FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

کماؤں کے آدم خور

 

 

                جم کاربٹ/ مترجم: محمد منصور قیصرانی

 

حصہ اول

 

 

 

پیش لفظ

 

اس کتاب میں موجود تمام واقعات میجر جم کاربٹ کے ان سچے تجربات کو بیان کرتے ہیں جو صوبجات متحدہ کے جنگلات میں آدم خور شیروں کے تعاقب میں انہیں پیش آئے۔ میری خوش نصیبی ہے کہ میں یہ کتاب ایڈونچر اور ایکشن کے متلاشی افراد کے لئے پیش کر سکوں۔

شکاری حضرات کے لئے اس کتاب میں ان کے ذوق کی تسکین کے لئے اور نئی باتیں سیکھنے کے لئے بہت کچھ موجود ہے۔ نئے شکاری حضرات اگر اس کتاب کو پہلی بار شیر کے شکار پر جانے سے قبل پڑھیں تو شاید ان کے ہاتھوں زخمی ہو کر آدم خور بننے والے شیروں کی تعداد نہ ہونے کے برابر رہ جائے۔ اچھے نشانے اور حوصلے سے زیادہ اور بھی اہم باتیں ہیں جو شیروں کے شکاری کو مد نظر رکھنی چاہیں۔ شکار پر جانے سے قبل مکمل منصوبہ بندی، تیاری اور مستقل مزاجی اس شکار میں کامیابی کے لئے انتہائی اہم ہیں۔

صوبجات متحدہ میں مصنف کا نام ایک ایسے شخص کے طور پر جانا جاتا ہے جو یہاں کے باسیوں کو ان کے آس پاس موجود آدم خور درندوں سے انہیں بچاتا ہے۔ بہت سارے سرکاری افسران جو اپنے زیر انتظام علاقوں میں موجود ان جانوروں سے ہونے والی تباہی سے تنگ آ چکے تھے، مدد کے لئے جم کاربٹ کے پاس آئے اور مجھے پورا یقین ہے کہ ان کی یہ کوشش کبھی رائے گاں نہیں گئی۔ یقیناً جم کاربٹ کے ہاتھوں ان غیر معمولی اور دہشتناک درندوں کی ہلاکت نہ صرف مقامی آبادی بلکہ حکومت کے لئے بھی گراں قدر خدمت تھی۔

ان کہانیوں سے قارئین کو جم کاربٹ کے دل میں فطرت سے محبت کا اندازہ ہو گا۔ میں ان کے ساتھ کئی بار شکاری مہمات میں جا چکا ہوں اور میرے نزدیک دنیا کے کسی براعظم کے کسی جنگل میں موجود نشانات کو جم کاربٹ سے بہتر اور کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ انہوں نے متعدد بار بتایا کہ جنگل کے فطری ماحول کے مشاہدے سے انہیں کتنی خوشی ملتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے جو کچھ دیکھا اس کی مدد سے وہ ان فوجیوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں جو جنگ کے دوران اپنی بینائی کھو بیٹھے تھے۔ اس کتاب کے پہلے ایڈیشن سے ہونے والی تمام تر آمدنی انہوں نے انہی نابینا فوجیوں کی امداد کے لئے بنائے گئے سینٹ ڈنسٹن کے فنڈ کے لئے وقف کر رکھی ہے۔ ان فوجیوں نے اپنے ملک اور اپنی قوم کی آزادی کے لئے اپنی بصارت کی قربانیاں دی ہیں۔

لن لنتھ گو

وائسرائے ہاؤس

نیو دہلی

 

 

 

 

مصنف کی رائے

 

چونکہ اس کتاب کے بیشتر واقعات آدم خور شیروں سے متعلق ہیں اس لئے یہ بتانا بہتر ہے کہ ان جانوروں میں آدم خوری کی عادت کیسے پیدا ہوتی ہیں۔

آدم خور شیر ایک ایسا شیر ہوتا ہے جو حالات و واقعات سے مجبور ہو کر اُس خوراک کی طرف متوجہ ہوتا ہے جو اُس کے لئے نئی ہوتی ہے۔ ایسے واقعات میں نوے فیصد شیر زخمی ہو کر اور بقیہ دس فیصد واقعات میں عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے آدم خور بنتے ہیں۔ زخمی ہونے کی ایک وجہ اناڑی شکاری کی چلائی ہوئی اوچھی گولی اور پھر زخمی شیر کا پیچھا نہ کرنا یا سیہی کے شکار میں بے احتیاطی ہوتی ہے۔ چونکہ انسان شیروں کی قدرتی خوراک نہیں، اس لئے شیر عمر یا زخموں سے مجبور ہو کر انسان کا انتخاب بطور خوراک کرتا ہے۔

شکار کی تلاش میں گھات لگا کر یا پھر چھپ کر، دونوں طرح شیر کی کامیابی کا سارا دار و مدار اس کی رفتار پر اور کسی حد تک اس کے دانتوں اور پنجوں کی حالت پر بھی ہوتا ہے۔ زخموں کے باعث یا دانتوں کے گھس جانے یا ناکارہ ہو جانے کی وجہ سے شیر اپنے شکار کو پکڑنے سے معذور ہو جاتا ہے۔ بھوک سے مجبور ہو کر وہ انسانی شکار پر اتر آتا ہے۔ جانوروں کے شکار سے انسانی شکار پر اس کا مائل ہونا میرے خیال میں محض واقعاتی ہوتا ہے۔ اس کی مثال میں مکتسر کی شیرنی پیش کروں گا۔ یہ شیرنی نسبتاً نوجوان مادہ تھی۔ سیہی کے شکار میں اس نے نہ صرف ایک آنکھ گنوائی بلکہ اس کے بازو اور اگلے پنجے میں ایک سے نو انچ تک لمبے پچاس کانٹے پیوست تھے۔ کچھ کانٹے ہڈی سے ٹکرا کر واپس مڑ کر انگریزی کے حرف یو کی شکل اختیار کر چکے تھے۔ جہاں سے شیرنی نے ان کانٹوں کو اپنے دانتوں کی مدد سے نکالنے کی کوشش کی، وہاں زخم بن گئے جن میں پیپ پڑ گئی۔ ایک دن جب یہ شیرنی گھاس کے ایک قطعے میں بیٹھی اپنے زخم چاٹ رہی تھی تو ایک عورت نے اسی قطعے سے گھاس کاٹنا شروع کی۔ شیرنی نے پہلے پہل تو کوئی توجہ نہ دی۔ جب عورت گھاس کاٹتے کاٹتے بالکل نزدیک پہنچ گئی تو شیرنی نے جست لگائی اور پنجہ عورت کے سر پر مارا۔ بیچاری عورت کی کھوپڑی انڈے کی طرح پچک گئی۔ اس کی موت اتنی اچانک تھی کہ اگلے دن جب اس کی لاش ملی تو اس کے ایک ہاتھ میں درانتی اور دوسرے میں وہ گھاس تھی جسے وہ کاٹنے والی تھی۔ عورت کی لاش کو چھوڑ کر شیرنی میل بھر دور ایک گرے ہوئے درخت کے تنے کے پیچھے لنگڑاتی ہوئی پہنچی اور لیٹ گئی۔ اگلے دن ایک آدمی آگ کے لئے اس گرے ہوئے درخت کو کاٹنے آیا۔ شیرنی جو درخت کی دوسری جانب لیٹی ہوئی تھی، نے حملہ کر کے اسے ہلاک کر دیا۔ چونکہ یہ آدمی اپنی صدری اور قمیض اتار چکا تھا، شیرنی کے حملے سے درخت پر گرا۔ شیرنی کے پنجوں سے اس کی کمر پر گہری خراشیں آئیں۔ ان خراشوں سے بہنے والے خون نے شیرنی کو شاید یہ خیال دلایا کہ وہ اس لاش سے اپنی بھوک مٹا سکتی ہے۔ خیر وجہ کوئی بھی ہو، شیرنی نے کہیں اور جانے سے قبل اس شخص کی کمر کا کچھ حصہ کھا لیا۔ ایک دن بعد اس نے تیسرے بندے کو مارا۔ اس بار اس نے باقاعدہ گھات لگائی تھی۔ اس دن سے اس شیرنی نے باقاعدہ طور پر آدم خوری شروع کر دی تھی۔ ہلاک ہونے سے قبل اس شیرنی نے کل چوبیس افراد مارے تھے۔

تازہ کئے گئے شکار پر موجود شیر، زخمی شیر یا بچوں والی شیرنی بھی اتفاق سے آدمی کو ہلاک کر سکتے ہیں۔ یہ شیر کسی بھی لحاظ سے آدم خور نہیں کہلائے جا سکتے اگرچہ اکثر لوگ انہیں بھی آدم خور گردانتے ہیں۔ ذاتی طور پر میں کسی بھی شیر کو آدم خور کہنے سے قبل کم از کم دو ہلاکتوں کا انتظار کرتا ہوں اور جہاں ممکن ہو، لاشوں کا پوسٹ مارٹم بھی کراتا ہوں۔ اس کے بعد میں اس جانور کو آدم خور شمار کرتا ہوں۔ پہاڑی علاقوں میں بہت سے ایسے واقعات میرے علم میں ہیں کہ قتل کر کے الزام شیر، تیندوے، لگڑ بگڑ یا بھیڑیوں پر ڈالنے کی کوشش کی گئی تھی۔ تفصیل یہاں بتانا مناسب نہیں ہو گی۔

عام خیال ہے کہ آدم خور ہمیشہ بوڑھا اور خارش زدہ جانور ہوتا ہے۔ خارش زدہ اس لئے کہ انسانی جسم میں موجود نمک کی مقدار اسے خارش زدہ بنا دیتی ہے۔ میں انسانوں یا جانوروں کے گوشت میں موجود نمک کی مقدار پر رائے دینے کا حق تو نہیں رکھتا البتہ یہ ضرور جانتا ہوں کہ تمام آدم خوروں کی کھال نہایت نرم اور ریشمی ہوتی ہے۔ یعنی عام خیال کے برعکس انسانی گوشت کا آدم خور کی کھال پر کم از کم کوئی برا اثر نہیں پڑتا۔

ایک اور عام غلط فہمی یہ بھی ہے کہ تمام آدم خوروں کی اولاد بھی خود بخود آدم خور بن جاتی ہے۔ اس خیال کی وجہ یہ ہے کہ یہ جانور چونکہ انسانی گوشت پر پلتے ہیں تو ان کا آدم خور بن جانا فطری سی بات ہے۔ قدرتی طور پر انسان تیندوے یا شیر کی خوراک نہیں ہوتے۔

عام طور پر بچہ وہی کچھ کھاتا ہے جو اس کی ماں اسے لا کر دیتی ہے۔ میں جانتا ہوں کہ کئی بار بڑے ہو کر یہ بچے انسانی شکار میں اپنی ماں کی مدد بھی کرتے ہیں۔ تاہم ماں کو چھوڑنے کے بعد یا ماں کی ہلاکت کے بعد کسی بھی بچے نے آدم خوری کو جاری نہیں رکھا۔

جب درندے انسانوں کو ہلاک کرتے ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا یہ جانور شیر ہے یا تیندوا؟ میرے اصول کے مطابق ہر وہ ہلاکت جو دن کی روشنی میں ہو، شیر کے باعث اور ہر وہ ہلاکت جو رات کی تاریکی میں ہو، تیندوے کی طرف سے ہوتی ہے۔ آج تک میں نے اس اصول سے کسی جانور کو انحراف کرتے نہیں دیکھا۔ دونوں جانور نیم شب بیدار ہوتے ہیں، شکار کو مارنے یا گھات لگانے کا طریقہ بھی دونوں میں یکساں، دائرہ عمل بھی ایک ہی اور دونوں ہی انسانی شکار کو دور تک لے جا سکتے ہیں۔ یہ غلط فہمی عموماً پیدا ہو جاتی ہے کہ ان کے شکار کا وقت بھی ایک ہی ہوتا ہے۔ یہ بات غلط ہے کیونکہ دونوں جانوروں کی ہمت اور حوصلہ فرق ہوتا ہے۔ شیر جب آدم خور بنتا ہے تو اس کے دل سے انسان کا خوف جاتا رہتا ہے۔ اس کے علاوہ دن میں انسان زیادہ آسانی سے اور زیادہ تعداد میں گھر سے باہر ہوتے ہیں تو اس میں شیروں کو سہولت رہتی ہے۔ اس کے بالکل برعکس تیندوا یا چیتا چاہے کتنے بندے مار چکا ہو، کے دل سے انسان کی دہشت نہیں زائل ہو پاتی۔ اس لئے یہ دن کی روشنی کی بجائے رات کی تاریکی میں انسان پر حملہ آور ہوتا ہے۔ اس لئے وہ رات کو گاؤں میں گھومتا یا رات کو ہی جھونپڑے توڑ کر شکار کرتا ہے۔ یہ حقیقت دیکھتے ہوئے کہ انسانی خوف زائل ہونے کے سبب شیر کیونکہ دن میں عام دکھائی دیتا ہے، اس کا شکار آدم خور تیندوے کی نسبت بہت آسان ہوتا ہے۔

آدم خور سے ہونے والی ہلاکتوں کی رفتار عموماً درج ذیل تین عوامل پر ہوتی ہے :

  • اس کے شکار کے دائرے میں قدرتی شکار کتنا ہے۔
  • اس کی معذوری کی نوعیت، جس نے اسے آدم خور بنایا۔
  • آیا آدم خور نر شیر ہے یا بچوں والی مادہ شیرنی۔

ہم میں سے وہ افراد جو حقیقی صورتحال سے ناواقف اور سنی سنائی اور پر بھروسہ کرتے ہیں، میں ان کی یہ غلط فہمی دور کرنا چاہتا ہوں۔ یہاں میں شیروں کی بات کروں گا کہ آدم خور شیر محض ایک انتہائی مختصر اقلیت ہوتے ہیں۔ جس مصنف نے سب سے پہلے "شیر جیسا خون کا پیاسا” یا "شیر جیسا سفاک” کی اصطلاح استعمال کی تھی، اس نے بظاہر ولن کے لئے یہ الفاظ چنے ہوں گے۔ اس طرح اس نے نہ صرف شیر جیسے شاندار جانور کی شہرت سے اپنی لاعلمی ظاہر کی بلکہ شیر کی شہرت کو بھی گہنا دیا۔ اس کی بنائی ہوئی یہ اصطلاحات اب پوری دنیا میں عام استعمال ہوتی ہیں۔ وہ شخص جو اس غلط العام رائے کا ذمہ دار ہے جس پر تقریباً پوری دنیا یقین رکھتی ہے۔

جب میں "شیر جیسا خون کا پیاسا” یا "شیر جیسا سفاک” کے الفاظ سنتا یا پڑھتا ہوں تو مجھے وہ ننھا لڑکا یاد آ جاتا ہے جس کے پاس ایک پرانی توڑے دار بندوق تھی۔ اس بندوق کی دائیں نال میں چھ انچ لمبا شگاف تھا۔ نالیوں اور کندے کو تانبے کی تاروں سے باندھا ہوا تھا تاکہ وہ ایک دوسرے سے الگ نہ ہو جائیں۔ یہ لڑکا ترائی اور بھابھر کے جنگلات میں بے فکر گھومتا پھرتا تھا۔ ان دنوں آج کی نسبت کم از کم دس گنا زیادہ شیر یہاں پائے جاتے تھے۔ یہ لڑکا جہاں بھی رات پڑے، سو جاتا تھا۔ اس کی نگرانی وہ چھوٹی سی آگ کرتی تھی جو وہ گرمی حاصل کرنے کو جلا لیتا تھا۔ اس کی نیند بار بار شیروں کی دھاڑ سن کر اکھڑ جاتی تھی جو بعض اوقات دور اور بعض اوقات بالکل نزدیک ہوتے تھے۔ یہ لڑکا آگ پر مزید ایک یا دو لکڑیاں ڈال کر پھر سونے کی کوشش کرتا تھا۔ اسے شیروں سے ڈر نہ لگتا تھا۔ اسے اپنے مختصر تجربے اور دوسرے لوگوں کی باتوں سے یہ علم ہو چکا تھا کہ جب تک شیر کو تنگ نہ کیا جائے تو وہ کوئی نقصان نہیں دیتا۔ اسی طرح دن کی روشنی میں شیر کو دیکھتے ہی وہ لڑکا اس کے راستے سے ہٹ جاتا۔ اگر ہٹنا ممکن نہ ہوتا تو بے حس و حرکت کھڑا ہو جاتا۔ شیر اس کے پاس سے ہو کر گذر جاتا اور لڑکا اپنا سفر جاری رکھتا۔ اسی طرح ایک واقعہ مجھے یاد ہے کہ جب وہ لڑکا جنگلی مرغیوں پر گھات لگاتے ہوئے آلو بخارے کی جھاڑی میں چھپا ہوا تھا کہ اس جھاڑی کی دوسری طرف سے شیر نکلا۔ اس نے حیرت سے لڑکے کو دیکھا اور جیسے زبان حال سے پوچھا "ارے، تم یہاں کہاں ؟” جواب نہ ملنے پر شیر خاموشی سے آگے بڑھ گیا۔ اسی طرح مجھے وہ لاکھوں افراد یاد آتے ہیں جو ہر روز جنگل میں جاتے ہیں اور ان کی مڈبھیڑ شیروں سے ہوتی ہے۔ ان میں بچے، بوڑھے، جوان اور عورتیں سب شامل ہوتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک شخص بحفاظت گھر واپس لوٹتا ہے۔ اکثر کو تو شیر کی موجودگی کا علم تک نہیں ہو پاتا۔

جب وہ شیر اس آلو بخارے کی جھاڑی سے نکلا تھا، نصف صدی گذر چکی ہے۔ گذشتہ بتیس سالوں میں میں نے بے شمار آدم خوروں کا سامنا بھی کیا ہے، ایسے مناظر بھی دیکھے ہیں جو پتھر کو بھی موم کر دیں، میں نے کبھی ایسا نہیں دیکھا کہ شیر نے بلا وجہ شکار کیا ہو۔ ان کا کام ہمیشہ اپنی بھوک مٹانے کے لئے شکار تک محدود ہوتا ہے چاہے یہ شکار انسانی شکل میں ہو یا پھر جانور کی شکل میں۔

شیر کا قدرتی کردار فطری توازن کو برقرار رکھنا ہے۔ حالات سے مجبور ہو کر ہی وہ آدم خوری کی طرف متوجہ ہوتا ہے یا جب اس کی قدرتی خوراک انسانوں نے ختم کر دی ہو تو وہ آدم خوری کی طرف مائل ہوتا ہے۔ آدم خوری سے قبل وہ مویشی خوری کی طرف آتا ہے۔ اس سے ہونے والا نقصان کبھی بھی دو فیصد مویشیوں سے زیادہ نہیں ہوتا۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ پوری نسل پر ہی بے رحم اور سفاک ہونے کا لیبل لگا دیا جائے۔

شکاری عموماً فطرت پسند ہوتا ہے۔ اس کے پیچھے اس کا سالوں کا تجربہ ہوتا ہے جو اس نے جنگل میں گزارے ہوتے ہیں۔ ہر شخص کا اپنا نکتہ نظر ہو سکتا ہے لیکن اکثریت کی رائے تقریباً یکساں ہوتی ہے۔ اس لئے میرا نہیں خیال کہ کوئی بھی میری رائے سے لفظ بلفظ اتفاق کرے گا۔ لیکن خیالات ضرور ملتے جلتے ہوں گے۔

تاہم ایک بات سے تمام شکاری اتفاق کریں گے چاہے وہ ہاتھی پر سوار ہو کر شکار کرتے ہوں، ، مچان پر بیٹھ کر یا پھر زمین پر شیر کے دو بدو ہو کر، شیر ایک نہایت شریف النفس اور بے جگر درندہ ہے۔ جب یہ معدوم ہوا، جیسا کہ یہ اب معدومی کے خطرے سے دوچار ہے، ہندوستان اپنے سب سے خوبصورت جانور سے محروم ہو جائے گا۔

شیر کے برعکس تیندوے کسی حد تک مردار خور ہوتے ہیں۔ جب انسان اس کے قدرتی شکار کو ختم کر دیں تو یہ بھی آدم خوری کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔

ہمارے پہاڑوں کے باشندے عموماً ہندو مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ اپنے مردوں کو جلاتے ہیں۔ یہ رسم ندی یا دریا کے کنارے ادا کی جاتی ہے تاکہ راکھ بہتی ہوئی دریائے گنگا تک جا سکے اور پھر اس سے آگے سمندر تک۔ چونکہ ان پہاڑوں کی ندیاں اور دریا وغیرہ بہت دور ہوتے ہیں اور اتنی دور تک لاش کو لے جانے میں مزدوروں کے اخراجات بہت مہنگے پڑتے ہیں۔ بعض اوقات کی اموات اتنی مہنگی نہیں پڑتیں لیکن وبا کی صورت میں یہ لوگ زیادہ اموات کا سامنا کرتے ہیں۔ اس طرح ہر مردے کو جلانا ممکن نہیں رہتا۔ ان حالات میں یہ لوگ مردے کے منہ پر جلتا ہوا کوئلہ رکھ کر اسے کھائی میں پھینک دیتے ہیں۔

تیندوے کے علاقے میں ایسی لاشیں اسے انسانی گوشت مہیا کرتی ہیں۔ وبا کے اختتام پر جب تیندوے کو یہ مفت کی لاشیں ملنا بند ہو جاتی ہیں تو وہ آدم خوری شروع کر دیتا ہے۔

کماؤں کے دو تیندووں نے کل ۵۲۵ افراد ہلاک کئے تھے۔ پہلا تیندوا ہیضے کی وبا سے اور دوسرا "جنگی بخار” سے ۱۹۱۸ء میں آدم خور بنا تھا۔

کرنل جم کاربٹ

٭٭٭

 

 

 

 

 

روبن

 

 

میں نے اس کے والدین کو کبھی نہیں دیکھا تھا۔ جب میں نے اسے نائٹ آف بروم سے خریدا تو انہوں نے بتایا کہ یہ سپینئل ہے اور اس کا نام پنچہ تھا۔ اس کا باپ بہت عمدہ شکاری کتا تھا۔ اس سے زیادہ میں روبن کے شجرہ نسب کے بارے نہیں جانتا۔

در حقیقت مجھے پلے کی تلاش بالکل نہیں تھی اور یہ محض اتفاق ہی تھا کہ جب میں اپنی ایک دوست کے ہمراہ وہاں گیا تو ہمارے مشاہدے کے لئے ہمارے سامنے سات پلوں کی ایک غلیظ ٹوکری رکھ دی گئی۔ پنچہ ان ساتوں پلوں میں سے سب سے چھوٹا اور سب سے کمزور تھا۔ صاف لگ رہا تھا کہ اپنی سی پوری کوشش کر کے یہ پلا ابھی تک زندہ ہے۔ اپنے دیگر بہن بھائیوں کو چھوڑ کر پنچہ اپنی ٹوکری سے نکلا اور میرے گرد چکر لگا کر میرے بڑے قدموں میں بیٹھ گیا۔ جب میں نے اسے اٹھا کر اپنے کوٹ کے اندر ڈالا کیونکہ صبح کا وقت تھا اور بہت شدید سردی تھی تو اس نے میرا منہ چاٹ کر شکریہ ادا کرنے کی کوشش کی۔ میں نے ہر ممکن کوشش کی کہ وہ یہ نہ جان سکے کہ میں اس سے اٹھنے والی بدبو سے پریشان ہوں۔

 

اس وقت اس کی عمر تین ماہ تھی اور میں نے اسے ۱۵ روپوں کے عوض خریدا تھا اور اب اس کی عمر ۱۳ سال ہو گئی ہے اور پورے ہندوستان کا سونا دے کر بھی کوئی مجھے اس سے جدا نہیں کر سکتا۔

جب میں اسے لے کر گھر پہنچا تو سب سے پہلے میں نے اسے پیٹ بھر کر کھانا کھلایا۔ پھر گرم پانی اور صابن سے اسے غسل دیا۔ اس کے بعد ہم نے اس کا پرانا نام پنچہ ختم کر کے نیا نام روبن دیا۔ یہ نام ہمارے پرانے وفادار کولی نسل کے کتے کا تھا جس نے میری اور میرے چھوٹے بھائی کی زندگیاں ایک ریچھنی کے حملے سے بچائی تھیں۔ اس وقت میری عمر چھ سال جبکہ میرا بھائی چار سال کا تھا۔

روبن کو باقاعدہ خوراک ملتی رہی اور اس کی صحت بہتر ہوتی چلی گئی۔ اس اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ نو عمر لڑکے اور پلے کی تربیت میں عجلت نہیں کرنی چاہئے، چند ہفتوں بعد میں روبن کو لے کر تھوڑی دور گیا تاکہ اسے بندوق کی آواز سے شناسا کر سکوں۔

ہماری جاگیر کے نچلے سرے پر کچھ گھنی جھاڑیاں ہیں اور جب میں ان کے گرد چکر لگا رہا تھا کہ ایک مور اڑا۔ روبن کو بھلا کر میں نے فوراً ہی مور پر کارتوس چلایا اور مور فوراً ہی نیچے گرا۔ چونکہ مور کانٹے دار جھاڑی پر گرا تھا، روبن فوراً ہی اس کی جانب لپکا۔ چونکہ جھاڑیاں اتنی گھنی اور دشوار گذار تھیں کہ میرا گذر نہ ہو سکتا تھا، اس لئے میں گھوم کر دوسری جانب گیا جہاں کھلی زمین تھی۔ وہاں کچھ فاصلے پر پھر سے گھنا جنگل شروع ہو جاتا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ زخمی مور اسی جنگل کا رخ کرے گا۔ اس وقت اس قطعے میں سورج کی روشنی پھیلی ہوئی تھی اور اگر میرے پاس وڈیو کیمرہ ہوتا تو یقیناً ایک بے مثال وڈیو بنا سکتا تھا۔ زخمی مورنی جو کہ بوڑھی بھی تھی، کے گردن کے پر خوف کے مارے کھڑے تھے اور اس کا ایک پر ٹوٹا ہوا تھا۔ اس کی دم سے روبن لٹکا ہوا تھا اور مورنی روبن کو اپنے ساتھ گھیسٹ کر گھنے جنگل کو جا رہی تھی۔ میری حماقت دیکھیں کہ میں نے بھاگ کر مورنی کو گردن سے پکڑ کر اٹھا لیا۔ روبن بھی اس کے ساتھ اٹھتا چلا آیا۔ مورنی نے دولتی چلائی اور روبن قلابازی کھاتا نیچے گرا۔ فوراً ہی روبن دوبارہ اٹھا اور جب میں نے مردہ مورنی کو زمین پر ڈالا تو روبن اس کے گرد ناچنے لگا۔ آج کا سبق ختم ہو گیا تھا اور جب ہم گھر واپس آئے تو یہ کہنا مشکل تھا کہ ہم دونوں میں سے کون زیادہ خوش تھا، آیا روبن کہ جس نے آج اپنا پہلا شکار کیا تھا یا پھر میں جس نے اس غلیظ ٹوکری سے بہترین کتا چنا۔

گرمیوں میں ہم لوگ پہاڑی پر رہتے تھے اور نومبر میں ہم لوگ ہر سال نیچے دامن میں منتقل ہو جایا کرتے تھے۔ اس بار ۱۵ میل کے طویل سفر پر جب ایک جگہ تنگ موڑ مڑے تو دوسری جانب لنگوروں کا ایک بہت بڑا غول پہاڑی سے نیچے کی جانب جاتے ہوئے روبن کے بالکل قریب سے گذرا۔ میری سیٹی کو نظر انداز کرتے ہوئے روبن کھائی کی جانب لنگوروں کے پیچھے لپکا۔ لنگور فوراً ہی درخت پر چڑھ گئے۔ یہاں زمین کھلی تھی اور اکا دکا درخت موجدو تھے۔ اس کے بعد زمین اچانک ڈھلوان سے گذرتی ہوئی تیس یا چالیس گز نیچے جاتی تھی اور پھر وہاں چند گز سیدھی زمین تھی۔ اس سے آگے پھر زمین ڈھلوان ہوتی ہوئی وادی کو جاتی تھی۔ اس جگہ کے دائیں جانب جہاں کچھ جھاڑیاں تھیں، بارش کے پانی کے گذرنے سے وہاں کھائی سی بن گئی تھی۔ ابھی روبن ان جھاڑیوں تک پہنچا ہی تھا کہ واپس پلٹا۔ اس بار اس کے کان سر سے ملے ہوئے اور دم ٹانگوں میں دبائے وہ اپنی قیمتی جان بچانے کے لئے پوری قوت سے بھاگ رہا تھا۔ اس کے پیچھے ایک بہت بڑا تیندوا لگا ہوا تھا۔ چونکہ میں خالی ہاتھ تھا اس لئے محض شور مچا سکتا تھا۔ میرے ساتھ میگی کی ڈانڈی اٹھانے و الےمزدور بھی شور مچانے لگے۔ ہمارا ساتھ دینے کے لئے جب سو سے زیادہ لنگور بھی چلانے لگے تو شور و غل اپنی انتہا کو پہنچ گیا۔ ادھر تیندوا ہر چھلانگ پر روبن کے قریب تر ہوتا جا رہا تھا۔ یہ بے جوڑ دوڑ بمشکل پچیس یا تیس گز تک ہی چلی ہو گی اور تیندوا روبن کے بالکل قریب پہنچا چکا تھا کہ تیندوا اچانک مڑا اور وادی میں غائب ہو گیا۔ پہاڑی کے سرے سے مڑ کر روبن میرے پاس آیا۔ تیندوے سے بال بال بچنے کے بعد روبن نے دو قیمتی سبق سیکھے جو اس نے ساری زندگی یاد رکھے۔ پہلا سبق یہ تھا کہ لنگوروں کا پیچھا کرنا خطرناک ہے اور دوسرا یہ کہ جب لنگور خطرے کی آواز نکال رہے ہوں تو اس کا مطلب ہے کہ تیندوا کہیں پاس ہی موجود ہے۔

موسم بہار میں روبن کی تربیت کا سلسلہ منقطع ہو گیا تھا اور جب یہ تربیت دوبارہ شروع ہوئی تو جلد ہی یہ بات واضح ہو گئی کہ روبن کے بچپن میں اس کی فاقہ کشی اور اس پر توجہ نہ دینے کے سبب اس کا دل بہت کمزور ہو گیا تھا اور تھوڑی سی بھی مشقت سے وہ بے ہوش ہو جاتا تھا۔

شکاری کتے کے لئے اس سے زیادہ اور کوئی مایوسی کی بات نہیں ہو سکتی کہ اس کا مالک شکار پر جاتے ہوئے اسے گھر پر ہی چھوڑ جائے۔ چونکہ پرندوں کا شکار روبن کے لئے شجر ممنوعہ بن چکا تھا، میں روبن کو ساتھ لے کر بڑے شکار پر جانے لگا۔ اس نئے مشغلے کو روبن نے ایسے اپنایا جیسے بطخ پانی کو۔ اس کے بعد سے جب بھی میں رائفل لے کر نکلتا، روبن میرے ساتھ ہوتا تھا۔

ہاتھی یا مچان کی نسبت زمین پر کھڑے ہو کر درندے کو فوری طور پر ہلاک کرنا زیادہ آسان ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ زخمی درندے کا تعاقب جب زمین پر رہ کر کرنا ہو تو شکاری پوری احتیاط سے گولی چلاتا ہے دوسرا یہ بھی کہ جب زمین پر کھڑے ہوں تو درندوں کے اہم اعضاء کو نشانہ بنانا آسان ہوتا ہے۔ تاہم میں چاہے جتنی احتیاط سے شکار کرتا رہا، کئی بار ایسا ہوا ہے کہ میں نے تیندوے یا شیر کو صرف زخمی کر پایا تھا۔ ان کا تعاقب کر کے انہیں جب تک میں نے ہلاک نہیں کر لیا، میں چین سے نہیں بیٹھا۔ اتنے برسوں کی رفاقت میں صرف ایک بار ایسا ہوا کہ روبن نے مجھے مشکل صورتحال میں اکیلا چھوڑا تھا۔ اس دن کی مختصر غیر حاضری کے بعد جب روبن دوبارہ میرے پاس آیا تو ہم نے فیصلہ کیا کہ اس بارے کسی کو نہیں بتائیں گے۔ تاہم اب ہم بوڑھے ہو چلے ہیں اور اتنا حساس نہیں رہے۔ روبن بھی جو اب بوڑھا ہو چلا ہے، اپنے بستر مرگ پر لیٹا ہوا ہے اور اس نے خوش دلی سے مجھے یہ واقعہ آپ کو سنانے کی اجازت دے دی ہے۔

یہ تیندوا اس وقت تک ہماری نظروں سے اوجھل تھا جب تک کہ وہ جھاڑیوں سے نکل کر ہمارے سامنے نہ آیا۔ باہر نکل کر تیندوا رکا اور مڑ کر اپنے بائیں شانے سے پیچھے کی طرف دیکھنے لگا۔

یہ تیندوا غیر معمولی جسامت کا نر تھا اور اس کی کھال پر دھبے اس طرح چمک رہے تھے جیسے وہ مخمل پر بنے ہوں۔ ۱۵ گز کے فاصلے سے بہترین رائفل سے آرام سے چلائی جانے والی گولی اس کے دائیں شانے میں لگی۔ چاہے گولی اس کے دل سے کتنی قریب سے ہی کیوں نہ گذری ہو، اسے فوری طور پر گرا نہ سکی۔ جب گولی اس سے ہوتی ہوئی پچاس دور زمین میں جا دھنسی، تیندوا فضاء میں اچھلا اور قلابازی کھاتے ہوئے انہیں جھاڑیوں میں گرا جہاں سے وہ منٹ بھر پہلے نکلا تھا۔ بیس، چالیس، پچاس گز تک اس کے بھاگنے کی آوازیں جھاڑیوں سے آتی رہیں اور پھر اچانک ہی آوازیں رک گئیں۔ آوازوں کے ختم ہونے کے دو ہی مطلب ہو سکتے تھے۔ اول یہ کہ تیندوا زخم کی تاب نہ لاتے ہوئے مر چکا ہے، دوئم، تیندوا گھنی جھاڑیوں سے نکل کر کھلی زمین پر پہنچ گیا ہے۔

اس روز ہم لوگ بہت دور نکل آئے تھے اور سورج غروب ہونے والا تھا جبکہ ہم گھر سے چار میل دور تھے۔ جنگل کے اس حصے میں انسانی آمد و رفت نہ ہونے کے برابر تھی اور رات کو یہاں سے کسی انسان کے گذرنے کا قطعی کوئی امکان نہ تھا۔ اس کے علاوہ میگی بالکل نہتی تھیں اور نہ تو انہیں اکیلا چھوڑ کر تیندوے کا تعاقب کرنا مناسب تھا اور نہ ہی انہیں ساتھ لے جانا۔ ہم شمال کر مڑے اور گھر کو چل دیئے۔ اس جگہ نشانی لگانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی کیونکہ تقریباً پچاس سالوں سے ان جنگلوں سے میں روز روشن اور راتوں کو بھی بکثرت گذرتا تھا۔ اگر میری آنکھیں بند بھی ہوتیں تو بھی مجھے یہاں سے گذرنے میں مشکل نہ ہوتی۔

اگلی صبح ابھی نکلا نہ تھا کہ روبن اور میں اس جگہ واپس لوٹے۔ روبن کل میرے ساتھ نہ تھا۔ جہاں کل تیندوا آن کر رکا تھا، روبن نے زمین کو سونگھا اور آگے بڑھ کر ان جھاڑیوں تک پہنچا جہاں سے تیندوا نکلا تھا۔ اس جگہ تیندوے کے خون کے بڑے بڑے دھبے تھے۔ یہاں رک کر یہ دیکھنا کہ تیندوے کو زخم کس جگہ لگا تھا، فضول ہوتا کیونکہ پندرہ گز کے فاصلے سے نہ صرف میں نے گولی تیندوے کے شانے میں لگتی دیکھی بلکہ پچاس گز دور گولی کو زمین میں دھنستے بھی دیکھا۔ یعنی گولی تیندوے کے جسم کے آر پار ہو گئی تھی۔

اگرچہ یہاں سے ضروری تھا کہ ہم خون کے نشانات کا پیچھا کرتے لیکن چار میل کے سفر کے بعد کچھ آرام کرنا بہتر ہوتا۔ ابھی اندھیرا کچھ باقی تھا اور کچھ وقت گذارنے سے ہمیں کوئی نقصان نہ ہوتا بلکہ فائدہ ہی پہنچتا۔ سورج نکلنے والا تھا اور جنگل کے اکثر جانور اس وقت گھوم پھر رہے ہوتے ہیں۔ ممکن تھا کہ ان میں سے کسی جانور سے ہمیں تیندوے کی موجودگی کے بارے جاننے کا مزید موقع مل جاتا۔

ایک نزدیکی درخت کے نیچے میں نے ایسی جگہ تلاش کر لی جو شبنم سے پاک اور خشک تھی۔ یہاں ہم بیٹھے اور ابھی میں نے سیگرٹ ختم ہی کیا تھا کہ ایک مادہ چیتل پھر دوسری پھر تیسری بولی۔ یہ آواز ہمارے بائیں اور سامنے کی جانب ۶۰ گز کے فاصلے سے آئی تھی۔ روبن اٹھا اور آہستگی سے میری جانب دیکھنے لگا۔ میرا اشارہ پاتے ہی وہ دوبارہ آواز کی جانب مڑا۔ لنگور کی آواز پر اس کے پیچھے لپکنے والا پلا اب تجربہ کارشکاری کتا بن چکا تھا۔ آس پاس موجود دیگر جانوروں اور پرندوں کی طرح روبن بھی یہ جان چکا تھا کہ چیتل کسی تیندوے کی موجودگی کے بارے خبردار کر رہے ہیں۔

چیتلوں کے بولنے سے اندازہ ہو رہا تھا کہ تیندوا ان کے سامنے موجود ہے۔ تھوڑی دیر اور رکتے تو ہمیں پتہ چل سکتا تھا کہ آیا تیندوا زندہ ہے یا مر چکا ہے۔ پانچ منٹ بولتے رہنے کے بعد اچانک سب چیتل دو بار ایک ساتھ بولے اور پھر چپ کر گئے۔ یعنی تیندوا نہ صرف زندہ تھا بلکہ اپنی جگہ سے حرکت کر چکا تھا۔ اب ہمیں یہ جاننا تھا کہ تیندوا کس جگہ موجود ہے۔ یہ کام ہم چیتلوں کی گھات لگا کر سکتے تھے۔

ہوا کی مخالف سمت ۵۰ گز جا کر ہم گھنی جھاڑیوں میں داخل ہوئے اور چھپ کر چیتلوں کی جانب بڑھنے لگے۔ یہ کام اتنا مشکل بھی نہیں اور برسوں کے تجربے سے میں اور روبن سیکھ چکے ہیں کہ جنگلوں میں کیسے خاموشی سے چلنا ہے۔ چیتل ابھی تک ہماری نظروں سے اوجھل تھے اور اس وقت دکھائی دیئے جب ہم ان سے محض چند فٹ دو رہ گئے تھے۔ سارے چیتل کھلے میدان میں کھڑے شمال میں ایک ہی جگہ دیکھے جا رہے تھے۔ یہ تقریباً وہی جگہ تھی جہاں کل تیندوے کے فرار کے بعد آوازیں ختم ہوئی تھیں۔

اب تک ہمیں ان چیتلوں سے بھرپور مدد ملی تھی اور انہوں نے ہمیں انجانے میں تیندوے کی موجودگی اور پھر اس کی حرکات سے آگاہ کیا تھا۔ اب ہمیں ان سے تیندوے کی سمت کا بھی پتہ چل گیا تھا۔ تاہم یہ سب جاننے کے لئے ہمیں گھنٹہ لگ گیا تھا۔ اگر چیتلوں نے ہماری موجودگی کو محسوس کر لیا تو یہ ساری محنت اکارت جاتی کیونکہ چیتل سارے جنگل کو ہماری موجودگی کے بارے آگاہ کر دیتے۔ ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کیا میں الٹے قدموں واپس جا کر کچھ دور سے ان چیتلوں کے پیچھے سے جا کر تیندوے کا پیچھا کروں یا کسی تیندوے کی آواز نکال کر انہیں یہاں سے بھگا دوں کہ اچانک ایک مادہ مڑی اور سیدھا میرے منہ کو تکنے لگی۔ اگلے ہی لمحے سارا جنگل اس کی خطرے کی آواز سے جاگ اٹھا۔ سارے چیتل خطرہ بھانپ کر بھاگ لئے تھے۔ مجھے صرف پانچ گز ہی آگے بڑھنا تھا کہ میں کھلے میدان تک پہنچتا لیکن تیندوا مجھ سے زیادہ تیز نکلا۔ جونہی میں جھاڑیوں سے نکلا تو مجھے تیندوے کی پچھلی ٹانگیں اور دم دوسری طرف کی جھاڑیوں میں گم ہوتی دکھائی دیں۔ چیتلوں نے ہماری ساری محنت پر اچھی طرح پانی پھیر دیا تھا۔ اب ہمیں پھر سے تیندوے کی موجودگی کو جاننا تھا۔ اس بار روبن یہ کام کرتا۔

میں چند منٹ تک کھلے میدان میں رکا تاکہ تیندوے کو آرام سے بیٹھنے کا وقت مل جائے اور اس کی چھوڑی ہوئی بو بھی کچھ مدھم ہو جائے۔ پھر روبن کو لے کر میں مغرب کی جانب گیا جہاں سے ہوا کا رخ ہمارے مخالف سمت تھا۔ ہم ابھی ۶۰ یا ۷۰ گز ہی گئے ہوں گے کہ میرے آگے چلتا ہوا روبن رکا اور ہوا کو سونگھنے لگا۔ روبن جنگلوں میں بالکل گوں گا بن جاتا ہے اور اسے اپنے اعصاب پر پوری طرح قابو رہتا ہے۔ تاہم اس کی ایک رگ ایسی ہے جو تیندوے کی کہیں نزدیک موجودگی یا اس کی تازہ بو کو محسوس کر کے اس کے قابو میں نہیں رہتی۔ یہ رگ اس کی پچھلی ٹانگوں کے پیچھے سے گذرتی ہے۔

پچھلے سال گرمیوں میں یہاں سے بہت بڑا طوفان گذرا تھا اور بہت سارے درخت جڑوں سے اکھڑ گئے تھے۔ ان گرے ہوئے درختوں میں سے ایک درخت کی جانب روبن کا رخ تھا۔ یہ درخت ہمارے موجودہ مقام سے ۴۰ گز دور تھا۔ اس کی شاخیں ہماری جانب اور جڑیں ہماری مخالف سمت تھیں۔ تنے کے دونوں جانب ہلکی جھاڑیاں تھیں اور چھوٹی چھوٹی گھاس بھی اگی ہوئی تھی۔

کسی بھی دوسرے موقع پر ہم سیدھے اس درخت کو چل پڑتے تاہم اس بار ہمارا سامنا نہ صرف ایک تیندوے سے تھا جو زخمی ہونے کے بعد انتہائی نڈر ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ تیندوے کو پندرہ گھنٹے کا وقفہ بھی مل چکا تھا۔

گھر سے نکلتے وقت میں نے اعشاریہ ۲۷۵ بور کی رائفل اٹھائی تھی۔ لمبے فاصلوں تک ساتھ لے جانے کے لئے تو یہ رائفل بہت عمدہ ہے لیکن تھوڑے فاصلے سے زخمی تیندوے کا سامنا کرنے کے لئے اس کی طاقت کافی نہیں۔ اس لئے براہ راست درخت تک جانے کی بجائے میں ایسا راستہ اختیار کیا جو ہمیں درخت سے پندرہ گز دور اور درخت کی سیدھ میں لے جاتا۔ قدم بقدم چلتے ہوئے ہم اس جگہ تک پہنچے اور جب شاخوں کو عبور کر کے ہم تنے کی سیدھ میں پہنچے تو روبن رک گیا۔ روبن کو دیکھتے ہوئے میں نے سمت متعین کی اور دیکھا کہ تیندوے کی دم اوپر نیچے ہل رہی تھی۔ یہ علامت ظاہر کرتی تھی کہ تیندوا حملے کے لئے تیار ہے۔ انہی قدموں میں رک کر ابھی میں رائفل کو شانے تک اٹھایا ہی تھا کہ سامنے کی جھاڑیوں سے تیندوا نمودار ہوا۔ میری چلائی ہوئی گولی جو تیندوے کو ہلاک کرنے کی بجائے محض اسے روکنے کے لئے چلائی گئی تھی، تیندوے کے پیٹ کے نیچے سے ہوتی ہوئی اس کی پچھلی بائیں ٹانگ میں لگی۔ گولی کے صدمے سے زیادہ گولی کی آواز سے تیندوے کی توجہ دوسری جانب مبذول ہوئی اور میرے دائیں شانے سے ہوتے ہوئے تیندوا گذرا۔ ابھی میں دوسری گولی چلانے کے قابل ہو ہی رہا تھا کہ تیندوا جھاڑیوں میں غائب ہو گیا۔ اس دوران روبن میرے قدموں سے نہیں ہٹا تھا اور اب ہم اس جگہ کا معائنہ کرنے آگے بڑھے جہاں سے تیندوا گذرا تھا۔ یہاں ہر طرف خون ہی خون تھا تاہم یہ جاننا ناممکن تھا کہ آیا یہ خون پرانے زخم سے نکلا ہے یا نئے زخم سے۔ تاہم اس کا روبن پر کوئی اثر نہ ہوا اور اس نے فوراً ہی تیندوے کا پیچھا شروع کر دیا۔ کچھ گھنی جھاڑیوں اور گھٹنوں تک لمبی گھاس سے جاتے ہوئے دو سو گز کے بعد میں اپنے سامنے تیندوے جاتے دیکھا۔ ابھی میں گولی چلانے کے لئے تیار ہو ہی رہا تھا کہ تیندوا ایک جھاڑی میں گھس کر غائب ہو گیا۔ یہ جھاڑی ایک بڑے خیمے کے حجم کی تھی۔ یہاں تیندوے کو نہ صرف پناہ حاصل تھی بلکہ یہاں سے وہ اگلے حملے کے لئے بھی تیار ہو سکتا تھا۔

ہمارے صبح کی اس مہم میں ہم کافی وقت گذار چکے تھے اور ہلکی رائفل کے ساتھ تیندوے کا مزید پیچھا کرنا حماقت ہی ہوتی۔ ہم مڑے اور گھر کو چل پڑے۔

اگلی صبح ہم دونوں پھر لوٹے۔ اس بار صبح سویرے سے ہی روبن بے چین ہو رہا تھا۔ جنگل میں صبح سویرے کی تمام خوشبوؤں سے بے نیاز روبن جلد از جلد اس جگہ واپس لوٹنا چاہتا تھا جہاں ہم نے تیندوے کو کل چھوڑا تھا۔

اس بار میرے پاس اعشاریہ ۴۵۰/۴۰۰ کی رائفل تھی اور کل کی نسبت مجھے بہت بہتر محسوس ہو رہا تھا۔ ابھی ہم اس کانٹے دار جھاڑی سے کئی سو گز دور تھے کہ میں رکا اور روبن کو احتیاط سے اور آہستگی سے چلنے کا اشارہ کیا۔ ایسا فرض کر لینا کہ جہاں گذشتہ روز زخمی جانور کو چھوڑا تھا، وہ اب بھی وہیں ہو گا، انتہائی خطرناک غلطی ہے۔ درج ذیل واقعہ اس بات کی وضاحت کرے گا۔

میرے ایک واقف شکاری نے دوپہر کے وقت ایک شیر کو زخمی کیا اور اس کا پیچھا کئی میل تک کرتے رہے۔ اگلی صبح بہت سارے ساتھیوں کے ہمراہ وہ اس جگہ کو لوٹے۔ ان کا ایک ساتھی جو مقامی شکاری بھی تھا، ان کی خالی رائفل اٹھائے ہوئے سب سے آگے تھا۔ ان کا ارادہ تھا کہ جہاں کل شیر کا پیچھا چھوڑا تھا، وہیں سے پیچھا نئے سرے سے شروع کریں گے۔ ابھی وہ لوگ خون کے نشانات پر چلتے ہوئے اس جگہ سے ایک میل پیچھے ہی تھے مقامی شکاری سیدھا اسی زخمی شیر پر جا پہنچا۔ نتیجتاً شیر نے اس شکاری کو ہلاک کر دیا جبکہ دیگر افراد میں کچھ تو درختوں پر چڑھ گئے جبکہ کچھ افراد نے سر پر پاؤں رکھا اور دور جا کر دم لیا۔

مجھے اس کانٹے دار جھاڑی کے مقام کا بخوبی اندازہ تھا اس لئے میں روبن کو ساتھ لے کر اس طرح بڑھا کہ ہم اس جھاڑی کی دوسری جانب چند گز کے فاصلے سے گذرتے۔ روبن کو بخوبی علم تھا کہ ہوا کے رخ کی مدد سے کسی جانور کو کیسے تلاش کیا جاتا ہے۔ ابھی ہم تھوڑا سا آگے بڑھے ہوں گے اور ابھی ہم اس جھاڑی سے تقریباً سو گز دور تھے کہ روبن رکا اور ہوا کو سونگھ کر مجھے اشارہ کیا کہ اسے تیندوے کی بو محسوس ہو رہی ہے۔ کل کی طرح آج بھی وہ ایک گرے ہوئے درخت کے پیچھے گھنی گھاس میں چھپا ہوا تھا۔ کل کے ناکام حملے کے بعد تیندوا اسی طرف گیا تھا۔ درخت کے ہماری طرف والے حصے میں زمین کھلی تھی اور دوسری جانب گھنی گھاس اور جھاڑیاں شروع ہو جاتی تھیں۔ روبن کو میں نے اشارہ کیا کہ ہمارے اصل راستے سے پیش قدمی جاری رکھے۔ ہم اس کانٹے دار جھاڑی کے پاس سے گذرے اور روبن نے اس جھاڑی کو بالکل ہی نظر انداز کر دیا۔ اس کا رخ ایک نالے کی طرف تھا جو برساتی پانی سے بنا تھا۔ یہاں پہنچ کر میں نے اپنا کوٹ اتارا اور اس میں جتنے پتھر سما سکتے تھے، بھرے اور درخت کے پاس موجود کھلی زمین پر واپس لوٹ آیا۔

رائفل کو فوری طور پر استعمال کرنے کی نیت سے تیار رکھا اور کوٹ اٹھا کر پتھر پھینکنے شروع کر دیئے۔ میں نے درخت سے ابتداء کی اور پھر اس کے آس پاس کی جھاڑیوں میں بھی پتھر پھینکے۔ میرا ارادہ تھا اگر تیندوا زندہ ہوا تو اگر کوئی پتھر اس کے پاس گرا یا اسے لگا تو وہ حملہ کرے گا۔ حملے کی صورت میں میں جہاں تھا، وہاں سے تیندوے کا سامنا کرنا آسان ہوتا۔ جب تمام پتھر ختم ہو گئے تو میں نے تالیاں بجائیں، کھانسا اور شور مچایا لیکن نہ تو پتھراؤ کے دوران اور نہ ہی اس کے بعد تیندوے کی جانب سے کوئی آواز سنائی دی۔

اب میں سیدھا درخت کے قریب جا کر اس کے اوپر سے دوسری جانب دیکھنے میں میں حق بجانب تھا۔ تاہم جنگل کی ایک پرانی کہاوت کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہ تیندوے کی جب تک کھال نہ اتار لی جائے، اسے مردہ نہ سمجھو، میں نے درخت کے گرد ایک چکر لگانے شروع کر دیئے کہ ہر بار ہمارا فاصلہ کم ہوتا جائے حتیٰ کہ میں درخت کے نیچے موجود جھاڑیوں میں جھانک سکوں۔ پہلے چکر میں نے ۲۵ گز کے فاصلے سے شروع کیا اور ابھی میں نے دو تہائی فاصلہ ہی طے کیا ہو گا کہ اچانک روبن رک گیا۔ جونہی میں نے مڑ کر نیچے دیکھا کہ روبن کیوں رکا ہے، سامنے سے تیندوے کی غراہٹیں سنائی دیں اور تیندوے نے سیدھا ہمارا رخ کیا۔ مجھے اپنے سامنے محض ہلتی ہوئی جھاڑیاں ہی دکھائی دے رہی تھیں۔ میں تھوڑا سادائیں جانب مڑا اور ابھی رائفل اٹھائی ہی تھی کہ تیندوا کا سر اور شانے مجھ سے چند فٹ دور جھاڑیوں سے نکلے۔

تیندوے کی جست میری رائفل سے گولی بیک وقت نکلی۔ فوراً ہی میں بائیں جانب مڑا تاکہ روبن میرے قدموں میں نہ کچلا جائے، میں نے دوسری گولی چلائی۔ اس وقت تیندوا میرے قریب سے گذر رہا تھا۔ پہلی گولی میں نے ہاتھوں میں رائفل پکڑے ہوئے جبکہ دوسری گولی رائفل کو پہلو سے ٹکائے چلائی۔

جب کوئی زخمی جانور چاہے وہ شیر ہو یا تیندوا، اپنے حملے میں ناکام ہو جائے تو فرار کو ہی ترجیح دیتا ہے اور جب تک اسے دوبارہ نہ چھیڑا جائے، وہ حملہ نہیں کرتا۔

میں بائیں جانب اس لئے مڑا تھا کہ روبن میرے قدموں تلے نہ کچلا جائے اور جب میں نے دیکھا تو روبن کہیں دکھائی نہیں دیا۔ اتنے برسوں کے دوران شکار میں ہماری رفاقت میں پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ روبن مجھے مشکل قوت میں اکیلا چھوڑ گیا تھا۔ شاید اب وہ گھر جانے کی کوشش کر رہا ہو؟ تاہم اس کی راہ میں حائل دشواریاں اور اس کے کمزور دل کے پیش نظر اس کا گھر پہنچنا بہت مشکل تھا۔ یہاں سے گھر کا فاصلہ کم از کم چار میل بنتا تھا۔ انہی خطرات کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے فوراً اس کو تلاش کرنے کا فیصلہ کیا۔ جونہی میں چلا، فوراً ہی میں نے اس کا سر تقریباً سو گز دور ایک درخت کے تنے کے پیچھے سے نکلتا دیکھا۔ جب میں نے ہاتھ اٹھا کر چٹکی بجائی تو لٹکے ہوئے کانوں اور شرمندہ شرمندہ انداز میں وہ چلتے ہوئے میرے پاس پہنچا۔ رائفل کو زمین پر رکھ کر جب میں نے اسے گود میں اٹھایا تو زندگی میں دوسری بار اس نے میرا منہ چاٹ کر مجھے یہ بتانے کی کوشش کی کہ وہ مجھے زندہ اور محفوظ دیکھ کر کتنا خوش ہو رہا ہے اور یہ بھی کہ مجھے اکیلا چھوڑنے پر وہ کتنا شرمندہ ہے۔

کسی بھی اچانک اور ان دیکھے خطرے کا مقابلہ کرنے کے لئے انسان اور جانوروں کے رد عمل میں بہت فرق ہے، خصوصاً جب خطرہ سنائی دے رہا ہو لیکن دکھائی نہ دے۔ روبن نے ایسی صورتحال میں بھاگ نکلنے میں عافیت سمجھی جبکہ میرے قدم وہیں زمین میں گڑ گئے اور فرار کا راستہ میرے لئے ممکن نہ رہا۔

جب میں نے روبن کو یقین دلا دیا کہ میں اس سے بالکل بھی ناراض نہیں، اس نے کانپنا بند کیا اور ہم تیندوے کی لاش کی طرف چل پڑے۔ اس تیندوے نے انتہائی بہادرانہ انداز میں ہمارا مقابلہ کیا تھا اور بال برابر فرق کے ساتھ میری بجائے اس کی لاش وہیں پڑی تھی۔

میں نے آپ کو یہ واقعہ سنایا ہے اور جب میں یہ بتا رہا تھا تو دنیا کا سب سے بہادر کتا اور انسان کا بہترین دوست روبن، ہمیشہ کے لئے اس دنیا سے جا چکا ہے۔ مجھے علم ہے کہ اگلی دنیا میں وہ میرا انتظار کر رہا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

چوگڑھ کے شیر

 

 

(۱)

 

مشرقی کماؤں کا جو نقشہ میرے سامنے دیوار پر لٹک رہا ہے، اس پر جا بجا کانٹے لگے ہیں۔ ہر کانٹے کے نیچے ایک تاریخ بھی درج ہے۔ کانٹا اس علاقے کو اور تاریخ اس دن کو ظاہر کرتی ہے کہ جب سرکاری اطلاع کے مطابق اس جگہ چوگڑھ کے آدم خور نے انسانی جان لی تھی۔ نقشے پر کل چونسٹھ نشانات ہیں۔ میں نقشے کے درست ہونے پر اصرار نہیں کرتا کیونکہ یہ نقشہ میں نے صرف دو سال میں بنایا تھا۔ جو ہلاکتیں میرے علم میں نہ آئیں یا وہ اشخاص جو گھائل ہو کر بعد ازاں ہلاک ہو گئے، وہ اس فہرست میں شامل نہیں۔

پہلا کانٹا ۱۵ دسمبر ۱۹۲۵ کا ہے اور آخری ۲۱ مارچ ۱۹۳۰ کا ہے۔ شمالاً جنوباً دو کانٹوں کا انتہائی فاصلہ پچاس میل ہے اور شرقاً غرباً تیس میل۔ یہ علاقہ پندرہ سو مربع میل پر پھیلا ہوا اور پہاڑی ہے۔ یہاں سردیوں میں بہت برف پڑتی ہے اور گرمیوں میں وادیاں جھلسا دینے والی گرمی کا شکار ہوتی ہیں۔ اس علاقے میں چوگڑھ کے آدم خور نے اپنی سلطنت اور دہشت طاری کر رکھی تھی۔ اس پورے علاقے میں بکھرے ہوئے گاؤں اکا دکا گھرانوں سے لے کر سو افراد تک کی آبادی رکھتے تھے۔ سخت پگڈنڈیاں ان دیہاتوں کو آپس میں ملاتی ہیں۔ جب آدم خور کی سرگرمیوں کے باعث یہ راستے مخدوش ہو جاتے ہیں تو یہ لوگ رابطے کے لئے آواز سے کام لیتے ہیں۔ کسی اونچی جگہ مثلاً پتھر یا گھر کی چھت پر کھڑا ہو کر کوئی بھی شخص "کوووئی” کی آواز نکالتا ہے تاکہ پاس والے دیہات کے لوگ خبردار ہو جائیں۔ جب اس کا جواب ملتا ہے تو پہلا شخص تیز اور اونچی آواز میں چلا کر پیغام سنا دیتا ہے۔ ایک دیہات سے دوسرے اور پھر اس سے آگے یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے اور پیغام نہایت مختصر وقت میں پورے علاقے میں پہنچ جاتا ہے۔

اس آدم خور پر قسمت آزمائی کے لئے میں نے اپنا نام ڈسٹرکٹ کانفرنس میں فروری ۱۹۲۹ میں پیش کیا۔ اس وقت کماؤں کے ڈویژن میں تین آدم خور سرگرم تھے۔ چونکہ چوگڑھ کے آدم خور سب سے زیادہ تباہی پھیلا رہا تھا، میں نے پہلے اسی کو چنا۔

سرکاری طور پر کانٹوں اور تاریخوں سے بھرا نقشہ میرے حوالے کر دیا گیا۔ اس کے مطابق آدم خور کالا آگر کے شمالی اور مشرقی سرے پر زیادہ سرگرم تھا۔ یہ پہاڑ کوئی چالیس میل لمبا اور ساڑھے آٹھ ہزار فٹ بلند ہے۔ اس پہاڑ کے شمالی سرے سے سڑک گذرتی ہے اور کئی جگہ میلوں تک گھنے جنگلات سے گذرتی ہے۔ بعض جگہ یہ سڑک جنگل اور مزروعہ زمین کے درمیان حد بندی کا کام بھی دیتی ہے۔ ایک جگہ سڑک بل کھاتی ہے جو کالا آگر کے فارسٹ بنگلے سے نزدیک ہے۔ یہ بنگلہ ہی میری منزل تھا اور چار دن کے پیدل سفر اور چار ہزار فٹ کی عمودی چڑھائی کے بعد اپریل ۱۹۲۹ کی ایک شام میں اس تک پہنچا۔ اس جگہ آخری انسانی شکار ایک بائیس سالہ نوجوان تھا جو مویشیوں کو چراتے وقت مارا گیا تھا۔ پہنچنے کے بعد اگلی صبح جب میں ناشتہ کر رہا تھا تو اس جوان کی دادی مجھے دیکھنے آئی۔

اس نے مجھے بتایا کہ آدم خور نے اس کے واحد رشتہ دار کو ہلاک کر ڈالا ہے۔ جب وہ رو کر کچھ چپ ہوئی تو اس نے اپنی تینوں بھینسیں مجھے بطور چارہ استعمال کرنے کی پیش کش کی۔ اس کا کہنا تھا کہ اگر اس کی بھینسوں کی مدد سے میں آدم خور کو مار سکا تو اسے سکون اور اطمینان مل جائے گا کہ اس کے پوتے کا بدلہ لیا جا چکا ہے۔ یہ بھینسیں پوری طرح جوان اور میرے لئے بیکار تھیں۔ تاہم براہ راست انکار کرنے سے اس کا دل ٹوٹ جاتا۔ میں نے اسے کہا کہ میں اپنے ساتھ نینی تال سے لائے ہوئے نوجوان بھینسے پہلے باندھوں گا۔ اس کے بعد اس کی بھینسوں کی باری آئے گی۔ اس دوران آس پاس کے دیہاتوں کے نمبردار بھی میرے گرد جمع ہو چکے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ آدم خور کو آخری بار دس دن قبل اور بیس میل دور ایک گاؤں میں دیکھا گیا تھا جہاں آدم خور نے میاں بیوی کو مار کر کھایا تھا۔

دس دن پرانے نشانات کا پیچھا کرنا بے کار تھا۔ نمبرداروں سے کافی دیر تک بات کے بعد جب میں فارغ ہوا تو میں نے فیصلہ کیا کہ مشرقی سرے کے گاؤں ڈلکانیہ کا چکر لگا لوں۔ ڈلکانیہ کالا آگر سے دس میل دور تھا اور آدم خور کی آخری واردات والے گاؤں سے دس میل دور۔

نقشے پر ڈلکانیہ اور اس کے آس پاس کے گاؤں پر لگے کانٹوں کی کثرت سے معلوم ہوتا تھا کہ آدم خور کی جائے رہائش یا مستقل ٹھکانہ یہیں آس پاس ہی کہیں ہے۔

اگلی صبح ناشتہ کر کے میں کالا آگر کی طرف فارسٹ روڈ پر چلتا ہوا بڑھا۔ یہ سڑک مجھے پہاڑ کے آخر تک لے جائے گی اور جہاں سے مجھے اس سڑک کو چھوڑ کر نیچے اترنا تھا اور دو میل چل کر میں ڈلکانیہ پہنچ جاؤں گا۔ یہ سڑک جو کہ گھنے جنگلات سے گذرتی ہے، کم ہی استعمال ہوتی تھی۔ اس پر پگ تلاش کرتا ہوا میں آگے بڑھا۔ دو بجے میں اس جگہ پہنچا جہاں میں نے سڑک کو چھوڑ کر نیچے اترنا تھا۔ یہاں میں ڈلکانیہ کے بہت سارے بندوں سے ملا۔ یہ لوگ "کوووئی” کی وجہ سے جان چکے تھے کہ میں اس جگہ کیمپ لگانے آ رہا ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ اس صبح آدم خور نے عورتوں کی ایک جماعت پر حملہ کیا تھا جو ڈلکانیہ سے دس میل دور ایک اور گاؤں کے پاس فصل کاٹ رہی تھیں۔

میرے ساتھی آٹھ میل سے میرا کیمپ اٹھائے آ رہے تھے۔ وہ بخوشی دس میل اور چلنے کے لئے تیار تھے لیکن جب میں نے یہ سنا کہ اس گاؤں کا راستہ خاصا مشکل اور گھنے جنگلات سے گذرتا ہے، میں نے آدمیوں کو ڈلکانیہ بھیج دیا اور خود اکیلے اس جگہ جا کر شیر کے حملے کا معائینہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ میرے ملازم نے فوراً ہی کھانا بنانا شروع کر دیا۔ تین بجے کھانا کھا کر میں دس میل کے سفر پر چل دیا۔ عام حالات میں دس میل اڑھائی گھنٹے کا سفر ہے لیکن یہاں صورتحال برعکس تھی۔ مشرقی سرے سے گذرتا ہوا راستہ کئی گہری کھائیوں، بڑی بڑی چٹانوں، گھنی جھاڑیوں اور درختوں سے پٹا پڑا تھا۔ ہر اس طرح کی رکاوٹ جہاں آدم خور کی شکل میں موت چھپی ہو، سے پوری طرح محتاط ہو کر گذرنا پڑتا ہے۔ پیش قدمی ظاہراً بہت سست ہو جاتی ہے۔ ابھی میں کافی دور تھا کہ ڈھلے سائیوں نے مجھے رکنے کا عندیہ دیا۔

کسی بھی دوسرے علاقے میں رات کو کھلے آسمان تلے خشک پتوں پر سو جانا بہت آرام دہ ہوتا لیکن یہاں اس طرح سونا یقینی موت ہوتا۔ عرصہ دراز سے شب بسری کے لئے مناسب درخت کے انتخاب اور اس پر آرام سے سو جانے کی عادت نے یہ مسئلہ بھی حل کر دیا تھا کہ کہاں اور کیسے سویا جائے۔ اس بار میں نے برگد کا درخت چنا۔ ابھی میں چند ہی گھنٹے سویا ہوں گا کہ درخت کے نیچے چند جانوروں کی آوازیں سن کر جاگ گیا۔ میری رائفل شاخ سے بندھی ہوئی تھی۔ دیکھنے سے معلوم ہوا کہ ریچھوں کا غول "کارپھل” کے درختوں کی طرف جا رہا تھا۔ یہ درخت نزدیک ہی تھے۔ کھاتے وقت ریچھ بہت شور کرتے ہیں۔ جب تک وہ پیٹ بھر کر چلے نہ گئے، میرے لئے سونا ممکن نہ تھا۔

سورج ابھرے دو گھنٹے گذر چکے تھے کہ میں اس گاؤں پہنچا۔ پانچ ایکڑ کے خالی رقبے میں دو جھونپڑے اور مویشیوں کا ایک باڑہ تھا۔ اس کے ہر طرف جنگل ہی جنگل تھا۔ اس گاؤں سے چند ہی گز دور گندم کا وہ کھیت تھا جہاں تین موقعوں پر گھات لگاتا آدم خور بروقت دکھائی دے گیا تھا۔ مجھے وہ جگہ دکھائی گئی۔ جس شخص نے شیر کو دیکھ کر عورتوں کو خبردار کیا تھا، نے بتایا کہ ناکام ہونے پر آدم خور جنگل کی طرف پلٹا اور وہاں دوسرے شیر کے ساتھ مل کر پہاڑی سے نیچے اترا۔ ان دونوں جھونپڑوں کے مکینوں کو رات بھر نیند نہ آئی کیوں کہ شیر رات بھر بولتے رہے اور میری آمد سے ذرا دیر پہلے ہی چپ ہوئے۔ دو شیروں والی بات نے تصدیق کی کہ آدم خور کے ساتھ اس کا بچہ بھی ہے۔

ہمارے دیہاتی بہت مہمان نواز ہوتے ہیں۔ جب انہیں علم ہوا کہ میرا کیمپ ڈلکانیہ میں ہے اور میں نے رات جنگل میں گذاری تھی، انہوں نے فوراً کھانا تیار کرنے کی پیش کش کی۔ میں جانتا تھا کہ اس طرح ان لوگوں پر غیر ضروری بار پڑتا۔ میں نے انہیں چائے کا کہا۔ چائے تو موجود نہ تھی لیکن دودھ کا گلاس مل گیا جو بہت زیادہ گڑ کی وجہ سے کچھ زیادہ ہی میٹھا تھا۔ اگر اس کی عادت ہو جائے تو یہ بہت مزہ دیتا ہے۔

میزبانوں کی درخواست پر میں رائفل لے کر نگرانی کرتا رہا اور وہ لوگ باقی بچی ہوئی فصل کاٹ کر جلد ہی فارغ ہو گئے۔ دوپہر کو ان لوگوں کی دعائیں لے کر میں اس طرف روانہ ہوا جہاں وادی سے انہوں نے شیروں کی آوازیں سنی تھیں۔

یہ وادی تین دریاؤں نندھور، لدھیا اور مشرقی گوالا کے ملاپ سے شروع ہو کر جنوب مغرب کی طرف بیس میل جتنی پھیلی ہوئی ہے اور خوب گھنے جنگلات سے بھری ہوئی ہے۔ نشانات کا کھوج لگانا تو ممکن نہ تھا۔ میرے لئے واحد ممکنہ راستہ یا تو ان جانوروں کو اپنی طرف متوجہ کرنا یا پھر جنگلی جانوروں کی آوازوں کی مدد سے ان کا پیچھا کرنا تھا۔

آپ میں سے وہ لوگ جو زمین پر رہ کر آدم خوروں کا شکار کرتے ہیں، بخوبی جانتے ہیں کہ جانوروں اور پرندوں کی آوازیں اور ہوا کا رخ اس طرز کے شکار میں بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ اس جگہ ان جانوروں اور پرندوں کی تفصیل بتانا تو مناسب نہیں کیوں کہ اس جگہ تین یا چار میل کا مطلب کئی ہزار فٹ کی بلندی یا پستی ہوتا۔ اسی نسبت سے جانور اور پرندے بھی بدل جاتے ہیں کہ جن پر شکاری بھروسہ کرتا ہے اور جن کی مدد سے اس کو اپنی حفاظت اور شکار کی حرکات کے بارے علم ہوتا ہے۔ تاہم ہر سطح یا بلندی اور پستی، ہر جگہ ہوا کے رخ کی اہمیت یکساں ہی رہتی ہے۔ اس بارے چند الفاظ شاید بے محل نہ ہوں۔

شیروں کو علم نہیں ہوتا کہ انسانوں میں سونگھنے کی طاقت یعنی قوت شامہ نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ شیر جب آدم خور بنتا ہے تو وہ انسان پر حملہ کرتے وقت وہی طریقہ اپناتا ہے جو وہ دیگر جنگلی جانوروں کے شکار کے لئے آزماتا ہے۔ یعنی یا تو ہوا کے رخ کی مخالف سمت سے حملہ یا پھر ہوا کے رخ پر لیٹ کر۔

اس بات کی اہمیت تب واضح ہوتی ہے جب شکاری آدم خور کی تلاش کر رہا ہوتا ہے تو کس طرف شیر کی موجودگی کے امکانات ہو سکتے ہیں۔ یعنی کہ شیر گھات لگا رہا ہے یا پھر شکاری کے انتظار میں لیٹا ہوا ہے۔ اگر ہوا شیر سے شکاری کی طرف چل رہی ہو تو شیر کی جسامت، رنگ، بے آواز حرکت کرنے کی صلاحیت بھی فائدہ نہیں دے سکتی۔

چاہے شیر چھپ کر حملہ کرے یا پھر گھات لگا کر، دونوں صورتوں میں حملہ پشت کی جانب سے ہی ہوتا ہے۔ اس لئے آدم خور کی تلاش میں نکلے شکاری کا ہوا کا رخ جانے بغیر گھنے جنگل میں گھسنا خودکشی کے مترادف ہوتا ہے۔ مثلاً اگر شکاری کسی ایسی جگہ گھسے جہاں ہوا مخالف سمت میں چل رہی ہو تو شیر کی موجودگی عقب میں ہی ممکن ہے جہاں شکاری کی کم سے کم توجہ ہو سکتی ہے۔ تاہم بار بار ہوا کے رخ سے آگے پیچھے ہو کر وہ خطرے کو عقب کی بجائے دائیں یا بائیں لا سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ان صفحات پر آپ کو یہ تجویز اتنی بھلی نہ لگے لیکن حقیقی زندگی میں یہ بالکل بہترین کام کرتی ہے۔ جب بھوکا آدم خور گھنے جنگل میں گھات لگائے ہوئے ہو تو پیچھے کے رخ چلنے سے زیادہ بہتر اور محفوظ طریقہ اور کوئی نہیں۔

شام ہوتے ہوتے میں وادی کے دوسرے سرے پر پہنچ گیا۔ اس دوران نہ تو شیروں کو دیکھا اور نہ ہی کسی پرندے یا جانور کی آواز سے اس کی موجودگی کا علم ہوا۔ اس جگہ سے نظر آنے والی واحد آبادی پہاڑ کے شمالی سرے پر موجود ایک مویشی خانہ ہی تھا۔

اس بار شب بسری کے لئے درخت کے چناؤ کے وقت میں کافی محتاط تھا۔ اس لئے رات بغیر کسی پریشانی یا مداخلت کے گذری۔ تاریکی چھانے کے کچھ دیر بعد ہی شیروں کی آواز آئی اور پھر چند منٹ بعد مزل لوڈنگ بندوق سے دو گولیاں چلنے کی آواز آئی۔ اس کے بعد مویشی خانے کے لوگوں کا شور وادی میں گونجا۔ بقیہ رات پر سکون گذری۔

اگلے دن دوپہر تک میں نے پوری وادی چھان ماری اور اب میں اس ڈھلوان پر چڑھ رہا تھا کہ ڈلکانیہ اپنے بندوں سے جا ملوں کہ میں نے مویشی خانے سے ایک لمبی سی "کوووئی” سنی۔ یہ آواز دوبارہ آئی۔ میرے جواب پر ایک شخص چٹان پر چڑھا اور اس نے چلا کر پوچھا کہ کیا میں وہی صاحب ہوں جو نینی تال سے آدم خور کو مارنے آیا ہوا ہے ؟ میں نے اسے بتایا کہ ہاں میں وہی صاحب ہوں۔ اس پر اس نے بتایا کہ دوپہر کو اس کے مویشی وادی میں اس طرف جہاں میں ابھی تھا، والی کھائی میں نکل گئے تھے۔ واپسی پر اس نے گنا تو ایک سفید گائے گم تھی۔

اس کا خیال تھا کہ اس گائے کو انہی شیروں نے مارا ہے جو گذشتہ رات اسی جگہ سے بول رہے تھے جہاں میں اب کھڑا تھا۔ اس اطلاع پر میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور کھائی میں تفتیش کی نیت سے نکل کھڑا ہوا۔ ابھی میں اس کھائی کے سرے پر تھوڑا سا ہی آگے بڑھا ہوں گا کہ مجھے مویشیوں کے کھروں کے نشانات دکھائی دیئے۔ ان نشانات کا پیچھا کرتے ہوئے مجھے وہ جگہ مل گئی جہاں شیروں نے گائے کو ہلاک کیا تھا اور پھر کھائی میں لے گئے تھے۔ گھیسٹنے کے نشانات سے پیچھا کرنا عقلمندی نہ ہوتا۔ میں نے وادی کا ایک لمبا چکر لگایا اور اس جگہ دوسرے کنارے سے پہنچا جہاں میری توقع کے مطابق شیر گائے کو لے جاتے۔ یہ کنارہ کم ڈھلوان تھا اور اس نوعیت کا تھا کہ اس سے گھات لگانا آسان تھی۔ قدم بقدم اور سائے کی طرح چھپ کر میں آگے بڑھتا رہا۔ اس جگہ گھاس میری کمر تک تھی۔ ابھی میں تیس گز ہی بڑھا ہوں گا کہ سامنے سے کچھ حرکت دکھائی دی۔ ایک سفید ٹانگ اوپر کو اٹھی اور پھر زور سے غراہٹ سنائی دی۔ شاید دونوں شیروں کے درمیان گوشت کے کسی خاص ٹکڑے پر جھگڑا ہو رہا تھا۔

کئی منٹ تک میں بالکل خاموش کھڑا رہا۔ ٹانگ بار بار ہلتی رہی لیکن غراہٹ کی آواز دوبارہ نہ آئی۔ اگر میں کسی طرح تیس گز اور آگے بڑھ سکتا اور ایک شیر کو ہلاک کر بھی لیتا تو دوسرا چڑھ دوڑتا۔ اس جگہ تحفظ ناممکن تھا۔ مجھ سے بیس گز دور اور شیروں سے بھی اتنے ہی فاصلے پر ایک بڑا پتھر تھا جو دس یا پندرہ فٹ بلند ہو گا۔ اگر میں اس تک پہنچ پاتا تو میرے لئے گولی چلانا نسبتاً آسان ہو جاتا۔ گھٹنوں اور کہنیوں کے بل چلتا اور رائفل کو دھکیلتا ہوا میں اس پتھر کے پیچھے پہنچا۔ منٹ بھر رک کر سانس بحال کی اور رائفل بھر کر چٹان پر چڑھا۔ جب میری آنکھیں پتھر کی اوپری سطح کے برابر آئیں، میں نے جھانکا تو دو شیر دکھائی دیئے۔

ایک شیر گائے کا پچھلا حصہ کھا رہا تھا اور دوسرا ساتھ ہی لیٹا ہوا پنجے چاٹ رہا تھا۔ دونوں بظاہر ایک ہی جسامت کے حامل تھ۔ جو پنجے چاٹ رہا تھا، اس کا رنگ کچھ مدھم سا تھا۔ میں نے سوچا کہ بڑی عمر کی وجہ سے کھال کا رنگ مدھم پڑ گیا ہو گا۔ پوری احتیاط سے نشانہ لے کر گولی چلائی۔ گولی لگتے ہی وہ اچھلا اور نیچے گرا جبکہ دوسرے نے اتنی تیزی سے چھلانگ لگائی کہ مجھے دوسری لبلبی دبانے کا وقت بھی نہیں ملا۔ جس شیر کو گولی لگی تھی، وہ بے حس و حرکت تھا۔ اسے پتھر وغیرہ مار کر میں نے تسلی کی اور پھر اس کی طرف گیا۔ اسے دیکھ کر مجھے سخت مایوسی ہوئی کہ میں نے غلطی سے شیرنی کی بچی کو مار دیا تھا۔ اس غلطی کا خمیازہ مجھے مزید بارہ ماہ کی اضافی محنت اور ضلع کو پندرہ مزید انسانی جانوں کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ میں خود بھی مرتے مرتے بچا۔

یہ سوچ کر میری مایوسی کچھ کم ہوئی کہ اگرچہ اس شیرنی نے ابھی تک کوئی انسان نہیں مارا تھا لیکن انسانی ہلاکتوں میں اس نے اپنی ماں کی مدد تو کی ہو گی (یہ اندازہ بعد ازاں درست نکلا)۔ بہرحال اس کی پرورش تو انسانی گوشت پر ہی ہوئی تھی۔ عین ممکن تھا کہ آگے چل کر یہ بھی آدم خور ہی بنتی۔

کھلے میدان میں بیٹھ کر اور مناسب اوزاروں کی مدد سے شیر کی کھال اتارنا مشکل نہیں۔ لیکن یہاں میں اکیلا، چاروں طرف گھنی جھاڑیوں سے گھرا ہوا تھا۔ میرے پاس اوزار کے نام پر پینسل تراشنے والا ایک چاقو تھا۔ شیر بلاوجہ شکار نہیں کرتے۔ بظاہر مجھے آدم خور سے کوئی خطرہ نہیں تھا۔ تاہم میرے ذہن میں کسی جگہ یہ خیال موجود تھا کہ شیرنی لوٹ آئی ہے اور میری ہر حرکت پر نظر رکھے ہوئے ہے۔

سورج ڈوبنے سے ذرا قبل یہ کام پورا ہوا۔ چونکہ دوسری رات بھی مجھے جنگل میں ہی گذارنی تھی، میں نے اسی جگہ ہی رہنے کا سوچا۔ شیرنی کے پگ سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ بوڑھی شیرنی ہے اور اس نے ساری زندگی اسی جنگل میں گذاری ہے جہاں تقریباً ہر شخص کے پاس آتشیں اسلحہ ہوتا ہے۔ اسے آدمیوں کے طور طریقوں کا بھی علم ہے۔ اس کے باوجود امکان تھا کہ وہ رات کو کسی وقت دوبارہ گائے کو کھانے آتی اور سورج نکلنے تک ادھر ہی رہتی۔

درختوں کی تعداد خاصی محدود تھی اور اس رات جو درخت میں نے شب بسری کے لئے چنا، میں نے زندگی بھر اس سے زیادہ تکلیف دہ درخت نہیں دیکھا۔ شیرنی ساری رات وقفے وقفے سے بولتی رہی لیکن صبح ہوتے وقت اس کی آواز دور ہوتی چلی گئی۔ بالآخر اس کی آواز پہاڑ کے اوپر غائب ہو گئی۔

میرا جسم اکڑا ہوا، سخت بدن اور بھوک سے بد حال تھا۔ سابقہ چونسٹھ گھنٹوں سے میں نے کچھ نہ کھایا تھا۔ رات کو گھنٹہ بھر بارش بھی ہوئی تھی اور میں اچھی طرح بھیگ چکا تھا۔ صبح کو جب ہر چیز صاف دکھائی دینے لگی تو میں نیچے اترا۔ شیرنی کی کھال کو میں نے کوٹ میں باندھا اور ڈلکانیہ چلا۔ میں نے شیر کی تازہ اتری ہوئی کھال کا کبھی وزن نہیں کیا۔ اگر کھال، پنجے اور سر ملا کر کل وزن چالیس پاؤنڈ ہوتا ہو تو اس پندرہ میل کے اختتام پر یہ وزن کوئی دو سو پاؤنڈ ہو چکا تھا۔

درجن بھر گھروں کا مشترکہ صحن، جس پر سلیٹ کے پتھر لگے ہوئے تھے، میں میرے آدمی سو سے زیادہ دیہاتیوں کے ساتھ محو گفتگو تھے۔ میری آمد کا اس وقت تک کسی علم نہ ہوا جب تک کہ میں خون میں لت پت، بھوکا اور ٹھوکریں کھاتا لوگوں کے درمیان میں نہ پہنچ گیا۔ یہ منظر مجھے تادم مرگ یاد رہے گا۔

میرا چالیس پاؤنڈ کا خیمہ کھیت کے بیچوں بیچ نصب تھا اور گاؤں سے سو گز دور۔ ابھی میں اس تک پہنچا ہی تھا کہ میرے سامنے چائے لا کر رکھ دی گئی۔ میز کی جگہ دو اٹیچی تھے۔ بعد ازاں مجھے دیہاتیوں نے بتایا کہ میرے ہمراہی جو برسوں سے اس طرح کی مہمات میں میرے ساتھ تھے، نے یہ ماننے سے انکار کیا تھا کہ میں آدم خور کا لقمہ بن چکا ہوں۔ دن ہو یا رات، وہ چائے کی کیتلی آگ پر رکھے میرے منتظر رہے۔ انہوں نے ڈلکانیہ اور دیگر دیہاتوں کے نمبرداروں کو الموڑہ یہ اطلاع بھیجنے سے بھی روکے رکھا کہ میں گم ہو چکا ہوں۔

انتہائی مجبور ہو کر میں نے سارے گاؤں کے سامنے ہی گرم غسل کیا کیونکہ میں بہت گندا اور تھکا ہوا تھا۔ اس کے بعد میں نے کھانا کھایا۔ ابھی میں سونے ہی جا رہا تھا کہ زور سے آسمانی بجلی چمکی اور پھر گرج سنائی دی۔ کھیت میں خیمے کے لئے کیل زیادہ مضبوط نہیں گاڑے جا سکتے۔ ہم نے گاؤں سے کھونٹے منگوائے اور ان کی مدد سے خیمہ پھر سے گاڑا۔ مزید حفاظت کے لئے ہم نے اضافی رسیاں خیمے پر ہر طرف سے لپیٹ کر کھونٹوں سے باندھ دیں۔ آندھی اور طوفان گھنٹہ بھر جاری رہا اور میرے خیمے نے اتنا شدید طوفان پہلے کبھی نہیں جھیلا تھا۔ خیمے کی اپنی کئی رسیاں کینوس سے ٹوٹ کر الگ ہو گئیں لیکن کھونٹے اور اضافی رسیاں اپنی جگہ قائم رہیں۔ اکثر اشیاء بھیگ گئیں اور کئی انچ گہری ندی خیمے کے آر پار بہہ رہی تھی۔ تاہم خوش قسمتی سے میرا بستر نسبتاً خشک تھا۔ دس بجے جب میرے آدمی گاؤں میں اپنے لئے مختص کردہ کمرے میں دروازہ بند کر کے سو گئے تو میں نے بھی رائفل بھری اور سو گیا۔ بارہ گھنٹے بعد میں اٹھا۔

اگلا دن سامان سکھانے اور شیرنی کی کھال صاف کرنے اور سیدھا کرنے میں گذارا۔ یہ سارا منظر گاؤں والوں نے دیکھا جو اس دن اپنے کاموں سے چھٹی کر کے میری داستان سننے کو آئے ہوئے تھے۔ ہر وہ شخص موجود تھا جس کا ایک یا ایک سے زیادہ رشتہ دار شیرنی کے ہاتھوں ہلاک ہوا تھا۔ کئی لوگوں کے جسموں پر شیرنی کے پنجوں اور دانتوں کے نشانات تادم مرگ ثبت رہیں گے۔ ان لوگوں نے میری معذرت کو قبول نہ کیا کہ میں نے شیرنی کی بجائے غلطی سے اس کے بچے کو مار دیا ہے۔ اصل میں آدم خور ایک ہی تھا لیکن گذشتہ کئی ماہ سے لاشیں لانے والے امدادی جماعتوں نے ہمیشہ دو ہی شیرنیاں دیکھی تھیں۔ دو ہفتے قبل ہی میاں بیوی کا ایک ساتھ مارا جانا اس بات کا ثبوت تھا کہ دونوں شیرنیاں ہی آدم خور تھیں۔

میرا خیمہ پہاڑ کی بلندی پر تھا اور کافی وسیع علاقہ میرے سامنے تھا۔ میرے بالکل سامنے دریائے نندھور کی وادی تھی جس میں ہر طرح کے جھاڑ جھنکار سے پاک پہاڑی تھی جو دوسری طرف سے نو ہزار فٹ بلند تھی۔ شام کو میں اس جگہ دوربین لے کر بیٹھا اور با آسانی وہ تمام جگہیں تلاش کر لیں جہاں آدم خور نے سرکاری نقشے کے مطابق وارداتیں کی تھیں۔ تین سال میں یہ وارداتیں چالیس مربع میل پر پھیلی ہوئی تھیں۔

اس علاقے کے جنگل مویشیوں کے لئے وقف تھے۔ مویشیوں کے راستے پر میں نے اپنے چاروں نوعمر بھینسے باندھنے کا سوچا۔

دس دن تک شیرنی کی کوئی اطلاع نہ آئی۔ میں ہر روز صبح سویرے بھینسوں کی طرف چکر لگاتا۔ دن بھر جنگل میں ہوتا اور شام کو بھینسوں کو جا کر دوبارہ باندھتا۔ گیارہویں دن مجھے اطلاع ملی کہ میرے خیمے سے اوپر والے پہاڑ پر ایک کھڈ میں ایک گائے ماری گئی ہے۔ میری امیدیں دوبارہ تازہ ہو گئیں۔ جا کر دیکھا تو یہ ایک پرانے تیندوے کا شکار تھی جس کے پگ اکثر یہاں دکھائی دیتے تھے۔ دیہاتیوں نے شکایت کی کہ اس تیندوے نے ان کے ڈھیروں جانور مارے ہیں۔ میں مردہ گائے کے نزدیک ہی ایک کھوہ میں چھپ گیا۔ جلد ہی تیندوا مخالف سمت سے آتا دکھائی دیا۔ ابھی میں گولی چلانے کے لئے رائفل سیدھی کر ہی رہا تھا کہ گاؤں سے ایک بے چین آواز سنی جو مجھے بلا رہی تھی۔

اس ہنگامی بلاوے کا ایک ہی مقصد ہو سکتا تھا۔ ہیٹ اٹھائے میں کھوہ سے نکلا۔ تیندوا پہلے تو حیرت سے اچھل کر چت گرا، پھر غصیلی آواز نکالتے ہوئے فرار ہو گیا۔ میں نے کھڈ سے نکل کر اس آدمی کو چلا کر بتایا کہ میں آ رہا ہوں، اور اس طرف بھاگا۔

وہ آدمی چڑھائی کا پورا راستہ بھاگتے ہوئے آیا تھا۔ جب اس کا سانس بحال ہوا تو پتہ چلا کہ شیرنی نے گاؤں سے نصف میل دور ایک عورت کو ہلاک کیا ہے۔ راستے میں ہی میں نے صحن میں لوگوں کا ہجوم دیکھا۔ کسی نے میری آمد کا نوٹس بھی نہ لیا۔ ان کے سروں پر سے جھانک کر دیکھا کہ ایک لڑکی زمین پر بیٹھی ہے۔

اس کے اوپری جسم کے کپڑے تار تار ہو چکے تھے اور ہاتھ پیچھے ٹکائے اس کا سر پیچھے کو جھکا ہوا تھا۔ وہ بے حس و حرکت بیٹھی تھی۔ اس کی چھاتی ہلنے سے سانس کی آمد و رفت کا اندازہ ہو رہا تھا۔ اس کی گردن اور چہرے سے خون بہہ رہا تھا اور لوتھڑوں کی شکل میں جمع ہوتا جا رہا تھا۔

جلد ہی لوگوں نے میری آمد کو محسوس کیا اور مجھے راستے دینے کو ہٹنے لگے۔ لڑکی کے پاس پہنچ کر اس کے زخموں کا جائزہ لیتے ہوئے مجھے لوگوں نے بتایا کہ نسبتاً کھلے میدان میں شیرنی نے اس پر حملہ کیا تھا اور بہت سارے لوگ اسے دیکھ رہے تھے۔ لڑکی کا شوہر بھی ان لوگوں میں شامل تھا۔ ان لوگوں کے شور سے شیرنی بھاگ گئی اور لڑکی وہیں کی وہیں پڑی رہی۔ اس کے ساتھی بھاگ کر گاؤں آئے تاکہ مجھے اطلاع ہو سکے۔ بعد میں جب لڑکی کو ہوش آیا تو وہ خود چل کر گاؤں پہنچی۔ لوگوں نے کہا کہ یہ لڑکی جلد ہی مرنے والی ہے۔ اس لئے اسے اٹھا کر ہم جائے واردات پر لے چلتے ہیں۔ جب یہ مر جائے گی تو اس کی لاش پر میں چھپ کر شیرنی کو مار سکتا ہوں۔

ابھی یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں اور لڑکی کی نگاہیں مجھ پر جمی ہوئی تھیں۔ زخمی اور بے بس جانور کا سا تاثر اس کی آنکھوں سے ظاہر تھا۔ لوگ اتنے جمع تھے کہ مجھے لڑکی کے سانس لینے کے لئے جگہ بنانی پڑی۔ مجھے افسوس ہے کہ میں نے کافی غیر مہذب انداز میں لوگوں کو ہٹایا۔ جب سارے مرد چلے گئے تو عورتیں سامنے آئیں جو ابھی تک پیچھے تھیں۔ میں نے انہیں گرم پانی لانے کو بھیجا اور اپنی نسبتاً صاف قمیض کو پھاڑ کر پٹیاں بنائیں۔ ایک لڑکی جو تقریباً ہسٹیریائی انداز میں چیخ رہی تھی، کو قینچی لانے بھیجا۔ اس کی واپسی سے قبل ہی پٹیاں بن چکی تھیں اور گرم پانی بھی آ چکا تھا۔ لڑکی گاؤں کی واحد قینچی لے کر واپس آئی۔ اس کا مالک درزی کافی عرصے پہلے مر چکا تھا۔ درزی کی بیوی اس قینچی سے آلو اکھاڑی تھی۔ یہ قینچی زنگ آلود تھی اور اس کے آٹھ انچ لمبے پھل کسی بھی جگہ ایک دوسرے سے نہیں ملتے تھے۔ ناکام ہو کر میں نے خون آلود بالوں کو ویسے ہی رہنے دیا۔

اس لڑکی کو دو بڑے زخم آئے تھے جو شیرنی کے پنجوں سے بنے تھے۔ ایک زخم آنکھوں کے درمیان سے شروع ہو کر سر سے ہوتا ہوا پیچھے گدی پر جا کر ختم ہوتا تھا۔ دوسرا زخم پہلے کے قریب سے شروع ہو کر دائیں کان تک جاتا تھا۔ اس کے علاوہ بے شمار گہری خراشیں دائیں چھاتی، دائیں کندھے اور گردن پر تھیں۔ ایک گہرا زخم دائیں ہاتھ کی پشت پر بھی تھا جو بظاہر سر کو بچاتے ہوئے لگا۔

ایک بار میں اپنے ایک ڈاکٹر دوست کو شیر کے پیدل شکار پر لے گیا تھا۔ واپسی پر انہوں نے مجھے دو اونس جتنا کوئی زرد رنگ کے محلول کی ایک شیشی دی تھی۔ انہوں نے ہدایت کی تھی کہ میں اسے ہمیشہ اپنی شکاری مہمات پر ساتھ رکھوں۔ میری اندرونی جیب میں رکھے رکھے اس شیشی کو ایک سال ہو چکا تھا۔ اس کا کچھ حصہ تو عمل تبخیر سے اڑ چکا تھا لیکن ابھی بھی تین چوتھائی دوائی باقی تھی۔ اس لڑکی کا سر اور جسم دھو کر میں نے اس شیشی کا ڈھکن اتارا اور اس میں موجود آخری قطرہ تک اس لڑکی کے زخموں پر انڈیل دیا۔ اس کے بعد میں نے اس انداز میں سر پر پٹی باندھی کہ اس کی جلد جڑی رہے۔ اس کے بعد میں اسے اٹھا کر اس کے گھر لے گیا۔ گھر میں ایک ہی کمرہ تھا جو بیک وقت باورچی خانے، سونے کے کمرے وغیرہ کا کام دیتا تھا۔ بقیہ عورتیں میرے پیچھے پیچھے آئیں۔

دروازے کے ساتھ ہی ٹوکری میں ایک ننھا سا بچہ بھوک سے رو رہا تھا۔ اس مشکل کا حل میرے بس سے باہر تھا۔ میں نے یہ ذمہ داری عورتوں پر ڈال دی۔ دس دن بعد روانگی سے ایک روز قبل شام کو میں اس لڑکی کو دیکھنے گیا۔ وہ اپنے گھر کی دہلیز پر بیٹھی تھی اور اس کا بچہ اس کی گود میں بے خبر سو رہا تھا۔

اس کے تمام زخم ما سوائے گدی والے زخم کے (جہاں شیرنی کے پنجے زیادہ گہرے گڑے تھے ) بھر چکے تھے۔ اس نے اپنے کالے سیاہ بال ہٹا کر مجھے زخم دکھایا جو بالکل ہی بھر چکا تھا اور کھال بھی مل چکی تھی۔ مسکراتے ہوئے اس نے بتایا کہ اسے اس بات کی بہت خوشی ہے کہ اس کی بہن درزی کے گھر سے غلط قینچی لے کر آئی تھی (ہندوستان میں کٹے ہوئے بال یا گنجی عورت بیو گی کی علامت ہوتی ہے )اگر میرے ڈاکٹر دوست یہ سطریں پڑھ رہے ہوں تو میں انہیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ان کی دی ہوئی زرد محلول کی شیشی نے ایک نوجوان بہادر ماں کی جان بچا لی ہے۔

جب میں لڑکی کی مرہم پٹی کر رہا تھا تو میرے آدمیوں نے ایک بکری لی اور خون کے نشانات کا پیچھا کرتے ہوئے ہم اس جگہ پہنچے جہاں شیرنی نے لڑکی پر حملہ کیا تھا۔ بکری کو ایک جھاڑی سے باندھ کر میں یہاں موجود اکلوتے درخت پر چڑھ گیا۔ سونے کا خیال ہی بے کار تھا کیونکہ میں زمین سے چند ہی فٹ اوپر تھا اور شیرنی ابھی تک بھوکی تھی۔ تاہم اس رات نہ تو شیرنی کی آواز سنائی دی اور نہ وہ ادھر آئی۔

اگلی صبح زمین کا جائزہ لیتے ہوئے، جس کا مجھے گذشتہ شام وقت نہ مل سکا تھا، میں نے دیکھا کہ لڑکی پر حملے کے بعد شیرنی وادی میں نصف میل وہاں تک گئی تھی جہاں مویشیوں کا راستہ دریائے نندھور سے ہو کر گذرتا ہے۔ اس راستے پر وہ دو میل گئی جہاں سڑک ڈلکانیہ کے اوپر فارسٹ روڈ سے جا ملتی ہے۔ یہاں زمین سخت تھی اور میں اس کے نشانات کھو بیٹھا۔

دو دن تک ارد گرد کے دیہاتیوں نے اپنے گھروں سے باہر قدم نہ رکھا۔ تیسرے دن مجھے چار ہرکاروں نے آ کر اطلاع دی کہ شیرنی نے ڈلکانیہ سے جنوب میں ایک شکار کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ فارسٹ روڈ سے راستہ دس میل ہے اور شارٹ کٹ سے یہ فاصلہ کوئی پانچ میل رہ جاتا ہے۔ جلد ہی میں تیار ہو گیا اور دوپہر کے ذرا بعد میں ان کے ہمراہ چل پڑا۔

دو میل کی سخت چڑھائی کے بعد ہم ڈلکانیہ کے جنوب میں پہاڑ کی چوٹی تک پہنچ گئے۔ ہمارے سامنے تین میل چوڑی وادی تھی جہاں شیرنی نے شکار کیا تھا۔

ہرکارے اس سے زیادہ کچھ نہ جانتے تھے۔ وہ خود موہالی والی طرف اس جگہ سے میل بھر دور رہتے تھے۔ دس بجے انہیں پیغام ملا کہ لوہالی میں ایک عورت کو شیرنی نے مار ڈالا ہے اور وہ مجھے ڈلکانیہ جا کر اس کے بارے اطلاع دیں۔ انہیں یہ اطلاع بذریعہ "کوووئی” ملی تھی۔

یہ چوٹی جہاں ہم اس وقت کھڑے تھے، بالکل بنجر تھی اور میں یہاں سانس لینے اور سیگرٹ پینے کے لئے رکا۔ اس دوران میرے ساتھی مجھے اس علاقے کے بارے بتاتے رہے۔ اس جگہ سے نزدیک، جہاں ہم کھڑے تھے، ایک پرانا بوسیدہ جھونپڑا تھا جو ایک بڑی چٹان کے نیچے تھا۔ اس کے گرد کانٹوں کی باڑ لگی ہوئی تھی۔ اس جھونپڑے کے بارے میں سوال کا جواب کچھ یوں ملا کہ یہ جھونپڑا چار سال پہلے ایک بھوٹیا نے بنایا تھا تاکہ وہ اپنی بکریاں گرمیوں اور برسات میں ادھر لا سکے۔ وہ گڑ اور نمک وغیرہ کو ادھر سے ادھر لاتا لے جاتا تھا۔ چند ہفتے بعد اس کی بکریاں انہی لوگوں کے کھیت میں گھس گئیں۔ یہ لوگ جب شکایت کرنے آئے تو دیکھا کہ جھونپڑا خالی تھا۔ اس طرح کے لوگوں کے پاس رکھوالی کے خونخوار کتے ہوتے ہیں۔ اس بھوٹیا کا اسی طرح کا کتا زنجیر سے بندھا مرا ہوا تھا۔ انہیں شک پڑا اور اگلے دن آس پاس کے دیہاتوں کے لوگوں نے مل کر تلاش شروع کی۔ چار سو گز دور آسمانی بجلی سے جلا ہوا ایک برگد کا درخت تھا۔ اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے میرے ساتھیوں نے بتایا کہ اس کے نیچے بھوٹیا کی باقیات میں کھوپڑی اور ہڈیوں کے چند ریزے اور خون آلود کپڑے ملے۔ چوگڑھ کی آدم خور کا یہ پہلا شکار تھا۔

جہاں ہم ابھی بیٹھے تھے، یہاں سے نیچے اترنا ناممکن تھا۔ انہوں نے بتایا کہ نصف میل آگے چل کر ہم اس جگہ پہنچیں گے جہاں ایک مشکل راستہ ہمیں سیدھا نیچے لے جائے گا۔ ان کے گاؤں سے گذر کر یہ راستہ لوہالی جاتا ہے۔ لوہالی یہاں سے دکھائی دے رہا تھا۔ نصف راستہ طے کرنے کے بعد اچانک میں نے بغیر کسی وجہ سے محسوس کیا کہ ہمارا تعاقب ہو رہا ہے۔ میں نے خود کو سمجھایا کہ اس علاقے میں ایک ہی آدم خور ہے اور اس نے تین میل دور ایک شکار مارا ہے اور وہ اب اس کے پاس ہی موجود ہو گی۔ تاہم یہ مجھے مسلسل یہی محسوس ہوتا رہا۔ ابھی چونکہ ہم گھاس کے قطعے پر تھے، میں نے ساتھیوں کو نیچے بیٹھنے اور میری واپسی تک کوئی حرکت نہ کرنے کا کہا۔ اب میں واپس مڑا تاکہ کچھ تفتیش کر سکوں۔ الٹے قدموں میں واپس چلا اور اس جگہ پہنچا جہاں سے ہم اس کنارے پر چڑھے تھے۔ یہاں سے میں جنگل میں گھس گیا اور اس کھلے علاقے کا جائزہ لے کر واپس اپنے آدمیوں کے پاس پہنچا۔ کسی جانور یا پرندے نے مجھے شیر کی موجودگی کے بارے نہیں بتایا تھا لیکن اب میں نے چاروں ساتھیوں کو اپنے آگے چلنے کا کہا اور سفیٹی کیچ پر انگلی رکھے میں مستقل پیچھے کی طرف نگران رہا۔

جب ہم اس گاؤں پہنچے جہاں سے میرے ساتھیوں نے اپنا سفر شروع کیا تھا، انہوں نے رخصت چاہی۔ بخوشی میں نے انہیں اجازت دی۔ ابھی میں نے میل بھر گھنے جنگل سے گذرنا تھا اور اگرچہ تعاقب کا احساس کافی دیر سے غائب ہو چکا تھا، پھر بھی اکیلی جان کی حفاظت کرنا نسبتاً زیادہ آسان ہوتا۔ چھجے نما کھیتوں سے ذرا نیچے میں نے صاف شفاف پانی کا ایک چشمہ دیکھا جہاں سے گاؤں کے لوگ پانی بھرتے تھے۔ اس جگہ نرم کیچڑ میں شیرنی کے بالکل تازہ پگ دکھائی دیئے۔

یہ پگ اسی گاؤں سے آ رہے تھے جہاں میں جا رہا تھا۔ پگ اور تعاقب کے احساس سے مجھے یقین ہو گیا کہ کچھ نہ کچھ گڑبڑ ہے اور یہ میرا یہ چکر بے کار رہے گا۔ میں جنگل سے نکل کر لوہالی کے سامنے پہنچا۔ یہ پانچ یا چھ چھوٹے چھوٹے گھروں کا گاؤں گا۔ ان میں سے ایک مکان کے دروازے کے سامنے کئی افراد جمع تھے۔

کھلی ڈھلوان سے انہوں نے مجھے کافی دور سے دیکھ لیا اور ان میں سے چند افراد میری طرف بڑھے۔ ان میں سے ایک شخص جو کافی معمر تھا، نے جھک کر میرے پیر چھوئے اور بہتے آنسوؤں سے درخواست کی کہ میں اس کی بیٹی کو بچا لوں۔ اس کی کہانی مختصر مگر دردناک تھی۔ اس کی بیوہ بیٹی جو اس کی واحد رشتہ دار تھی، دس بجے خشک لکڑیاں جمع کرنے گئی تاکہ دوپہر کا کھانا بنا سکے۔ وادی کے درمیان ایک چھوٹی سی ندی گذرتی ہے اور اس نے ندی کے دوسرے سرے سے پہاڑی اچانک ہی اوپر کو اٹھنا شروع ہو جاتی ہے۔ اس پہاڑی کے نچلے سرے پر کئی چھجے نما کھیت ہیں۔ سب سب نچلے کھیت کے کنارہ جو کہ گھر سے ڈیڑھ سو گز دور تھا، اس نے لکڑیاں چننا شروع کیں۔ تھوڑی دیر بعد دیگر عورتوں نے جو کہ ندی پر کپڑے دھو رہی تھیں، نے چیخ سنی۔ اوپر دیکھنے پر پتہ چلا کہ شیرنی اس عورت کو اٹھائے جنگل میں غائب ہو رہی تھی۔ یہ جنگل اسی کھیت کے نچلے کنارے سے شروع ہو جاتا تھا۔ بھاگم بھاگ ان عورتوں نے گاؤں پہنچ کر اطلاع دی۔ اس بستی کے لوگ اتنے خوفزدہ تھے کہ وہ مدد کی کوشش بھی نہ کر سکے۔ انہوں نے اوپر والے گاؤں میں پیغام بھیجا جہاں سے چار افراد مجھے اطلاع دینے آئے۔ پیغام بھیجنے کے نصف گھنٹے بعد زخمی عورت رینگتی ہوئی گھر آن پہنچی۔ اس نے بتایا کہ اس نے شیرنی کو اس وقت دیکھا جب وہ اس پر جست لگانے والی تھی۔ اسے بھاگنے کا کوئی موقع نہ ملا۔ اس نے کھیت سے نیچے چھلانگ لگائی اور شیرنی نے اسے ہوا میں ہی دبوچ لیا۔ دونوں اکھٹے نیچے گریں۔ اس کے بعد اسے ہوش نہ رہا۔ دوبارہ ہوش آیا تو دیکھا کہ وہ ندی کے پاس پڑی ہے۔ مدد کے لئے وہ کوئی آواز نہ نکال پائی اور مجبوراً گھٹنوں اور ہاتھوں کے بل گھسٹتی ہوئی وہ گھر واپس آئی۔

ابھی یہ کہانی جاری ہی تھی کہ ہم اس کے دروازے تک آن پہنچے۔ لوگوں کو دروازے سے ہٹا کر میں نے عورت سے خون آلود چادر ہٹائی۔ لوگوں کو ہٹانے کی وجہ یہ تھی کہ کمرے میں روشنی کا واحد ذریعہ دروازہ ہی تھا۔ اس عورت کی حالت اتنی قابل رحم تھی کہ میں بتا نہیں سکتا۔ اگر میں سند یافتہ ماہر ڈاکٹر ہوتا اور میرے پاس جدید اوزار اور ادویات بھی ہوتیں تو بھی اس بدنصیب عورت کو بچایا نہ جا سکتا۔ کجا میں ایک عام آدمی تھا اور دوائی کے نام پر میرے پاس تھوڑی سی پوٹاشیم پر میگنیٹ تھی۔ شیرنی کے بڑے دانتوں سے اور پنجوں سے آنے والے گہرے زخم سر، چہرے، گردن اور جسم کے کئی حصوں پر تھے۔ اس گرم اور تاریک کمرے میں اب تک وہ زخم سڑنا شروع ہو گئے تھے۔ شکر ہے کہ وہ عورت بیچاری نیم بے ہوش تھی۔ اس کا باپ میرے ساتھ اندر آیا تھا۔ میں نے اس کی تسلی کے لئے پوٹاشیم پر میگنیٹ کے گاڑھے محلول اور رو مال سے اس عورت کے زخم صاف کئے۔

اب کیمپ واپس جانے کا وقت نہ بچا تھا۔ رات گذارنے کے لئے مناسب جگہ کا انتظام بھی لازمی تھا۔ ندی سے ذرا اوپر جہاں عورتیں کپڑے دھو رہی تھیں، پیپل کا ایک بڑا درخت تھا۔ اس درخت کے گرد ایک فٹ اونچا چبوترا تھا جو گاؤں والوں کی مذہبی رسومات ادا کرنے کے کام آتا تھا۔

اس درخت کے نیچے میں نے کپڑے اتار کر غسل کیا۔ جب ہوا سے میرا بدن خشک ہو گیا تو میں نے کپڑے دوبارہ پہنے اور رائفل تیار حالت میں لئے شب بسری کے لئے تیار ہو گیا۔ میں مانتا ہوں کہ یہ کوئی اتنی اچھی یا محفوظ جگہ نہیں تھی لیکن گاؤں سے بہت بہتر تھی جہاں تاریک اور مکھیوں سے بھرے کمرے میں ایک زخمی عورت سانس لینے کے لئے کوشاں تھی۔

رات کو عورتوں کے بین سے علم ہوا کہ اس زخمی عورت کی مشکل حل ہو چکی ہے۔ اگلی صبح ادھر سے گذرتے ہوئے دیکھا کہ وہاں اس عورت کی آخری رسومات کی تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں۔

اس بدنصیب عورت اور ڈلکانیہ کی لڑکی کے واقعات سے یہ صاف ظاہر تھا کہ بوڑھی شیرنی کے شکار کا زیادہ تر دارومدار اس کی جوان بچی پر تھا۔ آدم خور کے حملے میں عموماً سو میں سے ایک آدمی بچتا ہے لیکن اس وقت آدم خور ہلاکتوں سے زیادہ گھائل کر رہی تھی۔ یہاں سے نزدیکی ہسپتال کوئی پچاس میل دور تھا۔ جب میں نینی تال لوٹا تو حکومت سے درخواست کی کہ آدم خور کے علاقے میں ہر گاؤں کے نمبردار کو جراثیم کش ادویات اور پٹیاں بھجوا دے۔ اگلے چکر پر میں نے دیکھا کہ میری درخواست قبول ہو گئی تھی اور جراثیم کش ادویات کے سبب بہت ساری جانیں بچ گئی تھیں۔

میں ڈلکانیہ مزید ایک ہفتہ رکا۔ اس کے بعد میں نے ہفتے کے روز اعلان کیا کہ میں پیر کے دن واپس جا رہا ہوں۔ اس آدم خور کے پیچھے میں ایک ماہ سے لگا ہوا تھا اور کھلی فضاء میں خیمے میں سونا، سارا دن میلوں بے تکان چلنا، ہر قدم کو آخری قدم سمجھنا میرے اعصاب پر اب بھاری پڑنا شروع ہو گیا تھا۔ گاؤں والے میرے جانے کی خبر سن کر بہت پریشان ہوئے۔ لیکن جب میں نے انہیں یقین دلایا کہ میں جلد ہی واپس لوٹ آؤں گا، انہوں نے مجھے روکنے کی کوشش نہ کی۔

اتوار کو ناشتے کے بعد ڈلکانیہ کا نمبردار میرے پاس آیا۔ اس نے درخواست کی کہ میں گاؤں والوں کے کھانے کے لئے کوئی جانور مار دوں۔ میں نے بخوشی آمادگی ظاہر کی۔ نصف گھنٹے بعد چار مقامی اور اپنے ایک ساتھی کو ساتھ لے کر نکلا۔ میرے پاس اعشاریہ ۲۷۵ کی رائفل تھی اور کارتوسوں کا ایک کلپ۔ ہم دریائے نندھور کی دوسری طرف سے آگے بڑھے جہاں کیمپ سے میں نے پہاڑی ڈھلوان پر بکثرت گڑھل چرتے دیکھے تھے۔

میرے ہمراہی دیہاتیوں میں ایک طویل القامت، جناتی جثے اور بگڑے چہرے والا ایک شخص تھا۔ وہ میرے کیمپ میں اکثر آتا تھا۔ چونکہ میں اس کے لئے اچھا سامع نکلا، اس نے مجھے اپنی کہانی اتنی بار سنائی کہ نیند میں بھی میں اسے دہرا سکتا ہوں۔ چار سال قبل اس کی مڈبھیڑ آدم خور سے ہوئی تھی۔ بقیہ کہانی اس کی زبانی سنیں :

صاحب، وہ سامنے چلغوزے کا درخت دیکھ رہے ہیں ؟ وہی جو پہاڑی کے سرے والی ڈھلوان کے نچلے کنارے پر ہے ؟ جی، وہی چلغوزے کا درخت اور اس کے ساتھ وہ سفید بڑی چٹان۔ اسی ڈھلوان کے اوپری سرے پر آدم خور نے مجھ پر حملہ کیا تھا۔ یہ ڈھلوان مکان کی دیوار کی طرح سیدھی ہے۔ ہم پہاڑیوں کے سوا اس پر کوئی نہیں قدم جما سکتا۔ میرا بیٹا جو اس وقت آٹھ سال کا تھا، میرے ساتھ ہی گھاس کاٹنے آیا ہوا تھا۔ ہم گھاس کاٹ کر ان درختوں تک لے جاتے جہاں زمین ہموار ہے۔

میں اس چٹان کے سرے پر گھاس کو بڑے گٹھڑ کی شکل میں باندھ رہا تھا کہ شیرنی مجھ پر جھپٹی۔ اس کا ایک دانت میری دائیں آنکھ اور ایک میری تھوڑی کے نیچے جبکہ بقیہ دو گردن کے پیچھے گڑ گئے۔ شیرنی کے حملے اور اس کے منہ سے لگنے والی ٹکر سے میں نیچے گرا۔ شیرنی اور میں سینہ بہ سینہ تھے۔ اس کا پیٹ میری ٹانگوں کے درمیان تھا۔ نیچے گرتے ہوئے میں نے اپنے ہاتھ آزاد کئے اور اتفاق سے پیپل کا ایک چھوٹا درخت میرے ہاتھ آ گیا۔ جونہی میں نے اس درخت کو پکڑا، میرے ذہن میں خیال آیا۔ میری ٹانگیں آزاد تھیں اور انہیں سکیڑ کر میں شیرنی کے پیٹ سے ٹکا کر اسے دور پھینک کر بھاگ سکتا تھا۔ شیرنی کی گرفت سے میرے چہرے کے دائیں جانب کی ہڈیاں ٹوٹ گئی تھیں اور بے پناہ درد ہو رہا تھا۔ میں نے اپنے اوسان بحال رکھے۔ صاحب آپ دیکھ سکتے ہیں کہ جوانی میں میرا مقابل کوئی نہ تھا۔ آہستہ آہستہ اور شیرنی کو غصہ دلائے بغیر میں نے اپنے پاؤں اس کے پیٹ پر جما دیئے۔ بائیں ہاتھ کو اس کے سینے پر جما کر میں نے جو زور لگایا تو شیرنی کو اٹھا لیا۔ ہم اس وقت بالکل کنارے پر تھے۔ اگر میں نے درخت کو نہ پکڑا ہوا ہوتا تو ہم دونوں ہی نیچے گرتے۔ اس طرح شیرنی نیچے جا گری۔

میرا بیٹا اتنا گھبرا گیا تھا کہ وہ بھاگ بھی نہ سکا۔ جب شیرنی بھاگ گئی تو میں نے اس کی دھوتی اتاری اور اپنے چہرے اور منہ کے گرد باندھ لی اور اس کا ہاتھ پکڑ کر گاؤں لوٹا۔ گھر آ کر میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ وہ میرے سارے دوستوں کو اکٹھا کرے۔ میں مرنے سے قبل ان کو ایک بار دیکھنا چاہتا تھا۔ جب میرے دوست جمع ہوئے اور انہوں نے میری حالت دیکھی تو مجھے چارپائی پر ڈال کر پچاس میل دور الموڑہ لے جانے کو تیار ہو گئے۔ میری مصیبت اور تکلیف بے انتہا تھی۔ میں چاہتا تھا کہ جہاں پلا بڑھا ہوں، وہیں مروں۔ میں پیاسا بھی تھا۔ انہوں نے پانی میرے منہ میں ڈالنے کی کوشش کی لیکن وہ گردن کے سوراخوں سے بہہ گیا۔ میرے سر میں آگ سی لگی ہوئی تھی۔ بعد ازاں بہت عرصے تک بے حد تکلیف اور درد کے ساتھ میں موت کا انتظار کرتا رہا۔ موت تو نہ آئی لیکن ایک دن میں ٹھیک ہو گیا۔

صاحب، اب میں بوڑھا اور کمزور ہو چکا ہوں۔ میرے بال کھچڑی ہو گئے ہیں اور میرے چہرے پر کوئی شخص کراہت کے بغیر نہیں دیکھ سکتا۔ میری دشمن زندہ ہے اور مسلسل انسانوں کو ہلاک کر رہی ہے۔ آپ اسے شیر نہ سمجھیں۔ یہ ایک بد روح ہے جو کبھی کبھار شیر کے روپ میں ظاہر ہوتی ہے۔ صاحب، لوگ کہتے ہیں آپ سادھو ہیں۔ سادھوؤں کی حفاظت پر مامور روحیں بد روحوں سے زیادہ طاقتور ہوتی ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ آپ تین دن جنگل میں رہ کر واپس آئے ہیں۔ جیسا کہ آپ کے آدمیوں نے کہا تھا، بالکل محفوظ اور زندہ سلامت لوٹے ہیں۔

اس شخص کے جناتی قد کاٹھ سے اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ جوانی میں وہ کس جسامت اور طاقت کا حامل ہو گا۔ اس طرح کی جناتی قوت کا حامل شخص شیرنی کو اٹھا کر، اپنے سر کو اس کی گرفت سے چھڑا کر نیچے پھینک سکتا ہے جبکہ اس کا آدھا چہرہ شیرنی کے منہ میں ہی رہ گیا تھا۔

اس شخص نے بطور کھوجی ساتھ چلنے کی پیش کش کی۔ اس کے پاس بہت خوبصورت اور پالش شدہ کلہاڑی تھی جس کا دستہ لمبا تھا۔ اس نے کندھے پر کلہاڑی رکھی اور ہمارے آگے چلتا ہوا ڈھلوان سے نیچے اترا۔ دریائے نندہ عبور کر کے ہم کئی کھیتوں سے گذرے جو آدم خور کی دہشت کے سبب ویران تھے۔ پہاڑی کے دامن میں پہنچ کر پتہ چلا کہ انتہائی سخت چڑھائی اور گھاس سے بھری ڈھلوانوں کا سامنا ہے۔ میرا یہ دیو زاد دوست بہت سخت جان تھا۔ میں جگہ جگہ رک کر قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہوتا رہا۔

جنگل سے نکل کر ہم سیدھا گھاس والی پہاڑی ڈھلوان کو ترچھے رخ سے عبور کرتے ہوئے پہاڑی کی طرف بڑھے۔ یہ تقریباً ہزار فٹ بلند تھی۔ اس پہاڑ پر جگہ جگہ چھوٹی چھوٹی گھاس تھی جہاں میں نے اپنے کیمپ سے گڑھل چرتے دیکھے تھے۔ ابھی ہم چند سو گز ہی بڑھے ہوں گے کہ گڑھل کھڈ سے نکلا اور اوپر کی طرف بھاگا۔ گولی لگتے ہی وہ نیچے گرا اور اسی جگہ گم ہو گیا جہاں سے نکلا تھا۔ گولی کی آواز سن کر ایک دوسرا گڑھل اچھلا اور سیدھا پہاڑ کی چوٹی کی طرف بھاگا جو انتہائی مشکل چڑھائی تھی۔ جونہی وہ اوپر کی طرف بڑھا، میں نے لیٹ کر رائفل کی شست کو دو سو گز پر درست کیا اور اس کے رکنے کا انتظار کرنے لگا۔ ابھری ہوئی چٹان کے پیچھے سے نکل کر وہ ہمیں دیکھنے کے لئے آگے بڑھا کہ میں نے اس پر گولی چلائی۔ وہ گولی لگتے ہی لڑکھڑایا اور پھر آہستہ آہستہ اوپر کی طرف چڑھنے لگا۔ دوسری گولی لگتے ہی وہ ہوا میں معلق ہوا اور پھر لڑھکتا ہوا نیچے بڑھا۔ ہم سے سو گز دور ہوتا ہوا وہ ڈیڑھ سو گز نیچے جا رکا۔

اس بار میں نے جو منظر دیکھا، وہ ایک بار پہلے بھی ایک تیندوے کے ساتھ دیکھ چکا تھا۔

ابھی گڑھل بمشکل رکا ہی تھا کہ کھڈ سے ایک بڑا ریچھ بھاگتا ہوا نکلا اور بغیر رکے یا ادھر ادھر دیکھے، مویشیوں کے چلنے والے راستے پر بڑھتا ہوا گڑھل کے پاس آ رکا۔ پھر بیٹھ کر اس نے گڑھل کو گود میں لے لیا۔ ابھی وہ اسے سونگھ ہی رہا تھا کہ میری گولی اسے لگی۔ شاید میں نے جلدی کی یا پھر شست کو درست فاصلے کے لئے نہ استعمال کیا تھا۔ گولی اسے سینے کی بجائے پیٹ میں لگی۔ ہم سب کو یوں لگا جیسے ریچھ یہ سمجھا ہو کہ گڑھل نے اسے ٹکر ماری ہے۔ وہ فوراً اٹھا اور گڑھل کو پھینک کر بھاگا۔ ساتھ ہی ساتھ وہ غصے سے آوازیں بھی نکال رہا تھا۔ جب وہ ہم سے سو گز نیچے سے گذرا، میں نے اپنی پانچویں اور آخری گولی بھی اس پر چلا دی۔ بعد ازاں دیکھا تو علم ہوا کہ یہ گولی ریچھ کے جسم میں نیچے لگی اور گوشت سے ہوتی ہوئی گذر گئی۔

جتنی دیر میں میرے ساتھی دونوں گڑھلوں کو اٹھاتے، میں نے نیچے اتر کر خون کے نشانات کا جائزہ لیا۔ راستے پر خون کی بڑی مقدار دیکھ کر اندازہ ہوا کہ گولی کسی نازک جگہ لگی ہے۔ ریچھ عام صورتحال میں بھی کافی خطرناک ہوتا ہے اور زخمی ریچھ کا سامنا نہتے ہو کر کرنا اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔

جب میرے ساتھی آن پہنچے تو ہم نے صلاح مشورہ کیا۔ کیمپ ساڑھے تین میل دور تھا۔ ابھی دت بج رہے تھے۔ یہ ناممکن تھا کہ ہم کیمپ جا کر مزید گولیاں لاتے اور پھر ریچھ کو تلاش کرتے اور اسے مار کر اندھیرا ہونے سے قبل کیمپ بھی پہنچ پاتے۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ ریچھ کا تعاقب کر کے اسے پتھروں اور کلہاڑی سے ہلاک کریں۔

پہاڑی کافی ڈھلوان تھی اور گھاس پھونس نہ ہونے کے برابر۔ ریچھ کے اوپر رہتے ہوئے ہمارے پاس موقع تھا کہ ہم اپنا کام کسی دشواری کے بغیر پورا کر لیتے۔ اس طرح ہم آگے بڑھے۔ میں آگے آگے اور پھر تین آدمی میرے پیچھے اور ان کے پیچھے وہ افراد جو اپنی کمر پر مردہ گڑھل اٹھائے ہوئے تھے۔ جہاں میں نے آخری گولی چلائی تھی، اس جگہ پہنچ کر خون کے مزید نشانات دیکھ کر ہمارا حوصلہ اور بلند ہوا۔ دو سو گز آگے جا کر خون کی لکیر ایک کھڈ میں مڑ گئی۔ یہاں میں اور کلہاڑی والا ساتھی ایک طرف جبکہ بقیہ تین افراد دوسری طرف ہو گئے۔ گڑھل اٹھانے والے افراد ہمارے پیچھے تھے۔ جب ہم دونوں طرف سے تیار ہو گئے تو ہم نے پہاڑی سے نیچے اترنا شروع کر دیا۔ ہم سے پچاس گز نیچے کھائی کی تہہ میں بانسوں کا ایک جھنڈ تھا۔ اس جھنڈ میں پتھر پھینکنے سے ریچھ کی چیخ سنائی دی۔ ہم چھ کے چھ افراد سر پر پیر رکھ کر اوپر کو بھاگے۔ میں اس طرح کی صورتحال کے لئے ظاہر ہے کہ تیار نہ تھا۔ مڑ کر دیکھا تو پتہ چلا کہ ریچھ ہماری مخالف سمت یعنی نیچے کی طرف بھاگ رہا ہے۔ میں نے چلا کر اپنے ساتھیوں کو صورتحال بتائی۔ پھر ہم نے رخ بدلا اور ریچھ کی طرف بھاگنے لگے۔ ہم میں سے چند ساتھیوں کے پتھر بھی ریچھ کو لگے۔ پتھر مارنے والے کا خوشی کا نعرہ اور ریچھ کی چیخ آئی۔ پھر اس کھائی میں ایک موڑ آیا۔ احتیاط کی وجہ سے ریچھ ہم سے آگے نکل گیا۔ خون کے نشانات کا پیچھا کرنا آسان تھا لیکن یہ پورا علاقہ بڑے بڑے پتھروں سے بھرا ہوا تھا اور ریچھ کسی بھی پتھر کے پیچھے چھپا ہوا ہو سکتا تھا۔ جتنی دیر میرے ساتھی آرام کرنے بیٹھے، میں نے کھائی کے ارد گرد کا جائزہ لیا۔ میرا ساتھی آگے بڑھا تاکہ کھائی میں جھانک سکے۔ میں اس پہاڑی کنگورے پر چڑھا جو کوئی دو سو فٹ نیچے تک دیوار کی طرح سیدھا تھا۔ درخت کو پکڑ کر میں نیچے جھکا تو دیکھا کہ چالیس فٹ نیچے ریچھ ایک غار نما کھڈ میں موجود ہے۔ تیس پاؤنڈ وزنی ایک پتھر اٹھا کر اتنا آگے بڑھا کہ خود میرے اپنے نیچے گرنے کا اندیشہ پیدا ہو گیا۔ دونوں ہاتھوں سے پتھر سر سے اونچا کر کے میں نے پھینکا۔

پتھر ریچھ کے سر سے چند انچ دور گرا۔ ریچھ ہڑبڑا کر اٹھا اور فرار ہو گیا۔ منٹ بھر بعد وہ پہاڑی کے سرے پر نکلا۔ ایک بار پھر تعاقب شروع ہو گیا۔ زمین مسطح اور نسبتاً خالی تھی۔ ہم چاروں افراد جو کہ خالی ہاتھ تھے، برابر بھاگ رہے تھے۔ میل بھر ہم لوگ پوری رفتار سے بھاگے ہوں گے کہ جنگل سے نکل کر کھیتوں تک آن پہنچے۔ بارش کے پانی سے یہاں کئی گہری کھائیاں بن چکی تھیں۔ انہی میں سے ایک میں ریچھ چھپا ہوا تھا۔ ہم نے اپنے بگڑے چہرے والا ساتھی جو کہ کلہاڑی سے مسلح تھا، کو ریچھ مارنے کے لئے چنا۔ بڑی احتیاط سے وہ ریچھ تک پہنچا اور اپنی خوبصورت کلہاڑی گھما کر اس نے سیدھی ریچھ کے سر پر ماری۔ نتیجہ ہماری توقعات کے بالکل الٹ نکلا۔ کلہاڑی کا پھل ریچھ کے سر سے ٹکرا کر اس طرح پلٹا جیسے وہ کسی ربر سے ٹکرایا ہو۔ غصے سے چیخ کر ریچھ اپنی پچھلی ٹانگوں پر کھڑا ہوا۔ ہم لوگ بھاگنے کی کوشش میں ایک دوسرے سے الجھ کر گرے۔ خوش قسمتی سے ریچھ نے ہمارا پیچھا نہ کیا۔

بظاہر ریچھ کو یہ کھلا علاقہ پسند نہ آیا تھا اور تھوڑی دور جا کر وہ پھر اوٹ میں ہو گیا۔ اس بار کلہاڑی کے استعمال کی باری میری تھی۔ تاہم ریچھ ایک بار کلہاڑی کا اوچھا وار سہہ چکا تھا، میری بو محسوس کر کے محتاط ہو گیا۔ بڑی محنت کے بعد میں اس قابل ہوا کہ ریچھ پر وار کر سکوں۔ بچپن میں میرا خواب تھا کہ میں کینیڈا میں جا کر لکڑہارا بنوں۔ اس لئے میں نے اتنی مہارت حاصل کر لی تھی کہ کلہاڑی سے ماچس کی تیلی چیر سکتا تھا۔ اس کے علاوہ مجھے یہ ڈر بھی نہ تھا کہ اگر وار خطا ہوا تو کلہاڑی پتھروں سے ٹکرا کر خراب ہو جائے گی۔ جونہی میں ریچھ سے نزدیک ہوا، میں نے کلہاڑی کا پورا پھل ریچھ کے سر میں گاڑ دیا۔

ہمارے پہاڑوں میں ریچھ کی کھال بیش قیمت سمجھی جاتی ہے۔ میں نے جب کلہاڑی کے مالک سے کہا کہ وہ گڑھل کا دگنا گوشت اور ریچھ کی کھال بھی لے سکتا ہے تو اس کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ گاؤں سے کئی بندے اب ادھر پہنچ چکے تھے۔ وہ لوگ گوشت بانٹنے اور ریچھ کی کھال اتارنے میں مشغول ہو گئے اور میں اوپر چڑھ کر گاؤں میں اس زخمی لڑکی سے آخری ملاقات کرنے چلا گیا جو میں پہلے بتا چکا ہوں۔ دن بہت تھکا دینے والا تھا۔ اگر اس رات آدم خور میرے خیمے پر حملہ کرتی تو مجھے با آسانی نیند میں ہی ہڑپ کر جاتی۔

ڈلکانیہ سے آتے ہوئے راستے میں بہت ساری ننگی پہاڑیاں آتی ہیں اور جب میں نے اس مشکل راستے کا ذکر گاؤں والوں سے کیا تو وہ بولے کہ میں ہیرا خان کی طرف سے واپس جاؤں۔ اس کے لئے مجھے اس گاؤں کے پیچھے پہاڑ پر چڑھنا ہوتا اور باقی سارا راستہ اترائی ہی اترائی تھی۔ رانی باغ سے میں بذریعہ کار نینی تال پہنچ سکتا تھا۔

میں نے اپنے آدمیوں سے کہہ دیا تھا کہ وہ اگلی صبح روانگی کے لئے تیار رہیں۔ سورج نکلنے سے ذرا قبل میں انہیں سامان وغیرہ باندھتا چھوڑ کر آگے بڑھ گیا تاکہ میں جب تک ڈلکانیہ کے لوگوں کو الوداع کہہ لوں، میرے ساتھی مجھے آن ملیں۔ پھر میں نے دو میل کی چڑھائی شروع کی۔ جو پگڈنڈی میں نے چنی تھی، وہ نہ تھی جس سے ہم لوگ آئے تھے۔ بلکہ یہ راستہ دیہاتی بازاروں وغیرہ کو آنے جانے کے لئے استعمال کرتے تھے۔

راستہ گہری کھائیوں سے ہو کر گذرتا تھا اور گھنے جنگل، جھاڑیاں وغیرہ بھی راستے میں آتے تھے۔ ایک ہفتے سے شیرنی کی کوئی خیر خبر نہ تھی۔ اس غیر موجودگی کی بنا پر میں زیادہ محتاط ہو چلا تھا۔ کیمپ سے نکلنے کے گھنٹے بھر بعد میں پہاڑ کے اوپری سرے تک بغیر کسی دقت کے پہنچ گیا۔ یہ جگہ بنجر تھی اور چوٹی کے پاس۔ فارسٹ روڈ یہاں سے سو گز دور سے گذرتی تھی۔ یہ بنجر قطعہ ناشپاتی کی شکل جیسا تھا۔ اندازاً سو گز لمبا اور پچاس گز چوڑا۔ اس کے درمیان میں بارش کے پانی کا ایک چھوٹا سا تالاب تھا۔ سانبھر وغیرہ یہاں سے پانی پیتے تھے۔ اس پر پگ دیکھنے کے خیال سے میں راستے سے مڑ کر اس طرف آیا جو راستہ اس قطعے سے بائیں ہو کر گذرتا تھا اور ایک ایسی چٹان کے نیچے سے گذرتا تھا جو راستے پر سائبان کی طرح معلق تھی۔ جونہی میں اس تالاب پر پہنچا، میں نے شیرنی کے بالکل تازہ پگ نرم زمین پر ثبت دیکھے۔ وہ اسی طرف سے تالاب پر آئی تھی جہاں سے میں ابھی آیا۔ میری وجہ سے وہ یہاں سے تالاب کو عبور کر کے دائیں طرف کے گھنے جنگل میں گھس گئی۔ اگر میں سامنے کی طرف بھی اتنا ہی محتاط ہوتا جتنا کہ عقب کی طرف سے تھا، یقیناً میں شیرنی کو پہلے دیکھ لیتا۔ سنہری موقع ہاتھ سے نکل گیا۔ تاہم اگرچہ یہ موقع تو ضائع ہوا لیکن پھر بھی صورتحال میرے حق میں تھی۔

اگر شیرنی مجھے نہ دیکھتی تو تالاب عبور کر کے جنگل میں چھپنے کے لئے ہرگز جلدی نہ کرتی۔ اس کے پگوں سے اس کی رفتار ظاہر ہو رہی تھی۔ اس نے چھپ کر مجھے دیکھا تھا کہ میں اکیلا ہوں اور اس کی طرح پانی بھی پینے آؤں گا۔ اس مقام تک میری حرکات قطعی عام سی تھیں۔ اگر میں اسی طرح رویہ اختیار کرتا کہ جیسے مجھے شیرنی کی موجودگی کا علم نہیں، ہو سکتا ہے کہ مجھے دوبارہ موقع ملتا۔ پنجوں کے بل بیٹھتے ہوئے میں نے ہیٹ کے نچلے گوشے سے ہر طرف گہری نظر رکھی۔ کئی بار کھانسا، پانی کو اچھالتا رہا اور پھر بہت آہستگی سے خشک لکڑیاں چننے لگا۔ میرا رخ اب اس عمودی چٹان کی طرف تھا۔ یہاں میں نے مختصر سی آگ جلائی اور چٹان سے ٹیک لگا کر سیگرٹ سلگا لی۔ جب سیگرٹ پی چکا اور آگ بھی ختم ہو گئی تو میں لیٹ گیا۔ بائیں ہاتھ سے تکیہ بنایا اور رائفل کی لبلبی پر ہاتھ رکھے اسے بھی سامنے رکھ لیا۔

میرے عقب میں موجود چٹان بہت عمودی تھی اور اس پر کوئی بھی جانور نہ چڑھ سکتا تھا۔ میرے سامنے کم از کم بیس گز تک جھاڑ جھنکار وغیرہ سے پاک زمین تھی۔ میں نسبتاً محفوظ تھا۔ اس دوران میں نے نہ تو کچھ دیکھا اور نہ ہی کچھ سنا لیکن پھر بھی مجھے علم ہو گیا کہ شیرنی مجھے دیکھ رہی ہے۔ میرے ہیٹ کا کنارہ اگرچہ میری آنکھوں پر جھکا ہوا تھا لیکن میری نظروں کے سامنے کسی قسم کی رکاوٹ نہ بن رہا تھا۔ میں نے سامنے موجود جنگل کا انچ انچ چھانا۔ ہلکی سی ہوا بھی نہ چل رہی تھی اور نہ ہی گھاس کا کوئی تنکا تک ہلا۔ میرا اندازہ تھا کہ شیرنی اب اس وقفے میں اپنی جگہ سے نکل کر یا تو گھات لگائے گی یا پھر براہ راست ہلہ بول دے گی۔

بعض اوقات وقت نہیں گذر پاتا اور بعض اوقات اسے پر لگ جاتے ہیں۔ سر کے نیچے بائیاں ہاتھ کافی دیر پہلے سن ہو چکا تھا۔ پر بھی نیچے وادی سے میرے آدمیوں کی گانے کی آواز بہت جلد ہی ادھر آن پہنچی۔ آواز اونچی ہوتی چلی گئی اور پھر میں نے موڑ پر اپنے ساتھیوں کو آتا دیکھا۔ شاید اسی جگہ پر شیرنی نے مجھے دیکھا تھا اور پانی پی کر فرار ہو گئی تھی۔ ایک اور ناکامی اور اس دورے کا آخری موقع بھی ہاتھ سے نکل گیا۔

جب میرے ساتھی آرام کر چکے تو ہم سڑک پر چڑھے اور فارسٹ روڈ کی مدد سے ہیرا خان کی طرف کا بائیس میل کا سفر شروع ہوا۔ دو سو گز آگے جا کر سڑک کھلے قطعے سے اچانک گھنے جنگل میں مڑ گئی۔ یہاں میں نے اپنے ساتھیوں کو آگے چلنے کا کہا اور خود عقب سنبھالا۔ دو میل اسی طرح چل کر ہم نے موڑ پر ایک شخص کو بیٹھے دیکھا جو اپنی بھینسوں کی نگرانی کر رہا تھا۔

ناشتے کا وقت ہو چکا تھا۔ میں نے اس آدمی سے پوچھا کہ پانی کہاں سے ملے گا۔ اس نے سیدھا نیچے کی طرف اشارہ کیا اور بتایا کہ وہاں ایک چشمہ موجود ہے جہاں سے گاؤں والے پانی بھرتے ہیں۔ تاہم اگر ہم سیدھا چلتے جائیں تو تھوڑا آگے جا کر ایک چشمہ سڑک ہی سے گذرتا ہے۔

لوہالی گاؤں وادی کے اوپری سرے پر واقع تھا جہاں گذشتہ ہفتے شیرنی نے عورت کو ہلاک کیا تھا۔ اس نے بتایا کہ اس دن کے بعد سے شیرنی کی کوئی اطلاع نہیں۔ اس نے بتایا کہ ہو سکتا ہے کہ شیرنی اب ضلع کے دوسرے سرے پر ہو۔ میں نے اس بات کی تردید کی اور اسے ان تازہ پگوں کے بارے بتایا جو میں نے کچھ دیر قبل دیکھے تھے۔ میں نے اسے کہا کہ وہ بھینسوں کو اکٹھا کر کے گاؤں چلا جائے۔ اس کی دس بھینسیں تھیں جو اب سڑک کی طرف چر رہی تھیں۔ اس نے کہا کہ جہاں وہ بیٹھا ہے، جونہی بھینیسں اس جگہ کو چر لیں، وہ انہیں لے کر چلا جائے گا۔ میں نے اسے ایک سیگرٹ دی اور تنبیہ کر کے چل پڑا۔ اس کے بعد کیا ہوا، مجھے اس کے گاؤں والوں نے کئی ماہ بعد میرے اگلے چکر پر بتایا۔

اس دن جب وہ آدمی گھر پہنچا تو اس نے جمع شدہ لوگوں کو بتایا کہ کس طرح وہ مجھ سے ملا تھا اور میری تنبیہہ کے بارے بھی بتایا۔ اس نے مجھے موڑ مڑ کر اوجھل ہوتے دیکھا تو وہ سیگرٹ جلانے لگا۔ ہوا چل رہی تھی اور ماچس کی تیلی کو بجھنے سے بچانے کے لئے وہ جھکا۔ ابھی دوبارہ سیدھا نہ ہوا تھا کہ کسی نے اسے دائیں کندھے سے پکڑ کر پیچھے کو کھینچا۔ اس کے ذہن میں فوراً ہی ہمارا خیال آیا۔ بدقسمتی سے ہم اس کی چیخ نہ سن سکے۔ تاہم مدد زیادہ دور نہ تھی۔ اس کی چیخ سنتے ہی اس کی بھینسیں جمع ہو کر شیرنی کی طرف بڑھیں اور اسے بھگا دیا۔ اس کا کندھا اور بازو ٹوٹ چکے تھے۔ بمشکل وہ اپنی ایک بھینس پر سوار ہوا اور بقیہ بھینسوں کے گھیرے میں گاؤں پہنچا۔ اس کے گاؤں والوں نے اس کے زخم باندھ کر اسے بغیر رکے اٹھا کر تیس میل دور ہلدوانی ہسپتال پہنچایا جہاں وہ داخلے کے کچھ دیر بعد مر گیا۔

قدرت بعض اوقات سامنے آنے والی زندگی کی ڈور چھوڑ کر دوسری کاٹ دیتی ہے۔ کس ڈور کو کٹنا چاہیئے اور کس کو نہیں، اس کی ذمہ داری ہم قسمت، نصیب یا جو چاہے کہہ لیں، پر ڈال دیتے ہیں۔

ایک ماہ تک میں کھلے میدان میں انسانوں سے کم از کم سو گز دور خیمے میں سوتا رہا۔ صبح سے شام تک جنگلوں میں پھرتا رہا، کئی بار عورت کا بھیس بھی بدلا اور ان جگہوں پر گھاس کاٹی جہاں کوئی انسان جانے کی ہمت نہ کرتا تھا۔ اس دوران شیرنی نے مجھے ہضم کرنے کے کئی نادر مواقع ضائع کئے۔ آخری موقع پر قسمت نے میری بجائے اس بدقسمت شخص کو شیرنی کے سامنے پیش کر دیا۔

 

 

 

(۲)

 

فروری میں میں ڈلکانیہ لوٹا۔ بہت سارے آدمی مارے جا چکے تھے اور ان سے بھی کہیں زیادہ گھائل ہوئے تھے۔ چونکہ شیرنی کے بارے ابھی کوئی تازہ اطلاع نہ تھی، ہر جگہ اس کی موجودگی کے یکساں امکانات تھے۔ میں نے اس جگہ ہی کیمپ لگانے کا سوچا جس جگہ سے میں زیادہ واقف تھا۔

ڈلکانیہ پہنچتے ہی مجھے اطلاع ملی کہ جہاں ہم پچھلی مرتبہ ریچھ کا شکار کیا تھا، اس جگہ ایک گائے ماری گئی ہے۔ جو آدمی گایوں کی دیکھ بھال کر رہا تھا، اسے یقین تھا کہ یہ کام شیرنی کا ہی ہے۔ اب اس گائے کی لاش ایک غیر آباد کھیت کے کنارے موجود ہے اور اس جگہ سے صاف دکھائی دے رہی ہے جہاں میرا خیمہ لگنے والا ہے۔ گدھ اس جگہ بار بار چکر لگا رہے تھے اور دور بین سے دیکھنے پر میں نے بہت سارے گدھوں کو اس درخت پر بیٹھے دیکھا جو لاش کے بائیں جانب تھا۔ چونکہ لاش کھلی فضاء میں تھی اور گدھ نیچے نہ اترے تھے، میں نے یہ نتائج نکالے :

۱۔ گائے کو تیندوے نے مارا ہے

۲۔ تیندوا شکار کے پاس ہی چھپا ہوا ہے

اس لاش والے کھیت سے نچلا کھیت کافی ڈھلوان اور جھاڑ جھنکار سے بھرپور تھا۔ آدم خور ابھی زندہ تھی اس لئے اس جگہ سے پیش قدمی کرنا مناسب نہ تھا۔

دائیں طرف گھاس سے بھری ہوئی ڈھلوان تھی لیکن علاقہ کھلا تھا اور دکھائی دیئے بغیر میرا ادھر سے جانا ممکن نہ تھا۔ پہاڑ سے ایک گہری اور درختوں سے بھری ہوئی کھائی شروع ہو کر دریائے نندھور کو جاتی تھی۔ راستے میں یہ کھائی لاش کے قریب سے گذرتی تھی۔ وہ درخت جو کھائی کے کنارے پر تھا، اب گدھوں کے بوجھ سے جھکا ہوا تھا۔ میں نے کھائی سے ہی آگے بڑھنے کا سوچا۔ جتنی دیر میں میں اس علاقے سے بخوبی واقف دیہاتیوں سے پیش قدمی کا پروگرام بنا رہا تھا کہ میرے ملازمین نے چائے تیار کر دی۔ دن ڈھل رہا تھا۔ اگر میں عجلت کرتا تو اس جگہ کا جائزہ لے کر اندھیرا ہونے سے پہلے واپس آ سکتا تھا۔

نکلنے سے قبل میں نے اپنے آدمیوں سے خبردار رہنے کا کہا۔ یہ بھی کہا کہ اگر وہ گولی چلنے کے بعد مجھے اس جگہ دیکھیں تو تین چار بندے سیدھے اس کھلے علاقے سے ہو کر میری طرف آئیں۔ اگر گولی نہ چلتی اور صبح تک میں واپس نہ آتا تو میری تلاش شروع کرتے۔

کھائی رس بھری کی جھاڑیوں سے پٹی پڑی تھی۔ ہوا پہاڑی سے نیچے کی طرف آ رہی تھی اور میں بہت آہستگی سے بڑھ رہا تھا۔ سخت چڑھائی کے بعد میں گدھوں کے درخت تک پہنچ گیا۔ یہاں آ کر پتہ چلا کہ لاش یہاں سے دکھائی نہیں دیتی۔ دوربین سے دیکھنے پر یہ جگہ ہموار دکھائی دی تھی لیکن نزدیک آ کر پتہ چلا کہ یہ ہلالی شکل میں ہے اور درمیان میں کم از کم دس گز چوڑی اور سروں پر پتلی ہے۔ اس کا بیرونی کنارہ گھنی جھاڑیوں سے بھرا ہوا تھا۔ اس کے اندرونی سرے پر پہاڑی تیزی سے نیچی ہوتی جاتی تھی۔ یہاں سے دو تہائی جگہ تو دکھائی دے رہی تھی۔ بقیہ ایک تہائی جہاں گائے کی لاش تھی، دیکھنے کے لئے مجھے یا تو دور سے لمبا چکر لگانا پڑتا یا پھر گدھوں والے درخت پر چڑھتا۔

میں نے سوچا کہ درخت پر چڑھتا ہوں۔ میرے اندازے سے گائے بیس گز دور تھی۔ یہ بھی عین ممکن تھا کہ تیندوا اس سے بھی کم فاصلے پر ہوتا۔ اگر گدھ اس درخت پر نہ ہوتے تو میں تیندوے کو خبردار کئے بناء اس پر نہ چڑھ پاتا۔ درخت پر بیس کے قریب گدھ جمع تھے اور ان کی تعداد وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی جا رہی تھی۔ چونکہ اوپری شاخوں پر جگہ کم پڑ رہی تھی، اس لئے پروں کی پھڑپھڑاہٹ اور لڑائی میں شدت آتی جا رہی تھی۔ درخت پہاڑ سے باہر کی طرف جھکا ہوا تھا اور کھائی کے اوپر ایک شاخ زمین سے دس فٹ کی بلندی پر پھیلی ہوئی تھی۔ رائفل اٹھائے میں احتیاط سے اس شاخ تک پہنچا۔ جونہی گدھوں نے دوبارہ لڑائی شروع کی، میں اس شاخ پر چڑھ گیا۔ اس جگہ غلط قدم یا پیر پھسلنے کا مطلب سو فٹ نیچے چٹانوں پر گرنا تھا۔ میں ایک دو شاخے پر پہنچ کر بیٹھ گیا۔

گائے کی لاش اب صاف دکھائی دے رہی تھی۔ اس سے چند لقمے ہی کھائے گئے تھے۔ دس منٹ میں اسی جگہ پر رکا کیونکہ میری نشست کافی آرام دہ تھی۔ میں نے دو گدھ اس جگہ اترتے ہوئے دیکھے کہ شاید ان کے لئے درخت پر ناکافی جگہ تھی۔ ابھی وہ بمشکل رکے ہی ہوں گے کہ دوبارہ اڑے۔ اسی وقت میری طرف کی جھاڑیاں ہلیں اور اس سے ایک عمدہ نر تیندوا نکل کر باہر آیا۔

وہ افراد جنہوں نے تیندوے کو قدرتی ماحول میں نہیں دیکھا، وہ اس کی حرکات و سکنات میں موجود شان و شوکت، کھال کی خوبصورتی اور ہندوستانی جنگلوں کے اس خوبصورت ترین جانور کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے۔ اس کی جسامت اور وزن کے حساب سے اس کی طاقت کا کوئی مقابل نہیں۔ نڈر پن میں اس کا دور دور تک کوئی ثانی نہیں۔ اس جانور کو حقیر حشرات الارض کے برابر سمجھنا ایک ایسا جرم ہے جو انہی لوگوں سے سرزد ہوتا ہے جنہوں میں چڑیا گھر میں فاقہ زدہ اور قابل رحم تیندوے کو ہی دیکھتے ہیں۔ یہ جانور اپنی خوبصورتی کے باوجود مویشی خور ہو کر اپنی قسمت پر خود ہی مہر لگا چکا تھا۔ پچھلے چکر میں میں نے ڈلکانیہ کے باشندوں سے سے وعدہ کیا تھا اگر موقع ملا تو اس تیندوے کو ٹھکانے لگا دوں گا۔ اب وہ موقع میرے سامنے تھا۔ میرا خیال ہے کہ تیندوے نے اس گولی کی آواز بھی سنی ہو گی جس سے اس کی موت ہوئی۔

ہماری زندگی میں بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں جن کی کوئی وجہ پتہ نہیں چلتی۔ جس گائے کی لاش پر میں نے تیندوے کو مارا، اس کے مالک ہی کے بارے سوچیں۔ یہ آٹھ سالہ لڑکا تھا اور اپنے والدین کی اکلوتی اولاد۔ دو سال قبل اس کی ماں کو اسی گائے کے لئے چارہ کاٹتے ہوئے آدم خور نے ہلاک کیا تھا۔ بارہ ماہ بعد اس کے باپ کا یہی حشر ہوا۔ گھر کے چند برتن جو تھے وہ باپ کے قرض چکانے میں لگ گئے۔ اس لڑکے نے اپنی زندگی کا آغاز گائے کے مالک کے طور پر کیا۔ اس تیندوے نے اس گاؤں کی دو یا تین سو گایوں کو چھوڑ کر صرف اسی کی گائے کو چنا (مجھے ڈر ہے کہ میں نے جو لال رنگ کی بہترین نسل کی بہترین گائے اسے دی، سے اس کی تشفی نہ ہو پائی۔ اس گائے سے اس لڑکی کی پوری زندگی وابستہ تھی۔ )۔

میرے نوجوان بھینسے جو میں پچھلے چکر پر ایک دیہاتی کی نگرانی میں دے کر گیا تھا، نے ان کا خوب خیال رکھا تھا۔ اپنی آمد کے اگلے دن میں نے انہیں باندھنا شروع کر دیا۔ آدم خور کی طرف سے موہوم سی امید تھی کہ وہ انہیں ہلاک کرے۔

وادی نندھور سے پانچ میل نیچے ایک بڑی چٹان کی جڑ میں ایک ہزار فٹ کی بلندی پر ایک چھوٹا سا گاؤں تھا۔ آدم خور نے سابقہ چند مہینوں میں اس جگہ سے چار افراد ہلاک کئے تھے۔ تیندوے کی ہلاکت کے بعد اسی گاؤں سے چند اشخاص آئے کہ میں اپنا کیمپ ان کے گاؤں کے پاس لگاؤں۔ انہوں نے بتایا کہ آدم خور اس بڑی چٹان پر اکثر دکھائی دیتی ہے اور غالب امکان ہے کہ وہ اسی جگہ کسی غار میں رہتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اسی صبح چند عورتوں نے گھاس کاٹتے وقت شیرنی کو دیکھا تھا۔ اب گاؤں والے انتہائی دہشت زدہ تھے اور گھر سے نکلنا دوبھر ہو چکا تھا۔ ان سے ہر ممکن مدد کا وعدہ کر کے اگلی صبح میں گاؤں کی مخالف سمت سے پہاڑی پر چڑھا اور دوربین سے اس پوری چٹان کا جائزہ ڈیڑھ گھنٹے تک لیتا رہا۔ پھر میں نے وادی عبور کی اور گہری کھائی کی مدد سے اوپر گاؤں پر موجود چٹان پر چڑھا۔ یہاں راستہ بہت مشکل اور میری امید کے خلاف تھا۔ اس میں نیچے گرنے کا بھی اندیشہ تھا جو براہ راست گردن ٹوٹنے پر ہی منتج ہوتا۔ اس جگہ اپنا دفاع کرنا بھی ممکن نہ تھا۔

دو بجے تک میں نے ہر وہ جگہ دیکھ لی جس کی مجھے ضرورت پڑ سکتی تھی اور کیمپ کا رخ کر چکا تھا تاکہ جا کر ناشتہ کر سکوں۔ ایک بار مڑ کر دیکھنے پر پتہ چلا کہ دو آدمی میری طرف بھاگتے ہوئے آ رہے ہیں۔ ان سے ملا تو انہوں نے بتایا کہ اسی صبح شیرنی نے اس کھائی میں ایک بیل ہلاک کیا ہے۔ یہ وہی کھائی تھی جہاں سے میں صبح کو اوپر گیا تھا۔ ایک آدمی سے یہ کہہ کر کہ وہ میرے کیمپ جا کر میرے ملازمین کو کھانا اور چائے بھیجنے کا کہے، میں دوسرے آدمی کے ساتھ الٹے قدموں وادی کی جانب مڑا۔

یہ کھائی دو سو فٹ گہری اور سو فٹ چوڑی تھی۔ نزدیک پہنچے تو گدھ اڑنے لگ گئے۔ افسوس کہ گدھوں نے کھال اور ہڈیوں کے سوا سب کچھ ہڑپ کر لیا تھا۔ ان ہڈیوں سے گاؤں بمشکل سو گز ہی دور تھا لیکن چٹان ناقابل عبور تھی۔ میرا رہنما مجھے کھائی میں چوتھائی میل نیچے لے گیا جہاں مویشیوں کی پگ ڈنڈی گذرتی تھی۔ بلند ہو کر یہ راستہ گھنے جنگلوں سے بار بار گذرتا ہوا آخر کار گاؤں جا ختم ہوتا تھا۔ گاؤں پہنچ کر میں نے نمبردار سے کہا کہ گدھوں نے بیل کی لاش کو ختم کر دیا ہے اور یہ بھی وہ ایک نو عمر بھینسا اور ایک چھوٹی مگر مضبوط رسی مہیا کرے۔ جتنی دیر میں یہ چیزیں ملتیں، میرے دو آدمی کھانا اور چائے لے کر دوسرے دیہاتی کے ہمراہ پہنچ گئے۔

جب میں اس کھائی میں داخل ہوا تو سورج ڈوبنے والا تھا۔ میرے پیچھے کئی آدمی تھے جو ایک جوان اور قوی الجثہ بھینسے کو لا رہے تھے۔ یہ بھینسا نمبردار نے میرے لئے نزدیکی گاؤں سے خریدا تھا۔ جہاں بیل ہلاک ہوا تھا، سے پچاس گز دور چلغوزے کا ایک درخت پہاڑ سے اکھڑ کر نیچے گرا تھا اور اس کا ایک سرا کھائی کی زمین میں دفن تھا۔ بھینسے کو اس درخت سے باندھ کر سارے افراد واپس چلے گئے۔ اس علاقے میں اس درخت نہیں تھے۔ میری نشست کی ممکنہ جگہ اس کھڈ میں گاؤں والے کنارے پر موجود ایک دراڑ تھی۔ بہت مشکل کے ساتھ میں اس دراڑ تک پہنچا جو دو فٹ چوڑی اور پانچ فٹ لمبی تھی۔ کھائی کی تہہ یہاں سے بیس فٹ نیچے تھے۔ دراڑ نیچے جا کر کچھ اس طرح کی ہو گئی تھی مجھے وہ حصہ دکھائی نہ دیتا تھا۔ دوسرا دراڑ کچھ اس زاویے پر تھی کہ جب میں اس میں بیٹھتا تو شیرنی کی متوقع آمد میرے عقب سے ہوتی جبکہ بھینسا میرے سامنے تیس گز دور تھا۔

ابھی سورج ڈوبا ہی تھا کہ بھینسا اچانک ہڑبڑا کر کھڑا ہو گیا۔ اس کا رخ دراڑ کی طرف تھا۔ اسی وقت ایک پتھر لڑھکتا ہوا نیچے آیا۔ جس طرف سے آواز آئی تھی، اس طرف گولی چلانا ممکن نہ تھا۔ دیکھے جانے کے ڈر سے میں بالکل چپ چاپ اور ساکت ہو کر بیٹھا رہا۔ کچھ دیر بعد بھینسے کا رخ آہستہ آہستہ بائیں جانب میری طرف ہوا۔ اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ جس چیز سے خوف زدہ ہے، وہ میرے بالکل نیچے ہے۔ پھر شیر کا سر میرے نیچے سے نکلا۔ شیر کے سر پر گولی چلانا صرف انتہائی ہنگامی حالت میں ہی بہتر ہے۔ دوسرا اس وقت میری ہلکی سی بھی حرکت شیر کو میری جگہ سے با خبر کر دیتی۔ ایک یا دو منٹ تک یہ سر بالکل ساکت رہا پھر اچانک ہی یہ آگے بڑھا۔ ایک ہی چھلانگ میں شیر بھینسے پر تھا۔ جیسا کہ میں نے پہلے بتایا، بھینسا شیر کی طرف رخ کئے ہوئے تھا۔ شیر ایک ہی چھلانگ میں بھینسے پر تھا۔ جیسا کہ میں نے پہلے بتایا، بھینسا شیر کی طرف رخ کئے ہوئے تھا۔ شیر اس تیز رفتاری سے بھینسے کے پہلو میں پہنچا اور ایک ہی چھلانگ میں اسے زاویہ قائمہ پر جا لیا۔ سامنے سے نہ جانے کی وجہ سینگوں سے زخمی ہونے کا ڈر تھا۔ نہ تو دانت جمانے کے لئے شیر کو کوشش کرنا پڑی اور نہ ہی کوئی جد و جہد۔ دو بھاری جسموں کے ٹکراؤ کی آواز آئی اور بس۔ اب شیر بھینسے پر لیٹا ہوا اس کے گلے کو دبوچے ہوئے تھا۔ عام خیال کیا جاتا ہے کہ شیر گردن توڑ کر جانور کو مارتے ہیں۔ یہ غلط ہے۔ شیر دانتوں سے مارتے ہیں۔

شیر کا دائیاں پہلو میری طرف تھا۔ اپنی اعشاریہ ۲۷۵ کی رائفل سے میں نے احتیاط سے نشانہ لیا اور گولی چلا دی۔ بھینسے کو چھوڑ کر شیر بغیر کوئی آواز نکالے جست لگا کر یہ جا وہ جا۔ یقیناً شیر کو گولی نہیں لگی۔ بظاہر اس کی کوئی خاص وجہ نہیں تھی کہ نشانہ کیوں خطا ہوا۔ اگر شیر نے مجھے نہیں دیکھا یا رائفل کا شعلہ اسے نہیں دکھائی دیا تو ہو سکتا ہے کہ وہ پلٹے۔ اس لئے رائفل کو دوبارہ بھر کر میں تیار ہو بیٹھا۔

شیر کے فرار کے بعد بھینسا بالکل ہی ساکت رہا۔ مجھے خیال ہوا کہ شاید گولی شیر کی بجائے بھینسے کو لگی ہے۔ دس یا پندرہ منٹ بہت طویل ہو کر گذرے۔ اس کے بعد شیر کا سر دوبارہ اسی جگہ میرے نیچے سے نمودار ہوا۔ پھر وقفہ، پھر شیر آہستہ آہستہ سامنے آیا۔ بھیہنسے کے پاس جا کر وہ رکا اور اس نے بھینسے کو دیکھنا شروع کیا۔ شیر کا پورا جسم اس جگہ سے میرے سامنے تھا۔ دوسری بار مجھ سے وہی غلطی نہ ہوتی۔ اس بار میں نے بہت احتیاط سے نشانہ لیا اور گولی چلائی۔ میری توقع کے بالکل الٹ، شیر گرنے کی بجائے جست لگا کر بائیں جانب عمودی ڈھلوان پر چڑھ گیا اور پتھر نیچے لڑھکنے لگے۔

تیس گز کے فاصلے سے اور نسبتاً بہتر روشنی میں شیر پر چلائی گئی دو گولیاں جو میلوں دور تک دیہاتوں میں سنی گئی ہوں گی، اور میرے سامنے بھینسے کی لاش تھی جس پر ایک یا دو گولیوں کے سوراخ ہوں گے۔ یقیناً میری نظر میں فرق آ گیا تھا۔ یا چڑھائی میں رائفل کے دید بان ہل گئے تھے۔ لیکن چھوٹی چھوٹی اشیاء پر نگاہ جمانے سے بصارت کی کمزوری نہ نکلی۔ رائفل کے دید بان بھی بظاہر ٹھیک تھے۔ واحد امکان یہی تھا کہ میرا نشانہ خراب تھا۔

شیرنی کی تیسری بار آمد کا کوئی امکان نہ تھا۔ اگر وہ آتی بھی تو اتنی کم روشنی میں گولی چلانا یا اسے زخمی کرنا بیکار ہوتا جبکہ بہتر روشنی میں میں اس پر دو گولیاں ضائع کر چکا تھا۔ اب میرا یہاں رکنا بے کار تھا۔

سارے دن کی مشقت سے میرے کپڑے ابھی تک گیلے تھے اور بتدریج ٹھنڈی ہوتی ہوا مزید ٹھنڈی ہوتی جا رہی تھی۔ میری نیکر پتلے خاکی کپڑے کی تھی اور چٹان سخت اور ٹھنڈی۔ گاؤں میں چائے کا گرم گرم کپ میرا منتظر تھا۔ یہ تمام وجوہات چاہے جتنی عمدہ ہی کیوں نہ ہوں، مجھے آدم خور کی وجہ سے ادھر ہی رکنا تھا۔ اندھیرا گہرا ہوا چلا تھا۔ پون میل کا سفر گہری کھائیوں، بڑے بڑے پتھروں اور گھنے جنگل سے ہو کر گذرتا تھا۔ باوجود اس کے کہ گاؤں والوں نے کل شیرنی دیکھی تھی، باوجود اس کے کہ میں نے بظاہر آدم خور پر دو گولیاں چلائی تھیں، مجھے شیرنی کی اصل موجودگی کا کوئی علم نہ تھا۔ ہو سکتا ہے کہ وہ پچاس میل دور ہو، ہو سکتا ہے کہ وہ پچاس گز دور سے مجھے دیکھ رہی ہو۔ میری نشست جتنی بھی غیر آرام دہ تھی، بہتر یہی تھا کہ میں اسی جگہ صبح ہونے تک رہتا۔ جوں جوں وقت گذرتا رہا، مجھے یہ خیال تنگ کرتا رہا کہ رات کے اندھیرے میں شیرنی پر گولی چلانا اتنا آسان کام نہیں تھا جتنا کہ میں نے فرض کر لیا تھا۔ اگر یہ جانور دن کی روشنی میں نہ مارا جا سکا تو پھر اسے قدرتی موت مرنے کے لئے چھوڑ دینا پڑے گا۔ صبح کی روشنی ہوتے ہوتے یہ خیال اچھی طرح میرے ذہن میں جڑ پکڑ چکا تھا۔ نیچے اترتے ہوئے میں پھسلا اور زمین پر کمر کے بل گرا۔ میری ٹانگیں آسمان کی طرف ہو گئیں۔ ساری رات کی سردی نے مجھے اکڑا دیا تھا۔ خوش قسمتی سے میں ریت پر گرا اور مجھے یا رائفل کو خراش تک نہ آئی۔

اتنی صبح کے وقت پورا گاؤں بیدار تھا۔ فوراً ہی انہوں نے مجھے گھیر لیا۔ ان کے سوالات کے جواب میں میں نے صرف اتنا کہا کہ میں فرضی شیر پر خالی کارتوس چلا رہا تھا۔

بھڑکتی آگ کے پاس بیٹھ کر اور چائے دانی خالی کرنے کے بعد میری ہمت کچھ بحال ہو گئی۔ اب گاؤں بھر کے مردوں اور لڑکوں کو اپنے ساتھ لے کر میں دوبارہ اسی جگہ لوٹا اور اس جگہ کھائی کے اوپر کھڑا ہوا جس جگہ میں نے رات بسر کی تھی۔ اب میں نے لوگوں کو بتایا کہ کس طرح شیر اس جگہ سے نکلا اور میرے گولی چلانے پر وہ اس طرف بھاگا۔ جونہی میں نے کھائی کی طرف اشارہ کیا، سارا ہجوم چلایا کہ "صاحب، شیر وہاں مردہ پڑا ہوا ہے۔ ” رات بھر جاگنے کے بعد شاید میری آنکھیں تھک گئی تھیں، لیکن بار بار دیکھنے پر بھی شیر غائب نہ ہوا۔ ظاہر ہے کہ لوگوں نے پوچھا کہ بیس یا تیس منٹ بعد میں نے دوبارہ کیوں گولی چلائی؟ میں نے بتایا کہ کس طرح شیر دوبارہ اسی جگہ سے نکلا اور کس طرح میں نے اس پر گولی چلائی جب وہ بھینسے کے پاس کھڑا تھا اور گولی لگتے ہی وہ کیسے بھاگ کر بائیں جانب چڑھا۔ فوراً ہی غلغلہ بلند ہوا "صاحب، دوسرا شیر وہاں مردہ پڑا ہے۔ ” اس بار آوازوں میں گاؤں بھر کی لڑکیاں اور عورتیں بھی شامل تھیں جو دیر سے پہنچی تھیں۔ دونوں شیر ایک ہی جسامت کے تھے اور ساٹھ گز دور مردہ پڑے تھے۔

دوسرے شیر کے بارے پوچھنے پر دیہاتیوں نے بتایا کہ سابقہ چار ہلاکتوں کے مواقع اور پھر بیل کی لاش کے پاس کھوجی جماعت کو ہمیشہ ایک ہی شیر دکھائی دیا تھا۔ شیروں کے ملاپ کا موسم نومبر سے اپریل تک پھیلا ہوتا ہے۔ اگر دونوں شیروں میں سے ایک آدم خور ہوتی تو لازماً اس نے اپنا ساتھی تلاش کر لیا تھا۔

جہاں میں بیٹھا تھا، اس سے دو سو گز دور نیچے ایک عمودی راستہ تلاش کر لیا گیا اور سارے گاؤں والے میرے پیچھے چل پڑے۔ نزدیک جانے پر میری امیدیں اچانک بڑھ گئیں کہ یہ ایک بوڑھی شیرنی تھی۔ نزدیکی بندے کو رائفل تھما کر میں گھٹنوں کے بل جھکا اور اس کے پنجوں کو دیکھا۔ جس دن شیرنی نے گھاس کاٹتی عورتوں پر حملہ کرنے کی کوشش کی تھی، وہ اپنے پیروں کے بہت خوبصورت نشانات چھوڑ گئی تھی۔ یہ پہلے پگ تھے جو میں نے اس آدم خور کے دیکھے تھے۔ میں نے ان کو بغور دیکھا تھا۔ ان سے ہی علم ہوا تھا کہ شیرنی ایک بہت پرانی مادہ ہے جس کے ناخن اتنے بڑھ چکے ہیں کہ میں نے زندگی بھر کسی شیر کے اتنے بڑے ناخن نہیں دیکھے۔ ان وجوہات کی بنا پر آدم خور کو سو مردہ شیروں میں سے با آسانی پہچانا جا سکتا تھا۔ میری مایوسی کی انتہا دیکھیں، یہ مردہ بوڑھی شیرنی آدم خور نہیں تھی۔ جب میں نے یہ بات گاؤں والوں کو بتائی تو انہوں نے تسلیم کرنے سے انکار کیا اور کہا کہ پچھلے موقع پر میں نے خود کہا تھا کہ آدم خور ایک بہت پرانی شیرنی ہے اور اب جب وہ میرے سامنے مردہ پڑی ہے تو میں اسے تسلیم کرنے سے انکاری ہوں۔ حالانکہ جس جگہ سے مری پڑی ہے، اس سے نزدیک ہی ان کے چار آدمی مختصر وقت میں مارے گئے ہیں۔ ان سب دلائل کے باوجود میرے پاس شیرنی کی پاؤں کی زیادہ اہمیت ہے جبکہ سب شیروں کے پاؤں ایک جیسے ہوتے ہیں۔

ان حالات میں دوسرا شیر نر ہی ہو سکتا تھا۔ جب میں شیرنی کی کھال اتارنے کی تیاری میں تھا تو ایک جماعت جا کر نر کو لے آئی۔ اس طرف ڈھلوان بہت عمودی تھی۔ کافی مشقت کے بعد وہ لوگ ایک خوبصورت نر شیر کو میرے پاس لائے۔

دس گھنٹے قبل مردہ اور اکڑے ہوئے شیروں کی کھال ایسے وقت اتارنا جب ارد گرد لوگ جمع ہوں اور سورج پشت جلا رہا ہو، ، میری زندگی کے تلخ ترین تجربات میں سے ایک ہے۔ دوپہر کو جا کر یہ کام مکمل ہوا۔ میرے آدمیوں نے بہت احتیاط سے ان کھالوں کو لپیٹا اور ہم پانچ میل دور کیمپ جانے کو تیار ہو گئے۔

صبح کے دوران میں نے ارد گرد کے دیہاتوں کے نمبرداروں کو بتایا کہ چوگڑھ کی شیرنی زندہ ہے۔ انہیں تمام ممکنہ احتیاط کرنی ہو گی ورنہ شیرنی لازماً فائدہ اٹھائے گی۔ اگر میری ہدایات پر عمل کیا جاتا تو اگلے مہینوں میں آدم خور اتنے شکار نہ کر پاتی۔

اگلے چند ہفتے تک آدم خور کی کوئی اطلاع نہ ملی۔ اس کے بعد میں ڈلکانیہ سے روانہ ہو گیا تاکہ ترائی میں ہونے والی سرکاری میٹنگ میں شریک ہو سکوں۔

مارچ ۱۹۳۰ میں ہمارے ضلع کے کمشنر ویوان آدم خور کے علاقے سے گذر رہے تھے۔ بائیس کو انہوں نے مجھے اطلاع دی کہ وہ کالا آگر میں میرے منتظر ہیں، فوراً پہنچوں۔ نینی تال سے کالا آگر تک پچاس میل کا سفر ہے۔ خط کے دو دن بعد میں کالا آگر کے فارسٹ بنگلے میں مسٹر اور مسز ویوان کے ساتھ ناشتہ کر رہا تھا جہاں یہ لوگ مقیم تھے۔

ناشتے کے بعد ویوان نے بتایا کہ اکیس تاریخ کو ان کی آمد کے بعد، جب وہ لوگ برآمدے میں چائے پی رہے تھے، آدم خور نے بنگلے کے صحن میں گھاس کاٹتی ایک عورت کو ہلاک کر دیا اور اٹھا کر لے گئی۔ انہوں نے فوراً رائفلیں اٹھائیں اور اپنے چند ملازمین کے ہمراہ پیچھے روانہ ہوئے۔ عورت کی لاش انہیں ایک بڑے درخت کے نیچے جھاڑی میں ملی۔ بعد ازاں میں نے اس جگہ کا معائنہ کیا تو پتہ چلا کہ شیرنی ویوان وغیرہ کی آمد پر لاش کو چھوڑ کر نیچے اتری اور لاش کی جگہ سے پچاس گز دور رس بھری کی ایک جھاڑی میں چھپ گئی۔ اس بڑے درخت پر ویوان کے لئے اور دو دیگر درختوں پر دوسرے افراد کے لئے مچانیں باندھی گئیں۔ جونہی مچانیں تیار ہوئیں، یہ لوگ ان پر بیٹھ گئے۔ تاہم پوری رات شیرنی واپس نہ آئی۔

اگلی صبح لاش کو مذہبی رسومات کے لئے لے جایا گیا۔ انہوں نے اس جگہ ایک نو عمر بھینسا باندھ دیا جسے شیرنی نے اسی رات مار دیا۔ یہ جگہ بنگلے سے نصف میل دور تھی۔ اگلی شام کو دونوں میاں بیوی مچان بندھوا کر بیٹھے۔ چاند نہ نکلا تھا اور دن کی روشنی مدھم ہو چکی تھی کہ انہوں نے کسی جانور کو آتے سنا۔ پھر وہ جانور دکھائی بھی دیا۔ ناکافی روشنی کی وجہ سے وہ اسے ریچھ سمجھے۔ بدقسمتی سے یہ شیرنی ہی تھی۔ اگر وہ لوگ غلطی نہ کرتے تو یقیناً آدم خور اپنے انجام کو پہنچ چکی ہوتی۔ دونوں میاں بیوی اچھے نشانچی ہیں۔

یہ لوگ پچیس تاریخ کو کالا آگر سے نکلے اور اسی دن میرے چار نو عمر بھینسے ڈلکانیہ سے آن پہنچے۔ چونکہ شیرنی اب چارے کے لئے تیار تھی، میں نے یہ چاروں فارسٹ روڈ سے چند سو گز دور بندھوا دیئے۔ تین راتیں مسلسل شیرنی ان بھینسوں سے چند فٹ کے فاصلے سے گذرتی رہی لیکن انہیں چھوا تک نہیں۔ چوتھی رات بنگلے کے نزدیک والا بھینسا مارا گیا۔ جائزہ لینے سے پتہ چلا کہ اسے تیندوؤں کے ایک جوڑے نے ہلاک کیا ہے جو گذشتہ رات بنگلے کے اوپر بول رہے تھے۔ میں اس علاقے میں گولی نہ چلانا چاہتا تھا کہ شیرنی فرار ہو جاتی۔ لیکن اگر انہیں نہ مارا جاتا تو وہ میرے سارے بھینسے مار ڈالتے۔ میں نے ان کا پیچھا کیا اور بھینسے کی لاش سے ذرا دور دھوپ سینکتے ہوئے گھات لگا کر ہلاک کر دیا۔

کالا آگر بنگلے سے فارسٹ روڈ کئی میل تک گھنے جنگلات سے گذرتی ہے۔ کماؤں کے دیگر حصوں کے مقابلے یہاں سانبھر، کاکڑ، سور وغیرہ اور پرندے بھی بکثرت ہیں۔ دو بار میں نے ان جنگلات میں خون کے نشانات دیکھے اور اندازہ لگایا کہ شیرنی نے سانبھر مارا ہے لیکن تلاش نہ کر پایا۔

اگلے دو ہفتوں تک میں دن کا وقت اسی فارسٹ روڈ کے دونوں اطراف گشت میں گذارا۔ دو بار میں شیرنی کے نزدیک بھی پہنچا۔ پہلی بار جب میں کالا آگر کے سرے پر واقع ایک غیر آباد گاؤں گیا تھا۔ یہ گاؤں آدم خور کی سرگرمیوں کی وجہ سے خالی ہو چکا تھا۔ واپسی پر میں نے مویشیوں کی گذر گاہ پکڑی جو گھوم کر فارسٹ روڈ کی طرف جاتی ہے۔ یہاں پتھروں کے ڈھیر کے پاس پہنچ کر میں ٹھٹھک کر رک گیا۔ مجھے خطرہ محسوس ہوا۔ اس جگہ فارسٹ روڈ تقریباً تین سو گز دور ہو گی۔ یہاں کنارے سے راستہ ہٹ کر چند گز سخت ڈھلوان اختیار کرتا ہوا دائیں مڑتا ہے اور پہاڑی پر سو گز تک جاتا ہے۔ اس راستے پر دائیں جانب درمیان میں پتھروں کا یہ ڈھیر تھا۔ ان پتھروں کے ڈھیر کے بعد راستہ ایک تنگ سا موڑ کاٹ کر ان پتھروں کے بائیں آ جاتا ہے۔ آگے چل کر ایک اور تنگ موڑ اور پھر یہ فارسٹ روڈ سے جا ملتا ہے۔

اس راستے سے میں پہلے بھی کئی بار آ چکا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ مجھے پتھروں کے ڈھیر سے گذرتے ہوئے جھجھک محسوس ہوئی۔ ان سے بچنے کا ایک راستہ یہ تھا کہ میں کئی سو گز گھنے جنگل سے گذرتا یا پتھروں کے اوپر سے لمبا چکر کاٹ کر گذرتا۔ میرے پاس لمبے چکر کا وقت نہ تھا کہ سورج ڈوبنے والا ہی تھا اور مجھے دو میل مزید چلنا تھا۔ اگر میں پہلا راستہ اختیار کرتا تو مجھے شدید خطرے سے دو چار ہونا پڑتا۔ چاہے مجھے کتنا ہی برا لگے، مجھے انہی پتھروں سے قریب سے ہو کر ہی جانا تھا۔ چونکہ ہوا پہاڑی کے نیچے سے اوپر کی طرف چل رہی تھی، میں بائیں جانب موجود گھنی گھاس کا قطعہ نظر انداز کر کے ساری توجہ دائیں طرف پتھروں پر ہی مرکوز رکھ سکتا تھا۔ سو فٹ کے بعد میں خطرے سے باہر ہوتا۔ یہ فاصلہ میں نے قدم بقدم طے کیا۔ میرا چہرہ ان پتھروں کی طرف اور رائفل شانے سے لگی ہوئی تھی۔ اگر کوئی مجھے دیکھتا تو ہنسی نہ روک پاتا۔

ان پتھروں سے تیس گز دور ایک کھلا قطعہ تھا جو راستے کے دائیں جانب سے شروع ہو کر پہاڑی پر پچاس یا ساٹھ گز تک چلا جاتا تھا اور اس کے اور ان پتھروں کے ڈھیر کے درمیان ایک گھنی جھاڑی حائل تھی۔ اس قطعے میں ایک کاکڑ چر رہا تھا۔ میں نے اسے پہلے دیکھا۔ اسے براہ راست دیکھنے کی بجائے میں نے آنکھوں کے گوشے سے دیکھا۔ مجھے دیکھتے ہی اس نے سر اٹھایا لیکن اپنی طرف متوجہ نہ پا کر اس نے ساکت ہی کھڑے رہنے کو ترجیح دی۔ عموماً جب ان جانوروں کو احساس ہو کہ ان پر توجہ نہیں دی جا رہی تو وہ بھاگتے نہیں۔ پہلے موڑ پر پہنچ کر میں نے کنکھیوں سے دیکھا تو کاکڑ دوبارہ گھاس چرنے لگ گیا تھا۔

ابھی اس موڑ سے میں تھوڑا سا ہی آگے بڑھا ہوں گا کہ کاکڑ دیوانہ وار بھونکتا ہوا سیدھا پہاڑی کے اوپر کی طرف بھاگا۔ چند ہی قدموں میں واپس موڑ پر تا۔ اسی وقت میں نے راستے کی نچلی طرف والی جھاڑیاں ہلتی دیکھیں۔ لازماً کاکڑ نے اسے دیکھا تھا اور جس جگہ جھاڑیاں ہل رہی تھیں، واحد جگہ تھی جہاں سے کاکڑ شیرنی کو دیکھ سکتا تھا۔ جھاڑی میں حرکت کا سبب پرندہ بھی ہو سکتا تھا اور شیرنی بھی۔ تاہم آگے جانے سے قبل ذرا سی تفتیش لازمی ہو گئی تھی۔

راستے پر پتھروں سے نکلنے والے چھوٹے سے چشمے کے سبب لال مٹی کیچڑ کی شکل میں تھی۔ اس جگہ قدموں کے نشانات بالکل واضح تھے۔ اس سے گذرتے ہوئے میں نے بھی اپنے نشانات چھوڑے تھے۔ یہاں اب پتھروں سے شیرنی کے کودنے اور اس وقت تک میرے پیچھے آنے کے نشانات تھے جب تک کہ کاکڑ نے بول کر اسے خبردار نہ کر دیا۔ یقیناً شیرنی اس پورے علاقے سے بخوبی واقف تھی۔ پتھروں پر مجھے شکار نہ کر سکنے کے بعد اب وہ اگلے موڑ پر گھات لگانے جا رہی تھی کہ کاکڑ نے اس کا کھیل بگاڑ دیا۔ شاید اب وہ گھاس میں چھپ کر اگلے موڑ پر مجھے جا لینے کی کوشش کرے۔

اب راستے پر مزید چلنا بے وقوفی تھی۔ میں نے کاکڑ کے فرار کے راستے کو ترجیح دی۔ بائیں مڑ کر نیچے اترا اور کھلے میدان سے ہو کر میں فارسٹ روڈ تک جا پہنچا۔ اگر اس وقت دن کی روشنی باقی ہوتی تو مجھے یقین تھا کہ شیرنی نہ بچ پاتی۔ پتھروں سے نکلنے کے بعد سے سارے حالات میری موافقت میں تھے۔ اس علاقے سے ہم دونوں ہی بخوبی واقف تھے۔ شیرنی کو میرے ارادے کا علم نہ تھا جبکہ میں اس کے ارادے سے بخوبی واقف تھا۔ تاہم یہ سب باتیں بیکار تھیں کیونکہ تاریکی چھانے میں اب کم ہی وقت رہ گیا تھا۔

میں نے پہلے بھی بتایا کہ خطرے کے وقت میری چھٹی حس بیدار ہو کر اپنا کام کرتی ہے۔ مزید اس بارے کچھ کہنا کہ یہ کیا ہے اور کیسے کام کرتی ہے وغیرہ وغیرہ، موضوع سے بالکل ہٹ کر ہے۔ اس موقع پر میں نے نہ تو شیرنی کو دیکھا اور نہ ہی اس کی آواز سنی، نہ ہی پرندوں یا چرندوں نے کوئی اطلاع دی لیکن پھر بھی مجھے صاف اور بالکل واضح طور پر معلوم ہو گیا کہ وہ پتھروں کے پیچھے موجود ہے۔ اس دن میں بہت دیر سے جنگل میں تھا، کئی میل کا سفر بھی طے کیا اور بالکل کوئی خطرہ نہ محسوس کیا۔ جونہی پتھروں کے نزدیک پہنچا مجھے اچانک ہی علم ہو گیا کہ یہاں میرے لئے خطرہ ہے۔ چند منٹ بعد کاکڑ نے مجھے اور آس پاس کے جنگل کو شیرنی کی موجودگی سے خبردار کر دیا۔ مڑ کر تحقیق کرنے سے پتا چلا کہ شیرنی کے پگ میرے اپنے قدموں کے نشانات کے اوپر موجود تھے۔

 

 

 

(۳)

 

میں اپنے تمام قارئین کا شکر گذار ہوں کہ وہ اب تک میری یہ داستان توجہ سے پڑھ رہے ہیں۔ اب میں تفصیل سے انہیں شیرنی سے اپنی پہلی اور آخری ملاقات کے بارے بتاتا ہوں۔

یہ ملاقات ۱۱ اپریل ۱۹۳۰ کو میرے کالا آگر آنے کے انیسویں دن دوپہر کو ہوئی۔

اس دن میں دو بجے جنگل میں نکلا ہوا تھا تاکہ تین بھینسے پہلے سے منتخب شدہ جگہوں پر باندھوں۔ بنگلے سے میل بھر دور جہاں سڑک ایک کنارے سے ہو کر گذرتی ہے اور کالا آگر میں شمال سے مغرب کا رخ کرتی ہے، میں نے بہت سے آدمی دیکھے جو لکڑیاں اکٹھی کر رہے تھے۔ اس جماعت میں ایک بوڑھا آدمی تھا۔ اس نے یہاں سے پانچ سو گز دور درختوں کے ایک جھنڈ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ پچھلے ماہ آدم خور نے اس کے اٹھارہ سالہ نوجوان اور اکلوتے بیٹے کو مارا تھا۔ مجھے یہ کہانی متوفی کے باپ کی زبانی سننے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔ جب ہم سڑک کے کنارے سیگرٹ پینے بیٹھے تو اس نے مجھے تفصیل بتائی اور اشاروں سے وہ جگہ دکھائی جہاں اس کا بیٹا مارا گیا تھا اور اگلے دن باقیات ملی تھیں۔ اس نے ان پچیس لوگوں کو لعنت ملامت کی جو اس دن اس کے ساتھ تھے لیکن اس کے بیٹے کو شیرنی کے رحم و کرم پر چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔ اس کا لہجہ تلخ تھا۔ ارد گرد موجود لوگوں میں سے چند لوگ اس دن اس کے ساتھ تھے۔ انہوں نے ان الفاظ کو سنتے ہی بوڑھے پر الزام دھرا کہ بوڑھے نے ہی غل مچایا تھا کہ شیر کی آواز آ رہی ہے، سب اپنی اپنی جانوں کو بچانے کے لئے بھاگیں۔ بوڑھا اس وضاحت سے مطمئن نہ ہوا۔ اس نے سر ہلا کر کہا کہ تم سب تجربہ کار تھے اور وہ محض لڑکا۔ تم نے اسے اکیلا چھوڑ دیا۔ مجھے افسوس ہوا کہ میرے سوالات کی وجہ سے یہ تلخی پیدا ہوئی۔ بوڑھے کی تسلی کے لئے میں نے اسے بتایا کہ ایک بھینسا میں اس جگہ بھی باندھوں گا جہاں اس کا بیٹا مارا گیا تھا۔ اپنے دو ہمراہیوں کو دو بھینسے دے کر میں نے بنگلے واپس بھیجا اور خود تیسرے بھینسے اور دو آدمیوں کے ہمراہ اس جگہ چل دیا جہاں اس شخص کا بیٹا مارا گیا تھا۔

جہاں ہم بیٹھے تھے، اس سے نزدیک والی پگ ڈنڈی لے کر ہم چل پڑے۔ یہ پگ ڈنڈی زگ زیگ ہوتی ہوئی نیچے وادی میں اترتی ہے اور دو میل آگے جا کر فارسٹ روڈ سے جا ملتی ہے۔ یہ راستے ایک کھلے قطعے سے گذرتا ہے جو ان درختوں کے جھنڈ کے کنارے واقع ہے۔ یہاں وہ لڑکا مارا گیا تھا۔ اس کھلے قطعے میں جو کہ تیس مربع گز کا تھا، چلغوزے کا ایک نوعمر درخت تھا۔ اسے میں نے کاٹ کر کٹے ہوئے تنے سے بھینسے کو باندھ دیا۔ ایک آدمی سے کہا کہ وہ اس کے لئے گھاس جمع کرے۔ دوسرا آدمی مادھو سنگھ تھا جو گڑھوالی رجمنٹ میں کام کر چکا تھا اور اب متحدہ صوبہ جات کی پولیس میں ملازم تھا، کو کہا کہ وہ درخت پر چڑھ کر کلہاڑی تنے پر مارے اور آواز پیدا کرتا رہے۔ یہ آواز مقامی افراد عموماً اکثر پیدا کرتے رہتے ہیں۔ اس کے بعد میں چار فٹ اونچے پتھر پر بیٹھ گیا۔ اس کا نچلا سرا زمین سے ملا ہوا تھا۔ اس پتھر کے پیچھے کی پہاڑی بہت ڈھلوان تھی اور گھنے جنگل سے بھری وادی تک جا رہی تھی۔

پہلا آدمی گھاس کاٹ کاٹ کر بھینسے کے سامنے ڈال رہا تھا اور مادھو سنگھ مسلسل شور کر رہا تھا۔ میں پتھر پر بیٹھا سیگرٹ پی رہا تھا اور رائفل میرے بائیں بازو میں دبی ہوئی تھی۔ اچانک مجھے علم ہو گیا کہ شیرنی آ گئی ہے۔ زمین پر موجود پہلے آدمی کو اشارہ کیا کہ وہ میری طرف بھاگ کر آئے اور سیٹی بجا کر مادھو سنگھ کو بھی خاموش کرا دیا۔ تین اطراف سے زمین نسبتاً خالی تھی۔ مادھو سنگھ میرے سامنے بائیں جانب درخت پر تھا۔ گھاس کاٹنے والا بندہ اب میرے سامنے تھے۔ بھینسا ہمارے سامنے دائیں طرف تھا اور بے چین دکھائی دے رہا تھا۔ اس علاقے میں شیرنی مجھے دکھائی دیئے بغیر نزدیک نہ آ سکتی تھی۔ ایک ہی امکان تھا کہ شیرنی میرے عقب اور نیچے سے آئی تھی جہاں میں اسے نہ دیکھ سکتا تھا۔

اس پتھر کو چنتے وقت میں نے دیکھا تھا کہ اس کے عقبی طرف ڈھلوان بہت عمودی تھی اور اس کی جڑ چلغوزے کے درخت اور جھاڑیوں وغیرہ سے بھری ہوئی تھی۔ یہاں سے زمین آٹھ یا دس فٹ نیچے تھے۔ شیرنی کا اوپر چڑھنا مشکل سہی لیکن ناممکن نہ تھا۔ میری حفاظت کا سارا دار و مدار شیرنی کی اس گھاس پھونس میں حرکت کی آواز سننے پر تھا۔

مجھے یقین ہے کہ آدم خور مادھو سنگھ کے شور کی وجہ سے متوجہ ہوئی تھی۔ اس کی گھاس میں شیرنی اس پتھر تک پہنچی اور مجھے دیکھ کر اپنے اگلے قدم کے بارے میں سوچ ہی رہی تھی کہ مجھے اس کی موجودگی کی خبر ہو گئی۔ میرے رخ بدلنے اور میرے آدمیوں کی طرف سے اچانک خاموش ہو جانے سے شیرنی کو شک ہو ا ہو گا۔ خیر چند منٹ بعد وادی کے نچلے سرے سے خشک ٹہنی ٹوٹنے کی آواز آئی اور بے چینی کی کیفیت اچانک ہی دور ہو گئی اور میں پر سکون ہو گیا۔ ایک موقع ضائع ہو گیا لیکن مجھے یقین تھا کہ وہ جلد یا بدیر واپس لوٹے گی اور بھینسے پر ہاتھ صاف کرے گی۔ ابھی چار یا پانچ گھنٹے جتنی روشنی باقی تھی اور وادی سے ہو کر مخالف سمت میں پہاڑی پر چڑھنے سے مجھے بھینسا اور وادی کا بقیہ حصہ صاف دکھائی دے رہا تھا۔ اس جگہ سے اگر میں گولی چلاتا تو کم از کم دو یا تین سو گز دور ہوتا۔ لیکن میرے پاس موجود اعشاریہ ۲۷۵ کی رائفل بہت عمدہ نشانے کی حامل تھی۔ اگر میں شیرنی کو زخمی بھی کر دیتا تو اس کا پیچھا کرنا نسبتاً آسان ہو جاتا بجائے اس کے کہ میں اسے کئی سو مربع میل کے جنگل میں تلاش کرتا جو میں گذشتہ کئی ماہ سے کر رہا تھا۔

میرے ساتھی میری مشکل تھے۔ انہیں اکیلا بنگلے بھیجنا قتل کے مترادف ہوتا۔ اس لئے انہیں ساتھ ہی رکھنا پڑا۔

بھینسے کو تنے سے مضبوطی سے باندھ کرتا کہ شیرنی اسے نہ لے جا سکے، ہم اس کھلے قطعے سے نکل کر دوبارہ راستے پر چڑھے تاکہ سامنے والی پہاڑی سے گولی چلانے کے منصوبے پر عمل پیرا ہوں۔

راستے سے سو گز دور میرے سامنے ایک کھائی آئی۔ اس کی دوسری طرف راستہ بہت گھنی جھاڑیوں سے ہو کر گذرتا تھا جہاں دو دیگر آدمیوں کے ہمراہ گذرنا نادانی ہوتی۔ میں نے سوچا کہ کھائی سے ہو کر نیچے اترتا ہوں اور پھر آگے چل کر اوپر کی طرف نکلیں گے اور جہاں یہ جھاڑیاں ختم ہو رہی ہیں، پر راستے پر دوبارہ آ جائیں گے۔

کھائی دس گز چوڑی اور چار یا پانچ فٹ گہری ہو گی۔ جونہی میں اس میں اترا، ایک الو اس جگہ سے اڑا جہاں میں نے چٹان پر ہاتھ رکھا تھا۔ اس جگہ غور کرتے ہی مجھے دو انڈے دکھائی دیئے۔ یہ انڈے زردی مائل تھے اور ان پر بھورے رنگ کے دھبے موجود تھے۔ ان کی شکل بہت عجیب تھی۔ ایک بہت لمبا اور نوکدار جبکہ دوسرا کسی سنگ مر مر کی گیند کی طرح گول۔ میرے مجموعے میں الو کے انڈے نہیں تھے اس لئے میں نے سوچا کہ ان انڈوں کو ساتھ لیتا چلوں۔ میرے پاس کوئی ایسی چیز نہیں تھی کہ جس میں احتیاط سے انڈے لے جاتا۔ میں نے ہتھیلی کو گہرا کیا اور اس میں انڈے رکھ کر ارد گرد موس رکھ دی۔

جونہی میں نیچے اترا، کھائی کے کنارے اونچے ہو گئے اور جہاں ہم نیچے اترے تھے، ساٹھ گز دور اچانک ہی راستہ بارہ یا چودہ فٹ نیچے کی طرف عمودی ڈھلان کی شکل میں تھا۔ ان پہاڑی کھائیوں میں بہنے والے تیز رفتار پانی نے اس پتھر کو کاٹ کر شیشے کی طرح ہموار اور چکنا بنا دیا تھا۔ چونکہ اس پر قدم جمانا مشکل تھا، میں نے رائفل اپنے ساتھیوں کو دے کر خود بیٹھا اور پھسل کر نیچے اترا۔ ابھی بمشکل میرے پیر زمین سے لگے ہوں گے کہ میرے ساتھی میرے دائیں بائیں غڑاپ سے اترے اور رائفل مجھے دیتے ہوئے چیخے کہ کیا میں نے شیرنی کی آواز سنی؟ حقیت میں میں نے پھسلتے ہوئے اپنے کپڑوں کی سر سراہٹ کے سوا اور کچھ نہ سنا تھا۔ سوال کیا تو پتہ چلا کہ انہوں نے زور دار دھاڑ کی آواز سنی تھی۔ یہ آواز بہت نزدیک سے آئی تھی لیکن وہ سمت کا اندازہ کرنے سے قاصر رہے۔ شیر جب شکار کی نیت سے گھات لگا رہے ہوں تو وہ آواز نکال کر اپنی موجودگی کا راز نہیں فاش کرتے۔ اس کا بہت ہی غیر مطمئن کردہ جواب یہ تھا کہ شیرنی نے ہم تینوں میں سے شکار کے لئے مجھے چنا اور جونہی میں پھسل کر اس کی نظروں سے اوجھل ہوا، اس نے آواز نکالی۔ ظاہر ہے کہ یہ جواب کوئی معقول نہیں تھا کیونکہ بغیر کسی وجہ سے یہ فرض کرنا کہ شیرنی نے میرے ساتھیوں کو چھوڑ کر مجھے ہی منتخب کیا تھا، کیا اسے بقیہ دو انسانوں سے کوئی دل چسپی نہیں تھی؟

جہاں ہم تینوں رکے ہوئے تھے، ہمارے عقب میں وہی ڈھلوان تھی جہاں سے ہم نیچے اترے تھے، دائیں جانب چٹانی دیوار جو کہ پندرہ فٹ بلند اور کھائی پر ہلکی سی جھکی ہوئی تھی اور ہمارے بائیں جانب چٹانی کنارہ تھا جو تیس یا چالیس فٹ بلند تھا۔ کھائی کا ریتلا پیندہ تھا جہاں ہم کھڑے تھے، کوئی چالیس فٹ لمبا اور دس فٹ چوڑا تھا۔ اس کے نچلے سرے پر چلغوزے کا ایک بڑا درخت گرا ہوا تھا اور اس نے بند سا قائم کیا ہوا تھا۔ اس جگہ ریت کی موجودگی اسی بند کی وجہ سے تھی۔ جھکی ہوئی چٹان درخت سے کوئی بارہ یا پندرہ فٹ قبل ہی ختم ہو جاتی تھی۔ میں اس تک بے آواز پہنچا۔ یہاں خوش قسمتی سے میں نے محسوس کیا کہ ریت اس چٹان کے دوسری طرف بھی موجود ہے۔

یہ پتھریلی چٹان یوں سمجھیں کہ سکول والی ایک بہت بڑی سلیٹ کی مانند تھی۔ اس کا نچلا سرا دو فٹ موٹا اور یہ سیدھی کھڑی تھی۔

جونہی میں اس سے آگے بڑھا، میں نے اپنے دائیں کندھے سے سر کو موڑ کر دیکھا تو میری آنکھیں براہ راست شیرنی کی آنکھوں سے جا ٹکرائیں۔

اب میں آپ کو اس ساری صورتحال کی واضح تصویر پیش کرتا ہوں۔

ریتلا پیندا چٹان کی دوسری طرف تقریباً ہموار تھا۔ اس کے دائیں جناب پندرہ فٹ بلند اور جھکی ہوئی چٹان تھی۔ اس کے بائیں جانب پندرہ فٹ بلند کنارہ تھا جو کانٹے دار جھاڑیوں سے بھرا ہوا تھا۔ اس کی پرلی طرف اسی طرح کی ڈھلوان تھی جیسی کہ ہم نے کچھ دیر پہلے دیکھی تھی تاہم یہ کچھ زیادہ بلند تھی۔ ریتلا پیندہ تین اطراف سے ان قدرتی دیواروں سے گھرا ہوا تھا اور بیس فٹ لمبا اور دس فٹ چوڑا تھا۔ اس پر شیرنی اگلے پنجے پھیلائے اور پچھلے پنجوں پر بیٹھی ہوئی تھی۔ اس کا فاصلہ مجھ سے آٹھ فٹ (بعد میں ماپا گیا) تھا۔ اس کے چہرے پر کچھ ایسی مسکراہٹ تھی جیسے کوئی کتا اپنے مالک کو بہت دن بعد گھر آتا دیکھے تو اس کے چہرے پر ہوتی ہے۔

میرے ذہن میں فوراً ہی دو سوچیں آئیں۔ پہلی تو یہ کہ مجھے کچھ کرنا ہو گا، دوسری یہ کہ جو کچھ کروں، ایسے انداز سے ہو کہ شیرنی کو خطرہ نہ محسوس ہو۔

رائفل میرے دائیں ہاتھ میں اور دوسری طرف تھی۔ سیفٹی کیچ بند تھا اور شیرنی تک اس کو گھمانے کے لئے تین چوتھائی دائرہ طے کرنا ہوتا۔

بہت آہستگی سے ایک ہاتھ سے رائفل کی نالی کو حرکت دینا شروع کیا لیکن اس کی رفتار نہ ہونے کے برابر تھی۔ جب چوتھائی دائرہ طے ہوا، کندہ میرے پہلو سے لگا۔ اب مجھے اپنے بازو کو آگے بڑھا کر دائرہ پورا کرنا تھا۔ میں نے ہاتھ لمبا کر کے حرکت جاری رکھی۔ میرا بازو پوری طرح پھیلا ہوا تھا اور رائفل کا بوجھ بھاری پڑنا شروع ہو گیا تھا۔ تھوڑا سا اور حرکت کرنی تھی۔ اس دوران شیرنی کی نگاہیں میری نگاہوں سے نہیں ہٹی اور اس کے چہرے پر وہی مسکراہٹ تھی۔

رائفل کو تین چوتھائی دائرہ طے کرنے میں کتنا وقت لگا، کہنا مشکل ہے۔ میرے لئے تو بس شیرنی کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے رائفل کو حرکت دینا اور رائفل کی حرکت کو نہ دیکھ سکنا، ہاتھ کا شل ہوتا ہوا محسوس کرنا، جیسے کہ یہ دائرہ کبھی پورا نہیں ہو گا۔ تاہم بالآخر دائرہ مکمل ہوا اور جونہی رائفل شیرنی کے جسم کی طرف سیدھی ہوئی، میں نے لبلبی دبا دی۔

جونہی رائفل چلی، اس کا دھکہ، اس تنگ جگہ میں اس کی گونجتی ہوئی دھمک سے مجھے رائفل کے چلنے کا احساس تو ہوا لیکن لبلبی دبانے سے رائفل چلنے تک ایسا لگا جیسے کوئی ڈراؤنا خواب دیکھ رہا ہوں۔ ایسا خواب کہ شدید خطرے کی حالت میں رائفل کی لبلبی تو بار بار دبائی جاتی ہے لیکن رائفل نہیں چلتی۔

کچھ دیر تک شیرنی اپنی جگہ پر بے حس و حرکت رہی پھر بہت آہستگی سے اس کا سر اس کے پھیلے ہوئے اگلے پنجوں کی طرف جھکنے لگا۔ اسی وقت گولی کے سوراخ سے خون کی دھار بہہ نکلی۔ گولی اس کی ریڑھ کی ہڈی کو توڑتی ہوئی اس کے دل کے اوپری حصے کے چیتھڑے اڑا گئی۔

میرے دونوں ساتھی جو چند گز پیچھے تھے، شیرنی کو سلیٹ نما چٹان کی وجہ سے نہ دیکھ سکے، مجھے رکتے دیکھ کر وہ بھی رک گئے۔ انہیں پتہ لگ گیا کہ میں نے شیرنی کو دیکھ لیا ہے اور میرے انداز سے جان گئے کہ شیرنی بہت نزدیک ہے۔ مادھو سنگھ نے بعد ازاں مجھے بتایا کہ وہ مجھ چلا کر بتانے والا تھا کہ میں انڈے پھینک کر دونوں ہاتھوں سے رائفل کو پکڑ لوں۔ جونہی میں نے گولی چلائی اور پھر کچھ دیر کے بعد رائفل کو نیچے کر کے اپنے پنجے پر رکھا، مادھو سنگھ، جو کہ نزدیک تھا، نے بڑھ کر رائفل کو مجھ سے لے لیا۔ میری ٹانگیں اچانک ہی جواب دے گئیں۔ بڑی مشکل سے میں اس گرے ہوئے درخت تک پہنچا اور بیٹھ گیا۔ شیرنی کے پنجوں کو دیکھنے سے قبل ہی مجھے یقین ہو گیا تھا کہ آدم خور اب قصہ پارینہ بن چکی ہے۔ قسمت کی مدد سے اس نے سرکاری طور پر چونسٹھ اور ضلع کے لوگوں کے مطابق اس سے دگنی تعداد کے لوگوں کی زندگی کی ڈور کاٹی، اب اگرچہ سب کچھ اسی کے حق میں تھا، قسمت نے اس کی اپنی ڈور کاٹ دی۔

آپ کو شاید ایسا لگے کہ تین چیزیں میری کمزوری تھیں جبکہ وہ تینوں میری موافقت میں تھیں۔ ان میں ۱۔ بائیں ہاتھ میں انڈے ۲۔ میرے پاس ہلکی رائفل کا ہونا ۳۔ شیرنی کا آدم خور ہونا۔ اگر میرے ہاتھ میں انڈے نہ ہوتے تو شیرنی کو اتنا قریب دیکھتے ہی میں مڑتا اور رائفل کو اس کی طرف پھیرنے کی کوشش کرتا۔ اس طرح شیرنی فوراً جست لگا دیتی جو کہ میری آہستہ آہستہ رائفل کا رخ بدلنے کی وجہ سے نہیں لگائی گئی۔ اسی طرح اگر رائفل ہلکی نہ ہوتی تو میرے لئے ایک ہاتھ سے اس کا رخ بدلنا اور پھر ایک ہاتھ کو پوری طرح پھیلائے ہوئے اسے چلانا ناممکن ہوتا۔ آخری بات، اگر شیرنی آدم خور نہ ہوتی تو جونہی اس نے خود کو گھرا ہوا دیکھا تھا، فوراً ہی جست لگا کر مجھے اپنی راہ سے ہٹاتی جاتی۔ شیروں کے اس طرح کسی کو ہٹانے کا مطلب عموماً یقینی موت ہوتا ہے۔

جب تک میرے ساتھی لمبا چکر کاٹ کر بھینسے کو کھولنے اور رسی لانے گئے، جو ایک اور خوش گوار مقصد کے لئے تھا، میں چٹانوں پر چڑھا اور کھائی میں جا کر انڈوں کو ان کے جائز مالک کے پاس واپس کر آیا۔ بے شک آپ یا دیگر شکاری مجھے توہم پرست کہیں تو کہتے رہیں۔ تین مختلف مواقع پر، بہت لمبے عرصے تک، سال بھر تک شیرنی کا پیچھا کرتے رہنے کے باوجود، ہر ممکنہ کاوش کے باوجود، میں شیرنی پر ایک گولی بھی نہ چلا سکا۔ ان انڈوں کو چند منٹ تک اپنے ہاتھ میں لیتے ہی قسمت بدل گئی۔

یہ انڈے جو اب تک میرے بائیں ہاتھ میں بالکل محفوظ اور ابھی تک گرم تھے، میں نے انہیں واپس ان کے گھونسلے میں رکھ دیا۔ نصف گھنٹے بعد جب ہم ادھر سے گذرے تو ان کی ماں ان پر بیٹھ چکی تھی اور اس کا رنگ آس پاس سے اتنا مل گیا تھا اصل جگہ کو جانتے ہوئے بھی میں اسے نہ دیکھ پایا۔

مہینوں کی دیکھ بھال اور نگہداشت کے بعد بھینسا اب ہم سے اتنا مانوس ہو چکا تھا کہ کتے کی طرح ہمارے پیچھے چلتا ہوا آیا اور شیرنی کی لاش کو سونگھ کر اس کے پاس لیٹ کر جگالی کرنے لگا۔ ہم نے درخت کاٹ کر شیرنی کو اس پر لادا۔

میں نے کوشش کی کہ مادھو سنگھ بنگلے میں جا کر کچھ اور افراد لائے لیکن اس نے ایک نہ سنی۔ آدم خورنی کو لے جانے کے فخر میں اس نے کسی اور شریک کرنا مناسب نہ سمجھا۔ مجھے بھی ان کی مدد کرنی پڑی کیونکہ دو بندوں کے لئے لاش بہت بھاری تھی۔ مادھو سنگھ کے خیال میں جگہ جگہ رکتے ہوئے ہم چلتے جائیں تو اتنا زیادہ مشکل نہ ثابت ہو۔ ہم تینوں بہت مضبوط جثے کے افراد تھے۔ دو بچپن سے کڑی محنت کے عادی اور تیسرے کو زندگی نے بہت سخت بنا دیا تھا۔ تاہم پھر بھی یہ کام کسی معجزے سے کم نہ تھا۔

جس راستے سے ہم آئے تھے، بہت تنگ اور بل کھاتا ہوا تھا کہ اس پر شیرنی والا درخت نہ گذر سکتا تھا۔ جگہ جگہ رک کر سانس بحال کرنے اور کپڑے کو اس طرح کندھوں پر رکھتے ہوئے کہ درخت ہمارے گوشت میں نہ کھب جائے، ہم سیدھے پہاڑی پر رس بھری اور دیگر جھاڑیوں سے ہوتے ہوئے چڑھے۔ ان جھاڑیوں میں ہمارے چہرے اور جسموں کی کھال کا کچھ حصہ اٹکا رہ گیا۔ بعد ازاں کئی دن تک نہاتے ہوئے کافی تکلیف رہی۔

سورج ابھی تک آس پاس کی پہاڑیوں پر چمک رہا تھا کہ تھکے ہوئے مگر انتہائی خوش ہم تین افراد کالا آگر کے بنگلے میں پہنچے۔ اس شام سے اب تک اس علاقے میں سینکڑوں مربع میل تک کے علاقے میں کوئی انسان نہیں مارا گیا یا زخمی ہوا جو چوگڑھ کی آدم خور شیرنی نے پانچ سال سے جاری رکھا ہوا تھا۔

مشرقی کماؤں کے اس نقشے پر میں نے ایک اور کانٹا لگا دیا ہے۔ یہ نقشہ میرے سامنے دیوار پر لٹک رہا ہے۔ اس پر وہی تاریخ درج ہے جس تاریخ میں آدم خور ماری گئی۔ یہ کانٹا کالا آگر سے دو میل دور لگا ہے اور اس پر ۱۱ اپریل ۱۹۳۰ کی تاریخ درج ہے۔

شیرنی کے پنجے ٹوٹے اور گھسے ہوئے تھے۔ اس کا ایک بڑا دانت ٹوٹ چکا تھا اور سامنے والے دانت بھی جبڑے کی ہڈی تک گھسے ہوئے تھے۔ انہی معذوریوں کی وجہ سے ہی وہ اپنا فطری شکار نہ جاری رکھ سکی اور اسے آدم خور بننا پڑا تھا۔ وہ خود سے شکار کو فوراً ہلاک کرنے کے قابل نہیں رہی تھی۔ خصوصاً جب سے میں نے پہلے چکر پر غلطی سے اس کے نوجوان بچی کو مار دیا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

پوال گڑھ کا کنوارہ شیر

 

(ا)

 

ہمارے سرمائی گھر سے تین میل دور اور جنگل کے عین وسط میں کھلی زمین کا ایک قطعہ ہے جو چار سو گز لمبا اور دو سو گز چوڑا ہے۔ اس پر زمرد جیسی سبز رنگت والی گھاس اگی ہوئی ہے اور بڑے بڑے درخت اس کے آس پاس موجود ہیں جن پر مختلف بیلیں چڑھی ہوئی ہیں۔ اس قطعے سے زیادہ خوبصورت کوئی اور نہیں اسی قطعے میں ہی پہلی بار میں نے اس شیر کو دیکھا جو صوبجات متحدہ میں پوال گڑھ کے کنوارے شیر کے نام سے مشہور تھا۔ ۱۹۲۰ سے ۱۹۳۰ کے دوران بڑے شکار کے شوقین افراد سب سے زیادہ اسی شیر کے پیچھے لگے رہے تھے۔

سردیوں کی اس صبح کو ابھی سورج نکلا ہی تھا جب میں اس اونچی جگہ پہنچا جہاں سے قطعے کا نظارہ ممکن تھا۔ اس کی دوسری جانب سرخ جنگلی مرغیوں کا ایک غول پتوں میں اپنی خوراک تلاش کر رہا تھا۔ یہ جگہ ایک شفاف ندی کے بالکل کنارے پر واقع تھی۔ اس جگہ سبز گھاس پر شبنم کے قطرے سورج کی روشنی میں چمک رہے تھے۔ اسی گھاس پر ۵۰ یا اس سے بھی زیادہ چیتل چر رہے تھے۔ درخت کے تنے پر بیٹھا میں سیگرٹ پیتے ہوئے میں اس منظر سے لطف اندوز ہو رہا تھا کہ کچھ دیر بعد سب سے پیچھے والی مادہ نے مڑ کر میری طرف دیکھا اور بولی۔ اگلے ہی لمحے یہ شیر جسے بیچلر کہا جاتا تھا، میرے درخت کے نیچے موجود گھنی جھاڑیوں سے نکل کر اس قطعے میں داخل ہوا۔ کافی دیر تک وہ اسی جگہ رکا ہوا اس منظر سے لطف اندوز ہوتا رہا اور پھر آہستہ خرامی سے چلتا ہوا قطعے کو عبور کرنے لگا۔ اس کی خوبصورت کھال سردیوں کی ہلکی دھوپ میں انتہائی خوبصورت لگ رہی تھی۔ چلتے ہوئے وہ بار بار دائیں بائیں جائزہ لیتا اس راہ پر چلتا گیا جہاں سے چیتل ہٹتے جا رہے تھے۔ ندی پر لیٹ کر اس نے اپنی پیاس بجھائی اور چھلانگ لگا کر ندی کو عبور کرتے ہوئے اس کے بعد والے جنگل میں گم ہو گیا۔ جنگل میں داخل ہوتے وقت اس نے تین بار گرج کرجنگل کی تمام مخلوق کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے اسے گرمجوشی سے خوش آمدید کہا تھا۔ ہر بار جونہی وہ بولا، تمام جنگلی مرغیاں اور درختوں پر موجود بندر بولے۔

اس روز بیچلر اپنے گھر سے بہت دور تھا۔ ایسے علاقے میں جہاں کے زیادہ تر شیروں کو ہاتھی کی پشت پر بیٹھ کر شکار کیا گیا تھا، اس نے اپنے گھر کا چناؤ بہت احتیاط سے کیا تھا۔ پہاڑی دامن میں موجودنصف میل طویل کھائی جس کے دونوں اطراف ڈھلوان کھائیاں کم از کم ہزار فٹ بلند تھیں، کے ایک سرے پر بیس فٹ بلند آبشار موجود تھی اور دوسرے سرے پر راستہ محض چار فٹ طویل رہ گیا تھا۔ ہر وہ شکاری جو اس شیر کو شکار کرنا چاہتا، اسے پیدل چل کر ہی یہاں آنا تھا۔ اس محفوظ جگہ رہنے اور رات کے شکار پر حکومتی پابندی کی وجہ سے اس شیر نے اپنے کھال کو بہت طویل عرصے تک بچائے رکھا۔

اگرچہ بیچلر کو مارنے کے لئے بہت بار بودے باندھے گئے لیکن کبھی بھی اس پر گولی چلانے کا موقع نہیں مل سکا۔ میرے علم میں دو بار ایسا ہوا تھا کہ بیچلر بال برابر فاصلے سے اپنی موت سے بچا۔ پہلی بار ہانکے کے بعد جب شیر نکلا تو فریڈ اینڈرسن کی رائفل کے سامنے عین اس وقت مچان والی رسی آ گئی جب وہ گولی چلانے والے تھے اور دوسری بار بیچلر ہانکا شروع ہونے سے قبل ہی مچان کے قریب سے گذرا جب ہیوش ایڈی اپنا پائپ بھر رہے تھے۔ دونوں بار ہی ان شکاریوں نے اسے چند فٹ کے فاصلے سے دیکھا اور اینڈرسن کے مطابق یہ شیر شیٹ لینڈ پونی کے برابر اور ایڈی کے خیال میں گدھے جتنا بڑا تھا۔

ان ناکام کوششوں کے بعد سردیوں میں میں ونڈھم کو اپنے ساتھ جنگل میں بیچلر کی رہائش گاہ کے سرے پر لے گیا۔ ہندوستان میں شیروں کے متعلق ونڈھم سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔ اس جگہ میں نے علی الصبح بیچلر کے پگ دیکھے تھے۔ ونڈھم کے ساتھ ان کے دو مقامی شکاری بھی تھے۔ ان تینوں نے پگوں کا معائنہ کیا۔ ونڈھم کے مطابق کھونٹوں کے درمیان شیر کی لمبائی ۱۰ فٹ، پہلے شکاری کے مطابق شیر کی لمبائی نشیب و فراز سے ۱۰ فٹ ۶ انچ دوسرے کے مطابق ۱۰ فٹ ۵ انچ تھی۔ تاہم تینوں کا متفقہ خیال تھا کہ اس سے زیادہ بڑے شیر کے پگ انہوں نے زندگی بھر نہیں دیکھے۔

۱۹۳۰ میں محکمہ جنگلات نے بیچلر کے رہائشی علاقے میں جنگلوں کی کٹائی شروع کر دی۔ اس سے تنگ آ کر بیچلر نے اپنی رہائش بدل دی۔ مجھے اس بارے ان دو شکاریوں نے بتایا جن کے پاس اس علاقے میں شیر کے شکار کے اجازت نامے تھے۔ یہ اجازت نامے ہر ماہ پندرہ دن کے لئے دیئے جاتے تھے۔ اس سال سردیوں میں شکاریوں کی جماعتیں اس شیر کو مارنے کی ناکام کوششیں کرتی رہیں۔

سردیوں کے اختتام پر ڈاک کے ہرکارے نے مجھے آ کر بتایا کہ اس نے صبح کو ایک بہت بڑے شیر کے پگ دیکھے۔ اتنے بڑے پگ اس نے ۳۰ سال کے دوران نہیں دیکھے تھے۔ یہ ہرکارہ ہر روز صبح اور شام کو ہمارے گاؤں سے گذرتا تھا۔ اس کے مطابق یہ شیر مغرب سے آیا اور سڑک پر دو سو گز تک چلنے کے بعد بادام کے درخت کے پاس سے مشرق کو مڑ گیا۔ یہ درخت ہمارے گھر سے دو میل دور تھا اور مشہور درخت تھا۔ جس راستے پر شیر گیا تھا وہ راستہ نصف میل گھنے جنگلوں سے گذرنے کے بعد ایک بڑے نالے سے ہوتا ہوا پہاڑ کے دامن میں مڑ کر گھنے جنگل سے بھری ہوئی وادی کو جاتا ہے۔ یہ جگہ شیروں کی پسندیدہ رہائش گاہ ہے۔

اگلے روز صبح سویرے میں روبن کے ساتھ اس نیت سے نکلا تاکہ وادی میں اس جگہ جہاں پگڈنڈی وادی میں داخل ہوتی ہے، کو دیکھوں۔ یہاں وادی میں جانے اور وادی سے آنے والے تمام جانور گذرتے ہیں۔ جونہی ہم گھر سے نکلے تو روبن کو پتہ چل گیا تھا کہ ہم کسی خاص مہم کے لئے جا رہے ہیں۔ اسی وجہ سے اس نے شور مچاتی جنگلی مرغی، ہمیں قریب آنے دینے والے کاکڑ اور ہمیں دیکھ کر شور مچانے والے دو سانبھروں کی طرف کوئی توجہ نہ دی۔ جہاں مویشیوں کی پگڈنڈی وادی میں داخل ہوتی ہے اور زمین سخت ہو جاتی ہے، اس جگہ پہنچ کر روبن نے اپنا سر جھکایا اور پوری احتیاط سے زمین اور آس پاس کے پتھروں کو سونگھا۔ میرا اشارہ پاتے ہی وہ آگے ہوا اور مجھ سے ایک گز آگے چلتا ہوا بڑھا۔ اس کے انداز سے ظاہر تھا کہ وہ شیر کی تازہ بو کا پیچھا کر رہا ہے۔ سو گز مزید نیچے جا کر جہاں پگڈنڈی چوڑی ہو جاتی ہے، نرم زمین پر میں نے شیر کے پگ دیکھے۔ ایک ہی جھلک سے مجھے تسلی ہو گئی کہ یہ پگ بیچلر کے ہی ہیں جو ہم سے بمشکل ایک یا دو منٹ پہلے یہاں سے گذرا ہے۔

نرم زمین سے گذرنے کے بعد راستہ ۳۰۰ گز تک پتھروں سے ہوتا ہوا پھر کھلے میدان میں جا داخل ہوتا ہے۔ اگر شیر راستے پر ہی چلتا رہا ہو تو اس کھلے قطعے میں ہم اسے دیکھ سکتے تھے۔ ابھی ہم پچاس گز مزید آگے گئے ہوں کہ روبن نے رک کر اپنا سر اٹھایا اور راستے کے بائیں جانب گھاس کے ایک پتے کو اوپر سے نیچے اور پھر نیچے سے اوپر سونگھا۔ پھر راستہ چھوڑ کر گھاس میں داخل ہو گیا۔ یہ گھاس دو فٹ بلند تھی۔ گھاس کے دوسرے سرے پر چالیس فٹ چوڑی ایک کانٹے دار جھاڑی تھی۔ عموماً یہ جھاڑی انتہائی گھنی اور پانچ فٹ تک اونچی ہوتی ہے۔ اس کے پتے چوڑے اور اتنے گھنے نہیں ہوتے۔ پھول بھی گچھوں کی شکل میں لٹکتے ہیں۔ شیر، سانبھر اور سور اس کے سائے کو بہت پسند کرتے ہیں۔ جب روبن یہاں پہنچا تو رکا اور مڑ کر میری طرف آیا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اسے جھاڑی میں دکھائی نہیں دے رہا اس لئے میں اسے گود میں اٹھا لوں۔ اسے اٹھا کر میں نے اس کی پچھلی ٹانگیں اپنی بائیں جیب میں ڈالیں جبکہ اس نے اگلے پنجے میرے بائیں شانے پر رکھ دیئے۔ اس طرح وہ پوری طرح محفوظ تھا اور میرے دونوں ہاتھ بھی رائفل کے استعمال کے لئے آزاد تھے۔ اس حالت میں روبن نے کبھی بھی، چاہے اس نے کچھ بھی دیکھا ہو یا گولی چلانے سے قبل یا گولی چلانے کے بعد ہمارے شکار نے چاہے جو کچھ بھی کیا ہو، روبن اپنی جگہ سے نہیں ہلا اور نہ ہی میرا نشانہ خراب کیا۔ میں اس جھاڑی میں گھسا اور آہستگی سے آگے بڑھا۔ میں نے ابھی نصف فاصلہ ہی طے کیا ہو گا کہ اچانک میں نے اپنے سامنے کی جھاڑیاں ہلتی دیکھیں۔ شیر کو جھاڑی سے نکلنے کا موقع دے کر میں آگے بڑھا تاکہ کھلے میدان میں شیر کو دیکھ سکوں تاہم شیر گم ہو چکا تھا۔ روبن کو نیچے اتارا تو اس نے سونگھ کر مجھے بتایا کہ شیر بائیں جانب کی ایک تنگ اور گہری کھائی میں اترا ہے۔ یہ کھائی آگے جا کر ایک وادی میں ختم ہوتی ہے جہاں کئی غار ہیں۔ ان غاروں میں شیر بکثرت رہائش رکھتے ہیں۔ چونکہ قریب سے شیر کے حملے کا سامنا کرنے کے لئے میرے پاس مناسب رائفل نہیں تھی اور ناشتے کا وقت بھی ہو رہا تھا، میں اور روبن واپس لوٹے۔

ناشتے کے بعد میں اعشاریہ ۴۵۰ بور کی رائفل کے ساتھ اکیلا واپس لوٹا۔ جونہی میں اس پہاڑی کے نزدیک پہنچا جہاں سے مقامی افراد گورکھوں کے حملے کا سامنا کرتے رہے تھے تو مجھے کسی آدمی کے چلانے اور بھینسوں کی گھنٹی کی آواز سنائی دی۔ یہ آوازیں اسی پہاڑی کے اوپر سے آ رہی تھیں جہاں زمین نصف ایکڑ جتنی مسطح ہے۔ جب میں پہاڑی پر چڑھا تو دیکھا کہ ایک آدمی درخت پر چڑھا ہوا کلہاڑی کے دستے کو درخت پر مار کر شور کر رہا ہے۔ درخت کے تنے کے آس پاس بہت ساری بھینسیں جمع تھیں۔ جب اس بندے نے مجھے دیکھا تو اس نے شور مچانا بند کر دیا اور مجھے بتایا کہ شکر ہے کہ میں بروقت پہنچا۔ ورنہ اونٹ کے برابر شیطان شیر اسے کئی گھنٹوں سے تنگ کر رہا تھا۔ اس کی بیان کردہ کہانی سے پتہ چلا کہ جب میں اور روبن واپس لوٹے تو اس بندے نے اپنی بھینسوں کے لئے بانس کے پتے کاٹنا شروع کیئے۔ فوراً ہی اس نے ایک شیر کو اپنی جانب آتے دیکھا۔ اس نے اسے دیکھتے ہی شور مچایا جیسا کہ عام لوگ شیروں کو بھگانے کے لئے کرتے ہیں۔ بھاگنے کی بجائے شیر غرانے لگا۔ فوراً ہی یہ بندہ بھاگا اور قریبی درخت پر چڑھ گیا۔ شیر نے اس کی چیخوں اور شور پر کوئی توجہ نہ دی اور درخت کے چکر کاٹنے شروع کر دیئے۔ بھینسوں نے درخت کے گرد جمع ہو کر اپنا رخ شیر کی طرف کر دیا۔ شاید شیر نے مجھے آتے سنا اس لئے چند لمحے قبل ہی چلا گیا تھا۔ یہ بندہ میرا پرانا دوست تھا اور نمبردار سے جھگڑے سے قبل اس کی بندوق سے بہت زیادہ ناجائز شکار کھیل چکا تھا۔ اس نے درخواست کی کہ میں اسے اور اس کی بھینسوں کو بحفاظت جنگل سے باہر لے جاؤں۔ اسے آگے چلنے کا کہہ کر میں اس کے پیچھے چلنے لگا تاکہ اگر کوئی بھینس بھٹک جائے تو اسے ساتھ لے آؤں۔ ابتداء میں ساری بھینسیں دائرے کی صورت میں ہی اکٹھی رہیں تاہم کچھ دیر بعد ہم انہیں لے کر چل پڑے۔ ابھی ہم نے اس جنگل میں نصف راستہ ہی طے کیا ہو گا کہ مجھے محسوس ہوا کہ شیر ہماری دائیں جانب سے بولا ہے۔ میرے ساتھی نے اپنی رفتار تیز کر دی اور میں نے بھی بھینسوں کو تیز چلنے کا اشارہ کیا۔ ہمارے سامنے ابھی ایک میل جتنا انتہائی گھنا جنگل موجود تھا جس کے بعد ندی کے پار کھلا میدان شروع ہو جاتا تھا جو ان کے لئے محفوظ تھا۔ یہاں اس کا گاؤں بھی موجود تھا۔

میرے شناسا مجھے شکاری سے زیادہ فوٹوگرافر کی حیثیت سے جاننے لگ گئے ہیں۔ قبل اس کے کہ میں اپنے اس دوست سے جدا ہوں، اس نے مجھ سے درخواست کی کہ اس بار میں کیمرہ ایک طرف رکھ کر رائفل اٹھاؤں اور اس شیطان شیر کو ہلاک کر دوں۔ اگر یہ شیر ایک بھینس روز کھائے تو پچیس روز میں اس کا سارا گلہ ختم کر دے گا۔ میں نے اپنی سی پوری کوشش کرنے کا وعدہ کیا اور اس طرف چل پڑا جہاں ایسا تجربہ میرا انتظار کر رہا تھا جس کی تمام تر جزئیات میرے ذہن میں نقش ہیں۔

کھلے میدان میں پہنچ کر میں زمین پر بیٹھ گیا تاکہ جب شیر بولے یا کوئی جنگلی جانور بولیں تو مجھے شیر کے محل وقوع کا علم ہو جائے۔ اس وقت تین بج رہے تھے اور سورج کی تمازت راحت دے رہی تھی۔ اپنے گھٹنوں پر سر جھکانے کے بعد میں ابھی چند منٹ غنودگی کے عالم میں رہا ہوں گا کہ شیر کی آواز سے بیدار ہو گیا۔ اس کے بعد شیر نے وقفے وقفے سے بولنا شروع کر دیا۔

پہاڑوں اور میدانوں کے درمیان ایک پٹی سی ہے جو نصف میل چوڑی جنگل سے بھری ہوئی ہے۔ کئی سو میل تک اتنا گھنا جنگل کہیں اور نہیں۔ میں نے اندازہ لگایا کہ شیر اسی پٹی میں دوسری جانب موجود ہے جہاں سے اس کا فاصلہ یہاں سے پون میل ہو گا۔ اس کے بولنے کے انداز سے مجھے یہی محسوس ہوا کہ شیر ملاپ کے لئے جوڑے کی تلاش میں نکلا ہوا ہے۔

جہاں میں بیٹھا تھا، وہاں سے نزدیک اور اس قطعے کے بالائی بائیں جانب سے ایک راستہ شروع ہوتا تھا جو کئی سال قبل جنگل کی کٹائی اور لکڑی کی منتقلی کے لئے استعمال ہوتا رہا تھا اور یہ راستہ آگے چل کر مجھے تقریباً وہیں لے جاتا جہاں اس وقت شیر موجود تھا۔ اگر میں یہ راستہ اپناتا تو براہ راست شیر تک پہنچ سکتا تھا تاہم وہاں گھاس بہت لمبی تھی اور روبن کی مدد کے بغیر میرے لئے شیر کو تلاش کرنا تقریباً ناممکن ہوتا۔ اس لئے شیر کی جانب جانے کی بجائے میں نے اسے بلانے کا فیصلہ کیا۔ میں شیر سے اتنا دور تھا کہ وہ مجھے نہ سن سکتا۔ اس لئے میں اس راستے پر چند سو گز تک بھاگا اور پھر رائفل زمین پر رکھ کر ایک اونچے درخت پر چڑھا اور تین بار بولا۔ فوراً ہی بیچلر کا جواب آیا۔ نیچے اتر کر میں واپس بھاگا اور بار بار آواز نکالتا جا رہا تھا۔ جب میں اس قطعے پر واپس پہنچا تو مجھے چھپنے کے لئے کوئی مناسب جگہ نہ ملی۔ مجھے یہ جگہ جلد ہی تلاش کرنی تھی۔ ایک چھوٹے سے گڑھے کو نظر انداز کرتے ہوئے جہاں کالا اور بدبودار پانی کھڑا تھا، میں کھلے میدان میں ایک جگہ لیٹ گیا۔ یہ جگہ اس مقام سے بیس گز دور تھی جہاں یہ راستہ گھاس میں داخل ہوتا تھا۔ اس جگہ سے مجھے راستہ پچاس گز تک دکھائی دیتا تھا اور اس کے بعد جھاڑیوں کی وجہ سے نظروں سے اوجھل ہو جاتا تھا۔ جیسا کہ میرا اندازہ تھا، شیر اسی راستے سے آتا اور میں نے فیصلہ کیا کہ جونہی شیر دکھائی دیا فوراً ہی گولی چلا دوں گا۔

رائفل کو کھول کر اور کارتوسوں کو دیکھ کر میں نے اطمینان کیا کہ رائفل بھری ہوئی ہے۔ پھر میں نے سیفٹی کیچ اتار کر نرم زمین پر کنیوں کے بل لیٹتے ہوئے میں شیر کا انتظار کرنے لگا۔ اس میدان میں پہنچ کر میں نے پھر سے شیرنی کی آواز نہیں نکالی تھی اور اب میں نے ایک ہلکی سی آواز سے شیر کو اپنے موجودہ مقام سے آگاہ کیا۔ فوراً ہی سو گز کے فاصلے سے شیر کا جواب آیا۔ اگر وہ اپنی موجودہ رفتار سے آیا تو تیس سیکنڈ کے اندر اندر وہ مجھے دکھائی دے جاتا۔ میں نے بہت آہستگی سے گننا شروع کیا اور اسی تک گنا کہ اچانک دائیں جانب جھاڑیوں میں حرکت دکھائی دی۔ اس جگہ جھاڑیاں مجھ سے محض دس گز دور تھیں۔ اپنی آنکھیں اس طرف گھماتے ہوئے دیکھا کہ ایک بہت بڑے شیر کا سر جھاڑیوں کے اوپر سے نکلا ہوا ہے۔ اس جگہ جھاڑیاں چار فٹ بلند تھیں۔ اگرچہ شیر محض ایک یا دو فٹ جتنا جھاڑیوں کے اندر تھا لیکن مجھے اس کا سر ہی دکھائی دے رہا تھا۔ بہت آہستگی سے میں نے رائفل گھمائی اور جونہی دید بان سے میں نے شست باندھی، مجھے محسوس ہوا کہ شیر کا سر بالکل میری سیدھ میں نہیں ہے۔ چونکہ میں نیچے لیٹا ہوا تھا اور شیر کا سر بلندی پر تھا اور مجھے اوپر کی طرف گولی چلانی تھی تو میں نے اس کی دائیں آنکھ سے ایک انچ نیچے کا نشانہ لیا اور گولی چلا دی۔ اس کے بعد اگلے نصف گھنٹے تک خوف کے مارے میرا دم نکلا رہا۔

جیسا کہ میں نے سوچا تھا، اسی جگہ گرنے کی بجائے شیر سیدھا ہوا میں اچھلا اور کمر کے بل جھاڑیوں پر گرا۔ اس جگہ ایک فٹ چوڑا درخت تھا کسی طوفان میں گر گیا تھا۔ تاہم ابھی یہ درخت سبز تھا۔ ناقابل یقین غصے سے شیر نے دھاڑ پر دھاڑ لگاتے ہوئے اس درخت کے پرزے پرزے کرنا شروع کر دیئے جیسے کہ یہ درخت ہی اس کا دشمن ہو۔ درخت کی شاخیں ایسے ہوا میں اچھل رہی تھیں جیسے کوئی گردباد انہیں اچھال رہا ہو اور میری طرف جھاڑیاں ہل رہی تھیں۔ ہر لحظہ مجھے یہی ڈر تھا کہ شیر اب ان جھاڑیوں سے نکلا کہ تب۔ جب میں نے گولی چلائی تو شیر براہ راست مجھے دیکھ رہا تھا اور اسے بخوبی علم تھا کہ میں کہاں ہوں۔

میں اتنا دہشت زدہ تھا کہ رائفل کو دوبارہ بھرنے کی ہمت نہ کر سکا مبادا کہ شیر اس آواز سے میری طرف متوجہ ہو جائے۔ نصف گھنٹے تک بائیں نالی کی لبلبی پر انگلی رکھے اور پسینے سے شرابور میں اسی جگہ بے حس و حرکت لیٹا رہا۔ آخر کار درخت کی شاخوں اور جھاڑیوں کا ہلنا بند ہوا اور شیر کی دھاڑیں بھی کم ہوتی گئیں اور ان کے بند ہوتے ہی میں نے سکون کا سانس لیا۔ مزید نصف گھنٹے تک میں بے حس و حرکت لیٹا رہا حتیٰ کہ میرے بازو رائفل کے بوجھ سے شل ہو گئے۔ پھر میں نے اپنے پنجوں کی مدد سے خود کو پیچھے کی طرف کھینچنا شروع کر دیا۔ تیس گز تک اسی طرح حرکت کرنے کے بعد میں اٹھا اور جھک کر چلتے ہوئے نزدیک درخت پر چڑھ گیا۔ یہاں میں مزید چند منٹ تک رکا لیکن پھر ہر طرف چھائی ہوئی خاموشی کے سبب اٹھا اور گھر کو چل دیا۔

 

 

 

 

(ب)

 

اگلی صبح میں اپنے ایک آدمی کے ساتھ لوٹا۔ یہ آدمی درخت پر چڑھنے کا ماہر تھا۔ پچھلی شام کو میں نے محسوس کیا تھا کہ کھلی زمین کے کنارے پر ایک درخت اگا ہوا تھا اور یہاں سے چالیس گز دور گولی کھا کر شیر گرا تھا۔ ہم یہاں تک بڑی احتیاط سے پہنچے اور میں تنے کے پیچھے رکا جبکہ میرا ساتھی درخت پر چڑھا۔ کافی دیر تک عمیق توجہ سے دیکھتے رہنے کے بعد اس نے سر ہلایا اور نیچے اترا۔ نیچے اتر کر اس نے مجھے بتایا کہ کافی بڑے رقبے پر موجود جھاڑیاں گری ہوئی ہیں لیکن شیر کا کہیں کوئی نشان نہیں۔

میں نے اسے دوبارہ اوپر چڑھنے کا کہا اور بتایا کہ وہ پوری توجہ مرکوز رکھے۔ اگر اسے جھاڑیوں میں کوئی حرکت دکھائی دے تو فوراً مجھے مطلع کرے۔ اس کے بعد میں پوری احتیاط سے ان جھاڑیوں کی طرف گیا جہاں کل شیر نے اپنا غصہ ٹھنڈا کیا تھا۔ شیر کے پاس اپنا غصہ ٹھنڈا کرنے کی معقول وجہ تھی۔ نہ صرف اس نے درخت کی شاخوں اور چھال کو ادھیڑا تھا بلکہ بہت ساری جھاڑیوں کو اس نے یا تو جڑ سے اکھاڑ کر یا کاٹ کر پھینک دیا تھا۔ ہر جگہ خون ہی خون بکھرا ہوا تھا اور زمین پر دو جگہوں پر جمے ہوئے خون کے دائرے دکھائی دیئے۔ ان میں سے ایک دائرے کے پاس میں نے دو مربع انچ حجم کی ایک ہڈی اٹھائی۔ معائنے سے میں نے اندازہ لگایا کہ یہ ہڈی شیر کی کھوپڑی کی ہے۔

اس جگہ کے بعد سے خون کے نشانات ختم ہو گئے تھے۔ یہ اس بات کی دلالی کرتے تھے کہ شیر زندہ ہے اور اگر میں نے کل یہاں سے نکلتے وقت ہر ممکن احتیاط نہ برتی ہوتی تو شاید میں آج زندہ نہ ہوتا کیونکہ جب میں یہاں سے کھسکنے لگا تو میں دنیا کے سب سے خطرناک جانور یعنی تازہ زخمی شیر سے محض دس گز دور تھا۔ اس جگہ دائرے میں گھومنے سے میں کہیں کہیں خون کے دھبے دیکھے۔ غالباً شیر نے یہاں اپنا منہ رگڑا ہو گا۔ ان نشانات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ یہ نشانات دو سو گز دور سیمل کے ایک بڑے درخت کو جا رہے ہیں۔ آگے بڑھنے سے قبل میں پیچھے ہٹا اور اپنے ساتھی والے درخت پر چڑھا تاکہ اس جگہ داخل ہونے سے قبل اس کا طائرانہ جائزہ لے سکوں۔ مجھے یہ خلش ستا رہی تھی جب میں اس جگہ جاؤں گا تو شیر ابھی زندہ ہو گا۔ سر کے زخم کے ساتھ شیر کئی دنوں تک زندہ رہ سکتے ہیں اور کبھی کبھار تو وہ بالکل بھی تندرست ہو جاتے ہیں۔ بے شک اس شیر کی کھوپڑی کا کچھ حصہ گم تھا لیکن مجھے اس طرح کے زخمی شیر کے سامنے کا کوئی سابقہ تجربہ نہ تھا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ شیر چند گھنٹوں یا چند دنوں تک زندہ رہے یا پھر بہت برس زندہ رہ کر اپنی فطری موت مرے۔ اس وجہ سے میں نے اس شیر کو معمولی زخمی شیر کے طور پر لیا اور ہر ممکن طور پر خطرے سے بچتے ہوئے اس کا پیچھا کرنے کا فیصلہ کیا۔

درخت پر اس بلند جگہ سے میں نے دیکھا کہ سیمل کے درخت کی جانب سیدھی لکیر سے تھوڑا سا بائیں جانب دو اور درخت ہیں۔ نزدیکی درخت خون کے نشانات سے ۳۰ گز جبکہ دوسرا مزید ۵۰ گز دور تھا۔ اپنے ساتھی کو درخت پر چھوڑ کر میں نیچے اترا، رائفل، بندوق اور سو کارتوسوں کا تھیلا اٹھایا اور بہت احتیاط سے نزدیکی درخت پر چڑھ کر تیس فٹ کی بلندی پر بیٹھ گیا۔ پھر میں نے رائفل اور بندوق او پر کھینچا جو پہلے سے ہی میں نے ڈوری سے باندھی ہوئی تھیں۔ رائفل کو درخت کے دو شاخے پر اس طرح جما کر کہ فوراً اٹھا کر گولی چلا سکوں، میں نے بندوق سے چھروں کو دوسرے درخت کی جڑ تک ہر جگہ مارنا شروع کر دیا۔ میرے ذہن میں یہ خیال تھا کہ اگر شیر زندہ ہے اور اسی علاقے میں ہے تو زخمی شیروں کی طرح اپنے پاس بندوق چلنے کی آواز سن کر یا کوئی چھرا لگنے کی وجہ سے یا تو حملہ کرے گا یا پھر غرائے گا۔ شیر کی موجودگی کی کوئی اطلاع نہ پا کر میں نے دوسرے درخت کا رخ کیا اور وہاں سے سیمل کے درخت سے چند گز دور تک پھر چھرے مارے۔ آخری کارتوس میں نے سیمل کے درخت پر چلایا۔ اس کارتوس کے چلانے کے بعد مجھے محسوس ہوا جیسا کہ شیر ہلکی آواز سے غرایا ہو۔ تاہم چونکہ یہ آواز دوبارہ نہ آئی تو میں نے اسے تخیل پر محمول کیا۔ چونکہ کارتوسوں کا تھیلا ختم ہو گیا تھا، میں نے دوسرے ساتھی کو درخت سے اتارا اور گھر چل پڑا۔

جب میں دوسری صبح لوٹا تو میرا بھینسوں والا دوست کھلے میں میں اپنی بھینسیں چرا رہا تھا۔ مجھے دیکھ کر اس نے سکون کا سانس لیا۔ اس کی وجہ مجھے بعد میں معلوم ہوئی۔ گھاس ابھی تک شبنم سے نم تھی لیکن ایک خشک جگہ دیکھ کر ہم سیگرٹ پینے اور گپ شپ کے لئے بیٹھ گئے۔ جیسا کہ میں نے پہلے بتایا تھا، میرا یہ دوست ناجائز شکاری رہ چکا تھا اور چونکہ اس نے ساری زندگی انہی جنگلوں میں گذاری تھی جو شیروں سے پٹے پڑے تھے، اس کا تجربہ کافی تھا۔

کل جب میں اسے کھلے میدان میں چھوڑ کر واپس لوٹا تھا تو اس نے نالا عبور کیا اور پھر اس جانب سے آوازیں سننے بیٹھ گیا جہاں میں واپس گیا تھا۔ اس نے دو شیروں کو بولتے سنا اور پھر میری گولی کی آواز سنی اور پھر دوسرے شیر کو غصے سے غراتے سنا تو اس کے ذہن میں فوری طور پر یہ خیال آیا کہ میں نے ایک شیر کو زخمی کر دیا ہے جس نے حملہ کر کے مجھے ہلاک کر دیا ہے۔ اگلی صبح اسی جگہ لوٹ کر اس نے پورے سو مرتبہ بندوق چلنے کی آوازیں سنیں اور اچنبھے میں پڑ گیا۔ تجسس اتنا بڑھ گیا تھا کہ آج وہ اس معاملے کو تفصیل سے جاننے آ گیا تھا۔ خون کی بو پا کر اس کے بھینسوں نے اس کی رہنمائی اس جگہ تک کی جہاں شیر گرا تھا اور وہاں اس نے خشک خون کے دھبے اور ہڈی کا ٹکڑا پڑا ہوا پایا۔ اس کے خیال میں ایسا جانور جس کی کھوپڑی سے ہڈی کا ٹکڑا ٹوٹ کر الگ ہو چکا ہو، چند گھنٹوں سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ اسے اس بات کا اتنا یقین تھا کہ اس نے مجھے پیش کش کی کہ ہم اس کی بھینسوں کو لے کر جنگل میں گھسیں اور شیر کی لاش کو ڈھونڈیں۔ بھینسوں کی مدد سے زخمی جانور کو تلاش کرنے کے بارے میں پہلے بھی سن چکا تھا تاہم کبھی اس کو استعمال کرنے کا موقع نہیں ملا تھا۔ جب میرے دوست نے اس بات سے اتفاق کیا کہ اگر اس کی کوئی بھینس زخمی ہوئی یا ماری گئی تو وہ اس کے بدلے مجھ سے رقم لے لے گا تو میں نے حامی بھر لی۔

بھینسوں کا رخ بدل کر، جن کی تعداد ۲۵ تھی، اور انہیں اکٹھا رکھتے ہوئے ہم اس جگہ بڑھے جہاں میں نے کل سو کارتوس چلائے تھے۔ ہم سیدھا سیمل کے درخت کو گئے اور بھینسیں ہمارے پیچھے تھی۔ پیش قدمی کافی سست تھی۔ اس کی وجہ نہ صرف ہماری تھوڑیوں تک بلند گھاس تھی اور ہمیں ہاتھوں سے گھاس کو ہٹا کر قدم رکھنے کے لئے جگہ تلاش کرنی پڑتی تھی بلکہ ہمیں بار بار اس لئے بھی رکنا پڑ رہا تھا تاکہ بھینسیں منتشر نہ ہو جائیں۔ جونہی ہم سیمل کے درخت کے پاس پہنچے تو گھاس کچھ ہلکی ہو چکی تھی اور یہاں میں نے دیکھا کہ ایک چھوٹا سا نشیب تھا جہاں خشک پتے بچھے ہوئے تھے اور اس میں خون کے دھبے موجود تھے۔ ان میں سے کچھ دھبے خشک، کچھ خشک ہو رہے تھے اور ایک دھبہ بالکل تازہ تھا۔ جب میں نے اس نشیب میں اپنا ہاتھ رکھا تو وہ ابھی تک گرم تھا۔ چاہے یہ بات کتنی ہی عجیب کیوں نہ محسوس ہو، شیر کل اس جگہ لیٹا ہوا تھا جب میں نے یہاں پورے سو کارتوس چلائے تھے۔ اب اس نے یہاں سے اس وقت حرکت کی جب اس نے ہمیں آتے ہوئے دیکھا۔ بھینسوں نے اب خون کو دیکھ لیا تھا اور زمین پر اپنے کھر مار رہی تھیں۔ ایسی صورتحال کہ ایک طرف سے شیر حملہ کر رہا ہو اور دوسری جانب بپھری ہوئی بھینسیں ہوں، مجھے بالکل نہیں جچی۔ فوراً ہی میں نے اپنے دوست کو بازو سے پکڑا اور کھلے میدان کو لوٹ آئے۔ جب ہم محفوظ جگہ پہنچے تو میں نے اپنے دوست سے کہا کہ گھر واپس چلیں اور میں کل اکیلا آ کر اس شیر کا سامنا کروں گا۔

جس راستے سے میں ہر روز گذر کر میں آتا جاتا تھا پر کچھ حصے کی مٹی بالکل نرم تھی۔ چوتھے دن اسی نرم مٹی پر میں نے ایک بڑے نر شیر کے پگ دیکھے۔ ان پگوں کا پیچھا کرتے ہوئے میں نے دیکھا کہ سو گز آگے جا کر شیر سیمل کے درخت سے سو گز کے فاصلے پر گھنی جھاڑیوں میں گھسا ہے۔ یہ صورتحال انتہائی غیر متوقع تھی۔ اگر اب میں کسی شیر کو دیکھتا تو انتہائی قریب جائے بغیر یہ جاننا ممکن نہیں تھا کہ آیا میں زخمی شیر کو دیکھ رہا ہوں کہ دوسرے شیر کو۔ تاہم فی الوقت چونکہ میرے سامنے کوئی شیر نہیں تھا، اس لئے اس بارے سوچنا بے کار تھا۔ میں جھاڑیوں میں گھسا اور سیمل کے درخت کے پاس موجود اس نشیب کو چل پڑا جہاں کل میں نے شیر کی موجودگی کے آثار پائے تھے۔

چونکہ اب یہاں خون کے نشانات نہیں تھے، میں آڑا ترچھا ہو کر چلنے لگا۔ اس جگہ جھاڑیاں اتنی گھنی تھیں کہ چند انچ سے زیادہ آگے دیکھنا ممکن نہ تھا۔ میں گھنٹے سے زیادہ چلتا رہا حتیٰ کہ دس فٹ چوڑے نالے پر پہنچا۔ نیچے اترنے سے قبل میں نے اوپر دیکھا تو مجھے ایک شیر کی پچھلی ٹانگ اور دم دکھائی دی۔ شیر اپنی جگہ بالکل ساکت تھا اور اس کا سر اور جسم درخت کے پیچھے چھپے ہوئے تھے۔ صرف ایک ٹانگ ظاہر تھی۔ شیر مجھ سے محض دس گز دور تھا اس لئے گولی چلا کر اس کی ٹانگ توڑ دینا انتہائی آسان کام تھا۔ میں یقیناً گولی چلا دیتا اگر مجھے یقین ہوتا کہ یہ ٹانگ اسی زخمی شیر کی ہے۔ تاہم اس علاقے میں اب دو شیر موجود تھے اور اگر میں غلط شیر کو زخمی کر دیتا تو میری مشکلات دو گنا بڑھ جاتیں۔ پھر شیر نے حرکت کی اور آگے چلا گیا۔ اس کے جانے کے بعد میں اس جگہ پہنچا تو دیکھا کہ وہاں خون کی چند بوندیں موجود تھیں۔ اب یہ سوچ کر افسوس کرنا کہ میں نے گولی چلا کر شیر کی ٹانگ کیوں نہیں توڑ دی، بے کار تھا۔

چوتھائی میل آگے جا کر ایک چھوٹی ندی آتی تھی اور چونکہ شیر کے زخم بھر رہے تھے، شاید وہ اسی ندی پر پانی پینے جائے۔ اسے راستے ہی میں جا لینے کے خیال سے یا پھر ندی پر جا کر گھات لگانے کی نیت سے میں نے ایک پگڈنڈی پکڑی۔ یہ پگڈنڈی جنگلی جانوروں کے چلنے سے بنی تھی اور میں جانتا تھا کہ آگے جا کر یہ پگڈنڈی ندی سے جا گذرتی ہے۔ ابھی میں کچھ ہی فاصلہ چلا ہوں گا کہ میں نے بائیں جانب سانبھر کی خطرے سے متعلق آواز سنی اور پھر سانبھر گھنے جنگل میں بھاگ گیا۔ یعنی شیر اور میں ندی سے یکساں دور تھے۔ چند سیکنڈ بعد مجھے پچاس گز دور اسی جگہ سے کسی بھاری جانور کے پنجے کے نیچے آ کر خشک شاخ ٹوٹنے کی آواز سنائی دی جہاں سے سانبھر بھاگا تھا۔ سانبھر نے پورے جنگل کو شیر کی موجودگی سے خبردار کر دیا تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ شاخ شیر کے پنجے تلے آ کر ہی ٹوٹی تھی۔ فوراً ہی زمین پر لیٹ کر میں نے اسی جانب رینگنا شروع کر دیا۔

یہاں جھاڑیاں چھ سے آٹھ فٹ تک بلند تھیں۔ ان کی اوپری شاخوں پر گھنے پتے جبکہ تنے اور نچلے حصے کافی چھدرے تھے۔ زمین پر لیٹ کر میں تقریباً پندرہ فٹ تک دیکھ سکتا تھا۔ میں نے تیس گز کا فاصلہ طے کیا تھا اور میری خواہش تھی کہ شیر سامنے سے ہی حملہ کرے (کیونکہ میں صرف سامنے ہی کی جانب گولی چلا سکتا تھا)۔ اچانک مجھے کسی سرخ چیز پر سورج چمکتا ہوا دکھائی دیا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ کوئی خشک پتہ ہو یا پھر شیر۔ تاہم دو گز دائیں جانب جا کر میں اسے مزید بہتر دیکھ سکتا تھا۔ سر کو اتنا جھکا کر کہ تھوڑی زمین کو لگنے لگی، میں اس طرف رینگنے لگا۔ اس جگہ پہنچ کر میں نے سر اٹھایا تو سیدھا شیر کو اپنے سامنے دیکھا۔ زمین پر جھکا ہوا شیر سیدھا مجھے دیکھ رہا تھا۔ سورج اس کے بائیں شانے پر چمک رہا تھا۔ میری دو گولیاں کھاتے ہی وہ بائیں پہلو پر گرا اور آواز تک نہ نکالی۔

اس کے پاس کھڑے ہو کر میں نے جب اس پر نظریں دوڑائیں تو مجھے اس کے پنجے دیکھنے کی ضرورت نہیں محسوس ہوئی کیونکہ میں جانتا تھا کہ میرے سامنے بیچلر مرا ہوا ہے۔

چار دن قبل لگنے والی گولی کا داخلی سوراخ کھال کی سلوٹ میں چھپ گیا تھا اور سر کی پشت پر بڑا سوراخ تھا جو ناقابل یقین حد تک صاف اور صحت مند دکھائی دے رہا تھا۔

چونکہ میری رائفل کی آواز دور تک سنی گئی ہو گی، میں فوراً ہی گھر لوٹا۔ جب میں نے تفصیل بتاتے ہوئے چائے پی تو میرے آدمی جمع ہونے لگ گئے تھے۔

اپنی بہن اور روبن کے علاوہ میرے ساتھ ۲۰ ساتھی تھے۔ ہم اسی جگہ لوٹے اور شیر کو رسیوں سے باندھنے سے قبل میں نے اپنی بہن کی مدد سے شیر کو سر سے دم تک اور دم سے سر تک ماپا۔ گھر پہنچ کر ہم نے اسے دوبارہ ماپا۔ تاہم کسی آزاد ذریعے کی غیر موجودگی میں ایسی پیمائشیں بے کار ہوتی ہیں، تاہم اصل مقصد بتایا یہ مقصود ہے کہ ماہر شکاری کس طرح جانور کے پگ سے اس کی پیمائش کا بالکل درست اندازہ لگا سکتے ہیں۔ آپ کو یاد ہو گا کہ ونڈہم نے بتایا تھا کہ دو کھونٹوں کے درمیان شیر کی لمبائی دس فٹ، جو کہ نشیب و فراز شامل کرنے سے دس فٹ چھ انچ بنتی ہے۔ دوسرے شکار نے دس فٹ پانچ انچ نشیب و فراز کو شامل کر کے جبکہ دوسرے نے دس فٹ چھ انچ یا اس سے کچھ زیادہ بتائی تھی۔ ان اندازوں کے سات سال بعد اپنی بہن کی مدد سے جب میں نے ماپا تو شیر کی لمبائی دس فٹ سات انچ نشیب و فراز کو شامل کر کے حاصل ہوئی۔

میں نے اس شیر کے شکار کی کہانی قدرے تفصیل سے سنائی ہے کیونکہ میں جانتا ہوں کہ وہ شکار جو ۱۹۲۰ سے ۱۹۳۰ کے درمیان شیروں کا شکار کرتے رہے تھے، وہ بیچلر کے مارے جانے کے بارے جاننا چاہیں گے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

موہن کا آدم خور

 

 

(۱)

 

ہمالیہ میں ہمارے گرمائی گھر سے اٹھارہ میل دور پہاڑی سلسلہ شروع ہوتا ہے جو شرقاً غرباً نو ہزار فٹ کی بلندی تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کے مشرقی سرے پر ڈھلوانیں گھاس سے بھری ہوئی ہیں۔ اس گھاس کے بعد یہ پہاڑی سلسلہ تیزی سے نیچے گرتا ہوا دریائے کوسی تک جا پہنچتا ہے۔

ایک دن اس جگہ کے شمالی طرف واقع گاؤں سے عورتیں اور لڑکیاں گھاس کاٹ رہی تھیں کہ اچانک ایک شیر نمودار ہوا۔ بھگدڑ کے دوران ایک عورت کا پیر پھسلا اور وہ ڈھلوان سے لڑھکتی ہوئی چٹان سے نیچے جا گری۔ ان عورتوں کی بھاگ دوڑ اور چیخوں سے پریشان ہو کر شیر جتنی خاموشی سے آیا تھا، اتنی ہی خاموشی سے غائب ہو گیا۔ جب یہ سب کچھ پرسکون ہوئیں تو انہوں نے اکٹھے ہو کر چٹان سے نیچے جھانکا۔ ان کی ساتھی ذرا نیچے ایک اور چٹان پر پڑی تھی۔

اس عورت نے بتایا کہ وہ سخت زخمی ہے اور حرکت نہیں کر سکتی۔ بعد میں پتہ چلا کہ اس کی ایک ٹانگ اور کئی پسلیاں ٹوٹ گئی تھیں۔ کافی غور و خوض کے بعد انہوں نے طے کیا کہ یہ مردوں کا کام ہے۔ انہوں نے زخمی عورت سے کہا کہ وہ گاؤں جا کر مدد لاتی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان میں سے کوئی بھی زخمی عورت کے پاس رکنے کو تیار نہیں۔ زخمی عورت نے منتیں کیں کہ کوئی تو رک جائے۔ اس کی بے بسی پر ترس کھاتے ہوئے ایک سولہ سالہ لڑکی رک گئی۔ باقی تمام عورتیں گاؤں روانہ ہو گئیں جبکہ یہ لڑکی راستہ تلاش کر کے نیچے اتری۔

یہ چٹان پہاڑی سے ذرا سا باہر نکلی ہوئی تھی۔ جس جگہ عورت لیٹی تھی، اس کے پاس ہی ایک گڑھا سا تھا۔ زخمی عورت کو یہ خوف تھا کہ کہیں وہ نیچے نہ گر جائے۔ اس نے لڑکی سے کہا کہ وہ اسے کنارے سے ہٹا کر اس گڑھے میں لے جائے۔ اس لڑکی نے بمشکل تمام زخمی عورت کو گڑھے تک پہنچایا۔ گڑھا اتنا چھوٹا تھا کہ اس میں لڑکی کے لئے کوئی جگہ نہیں تھی۔ وہ مشکل سے سکڑ کر بیٹھ گئی۔

گاؤں چار میل دور تھا۔ دونوں بار بار اندازہ لگاتیں کہ کتنی دیر بعد مدد پہنچ جائے گی۔ عورتوں کو کتنا وقت لگے گا کہ وہ گاؤں پہنچیں اور کتنی دیر میں مرد وغیرہ اکٹھے ہو کر آئیں گے۔

یہ ساری گفتگو سرگوشیوں میں ہو رہی تھی کہ کہیں شیر آس پاس ہو اور ان کی آواز سن کر آ جائے۔ اچانک زخمی عورت نے لڑکی کو سختی سے جکڑ لیا۔ اس عورت کے چہرے پر دہشت کے آثار دیکھ کر لڑکی نے اپنے کندھے کے اوپر سے دیکھا تو کانپ کر رہ گئی۔ شیر نیچے اتر کر ان کی طرف ہی آ رہا تھا۔

میرا خیال ہے کہ ہم میں سے چند ایک ہی ان خوفناک بھیانک خوابوں سے جاگے ہوں گے جب دہشت کے مارے ان کے اعضاء اور حلق بیکار ہو جاتے ہیں۔ بھیانک بلائیں ان کا پیچھا کر رہی ہوتی ہیں۔ خوف ہمارے مسامات سے پسینے کی شکل میں بہہ رہا ہوتا ہے۔ بیدار ہونے پر ہم خدا کا شکر ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن اس بے چاری بدقسمت لڑکی کے بس میں اس بھیانک حقیقت سے فرار ممکن نہ تھا۔ اس منظر کا اندازہ کرنے کے لئے زیادہ وقت نہیں لگتا۔ پہاڑی سے نکلی ہوئی چٹان کا سرا جو کہ ایک گڑھے پر جا کر ختم ہوتا ہے، پر دو عورتیں موجود ہیں۔ خوف کے مارے حرکت کرنا بھول جاتی ہیں۔ شیر ان کی طرف آہستگی سے بڑھتا چلا آ رہا ہے۔ فرار کے تمام راستے مسدود ہیں۔

میرا پرانا دوست موٹھی سنگھ اس وقت اسی گاؤں میں اپنی بیمار بیٹی کی تیمار داری کرنے آیا ہوا تھا کہ یہ عورتیں آن پہنچیں۔ وہ بطور سربراہ امدادی جماعت کے ساتھ گیا۔ جب یہ سب لوگ چٹان پر جا کر جھکے تو نیچے صرف بے ہوش عورت اور خون کے نشانات ہی باقی تھے۔

زخمی عورت کو احتیاط سے اٹھا کر یہ لوگ گاؤں واپس لائے۔ جب اسے ہوش آیا تو اس نے اپنی بپتا سنائی۔ موٹھی سنگھ اسی وقت میری طرف روانہ ہو گیا۔ وہ ساٹھ سال سے زیادہ عمر کا تھا۔ میرے پاس اٹھارہ میل چل کر جب وہ پہنچا تو یہ ماننے کو تیار نہ تھا کہ اسے آرام کرنا ہے یا وہ تھکا ہوا ہے۔ ہم اسی وقت روانہ ہو گئے۔ حادثے کو ہوئے چوبیس گھنٹے گذر چکے تھے کہ ہم جائے واردات پر پہنچے۔ میں اب کچھ بھی نہ کر سکتا تھا۔ شیر نے اس بہادر لڑکی کے جسم کی چند ہڈیاں ہی باقی چھوڑی تھیں یا پھر خون آلود کپڑے۔

یہ اس شیر کی پہلی واردات تھی۔ بعد ازاں اسے "موہن کا آدم خور” کا سرکاری نام دیا گیا۔

لڑکی کو مارنے کے بعد شیر سردیوں میں نیچے کوسی وادی چلا گیا اور جاتے ہوئے راستے بھر میں ہلاکتیں کرتا گیا۔ ان میں پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ کے دو بندے اور ہماری اسمبلی کے ممبر کی بہو بھی شامل تھے۔ گرمیوں میں یہ واپس لوٹ کر اس جگہ آیا جہاں سے اس نے آدم خوری شروع کی تھی۔ اس کے کئی سال بعد تک اس کی شکار گاہ کوسی وادی سے ککری کھاٹ اور گرگیا تک وسیع رہی۔ یہ کل اندازاً چالیس میل بنتے ہیں۔ بعد ازاں یہ موہن کے اوپر کی طرف بھی شکار کرنے لگا۔

ضلعی کانفرنس میں جو کہ میں نے چوگڑھ کے شیروں میں بیان کی تھی، کماؤں کے ضلع میں سرگرم آدم خوروں کی یہ ترجیحی فہرست بنائی گئی: ۱۔ چوگڑھ کے شیر، ۲۔ موہن، ضلع الموڑا، ۳۔ کنڈا، ضلع گڑھوال

چوگڑھ کے شیروں کا خاتمہ کر کے جب میں فارغ ہوا تو بینز نے مجھے یاد دلایا کہ ابھی اس فہرست کا ایک حصہ پورا ہوا ہے۔ موہن کا یہ آدم خور اگلے نمبر پر اپنی باری کا منتظر ہے۔ بینز الموڑہ کے ڈپٹی کمشنر تھے۔ انہوں نے بتایا کہ شیر کی سرگرمیاں روز بروز بڑھ رہی ہیں۔ گذشتہ ہفتے اس نے مزید تین انسانی شکار کئے ہیں جو کہ تکنولا گاؤں سے تھے۔ بینز نے مشورہ دیا کہ میں اس گاؤں سے ابتداء کروں۔

میں جب چوگڑھ کے شیروں کے پیچھے تھا تو بینز نے پیشہ ور کئی شکاری اس شیر کے پیچھے لگائے تھے۔ انہوں نے انسانی لاشوں پر بیٹھ کر شیر کا انتظار کیا تھا لیکن انہیں ناکامی ہوتی رہی کیونکہ یہ شیر واپس نہ لوٹتا تھا۔ آخر کار یہ سب واپس لوٹ گئے۔ بینز نے مجھے بتایا کہ اب میں اس شیر کے پیچھے جا سکتا ہوں کہ دیگر تمام شکاری مایوس ہو کر واپس چلے گئے ہیں۔ یہ بہت اہم بات ہے کہ آدم خور کے تعاقب میں ایک سے زیادہ شکاری نہ جائیں۔ آدم خور کا تعاقب کرتے وقت انتہائی گھبراہٹ میں ایک شکاری غلطی سے دوسرے شکاری کو بھی ہلاک کر سکتا ہے۔

 

 

 

(۲)

 

مئی کی ایک جھلساتی دوپہر تھی جب میں اپنے دو ملازموں اور چھ گڑھوالیوں کے ہمراہ نینی تال سے آنے والی ٹرین سے رام نگر کے سٹیشن پر اترا۔ یہاں سے ہم چوبیس میل کے پیدل سفر پر کرتکالہ کو روانہ ہوئے۔ ہماری پہلی منزل سات میل دور گرگیا تھی جہاں ہم شام کو پہنچے۔ بینز کا خط کچھ اس وقت ملا تھا کہ روانہ ہونے سے قبل مجھے ڈاک بنگلہ استعمال کرنے کی اجازت لینے کا وقت نہ ملا۔ اس وجہ سے ہم لوگ کھلی جگہ خیمہ لگا کر سو گئے۔

گرگیا میں دریائے کوسی کے کنارے کئی سو فٹ بلند ایک چٹان موجود ہے۔ جب میں سونے لگا تو اس طرف پتھر لڑھکنے کی آوازیں آنے لگیں جیسے پتھر لڑھکتے ہوئے دوسرے پتھروں سے ٹکرا رہے ہوں۔ کچھ دیر بعد مجھے اس آواز سے تشویش ہونے لگی۔ جب چاند نکلا اور اتنی روشنی ہو گئی کہ میں سانپ وغیرہ کو دیکھ کر ان سے بچ کر چل سکتا تھا تو میں آواز کی جانب بڑھا۔ آگے چل کر علم ہوا کہ یہ آواز سڑک کے کنارے ایک دلدل کے مینڈک پیدا کر رہے ہیں۔ میں نے خشکی، پانی حتیٰ کہ درخت پر رہنے والے دنیا کے مختلف حصوں میں مینڈکوں کی آوازیں سنی ہیں لیکن جتنی عجیب آوازیں گرگیا کے مینڈک مئی کے مہینے میں پیدا کر رہے تھے، کہیں اور نہیں سنی۔

علی الصبح جب ہم موہن روانہ ہوئے تو ابھی دن گرم ہو رہا تھا کہ وہاں پہنچ گئے۔ یہ کل بارہ میل کا سفر تھا۔ جتنی دیر میں میرے ہمراہیوں نے اپنے لئے کھانا اور میرے ملازمین میرے لئے ناشتہ بنانے لگے، بنگلے کے چوکیدار، دو فارسٹ گارڈوں اور کئی مقامی لوگوں نے مجھے آدم خور کی داستانیں سنا سنا کر کافی محظوظ کیا۔ سب سے مزے کی داستان وہ تھی جس میں ایک مقامی مچھیرا اور ایک مقامی فارسٹ گارڈ موجود تھے۔ فارسٹ گارڈ نے خود کو اس کہانی کا ہیرو ظاہر کیا۔ اس نے مزے لے لے کر مجھے یہ داستان سنائی کہ کس طرح وہ ایک مقامی مچھیرے کے ہمراہ جا رہا تھا کہ ایک موڑ مڑتے ہوئے اس نے آدم خور شیر کو دیکھا۔ پھر اچانک مچھیرے نے فارسٹ گارڈ کی بندوق چھینی اور دونوں ہی سر پر پیر رکھ کر بھاگے۔ میں نے پوچھا کہ کیا تم نے پیچھے مڑ کر دیکھا؟ میری سادہ لوحی پر ترس کھاتے ہوئے اس نے جواب دیا کہ نہیں صاحب، جب آدم خور تعاقب میں ہو تو پیچھے مڑ کر دیکھنے کا کسے ہوش رہتا ہے۔ پھر اس نے بتایا کہ مچھیرا جو اس سے آگے تھا، اچانک گھاس میں سوئے ہوئے ایک ریچھ پر چڑھ گیا۔ پھر ان کی بدحواسی، ریچھ اور شیر کا مشترکہ ہنگامہ، غرض عجیب منظر تھا۔ جس کا منہ جس طرف اٹھا، ادھر کو بھاگ لیا۔ کافی دیر بعد مچھیرا جب واپس فارسٹ گارڈ کے پاس پہنچا۔ یہاں گارڈ نے اسے خوب لعن طعن کی کہ وہ کیسے اسے نہتا کر کے اور ریچھ اور آدم خور کے رحم و کرم پر چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ فارسٹ گارڈ نے کہانی ختم کرتے ہوئے بتایا کہ اس سے اگلے روز مچھیرا بستی چھوڑ کر چلا گیا کیونکہ اس کی ٹانگ ریچھ سے ٹکرانے سے زخمی ہو گئی تھی اور یہ کہ دریائے کوسی سے مچھلیاں بھی ختم ہو گئی تھیں۔

دوپہر کو ہم مزید سفر کے لئے تیار تھے۔ پورا گاؤں اکھٹا ہو کر ہمیں الوداع کہنے اور خبردار کرنے آیا۔ ان کے خیال کے مطابق گھنے جنگل میں آدم خور ہمارا منتظر ہو گا۔ ہم اب کرتکالہ کی جانب چار ہزار فٹ کی چڑھائی کے لئے روانہ ہو گئے۔

ہماری پیش قدمی کافی سست تھی کیونکہ میرے ساتھی بھاری سامان اٹھائے ہوئے تھے اور چڑھائی بہت سخت تھی۔ گرمی کا تو پوچھئے مت۔ اس جگہ کچھ عرصہ قبل بدامنی پھیل گئی تھی اور اسے رفع کرنے کے لئے پولیس کا ایک چھوٹا سا دستہ بھیجنا پڑا تھا۔ مجھے ہدایت کی گئی تھی کہ میں اپنی ضرورت کی ہر چیز اپنے ساتھ ہی لے کر چلوں کیونکہ شورش کے باعث شاید مجھے کوئی چیز بھی مقامی طور پر نہ مل سکے۔ یہی ضروریات ہی وہ بھاری بوجھ تھیں جس کے تلے دبے میرے ساتھی ہانپ رہے تھے۔

کئی جگہوں پر رکتے رکتے ہم لوگ سہہ پہر کے بعد ایک مزروعہ قطعے تک پہنچ گئے۔ ابھی چونکہ ہم آدم کور کے علاقے سے باہر تھے، میں اپنے ساتھیوں کو چھوڑ کر بے خطر اس جھونپڑے کی طرف چل دیا جو موہن سے صاف دکھائی دے رہا تھا۔ مجھے فارسٹ گارڈ نے بتایا تھا کہ یہ میرے قیام کے لئے بہترین جگہ ہو گی۔

یہ جھونپڑا موہن پر جھکی چٹان پر بنا ہوا تھا۔ میں عام راستے سے چلتا ہوا اس کے قریب پہنچا۔ ایک کھڈ سے بچتے ہوئے جونہی میں مڑا تو ایک عورت دکھائی دی جو چشمے سے گھڑا بھر رہی تھی۔ چونکہ میں بے آواز چلتا ہوا اس سے کافی قریب پہنچ گیا تھا اور میرا اچانک اسے مخاطب کرنا خوفزدہ کر دیتا، میں ہلکا سا کھانسا اور چند گز دور رک کر سیگرٹ سلگانے لگا۔ تھوڑی دیر بعد میں نے منہ دوسری طرف کئے ہوئے اس سے پوچھا کہ کیا اس وقت اور اس جگہ کسی فرد کا اکیلا پانی بھرنے کا فیصلہ دانش مندی ہے ؟ چند لمحے رک کر اس نے جواب دیا کہ واقعی یہ محفوظ جگہ نہیں۔ لیکن پانی بھرنا لازمی تھا اور گھر میں کوئی مرد بھی نہیں تو اسے اکیلے ہی آنا پڑا۔ میں نے پوچھا کہ کیا واقعی گھر میں کوئی مرد نہیں ؟ اس نے جواب دیا کہ مرد تو ہے لیکن وہ کھیت میں ہل چلا رہا ہے۔ دوسرا پانی بھرنا عورتوں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ پھر گھڑا بھرنے میں وقت ہی کتنا لگتا ہے، بمشکل چند منٹ۔ اب یہ عورت اپنی جھجھک اور گھبراہٹ پر قابو پا چکی تھی اس لئے اب اس نے سوالات کرنے کا سوچا۔

کیا آپ پولیس والے ہیں ؟

نہیں !

کیا آپ فارسٹ آفیسر ہیں ؟

نہیں !

پھر کون ہیں ؟

ایک آدمی!

کیوں آئے ہیں ؟

آدم خور کو مارنے

آدم خور کے بارے مجھے کیسے علم ہوا؟

اکیلا کیوں آیا ہوں ؟

میرے دوسرے ساتھی کہاں ہیں ؟

وہ کل کتنے افراد ہیں ؟

میں کب تک رکوں گا؟

وغیرہ وغیرہ

اس عورت نے جب تک یہ تمام سوالات نہ کر لئے، اس نے گھڑا بھرے جانے کے بارے نہیں بتایا۔ پھر اس نے میرے پیچھے چلتے ہوئے مجھے بتایا کہ پہاڑی کی جنوبی طرف ڈھلان

پر ایک درخت کے نیچے سے آدم خور تین روز قبل ایک عورت کو لے گیا تھا۔ اس نے مجھے وہ درخت دکھایا۔ یہ جگہ فارسٹرز ہٹ سے بمشکل دو یا تین سو گز دور ہو گی۔ اب ہم پہاڑ کے اوپر جانے والی پگڈنڈی پر آ گئے۔ اس نے مجھے بتایا کہ اب وہ بالکل محفوظ ہے کیونکہ اگلے موڑ پر ہی اس کا گاؤں ہے۔

آپ میں سے وہ افراد جو ہندوستانی خواتین کو جانتے ہیں، بخوبی سمجھ گئے ہوں گے کہ میں نے کتنا بڑا معرکہ سر کر لیا تھا۔ خصؤصاً اس بات کے حوالے سے کہ حال ہی میں مقامی افراد کی پولیس سے جھڑپیں ہوئی تھیں۔ ایک عورت کو خوفزدہ کئے بغیر، ورنہ میں پورے گاؤں کو اپنا دشمن بنا لیتا، گھڑا بھرتے ہوئے اس کے پاس رک کر اور چند سوالات کے جواب دے کر میں نے ایک ایسا دوست بنا لیا تھا جو پورے گاؤں میں کچھ ہی دیر میں میری آمد سے آگاہ کر دے گا کہ میں کوئی افسر نہیں بلکہ میرے آنے کا واحد مقصد آدم خور سے ان لوگوں کی جان چھڑانا ہے۔

 

 

 

 

(۳)

 

فارسٹرز ہٹ سڑک سے بیس گز دور بائیں جانب ایک چھجے نما چٹان پر تھا۔ اس کا دروازہ زنجیر لگا کر بند کیا گیا تھا۔ میں اسے کھول کر اندر داخل ہوا۔ کمرہ دس مربع فٹ ہو گا اور بالکل صاف ستھرا تھا۔ البتہ اس سے پھپھوندی کی بو آ رہی تھی۔ مجھے بعد ازاں علم ہوا کہ ڈیڑھ سال قبل آدم خور کے اس طرف آنے کے وقت سے اب تک اسے استعمال نہیں کیا گیا۔ اس کمرے کے دونوں اطراف میں دو راہداری نما کمرے تھے۔ ایک بطور باورچی خانہ استعمال ہوتا تھا اور دوسرا بطور ایندھن کا گودام۔ یہ جھونپڑا میرے آدمیوں کے لئے قطعی محفوظ ثابت ہوتا۔ پچھلا دروازہ کھول کر میں نے ہوا کی آمد و رفت بحال کی۔ پھر باہر نکل کر میں نے سڑک اور اس ہٹ کے درمیان ایک جگہ اپنے چالیس پاؤنڈ وزنی خیمے کے لئے منتخب کی۔ چونکہ یہاں فرنیچر نہ تھا، میں ایک پتھر پر بیٹھ کر اپنے ساتھیوں کی آمد کا انتظار کرنے لگا۔

یہاں چٹانی چھجا پچاس گز چوڑا تھا اور ہٹ اس کے بالکل جنوبی سرے پر تھا۔ گاؤں پہاڑی کی شمالی سرے پر تھا۔ اس لئے گاؤں سے ہٹ کو دیکھا جانا ممکن نہ تھا۔ ابھی پتھر پر بیٹھے ہوئے مجھے دس منٹ ہی گذرے ہوں گے کہ گاؤں کی جانب والی ڈھلوان سے ایک سر نمودار ہوا، پھر دوسرا پھر تیسرا۔ اس خاتون نے فوراً ہی میری آمد کے بارے پورے گاؤں کو بتا دیا تھا۔

ہندوستان میں جب اجنبی ملتے ہیں تو رسم یہ ہوتی ہے کہ وہ پہلے اصل موضوع سے ہٹ کر دنیا بھر کے موضوعات پر سیر حاصل بحث کریں گے۔ اس میں گھریلو، ذاتی معاملات بھی شامل ہوتے ہیں۔ آخر جب کوئی موضوع نہ باقی بچے تو پھر وہ اصل بات شروع کرتے ہیں۔ وہ سوالات جو دنیا بھر میں معیوب سمجھے جاتے ہوں، جیسے کہ شادی شدہ ہیں ؟ اگر ہاں تو کتنے بچے ہیں اور لڑکے کتنے اور لڑکیاں کتنی، اگر شادی نہیں کی تو کیوں ؟ پیشہ اور تنخواہ۔ صرف اس رسم سے واقف افراد ہی اسے برداشت کر سکتے ہیں۔

اکثر سوالات کے جوابات میں نے اس عورت کو پہلے ہی دے چکا تھا اور بقیہ سوالات جو کسی عورت کو مرد سے پوچھنے میں جھجھک ہو سکتی ہے، وہ انہوں نے اب پوچھ لئے۔ اب میرے ساتھی بھی پہنچ گئے تھے۔ انہوں نے چشمے سے پانی بھرا اور خشک لکڑیاں جمع کر کے آگ جلائی اور چائے بنانے لگے۔ اب میں نے ڈبے بند دودھ کھولا۔ میں نے سنا کہ دیہاتی میرے آدمیوں سے پوچھ رہے تھے کہ ہم خشک دودھ کیوں استعمال کر رہے ہیں ؟ تازہ دودھ میں کیا برائی ہے ؟ میرے آدمیوں نے انہیں بتایا کہ حالات خراب ہونے کی وجہ سے تازہ دودھ کا ملنا ممکن نہیں۔ اس لئے ہم لوگ ڈبہ بند دودھ ساتھ لائے ہیں۔ یہ سنتے ہی وہ لوگ ناراضگی کا اظہار کرنے لگے۔ نمبردار نے مجھ سے کہا کہ ڈبہ بند دودھ لانا ان کی ہتک کے مترادف ہے کیونکہ گاؤں بھر کے دودھ میری ملکیت ہیں۔ میں نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور کہا کہ میں چونکہ اس علاقے میں اجنبی ہوں اور پہلی بار آیا ہوں تو مجھے علم نہ تھا۔ اگر وہ لوگ ہماری ضروریات کے لئے تھوڑا سا دودھ الگ کر سکیں تو میں اسے خریدوں گا۔ دودھ کے علاوہ اور کچھ بھی درکار نہیں۔

میرا سامان اب کھل چکا تھا اور اس دوران گاؤں سے مزید افراد بھی آ گئے۔ میں نے اپنے آدمیوں کو بتایا کہ وہ کس جگہ میرا خیمہ نصب کریں۔ تمام دیہاتی دہشت اور خوف سے ایک ساتھ چلائے "خیمے میں رہیں گے ؟”

میں نے کہا "جی”۔

"کیا میں آدم خور کی موجودگی کو بھلا چکا ہوں جو ہر رات اس سڑک سے باقاعدگی سے گذرتا ہے ؟ اگر مجھے ان کے الفاظ پر یقین نہیں تو میں خود چل کر گاؤں کے گھروں کی دیواریں دیکھ لوں جو سڑک کے کنارے بنے ہوئے ہیں۔ شیر اکثر انہیں کھرچتا رہتا ہے۔ اگر شیر نے خیمے کے اندر مجھ پر حملہ نہ بھی کیا تو وہ میرے آدمیوں کو لازمی کھا جائے گا کیونکہ وہ اکیلے ہوں گے۔ ”

اس بات سے میرے ساتھیوں کے کان کھڑے ہوئے اور انہوں نے بھی گاؤں والوں کی ہاں میں ہاں ملائی۔ آخر کار میں کمرے میں سونے پر تیار ہو گیا۔ میرے دونوں ملازمین باورچی خانے اور چھ گڑھوالی ایندھن والے سٹور روم میں سونے تھے۔

چونکہ آدم خور کی بات شروع ہو چکی تھی اس لئے اب میں اس پر مزید بات کر سکتا تھا۔ انہوں نے مجھے وہ درخت دکھایا جس کے نیچے شیر نے اپنا آخری شکار مارا تھا۔ ساتھ ہی وقت اور وہ حالات بتائے جن کے تحت اس عورت کی ہلاکت ہوئی تھی۔ وہ سڑک بھی دکھائی جہاں سے شیر ہر روز رات کو گذرتا تھا۔ یہ سڑک مشرق کی طرف بیتل گھاٹ کی طرف جاتی تھی۔ اس کی ایک شاخ موہن کی طرف جاتی تھی۔ مغرب کی طرف یہ سڑک چکنا کل کی طرف جو دریائے رام گنگا پر واقع تھا۔ سڑک کے مغرب والے حصے کا کچھ ٹکڑا گاؤں سے گذرتا تھا اور پھر نصف میل مزروعہ زمین سے ہوتا ہوا جنوب کی طرف مڑتا تھا اور پہاڑ کے پاس سے ہو کر اس ہٹ کے ساتھ سے گذرتا تھا جہاں ہم اب بیٹھے ہوئے تھے۔ اس کے بعد یہ سڑک سیدھی چکنا کل جاتی تھی۔ کرتکانولہ اور چکنا کل کے درمیان چھ میل کا یہ حصہ خصوصاً انتہائی خطرناک شمار ہوتا تھا اور آدم خور کی آمد کے بعد سے اسے استعمال نہیں کیا گیا تھا۔ بعد میں میں نے دیکھا کہ مزروعہ زمین سے نکل کر یہ سڑک گھنے جنگل سے ہو کر گذرتی ہے۔ یہ جنگل دریا تک پھیلا ہوا تھا۔

کرتکانولہ کی مزروعہ زمین پہاڑی کے شمالی طرف تھی۔ اس کے بعد کئی جگہوں پر چھجے سے بنے ہوئے تھے لیکن درمیان میں گہری کھائیاں بھی تھیں۔ ان میں سب سے نزدیکی چھجا ہٹ سے ہزار گز دور تھا اور وہاں چلغوزے کا ایک درخت موجود تھا۔ دس دن قبل اس درخت کے پاس سے آدم خور نے ایک عورت کو ہلاک کر کے جزوی طور پر کھایا تھا۔ یہاں سے چار میل دور فارسٹ بنگلے میں تین شکاری موجود تھے۔ جب وہ چلغوزے کے درخت پر نہ چڑھ سکے تو مقامی لوگوں نے تین الگ الگ درختوں پر ان کی مچانیں باندھ دیں۔ ہر ایک درخت دوسرے سے سو گز اور لاش سے پچاس گز دور تھا۔ رات ہونے سے قبل یہ شکاری اپنی ملازمین کے ہمراہ مچانوں پر جا بیٹھے۔ چاند کی شروع کی تاریخیں تھیں۔ چاند کے غروب ہو جانے کے بعد دیہاتیوں نے گولیوں کی کئی آوازیں سنیں۔ اگلی صبح جب انہوں نے نوکروں سے پوچھا تو انہوں نے لاعلمی ظاہر کی کہ انہوں نے خود بھی کسی چیز کو نہیں دیکھا تھا کہ جس پر گولیاں چلائی گئی ہوں۔ دو دن بعد ایک گائے ماری گئی۔ یہ شکاری اس پر بھی مچان بنا کر بیٹھے۔ اس بار بھی انہوں نے چاند غروب ہو جانے کے بعد گولیوں کی آوازیں سنیں۔ یہ ناکام کوششیں شیروں کو مزید محتاط بنا دیتی ہیں اور وہ جب تک زندہ رہتے ہیں، ان کا مارا جانا مشکل سے مشکل تر ہوتا جاتا ہے۔

ان دیہاتیوں نے شیر کے بارے ایک عجیب بات بھی بتائی۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ہمیشہ شیر کی آمد سے پہلے جان لیتے ہیں کہ شیر آ رہا ہے۔ اس کی آمد سے قبل ہلکی سی غراہٹیں سنائی دیتی ہیں۔ مزید سوالات سے علم ہوا کہ شیر یہ آواز تب نکالتا ہے جب وہ گھروں کے درمیان سے گذرتا ہے۔ بعض اوقات یہ آواز کچھ دیر کے لئے رک بھی جاتی ہے۔

اس سے میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ:

۱۔ شیر زخمی ہے

۲۔ زخم اس نوعیت کا ہے کہ صرف چلتے وقت تکلیف دیتا ہے۔ اس لئے

۳۔ یہ زخم اس کے کسی پاؤں یا ٹانگ میں ہے

مجھے بتایا گیا کہ شیر کو کسی مقامی شکاری نے زخمی نہیں کیا اور نہ ہی رانی کھیت کے کسی شکاری نے۔ چونکہ آدم خور کئی سال سے سرگرم تھا اس لئے یہ اندازہ تھا کہ یہ زخم ہی اس کے آدم خور بننے کا سبب ہو گا۔ یہ ایک ایسا نکتہ تھا جس کی تصدیق تب ہی ہو پاتی جب شیر مارا جاتا۔

ان لوگوں نے مجھ سے پوچھا کہ میں اس آواز کے بارے اتنا متجسس کیوں ہوں ؟ جب میں نے انہیں بتایا کہ شیر کا ایک پاؤں زخمی ہے جو کسی گولی یا سیہہ کے کانٹے کے سبب ہوا ہے تو انہوں نے سختی سے تردید کی اور کہ انہوں نے شیر کو کئی بار دیکھا ہے اور ہر بار شیر بالکل تندرست اور صحت مند دکھائی دیتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ جتنی آسانی سے شکار کو ہلاک کر کے لے جاتا ہے، یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ شیر ہرگز معذور نہیں۔ تاہم میری بات انہوں نے یاد رکھی اور جب شیر مارا گیا تو انہوں نے مجھے غیب کے حال جاننے والا گردانا۔

رام نگر سے گذرتے ہوئے میں نے تحصیلدار سے کہا تھا کہ وہ میرے لئے دو بچھڑے خرید کر موہن بھجوا دے۔ وہاں سے میرے آدمی انہیں وصول کر لیں گے۔

میں نے ان لوگوں کو بتایا کہ میں ان میں سے ایک بچھڑے کو اس جگہ باندھوں گا جہاں تین روز قبل ایک عورت ہلاک ہوئی تھی اور دوسرا چکنا کل۔ انہوں نے بھی اتفاق کیا کہ ان کے خیال میں اس سے بہتر جگہ اور کوئی نہیں ہو سکتی۔ اندھیرا چھانے والا تھا اور روانگی سے قبل نمبردار نے وعدہ کیا کہ وہ اگلی صبح آس پاس کے تمام دیہاتوں میں میری آمد کی اطلاع بھجوا دے گا۔ وجہ یہ تھی کہ کسی بھی واردات کی صورت میں وقت ضائع کئے بنا وہ مجھے اس کے بارے بتا سکیں۔

کمرے میں پھپھوندی کی بو اب کافی کم ہو گئی تھی لیکن پھر بھی محسوس کی جا سکتی تھی۔ تاہم میں نے اس پر کوئی توجہ نہ دی اور نہا کر کھانا کھانے کے بعد دروازے کے سامنے دو پتھر رکھ کر اسے بند کیا اور تھکن کی وجہ سے فوراً سو گیا۔ میں بہت ہلکی نیند سوتا ہوں اور دو یا تین گھنٹے بعد ہی جنگل میں سے گذرتے ہوئے کسی جانور کی آواز سے جاگ گیا۔ یہ آواز پچھلے دروازے سے آئی تھی۔ میں نے رائفل اور ٹارچ اٹھائی اور پاؤں سے پتھر ہٹا کر باہر نکلا۔ پتھر کے ہٹنے کی آواز سے وہ جانور بھاگ گیا۔ یہ آواز شیر کی بھی ہو سکتی تھی، تیندوے یا سیہہ کی بھی۔ تاہم جنگل اتنا گھنا تھا کہ رات کے وقت مجھے کچھ نہ دکھائی دیتا۔ کمرے میں واپس لوٹ کر میں نے دوبارہ پتھر دروازے کے سامنے رکھے تو مجھے اپنا گلا کچھ خراب سا محسوس ہوا۔ اگلی صبح جب میرے ملازم میرے لئے چائے لے کر آئے تو میں نے دیکھا میرا گلا واقعی خراب تھا۔ اس کی وجہ شاید اس غیر آباد جگہ رہنا تھا۔ یہاں چمگادڑیں چھت سے بکثرت لٹک رہی تھیں۔ میرے نوکر نے بتایا کہ وہ اور اس کا ساتھی تو گلے کی خرابی سے بچ گئے ہیں لیکن چھ گڑھوالی اس بیماری کا شکار ہو چکے ہیں۔ میرے پاس دوائی کے نام پر دو اونس آئیوڈین اور چند کونین کی گولیاں تھیں۔ رائفل کے بکسے میں البتہ کچھ پوٹاشیم پرمیگنیٹ یعنی پنکی کا ایک چھوٹا پیکٹ موجود تھا جو میری بہن نے پچھلی مہم کے لئے دیا تھا۔ یہ پیکٹ رائفل کے تیل سے چکنا ہو رہا تھا لیکن اس میں موجود ڈلیاں قابل استعمال تھیں۔ میں نے برتن میں پانی ابالا اور اس میں کافی ساری ڈلیاں ڈال دیں اور کچھ آئیوڈین بھی ملا دی۔ نتیجتاً جو ملغوبہ بنا، اس سے غرارے کرنے سے ہمارے دانت تو سیاہ ہوئے لیکن گلے کافی بہتر ہو گئے۔

ناشتہ کر کے میں نے موہن کی طرف چار بندے بھیجے تاکہ بچھڑوں کو لے آئیں۔ میں خود آخری واردات کی جگہ کی طرف چل دیا۔ کل رات مجھے جو معلومات ملی تھیں ان کی روشنی میں شیر کے حملے کی جگہ تلاش کرنا مشکل نہ تھا۔ عورت پر حملہ اس وقت ہوا تھا جب وہ کٹی ہوئی گھاس کا گھٹڑ بنا رہی تھی۔ گھاس اور اسے باندھنے والی رسی وہیں پڑی تھیں۔ اس کے علاوہ اس کی دیگر ہمراہیوں کی گھاس بھی ادھر ہی موجود تھی جو شیر کے حملے سے گھبرا کر گاؤں کی طرف بھاگی تھیں۔ مجھے لوگوں نے بتایا تھا کہ عورت کی لاش نہیں مل سکی۔ میرا خیال تھا کہ انہوں نے تلاش کرنے کی کوشش ہی نہیں کی تھی۔ گھاس کے گٹھڑ اور درانتیاں ابھی تک جائے واردات پر موجود تھے۔

یہ عورت ایک لینڈ سلائیڈ کے اوپری حصے پر ماری گئی تھی۔ شیر اسے مار کر نیچے اتر کر گھنی گھاس کے قطعے میں گھسا۔ یہاں شیر کچھ دیر رکا۔ شاید وہ دیگر عورتوں کے دور چلے جانے کا منتظر ہو۔ یہاں سے شیر اس چھجے سے گذرا جو ہٹ سے دکھائی دیتا تھا۔ پھر ایک میل دور جا کر وہ گھنے جنگل میں گھس گیا۔ یہ نشانات اب چار دن پرانے تھے اور ان کا پیچھا کرنے سے کچھ نہ ملتا۔ اس لئے میں ہٹ کی طرف واپس چلا آیا۔ واپسی کی چڑھائی کافی دشوار تھی۔ دوپہر کو جب میں ہٹ میں واپس پہنچا تو میں نے برآمدے میں مختلف حجم کے بے شمار برتن دیکھے۔ یہ سب برتن دودھ سے لبا لب بھرے ہوئے تھے۔ عجیب اتفاق تھا کہ پہلے دودھ کی اتنی شدید قلت تھی اور اب اتنی کثرت۔ دودھ اتنی مقدار میں تھا کہ میں اس سے با آسانی نہا سکتا تھا۔ میرے ملازمین نے بتایا کہ ان کے احتجاج کے باوجود ہر شخص دودھ کا برتن رکھتا ہی چلا گیا اور سب نے یہی کہا کہ وہ ہمیں ڈبہ بند دودھ سے بچانے کے لئے ایسا کر رہے ہیں۔ جب تک ہم ادھر ہیں، وہ ہمیں ڈبے کا دودھ استعمال نہیں کرنے دیں گے۔

مجھے علم تھا کہ میرے آدمی بچھڑوں کو لے کر موہن سے مغرب کے بعد ہی واپس آئیں گے۔ دوپہر کا کھانا کھا کر میں چکنا کل کی سڑک کو دیکھنے چل دیا۔

ہٹ سے پہاڑی بتدریج بلند ہوتی ہوئی پانچ سو فٹ کے قریب اونچی ہو گئی تھی۔ اس کی شکل مثلث نما تھی۔ مزروعہ زمین سے نکل کر یہ سڑک بائیں مڑتی ہے اور ایک بہت عمودی ڈھلوان پہاڑی سے ہوتی ہوئی دوبارہ چھجے نما جگہ پر آ کر دائیں مڑتی ہے اور پھر سیدھی چکنا کل تک اترائی ہے۔ چھجے سے باہر نکل کر سڑک کچھ فاصلے تک ہموار تھی۔ پھر اچانک ڈھلوان سے گذرتی ہوئی نیچے اترتی ہے۔ موڑوں پر یہ البتہ کشادہ ہو جاتی ہے۔

چونکہ میرے پاس پوری سہہ پہر باقی تھی تو میں نے اس سڑک کا تین میل تک بغور جائزہ لیا۔ جب شیر کسی سڑک یا گذر گاہ کو بکثرت استعمال کرتا ہے تو وہ اس کے کنارے اپنے ناخنوں سے گہری خراشیں ڈالتا رہتا ہے۔ یہ نشان ویسے ہی ہوتے ہیں جیسے گھریلو بلیاں ڈالتی ہیں۔ یہ نشانات ایک شکاری کے لئے بہت اہم ہوتے ہیں۔ ان سے درج ذیل معلومات مل سکتی ہیں :

۱۔ یہ جانور نر ہے یا مادہ؟

۲۔ اس کا رخ کس طرف تھا؟

۳۔ اسے یہاں سے گذرے کتنا وقت ہو چکا ہے ؟

۴۔ اس کی جائے رہائش کا اندازاً فاصلہ اور سمت؟

۵۔ اس کے شکار کی نوعیت

۶۔ کیا اس جانور نے حال ہی میں انسانی گوشت کھایا ہے ؟

ان آسانی سے ملنے والی معلومات سے اجنبی علاقے میں آدم خور کے بارے جاننے کے لئے بہت مدد ملتی ہے۔ شیر کے سڑک سے گذرتے وقت کے پگ بھی اہم ہوتے ہیں۔ ان سے کئی طرح کی معلومات مثلاً جانور کی سمت، رفتار، جنس، عمر اور یہ بھی کہ آیا جانور کے تمام پیر سلامت ہیں یا نہیں۔ اگر نہیں تو کس پیر میں نقص ہے۔

یہ سڑک لمبے عرصے سے استعمال نہیں ہوئی تھی اور اس پر چھوٹی اور سخت گھاس اگ آئی تھی۔ ایک دو نم جگہیں چھوڑ کر کہیں بھی پگ نہ دکھائی دیئے۔ ان میں سے ایک نم جگہ چھجے کے نیچے سے گذرتی ہوئی سڑک سے دو یا تین گز دور تھی۔ اس کے پاس ٹھہرے ہوئے سبز رنگ کے پانی کا تالاب تھا۔ ایسے تالاب سانبھر کے پانی پینے کا اہم ذریعہ ہوتے ہیں۔

موڑ کے فوراً بعد ہی میں نے بہت ساری کھرچنے کے نشانات دیکھے۔ یہاں سڑک مڑ کر مزروعہ زمین سے باہر چلی جاتی ہے۔ یہاں سے دو سو گز دور سڑک کافی تنگ ہو کر اس لٹکی ہوئی چٹان کے نیچے سے گذرتی ہے۔ یہ چٹان دس فٹ بلند تھی اور اس کے اوپر دو یا تین گز کا ہموار قطعہ سا تھا۔ اگر گاؤں کی طرف سے آئیں تو یہ جگہ صاف دکھائی دیتی ہے لیکن دوسری طرف سے یہ نظروں سے اوجھل ہی رہتی ہے۔ یہاں بھی کئی جگہوں پر کھرچنے کے نشان تھے۔ ابھی تک مجھے پنجوں کے نشانات نہیں مل سکے تھے۔ پہلے موڑ پر آ کر میں نے شیر کے پگ دیکھے۔ یہاں سے شیر چھلانگ لگا کر گذرا تھا اور نرم مٹی پر اس کے پگ موجود تھے۔ یہ نشانات کل کے تھے اور کچھ مٹ سے گئے تھے۔ تاہم یہ واضح تھا کہ یہ نشانات ایک بڑے اور پرانے نر شیر کے ہیں۔

جب آپ ایسے علاقے میں ہوں جہاں آدم خور مصروف عمل ہو تو پیش قدمی بہت سست ہو جاتی ہے۔ راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ چاہے وہ جھاڑی ہو، پتھر یا زمین میں موجود کوئی چھوٹا سا گڑھا جس میں آدم خور کی شکل میں موت چھپی ہونے کا امکان ہو، بغور دیکھ بھال کر عبور کئے جاتے ہیں۔ اگر ہوا نہ چل رہی ہو، جیسا کہ اب تھا، تو سامنے کے علاوہ پیچھے اور دائیں بائیں بھی دیکھنا پڑتا ہے۔ مزید برآں مجھے یہاں مئی کے وسط میں چار سے پانچ ہزار فٹ کی بلندی پر پھولوں کے بے شمار غنچے دکھائی دیئے جو میرے لئے دل چسپی کا خاص مرکز تھے۔ ہر دوسرا درخت ایسے لگتا تھا جیسے وہ ان پھولوں کو چیر کر باہر نکلا ہوا ہو۔

یہاں میں نے پہلی بار ایک ایسا پرندہ دیکھا جو بعد ازاں بمبئی نیچر ہسٹری میوزیم کے عملے نے پہاڑی گریگ ماؤنٹین کے نام سے شناخت کیا۔ یہ پرندہ خاکستری رنگ کا ہے۔ سینے پر گلابی رنگ کا ہلکا سا نشان ہے۔ اس کی جسامت روزی پیسٹر سے ذرا سی چھوٹی ہے۔ اس کے بچے بھی اس کے ساتھ تھے۔ ہر بالغ کے ساتھ چار بچے اونچے درخت کی خشک ٹہنیوں پر قطار بنائے بیٹھے تھے۔ والدین بار بار دو دو تین تین سو گز کی لمبی اڑان بھر کر کیڑے پکڑ لاتے۔ ان کی اڑان کی رفتار حیرت انگیز تھی۔ مجھے یقین ہے کہ ہندوستان میں کوئی اور پرندہ بشمول مہاجر پرندے جو سردیوں میں ادھر آٹے ہیں، اس سے زیادہ تیز نہیں اڑ سکتے۔ ان کی ایک اور دل چسپ خوبی ان کی قوت بصارت تھی۔ کئی بار یہ کئی سو گز تک سیدھی لائن میں اڑتے اور پھر کیڑے پکڑ کر لوٹتے تھے۔ ان کی تیز رفتار کے باعث یہ بھی کہنا ممکن نہیں کہ یہ پرندے کسی کیڑے کا پتنگے کے پیچھے اتنی دور تک گئے ہوں گے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ پرندے جتنے فاصلے سے کیڑے دیکھ پاتے ہیں، کوئی انسان طاقتور ترین دور بین سے بھی نہیں دیکھ پاتا۔

اپنے عقب کا خیال رکھتے، نشانات دیکھتے، فطرت سے لطف اندوز ہوتے اور جنگل کی آوازیں سنتے، جن میں سانبھر کی میل بھر دور موہن کی طرف سے آواز بھی تھی، جو دوسروں کو شیر کی موجودگی سے آگاہ کر رہا تھا، کاکڑ اور لنگور چکناکل سڑک سے جو دوسروں کو کسی تیندوے کی موجودگی سے آگاہ کر رہے تھے، وقت تیزی سے گذرتا رہا۔ سورج غروب ہوتے وقت میں اس چٹانی چھجے کے پاس پہنچا جو راستے کے اوپر جھکا ہوا تھا۔ اس بار اس تک پہنچتے ہی میں نے محسوس کیا کہ اس پورے علاقے میں، جہاں میں اب تک گھومتا رہا ہوں، اس سے زیادہ خطرناک کوئی اور جگہ نہیں۔ اگر آدم خور اس پر لیٹا ہوا ہو تو گھاس میں پوری طرح چھپا ہوا ہو گا۔ اس کو صرف اتنا انتظار کرنا ہوتا کہ آنے یا جانے والا بندہ جونہی یہاں سے ایک بار گذرے۔ پھر وہ پوری طرح آدم خور کے رحم و کرم پر ہوتا۔ واقعی یہ انتہائی خطرناک جگہ تھی اور ہمیشہ اس سے محتاط رہنا بہتر تھا۔

ہٹ میں پہنچا تو دونوں بچھڑے پہنچ چکے تھے۔ لیکن اندھیرا ہونے کے سبب میں نے انہیں بندھوانا اگلے دن تک کے لئے ملتوی کر دیا۔

میرے ملازمین نے کمرے میں سارا دن آگ جلائے رکھی تھی جس سے کمرے کی ہوا میٹھی اور صاف ہو گئی تھی۔ پھر بھی میں نے دوبارہ اسی بند کمرے میں رات گذارنے کا خطرہ مول لینا مناسب نہ سمجھا۔ میں نے انہیں کہا کہ وہ سونے سے قبل دو بڑی جھاڑیاں کاٹ کر دروازے میں لگا دیں۔ اس رات جنگل بالکل خاموش رہا۔ اگلی صبح پرسکون نیند سے بیدار ہوا تو میرا گلا کافی بہتر محسوس کر رہا تھا۔

صبح کا وقت میں نے مقامی لوگوں سے باتیں کرتے ہوئے گذارا۔ وہ مجھے آدم خور کی کہانیاں سناتے رہے اور یہ بھی کہ کس کس طرح مختلف شکاریوں نے اسے مارنے کی کوششیں کی تھیں۔ دوپہر کے کھانے کے بعد میں اٹھا اور پہلا بچھڑا لا کر اس جگہ باندھا جہاں سے شیر عورت کو اٹھائے ہوئے گذرا تھا۔ دوسرے بچھڑے کو اس موڑ پر جہاں شیر گذرا تھا۔

اگلی صبح دونوں بچھڑے آرام سے سو رہے تھے اور میری ڈالی ہوئی گھاس کا بڑا حصہ صاف ہو چکا تھا۔ میں نے ان کے گلے میں گھنٹیاں باندھی ہوئی تھیں۔ ان تک پہنچتے ہوئے جب میں نے کوئی آواز نہ سنی تو سمجھا کہ وہ مارے گئے ہیں۔ لیکن وہ سو رہے تھے۔ اس شام میں نے موڑ پر بندھے ہوئے دوسرے بچھڑے کو اس جگہ باندھا جہاں سڑک چٹانی چھجے سے باہر آتی تھی۔ کھڑے پانی کا چھوٹا سا تالاب بھی یہاں سے نزدیک تھا۔

شیر کو مارنے کے عمومی طریقے یہ ہیں :

۱۔ مچان باندھ کر

۲۔ ہانکا کرا کے

دونوں صورتوں میں نو عمر بچھڑے استعمال ہوتے ہیں۔ اس کے بعد اس علاقے کا تعین کیا جاتا ہے جو مچان یا ہانکے کے لئے موزوں ہو۔ شام ڈھلے اس جگہ بچھڑا باندھ دیا جاتا ہے۔ یہ رسی اتنی مضبوط ہوتی ہے کہ بچھڑا نہیں توڑ پاتا لیکن شیر اسے با آسانی توڑ لیتا ہے۔ اس کے بعد جب شیر شکار کو لے جاتا ہے تو دیکھا جاتا ہے کہ آیا مچان بہتر رہے گی یا پھر ہانکا۔

موجودہ صورت میں یہ دونوں ہی طریقے ناقابل عمل تھے۔ میرا گلا کافی بہتر ہو چکا تھا لیکن اب بھی زیادہ دیر کھانسے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ اس گھنے جنگل میں ہانکے کے لئے ہزار آدمی بھی ناکافی رہتے۔ میں نے سوچا کہ براہ راست ہی گھات لگائی جائے۔ اسلئے میں نے دونوں بچھڑوں کو ایک ایک انچ موٹی رسی سے باندھا اور اگلے چوبیس گھنٹے کے لئے انہیں اکیلا چھوڑ دیا۔

باری باری صبح کے وقت جب اتنی روشنی ہو جاتی کہ میں گولی چلا سکتا، دونوں بچھڑوں کی طرف چھپ کر جاتا۔ ان علاقوں میں شیر چاہے وہ آدم خور یا عام، دن اور رات، یکساں شکار کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ آس پاس کے گاؤں سے بھی کسی خبر کا انتظار رہتا، گلے کی دیکھ بھال کرتا اور آرام بھی جاری رہتا۔ میرے چھ گڑھوالی ساتھی بچھڑوں کی دیکھ بھال اور ان کے چارہ پانی کا خیال رکھتے۔

چوتھی شام سورج غروب ہوتے وقت میں واپس آ رہا تھا تو جب میں اس چٹانی چھجے سے تیس گز دور پہنچا تو مجھے محسوس ہوا کہ میں خطرے میں ہوں۔ یہاں آمد کے بعد پہلی بار مجھے خطرہ محسوس ہوا تھا۔ مجھے یہ بھی محسوس ہوا کہ یہ خطرہ اسی چٹانی چھجے پر موجود ہے۔ پانچ منٹ تک میں رکا رہا۔ میری آنکھیں چھجے پر کسی بھی حرکت کو دیکھنے کے لئے تیار تھیں۔ اس فاصلے سے پلک بھی جھپکنے کا عمل میری نظروں سے پوشیدہ نہ رہ سکتا تھا لیکن وہاں اتنی سی بھی حرکت نہ دکھائی دی۔ میں دس قدم مزید بڑھا اور پھر کئی منٹ کے لئے رک گیا۔ کسی بھی حرکت کا دکھائی نہ دینا اس بات کی ضمانت نہ تھا کہ شیر وہاں موجود نہیں۔ اصل سوال یہ تھا کہ اب کیا کرنا ہو گا؟ جیسا کہ میں نے پہلے آپ کو بتایا، یہ کافی ڈھلوان پہاڑی تھی۔ اس میں جگہ جگہ بڑی چٹانیں جھکی ہوئی تھیں۔ ہر طرف گھنی اور لمبی گھاس اور درختوں کے گھنے جھنڈ موجود تھے۔ اگر ابھی کچھ دن باقی ہوتا تو میں قدرے پیچھے جا کر شیر کے اوپر سے اس پر گولی چلانے کی کوشش کرتا۔ ابھی اس وقت میرے پاس صرف نصف گھنٹے جتنی روشنی باقی تھی اور میل بھر کا سفر بھی۔ اس وقت سڑک کو چھوڑنا سخت نادانی ہوتی۔ سیفٹی کیچ ہٹا کر اور رائفل کو کندھے سے لگا کر میں آگے بڑھا۔

یہاں سڑک تقریباً آٹھ فٹ چوڑی تھی۔ میں نے اس کے بیرونی سرے پر کیکڑے کی طرح چلنا شروع کر دیا۔ مجھے قوی امید تھی کہ اگر شیر اسی جگہ لیٹا رہا جہاں وہ تھا تو چھجے سے آگے جا کر میں اسے دیکھ بھی لیتا اور ممکن تھا کہ گولی بھی چلا سکتا۔ تاہم جب شیر میری محتاط پیش قدمی کی وجہ سے حملہ نہ کر سکا تو میرے چھجے سے نکلتے ہی اوپر سے غراہٹ کی آواز آئی اور پھر نزدیکی موڑ سے دو سانبھر بولے۔

شیر بچ نکلنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ تاہم میں بھی اپنی جان بچا چکا تھا۔ پچھتانے کا کیا سوال۔ جہاں سانبھر بولا تھا، مجھے یقین تھا کہ اس جگہ سے شیر نے بچھڑے کی گھنٹی ضرور سنی ہو گی۔ یہ بچھڑا کھڑے پانی کے تالاب کے ساتھ بندھا ہوا تھا۔

جب میں مزروعہ زمین تک پہنچا تو دیکھا کہ کافی لوگ میرا انتظار کر رہے ہیں۔ انہوں نے کاکڑ اور سانبھر کی آوازیں سنی تھیں۔ جب میں نے انہیں بتایا کہ میں شیر کو نہیں دیکھ سکا تو وہ کافی مایوس ہوئے۔ میں نے انہیں تسلی دی کہ کل صبح کافی بہتر امکانات موجود ہیں۔

 

 

 

 

(۴)

 

رات کو آندھی آئی اور پھر بارش بھی ہوئی تھی۔ ہمارے ہٹ کی چھت رستی تھی۔ تاہم میں نے ایک ایسی جگہ تلاش کر لی جہاں سے پانی کم رس رہا تھا۔ اس جگہ اپنا بستر گھسیٹ کر میں آرام سے سو گیا۔ اگلی صبح جب بیدار ہوا تو مطلع بالکل صاف تھا۔ بارش نے حدت اور گرد و غبار سب دھو دیا تھا۔ گھاس اور پتے سب طلوع ہوتے ہوئے سورج کی روشنی میں چمک رہے تھے۔

عام حالات میں میں پہلے بچھڑے کی طرف چکر لگاتا لیکن اب مجھے دوسرے بچھڑے کی طرف جانا تھا۔ میں نے اپنے آدمیوں کو ہدایت کی کہ روشنی اچھی طرح پھیل جانے کے بعد وہ نزدیکی بچھڑے کی دیکھ بھال کے لئے جائیں۔ پھر میں نے اپنی اعشاریہ ۴۰۰/۴۵۰ بور کی رائفل کو اچھی طرح صاف کیا اور تیل وغیرہ دے کر پھر میں چکنا کل کی طرف نکلا۔ یہ رائفل میری برسوں کی رفیق اور قابل اعتماد تھی۔

کل شام مجھے چھجے کے نیچے سے گذرتے ہوئے جو دقت ہوئی تھی، اس کا عشر عشیر بھی مجھے اب نہ محسوس ہوئی۔ میں یہاں سے آرام سے گذر گیا۔ اب میں نے شیر کے پگوں کی تلاش شروع کر دی کیونکہ بارش کی وجہ سے زمین نرم ہو چکی تھی۔ سب سے پہلے نمدار جگہ پر مجھے کوئی پگ نہ ملا۔ یہ جگہ دوسرے بچھڑے سے نزدیک تھی۔ یہاں نرم مٹی پر میں نے شیر کے پگ دیکھے جو رات کے طوفان سے پہلے کے تھے۔ یہ نشانات اسی چھجے کی طرف جا رہے تھے۔ اس جگہ کے پاس کھڈ کی طرف ایک تین فٹ بڑا پتھر تھا۔ پچھلی بار میں نے سوچا تھا کہ اگر میں اس پتھر پر چڑھوں تو مجھے دوسرا بچھڑا موڑ کے پار دکھائی دے سکتا ہے۔ یہاں سے بچھڑا چالیس گز دور باندھا گیا تھا۔ اس بار اس پتھر پر چڑھ کر میں آہستہ آہستہ اوپر اٹھا۔ بچھڑا غائب تھا۔ یہ نئی صورتحال میرے لئے قابل قبول نہیں تھی۔ میں نے شیر کو بچھڑا لے جانے سے روکنے کے لئے ایک انچ موٹی رسی استعمال کی تھی تاکہ درخت پر یا زمین پر چھپ کر شیر کو ہلاک کر سکوں۔ تاہم شیر بچھڑے کو لے گیا تھا۔

میں بہت باریک تلے والے ربر سول کے جوتے پہنے ہوئے تھا۔ آہستگی سے چلتے ہوئے میں اس درخت تک پہنچا جہاں بچھڑا بندھا ہوا تھا۔ یہاں میں نے زمین کا بغور جائزہ لیا۔ بچھڑا طوفان سے قبل مارا گیا تھا۔ تاہم شیر اسے بارش تھمنے کے بعد اٹھا لے گیا تھا۔ لے جانے سے قبل شیر نے لاش کو چکھا تک نہ تھا۔ میں نے چار رسیوں کو بل دے کر بچھڑا باندھا تھا۔ شیر نے تین رسیاں کتر ڈالی تھیں اور ایک رسی ٹوٹی ہوئی تھی۔ اب اس کا رخ موہن کے سامنے والی پہاڑی کی طرف تھا۔ میرے سارے منصوبے الٹ پلٹ ہو گئے تاہم بارش کی وجہ سے بہت مدد ملی۔ کل تک خشک پتوں کا انبار اب بالکل نرم قالین بن چکا تھا۔ ان پر چلتے ہوئے بالکل بھی آواز نہ پیدا ہوتی تھی۔ اگر میں احتیاط سے کام لیتا تو شیر کے نزدیک آرام سے پہنچ کر اسے ٹھکانے لگا سکتا تھا۔

ایسی صورتحال میں جنگل داخل ہوتے وقت جب متواتر کئی گولیاں چلانے کی ضرورت پڑے، میں ہمیشہ رائفل کو اچھی طرح چیک کر لیتا ہوں کہ بھری ہوئی ہے یا نہیں۔ خطرے کے وقت لبلبی دبا کر یہ دیکھنا آیا رائفل بھری ہوئی ہے یا نہیں، مہلک بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ مجھے یقین تھا کہ چٹانی چھجے سے گذرتے ہوئے میں نے رائفل بھر لی تھی۔ پھر بھی میں نے کارتوس نکالے۔ ایک کارتوس کا رنگ کچھ اڑا ہوا تھا اور اس پر گڑھے سے بنے ہوئے تھے۔ میں نے اسے دوسرے کارتوس سے بدلا اور پھر سے رائفل کو بھرا۔ پھر سیفٹی کیچ کو کئی بار اوپر نیچے کر کے تسلی کی اور پھر چل پڑا۔ میں کبھی بھی بھرا ہوا ہتھیار سیفٹی کیچ کے بغیر اٹھا کر نہیں چلتا۔ اب میں گھسیٹنے کے نشانات کے تعاقب میں تھا۔

"گھسیٹ” لفظ سے شاید کچھ غلط فہمی پیدا ہو۔ گھسیٹنے سے مراد وہ نشانات ہوتے ہیں جو شیر اپنے شکار کو لے جاتے وقت بناتا ہے (ایک بار میں نے خود اپنی آنکھوں سے شیر کو ایک پوری طرح جوان گائے اٹھا کر چار میل دور لے جاتے دیکھا ہے )۔ شیر جانور کو حقیقتاً گھسیٹ کر نہیں لے جاتا بلکہ عموماً اٹھا کر لے جاتا ہے۔ تاہم اگر لاش بہت بھاری ہو تو شیر اسے چھوڑ جاتا ہے۔ جانور کے حجم اور اس کے اٹھانے کے طریقے سے بننے والے نشانات مدھم بھی ہو سکتے ہیں اور واضح بھی۔ مثلاً اگر شیر کا شکار سانبھر ہے اور شیر نے اسے گردن سے پکڑا ہوا ہے تو سانبھر کی پچھلی ٹانگیں زمین پر گھسٹنے کے صاف نشانات چھوڑتی ہیں۔ اسی طرح اگر سانبھر کو شیر کمر سے اٹھائے تو عموماً بہت مدھم نشانات بنتے ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی نشان نہ بنے۔

موجودہ صورتحال میں شیر بچھڑے کو گردن سے پکڑ کر لے گیا تھا۔ اس طرح بچھڑے کی پچھلی ٹانگیں زمین پر گھسٹنے کے صاف نشانات چھوڑ گئی تھیں۔ سو گز تک شیر سیدھا پہاڑی پر چڑھا۔ آگے چل کر چکنی مٹی کا ایک کنارہ آیا۔ اس کنارے کو پھلانگنے کی کوشش میں شیر کا پاؤں پھسلا اور بچھڑا اس کی گرفت سے نکل کر تیس یا چالیس گز نیچے ایک درخت سے ٹکرا کر رک گیا۔ اس بار شیر نے اسے کمر سے اٹھایا۔ اب بچھڑے کا پیر کبھی کبھار ہی زمین سے لگتا تھا۔ تاہم اس کا پیچھا کرنا اب بھی مشکل نہ تھا۔ اس طرح گرنے سے عارضی طور پر شیر کو سمتیں بھول گئیں۔ ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے شیر کو علم نہ ہو کہ اسے کس طرف جانا ہے۔ پہلے وہ دو سو گز دائیں طرف چلا پھر سو گز سیدھا نیچے اتر کر بانس کے جھنڈ میں پہنچا۔ یہاں وہ کافی وقت گذار کر پھر بائیں جانب اترا اور سیدھا پہاڑی کی طرف چند سو گز چلا حتیٰ کہ ایک بڑی چٹان اس کے سامنے آ گئی۔ یہ چٹان اوپری طرف سے زمین سے ملی ہوئی اور دوسری طرف بیس فٹ گہری کھڈ سے جڑی تھی۔ اگر یہاں کوئی غار یا گڑھا ہوتا تو بلا شبہ شیر شکار کو لے کر سیدھا یہاں آ رکتا۔ اب میں گھسٹنے کے نشانات سے ہٹ کر براہ راست اس چٹان پر چڑھا۔ ساتھ ہی ساتھ میں دائیں بائیں بھی بغور دیکھتا رہا۔ چٹان کے دوسرے سرے پر پہنچ کر مجھے مایوسی ہوئی کہ یہاں چٹان سیدھی پہاڑی سے ملی ہوئی تھی۔ یہاں کوئی غار یا گڑھا نہ تھا کہ جہاں شیر ہوتا۔

یہاں سے جنگل کا اچھا منظر دیکھنے کو مل رہا تھا۔ یہ جگہ شیر کے اچانک حملے سے بھی محفوظ تھی۔ میں بیٹھ گیا۔ جونہی میں بیٹھا، چالیس یا پچاس گز دور مجھے ایک سرخ اور سفید رنگ کی چیز گھاس میں چھپی ہوئی دکھائی دی۔ اگر آپ جنگل میں شیر کی تلاش میں ہیں تو ہر سرخ چیز جو نظر آئے، شیر لگتی ہے۔ یہاں تو مجھے نہ صرف شیر کا لال رنگ بلکہ اس کی سفید دھاریاں بھی دکھائی دے رہی تھیں۔ کافی دیر تک میں سے دیکھتا رہا۔ اچانک ہی انکشاف ہوا کہ یہ شیر نہیں بلکہ بچھڑے کی لاش ہے۔ سرخ رنگ خون کی وجہ سے اور سفید دھاریاں اس کی پسلیاں تھیں جو کھال کو پھاڑ کر باہر نکل آئی تھیں۔ میں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ میں نے عجلت میں گولی نہ چلا دی تھی۔ میرے ایک دوست نے ایک بہت عمدہ شیر کو مارنے کا سنہری موقع اسی طرح کی صورتحال میں بچھڑے کی لاش پر دو گولیاں چلا کر ضائع کر دیا تھا۔ خوش قسمتی سے ان کا نشانہ بہت عمدہ تھا۔ ان کے دو بندے جو مچان باندھنے اس جگہ کے قریب تھے، بچ گئے۔

اگر شیر کو چھیڑا نہ گیا ہو اور اس کا شکار کھلے عام پڑا ہو تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ شیر کہیں قریب ہی چھپ کر لیٹا ہوا ہے تاکہ گدھوں اور دوسرے مردار خوروں کو دور رکھ سکے۔ اگر شیر دکھائی نہ دے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ شیر موجود ہی نہیں۔

شیروں کو مکھیاں بہت تنگ کرتی ہیں اور وہ ایک جگہ نہیں رک کر رہ سکتا۔ میں نے اسی جگہ رک کر شیر کا انتظار کرنے کا فیصلہ کیا۔ ابھی میں نے یہ سوچا ہی تھا کہ میرے گلے میں سرسراہٹ شروع ہو گئی۔ جنگل یا چرچ میں ہم سانس روک کر یا تھوک بار بار نگل کر کھانسی روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہاں کوئی طریقہ نہ چلا۔ سرسراہٹ اتنی بڑھی کہ کھانسنے کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا۔ میں نے کوشش کی کہ کھانسنے کے لئے لنگور کی آواز نکالوں۔ آوازوں کو لکھ کر بتانا آسان نہیں ہوتا۔ لیکن پھر بھی کچھ اس طرح کی آواز تھی: "کھوک، کھوک، کھوک”۔ یہ آواز تھوڑے تھوڑے وقفے سے جاری رہتی ہے اور پھر "کھر کھررر” کے ساتھ ختم ہو جاتی ہے۔ تمام لنگور شیر کو دیکھ کر اسی طرح کی آواز تو نہیں نکالتے لیکن ان پہاڑی علاقوں کے لنگور یہ آواز نکالتے ہیں۔ یہ آواز شیر نے بلاشبہ ہر روز کئی بار سنی ہو گی اور اس پر کبھی توجہ نہ دیتا۔ ایسی ہنگامی حالت میں میری آواز سو فیصد تو لنگور سے مشابہ نہ تھی لیکن پھر بھی اس سے میرے حلق کی سرسراہٹ ختم ہو گئی۔

نصف گھنٹے تک میں اسی طرح بیٹھا رہا کہ کسی بھی حرکت کو دیکھ سکوں اور جانوروں کی آوازیں سن سکوں۔ جب مجھے یقین ہو گیا کہ شیر موجود نہیں تو میں چٹان سے نیچے اتر کر بچھڑے کی طرف بڑھا۔

 

 

 

 

(۵)

 

میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ ایک وقت میں شیر کتنا کھا سکتا ہے لیکن یہ جانتا ہوں کہ شیر سانبھر کو دو دن میں، بھینس کو تین دن میں ختم کر سکتا ہے۔ شاید چوتھے دن کے لئے بھی کچھ بچ جائے۔

یہ بچھڑا پوری طرح جوان تو نہ تھا لیکن اسے کسی بھی طرح چھوٹا نہیں کہہ سکتے۔ شیر نے اسے تقریباً نصف کھا لیا تھا۔ اتنا پیٹ بھرنے کے بعد میرے اندازے کے مطابق شیر زیادہ دور نہ جا پاتا۔ زمین ابھی گھنٹہ دو گھنٹے نم رہتی اور شیر کا پیچھا کرنا آسان ہوتا۔

لاش کے آس پاس بے شمار پگ تھے۔ ایک لمبا چکر لگا کر میں نے شیر کی روانگی کے پگ دیکھ لئے۔ نرم پنجوں سے بننے والے پگ کھروں سے مدھم ہوتے ہیں۔ تاہم لمبے تجربے کے بعد یہ اتنا ہی آسان ہو جاتا ہے جتنا کہ شکاری کتا شکار کی بو کا پیچھا کرتا ہے۔ سائے کی طرح خاموشی اور احتیاط سے میں آگے بڑھا۔ سو گز دور جا کر مجھے ایک ہموار قطعہ دکھائی دیا۔ یہ بیس فٹ چوڑا اور بیس فٹ ہی لمبا تھا۔ اس پر خوش بو دار گھاس اگی ہوئی تھی۔ گھاس ان جگہوں سے دبی ہوئی تھی جس پر شیر لیٹا ہوا تھا۔

ابھی میں یہ نشان دیکھ ہی رہا تھا کہ شیر کے قد و قامت کا اندازہ لگا سکوں کہ گھاس پھر سے سیدھی ہونے لگی۔ یقیناً شیر منٹ بھر ہی پہلے یہاں سے اٹھا تھا۔

شیر شکار کو شمال سے نیچے لایا تھا۔ اسے چھوڑ کر وہ مغرب کی طرف گیا۔ یہاں وہ چٹان، شکار اور میری موجودہ پوزیشن ایک تکون کی طرح تھیں۔ ایک سرا چالیس گز اور باقی دو سرے دو دو سو گز کے تھے۔

گھاس کو اٹھتے دیکھ کر مجھے پہلا خیال یہی آیا کہ شیر مجھے آتا دیکھ کر اٹھا ہے۔ تاہم یہاں سے وہ چٹان اور بچھڑے کی لاش دکھائی نہ دیتی تھی اور میں نے پیش قدمی میں خاصی احتیاط کی تھی۔ پھر شیر کیوں اٹھا؟ میری پشت پر چمکتا ہوا سورج اس کا جواب تھا اور اب صبح نو بجے ہی سے اس کی گرمی ناقابل برداشت ہوتی جا رہی تھی۔ سورج درختوں سے چند ہی منٹ پہلے اوپر آیا تھا اور اس جگہ اس کی دھوپ پڑنے لگی تھی۔ شیر کو جب گرمی لگی اور وہ میری آمد سے ذرا پہلے اٹھ کر کسی چھاؤں کی تلاش میں چلا گیا۔

جیسا کہ میں نے پہلے بتایا، گھاس کا یہ قطعہ بیس مربع فٹ کا تھا۔ اس کے ایک طرف شمالاً جنوباً ایک درخت گرا ہوا تھا۔ اس درخت کا رخ میرے سامنے کی طرف تھا۔ یہ درخت چار فٹ موٹا تھا اور گھاس کے سرے پر تھا۔ میں اس وقت گھاس کے درمیان میں موجود تھا۔ درخت مجھ سے دس فٹ دور تھا۔ جڑوں کا رخ پہاڑی کی طرف تھا اور شاخیں میری طرف۔ اس کے پیچھے پہاڑی تقریباً زاویہ قائمہ بنا رہی تھی۔ یہاں سے تیس گز دور پہاڑی میں کھڈ تھا جو گھنے جنگل کی طرف جا رہا تھا۔

اگر میرا یہ اندازہ درست تھا کہ شیر دھوپ اور گرمی کی وجہ سے اٹھا ہے تو وہ لازما سائے کی تلاش میں اس درخت کے پیچھے گیا ہو گا۔ اس کی تصدیق کرنے کے لئے مجھے تھوڑا سا آگے بڑھ کر درخت کے اوپر سے جھانک کر دیکھنا پڑتا۔ کئی سال پرانی "پنچ” نامی رسالے میں چھپی ہوئی ایک تصویر مجھے یاد آ گئی۔ ایک شکاری شیر کی تلاش میں چٹان کے نیچے سے گذر رہا تھا۔ سر اوپر اٹھاتے ہی اس نے دیکھا کہ شیر اسے گھور رہا ہے۔ تصویر کے نیچے درج تھا کہ "شیر کی تلاش میں جاتے وقت توقع رکھیں کہ کسی بھی وقت شیر سے ملاقات ہو سکتی ہے "۔ یہاں فرق صرف اتنا سا تھا کہ مجھے اوپر کی بجائے نیچے دیکھنا تھا۔ باقی سب کچھ مشترک تھا۔

انچ انچ کر کے میں درخت کی طرف بڑھا۔ پانچ فٹ آگے جا کر میں نے دیکھا کہ ایک کالی اور پیلی سی چیز دکھائی دے رہی ہے۔ تین انچ لمبی یہ چیز چٹانی سرے کی طرف تھی جو کہ جنگلی جانوروں کی بنائی ہوئی پگڈنڈی تھی۔ منٹ بھر میں اسے دیکھتا رہا۔ یہ ساکت تھی۔ حتیٰ کہ مجھے پورا یقین ہو گیا کہ یہ شیر کی دم کا سرا ہے۔

اگر دم کا سرا میری مخالف سمت تھا تو یقیناً سر میری طرف ہوتا۔ دم کا یہ سرا کوئی بیس فٹ دور تھا۔ شیر کی آٹھ فٹ کی جسامت ملا کر اس کا جسم مجھ سے بارہ فٹ دور ہوتا۔ یعنی شیر درخت کے پیچھے چھپا ہوا جست لگانے کے لئے تیار ہو گا۔ پھر بھی مجھے بہت آگے جا کر درخت کے اوپر سے جھانک کر دیکھنا پڑتا کہ کس جگہ شیر کو گولی مارنا بہتر رہے گا۔ زندگی میں پہلی بار مجھے سیفٹی کیچ استعمال کرنے کی عادت پر غصہ آیا۔ میری اعشاریہ ۴۰۰/۴۵۰ بور کی رائفل کا سیفٹی کیچ حرکت کرتے وقت واضح طور پر کلک کی آواز پیدا کرتا تھا۔ اس وقت ہلکی سی آہٹ سے بھی شیر حملہ کرنے کی بجائے دوسری جانب سے فرار ہو جاتا۔

انچ انچ کر کے میں آگے بڑھتا رہا حتیٰ کہ شیر اس کی پوری دم اور پھر پچھلی ٹانگیں دکھائی دیں۔ جونہی اس کا پچھلا دھڑ دکھائی دیا، میرا دل چاہا کہ خوشی سے نعرہ لگاؤں۔ شیر چھلانگ لگانے کے لئے تیار نہیں بلکہ آرام سے سو رہا تھا۔ چونکہ درخت پر اس کے لئے دو فٹ جتنی ہی جگہ تھی، اس نے پچھلی ٹانگیں پھیلا کر پیچھے موجود درخت سے ٹکائی ہوئی تھیں۔ ایک فٹ اور آگے بڑھا تو مجھے شیر کا پیٹ دکھائی دیا۔ اس کی حرکت سے ظاہر ہو رہا تھا کہ شیر آرام سے سو رہا ہے۔ اب میں زیادہ تیزی سے آگے بڑھا اور پھر میں نے اس کے کندھے اور پھر سارا جسم دیکھا۔ اس کے سر کی پشت گھاس کے ٹکڑے پر تھی اور درخت کے تنے سے تین چار فٹ دور۔ اس کی آنکھیں بند تھیں اور ناک آسمان کی طرف تھا۔

رائفل سے اس کی پیشانی کا نشانہ لیتے ہوئے میں نے لبلبی دباتے ہوئے سیفٹ کیچ ہٹایا۔ مجھے قطعی اندازہ نہ تھا کہ اس کا کیا اثر ہو گا۔ تاہم تجربہ کامیاب رہا۔ اتنے قریب سے بھاری رائفل کی گولی لگی مگر اس کا بال بھی نہ ہلا۔ میں نے دوسری گولی چلائی۔ شیر اسی حالت میں رہا۔ فرق صرف اتنا تھا کہ اس کے پیٹ کا پھولنا پچکنا بند ہو گیا تھا اور ماتھے کے دو ننھے ننھے سوراخوں سے خون بہہ رہا تھا۔

مجھے اندازہ نہیں کہ شیر کا قرب دوسروں پر کیسے اثر کرتا ہے لیکن میرا سانس ہمیشہ پھول جاتا ہے۔ اس کی وجہ خوف اور جوش دونوں ہی ہیں۔ اس کے فوراً بعد آرام کرنے کی طلب ہوتی ہے۔ میں اسی ٹوٹے ہوئے درخت کے تنے پر بیٹھ گیا اور سیگرٹ سلگا لیا۔ گلا خراب ہونے کی وجہ سے کئی دن سے میں سیگرٹ پینا چھوڑے ہوئے تھا۔ اب میں نے ذہن کو آزاد چھوڑ دیا۔ ہر کام جب اچھے طریقے سے مکمل ہو جائے تو بہت اطمینان ملتا ہے۔ اس بار بھی ایسا ہی ہوا۔ میری یہاں آمد کی وجہ آدم خور کی ہلاکت تھی۔ دو گھنٹے قبل سڑک چھوڑنے سے لے کر سیفٹی کیچ ہٹانے تک بشمول لنگور کی آواز، سب کام بالکل بہترین انداز میں ہوئے تھے۔ اس وقت میں وہی کیفیت محسوس کر رہا تھا جو کیفیت کوئی مصنف اپنی کتاب کی تکمیل پر محسوس کرتا ہے۔ ایسی کتاب جس کا باب در باب اس کی توقع کے مطابق آگے بڑھتا چلا گیا ہو۔ تاہم میری موجودہ صورتحال میں اختتام اتنا تسلی بخش نہ تھا کیونکہ میں نے اس جانور کو سوتی ہوئی حالت میں پانچ فٹ دور سے ہلاک کیا تھا۔

میرے ذاتی احساسات شاید آپ کو دل چسپ نہ محسوس ہوں۔ تاہم یہ بات ملحوظ رہے کہ آدم خور کا شکار کوئی کرکٹ کا کھیل نہیں۔ میں آپ کے سامنے وہ دلائل پیش کرتا ہوں جو میں نے خود کو مطمئن کرنے کے لئے دیئے۔ امید ہے کہ آپ کو بھی یہ دلائل قائل کر لیں گے :

۱۔ شیر آدم خور تھا، اس کی زندگی سے زیادہ اس کی موت مطلوب تھی

۲۔ شیر کا نیند یا بیداری کی حالت سے قطع نظر، مارا جانا ہی بہتر تھا

۳۔ اگر میں اسے سوتی حالت میں چھوڑ کر چلا جاتا تو بعد میں ہونے والی تمام اموات کا میں براہ راست ذمہ دار ہوتا۔

تاہم یہ تمام دلائل بھی میرے دل سے یہ خلش نہ نکال پائے کہ میں نے شیر کو ایک بار جگا کر فرار کا موقع دیتے ہوئے گولی کیوں نہ چلائی۔

شیر مر چکا تھا اور یہ میرا انعام تھا۔ اسے نیچے گرنے اور پھر خراب ہونے سے بچانے کے لئے اسے جتنا جلد ممکن ہوتا، اس جگہ سے ہٹانا بہتر تھا۔ میں نے رائفل کو اسی گرے ہوئے درخت سے ٹکا دیا کیونکہ ابھی اس کا مزید فوری استعمال ضروری نہیں تھا۔ پھر میں سڑک پر پہنچا اور دونوں ہاتھوں کو منہ پر رکھ کر "کوووئی” کی آواز نکالی۔ مجھے دوسری بار آواز پیدا کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی کیونکہ میرے ساتھی ابھی پہلے بچھڑے سے ہو کر لوٹ رہے تھے کہ انہوں نے گولیوں کی آواز سنی۔ آواز سنتے ہی وہ بھاگ کر ہٹ کی طرف گئے اور دیہاتیوں کو اکٹھا کیا اور میری کوئی سنتے ہی بھاگم بھاگ ادھر آن پہنچے۔

جب رسیاں اور کلہاڑیاں آ گئیں تو میں انہیں ساتھ لے کر لوٹا۔ شیر کو رسیوں سے باندھ کر اور کچھ اٹھائے اور کچھ گھسیٹتے ہوئے نیچے اتارا۔ ابھی میں اس کی کھال اتارنے کی تیاری کر ہی رہا تھا کہ لوگوں نے درخواست کی کہ میں اس کام کو کچھ دیر کے لئے ملتوی کر دوں۔ کرتکالہ اور دیگر دیہاتوں کے لوگ اگر اپنے دشمن کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ پاتے تو بہت مایوس ہوتے۔ اس دشمن کو جس کے خوف کے سائے تلے وہ کئی سالوں سے جی رہے تھے۔

دو چھوٹے چھوٹے درختوں کو کاٹ کر اس پر شیر کو لادا اور پھر ہم ہٹ تک پہنچے۔ میں نے دیکھا کہ کئی لوگ شیر کی ٹانگوں پر ہاتھ پھیر کر میری بات کی تصدیق کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہٹ کے سامنے میں نے شیر کو رکھوایا اور لوگوں سے کہا کہ دو بجے میں کھال اتارنا شروع کر دوں گا کہ دن بہت گرم تھے اور دیر کرتا تو بال جھڑنے لگ جاتے اور کھال خراب ہو سکتی تھی۔

دو بجے سے قبل اس شیر کا میں تفصیلی معائنہ نہ کر سکا۔ پھر میں نے شیر کو پشت کے بل لٹایا اور کھال اتارنا شروع کی۔ میں نے محسوس کیا کہ اگلے بائیں پنجے کے اندر والی طرف سے زیادہ تر بال گم ہیں اور اس میں چھوٹے چھوٹے سوراخ ہیں جن سے زرد مواد نکل رہا تھا۔ میں نے اس ٹانگ کو وہیں چھوڑا اور باقی کھال اتارنا شروع کی۔ یہ ٹانگ دوسری ٹانگوں کی نسبت پتلی تھی۔ جب باقی کھال اتر چکی تو میں نے سینے سے لے کر اس کے بائیں ٹانگ کے پنجے کی گدی تک گہرا شگاف لگایا۔ جونہی میں نے کھال اتارنا شروع کی اور گوشت سامنے آیا، اس میں چبھے ہوئے سیہہ کے کانٹے میں نے یکے بعد دیگرے نکالنا شروع کر دیئے۔ میرے ساتھ کھڑے دیہاتی اسے بطور سوغات قبول کرتے گئے۔ ان میں سب سے بڑا کانٹا پانچ انچ لمبا تھا۔ کل کانٹے پچیس سے تیس کے درمیان تھے۔ کھال کے نیچے شیر کے سینے سے لے کر پاؤں تک گوشت صابن کی طرح نرم تھا اور اس کا رنگ گہرا زرد ہو چکا تھا۔ اسی وجہ سے شیر چلتے ہوئے آواز پیدا کرتا تھا۔ اسی وجہ سے ہی وہ آدم خور بنا۔ سیہہ کے کانٹے چاہے جتنے عرصے تک شیر کی کھال یا گوشت میں پیوست رہیں، گلتے نہیں۔

میں نے اب تک سیہہ کے کوئی دو سو کے قریب کانٹے اپنے شکار کردہ آدم خوروں کے جسم سے نکالے ہیں۔ ان میں سے اکثر کانٹے نو انچ تک لمبے اور پینسل جتنے موٹے بھی تھے۔ ان کی اکثریت مضبوط پٹھوں میں گھسی ہوئی تھی اور وہ کھال سے ذرا نیچے سے ٹوٹے ہوئے تھے۔

ظاہر ہے کہ یہ کانٹے سیہہ کے شکار کے دوران لگتے ہوں گے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شیر جیسے چالاک اور عقلمند جانور سے اتنی غفلت کیسے ہو سکتی ہے کہ سیہہ اپنے کانٹے پھینک سکے۔ سیہہ ایسا پیچھے ہٹتے ہوئے ہی کرتی ہے۔ یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کانٹے ٹوٹ کیوں جاتے ہیں کیونکہ وہ بھربھرے نہیں ہوتے ؟ مجھے افسوس ہے کہ ان سوالات کا کوئی بھی تسلی بخش جواب میرے پاس نہیں۔

تیندوے شیروں کی طرح سیہہ کو شوق سے کھاتے ہیں لیکن وہ کانٹوں سے ہمیشہ ہے بچ نکلتے ہیں۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ تیندوے سیہہ کو سر سے پکڑ کر ہلاک کرتے ہیں۔ شیر یہ طریقہ کیوں نہیں اپناتے ؟

یہاں اس ضلعی کانفرنس کے دوران مجھے تفویض کردہ تین آدم خوروں میں سے دوسرا بھی اپنے انجام کو پہنچا۔ موقع ملتے ہی میں آپ کو کنڈا کے آدم خور کی ہلاکت کا واقعہ بھی سناؤں گا۔

٭٭٭