فہرست مضامین
کنہیا لال کپور کے کچھ مضامین
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل
فلم ڈائریکٹر کے نام ایک خط
مکرمی نہ محترمی! افسوس ہے کہ آپ ابھی تک زندہ ہیں اور حسب معمول عجیب و غریب فلمیں تیار کر رہے ہیں۔ سنا ہے۔ آپ نے فیصلہ کر لیا ہے کہ آئندہ ہر فلم کی کہانی آپ خود لکھیں گے اور اگر خود نہیں لکھیں گے تو کہانی کا پلاٹ کسی امریکن فلم سے چرانے کے بعد اس کا حلیہ اس کامیابی سے بگاڑیں گے کہ ہالی وڈ کے ڈائریکٹر دانتوں میں انگلیاں داب کر رہ جائیں۔ یہ بھی سنا ہے کہ کہانی کے علاوہ مکالمے اور گانے بھی آپ خود تحریر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ان حالات میں ہندوستانی فلموں پر کیا گزرے گی۔ اس کا خیال کرتے ہوئے بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں … آپ کی تازہ فلم ’’کھٹاک کھٹاک‘‘ دیکھی۔ ایسی دلچسپ کامیڈی تھی کہ آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ آپ نے جس خوبی سے ایک نوجوان کو خوبصورت لڑکیوں کا تعاقب کرتے اور موخر الذکر کو اس کی جوتیوں سے مرمت فرماتے ہوئے دکھایا ہے ‘ وہ آپ ہی کا خاصہ ہے اور ہاں یہ کہنا تو میں بھول گیا کہ فلم کا آخری سین فلم کی جان ہے۔ نوجوان کی چاند رفتہ رفتہ گنجی ہوتی ہوئی دکھائی گئی ہے۔ لیکن اس کو حادثے کا احساس اس طرح کرایا گیا ہے کہ حجام اس کی حجامت بنانے سے انکار کر دیتا ہے۔ اگر میں غلطی نہیں کرتا تو اس فلم میں آپ نے قوم کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ گنجا ہو جانے کے بعد عشق کے سب امتحان ختم ہو جاتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے۔ جس شخص نے ہیرو کا پارٹ ادا کیا ہے۔ وہ آپ کا چھوٹا بھائی ہے کیونکہ اس کی ناک آپ کی ناک سے ملتی جلتی ہے اور آپ کی ناک طوطے کی ناک سے مشابہت رکھتی ہے۔ بلکہ میرا تو خیال ہے کہ بیشتر طوطوں کی ناک آپ کی ناک سے خوبصورت ہو گی۔ بندہ پرور! ایسے شخص کو ہیرو کا پارٹ دینا جس کے چہرے پر اس قسم کی ناک ہو۔ افسوسناک نہیں تو خطرناک ضرور ہے۔ ایسے شخص سے کوئی خاک محبت کرے گا۔ میرا مطلب ہے کہ محبوبہ کو اس کی ناک کے مطالعہ سے فرصت ہی کب ملے گی کہ وہ اس سے محبت کر سکے۔ گانوں کے اعتبار سے آپ کی تازہ فلم آپ کی پہلی سب فلموں پر بازی لے گئی ہے۔ خاص کر مجھے آپ کا ایک دو گانا بہت پسند آیا۔ جس میں ہیرو کہتا ہے۔ ہائے میری سجنی ایسی پتلی جیسی پتلی سوئی اور ہیروئن اس خوبصورت مصرع پر اس طرح گرہ لگاتی ہے۔ اوئی بالما۔ اوئی ساجنا۔ اوئی جالما اوئی شاید آپ نے غور نہیں فرمایا اس مصرح کے آخری ٹکڑے یعنی اوئی جالما اوئی میں فلم انڈسٹری زبان حال سے فریاد کرتی ہوئی سنائی دیتی ہے۔ خدا کرے کہ آپ خیریت سے نہ ہوں اور آپ کی آخری فلم واقعی آخری فلم ثابت ہو۔ (مخلص)
٭٭٭
http: //www.urdutehzeb.com/showthread.php/27692-%D9%81%D9%84%D9%85-%DA%88%D8%A7%D8%A6%D8%B1%DB%8C%DA%A9%D9%B9%D8%B1-%DA%A9%DB%92-%D9%86%D8%A7%D9%85-%D8%A7%DB%8C%DA%A9-%D8%AE%D8%B7-%DA%A9%D9%86%DB%81%DB%8C%D8%A7-%D9%84%D8%A7%D9%84-%DA%A9%D9%BE%D9%88%D8%B1-%DA%A9-am
سائیں بابا کا مشورہ
میرے پیارے بیٹے مسٹر غمگین!
جس وقت تمھارا خط ملا، میں ایک بڑے سے پانی کے پائپ کی طرف دیکھ رہا تھا جو سامنے سڑک پر پڑا تھا۔ ایک بھوری آنکھوں والا ننھا سا لڑکا اس پائپ میں داخل ہوتا اور دوسری طرف سے نکل جاتا، تو فرطِ مسرت سے اس کی آنکھیں تابناک ہو جاتیں۔ وہ اُچھلتا کودتا پھر پائپ کے پہلے سرے سے داخل ہو جاتا…
ایسے میں تمھارا خط ملا۔ لکھا تھا: ’’سائیں بابا! میں ایک غمگین انسان ہوں۔ خدارا مجھے مسرت کا راز بتاؤ۔ یہ کہاں ملتی ہے، کیسے ملتی ہے، کس کو ملتی ہے۔ ‘‘
مسٹر غمگین! اگر تم اس وقت میرے پاس ہوتے، تو تم سے فوراً کہتا کہ اس پائپ میں داخل ہو جاؤ اور یہ پروا مت کرو کہ تمھاری استری شدہ پتلون مٹی سے لتھڑ جائے گی۔ اس وقت مسرت ہم سے صرف چھے گز کے فاصلے پر تھی اور مٹی سے لتھڑی پتلون دھوئی بھی جا سکتی تھی…
لیکن ہائے ! تم اس وقت بہت دور تھے، کلکتہ میں۔ نجانے تم اتنی دور کیوں ہو؟ مسرت سے اتنی دور! اس دوری کی وجہ سے تمھاری پتلون مٹی سے بچی ہوئی ہے … اور سنو! کیا کلکتہ میں پانی کے پائپ نہیں ہوتے ؟ کیا کلکتہ میں بھوری آنکھوں والا کوئی ننھا لڑکا نہیں ہوتا؟ میرا مطلب ہے، مجھے خط لکھنے کے بجائے اگر تم کوئی پائپ تلاش کر لو، تو کیا حرج ہے۔
مسرت کا راز…؟ مسرت کے ساتھ یہ لفظ ’’راز‘‘ لٹکا دینا ان میل حرکت ہے۔ ایسی حرکت صرف پختہ ذہن کے لوگ ہی کرتے ہیں، بھوری آنکھوں والے ننھے لڑکے نہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ ایک فلسفیانہ حرکت ہے۔ مگر پائپ میں داخل ہونے میں کوئی فلاسفی نہیں۔ کیا پانی کا پائپ کوئی راز ہے ؟ بالکل نہیں، وہ تو سب کے سامنے سڑک پر پڑا رہتا ہے۔ مگر لوگ اس طرف نہیں بلکہ دور ہمالیہ میں کسی گپھا کی طرف جاتے ہیں تاکہ وہاں جا کر مسرت حاصل کریں۔ ہمالیہ بہت دور ہے مگر پائپ بہت نزدیک بلکہ وہ بھینس اس سے بھی زیادہ قریب ہے جو سامنے جوہڑ میں نہاتے ہوئے خوش ہو رہی ہے۔
بھینس نہانے کے لیے ہمالیہ نہیں گئی۔ کیونکہ وہ فلاسفر نہیں اور نہ اس نے فلسفے کی کوئی کتاب پڑھی ہے۔ مگر مسٹر غمگین! تم نہ بھوری آنکھوں والے لڑکے ہو اور نہ بھینس۔ اس لیے تم مجھ سے مسرت کا راز پوچھنے بیٹھ گئے۔ میں کہتا ہوں کہ تم ایک بھینس خرید لو اور اسے گھر لے آؤ۔ اور پھر اسے کھونٹے سے باندھ لو۔ پھر اپنی ننھی بیٹی کو اپنے پاس بلا لو اور اس سے کہو:
’’بیٹی! یہ کیا ہے ؟‘‘
’’یہ بھینس ہے۔ ‘‘
’’اس کے تھنوں میں کیا ہے ؟‘‘
’’دودھ ہے۔ ‘‘
’’دودھ کون پیے گا؟‘‘
’’میں پیوں گی۔ ‘‘
تو وہ لمحہ… مسٹر غمگین! وہی ایک ننھا سا لمحہ تمھیں بیکراں مسرت عطا کرے گا۔ مگر افسوس تم بھینس نہیں خریدتے بلکہ خط لکھنے بیٹھ جاتے ہو۔ چلو اگر بھینس مہنگی ہے تو ایک بکری خرید لو۔ پرسوں ایک مفلس دیہاتی نوجوان کو دیکھا کہ اُس نے پیادہ راہ پر بیٹھنے والے ایک منہاری فروش سے کانچ کا ایک ہار آٹھ آنے میں خریدا۔ اور اپنی دیہاتی محبوبہ کی گردن میں اپنے ہاتھ سے پہنا دیا۔ تب فرطِ مسرت سے اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ میں نے اس سے یہ نہیں کہا کہ تم فینسی جیولرز شاپ پر جا کر سونے کا ہار خریدو۔ میں تم سے بھی نہیں کہتا کہ بھینس ہی خریدو، نہیں، بکری ہی خرید لو۔ کانچ کا ہار ہو یا بکری، مگر شرط یہ ہے کہ فرطِ مسرت سے ہاتھ ضرور کانپنا چاہیے۔
یہ جھوٹ ہے کہ مسرت ابدی ہوتی ہے۔ جو لوگ یہ پروپیگنڈا کریں، وہ در اصل مسرت کی تجارت کرتے ہیں۔ وہ مسرت کو بوتلوں میں بند کر دکان کی الماریوں میں رکھتے ہیں۔ ان پر خوب صورت اور سریع الاثرلیبل لگاتے ہیں۔ اس پر انگڑائی لیتی دوشیزہ کی تصویر بھی چسپاں کرتے ہیں۔ اگر ان کا بس چلے، تو آسمان پر اڑتے، رقص کرتے بادلوں کو بھی شیشے کے جگمگاتے شو کیس میں ساڑھی پہنا کر بند کر دیں۔ اور جب آپ نم آلود بادلوں سے بھیگنے کی مسرت حاصل کرنا چاہیں، تو ظاہر ہے کہ اس کے لیے آپ کو شو کیس کا شیشہ توڑنا پڑے گا اور مسرت کا بیوپاری شور مچا دے گا: ’’پولیس! پولیس! پولیس۔ ‘‘
اس لیے بادلوں کو ہمیشہ آسمان پر ہی رہنا چاہیے۔ میرا مطلب ہے کہ وہ ہماری چھت سے اتنے دور رہیں کہ ہمارا ہاتھ اُن تک نہ پہنچ سکے۔ ورنہ ہمارے ہاتھوں کے لمس ہی سے وہ مرجھا جائیں گے۔ بادل تو پھولوں کی طرح ہیں اور تم جانتے ہو کہ ہم نے پھولوں کے نرخ مقرر کر رکھے ہیں۔ (کیونکہ ہم علم ریاضی بھی جانتے ہیں ) اگر مسرت کے سوداگروں کو یہ علم ہو جائے کہ پانی والے پائپ سے بھی بھوری آنکھوں والا لڑکا مسرت حاصل کر سکتا ہے، تو وہ اسے بھی سڑک سے اٹھا شیشے کے شو کیس میں بند کر
دیں۔ وہ اس پر مندرجہ ذیل نرخ نامہ لگائیں گے:
ایک مرتبہ پائپ میں داخلہ… فیس آٹھ آنے
پانچ مرتبہ داخلہ… فیس اڑھائی روپے،
تھوک مرتبہ داخلہ… آدھی فیس کی رعایت
پچاس مرتبہ داخل ہونے والوں کو… ایک غبارہ انعام۔
مسٹر غمگین! اگر تمھارے پاس اتنی دولت ہو کہ تم جنم سے لے کر مرن تک بغیر ایک لمحہ ضائع کیے مسلسل نرخ نامے کے مطابق پائپ میں داخل ہوتے رہو، تو تمھیں ابدی مسرت مل سکتی ہے۔ مگر یاد رکھو کہ بھینس عمر بھر پانی کے جوہڑ میں نہیں رہ سکتی۔ تم ایک امیر ترین آدمی کا منہ چڑا کر کہو کہ تمھاری ناک پر مکھی بیٹھی ہے۔ وہ سخت مشتعل ہو جائے گا کہ مسٹر غمگین، جو اپنے بوٹ پر پالش نہیں کرا سکتا، میرے ایسے ارب پتی کو مکھی کا طعنہ دیتا ہے۔ لہٰذا وہ مکھی کے بجائے تم پر جھپٹ پڑے گا…
میرا مطلب یہ ہے کہ جیسے بھینس مسلسل جوہڑ میں رہنے سے مسرت حاصل نہیں کر سکتی، ویسے ہی امیر ترین آدمی بھی مسلسل پھول خرید کر مسرت حاصل نہیں پا سکتا۔ کیونکہ ابدی مسرت کا کوئی وجود نہیں، بلکہ ایک نہ ایک دن ناک پر مکھی ضرور بیٹھتی اور غم دے جاتی ہے !
کیا تم سمجھتے ہو کہ مکھی کا طعنہ سننے کے بعد اس امیر آدمی کو رات بھر نیند آئے گی؟ کبھی نہیں، چاہے وہ گلستانِ ارم کے سارے پھول خرید کر بھی اپنے بستر پر کیوں نہ بچھا دے۔
اس لیے میں یہ سن کر سکتے میں آ گیا کہ تم مستقل طور پر غمگین رہتے ہو۔ اگر ابدی مسرت کوئی چیز نہیں، تو ابدی غم کا بھی کہیں وجود نہیں۔ جھوٹ مت بولو۔ اب سنو۔ میرے دو دوست ہیں۔ ایک کا نام مسٹر وائے ہے اور دوسرے کا مسٹر ہائے۔ مسٹر وائے جب بھی چلے اس کے پاؤں زمین پر نہیں ٹکتے۔ اچھل پھاند اس کا شیوہ ہے۔ وہ نہایت معمولی، ہلکی سی بات پر خوشی سے بے چین ہو جاتا ہے۔ راستے پر کھڑے بجلی کے کھمبے پر جاتے جاتے اپنی چھوٹی سی سوٹی مار دیتا ہے۔ کھمبے میں سے ایک لمبی ’’جھن‘‘ کی آواز نکلتی ہے۔
’’آہاہاہا۔ ‘‘ مسٹر وائے کی آنکھیں مسرت سے پھیل جاتی ہیں۔ وہ احباب کو مخاطب ہوتے ہوئے کہتا ہے۔ ’’دیکھا کیسی آواز آتی ہے۔ ’’جھن‘‘ اگر تم کہو تو ایک بار پھر سوٹی لگا دوں۔ ‘‘ یہ رہی ’’جھن!‘‘
وہ انبساط کے جوش میں کلائی سے پکڑ کر مجھے اتنے زور سے کھینچ لیتا ہے کہ میں گرتے گرتے بچتا ہوں۔
اور مسٹر ہائے، ہمارا وہ نازک اور ہر وقت نکٹائی کی گرہ درست کرتے رہنے والا دوست بڑی گمبھیرتا سے کہتا ہے:
’’یہ صریحاً بدتمیزی ہے۔ ڈنڈا مارنے سے کھمبے کا روغن اتر گیا۔ یہ قومی سرمائے کا نقصان ہے۔ ‘‘
مسٹر غمگین! جھن کی آواز اگر نہ نکالی جائے، تو قومی سرمایہ محفوظ رہتا ہے۔ مگر مسٹر ہائے، جھن کی لذت محسوس نہیں کرنا چاہتا کیونکہ وہ عالم فاضل آدمی ہے۔ وہ جب بھی پیگ اٹھا کر پیے تو آہ بھر کر کہتا ہے: ’’میں حیران ہوں کہ تم لوگ پاگلوں کی طرح کیوں اکٹھے ہو کر پینے بیٹھ جاتے ہو۔ میں پوچھتا ہوں کہ آخر تم کیوں پیتے ہو؟ کیا اپنا غم چھپانے کے لیے ؟‘‘
’’نہیں مسرت پیدا کرنے کے لیے !‘‘ مسٹر وائے جواب دیتا ہے۔
’’فضول… اپنے آپ سے جھوٹ مت بولو، غم چھپانے کو مسرت پیدا کرنا کہہ رہے ہو۔ تم یہ کیوں نہیں کہتے کہ ہم سب غمگین اور دکھی آدمی ہیں۔ ‘‘
’’غم کی کیا تعریف ہے ؟‘‘ ایک اور دوست پوچھتے ہیں۔
’’میں بتاؤں ؟ مسٹر وائے لمبی گمبھیر بحث پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ ’’ارسطو نے کہا تھا کہ غم انسان کے لمحات…‘‘
’’جھن‘‘
اتنے میں آواز آتی ہے۔ سب لوگ یہ دیکھ کر حیران ہو جاتے ہیں کہ مسٹر وائے چھلانگ لگا کر قریب کی آہنی سیڑھی پر جا بیٹھا ہے اور سیڑھی پر اپنا ڈنڈا بجا رہا ہے۔ ‘‘
’’جھن‘‘
مسٹر وائے اعلان کرتا ہے:
’’دوستو! ارسطو نے کہا تھا کہ جھن! یعنی ارسطو نے کہا تھا کہ جھن!… یعنی …مارا وہ تیر سینے میں میرے کہ جھن!‘‘
چاروں طرف ایک قہقہہ گونج اٹھتا ہے۔ مسٹر ہائے کی فلسفیانہ بحث کا سرکٹ بھی قہقہوں پر اچھلنے لگتا ہے۔ وہ اور بھی غمگین ہو جاتا ہے۔ مسٹر ہائے کی مسرت اس میں ہے کہ کوئی اس کے ساتھ بیٹھ کر غم کے فلسفے پر بحث کرتا رہے۔ مگر مسٹر وائے بڑا ستمگر ہے، اسے یہ موقع ہی نہیں دیتا۔
لہٰذا مسٹر غمگین! میں تم سے پھر کہوں گا کہ کلکتہ کی کسی سڑک پر پڑے پائپ کو تلاش کرو اور اس پر سوٹی مار کر ’’جھن ‘‘ کی سی آواز پیدا کرو۔ اور وعدہ کرو کہ تم مجھے اس جھن کے بعد خط نہیں لکھا کرو گے۔ ‘‘
تمھارا
سائیں بابا
<https: //www.facebook.com/Urdu.Nasr/posts/750284968426237>
دانت نکلوانا
شیکسپئر نے ایک جگہ لکھا ہے کہ شاکر سے شاکر انسان بھی دانت کا درد برداشت نہیں کر سکتا۔ اس فقرے کی صداقت کو صرف وہی لوگ محسوس کر سکتے ہیں جن کو شیکسپئر یا میری طرح دانت کا درد ہوا ہو۔ ورنہ عام انسان تو اس فقرے کو پڑھ کر بے اختیار مسکرا دیتا ہے اور کہتا ہے۔ یہ شیکسپئر بھی کتنا سادہ لوح آدمی تھا۔ اگر دانت کے درد کی بجائے قولنج کا درد، یا جگر کا درد لکھ دیتا تو شاید میں مان جاتا۔ مگر دانت کا درد !۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ حتیٰ کہ کسی دن اس کو اچانک رات کے گیارہ بجے دانت کا درد آ دباتا ہے۔ پہلے پہلے وہ شاکر بننے اور شیکسپئر کو جھٹلانے کی ناکام کوشش کرتا ہے اور دل کو یوں تسلی دیتا ہے کہ آخر غالب مرحوم نے بھی تو فرمایا ہے کہ ع
’’ درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا ‘‘
پھر خواہ مخواہ پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ مگر جب دو دن کے بعد یہ درد اسے رات کو مطلقاً سونے نہیں دیتا۔ اور اس کی وجہ سے وہ کھر میں کسی اور کو مطلقاً سونے نہیں دیتا۔ تو اسے شیکسپئر کی بات کا کچھ یقین ہونے لگتا ہے۔ اور تیسرے دن علی الصبح وہ اپنے آپ کو کسی دندان ساز کے ویٹنگ روم بیٹھا ہوا پاتا ہے۔
بعینہ یہی حال پچھلے ہفتہ میرا ہوا۔ ویسے تو میں تقریباً ہر درد سے آشنا ہوں۔ معلوم نہ تھا کہ دانت کے درد میں وہ تڑپ پوشیدہ ہے کہ درد دل ‘ درد گردہ ‘ درد جگر تو اس کہ مقابلہ میں ’’ عین راحت ‘‘ ہیں۔ چنانچہ جب متواتر تین رات کراہنے اور ہر ہمسائے کے تجربے سے فائدہ اٹھانے کے بعد بھی درد میں کچھ افاقہ نہ ہوا تو میں نے ڈاکٹر اندر کمار کی دکان کا رخ کیا۔ آپ دانتوں کی بیماریوں کے ماہر ہیں اور دانت بجلی سے نکلتے ہیں۔ شاید مو خر الذ کر چیز نے مجھے ان کی جانب رجوع کرنے کو اکسایا۔ کیونکہ بجلی کے سوا شاید ہی کوئی دوسری چیز مجھے بچا سکتی۔ چنانچہ میں نے ان کی دو کان میں لپکتے ہوئے کہا!
’’ میری بائیں داڑھ فوراً بجلی سے نکلا دیجئے ‘‘
ڈاکٹر صاحب نے حیرت سے میری طرف تکتے ہوئے کہا۔ آپ کہاں سے تشریف لائے ہیں ؟
’’ آپ مجھ سے راہ و رسم بعد میں بڑھا سکتے ہیں۔ پہلے میری بائیں داڑھ نکالیے ‘‘۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا تشریف رکھیے ‘
گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ ابھی نکالے دیتا ہوں، ،۔ اس کے بعد آپ نے مجھ پر سوالات کی بمباری شروع کر دی۔ مثلاً کب سے درد ہے ؟،، کیوں درد ہے ؟ اوپر والی داڑھ میں ہے یا نیچے والی داڑھ ؟ اس سے پہلے بھی کبھی دانت نکلوایا ہے ! کیا صرف ایک ہی دانت نکلوانا چاہتے ہیں ؟‘‘
اب میں تھا کہ درد سے بیتاب ہو رہا تھا اور ہر سوال کا جواب دینے کی مجھ میں ہمت نہ تھی۔ مگر ڈاکٹر صاحب تھے کہ برابر مسکرائے جا رہے تھے، اور جب میں درد سے کراہتا تو ان کی مسکراہٹ زیادہ دل آویز اور دل کش ہو جاتی آخر جب انہوں نے دو تین دفعہ میرے منع کرنے کے باوجود اچھی طرح داڑھ کو ہلایا اور دیکھا کہ شدت درد سے مجھ پر بے ہوشی
طاری ہوا چاہتی ہے تو انہیں یقین ہو گیا کہ واقعی دانت کا درد ہے۔ اس کے بعد انہوں نے مجھے کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود دو تین اوزار کرم پانی میں ابالنے لگے۔ میں نے کہا۔ ’’ اجی حضرت جلدی کیجئے۔ بجلی سے میری داڑھ نکالیے ‘‘۔
’’ کہنے لگے ‘‘ آج بجلی خراب ہو گئی ہے اس لیے داڑھ ہاتھ سے ہی نکالنا پڑے گی ‘‘۔
جتنا عرصہ اوزار گرم ہوے رہے وہ مجھے دانت کی خرابیوں سے پیدا ہونے والی بیماریوں پر لیکچر دیتے رہے۔ ان کے خیال کے مطابق دنیا کی تمام بیماریاں دانتوں ہی کے خراب ہو جانے سے پیدا ہوتی ہیں۔ بد ہضمی سے تپ دق تک جتنے امراض ہیں۔ ان کا علاج داڑھ نکلوانا ہے۔ اس لیکچر میں آپ نے اس ملک کے لوگوں کی عادات پر بھی کچھ تبصرہ کیا۔ مثلاً ‘‘۔ یہاں کے لوگ بے حد بے پرواہ واقع ہوئے ہیں۔ امریکہ اور انگلینڈ میں ہر ایک آدمی سال میں چار دفعہ دانت صاف کرواتا ہے۔
مگر یہاں لوگ اس وقت تک دندان ساز کی دکان کا رخ نہیں کرتے جب تک دانت کو کیڑا لگ کر سارا مسوڑھا تباہ نہ ہو جائے افسوس تو اس بات کا ہے کہ آپ جیسے پڑھے لکھے آدمی بھی دانتوں کی ذرا پرواہ نہیں کرتے اگر لوگ ذرا محتاط ہوں تو آج ان کی مشکلیں حل ہو جائیں۔
اس قسم کے متعدد جملے وہ ایک ہی سانس میں کہہ گئے حتیٰ کہ مجھے محسوس ہونے لگا کہ ہمارے ملک کے سچے خیر خواہ صرف آپ ہیں۔ اور اگر آپ نہ ہوتے تو خدا جانے ہمارے ملک کی کیا حالت ہوتی۔
جب اوزار گرم ہو چکے تو ڈاکٹر صاحب نے فرمایا۔ اب انجکشن ہو گا انجکشن کے نام سے مجھے روز اول ہی سے چڑ ہے۔ کیونکہ میرے خیال میں انجکشن مہذب طریقے سے ایذا پہچانے کا دوسرا نام ہے۔ مگر ڈاکٹر صاحب نے یقین دلایا کہ انجکشن سے کسی قسم کا درد نہیں ہو گا۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ وہ کسی قدر مبالغہ آمیزی سے کام لے رہے تھے۔ کیونکہ انجکشن سے کافی درد ہوا۔ انجکشن کرنے کے دو تین منٹ بعد انہوں نے زنبور پکڑا۔ اور اب مجھے وہ انسان کی بجائے موت کا فرشتہ نظر آنے لگے۔ دل میں آیا کہ ہمت کر کے بھاگ نکلوں۔ میں اٹھنا ہی چاہتا تھا۔ کہ انہوں نے ذرا نرمی سے کہا۔
’’ میں آپ کو بارھویں دفعہ پھر یقین دلاتا ہوں کہ آپ کو مطلقاً درد نہیں ہو گا۔ میں نے دبی زبان سے کہا۔ ’’ میں آپ کو بارہویں دفعہ یقین دلاتا ہوں کہ مجھے آپ کی بات کا یقین نہیں ‘‘۔ مگر انہوں نے معاملے کو طول نہ دیتے ہوئے مجھے منہ کھولنے کو کہا۔ وہ داڑھ کو زنبور کی گرفت میں لائے اور مجھے محسوس ہوا کہ اب وصیت کرنے اور احباب اور اقربا کو آخری تلقین کرنے کا وقت آ پہنچا ہے۔ انہوں نے زنبور کو چھٹکا دیا اور درد حد سے گزر کر ’’ قضا‘‘ معلوم ہونے لگا۔ انہوں نے دوسرا جھٹکا دیا اور میں سمجھا کہ اب انہوں نے مجھے ضرور جان سے مارنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس کے بعد دانت اور زنبور میں ایک باقاعدہ کشتی شروع ہوئی۔ داڑھ اپنی جگہ پر اس طرح قائم تھی جس طرح قطب مینار ہزاروں زلزلوں کے باوجود اب تک اپنی جگہ پر جما ہوا ہے۔ مگر اس کھینچا تانی میں میں مفت میں ذبح ہو رہا تھا۔ یہ کشمکش یا کشتی کافی عرصہ تک جاری رہی اور آخر زنبور اور دانت میں یہ تصفیہ ہوا کہ آدھی داڑھ زنبور کے منہ میں اور آدھی میرے منہ میں رہے۔ ڈاکٹر صاحب اس وقت پسینہ پسینہ ہو رہے تھے ان کی گھبراہٹ دیکھ کر قریب تھا کہ میں بھی ہوش و حواس کھو بیٹھوں کہ انہوں نے بناوٹی مسکراہٹ کے ساتھ فرمایا۔ ’’ توبہ کتنی گہرائی میں ہے یہ داڑھ بہت کوشش کی کہ نہ ٹوٹے مگر ٹوٹ ہی گئی ‘‘۔
درد سے کراہتے ہوئے میں نے کہا۔ ’’ اب کیا ہو گا ؟‘‘
’’ گھبرانے کی ضرورت نہیں ‘‘۔
اس کے بعد انہوں نے جس طرح میری باقی کی آدھی داڑھ نکالی یہ صرف وہی لوگ جان سکتے ہیں جنہیں دانت ٹوٹنے کا سانحہ کبھی پیش آیا ہو۔ بس صرف یہ سمجھ لیجئے کہ میری وہی حالت تھی۔ جو آپ کی ہو۔ اگر میں آپ کے بدن میں متعدد جگہوں سے لمبی لمبی سوئیاں چبھوتا جاؤں اور ساتھ ساتھ آپ کو تسلی دیتا رہوں کہ گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں تقریباً آدھ گھنٹے کی پیہم کوشش کے بعد ڈاکٹر صاحب باقی داڑھ نکالنے میں کامیاب ہو گئے۔
اس عرصے میں مجھے ایسا معلوم ہوا کہ کئی بار اگلے جہان پہنچا ہوں اور کئی بار وہاں سے لوٹا ہوں۔ اور پھر آخر کار میں نے اپنے آپ کو نیم بسمل کی سی حالت میں ڈاکٹر صاحب کی کرسی پر بیٹھا ہوا پایا۔ جب کچھ ہوش سنبھالا تو ایسا معلوم ہوا کہ منہ سے بے تحاشا خون بہہ ریا ہے اور ڈاکٹر صاحب ایک گلاس لے کر جس میں خون سے ملتی جلتی رنگت والی کوئی دوا گھلی ہوئی ہے کرسی کے نزدیک کھڑے ہیں۔ اس کے بعد چند ثانئے نہایت عذاب کی حالت میں گزرے۔ ڈاکٹر صاحب غرارے کرنے کو کہہ رہے تھے۔ اور میں انہیں ‘ ایمبولنس کار کے لیے فون کرنے کو عرض کر رہا تھا۔ اور ساتھ ہی سوچ رہا تھا کہ نزدیک کے پولیس اسٹیشن میں جا کر اس سانحہ کی رپورٹ درج کراؤں تو شاید ضرورت کے وقت کام آئے۔ بارے کہیں پندرہ منٹ کے بعد خون بہنا بند ہوا۔ کچھ ڈھارس بند ہی مگر اب سخت درد ہونا شروع ہوا۔ اور میں نے بہتری اسی میں سمجھی کہ ڈاکٹر صاحب کی دکان میں بے گور و کفن مرنے کی نسبت گھر لوٹ چلوں۔ تانگہ میں بیٹھ کر بڑی مشکل سے گھر پہنچا۔ اور ایک گھنٹہ تک اوندھے منہ بستر میں لیٹا کراہتا رہا۔ اس کے بعد جوں جوں درد کم ہوتا گیا گال سو جتا گیا۔ حتیٰ کہ دو تین گھنٹے کے بعد مجھے ایسا معلوم ہونے لگا گویا میرے جسم پر کسی اور شخص کا چہرہ لگا ہوا ہے۔
اس وقت میں سمجھا کہ کیوں میرے ہم وطن دندان ساز کی دکان کا آسانی سے رخ نہیں کرتے۔
<http: //urdu.website/%D8%AF%D8%A7%D9%86%D8%AA-%D9%86%DA%A9%D9%84%D9%88%D8%A7%D9%86%D8%A7%DA%A9%D9%86%DB%81%DB%8C%D8%A7-%D9%84%D8%A7%D9%84-%DA%A9%D9%BE%D9%88%D8%B1
مجھے میرے بزرگوں سے بچاؤ
میں ایک چھوٹا سا لڑکا ہوں۔ ایک بہت بڑے گھر میں رہتا ہوں۔ زندگی کے دن کاٹتا ہوں۔ چونکہ سب سے چھوٹا ہوں اس لیے گھر میں سب میرے بزرگ کہلاتے ہیں۔ یہ سب مجھ سے بے انتہا محبت کرتے ہیں۔ انھیں چاہے اپنی صحت کا خیال نہ رہے، میری صحت کا خیال ضرور ستاتا ہے۔ دادا جی کو ہی لیجیے۔ یہ مجھے گھر سے باہر نہیں نکلنے دیتے کیونکہ باہر گرمی یا برف پڑ رہی ہے۔ بارش ہو رہی ہے یا درختوں کے پتے جھڑ رہے ہیں۔ کیا معلوم کوئی پتّہ میرے سر پر تڑاخ سے لگے اور میری کھوپڑی پھوٹ جائے۔ ان کے خیال میں گھر اچھا خاصا قید خانہ ہونا چاہیے۔ ان کا بس چلے تو ہر ایک گھر کو جس میں بچے ہوتے ہیں سنٹرل جیل میں تبدیل کر کے رکھ دیں۔ وہ فرماتے ہیں بچوں کو بزرگوں کی خدمت کرنا چاہیے۔ یہی وجہ ہے وہ ہر وقت مجھ سے چلم بھرواتے یا پاؤں دبواتے رہتے ہیں۔
دادی جی بہت اچھی ہیں۔ پوپلا منھ، چہرے پر بے شمار جھریاں اور خیالات بے حد پرانے۔ ہر وقت مجھے بھوتوں جنوں اور چڑیلوں کی باتیں سنا سنا کر ڈراتی رہتی ہیں۔ ’’ دیکھ بیٹا مندر کے پاس جو پیپل ہے اس کے نیچے مت کھیلنا۔ اس کے اوپر ایک بھوت رہتا ہے۔ آج سے پچاس سال پہلے جب میری شادی نہیں ہوئی تھی میں اپنی ایک سہیلی کے ساتھ اس پیپل کے نیچے کھیل رہی تھی کہ یک لخت میری سہیلی بے ہوش ہو گئ۔ اس طرح وہ سات دفعہ ہوش میں آئی اور سات دفعہ بے ہوش ہوئی۔ جب اسے ہوش آیا تو اس نے چیخ کر کہا ’’بھوت‘‘ ! اور وہ پھر بے ہوش ہو گئی۔ اسے گھر پہنچایا گیا جہاں وہ سات دن کے بعد مر گئی اور وہاں، پرانی سرائے کے پاس جو کنواں ہے اس کے نزدیک مت پھٹکنا۔ اس میں ایک چڑیل رہتی ہے۔ وہ بچوں کا کلیجہ نکال کر کھا جاتی ہے۔ اس چڑیل کی یہی خوراک ہے۔ ‘‘
ماتا جی کو ہر وقت یہ خدشہ لگا رہتا ہے کہ پر ماتما نہ کرے مجھے کچھ ہو گیا تو کیا ہو گا؟ وہ مجھے تالاب میں تیرنے کے لیے اس لیے نہیں جانے دیتیں کہ اگر میں ڈوب گیا تو ؟ پٹاخوں اور پھلجھڑیوں سے اس لیے نہیں کھیلنے دیتیں کہ اگر کپڑوں میں آگ لگ گئی تو ؟ پچھلے دنوں میں کرکٹ کھیلنا چاہتا تھا۔ ماتا جی کو پتا لگ گیا۔ کہنے لگیں، کرکٹ مت کھیلنا۔ بڑا خطرناک کھیل ہے۔ پرماتما نہ کرے اگر گیند آنکھ پر لگ گئی تو ؟
بڑے بھائی صاحب کا خیال ہے جو چیز بڑوں کے لیے بے ضر رہے چھوٹوں کے لیے سخت مضر ہے۔ خود چوبیس گھنٹے پان کھاتے ہیں لیکن اگر کبھی مجھے پان کھاتا دیکھ لیں فوراً ناک بھوں چڑھائیں گے۔ پان نہیں کھانا چاہیے۔ بہت گندی عادت ہے۔ سنیما دیکھنے کے بہت شوقین ہیں لیکن اگر میں اصرار کروں تو کہیں گے، چھوٹوں کو فلمیں نہیں دیکھنا چاہیے۔ اخلاق پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔
بڑی بہن کو گانے بجانے کا شوق ہے۔ ان کی فرمائشیں اس قسم کی ہوتی ہیں ’’ہارمونیم پھر خراب ہو گیا ہے اسے ٹھیک کرا لاؤ۔ ستار کے دو تار ٹوٹ گئے ہیں اسے میوزیکل ہاؤس لے جاؤ۔ طبلہ بڑی خوفناک آوازیں نکالنے لگا ہے اسے فلاں دکان پر چھوڑ آؤ۔ ‘‘ جب انھیں کوئی کام لینا ہو تو بڑی میٹھی بن جاتی ہیں۔ کام نہ ہو تو کاٹنے کو دوڑتی ہیں۔ خاص کر جب ان کی سہیلیاں آتی ہیں اور وہ طرح طرح کی فضول باتیں بناتی ہیں، اس وقت میں انھیں زہر لگنے لگتا ہوں۔
لے دے کر سارے گھر میں ایک غمگسار ہے اور وہ ہے میرا کتّا ’’ موتی ‘‘۔ بڑا شریف جانور ہے۔ وہ نہ تو بھوتوں اور چڑیلوں کے قصّے سنا کر مجھے خوف زدہ کرنے کی کوشش کرتا، نہ مجھے نالائق کہہ کر میری حوصلہ شکنی کرتا ہے اور نہ اسے جاسوسی ناول پڑھنے کا شوق ہے اور نہ ستار بجانے کا۔ بس ذرا موج میں آئے تو تھوڑا سا بھونک لیتا ہے۔ جب اپنے بزرگوں سے تنگ آ جاتا ہوں تو اسے لے کر جنگل میں نکل جاتا ہوں۔ وہاں ہم دونوں تیتریوں کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ دادا جی اور دادی جی سے دور۔ پتا جی اور ماتا جی سے دور۔ بھائی اور بہن کی دسترس سے دور اور کبھی کبھی کسی درخت کی چھاؤں میں موتی کے ساتھ سستاتے ہوئے میں سوچنے لگتا ہوں، کاش! میرے بزرگ سمجھ سکتے کہ میں بھی انسان ہوں۔ یا کاش، وہ اتنی جلدی نہ بھول جاتے کہ وہ کبھی میری طرح ایک چھوٹا سا لڑکا ہوا کرتے تھے۔
<http: //najeebayubi.blogspot.in/2017/03/blog-post_10.html>
٭٭٭
ہم نے کتا پالا
"آپ خواہ مخواہ کتوں سے ڈرتے ہیں۔ ہر کتا باؤلا نہیں ہوتا۔ جیسے ہر انسان پاگل نہیں ہوتا۔ اور پھر یہ تو "ال سیشن ” ہے۔ بہت ذہین اور وفادار۔ ” کیپٹن حمید نے ہماری ڈھارس بندھاتے ہوئے کہا۔ کیپٹن حمید کو کتے پالنے کا شوق ہے۔ شوق نہیں جنون ہے۔ کتوں کو وہ اتنی محبت سے پالتے ہیں جو والدین کو اپنے اکلوتے بچے سے ہوتی ہے۔ میں اس معاملہ میں ان کی ضد واقع ہوا ہوں۔ کتے کو دیکھ کر چاہے وہ کتنا شریف اور بے ضرر کیوں نہ ہو مجھے اس سے خدا واسطے کا بیر ہو جاتا ہے۔ میرا بس چلے تو تمام کتوں کو ایک لمبی چوڑی حوالات میں بند کر دوں کیپٹن حمید میری اس کمزوری سے بخوبی واقف ہیں۔ اسی لئے وہ بار بار مجھے اپنا نظریہ بدلنے کے لئے کہہ رہے تھے۔ دیکھئے "ٹائیگر "(یہ ان کے کتے کا نام ہے ) دو چار دن میں آپ سے مانوس ہو جائے گا۔ اور پھر آپ محسوس کریں گے کہ جب تک وہ چائے کی میز پر موجود نہ ہوں آپ چائے نہیں پی سکتے۔ کھانے کے وقت برابر وہ آپ کے ساتھ مل کر کھانا کھائے گا اور آپ کو احساس ہو گا جیسے آپ کسی بہت پیارے مہمان کی خاطر و تواضع کر رہے ہیں۔ سیر پر آپ کے ساتھ جائے گا اور۔ ” "لیکن کیپٹن صاحب میں تو کتوں کی صورت تک سے بیزار ہوں۔ میں …… ”
"ارے بھئی نہیں۔ مہینہ بھرکی تو بات ہے۔ میں مدراس سے واپس آتے ہی اسے اپنے ہاں لے جاؤں گا۔ ”
"معاف کیجئے میں آپ کا کتا….. ”
"آپ تو بچوں کی طرح ضد کرتے ہیں۔ ذرا رکھ کر تو دیکھئے اسے جب آپ واپس کریں گے تو آپ کی آنکھوں میں آنسو ہوں گے۔ ”
کیپٹن حمید "ٹائیگر "کو میرے ہاں چھوڑ گئے، جیسا کہ انہوں نے فرمایا تھا۔ ٹائیگر بہت جلد مجھ سے بے تکلف ہو گیا اور اسی بے تکلفی کی وجہ سے مجھے طرح طرح کی پریشانیاں اٹھانا پڑیں۔ یہ شاید تیسرے چوتھے دن کی بات ہے کہ میں نیا سوٹ پہن کر ایک پارٹی میں شرکت کرنے کے لئے جا رہا تھا جونہی ڈیوڑھی میں سے کہ جہاں ٹائیگر بندھا ہوا تھا گزرا یک لخت وہ اچھل کر ٹانگوں پر کھڑا ہو گیا اور مجھ سے یوں بغلگیر ہوا جیسے برسوں کے بعد ملاقات ہوئی تھی۔ لگا اپنی لمبی لمبی زبان میرے کوٹ اور پینٹ پر پھیرنے۔ چنانچہ جتنی رال اس کے مونہہ میں تھی، وہ سب اس نے میرے لباس کی نذر کر دی۔ اس کے پنجے مٹی سے اٹے ہوئے تھے۔ اس لئے سوٹ پر جگہ جگہ بدنما دھبے لگ گئے۔ اپنی دانست میں وہ محبت اور بے تکلفی کا اظہار کر رہا تھا اور ادھر ہم دل ہی دل میں پیچ و تاب کھا رہے تھے کہ کمبخت نے بڑھیا سوٹ کا ستیاناس کر دیا۔ سوٹ تبدیل کیا اور پچھلے دروازے سے باہر گئے پارٹی سے واپس آئے تو بالکل بھول گئے کہ ڈیوڑھی میں ٹائیگر بندھا ہوا تھا۔ اس کے قریب سے جو گزرے تو اس نے اچھل کر ہمارا خیرمقدم کیا اور اتنی گرمجوشی سے کہ پہلے خیرمقدم کو مات کر دیا۔ ہم گرتے گرتے بچے جب وہ ہمارا منہ چاٹنے کی بار بار کامیاب کوشش کر رہا تھا۔ ہم نے ہاتھ سے منع کرنے کی سعی کی۔ اس نے ہمارا ہاتھ اپنے مضبوط دانتوں کی گرفت میں لے لیا۔ گو خدا کا شکر ہے کہ کاٹا نہیں، اب جتنا اسے سمجھاتے ہیں کہ ٹائیگر صاحب مروت کی حد ہو گئی۔ اب جانے بھی دیجئے۔ اتنا ہی وہ مشتاق ہوتا جاتا ہے۔ بارے جب اس کی تسلی ہوئی کہ بے تکلفی کا حق ادا ہو گیا تو اس نے اندر آنے کی اجازت دے دی۔
بیٹھک میں آئے اور ایک کتاب پڑھنے کے لئے نکالی۔ ابھی دس بارہ صفحے پڑھے تھے کہ کمرے میں زلزلہ سا آ گیا۔ ٹائیگر پٹہ تڑوا کر جو کمرے میں داخل ہوا تو اس نے میز پر رکھے ہوئے خوبصورت پھولدان کو نیچے پٹک دیا تپائی پر رکھی ہوئی تصاویر کو سونگھنے کے بعد فیصلہ کیا کہ کچھ اچھی نہیں اس لئے انھیں نیچے گرادیا۔ کتاب ہمارے ہاتھوں میں سے چھین لی۔ اسے دانتوں میں دبا کر اِدھر اُدھر ٹہلنے لگا۔ دو ایک منٹ کے بعد کتاب فرش پر رکھ کر ریڈیو کی طرف متوجہ ہوا۔ شاید پکے گانے کی تاب نہ لا کر بے تحاشہ بھونکنے لگا۔ ریڈیو سیٹ پر حملہ کرنا چاہتا تھا کہ اسے للکارا۔ چنانچہ تمام حرکات بند کر کے وہ آرام سے صوفے پر دراز ہو گیا۔ نوکر سے دوسرا پٹہ لانے کو کہا اور بڑی مشکل سے اسے پہنایا۔ اب اُسے ڈیوڑھی کی طرف گھسیٹتے تھے اور وہ مصر تھا کہ بیٹھک ہی میں قیام کرے گا۔
دوسرے دن ہمارے ہمسائے کی بچی جو ہماری بچی کی سہیلی تھی ایک گڑیا اٹھائے ہماری ڈیوڑھی سے گزر رہی تھی کہ ٹائیگر کی نظر اس پر پڑی، شیر کی طرح جو وہ دھاڑا تو گڑیا بچی کے ہاتھ سے گر پڑی اور وہ خود بیہوش ہو کر زمین پر آ رہی۔ بھاگ کر بچی کو اٹھایا۔ اسے ہوش میں لانے کے لئے کافی جتن کئے۔ مگر خوف کا اس کے دل و دماغ پر اتنا اثر ہوا کہ اسے ہوش نہ آیا۔ ڈاکٹر کو بلوایا گیا۔ پورے ایک گھنٹے کے بعد اس نے آنکھیں کھولیں اسے اس کے گھر پہنچایا گیا۔ جہاں اسے تین دن بخار رہا۔ ہمسائے سے الگ شرمندہ ہوئے کوفت الگ اٹھانا پڑی۔
اس سے اگلے دن ڈاکیہ چھٹی دینے آیا۔ ٹائیگر اس کی طرف بجلی کی طرح لپکا۔ پچھلی ٹانگوں پر کھڑا ہو کراس کی گردن ناپنا چاہتا تھا کہ ہم نے دوڑ کر بیچ بچاؤ کیا اور وہ اپنے خطرناک ارادے سے باز آیا۔ دو ایک دن بعد پوسٹ ماسٹر صاحب کا خط ملا۔ انہوں نے لکھا تھا کہ چونکہ ہم نے ایک نہایت خوفناک قسم کا کتا پال رکھا ہے اس لئے ڈاکیہ ہماری ڈاک گھر پر پہچانے سے معذور ہے ہم ڈاک خانہ سے اپنی ڈاک منگوانے کا انتظام کر لیں۔
چند دن آرام سے گزرے۔ ایک دن صبح کے وقت ٹائیگر کو سیر کرانے کے لئے جا رہے تھے۔ کہ اس کی نگاہ ایک پالتو ہرن پر پڑی جو اپنے مالک کے ساتھ جا رہا تھا۔ ٹائیگر آپے سے باہر ہو گیا اور ہرن کی طرف سرپٹ بھاگا بہتیرا اسے پکارا "ٹائیگر ادھر آؤ۔ ٹائیگر کم ہیر "مگر اس نے ایک نہ سنی۔ ہرن کو نیچے گرا دیا اور اس کی انتڑیاں پھاڑنا چاہتا تھا کہ ہرن کے مالک اور ہم نے بڑی مشکل سے ہرن کو اس کے پنجے سے نجات دلا دی۔ اس کے بعد ہم دونوں میں مندرجہ ذیل گفتگو ہوئی۔
"یہ کتا آپ کا ہے ؟ ”
"جی نہیں۔ ”
"تو پھر کس کا ہے ؟ ”
"کیپٹن حمید کا۔ ”
"تو آپ گویا اسے چرا کر لائے ہیں۔ ”
"جی نہیں۔ وہ خود اسے میرے ہاں چھوڑ گئے تھے۔ ”
"بڑا بیہودہ کتا ہے۔ ”
"جی نہیں۔ ال سیشین نسل کا ہے۔ دیکھئے نا اس کے کان کھڑے رہتے ہیں۔ ”
"کان کھڑے رہنے سے کیا ہوتا ہے۔ کچھ تمیز بھی تو ہونی چاہئے ؟ ”
"تمیز کی بات اور ہے ویسے تو کافی ذہین ہے۔ ”
"اسے ذہین کون بیوقوف کہے گا۔ جی چاہتا ہے گولی ماردوں۔ ”
ہم اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔ وہ بڑبڑاتے ہوئے چلے گئے۔ اس دن ہم نے فیصلہ کیا کہ آئندہ ٹائیگر کو سیر پر نہیں لے جائیں گے۔ لیکن ٹائیگر کب ماننے والا تھا صبح چھ بجے ہی وہ اچھل اچھل اور بھونک بھونک کر ہمیں نیند سے بیدار کر دیتا، کبھی چادر کو کھینچتا کبھی ہمارا کان دانتوں میں دباتا۔ کبھی منہ چاٹنے لگتا جیسے کہ کہہ رہا ہوں ؏ اٹھئے کہ اب تو لذت بادِ سحر گئی۔ چنانچہ اسے اپنے ساتھ لے جانا ہی پڑتا سیر کے دوران میں بھی یہی خدشہ لگا رہتا کہ اگر اس نے کسی جانور یا آدمی پر حملہ کر دیا تو خواہ مخواہ ندامت اٹھانی پڑے گی۔ ایک عجیب بات جواس میں دیکھی یہ تھی کہ ساری رات نہ خود سوتا اور نہ ہمیں سونے دیتا۔ مشکل سے آنکھ لگتی کہ وہ زور زور سے بے تحاشا بھونکنے لگتا۔ اٹھ کر دیکھتے کہ وہ دور سڑک پر کھڑے ہوئے کسی کتے کو دیکھ کر بھونک رہا ہے، اسے ڈانٹ ڈپٹ کر چپ کراتے اور سونے کی کوشش کرتے۔ مگر جلد ہی اس کی فلک شگاف بھوں بھوں بیدار کر دیتی۔ اب وہ اس لئے بھونک رہا ہے کہ ہوا ذرا تیز کیوں چل رہی ہے یا چاند بادلوں کی اوٹ میں کیوں چھپ گیا ہے۔ یہ ہمارا ہمسایہ اٹھ کر پانی کیوں پی رہا ہے۔ اور پھر اس کی خاطر تواضع اور اس پر صرف کیا گیا روپیہ، صبح اسے ایک سیر دودھ کا ناشتہ کراؤ۔ دوپہر کے وقت ایک سیر گوشت کا لنچ۔ شام کو دس بارہ روٹیوں اور سالن کا ڈنر ہر وقت یہ ڈر رہتا کہ اگر وہ کمزور ہو گیا تو کیپٹن حمید ساری عمر معاف نہیں کریں گے۔ کبھی کبھی ہم یہ سوچنے لگتے کہ اگر کیپٹن حمید کتے کے بجائے بھیڑیا یا چیتا پالتے تو کتنا اچھا رہتا۔ کم از کم وہ ایک عجوبہ تو ہوتا۔ اور پھر اگر کسی کو کاٹ کھاتا تو افسوس نہ ہوتا کہ اس نے کوئی ایسی حرکت کی ہے جس کی اس سے توقع نہ تھی۔ رہا ٹائیگر کے کان کھڑے رہنے کا معاملہ تو کان تو خرگوش کے بھی کھڑے رہتے ہیں۔ کیپٹن صاحب نے خرگوش کیوں نہ پالا۔ ساری رات بھونک بھونک کر وہ ہماری نیند تو خراب نہ کرتا۔
ٹائیگر ہمارے ہاں ایک مہینہ رہا۔ یہ مہینہ پہاڑ کی طرح کٹنے میں ہی نہیں آتا تھا۔ ہر روز صبح اٹھ کر ہم حساب لگاتے کہ اب کتنے دن باقی رہ گئے۔ خدا خدا کر کے کیپٹن حمید مدراس سے لوٹے۔ ہم نے جب ٹائیگر ان کے سپرد کیا۔ تو واقعی ہماری آنکھوں میں آنسو تھے۔ لیکن یہ آنسو خوشی کے تھے !
***
دو کو لڑانا
دو مرغوں یا بٹیروں کو لڑانا شغل ہو سکتا ہے فن نہیں البتہ دو آدمیوں کو لڑانا خاص کر جب کہ وہ ہم پیالہ وہم نوالہ ہوں دانت کاٹی روٹی کھاتے ہوں یقیناً فن ہے۔ اس فن کے موجد تو نارد منی ہیں کیوں کہ ان کا پسندیدہ شغل دیوتاؤں اور انسانوں کو آپس میں لڑانا ہے لیکن نارد منی کے علاوہ ایک اور ہستی کو بھی اس فن کا امام مانا جا سکتا ہے اور وہ ہے بی جمالو۔ یہ وہی جانی پہچانی جمالو ہے جو اکثر بھُس میں چنگاری ڈال کر الگ کھڑی ہو جاتی ہے اور جب بھُس میں سے شعلے نکلنے لگتے ہیں تو بغلیں بجا کر اپنی مسرت کا اظہار کرتی ہے۔
اس فن کے لیے بڑے ریاض کی ضرورت ہے جب تک ان تمام حربوں کا غور سے مطالعہ نہ کیا جائے جو نارد منی یا بی جمالو دوکو لڑانے میں استعمال کرتے ہیں کوئی شخص اس فن میں مشّاقی حاصل نہیں کر سکتا۔ سب سے پہلا حربہ یہ ہے کہ جن دو اشخاص کو آپس میں لڑانا چاہتے ہیں انھیں علیٰحدہ علیٰحدہ یقین دلا دیں کہ آپ سے بڑھ کر ان دونوں کا دنیا میں کوئی بہی خواہ نہیں اور آپ جو کہہ رہے ہیں بڑے خلوص سے کہہ رہے ہیں دوسرا حربہ یہ ہے کہ آپ ان دونوں کی کسی دکھتی ہوئی رگ کو چھیڑنے کی کوشش کریں۔ اس ضمن میں یاد رکھیں کہ ہر شخص کی کوئی نہ کوئی دکھتی ہوئی رگ ضرور ہوتی ہے۔ کسی کی یہ کہ جس عزت کا وہ مستحق ہے اس سے اسے محروم رکھا جا رہا ہے کسی اور کی یہ کہ اس کے سب احباب احسان فراموش واقع ہوئے ہیں اور کسی کی یہ کہ لوگ اس سے بلاوجہ حسد کرتے ہیں۔ تیسرا حربہ یہ ہے کہ جب وہ دونوں لڑنے پر آئیں تو آپ چپکے سے یہ کہہ کر کھسک جائیں کہ آپ کو یک لخت کوئی ضروری کام یاد آ گیا ہے اس لیے آپ اجازت چاہتے ہیں۔
عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ دو اشخاص کو لڑانے میں نارد منی یا بی جمالو کا ضرور ہاتھ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر گھوش بابو اور گپتا بابو ایک دفتر میں کلرک ہیں۔ دونوں پکے دوست ہیں یعنی ایک دوسرے پر جان چھڑکتے ہیں۔ اسی دفتر میں بھٹاچاریہ بھی کام کرتا ہے۔ جو نارد منی کی نمائندگی کرنے میں ید طولیٰ رکھتا ہے ایک دن بھٹا چاریہ گھوش بابو کے کمرے میں آتا ہے۔ کہتا ہے۔ "اپنا سمجھ کے ایک بات کہنا چاہتا ہوں برا تو نہیں مانو گے ؟ ”
"نہیں برا ماننے کی کیا بات ہے شوق سے کہیئے۔ ”
"پہلے یہ بتائیے کہ گپتا بابو سے کچھ ناچاقی تو نہیں ہو گئی؟ ”
"بالکل نہیں۔ ”
"بڑے تعجب کی بات ہے تو پھر معاملہ کیا ہے ؟ ”
"بات کیا ہے ذرا کھل کر کہیئے؟ ”
"کچھ نہیں کچھ نہیں میرا خیال ہے مجھے خاموش ہی رہنا چاہئے۔ "اتنا کہنے کے بعد واقعی بھٹاچاریہ خاموش ہو جاتا ہے۔ ادھر گھوش بابو سوچتا ہے کہ ضرور کوئی بات ہے اس لیے اصرار کرتا ہے۔
"بھٹاچاریہ بھئی بتاؤ نا بات کیا ہے ؟ ”
"بات ہے بھی اور کچھ بھی نہیں، میرا مطلب ہے کم از کم گپتا بابو…… ”
"ہاں ہاں گپتا بابو۔ ”
"نہیں میں کچھ نہیں کہوں گا۔ اچھا میں چلتا ہوں۔ ”
اب گھوش بابو بھٹا چاریہ کو پرماتما کا واسطہ دے کر کہتا ہے کہ اُسے وہ بات ضرور بتانا پڑے گی۔ ایک بار انکار کرنے کے بعد بھٹا چاریہ راز دارانہ لہجہ میں کہتا ہے۔ "ذرا گپتا سے بچ کر رہئے گا وہ آپ کے خلاف صاحب کے کان بھر رہا ہے۔ پرسوں میں نے اسے یہ کہتے سنا کہ گھوش بابو ہر روز پندرہ منٹ لیٹ آتا ہے اور کام کرنے کی بجائے سارا دن اخبار پڑھتا رہتا ہے اور ہاں لیکن میرا خیال ہے مجھے یہ نہیں کہنا چاہئے۔ ”
"نہیں نہیں رک کیوں گئے اب بتانے لگے ہو تو چھپاتے کیوں ہو۔ ”
"بھئی تم دونوں میں خواہ مخواہ جھگڑا ہو جائے گا اور میں جھگڑے کو بالکل پسند نہیں کرتا۔ ”
"نہیں آپ کو ضرور بتانا پڑے گا۔ ”
"بتا تو دیتا ہوں لیکن یار اس سے یونہی جھگڑا نہ مول لے لینا۔ ”
"اچھا وہ بات بتائیے۔ ”
"ہاں تو وہ صاحب سے کہہ رہا تھا کہ آئندہ جب گھوش بابو لیٹ آیا تو میں آپ کو خبر کروں گا۔ ”
بھٹاچاریہ بھس میں چنگاری رکھ کر رخصت ہوتا ہے اور گھوش بابو دل ہی دل میں پیچ و تاب کھانے لگتا ہے کہ یہ گپتا بابو تو دوست کے پردے میں دشمن نکلا۔
اب شامت اعمال سے ایک دن گھوش بابو دفتر کے لئے لیٹ ہو جاتا ہے شاید اسے بس نہیں ملی یا اس کی سائیکل پنکچر ہو گئی ادھر صاحب کو کسی فائل کی جو گھوش بابو کے قبضے میں ہے۔ ضرورت پڑ جاتی ہے۔ گھوش بابو کو اپنے کمرے میں نہ پا کر صاحب چپڑاسی سے کہتا ہے کہ جب وہ آئے اُسے صاحب کے کمرے میں حاضر ہونے کے لئے کہا جائے۔
گھوش بابو جب آتا ہے تو اسے صاحب سخت سُست کہتے ہیں وہ فوراً سمجھ جاتا ہے کہ معاملہ کیا ہے صاحب کے دفتر سے نکل کر وہ سیدھا گپتا کے کمرے میں پہنچتا ہے۔
"آؤ بھئی گھوش بابو۔ ” گپتا مسکرا کر کہتا ہے۔
"رہنے دو یہ بناؤٹی مسکراہٹیں مجھے آج پتہ چلا کہ تم مارِ آستین ہو۔ ”
"کیا بات ہے اتنے ناراض کیوں ہو رہے ہو؟ ”
"ناراض نہ ہوں تو اور کیا کروں یہ اچھی شرافت ہے دوست بن کر پیٹھ میں چھرا گھوپنتے ہو۔ ”
"ارے بھئی کس نے چھرا گھونپا ہے۔ ”
"مجھے سب معلوم ہے شرم آنی چاہئے تمہیں۔ ”
چنانچہ دونوں میں وہ تو تو میں میں ہوتی ہے کہ دفتر کے تمام کلرک اکٹھے ہو جاتے ہیں آخر کچھ لوگ بیچ بچاؤ کر کے معاملہ رفع دفع کر دیتے ہیں۔ جب سب کلرک اپنے کمروں میں چلے جاتے ہیں تو بھٹاچاریہ یہ کہتے ہوئے سنا جاتا ہے کیا زمانہ آ گیا ہے صاحب دوست ہی دوست کے در پئے آزار ہو گیا اب کس پر اعتبار کیا جائے۔
یہ تو تھا نارد منی کا کارنامہ اب ذرا بی جمالو کی کارستانی ملاحظہ فرمائیے۔
بی جمالو کتھا سن کر مندر سے چلی آ رہی ہے کہ راستے میں اُس کی ملاقات مالتی سے ہوتی ہے۔ مالتی کی شادی ہوئے سات آٹھ مہینے ہوئے ہیں بی جمالو مالتی پر ایک چھچھلتی ہوئی نظر ڈالتے ہوئے کہتی ہے۔
"کتنی کمزور ہو گئی ہو تم مالتی۔ پہچانی بھی نہیں جاتیں۔ ”
"نہیں تو۔ "مالتی حیران ہوتے ہوئے جواب دیتی ہے۔
"اری نہیں، سچ کہہ رہی ہوں، تمہارا تو رنگ روپ ہی جیسے اڑ گیا ہے معلوم ہوتا ہے بہت کام کرنا پڑتا ہے۔ ”
"ہاں کام تو کافی کرتی ہوں۔ ”
"یہی بات ہے میں بھی کہوں ہو کیا گیا تمہیں معلوم ہوتا ہے جٹھانی جی خوب کام کرواتی ہیں۔ ”
"بڑی جو ہوئیں۔ ”
"بڑے ہونے کا یہ مطلب تو نہیں کہ خود تو سارا دن سیر سپاٹا کرے اور تم داسیوں کی طرح کام کرو تم گھر میں کیا آئیں اس کی تو پنشن لگ گئی۔ ”
"نہیں کام کاج میں وہ بھی ہاتھ بٹاتی ہیں۔ ”
"وہ کیا ہوا جو ذرا دیر سبزی چھیل دی یا پھل کاٹ دیئے یہ کام تھوڑا ہی ہے۔ ”
"پھر بھی بڑی بہو جو ٹھہری۔ ”
"بڑی بہو ہوا کرے لیکن کام اُسے آدھا ضرور کرنا چاہئے۔ تمہارے سیدھے پن کا نا جائز فائدہ اٹھا رہی ہے۔ ”
"نہیں یہ بات تو نہیں ”
"تم ایک دم مورکھ ہو مالتی اپنا نفع نقصان نہیں سمجھتیں۔ میں نے تو سنا ہے دوکان کا سارا کام بھی تمہارا گھر والا کرتا ہے جیٹھ تمہارا تو موج کرتا ہے۔ موج، کبھی تاش کھیل رہا ہے کبھی شطرنج اور کبھی سنیما دیکھ رہا ہے۔ ”
"گھروں میں ایسا ہی ہوتا ہے ماسی۔ ”
"لیکن ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ آخر برابر کا حصہ دار ہے وہ کام کیوں نہ کرے دیکھو میری مانو تو ابھی سے الگ ہو جاؤ نہیں تو پچھتاؤ گی تمہارا جیٹھ اور تمہاری جٹھانی دونوں بڑے چالاک ہیں اور تم دونوں ہو بھولے بھالے شرافت میں مارے جاؤ گے دیکھو اپنا سمجھ کر کہہ رہی ہوں ورنہ میری یہ عادت نہیں کہ دوسروں کے پھٹے میں ٹانگ اڑاؤں اچھا رام رام۔ ”
بی جمالو پھوٹ کا بیج بونے کے بعد چلی جاتی ہے کچھ عرصہ کے بعد یہ پھوٹ وہ رنگ لاتی ہے کہ دیورانی اور جٹھانی میں جوتیوں میں دال بٹنے لگتی ہے۔
اب ذرا دیکھئے کہ نارد منی خاوند اور بیوی کو آپس میں کس طرح لڑاتے ہیں راجیش اور نیلما ایک دوسرے کو بہت چاہتے ہیں لیکن نارد منی کو یہ بات ایک آنکھ نہیں بھاتی، ایک دن راجیش کی غیر حاضری میں نارد منی ایک چھوٹے سے لڑکے کے ہاتھ راجیش کے نام ایک خط بھجواتے ہیں۔ لڑکا خط نیلما کو دیتا ہے وہ اس سے پوچھتی ہے۔
"تمہیں کس نے بھیجا ہے۔ ”
"جی کجلا دیوی نے۔ ”
"وہ کون ہے ؟ ”
"جی وہی خوبصورت لڑکی جو ایم اے میں پڑھتی ہے "۔
"تم کون ہو؟ ”
"میں میں اس کا نوکر ہوں "۔
"اس نے تمہیں یہ خط راجیش بابو کو دینے کے لئے کہا تھا "۔
"جی ہاں اور ساتھ ہی یہ کہا تھا کہ یہ خط کسی اور کے ہاتھ میں مت دینا۔ ”
"کیوں ؟ ”
"جی مجھے کیا معلوم؟ ”
"پھر یہ خط مجھے کیوں دے رہے ہو "۔
"آپ کونہ دوں تو پھر مجھے آنا پڑے گا آپ انھیں دے دیجئے گا۔ ”
لڑکے کے چلے جانے کے بعد نیلما سوچتی ہے کہ وہ خط پڑھے یا نہ پڑھے، کافی سوچ بچار کے بعد وہ فیصلہ کرتی ہے کہ اسے خط پڑھ لینا چاہئے۔ خط کو پڑھنے کے بعد اس کے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے کیونکہ وہ ایک نہایت جذباتی قسم کا محبت نامہ ہے۔ شام کو جب راجیش بابو گھر لوٹتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ شریمتی جی انگاروں پر لوٹ رہی ہیں وہ پوچھتے ہیں بات کیا ہے لیکن روٹھی رانی جواب تک نہیں دیتی آخر جب حد سے زیادہ اصرار کرتے ہیں تو بھنّا کر کجلا دیوی کا محبت نامہ ان کے سامنے پٹک دیتی ہے۔ خط پڑھنے کے بعد راجیش بابو بڑی سنجیدگی سے کہتے ہیں یہ سب جھوٹ ہے۔ میں کسی کجلا دیوی کو نہیں جانتا۔ نیلما غصّے سے جواب دیتی ہے۔ مجھے بہکانے کی کوشش مت کیجئے۔ راجیش اپنی صفائی میں بار بار قسمیں کھاتا ہے لیکن نیلما کو یقین ہی نہیں آتا۔ وہ ایک ہی فقرہ دہرائے جاتی ہے۔ مرد کی ذات ہی ایسی ہوتی ہے۔ اس تہمت کی تاب نہ لا کر راجیش بھی آپے سے باہر ہو جاتا ہے اور عورتوں میں جتنی خامیاں ہوتی ہیں انھیں گنوانے لگتا ہے۔ یہ تکرار دو ایک گھنٹے رہتی ہے اور جب ختم ہوتی ہے تو دونوں منہ پھلائے سونے کے لئے اپنے اپنے کمرے میں چلے جاتے ہیں۔
کبھی کبھی دو کو لڑانے میں بڑے شرارت آمیز حربے کا استعمال کیا جاتا ہے وہ کیسے یہ بھی سن لیجئے۔ ہمسائے میں لڑکی کے رشتے کی بات چل رہی ہے۔ لڑکے والے لڑکی سے ملنے آتے ہیں۔ یک لخت رام گوپال اپنی بیوی سے بلند آواز میں لڑنے لگتا ہے وہ کہہ رہا ہے۔ "اگر لڑکی میں نقص ہے تو تمہیں کیا لڑکے کی قسمت پھوٹے گی۔ تم کیوں خواہ مخواہ دوسروں کی باتوں میں دخل دیتی ہو۔ ایک آنکھ سے کانی ہے تو کانی سہی آخر اس کی تمہارے لڑکے سے تو ہو نہیں رہی اگر لڑکے والوں کو پسند ہے تو تمہیں کیا؟ ”
دو ایک منٹ چپ رہنے کے بعد وہ پھر کہتا ہے۔ ” تم چپ رہو لڑکا اگر ایک ٹانگ سے لنگڑا ہے تو ہوا کرے ہمیں کیا۔ اگر لڑکی والے جان بوجھ کر لڑکی کو اندھے کنوئیں میں دھکا دے رہے ہیں تو دیا کریں ان کی لڑکی ہے جو چاہے سلوک کریں۔ "تھوڑی اور دیر بعد وہ یہ کہتے ہوئے سنا جاتا ہے۔ "میں کیوں لڑکے والوں سے جا کر کہوں مجھے کیا لینا دینا اگر وہ اپنے لڑکے کی زندگی تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں تو میں کیا کر سکتا ہوں۔ ”
جب یہ باتیں لڑکے اور لڑکی والے سنتے ہیں تو ایک دوسرے کی طرف گھور گھور کر دیکھتے ہوئے کہتے ہیں یہ ہم کیا سن رہے ہیں۔
"تو اس کا مطلب ہے آپ ہمیں دھوکہ دے رہے ہیں "۔
"آپ تو کہتے تھے لڑکی میں کوئی نقص نہیں "۔
"آپ بھی تو کہتے تھے لڑکے میں کوئی نقص نہیں۔ ”
"دیکھئے یہ رشتہ نہیں ہو گا۔ ”
"آپ تشریف لے جائیے "۔
اور جب لڑکے والے اپنے کپڑے جھاڑتے ہوئے لڑکی والوں کے گھر سے نکلتے ہیں تو رام گوپال سرگوشی کے انداز میں اپنی بیوی سے کہتا ہے "کیوں کیسا الّو بنایا دونوں کو۔ ”
دو کو لڑانا فن ضرور ہے لیکن خطرے سے خالی نہیں۔ اس کے لئے بڑی مشق کی ضرورت ہے اگر تھوڑی سی چوک ہو جائے تو لینے کے دینے پڑ تے ہیں اس لئے جب آپ دو کو لڑانے کی کوشش کریں تو اس بات کا خیال رکھیں کہ اس فن کا کمال اس میں ہے کہ دوکو لڑائیں اور نارد منی یا بی جمالو کی طرح خود صاف بچ کر نکل جائیں۔
***
پیر و مرید
پطرؔس میرے استاد تھے۔ ان سے پہلی ملاقات تب ہوئی۔ جب گورنمنٹ کالج لاہور میں ایم اے انگلش میں داخلہ لینے کے لئے ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انٹرویو بورڈ تین اراکین پر مشتمل تھا۔ پروفیسر ڈکنسن (صدر شعبہ انگریزی) پروفیسر مدن گوپال سنگھ اور پروفیسر اے ایس بخاری۔ گھر سے خوب تیار ہو کر گئے تھے کہ سوالات کا کرارا جواب دے کر بورڈ کو مرعوب کرنے کی کوشش کریں گے۔ بخاری صاحب نے ایسے سوال کئے کہ پسینے چھوٹنے لگے جونہی کمرے میں داخل ہو کر آداب بجا لائے انہوں نے خاکسار پر ایک سرسری نگاہ ڈالتے ہوئے پوچھا۔ "آپ ہمیشہ اتنے ہی لمبے نظر آتے ہیں یا آج خاص اہتمام کر کے آئے ہیں ؟ "لاجواب ہو کران کے منہ کی طرف دیکھنے لگے۔
"آپ شاعر ہیں ؟ ”
"جی نہیں۔ ”
"دیکھنے میں تو آپ مجنوں لاہوریؔ نظر آتے ہیں۔ ”
پروفیسر مدن گوپال سنگھ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔ "بہ خدا ان کی شکل خطرناک حد تک مجنوں ؔ گورکھپوری سے ملتی ہے۔ "پھر میری جانب متوجہ ہوئے۔ "آپ کبھی مجنوں گورکھپوری سے ملے ہیں ؟ ”
"جی نہیں۔ ”
"ضرور ملئے۔ وہ آپ کے ہم قافیہ ہیں۔ ”
پھر پوچھا۔ "یہ آپ کے سرٹیفکیٹ میں لکھا ہے کہ آپ کتابی کیڑے ہیں۔ جانتے ہو۔ کتابی کیڑا کسے کہتے ہیں ؟ ”
"جی ہاں۔ جو شخص ہر وقت مطالعہ میں منہمک رہتا ہے۔ ”
"کتابی کیڑا وہ ہوتا ہے، جو کتاب کے بجائے قاری کو کھا جاتا ہے۔ ”
پروفیسر ڈکنسن نے بخاری صاحب سے دریافت کیا۔ "ان کے بی اے میں کتنے نمبر آئے تھے ؟ ”
انھوں نے میرا ایک سرٹیفیکیٹ پڑھتے ہوئے جواب دیا۔ 329۔ فرسٹ ڈویژن۔ ”
تو پھر کیا خیال ہے ؟ "پروفیسر مدن گوپال سنگھ نے پوچھا۔
بخاری صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا۔ "داخل کرنا ہی پڑے گا۔ جو کام ہم سے عمر بھر نہ ہو سکا۔ وہ انہوں نے کر دیا۔
پروفیسر ڈکنسن نے چونک کر پوچھا۔ "کونسا کام بخاری صاحب؟ ”
سگریٹ کا کش لگاتے ہوئے فرمایا۔ "یہی بی اے میں فرسٹ ڈویژن لینے کا۔ ”
دوسرے دن کلاس روم میں گئے۔ بخاری صاحب کا ان دنوں عالم شباب تھا پینتیس سال کے قریب عمر ہو گی۔ دراز قد گھنی بھنویں۔ سرخ و سفید رنگت۔ بڑی بڑی روشن آنکھیں۔ لمبوترا چہرہ۔ شکل و شباہت کے اعتبار سے وہ افغان یا ایرانی دکھائی دیتے تھے۔ ریشمی گوؤن(Gown)پہن کرکلاس روم میں آتے تھے۔ حاضری لئے بغیر لیکچر شروع کیا کرتے۔ عموماً لیکچر سے پہلے اپنے عزیز شاگردوں سے دو ایک چونچیں ضرور لڑایا کرتے تھے۔ بلراج ساہنی (مشہور ہندوستانی اداکار، ان کا عزیز ترین شاگرد تھا۔ اکثر ایک آدھ فقرہ اس پر کستے تھے۔ "کیا بات ہے ساہنی، آج کچھ کھوئے کھوئے نظر آتے ہو۔ جانتے ہو جب کوئی نوجوان اداس رہتا ہے تو اس کی اداسی کی صرف دو وجہیں ہوتی ہیں۔ یا وہ عشق فرمانے کی حماقت کر رہا ہے یا اس کا بٹوہ خالی ہے۔ ”
لیکچر کسی کتاب یا نوٹس (Notes)کی مدد کے بغیر دیتے تھے۔ انگریزی کا تلفظ ایسا تھا کہ انگریزوں کو رشک آتا تھا۔ فرسودہ یا روایتی انداز بیان سے چڑ تھی۔ غلطی سے بھی کوئی عامیانہ فقرہ ان کی زبان سے نہیں نکلتا تھا۔ "ڈرامہ "پڑھانے میں خاص کمال حاصل تھا۔ "ہملیٹ(HAMLET)پڑھا رہے تھے تو چہرے پر وہی تاثرات پیدا کر لیں گے جو موقع محل کی عکاسی کرتے ہوں۔ کنگ لیر(King Lear)پڑھاتے تو معلوم ہوتا، کہ طوفانوں میں گھرا ہوا بوڑھا شیر غرا رہا ہے۔ شیکسپیئر کے مشہور کرداروں کی تقریریں زبانی یاد تھیں انہیں اس خوبی سے ادا کرتے کہ سامعین کو پھریری سی آ جاتی۔
حافظہ غضب کا پایا تھا۔ اکثر جب کوئی نئی کتاب پڑھتے تو دوسرے دن کلاس روم میں اس کا خلاصہ اتنی صحت کے ساتھ بیان کرتے کہ لیکچر سننے کے بعد محسوس ہوتا کتاب انہوں نے نہیں ہم نے پڑھی ہے۔
ایک بار فرانسیسی فلسفی برگساں کی کتاب "Laughter "(مزاح)کی وضاحت فرماتے وقت انہوں نے طنز و مزاح سے متعلق بہت دلچسپ باتیں بتائیں فرمایا۔ "انسان ہی صرف ہنسنے والا جانور ہے۔ ”
میں نے کہا۔ "جناب بندر بھی ہنستا ہے۔ ”
ہنس کر فرمایا۔ کیونکہ وہ انسان کا جد امجد ہے۔ ”
بیان کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا۔ ہنسنے کے لئے عقل کا ہونا ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیوقوف کو لطیفہ سنانا تضیع اوقات ہے۔ اگر ایک آدمی کیلے کے چھلکے سے پھسل پڑے تو دوسرے اس پر ہنستے ہیں لیکن اگر ایک بھینس کیلے کے چھلکے سے پھسل کر کیچڑ میں گر پڑے تو باقی بھینسیں اس پر کبھی نہیں ہنسیں گی۔ کیونکہ بھینس کے پاس عقل نہیں ہوتی تبھی تو یہ محاورہ ایجاد ہوا۔ عقل بڑی یا بھینس…….ہمدردی یا ترحم کا جذبہ ہنسی کے لئے زہر قاتل کا درجہ رکھتا ہے۔ اگر کوئی شخص سائیکل چلاتے وقت گر پڑے تو آپ اس پر ہنسیں گے لیکن اگر اسے سخت چوٹ آئی ہو تو آپ کبھی نہیں ہنس سکیں گے اگر ایک ریلوے گارڈ گاڑی چلنے سے پہلے ہر مسافر کو سخت سست کہے۔ کھڑکی میں سے باہر جھانکنے والے ہر بچے کو سرزنش کرے ہر بوڑھے کو فہمائش کرے کہ اسے ڈبے میں فوراً داخل ہونا چاہئے۔ اور خود چلتی گاڑی میں سوار ہوتے وقت گر پڑے تو تمام مسافر قہقہے لگا کر اس کی بے بسی کا مذاق اڑائیں گے۔ کیونکہ ان میں سے کسی کو اس کے ساتھ ہمدردی نہیں ہو گی۔
ایک ہی چیز المیہ اور طربیہ ہو سکتی ہے۔ سوال صرف ہمدردی کا ہے۔ فرض کیجئے بھرے میلے میں کوئی شخص یہ اعلان کرے کہ میری بیوی کھو گئی ہے کچھ لوگ اس پر ضرور ہنسیں گے۔ یہ بات دوسروں کے نقطۂ نگاہ سے طربیہ اور خود اس شخص کے نقطہ نظر سے المیہ ہے ……مزاح بالکل اسی طرح تیار کیا جا سکتا ہے۔ جیسے صابن یا خوشبو دار تیل۔ فارمولا یہ ہے کہ دونوں چیزوں میں نا مطابقت پیدا کر دیجئے۔ مثال کے طور پر یہ کہنے کی بجائے۔ ہم سخن فہم ہیں غالبؔ کی طرفدار نہیں۔ یہ کہیئے ؎ ہم طرفدار ہیں غالب کے سخن فہم نہیں۔ مزاح پیدا ہو جائے گا۔ ”
بخاری صاحب مزاحیہ تقریر کرنے کے فن میں امام کا درجہ رکھتے تھے۔ یہ سر عبد القادرکا دور زرّین تھا۔ ہر ادبی مجلس میں کرسیِ صدارت اور سر عبد القادر لازم و ملزوم تھے۔ یونیورسٹی ہال میں ایک ادبی مباحثہ ہو رہا تھا۔ موضوع زیر بحث تھا (The Proper Study of mankind / Women)(صنف نازک ہی مطالعہ کا صحیح موضوع ہے ) جب پروفیسر دیوان چند شرما، ڈاکٹر خلیفہ شجاع الدین، تقاریر کر چکے تو سر عبد القادر نے بخاری صاحب کو اسٹیج پر تشریف لانے کو کہا۔ سامعین ہمہ تن گوش ہو گئے کہ انھیں پوری توقع تھی اب ہنسی مذاق کے فوارے چھوٹیں گے۔ بخاری صاحب جھومتے جھامتے اسٹیج پر آئے۔ صاحب صدر کی طرف مسکراکر دیکھا۔ سامعین پر ایک نگاہ غلط انداز ڈالی اور فرمایا۔ "صاحب صدر ! میں بدقسمتی سے پروفیسر واقع ہوا ہوں جس کالج میں پڑھاتا ہوں وہاں مخلوط تعلیم کا رواج ہے۔ میرا تجربہ ہے کہ کلاس روم میں طلباء کی توجہ کا مرکز صنف نازک ہی ہوتی ہے۔ کوشش کے باوجود میں طلباء کو اپنی طرف متوجہ نہیں کر سکتا اور بسا اوقات مجھے صنف نازک پر رشک آنے لگتا ہے صاف ظاہر ہے طلباء یہ نکتہ بخوبی سمجھتے ہیں۔ کہ صنف نازک ہی مطالعہ کا اصل موضوع ہے …….صاحب صدر ! صنف نازک کے مطالعہ کے بغیر سائنس کا مطالعہ نا ممکن ہے۔ کیا آپ Magnetism(مقناطییت) کا مطالعہ صنف نازک کے بغیر مکمل سمجھیں گے۔ جب کہ آپ جانتے ہیں کہ عورت سے زیادہ پرکشش ہستی خداوند تعالیٰ نے پیدا نہیں کیا آپ Heat(حرارت) کا مطالعہ کرنے میں عورت کو نظر انداز کر سکتے ہیں۔ جب آپ جانتے ہیں کہ محفلوں کی گرمی عورت کی موجودگی کی مرہون منت ہے کیا آپ Electricity(برقیات) کا مطالعہ کرتے وقت عورت کو نظر انداز کر سکتے ہیں جب آپ کو معلوم ہے کہ حوّا کی بیٹیاں بادل کے بغیر بجلیاں گرا سکتی ہیں …..صاحب صدر ! صنف نازک آرٹ کے مطالعے کے لئے ناگزیر ہے۔ اگر لیونارڈو، رافیل اور مائیکل اینجلو نے عورت کے خط و خال کو قریب سے نہ دیکھا ہوتا تو کیا وہ ان لافانی تصاویر اور مجسموں کی تخلیق کر سکتے۔ جن کا شمار عجائبات عالم میں ہوتا ہے۔ کیا کالی داس، شکنتلا، شیکسپیئر، روزالنڈ(Rosalind)اور اتنے، بیتریس(Beatrice)کا تصور بھی ذہن میں لا سکتے۔ اگر انہوں نے صنف نازک کے مطالعے میں شب و روز نہ گزارے ہوتے …..صاحب صدر ! صنف نازک نے موسیقار سے ٹھمریوں اور دادروں مشاعروں سے مثنویوں اور غزلوں اور رقاصوں سے کتھک اور کتھاکلی کی تخلیق کرائی اگر آج فنون لطیفہ ختم ہو رہے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم مطالعہ کے اصلی موضوع سے بھٹک گئے ہیں۔ ہم ان چیزوں کا مطالعہ کر رہے ہیں جن سے بجلی کے پنکھے سستی دیسی فلمیں، اوراکثیرچینل تو معرض وجود میں آ سکتی ہے لیکن "میگھ دوت ” "تائیس اور منی پور رقص "کی توقع کرنا بیکار ہے۔ ”
مرحوم تقریر نہیں سحر کیا کرتے تھے۔ ان کی ساحری کا ایک واقعہ مجھے یاد ہے۔ 1932ء میں انہوں نے اپنے ایک عزیز شاگرد پروفیسر آر۔ ایل مہتہ کے اصرار پر ڈی اے وی کالج لاہور میں گالزوردی کے ناول A Man of Propertyپر لیکچر دیا۔ پروفیسر مہتہ ان دنوں ڈی اے وی کالج میں ملازم تھے۔ مارچ کا مہینہ تھا مطلع ابرآلود تھا ہلکی ہلکی پھوار پڑ رہی تھی۔ لاہور کے کالجوں کے سینکڑوں طلباء و طالبات لکچر سننے کے لئے ڈی اے وی کالج کے سائنس تھیٹر میں اکٹھے ہوئے۔ بخاری صاحب نے لکچر کی تمہید اس فقرے سے کی "خواتین و حضرات ! ڈی اے وی کالج میں یہ میرا پہلا اور آخری لکچر ہے وجہ یہ ہے کہ اس کالج کے طلباء کا انگریزی کا تلفظ اتنا عجیب واقع ہوا ہے کہ جب وہ مجھے انگریزی میں بولتے ہوئے سنیں گے تو یہ سمجھیں گے میں انگریزی کی بجائے فرانسیسی یا جرمن میں تقریر کر رہا ہوں۔ ”
مرحوم کو انگریزی فکشن (ناول) پر حیرت انگیز عبور حاصل تھا۔ جب وہ گالزوردی کے ناول کی وضاحت کر رہے تھے تو معلوم ہوتا تھا کہ خود مصنف اپنی تخلیق کا تجزیہ کر رہا ہے۔ طلباء ان کے لکچر کے Notesلے رہے تھے۔ بخاری صاحب کی فصاحت اور بلاغت کا یہ عالم تھا کہ وہ ایک خوب صورت فقرے کے بعد دوسرا وضع کرتے تھے۔ اور طلباء تذبذب میں پڑ جاتے کہ کون سا فقرہ نوٹ کریں اور کونسا نظر انداز کریں۔ یک لخت باہر بارش تیز ہو گئی۔ بجلی ایک دم جو زور سے کڑکی تو کمرے کی تمام بتیاں گل ہو گئیں۔ بخاری صاحب نے سلسلہ تقریر منقطع کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ گھپ اندھیرے میں اپنے اسی شگفتہ انداز میں تقریر کرتے رہے، اور طلباء اندھیرے میں ان کے فقرے نوٹ کرنے کی کوشش میں محو رہے۔ کہیں سے شور و غل، چیخ و پکار کی آواز نہیں آئی۔ کمرے میں مکمل سناٹا تھا۔ کوئی دس پندرہ منٹ کے بعد بتیاں پھر روشن ہوئیں۔ بخاری صاحب نے ایک خفیف مسکراہٹ کے ساتھ ان کاخیرمقدم کیا اورتقریر جاری رکھی۔ اس تقریر کے سننے کے بعد اکثر طلباء کا یہ رد عمل تھا کہ جو باتیں ان کے اپنے پروفیسر دو سال میں نہیں بتا سکے وہ بخاری صاحب نے ایک گھنٹہ کے دوران میں بتا دیں۔ اسی تقریر سے متعلق مجھے ان کا ایک فقرہ یاد ہے۔ فرمایا۔ "مشہور انگریز نقاد ڈاکٹر بیکر(BEKAR) نے انگریزی ناول پر آٹھ جلدیں لکھی ہیں۔ جن کا مجموعی وزن کوئی چار سیرہو گا۔ ایک اور انگریزی نقاد جے بی پرپسٹلے (S.B. Priestly)نے ناول پر ایک کتابچہ لکھا جس کا وزن چار تولے ہو گا میری رائے میں اگر بیکر کی تمام جلدیں ایک پلڑے میں رکھ دی جائیں اور پرلسٹلے کا کتابچہ دوسرے میں تو یقیناً پرلسٹلے کا پلڑا بھاری رہے گا۔ ”
سناتن دھرم کالج میں ایک ادبی مباحثہ ہوا۔ بخاری صاحب وہاں صاحب صدر کی حیثیت سے موجود تھے۔ موضوع زیر بحث تھاFrailty the name is woman(عورت تمہارا دوسرا نام کمزوری ہے )لاہور کے بہترین مقرر اس مباحثے میں حصہ لے رہے تھے۔ ان میں سے اکثر یورپ کی سیر کر چکے تھے، انہوں نے اپنی تقاریر میں یورپین عورتوں کو خاص طور پر آڑے ہاتھوں لیا۔ کچھ نے ہندوستان کی تاریخ سے مثالیں دے کر ثابت کیا کہ عورت نے ہر گام پر مرد کو دھوکا دیا ہے۔ سکھ مہارانی "جندال "کا ذکر کیا گیا۔ حوّا کی کمزوری کی طرف بھی بار بار اشارے کئے گئے۔ بحث کے اختتام پر بخاری صاحب نے فرمایا۔ "میں نے مخالفین کے دلائل بڑے غور سے سنے، میں سمجھتا ہوں کہ ان کے دلائل صحیح اور نتائج غلط ہیں۔ اگر یہ ٹھیک ہے کہ عورت مرد کو ہمیشہ گمراہ کرتی رہی ہے تو میرے خیال میں یہ مرد کی کمزوری اور عورت کی شہ زوری ہے …..حالانکہ میں نے بھی یورپ کی سیر کی ہے لیکن عورتوں سے متعلق میرا تجربہ اتنا وسیع نہیں جتنا میرے چند دوستوں کا جنہوں نے یورپین عورتوں کی کمزوری کا بیان چٹخارے لے لے کر کیا…..کہا گیا کہ یورپ میں عورت شکاری اور مرد شکار ہے۔ اگر یہ صحیح ہے تو ہمیں ہر شیر اور ہر عقاب کو کمزور سمجھنا چاہئے۔ در اصل بات یہ ہے خدا پنج انگشت یکساں نہ کرد۔ نہ عورت کانچ کی چوڑی ہے اور نہ مرد فولاد کا پنجہ۔
بخاری صاحب اپنے طلباء میں تنقیدی شعور پیدا کرنے میں ہمیشہ کوشاں رہتے تھے۔ رٹے رٹائے فقروں سے انہیں بہت نفرت تھی۔ ادھر کسی طالب علم نے کسی مشہور نقاد کے قول کا حوالہ دیا ادھر جھٹ انہوں نے پھبتی کسی؎ "منصور کے پردے میں خدا بول رہا ہے۔ اجی حضرت یہ فرمان تو اے۔ سی بریڈلے (A.C. Bradley) کا ہے۔ خاکسار بریڈلے کی نہیں آپ کی رائے دریافت کرنا چاہتا ہے۔ "جب ہمارا سہ ماہی امتحان ہوا تو میں نے اپنے پرچے میں متعدد مشہور نقادوں کے فقرے نقل کر دیئے۔ بخاری صاحب نے مجھے۔ "صفر "نمبر عطاکرتے ہوئے پرچے کے ٹائیٹل پیج Title Page)پر لکھا۔ "آپ کا سارا پرچہ واوین میں ہونا چاہئے۔ آپ نے جگہ جگہ ایف ایل لوکس(Lucas)اور پروفیسر کلرکوچ کے اقوال نقل کر دیئے ہیں۔ یہ دونوں کیمبرج میں میرے استاد تھے۔ یقیناً میں اس قابل نہیں کہ اپنے استادوں کا ممتحن بن سکوں۔ مجھے توآپ کا امتحان لینا ہے۔ ”
کلاس روم میں کبھی کبھی جان بوجھ کر الٹی بات کہہ دیتے۔ ساری کلاس نیچے جھاڑ کران کے پیچھے پڑ جاتی۔ وہ ہر ایک معترض کو ایسا دنداں شکن جواب دیتے کہ بے چارہ بغلیں جھانکنے لگتا۔ سارا پیریڈ بحث مباحثہ میں گزر جاتا۔ سب کو قائل کرنے کے بعد فرماتے۔ "یہ بات میں نے صرف اشتعال دلانے کے لئے کہی تھی۔ ورنہ اس میں کون کافر شک کر سکتا ہے کہ شیکسپیئر بہت بڑا فن کار ہے۔ "Seminarکے پیریڈ میں جہاں طلباء کی تعداد تھوڑی ہوتی تھی۔ وہ ہر ایک طالب علم پر جرح کیا کرتے تھے۔ ایسی کڑی جرح کہ طلباء کے چہروں پر ہوائیاں اڑنے لگتیں۔ خون خشک ہو جاتا۔ ایک دفعہ مجھ سے پوچھا۔ "آپ نے اپنے جواب مضمون میں لکھا ہے کہ ٹینی سن(Tennyson)کے کلام میں موسیقیت کا عنصر بدرجہ اتم موجود ہے۔ موسیقیت سے آپ کی کیا مراد ہے ؟ ”
"موسیقیت سے میرا مطلب یہ ہے کہ ٹینی سن کا کلام پڑھتے وقت ایک دل کش نے یا تال کا احساس ہوتا ہے۔ ”
"لے یا تال کیا چیز ہے ؟ ”
"آواز کا اتار چڑھاؤ۔ ”
"ٹینی سن کے کسی مصرعہ کا حوالہ دے کر بتائیے۔ ”
میں نے گھبراہٹ کے عالم میں یونہی ایک مصرع پڑھ دیا۔ فرمانے لگے۔ ” یہ تو اتنا کرخت ہے کہ اس کے مقابلے میں کوّے کی آواز زیادہ سریلی معلوم ہو گی۔ کہیں یہ بات تو نہیں کہ آپ موسیقی اور شور و غل کو ہم معنی سمجھتے ہیں۔ ”
سیمنار(Seminar) میں اکثر ہندوستانیوں کی عادات پر دلچسپ تبصرہ کیا کرتے تھے۔ ہم ہندوستانی بھی تین لوک سے نیارے ہیں۔ انگلینڈ میں اگر کسی کے گھر موت واقع ہو جائے تو کانوں کان خبر نہ ہوتی۔ یہاں کسی کا دور دراز کا رشتہ دار اللہ کو پیارا ہو جائے تو ساری رات ڈھاڑیں مار مار کر ہمسایوں کے علاوہ گلی محلہ والوں کی نیند حرام کر دیتا ہے۔ ”
"شور و غل کا ہماری زندگی میں کتنا دخل ہے۔ انگلینڈ اور فرانس میں سڑک پر چلتے ہوئے لوگ اتنی دھیمی آواز میں باتیں کرتے ہیں گویا کانا پھوسی کر رہے ہوں۔ ہم ہندوستانی "مدھم کی بجائے "پنجم "میں باتیں کرنے کے عادی ہیں بخدا ہم بولتے نہیں چلاتے ہیں۔ ”
ہم ہندوستانی جب تقریر کرتے ہیں تو یوں معلوم ہوتا ہے جیسے گھر والوں سے لڑ کر آئے ہیں اور سامعین پر اپنا غصہ اتار رہے ہیں۔ ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ ماتمی قرار دار بھی ہم اس انداز میں پیش کرتے ہیں جیسے ہمسایہ ملک سے اعلان جنگ کر رہے ہوں۔ ”
"مبالغہ آمیزی ہماری طبیعت کا شعار بن چکی ہے۔ یہاں ہر کانفرنس "آل انڈیا، یا "بین الاقوامی "ہوتی ہے۔ چاہے شرکت کرنے والوں کی تعداد ایک درجن کیوں نہ ہو…….چند دن ہوئے میں نے موچی دروازے کے اندر ایک دکان دیکھی جس میں ایک ٹوٹا ہوا ہارمونیم اور خستہ حال طبلہ پڑا تھا۔ سائن بورڈ پر لکھا تھا۔ "انٹرنیشنل اکیڈمی آف میوزک اینڈ ڈانسنگ۔
"ہندوستانی موسیقی میں سوز ہے جوش نہیں۔ کیمبرج میں ایک بار میں نے اپنے استاد کلرکوچ کو پکے گانوں کے چھ سات ریکارڈ سنوائے اس کے بعد ان کی ہندوستانی موسیقی کے بارے میں رائے دریافت کی۔ نہایت سنجیدگی سے کہنے لگے۔ "بور کرنے کے لئے ایک ہی ریکارڈ کافی تھا۔ آپ نے چھ سات سنوانے کا خواہ مخواہ تکلف کیا۔ ”
بخاری صاحب سے آخری ملاقات جون 1947ء میں ہوئی۔ تب وہ آل انڈیا ریڈیو کے ڈائریکٹر کے عہدے سے سبکدوش ہو کر گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل مقرر ہو چکے تھے۔ بڑے تپاک سے ملے فرمانے لگے۔ "آپ ڈی اے وی کالج میں یونہی وقت ضائع کر رہے ہیں۔ غیر ادبی ماحول میں رہنا ذہنی خودکشی کے مترادف ہے۔ میں جلد ہی آپ کو گورنمنٹ کالج میں لانے کی کوشش کروں گا۔ ان دنوں تحریک پاکستان اپنے شباب پر تھی۔ کسی پروفیسر نے کہا اگر پاکستان بن گیا تو ہم کپور کو ہندوستان نہیں جانے دیں گے۔ البتہ انھیں مشرف بہ اسلام ہونا پڑے گا۔ بخاری صاحب نے چونک کر فرمایا۔ "حضرت پہلے ہم اور آپ تو مشرف بہ اسلام ہولیں اس غریب کی باری تو بعد میں آئے گی۔ آخر ہم اور آپ میں کون سی مسلمانی رہ گئی ہے۔ ”
آل انڈیا ریڈیو کا تذکرہ چھڑا۔ کہنے لگے۔ "ایک بار میرے متعلق پارلیمنٹ میں کہا گیا کہ میں دوست پرور ہوں۔ آل انڈیا ریڈیو میں میں نے اپنے دوست اور شاگرد اکٹھے کر رکھے ہیں۔ میں نے اخبارات میں ایک بیان دیا جس میں کہا کہ یہ الزام سو فیصد درست ہے مگر اب اس کا کیا کیا جائے کہ بدقسمتی سے میرے تمام شاگرد اور احباب قابل ترین اشخاص واقع ہوئے ہیں۔ اور قابل دوست یا شاگرد جاہل دشمن سے ہمیشہ اچھا ہوتا ہے۔
بخاری صاحب ساٹھ اکسٹھ برس کی عمر میں ہمیں داغ مفارقت دے گئے۔ ان کا مقبرہ دیار غیر میں بنا۔ ہندوستان اور پاکستان سے اتنی دور کہ ان کے شاگرد اور عقیدت مند اس پر آنسو بہانے یا شمع جلانے کی سعادت بھی حاصل نہیں کر سکتے۔ لیکن فہم و فراست کی شمعیں جو وہ خود جلا گئے۔ ان کی روشنی ابدی ہے ان کی دین صرف مضامینِ پطرس نہیں۔ ان کی اصل دین ان کے وہ مایۂ ناز شاگرد ہیں۔ جنہوں نے ادب اور فن میں نئی راہیں نکالیں۔ اور جنہیں اپنے "پیر و مرشد "پر جسد خاکی آخری سانس تک فخر رہے گا۔
***
سمے
جس دن سے وہ ایک گم نام جزیرے کی سیاحت سے واپس آیا تھا۔ بہت اداس رہتا تھا۔ یہ بات تو نہیں تھی کہ اسے اس جزیرے کی یاد رہ رہ کر آتی تھی۔ کیوں کہ وہ جزیرہ اس قابل ہی کب تھا کہ اس کی زیارت دوبارہ کی جائے۔ کوئی بڑا فضول سا جزیرہ تھا۔ "کاناباتا کاٹا "اور واقع تھا وہ بحر الکاہل میں۔ وہ ایک کلچرل وفد کے ساتھ اس جزیرے میں گیا تھا۔
یہ صحیح ہے کہ اس جزیرے میں رہنے والوں کے طور طریقے عجیب و غریب تھے۔ مثال کے طور پر وہ چائے یا کافی کی بجائے سونف، کا عرق پیتے تھے۔ مصافحہ کرنے کی بجائے ایک دوسرے کے کان اینٹھتے تھے۔ کوٹ کے اوپر قمیص پہنتے تھے۔ ناچتے وقت روتے اور عبادت کرتے وقت زور زور سے ہنستے تھے۔ یہ ایسی باتیں تھیں جنہیں دلچسپ کہا جا سکتا ہے اور نہ جنہیں سنسنی کے لیے لوگوں کو بیتاب ہونا چاہیے تھا۔ لیکن بدقسمتی سے جب بھی اس نے "کانا بانا کاٹا "کا ذکر کسی مجلس میں کیا اسے سخت مایوسی ہوئی۔ اول تو "کانا بانا کاٹا "کا نام سن کر ہی سامعین قہقہے لگا کر ہنسنے لگے۔ نہیں تو کسی نے فوراً چمک کر کہا۔ "ہٹاؤ یار اس بکواس کو۔ تم وہاں کیا گئے ایک دم Bore بن کے لوٹے۔ جب دیکھو کانا بانا کاٹا۔ کوئی کام کی بات کرو۔
کئی بار اس نے موقع محل سمجھ کر کانا بابا کاٹا کا ذکر چھیڑا۔ لیکن لوگوں نے تو جیسے اس میں دلچسپی لینے کی قسم کھا رکھی تھی۔ ایک دفعہ چند شاعروں کے درمیان بیٹھے ہوئے اس نے کہا۔ "آپ شاید نہیں جانتے کہ کانا بانا کاٹا میں تمام شاعر نثر میں شاعری کرتے ہیں۔ اور وہ بھی چند گنے چنے موضوعات پر مثلاً گیدڑ۔ کھٹمل۔ چمگادڑ۔ سب سے بڑا شاعر اس شخص کو سمجھا جاتا ہے جس نے گیدڑ پر سب سے زیادہ نظمیں لکھی ہوں میں آپ کو گولا گوقلا کی ایک نظم سناتا ہوں۔ گیدڑ کو مخاطب کرتے ہوئے وہ کہتا ہے۔ ؎
———– "اے گیدڑ۔ اگر تجھے شب بھر نیند نہیں آتی۔ تو تُو مارفیا کا ٹیکہ کیوں نہیں لگوا لیتا۔ اے گیدڑ۔ اتنے زور سے مت چلا۔ کہیں ایسا نہ ہو۔ کہ تیرا بڑا سا پھیپھڑا پھٹ جائے۔ ”
"اور اے گیدڑ—— ”
اور کسی شاعر نے اس کی بات کاٹ کر کہا تھا۔ "خدا کے لیے رحم کرد ہمارے حال پر۔ کیوں بور کرنے پر تلے ہو۔ "اور اس کی حسرت دل ہی دل میں رہ گئی تھی کہ گیدڑ والی ساری نظم وہ شاعروں کو سنا نہ سکا۔
اسی طرح ایک دفعہ اس نے وکیلوں کی ایک محفل میں کہا۔ ” آپ شاید نہیں جانتے، کہ کانا بانا کاٹا میں وکیل کو۔ "ٹاپا ” کہا جاتا ہے۔ جس کے معنی ہوتے ہیں۔ "دلچسپ جھوٹ بولنے والا "اور "جج "کو "کاپا "کہا جاتا ہے جس کے معنی ہوئے "غلط فیصلہ کرنے والا "اور گواہ کو کہتے ہیں "ماپا "جس کے معنی۔۔۔ ۔۔ ۔ ”
اس پر ایک وکیل نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا۔ اور آپ کو "باپا "کہا جاتا ہے۔ "جس کے معنی ہوئے فضول بکواس کرنے والا۔ ”
اس دن کے بعد اس نے معمول بنا لیا تھا کہ کسی مجلس میں کانا بانا کاٹا کا ذکر نہیں کرے گا۔ بلکہ اکیلے دُکیلے آدمی کے ساتھ بات چلانے کی کوشش کرے گا۔ ایک دن سڑک پر چلتے ہوئے ایک فقیر نے اس سے پیسے کا سوال کیا۔ اس نے فقیر کی ہتھیلی پر ایک لکڑی کا سکہ جو وہ کانا بانا کاٹا سے لایا تھا رکھتے ہوئے کہا۔
"جانتے ہو یہ کس ملک کا سکہ ہے۔ ”
"نہیں جانتا۔ ”
"یہ کانا بانا کاٹا کا سکہ ہے۔ جانتے ہو یہ ملک کہاں واقع ہے۔ ”
"نہیں جانتا۔ ”
"بحر الکاہل میں، جاپان سے تین ہزار۔۔۔ ۔۔ ۔ ”
"جی ہو گا۔ لیکن غریب پر ور میں نے تو پیسے کا سوال کیا تھا۔ ”
ایک دوکان دار سے صابن خریدتے وقت اس نے کہا۔ "کانا بانا کاٹا "میں صابن نہیں ہوتا۔ در اصل اس کی ضرورت بھی نہیں وہاں عام طور پر لوگ ایک سال بعد نہاتے ہیں۔ عجیب ملک ہے۔ وہاں دوکاندار کو "چمپیٹو "کہتے ہیں جس کے معنی ہوئے۔۔۔ ۔۔ ”
دوکاندار اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے پوچھا۔ "اچھا تو آپ کو کون سا صابن چاہیے۔ ”
ایک بار باغ میں ٹہلتے ہوئے اس کی ملاقات ایک ضعیف آدمی سے ہوئی۔ اس نے سوچا۔ موقعہ اچھا ہے۔ اس سے فائدہ اٹھایا جائے۔ آداب بجا لانے کے بعد اس نے کہا۔ "بڑے میاں آپ کی کیا عمر ہو گی۔ ”
"کانا بانا کاٹا میں کسی شخص کو ساٹھ سال کے بعد زندہ رہنے کی اجازت نہیں۔ ”
"کانا بانا کاٹا کیا بلا ہے۔ ”
"بلا نہیں صاحب۔ ایک بڑا عجیب جزیرہ ہے۔ بحر الکاہل میں جاپان سے۔۔۔ ”
"اچھا ہو گا۔ ”
"لیکن کیا یہ عجیب بات نہیں۔ کہ وہاں ساٹھ سال کے بعد کسی کو زندہ۔۔۔ ۔۔ ”
"تو کیا اسے پھانسی کے تختے پر چڑھا دیا جاتا ہے۔ ”
"جی ہاں۔ ”
"بڑا بے ہودہ ملک ہے۔ ”
"جی نہیں۔ بے ہودہ نہیں۔ دیکھئے نا۔ اس قانون کا یہ فائدہ ہے کہ۔۔۔ ۔ ”
"اجی رہنے دیجئے۔ بزرگوں کے ساتھ ایسا بے رحمانہ سلوک ! ”
"سنئے تو۔ آپ نے پوری بات توسنی نہیں۔ ”
"معاف کیجئے۔ میں ایسی فضول باتیں نہیں سنا کرتا۔ ”
آخر جب یہ حربہ بھی کوئی خاص کامیاب نہ رہا تو اس نے ایک اور تدبیر سوچی۔ کانا بانا کاٹا سے وہ اپنے ساتھ چند سنگ تراشی کے نمونے لایا تھا۔ وہ اس نے اپنے کمرے میں رکھ دیئے۔ اس کا خیال تھا کہ جب کوئی ملاقاتی اس سے ملنے آئے گا۔ تو ضرور ان پر نظر دوڑانے کے بعد ان سے متعلق سوال کرے گا، اور بات چل نکلے گی۔ لیکن اس کے سب اندازے غلط ثابت ہوئے۔ اکثر ملاقاتیوں نے ان کی جانب دیکھا تک نہیں۔ ایک آدھ نے دیکھنے کے بعد فرض کر لیا کہ کسی کباڑی سے اونے پونے چند فضول مجسمے خرید لیے گئے ہیں ایک دن اس نے ایک ملاقاتی کی توجہ ایک مجسمے کی طرف مبذول کراتے ہوئے کہا۔ "یہ کس کا مجسمہ ہے۔ ”
"کسی بندر کا معلوم ہوتا ہے۔ ”
"ارے نہیں۔ بندر کا نہیں۔ یہ کانا بانا کاٹا کے مشہور فلسفی "موموکو کو "کا ہے۔ ”
"ہنھ۔ ”
مومو کو کو بڑا۔ پہنچا ہوا فلسفی تھا۔ اس کے خیال میں انسان کی سب سے بڑی کمزوری عورت نہیں۔ افیون ہے۔ خود "موموکو کو "ہر روز تین سے چھ ماشے افیون کھا یا کرتا تھا۔ ایک دن جب اسے افیون نہ ملی۔ تو جانتے ہو اس نے کیا کیا۔
"شاید خودکشی کر لی۔ ”
"نہیں خود کشی نہیں کی۔ وہ ایک پودا جڑ اور پتوں سمیت کھا گیا۔ لیکن جب اسے۔۔۔ ”
"اچھا یا ر کوئی اور بات کرو۔ یہ کس کا ذکر لے بیٹھے۔ ”
"اسے سب سے زیادہ افسوس تب ہوتا تھا جب بات چل نکلنے کے بعد درمیان میں رک جاتی۔ مثلاً ایک اتوار کو اس کا ایک اخبارنویس دوست اس کے پاس بیٹھا ہوا تھا، اس نے اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ "آپ شاید نہیں جانتے۔ کہ "کانا بانا کاٹا "میں لوگ اخبار پڑھنے کے لئے نہیں آگ جلانے کے لیے خرید تے ہیں۔ ”
"لیکن وہ اخبار پڑھتے کیوں نہیں۔ ”
"ان کا خیال ہے کہ اخباروں میں سکینڈل کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ ”
"یہ تو کوئی معقول دلیل نہیں۔ ”
اپنا اپنا خیال ہے۔ اور وہاں سب اخباروں کا نام ایک سا ہوتا ہے۔ یعنی "رگڑرگڑ "جس کے معنی ہوئے۔۔۔ ۔۔ ”
"کچھ بھی ہوئے۔ کوئی کام کی بات کرو۔ ”
اور ایک دن تو اس کے ساتھ ایک عجیب سانحہ پیش آیا۔ اس کا ایک دوست جو پیرس سے تین سال کے بعد واپس آیا تھا۔ اسے ملنے کے لیے۔ اس نے سوچا کہ ضرور کانا بانا کاٹا کے کچھ حالات سننے پر رضا مند ہو گا۔ اس نے ابھی تمہید ہی باندھی تھی کہ اس کے دوست نے مسکرا کر کہا۔ "لیکن یار کیا بات ہے فرانس کی۔ بڑا دلچسپ ملک ہے اور پیرس ! پیرس ! زندہ دلوں کا شہر ہے۔ ہر رات شب برات کا درجہ رکھتی ہے۔ آرٹسٹ بڑی لا ابالی طبیعت کے مالک ہوتے ہیں۔ گلیاں بڑی پراسرار، ہوٹل دلہنوں کی طرح سجائے جاتے ہیں۔ ریلوے اسٹیشنوں پر پرستان کا دھوکا ہوتا ہے۔ سڑکیں اتنی صاف شفاف کہ ہاتھ لگے میلی ہو جائیں۔ سیاست دان معاملہ اور مہم اور نکتہ داں۔ شراب۔ آہ ظالم گویا شراب نہیں۔
ایک تیز چھری ہے کہ اترتی چلی جائے
وغیرہ وغیرہ۔
آخر دو گھنٹے کے بعد جب اس کے دوست نے پیرس کا تذکرہ ختم کیا تو اس نے محسوس کیا۔ کہ ایسے شخص سے کانا بانا کاٹا کا ذکر کرنا پرے درجے کی حماقت تھی۔
جب اس کا درجہ بیکار ثابت ہوا تو کھویا کھویا سا رہنے لگا۔ اسے انسانوں سے وحشت سی ہونے لگی۔ یہ کیسے لوگ ہیں۔ انہیں اپنے سوا کسی چیز میں دلچسپی نہیں۔ صرف روٹی کمانے کا دھندا ان کے دل و دماغ پر سوار ہے۔ کانا بانا کاٹا کا ذکر نہ بن کر یہ اپنے ساتھ کتنا ظلم کر رہے ہیں۔ وہ جتنا ان باتوں کے متعلق سوچتا اس کی اداسی میں اتنا ہی اضافہ ہوتا۔
ایک دن اس نے اپنے آپ کو ضرورت سے زیادہ اداس پایا۔ اس نے ایک ڈاکٹر کی دوکان کا رخ کیا۔ اتفاق سے ڈاکٹر کے پاس ایک مریض بیٹھا ہوا تھا۔ جب وہ دوا لے کر رخصت ہوا۔ تو ڈاکٹر نے کہا۔ "فرمائیے آپ کو کیا شکایت ہے۔ ”
"ہر وقت اداس رہتا ہوں۔ ”
"وجہ؟ ”
"بظاہر کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ ”
"یہ شکایت کب سے ہے۔ ”
"جب سے کانا بانا کاٹا سے لوٹا ہوں۔ ”
"کانا بانا کاٹا۔ یہ کسی ملک کا نام ہے کیا؟ ”
"جی ہاں، ایک جزیرہ ہے۔ بحر الکاہل میں۔ ”
"جاپان سے کتنا دور ہے۔ ”
"کوئی تین ہزار میل۔ ”
"آپ وہاں کس سلسلے میں تشریف لے گئے تھے۔ ”
"ایک کلچر وفد کے ساتھ گیا تھا۔ ”
"آپ فن کار ہیں۔ ”
"مصور ہوں۔ ”
"تو خوب سیر کی۔ ”
"جی ہاں ایک مہینہ رہا ”
"تو کیا کیا دیکھا وہاں آپ نے۔ ”
"بہت کچھ۔ بڑا عجیب جزیرہ ہے۔ ”
"ہمیں بھی کچھ بتائیے۔ ”
"وہاں ڈاکٹر نہیں ہوتے۔ ”
"ڈاکٹر نہیں ہوتے۔ تو پھر جو لوگ بیمار پڑتے ہیں وہ علاج کس سے کراتے ہیں۔ ”
"چوں کہ انہیں معلوم ہے کہ علاج کرنے والا کوئی نہیں۔ اس لیے وہ بیماری ہی نہیں پڑتے۔ ”
"اچھا کوئی اور بات بتائیے۔ ”
"وہاں مکانوں کے دروازے نہیں ہوتے۔ ”
"تو لوگ اندر کس طرح آتے ہیں۔ ”
"کھڑکیاں جو ہوتی ہیں۔ ”
"اچھا اور کیا دیکھا۔ ”
"وہاں بچے کی پیدائش پر ماتم منایا جاتا ہے۔ ”
"وہ کیوں۔ ”
"وہ کہتے ہیں۔ کہ ہرنیا بچہ اپنے ساتھ نئی مصیبتیں لاتا ہے۔ ”
"بہت خوب۔ اچھا میں آپ کے لیے دوا تیار کر لوں۔ باقی باتیں۔۔۔ ۔ ”
"دوا رہنے دیجئے۔ اب اس کی ضرورت نہیں۔ ”
"ابھی تو آپ کہہ رہے تھے کہ آپ ہر وقت اداس رہتے ہیں۔ ”
"جس شے کی کمی مجھے اداس رکھتی تھی وہ مجھے مل گئی۔ ”
"وہ کون سی شے ہے۔ ”
"سامع ! ”
ڈاکٹر اس کا منہ تکنے لگا لیکن وہ چپکے سے آداب عرض ہے کہہ کر دوکان سے باہر چلا گیا۔
٭٭٭
بنانے کا فن
دوسروں کو بنانا۔خاص کران لوگوں کو جو چالاک ہیں یا اپنے کو چالاک سمجھتے ہیں۔ ایک فن ہے۔ آپ شاید سمجھتے ہوں گے کہ جس شخص نے بھی "لومڑی اور کوّے "کی کہانی پڑھی ہے۔ وہ بخوبی کسی اور شخص کو بنا سکتا ہے۔ آپ غلطی پر ہیں۔ وہ کوّا جس کا ذکر کہانی میں کیا گیا ہے ضرورت سے زیادہ بے وقوف تھا۔ ورنہ ایک عام کوّا لومڑی کی باتوں میں ہرگز نہیں آتا۔ لومڑی کہتی ہے۔ "میاں کوّے ! ہم نے سنا ہے تم بہت اچھا گاتے ہو۔ "وہ گوشت کا ٹکڑا کھانے کے بعد جواب دیتا ہے۔ "لومڑی۔ آپ نے غلط سنا۔ خاکسار تو صرف کائیں کائیں کرنا جانتا ہے۔ ”
تاہم مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ تلاش کرنے پر بیوقوف کوّے کہیں نہ کہیں مل ہی جاتے ہیں۔ اس اتوار کا ذکر ہے۔ ہمیں پتہ چلا کہ رائے صاحب موتی ساگر کا کتا مرگیا۔ ہم فوراً ان کے ہاں پہنچے۔ افسوس ظاہر کرتے ہوئے ہم نے کہا۔ "رائے صاحب آپ کے ساتھ بہت ظلم ہوا ہے۔ برسوں کا ساتھی داغِ مفارقت دے گیا۔ ”
"پرماتما کی مرضی۔ ” رائے صاحب نے مری ہوئی آواز میں جواب دیا۔
"بڑا خوب صورت کتا تھا۔ آپ سے تو خاص محبت تھی "۔
"ہاں مجھ سے بہت لاڈ کرتا تھا۔ ”
"کھانا بھی سنا ہے آپ کے ساتھ کھاتا تھا۔ ”
"کہتے ہیں آپ کی طرح مونگ کی دال بہت پسند تھی۔ ”
"دال نہیں گوشت۔ ”
"آپ کا مطلب ہے چھیچھڑے۔ ”
"نہیں صاحب بکرے کا گوشت۔ ”
"بکرے کا گوشت ! واقعی بڑا سمجھ دار تھا۔ تیتر وغیرہ تو کھا لیتا ہو گا۔ ”
"کبھی کبھی۔ ”
"یونہی منہ کا ذائقہ بدلنے کے لئے۔ سنا ہے۔ ریڈیو باقاعدگی سے سنتا تھا۔ ”
"ہاں ریڈیو کے پاس اکثر بیٹھا رہتا تھا۔ ”
"تقریریں زیادہ پسند تھیں یا گانے ؟ ”
"یہ کہنا تو مشکل ہے۔ ”
"میرے خیال میں دونوں۔ سنیما جانے کا بھی شوق ہو گا۔ ”
"نہیں سنیما تو کبھی نہیں گیا۔ ”
"بڑے تعجب کی بات ہے۔ پچھلے دنوں تو کافی اچھی فلمیں آتی رہیں۔ خیر اچھا ہی کیا۔ نہیں تو خواہ مخواہ آوارہ ہو جاتا۔ ”
"بڑا وفا دار جانور تھا۔ ”
"اجی صاحب۔ ایسے کتے روز روز پیدا نہیں ہوتے۔ آپ نے شاید اڑھائی روپے میں خریدا تھا۔ ”
"اڑھائی روپے نہیں اڑھائی سو میں۔ ”
"معاف کیجئے۔ کسی مہاراجہ نے آپ کو اس کے لئے پانچ روپے پیش کئے تھے۔ ”
"پانچ نہیں پانچ سو۔ ”
"دوبارہ معاف کیجئے۔ پانچ سو کے تو صرف اس کے کان ہی تھے۔ آنکھیں چہرہ اور ٹانگیں الگ۔ ”
"بڑی رعب دار آنکھیں تھیں اس کی۔ ”
"ہاں صاحب کیوں نہیں جس سے ایک بار آنکھ ملاتا وہ آنکھ نہیں اٹھا سکتا تھا۔ ”
"چہرہ بھی رعب دار تھا۔ ”
"چہرہ ! اجی چہرہ تو ہو بہو آپ سے ملتا تھا۔ ”
"رائے صاحب نے ہماری طرف ذرا گھوم کر دیکھا۔ ہم نے جھٹ اٹھتے ہوئے عرض کیا۔ "اچھا رائے صاحب صبر کے سوا کوئی چارہ نہیں واقعی آپ کو بہت صدمہ پہنچا ہے۔ آداب عرض۔ ”
رائے صاحب سے رخصت ہو کر ہم مولانا کے ہاں پہنچے۔ مولانا شاعر ہیں اور زاؔغ تخلص کرتے ہیں۔
"آداب عرض مولانا۔ کہئے وہ غزل مکمل ہو گئی۔ ”
"کونسی غزل قبلہ۔ ”
"وہی۔ اعتبار کون کرے۔ انتظار کون کرے ؟ ”
"جی ہاں ابھی مکمل ہوئی ہے۔ ”
"ارشاد۔ ”
"مطلع عرض ہے۔ شاید کچھ کام کا ہو۔
جھوٹے وعدہ پہ اعتبار کون کرے
رات بھر انتظار کون کرے ”
"سبحان اللہ۔ کیا کرارا مطلع ہے ؎ رات بھر انتظار کون کرے۔ واقعی پینسٹھ سال کی عمر میں رات بھر انتظار کرنا بہت مشکل کام ہے۔ اور پھر آپ تو آٹھ بجے ہی اونگھنے لگتے ہیں۔ ”
"ہے کچھ کام کا۔ ”
"کام کا تو نہیں۔ لیکن آپ کی باقی مطلعوں سے بہتر ہے۔ ”
"شعر عرض کرتا ہوں ؎
گو حسین ہے مگر لعیں بھی ہے
اب لعیں سے پیار کون کرے ”
"کیا بات ہے مولانا۔ اس "لعیں "کا جواب نہیں۔ آج تک کسی شاعر نے محبوب کے لئے اس لفظ کا استعمال نہیں کیا۔ خوب خبر لی ہے آپ نے محبوب کی۔ ”
"بجا فرماتے ہیں آپ۔ شعر ہے۔ ؎
ہم خزاں ہی میں عشق کر لیں گے
آرزوئے بہار کون کرے
"بہت خوب۔ خزاں میں بیگم صاحب شاید میکے چلی جاتی ہیں۔ خوب موسم چنا ہے آپ نے اور پھر خزاں میں محبوب کو فراغت بھی تو ہو گی۔ ”
"جی ہاں۔ عرض کیا ہے۔ ؎
مر گیا قیس نہ رہی لیلی
عشق کا کارو بار کون کرے
"بہت عمدہ ؎ عشق کا کاروبار کون کرے۔ چشم بد دور آپ جو موجود ہیں۔ ماشاءاللہ آپ قیس سے کم ہیں۔ ”
"نہیں قبلہ ہم کیا ہیں۔ ”
"اچھا کسر نفسی پر اتر آئے۔ دیکھئے بننے کی کوشش مت کیجئے۔ ”
"مقطع عرض ہے۔ ”
"ارشاد۔ ”
"رنگ کالا۔ سفید ہے داڑھی
زاغؔ سے پیار کون کرے
"اے سبحان اللہ۔ مولانا کیا چوٹ کی ہے محبوب پر۔ واللہ جواب نہیں، اس شعر کا۔ ؎ زاغ سے پیار کون کرے۔ کتنی حسرت ہے اس مصرع میں۔ ”
"واقعی؟ ”
"صحیح عرض کر رہا ہوں۔ اپنی قسم یہ شعر تو استادوں کے اشعار سے ٹکر لے سکتا ہے۔ کتنا خوبصورت تضاد ہے۔ ؎ رنگ کالا سفید ہے داڑھی۔ اور پھر زاغ کی نسبت سے کالا رنگ کتنا بھلا لگتا ہے۔ ”
زاغؔ صاحب سے اجازت لے کر ہم مسٹر "زیرو "کے ہاں پہنچے۔ آپ آرٹسٹ ہیں اور آرٹ کے جدید اسکول سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے ہمیں اپنی تازہ تخلیق دکھائی۔ عنوان تھا۔ "ساون کی گھٹا "ہم نے سنجیدگی سے کہا۔ "سبحان اللہ۔ کتنا خوبصورت لہنگا ہے۔ ”
"لہنگا۔ اجی حضرت یہ لہنگا نہیں۔ گھٹا کا منظر ہے۔ ”
"واہ صاحب آپ مجھے بناتے ہیں۔ یہ ریشمی لہنگا ہے۔ ”
"میں کہتا ہوں یہ لہنگا نہیں ہے۔ ”
"اصل میں آپ نے لہنگا ہی بنایا ہے لیکن غلطی سے اسے ساون کی گھٹا سمجھ رہے ہیں۔ ”
"یقین کیجئے میں نے لہنگا…… ”
"اجی چھوڑیئے آپ کے تحت الشعور میں ضرور کسی حسینہ کا لہنگا تھا۔ در اصل آرٹسٹ بعض اوقات خود نہیں جانتا کہ وہ کس چیز کی تصویر کشی کر رہا ہے۔ ”
"لیکن یہ لہنگا ہر گز نہیں …. ”
"جناب میں کیسے مان لوں کہ یہ لہنگا نہیں۔ کوئی بھی شخص جس نے زندگی میں کبھی لہنگا دیکھا ہے۔ اسے لہنگا ہی کہے گا۔ ”
"دیکھئے آپ زیادتی کر رہے ہیں۔ ”
"اجی آپ آرٹسٹ ہوتے ہوئے بھی نہیں مانتے کہ آرٹ میں دو اور دو کبھی چار نہیں ہوتے۔ پانچ، چھ، سات یا آٹھ ہوتے ہیں۔ آپ اسے گھٹا کہتے ہیں۔ میں لہنگا سمجھتا ہوں۔ کوئی اور اسے مچھیرے کا جال یا پیراشوٹ سمجھ سکتا ہے۔ ”
"اس کا مطلب یہ ہوا۔ میں اپنے خیال کو واضح نہیں کر سکا۔ ”
"ہاں مطلب تو یہی ہے۔ لیکن بات اب بھی بن سکتی ہے۔ صرف عنوان بدلنے کی ضرورت ہے۔ "ساون کی گھٹا۔ "کی بجائے "۔ ان کا لہنگا ” کر دیجئے "۔
مسٹر زیرو نے دوسری تصویر دکھاتے ہوئے کہا۔ "اس کے متعلق کیا خیال ہے "غور سے تصویر کو دیکھنے کے بعد ہم نے جواب دیا۔ "یہ ریچھ تو لا جواب ہے۔ ”
زیرو صاحب نے چیخ کر کہا۔ "ریچھ کہاں ہے یہ ”
"ریچھ نہیں تو اور کیا ہے۔ ”
"یہ ہے زمانہ مستقبل کا انسان۔ ”
"اچھا تو آپ کے خیال میں مستقبل کا انسان ریچھ ہو گا۔ ”
"صاحب یہ ریچھ ہر گز نہیں۔ ”
"چلئے آپ کوکسی ریچھ والے کے پاس لے چلتے ہیں۔ اگر وہ کہہ دے کہ یہ ریچھ ہے تو۔ ”
"تومیں تصویر بنانا چھوڑ دوں گا۔ ”
"تصویریں تو آپ ویسے ہی چھوڑ دیں تو اچھا رہے۔ ”
"وہ کس لئے۔ ”
"کیونکہ جب کوئی آرٹسٹ انسان اور ریچھ میں بھی تمیز نہیں کر سکتا۔ تو تصویریں بنانے کا فائدہ۔ ”
مسٹر زیرو نے جھنجھلا کر کہا۔ "یہ آج آپ کو ہو کیا گیا ہے۔ ”
ہم نے قہقہہ لگا کر عرض کیا۔ "آج ہم بنانے کے موڈ میں ہیں۔ اور خیر سے آپ ہمارے تیسرے شکار ہیں ! ۔ ”
***
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل