فہرست مضامین
کچھ اسلامی کہانیاں
مرتبہ: اسرار الحق
ڈاؤن لوڈ کریں
کنڈل فائل
مکمل کتاب پڑھیں ….
ایمرجینسی لائٹ
یہ پچھلے جمعہ کی بات ہے کہ میں رات کے آٹھ بجے اپنے دفتر کی آٹھویں منزل پر بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک بجلی چلی گئی۔ سارا علاقہ اندھیرے میں ڈوب گیا۔ عجیب بھیانک منظر تھا، دور دور تک کہیں روشنی کا نام نہیں تھا۔ کمرے کا ایر کنڈیشن بھی بند ہو گیا۔ ذرا سی دیر میں سارا جسم پسینے سے شرابور ہو گیا۔ شیشے کی عمارت میں بڑھتی ہوئی گرمی سے سانس پھولنا شروع ہو گیا۔ میں جلدی سے باہر نکلنے کے لئے اٹھا، لیکن اٹھتے ہی دروازے سے ٹکرا گیا۔ مجھے ابھی تک یہ علم بھی نہیں تھا کہ کرسی سے دروازے تک کتنے قدم کا فاصلہ ہے۔ خیر کسی طرح لفٹ تک پہونچا لیکن آہ۔ وہ لفٹ بھی بند پڑی تھی اور اس میں سے ان لوگوں کے چیخنے کی آوازیں آ رہی تھیں جو لفٹ میں پھنس گے تھے۔ کئی جگہ ٹھوکریں کھا کر زینے تک پہنچا اور دیوار کے سہارے ٹٹول ٹٹول کر نیچے اترنا شروع کیا۔ کئی جگہ ٹھوکر کھائی، کئی مرتبہ گر پڑا۔ آٹھ منزل کی سیڑھیاں ایک مصیبت بن گئیں۔ خدا خدا کر کے کسی طرح اپنی کار تک پہنچا اور اس کا دروازہ کھولتے ہی شہر میں بجلی واپس آ گئی۔ سارا شہر پھر اسی طرح جگمگانے لگا۔
میں نے اپنا جائزہ لیا۔ کئی جگہ چوٹ لگی تھی، ماتھے سے خون نکل رہا تھا، کپڑے پسینے میں شرابور تھے اور میں ایک پرانے مریض کی طرح بس اپنے بستر پر گر جانا چاہتا تھا۔ بجلی گئی اور ایک گھنٹے میں آ گئی لیکن یہ ایک گھنٹہ میری زندگی میں ایک انقلاب برپا کر گیا کہ ہم کتنے مصنوعی ماحول میں زندگی گزار رہے ہیں۔ دوسرے دن میں نے محسوس کیا کہ اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے ہمارے دفتر میں ایک امرجینسی لایٹ کا ہونا ضروری ہے تا کہ نہ میز سے ٹھوکر لگے نہ دروازے سے سر ٹکرائے۔ میں نے ایک کمپنی کو ٹیلیفون کیا اور وہاں سے ایک سیلز مین کیٹلاگ لے کر آ گیا اس نے اپنی فنکاری دکھائی اور کہنا شروع کیا۔ ہماری کمپنی کی لایٹ بہت پائیدار ہے، پانچ سال کی گارنٹی ہے۔ اس کو آپ ایک بار دیوار پر لٹکا کر بجلی کا کنکشن لگا دیجئے اور بس۔ جس وقت بھی بجلی بجھے گی یہ جل اٹھے گی۔ آپ کو بجلی جانے کا احساس بھی نہیں ہو گا۔ اس کی بیٹریاں اصلی جاپانی ہیں۔ چین کی بنی ہوئی نہیں ہیں۔ بس سال میں ایک بار اس کی سروس کرا لیا کیجئے۔ کبھی آپ کو اندھیرے سے سابقہ نہیں پڑے گا۔ میں نے سیلز مین کا بیان بہت غور سے سنا۔ اچانک مجھے خیال آیا۔ یہ تو ایک گھنٹے کا اندھیرا تھا۔ اور قبر کا اندھیرا۔ میں نے سنبھل کر سیلز مین سے پوچھا ’بجلی جاتے ہی آپ کی لایٹ خود بخود روشن ہو جاتی ہے؟‘ اس نے جواب دیا۔ ’یہ آٹومیٹک ہے‘
میں نے پوچھا ’اس کی بیٹری کب بدلوانی پڑتی ہے؟’ اس نے جواب دیا۔ ’یہی کوئی سال دو سال بعد۔‘ میں نے جلدی سے یہ کہہ کر اس کو رخصت کیا کہ جلد ایک امرجینسی لایٹ بھیج دو اور میں فوراً آٹھ کر مسلم یتیم خانے کے دفتر گیا اور تین ہزار روپے جمع کراتے ہوئے آہستہ سے کہا۔ ’یہ میری امر جینسی لایٹ کے ہیں۔ ہر سال بیٹری کے الگ سے دوں گا۔‘ ناظم صاحب میری بات نہ سمجھ سکے۔ انہوں نے فرمایا۔ ’’میں نے یہ رقم کفالت یتیم کی مد میں جمع کر لی ہے اللہ آپ کا دل منوّر کرے۔‘‘ میں نے آہستہ سے کہا۔ اور قبر بھی۔۔۔‘
٭٭٭
بوڑھے شخص کی نوجوان کو نصیحتیں
میں گھر میں ہونے والی ایک تلخی پر ناخوش ہو کر گھر سے نکل کر روڈ پر چلا جا رہا تھا کہ پڑوس میں رہنے والے بابا جی نے روک کر پوچھا۔
’’بیٹا اداس لگ رہے ہو خیریت تو ہے؟‘‘
بابا جی کی بات سن کر میں نے اپنی شکایتوں کا دفتر کھول دیا۔
بابا جی زیر لب مسکرائے اور زمین سے چھوٹی سی ٹہنی لی اور فرش پر رگڑ کر اس کی چوب بنا کر بولے:
’’بھولے بادشاہ آؤ، میں تمہیں انسان کو بندہ بنانے کا نسخہ بتاتا ہوں۔
اپنی خواہشوں کو کبھی اپنے قدموں سے آگے نہ نکلنے دو۔ جو مل گیا اس پر شکر کرو۔ جو چھن گیا اس پر افسوس نہ کرو۔ جو مانگ لے اس کو دے دو۔
جو بھول جائے اسے بھول جاؤ۔
دنیا میں بے سامان آئے تھے۔ بے سامان واپس جاؤ گے۔ سامان جمع نہ کرو۔
ہجوم سے پرہیز کرو۔
جسے خدا ڈھیل دے رہا ہو، اس کا کبھی احتساب نہ کرو۔
بلا ضرورت سچ فساد ہوتا ہے۔ کوئی پوچھے تو سچ بولو۔ نہ پوچھے تو چپ رہو۔
لوگ لذت ہوتے ہیں اور دنیا کی تمام لذتوں کا انجام برا ہوتا ہے۔
زندگی میں جب خوشی اور سکون کم ہو جائے تو سیر پر نکل جاؤ۔ تمہیں راستے میں سکون بھی ملے گا اور خوشی بھی۔
دینے میں خوشی ہے۔ وصول کرنے میں غم۔
دولت کو روکو گے تو خود بھی رک جاؤ گے۔
چوروں میں رہو گے تو چور ہو جاؤ گے۔ سادھوؤں میں بیٹھو گے تو اندر کا سادھو جاگ جائے گا۔
اللہ راضی رہے گا تو جگ راضی رہے گا۔ وہ ناراض ہو گا تو نعمتوں سے خوشبو اڑ جائے گی۔
تم جب عزیزوں۔ رشتے داروں۔ اولاد اور دوستوں سے چڑنے لگو تو جان لو اللہ تم سے ناراض ہے اور تم جب اپنے دل میں دشمنوں کے لیے رحم محسوس کرنے لگو تو سمجھ لو تمہارا خالق تم سے راضی ہے۔
ہجرت کرنے والا کبھی گھاٹے میں نہیں رہتا۔‘‘
بابے نے ایک لمبی سانس لی۔ میرے سر پر ہاتھ پھرا اور فرمایا،
’’اللہ تم پر رحمتوں کا سایہ آخری سانس تک رکھے۔ بس ایک چیز کا دھیان رکھنا کسی کو خود نہ چھوڑنا۔
دوسرے کو فیصلے کا موقع دینا۔ اللہ کبھی اپنی مخلوق کو تنہا نہیں چھوڑتا۔ مخلوق اللہ کو چھوڑتی ہے اور دھیان رکھنا جو جا رہا ہو اسے جانے دینا مگر جو واپس آ رہا ہو۔ اس پر کبھی اپنا دروازہ بند نہ کرنا۔ یہ بھی اللہ کی عادت ہے۔ اللہ واپس آنے والوں کے لیے ہمیشہ اپنا دروازہ کھلا رکھتا ہے۔
تم یہ کرتے رہنا۔ تمہارے دروازے پر میلہ لگا رہے گا۔‘‘
میرے قدموں کا رخ خود بخود گھر کی طرف ہو گیا کیونکہ مجھے انسان سے بندہ بننے کا نسخۂ کیمیاء مل گیا تھا۔
٭٭٭
پارس پتھر
اس کا نام عمر تھا۔ قسمت کا دھنی تھا جو چیز وہ ہاتھ میں لیتا تھا وہ چمک اٹھتی تھی۔ کہتے ہیں اگر وہ مٹی اٹھاتا تھا وہ اس کے ہاتھ میں آ کر سونا بن جاتی تھی۔
اس کو اپنے باپ سے ورثے میں دس ملین ریال ملے تھے، اس سے اس نے ایک فیکٹری خریدی جو پانچ سال میں ہی دوگنی ہو گئی۔ پھر اس کی آمدنی سے اس نے شیر(حصص) خریدے جو دس گنے ہو گئے۔ بس پھر کیا تھا ہر طرف دولت ہی دولت تھی۔ وہ حیران تھا کہ اتنی دولت کا کیا کرے؟ اس نے سویزر لینڈ کے ایک ہوٹل میں بڑا حصّہ خرید لیا۔ چند سال بعد مالکان نے پورا ہوٹل اس کے ہاتھ بیچ دیا جس کو اس نے بڑھا کر دوگنا کر دیا۔ ایک دن وہ بیٹھا ہوا اپنے کاروبار کی سالانہ رپورٹ دیکھ رہا تھا جس کی مالیت اب سو ملین سے زیادہ تھی۔ ہر ماہ کئی ملین کا اس میں اضافہ ہو جاتا تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس قدر دولت کا کیا کرے۔
اچانک ایک بوڑھے سے مولوی صاحب ہاتھ میں تھیلا اٹھائے ہانپتے کانپتے اس کے کمرے میں داخل ہوئے اور سلام علیکم کہہ کر صوفے پر بیٹھ گئے۔ پہلے انہوں نے پسینہ خشک کیا۔ سانس درست کیا پھر فرمایا۔
’’ہمارے یتیم خانے میں پچاس بچے رہتے ہیں اس ماہ کے بعد ان کے لئے راشن کا کوئی انتظام نہیں۔ کم از کم دن میں ایک وقت دال روٹی دینے کے لئے ایک ہزار روپے کی ضرورت ہے۔ آپ سے جو تعاون ہو سکے وہ فرما دیں۔‘‘
عمر مبہوت بنا ہوا ان کی بات سنتا رہا۔ پھر پوچھا ’’یہ یتیم خانہ کیا ہوتا ہے۔‘‘
مولوی صاحب نے جواب دیا
’’یہ وہ گھر ہے جہاں ایسے معصوم بچے رہتے ہیں جن کے ماں باپ وفات پا چکے ہیں۔ اب ان کی پرورش کی ذمہ داری پوری قوم پر عاید ہوتی ہے۔‘‘
عمر نے انجان بن کر پوچھا ’’اگر مزید روپے کا انتظام نہ ہو سکا تو کیا ہو گا؟‘‘
مولوی صاحب نے آہستہ سے کہا۔ ’’پانی پی کر بچے بھوکے سو جائیں گے۔‘‘
عمر کے منہ سے ایک دم چیخ نکل گئی۔
’’بچے بھوکے سو جائیں گے اور میری دولت کے انبار یوں ہی بڑھتے رہیں گے!‘‘ وہ رونے لگا۔ اس کی آنکھوں سے بہتے ہوے آنسو اس چیک بک پر گرے جو اس کے ہاتھ میں تھی۔
اس نے نہایت رازدارانہ انداز میں مولوی صاحب سے کہا ’’میں آپ سے کچھ مشورہ کرنا چاہتا ہوں لیکن یہ بات آپ اپنے تک ہی رکھئے گا۔ میرے پاس اچھی خاصی دولت ہے جو میں نے اپنی محنت اور عقلمندی سے کمائی ہے۔ میں اس کے بارے میں آپ کی رائے لیتا ہوں۔‘‘
مولوی صاحب نے آہستہ سے پوچھا۔ ’’کتنی دولت ہے؟‘‘
عمر نے جواب دیا ’’یہی کوئی دو سو ملین۔‘‘‘
مولوی صاحب نے پھر آہستہ سے کہا
’’پہلے تو آپ پانچ ملین اس پر زکات دیجئے۔‘‘
عمر نے چونک کر کہا۔ ’’پانچ ملین؟‘‘
مولوی صاحب نے کہا ’’یہ تو اللہ کا حق ہے‘‘
عمر نے کہا ’’اچھا یہ میں ضرور دوں گا۔‘‘
پھر مولوی صاحب نے پوچھا ’’آپ نے اپنے لئے کوئی گھر بنایا؟‘‘
عمر نے جواب دیا ’’کوئی ایک گھر۔ ۔ میں نے پوری کالونی بنائی ہے۔‘‘
مولوی صاحب نے کہا ’’یہاں نہیں۔ جنت میں۔‘‘
عمر نے جواب دیا ’’اس کے بارے میں تو میں نے کبھی سوچا بھی نہیں۔‘‘
مولوی صاحب نے کہا ’’اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس نے دنیا میں مسجد بنائی اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں گھر بنائے گا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس نے کسی یتیم کی کفالت کی وہ اور میں جنت میں ایک ساتھ ہوں گے۔ اس سے بڑھ کر اور کیا خوش قسمتی ہو سکتی ہے کہ حضور کے ساتھ جنت میں رہنے کا موقع مل جائے۔‘‘
یہ سب سن کر عمر رونے لگا اس نے کہا ’’مولوی صاحب آپ نے میری آنکھیں کھول دین۔ دولت نے مجھے اندھا کر دیا تھا
آپ کے یتیم خانے کی میں کفالت لیتا ہوں کل معائنہ کرنے آؤں گا اور ایک مسجد کا نقشہ بھی بنوا لینا۔‘‘
مولوی صاحب نے کہا ’’تم تو پارس ہو۔‘‘
عمر نے جواب دیا ’’میں نہیں۔ پارس تو آپ ہیں۔ جن کے ایک ہی مس نے پتھر کو سونا بنا دیا۔‘‘
٭٭٭
حکایت سعدی۔ ۔ ۔ وزیر کا فرض
کہتے ہیں کہ ایک بادشاہ کی عدالت میں کسی ملزم کو پیش کیا گیا۔
بادشاہ نے مقدمہ سننے کے بعد اشارہ کیا کہ اسے قتل کر دیا جائے۔
بادشاہ کے حکم پر پیادے اسے قتل گاہ کی طرف لے چلے تو اس نے بادشاہ کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ کسی شخص کے لیے بڑی سے بڑی سزا یہی ہو سکتی ہے کہ اسے قتل کر دیا جائے اور چونکہ اس شخص کو یہ سزا سنائی جا چکی تھی اس لیے اس کے دل سے یہ خوف دور ہو گیا تھا کہ بادشاہ ناراض ہو کر درپے آزار ہو گا۔
بادشاہ نے یہ دیکھا کہ قیدی کچھ کہہ رہا ہے تو اس نے اپنے وزیر سے پوچھا ”یہ کیا کہہ رہا ہے؟”
بادشاہ کا یہ وزیر بہت نیک دل تھا۔ اس نے سوچا، اگر ٹھیک بات بتا دی جائے تو بادشاہ غصے سے دیوانہ ہو جائے گا اور ہو سکتا ہے قتل کرانے سے پہلے قیدی کو اور عذاب میں مبتلا کرے۔ اس نے جواب دیا ’’جناب یہ کہہ رہا ہے کہ اللہ پاک ان لوگوں کو پسند کرتا ہے۔ جو غصے کو ضبط کر لیتے ہیں اور لوگوں کے ساتھ بھلائی کرتے ہیں۔‘‘
وزیر کی بات سن کر بادشاہ مسکرایا اور اس نے حکم دیا کہ اس شخص کو آزاد کر دیا جائے۔
بادشاہ کا ایک اور وزیر پہلے وزیر کا مخالف اور تنگ دل تھا۔ وہ خیر خواہی جتانے کے انداز میں بولا ’’یہ بات ہر گز مناسب نہیں ہے کہ کسی بادشاہ کے وزیر اسے دھوکے میں رکھیں اور سچ کے سوا کچھ اور زبان پر لائیں اور سچ یہ ہے کہ قیدی حضور کی شان میں گستاخی کر رہا تھا۔ غصہ ضبط کرنے اور بھلائی سے پیش آنے کی بات نہ کر رہا تھا‘‘۔
وزیر کی یہ بات سن کر نیک دل بادشاہ نے کہا ’’اے وزیر! تیرے اس سچ سے جس کی بنیاد بغض اور کینے پر ہے، تیرے بھائی کی غلط بیانی بہتر ہے کہ اس سے ایک شخص کی جان بچ گئی۔ یاد رکھ! اس سچ سے جس سے کوئی فساد پھیلتا ہو، ایسا جھوٹ بہتر ہے جس سے کوئی برائی دور ہونے کی امید ہوئے وہ سچ جو فساد کا سبب ہو بہتر ہے نہ وہ زباں پہ آئے اچھا ہے وہ کذب ایسے سچ سے جو آگ فساد کی بجھائے‘‘
حاسد وزیر بادشاہ کی یہ بات سن کر بہت شرمندہ ہوا۔
بادشاہ نے قیدی کو آزاد کر دینے کا فیصلہ بحال رکھا اور اپنے وزیروں کو نصیحت کی کہ بادشاہ ہمیشہ اپنے وزیروں کے مشورے پر عمل کرتے ہیں۔ وزیروں کا فرض ہے کہ وہ ایسی کوئی بات زبان سے نہ نکالیں جس میں کوئی بھلائی نہ ہو۔ اس نے مزید کہا ’’یہ دنیاوی زندگی بہرحال ختم ہونے والی ہے۔ کوئی بادشاہ ہو یا فقیر، سب کا انجام موت ہے۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کسی شخص کی روح تخت پر قبض کی جاتی ہے یا فرش خاک پر‘‘۔
حضرت سعدیؒ کی یہ حکایت پڑھ کر سطحی سوچ رکھنے والے لوگ یہ نتیجہ اخذ کر لیتے ہیں کہ مصلحت کے لیے جھوٹ بولنا جائز ہے۔ لیکن یہ نتیجہ نکالنا درست نہیں۔ حکایت کی اصل روح یہ ہے کہ خلق خدا کی بھلائی کا جذبہ انسان کے تمام جذبوں پر غالب رہنا چاہیے اور جب یہ اعلیٰ و ارفع مقصد سامنے ہو تو مصلحت کے مطابق رویّہ اختیار کرنے میں مضائقہ نہیں۔ جیسے جراح کو یہ اجازت ہے کہ فاسد مواد خارج کرنے کے لیے اپنا نشتر استعمال کرے۔ کسی انسان کے جسم کو نشتر سے کاٹنا بذات خود کوئی اچھی بات ہر گز نہیں ہے لیکن جب جرّاح یہ عمل کرتا ہے تو اسے اس کی قابلیت سمجھا جاتا ہے۔ قارئین اگر وطن عزیز کے حکمرانوں کی صورت حال دیکھیں تو یہ حکایت آج بھی اتنی ہی کارآمد ثابت ہوتی ہے۔
٭٭٭
حور کا بچہ
ایک ٹیلیفون: خالہ جان سنا ہے آپ نے اپنے بیٹے کے لئے کوئی لڑکی دیکھی ہے۔
جواب: ہاں بیٹی۔ اللہ تمہارا بھلا کرے ایک لڑکی دیکھی ہے۔ بڑی پیاری لڑکی ہے۔ تیکھے نقوش۔ گول چہرہ چاند جیسا۔ بڑی بڑی آنکھیں۔ جیسے گلاب کے کٹورے۔ اونچی پیشانی۔ لمبی گردن مور جیسی۔ خاندان اونچا۔ زبان اس قدر شیریں کہ بات کرتی ہے تو منہ سے پھول جھڑتے ہیں۔ بیٹی لڑکی کیا ہے حور کا بچہ ہے۔ میں تو جلد از جلد اس کو بیاہ کر لاؤں گی۔ کہیں یہ موتی ہاتھ سے نہ نکل جائے۔
ایک ماہ بعد دوسرا فون: خالہ جان مبارک ہو ماشاء اللہ آپ کے گھر میں چاند اتر آیا۔ اب تو ہر طرف نور ہی نور ہو گا۔
جواب: ہاں بیٹی شادی تو خیر سے ہو گئی۔ دلہن بھی گھر آ گئی۔ اچھی ہے لیکن۔ ۔ اچھا خیر میں بعد میں بات کروں گی اس وقت ذرا مصروف ہوں۔
ایک ماہ بعد تیسرا فون: ہاں خالہ جان آپ تو ملتی ہی نہیں ہیں۔ کیا ہر وقت دلہن سے باتیں کرتی رہتی ہیں۔
جواب: کون دلہن…۔ کیسی دلہن۔ وہ تو میری ساس ہے۔ دن بھر پلنگ توڑتی رہتی ہے۔ میرے اوپر حکم چلاتی ہے۔ جس دن سے گھر میں قدم رکھا ہے میرا بیٹا میرے ہاتھ سے چھن گیا۔ اللہ ایسے منحوس قدم کسی کونہ بنائے۔ بات کرتی ہے تو منہ سے آگ اگلتی ہے۔ رنگت چٹی ضرور ہے لیکن چہرے پر ذرا کشش نہیں۔ دن بھر چہرے کی لیپا پوتی کرتی رہتی ہے پھر بھی وہی چڑیل کی چڑیل۔ تم مجھ سے کبھی اس کے بارے میں بات نہ کرنا۔ میں اس کا نام بھی نہیں سننا چاہتی۔ کل موہی کہیں کی۔ خدا ایسی بہو کسی کو نہ دے۔ ۔ ۔ ٹیلیفون بند۔ ۔ ۔ ۔
خالہ جان۔ خالہ جان…۔ فون بند کرنے سے پہلے۔ ۔ بس میری ایک بات سن لیجئے۔ ۔ اگر آپ کی بیٹی سارہ جس کی شادی ابھی چھ ماہ پہلے ہوئی ہے۔ اس کے با رے میں کوئی ایسا ہی کہے تو آپ کو کیسا لگے گا۔ ۔
جواب: اللہ میری توبہ۔ ایسا تو میں نے کبھی سوچا ہی نہیں۔
٭٭٭
دوستی کی خاطر
یہ جب کی بات ہے جب شیر خان نے لالہ بنسی دھر سے پانچ سو روپے ادھار لیے تھے۔ اس وقت اس کا دوست جیون بھی اس کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ لالہ نے یہ روپے چھ ماہ کی مدت پر دئے تھے۔ لیکن جب یہ مدّت گزر گئی۔ تو شیر خان نے دو ماہ کی مدّت طلب کی جو لالہ نے دے دی۔ مگر دو کیا جب چار ماہ گزر گئے اور لالہ بنسی دھر روپیہ مانگنے گیا تو شیر خان نے روپیہ دینے سے انکار کر دیا اور ساتھ میں یہ بھی کہ دیا کہ تم جھوٹ بولتے ہو میں نے تم سے کوئی روپیہ نہیں لیا۔ جاؤ رپٹ لکھا دو تھانے میں۔
بس اب تو بات ہی الٹ گی شیر خان نے نہ صرف یہ کہ ایک سال گزر جانے پر روپے نہیں دیے، بلکہ روپے لینے سے ہی انکار کر دیا۔
لالہ بنسی دھر کو بڑی حیرت ہوئی۔ اس کو یاد آیا کہ روپیہ دیتے وقت جیون بھی وہاں بیٹھا تھا۔ جیون بڑا سچا پکا اور نمازی آدمی تھا، اسی لئے لوگ اس کو ملا جیون کہتے تھے۔
لالہ بنسی دھر نے عدالت میں درخواست لگا دی اور یہ بھی لکھ دیا کہ ملا جیون سے اس کی تصدق کر لی جائے۔
شیر خان کو جب یہ پتہ چلا تو وہ بہت پریشان ہوا۔ لیکن اس کو یہ اطمینان ہوا کہ معاملہ ملا جیون کے ہاتھ میں ہے اور ملا جیون اس کا پکّا دوست ہے۔ وہ فوراً ملا جیون کے پاس گیا اور سارا معاملہ اس کو سنا دیا اور یہ کہا ’’یہ میری عزت کا سوال ہے میں تم کو اپنی دوستی کا واسطہ دیتا ہوں۔‘‘
ملا جیون بہت پریشانی میں پھنس گیا کچھ دیر بعد اس نے سوچ کر کہا ’’شیر خان اگر کسی آدمی کے دو دوست ہوں ایک نیا دوست۔ ایک پرانا۔ تو اس کو کس کا ساتھ دینا چاہیے۔‘‘
شیر خان نے چمک کر کہا۔ پرانے کا۔ ۔ میں تو تمہارا پرانا دوست ہوں۔‘‘
شیر خان مطمئن ہو کر چلا گیا۔ چند ہفتہ بعد عدالت میں پیشی ہوئی۔ بنسی دھر نے اپنا معاملہ پیش کیا۔ جج صاحب نے بہ حیثیت گواہ ملا جیون کو طلب کیا۔ شیر خان بہت خوش تھا اس کی دوستی کام آ رہی تھی۔ ملا جیون آیا اور بیان دیا۔
’’لالہ بنسی دھر سچ کہتا ہے اس نے شیر خان کو پانچ سو روپے میرے سامنے دئے تھے۔ شیر خان جھوٹ بولتا ہے۔‘‘ عدالت نے مقدمہ خارج کر دیا اور شیر خان کو دو ہفتہ کے اندر ادائیگی کا حکم دے دیا۔
شیر خان شیر کی طرح بپھرا ہوا ملا جیون کے پاس آیا اور کہا ’’تم دھوکے باز ہو تم نے مجھے دھوکا دیا ‘‘
ملا جیون نے نرمی سے کہا ’’ناراض مت ہو۔ میں نے یہ کام تمہارے مشورہ سے کیا۔‘‘
’’میرا مشورہ۔ ۔ کیا خاک مشورہ۔‘‘
ملا جیون نے کہا ’’تم کو یاد نہیں میں نے تم سے کہا تھا کہ اگر کسی آدمی کے دو دوست ہوں ایک نیا، ایک پرانا۔ تو اس کو کس کا کہنا ماننا چاہیے۔ تم نے جواب دیا پرانے کا۔ بس پھر میں نے تمہارے مشورہ پر عمل۔ اور پرانے دوست کا کہنا مانا۔ ۔ ‘‘
’’کون ہے تمہارا پرانا دوست؟‘‘ شیر خان نے چمک کر کہا
’’میرا پرانا دوست اللہ ہے۔‘‘ ملا جیون نے کہا۔ ’’جس سے میری پچاس سال پرانی دوستی ہے روز میں اس کے پاس وقت گزارتا ہوں اس کی باتیں سنتا ہوں اپنی باتیں سناتا ہوں۔ اس نے کہا دیکھو جھوٹ کبھی نہیں بولنا۔ بس میں نے یہ کام اس کی دوستی کی خاطر کیا۔ ۔ رہا تمہارے قرضہ کا سوال تو کل میں نے اپنا مکان رہن رکھ کر لالہ بنسی دھر کو پانچ سو روپے دے دیے ہیں اب وہ تمہارے پاس قرض مانگنے نہیں آئے گا۔‘‘
٭٭٭
فرشتے اور حوریں
یہ دو مختلف خطوں اور دو مختلف لوگوں کی کہانیاں ہیں۔ ہم لوگ ان کہانیوں سے سبق بھی سیکھ سکتے ہیں اور اپنی زندگیاں بھی آسان بنا سکتے ہیں۔
مجھے طویل عرصہ قبل آسٹریا میں کسی پاکستانی کے گھر جانے کا اتفاق ہوا، وہ صاحب تعمیرات کے شعبے سے تعلق رکھتے تھے۔ عام سے کم تعلیم یافتہ انسان تھے۔ دو شادیاں کر رکھی تھیں۔ ایک بیوی پاکستانی تھی اور دوسری مراکش سے تعلق رکھتی تھی، ہمارا مراکش کی خواتین کے بارے میں تصور ہے یہ خوبصورت، سلم اور اسمارٹ ہوتی ہیں جبکہ ہماری زیادہ تر عورتیں عام نین نقش کی حامل ہوتی ہیں مگر وہاں صورت حال بالکل مختلف تھی، ان کی مراکشی بیگم عام نین نقش کی ناٹے قد کی خاتون تھی جبکہ پاکستانی بیوی گوری چٹی کشمیرن تھی۔
یہ دونوں بیگمات اوپر نیچے دو الگ الگ فلیٹس میں رہتی تھیں۔ یورپ میں بیک وقت دو شادیاں رکھنا غیر قانونی ہیں چنانچہ مسلمان ایک بیوی کو سرکاری کاغذات میں ڈکلیئر کر دیتے ہیں اور دوسری بیوی صرف نکاح تک محدود رہتی ہے۔ یہ لوگ عام طور پر ڈکلیئر بیوی کو سرکاری اور دوسری کو نکاحی بیوی کہتے ہیں۔ ان صاحب نے بھی اسی قسم کا ارینجمنٹ کر رکھا تھا، پاکستانی بیگم سرکاری تھی جبکہ مراکشی بیوی نکاحی تھی یہ کہانی یہاں تک عام تھی، یورپ میں ایسے سیکڑوں لوگ موجود ہیں اور ان کی داستان تقریباً ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہے۔
اصل کہانی اس سے آگے آئے گی، میں اس خاندان میں چند چیزیں دیکھ کر حیران رہ گیا، خاندان میں مراکشی بیوی کو مرکزی حیثیت حاصل تھی، وہ پورے خاندان کی سربراہ تھی، وہ صاحب، ان کی پاکستانی بیگم اور بچے سب مراکشی خاتون کی بے انتہا عزت کرتے تھے۔ پاکستانی بیگم مراکشی خاتون کو آپا اور پاکستانی بچے اماں کہتے تھے۔ پاکستانی بیگم کی سب سے چھوٹی بیٹی مراکشی بیگم کی گود میں بیٹھ کر اس کے ہاتھ سے کھانا کھاتی تھی، بڑے بچے یونیورسٹی جاتے تھے لیکن وہ بھی سوتیلی ماں سے پیار کرتے تھے اور دل سے اس کا احترام کرتے تھے۔ پاکستانی بیگم اپنے ہاتھ سے اپنی سوتن کو وضو کراتی تھی اور اس کیلئے جائے نماز بچھاتی تھی، وہ صاحب بھی دوسری بیگم پر بار بار نثار ہوتے تھے۔ یہ میرے لئے حیران کن منظر تھا۔
میں نے ایک شام اس صاحب کے سامنے اس حیرت کا اظہار کیا، اس نے قہقہہ لگایا۔ دونوں بیگمات کو بلایا اور پھر اپنی کہانی سنانا شروع کر دی، اس نے بتایا پاکستانی بیگم اس کی کزن ہے۔ یہ مزاج کی تیز اور غصے کی سخت تھی، یہ شادی کے بعد بیگم کو آسٹریا لے آئے۔ دو بچے ہو گئے لیکن ان کی زندگی میں بے آرامی اور بے سکونی تھی، یہ سارا دن کام کرتے تھے۔ شام کے وقت گھر آتے تھے تو بیگم کی قِل قِل شروع ہو جاتی تھی، بیوی کی فرمائشیں اور مطالبات بھی غیر منطقی ہوتے تھے چنانچہ ان کی زندگی دوزخ بن کر رہ گئی۔ یہ روز آتے جاتے راستے میں ایک کافی شاپ پر رکتے تھے۔ ان کی دوسری بیگم اس کافی شاپ میں کام کرتی تھی، وہ روز خاتون کو دیکھتے تھے۔ خاتون کی آنکھوں میں حیاء اور لہجے میں شائستگی تھی، یہ ہر وقت کام کرتی رہتی تھی، کافی شاپ میں اگر کوئی گاہک نہیں ہوتا تھا تو وہ کرسیاں اور میزیں صاف کرنا شروع کر دیتی تھی یا کاؤنٹر اور کچن کا سینک رگڑنے لگتی تھی اور یہ اکثر اوقات سیڑھی لگا کر کافی شاپ کا بورڈ صاف کرنے لگتی تھی، میں نے کبھی اس عورت کو کرسی پر بیٹھے نہیں دیکھا تھا۔ ‘‘
’’میں اس کی ان تھک محنت سے بہت متاثر ہوا، میں یہ دیکھ کر بھی حیران رہ گیا اس خاتون نے تین سال قبل یہ نوکری شروع کی اور یہ آخر تک اس کافی شاپ کے ساتھ چپکی رہی، اس دوران درجنوں ملازمین آئے اور چلے گئے۔ کافی شاپ کے دو مالکان بھی بدل گئے لیکن خاتون نے نوکری تبدیل نہ کی، یہ معمولی معاوضے پر پانچ لوگوں کا کام اکیلی کرتی رہی۔‘‘
ان صاحب کو آہستہ آہستہ خاتون میں دلچسپی پیدا ہو گئی، خاتون بھی ان میں دلچسپی لینے لگی، یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ دونوں نے شادی کا فیصلہ کر لیا، خاتون نے شادی سے قبل دو عجیب و غریب شرطیں رکھ دیں۔ اس کی پہلی شرط تھی، میں تمہاری پہلی بیگم اور بچوں کے ساتھ رہوں گی اور دوسری شرط تھی میں ملازمت نہیں کروں گی، میں گھر سنبھالوں گی، وہ صاحب ڈرتے ڈرتے دونوں شرطیں مان گئے۔ نکاح ہوا اور وہ صاحب دوسری بیوی کو لے کر گھر آ گئے۔ پہلی بیوی نے آسمان سر پر اٹھا لیا لیکن یہ صرف ایک دن کا واویلا تھا، خاتون نے اگلے دن پہلی بیگم کو پچاس فیصد اپنے ہاتھ میں لے لیا اور یہ دونوں ہفتے میں بہنیں بن گئیں۔ وقت گزرتا چلا گیا، مراکشی بیگم سلیقہ مند تھی، محنتی تھی۔ محبت سے لباب بھری ہوئی تھی، ان تھک تھی، وسیع دل کی مالک تھی اور یہ بے لوث تھی چنانچہ اس نے خدمت، محبت اور سادگی سے پورے گھرانے کا دل موہ لیا، یہ پورے خاندان کا مرکز بن گئی، وہ صاحب، ان کے بچے اور ان کی دونوں بیگمات بہت خوش تھے۔ صاحب خانہ نے دوسری شادی کے بعد بے انتہا ترقی بھی کی، یوں وہ ہر لحاظ سے شاندار۔ مسرور اور دلچسپ خاندان تھا۔
میں نے کہانی کے آخر میں مراکشی بیگم سے پوچھا ’’آپ نے کیا جادو کیا، یہ انہونی ہوئی کیسے ؟‘‘ خاتون نے بتایا، مراکش میں بزرگ خواتین اپنی پوتیوں اور نواسیوں کو دعا دیتی ہیں۔ جا اللہ تعالیٰ تمہیں فرشتہ دے۔ اس کا مطلب ہوتا ہے تمہاری شادی کسی فرشتہ صفت انسان سے ہو، میری دادی بھی مجھے یہ دعا دیا کرتی تھی، میں نے ایک دن اپنی دادی سے پوچھا، اماں مجھے فرشتہ ملے گا کیسے ؟ تو میری دادی نے جواب دیا، تمہاری شادی جس سے بھی ہو تم اس کے گھر کو جنت بنا دینا وہ شخص شیطان بھی ہوا تو وہ فرشتہ بن جائے گا، میری دادی نے بتایا، فرشتے جنت اور شیطان دوزخ میں رہتے ہیں اور دنیا کی جو عورتیں اپنے گھروں کو دوزخ بنا دیتی ہیں ان کے گھروں میں فرشتے نہیں آتے۔ میں نے دادی کی بات پلے باندھ لی، میں نے اس گھر کو جنت بنا دیا۔ چنانچہ اس گھر کے سب لوگ فرشتہ بن گئے۔ میری سوتن بھی فرشتہ ہو گئی۔
آپ اب دوسری کہانی بھی ملاحظہ کیجئے۔ میں لاہور کے ایک اور صاحب کو جانتا ہوں۔ یہ بدصورتی میں مجھ سے بھی چند ہاتھ آگے ہیں۔ کالا رنگ، منہ پر چیچک کے داغ، چھوٹا سا قد اور کمر پر کب، یہ چاروں طرف سے بدصورت ہیں۔ یہ امیر بھی نہیں ہیں۔ بمشکل گزارہ ہوتا ہے۔ تعلیم بھی زیادہ نہیں ہے لیکن ان کی بیگم بے انتہا خوبصورت، نفیس اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ یہ ڈاکٹر ہیں۔ یہ اپنے خاوند سے بے انتہا محبت کرتی ہیں۔ یہ اس کا بچوں کی طرح خیال بھی رکھتی ہیں۔ میں اس عجیب و غریب ’’کمبی نیشن‘‘ پر حیران تھا، میں نے ایک دن اس صاحب سے بھی نسخہ کیمیا پوچھ لیا، یہ مجھے سیدھا اپنی بیگم کے پاس لے گیا اور میرا سوال اس کے سامنے رکھ دیا، بیگم نے قہقہہ لگایا اور بولی عورت کو مرد سے تین چیزیں درکار ہوتی ہیں۔ کیئر، محبت اور عزت اور یہ شخص ان تینوں میں کمال ہے۔ مجھے انہوں نے جتنی کیئر، محبت اور عزت دی وہ مجھے میرے بھائیوں۔ میری ماں اور میرے والد سے بھی نہیں ملی۔ چنانچہ میں ہر وقت ان پر نثار ہوتی رہتی ہوں۔ میں نے حیرت سے اس صاحب کو دیکھا اور ان سے پوچھا ’’آپ نے یہ نسخہ کہاں سے سیکھا‘‘ یہ مسکرائے اور بولے ’’دنیا کا ہر مرد حور کو اپنی بیوی دیکھنا چاہتا ہے لیکن وہ یہ بھول جاتا ہے حوریں شیطانوں کو نہیں ملتیں انسانوں کو ملتی ہیں۔ آپ خود کو انسان بنا لیں آپ کو دنیا میں بھی حوریں مل جائیں گی اور آپ آسمانوں پر بھی حوروں کے درمیان رہیں گے۔ یہ خاموش ہو گیا، میں نے اس سے پوچھا ’’اور انسان کون ہوتے ہیں۔ اس نے قہقہہ لگا کر جواب دیا، ’’فرشتے اللہ تعالیٰ کی مقدس ترین مخلوق ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے اس مقدس ترین مخلوق سے انسان کو سجدہ کرایا، کیوں ؟ کیونکہ انسان کے پاس انسانیت کا جوہر تھا اور یہ وہ جوہر ہے جس سے فرشتے محروم ہیں۔ ہم انسان اگر زندگی میں ایک بار انسان بن جائیں تو ہمیں حوریں بھی مل جائیں اور ہمیں فرشتے بھی دوبارہ سجدے کریں۔ میں نے اپنے وجود میں چھپی انسانیت کو جگا لیا تھا، میں نے انسان بننے کا عمل شروع کر دیا تھا چنانچہ اللہ تعالیٰ نے میرا گھر اس حور کی روشنی سے بھر دیا، میں چیلنج کرتا ہوں دنیا کا کوئی شخص اپنے اندر موجود انسانیت جگا کر دیکھے اس کی بیوی خواہ کتنی ہی بوڑھی، ان پڑھ یا بدصورت ہو گی وہ حور بن جائے گی، وہ اس کا گھر روشنی سے بھر دے گی‘‘۔
٭٭٭
میاں فضلو کی نوکری
یہ جب کی بات ہے جب میاں فضلو جوتیاں چٹخاتے پھرتے تھے اور کوئی بات بھی نہیں پوچھتا تھا اچانک ایک دن میرے پاس آئے۔ عمدہ سلکن شیروانی لٹھے کا پاجامہ سیاہ بوٹ سر پر سنہری کلاہ کا طرّہ چمک رہا تھا میں نے انجان بن کر پوچھا۔ ’’آپ کا تعارف؟‘‘
فرمانے لگے ’’فضل محمد خان مصاحب نواب جام نگر۔‘‘
میں نے پلٹ کر کہا ’’یہ دھونس کسی اور پر جمانا مجھے تو سیدھی بات بتاؤ یہ تم دھوڑی کی جوتی سے کانپوری بوٹ تک کیسے پہنچے۔‘‘
میاں فضلو فوراً اپنی اوقات پر اتر آئے اور میرے پاس کھسک کر کان میں کہنے لگے۔ ’’مجھے نواب صاحب کے یہاں حاضری مل گئی ہے۔‘‘
اب تو ہم بھی سنبھل کر بیٹھ گئے اور ان سے کارگزاری سننے لگے۔ انہوں نے کہنا شروع کیا۔ ہوا یوں کہ ایک صاحب ہم کو نواب صاحب کے دربار لے گئے۔ آپ کو معلوم ہے یہ ساری ریاست ان کی ہے۔ بڑے رتبے والے ہیں عجیب بات ہے بہت محبت سے ملے اپنے قریب بلایا اور کہا کبھی کسی بات کی فکر مت کرنا کوئی بات بھی پریشانی کی ہو فوراً مجھے بتا دینا، میں تمھاری مدد کروں گا۔ انہوں نے مجھے اپنا فون نمبر بھی دے دیا۔‘‘ میں نے بے چینی سے پوچھا۔ ’’آگے کیا ہوا۔ کیا کام دیا تم کو۔‘‘
’’ کام کچھ بھی نہیں۔ بس یہ کہا، صبح شام سلام کے لیے آ جایا کرو کھانا تم کو شاہی دستر خوان سے ملتا رہے گا۔ ہماری ریاست میں جو لوگ ہم سے واقف نہیں ان کو ہمارے بارے میں بتاتے رہنا۔ کوئی برائی کرے، اس کو سمجھانا ۔کوئی اچھے کام کرے ،ہم سے ملاقات کرنا چاہے، اس کو ہمارے پاس لے آنا۔ اور ہاں، یہ تمھاری شاہی وردی ہے اس کو پہنا کرو لوگ تمھاری عزت کریں گے۔‘‘
میاں فضلو یہ بیان کر رہے تھے کہ ان کی نظر ہمارے چہرے پر پر پڑی اور وہ اچھل کر بولے۔ ’’ارے آپ رو رہے ہیں؟ یہ آنسو کس بات کے۔ یہ تو خوشی کی بات ہے۔‘‘
میں نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔ ’’میاں فضلو میں اپنی بد نصیبی پر رو رہا ہوں۔ میں بھی ایک نواب کا نوکر ہوں بلکہ وہ تو نوابوں کا نواب ہے۔ یہ ساری ریاست اسی کی ہے، بڑی طاقت والا ہے، وہ بھی مجھ سے محبّت کرتا ہے، اس نے بھی مجھ سے کہا گھبرانا مت جب کوئی بات ہو مجھ کو پکار لینا میں فوراً تمھاری مدد کروں گا۔ اس نے بھی مجھ سے کہا بس دن میں چند بار سلام کے لئے آ جایا کرو ۔جو لوگ میری ذات کو نہیں جانتے ان کو میرے بارے میں بتایا کرو۔ جو برائی کرے اس کو روکو، جو بھلائی کرے اس کی مدد کرو۔ جو مجھ سے ملنا چاہے اسے میرے دربار میں لے آؤ۔ اور سنو ،اپنے کھانے پینے کی فکر مت کرنا، ہمارے شاہی دستر خوان سے روزانہ تمھیں توشہ پہنچتا رہے گا۔ اور ہاں یہ تمھاری وردی ہے، اس کو پہنا کرو۔ لوگ تمھاری عزت کریں گے۔‘‘
میاں فضلو چونک کر بولے۔ ’’پھر آپ نے کیا کیا؟‘‘
میں نے روتے ہوئے جواب دیا۔ ’’میں نے کچھ بھی نہیں کیا۔ نہ وردی پہنی۔ نہ سلام کو گیا۔ نہ کسی کو اس کے بارے میں بتایا۔ بس روز اس کے یہاں سے توشہ آتا ہے وہ میں کھا لیتا ہوں۔‘‘
وہ بولا ’’جو ملازم مالک کا کچھ کام نہیں کرتے مفت کا مال کھاتے ہیں، تنخواہیں لیتے ہیں لوگ ان کو نمک حرام کہتے ہیں۔‘‘
میں نے کہا۔ ’’فضلو تم سچ کہتے ہو‘‘
٭٭٭
نشانی
پھر کوئی پرندہ اُڑا تھا۔
’’ماں وہ دیکھو، وہ بھی اُڑ گیا۔‘‘
’’یٹے اب اس پیڑ پر کوئی نہیں رہے گا۔ اب یہ پیڑ مر چکا ہے۔ اب اس پر ہریالی نہیں آئے گی۔‘‘
اُس کے بیٹے نے سمجھ لیا کہ یہ پیڑ بھی مر چکا ہے۔ کچھ دن قبل اس کے باپ کا بھی انتقال ہو گیا تھا۔ اُس کی ماں بہت روئی تھی مگر وہ صرف دیکھتا ہی رہا کہ یہ ماجرا کیا ہے۔ لیکن جب اُس کے باپ کو قبر میں اُتارا گیا اور دفنا دیا گیا تب وہ بہت رویا تھا۔
’’میرے ابو کو باہر نکالو۔‘‘
پھر کچھ دنوں بعد یہ پیڑ بھی سوکھنے لگا تھا۔ اُس کی ماں نے کہا تھا کہ یہ پیڑ اُس کے بابا نے اپنے ہاتھوں لگایا تھا۔ یہ سُن کر وہ باہر چلا گیا تھا اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلنے۔
کچھ دنوں بعد اُس کے گھر کی ایک دیوار گر پڑی۔ اُس کی ماں افسوس میں پڑی ہوئی تھی کہ وہ کھیلتے کھیلتے آیا اور دیوار دیکھ کر چلا پڑا۔ ’’ماں یہ کیسے ہو گیا!‘‘
’’وہی تو میں بھی سوچ رہی ہوں بیٹا کہ یہ بھی تمہارے پاپا کی نشانیوں میں سے ایک تھا۔ کتنی محنت کر کے وہ اس دیوار کو اُٹھا پائے تھے سو وہ بھی گر گئی، پتا نہیں کیا ہوا ہے۔ تمہارے پاپا کے بعد تو اُن کی تمام نشانیاں دھیرے دھیرے ختم ہو رہی ہیں اور ہماری دشواریاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ کچھ سمجھ نہیں پا رہی ہوں کہ کیا کروں۔‘‘
اُسی وقت پڑوس کی کچھ عورتیں بھی آ گئیں۔ ان میں سے ایک نے کہا۔ ’’کبھی کبھی ایسا ہی ہوتا ہے کہ جانے والا اپنی تمام نشانیوں کو بھی دھیرے دھیرے لئے چلا جاتا ہے۔ اب دیکھو نہ تمہارا ایک بچہ ہی تو رہ گیا ہے۔ کہیں اس کو بھی کچھ ہو گیا تو تم کیا کرو گی۔ جلدی سے کسی مولوی کو پکڑو ورنہ مصیبت آتی ہے تو پھر رُکتی نہیں ہے۔ ‘‘
اس بات پر اُس کی ماں چونک اُٹھی اور اپنے بیٹے کو اپنی گود میں کھینچتے ہوئے کہنے لگی۔ ’’بہن جی!منھ سنبھال کر بولئے۔ ارے میرے لال کو کچھ نہیں ہو گا۔ یہ میں جانتی ہوں۔‘‘
جب تک ایک دوسری عورت نے طنز کیا۔ ’’تُم تو ایسے کہہ رہی ہو جیسے وہ اُس کی نشانی نہیں ہے۔‘‘
اسی بیچ میں اُس کا بیٹا بھی کچھ سوچتے ہوئے ماں سے بول پڑا تھا۔ ’’ہاں ماں !بابا کی نشانیاں ختم ہو رہی ہیں، مجھے بچا لو ماں۔۔‘‘
اس آواز پر اُس کی ماں اُسے گلے لگا کر خوب روئی تھی اور سسکتے ہوئے کہنے لگی تھی۔ ’’میں نے کہہ دیا نا کہ میرے بیٹے کو کچھ نہیں ہو گا۔ جائیے آپ لوگ اپنے اپنے گھر جایئے‘‘
سب عورتیں چہ میگوئیاں کرتے ہوئے اپنے گھر جاچکی تھیں۔
وقت گزرتا رہا۔ دن ہفتوں میں اور ہفتے سالوں میں تبدیل ہوتے گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ بچہ جوان ہو گیا۔ اب اُس کی شادی بھی ہو گئی ہے مگر گاؤں کی عورتیں اب بھی یہ کانا پھوسی کرتی ہیں کہ یہ اُس کی نشانیوں میں سے نہیں تھا۔ !!!
٭٭٭
بھگوان دیکھتا ہے
جس گناہ کی لذت سے بچنے کے لئے وہ سادھو بنا اب وہی اسے گھیرے ہوئے تھی۔ "مجھے گناہ کر لینا چاہئے، پتا نہیں اسی میں مکتی ہو۔ "
اُس نے اپنے آپ سے کہا اور گہرے دھیان میں ڈوبنے لگا۔۔ ۔۔
"اے ایشور، گواہ رہنا گناہ ہم انسانوں کی تخلیق نہیں ہے۔ اس کی آگ ہمارے من کو جھلسا رہی ہے، ہمیں دعوت دے رہی ہے کہ ہم اس سے آشنا ہو جائیں۔ اے ایشور چالیس سال کی محنت کے عوض گناہ کرنے کے لئے میرے پاس ایک دیوی بھیج دے۔ "
ایشور نے سب سنا اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک حسین و جمیل دیوی اس کے روبرو لا کھڑا کر دیا۔ دیوی اسے دیکھ کر مسکرائی۔
"میں تمہاری تپسیا ہوں، مجھ سے جو چاہو کام لے سکتے ہو۔ "
"دیوی میں گناہ کرنا چاہتا ہوں۔ "
"میں تمہاری تپسیا ہوں، تم مجھ سے گناہ نہیں کر سکتے۔ تمہیں کسی انجانے جنس لطیف کے ساتھ یہ کرنا ہو گا۔ "
"تم میرے لئے ایسا ہی کچھ کرو۔ "
دیوی نے فوراً جواب دیا۔
"راجہ کی بیٹی آج باغیچے میں اکیلے ٹہل رہی ہے، جاؤ اسے اپنی بانہوں میں جکڑ لو اور گناہ کی لذت سے آشنا ہو جاؤ۔ "
سادھو دوڑتے دوڑتے باغیچے میں جا پہنچا۔ واقعی وہاں ایک خوبصورت اور جوان لڑکی ٹہل رہی تھی۔ وہ گناہ کرنے پر آمادہ ہو گیا اور اندھا ہو گیا۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ پھر اس کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔
بھرے دربار میں رسیوں میں جکڑ کر اسے قیدی بنا کر لایا گیا۔ بادشاہ کا چہرہ غضبناک ہو رہا تھا۔ اس نے اسے دیکھتے ہی اس کا سر قلم کرنے کا حکم دیا۔ اس حکم سے سادھو کے ہوش اڑ گئے۔ اس نے ایشور کو پکارا مگر وہ دیوی نمودار ہو گئی۔
"میں تمہاری تپسیا ہوں اور تم نے میرا دل توڑا ہے، اب اس کا خاموشی سے بھگتان بھرو۔ "
تلوار اس کی گردن پر چلنے ہی والی تھی کہ وہ گہرے دھیان سے اُبال کھایا اور کہا۔
"اے ایشور، تو نے مجھے بچا لیا۔ "
پھر وہ ایشور کے دھیان میں لگ گیا۔۔ ۔۔ !!!
٭٭٭
اصول کی خاطر
مومن کا مقدمہ عدالت سے خارج ہو گیا۔ اس ناکامی میں خود اس کے گواہوں کا ہاتھ تھا۔ انھوں نے زمیں دار سے رشوت لے کر سارا معاملہ چوپٹ کر دیا تھا۔ صمد صاحب نے سر پیٹ لیا۔ انھوں نے اس مقدمے پر بہت پیسے خرچ کیے تھے۔ وہ خود اس مقدمے میں فریق نہیں تھے، صرف مومن کی ہم دردی میں مقدمے میں دل چسپی لے رہے تھے۔ زمیں دار نے مومن کی بیوی کو اغوا کروا کے بے آبرو کیا تھا۔ وہ روتا ہوا صمد صاحب کے پاس آیا اور صمد صاحب اس کی مدد کرنے پر مجبور ہو گئے۔
صمد صاحب کے لیے مظلوم کی حمایت ہر چیز سے زیادہ ضروری تھی۔ 30 سال سے وہ اسی طریقے پر چل رہے تھے۔ ان کی بہت جائیداد اور نقد روپیا بھی تھا، لیکن یہ ساری دولت انھوں نے انصاف اور سچائی کی خاطر قربان کر دی تھی۔ انھیں اس نقصان کا ذرا سا بھی غم نہ ہوتا اگر لوگ احسان فراموشی نہ کرتے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان کی دولت بھی ختم ہوتی گئی، لیکن مدد چاہنے والوں میں کوئی کمی نہ آئی۔ ایک نہ ایک سَر پر سوار ہی رہتا اور وہ ان تلخ تجربات کے باوجود اس کی مدد کرتے۔ کچھ دنوں کے بعد مومن کی بیوی اسے واپس مل گئی اور شاید کچھ رو پہلے سکّے بھی۔ علی اصغر صاحب کی زمیں داری میں چند ٹکے، غریبوں کی عزت کی زائد سے زائد قیمت تھی۔ یہ قیمت بھی شاید انھیں نہیں ملتی اگر صمد صاحب کی مخالفت کا ڈر نہ ہوتا۔ زمیں دار بھی ہر وقت صمد صاحب سے چوکنا رہتا تھا۔ کاشت کاروں کو صمد صاحب کے اثر سے بچانے اور اپنا بھرم قائم رکھنے کے لیے اس کو بڑے جتن کرنا پڑتے تھے۔
زمیں دار کا یہ ڈر اب اور بھی بڑھ گیا۔ صمد صاحب کا اکلوتا بیٹا یونیورسٹی کی سب سے بڑی ڈگری لے کر گھر واپس آ گیا تھا۔ شاید وہ بھی کچھ دنوں کے لیے یہاں ٹک جائے اور صمد صاحب کے کاموں میں ان کا ہاتھ بٹائے، لیکن خود صمد صاحب کو اس کے طور طریق پسند نہیں تھے۔ وہ شہری زندگی کے لا اُبالی پن کو ناپسند کرتے تھے۔
شمشیر تعلیم سے فارغ ہو چکا تھا اور پھر اتنے دنوں کے بعد اکلوتے لڑکے کی واپسی ہی خوشی کی بات تھی، لیکن صمد صاحب کو اس کے چہرے پر اصول اور مقصد کے لیے جد و جہد کی جھلک نہ پا کر بہت مایوسی ہوئی۔ اس کی خصوصیات آرام طلبی اور لامتناہی عیش و عشرت تھی۔ اس لیے شمشیر کی موجودگی کے سبب جو تھوڑی سی خوشی بھی انھیں ہوئی تھی وہ خود بخود ختم ہوتی گئی، لیکن انھوں نے شمشیر سے کچھ نہ کہا۔ اس لیے کہ برا کہنا ان کی عادت میں داخل نہیں تھا۔
شمشیر گاؤں کے چند روزہ قیام سے دل برداشتہ ہو گیا۔ اس کی طبیعت ہنگامہ پسند تھی اور یہاں بالکل سناٹا تھا۔ شمشیر کا دل اُچاٹ ہو چکا تھا۔ اس نے آس پاس کے علاقوں میں شکار سے وقت گزاری کا فیصلہ کیا۔ رائفل اٹھائی اور چل پڑا۔ بہت گھوما پھرا، لیکن کوئی شکار ہاتھ نہ آیا۔ مایوس ہو کر لوٹ رہا تھا کہ علی اصغر کے مکان کے پاس سے گزر ہوا۔ شمشیر چلتے چلتے رک گیا۔ مدتوں سے اس زمیں دار اور اس کے باپ میں کھٹ پٹ تھی، لیکن اس لڑائی سے حاصل؟ دونوں فریقوں نے جھگڑے میں کتنا وقت ضایع کیا۔ وہ ان خیالوں میں گم تھا کہ اس نے کئی ہریلوں کے ایک ساتھ بولنے کی آواز سنی۔ چند لمحے گزرے تھے کہ فائر کی آواز آئی اور دو تین ہرل ڈھیر ہو گئے۔ وہ حیران تھا کہ شکار پر کس نے ہاتھ صاف کر دیا۔ اچانک اس کی نظر زمیں دار کے مکان کی دوسری منزل پر کھڑی لڑکی پڑی جس کی بندوق کی نالی سے دھواں نکل رہا تھا۔ شمشیر نے ایسا حسین چہرہ نہیں دیکھا تھا۔ وہ ٹکٹکی باندھے اسے دیکھے گیا اور پھر بحالِ خراب گھر واپس آ گیا۔
ادھر زمیں دار علی اصغر کا پرانا منیجر یہ سب تماشا دیکھ رہا تھا۔ شمشیر کی فریفتگی کا حال اس پر روشن ہو گیا۔ وہ حد سے زیادہ چالاک تھا۔ زمیں دار پر برے دن آ چکے تھے جس کا اس نے بھی خوب فائدہ اٹھایا، لیکن چالاکی اور عیاری سے بہتی گنگا میں ہاتھ بھی دھوئے اور زمیں دار کے سامنے سرخرو بھی رہا۔ اس نے یہ قصہ علی اصغر صاحب کو سنا دیا۔ وہ آپے سے باہر ہو گئے۔ ’’تھانے کیوں نہیں بھیج دیا اُسے ؟‘‘ وہ منیجر پر غصہ اتار رہے تھے۔ منیجر نے سادگی سے کہا، ’’اگر آپ کو اس گاؤں میں رہنا ہے تو زمیں دار بن کے رہنا ہو گا، مگر زمیں داری کا جو حال ہے، وہ آپ پر ظاہر ہے، اگر ایسے دو چار صدمے اور پہنچے تو پھر آپ کو ہمیشہ کے لیے یہاں سے جانا پڑے گا، بہتر یہ ہے کہ صمد صاحب سے صلح کر لیجیے، اگر یہ زہریلا پودا جڑ سے اکھڑ بھی گیا تو آپ کو تو اپنی جگہ سے ضرور ہلا دے گا، ذلت کے بغیر صمد صاحب سے مصالحت کا ذریعہ صرف شمشیر ہے، لڑکا برا نہیں ہے، خاندانی دولت میں بھی آپ سے کم نہیں ہے۔ ‘‘
اصغر صاحب سوچ میں ڈوبے ہوئے بولے، ’’لیکن یہ تجویز… صمد صاحب کے پاس کون لے جائے گا؟‘‘
’’آدھا کام تو خود انیسہ(زمیں دار کی بیٹی) نے کر لیا، باقی کام میں انجام دوں گا۔ شمشیر خود ہی باپ سے کہہ دے گا۔ اس وقت تو آپ کی رضامندی کی ضرورت ہے۔ ‘‘ منیجر نے جواب دیا۔
اصغر صاحب کو سوچ میں ڈوبا پا کر منیجر نے پھر کہا، ’’حکومت کے 25 ہزار روپے کے زرعی قرضے کی خورد برد کا مقدمہ ابھی چل رہا ہے، آپ کے مستقبل کا انحصار اس کے فیصلے پر ہے اور اس کیس میں صمد صاحب کی وجہ سے ناکامی سے بچنا چاہتے ہیں تو ان کی دوستی ضروری ہے۔ ‘‘علی اصغر صاحب کچھ جواب دیے بغیر اٹھ کر چلے گئے۔
دوسری طرف شمشیر اور منیجر کی خفیہ ملاقاتیں ہوئیں۔ اور کچھ دنوں بعد صمد صاحب کو پتا چلا کہ ان کا بیٹا علی اصغر کی لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہے اور وہ بھی اس پر رضامند ہیں۔ صمد صاحب کو زمیں دار سے پر خاش تھی، لیکن اس وقت وہ لڑکے کی شادی کا سوچ کر سب بھول گئے۔ انھوں نے منیجر کو بلا بھیجا۔ منیجر سے انھوں نے کھل کر بات کی اور کہا،
’’لڑکا اپنی پسند سے بیاہ کر رہا ہے یہ میرے لیے خوشی کی بات ہے لیکن ایک شرط ہے، یہ شادی زرعی قرضے کے مقدمے کا فیصلہ ہونے تک نہیں ہو سکتی، میں عدالت میں اپنا بیان ضرور دوں گا۔ ‘‘
یہ سن کر منیجر کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ اصغر صاحب کو جب اس بات چیت کی اطلاع ملی تو وہ غصے میں پاگل ہو گئے لیکن منیجر نے کہا کہ پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں ہے، وہ ہر چیز کا بندوبست کر لے گا۔
ادھر صمد صاحب کے فیصلے سے شمشیر کی حالت بھی دیوانوں کی سی ہو گئی۔ انیسہ کے نہ ملنے کا تصور بھی اس کے لیے محال تھا۔ اسی حالت میں وہ منیجر کے پاس پہنچا۔ منیجر نے بے شک اسے صحیح مشورہ دیا اور دو تین دن کے بعد گاؤں میں یہ خبر پھیل گئی کہ شمشیر اپنے باپ کی مرضی کے خلاف انیسہ سے شادی کر لے گا۔
صمد صاحب کو بھی یہ اطلاع ملی، شمشیر کل سے گھر نہیں آیا تھا، وہ علی اصغر صاحب کے گھر میں تھا۔ صمد صاحب کو اپنی زندگی میں ایسا صدمہ نہیں پہنچا تھا، لیکن گھبرانا وہ جانتے ہی نہیں تھے۔ زندگی کے آخری موڑ پر وہ یہ نہیں دیکھ سکتے تھے کہ ان کے اصولوں کی عمارت اس طرح ڈھے جائے۔
دوسری صبح زمیں دار کا سارا گھر تیاریوں میں مشغول تھا۔ آج لڑکی کی شادی ہے۔ صمد صاحب اپنے گھر میں پاگلوں کی طرح ٹہل رہے تھے۔ زندگی میں پہلے بار ان کے ضابطے میں فرق آیا تھا۔ وہ نہانا بھول گئے۔ کھانے کا ہوش نہ رہا، صبح پر شام چھا گئی، شادی تھوڑی دیر میں ہونے والی ہے۔
صمد صاحب نے اپنی بیوی سے عجیب سوال کیا، ’’ آپ بتا سکتی ہیں کہ بڑھاپے میں مجھے ایسی ذلت اور شکست کیوں ہوئی؟ اگر یہ آخری آزمائش ہے تو پھر اس کے بعد رہ ہی کیا جائے گا۔ ‘‘ صمد صاحب کا پارہ چڑھتا ہی گیا، وہ چیخ کر بولے، ’’یہ شادی نہیں ہو سکتی، ہرگز نہیں۔ ‘‘ انھوں نے ڈنڈا ہاتھ میں لیا اور نکل کھڑے ہوئے۔ کوئی ان کو روک نہ سکا۔ ادھر شادی بغیر کسی جھگڑے کے ہو گئی۔
شمشیر دلہن کے پاس بیٹھا تھا۔ دفعتاً باہر ہلڑ ہونے لگا، شور و غل کے درمیان اِسے یوں سنائی دیا جیسے کوئی پکار رہا ہے، ’’شمشیر! مار ڈالا۔ ‘‘علی اصغر کے دروازے پر کچھ لٹھ بند متعین تھے۔ صمد صاحب وہاں پہنچے تو ان سے مڈ بھیڑ ہوئی۔ صمد صاحب کو اندر جانے سے روکا تو انھوں نے ان لوگوں کو پیٹنا شروع کر دیا۔ وہ بھی صمد صاحب کو چمٹ گئے۔ لاٹھی ان کے سَر پر پڑی تو وہ چلا اٹھے۔
ان کی آواز سن کر شمشیر سے رہا نہ گیا۔ دوڑتا ہوا باہر آیا، صمد صاحب بے رحمی کے ساتھ پیٹے جا رہے تھے۔ اس نے لٹھ بندوں کو روکا اور صمد صاحب سے چمٹ گیا۔ شمشیر کے سَر پر ایک ساتھ دو تین لاٹھیاں پڑیں، شدید چوٹ آئی۔ یہ وہ لاٹھیاں تھیں جو صمد صاحب کو مارنے کے لیے اٹھائی گئی تھیں۔ صمد صاحب رونے لگے۔ شاید اپنی زندگی میں پہلی بار وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہے تھے۔
شمشیر صرف اتنا کہہ پایا۔ ’’باپ جان! معاف۔ ‘‘ وہ ٹھنڈا ہو چکا تھا۔
لٹھ بند بھاگ کھڑے ہوئے۔ صمد صاحب کو ہوش آ چکا تھا۔ بیٹے کی میت کو داہنے ہاتھ سے اٹھایا۔ کندھے پر لادا اور گھر کی طرف چل پڑے۔ ان کا بایاں ہاتھ ٹوٹ چکا تھا۔ گھر میں داخل ہوتے ہی انھوں نے درد بھری آواز میں اپنی بیوی کو مخاطب کیا۔ ’’صالحہ! شمشیر واپس آ گیا۔ ‘‘
صالحہ اس منظر کی تاب نہ لا سکی اور پھوٹ پوٹ کر رونے لگی۔
صمد صاحب چند لمحے خاموش کھڑے رہے۔ پھر چِلّا کر بولے، ’’رو مت صالحہ، رو مت! میرے بیٹے نے آبرو رکھ لی، مجھ کو ذلت اور شکست سے بچا لیا۔ میرے بچے نے ان اصولوں کو ٹوٹنے نہ دیا جن کے لیے میں نے زندگی بھر جد و جہد کی تھی۔ رو مت! میں بھی نہیں روؤں گا، ہم میں سے کوئی نہیں روئے گا۔
٭٭٭
نوری
جب میں ایک عزیز کی عیادت کے لئے اسپتال پہونچا تو وہاں انتظار کے کمرے میں ایک صاحب کو دیکھا جو اپنی ایک بچی کو لئے ہوے بیٹھے تھے ۔بچی کی عمر کوئی چار سال رہی ہو گی۔ گول چہرہ، کھلتا ہوا رنگ، گھونگریالے بال، بڑی بڑی آنکھیں، بڑی پیاری بچی تھی۔ میں نے بچی کا نام پوچھا۔ اس کے والد نے اس کا نام نوری بتایا۔ وہ خود ایک ورکشاپ میں میکنک کا کام کرتے ہیں اور اپنی اہلیہ اور نوری کے ساتھ قریب ہی میں رہتے ہیں۔
دو دن پہلے اچانک ان کی اہلیہ کے جسم میں درد ہوا اور سارا جسم اکڑ گیا وہ مثل ایک لکڑی کے تختے کے ہو گئیں۔ دائیں بائیں کسی طرف گردن بھی نہیں موڑ سکتی تھیں۔
فوراً ان کو اسپتال میں داخل کیا گیا ڈاکٹروں نے کئی ٹیسٹ بتائے، کئی ہفتے علاج چلے گا۔ میں ان سے ساری بات سن ہی رہا تھا کہ نوری نے آہستہ سے کہا: ’اماں !‘اور اپنے والد کی طرف دیکھنے لگی۔
میں نے دیکھا اس کی بڑی بڑی خوبصورت آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے۔ میرے اوپر اس منظر کا بڑا اثر ہوا۔ میں اٹھا اور قریب کی دکان سے ایک کھلونا اور چاکلیٹ لے کر آیا۔ میں نے پہلے کھلونا اس کی طرف بڑھایا۔ اس نے نگاہ بھر کر کھلونا دیکھا لیکن ہاتھ بڑھا کر نہیں لیا۔ اس نے پھر آہستہ سے کہا : ’اماں ‘ اور اپنے والد کی طرف دیکھنے لگی۔
میں اس کے ضبط پر حیران رہ گیا۔ اب میں نے چاکلیٹ کا پیکٹ نکالا اور اس کی طرف بڑھایا۔ نوری نے غور سے چاکلیٹ دیکھی پھر اس نے زور سے کہا : ’اماں!‘ اور باپ سے چپٹ کر رونے لگی۔
میرا دل یہ منظر دیکھ کر تڑپ اٹھا۔ اس معصوم سی تتلی کو کتنا لگاؤ تھا اپنی اماں سے۔ نہ کوئی کھلونا اسے اچھا لگا نہ چاکلیٹ اسے اپنی طرف کھینچ سکی۔
میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور زبان سے یہ الفاظ نکلے ’’کاش مجھے بھی اپنے رب سے اتنی ہی محبت ہوتی جتنی اس معصوم بچی کو اپنی اماں سے ہے ۔‘‘
میں بچشم نم وہاں سے اٹھ کر چلا آیا ۔
رات کو تہجّد کی نماز میں میں نے دعا کی ’’میرے پروردگار! نوری کی ماں کو صحت دے کر نوری سے ملا دے اور مجھ کو نوری جیسی اپنی محبت عطا فرما۔ آمین۔ ‘‘
٭٭٭
چاند تارا
شادی کے دو سال بعد جب اللہ تعالیٰ نے ہلال کو بیٹا دیا تو اس نے اس کا نام چاند رکھا۔ پھر دو سال بعد ایک بیٹی ہوئی۔ اس کا نام تارا تجویز ہوا۔
بس اب کیا تھا سارے گھر میں بہار آ گئی ہر طرف چاند تارا کا شور تھا، ہر وقت ان کی پیاری پیاری باتیں تھیں۔
ہلال کے محلے سے کئی نوجوان لڑکے لڑکیاں انجینئر بن بن کر کر امریکا جا رہے تھے۔ غریب ماں باپ نے ادھار قرض کر کے ان کو اچھی تعلیم دلائی لیکن وہ سب غیروں کے کام آئی۔ ڈالروں کی چمک نے سب کی آنکھوں کو خیرہ کر دیا تھا۔ ہلال کے دل میں بھی یہی خیال پیدا ہوا کہ وہ اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلا کر امریکا بھیجے گا۔ بس پھر کیا تھا۔ اس کے سر پر امریکہ کی دھن سوار ہو گئی۔ اس نے دونوں بچوں کو مشنری اسکول میں داخل کیا، انگریزی بولنا سکھائی، انگریزی لباس، انگریزی کھانا، انگریزی اسٹائل سکھایا۔ دونوں اسکول کالج میں جولی اور لَولی کہلانے لگے۔
بی ایس کی ڈگری مکمل کرتے ہی ہلال نے دونوں کے لئے امریکا بھجوانے کا پروگرام بنایا۔ لڑکی کو رشتہ مل گیا وہ کینیڈا چلی گئی۔ چاند نے بھی امریکا جا کر ایک یہودی بیوہ سے شادی کر لی اور وہیں کی نیشنلٹی لے لی۔ دونوں گھروں میں ڈالروں کی ریل پیل ہو گئی۔ مغربی طرز زندگی اس قدر اپنایا کہ مشرقی انداز بالکل بھول گئے۔
بچوں کے نام بھی گڈو ببلو ہو گئے۔ یہ بھی یاد نہیں رہا کہ ہمارے یہاں احمد اور عائشہ نام ہوا کرتے تھے۔ چاند اور تارہ دونوں اپنی اساس اور بنیاد کو بھلا بیٹھے۔ ہلال اور اس کی بیوی اختری دونوں اپنے اسی پرانے مکان میں رہتے تھے۔ پڑوس میں محبوب حسین پتنگ باز کا مکان تھا۔ جس میں ان کے پوتا پوتی اور نواسہ نواسی کے کھیل کود کی بہار رہتی تھی۔ وہ غریب تھے لیکن خوش تھے۔ ہلال امیر تھا اس کے پاس بچوں کے بھیجے ہوئے ڈالر تھے، لیکن وہ خوش نہیں تھا۔ اس کے گھر میں ہمیشہ ویرانی چھائی رہتی تھی۔
ایک دن عصر کی نماز کے بعد جب وہ قرآن شریف پڑھ رہا تھا تو اچانک اس کی آنکھ اس آیت پر جم گئی
( بل توثرون الحیاۃ الدینا والآخرۃ خیر و ابقیٰ ۔ وَالْآخِرَةُ خَیْرٌ وَأَبْقَى)
بلکہ تم (اللہ کی طرف رجوع کرنے کی بجائے ) دنیاوی زندگی (کی لذتوں ) کو اختیار کرتے ہو۔ حالانکہ آخرت (کی لذت و راحت) بہتر اور ہمیشہ باقی رہنے والی ہے )
وہ آخرت کے لفظ پر چونک پڑا۔ اس نے تو کبھی آخرت کے بارے میں سوچا ہی نہیں تھا۔ وہ تو بس دنیا کی زندگی بنانے کی دھن میں لگا ہوا تھا۔ یہی کچھ اس نے اپنے دونوں بچوں کو سکھایا تھا۔ وہ سوچتا رہا اس کے دل کو گھبراہٹ نے گھیر لیا وہ گھر سے باہر ٹہلنے چلا گیا۔
باہر بہت سے لوگ پتنگ اڑا رہے تھے شام کے نیلگوں آسماں پر ہرے رنگ کی ایک پتنگ جس پر چاند تارا بنا ہوا تھا خوب لہرا رہی تھی کبھی شرق میں اڑتی کبھی غرب کی طرف جاتی۔ کبھی گہرا غوطہ لگا کر پھر چاند کی طرح بادلوں کے بیچ سے نکل آتی۔ عجیب بہار دکھا رہی تھی۔ اچانک آسمان پر ایک دوسری پتنگ ظاہر ہوئی جس پر کالا ناگ بنا ہوا تھا اونچی اڑان لے کر وہ چاند تارہ سے ٹکرائی لیکن چاند تارہ کنی کاٹ کر نکل گئی دونوں میں تھوڑی دیر داؤ پیچ ہوتے رہے۔ کبھی یہ اوپر کبھی وہ اوپر۔ اچانک ایک جھٹکے کے ساتھ چاند تارہ والی پتنگ کٹ گئی جو ابھی آسماں پر دمک رہی تھی۔ چرخی سے ڈور ٹوٹتے ہی ہوا کے جھونکوں سے ٹکراتی ہوئی نیچے گرنے لگی۔
ہر طرف ایک شور اٹھا پتنگ لوٹنے والے اپنے بانس اور جھاڑو لے کر گرتی ہوئی پتنگ کی طرف دوڑ پڑے۔ لوگ کہہ رہے تھے چاند تا رہ مشکل سے ملتی ہے۔ زمین کے قریب آتے ہی پتنگ لوٹنے والوں نے اسے بانسوں پر اٹھا لیا بہت سے لوگ جھپٹ پڑے۔ چاند تارہ ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی۔ کانپ کہیں گئی اڈہ کہیں گیا، چاند کہیں گیا تارہ کہیں۔ ذرا سی دیر میں ہرے رنگ کی پتنگ کے پراخچے اڑ گئے۔ ہلال یہ منظر دیکھ کر کانپ اٹھا۔
پاس میں محبوب حسین کٹی ہوئی پتنگ کی چرخی لئے ہوئے کھڑے تھے۔ اس نے ڈوبی ہوئی آواز سے پوچھا محبوب یہ کیا ہوا ؟۔ محبوب حسین بولے ’’یہ تو ہونا ہی تھا۔ پتنگ کی طاقت چرخی سے بندھے رہنے میں ہوتی ہے۔ جب پتنگ بہت اونچی ہو کر اپنی ڈور چرخی سے توڑ لیتی ہے تو ٹوٹی ہوئی شاخ کی طرح زمیں پر آ گرتی ہے، اور پھر زمین والے مفت کا مال سمجھ کر اس کو لوٹتے ہیں۔ اس چھینا جھپٹی میں اس کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتے ہیں۔ چاند کہیں تارہ کہیں کانپ کہیں اڈا کہیں۔ ‘‘
ہلال نے محبوب حسین کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔ ’’بس محبوب بس۔ میری بھی چرخی سے ڈور ٹوٹ گئی ہے۔ اللہ میرے چاند تارہ کی حفاظت فرمائے۔‘‘
٭٭٭
پروانے کی موت
برسات کے دن تھے، ہر طرف گھٹا ٹوپ اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ ایک ننھا سا پروانہ جھاڑیوں میں ٹکراتا پھر رہا تھا کہ اچانک دور سے اسے ایک روشنی نظر آئی اور وہ اڑتا ہوا اس کے قریب پہونچا۔ اس نے دیکھا ایک مکان کے اندر ایک خوبصورت سے چاندی کے شمعدان میں ایک شمع جل رہی ہے۔ پاس ہی ایک ننھی سی بچی بیٹھی ہوئی ایک نظم پڑھ رہی ہے۔
لب پہ آتی ہے دوا بن کے تمنّا میری زندگی
شمع کی صورت ہو خدا یا میری
دور دنیا کا میرے دم سے اندھیرا ہو جائے
ہر طرف میرے چمکنے سے اجالا ہو جائے
ننھا سا پتنگا اس دعا سے بہت متاثر ہوا اور اس نے لمبی سی آمین کہی۔
پروانہ سیدھا شمع کے پاس گیا اور اس سے کہا ’’تھوڑی سی روشنی مجھے دے دو میں بھی اس ظلمت کدے میں نور کی کرنیں پھیلاؤں گا۔‘‘
طویل قامت شمع نے پروانے سے پوچھا ’’تم کو معلوم ہے یہ روشنی مجھ کو کہاں سے ملی ہے؟ یہ نور خدواندی ہے جو مجھ کو عطا ہوا ہے۔ میں دنیا کو روشنی دینے کے لئے خود کو جلا کر راکھ کر دیتی ہوں۔ میری عمر ایک رات سے زیادہ نہیں لیکن اس ایک رات میں ہی میں وہ خِدمَت انجام دیتی ہوں کہ لوگ مجھ سے محبت کرتے ہیں اور اپنی ہر مجلس میں مجھے جگہ دیتے ہیں ۔‘‘
مُنے سے پتنگے نے کہا کہ ’’میں بھی تمہاری طرح روشنی پھیلاؤں گا اور اندھیرے کی چادر پھر دوں گا۔ ‘‘
شمع نے محبت بھرے انداز میں کہا ’’میرے پیارے پروانے! میں تمہارے جذبے کی قدر کرتی ہوں۔ لیکن تم یہ خیال اپنے دل سے نکال دو۔‘‘
پروانے نے جواب دیا ’’میں اپنی زندگی کو کامیاب بنانا چاہتا ہوں۔ میں چھوٹا ضرور ہوں لیکن عزم بلند رکھتا ہوں۔ میں اندھیرے کے خلاف جہاد کروں گا۔ روشنی پھیلا کر رہوں گا۔‘‘ پروانے نے یہ کہا اور دیوانہ وار شمع کا طواف کرنے لگا۔
شمع حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔ اس کا دل دھڑکنے لگا۔ سات چکر پورے کرنے کے بعد وہ اچانک شمع کی لو کی طرف بڑھا اور نہایت بہادری کے ساتھ اس کے اندر داخل ہو گیا۔
ایک دم ایک چھوٹا سا شعلہ اٹھا اور پروانہ جل کر شمع کے قدموں میں گر گیا۔
شمع کی آنکھ سے دو موٹے موٹے آنسو نکلے اور پروانے پر آگرے۔
شمع نے جھک کر پروانے کو دیکھا اس کا سارا جسم جل کر خاک ہو گیا تھا۔ لیکن اس کے ہونٹ ہل رہے تھے۔ وہ کہہ رہا تھا ’’میں کامیاب ہو گیا ۔میں نے روشنی پھیلانے کی کوشش میں شہادت حاصل کی۔ شمع ،تم گواہ رہنا شمع! تم گواہ رہنا۔‘‘ پروانے کی آواز بند ہو گئی لیکن اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ باقی تھی۔
شمع کا کلیجہ پھٹ گیا۔ وہ زار و قطار رونے لگی۔ میرے پیارے پروانے میں تم کو کبھی نہیں بھولوں گی۔ تم نے ایک نیک کام کا قصد کیا اور اپنا عزم پو را کر دکھایا۔ شمع روتی رہی روتی رہی اور آج تک پروانے کی یاد میں آنسو بہاتی ہے اور کہتی ہے
کر گیا نام وفا پروانہ
اپنی لو میں تو سبھی جلتے ہیں
شمع کی لو میں جلا پروانہ
٭٭٭
بے حس مرد
سورج دور پچھم میں ہماری آنکھوں سے اوجھل ہو رہا تھا۔ تھکے ہارے پرندے اپنے اپنے آشیانوں کی طرف محوِ پرواز تھے۔ ایک پُر کشش خاموشی چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی۔ بچے بظاہر شور کر رہے تھے مگر اس وقت بہت زیادہ مسرور تھے۔ چند ہی پل میں تاریکی نے اپنا پرچم لہرا دیا اور ہر طرف سیاہی پھیل گئی۔
روزانہ کی طرح آج کی رات بھی اُس کا شوہر نشے میں دھُت گھر میں جس وقت داخل ہوا اُس کے بچے حسب معمول سو چکے تھے۔ بیوی ایک کونے میں بیٹھے دیا کے سامنے بیڑی بنا رہی تھی۔ آہٹ ملتے ہی وہیں سے بولی۔ ’’آ گئے !آج بھی پی کر، تُم سے کتنی بار کہہ چکی ہوں کہ شراب سے توبہ کر لو۔ ارے اب تمہاری بچی بڑی ہو رہی ہے۔ کچھ تو سمجھو۔ جب دیکھو، نشے میں ڈوبے رہتے ہو۔‘‘
’’حرامزادی!‘‘ آتے آتے وہ نشے کے عالم میں اُس کے اُن گیسوؤں کو پکڑ کر مارنے لگا جس پر اُسے کبھی ناز ہوا کرتا تھا۔
لہراتے گیسو پر کتنے نوجوان فدا رہتے تھے اور وہ حُسن کا ملکہ بنے اُن پر اپنا رعب جمایا کرتی تھی۔ مگر آج اُسے پہلے کی باتیں خواب خواب سا لگنے لگی تھیں۔ وہ بلاوجہ مار کھا رہی تھی، مگر اُف تک نہیں کر رہی تھی کہ اُس کے بچے کہیں جاگ نہ جائیں یا کوئی پڑوسی دوڑ کے اُس کے گھر میں نہ آ جائے۔
شوہر جب تھک گیا تو ایک کونے میں جا کر لیٹ گیا اور بڑبڑانے لگا۔
’’سالی جب سے تمہاری شادی مجھ سے ہوئی ہے، میں تو برباد ہو گیا۔ نہ گھر کا رہا اور نہ گھاٹ کا۔ اس عالم میں شراب نہ پیوں تو کیا تمہارا خون گلے سے نیچے اُتاروں۔‘‘
اُس نے کچھ بھی جواب نہیں دیا بلکہ سسکیاں لیتی رہی اور بیڑی بناتی رہی کہ یہی تو ایک سہارا تھا جس کے بل پر اس کے بچے پرورش پا رہے تھے۔
ناکارہ شوہر گاؤں میں شرابیوں کے ساتھ رہ کر صرف پینا جانتا تھا۔ چاہتا تو کام کے لئے شہر جا سکتا تھا مگر اس آدمی کا کہیں ٹھکانہ نہیں ہے۔ وہ سوچتی رہی۔ وہ نشے کے عالم میں اول فول بکتے بکتے سو گیا۔
دیا جلتا رہا۔ اُس کی آنکھوں سے بہتے آنسو بھی خشک ہو گئے۔ وہ بیڑی بناتی رہی۔ سناٹا رقص کرتا رہا اور دیکھتے دیکھتے وہ بھی سو گئی کہ
وہ تنہا اس طرح کی آگ میں نہیں جل رہی ہے بلکہ ہزاروں عورتیں اس مرحلے سے گزر رہی ہیں اور اپنی تقدیر پر آنسو بہا رہی ہیں۔ !
٭٭٭ تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں