کوئی ہے …
’ایک انجانے خوف کی ریہرسل‘ کتاب میں مشمولہ ایک طویل کہانی
مشرف عالم ذوقی
حالانکہ اس پورے سلسلۂ واقعہ کو جسے آپ ابھی اس کہانی کے ذریعے جاننے کی کوشش کریں گے کسی نا قابل یقین یا ڈرامائی صورتحال سے جوڑ کر دیکھنا مناسب نہیں ہے، لیکن شاید کچھ سچ بڑے عجیب اور چونکانے والے ہوتے ہیں۔ پتہ نہیں، زندگی میں آپ کو کسی ایسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا ہے یا نہیں، جب زبان گنگ ہو جاتی ہے اور مکالموں کی جگہ صرف گہری خاموشی، دستک یا آہٹیں رہ جاتی ہیں۔ جو اچانک ہی سناٹے میں آپ کو چھو کر کہتی ہیں … ’کوئی ہے — ‘
بس ایسے ہی ایک نادر یا کمیاب لمحہ اچانک اس کہانی کا جنم ہو گیا۔
ماحول خاموش اور بے جان تھا۔ یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ ایسے خاموش اور بے جان ماحول میں آپ دشینت کی طرح پتھر اچھال کر کوئی ہلچل یا کسی جرأت کی امید نہیں کر سکتے۔ اس وقت سب کچھ توقع کے مطابق تھا۔ یعنی جیسا شانتنو نے سوچا تھا۔ چمکتے لیکن ٹھنڈے اداس سورج کے ساتھ کا ایک دن — موسم خزاں کی ایک بوجھل صبح اور گارڈن میں لگے ’سنے ‘، گل بہری اور ’ٹیلی‘ کے بے رس پھولوں کی قطار‘ جسے کچھ دن پہلے ہی وہ اپنے ’ایلیسیشئن فری‘ پبلشر سے لے کر آیا تھا۔ اس میں کہیں کوئی چونکنے جیسی یا قابل اعتراض بات نہیں ہے۔ برنارڈ شاہ کی طرح اگر آپ مرد کے وقار اور ’’سپرمین‘‘ ہونے کی خواہش کو دلائل سے بیان کرتے رہے ہوں تو ممکن ہے اس ’’ایلیسیشئن فری‘‘ کی تمثیل سے آپ کو انسان ہونے کے عظیم خطاب کے ساتھ تھوڑی سی چوٹ پہنچے۔ اس لیے تھوڑی سی معافی کے ساتھ، کہ شانتنو کے لیے وہ فرنگی پبلشر اس سے زیادہ داد پانے کا مستحق نہیں تھا۔ ’’ہوس ہے دوراہے پر‘‘ کی غیر متوقع کامیابی کے بعد شانتنو کے پاس آئے اسی فرنگی پبلشر نے کچھ اداسی، کچھ گہری تکلیف سے گذرتے ہوئے کہا تھا —
’معاف کیجیے گا، آپ سے ملاقات کے لیے ایک بے افسوسناک دن کا شگون نکلوانا پڑا‘
’بے حد افسوسناک دن‘ … ؟
’آج میں نے اپنا پرانا وفادار ایلیسیشئن بیچ دیا، مگر نقصان میں نہیں رہا شانتنو — ‘ کتابوں کی سیل کی طرح اس کی تھرکتی انگلیوں پر ایلیسیشئن ڈاگ کا پورا حساب موجود تھا — اس کا ایک الگ کمرہ — کمرہ میں اس کی سجاوٹ میں اتنے روپے لگے۔ کھانے میں اتنے۔ اس میں وفاداری اور پیار کی کہیں کوئی تفصیل نہیں تھی۔ اس طرح قاعدہ سے دیکھیں تو فرنگی پبلشر (جو تھا تو ہندوستانی، مگر انگریزی کتابوں کا پبلشر ہونے اور اس کے رہن سہن کا خیال کرتے ہوئے شانتنو کو یہی نام مناسب لگا) کے لیے ایلیسیشئن کو بیچنا کہیں سے بھی گھاٹے کا سودا نہیں تھا۔ اور اسی کے مطابق کولکتہ میں رہنے والی مارگریٹ ایلیا کو اس کی شائع شدہ تمام کتابوں میں یہ ڈاگ اتنا پیارا لگا کہ وہ اسے ہر قیمت پر خریدنے کے لیے تیار ہو گئی۔ اس طرح ایک فیصد جذبات اور ننانوے فیصد خالص تجارتی سطح پر ایلیسیشئن کا سودا ہوا — اور مس مارگریٹ اپنے تھل تھل سینے سے ایلیسیشئن کو چپکائے کچھ دیر تک اس سے اپنا پن کا احساس کرتی رہی، پھر اسے لے کر سیدھے فلائٹ سے فرّ … ہو گئی — مہا شویتا کے دیس یا ’نذرل‘ کے گاؤں — تو قصۂ کوتاہ، ذکر آیا تھا، ’سنے ‘ گل بہری اور ٹیلی کے بے رس پھولوں کا — تو یہ وہی ایلیسیشئن فری پبلشر تھا جو اس کے لیے خاص طور پر لایا تھا اور بدلے میں شانتنو نے اس سے جو چند سوالات کئے، وہ کچھ اس طرح ہیں۔
— یہ پھول کہاں ہوتے ہیں ؟
اٹلی میں
— کیا اٹلی کی عورتوں کو بھی یہ پھول پسند ہیں ؟
— انتہائی ذمے داری کے ساتھ یہ کہا جا سکتا ہے کہ نہیں — کیوں کہ سوائے خوبصورت ہونے کے، ان میں کوئی مہک نہیں ہے۔
— کیا اس سے یہ مطلب لیا جائے کہ عام طور پر خوبصورت عورتوں میں چمک یا مہک کی کمی ہوتی ہے ؟
پبلشر کی رائے تھی۔ ایسا پورے یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا …
— کیا ان پھولوں کا ماحولیات پر بھی کچھ اثر پڑتا ہے ؟
پبلشر کی رائے تھی — واضح طور پر تو نہیں لیکن جہاں تک ’ادبی ماحولیات‘ کا سوال ہے، اس سے آئندہ مستقبل میں اثر پڑنے کا امکان ہے — وہ بھی تب جب ان پھولوں کی پہچان رکھنے والا کوئی شخص جو ناشر بھی ہو، آپ کے دروازے پر آئے، آپ کے ادب سے زیادہ ان پھولوں میں دلچسپی لے۔
ان میں اور بھی کئی سوالات تھے۔ جیسے، کیا ان پھولوں کو یہاں کی آب و ہوا راس آئے گی —؟ یا کیا یہ پھول ’ویا گرا یا‘ انرجی اور طاقت کی دواؤں میں بھی استعمال ہوتے ہیں —؟ واضح طور پر بہت سی باتوں کا ناشر محترم کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
خزاں کی اس بوجھل صبح ایسا بہت کچھ ہوا تھا جو شانتنو کے دل و دماغ پر اپنی یادگار چھوڑ گیا تھا۔ ہر بار اپنی کتاب فروخت کرتے ہوئے وہ پر مطمئن رہتا تھا کہ شاعری بھرم ہے۔ ادب کوئی مشعل نہیں ہے۔ ساری زندگی لاکھ ٹکے کے انعام میں گذار دینا زندگی کے تئیں کوئی انضباطی کارروائی نہیں ہے۔ یہ لاکھ ٹکے تو وہ دوسرا اور تیسرا ایڈیشن آتے ہی اپنے اے آئی او کے فنڈ میں ٹرانسفر کر لیتا ہے۔
’’ساری زندگی — ایک خطابی انعام یا اعزاز کے لیے، مائی فٹ — ‘‘
شانتنو ہنستا تھا۔ اسے اس کے کئی دوست یاد تھے۔ ایک تو سگھن چکرورتی تھا۔ پان کھاتا تھا۔ نسوار لیتا تھا۔ یہ بھی خیال نہیں رکھتا کہ نسوار کہاں گر رہی ہے۔ دوسروں کو اٹھنے والی کھانسی کی بھی فکر نہیں ہوتی۔ نسوار اٹھایا۔ ناک میں ٹھونسا، فکر میں ڈوب گئے — تھوڑی دیر بعد فکر سے آزاد ہوئے تو دھوتی اٹھائی، ناک صاف کی۔ اب ایسے ’چرکوٹوں ‘ سے چھتیس کا آنکڑا ہے شانتنو کا۔ کیونکہ ایسے کئی لوگوں سے ادبی سپریم بنے ہونے کے نام پر اس کی اچھی خاصی لڑائی بھی ہو چکی ہے۔ مثلاً اسی سگھن چکرورتی کو لیجیے اور ذرا گذشتہ نومبر کے، سردی کے وہ مکالمے بھی سن لیجیے، مثلاً — ’آپ کی نظموں میں نسوار کی مہک زیادہ ہے — ‘
’آپ ادب بھی سمجھنے لگے — ‘ یہ سگھن چکرورتی کا جوابی حملہ تھا۔
’ادب آپ کے نسوار میں ہے۔ ناک میں ڈالنے، دھوتی سے پونچھنے کے درمیان تک کی فکر اگر ادب ہے تو مجھے معاف کیجیے گا — ‘
’کیا —؟‘ سگھن کے چہرے پر شکن پڑ گئی تھی۔
’اب کیا یہی دن باقی رہ گئے تھے کہ آپ سے ادب پر تنقیدی گفتگو بھی سننے کو ملے گی۔ بھائی — اگر آپ ادیب ہیں تو ہمیں کتّے رہنے دیجیے۔ وہ بھی گلی کا رنگ جھڑا، پلّو پڑا کتّا۔ ‘
’تو آپ مانتے ہیں آپ گلی کے رنگ جھڑے پلّو پڑے کتّے ہیں ، ادیب نہیں ‘
’آپ کہنا کیا چاہتے ہیں —؟ سگھن کی آنکھیں باہر نکل آئی تھیں۔ جسم کی دبلی پتلی ہڈیاں پھڑک اٹھیں۔ قہقہے لگاتے شانتنو نے اپنا جملہ مکمل کیا — ’سنو سگھن چکرورتی، لڑتے ہوئے دو آدمیوں میں ایک شخص نے دوسرے سے کہا، میں نے تو آپ کو شریف سمجھا تھا۔ اس پر دوسرے نے کہا میں نے بھی آپ کو شریف سمجھا تھا … پہلے نے کہا، چلئے میں اپنی بات واپس لیتا ہوں … ہا … ہا …‘‘
گفتگو کی آخری کڑی کے طور پر ہارے ہوئے سگھن کا چہرہ اسے یاد تھا۔
’’تمہارے پاس ایک خاص مقصد سے آیا تھا۔ ‘‘
’’کیا؟‘‘
’’کچھ پیسے چاہئے تھے — ‘‘
’’پیسے اپنے پبلشر سے کیوں نہیں مانگتے ؟‘‘
’’مانگتا تو ہوں پر بار بار — سگھن ناک میں نسوار ڈال رہا تھا — سچ میں ہم گلی کے رنگ جھڑے کتّے ہیں — شرمیلے کتّے — جسے ہر ایرا غیرا ناشر بھی دولتی مار کر بھگا دیتا ہے۔ کتابیں سب چھاپنا چاہتے ہیں۔ مگر پیسے دیتے ہوئے — ایک شرمیلا کتّا، جو ادب کی تخلیق کرتے ہوئے بھی شرمیلا ہی رہتا ہے — شاید اسی لیے یہ پورا نظام صدیوں سے ایسا ہی ہے۔
ماحول خاموش اور بے جان تھا۔ لیکن کسی نے اس خاموش اور بے جان ماحول میں دشینت کی طرح پتھر پھینکنے کی کوشش کی تھی۔ بھلے ہی اس سے کوئی دھماکہ نہ ہوا ہو — کہیں کوئی ہلچل نہ مچی ہو … لیکن ایک ہلچل اس کے اندر اٹھی تھی۔ گہری خاموشی کو کچھ بوجھل مکالموں نے دھماکے کے ساتھ توڑ ڈالا تھا — فرنگی پبلشر کے بڑے سے کیبن میں وہ اپنی نئی کتاب کے سرورق کو کچھ بے چینی اور کچھ کچھ گہری مایوسی بھری آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔ نہیں کلر ٹھیک نہیں ہے۔ رنگوں کا انتخاب غلط ہے — اور اس ایبسٹریکٹ آرٹ کی کیا ضرورت تھی — لڑکی کو کسی درخت یا کنویں یا سانپ کے طور پر کیوں محسوس کیا جائے ؟ اس کی جگہ کوئی جیتی جاگتی خوب صورت لڑکی کیوں نہیں — اور یہ وہی وقت تھا جب کیبن کے خالی پڑے صوفے پر بیٹھے دو نوجوان قلمکار جوزف براڈسکی کی نظموں پر غور کر رہے تھے۔
’’لوگ — مر رہے ہیں — ‘‘
’’جب ہم گلاسوں میں اسکاچ انڈیلتے ہیں یا کاکروچ مارتے ہیں۔ لوگ مر رہے ہیں۔ ‘‘
شانتنو نے پلٹ کر دیکھا۔ ایک پل کو کتابوں کی پوری عمارت کسی معصوم نوجوان میں بدل کر رہ گئی، جہاں خواہشوں کے نام پر صرف ایک تلاش بچی ہو۔ سیاسی تجزیہ شروع ہوا۔ دوسری عالمی جنگ، خانہ جنگی، ٹکراؤ کی کہانیاں — ویتنام سے گرینیڈا تک — افغانستان سے عراق — چلّی سے پناما اور نکارگوا تک، فلسطین کے معصوم قتل ہوئے بچے … اور —
’لوگ مر رہے ہیں، جب ہم اپنی بے نام خواہشوں کا سودا کرتے ہیں۔ رنگ محل بناتے ہیں۔ اعتماد کھوتے یا پاتے ہیں … مٹن یا چکن خریدتے ہیں … لوگ مر رہے ہیں …‘
شانتنو نے پلٹ کر دیکھا — خواہش ہوئی — پل بھر کو اس مرتی ہوئی بھیانک گفتگو کا حصہ بن جائے — لوگ محبت بھی کر رہے ہیں۔ جب ہم اسکاچ انڈیلتے ہیں … یا ٹائی کی ناٹ باندھتے ہیں۔ لوگ پارک میں، گھر میں، سڑک پر … جزیروں میں … صحراؤں میں … بیاباں میں لوگ ایک دوسرے کے بازوؤں میں سو رہے ہیں — لوگ پیار کر رہے ہیں — جنگ اور لڑائی کے باوجود — بوسہ لے رہے ہیں ایک دوسرے کا، چوم رہے ہیں۔ بانہوں میں بھر رہے ہیں، اور یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ یہ سب صرف وہی نہیں کر رہے ہیں جو نوجوان ہیں — وہ بھی کر رہے ہیں جو نوجوانی کی سیڑھیوں سے بہت دور، آگے نکل گئے ہیں …
یہ مناسب وقت تھا، اس پل کو جینے کا یا اس پل کو اپنے اعتماد میں لینے کا، جس نے شانتنو سے چپکے سے کہا — کہ شیطانوں سے اب بھی یہ دنیا بھری ہوئی ہے — پھانسی کے جھولے اب بھی چوراہوں پر لٹکے ہیں — اور کس نے لٹکائے ہیں — انہوں نے — جن کی باتیں کسی موت کے ہتھیار سے بھی زیادہ خطرناک ہیں۔
چھن سے ایک آواز ہوئی تھی۔
شیشے کا ایک گلاس زمین پر گرا تھا — ریسپشن گرل سے لے کر عالمی سیاست کے منظر نامے پر مرنے والوں کی تعداد شمار کرنے والے ان دو نوجوان فلسفیوں نے بھی اس سمت دیکھنے کی جرأت کی تھی — وہ ایک لڑکی تھی — نہیں عورت — بال چھوٹے — چہرہ گورا چٹا — بدن نشے سے بھرپور — جیسے چیختے ہوئے اسٹوو کے شعلے ہوتے ہیں — عمر نے جیسے سمندر کے طوفاں کو، کسی معجزہ کی طرح روک رکھا ہو … عورت کے چہرہ پر غصہ صاف جھلک رہا تھا۔ دیسائی یعنی وہ فرنگی پبلشر کچھ کہنے کی کوشش میں میمنے جیسا معصوم یا پھر چیتے جیسا شاطر لگ رہا تھا۔ عورت کے ہاتھ میں کوئی کاغذ تھا، جسے دکھا کر وہ زور زور سے کچھ کہہ رہی تھی۔
شانتنو اپنی پرانی کتاب لینے کا بہانہ بنا کر شیشے کے کیبن سے باہر نکل آیا۔
عورت خوبصورت تھی — غصے میں ابلتے چہرہ سے اس کی جوانی کے پیٹر پر کتنے ہی گلاب مہک اٹھے تھے۔ ان کی خوشبو سے انجان شاید وہ اپنے دلائل کو واضح کرنے میں لگی تھی۔ اس کے حملے دھماکہ خیز تھے۔
’نہیں، آپ کو یہ نہیں کرنا چاہئے تھا، کم سے کم ایک مرتے ہوئے آدمی کے ساتھ تو بالکل نہیں۔ ‘
’دیکھئے۔ ہم نے ایسا کچھ نہیں کیا … آپ … آرام سے۔ بیٹھ کر بھی باتیں کر سکتی ہیں۔ ‘ دیسائی بچنے کے لیے الفاظ تلاش کر رہا تھا۔
’نہیں ، بالکل نہیں — اور آرام سے۔ آپ کہہ رہے ہیں … آرام سے بیٹھنے کے لیے — آپ جانتے ہیں، آرام کیا ہوتا ہے۔ ساری زندگی اپنے آرام کو ترک کر کے اور قربان کرنے کے بعد ایک عام آدمی شمل شرما بنتا ہے، آپ جانتے ہیں شمل شرما بننا کر کیا ہوتا ہے۔ ‘
’وہ ہمارے لیے احترام اور عظمت کی علامت ہیں۔ ‘
’آہ۔ علامت ہیں نہیں تھے — آپ نے بنایا اُنہیں تاریخ — وہ اسپتال کے بستر پر تھے، بیمار تھے۔ اور آپ کیا کر رہے تھے ؟ شمل شرما کے لیے — آپ اپنی جیبیں بھر رہے تھے — اپنے مکان بنا رہے تھے — اپنا بینک اکاؤنٹ بڑھا رہے تھے۔ مگر کس کے پیسے سے۔ شمل کے پیسے سے، آپ شمل جیسے شریف لوگوں کا استحصال کرنے والے ہیں۔ آپ اپنی کمینگی سے ان کی شرافت کی چادر تار تار کرتے ہیں — عورت کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا — میں سمجھاتی تھی شمل کو — ناشر بدل دو — لیکن وہ اپنی عظمت کے پیروں کے نشان دیکھنے میں الجھا ہوا تھا — یا پھر عظیم خیالوں کو تاریخ بنتے دیکھنے کی، ایک عجیب سی بچوں والی خواہش کی پرورش کر رہا تھا۔ لیکن کیا اتنے سے سارا مسئلہ حل ہو جاتا ہے۔ تہذیبی وراثت سے پیدا ہونے والی قیمت — اقدار کا ٹکراؤ اور دخل اندازی کی تحریر — یہی نام دیا تھا نا، اس کے نقادوں نے اُس کے زندگی بھر لکھے ادب کو سمجھنے —سب بکواس۔ شمل نے دخل اندازی کا ادب لکھا ہوتا تو اپنی تحریروں کے لیے بھی آپ کے ساتھ بھی دخل اندازی کرتا یا پیسے مانگتا۔ مگر اب — یاد رکھئے، شمل نہیں ہے — اور میں آپ کو چھوڑوں گی نہیں — ‘
اس نے لمحہ بھر کو فرنگی پبلشر کی آنکھوں میں اس کٹے بکرے کو دیکھ لیا تھا، جس کے بدن سے قصائی چمڑا ہٹانے کی کوشش کر رہا تھا — بیچارہ دیسائی — شانتنو نے پہلے ہی باہر نکلنے کی تیاری کر لی تھی۔ وہ نہیں جانتا تھا، یہ کیا تھا یا اُسے ایسا کرنے کا حق ہی کیا تھا۔ یا پھر سگھن چکرورتی کے الفاظ میں، آپ سماج یا واسطوں کی پروا ہی کیوں کرتے ہیں۔ آپ جو بیچ رہے ہیں، سو بیچتے رہئے — اس کے خریدار بہت ہیں۔ باقی اصول یا اقدار کی تلاش یا اصولوں کی ایجاد کی آپ کو ضرورت نہیں ہے۔ مگر — عورت کی خوبصورتی یا گفتگو کی کشش کچھ اتنی زیادہ تھی کہ وہ باہر نکل آیا تھا — اور کچھ ہی لمحوں بعد غصے سے لال پیلی وہ عورت باہر نکل کر اپنی چھوٹی زین کی طرف بڑھتی دکھائی دی۔ وہ اسٹائلش جینس اور ریڈ ٹی شرٹ میں تھی۔ گاڑی کی طرف بڑھتے ہوئے اس نے شانتنو کی طرف پل بھر کو دیکھا اور یہی مناسب وقت تھا جب شانتنو نے اس سے براہ راست گفتگو کے لیے خود کو تیار محسوس کیا۔
’آپ ایک منٹ مجھے دے سکتی ہیں ؟‘
’کیوں ؟ عورت کی بھنویں تن گئی تھیں۔ آپ ریسیپشن پر کھڑے ہماری باتیں سن رہے تھے۔ ‘
’وہاں — ‘
’اس سے کیا ہوتا ہے، مجھے آپ میں کوئی دلچسپی نہیں ہے — ‘
ہوا کے جھونکے کی طرح زین کے گذر جانے کے بعد بھی عورت کے الفاظ شانتنو کے کانوں سے ٹکرا رہے تھے — ’اس سے کیا ہوتا ہے، مجھے آپ میں کوئی دلچسپی نہیں ہے ‘ — شانتنو سنجیدگی سے مسکرایا۔ پہلی ملاقات میں وہ اس سے زیادہ بات چیت کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ لیکن دل کہہ رہا تھا، دوسری ملاقات بہت جلد ہونے والی ہے۔
اور یہ کوئی اتفاق نہیں تھا۔ نہ ہی ماحول خاموش اور بے جان تھا۔ رات کی طلسمی چادر دور تک بچھی ہوئی تھی اور اس طلسمی چادر میں بے شمار ستارے، ٹمٹماتے ہوئے یہ اعتماد پیدا کرنے کی کوشش میں لگے تھے کہ دشینت کی طرح پتھر اچھا ل کر ہلچل پیدا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ 45 سالہ شانتنو کے لیے اکیلے رہنا خوبصورت زندگی کا جیسے حصہ بن چکا تھا۔ لڑکیاں اس کے لیے ترغیب سے زیادہ ایک سیکس تھیں، جو اسے ایسی دلکش راتوں میں لبھاتی یا پھر بستر پر مینکا، اروشی اور گندھاری بن جاتیں، مگر مندرا —
ٹمٹماتے ستارے کبھی سانپ، کبھی کنواں، کبھی مچھلی بن جاتے، اور ہر شکل میں وہ مندیرا کے بہتے جسم کے آبشار کا نغمہ سن رہا تھا۔ مندیرا جیسے ستاروں کی گواہی میں دیکھتے ہی دیکھتے کسی بیش قیمتی فن پارے میں بدل گئی اور کہنا چاہئے، شانتنو اس وقت اپنے فن کی دلیل پر قائم تھا — کیا فن ایک تصور بھر ہے ؟ صرف میوزیم میں رکھے جانے یا جگہ پانے بھر کے لیے —؟کیا مندیرا بھی محض ایک بھرم ہے۔ صرف ایک بوڑھے وجود کے لیے محدود —
آسمان پر ٹمٹماتے ستاروں کا کارواں دھیرے دھیرے بڑھ رہا تھا — اور اب یہ تو تارے کسی عظیم فنکار کے فن پارے میں بدل گئے تھے — اور اس فن پارے میں مندیرا آ گئی تھی۔ ’میں کنواں نہیں ہوں — سانپ بھی نہیں — مچھلی بھی نہیں۔ میں تو پوری پوری غزل ہوں۔ کیوں نہیں پڑھتے ہو تم — ‘
شانتنو کو یاد آیا — اس دن دوبارہ دھول اڑاتی زین کے نظروں سے غائب ہوتے دیکھنے کے بعد وہ دوبارہ اس شیشے کے کیبن میں لوٹ آیا تھا۔ دیسائی اس کا منظر تھا۔
’کہاں گئے تھے، آپ — ‘
’باہر، سگریٹ کا کش لینے — ‘
’اچھا ہی کیا — ‘ دیسائی ہاتھ میں چیک بک لیے نیچی نگاہ کئے کسی سوچ میں گرفتار تھا — آنکھوں کے پاس چشمے کی کمانی بار بار کھسک رہی تھی۔
’ایلیسیشئن بیچ کر اچھا نہیں کیا آپ نے — ‘ شانتنو کہتے کہتے ٹھہرا۔
’ہا — ہا — ‘ دیسائی ہنسا — تمہیں یاد ہے —
’تمہیں یاد آتی ہے یا نہیں اس ایلیسیشئن کی —؟
’کیوں نہیں۔ کتنا لمبا ساتھ تھا۔ ‘
’ایلیسیشئن کی یاد آتی ہے لیکن ایک بیمار قلمکار کو جو ہاسپٹل کے بیڈ پر پڑا تھا، بھول گئے اسے —
دیسائی تڑپ کر ہنسا — ’تو تم نے ہماری باتیں سن لی‘
’سننی پڑی — ویسے کون تھی یہ لڑکی — ‘
’لڑکی نہیں، عورت کہو — مندیرا ہے — نظمیں لکھتی ہے — پنٹنگ کرتی ہے، شمل کی تخلیقات میں بہہ گئی۔ ‘
’’اور دونوں نے شادی کر لی۔ ‘‘
’ہاں، عمر بھی نہیں دیکھی — شمل اور اس کی عمر میں آدھے سے بھی زیادہ کا فرق تھا — ‘
شانتنو کہتے کہتے ٹھہر گیا کہ پیار عمر کہاں دیکھتا ہے — مگر محبت کی یہ باتیں فرنگی پبلشر سے اس وقت کرنے کی، اس کی کوئی خواہش نہیں تھی — اس نے پیار کو زیادہ نہیں جانا تھا، لیکن شانتنو پیار کو حدود میں بند دیکھنے کے خلاف تھا … پیار تو تیز بہتی ندی ہے اور اس بہتی ندی کو نہ توباندھا جا سکتا ہے اور نہ ہی جوش میں بہتی اس ندی پر کوئی پل ہی بنایا جا سکتا ہے — اس نے پیار کو ’ادبی حدود‘ سے پرے ہی رکھا تھا۔ اس کے لیے پیار روح سے زیادہ ایک جسمانی خوبصورتی تھا اور اس خوبصورتی کی مخالفت کرنے والوں کے ساتھ وہ دھڑلے سے بھڑ سکتا تھا، خواہ وہ اس کا فرنگی پبلشر ہی کیوں نہ ہو۔
دیسائی ٹھہاکا لگا رہا تھا — یہ رائلٹی کا چکر بھی … سب شانتنو تو نہیں ہوتے — ‘ شانتنو کو لگا دیسائی کا پورا بدن ایک کتے کی دم میں تبدیل ہو گیا ہو۔
’کیوں — ‘
’کیوں کہ مجھ سے زیادہ آپ جانتے یا سمجھتے ہیں — دیسائی سنجیدہ ہو رہا تھا — اس کا رنگ گورا تھا۔ آنکھوں پر کالا چشمہ — کچھ سوچنے کی کوشش میں اس کا چہرہ نیولے کے چہرہ میں بدل جاتا تھا۔ وہ ہنس رہا تھا — شانتنو، آپ بھی نا — اب بتائیے، کیا پڑی تھی مجھے ادب کا روگ پالنے کی۔ سب … سالے — ‘ وہ ایک پل کو ٹھہرا۔ اپنے آپ کو شیکسپیئر، اروندھتی یا کرن دیسائی سمجھتے ہیں — سمجھتے ہیں کہ نہیں — وہ اپنے پورے پھوہڑ پن کے ساتھ ہنس رہا تھا — وہ سمجھتے ہیں کہ آسمان میں شگاف ڈال سکتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں جیسے سڑک پر نکل جائیے تو ہر شخص انہیں امیتابھ بچن یا شاہ رخ خان کی طرح جانتا ہے — جیسے باہر نکلے تو سب انہیں گھیر لیں گے — دیسائی ہنس رہا تھا — آٹو گراف — پلیز آٹو گراف — سن آف بچ — کتنی عجیب بات ہے — یہ جن کے لیے لکھتے ہیں وہی نہیں پڑھتے۔ اور یہ سمجھتے ہیں کہ ہر گھر میں ان کے قاری موجود ہیں، گلی کے کتے تک ان کے ادب کو چاٹ رہے ہیں — کتنا بکتے ہیں — کون خریدتا ہے — اس نے لمبی ناک والے شمل کی ایک کتاب کھینچی — دیکھئے پہلا ایڈیشن پانچ سو ہے — ہے کہ نہیں ؟ اب پانچ سو کتاب چھاپنے میں کتنی لاگت آتی ہے یہ آپ سے زیادہ کون جانے گا — سرکاری گوداموں کو آسرا نہ ہوتا تو یہ بھی نہیں بکتی — اور مندیرا سوچتی ہے — بس شمل سے ہم کروڑوں کما رہے ہیں — محل بنا رہے ہیں۔ کوٹھیاں کھڑی کر رہے ہیں، در اصل — ‘
دیسائی پھسپھسا رہا تھا — فریسٹریٹڈ عورت — ایک وقت آتا ہے، جب ایسی عورتیں ایک بڑے نام کو ادب کی گٹھلی کی طرح چوستے ہوئے اگل دیتی ہیں اور صرف پیٹر گننا چاہتی ہیں — پیسوں کے پیڑ — مگر کتنے پیسوں کا پیڑ بھائی — آپ سمجھ رہے ہیں نا شانتنو۔
اور یہیں دھوکہ کھا گیا تھا دیسائی۔ شانتنو شاید اس صورت حال میں اس کا سارا غصہ ہضم کر لیتا مگر دیسائی نے جس غیر مہذب انداز میں مندیرا کا نام لیا تھا وہ اسے گوارا نہیں تھا — پسند اور نا پسندکی بھی اپنی اپنی نفسیات ہوتی ہے۔ شانتنو کے چہرے پر شکن تھی، اس نے دھیرے سے دیسائی کو روکا —
’بلڈ پریشر چیک کرایا ہے ؟‘
’کیوں ؟‘
’چیک کرا لو دیسائی۔ ‘ شانتنو کے الفاظ برف ہو رہے تھے — تم کو یاد ہے دیسائی۔ میری پہلی کتاب —
’وہ — سیکس اور لائف — ‘
’ہاں، اسی کے بارے میں پوچھ رہا تھا — یاد ہے پہلا ایڈیشن کتنا چھپا تھا — لاکھوں میں — اس کے بعد بھی ہر سال نئے ایڈیشن نکالنے پڑے۔
’وہی تو — کافی دیر سے ہاتھ میں تھامی ہوئی چیک بک نکال کر دیسائی نے سامنے رکھی — یہ اس سال کی رائیلٹی کی رقم ہے۔ پسند کرو تو سارے واؤچر آپ دیکھ سکتے ہیں۔ آپ بکتے ہیں۔ اس لیے آپ کو رائیلٹی کی بھاری رقم دیتے ہوئے بھی مزا آتا ہے۔ مگر یہ ادیب — ‘ دیسائی کی بھنویں تن گئی تھیں — برا ہو نمیشا دیش پانڈے کا۔ جواپنا یہ پبلشینگ ہاؤس مجھے سونپ گئی۔ ہم اچھے بھلے انگریزی بچوں کی کتابیں، جنسی مواد پر مشتمل کتابیں چھاپ رہے تھے۔ یار دوستوں کے سمجھانے میں آ گئے کہ ادب بھی چھاپو۔ پیسہ تو ہے ہی، نام بھی ہے۔ بڑے لوگوں کے درشن ہوں گے ‘ مگر — نام بڑے درشن چھوٹے۔ وہ ایک بار پھر نفرت سے منہ سکوڑ رہا تھا۔ سب خود کو وکرم سیٹھ اور اروندھتی رائے سمجھتے ہیں۔ ارے اتنا بک کر بھی تو دکھاؤ — ‘‘
سامنے پڑی ڈائری میں مندیرا اور اس کا فون نمبر چمک رہا تھا۔ شانتنو نے اس بات چیت کو یہیں روکا — ڈائری اٹھائی — نمبر ایک لمحہ کو یاد کیا، اپنا موبائل نکالا اور سیو کر لیا — کس ارادے سے — شاید اسے خود پتہ نہیں تھا۔ اس نے واؤچر چیک کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی، چیک لیا اور گھر کی طرف روانہ ہو گیا —
شانتنو کو لگا، ہوا تیز ہو گئی ہے بادلوں کا ایک کارواں آسماں پر منڈرایا — تارے چھپ گئے — اسے یاد آیا، گھر آ کر اس نے کئی بار مندیرا کو فون لگانے کی کوشش کی۔ لیکن ہر بار نمبر لگا کروہ ایک گہری سوچ میں ڈوب جاتا۔ کیوں کروں ؟ کیا کہوں گا؟ کیوں ملنا چاہتا ہوں، وہ بھی شمل جیسے معروف ادیب کی بیوی سے جو خود بھی ایک فنکار ہے، نظمیں لکھتی ہے — فون ایک بار پھر مل گیا۔ لمحہ بھر کو اخلاقیات نے خوشبو کا لباس پہنا۔ ایک عجیب سی ہلچل شانتنو کے پورے بدن میں ہو رہی تھی۔ انگریزی میں کچھ غصہ بھرے لفظوں میں پوچھا گیا تھا —
ہو آر یو —
’یہ میں ہوں شانتنو — رائل کنگ پبلشر کے دفتر کے باہر سے۔ ‘
’باہر — ‘ وہ پل بھر کو سوچ میں ڈوب گئی — مجھے کچھ یاد نہیں آ رہا ہے۔ ‘
’آپ شمل کی کتابوں کی رائیلٹی کے لیے — ‘
’اوہ، میں نے کہا تھا نا، میری آپ میں — ‘
’انٹرسٹ نہیں ہے — ‘ شانتنو کھلکھلایا — لیکن دوسرا تو انٹرسٹ لے سکتا ہے نا۔ میرا مطلب ہے، ادب میں — آپ اور شمل کے ادب میں — ‘ شانتنو نے دھیرے سے کہا — ملنا چاہتا تھا آپ سے، انکار مت کیجئے گا۔
’کل صبح گیارہ بجے آ جائیے۔ فون رکھا گیا۔ ‘
قصہ کوتاہ، شمل کے گھر کا پتہ معلوم کرنے میں شانتنو کو دشواری نہیں ہوتی اور جان بوجھ کر یہ پتہ اس نے دیسائی سے نہیں مانگا تھا۔
جو کچھ ہوا، وہ کسی گہرے دھند سے گذرنے جیسا تھا، اور وہ بھی شانتنو جیسے شخص کے لیے جس کی پیدائش ہی ایک تجارت پیشہ خاندان میں ہوئی تھی۔ جہاں زندگی کے لیے جدو جہد کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی — اور نہ ہی کسی فن کے ’گذرنے ‘ کے لیے کوئی کھلا روشن دان ہی تھا — وہاں سب کچھ پیسہ تھا۔ صبح سے شام تک پیسے گننے والے خاندان میں کب پاکٹ بکس یا رومانٹک ناول پڑھنے کی عادت پڑھ گئی، وہ خود بھی نہیں جانتا تھا۔ شانتنو کے لیے ایسے رومانٹک ناولوں کی اپنی دنیا تھی اور یہ دنیا تنہائی میں، رات میں چپکے سے اس کے سامنے پھیلتی چلی جاتی۔ جوانی کی دہلیز تک پہنچتے وہ پیسوں سے سپنوں کی رومانٹک دنیا تک کا سفر کر چکا تھا۔ اسی درمیان اس نے دو ایک ناول لکھ ڈالے۔ ناول کی ہیروئنیں عام طور پر وہی ہوتیں جو اس کی زندگی میں آئی ہوتیں یا پھر جو تنہائی یا سپنوں کے سفر میں اس کے ساتھ ہوتیں۔ شروع میں، گھر میں اس کے لکھنے کی مخالفت تو ہوئی لیکن بزنس مین باپ نے ایک بات اس کے دل و دماغ میں بٹھا دی کہ لکھنے سے اگر بزنس جیسا مالی فائدہ ہوتا ہے تو لکھو، ورنہ بزنس سنبھالو۔ ابتداء میں لکھے گئے ناول تو نہیں چلے لیکن دلی اور میرٹھ کے بازار میں اسے جلدی ہی کامیابی مل گئی اور پھر تو راجہ بکتا ہے جسے ناول نے دیکھتے ہی دیکھتے اسے اسے کتاب منڈی یا پاکٹ بکس کی دنیا کا شہنشاہ بنا دیا — جلدی ہی اس پر فلم بنانے کا عمل بھی شروع ہو گیا اور شانتنو کا یہ ’ادبی سفر‘ اس کے باب کے بزنس سے بھی بڑا ایک پڑاؤ ثابت ہوا۔ پھر شانتنو نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ کئی پبلشر بدلے —پاکٹ بکس کتابوں سے الگ کے دعوت نامے بھی اس کے پاس آئے۔ اسی درمیان شانتنو اس فرنگی پبلشر کے قریب آیا۔
جو کتابوں سے زیادہ اپنے ایلیسیشئن کتّے کی تعریف میں زمین۔ آسمان کے قلابے ایک کرتا تھا۔ حالانکہ شانتنو نے ایلیسیشئن جیسی پھرتی اس کے وجود میں کبھی نہیں دیکھی جب کہ ہر بار چیک یا پیشگی رائیلٹی کی بات کرتے ہوئے وہ دیسی، رنگ جھڑے کتّے کی طرح ہی لگتا — پھر بھی شانتنو کے لیے دیسائی ایک بڑی پارٹی تھا اور اس پارٹی کو وہ کسی بھی قیمت پر چھوڑنا نہیں چاہتا تھا۔ شانتنو نے شادی نہیں کی۔ تنہا زندگی کی شان و شوکت اسے ہمیشہ سے پسند رہی۔ اور ادیب کہلانے کا بھرم، ہر بار اس میں حوصلہ سے زیادہ جوش بھر دیتا۔ ہاں یہ دھند، تب تب ہٹتی تھی جب اس کے ادیب کہلانے پر سوالیہ نشان لگایا جاتا تھا۔ ادیبوں کی ویران دنیا سے اپنی دنیا کا سچ اسے زیادہ قبول ہوتا تھا — آخر وہ بھی تو لڑتا ہے سماج سے —سماج کے توہمات سے — اسی سماج میں پیار بھی آتا ہے۔ اسی لیے اس کے ٍٍکردار شدت سے پیار بھی کرتے ہیں۔ شانتنو نے پریم چند کو بھی پڑھا تھا۔ شرت چند کو بھی — ابتداء میں اس نے شمل کی بھی ایک کتاب پڑھنے کی کوشش کی تھی لیکن شمل اس سے پڑھا ہی نہیں گیا۔ یا کہنا چاہئے، ایسی خشک ادبی کتابیں اس سے پڑھی ہی نہیں جاتی تھی۔ کبھی کبھی تو وہ یہ بھی سمجھنے میں ناکام رہتا کہ آخر ایسی کتابیں لکھی ہی کیوں جاتی ہیں اور کون پڑھتا ہے انہیں۔
٭
دوسرے دن ٹھیک گیارہ بجے وہ مندیرا کے فلیٹ کے باہر تھا۔ یہ چیز اسے بار بار پریشان کر رہی تھی۔ کبھی یہاں شمل بھی رہتا ہو گا — دھوپ کھلی کھلی تھی‘ پیڑ پودے خاموش تھے۔ شانتنو کو لگ رہا تھا شمل یہاں کرسیاں نکال کر بیٹھتا بھی ہو گا — گھر میں داخل ہونے اور ڈرائنگ روم کے صوفے میں دھنسنے تک، وہ مسلسل شمل کے بارے میں ہی سوچ رہا تھا۔ سامنے شمل کی بڑی سی تصویر لگی تھی — بائی پانی کا گلاس دے گئی اور کچھ ہی لمحے گزرنے کے بعد ہاتھ میں چائے کی ٹرے لیے مندیرا حاضر تھی۔ کسی ہوئی جینس اور ٹی شرٹ میں چائے کی ٹرے اس نے میز پر رکھ دی — رسمی گفتگو کا سلسلہ شروع ہوتے ہی اس نے روکھے سوالات کا حملہ شروع کر دیا۔
’آپ کیا کرتے ہیں۔ ‘
’ادیب ہوں — ‘
’ادیب — ‘ مندیرا چونکی تھی — ادیب۔ آپ تو کہیں سے بھی ادیب نہیں لگتے، ادیب تو اپنے رویئے سے ہی دکھائی دے جاتا ہے۔ لیجئے چائے پیجئے، چائے بڑھاتے ہوئے بھی اس کا حملہ جاری تھا۔ آپ جانتے ہیں، ادب کیا ہوتا ہے ؟
’جی — ‘
’اچھا نام کیا ہے آپ کا — ‘
شانتنو نے نام بتایا۔ دو جھلملاتی آنکھوں میں تھرتھراہٹ ہوئی۔ آنکھیں بند ہوئیں — پھر جلد ہی کھل گئیں — شانتنو — وہ پاکٹ بکس والا — مندیرا ہنس رہی تھی — راجہ بکتا ہے۔ جس پر فلم بھی بنتی تھی — ایک سی گریڈ ناول پر بننے والی سی گریڈ فلم۔ اچھا تو آپ وہ ہیں، دیسائی آپ کو بھی چھاپتا ہے۔ آپ تو بہت بکتے ہیں، اور آپ کے تو خاص ریڈر ہیں — مندیرا کی ہنسی میں غصہ تھا۔ چنیا بادام اور بھونجا کھانے والے لوگ — ٹرین میں سفر کرتے ہوئے — اس کی پلکوں میں تناؤ تھا، ۔ شانتنو کو تعجب ہوا۔ اتنے دھماکوں کے بعد بھی اس کی قوت برداشت باقی تھی — شاید وہ یہ سب سوچ کر آیا تھا۔ یہی فائر تو، مندیرا کی جوانی کا حصہ تھا — غصے میں اس کا پورا بدن گلاب کے ننھے سے پودے کی طرح اور بھی دلکش ہو جاتا۔ اس کے گٹھے ہوئے گداز بدن میں کنویں اور سانپ کی ساری علامتیں ایک ساتھ جمع ہو کر اس کے رگ و پے میں طوفان کھڑا کر رہی تھیں۔
’تو آپ تخلیق کار ہیں، ادیب — مندیرا ہنس رہی تھی — جانتے ہیں تخلیقی اظہار کیا ہوتا۔ کیا ہوتا ہے شمل بننا — چھوٹی سی نازک عمر میں اس کا بڑھاپا بھول کر سوچتی تھی، ایک دن اس کے جسم کے سوئمنگ پل میں چھلانگ لگا دوں گی۔ سب کچھ بھول جاؤں گی — آپ تو یہ بھی نہیں جانتے کہ سچ کیا ہوتا ہے — سماجی سروکار کیا ہوتے ہیں — شمل جیسا انسان اپنی تخلیق کے توسط سے کیسے اپنے فن کو بلندیوں پر پہنچتا ہے — آپ جانتے ہیں — آپ جانتے ہیں میں راتوں کو اٹھ کر اسے لکھتے ہوئے دیکھتی تھی۔ لکھتے وقت، اس کی انگلیاں ایک عظیم دستکار کی انگلیاں بن جاتیں اور وہ پورے وجود سے ایک بے حد معصوم بچے میں بدل جاتا۔ ایک ماہر سنگیت کار کی طرح لکھتے ہوئے اس بدن کی مشین برابر بجتی رہتی تھی۔ میں نے سنے تھے اس کے سر — اب بھی سن رہی ہوں۔ لکھتے وقت اس کا بدن ایک عجب سے سرور میں ڈوب جاتا — کمرہ میں اسے گھیر کر جیسے نور کے فرشتے جمع ہو جاتے۔ آپ جانتے ہیں، الفاظ کیا ہوتے ہیں — الفاظ کا استعمال کسے کیا جاتا ہے — الفاظ پانی کی طرح بہانے کے لیے نہیں ہوتے — جو آپ کرتے ہیں — الفاظ سنبھال کر رکھنے کو ہوتے ہیں۔ تھوڑا تھوڑا خرچ کرنے کے لیے … جیسے شمل کرتا تھا — ’ہاں — وہ اس کی میز ہے۔ وہ اب بھی ہے۔ اب بھی لکھ رہا ہے …‘
مندیرا کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ لمحہ بھر کو روشنی سی چمکی۔ تھرتھراتی مندیرا اٹھی۔ آگے بڑھی۔ کرسی کو بوسہ دیا اور پھر لوٹ آئی۔ ‘
’’آپ ادیب ہوتے تو نہیں بلاتی۔ ادیب صرف شمل تھا۔ باقی گھاس کھودنے والے ‘ چائے کے کپ خالی ہو گئے تھے۔ مندیرا کی آنکھوں میں اب بھی تناؤ چھلک رہا تھا۔ لیکن آپ مجھ سے ملنے کیوں آئے ؟ وہ ہنسی۔ میرے لیے جدو جہد کریں گے ؟ دیسائی کے خلاف؟ مجھے تسلی دیں گے ؟ میرے خیال سے آپ نے اس کی ایک بھی کتاب نہیں پڑھی ہو گی۔ کیوں ؟‘
’ٹھیک کہتی ہیں آپ، ایک پڑھی تھی، پڑھی نہیں گئی۔ ‘
مندیرا زور سے ہنس پڑی — یہی تو شمل کی جیت ہے، آپ کو بھی سمجھ میں آ جاتا تو پھر شمل، شمل کہاں رہ جاتا، شانتنو نہ بن جاتا۔ وہ ہنس رہی تھی — اس ہنسی کے انداز میں لمحہ بھر کو دھماکہ ہوا تھا، اس کی گوری ہتھیلیاں، چوڑی کی طرح چھنک کر اس کی ہتھیلیوں سے چھو گئی تھیں۔ اُس ایک لمحہ میں جیسے سونامی سما گئی۔ مندیرا کے چہرہ کے تاثرات بدلے — گرم بھاپ دیتی ہتھیلیوں کا اپنا احساس شانتنو کے لیے ہزار جسموں کے احساس سے بھی بڑا تھا۔
مندیرا نے ایک ٹھنڈی سانس بھری۔ در اصل اس گلوبل نظام میں ہم اپنی مادری زبان کھول بیٹھے۔ یہی المیہ ہے۔ انگریزوں کی غلامی، انگریزی کی برائی دے گئی ہمیں۔ پڑھتے، جیتے اور اپنی تہذیب میں ملاتے ہوئے ہمارے سارے اقدار اسی رنگ میں رنگ گئے، زبان بھی انہیں کی ہو گئی۔ در اصل یہ ان تمام ممالک کے مالی نظام کی کمزوری ہے، جن کی وجہ سے ان کی اپنی زبان چھن جاتی ہے۔ شمل نے صرف انگریزی میں لکھا ہوتا تو آج اس کی حیثیت دوسری ہوتی، وہ لکھ سکتا تھا، مگر اس کے اپنے تجربے، اقدار اتنے حاوی تھے کہ وہ کسی دوسری زبان میں لکھنے کے بارے میں سوچ ہی نہیں سکتا تھا … اور اسی لیے دیسائی جیسے لوگ …
٭
اچانک کچھ ایک حادثہ ہو گیا تھا … مندیرا پل بھر کو ٹھہر گئی۔ وہ سامنے والے کمرہ کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اس کی آنکھیں یکایک سہم گئی تھی۔ کمرہ میں قطار سے، الماری سے جھانکتی کتابیں — شمل کی میز، پرانے زمانے والے کرسی، دیواروں کے جھڑتے رنگ … قطار سے دور تک سجے پھولوں والے گملے — کالونی کے اندر پہنچنے تک شانتنو اس ادبی خاموشی اور پیڑوں سے چھن کر آنے والی فلسفیانہ دھوپ کی کرنوں کا جائزہ لے چکا تھا۔ پوری کالونی میں، خاص کر شمل کے فلیٹ کے پاس جو چپی اور گہری خاموشی کا اس نے محسوس کی تھی وہی ہلچل وہ مندیرا کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا۔ فلسفے چلتے چلتے ٹھہر گئے۔ اس کی آنکھیں خوف زدہ تھیں — کان کھڑے تھے۔ جیسے کسی کی آہٹ محسوس کر رہے ہوں۔ وہ ایک ٹک شمل والے کمرہ کی طرف دیکھ رہی تھی —
’کوئی ہے … نہیں مجھے صبح سے اسی بات کا احساس تھا کہ کوئی ہے … آپ نے — مندیرا شانتنو کی طرف مڑی — اور سب کچھ غیر یقینی ڈھنگ سے ہوا تھا۔ اس نے یکایک شانتنو کا ہاتھ تھاما — صبح میں برش کرتی ہوئی یہاں آئی — وہ وہاں کھڑا تھا۔ تم نے بھی آہٹ سنی نا … اور سامنے … وہاں شمل کے کمرے میں — وہ زور سے چیخی — میں پوچھ رہی ہوں تم نے دیکھا یا نہیں — مندیرا زور سے چیخی۔ سمترا — ‘
گھر میں کام کرنے والی بائی اس کی چیخ پر دوڑ کر آ گئی تھی۔ اس کے لہجہ میں گھبراہٹ تھی۔ کیا ہوا میم صاحب۔ مندیرا کی آنکھیں غصے سے سرخ ہو رہی تھیں۔ پچھواڑے کی کھڑکی بند کی یا نہیں ؟ میں نے صبح ہی کہا تھا، اس کھڑکی کو بند رکھا کرو، پورے دو مہینے سے ایسا ہو رہا ہے کوئی ہے — کوئی ہے — جو یہاں تک آ کر — تم نے سنا نہیں سمترا — وہ تیز آواز میں دہاڑی — گیٹ لاسٹ، جا کر کھڑکی بند کرو۔
’میم صاحب — ابھی تو بارہ بجے ہیں۔ ‘
’بارہ بجے ہیں — ‘ مندیرا کے چہرہ سے وحشت ٹپک رہی تھی۔ بارہ بجے — بارہ بجے چور نہیں آسکتے۔ کھڑکی کھڑی منہ کیا دکھ رہی ہو۔ جاؤ تم پہلے کھڑکی بند کرو۔ تم یہاں — اس نے مضبوطی سے کسی منظوری یا نا منظوری کی پروا کیے بغیر شانتنو کا ہاتھ تھاما۔ شمل کے کمرہ کی طرف بڑھی۔ وہ یہاں تھا تم نے دیکھا یا نہیں — نہیں پلیز بولو تم — سچ بولنا، دیکھا تھا نا تم نے بھی — یہاں — اسی کرسی کے پاس تھا وہ، سایہ نہیں تھا، وہم نہیں تھا میرا۔ جب ہم باتیں کر رہے تھے۔ وہ ہماری طرف دیکھ رہا تھا … مگر — مندیرا نے ہاتھ چھڑا لیا — کون ہو سکتا ہے وہ اور — کھڑکیوں پر تو جالی لگی ہوئی ہے — کہاں جا سکتا ہے وہ۔ ہو سکتا ہے۔ بات چیت میں کچھ دیر کے لیے ہماری پلکیں بوجھل ہوئی ہوں — اور اسی پلک جھپکنے کا اس نے فائدہ اٹھایا ہو مگر وہ آتا ہی کیوں ہے ؟ اور کہاں چلا جاتا ہے۔ اچانک اس کا بدن جیسے پھر کانپا۔ اس کی آنکھیں وحشت سے پھیلی تھیں۔ جیسے وہ کس آہٹ کو کان لگا کر سننے کی کوشش کر رہی ہو، اچانک وہ تیزی سے پلٹی۔ اس کا ہاتھ تھاما۔ ابھی بھی وہ اس گھر میں ہے — وہ ہے، سنو، تم بھی سنو … اس کے پیروں کی آہٹ … اب وہ اوپر جا رہا ہے، سیڑھیوں سے۔ میرے ساتھ آؤ —! مندیرا تیزی سے مڑی۔
آگے دالان سے ہو کر سیڑھیاں چلی گئی تھی۔ تنگ سی سیڑھیاں — سیڑھیوں پر روشنی ذرا کم تھی — لمحہ بھر کو وہ رکی … اس کی طرف دیکھا۔ پھر تیزی سے اسے اشارہ کرتی ہوئی باقی سیڑھیاں بھی طے کر گئی۔ اوپر ایک کھلا کمرہ تھا، روشن دان بند تھے۔ کھڑکی پر پردہ پڑا تھا۔ دبیز پردہ … کمرہ میں بندھی ہوئی کتابوں کے علاوہ ٹوٹے صوفے اور بے کار کی چیزیں بھی پڑی تھیں۔ ایک صاف پلنگ بچھا تھا۔ وہ یہاں آیا تھا۔ یہ شمل کی کتابیں ہیں۔ کچھ دن پہلے۔ پبلشر نے بھجوائی تھیں۔ دیکھو، کھولی بھی نہیں گئی — اچانک وہ چلاتی۔ دیکھو وہ ہے، ابھی بھی ہے — وہ کانپتے لہجہ میں چیخی۔ کون ہے … آگے بند پردہ سے روشنی کا ایک سایہ سا زمین پر پھر رہا تھا۔ اب تمہیں تو کوئی وہم نہیں۔ وہ پھٹی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی — کون ہے — اور یکایک کھڑکی کے اوپر تنے مکڑی کے جالے کو اس نے دیکھ لیا تھا۔ اس کے ٹھیک پاس دیوار سے چپکی ایک چھپکلی تھی۔ وہ زور سے چیخی۔ اور یکایک اس لمحہ شانتنو کے پورے بدن میں جیسے لاوے بھر گئے۔ وہ چیخی۔ وہ پلٹی اور ایک پل کو سب کچھ بھول کر اس میں سما گئی۔ بدن میں جیسے دھماکہ ہوا۔ کمرہ میں جیسے دنیا کی سب سے خوبصورت موسیقی گونجنے لگی۔ اس کے سینے کی گولائیاں ابھی بھی سخت تھیں اور شاید دنیا کی سب سے خوبصورت عورت کی گولائیاں تھیں۔ پیر کانپ رہے تھے۔ لمحہ بھر کو شانتنو کے بدن کے اندر ہزاروں پھلجھڑیاں چھوٹ گئیں۔ پھر جیسے دھماکہ ہوا۔ وہ اچانک اس کے بدن سے الگ ہوئی، ہاتھ ہٹایا۔ غصہ سے اس کی طرف دیکھا۔ وہ زوروں سے چلائی۔
’تم ابھی تک گئے نہیں۔ پانی پی لیا۔ چائے پی لی، اب کیا کر رہے ہو۔ یہاں، گھڑی دیکھو۔ کتنا وقت ہو گیا ہے۔ میں اتنی دیر تک تم جیسے کسی شخص کو برداشت نہیں کر سکتی۔ مندیرا اس کی طرف دیکھ کر زور سے چیخی — میرا منہ مت دیکھو۔ جاؤ تم —گیٹ لاسٹ۔ ‘
شانتنو نے جانے سے پہلے پلٹ کر دیکھا۔ اس کی آنکھیں ابھی بھی دہشت سے پھیلی تھی۔ وہ دھیرے سے کہہ رہی تھی … کوئی ہے —
کھلے گیٹ سے وہ باہر نکل آیا۔ باہر پیڑ پودے خاموش تھے۔ بچوں والا ایک جھولا ہل رہا تھا، شاید کچھ دیر پہلے کوئی بچہ جھولتے جھولتے ابھی فوراً ہی ہو گیا۔ باہر کی زمین نرم تھی۔ پیڑوں سے پتیاں ٹوٹ ٹوٹ کر گری ہوں گی۔ پورے ماحول میں ایک عجیب سی خاموشی، ڈری سہمی مندیرا کی زبان بن گئی تھی۔ کوئی ہے لیکن شاید کوئی نہیں تھا۔ باہر آ کر اس نے گاڑی اسٹارٹ کی لیکن اسے کسی بھی طرح کی شرمندگی یا پچھتاوا نہیں تھا۔ مندیرا کے الفاظ میں کہا جائے تو وہ ایک فیصد بھی ہرٹ نہیں ہوا تھا۔ باہر آ کر گاڑی میں بیٹھنے تک مندرا کی جلتی ہتھیلیوں کا لمس اور جسم کی گرماہٹ اس کے وجود کے ریشے ریشے میں تر چکی تھی۔ شاید اسٹیئرنگ تھامتے ہوئے وہ مسکرایا بھی تھا۔ گاڑی کے سڑک پر دوڑنے تک وہ اپنی سطح پر واقعاتی تجزیہ کے تعجب خیز دور سے گذر چکا تھا …
لیکن سوال تھا۔ ایسا کیوں ہوا۔ کیا صرف مندیرا کا وہم تھا۔ اور مندیرا کو یہ وہم اچانک اس وقت کیوں ہوا جب اس نے دیسائی کا نام لیا۔ کیا ایسا بہت دنوں سے چل رہا ہے۔ یا کمرہ میں آنے پر ایک مرد کی موجودگی اچانک اسے اندر سے بے چین کر گئی تھی — اچانک وہ مندرا سے سانپ یا مچھلی، یا اس کور پیج میں بدل گئی تھی، جیسے دیسائی کے یہاں دیکھتے ہوئے اس نے پہلی بار میں ہی مسترد کر دیا تھا۔ مکمل مندیرا اس کے سامنے تھی دو دن پہلے رائل پبلشنگ ہاؤس کے کمرہ میں دیسائی کو کھری، کھوٹی سناتی ہوئی — پھر یہاں — شمل کے فلیٹ میں اچانک ایک بے نام سے ڈر کا اس کے وجود میں بیٹھ جانا — کیا یہ اتفاق تھا، یا اسے ڈرامائی انداز میں تبدیل کرنا مندیرا کی مجبوری۔ کیا ایک جھری بڑے بوڑھے بدن میں عورت کے لیے کوئی کشش باقی رہ سکتی ہے۔ وہ بھی ادب کی سطح پر۔ کب تک ؟ کتنے دنوں تک۔ بار بار خواب میں آنے والا ہیرو، پریشان اور دکھ بھرے لمحے ہیرو سے ولن بھی تو بن جاتا ہے۔ شمل کتنی بار ولن بنا ہو گا۔ مندیرا کی چھوٹی چھوٹی ضروریات کو پوری نہ کر سکنے کے حوالے سے۔ مندیرا جیسی کم عمر لڑکی ایک بزرگ ہیرو کے ساتھ اپنے خوابوں کے سفر میں کتنا وقت حوصلہ اور جوش کے ساتھ گذار سکتی ہے۔ کیا اندر سوئی ہوئی برسوں پرانی آگ کو یکایک ایک مرد نظر آ گیا تھا، اس کی شکل میں۔ مکالمے چھپ گئے تھے۔ صرف لمس رہ گیا تھا۔ جیتا جاگتا، بولتا لمس — ایک نا قابل یقین اور ڈرامائی صورتحال نے شانتنو کو مندیرا کی نفسیات کی اس حقیقت سے متعارف کرایا ہی دیا تھا کہ اب وہ نہیں ملے گی۔ لیکن کیا جو کچھ اس نے سوچا وہی سچ تھا۔ شمل کے بعد وہ نا معلوم، انجانے در سے کسی نفسیاتی مرض کا شکار ہو چکی ہے۔ ایک مہینہ آندھی اور طوفان کی طرح گذر گیا۔ نہ مندیرا ملی، نہ اس نے فون کیا اور نہ ہی مندیرا نے۔ ہاں رائل پبلشنگ ہاؤس کو لے کر تنازعہ ضرور سرخیوں میں آ گیا تھا۔
سچ یہ ہے کہ اس پورے پس منظر یا واقعہ کو کسی متعینہ تاریخ سے جوڑ کر دیکھنا مناسب نہیں ہے۔ دنیا تیزی سے بدل رہی ہے۔ شانتنو کو اس کا احساس تھا۔ سماج، رہن سہن، لباس، انٹرٹنمنٹ کے طریقے، کھان پان، فلمیں، ہیرو اور ہیروئن — سب بدل رہے ہیں۔ معجزہ سے سائنس اور نفسیات تک، زندگی میں آتی دوسری لڑکیوں سے مندیرا تک۔ وہ لمس جیسے بدن میں ٹھہر گیا تھا۔ مکالمے گم ہو گئے۔ لمس رہ گیا۔ چیختا ہوا لمس۔ جیسے اسٹو کے چیختے شعلے ہیں۔ دہکتے آواز دیتے ہوئے۔ اسے وزیولائز کیا جائے تو صرف کلوز ری ایکشن بچتا ہے مندیرا کا۔ سہمی سی مندیرا کا، جو اس کے سینے سے لگی ہے، اور جس کے پٹھے اس کے بدن سے مل کر تیز تیز دھڑک رہے ہیں۔ شانتنو کو یاد ہے، اس پر اسرار رات، جب وہ گھر کی بالکنی پر کھڑا تھا، اور آسمان یہ بے شمار ستارے لہروں کی طرح بہہ رہے تھے۔ اس نے کچھ اور بھی دیکھا تھا نہیں۔ یہ وہم نہیں تھا۔ کوئی قصہ کہانی نہیں، اس منظر نے اس حقیقت کو زندہ کیا تھا کہ کائنات میں ہم اکیلے نہیں، دور تک بچھی آسمان کی نیلی چادر میں اچانک شانتنو نے کوئی چیز دیکھ لی تھی۔ ایکسٹرا ٹریسٹریل یا ایلین۔ دنیا کے باہر کی ایک عقلمند مخلوق … ایک نیا ذی روح، کہیں کوئی اڑن طشتری نہیں بلکہ بہت سے تارے مل کر جیسے ایک ایلین یا ای ٹی بن گئے ہوں۔ اچانک اس کی جگہ مندیرا کا چہرہ آ گیا تھا اور اگر اس غیر معمولی حادثہ کو، کہ مندیرا خوف اور دہشت سے گھبرا کر اس سے لپٹ گئی تھی۔ کسی متعینہ تاریخ سے جوڑنا ضروری ہے تو یہ بس وہی رات تھی، جب اس نے آسمان میں ایک ایلین کو دیکھا تھا۔ اور ایلین اس کے دیکھتے ہی دیکھتے مندیرا میں تبدیل ہو گیا تھا۔ گوکہ ان دلیلوں کا جواب اب سائنس سے نفسیات تک کے پاس نہیں ہے۔ لیکن ایسا ہوا اور اس کے بعد تو مہینے بھر صرف اڑتی خبر رہ گئی۔
رائل پبلشنگ ہاؤس اور دیسائی کی مخالفت میں مندیرا کی ناراض چٹھیاں بھی چرچے میں آ گئی تھیں۔ جس میں مندیرا نے سیدھا الزام لگاتے ہوئے کہا تھا —رائل پبلشنگ ہاؤس کے مالک شری اشوک دیسائی کے ذریعے شمل شرما کو دی جانے والی رائیلٹی کا سارا حساب کتاب غلط ہے۔ زندگی کے آخری چند مہینوں میں شمل بار بار دیسائی سے کتابوں کا حساب مانگتے رہے۔ لیکن دیسائی کا ارادہ دینے کا تھا ہی نہیں۔ شمل کی موت کے ایک ہفتہ بعد جب پبلشر کی جانب سے یہ حساب کتاب بھیجا گیا تو وہ اتنا دکھ پھر اٹھا کہ اگر اپنی زندگی میں خود شمل اسے دیکھ لیتے تو وہ رائل سے الگ ہو چکے ہوتے۔
اخبار۔ میگزین مندیرا۔ دیسائی تنازعوں سے بھر گئی تھیں۔ مندیرا نے کچھ اور بھی شدید الزام لگائے تھے۔ کچھ الزامات تیکھے اور سخت تھے۔ جیسے رائل کی آمدنی کا ذریعہ کیا ہے۔ جوناگڑھ میں کروڑوں کی کوٹھی کا راز کیا ہے ؟ مندیرا نے سیدھے طور پر جاننے کی کوشش کی تھی کہ یہ کیسا کاروبار ہے، جہاں مصنف گھاٹے میں رہتا ہے اور ایک دن شمل کی طرح اپنے ہی پیسوں کی بھیک مانگتا۔ اپنی جان دے دیتا ہے اور ناشر کروڑوں کی کوٹھیاں تیار کرتا رہتا ہے۔ خط میں مندیرا نے تیکھی زبان میں اپنی ناراضگی درج کرائی تھی کہ اگر ابھی بھی ملک میں انکم ٹیکس اور سی بی آئی جیسے ادارے حرکت میں ہیں تو وہ دیسائی جیسے گھوٹالہ کرنے والے ناشروں کی خدمت میں سامنے کیوں نہیں آتے۔ شمل کی کتابوں کا حوالہ دے کر مندیرا نے پوچھا تھا کہ اگر 1995 تک شمل کی کتابوں کی مجموعی رائلٹی ایک لاکھ روپئے بنتی ہے تو آج کی تاریخ میں یہ صفر کیوں ہو گئی؟ ریڈر گم ہو گئے تھے تو ناشر کو بھی گم ہو جانا تھا، لیکن ناشر تو اپنی کوٹھیاں کھڑی کر رہا تھا۔
تنازعہ شروع ہو چکا تھا، مصنفین کے بیانات آنے شروع ہو گئے تھے۔ اس دن سگھن چکرورتی آ گیا تھا۔ ناک میں نسوار ڈالتے اور دھوتی سے ناک پونچھتے ہوئے اس نے کہا تھا — ناشر کتابوں کے فروخت کے لیے اب قارئین پر بھروسہ نہیں کرتے — وہ سنجیدہ لہجہ میں بولا — ناشر سرکاری خرید پر بھروسہ کرتے ہیں۔ خرید کس طرح ہوتی ہے، اس کا علم مصنف کو بھی نہیں ہوتا اور ناشر اسی لیے مصنف کی پرواہ نہیں کرتے۔ جب تک کتابوں کی خرید عام نہیں ہو گی۔ مسئلہ بنا رہے گا۔
شانتنو نے نگاہ اٹھائی۔
سگھن سامنے بڑی کتاب کے صفحے پلٹ رہا تھا۔ مگر اس کے ہونٹ چل رہے تھے — ہمارا کیا۔ کتاب لکھی اور مکمل کتاب ایک فلاپی میں آ گئی۔ اس چھوٹی سی فلاپی سے ناشر بازار میں کتنا بناتا ہے اس کا اندازہ آپ نہیں کر سکتے اور سچ تو یہ ہے شانتنو کہ رائیلٹی کے معاملہ میں کوئی بھی ناشر صاف و شفاف نہیں، کچھ مصنفین رائیلٹی چاہتے بھی نہیں۔ وہ خود اعلیٰ عہدہ پر رہ کر ناشر کی کتاب فروخت کراتے ہیں۔ کتنے دن چلتی ہے مندیرا کی لڑائی۔ دیکھ لینا۔
لیکن مندیرا کی لڑائی جاری تھی اور اسی درمیان مندیرا کا ایک اور خط اخباروں میں چھپ گیا تھا — افسوس دکھ کے ساتھ لکھنا پڑ رہا ہے کہ رائیل پبلشنگ ہاؤس اب میرے شوہر مرحوم شمل شرما کے ناشر نہیں ہیں۔ انہوں نے کتابوں کی سیل کے تعلق سے جو اعدادو شمار ہمیں بھیجے تھے وہ مشکوک پائے گئے ہیں۔
شانتنو کو لگا تھا، ابھی تھمے گی نہیں یہ لڑائی۔ ابھی اور آگے بڑھے گی۔ ایک نہ ایک دن تو کسی کو اس کے خلاف جنگ کا بگل تو بجانا تھا ہی۔ ممکن ہے۔ یہ لڑائی مندیرا نے شروع کی ہے تو وہ فاتح بھی ہو گی۔
لیکن — شاید ہمیشہ سے ایسا ہوتا رہا ہے۔ ہم ایک حیران کر دینے والی ایلین کی دنیا میں آج بھی رہتے ہیں۔ آج بھی رات کے کسی نازک لمحے بہت سے تارے مل کر کسی اڑن طشتری میں بدل جاتے ہیں — کوئی مندیرا بارش جیسی دھوپ کی کرنوں میں صبح کے وقت، سایہ تلاش کرتی ہوئی چیخ پڑتی ہے۔ ’کوئی ہے — ‘
اس رات وہ پھر سے باپ بن گیا تھا۔ باہر رات بہہ رہی تھی۔ آسمان پر چاندنی چھٹکی ہوئی تھی۔ اس نے جان بوجھ کر کھڑکی کھول دی تھی۔ اسکاچ ختم ہو چکی تھی۔ نشے میں شاید آدمی زیادہ سوچتا ہے پچھلی رائلٹی کی تفصیل اس کے سامنے تھی۔ اس نے کئی بار واؤچر کو الٹ پلٹ کر دیکھا۔ اسے دیسائی پر غصہ آ رہا تھا … شانتنو کے جی میں آیا، خالی اسکاچ کی بوتل دیسائی کے سر پر توڑ دے۔ اور کہے — سالے۔ اسی لیے میں نے کئی بار سوچا تم لوگوں کے فراڈ سے بہتر ہے کہ اپنا الگ پبلی کیشن کھول لوں۔ اپنی کتابیں خود چھاپوں … واؤچر میں اس کی کتابوں کی پچھلی تفصیل غائب تھی۔ پچھلے پانچ برس کے حساب بھی اسے مشکوک لگ رہے تھے … ادیب کا چولا پھینک کر اس وقت وہ صرف ایک باپ بن گیا تھا۔ ایک خالص بزنس مین‘ شانتنو نے واؤچر ایک طرف رکھے۔ ٹہلتے ہوئے بالکنی پر آ گیا۔ کچھ پل نیلے آسمان میں پھیلے تاروں کے جھرمٹ کو دیکھتا رہا۔ پھر جیب سے موبائل نکالا اور دیسائی کا نمبر ڈائل کرنے لگا دوسری طرف دیسائی تھا۔
شانتنو دہاڑ کر بولا — رات کے بارہ بج رہے ہیں سالے۔ اسکاچ کا نشہ ہرن کر دیا تم نے — شانتنو گالیاں دے رہا تھا — تیرے گھر آ کر ماروں گا تمہیں …
ہو — ہو — دیسائی فون پر ہنسنے کی کوشش کر رہا تھا — آپ آ جاؤ نا — ناراض کیوں ہوتے ہو، واؤچر میں گڑبڑی ہے تو ٹھیک کر لیں گے۔ ایک اسکاچ کی جگہ دس بوتلیں لے جاؤ پیارے۔
اس کے ہنسنے پر شانتنو بھی ہنسا — میری برادری دوسری ہے فرنگی تمہارے ایلیسیشئن کی نسل کا ہوں، بھونکتا نہیں، کاٹ کھاتا ہوں —
کمرے میں آنے تک جگ مگ جگ مگ رات کے سناٹے میں مندیرا کے یہاں ہونے والی گفتگو کے کچھ زہریلے لمحے اسے یاد آ رہے تھے۔ اس نادر لمحہ کی یہ کتاب جان بوجھ کر شمل نے اپنی یاد داشت میں بچا کر رکھی تھی۔
’آپ نے کبھی سوچا کہ شمل جیسے ادیب کی کتابیں اتنی کم کیوں چھپتی ہیں ؟‘
’سب اسے ڈائجسٹ نہیں کر سکتے۔ ‘
’لیکن وہ لڑائیاں تو سب کی لڑتے ہیں۔ ‘
’ — ہاں۔ ‘
پھر اپنی ہی لڑائی کیوں نہیں لڑی شمل نے — میرا مطلب ہے اپنے ناشر سے۔
جیسے بے جان سناٹے میں دشنیت کی طرح کسی نے پتھر اچھال دیا ہو۔ لمحہ بھر کو مندیرا کا پورا جسم ہل گیا تھا۔
’میں ادیب نہیں ؛ لیکن اس پورے معاملہ پر میں تبصرہ کر سکتا ہوں — ‘ شانتنو نے ارجن بان چھوڑا تھا — لکھتے لکھتے آپ کا ادیب ایک شرمیلا انسان بن جاتا ہے۔ در اصل وہ کسی کی لڑائی لڑنے کے لائق نہیں رہ جاتا۔ اپنی بھی نہیں۔ ‘
اور اس کے ٹھیک دوسرے دن ہنستی ہوئی دھوپ میں دیسائی کے بنگلے میں گیٹ کھلتے ہی اس نے دوبارہ ایلیسیشئن کے بھونکنے کی آواز سن لی تھی —
جنوری کی دھوپ کھلی کھلی لگ رہی تھی۔ باہر لان میں کرسیاں لگی تھیں۔ دیسائی ایلیسیشئن کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرتا ہنس رہا تھا۔
تو ملکۂ بنگال نے ایلیسیشئن واپس کر دیا۔
’نہیں شانتنو — دیسائی ہنسا۔ ایک ایلیسیشئن جاتا ہے، دوسرا آتا ہے۔ اچھی نسل کے کتوں کا شوقین ہونا چاہئے بس — ‘
چائے کی چسکی لیتے ہوئے اس نے دھیرے سے پوچھا — اور مندیرا والا معاملہ — دیسائی ہنس رہا تھا — تم کو معلوم نہیں، سمجھوتہ ہو گیا — ایسے معاملے اٹھتے ہیں اور بند ہو جاتے ہیں۔
بریڈ کا ایک بڑا سا ٹکڑا اس نے ایلیسیشئن کی طرف پھینکا تھا، جسے ایلیسیشئن نے ہوا میں ہی اچک لیا۔
سامنے، زمین پر دھوپ میں دو سائے بن رہے تھے — آنکھوں میں اچانک مندیرا کا چہرہ لہرا گیا — کوئی ہے —
ایلیسیشئن پلٹ کر دوبارہ بھونکا تھا۔ اور بدلے میں تازہ بریڈ کے کئی ٹکڑے دیسائی نے اس کی طرف اچھال دیئے تھے۔
گھر لوٹنے تک ایک عجیب سی خاموش یا بوجھل پن اس کے پورے وجود پر سوار تھا۔ ماحول ایک بار پھر ویسا ہی خاموش اور بے جان تھا۔ سنے، گل بہری اور ٹیلی کے بے رس پھولوں کو دیکھتا ہوا وہ اپنے کمرہ میں آیا تو جیسے چونک گیا۔ اکیلے رہنے کی عادت کے باوجود کہیں ایک دھماکہ سا ہوا تھا۔ بتی جلائی — کھڑکی بند تھی … لیکن کھڑکی کے پردے لہرا رہے تھے۔ اس نے پلٹ کر بستر کی طرف دیکھا۔ چادر پر ان گنت سلوٹیں ابھر آئی تھیں۔ چلتے وقت ایشٹرے میں وہ سگریٹ کو بجھانا بھول گیا تھا۔ وہاں سے ابھی بھی دھواں اٹھ رہا تھا … کمرہ میں سجی ایک قطار سے لگی پینٹنگس جیسے یکایک چلنے لگی ہوں۔ اچانک اس کے اندر کچھ حرکت سی ہوئی — سہمی ہوئی آنکھوں نے ایک بار پھر پلٹ کر کھڑکی طرف دیکھا — اور لہراتے پردوں کی طرف دیکھتے ہوئے اس کی تیز چیخ نکل گئی — کوئی ہے — ہے —!‘
٭٭٭
ماخذ: ’ایک انجانے خوف کی ریہرسل‘ کتاب میں مشمولہ ایک طویل کہانی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید