِمُ اور ہر مسلمان کی نشانی یہ بتلائی اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِّسَانِہِ وَ ےَدِہِ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ اور ایک مسلمان کو دوسرے مسلمون کے لیے سلامتی کا نشان بننے کے لیے ایک سبق دیا کہ جب بھی کوئی مسلمان دوسرے مسلمان سے ملاقات کرے تو کہے اَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ اور دوسرا مسلمان جواب میں فورا کہے وَعَلَےْکُمُ السَّلَامُ اور سرکار دو عالم ﷺ نے اپنے بہت سے خطابات میں اس بات کی بار بار تلقین فرمائی کہ تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ خطبہ حجۃ الوداع میں پوری وضاحت فرما دی کہ کسی بھی مسلمان کو کسی دوسرے مسلمان پر قومیت کی وجہ سے، علاقائیت کی وجہ سے، رنگ و نسل کی وجہ سے یا زبان کی وجہ سے کوئی فضیلت نہیں ہے۔ اور آپ کا یہ فرمان اللہ تبارک و تعالی کے فرمان عالی کی تشریح تھی۔ ہر مسلمان کی آبرو ایک جیسی ہے کسی مسلمان کی عزت مال جان کے نقصان کی کسی دوسرے کو کسی صورت میں اجازت نہیں ہے۔ پھر آپﷺ نے فرمایا میں نے جاہلیت کی تمام رسوم اپنے قدموں کے نیچے روند ڈالی ہیں۔
یہ اللہ تبارک و تعالی کے فرمان کی تشریح تھی جو سورہ حجرات کی آیت نمبر 113 میں ہے۔ ےَااَیُّھَاالنَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِنْ ذَکَرِ وّْاُنْثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبَا وَّ قَبَاءِلَ لِتَعَارَفُوْاِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَاللّٰہِ اَتْقٰکُمْ اِنَّ اللّٰہِ عَلِیمُ خَبِیرَ اے لوگو ہم نے تمہیں ایک ہی مرد اور عورت (حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا ) سے پیدا کیا ہے۔ تمہارے خاندان اور قبیلے صرف ایک پہچان کی خاطر ہیں۔ بے شک تم میں سب سے بڑا عزت والا شخص وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہو۔ بے شک اللہ تعالی ہر چیز کو جاننے والا اور خبر رکھنے والا ہے۔
ان تمام فرمودات عالیہ سے واضح ہوتا ہے کہ سب مسلمان بھائی بھائی ہیں۔اور کسی بھی مسلمان کو جو عزت و عظمت حا صل ہے وہ صرف تقوی و پرہیزگاری ہے جو کہ قرب خداوندی اور حضور اکرم ﷺ کا سبب ہے۔ علاوہ ازیں کوئی بھی چیز کسی دوسرے پر باعث فضیلت نہیں ہے مختلف زبانیں جو مختلف ممالک میں اور مختلف علاقوں میں بولی جاتی ہیں ان کے متعلق بھی واضح طور پر کہ دیا کہ ان زبانوں کا خالق بھی اللہ تبارک و تعالی ہے۔ سورہ روم کی آیت نمبر 22 میں ارشاد فرمایا وَ مِنْ آےَاتِہِ خَلْقَ السَّمَوٰاتِ وَالْاَرْضِ وَ اِخْتِلاَفُ اَلْسِنَتِکُمْ وَ اَلْوَانِکُمَ اِنَّ فِیْ ذَالِکَ لِاَیَاتِ لِّلْعٰلَمِیْنَ بے شک آسمانوں اور زمین کی خلقت میں اور زمین پر بولی جانے والی مختلف زبانوں میں اور انسانوں کے رنگوں میں جو فرق ہے یہ اللہ تبارک و تعالی کی نشانیوں میں سے ہے۔
ان تمام وضاحتوں کی بناء پر ہی اللہ تبارک و تعالی نے حکم دیا وَاعْتَصِمُوْ بِحَبْلِ اللّٰٰہِ جَمِےْعَا وَّلاَ تَفَرَّقُوْ اے ایمان والو تم سب کے سب متحد ہو کر اللہ تعالی کی رسی کو یعنی دین اسلام کو تھام لو اور آپس میں تفرقہ بازی مت کرو یعنی مذہب کے طور پر یا علاقائیت کی بناء پر یا زبانوں کے اختلاف کی بناء پر یا رنگ و نسل کی بناء پر یا امارت اور غربت کی بناء پر یا کسی بھی اور وجہ سے آپس میں تفرقے مت ڈالو اور جدا جدا ٹولیوں میں تقسیم نہ ہونا بلکہ سب کے سب ایک ہی سچے نبی ﷺ کی ایک ہی امت بن کر زندگی گذارنا۔
کتنے دکھ اور افسو س کی بات ہے کہ امت مسلمہ انہی تعصبات میں پڑ کر گروہوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ کسی علاقے کی شناخت کی بناء پر مثلاً پٹھان سندھی بلوچی پنجابی سرائیکی کہلوانا کوئی عیب نہیں ہے۔ اور نہ ہی کوئی زبان بولنا مثلاً عربی فارسی انگریزی اردو پنجابی سرائیکی یا دنیا بھر کی کوئی بھی زبان بولنا بھی کوئی عیب نہیں ہے۔ کیونکہ یہ تمام خطے اللہ تبارک و تعالی نے ہی بنائے ہیں اور تمام زبانوں کا خالق بھی اللہ تبارک و تعالی ہی ہے اس کی یہ حکمت کے راز ہیں کہ اس نے اپنی پوری زمین کو آباد رکھنے کے لیے یہ تقسیم فرمائی مگر ان میں سے کوئی بھی چیز دوسرے پر باعث فضیلت نہیں ہے جو شخص جس علاقے سے بھی تعلق رکھتا ہے یا جو بھی زبان بولتا ہے وہ عزت والا ہے عظمت والا ہے۔ اور ہر زبان بولنے والا اور ہر خطے میں رہنے والا دوسرے کا احترام کرنے کا از روئے دین و ایمان پابند ہے۔
افسوس کی بات یہ بھی ہے لوگوں کے ذہنوں میں لوکل مہاجر کی بھی ایک تفریق پائی جاتی ہے۔ حالانکہ یہ بات کسی طرح بھی باعث فخر نہیں ہے۔ حضور اکرم ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام جب مکہ مکرمہ میں تھے تو سب کے سب لوکل تھے جب مدینہ طیبہ میں تشریف لائے تو سب کے سب مہاجرین کی صف میں شامل ہو گئے۔اور مدینہ طیبہ کی آبادی انصار یعنی لوکل کہلائی۔ اس بناء پر اللہ تعالی نے قرآن کریم میں متعدد بار مہاجرین و انصار کا لفظ استعمال فرمایا اور سب کے لیے اپنے انعامات کا وعدہ فرمایا اور دین اسلام کی ترقی میں مہاجرین و انصار کا حصہ برابر ہے۔ آپ ﷺ نے مہاجرین اور انصار کو آپس میں الفت و محبت سے اور ایک دوسرے کا مکمل احترام کرنے کا سبق دیا اور اس کی تاکید کی اور زندگی مبارک کے آخری لمحات تک یہ سبق دیتے رہے۔
آپ نے تمام عصبیتوں کو بالکل برا جانا ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ غزوہ بنو مصطلق سے واپسی پر فوج دوپہر کو ایک جگہ آرام کر رہی تھی ایک کنویں سے پانی لینے کے لیے دو شخص گئے ان میں سے ایک شخص وہ تھا جو ہجرت کر کے مدینہ طیبہ آ یا ہوا تھا اور ایک شخص مدینہ طیبہ کا ہی باشندہ تھا۔ وہاں ان کا کسی بات پر جھگڑا ہو گیا تو دونوں نے اپنے اپنے رشتہ داروں کو آواز دی مہاجر کی برادری مہاجرین تھے وہ آ گئے۔ لوکل کی برادری لوکل تھی وہ آ گئے اور یہ صرف رشتہ داری اور تعلق کی بناء پر آواز دی گئی مگر دہاں چند منافقین نے اسے لوکل مہاجر کا جھگڑا قرار دینے کی کو شش کی۔ بعدمیں عبداللہ بن ابی جو ہمیشہ اسلام کے سا تھ دشمنی میں پیش پیش رہتا تھا اس نے کہنا شرع کر دیا کہ جب سے یہ مہاجرین آئے ہیں ہمارا شہر تناہ ہو گیا ہے۔ انہوں نے ہمیں پریشان کر رکھا ہے میں ہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ ان کو نکال باہر کرو۔ اور اس نے پوری طرح سے لوکل مہاجر مسلئے کو ہوا دینے کی ناپاک کو شش کی۔ حضور اکرم ﷺ جو اپنے خیمے میں تشریف فرما تھے وہاں ان تک یہ جھگڑے کی باتیں پہنچیں تو آپ ﷺ وہاں جلدی سے پہنچے اور فرمایا کہ یہ کیا فضول باتیں میں سن رہا ہوں۔ میں نے جس جاہلیت کو اپنے قدموں کے نیچے روند ڈالا تھا تم اسی کو دوبارہ زندہ کرنا چا ہتے ہو۔ اور فرمایا چھوڑ دو ان باتوں کو۔ آپ سب بھائی بھائی ہیں پھر آپ نے سب کی صلح کرا دی۔
ان باتوں کے بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ امت مسلمہ میں جو اختلافی امور پائے جا رہے ہیں جس بناء پر قتل و غارت تک نوبتیں پہنچ رہی ہیں یہ سرا سر دین مذہب کے خلاف باتیں ہیں۔ مسالک میں جو اختلاف ہے اگر علمی حد تک رہے اختلاف مخالفت میں تبدیل نہ ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔ حضور اکرم ﷺ کا فرمان عالی ہے اختلاف امتی رحمۃ میری امت کا اختلاف بھی رحمت ہے جب کسی مسئلے میں اختلاف ہوتا ہے تو اہل تحقیق کتب دینی پر زور دیتے ہیں اور کثرت سے مطالعے ہو تے ہیں اور اس مسئلے کا علمی حل تلاش کیا جاتا ہے۔ اور اس قسم کے علمی اختلافات اصحاب رسول اللہ کے درمیان بھی رہے ہیں۔ لیکن باہمی عزت و عظمت میں کبھی کوئی فرق نہ آ یا اور نہ ہی ایک دوسرے کے مقام و مرتبے کو پہچاننے میں کوئی کوتاہی سرزد ہوئی ہے۔
میرا تجزیہ یہ ہے کہ تمام مسالک کے درمیان اصولی باتوں پر اختلاف بہت کم ہے۔ اور فروعی باتوں پر بہت زیادہ ہے۔ کسی بھی مسلک کے کم علم لوگ فروعات کو اصولوں پر ترجیح دیتے ہیں۔ جب کہ یہ تمام مسالک کے اہل علم کے نزدیک اصول پرستی مقدم ہے۔ ضرورت ہے کہ اہل علم طبقہ آ گے آئے اور باہمی محبت الفت کو رواج دے اور عوام میں اختلافی مسائل کو کم سے کم لے جانے کی کو شش کرے۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ پوری امت کو ایسے اختلافات سے محفوظ رکھے جو باعث نزاع و مخالفت ہوں جس بناء پر جھگڑا فساد اور قتل و غارت کی نوبت پہنچے۔ آمین
٭٭٭
آفتاب رسالت ﷺ کا سفر آخرت
12 ربیع الاول کی تاریخ مشہور قول کے مطابق سرور کائنات فخر موجودات سید الاولین والآخرین خاتم النبین حضرت محمد مصطفی احمد مجتبی ﷺ کی پیدائش کی بھی تاریخ ہے اور تمام مورخین اسلام اس پر بھی متفق ہیں کہ یہی تاریخ آپ کی سفر آخرت کی بھی ہے۔ بلاشبہ پوری کائنات کے لیے یہ تاریخ سب سے بڑی خوشی کی بھی ہے کہ یہی وہ تاریخ ہے کہ جس میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس عظیم ہستی کی زیارت سے اس عالم آب گل میں بسنے والی مخلوق کو مشرف فرمایا۔
اور یہی تاریخ اداسی اور غمی کی بھی ہے کہ اسی روز کائنات کی محبوب ترین ہستی جو کہ امت کی آنکھوں کا نور دل کا سرور ذہنوں کا سکون تھے ظاہری نظروں سے اوجھل ہو گئے تھے۔صحابہ کرام فرماتے ہیں کہ اس روز باوجود اس کے کہ سورج پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا مگر فراق پیغمبر اور جدائی رسول میں آنکھوں میں جو غم پھیلا ہوا تھا،اس کی وجہ سے مدینہ کی گلیوں میں اندھیری رات نظر آ رہی تھی۔ہر آنکھ اشک بار تھی۔ ہر دل ہجر کے غم میں خون کے آنسو بہا رہا تھا۔
حضور اکرم ﷺ کا سفر آخرت جب قریب آ چکا تھا تو بہت سی علامتیں ظاہر ہونا شروع ہو چکی تھیں۔ اور بہت سے اشارات مل رہے تھے کہ آفتاب نبوت کا سفرزندگی اختتام کے قریب ہے۔ جب سورہ فتح کی بشارت پو ری ہو چکی اور لو گ جوق در جوق دین اسلام میں دا خل ہو چکے۔ کفر و شرک کی بیخ کنی ہو چکی۔ فرائض نبوت تکمیل پا چکے۔ تو اللہ تعالی جلہ جلالہ کے پیا رے پیغمبر ﷺ نے حجۃ الوداع کا ارادہ فرمایا۔ ہجرت سے قبل آں جناب نے دو حج فرمائے تھے۔ اور ہجرت کے بعد یہ پہلا اور آخری حج تھا۔ حج سے فارغ ہوئے تو یہ مقدس آیات نازل ہو ئیں۔ االیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا۔ آج میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر پو را کر دیا۔ اور ہمیشہ کے لیے دین اسلام کو تمہارے لئے پسند کیا۔
یہ مقدس آیت بشا رتِ تکمیلِ دین بھی لے کر آ ئی اور سا تھ ہی سر کا ر کی آ مد کا مقصد مکمل ہو نے کی بنا ء پر وا پسی کا اعلان بھی کر گئی۔ حج سے واپسی پر غدیر خم پر خطبہ میں ارشاد فرمایا اے لو گو میں ایک انسان ہوں ممکن ہے عنقریب میرے پروردگار کی طرف سے کو ئی قا صد مجھے بلا نے کے لئے آ جائے اور میں اس دعوت کو قبول کر لوں۔ یہ آپ کی طرف سے سفر آخرت کی طرف روانگی کا دوسرا اشارہ تھا۔ ذو الحج کے آ خر میں مدینہ واپسی ہوئی۔ 26 صفر یوم دو شنبہ 11ھ کو رومیوں کے مقابلے کے لیے مقام ابنیٰ کی طرف غزوہ موتہ کا بدلہ چکانے کے لیے حضرت اسامہ بن زیدؓ کی سپہ سالا ری میں لشکر تیار کیا۔اگلے روز رات کو جنت البقیع تشریف لے گئے اور بقیع کے خلد نشینوں کے لیے دعائے مغفرت اور ترقی درجات فرما ئی۔ اگلے روز درد سر اور بخار کی تکلیف شروع ہو گئی۔ با وجو د نا سا زی طبع کے ازواج مطہراتؓ کے ہاں ان کی مقررہ باریوں پر تشریف لے جا تے رہے۔ مگر جب مرض کی شدت ہو ئی تو ازواج مطہراتؓ سے اجازت لے کر سیدہ کائنات صدیقہؓ بنت صدیقؓ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے ہاں مستقل قیام پذیر ہو گئے۔
پا نچ روز قبل جمعرات کو حضرت عبا سؓ اور حضرت علیؓ کے سہارے مسجد میں تشریف لائے اور نما ز ظہر پڑھائی اور ایک بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا جو حیات مبارکہ کا آخری خطبہ تھا۔جس میں بہت سی نصیحتیں فرمائیں۔ آ خر میں فرمانے لگے میں نے ہر اس شخص کے احسان کا بدلہ ادا کر دیا جس نے مجھ پر کسی بھی انداز میں احسان کیا تھا مگر ابو بکر صدیقؓ کے احسانات کا بدلہ قیا مت کے دن اللہ تعالی ہی عطاء فرمائیں گے۔ اور فرمایا جتنے دروازے صحن مسجد میں کھلتے ہیں صرف ابو بکرؓ کا دروازہ کھلا رہنے دیا جائے با قی سب بند کر دیے جائیں۔ پھر فرمایا یہود نصاریٰ پر اللہ کی لعنت ہو جنہوں نے پیغمبروں کی قبروں کو سجدہ گا ہ بنایا۔ اور بار گاہ خداوندی میں ہا تھ اٹھا کر التجا ء فرمائی ” اے اللہ میری قبر کی حفاظت آپ کے ذمہ ہے میری قبر کو سجدہ گا ہ بننے سے محفوظ رکھنا "۔
پھر مہاجرین اور انصار کے فضائل بیان فرمائے اور پو ری امت کو انکے سا تھ خیر خوا ہی اور حسن سلوک کی تا کید کی۔ آ خری الفا ظ یہ فرمائے میرے صحابہ میں تم سے پہلے جا رہا ہوں میرا تمہارا وعدہ حوض کوثر پر ملنے کا ہو چکا ہے۔ وقت دور نہیں کہ تم سب مجھے وہاں آ ملو گے۔ پھر مجلس برخواست ہو گئی۔ واپس حجرہ نور میں تشریف لے آئے۔ عصر کی نما ز اور مغرب کی نماز کے لیے مسجد نبوی میں تشریف لائے۔ عشا ء کی نماز کے وقت طبیعت میں نقا ہت اور کمزوری حد سے زیادہ بڑھ گئی اور مسجد میں تشریف نہ لا سکے تو سیدنا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کو اپنے مصلی پر کھڑا ہو نے کا حکم فرمایا۔آپ نے جمعرات کے دن عشا ء کی نماز سے لے کرسوموا ر کی صبح فجر تک سترہ نمازوں کی اما مت فرمائی۔
شنبہ کو نماز ظہر کے وقت جماعت کھڑی تھی صدیقؓ اکبر نماز پڑھا رہے تھے کہ آپ کچھ افاقہ محسوس فرما تے ہوئے مسجد میں تشریف لائے۔ صدیق اکبر ؓ آ ہٹ پا کر پیچھے ہٹنے لگے مگر آپ نے منع فرمایا اور ان کے پہلو میں بیٹھ کر نماز پڑھا ئی۔رحلت مبارک سے ایک رو ز قبل تمام غلاموں کو آ زاد کر دیا۔ گھر میں سا ت دینا ر نقد کل پو نجی تھی وہ بھی غربا ء کو تقسیم فرما دی۔سوموار کی صبح کو طبیعت کا فی حد تک سنبھل گئی۔ نماز فجر جا ری تھی کہ حجرہ مبارک سے پردہ اٹھا کر لو گوں کو دیکھا۔اس وقت رخِ انور پر بشاشت اور ہو نٹوں پر مسکرا ہٹ تھی۔ روئے انور قرآن کا ورق معلوم ہو تا تھا۔آہٹ پا کر صحابہ کرامؓ نے سمجھا شاید سرکار دو عالم ر ﷺ با ہر تشریف لا رہے ہیں۔ قریب تھا کہ جو ش مسرت اور بے خو دی کی بناء پر نما ز یں توڑ دیتے مگر آپ نے پردہ ڈال دیا۔سورج آسمانی طلوع ہو کر کچھ بلندیوں پر آ یا تھا کہ آفتاب نبوت کا سفر آخرت قریب آ گیا۔
یک دم طبیعت پر کمزو ری کا غلبہ ہو نے لگا آپ نے حضرت فاطمۃ الزہرہؓ کو یاد فرمایا گلے لگا کر پیشانی مبارک کو بو سہ دیا اور سیدۃ النسا ء کا خطاب عطا ء فرما یا۔ پھر حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہما کو بلا کر چو ما اور ان کے احترام کی وصیت فرما ئی۔ پھر ازواج مطہرات کو بلا یا اور انتہا ئی ہمدردانہ گفتگو فرما ئی اور بہت سی نصیحتیں فرمائیں۔ پھر خا تون جنت حضرت سیدہ،طا ہرہ فاطمۃالزہرا سے سر گو شی فرما ئی اور وہ رو پڑیں۔ مہربان باپ نے لخت جگر نو ر نظر کے ضبط اور صبر کے بندھن ٹوٹتے ہوئے دیکھے تو دو با رہ سر گو شی فرمائی اور وہ مسکرا پڑیں۔ بعد میں حضرت عائشہ صدیقہؓ کے استفسار پر سیدہ کائنات بنت رسول اللہ ﷺ نے بتایا کہ میرے ابا حضورﷺ نے پہلی دفعہ مجھے اپنی رحلت کی اطلاع بخشی تھی۔ جس پر میں بے ساختہ رو پڑی۔ دو سری دفعہ مجھے بشارت دی کہ آپ میرے سب گھر وا لوں میں سے سب سے پہلے میرے پاس پہنچیں گی تو میرا غم ہلکا ہو گیا اور میں مسکراپڑی۔چنانچہ صرف 6 ماہ بعد پیغمبر رحمت ﷺ کی لا ڈلی شہزادی اپنے مہربان شفیق و کریم باپ سے جا ملی۔
اس کے بعد طبیعت میں لحظہ بہ لحظہ مزید کمزوری آ نے لگی۔ اتنے میں حضرت عبدالرحمن بن ابی بکرؓ ہا تھ میں مسواک لئے ہوئے تشریف لائے۔ آپ کے اشارہ پر سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا نے اپنے دہن مبارک میں اسے چبا کر حضور اکرم ﷺ کو پیش فرمایا جسے آپ نے استعمال کیا۔ اسی لمحے سینہ مبا رک میں سا نس کی رفتار تیز ہو گئی۔ آپ نے یک لخت چھت کی طرف دیکھا ایسے محسوس ہوا کہ کو ئی غیبی طاقت کا ورود مسعود ہوا ہے۔ اسے دیکھتے ہی آپ نے آسمان کی طرف ہا تھ اٹھائے اور فرمایا اللھم فی الرفیق الاعلی۔ اور ایک نور کی چمک آنکھوں مبارک سے نکلی اور جان جانِ آفرین کے سپرد ہو گئی۔ انا لللہ و انا الیہ را جعون۔
جوں ہی یہ جاں گداز واقعہ پیش آ یا مدینہ میں ایک کہرام برپا ہو گیا اور ہر طرف تہلکہ مچ گیا۔ پو را شہر حجرہ نبوی کی طرف اُ مڈ پڑا۔ یہ خبر فوری طور پر پورے خطہ عرب میں پھیل گئی اور ہر کو نے سے مشتا قانِ دیدار نبوی مدینہ کی طرف چل پڑے۔ اصحاب رسول فرط غم سے نڈھا ل ہو گئے۔ با لخصوص ازواج مطہراتؓ، سیدہ فا طمۃؓ الزہرا، حضرت علیؓ، حضرت عمر فاروقؓ، اور حضرت عثمان غنیؓ، غم کی وجہ سے سنبھل ہی نہیں پا رہے تھے۔ اس موقع پر صرف حضرت ابو بکر صدیقؓ وہ عظیم انسان تھے جن کو اللہ نے بے پنا ہ حوصلہ بخشا اور انہوں نے اس ا نتہائی اندوہناک واقعہ پر نہ صرف اپنے غم پر کنٹرول کیا بلکہ دوسروں کو بھی حوصلہ بخشا اور سہارا دیا۔
جسد مبارک کو سفید چا در سے ڈھانپ دیا گیا۔ غسل کی تیاری کی گئی۔ سیدنا حضرت علیؓ کرم اللہ وجہہ، حضرت عبا سؓ ان کے دو بیٹوں افضل اور قثم اور حضرت اسامہ بن زیدؓ نے غسل مبارک دیا اور کفن پہنا یا گیا۔ اور عام دیدار کے لیے حجرہ انور کے دونوں طرف دروازے کھول دیے گئے لو گوں کی جما عتیں ایک دروازہ سے داخل ہو کر درود و سلام پڑھتی ہو ئی دوسری طرف سے نکلنے لگیں۔مسلسل تین روز دن اور رات یہ سلسلہ جا ری رہا۔ اس دوران آپ کے حکم کے مطابق خلیفہ کے فوری انتخاب کا مرحلہ بھی طے ہو گیا۔کیونکہ آپ کا فرمان عالی ہے کہ ایک خلیفہ کا جب وصال ہو جائے تو اس کے کفن دفن سے پہلے دوسرے خلیفہ کا انتخاب عمل میں لے آنا چاہئے۔ تمام حاضرین نے جمہو ری طریقہ پر حضرت ابو بکر صدیقؓ کا انتخاب فرمایا اور آپ کے دست بارک پر بیعت کی۔
چہا ر شنبہ بدھ کی رات ہجرہ اطہر جہاں چار پا ئی مبارک تھی وہیں قبر مبارک کھو دی گئی اور لاکھوں انسانوں نے خون کے آنسوبہا تے ہوئے کف افسوس ملتے ہوئے حبیب خدا ﷺ کو قبر میں اتا را۔اس طرح نماز جنا زہ بغیر امام کے صرف درود و سلام پڑھنے کی صورت میں مکمل کی گئی۔حضور اکرم ﷺ نے اپنی زندگی مبا رک درویشانہ اور فقیرانہ گزاری تھی نہ کو ئی درہم جمع کئے نہ کو ئی دینا ر۔اگر کچھ پاس تھا بھی تو وفات مبارکہ سے قبل اللہ کی راہ میں خرچ کر دیا۔ بوقت وفا ت آپ کی عمر مبا رک 63 برس تھی۔
آپ نے زندگی مبا رک میں گیارہ شادیاں فرمائیں۔ازواج مطہرات یعنی امہات المومنین کے نام یہ ہیں۔ حضرت خدیجۃ الکبریؓ۔ حضرت سودہؓ۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ۔ حضرت حفصہؓ۔ حضرت زینبؓ بنت خزیمہؓ۔ حضرت ام سلمہؓ۔ حضرت زینب بنت جحشؓ۔ حضرت جویریہؓ۔ حضرت ام حبیبہؓ۔ حضرت صفیہؓ۔ حضرت میمونہؓ۔ جن میں سیدہ حضرت خدیجۃ الکبریؓ اور سیدہ حضرت زینبؓ نے حضور اکرم ﷺ کی زندگی مبارک میں وفات پا ئی با قی سب بقید حیات تھیں۔ اولاد میں حضرت قاسمؓ، حضرت عبداللہؓ، حضرت زینبؓ، حضرت رقیہؓ، حضرت ام کلثومؓ، حضرت فا طمۃؓ، حضرت خدیجۃالکبریؓ کے بطن مبارک سے پیدا ہوئے۔ ایک بیٹے حضرت ابراھیمؓ سیدہ حضرت ماریہ قبطیہؓ کے بطن مبا رک سے تولد ہوئے۔ یہ گنبد خضریٰ جس سے پو ری دنیا کو آنکھوں کی ٹھنڈک اور طراوت نصیب ہو تی ہے یہ حضرت عا ئشہ صدیقہؓ کا وہ حجرہ مبارک ہے جس میں حضور اکرم ﷺ ہمیشہ آ رام فرما تے رہے۔
٭٭٭
ماخذ:
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید