کون گلی گیو شیام
مصباح نوید
مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل
…. کتاب کا نمونہ پڑھیں
یو ٹو بروٹس
کالج میں چھوٹے سے باغیچہ میں ہری گھاس پہ آتی پالتی لگائے بیٹھی تھی۔ سعدیہ کی دور سے لہراتی ہوئی آواز کانوں سے ٹکرائی۔ ’’پیریڈ فری؟‘‘۔
’’ہاں یار!‘‘ میں نے اثبات سے سر ہلایا۔ ’’تو پھر چلیں مٹر گشت پہ‘‘ سعدیہ نے ہال کی چھت کی ریلنگ کے ساتھ لگے ہوئے کہا اور پھر سیڑھیاں پھلانگتی ہوئی اپنے لفظوں سے بھی پہلے میرے پاس پہنچ گئی۔
ہمارا کالج انگریز سرکار کی عطا تھا۔ عالی دماغوں کا تعمیر کردہ موسم کی سختی کی پرواہ نہ کرنے والی عمارت اپنی پرانی آن بان اور استقامت سے سر اُٹھائے کھڑی تھی۔ کھلے میدان، گھنے درخت۔
ہم دونوں کندھوں پر بیگ لٹکائے گھنے اونچے درختوں کے بیچ بنی راہداری پر ٹہلنے لگیں۔
ایک ایک کر کے ڈار کے بکھرے پنچھی بھی شامل ہوتے گئے۔ چار پانچ سہیلیوں کا جتھا، قہقہے لگانا، آنے جانے والوں پر فقرے کسنا، چکر پھیریاں لیتا اُڑتا جانا۔
ٹک شاپ پہنچتے ہی سعدیہ کو کوئی ضروری کام یاد آ جاتا۔ وہ سب کو وہیں چھوڑ کر پلٹ جاتی۔ چلبلی سی لڑکیوں کو اس کے ضروری کام پہ دھیان دینے کی فرصت ہی کہاں تھی!
وہ اس بات پہ ہی چیں بجبیں رہتیں۔ ’’لڑکوں کا بوائز کالج اور ہمارا وومن کالج؟ یہ کیا بات ہوئی بھئی!‘‘۔
کنٹین کے بجائے سعدیہ کا وقت لائبریری میں گزرتا۔ ابھی تو اس نے اپنے پیر زمین پر بھی نہیں ٹکائے تھے کہ سر سے باپ کا سایہ اُٹھ گیا تھا۔
ماں کی گود میں کانٹے سے اگ آئے۔ آٹھ نو ماہ کی سعدیہ کو اس کی نانی نے اپنی گود میں لے لیا۔ شاید اپنی بیٹی کا بوجھ ہلکا کرنا چاہتی تھی۔ اسی ’’بوجھ‘‘ ہونے کے احساس نے سعدیہ کو حساس بنا دیا۔
اپنے تعلیمی کیرئیر کے بارے بہت فکر مند رہتی۔ ’’جانے ماں یونیورسٹی میں ایڈمشن بھی دینے دے گی کہ پھر بوجھ کو کسی اور کندھے پہ لاد دے گی‘‘۔
گھر میں تو ایسے بھی وہ بن بلائے مہمان کی طرح تھی۔ نانی کے گزر جانے کے بعد جب اپنے گھر کو لوٹی تو اپنا گھر اجنبی ہو گیا تھا۔ روکھی سوکھی روٹی میں ایک اور ’’شریک‘‘ آ گیا۔ رویوں میں سوکھا پن آنا ہی تھا۔
چاروں بہنیں ریل کے ڈبوں کی طرح لاتعلقی سے ایک دوسرے سے منسلک تھیں۔
چیونٹوں کی قطار کی طرح ایک ہی لائن میں چلتے ہوئے کالج آتیں۔ لائن کے آخر میں سعدیہ ذرا زیادہ فاصلے پر ہوتی۔
کالج میں تو وہ فور سٹار سٹیٹس کی حامل تھی۔ ڈبیٹ ہو کہ مشاعرہ یا ڈرامہ، ہر ایونٹ میں سعدیہ موجود ہوتی۔
میں انگریزی کی کلاس میں ہمیشہ سعدیہ کے پہلو میں دبک کر بیٹھتی تھی۔ اس طرح سعدیہ پر پڑتی میڈم کی مہرباں نظروں کا ’’جھونگا‘‘ مجھے بھی مل جاتا تھا۔
اُس دن میڈم صنوبر کا مزاج کڑاہی میں اُبلتے تیل جیسا تھا۔ تڑا تڑ انگریزی ڈائس سے فائر ہو رہی تھی۔ میں نے جلدی سے کتاب کے صفحے پلٹے کہ دیکھوں کہاں سے پڑھا رہی ہیں۔ سعدیہ میرے ہاتھ پہ ہلکا سا تھپڑ لگا کر مسکراتے بولی ’’پڑھا نہیں رہی ڈانٹ رہی ہیں‘‘۔
ارد گرد سے کھی کھی کی دبی سی ہنسی کی آواز اُبھری۔ اگلی رو میں سے کسی نے ڈانٹا۔ ’’اوئے چپ‘‘۔ آخر میم تھک ہار اُردُو میں بولیں۔ ’’دیکھو! کیسے بلینک فیس لئے بیٹھی ہیں‘‘۔
کتابوں کے حاشیے پر لکھ لکھ کر ایک دوسرے سے گپ شپ کرتے ہاتھ لمحہ بھر کو ساکت ہو گئے۔
میں نے چونک کر سیاہ چہرے کی تلاش میں اِدھر اُدھر نگاہ دوڑائی۔ سعدیہ ماتھے پر ہاتھ مار کر بولی۔
’’اری او چغد! بلیک نہیں بلینک‘‘۔
’’کاش بازار سے عقل ملتی تجھے رتی ماشہ لے دیتی‘‘۔
اسی سہ پہر میں سعدیہ کے گھر گئی۔ کسی خوشحال ہندو کی بنائی ہوئی پرانی خستہ حال حویلی تھی۔ جس کی اطراف کی دیواریں گر چکی تھیں۔
گہرے سبز رنگ کے پتوں والے آم کے درخت حویلی کے چاروں طرف تھے۔ حویلی کے گول برامدے کے سامنے دو نیم کے قد آور درخت شاید صدیوں سے یونہی سر جوڑے کھڑے تھے۔ درختوں کے ساتھ بوگن ویلیا کی بیل لپٹی تھی۔ نیم کی شاخوں میں سے بوگن ویلیا کے آتشی گلابی پھول جھانکتے تھے۔
سرخ اینٹوں اور چوبی دروازوں والی حویلی بہت دیدہ زیب رہی ہو گی۔ لیکن وہ کسی سہانے خواب کی بھیانک تعبیر کی طرح تھی۔ جا بجا اکھڑی ہوئی اینٹیں، کٹا پھٹا فرش، روشن دانوں میں چڑیوں نے گھونسلے بنا رکھے تھے۔ جھولتے کراہتے لکڑی کے دروازے، کئی کھڑکیوں کے نصف پٹ غائب تھے۔ جن پر موٹے گتے کے ٹکڑے کیلوں کے ساتھ ٹھوک دئیے گئے تھے۔
اس حویلی میں پہلے سعدیہ کے دادا اور اب چچا رہتے تھے۔ چچا نے خدا ترسی میں اس بڑی حویلی کا چھوٹا سا کمرہ سعدیہ کی ماں کو دان کر دیا تھا۔
حویلی کے ایک بڑے کمرے میں سعدیہ کے دادا کا پرانی کتابوں کا ذخیرہ تھا۔ میں جب بھی سعدیہ کے گھر جاتی گھبرا ہی کر پلٹتی تھی۔ لیکن کیریوں اور کتابوں کی کشش مجھے پھر اس حویلی میں لے جاتی۔
سموری دم اُٹھائے گلہریاں ایک درخت سے دوسرے درخت کی جانب دوڑ لگا رہی تھیں۔ میرے قدموں کی چاپ زمین سے اُٹھا کر ایک گلہری وہیں تھم گئی۔ اُٹھی دم کو فرش پر ٹکا کر آسن جما لیا۔ اگلے دونوں پنجے تھوتھنی کے پاس جوڑے گول بٹن جیسی آنکھوں سے مجھے بغور دیکھ رہی تھی۔
مجھے دیکھتے ہی سعدیہ کی آنکھوں میں پریشانی در آئی۔ ’’یہ کتاب واپس کرنے آئی ہوں۔۔۔‘‘
’’کوئی اور کتاب دے دو‘‘۔
میں نے سعدیہ کے ہاتھ میں کتاب پکڑاتے ہوئے کہا، سعدیہ نے کتاب ایک ہاتھ میں لے کر دوسرے ہاتھ سے میرا ہاتھ تھام لیا۔ خاموشی سے بلی سے قدم اُٹھاتی چوڑے شہتیروں اور اونچی چھت والے کاریڈور سے گزر کر ایک بڑے کمرے میں داخل ہوئی۔ میں سایہ سمان سا تھ ساتھ تھی۔
دیواروں کے ساتھ قد آدم لکڑی کے ریک رکھے تھے جن میں گرد سے اٹی ہوئی کتابیں ٹھونس ٹھانس رکھی ہوئی تھیں۔
سعدیہ نے فراخدلی سے کہا: ’’جو کتاب چاہتی ہو، اُٹھا لو‘‘۔ میں نے طائرانہ نظر کتابوں پر ڈالتے ہوئے ایک کتاب اچک لی۔
کتاب اُٹھا کر واپسی کی راہ لی۔ سورج مہاراج چاہے افق کنارے لگے تھے لیکن تپش ہنوز برقرار تھی۔ تمازت محسوس کرتے میں نے سوچا۔ ’’کبھی جھوٹے منہ پانی کا بھی نہیں پوچھتی‘‘۔
سوچ نے پھر زقند لگائی۔ ’’کالج میں ہم سب سہیلیاں بہانے بہانے سے ایک دوسرے کو ٹریٹ دیتی ہیں مجال ہے جو کبھی سعدیہ نے شرکت کی ہو‘‘۔ گھر تو پانچ منٹ ہی کے فاصلے پر تھا۔ اس دوران سوچ نے مزید اڑان بھری اور پانچ منٹوں ہی میں سعدیہ سے ٹریٹ بٹورنے کا ماسٹر پلان تیار ہو گیا۔
اگلے دن کالج میں سرگوشیوں کا تبادلہ ہوتا رہا، سعدیہ انگلش ٹیچر میڈم صنوبر کی چہیتی تھی۔ انہوں نے چند اہم نظموں کی سمری بنا کر فائل سعدیہ کے حوالے کی کہ فوٹو اسٹیٹ کروا کر اصل واپس کر دے۔
بریک میں ہم سب باسکٹ بال گراؤنڈ کے اطراف بنی سیڑھیوں کے ایک کونے میں بیٹھے کھلاڑیوں کو مشق کرتے دیکھ رہے تھے۔
سعدیہ نے بے پرواہی سے فائل اپنے بیگ کے اوپر رکھ دی۔ کچھ لمحوں ہی میں فائل غائب تھی۔ اِدھر اُدھر سب نے دیکھا، کہیں ہوتی تو نظر بھی آتی۔
میرا ہاتھ تھامے رکھنا سعدیہ کی نہیں سعدیہ کے ہاتھ کی عادت تھی۔ خود اس کو بھی خبر نہیں ہوتی تھی کہ کب اس کا ہاتھ لپک کر میرے ہاتھ کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ کسی کے مذاق کرنے پر کہ ’’اگر ہاتھ نہ تھامو گی تو گر جاؤ گی کیا!!‘‘، وہ چونک کر اپنے ہاتھ میں میرا ہاتھ دیکھنے لگتی۔
سعدیہ نے حسب معمول میرا ہاتھ تھاما، سارا کالج کھدیڑ رکھ دیا۔ بار بار ایک ہی سوال دہراتی۔ ’’اب کیا کریں؟‘‘۔
میں آنکھوں ہی آنکھوں میں تسلی کا سگنل اس کے دل کو بھیجتی۔ ذرا دیر کو دلاسہ دل کے ساتھ رہتا پھر دامن چھڑا جاتا۔ سعدیہ یونہی بیقرار ہر راہ گزر کو روک کے پوچھتی۔ ’’آپ نے۔۔۔؟‘‘۔
اس کے بس میں ہوتا تو ہر لڑکی کے بیگ کی تلاشی بھی لیتی۔
میں نے اپنی ساری کلاسز ڈراپ کر دیں اُسی کے ساتھ رہی۔
پھر کسی نے خبر دی کہ نوٹس بورڈ پر ایک نیا نوٹس چسپاں ہے۔ ’’سعدیہ بتول کے گمشدہ اوراق ہمارے پاس ہیں۔ تاوان میں ایک لیٹر کوک ادا کی جائے‘‘۔
سعدیہ کے چہرے پہ تو ہوائیاں اُڑنے لگیں۔ اس نے مدد طلب نظروں سے میری طرف دیکھا۔
میں نے بے نیازی سے کندھے اچکاتے جواب دیا۔ ’’ایک بوتل کوک ہی تو ہے‘‘۔
پھر جملے کو ذرا بڑھاوا دیا۔ ’’اپن کی جیب تو آج خالی ہے ورنہ ایک بوتل کوک کی بھی کوئی بات تھی‘‘۔
سعدیہ نے بے بسی سے مجھے دیکھتے ہوئے پھر میرا ہاتھ تھام لیا۔
اب اس کے قدم سٹاف روم کی جانب اُٹھ رہے تھے۔
چند کرسیاں خالی تھیں۔ کچھ کرسیوں پر ہیولے سے تھے۔ سٹاف روم میں میڈم صنوبر کے علاوہ سب دھندلکے میں تھا۔
گول دستی آئینہ ہاتھ میں پکڑے دوسرے ہاتھ کی چھنگلی سے ہونٹوں پر جمی لال بھبھِوکا لپ اسٹک درست کر رہی تھیں۔
ہمیں دیکھتے ہی انہوں نے آئینہ پرس میں رکھ کر لپ اسٹک کو اس کے پہلو میں لٹا دیا۔
’’جی؟‘‘ سوالیہ نظریں ہماری طرف اُٹھیں۔ ’’میم۔۔۔‘‘ سعدیہ ذرا رکی۔ تھوک حلق سے نگلا۔ ’’میم!۔۔۔ وہ۔۔۔ وہ۔۔۔‘‘
’’کیا میم میم لگا رکھی ہے، بات مکمل کرو‘‘۔ میم صنوبر درشتی سے بولیں۔
’’میم! وہ نوٹس گم ہو گئے ہیں‘‘۔
سعدیہ نے یہ چند لفظ گھسیٹ ہی کر منہ سے نکالے۔
میم جس جناتی زبان میں کلاس میں لیکچر دیا کرتی تھیں، اسی میں شروع ہو گئیں، نہ کاما نہ سٹاپ۔ سعدیہ پہ تو جیسے بارش برس رہی ہو، سر جھکائے شرابور کھڑی رہی، پھر اپنے پسینے سے پسیجے ہوئے ہاتھ سے میرے برف ہوئے ہاتھ کو تھاما اور خاموشی سے سٹاف روم سے باہر آ گئی۔
نوٹس بورڈ کے پاس رکھے بنچ پہ ہی ہم دونوں بیٹھ گئیں۔ جانے کتنی دیر یونہی کالج گیٹ کی طرف جاتی لڑکیاں دیکھا کئے۔
چاروں اور بکھری آوازیں مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی طرح سنائی دیتی تھیں۔ اکلوتا سیلنگ فین ایسے جھول رہا تھا کہ جیسے ابھی گرا۔
میری گردن پہ منوں بوجھ تھا، اُٹھائے اُٹھ نہیں رہی تھی۔ بیگ کی کھلی زپ کی آواز تیز دھار کی طرح جلد پہ کٹ سا لگاتی گئی۔
خون رگوں میں پھر رواں ہوا۔ میں نے بیگ سے چڑی مڑی فائل نکالی اور سعدیہ کی طرف بڑھا دی۔
سعدیہ کے ہاتھ اس کی گود میں سہمے کبوتروں کی مانند بے حس و حرکت پڑے تھے۔ میری طرف ایک ٹک دیکھتی ہوئی بڑی بڑی نیلگوں سمندر آنکھوں میں جیسے ٹائی ٹینک ڈوب رہا تھا۔
اتنا ہی بول پائی: ’’تم۔۔۔‘‘
پھر لفظ بھی دغا دے گئے۔
٭٭٭
کونج
چیری کے شگوفوں جیسے لب ادھ کھلے، چمکیلی آنکھوں سے جن میں جیسے کانچ کوٹ کر بھر دیا گیا ہو۔ ستارہ اک ٹُک نوری کو دیکھتے ہوئے، روٹیاں اپنی چنگیر پر رکھتی جا رہی تھی۔
مہر رنگی بادامی آنکھوں، مشکی رنگت والی نوری پسینے سے شرابور روٹی تندور سے نکالتی اور چھابے پر رکھتی جاتی۔ نوری کی جلد ایسی تھی جیسے چمکتی سیاہ ساٹن ہوتی ہے۔ پیسنے کے قطرے چہرے سے پھسلتے ستواں لمبی کونج جیسی گردن سے ہوتے ہوئے گریبان سے اُبھرتی ہوئی چٹانوں پر مچلتے۔
اُس نے اپنے لمبے سیاہ بالوں کو موتی تارے لگے رنگین پھندنے والے پراندے میں گوندھ رکھا تھا۔
نوری نے کنڈے کی نوک پر روٹی پرو کر نکالی۔ ستارہ کے پھیلائے کپڑے پر رکھ کر بولی:
’’اے لو! ہو گئیں پوری دس۔‘‘
پھر مِٹھار کر ستارہ سے کہنے لگی: ’’ہتھ بچا کر جلا نہ لینا گرم روٹی کا ساڑ بہت ہوتا ہے۔‘‘
ستارہ نے نوری سے نظریں ہٹائے بغیر اثبات میں سر ہلا دیا۔ نوری کا بے پناہ حسن مبہوت کر دیتا تھا۔ دو پونیوں میں ربن لگائے خوب چنٹیں ڈال کر کھلے گھیرے والا فراک پہنے گلابی گالوں والی ستارہ نوری کی سہیلی تھی۔ بھرے بیگانے شہر میں ایک آٹھ نو سالہ ستارہ ہی سے تو سہیلاپا گانٹھ رکھا تھا۔
نیم کے چھتنار درخت کے نیچے تندور تھا۔ سڑک پار ہی ستارہ کا گھر تھا۔ ستارہ روٹیوں کی چنگیر اُٹھائے پلٹ پلٹ نوری کو دیکھتے ہوئے گھر چلی جاتی۔
ستارہ کے گھر سے باہر دیسی لال گلابوں کی باڑ لگی تھی۔ گھر کے فرنٹ پر برآمدہ تھا۔ جس میں جالی لگی لکڑی کی کھڑکیاں تھیں۔ برآمدے کے ساتھ ہی ایک چھوٹا سا داخلی دروازہ گھر کے صحن میں کھلتا تھا۔ صحن کے ایک کونے میں منا سا باغیچہ تھا۔ جس میں ایک سرو قامت شہتوت کا درخت تھا۔ تین اطراف کمرے اور کچن تھا۔ شہتوت کے نیچے ایک چھوٹی سی کھٹولی بچھی ہوئی تھی۔ درخت کے تنے کے ساتھ اینٹیں جوڑ کر ستارہ نے اپنے کتورے ٹامی کا گھر بنایا ہوا تھا۔ لیکن ٹامی ستارہ کی چیل ہی کو اپنا گھر سمجھتا تھا۔ ہمیشہ اس کی چیل میں اپنی تھوتھنی پھنسا کر سوتا تھا۔
ستارہ گرمیوں کی طویل چھٹیاں اور لمبی دوپہریں شہتوت کی میٹھی چھایا ہی میں گزارتی۔ تکیے کے نیچے رنگین تصویروں والی کتابوں کا ڈھیر تھا۔ ستارہ اور ٹامی مل کر کہانیاں پڑھتے۔ ٹامی اپنی شرارتی آنکھوں اور مسلسل ہلتی دم کے ساتھ تصویریں دیکھتا۔ اونچی آواز میں کہانی قرأت کرتی ستارہ کو کان کھڑے کیے سنتا۔ ماں کئی بار ستارہ کا بازو پکڑ کے کمرے میں لے جا کر پنکھے کے نیچے لٹا دیتی تھی۔ ’’میری گلابو کالی پڑ جائے گی۔۔۔ تجھے گرمی نہیں لگتی کیا!!‘‘۔ ماں دلار سے کہتی۔ لیکن کالا رنگ تو ستارہ کا من بھاتا رنگ تھا۔ رات کا رنگ، ٹامی کا رنگ اور سب سے بڑھ کر نوری کا رنگ۔ جھوٹ موٹ آنکھیں موند لیتی۔ جب ماں کی نیند سے بھاری ہوتی گہری سانسیں سنتی تو پٹ سے آنکھیں کھول کے پھر شہتوت کے نیچے۔
نماشا ویلے کا شدت سے انتظار ہوتا تھا۔ نوری اس سمے تندور جو تپاتی تھی۔ جمیل جسے سارا محلہ ’’نوری کا گھر آلا‘‘ کہتا تھا۔ لکڑیوں کا گھڑ سر پر اُٹھائے نیم کے تنے کے پاس رکھ دیتا۔ کچھ لکڑیاں تندور میں ڈال کر آگ کا بھانٹبر جلاتا۔ ستارہ کی تارا آنکھیں کھڑکی کی جالی میں سے جھانکتی رہتیں۔
’’نوری کا گھر آلا ہے تو نوری کا گھر کہاں ہے؟‘‘
ستارہ کی آنکھیں سوچ میں ڈوب جاتیں۔ نوری تو سارا دن لوگوں کے گھروں میں برتن دھوتی۔ جھاڑو دیتی، جمیل دیہاڑی پر جاتا شام ہی کو واپس آتا۔ شام کے سائے ڈھلتے تو تندور تپا کر دونوں وہیں سر جوڑے بیٹھے نظر آتے۔ تندور سے نکلتی آگ کی لاٹ لال سنہری ہوتی رقص کرتی۔
درخت کے نیچے ہی چارپائی بھی تھی۔ ایک طرف مٹی کا گھڑا کوزے سے ڈھکا ہوا۔ جمیل کبھی چار پائی پر بیٹھتا تو کبھی روٹیاں لگاتی نوری کے پاس اکڑوں بیٹھ جاتا۔ جب دونوں اکٹھے ہوتے تھے تو دونوں کی نظریں ایک دوسرے سے ہٹتی نہ تھیں۔ ساری دنیا جیسے غائب ہو جاتی۔ بس نوری، جمیل اور تندور سے نکلتی نارنجی روشنی ہی دھرتی پر ہوتے۔ ستارہ ماں کی نظروں سے بچ کر ٹامی کو گود میں اُٹھائے کئی پھیرے تندور کے لگاتی۔ آنکھوں میں تاروں کی سی جوت جگائے۔ نچلا لب ذرا سا باہر نکالے خاموشی سے دونوں کے پاس کھڑی رہتی۔ وہ دونوں الگ الگ بھی اکائی تھے۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ نوری کہاں ختم ہوتی ہے جمیل کہاں سے شروع ہوتا یا جمیل کہاں ختم ہوتا اور نوری کہاں سے شروع ہوتی۔
ماں کی پکار چونکا دیتی تو گھر کا رُخ کرتی۔ اپنے آپ سے اکتائی ہوئی ماں گندھے آٹے کے پیڑے بنا کر پرات میں رکھتی۔ پرات گیلے کپڑے سے ڈھانپ کر ستارہ کے ہاتھوں میں تھما دیتی۔
’’جا روٹیاں لگوا لا۔ اب وہیں نہ بیٹھی رہنا۔ دیر ہو گئی تو تیرا باپ میری جان کو روئے گا۔‘‘
گھر تو سارا ہی اکتایا ہوا ایک دوسرے سے بیزار تھا۔ بس شاد تو شہتوت رہتا تھا ہر دم پتوں کی تالیاں بجاتا رہتا۔ ستارہ، ٹامی اور شہتوت تینوں میں خوب یارانہ تھا۔
بڑی بہن کی شادی کو کئی سال گزر گئے تھے۔ خالی گود لیے پھرتی تھی۔ محلے ہی میں ایک شفیق صورت بزرگ تھے۔ سب عورتیں دل کی خالی جھولی پھیلائے، دماغ میں شک نفرت کے شُوکتے ناگ لیے انہی کے پاس آتیں اور آس دلاسہ لیے اپنے نراش گھروں میں پلٹتیں۔ سب انہیں ولی اللہ کہتے۔
’’ولی اللہ کسے کہتے ہیں؟ ماں!‘‘
ستارہ نے پانی کے گلاس میں تعویذ گھولتی ماں سے پوچھا۔
’’یہ تعویذ دلوں میں مہر محبت پیدا کرنے واسطے ہے۔ حضرت جی بتا رہے تھے کہ اللہ کے کلام میں بہت برکت ہے۔‘‘
ماں نے جیسے اپنے آپ کو بتایا۔ ماں جب بھی ابو کو چائے شربت یا پانی دیتی۔ تو تعویذ والے برتن کا تھوڑا سا پانی اس میں شامل کر دیتی۔ گیارہ بار یا ودود کا ورد کر کے پھونک بھی مارتی۔ یہی عمل کر کے باجی بھی جیجا کو پانی کا گلاس پکڑاتی۔
’’ولی اللہ کسے کہتے ہیں؟ ماں!‘‘
ستارہ نے اپنا سوال دہرایا۔
ماں نے رسان سے کہا: ’’اللہ کے دوست کو کہتے ہیں‘‘۔
’’ستارہ نے سمجھداری سے سر ہلایا۔ ’’اچھا! جیسے ٹامی میرا دوست ہے‘‘۔
ماں کے لفظوں کی ملائمت جانے کہاں چلی گئی۔ ’’شش! کلمونہی جو منہ میں آتا ہے بکتی جاتی ہے‘‘۔
چپل اُتار کر ستارہ کے ٹانگوں سے چپکے ہوئے ٹامی کا نشانہ لیا۔ لیکن ٹامی بھی چپل کے تیور خوب پہچانتا تھا۔ وہ تو پھرتی سے رُخ بدل گیا۔ چپل سیدھی ستارہ کی ٹانگوں پر لگی۔
’’حرام جانور گھر میں رکھا ہے اس کی وجہ سے گھر سے برکت ہی اُٹھ گئی‘‘۔
ماں غصے سے بولی۔ ستارہ نے جلدی سے اُٹھا کر ٹامی کو اپنی گود میں چھپا لیا۔ آنکھوں میں آنسو لا کر بولی۔ ’’ماں! تعویذ والا پانی تھوڑا سا آپ بھی پی لیا کرو، ہو سکتا ہے کہ دل میں ذرا سی محبت معصوم ٹامی کے لئے بھی پیدا ہو جائے۔‘‘
ستارہ نے ماں کے چہرے پر پھیلی مسکراہٹ دیکھ کر سوچا کہ ’’ماں کس قدر سندر ہے اور ہنسی کی آواز تو ایسے جیسے گھنگرو بجتے ہوں۔
ماں ہنس کر بولی: ’’میں ترے باپ کی توجہ محبت کے لئے ترلے ڈالتی پھرتی ہوں تو میرے دل میں ٹامی کا پیار بھر دے‘‘۔
ابو شام گئے گھر آتے۔ بس ستارہ کے سر پر ہاتھ رکھتے ٹامی کا حال پوچھتے۔ اسی لیے ستارہ کو ابو اچھے لگتے تھے۔
ابو کے گھر آتے ہی اکتایا ہوا گھر گنگ بھی ہو جاتا۔ بڑا بھائی جو سارا دن کتابوں کے ڈھیر پر بیٹھا موبائل دیکھتا رہتا تھا۔ کتابیں سمیٹ کر اپنے کمرے میں غائب ہو جاتا۔ باجی کی اپنے سسرال والوں سے بنتی نہیں تھی۔ لیکن بہنوئی کی اپنے سسرال سے جند جان تھی۔
جیجا کہ نہ تو نوکری ملتی اور نہ ہی بہت سارا پیسہ تاکہ کسی بزنس کی شروعات کر سکیں۔
سارا دن جیجو ماتھے پر تیوریاں چڑھائے، باجی سے خاطر داریاں کرواتا۔ جیسے ہی ابو گھر آتے تیوریاں ماتھے سے ایسے غائب ہو جاتیں جیسے استری پھیر دی گئی ہو۔
ابو طمطراق سے صوفہ پر بیٹھتے۔ ماں جلدی سے ہاتھ میں پانی کا گلاس تھامے آ جاتی۔ جیجو سر جھکائے چپل اُٹھا کر ابو کے سامنے رکھتے اور بوٹ ایک طرف کر دیتے۔
ہزار بار دہرائے گئے اس منظر سے اوب کر ستارہ صحن میں جا کر شہتوت کے ساتھ سر جوڑ کر کھڑی ہو جاتی۔ ٹہنیوں سے رس سے ٹپکتے سفید شہتوت اُتارتی ایک اپنے منہ میں دوسرا ٹامی کے کھلے منہ میں ڈراپ ہو جاتا۔
شہتوت جھوم جھام کر اپنا پھل نچھاور کرتا۔ اکتائے ہوئے گھر میں یہ تینوں جی چہکتے مہکتے رہتے تھے۔
سویرے ابو کے جانے کے بعد ماں سکھ کا سانس لیتی۔ بکھرے برتن سمیٹ کر کمرہ بند کر کے سو جاتی تھی۔
باجی تو دیوار کے ساتھ تصویر کی طرح لگی ہر وقت جیجو کے ٹھوکتے بجتے جملوں کی زد میں رہتی۔
ایک گول لکڑی کی تھالی برآمدے کی دیوار پر آویزاں تھی۔ جس پر ستارہ پلاسٹک کے تیروں سے چاند ماری کی مشق کرتی۔ تیر نشانے پر لگتا تو تھالی ذرا سی تھرتھراتی اور پھر ساکت ہو جاتی۔ باجی بھی اسی تھالی کی طرح جملہ سہ کر لمحہ بھر تھرتھراتی پھر ساکت ہو جاتی۔
باجی جب بھی پسیجی ہوئی آواز میں جیجو کو ’’جانی‘‘ کہتی تو ستارہ کا غصہ گھر کی دیواروں سے سر ٹکرانے لگتا۔ ’’بد تمیز جیجو!‘‘
ستارہ نے احتجاجاً ٹامی کا نام ہی تبدیل کر دیا۔ زور سے جانی پکارتی تو ٹامی دَم ہلاتا بھاگتا اس کے پاس آ جاتا۔ جیجو کا رنگ جامنی اور باجی کا پیلا پڑ جاتا۔
باجی نے کئی بار چپکے سے ستارہ کی منت کی کہ ٹامی کو جانی نہ بولا کرے۔ ستارہ تنک کر کہتی، ’’کیوں نہ کہوں؟ آپ کو جیجو اچھے لگتے ہیں۔ تو انہیں جانی کہتی ہیں نا؟‘‘
باجی لب بھینچے سر ہلا دیتی۔ ’’مجھے ٹامی اچھا لگتا اس لیے میں اسے جانی بولتی‘‘۔
ستارہ کا غصہ اسی پر ختم نہ ہوتا جب کوئی سہیلی کھیلنے آتی تو ککلی ڈالی جاتی۔
ککلی کلیر وی
پگ میرے ویر دی
دوپٹہ میرے پائی دا
فٹے منہ جوائی دا
’’فٹے منہ‘‘ منہ سے ایسا زور دار نکلتا جیسے توپ کے دہانے سے گولہ نکلتا ہو۔
ماں بہتیرا شور مچاتی کہ ’’ادب تمیز تمہیں چھو کر نہ گزری۔ ستارہ!‘‘
ستارہ بے نیازی سے جواب دیتی کہ ’’ہم تو کھیل رہے ہیں‘‘۔
جب شام جمیل کسی کام سے گیا ہوتا ہوا تو ستارہ کی موج لگتی۔ تب ستارہ کی روٹیاں لگنے کی باری آخر میں آتی۔ نوری اور ستارہ کی چھوٹی سی دنیا کی چھوٹی چھوٹی لیکن تفصیلی باتیں ختم ہونے کو نہ آتیں۔
تندور پر آئی عورتیں ان کی باتوں پر کھلکھلاتیں: ’’نوری! تُو تو ستارہ کی ہمجولی ہے‘‘۔
نوری کی چار پائی پر ایک کپڑے سے بنی گڑیا رکھی ہوتی جس سے اکثر ستارہ ہی کھیلتی۔ نوری کو وہ بہت عزیز تھی کبھی وہ پٹولی کہلاتی تو کبھی گڈی۔
کالے دھاگے کی کڑھائی سے اس کی آنکھیں بنائی گئی تھیں۔ دھاگے سے بال بنا کر سر میں سلائی کیے گئے تھے۔ کپڑے کی باریک نوک بنا کر سوئی دھاگے سے ناک چہرے پر چسپاں کی گئی تھی۔ لال دھاگے سے بنے ہونٹ۔ کانوں میں بالیاں، ماتھے پر ٹیکا۔ سنہری کناری لگی سرخ چنڑی اوڑھے، چولی گھاگھرا پہنے پٹولی مہارانی دِکھتی تھی۔
نوری اسے اپنے سینے سے لگا کر پریم سے کہتی: ’’ماں نے رات جاگ کر لالٹین کی لو میں یہ گڈی بنائی تھی‘‘۔
’’تمہاری ماں کہاں ہے؟ نوری!‘‘
ستارہ پوچھتی۔ نوری کی آنکھوں میں آنسو بھر آتے۔ لیکن جمیل آنکھوں سے آنسو ٹپکنے نہیں دیتا تھا۔ جانے اسے کیسے خبر ہو جاتی۔ چراغ کے جن کی طرح فوراً ہی نمودار ہوتا۔ نوری کے پاس دو زانو بیٹھ جاتا دونوں ہاتھ اس کے گھٹنوں پر رکھتا۔ اس کی آنکھوں میں دیکھتا۔ نوری کی آنکھوں سے آنسو غائب ہو جاتے۔ ہنسی کھنکنے لگتی۔ ستارہ کو روٹیوں کی چنگیر اُٹھائے گھر واپس آنا ہی پڑتا تھا۔ پھر سب کی نظروں سے بچ کر چپکے سے باہر سڑک والی کھڑکی کی جالی پر اپنا چہرہ ٹکا کر کھڑی رہتی۔ جیسے عورتوں کا جمگھٹا ختم ہوتا تو جمیل تندور کا منہ کُنالی رکھ کر ڈھانپ دیتا۔
گرمی سے بے حال نوری کے بدن سے چمٹی پسینے سے گیلی کُرتی سے کچی مٹی سا مہکار اٹھتا۔ گول کلائیوں میں کانچ کی رنگ برنگی چوڑیاں، ہاتھوں کے ناخن تو ہمیشہ مہندی رنگ سے سجے رہتے تھے۔ لچکتی کمر کے ساتھ تندور کے پاس سے اُٹھتی۔
چار پائی پر جا کر بے سدھ لیٹ جاتی۔ دونوں ٹانگیں چارپائی سے نیچے لٹکائے انہیں جھلاتی رہتی۔ سر چارپائی کے کنارے پر رکھا ہوتا۔
رات گئے سڑک سنسان ہوتی تھی۔ دور الیکٹرک پول پر لگے بلب کی ملگجی روشنی میں نوری کا پرچھاواں ہی نظر آتا تھا۔
جمیل نزدیکی دکان سے کون آئس کریم لے آتا وہ کون آئس کریم جو ماں ستارہ کو ہفتہ میں ایک بار ہی لے کر دیتی تھی۔
جمیل چار پائی پر چوکڑی لگا کر بیٹھ جاتا۔ نوری کا سر آٹو میٹکلی اس کی گود میں آ جاتا۔ نوری مزے سے دھیرے دھیرے آئس کریم چاٹ کر کھاتی۔ اس کی ٹھنڈک زبان سے مساموں تک اتارتی۔ آئس کریم کھا کر کون کا بسکٹ جو چاکلیٹ سے بھرا ہوتا جمیل کے ہاتھ میں دے دیتی بسکٹ جمیل چٹ کر جاتا۔
دونوں کی ہنسی کی آواز ہوا کی دوش میں لہراتی ہوئی ستارہ کے کانوں تک بھی پہنچتی۔
ماں کھڑکی سے چمٹی ادھ سوئی ادھ جاگی ستارہ کو اُٹھا کر بستر پر لٹاتے ہوئے بڑبڑاتی: ’’کملی‘‘۔
ایک دن سورج زیادہ ہی تپا ہوا آگ بگولا آسمان پر نمودار ہوا۔ زہریلی سرگوشیوں کی گونج ہر گھر سے اُٹھ رہی تھی۔ ٹامی کی بے چین ٹیاؤں ٹیاؤں نے ستارہ کو جگا دیا۔ حسبِ عادت جاگتے ہی ستارہ نے کھڑکی سے باہر دیکھا۔ نوری کی چارپائی الٹی پڑی تھی۔ پٹولی اوندھے منہ زمین پر گری ہوئی تھی۔ ستارہ باہر بھاگی۔ پٹولی کو اُٹھا کر اس پر لگی گرد کو اپنے دامن سے صاف کیا۔ ٹامی ستارہ کے پیروں میں دبکا ہوا جیسے رو رہا ہوں۔
کچھ لوگ سر جوڑے اونچی آواز میں بول رہے تھے۔ ’’بڑی چنڈال تھی وہ حرامزادی! ماں باپ کے چہرے پر سیاہی تھوپ کر یار کے ساتھ بھاگ آئی تھی۔ پچھلوں نے کھوج لگا لیا رات کو دونوں کو اُٹھا لے گئے‘‘۔ ستارہ نے سسکتے ہوئے پٹولی کو اپنے فراک میں چھپا لیا۔
٭٭٭
عرش منور مِلیاں بانگاں
گندھے مٹھی بھر آٹے کو ہتھیلی پر جمایا۔ انگلیوں کی جنبش اور ہتھیلی کی رگڑ سے گولائی میں لا کر چکلے پر پٹخ دیا۔ بیلن سے اُس کے کس بل سیدھے کئے۔ چپاتی کو ہاتھ سے پھیلا کر جلتے توے پر پھینکا۔ روٹیاں بناتی جینا جیسے اشاروں میں اپنی حیاتی بیان کر رہی تھی۔
توے کے سیک کو ناکافی جان کر روٹی کو چمٹے سے پکڑ کر شعلوں کی لپکتی بھڑکتی زبان پر ذرا دیر کو ٹکاتی۔ پھولے ہوئے سنہرے پھلکے کو پلیٹ میں رکھ کر ایسی تیزی سے ڈائننگ ٹیبل پر رکھ آتی کہ میز کے چار جو فیرے عبد الرحمان، بیگم صاحب اور تینوں بچوں کو آتی جاتی کا پرچھاواں ہی نظر آتا۔ روٹی پل بھر میں شکم کی اتھاہ گہرائیوں میں غائب ہو جاتی۔
زرینہ اور ڈرائیور منظور اس گھرانے کے پرانے ملازم تھے۔ خاموش طبع، سر آنکھیں جھکا کر رکھنے والے، اسی واسطے مالکان کے منظور نظر تھے۔ زرینہ کے بالوں کی سیاہی میں دھیرے سفیدی گھلی جا رہی تھی۔ لیکن ’’خدا کے گھر دیر ہے اندھیرا نہیں‘‘ نے آس جوان رکھی تھی۔
زرینہ کوئی پل فارغ نہ رہتی۔ گنگناتے ہوئے کمے کجے لگی رہتی۔ ’’عرش منور مِلیاں بانگاں۔۔۔۔‘‘ سننے والیاں اپنے ناک بہتے، میل سے اٹے بچوں کے کمر پر دھموکا مارتے ہوئے کہتیں۔ ’’اونہ! اوتری نکھتری کے گاون دیکھو‘‘۔
سرگوشی کانوں میں سرسراتی: ’’کوکھ جلی نے جانے کس مولبی سے تاویج کروائے ہیں۔ گالی گلوچ دور کی بات ہے، خاوند اونچی آواز میں بولتا نہیں‘‘۔
حسرت آہ بھرتی: ’’ہا ہائے بچوں سے گھر بھر دیا۔ جرا سالن میں نمک تیج ہو جائے ماں بہن کچھ نہیں چھوڑتا‘‘۔
لیکن اس بانجھ کوکھ والی گود میں ممتائی نگھ تھی اسی گود میں اس گھر کے تینوں بچے ہمکتے پروان چڑھے تھے۔ تتلاتی زبان میں ’’جینا۔۔۔ جینا‘‘ بولتا ہوا بنٹی اب ’’ماشاء اللہ‘‘ سکول جانے لگا تھا۔ جب سے سکول جانے لگا تھا، لفظ ’’جینا‘‘ سے مٹھاس نچڑ گئی تھی۔ اب اس میں صاحب کے تحکم کی کڑواہٹ اور بیگم صاحب کے طنطنہ کی کھٹاس تھی۔
لفظ کا ذائقہ بدل گیا تھا لیکن ’’جینا‘‘ کی پکار سنتے ہی بے اختیاری ممتا بنٹی پر واری واری جاتی۔
بنٹی نے چمچ پلیٹ پر بجاتے شور مچایا۔ ’’مجھے روٹی نہیں کھانی۔۔۔ موم پلیز۔۔۔ پیزا‘‘۔
بنٹی نے کسی نئے لگام میں جتے بچھڑے کی طرح ایڑیوں سے فرش بجایا۔ سات سال کا بنٹی منہ لال کئے شیر خوار کی طرح اوں آؤں کرتا آنسوؤں کے ساتھ رو رہا تھا۔
میاں عبد الرحمن نے میز پر دھری کئی ڈشوں پر نظر دوڑا کر ڈپٹ کر کہا ’’جو گھر میں بنا ہے وہی کھاؤ‘‘۔
صوفشاں فروزاں نے فرمان حتمی جان کر بے دلی سے سامنے رکھی رکابیاں اپنے آگے کھسکا لیں۔
بنٹی نے سہم کر نوالہ منہ میں گھسیٹا اور آخ آخ کرتا ہوا سنک کی طرف بھاگا۔
’’بھاڑ میں جائے گھر کا کھانا‘‘ ماما بڑبراتے ہوئے فون پر آرڈر ٹائپ کرنے لگی۔ صوفشاں، فروزاں نے اطمینان کا سانس لیتے ہوئے رکابیاں پھر پرے کھسکا دیں۔
بابا اپنی پلیٹ سے کھانا چگتے ہوئے لفظ کمپیوٹر میں فیڈ کی ہوئی ایک ہی ٹون جیسی آواز میں کئی بار بولے گئے لفظ دہرانے لگے:
’’دن بدن غبارے کی طرح پھولتا جا رہا ہے۔ اس کا کیا فیوچر ہو گا!!۔ گریڈ بی سے آگے بڑھتا ہی نہیں۔ نرسری کلاس سے قاری آ رہا ہے کلاس ون میں پہنچ گیا نہ قرآن ختم ہوا نہ نماز پڑھنی آئی۔
۔۔۔ فروزاں، صوفشاں اس عمر میں فرفر دعائے قنوت آیت الکرسی سناتی تھیں۔ اس ایڈیٹ کو دوسرا کلمہ یاد نہیں ہو رہا۔ ہر وقت ٹیبلٹ پکڑے وڈیو گیمز میں مگن ہے۔ زمانہ۔۔۔ کمپٹیشن۔۔۔ فیوچر۔۔۔‘‘
بنٹی آنکھ کا تارا تھا۔ ہر وقت نگرانی کرتی آنکھوں کے حصار میں رہتا تھا۔ سویرے بابا کے ساتھ نماز پڑھتا تو سجدہ ہی میں سر رکھے سو جاتا۔ بابا کا ٹھوکا اسے جگاتا پھر نیند جھولا جھلا دیتی۔ ماما کی آنکھوں میں تو ہر وقت چنتا چتون ہی راک رول کرتے نظر آتے۔ کارٹون دیکھتے ہوئے منہ میں توس ٹھونستا۔ جینا جلدی سے فرش پر بیٹھ کر اس کے بوٹوں کے تسمے باندھتی۔
رف کپڑے سے بوٹ ایک بار پھر رگڑ کر چمکاتی۔ گھنٹوں پر ہاتھ رکھ کر اُٹھتے ہوئے گھٹنے کڑ کڑ ایسے کرتے جیسے ہارر موویز میں کھوپڑیاں دانت بجاتی ہیں۔ لنچ باکس بیگ میں رکھتے ہوئے دوسرے ہاتھ پانی کی فلاسک تھامے بنٹی کی طرف لپکتی۔ جو پورچ میں کھڑی کار تک پہنچ کر ’’ڈرائیور انکل۔۔۔ ڈرائیور انکل‘‘ کی صدا بلند کر رہا ہوتا تھا۔
سفید تکونی ڈاڑھی، انڈے کے خول جیسی بیضوی چندیا۔ ناٹے سے قد کا منظور، وسیع دالان کے کسی کونے کھدرے سے نکل کر اچھل اچھل کر چلتے ہوئے گاڑی کا دروازہ کھولتا۔ سنو وائیٹ کے دلارے بونوں میں سے ایک لگنا۔
سکول پہنچنے تک بنٹی ایسے چونچال پرندے کی طرح چہکتا جسے لمحہ بھر کیلئے پنجرے سے نجات ملی ہو۔ منظور آنکھوں میں ہنسی، آنکھوں میں مسکراہٹ لئے سنتا رہتا۔ کوشش کرتا کم ہی بولے۔
’’صاب جو ناراض ہوتے ہیں کہ تم پنجابی بول کر چھوٹے صاب کی زبان خراب کرتے ہو‘‘۔
ماما عربی میں دُعائیں پڑھ کر پھونکتی تھی۔ انگریزی ہی میں بنٹی سے بات کرتی۔ بنٹی بھی اسی لہجے میں اپنے فٹ بال جیسے پالتو کتے چارلی سے گفتگو کرتا۔
’’کم ہیئر۔۔۔ گو دیئر۔۔۔ سٹ ڈاؤن۔۔۔ سٹینڈ اپ۔۔۔!
چارلی بھی تو بس انگریزی ہی سمجھتا تھا۔ ’’ویری اوبی ڈینٹ سمارٹ چارلی‘‘۔ جب بھی بنٹی ’’ہینڈ واش‘‘ بولتا۔ ہمیشہ اگلے دو پنجے ہی اُٹھاتا۔
’’ڈرائیور انکل! اس برڈ کا کیا نام ہے؟‘‘ بنٹی نے درخت کی شاخ پر جھولتے پرندے کی طرف اشارہ کیا۔ منظور نے جھجکتے ہوئے کہا: گھگی اے صاب‘‘۔ بنٹی اپنی رٹائی کی عادت سے ’’گو گی، گو گی، دہرانے لگا۔
’’اچھا آ آ آ! اس ٹری کا نام بتاؤ؟‘‘ منظور کی نظروں نے انگلی کے اشارے کا تعاقب کیا۔ پستہ قامت درخت، نہ چھاؤں نہ پھل پھول۔ بے بسی سے بولا۔ ’’چھوٹے صاحب! مجھ کو یہ سب آندا ہوتا تے فیر میں ڈریبر ہوتا!!!‘‘۔
بنٹی کے لئے ڈرائیور کا کچھ اور ہونا ہی عجیب تھا۔ طوطے کی طرح آنکھوں کے ڈیلے گھما کر بولا۔ ’’ڈرائیور نہ ہوتے۔۔۔ تو پھر کیا ہوتے؟‘‘۔ انکل ڈریبر! پھر ’’ڈریبر‘‘ کو دہراتا ہوا قق قق ہنسا۔ بنٹی کے لئے تو اس چھوٹی سی دنیا میں ہر چیز فکس تھی۔ ہر لمحہ فکس تھا۔ بنٹی نے چہرہ سیدھا رکھتے ہوئے آنکھیں ترچھی کر کے منظور کے مسکراتے چہرے کی طرف دیکھا۔
مسکراتے تو پرنسپل بھی ہیں لیکن آدھے چہرے کے ساتھ۔ ہونٹوں کا ایک کنارہ کھینچ کر کان کی لو تک لے جاتے ہیں۔ منظور کی خاکستری رنگ کی قمیص کے کالر سے سفید بکرم جھانک رہا تھا۔ کالر کے کونے مڑے ہوئے تھے۔
پرنسپل کے سفید براق کپڑوں کا خیال آتے ہی بنٹی نے سوچا: ’’نہیں! منظور پرنسپل نہیں ہو سکتا۔‘‘۔
چھوٹا قد تو پرنسپل کا بھی تھا۔ لیکن وہ ہر دم چھاتی باہر نکالے، ٹھوڑی افق اور نظریں آسمان پر رکھتے تھے۔
بنٹی دزدیدہ منظور کو دیکھتا رہا۔ جیسے پہلی بار دیکھ رہا ہو۔ منظور تو اس جھاڑن کی طرح چُڑ مُڑ تھا جسے جینا نے دھو کر بغیر جھاڑے تار پر ڈال دیا تھا۔ ’’اوہ مائی گاڈ‘‘ موم نے جینا کو کس قدر ڈانٹ پلائی تھی۔ ’’کوئی کام تو ڈھنگ سے کر لیا کرو‘‘۔
’’اور پرنسپل تو اس اکڑے کھڑکھڑاتے سوٹ کی طرح ہیں جو پاپا مسجد میں جمعہ کی نماز پڑھنے کے لئے پہنتے ہیں‘‘۔
’’انکل منظور! آپ ہر وقت سڑک پر کیا دیکھتے رہتے ہیں‘‘۔ چھوٹے صاحب! سپیڈ بریکر دیکھنے پڑتے ہیں ورنہ گاڑی جھٹکا کھا جاتی ہے‘‘۔
منظور نے سپیڈ بریکر کو دی گالی کو اپنی زبان کی نوک سے تالو پر چپکاتے ہوئے کیا۔ جیسے چلتی گاڑی میں دوڑتے مناظر نظر آتے ہیں۔ ایسے ہی دوڑتے مناظر میں بنٹی ہفاہف رہتا تھا۔ نماز۔۔۔ قاری۔۔۔ تیاری۔۔۔ سکول۔۔۔ ٹیوشن۔۔۔ کمپیوٹر گیم۔۔۔ کمپیوٹر گیم۔
سورج کی جگہ کب چاند آ جاتا بنٹی کو خبر ہی نہ ہوتی۔ ذرا فرصت ملتے ہی ہاتھ میں ٹیبلٹ آ جاتا۔ انگوٹھے کا دباؤ اور ٹھش۔ ٹھاہ۔ ٹھاہ۔
بہت دنوں سے ماما کا بلڈ پریشر ہائی رہتا تھا۔ انہیں سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ ’’چیزیں اپنی جگہیں سیٹ کیوں نہیں ہیں؟‘‘۔
قاری ہمیشہ شکایت کرتا کہ بنٹی کے ق ک درست نہیں۔ سکول میں بھی اوّل نمبر کی گھڑ دوڑ میں کہیں بہت پیچھے رہ جاتا تھا۔ ’’کمپٹیشن کا دور ہے اس کا کیا فیوچر ہو گا‘‘۔ پاپا فکر مندی سے سوچتے تھے۔
صوفشاں، فروزاں کے سامنے تو بنٹی کے رنگ ماند ہی رہتے۔ چھٹی والے دن بالکونی میں ریلنگ سے چپک کر بنٹی سامنے گراؤنڈ میں بچوں کو کرکٹ کھیلتے دیکھتا رہتا تھا۔
تصور ہی میں ہاتھ میں بلا پکڑے وکٹوں کے سامنے جا کھڑا ہوتا۔۔۔ چھکا۔۔۔ تالیاں۔ ریلنگ کی راڈ اس کی گداز ہتھیلیوں میں کھب جاتی اور پھر کئی گھنٹے ان کی جلن ستاتی۔
جینا فکر مندی سے سوچتی۔ ’’چھوٹا صاب جانے کس سے باتیں کرتا، اپنے آپ ہی مسکرائے جاتا ہے‘‘۔ بنٹی کو ہتھیلیوں پر راڈ کے کھباؤ کے نشان میڈل کی طرح دکھتے۔ یہ تو بیٹ پر اس کی مضبوط گرفت کا ثبوت تھے۔
کسی شام صوفشاں، فروزاں کو اپنے حصے کی چاکلیٹ دے کر، ڈھیروں منتیں کر کے اپنے گھر کے لان میں کرکٹ کھیلنے پر راضی کر لیتا۔ پہلے ہی گیند پر آؤٹ ہو جاتا۔ بلّا وہیں پھینک کر گھٹنوں پر سر رکھ کر رونا شروع کر دیتا تھا۔
صوفشاں، فروزاں پنجوں کے پل اچھلتے ہوئے چھوٹی سی نظم بلند سروں میں تالی کی تال کے ساتھ ہنستے کھکھلاتے گاتیں۔
موٹا آلو پلیلا۔۔۔ دھِکا دو تو گر پڑا۔ بیک گراؤنڈ میوزک میں بنٹی کی ’’ریں ریں‘‘ کی آواز گونجتی۔
بنٹی کو رنگ اچھے لگتے تھے۔ کتابوں پر لکھے ہوئے لفظ اسے تصویر کی صورت نظر آتے۔ وہ لفظ کی صوت سمجھے بغیر اسے تصویر کی طرح کاغذ پر اُتار لیتا۔
ان لفظوں کو من چاہے معنی دیتا۔ نتیجہ یہ ہوتا کہ ہر پیرنٹ ٹیچر میٹنگ کے بعد ماما ڈیپریشن میں چلی جاتی۔ پورے گھر میں کھلونا ٹرین کی طرح ہوکتی کوکتی پھرتی۔
سہما ہوا بنٹی منظور سے پوچھتا: ’’انکل ڈرائیور یہ فیوچر کیا ہوتا ہے؟‘‘
منظور کے پاس ایک ہی جواب تھا۔ ’’چھوٹے صاحب مالوم نئیں۔‘‘۔
رات گئے ماما شب بخیر کہہ کر چلی گئی تو بنٹی نے سکیچ بک پر ہنستے کھیلتے بچوں کے اسٹک کیریکیچر بنائے۔ پھر ان کے چہرے بگاڑ کر سب کو ٹھوکروں میں اُڑا دیا۔
کاغذ کے گولے بنا بنا کر کمرے میں بکھیر دئیے۔ ٹیبلٹ پر انگوٹھے کا دباؤ بڑھتا گیا۔ تڑاق تڑاق فائرنگ کرتے ہوئے ہیولے دیواروں سے نکل کر باہر آنے لگے۔ بنٹی کی چیخیں سن کر ماما ننگے پاؤں بھاگتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی۔ بنٹی نے مٹھیاں بھنیج رکھتی تھیں۔ منہ سے جھاگ نکل رہی تھی۔
پھٹے کاغذ کے بیچ ٹیڈی بیئر اوندھا پڑا تھا۔ سائیڈ ٹیبل پر ٹیبلٹ ایسے ترچھا ہوا تھا جیسے پہلو میں کہنی ٹکائے بیٹھا ہو۔
بکھراؤ سے ہر دم الجھتی ماما بنٹی کے پاؤں گود میں رکھے، سیل ختم ہوئے کلاک کی سوئیوں کی طرح ساکت تھی۔ میاں عبد الرحمن رات لمحہ لمحہ تسبیح کے دانوں میں پروتا اور گراتا رہا۔ کھڑکیوں کے پردوں سے چھن چھن کر آتی سورج کی روشنی۔۔
کمرے سے باہر فرش پر پوچا لگاتی جینا کے گنگنانے کی آواز بولائی ہوئی، دیواروں سے ٹکرا رہی تھی۔
بکل دے وچ چور نی
میری بکل دے وچ چور
٭٭٭
مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں