بسمہٖ تعالیٰ
کلیاتِ غالبؔ
حصہ سوم ۔۔ متداول
دیوان، ج
مرزا
اسد اللہ خان غالبؔ
مرتبہ: جویریہ مسعود
(پیشکش: اردو محفل)
www.urduweb.org/mehfil
۲۳ اکتوبر ۲۰۱۹
مکمل کلیات ڈاؤن لوڈ
کریں
۲۰۱
یہ اگر چاہیں تو پھر
کیا چاہیے
صُحبتِ رنداں سے واجب
ہے حَذر
جائے مے، اپنے کو
کھینچا چاہیے
[1]دل تو ہو اچھا، نہیں ہے گر دماغ
کچھ تو اسبابِ تمنا
چاہیے
چاہنے کو تیرے کیا
سمجھا تھا دل؟
بارے اب اِس سے بھی
سمجھا چاہیے!
چاک مت کر جیب، بے
ایامِ گُل
کُچھ ادھر کا بھی
اشارہ چاہیے
دوستی کا پردہ ہے
بیگانگی
منہ چھُپانا ہم سے
چھوڑا چاہیے
دُشمنی نے میری،
کھویا غیر کو
کِس قدر دُشمن ہے،
دیکھا چاہیے
اپنی، رُسوائی میں
کیا چلتی ہے سَعی
یار ہی ہنگامہ آرا
چاہیے
منحصر مرنے پہ ہو جس
کی امید
نا اُمیدی اُس کی
دیکھا چاہیے
غافل، اِن مہ طلعتوں
کے واسطے
چاہنے والا بھی اچھا
چاہیے
چاہتے ہیں خُوب رویوں
کو اسدؔ
آپ کی صُورت تو دیکھا
چاہیے
۲۰۲
ہر
قدم دوریِ منزل ہے نمایاں مجھ سے
میری[2] رفتار سے بھاگے ہے، بیاباں مجھ سے
درسِ عنوانِ تماشا،
بہ تغافلِ خُوشتر
ہے نگہ رشتۂ شیرازۂ
مژگاں مجھ سے
وحشتِ آتشِ دل سے، شبِ
تنہائی میں
صورتِ دُود، رہا سایہ
گُریزاں مجھ سے
غمِ عشاق نہ ہو،
سادگی آموزِ بُتاں
کِس قدر خانۂ آئینہ
ہے ویراں مجھ سے
اثرِ آبلہ سے، جادۂ
صحرائے جُنوں
صُورتِ رشتۂ گوہر ہے
چراغاں مجھ سے
بے خودی بسترِ تمہیدِ
فراغت ہو جو![3]
پُر ہے سایے کی طرح،
میرا شبستاں مجھ سے
شوقِ دیدار میں، گر
تُو مجھے گردن مارے
ہو نگہ، مثلِ گُلِ شمع،
پریشاں مجھ سے
بے کسی ہائے شبِ ہجر
کی وحشت، ہے ہے!
سایہ خُورشیدِ قیامت
میں ہے پنہاں مجھ سے
گردشِ ساغرِ صد جلوۂ
رنگیں، تجھ سے
آئینہ داریِ یک دیدۂ
حیراں، مُجھ سے
نگہِ گرم سے ایک آگ
ٹپکتی ہے، اسدؔ!
ہے چراغاں، خس و
خاشاکِ گُلستاں مجھ سے
۲۰۳
نکتہ چیں ہے، غمِ دل
اُس کو سُنائے نہ بنے
کیا بنے بات، جہاں
بات بنائے نہ بنے
میں بُلاتا تو ہوں
اُس کو، مگر اے جذبۂ دل
اُس پہ بن جائے کُچھ
ایسی کہ بِ ن آئے نہ بنے
کھیل سمجھا ہے، کہیں
چھوڑ نہ دے، بھول نہ جائے
کاش! یُوں بھی ہو کہ
بِ ن میرے ستائے نہ بنے
غیر پھرتا ہے لیے یوں
ترے خط کو کہ، اگر
کوئی پُوچھے کہ یہ
کیا ہے، تو چھُپائے نہ بنے
اِس نزاکت کا بُرا
ہو، وہ بھلے ہیں، تو کیا
ہاتھ آویں، تو اُنھیں
ہاتھ لگائے نہ بنے
کہہ سکے کون کہ یہ
جلوہ گری کس کی ہے
پردہ چھوڑا ہے وہ اُس نے کہ اُٹھائے نہ بنے
موت کی راہ نہ
دیکھوں؟ کہ بِ ن آئے نہ رہے
تم کو چاہوں؟ کہ نہ
آؤ، تو بُلائے نہ بنے
بوجھ وہ سر سے گرا ہے
کہ اُٹھائے نہ اُٹھے
کام وہ آن پڑا ہے کہ
بنائے نہ بنے
عشق پر زور نہیں، ہے
یہ وہ آتش غالبؔ!
کہ لگائے نہ لگے اور
بُجھائے نہ بنے
۲۰۴
چاک
کی خواہش، اگر وحشت بہ عُریانی کرے
صبح کے مانند، زخمِ دل
گریبانی کرے
جلوے کا تیرے وہ عالم
ہے کہ، گر کیجے خیال
دیدۂ دل کو زیارت گاہِ
حیرانی کرے
ہے شکستن سے بھی دل
نومید، یا رب! کب تلک
آبگینہ کوہ پر عرضِ
گِراں جانی کرے
مے کدہ گر چشمِ مستِ ناز
سے پاوے شکست
مُوئے شیشہ دیدۂ ساغر
کی مژگانی کرے
خطِّ عارض سے، لکھا
ہے زُلف کو الفت نے عہد
یک قلم منظور ہے، جو
کچھ پریشانی کرے
ہاتھ پر گر ہاتھ مارے
یار وقتِ قہقہہ
کرمکِ شب تاب آسا مِہ
پر افشانی کرے
وقت اس افتادہ کا
خوش، جو قناعت سے اسدؔ
نقشِ پائے مور کو نقشِ
سلیمانی کرے
۲۰۵
وہ
آ کے، خواب میں، تسکینِ اضطراب تو دے
ولے مجھے تپشِ دل،
مجالِ خواب تو دے
کرے ہے قتل، لگاوٹ
میں تیرا رو دینا
تری طرح کوئی تیغِ نگہ
کو آب تو دے
دِکھا کے جنبشِ لب
ہی، تمام کر ہم کو
نہ دے جو بوسہ، تو
منہ سے کہیں جواب تو دے
پلا دے اوک سے ساقی،
جو ہم سے نفرت ہے
پیالہ گر نہیں دیتا،
نہ دے شراب تو دے
یہ کون کہوے ہے آباد
کر ہمیں، لیکن
کبھی زمانہ مرادِ دلِ
خراب تو دے
اسدؔ! خوشی سے مرے
ہاتھ پاؤں پھُول گئے
کہا جو اُس نے، ’’ذرا
میرے پاؤں داب تو دے‘‘
۲۰۶
تپِ
ش سے میری، وقفِ کش مکش، ہر تارِ بستر ہے
مِرا سر رنجِ بالیں
ہے، مِرا تَن بارِ بستر ہے
سرشکِ سر بہ صحرا
دادہ، نور العینِ دامن ہے
دلِ بے دست و پا
اُفتادہ بر خوردارِ بستر ہے
[4]خوشا اقبالِ رنجوری! عیادت کو تم آئے ہو
فروغِ شمع بالیں،
طالعِ بیدارِ بستر ہے
بہ طوفاں گاہِ جوشِ اضطرابِ
شامِ تنہائی
شعاعِ آفتابِ صبحِ محشر
تارِ بستر ہے
ابھی آتی ہے بُو،
بالش سے، اُس کی زلفِ مشکیں کی
ہماری دید کو، خوابِ زلیخا،
عارِ بستر ہے
[5]بہ ذوقِ شوخیِ اعضاء تکلّف بارِ بستر ہے
معافِ پیچ تابِ کشمکش
ہر تارِ بستر ہے
معمّائے تکلّف سر بہ
مہرِ چشم پوشیدن
گدازِ شمعِ محفل پیچشِ
طومارِ بستر ہے
مژہ فرشِ رہ و دل
ناتوان و آرزو مضطر
بہ پائے خفتہ سیرِ وادیِ
پُر خارِ بستر ہے
- اسد جوشِ بہارِ دیدۂ بیدار کے صدقے
ہماری دید کو خوابِ زلیخا
عارِ بستر ہے
کہوں کیا، دل کی کیا
حالت ہے ہجرِ یار میں، غالبؔ!
کہ بے تابی سے ہر یک
تارِ بستر، خارِ بستر ہے
۲۰۷
[6] خطر ہے رشتۂ
اُلفت رگِ گردن نہ ہو جائے[7]
غرورِ دوستی آفت ہے،
تُو دُشمن نہ ہو جائے
بہ پاسِ شوخیِ مژگاں
سرِ ہر خار سوزن ہے
تبسّم برگِ گل کو بخیۂ
دامن نہ ہو جائے
جراحت دوزیِ عاشق ہے
جائے رحم ترساں[8] ہوں
کہ رشتہ تارِ اشکِ دیدۂ
سوزن نہ ہو جائے
غضب شرم آفریں ہے رنگ
ریزی ہائے خود بینی
سپیدی آئنے کی پنبۂ
روزن نہ ہو جائے
سمجھ اس فصل میں
کوتاہیِ نشو و نما، غالبؔ!
اگر گُل سَرو کے قامت
پہ، پیراہن نہ ہو جائے
۲۰۸
نالہ پابندِ نَے نہیں
ہے
کیوں بوتے ہیں باغباں
تونبے؟
گر باغ گدائے مَے
نہیں ہے
ہر چند ہر ایک شے میں
تُو ہے
پَر تُجھ سی[9]
کوئی شے نہیں ہے
ہاں، کھائیو مت فریبِ
ہستی!
ہر چند کہیں کہ‘‘ہے‘‘،
نہیں ہے
شادی سے گُذر کہ، غم
نہ ہووے[10]
اُردی جو نہ ہو، تو
دَے نہیں ہے
کیوں ردِ قدح کرے ہے
زاہد!
مَے ہے یہ مگس کی قَے
نہیں ہے
[11]انجامِ شمارِ غم نہ پوچھو
یہ مصرفِ تا بکَے
نہیں ہے
جس دل میں کہ ’تا
بکَے‘ سما جائے
واں عزّتِ تختِ کَے
نہیں ہے
ہستی ہے، نہ کچھ عَدم
ہے، غالبؔ!
آخر تُو کیا ہے، ’’اَے
نہیں ہے؟‘‘
۲۰۹
بہارِ
تعزیت آبادِ عشق، ماتم ہے
کہ تیغِ یار، ہلالِ مہِ
محرم ہے[12]
نہ پُوچھ نسخۂ مرہم
جراحتِ دل کا
کہ اِس میں ریزۂ
الماس جزوِ اعظم ہے
بہت دنوں میں تغافل
نے تیرے پیدا کی
وہ اِک نگہ کہ، بظاہر
نگاہ سے کم ہے
بہ رہنِ ضبط ہے،
آئینہ بندیِ گوہر
وگرنہ بحر میں ہر
قطرہ چشمِ پُر نم ہے
چمن میں کون ہے طرز
آفرینِ شیوۂ عشق؟
کہ گل ہے بلبلِ رنگین
و بیضہ شبنم ہے
اگر نہ ہو وے رگِ خواب
صرفِ شیرازہ
تمام دفترِ ربطِ مزاج،
درہم ہے
اسدؔ بہ نازکیِ طبعِ آرزو
انصاف!
کہ ایک وہمِ ضعیف و
غمِ دو عالم ہے
۲۱۰
ہم
رشک کو اپنے بھی گوارا نہیں کرتے
مرتے ہیں، ولے، اُن
کی تمنا نہیں کرتے
در پردہ اُنھیں غیر
سے ہے ربطِ نہانی
ظاہر کا یہ پردہ ہے
کہ پردہ نہیں کرتے
یہ باعثِ نومیدیِ اربابِ
ہوس ہے
غالبؔ کو بُرا کہتے
ہو، اچھا نہیں کرتے
۲۱۱
شفق
بدعویِ عاشق گواہِ رنگیں ہے
کہ ماہ دزدِ حنائے کفِ
نگاریں ہے
[13]کرے ہے بادہ، ترے لب سے، کسبِ رنگِ فروغ
خطِ پیالہ، سراسر
نگاہِ گل چیں ہے
کبھی تو اِس سرِ [14] شوریدہ کی بھی داد ملے!
کہ ایک عُمر سے حسرت
پرستِ بالیں ہے
بجا ہے، گر نہ سُنے،
نالہ ہائے بُلبلِ زار
کہ گوشِ گُل، نمِ شبنم
سے پنبہ آگیں ہے
عیاں ہے پائے حنائی
بہ رنگِ پرتوِ خورشید
رِکاب روزنِ دیوارِ خانۂ
زیں ہے
جبینِ صبح، امیدِ فسانہ
گویاں پر
درازیِ رگِ خوابِ بتاں
خطِ چیں ہے
ہوا نشانِ سوادِ دیارِ
حسن عیاں
کہ خط غبارِ زمیں خیزِ
زلفِ مشکیں ہے
نہ پوچھ کچھ سر و
سامان و کار و بارِ اسدؔ[15]
جنوں معاملہ، بے دل،
فقیرِ مسکیں ہے
اسدؔ ہے نزع میں، چل
بے وفا! برائے خُدا!
مقامِ ترکِ حجاب و
وداعِ تمکیں ہے
۲۱۲
دل
سراپا وقفِ سودائے نگاہِ تیز ہے
یہ زمیں، مثلِ نیستاں،
سخت ناوک خیز ہے
[16]کیوں نہ ہو چشمِ بُتاں محوِ تغافل، کیوں
نہ ہو؟
یعنی اس بیمار کو
نظارے سے پرہیز ہے
مرتے مرتے، دیکھنے کی
آرزُو رہ جائے گی
وائے ناکامی! کہ اُس
کافر کا خنجر تیز ہے
ہو سکے کیا خاک دست و
بازوئے فرہاد سے؟
بے ستوں، خوابِ گرانِ
خسروِ پرویز ہے
ان ستم کیشوں کے
کھائے ہیں، زبس، تیرِ نگاہ
پردۂ بادام، یک غربالِ
حسرت بیز ہے
خوں چکاں ہے جادہ،
مانندِ رگِ سودائیاں
سبزۂ صحرائے اُلفت،
نشترِ خوں ریز ہے
ہے بہارِ تیز رو،
گلگونِ نکہت پر سوار
یک شکستِ رنگِ گل، صد
جنبش مہمیز ہے
عارضِ گُل دیکھ،
رُوئے یار یاد آیا، اسدؔ!
جوششِ فصلِ بہاری
اشتیاق انگیز ہے
۲۱۳
دیا
ہے دل اگر اُس کو، بشر ہے، کیا کہیے
ہوا رقیب، تو ہو،
نامہ بر ہے، کیا کہیے
یہ ضد کہ آج نہ آوے
اور آئے بِ ن نہ رہے
قضا سے شکوہ ہمیں کِس
قدر ہے، کیا کہیے!
رہے ہے یوں گِہ و بے
گہِ ، کہ کُوئے دوست کو اب
اگر نہ کہیے کہ دشمن
کا گھر ہے، کیا کہیے!
زہے کرشمہ کہ یوں دے
رکھا ہے ہم کو فریب
کہ بن کہے ہی[17] انہیں سب خبر ہے، کیا کہیے
سمجھ کے کرتے ہیں،
بازار میں وہ پُرسشِ حال
کہ یہ کہے کہ، سرِ رہ
گزر ہے، کیا کہیے؟
تمہیں نہیں ہے سرِ رشتۂ
وفا کا خیال
ہمارے ہاتھ میں کچھ
ہے، مگر ہے کیا؟ کہیے!
اُنہیں سوال پہ زعمِ جنوں
ہے، کیوں لڑیئے
ہمیں جواب سے قطعِ نظر
ہے، کیا کہیے؟
حَسد، سزائے کمالِ سخن
ہے، کیا کیجے
سِ تم، بہائے متاعِ ہُنر
ہے، کیا کہیے!
کہا ہے کِس نے کہ
غالبؔ بُرا نہیں، لیکن
سوائے اس کے کہ آشفتہ
سر ہے، کیا کہیے[18]
۲۱۴
دیکھ
کر در پردہ گرمِ دامن افشانی مجھے
کر گئی وابستۂ تن
میری عُریانی مجھے
بن گیا تیغِ نگاہِ یار
کا سنگِ فَساں
مرحبا مَیں! کیا
مبارک ہے گراں جانی مجھے
کیوں نہ ہو بے
التفاتی، اُس کی خاطر جمع ہے
جانتا ہے محوِ پُرسش
ہائے پنہانی مجھے
میرے غم خانے کی قسمت
جب رقم ہونے لگی
لِکھ دیا مِن جملۂ
اسبابِ ویرانی، مجھے
بد گماں ہوتا ہے وہ
کافر، نہ ہوتا، کاشکے!
اِس قدر ذوقِ نوائے
مُرغِ بُستانی مجھے
وائے! واں بھی شورِ محشر
نے نہ دَم لینے دیا
لے گیا تھا گور میں
ذوقِ تن آسانی مجھے
وعدہ آنے کا وفا
کیجے، یہ کیا انداز ہے؟
تم نے کیوں سونپی ہے
میرے گھر کی دربانی مجھے؟
ہاں نشاطِ آمدِ فصلِ بہاری،
واہ واہ!
پھر ہُوا ہے تازہ
سودائے غزل خوانی مجھے
دی مرے بھائی کو حق
نے از سرِ نَو زندگی
میرزا یوسف ہے،
غالبؔ! یوسفِ ثانی مجھے[19]
۲۱۵
یاد
ہے شادی میں بھی، ہنگامۂ‘‘یا رب‘‘، مجھے
سُبحۂ زاہد ہوا ہے،
خندہ زیرِ لب مجھے
ہے کُشادِ خاطرِ وابستہ
دَر، رہنِ سخن
تھا طلسمِ قُفلِ ابجد،
خانۂ مکتب مجھے
یا رب! اِس آشفتگی کی
داد کس سے چاہیے!
رشک، آسائش پہ ہے
زندانیوں کی اب مجھے
طبع ہے مشتاقِ لذت
ہائے حسرت کیا کروں!
آرزو سے، ہے شکستِ آرزو
مطلب مجھے
[20]صبح، نا پیدا ہے کلفت خانۂ ادبار میں
توڑنا ہوتا ہے رنگِ یک
نفس، ہر شب مجھے
شومیِ طالع سے ہوں
ذوقِ معاصی میں اسیر
نامۂ اعمال ہے،
تاریکیِ کوکب مجھے
درد نا پیدا و بے جا
تہمتِ وارستگی
پردہ دارِ یاوگی ہے،
وسعتِ مشرب مجھے
دل لگا کر آپ بھی غالبؔ
مُجھی سے ہو گئے
عشق سے آتے تھے مانِع،
میرزا صاحب مجھے
۲۱۶
حضورِ
شاہ میں اہلِ سخن کی آزمائش ہے
چمن میں خوش نوایانِ چمن
کی آزمائش ہے
قد و گیسو میں، قیس و
کوہ کُن کی آزمائش ہے
جہاں ہم ہیں، وہاں
دار و رسن کی آزمائش ہے
کریں گے کوہ کُن کے
حوصلے کا امتحاں آخر
ہنوز[21] اُس خستہ کے نیروئے تن کی آزمائش ہے
نسیمِ مصر کو کیا پیرِ
کنعاں کی ہوا خواہی!
اُسے یوسف کی بُوئے
پیرہن کی آزمائش ہے
وہ آیا بزم میں،
دیکھو، نہ کہیو پھر کہ ’’غافل تھے‘‘
شکیب و صبرِ اہلِ انجمن
کی آزمائش ہے
رہے دل ہی میں تیر [22]، اچھا، جگر کے پار ہو، بہتر
غرض شِستِ بُتِ ناوک
فگن کی آزمائش ہے
نہیں کچھ سُبحۂ و
زُنّار کے پھندے میں گیرائی
وفا داری میں شیخ و
برہمن کی آزمائش ہے
پڑا رہ، اے دلِ وابستہ!
بے تابی سے کیا حاصل؟
مگر پھر تابِ زُلفِ پُر
شکن کی آزمائش ہے
رگ و پَے میں جب
اُترے زہرِ غم، تب دیکھیے کیا ہو!
ابھی تو تلخیِ کام و
دہن کی آزمائش ہے
وہ آویں گے مِرے گھر،
وعدہ کیسا، دیکھنا، غالبؔ!
نئے فتنوں میں اب چرخِ
کُہن کی آزمائش[23] ہے
۲۱۷
کبھی
نیکی بھی اُس کے جی میں، گر آ جائے ہے، مُجھ سے
جفائیں کر کے اپنی
یاد، شرما جائے ہے، مُجھ سے
خُدایا! جذبۂ دل کی
مگر تاثیر اُلٹی ہے!
کہ جتنا کھینچتا ہوں
اور کھِنچتا[24] جائے ہے مُجھ سے
وہ بَد خُو اور میری
داستانِ عشق طُولانی
عبارت مُختصر، قاصد
بھی گھبرا جائے ہے، مُجھ سے
اُدھر وہ بد گمانی
ہے، اِدھر یہ ناتوانی ہے
نہ پُوچھا جائے ہے
اُس سے، نہ بولا جائے ہے مجھ سے
سنبھلنے دے مجھے اے
نا اُمیدی! کیا قیامت ہے!
کہ دامانِ خیالِ یار،
چھُوٹا جائے ہے مُجھ سے
تکلف بر طرف، نظارگی
میں بھی سہی، لیکن
وہ دیکھا جائے، کب یہ
ظُلم دیکھا جائے ہے، مُجھ سے
ہوئے ہیں پاؤں ہی
پہلے نبردِ عشق میں زخمی
نہ بھاگا جائے ہے مجھ
سے، نہ ٹھہرا جائے ہے مجھ سے
قیامت ہے کہ ہووے
مُدعی کا ہم سفر غالبؔ!
وہ کافر، جو خُدا کو
بھی نہ سونپا جائے ہے مُجھ سے
۲۱۸
ز بس کہ مشقِ تماشا
جنوں علامت ہے
کشاد و بستِ مژہ،
سیلیِ ندامت ہے
نہ جانوں، کیونکہ مٹے
داغِ طعنِ بد عہدی
تجھے کہ[25]
آئینہ بھی ورطۂ ملامت ہے
بہ پیچ و تابِ ہوس،
سِلکِ عافیت مت توڑ
نگاہِ عجز سرِ رشتۂ
سلامت ہے
وفا مقابل و دعوائے
عشق بے بُنیاد
جنونِ ساختہ و فصلِ گُل،
قیامت ہے!
[26]اسد! بہارِ تماشائے گلستانِ حیات
وصالِ لالہ عذارانِ سرو
قامت ہے
۲۱۹
لاغر
اتنا ہوں کہ گر تو بزم میں جا دے مجھے
میرا ذمہ، دیکھ کر گر
کوئی بتلا دے مجھے
کیا تعجب ہے کہ[27] اُس کو دیکھ کر آ جائے رحم
واں تلک کوئی کسی
حیلے سے پہنچا دے مجھے
منہ[28] نہ دکھلاوے، نہ دکھلا، پر بہ اندازِ عتاب
کھول کر پردہ ذرا
آنکھیں ہی دکھلا دے مجھے
یاں تلک میری گرفتاری
سے وہ خوش ہے کہ، مَیں
زلف گر
بن جاؤں تو شانے میں اُلجھا دے مجھے
۲۲۰
ہوتا ہے شب و روز
تماشا مرے آگے
اک کھیل ہے اورنگِ سلیماں
مرے نزدیک
اک بات ہے اعجاز
مسیحا مرے آگے
جز نام نہیں صورتِ عالم
مجھے منظور
جز وہم نہیں ہستیِ اشیا
مرے آگے
ہوتا ہے نہاں گرد میں
صحرا مرے ہوتے
گھِستا ہے جبیں خاک
پہ دریا مرے آگے
مت پوچھ کہ کیا حال
ہے میرا ترے پیچھے
تو دیکھ کہ کیا رنگ
ہے تیرا مرے آگے
سچ کہتے ہو خود بین و
خود آرا ہوں، نہ کیوں ہوں
بیٹھا ہے بتِ آئینہ
سیما مرے آگے
پھر دیکھیے اندازِ گل
افشانیِ گفتار
رکھ دے کوئی پیمانۂ
صہبا مرے آگے
نفرت کا گماں گزرے
ہے، میں رشک سے گزرا
کیوں کر کہوں، لو نام
نہ ان کا مرے آگے
ایماں مجھے روکے ہے،
جو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے
کلیسا مرے آگے
عاشق ہوں پہ معشوق
فریبی ہے مرا کام
مجنوں کو برا کہتی ہے
لیلےٰ مرے آگے
خوش ہوتے ہیں پر وصل
میں یوں مر نہیں جاتے
آئی شب ہجراں کی تمنا
مرے آگے
ہے موج زن اک قلزمِ خوں
کاش یہی ہو
آتا ہے ابھی دیکھیے،
کیا کیا مرے آگے
گو ہاتھ کو جنبش نہیں
آنکھوں میں تو دم ہے!
رہنے دو ابھی ساغر و
مینا مرے آگے
ہم پیشہ و ہم مشرب و
ہم راز ہے میرا
غالبؔ کو برا کیوں
کہو اچھا مرے آگے[29]
۲۲۱
کہوں
جو حال تو کہتے ہو ’’مدعا کہیے‘‘
تمہیں کہو کہ جو تم
یوں کہو تو کیا کہیے؟
نہ کہیو طعن سے پھر
تم کہ ’’ہم ستم گر ہیں‘‘
مجھے تو خو ہے کہ جو
کچھ کہو ’’بجا‘‘ کہیے
وہ نیشتر سہی پر دل
میں جب اتر جاوے
نگاہِ ناز کو پھر
کیوں نہ آشنا کہیے
نہیں ذریعۂ راحت
جراحتِ پیکاں
وہ زخمِ تیغ ہے جس کو
کہ دل کُشا کہیے
جو مدعی بنے اس کے نہ
مدعی بنیے
جو نا سزا کہے اس کو
نہ نا سزا کہیے
کہیں حقیقتِ جانکاہیِ
مرض لکھیے
کہیں مصیبتِ نا سازیِ
دوا کہیے
کبھی شکایتِ رنجِ گراں
نشیں کیجے
کبھی[30] حکایتِ صبرِ گریز پا کہیے
رہے نہ جان تو قاتل
کو خون بہا دیجے
کٹے زبان تو خنجر کو
مرحبا کہیے
نہیں نگار کو الفت،
نہ ہو، نگار تو ہے!
روانیِ روش و مستیِ ادا
کہیے
نہیں بہار کو فرصت،
نہ ہو بہار تو ہے!
طراوتِ چمن و خوبیِ ہوا
کہیے
سفینہ جب کہ کنارے پہ
آ لگا غالبؔ
خدا سے کیا ستم و جورِ
ناخدا کہیے
۲۲۲
رونے
سے اور عشق میں بے باک ہو گئے
دھوئے گئے ہم ایسے کہ
بس پاک ہو گئے[31]
صرفِ بہائے مے ہوئے
آلاتِ مے کشی
تھے یہ ہی دو حساب،
سو یوں پاک ہو گئے
رسوائے دہر گو ہوئے
آوارگی سے تم[32]
بارے طبیعتوں کے تو
چالاک ہو گئے
کہتا ہے کون نالۂ
بلبل کو بے اثر
پردے میں گُل کے لاکھ
جگر چاک ہو گئے
پوچھے ہے کیا وجود و
عدم اہلِ شوق کا
آپ اپنی آگ کے خس و
خاشاک ہو گئے
کرنے گئے تھے اس سے
تغافُل کا ہم گِلہ
کی ایک ہی نگاہ کہ بس
خاک ہو گئے
پوچھے ہے کیا معاشِ جگر
تُفتگانِ عشق[33]
جوں شمع آپ اپنی وہ
خوراک ہو گئے
اس رنگ سے اٹھائی کل
اس نے اسدؔ کی نعش[34]
دشمن بھی جس کو دیکھ
کے غم ناک ہو گئے
۲۲۳
شوخیِ
مضرابِ جولاں، آبیارِ نغمہ ہے
برگ ریزِ ناخنِ مطرب،
بہارِ نغمہ ہے[35]
نشّہ ہا شادابِ رنگ و
ساز ہا مستِ طرب
شیشۂ مے سروِ سبزِ جوئبارِ
نغمہ ہے
ہم نشیں مت کہہ کہ
برہم کر نہ بزمِ عیشِ دوست
واں تو میرے نالے کو
بھی اعتبارِ نغمہ ہے
کس سے، اے غفلت، تجھے
تعبیرِ آگاہی ملے؟
گوش ہا سیمابی و دل
بے قرارِ نغمہ ہے
سازِ عیشِ بے دلی ہے،
خانہ ویرانی، مجھے
سیل، یاں کوکِ صدائے
آبشارِ نغمہ ہے
سنبلی خواں ہے، بہ
ذوقِ تارِ گیسوئے دراز
نالۂ زنجیرِ مجنوں،
رشتہ دارِ نغمہ ہے
شوخیِ فریاد سے ہے
پردۂ زنبور، گل
کسوتِ ایجادِ بلبل،
خار خارِ نغمہ ہے
غفلت استعداد ذوق، و
مدعا غافل اسدؔ
پنبۂ گوشِ حریفاں،
پود و تارِ نغمہ ہے
۲۲۴
عرضِ
نازِ شوخیِ دنداں برائے خندہ ہے
دعویِ جمعیّتِ احباب
جائے خندہ ہے
[36]خود فروشی ہائے ہستی بس کہ جائے خندہ ہے
دو جہاں وسعت بہ قدرِ
یک فضائے خندہ ہے
ہے[37]
عدم میں غنچہ محوِ عبرتِ انجامِ گُل
یک جہاں زانو تامّل
در قفائے خندہ ہے
کلفتِ افسردگی کو عیشِ
بے تابی حرام
ورنہ دنداں در دل
افشردن بِنائے خندہ ہے
سوزشِ [38]
باطن کے ہیں احباب منکر ورنہ یاں
دل محیطِ گریہ و لب
آشنائے خندہ ہے
[39]ہر شکستِ قیمتِ دل میں صدائے خندہ ہے[40]
نقشِ عبرت در نظر ہا
نقدِ عشرت در بساط
[41]جائے استہزاء ہے عشرت کوشیِ ہستی اسدؔ
صبح و شبنم فرصتِ نشو
و نمائے خندہ ہے
۲۲۵
حسنِ
بے پروا خریدارِ متاعِ جلوہ ہے
آئینہ زانوئے فکرِ اختراعِ
جلوہ ہے
تا کُجا اے آگہی رنگِ
تماشا باختن؟
چشمِ وا گر دیدہ آغوشِ
وداعِ جلوہ ہے
عجزِ دیدن ہا بہ ناز
و نازِ رفتن ہا بہ چشم
جادۂ صحرائے آگاہی،
شعاعِ جلوہ ہے
[42]اختلافِ رنگ و بو، طرحِ بہارِ بے خودی
صلحِ کل، گردِ ادب
گاہِ نزاعِ جلوہ ہے
حسنِ خوباں بس کہ بے
قدرِ تماشا ہے، اسدؔ
آئینہ یک دستِ ردِّ امتناعِ
جلوہ ہے
۲۲۶
جب
تک دہانِ زخم نہ پیدا کرے کوئی
مشکل، کہ تجھ سے راہِ
سخن وا کرے کوئی
عالم غُبارِ وحشتِ مجنوں
ہے سر بہ سر
کب تک خیالِ طرّۂ
لیلیٰ کرے کوئی
افسردگی نہیں طرب
انشائے التفات
ہاں درد بن کے دل میں
مگر جا کرے کوئی
رونے سے اے ندیم
ملامت نہ کر مجھے
آخر کبھی تو عُقدۂ دل
وا کرے کوئی
[43]تمثالِ جلوہ عرض کر، اے حسن، کب تلک
آئینۂ خیال کو دیکھا
کرے کوئی
چاکِ جگر سے جب رہِ پرسش
نہ وا ہوئی
کیا فائدہ کہ جَیب کو
رسوا کرے کوئی
لختِ جگر سے ہے رگِ ہر
خار شاخِ گل
تا چند باغبانیِ صحرا
کرے کوئی
ناکامیِ نگاہ ہے برقِ
نظارہ سوز
تو وہ نہیں کہ تجھ کو
تماشا کرے کوئی
ہر سنگ و خشت ہے صدفِ
گوہرِ شکست
نقصاں نہیں جنوں سے
جو سودا کرے کوئی
سَر بَر ہوئی نہ وعدۂ
صبر آزما سے عُمر
فُرصت کہاں کہ تیری
تمنّا کرے کوئی
ہے وحشتِ طبیعتِ ایجاد
یاس خیز
یہ درد وہ نہیں کہ نہ
پیدا کرے کوئی[44]
بے کاریِ جنوں کو ہے
سر پیٹنے کا شغل
جب ہاتھ ٹوٹ جائیں تو
پھر کیا کرے کوئی
حسنِ فروغِ شمعِ سُخن
دور ہے اسدؔ
پہلے دلِ گداختہ پیدا
کرے کوئی
۲۲۷
میرے دکھ کی دوا کرے
کوئی
شرع و آئین پر مدار
سہی
ایسے قاتل کا کیا کرے
کوئی
چال جیسے کڑی کمان[45]
کا تیر
دل میں ایسے کے جا کرے
کوئی
بات پر واں زبان کٹتی
ہے
وہ کہیں اور سنا کرے
کوئی
بک رہا ہوں جنوں میں
کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے
کوئی
نہ سنو اگر برا کہے
کوئی
نہ کہو گر برا کرے
کوئی
روک لو گر غلط چلے
کوئی
بخش دو گر خطا کرے
کوئی
کون ہے جو نہیں ہے
حاجت مند
کس کی حاجت روا کرے کوئی
کیا کیا خضر نے سکندر
سے
اب کسے رہنما کرے
کوئی
جب توقع ہی اٹھ گئی
غالبؔ
کیوں کسی کا گلہ کرے
کوئی
۲۲۸
بہت
سہی غمِ گیتی، شراب کم کیا ہے؟
غُلامِ ساقیِ کوثر
ہوں، مجھ کو غم کیا ہے
تمھاری طرز و روش
جانتے ہیں ہم، کیا ہے
رقیب پر ہے اگر لطف
تو ستم کیا ہے
کٹے تو شب کہیں کاٹے
تو سانپ کہلاوے
کوئی بتاؤ کہ وہ زُلفِ
خم بہ خم کیا ہے
لکھا کرے کوئی احکامِ
طالعِ مولود
کسے خبر ہے کہ واں
جنبشِ قلم کیا ہے؟
نہ حشر و نشر کا قائل
نہ کیش و ملت کا
خدا کے واسطے ایسے کی
پھر قسم کیا ہے؟
وہ داد و دید گراں
مایہ شرط ہے ہمدم
وگرنہ مُہرِ سلیمان و
جامِ جم کیا ہے
سخن میں خامۂ غالبؔ
کی آتش افشانی
یقین ہے ہم کو بھی،
لیکن اب اس میں دم کیا ہے
۲۲۹
باغ
تجھ بن گلِ نرگس سے ڈراتا ہے مجھے
چاہوں گر سیرِ چمن،
آنکھ دکھاتا ہے مجھے
باغ پا کر خفقانی یہ
ڈراتا ہے مجھے
سایۂ شاخِ گُل افعی
نظر آتا ہے مجھے
ماہِ نو ہوں، کہ فلک
عجز سکھاتا ہے مجھے[46]
عمر بھر ایک ہی پہلو
پہ سلاتا ہے مجھے
جوہرِ تیغ بہ سر چشمۂ
دیگر معلوم
ہُوں میں وہ سبزہ کہ
زہر آب اُگاتا ہے مجھے
مدّعا محوِ تماشائے
شکستِ دل ہے
آئینہ خانے میں کوئی
لئے جاتا ہے مجھے
نالہ سرمایۂ یک عالم
و عالم کفِ خاک
آسمان بیضۂ قمری نظر
آتا ہے مجھے
زندگی میں تو وہ محفل
سے اُٹھا دیتے تھے
دیکھوں اب مر گئے پر
کون اُٹھاتا ہے مجھے
شورِ تمثال ہے کس رشکِ
چمن کا یا رب!
آئینہ بیضۂ بلبل نظر
آتا ہے مجھے
حیرت آئینہ انجامِ جنوں
ہوں جوں شمع
کس قدر داغِ جگر شعلہ
دکھاتا ہے مجھے
میں ہوں اور حیرتِ جاوید،
مگر ذوقِ خیال
بہ فسونِ نگہِ ناز
ستاتا ہے مجھے
حیرتِ فکرِ سخن سازِ سلامت
ہے اسدؔ
دل پسِ زانوئے آئینہ
بٹھاتا ہے مجھے
۲۳۰
اترائے کیوں نہ خاک
سرِ رہ گزار کی
جب اس کے دیکھنے کے
لیے آئیں بادشاہ[47]
لوگوں میں کیوں
نمود نہ ہو لالہ زار کی
بھُوکے نہیں ہیں سیرِ
گلستان کے ہم ولے
کیوں کر نہ کھائیے کہ
ہوا ہے بہار کی
۲۳۱
ہزاروں
خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان
لیکن پھر بھی کم نکلے
ذرا کر زور سینے پر
کہ تیر پر ستم نکلے[48]
جو وہ نکلے تو دل
نکلے جو دل نکلے تو دم نکلے
ڈرے کیوں میرا قاتل؟
کیا رہے گا اُس کی گردن پر
وہ خوں، جو چشم تر سے
عمر بھر یوں دم بہ دم نکلے؟
نکلنا خلد سے آدم کا
سنتے آئے ہیں لیکن
بہت بے آبرو ہو کر
ترے کوچے سے ہم نکلے
بھرم کھل جائے ظالم
تیرے قامت کی درازی کا
اگر اس طرۂ پُر پیچ و
خم کا پیچ و خم نکلے
مگر[49]
لکھوائے کوئی اس کو خط تو ہم سے لکھوائے
ہوئی صبح اور گھر سے
کان پر رکھ کر قلم نکلے
ہوئی اِس دور میں
منسوب مجھ سے بادہ آشامی
پھر آیا وہ زمانہ جو
جہاں میں جامِ جم نکلے
ہوئی جن سے توقع
خستگی کی داد پانے کی
وہ ہم سے بھی زیادہ
خستۂ تیغِ ستم نکلے
محبت میں نہیں ہے فرق
جینے اور مرنے کا
اسی کو دیکھ کر جیتے
ہیں جس کافر پہ دم نکلے
[50]خدا کے واسطے پردہ نہ کعبہ سے اٹھا ظالم
کہیں ایسا نہ ہو یاں
بھی وہی کافر صنم نکلے
کہاں میخانے کا
دروازہ غالبؔ! اور کہاں واعظ
پر اِتنا جانتے ہیں،
کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے
۲۳۲
[51]کوہ کے ہوں بارِ خاطر
گر صدا ہو جائیے
بے تکلف اے شرارِ جستہ!
کیا ہو جائیے
بیضہ آسا ننگِ بال و
پر ہے یہ کنجِ قفس
از سرِ نو زندگی ہو،
گر رِہا ہو جائیے
یاد رکھیے ناز ہائے
التفاتِ اولیں
آشیانِ طائرِ رنگِ حنا
ہو جائیے
لطفِ عشقِ ہر یک
اندازِ دگر دکھلائے گا
بے تکلف یک نگاہِ آشنا
ہو جائیے
داد از دستِ جفائے
صدمۂ ضرب المثل!
گر ہمہ اُفتادگی، جوں
نقشِ پا ہو جائیے
از دلِ ہر درد مندے
جوشِ بے تابی زدن
اے ہمہ بے مدعائی، یک
دعا ہو جائیے
وسعتِ مشرب، نیازِ کلفتِ
وحشت، اسدؔ
یک بیاباں سایۂ بالِ ہُما
ہو جائیے
۲۳۳
مستی،
بہ ذوقِ غفلتِ ساقی ہلاک ہے[52]
موجِ شراب یک مژہِ خواب
ناک ہے
جُز زخمِ تیغِ ناز،
نہیں دل میں آرزو
جیبِ خیال بھی ترے
ہاتھوں سے چاک ہے
کلفت، طلسمِ جلوۂ
کیفیّتِ دگر
زنگار خوردہ آئینہ،
یک برگِ تاک ہے
ہے عرضِ جوہرِ خط و
خالِ ہزار عکس
لیکن ہنوز دامنِ آئینہ
پاک ہے
ہوں، خلوتِ فسردگیِ انتظار
میں
وہ بے دماغ جس کو ہوس
بھی تپاک ہے
جوشِ جنوں سے کچھ نظر
آتا نہیں، اسدؔ[53]
صحرا ہماری آنکھ میں
یک مشتِ خاک ہے
۲۳۴
غم
و عشرت، قدم بوسِ دلِ تسلیم آئیں ہے
دعائے مدّعا گم
کردگاں، لبریزِ آمیں ہے
تماشا ہے کہ ناموسِ وفا
رسوائے آئیں ہے
نفس تیری گلی میں خوں
ہو اور بازار رنگیں ہے
[54]لبِ عیسیٰ کی جنبش کرتی ہے گہوارہ
جنبانی
قیامت کشتۂٴ لعل بتاں
کا خواب سنگیں ہے
ہمارا دیکھنا گر ننگ
ہے، سیرِ گلستاں کر
شرارِ آہ سے، موجِ صبا،
دامانِ گل چیں ہے
پیامِ تعزیت پیدا ہے
اندازِ عیادت سے
شبِ ماتم، تہِ دامانِ
دودِ شمعِ بالیں ہے
زبس جز حسن، منت نا
گوارا ہے طبیعت پر
کشادِ عقد، محوِ ناخنِ
دستِ نگاریں ہے
نہیں ہے، سر نوشتِ عشق،
غیر از بے دماغی ہا
جبیں پر میری، مدِّ خامۂ
قدرت خطِ چیں ہے
بہارِ باغ، پامالِ خرامِ
جلوہ فرمایاں
حنا سے دست، و خونِ کشتگاں
سے تیغ رنگیں ہے
بیابانِ فنا ہے بعدِ صحرائے
طلب، غالبؔ
پسینہ توسنِ ہمت کا
سیلِ خانۂ زیں ہے
۲۳۵
دیکھتا
ہوں وحشتِ شوقِ خروش آمادہ سے
فالِ رسوائی، سرشکِ سر
بہ صحرا دادہ سے[55]
آمدِ سیلابِ طوفانِ صدائے
آب ہے
نقشِ پا جو کان میں
رکھتا ہے انگلی جادہ سے
بزم مے وحشت کدہ ہے
کس کی چشمِ مست کا
شیشے میں نبضِ پری
پنہاں ہے موجِ بادہ سے
دام گر سبزے میں
پنہاں کیجیے طاؤس ہو
جوشِ نیرنگِ بہارِ عرضِ
صحرا دادہ سے
خیمۂ لیلیٰ سیاہ و
خانۂ مجنوں خراب
جوشِ ویرانی ہے عشقِ داغ
بیروں دادہ سے
بزمِ ہستی وہ تماشا
ہے کہ جس کو ہم، اسدؔ
دیکھتے ہیں چشمِ از خوابِ
عدم نہ کشادہ سے
۲۳۶
ہوں میں بھی تماشائیِ نیرنگِ تمنا
مطلب
نہیں کچھ اس سے کہ مطلب ہی بر آوے[56]
۲۳۷
کہوں
کیا گرم جوشی مے کشی میں شعلہ رویاں کی
کہ شمعِ خانۂ دل، آتشِ
مے سے فروزاں کی
[57]سیاہی جیسے گِر جاوے دمِ تحریر کاغذ پر
مری قسمت میں یوں
تصویر ہے شب ہائے ہجراں کی
بہ زلفِ مہ وشاں،
رہتی ہے، شب بیدار، ظاہر ہے
زبانِ شانہ سے تعبیرِ
صد خوابِ پریشاں کی
ہمیشہ مجھ کو طفلی
میں بھی مشقِ تیرہ روزی تھی
سیاہی ہے مرے ایام
میں، لوحِ دبستاں کی
دریغ! آہِ سحر گہ کارِ
بادِ صبح کرتی ہے
کہ ہوتی ہے زیادہ،
سرد مہری شمعِ رویاں کی
مجھے اپنے جنوں کی،
بے تکلف، پردہ داری تھی
ولیکن کیا کروں، آوے
جو رسوائی گریباں کی
ہنر پیدا کیا ہے میں
نے، حیرت آزمائی میں
کہ جوہر آئینے کا، ہر
پلک ہے، چشمِ حیراں کی
خدایا، کس قدر اہلِ نظر
نے خاک چھانی ہے!
کہ ہیں صد رخنہ، جوں
غربال، دیواریں گلستاں کی
ہوا شرمِ تہی دستی سے
وہ بھی سرنگوں آخر
بس، اے زخمِ جگر، اب
دیکھ لی شورش نمک داں کی
بہ یادِ گرمیِ صحبت،
بہ رنگِ شعلہ دہکے ہے
چھپاؤں کیوں کہ
غالبؔ، سوزشیں داغِ نمایاں کی
۲۳۸
ہجومِ
نالہ، حیرت عاجزِ عرضِ یک افغاں ہے
خموشی ریشۂ صد نیستاں
سے خس بہ دنداں ہے
تکلف بر طرف، ہے
جانستاں تر لطفِ بد خویاں
نگاہِ بے حجابِ ناز
تیغِ تیزِ عریاں ہے
ہوئی یہ کثرتِ غم سے
تلف کیفیّتِ شادی
کہ صبحِ عید مجھ کو
بد تر از چاکِ گریباں ہے
دل و دیں نقد لا،
ساقی سے گر سودا کیا چاہے
کہ اس بازار میں ساغر
متاعِ دستگرداں ہے
غم آغوشِ بلا میں
پرورش دیتا ہے عاشق کو
چراغِ روشن اپنا قلزمِ
صرصر کا مرجاں ہے
[58]کجا مے؟ کُو عرق؟ سعیِ عروجِ نشّہ رنگیں
تر
خطِ رخسارِ ساقی، تا
خطِ ساغر چراغاں ہے
رہا بے قدر دل، در
پردۂ جوشِ ظہور آخر
گل و نرگس بہم، آئینہ
و اقلیمِ کوراں ہے
تکلف سازِ رسوائی ہے،
غافل، شرمِ رعنائی
دلِ خوں گشتہ، در دستِ
حنا آلودہ عریاں ہے
تماشا، سرخوشِ غفلت
ہے با وصفِ حضورِ دل
ہنوز آئینہ، خلوت گاہِ
نازِ ربطِ مژگاں ہے
تکلف برطرف، ذوقِ زلیخا
جمع کر، ورنہ
پریشاں خواب آغوشِ و
داعِ یوسفستاں ہے
اسد ؔ، جمعیّتِ دل در
کنارِ بے خودی خوشتر
دو عالم آگہی، سامانِ
یک خوابِ پریشاں ہے
۲۳۹
خموشیوں
میں تماشا ادا نکلتی ہے
نگاہ دل سے تری[59] سُرمہ سا نکلتی ہے
فشارِ تنگیِ خلوت سے
بنتی ہے شبنم
صبا جو غنچے کے پردے
میں جا نکلتی ہے
نہ پوچھ سینۂ عاشق سے
آبِ تیغِ نگاہ
کہ زخمِ روزنِ در سے
ہوا نکلتی ہے
[60]بہ حلقۂ خمِ گیسو ہے راستی آموز
دہانِ مار سے گویا
صبا نکلتی ہے
بہ رنگِ شیشہ ہوں یک
گوشۂ دلِ خالی
کبھی پری مری خلوت
میں آ نکلتی ہے
بہار شوخ و چمن تنگ و
رنگِ گل دلچسپ
نسیم، باغ سے پا در
حنا نکلتی ہے
اسدؔ کو حسرتِ عرضِ نیاز
تھی دمِ قتل
ہنوز، یک سخنِ بے صدا
نکلتی ہے
۲۴۰
جس
جا نسیم شانہ کشِ زلفِ یار ہے
نافہ دماغِ آہوئے دشتِ
تتار ہے
کس کا سراغِ جلوہ ہے
حیرت کو اے خدا!
آئینہ فرشِ شش جہتِ انتظار
ہے
ہے ذرہ ذرہ تنگیِ جا
سے غبارِ شوق
گر دام یہ ہے و سعتِ صحرا
شکار ہے
دل مدّعی و دیدہ بنا
مدّعا علیہ
نظارے کا مقدّمہ پھر
روبکار ہے
چھڑکے ہے شبنم آئینۂ
برگِ گل پر آب
اے عندلیب وقتِ وداعِ
بہار ہے
پچ آ پڑی ہے وعدۂ
دلدار کی مجھے
وہ آئے یا نہ آئے، پہ
یاں انتظار ہے
بے پردہ سوئے وادیِ مجنوں
گزر نہ کر
ہر ذرّے کے[61] نقاب میں دل بے قرار ہے
اے عندلیب یک کفِ خس
بہرِ آشیاں
طوفانِ آمد آمدِ فصلِ
بہار ہے
دل مت گنوا، خبر نہ
سہی سیر ہی سہی
اے بے دماغ آئینہ
تمثال دار ہے
[62]زنجیر یاد پڑتی ہے، جادے کو دیکھ کر
اُس چشم سے ہنوز نگہ
یادگار ہے
سودائیِ خیال ہے
طوفانِ رنگ و بو
یاں ہے کہ داغِ لالہ،
دماغِ بہار ہے
بھونچال میں گرا تھا
یہ آئینہ طاق سے
حیرت شہیدِ جنبشِ ابروئے
یار ہے
حیراں ہوں شوخیِ رگِ یاقوت
دیکھ کر
یاں ہے کہ صحبتِ خس و
آتش برار ہے
غفلت کفیلِ عمر و
اسدؔ ضامنِ نشاط
اے مرگِ ناگہاں تجھے
کیا انتظار ہے
۲۴۱
آئینہ
کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے
ایسا کہاں سے لاؤں کہ
تجھ سا کہیں جسے
ہے انتظار سے شرر
آبادِ رُست خیز
مژگانِ کوہ کُن رگِ خارا
کہیں جسے
حسرت نے لا رکھا تری
بزمِ خیال میں
گلدستۂ نگاہ سویدا
کہیں جسے
کس فرصتِ وصال پہ ہے
گل کو عندلیب
زخمِ فراق خندۂ بے جا
کہیں جسے
یا رب ہمیں تو خواب
میں بھی مت دکھائیو
یہ محشرِ خیال کہ
دنیا کہیں جسے
[63]درکار ہے شگفتنِ گل ہائے عیش کو
صبحِ بہار، پنبۂ مینا
کہیں جسے
پھونکا ہے کس نے گوشِ
محبت میں اے خدا
افسونِ انتظار، تمنا
کہیں جسے
سر پر ہجومِ دردِ غریبی
سے ڈالیے
وہ ایک مشتِ خاک کہ
صحرا کہیں جسے
ہے چشمِ تر میں حسرتِ
دیدار سے نہاں
شوقِ عناں گسیختہ،
دریا کہیں جسے
درکار ہے شگفتنِ گلہائے
عیش کو
صبحِ بہار پنبۂ مینا
کہیں جسے
غالبؔ برا نہ مان جو
واعظ برا کہے
ایسا بھی کوئی[64] ہے کہ سب اچھا کہیں جسے؟
۲۴۲
شبنم
بہ گلِ لالہ نہ خالی ز ادا ہے
داغِ دلِ بے درد، نظر
گاہِ حیا ہے
دل خوں شدۂ کشمکشِ حسرتِ
دیدار
آئینہ بہ دستِ بتِ بد
مستِ حنا ہے
شعلے سے نہ ہوتی، ہوسِ
شعلہ نے جو کی
جی کس قدر افسردگیِ دل
پہ جلا ہے
تمثال میں تیری ہے وہ
شوخی کہ بہ صد ذوق
آئینہ بہ اندازِ گل
آغوش کشا ہے
قمری کفِ خاکستر و
بلبل قفسِ رنگ
اے نالہ! نشانِ جگرِ سوختہ
کیا ہے؟
خو نے تری افسردہ کیا
وحشتِ دل کو
معشوقی و بے حوصلگی
طرفہ بلا ہے
مجبوری و دعوائے
گرفتاریِ الفت
دستِ تہِ سنگ آمدہ
پیمانِ وفا ہے
معلوم ہوا حالِ شہیدانِ
گزشتہ
تیغِ ستم آئینۂ تصویر
نما ہے
اے پرتوِ خورشیدِ جہاں
تاب اِدھر بھی
سائے کی طرح ہم پہ
عجب وقت پڑا ہے
سر رشتۂ بے تابیِ دل
در گرہِ عجز
پرواز بہ خوں خُفتہ و
فریاد رسا ہے
ناکردہ گناہوں کی بھی
حسرت کی ملے داد
یا رب اگر اِن کردہ
گناہوں کی سزا ہے
بیگانگیِ خلق سے بے
دل نہ ہو غالبؔ
کوئی نہیں تیرا، تو
مری جان، خدا ہے
۲۴۳
منظور
تھی یہ شکل تجلّی کو نور [65]کی
قسمت کھلی ترے قد و
رخ سے ظہور کی
اِک خوں چکاں کفن میں
کروڑوں بناؤ ہیں
پڑتی ہے آنکھ تیرے
شہیدوں پہ حور کی
واعظ! نہ تم پیو نہ
کسی کو پلا سکو
کیا بات ہے تمہاری
شرابِ طہور کی!
لڑتا ہے مجھ سے حشر
میں قاتل، کہ کیوں اٹھا؟
گویا ابھی سنی نہیں
آواز صور کی
آمد بہار کی ہے جو
بلبل ہے نغمہ سنج
اڑتی سی اک خبر ہے
زبانی طیور کی
گو واں نہیں، پہ واں
کے نکالے ہوئے تو ہیں
کعبے سے ان بتوں کو
بھی نسبت ہے دور کی
کیا فرض ہے کہ سب کو
ملے ایک سا جواب
آؤ نہ[66] ہم بھی سیر کریں کوہِ طور کی
گرمی سہی کلام میں،
لیکن نہ اس قدر
کی جس سے بات اُس نے
شکایت ضرور کی
غالبؔ گر اِس سفر میں
مجھے ساتھ لے چلیں
حج کا ثواب نذر کروں
گا حضور کی
۲۴۴
غم
کھانے میں بودا دلِ ناکام بہت ہے
یہ رنج کہ کم ہے مئے
گلفام، بہت ہے
کہتے ہوئے ساقی سے،
حیا آتی ہے ورنہ
ہے یوں کہ مجھے دردِ تہِ
جام بہت ہے
نَے تیر کماں میں ہے،
نہ صیاد کمیں میں
گوشے میں قفس کے مجھے
آرام بہت ہے
کیا زہد کو مانوں کہ
نہ ہو گرچہ ریائی
پاداشِ عمل کی طمَعِ خام
بہت ہے
ہیں اہلِ خرد کس روشِ
خاص پہ نازاں؟
پا بستگیِ رسم و رہِ عام
بہت ہے
زمزم ہی پہ چھوڑو،
مجھے کیا طوفِ حرم سے؟
آلودہ بہ مے جامۂ
احرام بہت ہے
ہے قہر گر اب بھی نہ
بنے بات کہ ان کو
انکار نہیں اور مجھے اِبرام
بہت ہے
خوں ہو کے جگر آنکھ
سے ٹپکا نہیں اے مرگ
رہنے دے مجھے یاں، کہ
ابھی کام بہت ہے
ہو گا کوئی ایسا بھی
کہ غالبؔ کو نہ جانے؟
شاعر تو وہ اچھا ہے
پہ بدنام بہت ہے
۲۴۵
مدت
ہوئی ہے یار کو مہماں کئے ہوئے
جوشِ قدح سے بزم
چراغاں[67] کئے ہوئے
کرتا ہوں جمع پھر جگرِ
لخت لخت کو
عرصہ ہوا ہے دعوتِ مژگاں
کئے ہوئے
پھر وضعِ احتیاط سے
رکنے لگا ہے دم
برسوں ہوئے ہیں چاک
گریباں کئے ہوئے
پھر گرمِ نالہ ہائے
شرر بار ہے نفَس
مدت ہوئی ہے سیرِ چراغاں
کئے ہوئے
پھر پرسشِ جراحتِ دل
کو چلا ہے عشق
سامانِ صد ہزار نمک
داں کئے ہوئے
پھر بھر رہا ہوں[68] خامۂ مژگاں بہ خونِ دل
سازِ چمن طرازیِ داماں
کئے ہوئے
باہم دگر ہوئے ہیں دل
و دیدہ پھر رقیب
نظارہ و خیال کا
ساماں کئے ہوئے
دل پھر طوافِ کوئے
ملامت کو جائے ہے
پندار کا صنم کدہ
ویراں کئے ہوئے
پھر شوق کر رہا ہے
خریدار کی طلب
عرضِ متاعِ عقل و دل
و جاں کئے ہوئے
دوڑے ہے پھر ہر ایک
گل و لالہ پر خیال
صد گلستاں نگاہ کا
ساماں کئے ہوئے
پھر چاہتا ہوں نامۂ
دلدار کھولنا
جاں نذرِ دل فریبیِ عنواں
کئے ہوئے
مانگے[69]
ہے پھر کسی کو لبِ بام پر ہوس
زلفِ سیاہ رخ پہ
پریشاں کئے ہوئے
چاہے ہے پھر کسی کو
مقابل میں آرزو
سرمے سے تیز دشنۂ مژگاں
کئے ہوئے
اک نوبہارِ ناز کو
تاکے ہے پھر نگاہ
چہرہ فروغ مے سے
گلستاں کئے ہوئے
پھر جی میں ہے کہ در
پہ کسی کے پڑے رہیں
سر زیر بارِ منتِ درباں
کئے ہوئے
جی ڈھونڈتا ہے پھر
وہی فرصت، کہ[70] رات دن
بیٹھے رہیں تصورِ جاناں
کئے ہوئے
غالبؔ ہمیں نہ چھیڑ،
کہ پھر جوشِ اشک سے
بیٹھے ہیں ہم تہیّۂ
طوفاں کئے ہوئے
۲۴۶
نویدِ
امن ہے بیدادِ دوست، جاں کے لئے
رہی نہ طرزِ ستم کوئی
آسماں کے لئے
بلا سے! گر مژہِ یار
تشنۂ خوں ہے
رکھوں کچھ اپنی ہی
مژگانِ خوں فشاں کے لئے
وہ زندہ ہم ہیں کہ
ہیں روشناسِ خلق اے خضر
نہ تم کہ چور بنے عمرِ
جاوداں کے لئے
رہا بلا میں بھی، میں
مبتلائے آفتِ رشک
بلائے جاں ہے ادا
تیری اک جہاں کے لئے
فلک نہ دور رکھ اُس
سے مجھے، کہ میں ہی نہیں
دراز دستیِ قاتل کے
امتحاں کے لئے
مثال یہ مری کوشش کی
ہے کہ مرغِ اسیر
کرے قفس میں فراہم خس
آشیاں کے لئے
گدا سمجھ کے وہ چپ
تھا، مری[71] جو شامت آئے
اٹھا اور اٹھ کے قدم
میں نے پاسباں کے لئے
ق
بہ قدرِ شوق نہیں ظرفِ
تنگنائے غزل
کچھ اور چاہیے وسعت
مرے بیاں کے لئے
دیا ہے خلق کو بھی،
تا اسے نظر نہ لگے
بنا ہے عیش تجمُّل
حسین خاں کے لئے
زباں پہ بارِ خدایا!
یہ کس کا نام آیا
کہ میرے نطق نے بوسے
مری زباں کے لئے
نصیرِ دولت و دیں اور
معینِ ملّت و ملک
بنا ہے چرخِ بریں جس
کے آستاں کے لئے
زمانہ عہد میں اُس کے
ہے محوِ آرائش
بنیں گے اور ستارے اب
آسماں کے لئے
ورق تمام ہوا اور مدح
باقی ہے
سفینہ چاہیے اس بحرِ بیکراں
کے لئے
ادائے خاص سے غالبؔ
ہوا ہے نکتہ سرا
صلائے عام ہے یارانِ نکتہ
داں کے لئے[72]
۲۴۷
آپ
نے مَسَّنی الضُّرُّ کہا ہے تو سہی[73]
یہ بھی اے[74]
حضرتِ ایّوب! گِلا ہے تو سہی
رنج طاقت سے سوا ہو
تو نہ پیٹوں کیوں سر[75]
ذہن میں خوبیِ تسلیم
و رضا ہے تو سہی
ہے غنیمت کہ بہ
اُمّید گزر جائے گی عُمر
نہ ملے داد، مگر روزِ
جزا ہے تو سہی
دوست ہی کوئی نہیں
ہے، جو کرے چارہ گری[76]
نہ سہی، لیک تمنّائے
دوا ہے تو سہی
غیر سے دیکھیے کیا
خوب نباہی اُس نے
نہ سہی ہم سے، پر اُس
بُت میں وفا ہے تو سہی
نقل کرتا ہوں اسے
نامۂ اعمال میں مَیں
کچھ نہ کچھ روزِ ازل
تم نے لکھا ہے تو سہی
کبھی آ جائے گی کیوں
کرتے ہو جلدی غالبؔ
شہرۂ تیزیِ شمشیرِ قضا
ہے تو سہی
۲۴۸
لطفِ
نظّارۂ قاتِل دمِ بسمل آئے[77]
جان جائے تو بلا سے،
پہ کہیں دِل آئے
ان کو کیا علم کہ
کشتی پہ مری کیا گزری
دوست جو ساتھ مرے تا
لبِ ساحل آئے
وہ نہیں ہم، کہ چلے
جائیں حرم کو، اے شیخ!
ساتھ حُجّاج کے اکثر
کئی منزِل آئے
آئیں جس بزم میں وہ،
لوگ پکار اٹھتے ہیں
‘‘لو وہ برہم زنِ ہنگامۂ
محفل آئے‘‘
دیدہ خوں بار ہے مدّت
سے، ولے آج ندیم
دل کے ٹکڑے بھی کئی
خون کے شامل آئے
سامنا حور و پری نے
نہ کیا ہے، نہ کریں
عکس تیرا ہی مگر،
تیرے مقابِل آئے
[78]موت بس ان کی ہے، جو مر کے وہیں دفن
ہوئے
زیست ان کی ہے، جو اس
کے کوچے سے گھائل آئے
بن گیا سبحہ وہ زنار،
خدا خیر کرے!
وہ جو نازک ہے کمر،
اس پہ بہت دل آئے
اب ہے دِلّی کی طرف
کوچ ہمارا غالبؔ!
آج ہم حضرتِ نوّاب سے
بھی مِل آئے
۲۴۹
میں
ہوں مشتاقِ جفا، مجھ پہ جفا اور سہی[79]
تم ہو بیداد سے خوش،
اس سے سوا اور سہی
غیر کی مرگ کا غم کس
لئے، اے غیرتِ ماہ!
ہیں ہوس پیشہ بہت، وہ
نہ ہُوا اور سہی
تم ہو بت، پھر تمھیں
پندارِ خُدائی کیوں ہے؟
تم خداوند ہی کہلاؤ،
خدا اور سہی
حُسن میں حُور سے بڑھ
کر نہیں ہونے کی کبھی
آپ کا شیوہ و انداز و
ادا اور سہی
تیرے کوچے کا ہے مائل
دلِ مضطر میرا
کعبہ اک اور سہی،
قبلہ نما اور سہی
کوئی دنیا میں مگر
باغ نہیں ہے، واعظ!
خلد بھی باغ ہے، خیر
آب و ہوا اور سہی
کیوں نہ فردوس میں
دوزخ کو ملا لیں، یا رب
سیر کے واسطے تھوڑی
سی فضا اور سہی
مجھ کو وہ دو۔
کہ جسے کھا کے نہ
پانی مانگوں
زہر کچھ اور سہی، آبِ
بقا اور سہی
مجھ سے غالبؔ یہ
علائیؔ نے غزل لکھوائی
ایک بیداد گرِ رنج
فزا اور سہی
اختتام
حصۂ غزل
۲۰ ستمبر ۱۹ تا ۱۹ اکتوبر ۱۹
٭٭٭
قصائد
۱
منقبتِ
حیدری
سازِ
یک ذرّہ نہیں فیضِ چمن سے بے کار
سایۂ
لالۂ بے داغ سویدائے بہار
مستیِ
بادِ صبا سے ہے بہ عرضِ سبزہ
ریزۂ
شیشۂ مے جوہرِ تیغِ کہسار
سبز ہے
جامِ زمرّد کی طرح داغِ پلنگ
تازہ
ہے ریشۂ نارنج صفت روئے شرار
مستیِ
ابر سے گل چینِ طرب ہے حسرت
کہ اس
آغوش میں ممکن ہے دو عالم کا فِشار
کوہ و
صحرا ہمہ معموریِ شوقِ بلبل
راہِ
خوابیدہ ہوئی خندۂ گل سے بیدار
سونپے
ہے فیضِ ہوا صورتِ مژگانِ یتیم
سر
نوشتِ دو جہاں ابر بہ یک سطرِ غبار
کاٹ کر
پھینکئے ناخن جو بہ اندازِ ہلال[80]
قوت
نامیہ اس کو بھی نہ چھوڑے بے کار
کفِ ہر
خاک بہ گردون شدہ قمری پرواز
دامِ
ہر کاغذِ آتش زدہ طاؤسِ شکار
مے کدے
میں ہو اگر آرزوئے گل چینی
بھول
جا یک قدحِ بادہ بہ طاقِ گل زار
موجِ
گل ڈھونڈھ بہ خلوت کدۂ غنچۂ باغ
گُم
کرے گوشۂ مے خانہ میں گر تو دستار
کھینچے
گر مانیِ اندیشہ چمن کی تصویر
[81]سبزہ مثلِ خطِ نو خیز ہو خطِّ
پرکار
لعل سے
کی ہے پئے زمزمۂ مدحتِ شاہ
طوطیِ
سبزۂ کہسار نے پیدا منقار
وہ
شہنشاہ کہ جس کی[82] پئے تعمیرِ سرا
چشمِ
جبریل ہوئی قالبِ خشتِ دیوار
فلک
العرش ہجومِ خمِ دوشِ مزدور
رشتۂ
فیضِ ازل سازِ طنابِ معمار
سبزۂ
نُہ چمن و یک خطِ پشتِ لبِ بام
رفعتِ
ہمّتِ صد عارف و یک اوجِ حصار
واں کی[83]
خاشاک سے حاصل ہو جسے یک پرِ کاہ
وہ رہے
مِروحۂ بالِ پری سے بے زار
خاکِ
صحرائے نجف جوہرِ سیرِ عُرفا
چشمِ
نقشِ قدم آئینۂ بختِ بیدار
ذرّہ
اس گرد کا خورشید کو آئینۂ ناز
گرد
اُس دشت کی اُمّید کو احرامِ بہار
آفرینش
کو ہے واں سے طلبِ مستیِ ناز
عرضِ
خمیازۂ ایجاد ہے ہر موجِ غبار
نسخۂ رضا مزید اشعار
سنگ، یہ کار گہِ ربطِ نزاکت ہے، کہ ہے
خندۂ بے خودیِ کبک،
بہ دندانِ شرار
کشتۂ افعیِ زلفِ سیہِ
شیریں کو
بے ستوں، سبزے سے، ہے
سنگِ زمرد کا مزار
حسرتِ جلوۂ ساقی ہے
کہ ہر پارۂ ابر
سینہ، بے تابی سے،
ملتا ہے بہ تیغ کُہسار
دشمنِ حسرتِ عاشق ہے،
رگِ ابرِ سیاہ
جس نے برباد کیا ریشۂ
چندیں شبِ تار
چشم بر چشم چنے ہے بہ
تماشا، مجنوں
ہر دو سو خانۂ زنجیر،
نگہ کا بازار
خانۂ تنگ، ہجومِ دو
جہاں کیفیت
جامِ جمشید ہے یاں
قالبِ خشتِ دیوار
سنبل و دامِ کمیں
خانۂ خوابِ صیاد
نرگس و جام سیہ مستیِ
چشمِ بیدار
طرہ ہا، بس کہ،
گرفتارِ صبا ہیں، شانہ
زانوئے آئینہ پر مارے
ہے دستِ بے کار
بس کہ یک رنگ ہیں دل،
کرتی ہے ایجاد نسیم
لالے کے داغ سے، جوں
نقطہ و خط، سنبلِ زار
اے خوشا! فیضِ ہوائے
چمنِ نشو و نما
بادہ پُر زور و نفس
مست و مسیحا بیمار
ہمتِ نشو و نما میں
یہ بلندی ہے کہ سرو
پرِ قمری سے کرے صیقلِ
تیغِ کہسار
ہر کفِ خاک، جگر تشنۂ
صد رنگِ ظہور
غنچے کے مے کدے میں
مستِ تامل، ہے بہار
کس قدر عرض کروں ساغرِ
شبنم، یا رب؟
موجۂ سبزۂ نوخیز، ہے
لب ریزِ خمار
غنچۂ لالہ، سیہ مستِ جوانی
ہے ہنوز
شبنمِ صبح، ہوئی رعشۂ
اعضائے بہار
جوشِ بیدادِ تپش سے
ہوئی عریاں آخر
شاخِ گلبن پہ، صبا،
چھوڑ کے پیراہنِ خار
سازِ عریانیِ کیفیتِ دل
ہے، لیکن
یہ مئے تند، نہیں موجِ
خرامِ اظہار
موجِ مے پر ہے، براتِ
نگرانی امید
گلِ نرگس سے کفِ جام
پہ ہے، چشمِ بہار
گلشن و مے کدہ،
سیلابی یک موجِ خیال
نشہ و جلوۂ گل، بر سرِ
ہم فتنہ عیار
پشتِ لب، تہمتِ خط کھینچے
ہے بے جا یعنی
سبز ہے موجِ تبسم بہ
ہوائے گفتار
جائے حیرت ہے کہ گل
بازیِ اندیشۂ شوق
اس زمیں میں نہ کرے
سبز قلم کی رفتار
مطلعِ
ثانی
فیض سے
تیرے ہے اے شمعِ شبستانِ بہار
دلِ
پروانہ چراغاں، پرِ بلبل گلنار
شکلِ
طاؤس کرے آئینہ خانہ پرواز
ذوق
میں جلوے کے تیرے بہ ہوائے دیدار
تیری
اولاد کے غم سے ہے بروئے گردوں
سِلکِ
اختر میں مہِ نو مژہِ گوہر بار
ہم
عبادت کو، ترا نقشِ قدم مُہرِ نماز
ہم
ریاضت کو، ترے حوصلے سے استظہار
مدح
میں تیری نہاں زمزمۂ نعتِ نبی
جام سے
تیرے عیاں بادۂ جوشِ اسرار
جوہرِ
دستِ دعا آئینہ یعنی تاثیر
یک طرف
نازشِ مژگان و دگر سو غمِ خار[84]
مَردُمک
سے ہو عزا خانۂ اقبالِ نگاہ
خاکِ
در کی ترے جو چشم نہ ہو آئینہ دار
دشمنِ
آلِ نبی کو بہ طرب خانۂ دہر
عرضِ
خمیازۂ سیلاب ہو طاقِ دیوار
دیدہ
تا دل اسدؔ آئینۂ یک پرتوِ شوق
فیضِ
معنی سے خطِ ساغرِ راقم سرشار
نسخۂ رضا سے مزید
اشعار
لعل سی، کی ہے پے
زمزمہ مدحتِ شاہ
طوطیِ سبزۂ کُہسار نے
پیدا، منقار
کسوتِ تاک میں ہے نشۂ
ایجادِ ازل
سبحۂ عرضِ دو عالم،
بہ کفِ آبلہ دار
بہ نظر گاہِ گلستانِ خیالِ
ساقی
بے خودی، دامِ رگِ گل
سے ہے پیمانہ شکار
بہ ہوائے چمنِ جلوہ،
ہے طاؤس پرست
باندھے ہے پیرِ فلک
موجِ شفق سے زنّار
یک چمن جلوۂ یوسف ہے
بہ چشمِ یعقوب
لالہ ہا داغ بر افگندہ،
و گل ہا بے خار
بیضۂ قمری کے آئینے
میں پنہاں صیقل
سروِ بیدل سے عیاں،
عکسِ خیالِ قدِ یار
عکسِ موجِ گل و
سرشاریِ اندازِ حباب
نگہِ آئینۂ کیفیتِ دل
سے دوچار
کس قدر سازِ دو عالم
کو ملی جرأتِ ناز
کہ ہوا، ساغرِ بے
حوصلۂ دل، سرشار
ورنہ وہ ناز ہے، جس
گلشنِ بیداد سے تھا
طور، مشعل بہ کف از
جلوۂ تنزیہہِ بہار
سایۂ تیغ کو دیکھ اُس
کے، بہ ذوقِ یک زخم
سینۂ سنگ پہ کھینچے
ہے الف، بالِ شرار
بت کدہ، بہرِ پرستش
گریِ قبلۂ ناز
باندھے زنارِ رگِ سنگ،
میانِ کُہسار
سبحہ گرداں ہے اسی کی
کفِ امید کا، ابر
بیم سے جس کے، صبا،
توڑے ہے صد جا زنار
رنگ ریزِ گل و جامِ دو
جہاں ناز و نیاز
اولیں دورِ امامت،
طرب ایجادِ بہار
جوشِ طوفانِ کرم،
ساقیِ کوثر ساغر
نُہ فلک، آئینہ ایجادِ
کفِ گوہر بار
پہنے ہے پیرہنِ کاغذِ
ابری، نیساں
یہ تُنک مایہ، ہے
فریادیِ جوشِ ایثار
پر یہ دولت تھی، نصیبِ
نگہِ معنیِ ناز
کہ ہوا صورتِ آئینہ
میں، جوہر، بیدار
اے خوشا! مکتبِ شوق و
بلدستانِ مراد
سبقِ نازکی، ہے عجز
کو صد جا، تکرار
مشقیِ نقشِ قدم، نسخہ
آبِ حیواں
جادۂ دشتِ نجف، عمرِ خضر
کا طومار
جلوہ تمثال ہے، ہر
ذرۂ نیرنگ سواد
بزمِ آئینۂ تصویر
نما، مشتِ غبار
دو جہاں طالبِ دیدار
تھا، یا رب کہ، ہنوز
چشمکِ ذرہ سے ہے گرم،
نگہ کا بازار
ہے، نفس مایہ شوقِ دو
جہاں ریگِ رواں
پائے رفتار کم، و
حسرتِ جولاں بسیار
دشتِ الفت چمن، و
آبلہ مہماں پرور
دلِ جبریل، کفِ پا پہ
ملے ہے رخسار
یاں تک انصاف نوازی
کہ اگر ریزۂ سنگ
بے خبر دے بہ کفِ پائے
مسافر آزار
یک بیاباں تپشِ بالِ شرر
سے، صحرا
مغزِ کُہسار میں کرتا
ہے فرو، نشترِ خار
فرش اِس دشتِ تمنا
میں نہ ہوتا، گر، عدل
گرمیِ شعلۂ رفتار سے
جلتے خس و خار
ابرِ نیساں سے ملے
موجِ گُہر کا تاواں
خلوتِ آبلہ میں گم
کرے، گر تو، رفتار
یک جہاں بسملِ اندازِ
پر افشانی ہے
دام سے اُس کے، قضا
کو ہے رہائی دشوار
موجِ طوفانِ غضب چشمۂ
نُہ چرخِ حباب
ذو الفقارِ شہِ مرداں،
خطِ قدرت آثار
موجِ ابروئے قضا، جس
کے تصور سے، دونیم
بیم سے جس کے، دلِ شحنہ
تقدیر، فگار
شعلہ تحریر سے اُس بر
ق کی، ہے کلکِ قضا
بالِ جبریل سے مسطر
کشِ سطرِ زنہار
موجِ طوفاں ہو، اگر
خونِ دو عالمِ ہستی
ہے حنا کو سرِ ناخن
سے گزرنا دشوار
دشتِ تسخیر ہو، گر
گردِ خرامِ دُلدل
نعلِ در آتشِ ہر ذرہ
ہے، تیغِ کہسار
بالِ رعنائیِ دُم،
موجۂ گل بندِ قبا
گردشِ کاسۂ سُم، چشمِ
پری آئینہ دار
گردِ راہ اس کی بھریں
شیشۂ ساعت میں اگر
ہر نفس راہ میں ٹوٹے،
نفسِ لیل و نہار
نرم رفتار ہو جس کوہ
پہ وہ برق گداز
رفتنِ رنگِ حنا ہے،
تپشِ بالِ شرار
ہے سراسر رویِ عالمِ ایجاد
اُسے
جَیبِ خلوت کدۂ غنچہ
میں، جولانِ بہار
جس کے حیرت کدۂ نقشِ قدم
میں، مانی
خونِ صد برق سے
باندھے بہ کفِ دست نگار
ذوقِ تسلیمِ تمنا سے
بہ گل زارِ حضور
عرضِ تسخیرِ تماشا سے
بہ دامِ اظہار
مطلعِ تازہ ہوا موجۂ
کیفیتِ دل
جامِ سرشارِ مے و
غنچۂ لب ریزِ بہار
مطلعِ ثالث
(از نسخۂ رضا)
گردِ جولاں سے ہے تیری،
بہ گریبانِ خرام
جلوۂ طور، نمک سودۂ
زخمِ تکرار
جس چمن میں ہو، ترا
جلوۂ محروم نواز
پرِ طاؤس، کرے گرم
نگہ کا بازار
جس ادب گاہ میں تو آئینۂ
شوخی ہو
جلوہ، ہے ساقیِ مخموریِ
تابِ دیوار
تو وہ ساقی ہے کہ ہر
موجِ محیطِ تنزیہہ
کھینچے خمیازے میں
تیرے لبِ ساغر کا خمار
گرد باد آئینہ فتراکِ
دماغِ دل ہا
تیرا صحرائے طلب،
محفلِ پیمانہ شکار
ذوقِ بے تابی دیدار
سے تیرے، ہے ہنوز
جوشِ جوہر سے، دلِ
آئینہ، گل دستۂ خار
تیرا پیمانۂ مے، نسخۂ
ادوارِ ظہور
تیرا نقشِ قدم، آئینۂ
شانِ اظہار
آیتِ رحمتِ حق، بسملۂ
مصحفِ ناز
مسطرِ موجۂ دیباچۂ
درسِ اسرار
قبلۂ نورِ نظر، کعبۂ
ایجادِ مسیح
مژہِ دیدۂ نخچیر سے،
نبضِ بیمار
تہمتِ بے خودیِ کفر
نہ کھینچے، یا رب
کمیِ ربطِ نیاز، و خطِ
نازِ بسیار
ناز پروردۂ صد رنگِ تمنا
ہوں، ولے
پرورش پائی ہے، جوں
غنچہ، بہ خونِ اظہار
تنگیِ حوصلہ، گردابِ دو
عالم آداب
دیدِ یک غنچہ سے ہوں
بسملِ نقصانِ بہار
رشکِ نظارہ تھی یک
برقِ تجلی کہ ہنوز
تشنۂ خونِ دو عالم
ہوں، بہ عرضِ تکرار
وحشتِ فرصتِ یک جیبِ کشش
نے کھویا
صورتِ رنگِ حنا، ہاتھ
سے دامانِ بہار
شعلہ آغاز ولے حیرتِ داغِ
انجام
موجِ مے لیک ز سر تا
قدم آغوشِ خمار
ہے اسیرِ ستمِ کشمکشِ
دامِ وفا
دلِ وارستۂ ہفتاد و
دو ملت بیزار
مژہِ خواب سے کرتا
ہوں، بہ آسائشِ درد
بخیۂ زخمِ دلِ چاک،
بہ یک دستہ شرار
محرمِ دردِ گرفتاریِ مستی
معلوم
ہوں نفس سے، صفتِ نغمہ،
بہ بندِ رگِ تار
تھا سرِ سلسلہ جنبانیِ
صد عمرِ ابد
ساز ہا مفتِ بہ ریشم
کدۂ نالۂ زار
لیکن اس رشتۂ تحریر
میں سرتا سرِ فکر
ہوں بہ قدرِ عددِ حرفِ
علی سبحہ شمار
دشمنِ آل نبی کو، بہ
طرب خانۂ دہر
عرضِ خمیازۂ سیلاب
ہو، طاقِ دیوار
دوست اس سلسلۂ ناز کے
جوں سنبل و گل
ابرِ مے خانہ کریں
ساغرِ خورشید شکار
لنگرِ عیش پہ سرشارِ تماشائے
دوام
کہ رہے خونِ خزاں سے
بہ حنا پائے بہار
زلفِ معشوق کشش،
سلسلۂ وحشتِ ناز
دلِ عاشق، شکن آموزِ خمِ
طرۂ یار
مئے تمثالِ پری، نشۂ
مینا آزاد
دلِ آئینہ طرب، ساغرِ
بختِ بیدار
۲
منقبت
(حضرت علی کے لئے)
دہر
جُز جلوۂ یکتائیِ معشوق نہیں
ہم
کہاں ہوتے اگر حسن نہ ہوتا خود بیں
بے دلی
ہائے تماشا کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق
بے کسی
ہائے تمنّا کہ نہ دنیا ہے نہ دیں
ہَرزہ
ہے نغمۂ زیر و بمِ ہستی و عدم
لغو ہے
آئینۂ فرقِ جنون و تمکیں
نقشِ
معنی ہمہ خمیازۂ عرضِ صورت
سخنِ
حق ہمہ پیمانۂ ذوقِ تحسیں
لافِ
دانش غلط و نفعِ عبارت معلوم!
دُردِ
یک ساغرِ غفلت ہے۔
چہ
دنیا و چہ دیں
مثلِ
مضمونِ وفا باد بہ دستِ تسلیم
صورتِ
نقشِ قدم خاک بہ فرقِ تمکیں
عشق بے
ربطیِ شیرازۂ اجزائے حواس
وصل،
زنگارِ رخِ آئینۂ حسنِ یقیں
کوہ
کُن، گرسنہ مزدورِ طرب گاہِ رقیب
بے
ستوں، آئینۂ خوابِ گرانِ شیریں
کس نے
دیکھا نفسِ اہلِ وفا آتش خیز
کس نے
پایا اثرِ نالۂ دل ہائے حزیں!
سامعِ
زمزمۂ اہلِ جہاں ہوں، لیکن
نہ سرو
برگِ ستائش، نہ دماغِ نفریں
کس قدر
ہَرزہ سرا ہوں کہ عیاذاً باللہ
یک قلم
خارجِ آدابِ وقار و تمکیں
نقشِ
لاحول لکھ اے خامۂ ہذیاں تحریر
یا علی
عرض کر اے فطرتِ وسواسِ قریں
مظہرِ
فیضِ [85]
خدا، جان و دلِ ختمِ رسل
قبلۂ
آلِ نبی، کعبۂ ایجادِ یقیں
ہو وہ
سرمایۂ ایجاد جہاں گرمِ خرام
ہر کفِ
خاک ہے واں گَردۂ تصویرِ زمیں
جلوہ
پرداز ہو نقشِ قدم اس کا جس جا
وہ کفِ
خاک ہے ناموسِ دو عالم کی امیں
نسبتِ
نام سے اس کی ہے یہ رُتبہ کہ رہے
اَبَداً
پُشتِ فلک خَم شدۂ نازِ زمیں
فیضِ
خُلق اس کا ہی شامل ہے کہ ہوتا ہے سدا[86]
بوئے
گل سے نفسِ بادِ صبا عطر آگیں
بُرّشِ
تیغ کا اس کی ہے جہاں میں چرچا
قطع ہو
جائے نہ سر رشتۂ ایجاد کہیں
کُفر
سوز اس کا وہ جلوہ ہے کہ جس سے ٹوٹے
رنگِ
عاشق کی طرح رونقِ بت خانۂ چیں
جاں
پناہا! دل و جاں فیض رسانا! شاہا!
وصیِ
ختمِ رسُل تو ہے بہ فتوائے یقیں
جسمِ
اطہر کو ترے دوشِ پیمبر منبر
نامِ
نامی کو ترے ناصیۂ عرش نگیں
کس سے
ممکن ہے تری مدح بغیر از واجب
شعلۂ
شمع مگر شمع پہ باندھے آئیں
آستاں
پر ہے ترے جوہرِ آئینۂ سنگ
رَقَمِ
بندگیِ حضرتِ جبریلِ امیں
تیرے
در کے لئے[87] اسبابِ نثار آمادہ
خاکیوں
کو جو خدا نے دیئے جان و دل و دیں
تیری
مدحت کے لئے ہیں دل و جاں کام و زباں
تیری
تسلیم کو ہیں لَوح و قلم دست و جبیں
کس سے
ہو سکتی ہے مدّاحیِ ممدوحِ خدا
کس سے
ہو سکتی ہے آرائشِ فردوسِ بریں!
ق
جنسِ
بازارِ معاصی اسدؔ اللہ اسدؔ
کہ سوا
تیرے کوئی اس کا خریدار نہیں
شوخیِ
عرضِ مطالِ ب میں ہے گستاخِ طلب
ہے ترے
حوصلۂ فضل پہ از بس کہ یقیں
دے دعا
کو مری وہ مرتبۂ حسنِ قبول
کہ
اجابت کہے ہر حرف پہ سو بار آمیں
غمِ
شبّیر سے ہو سینہ یہاں تک لب ریز
کہ
رہیں خونِ جگر سے مری آنکھیں رنگیں
طبع کو
الفتِ دُلدُل میں یہ سرگرمیِ شوق
کہ
جہاں تک چلے اس سے قدم اور مجھ سے جبیں
دلِ
الفت نسب و سینۂ توحید فضا
نگہِ
جلوہ پرست و نفسِ صدق گزیں
صَرفِ
اعدا اثرِ شعلۂ دودِ [88]
دوزخ
وقفِ
احباب گُل و سنبلِ فردوسِ بریں[89]
مزید اشعار از نسخۂ
رضا
توڑے ہے عجزِ تُنک حوصلہ،
بر روئے زمیں
سجدہ تمثال وہ آئینہ،
کہیں جس کو جبیں
توڑے ہے نالہ، سرِ رشتۂ
پاسِ انفاس
سر کرے ہے، دلِ حیرت
زدہ، شغلِ تسکین
یاس، تمثالِ بہار آئینۂ
استغنا
وہم، آئینۂ پیدائیِ تمثالِ
یقیں
خوں ہوا، جوشِ تمنا
سے دو عالم کا دماغ
بزمِ یاس، آں سوئے
پیدائیِ و اخفا رنگیں
خانہ ویرانیِ امید و
پریشانیِ بیم
جوشِ دوزخ، ہے خوانِ چمنِ
خلدِ بریں
بادِ افسانۂ بیمار
ہے، عیسیٰ کا نفس
استخواں ریزۂ موراں
ہے، سلیماں کا نگیں
موجِ خمیازۂ یک نشّہ،
چہ اسلام، و چہ کفر
کجیِ یک خطِ مسطر، چہ
توہّم، چہ یقیں
قبلہ و ابروئے بت، یک
رہِ خوابیدۂ شوق
کعبہ و بت کدہ، یک
محملِ خوابِ سنگیں
عیشِ بسمل کدۂ عیدِ حریفاں
معلوم
خوں ہو آئینہ، کہ ہو
جامۂ طفلاں رنگیں
نزعِ مخمور ہوں اُس
دید کی دھن میں کہ مجھے
رشتۂ سازِ ازل ہے،
نگہِ باز پسیں
حیرت، آفت زدۂ عرضِ دو
عالم نیرنگ
مومِ آئینۂ ایجاد ہے،
مغزِ تمکیں
وحشتِ دل سے پریشاں
ہیں، چراغانِ خیال
باندھوں ہوں آئنے پر
چشمِ پری سے آئیں
کوچہ دیتا ہے پریشاں
نظری پر، صحرا
رمِ آہو کو ہے ہر ذرے
کی چشمک میں کمیں
چشمِ امید سے گرتے
ہیں، دو عالم، جوں اشک
یاس پیمانہ کشِ گریۂ
مستانہ نہیں
کس قدر فکر کو ہے نالِ
قلم موئے دماغ
کہ ہوا خونِ نگہ شوق
میں نقشِ تمکیں
عذرِ لنگ، آفتِ جولانِ
ہوس ہے، یا رب
جل اُٹھے گرمیِ رفتار
سے، پائے چوبیں
نہ تمنا، نہ تماشا،
نہ تحیر، نہ نگاہ
گردِ جوہر میں ہے،
آئینۂ دل پردہ نشیں
کھینچوں ہوں آئنے پر
خندۂ گل سے مسطر
نامہ، عنوانِ بیانِ دلِ
آزردہ نہیں
رنجِ تعظیم مسیحا
نہیں اُٹھتا مجھ سے
درد ہوتا ہے مرے دل
میں، جو توڑوں بالیں
بس کہ گستاخیِ اربابِ
جہاں سے ہوں ملول
پرِ پروانہ، مری بزم
میں ہے خنجرِ کیں
اے عبارت، تجھے کس خط
سے ہے درسِ نیرنگ
اے نگہ، تجھ کو ہے کس
نقطے میں مشقِ تسکیں؟
جلوۂ ریگِ رواں دیکھ
کہ گردوں ہر صبح
خاک پر توڑے ہے آئینۂ
نازِ پرویں
شورِ اوہام سے، مت ہو
شبِ خونِ انصاف
گفتگو بے مزہ، و زخمِ
تمنا نمکیں
ختم کر ایک اشارت میں
عباراتِ نیاز
جوں مہِ نو، ہے نہاں
گوشۂ ابرو میں، جبیں
معنیِ لفظِ کرم،
بسملۂ نسخۂ حسن
قبلۂ اہلِ نظر، کعبۂ
اربابِ یقیں
جلوہ رفتارِ سرِ جادۂ
شرعِ تسلیم
نقشِ پا جس کا ہے
توحید کو معراجِ جبیں
کوہ کو، بیم سے، اُس
کے ہے جگر باختگی
نہ کرے نذرِ صدا،
ورنہ، متاعِ تمکیں
وصفِ دُلدُل، ہے مرے
مطلعِ ثانی کی بہار
جنتِ نقشِ قدم سے
ہوں، میں اس کے گل چیں
مطلع
گردِ رہ، سرمہ کشِ دیدۂ
اربابِ یقیں
نقشِ ہر گام، دو عالم
صفہاں زیرِ نگیں
برگِ گل کا، ہو جو
طوفانِ ہوا میں عالم
اُس کے جولاں میں نظر
آئے ہے یوں، دامنِ دیں
اُس کی شوخی سے بہ
حسرت کدۂ نقشِ خیال
فکر کو حوصلۂ فرصتِ ادراک
نہیں
جلوۂ برق سے ہو جائے
نگہ، عکس پذیر
اگر آئینہ بنے حیرتِ صورت
گرِ چیں
ذوقِ گل چینیِ نقشِ کفِ
پاسے تیرے
عرش چاہے ہے کہ ہو در
پہ ترے خاک نشیں
تجھ میں اور غیر میں
نسبت ہے، ولیکن بہ تضاد
وصیِ ختمِ رسل تو ہے
بہ اثباتِ یقیں
دادِ دیوانگیِ دل کہ
ترا مدحت گر
ذرّے سے باندھے ہے
خورشیدِ فلک پر آئیں
۳
مدحِ
شاہ
جس کو تو جھک کے کر
رہا ہے سلام
دو دن آیا ہے تو نظر
دمِ صبح
یہی انداز اور یہی
اندام
بارے دو دن کہاں رہا
غائب؟
‘‘بندہ عاجز ہے، گردشِ
ایّام
اڑ کے جاتا کہاں کہ
تاروں کا
آسماں نے بچھا رکھا
تھا دام‘‘
مرحبا اے سرورِ خاصِ خواص
حبّذا اے نشاطِ عامِ عوام
عذر میں تین دن نہ
آنے کے
لے کے آیا ہے عید کا
پیغام
اس کو بھولا نہ
چاہیئے کہنا
صبح جو جائے اور آئے
شام[90]
ایک میں کیا؟ سب نے
جان لیا
تیرا آغاز اور ترا
انجام
رازِ دل مجھ سے کیوں
چھپاتا ہے
مجھ کو سمجھا ہے کیا
کہیں نمّام؟
جانتا ہوں کہ آج دنیا
میں
ایک ہی ہے امیدگاہِ انام
میں نے مانا کہ تو ہے
حلقہ بہ گوش
غالبؔ اس کا مگر نہیں
ہے غلام؟
جانتا ہوں کہ جانتا
ہے تُو
تب کہا ہے بہ طرزِ استفہام
مہرِ تاباں کو ہو تو
ہو، اے ماہ!
قربِ ہر روزہ[91]
بر سبیلِ دوام
ق
تجھ کو کیا پایہ
روشناسی کا
جز بہ تقریبِ عیدِ ماہِ
صیام
جانتا ہوں کہ اس کے
فیض سے تو
پھر بنا چاہتا ہے ماہِ
تمام
ماہ بن، ماہتاب بن،
میں کون؟
مجھ کو کیا بانٹ دے
گا تو انعام
میرا اپنا جدا معاملہ
ہے
اور کے لین دین سے
کیا کام
ہے مجھے آرزوئے بخششِ
خاص
گر تجھے ہے امیدِ رحمتِ
عام
جو کہ بخشے گا تجھ کو
فرِّ فروغ
کیا نہ دے گا مجھے
مئے گلفام؟
جب کہ چودہ منازلِ فلکی
کر چکے[92]
قطع تیری تیزیِ گام
تیرے پرتو سے ہوں
فروغ پذیر
کوئے و مشکوئے و صحن
و منظر و بام
دیکھنا میرے ہاتھ میں
لبریز
اپنی صورت کا اک
بلوریں جام
پھر غزل کی روِ ش پہ
چل نکلا
توسنِ طبع چاہتا تھا[93]
لگام
زہرِ غم کر چکا تھا
میرا کام
تجھ کو کس نے کہا کہ
ہو بدنام؟
مے ہی پھر کیوں نہ
میں پیئے جاؤں؟
غم سے جب ہو گئی ہے
زیست[94]
حرام
بوسہ کیسا؟ یہی غنیمت
ہے
کہ نہ سمجھیں وہ لذّتِ
دشنام
کعبے میں جا بجائیں
گے ناقوس
اب تو باندھا ہے دَیر
میں احرام
اس قدح کا ہے دَور
مجھ کو نقد
چرخ نے لی ہے جس سے
گردشِ ایّام
[95]بوسہ دینے میں ان کو ہے انکار
دل کے لینے میں جن کو
تھا ابرام
چھیڑتا ہوں کہ ان کو
غصہ آئے
کیوں رکھوں ورنہ
غالبؔ اپنا نام
کہہ چکا میں تو سب
کچھ، اب تُو کہہ
اے پری چہرہ پیکِ تیز
خرام
کون ہے جس کے در پہ
ناصیہ سا
ہیں مہ و مہر و زہرہ
و بہرام
تُو نہیں جانتا تو
مجھ سے سن
نامِ شاہنشہِ بلند
مقام
قبلۂ چشم و دل بہادر
شاہ
مظہرِ ذو الجلال و الاکرام
شہ سوارِ طریقۂ انصاف
نو بہارِ حدیقۂ اسلام
جس کا ہر فعل صورتِ اعجاز
جس کا ہر قول معنیِ الہام
بزم میں، میزبان قیصر
و جم
رزم میں اوستادِ رستم
و سام
اے ترا لطف زندگی
افزا
اے ترا عہد فرخی
فرجام
چشمِ بد دور! خسروانہ
شکوہ
لوحش اللہ! عارفانہ
کلام
جاں نثاروں میں تیرے
قیصرِ روم
جُرعہ خواروں میں
تیرے مرشدِ جام
وارثِ ملک جانتے ہیں
تجھے
ایرج و تور و خسرو و
بہرام
زورِ بازو میں مانتے
ہیں تجھے
گیو و گودرز و بیزن و
رَہّام
مرحبا مو شگافیِ ناوک
آفریں آب داریِ صمصام
تیر کو تیرے تیرِ غیر
ہدف
تیغ کو تیری تیغِ خصم
نیام
ق
رعد کا کر رہی ہے کیا
دم بند
برق کو دے رہا ہے کیا
الزام
تیرے فیلِ گراں جسد
کی صدا
تیرے رخشِ سبک عناں
کا خرام
ق
فنِ صورت گری میں
تیرا گُرز
گر نہ رکھتا ہو دست گاہِ
تمام
اس کے مضروب کے سر و
تن سے
کیوں نمایاں ہو صورتِ
ادغام؟
جب ازل میں رقم پذیر
ہوئے
صفحہ ہائے لیالی و
ایّام
اور ان اوراق میں بہ
کلکِ قضا
مجملاّ مندرج ہوئے
احکام
لکھ دیا شاہدوں کو
عاشق کُش
لکھ دیا عاشقوں کو
دشمن کام
آسماں کو کہا گیا کہ
کہیں
گنبدِ تیز گردِ نیلی
فام
حکمِ ناطق لکھا گیا
کہ لکھیں
خال کو دانہ اور زلف
کو دام
آتش و آب و باد و خاک
نے لی
وضعِ سوز و نم و رم و
آرام
مہرِ رخشاں کا نام
خسروِ روز
ماہِ تاباں کا اسم
شحنۂ شام
تیری توقیعِ سلطنت کو
بھی
دی بہ دستور صورتِ ارقام
کاتبِ حکم نے بہ موجبِ
حکم
اس[96] رقم کو دیا طرازِ دوام
ہے ازل سے روانیِ[97]آغاز
ہو ابد تک رسائیِ
انجام
۴
مدحِ
شاہ
مہرِ عالم تاب کا
منظر کھلا
خسروِ انجم کے آیا
صرف میں
شب کو تھا گنجینۂ
گوہر کھلا
وہ بھی تھی اک سیمیا
کی سی نمود
صبح کو رازِ مہ و
اختر کھلا
ہیں کواکب، کچھ نظر
آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ
بازی گر کھلا
سطحِ گردوں پر پڑا
تھا رات کو
موتیوں کا ہر طرف
زیور کھلا
صبح آیا جانبِ مشرق
نظر
اک نگارِ آتشیں رُخ،
سر کھلا
تھی نظر بندی، کِیا
جب ردِّ سِحر
بادۂ گل رنگ کا ساغر
کھلا
لا کے ساقی نے صبوحی
کے لئے
رکھ دیا ہے ایک جامِ زر
کھلا
بزمِ سلطانی ہوئی
آراستہ
کعبۂ امن و اماں کا
در کھلا
تاجِ زرّیں مہرِ تاباں
سے سوا
خسروِ آفاق کے منہ پر
کھلا
شاہِ روشن دل، بہادر
شہ، کہ ہے
رازِ ہستی اس پہ سر
تا سر کھلا
وہ کہ جس کی صورتِ تکوین
میں
مقصدِ نُہ چرخ و ہفت
اختر کھلا
وہ کہ جس کے ناخنِ تاویل
سے
عقدۂ احکامِ پیغمبر
کھلا
پہلے دارا کا نکل آیا
ہے نام
اُن کے سَرہنگوں کا
جب دفتر کھلا
روُشناسوں کی جہاں
فہرست ہے
واں لکھا ہے چہرۂ
قیصر کھلا
ق
توُسنِ شہ میں ہے وہ
خوبی کہ جب
تھان سے وہ غیرتِ صرصر
کھلا
نقشِ پا کی صورتیں وہ
دل فریب
توُ کہے بت خانۂ آزر
کھلا
مجھ پہ فیضِ تربیت سے
شاہ کے
منصبِ مہر و مہ و
محور کھلا
لاکھ عُقدے دل میں
تھے، لیکن ہر ایک
میری حدِّ وُسع سے
باہر کھلا
تھا دلِ وابستہ قُفلِ
بے کلید
کس نے کھولا، کب
کھلا، کیوں کر کھلا؟
باغِ معنی کی دکھاؤں[98]
گا بہار
مجھ سے گر شاہِ سخن
گستر کھلا
ہو جہاں گرمِ غزل
خوانی نَفَس
لوگ جانیں طبلۂ عنبر
کھلا
کُنج میں بیٹھا رہوں
یوں پَر کھلا
کاشکے ہوتا قفس کا در
کھلا
ہم پکاریں اور کھلے،
یوں کون جائے
یار کا دروازہ پاویں
گر کھلا
ہم کو ہے اس راز داری
پر گھمنڈ
دوست کا ہے راز دشمن
پر کھلا
واقعی دل پر بھلا
لگتا تھا داغ
زخم لیکن داغ سے بہتر
کھلا
ہاتھ سے رکھ دی کب
ابرو نے کماں
کب کمر سے غمزے کی
خنجر کھلا
مُفت کا کس کو بُرا
ہے بدرقَہ
رہروی میں پردۂ رہبر
کھلا
سوزِ دل کا کیا کرے
بارانِ اشک
آگ بھڑکی، مینہ اگر
دم بھر کھلا
نامے کے ساتھ آ گیا
پیغامِ مرگ
رہ گیا خط میری چھاتی
پر کھلا
دیکھیو غالبؔ سے گر الجھا
کوئی
ہے ولی پوشیدہ اور
کافر کھلا
پھر ہوا مدحت طرازی
کا خیال
پھر مہ و خورشید کا
دفتر کھلا
خامے نے[99]
پائی طبیعت سے مدد
بادباں بھی، اٹھتے ہی
لنگر، کھلا
مدح سے، ممدوح کی
دیکھی شکُوہ
یاں عَرَض سے رُتبۂ
جوہر کھلا
مہر کانپا، چرخ چکّر
کھا گیا
بادشہ کا رائتِ لشکر
کھلا
بادشہ کا نام لیتا ہے
خطیب
اب عُلوِّ پایۂ مِنبر
کھلا
سِکۂ شہ کا ہوا ہے رو
شناس
اب عِیارِ آبروئے زر
کھلا
شاہ کے آگے دھرا ہے آئینہ
اب مآلِ سعیِ اِسکَندر
کھلا
ملک کے وارث کو دیکھا
خَلق نے
اب فریبِ طغرل و سنجر
کھلا
ہو سکے کیا مدح، ہاں،
اک نام ہے
دفترِ مدحِ جہاں داور
کھلا
فکر اچھّی پر ستائش
نا تمام
عجزِ اعجازِ ستائش گر
کھلا
جانتا ہوں، ہے خطِ لوحِ
ازل
تم پہ اے خاقانِ نام
آور! کھلا
تم کرو صاحب قِرانی،
جب تلک
ہے طلسمِ روز و شب کا
در کھلا!
۵
ایلین
براؤن
ملاذِ
کشور و لشکر، پناہِ شہر و سپاہ
جنابِ عالی ایلن برون
والا جاہ
بلند رتبہ وہ حاکم وہ
سرفراز امیر
کہ باج تاج سے لیتا
ہے جس کا طرفِ کلاہ
وہ محض رحمت و رافت
کہ بہرِ اہلِ جہاں
نیابتِ دمِ عیسیٰ کرے
ہے جس کی نگاہ
وہ عین عدل کہ دہشت
سے جس کی پرسش کی
بنے ہیں شعلۂ آتش
انیسِ پَرّۂ کاہ
زمیں سے سودۂ گوہر
اٹھے بجائے غبار
جہاں ہو توسنِ حشمت
کا اس کے جولاں گاہ
وہ مہرباں ہو تو انجم
کہیں‘‘الٰہی شکر‘‘
وہ خشم گیں ہو تو
گردوں کہے‘‘خدا کی پناہ‘‘
یہ اس کے عدل سے
اضداد کو ہے آمیزش
کہ دشت و کوہ کے
اطراف میں بہ ہر سرِ راہ
کہ دشت و کوہ کے
اطراف میں، بہر سرِ راہ
ہزبر پنجے سے لیتا ہے
کام شانے کا
کبھی جو ہوتی ہے
الجھی ہوئی دُمِ رو باہ
نہ آفتاب، ولے آفتاب
کا ہم چشم
نہ بادشاہ، ولے مرتبے
ہیں ہمسرِ شاہ
خدا نے اس کو دیا ایک
خوبرو فرزند
ستارہ جیسے چمکتا ہوا
بہ پہلوئے ماہ
زہے ستارۂ روشن کہ جو
اسے دیکھے
شعاعِ مہرِ درخشاں ہو
اس کا تارِ نگاہ
خدا سے ہے یہ توقع کہ
عہدِ طفلی میں
بنے گا شرق سے تا غرب
اس کا بازی گاہ
جوان ہوکے کرے گا یہ
وہ جہان بانی
کہ تابع اس کے ہوں
روز و شب سپید و سیاہ
کہے گی خلق اسے داورِ
سپہر شکُوہ
لکھیں گے لوگ اسے
خسرو ستارہ سپاہ
عطا کرے گا خداوندِ کار
ساز اسے
روانِ روشن و خوئے
خوش و دلِ آگاہ
ملے گی اس کو وہ عقلِ
نہفتہ داں کہ اسے
پڑے نہ قطعِ خصومت
میں احتیاجِ گواہ
یہ ترکتاز سے برہم
کرے گا کشورِ روس
یہ لے گا بادشہِ چیں
سے چھین، تخت و کلاہ
سنینِ عیسوی اٹھارہ
سو اور اٹھاون
یہ چاہتے ہیں جہاں
آفریں سے شام و پگاہ
یہ جتنے سیکڑے ہیں سب
ہزار ہو جاویں
دراز اس کی ہو عمر اس
قدر، سخن کوتاہ
امید وارِ عنایات‘‘شیو
نرائن‘‘
کہ آپ کا ہے نمک خوار
اور دولت خواہ
یہ چاہتا ہے کہ دنیا
میں عزّ و جاہ کے ساتھ
تمہیں اور اس کو
سلامت رکھے سدا، اللہ۔ [100]
۶
والیِ
الور کی سالگرہ پر
گئی
ہیں سال کے رشتے میں بیس بار گرہ
ابھی حساب میں باقی
ہیں سو ہزار گرہ
گرہ کی ہے یہی گنتی
کہ تا بہ روزِ شمار
ہوا کرے گی ہر اک
سال، پیش کار گرہ
یقین جان! برس گانٹھ
کا جو ہے تاگا
یہ کہکشاں ہے کہ ہیں
اس میں بے شمار گرہ
گرہ سے اَور گرہ کی
امید کیوں نہ پڑے
کہ ہر گرہ کی گرہ میں
ہیں تین چار گرہ
دِکھا کے رشتہ کسی
جوتشی سے پوچھا تھا
کہ دیکھو کتنی اٹھا
لائے گا یہ تار گرہ
کہا کہ چرخ پہ ہم نے
گنی ہیں نو گرہیں
جو یاں گنیں گے تو
پاویں گے نو ہزار گرہ
خود آسماں ہے مہا
راجا راؤ پر صدقے
کرے گا سیکڑوں، اس
تار پر نثار گرہ
وہ راؤ راجا بہادر کہ
حکم سے جن کے
رواں ہو تار پہ فی
الفور دانہ وار گرہ
انہیں کی سالگرہ کے
لئے ہے سال بہ سال
کہ لائے غیب سے غنچوں
کی نو بہار گرہ
انہیں کی سالگرہ کے
لئے بناتا ہے
ہوا میں بوند کو ابرِ
تگرگ بار گرہ
انہیں کی سالگرہ کی
یہ شادمانی ہے
کہ ہو گئے ہیں گہر
ہائے شاہ وار گرہ
انہیں کی سالگرہ کے
لئے ہے یہ توقیر
کہ بن گئے ہیں ثمر
ہائے شاخ سار گرہ
سن، اے ندیم! برس
گانٹھ کے یہ تاگے نے
تجھے بتاؤں کہ کیوں
کی ہے یہ اختیار گرہ
پئے دعائے بقائے جنابِ
فیض مآب
لگے گی اس میں ثوابت
کی استوار گرہ
ہزار دانہ کی تسبیح
چاہتا ہے یہی
بلا مبالغہ درکار ہے
ہزار گرہ
عطا کیا ہے خدا نے یہ
جاذبہ اس کو
کہ چھوڑتا ہی نہیں
رشتہ زینہار گرہ
کشادہ رخ نہ پھرے
کیوں جب اس زمانے میں
بچے نہ از پے بندِ نقابِ
یار گرہ
متاعِ عیش کا ہے
قافلہ چلا آتا
کہ جادہ رشتہ ہے اور
ہے شتر قطار گرہ
خدا نے دی ہے وہ
غالبؔ کو، دستگاہِ سخن
کروڑ ڈھونڈ کے لاتا
ہے خاکسار گرہ
کہاں مجالِ سخن؟ سانس
لے نہیں سکتا
پڑی ہے دل میں مرے،
غم کی پیچ دار گرہ
گرہ کا نام لیا پر نہ
کر سکا کچھ بات
زباں تک آ کے، ہوئی
اُور استوار گرہ
کھلے یہ گانٹھ تو
البتّہ دم نکل جاوے
بری طرح سے ہوئی ہے
گلے کا ہار گرہ
اِدھر نہ ہو گی توجہ
حضور کی جب تک
کبھی کسے سے کھلے گی
نہ زینہار گرہ
دعا ہے یہ کہ مخالف
کے دل میں از رہِ بغض
پڑی ہے یہ جو بہت سخت
نابکار گرہ
دل اس کا پھوڑ کے
نکلے بہ شکل پھوڑے کی
خدا کرے کہ کرے اس
طرح اُبھار گرہ
۷
میکلوڈ
صاحب کی خدمت میں
کرتا
ہے چرخ روز بہ صد گونہ احترام
فرماں روائے کشورِ پنجاب
کو سلام
حق گو و حق پرست و حق
اندیش و حق شناس
نوّاب مستطاب، امیرِ شہ
احتشام
جم رتبہ میکلوڈ بہادر
کہ وقتِ رزم
تُرکِ فلک کے ہاتھ سے
وہ چھین لیں حُسام
جس بزم میں کہ ہو
انہیں آئینِ مے کشی
واں آسمان شیشہ بنے،
آفتاب جام
چاہا تھا میں نے تم
کو مہِ چار دہ کہوں
دل نے کہا کہ یہ بھی
ہے تیرا خیالِ خام
دو رات میں تمام ہے
ہنگامہ ماہ کا
حضرت کا عزّ و جاہ
رہے گا علی الدّوام
سچ ہے تم آفتاب ہو،
جس کے فروغ سے
دریائے نور ہے فلکِ آبگینہ
فام
میری سنو، کہ آج تم
اس سر زمیں پر
حق کے تفضّلات سے ہو
مرجعِ انام
اخبارِ لدھیانہ میں،
میری نظر پڑی
تحریر ایک، جس سے ہوا
بندہ تلخ کام
ٹکڑے ہوا ہے دیکھ کے
تحریر کو جگر
کاتب کی آستیں ہے مگر
تیغِ بے نیام
وہ فرد جس میں نام ہے
میرا غلط لکھا
جب یاد آ گئی ہے،
کلیجا لیا ہے تھام
سب صورتیں بدل گئیں
ناگاہ یک قلم
لمبر رہا نہ نذر، نہ
خلعت کا انتظام
ستّر برس کی عمر میں
یہ داغِ جاں گداز
جس نے جلا کے راکھ
مجھے کر دیا تمام
تھی جنوری مہینے کی
تاریخ تیرھویں
استادہ ہو گئے لبِ دریا
پہ جب خیام
اس بزمِ پُر فروغ میں
اس تیرہ بخت کو
لمبر ملا نشیب میں از
روئے اہتمام
سمجھا اسے گراب، ہوا
پاش پاش دل
دربار میں جو مجھ پہ
چلی چشمکِ عوام
عزت پہ اہلِ نام کی
ہستی کی ہے بناء
عزت جہاں گئی تو نہ
ہستی رہے نہ نام
تھا ایک گونہ ناز جو
اپنے کمال پر
اس ناز کا فلک نے لیا
مجھ سے انتقام
آیا تھا وقت ریل کے
کھلنے کا بھی قریب
تھا بارگاہِ خاص میں
خلقت کا اژدہام
اس کشمکش میں آپ کا
مدّاحِ درد مند
آقائے نامور سے نہ
کچھ کر سکا کلام
جو واں نہ کہ سکا تھا
وہ لکھا حضور کو
دیں آپ میری داد کہ
ہوں فائز المرام
ملک و سپہ نہ ہو تو
نہ ہو، کچھ ضرر نہیں
سلطانِ بّر و بحر کے
در کا ہوں میں غلام
وکٹوریہ کا دہر میں
جو مداح خوان ہو
شاہانِ مصر چاہیئے
لیں عزت اس سے وام
خود ہے تدارک اس کا
گورنمنٹ کو ضرور
بے وجہ کیوں ذلیل ہو
غالبؔ ہے جس کا نام
امرِ جدید کا تو نہیں
ہے مجھے سوال
بارے قدیم قاعدے کا
چاہیئے قیام
ہے بندہ کو اعادۂ عزت
کی آرزو
چاہیں اگر حضور تو
مشکل نہیں یہ کام
دستورِ فنِّ شعر یہی
ہے قدیم سے
یعنی دعا پہ مدح کا
کرتے ہیں اختتام
ہے یہ دعا کہ زیرِ نگیں
آپ کے رہے
اقلیمِ ہند و سند سے
تا ملکِ روم و شام
۸
نوّاب
یوسف علی خاں
عیدِ شوّال و ماہِ فروردیں
شب و روز افتخارِ لیل
و نہار
مہ و سال اشرفِ شہور
و سِنیں
گرچہ ہے بعد عید کے
نو روز
لیک، بیش از سہ ہفتہ
بعد نہیں
سُو اس اکّیس دن میں
ہولی کی
جا بجا مجلسیں ہوئیں
رنگیں
شہر میں کو بہ کو
عبیر و گلال
باغ میں سو بہ سو گل
و نسریں
شہر گویا نمونۂ گل
زار
باغ گویا نگار خانۂ
چیں
تین تہوار اور ایسے
خوب
جمع ہرگز ہوئے نہ ہوں
گے کہیں
پھر ہوئی ہے اسی
مہینے میں
منعقد محفلِ نشاط
قریں
محفلِ غسلِ صحّتِ نوّاب
رونق افزائے مسندِ تمکیں
بزم گہ میں، امیرِ شاہ
نشاں
رزم گہ میں حریفِ شیرِ
کمیں
[101]پیش گاہِ حضور، شوکت و جاہ
خیر خواہِ جناب، دولت
و دیں
جن کے مسند کا آسماں
گوشہ
جن کی خاتم کا آفتاب
نگیں
جن کے دیوارِ قصر کے
نیچے
آسماں ہے گدائے سایہ
نشیں
دہر میں اس طرح کی
بزمِ سرور
نہ ہوئی ہو کبھی بہ
روئے زمیں
انجمیں چرخ، گوہر
آگیں فرش[102]
نور، مے، ماہ، ساغرِ سیمیں
راجا اِندَر کا جو
اکھاڑا ہے
ہے وہ بالائے سطحِ چرخِ
بریں
وہ نظر گاہِ اہلِ وہم
و خیال
یہ ضیاء بخشِ چشمِ اہلِ
یقیں
واں کہاں یہ عطاء و
بذل و کرم؟
کہ جہاں گریہ گر کا
نام نہیں[103]
ہاں زمیں پر نظر جہاں
تک جائے
ژالہ آسا بچھے ہیں
درِّ ثمیں
نغمۂ مطربانِ زہرہ
نوا
جلوۂ لولیانِ ماہ
جبیں
اس اکھاڑے میں جو کہ
ہے مظنون
یاں وہ دیکھا بہ چشمِ
صورت بیں
سرورِ مہر فر ہوا جو
سوار
بہ کمالِ تجمل و
تزئیں
سب نے جانا کہ ہے پری
توسن
اور بالِ پری ہے دامنِ
زیں
نقشِ سمِّ سمند سے،
یکسر
بن گیا دشت دامنِ گل
چیں
فوج کی گردِ راہ مشک
فشاں
رہروؤں کے مشام عطر
آگیں
بس کہ بخشی ہے فوج کو
عزّت
فوج کا ہر پیادہ ہے
فرزیں
موکبِ خاص یوں زمیں
پر تھا
جس طرح ہے سپہر پر
پرویں
چھوڑ دیتا تھا گور کو
بہرام
ران پر داغ تازہ دے
کے وہیں
اور داغ آپ کی غلامی
کا
خاص بہرام کا ہے زیب
سریں
بندہ پرور ثنا طرازی
سے
مدّعا عرضِ فنِّ شعر
نہیں
آپ کی مدح اور میرا
منہ
گر کہوں بھی تو آئے
کس کو یقیں
اور پھر اب کہ ضعفِ پیری
سے
ہو گیا ہوں نزار و
زار و حزیں
پیری و نیستی خدا کی
پناہ
دستِ خالی و خاطرِ غمگیں
صرف اظہار ہے ارادت
کا
ہے قلم کی جو سجدہ
ریز جبیں
مدح گستر نہیں دعاگو
ہے
غالبؔ عاجز نیاز آگیں
ہے دعا بھی یہی کہ
دنیا میں
تم رہو زندہ جاوداں،
آمیں
۹
مدح
نصرت الملک بہادر
نُصرت الملک بہادُر مجھے
بتلا کہ مجھے
تجھ
سے جو اتنی اِرادت ہے تو کس بات سے ہے؟
گرچہ تُو وہ ہے کہ
ہنگامہ اگر گرم کرے
رونقِ بزم مہ و مہر
تری ذات سے ہے
اور میں وہ ہوں کہ،
گر جی میں کبھی غور کروں
غیر کیا، خود مجھے
نفرت میری اوقات سے ہے
خستگی کا ہو بھلا، جس
کے سبب سے سرِ دست
نسبت اِک گونہ مرے دل
کو ترے ہات سے ہے
ہاتھ میں تیرے رہے
توسنِ دَولت کی عِ ناں
یہ دُعا شام و سحر
قاضیِ حاجات سے ہے
تُو سکندر ہے، مِرا
فخر ہے ملنا تیرا
گو شرف خضر کی بھی
مجھ کو ملاقات سے ہے
اِس پہ گُزرے نہ گماں
رِیو و رِیا کا زِنہار
غالبؔ خاک نشیں اہلِ خرابات
سے ہے
۱۰
در
مدحِ شاہ
اے
شاہِ جہاں گیر جہاں بخشِ جہاں دار
ہے غیب سے ہر دم تجھے
صد گُونہ بشارت
جو عُقدۂ دُشوار کہ
کوشش سے نہ وا ہوا
تو وَا کرے اُس عُقدے
کو، سو بھی بہ اشارت
ممکن ہے، کرے خضر
سکندر سے ترا ذکر
گر لب کو نہ دے چشمۂ
حیواں سے طہارت
آصف کو سُلیماں کی
وزارت سے شرف تھا
ہے فخرِ سُلیماں، جو
کرے تیری وزارت
ہے نقشِ مُریدی ترا،
فرمانِ الٰہی
ہے داغِ غُلامی تِرا،
توقیعِ امارت
تُو آب سے گر سلب کرے
طاقتِ سیلاں
تو آگ سے گر دفع کرے
تابِ شرارت
ڈھُونڈے نہ مِلے موجۂ
دریا میں روانی
باقی نہ رہے آتشِ سوزاں
میں حرارت
ہے گر چہ مجھے نُکتہ
سرائی میں توغُل
ہے گرچہ مجھے سحر
طرازی میں مہارت
کیوں کر نہ کروں مدح
کو میں ختم دُعا پر
قاصر ہے ستائش[104]
میں تِری، میری عبارت
نَو روز ہے آج اور وہ
دن ہے کہ ہوئے ہیں
نظارگیِ صنعتِ حق اہلِ
بصارت
تجھ کو شرفِ مہرِ جہان
تاب مُبارک!
غالبؔ کو ترے عتبۂ
عالی کی زیارت!
۱۱
گزارش
مصنّف بہ حضورِ شاہ
اَے شَہنشاہِ آسماں
اَورنگ
تھا میں اِک بے
نَوَائے گوشہ نشیں
تھا میں اِک درد مندِ
سینہ فگار
تُم نے مجھ کو جو
آبرُو بخشی
ہوئی میری وہ گرمیِ بازار
کہ ہوا مجھ سا ذرۂ ناچیز
رُو شناسِ ثوابت و
سیّار
گر چہ از رُوئے ننگ و
بے ہُنری
ہوں خود اپنی نظر میں
اتنا خوار
کہ گر اپنے کو میں
کہوں خاکی
جانتا ہوں کہ آئے خاک
کو عار
شاد ہوں لیکن اپنے جی
میں، کہ ہوں
بادشہ کا غلامِ کار
گزار
خانہ زاد اور مُرید
اور مداح
تھا ہمیشہ سے یہ
عریضہ نگار
بارے نوکر بھی ہو گیا
صد شُکر
نسبتیں ہو گئیں
مُشخّص چار
نہ کہُوں آپ سے تو کس
سے کہوں
مُدعائے ضروری
الاظہار
پِیر و مُرشد! اگرچہ
مجھ کو نہیں
ذوقِ آرائشِ سر و
دستار
کچھ تو جاڑے میں
چاہیے آخر
تا نہ دے بادِ زَمہریر
آزار
کیوں نہ درکار ہو
مجھے پوشش
جسم رکھتا ہوں، ہے
اگرچہ نَزار
کچھ خریدا نہیں ہے اب
کے سال
کچھ بنایا نہیں ہے اب
کی بار
رات کو آگ اور دن کو
دھُوپ!
بھاڑ میں جائیں ایسے
لَیل و نہار!
آگ تاپے کہاں تلک اِنسان
دھُوپ کھاوے[105]
کہاں تلک جان دار
دھُوپ کی تابِ ش، آگ
کی گرمی!
وَقِنَا رَبَّنَا
عَذَابَ النَّار!
میری تنخواہ جو مقرر
ہے
اُس کے ملنے کا ہے
عجب ہنجار
رسم ہے مُردے کی چھ
ماہی ایک
خلق کا ہے اِسی چلن
پہ مدار
مجھ کو دیکھو تو[106]،
ہُوں بہ قیدِ حیات
اور چھ ماہی ہو سال
میں دو بار!
بس کہ لیتا ہوں ہر
مہینے قرض
اور رہتی ہے سُود کی
تکرار
میری تنخواہ میں
تہائی کا
ہو گیا ہے شریک ساہُو
کار
آج مجھ سا نہیں زمانے
میں
شاعرِ نغز گوئے خوش
گُفتار
رزم کی داستان گر
سُنئیے
ہے زباں میری تیغِ جوہر
دار
بزم کا التزام گر
کیجے
ہے قلم میری[107]
ابرِ گوہر بار
ظُلم ہے گر نہ دو
سُخن کی داد
قہر ہے گر کرو نہ مجھ
کو پیار
آپ کا بندہ اور پھِروں
ننگا؟
آپ کا نوکر اور کھاؤں
اُدھار؟
میری تنخواہ کیجے ماہ
بہ ماہ
تا، نہ ہو مجھ کو
زندگی دُشوار
ختم کرتا ہُوں اب
دُعا پہ کلام:
(شاعری سے نہیں مجھے
سروکار)
تُم سلامت رہو ہزار
برس
ہر برس کے ہوں دن
پچاس ہزار
مثنوی
۱
در
صفتِ انبہ
کیوں نہ کھولے درِ خزینۂ
راز
خامے کا صفحے پر رواں
ہونا
شاخِ گل کا ہے گل
فشاں ہونا
مجھ سے کیا پوچھتا ہے
کیا لکھیے؟
نکتہ ہائے خرد فزا
لکھیے!
بارے، آموں کا کچھ
بیاں ہو جائے
خامہ نخلِ رطب فشاں
ہو جائے
آم کا کون مردِ میدان
ہے
ثمر و شاخ گوئے و
چوگاں ہے
تاک کے جی میں کیوں
رہے ارماں
آئے، یہ گوئے اور یہ
میداں
آم کے آگے پیش جاوے[108]
خاک
پھوڑتا ہے جلے
پھپھولے تاک
نہ چلا جب کسی طرح
مقدور
بادۂ ناب بن گیا
انگور
یہ بھی ناچار جی کا
کھونا ہے
شرم سے پانی پانی
ہونا ہے
مجھ سے پوچھو، تمہیں
خبر کیا ہے!
آم کے آگے نیشکر کیا
ہے!
نہ گل اس میں نہ شاخ
و برگ، نہ بار [109]
جب خزاں آئے تب ہو اس
کی بہار[110]
اور دوڑائیے قیاس
کہاں
جانِ شیریں میں یہ
مٹھاس کہاں
جان میں ہوتی گر یہ
شیرینی
کوہ کُن باوجودِ غمگینی
جان دینے میں اس کو
یکتا جان
پَر وہ یوں سہل دے نہ
سکتا جان
نظر آتا ہے یوں مجھے
یہ ثمر
کہ دوا خانۂ ازل میں،
مگر
آتشِ گل پہ قند کا ہے
قوام
شیرے کے تار کا ہے
ریشہ نام
یا یہ ہو گا، کہ فرط
رافت سے
باغبانوں نے باغِ جنت
سے
انگبیں کے، بہ حکم رب
الناس
بھر کے بھیجے ہیں سر
بہ مہر گلاس
یا لگا کر خضر نے شاخِ
نبات
مدتوں تک دیا ہے آبِ حیات
تب ہوا ہے ثمر فشاں
یہ نخل
ہم کہاں ورنہ اور
کہاں یہ نخل
تھا ترنجِ زر ایک
خسرو پاس
رنگ کا زرد پر کہاں
بو باس
آم کو دیکھتا اگر اک
بار
پھینک دیتا طلائے دست
افشار
رونقِ کار گاہِ برگ و
نوا
نازشِ دودمانِ آب و
ہوا
رہروِ راہِ خلد کا
توشہ
طوبیٰ و سِدرہ کا جگر
گوشہ
صاحبِ شاخ و برگ[111]و
بار ہے آم
ناز پروردۂ بہار ہے
آم
خاص وہ آم جو نہ
ارزاں ہو
نو برِ نخلِ باغِ سلطاں
ہو
وہ کہ ہے والیِ ولایتِ
عہد
عدل سے اس کے ہے
حمایتِ عہد
فخرِ دیں عزِ شان و
جاہِ جلال[112]
زینتِ طینت و جمالِ کمال
کار فرمائے دین و
دولت و بخت
چہرہ آرائے تاج و
مسند و تخت
سایہ اُس کا ہما کا سایہ
ہے
خلق پر وہ خدا کا
سایہ ہے
اے مفیضِ وجودِ سایہ
و نور!
جب تلک ہے نمودِ سایہ
و نور
اِس خداوندِ بندہ
پرور کو
وارثِ گنج و تخت و
افسر کو
شاد و دلشاد و شادماں
رکھیو
اور غالبؔ پہ مہرباں
رکھیو!
۲
پتنگِ کاغذی
لے کے دل سر رشتۂ آزادگی
خود بخود کچھ ہم سے
کَنیانے لگا
اس قدر بگڑا کہ سر
کھانے لگا
میں نے کہا اے دل،
ہوائے دلبراں
بس کہ تیرے حق میں
رکھتی ہے زیاں
بیچ میں ان کے نہ آنا
زینہار
یہ نہیں ہیں گے کِسے
کے یارِ غار
گورے پنڈے پر نہ کر
ان کے نظر
کھینچ لیتے ہیں یہ
ڈورے ڈال کر
اب تو مِل جائے گی ان
سے تیری گانٹھ
لیکن آخر کو پڑے گی
ایسی سانٹھ [113]
سخت مشکل ہو گا
سلجھانا تجھے
قہر ہے، دل ان میں
الجھانا تجھے
یہ جو محفل میں
بڑھاتے ہیں تجھے
بھول مت اس پر اُڑاتے
ہیں تجھے
ایک دن تجھ کو لڑا
دیں گے کہیں
مفت میں ناحق کٹا دیں
گے کہیں
دل نے سن کر۔
کانپ کر، کھا پیچ و
تاب
غوطے میں جا کر، دیا
کٹ کر جواب
رشتۂ در گردنم افگندہ
دوست
می بُرد ہر جا کہ
خاطر خواہِ اوست
خمسہ
تضمین
بر غزل بہادر شاہ ظفر
گھستے
گھستے پاؤں کی زنجیر آدھی رہ گئی
مر گئے پر قبر کی
تعمیر آدھی رہ گئی
سب ہی پڑھتا کاش،
کیوں تکبیر آدھی رہ گئی
‘‘کھنچ کے، قاتل! جب
تری شمشیر آدھی رہ گئی
غم سے جانِ عاشقِ دل
گیر آدھی رہ گئی‘‘
بیٹھ رہتا لے کے چشمِ
پُر نم اس کے رو برو
کیوں کہا تو نے کہ
کہہ دل کا غم اس کے رو برو
بات کرنے میں نکلتا
ہے دم اس کے رو برو
‘‘کہہ سکے ساری حقیقت
کب ہم اس کے رو برو
ہم نشیں! آدھی ہوئی
تقریر، آدھی رہ گئی‘‘
تو نے دیکھا! مجھ پہ
کیسی بن گئی، اے راز دار!
خواب و بیداری پہ کب
ہے آدمی کو اختیار
مثلِ زخم آنکھوں کو
سی دیتا، جو ہوتا ہوشیار
‘‘کھینچتا تھا رات کو
میں خواب میں تصویرِ یار
جاگ اٹھا جو، کھینچنی
تصویر آدھی رہ گئی‘‘
غم نے جب گھیرا، تو
چاہا ہم نے یوں، اے دل نواز!
مستیِ چشمِ سیہ سے چل
کے ہوویں چارہ ساز
توُ صدائے پا سے جاگا
تھا، جو محوِ خوابِ ناز
‘‘دیکھتے ہی اے ستم
گر! تیری چشمِ نیم باز
کی تھی پوری ہم نے جو
تدبیر، آدھی رہ گئی‘‘
اس بتِ مغرور کو کیا
ہو کسی پر التفات
جس کے حسنِ روز افزوں
کی یہ اک ادنیٰ ہے بات
ماہِ نو نکلے پہ گزری
ہوں گی راتیں پان سات
‘‘اس رُخِ روشن کے
آگے ماہِ یک ہفتہ کی رات
تابشِ خورشیدِ پُر
تنویر آدھی رہ گئی‘‘
تا مجھے پہنچائے
کاہش، بختِ بد ہے گھات میں
ہاں فراوانی! اگر کچھ
ہے، تو ہے آفات میں
جُز غمِ داغ و الم، گھاٹا
ہے ہر اک بات میں
‘‘کم نصیبی اس کو
کہتے ہیں کہ میرے ہات میں
آتے ہی خاصیّتِ اکسیر
آدھی رہ گئی‘‘
سب سے یہ گوشہ کنارے
ہے، گلے لگ جا مرے
آدمی کو کیا پکارے
ہے، گلے لگ جا مرے
سر سے گر چادر اتارے
ہے، گلے لگ جا مرے
‘‘مانگ کیا بیٹھا
سنوارے ہے، گلے لگ جا مرے
وصل کی شب، اے بتِ بے
پیر آدھی رہ گئی‘‘
میں یہ کیا جانوں کہ
وہ کس واسطے ہوں پھِر گئے
پھر نصیب اپنا، انھیں
جاتے سنا، جوں پھر گئے
دیکھنا قسمت وہ آئے
اور پھر یوں پھِر گئے
‘‘آ کے آدھی دور،
میرے گھر سے وہ کیوں پھِر گئے
کیا کشش میں دل کی ان
تاثیر آدھی رہ گئی‘‘
ناگہاں یاد آ گئی ہے
مجھ کو، یا رب! کب کی بات
کچھ نہیں کہتا کسی
سے، سن رہا ہوں سب کی بات
کس لئے تجھ سے
چھپاؤں، ہاں! وہ پرسوں شب کی بات
‘‘نامہ بر جلدی میں
تیری وہ جو تھی مطلب کی بات
خط میں آدھی ہو سکی،
تحریر آدھی رہ گئی‘‘
ہو تجلّی برق کی صورت
میں، ہے یہ بھی غضب
پانچ چھ گھنٹے تو
ہوتی فرصتِ عیش و طرب
شام سے آتے تو کیا
اچھی گزرتی رات سب
‘‘پاس میرے وہ جو آئے
بھی، تو بعد از نصف شب
نکلی آدھی حسرت، اے
تقدیر! آدھی رہ گئی‘‘
تم جو فرماتے ہو،
دیکھ اے غالبؔ آشفتہ سر
ہم نہ تجھ کو منع
کرتے تھے، گیا کیوں اُس کے گھر؟
جان کی پاؤں اماں،
باتیں یہ سب سچ ہیں مگر
‘‘‘‘دل نے کی ساری
خرابی، لے گیا مجھ کو ظفر
واں کے جانے میں مری
توقیر آدھی رہ گئی‘‘
مرثیہ
ہاں! اے نفسِ بادِ سحر
شعلہ فشاں ہو
اے دجلۂ خوں! چشمِ ملائک
سے رواں ہو
اے زمزمۂ قُم! لبِ عیسیٰ
پہ فغاں ہو
اے ماتمیانِ شہِ مظلوم!
کہاں ہو
بگڑی ہے بہت بات،
بنائے نہیں بنتی
اب گھر کو بغیر آگ
لگائے نہیں بنتی
تابِ سخن و طاقتِ غوغا
نہیں ہم کو
ماتم میں شہِ دیں کے
ہیں، سودا نہیں ہم کو
گھر پھونکنے میں
اپنے، مُحابا نہیں ہم کو
گر چرخ بھی جل جائے
تو پروا نہیں ہم کو
یہ خرگۂ نُہ پایا جو
مدّت سے بَپا[114] ہے
کیا خیمۂ شبّیر سے
رتبے میں سِوا ہے؟
کچھ اور ہی عالم نظر
آتا ہے جہاں کا
کچھ اور ہی نقشہ ہے
دل و چشم و زباں کا
کیسا فلک! اور مہرِ جہاں
تاب کہاں کا!
ہو گا دلِ بے تاب کسی
سوختہ جاں کا
اب صاعقہ و مہر میں
کچھ فرق نہیں ہے[115]
گِرتا نہیں اس رُو سے
کہو برق نہیں ہے
سلام
سلام اسے کہ اگر
بادشہ کہیں اُس کو
تو پھر کہیں کچھ اِس
سے سوا کہیں اُس کو
نہ بادشاہ نہ سلطاں
یہ کیا ستائش ہے
کہو کہ خامسِ آلِ عبا
کہیں اُس کو
خدا کی راہ میں ہے
شاہی و خسروی کیسی؟
کہو کہ رہبرِ راہِ خدا
کہیں اُس کو
خدا کا بندہ، خداوندگار
بندوں کا
اگر کہیں نہ خداوند،
کیا کہیں اُس کو؟
فروغِ جوہرِ ایماں،
حسین ابنِ علی
کہ شمعِ انجمنِ کبریا
کہیں اُس کو
کفیلِ بخششِ اُمّت
ہے، بن نہیں پڑتی
اگر نہ شافعِ روزِ جزا
کہیں اُس کو
مسیح جس سے کرے اخذِ فیضِ
جاں بخشی
ستم ہے کُشتۂ تیغِ جفا
کہیں اُس کو
وہ جس کے ماتمیوں پر
ہے سلسبیل، سبیل
شہیدِ تشنہ لبِ کربلا
کہیں اُس کو
عدو کی سمعِ رضا میں
جگہ نہ پائے وہ بات
کہ جنّ و انس و ملَک
سب بجا کہیں اُس کو
بہت ہے پایۂ گردِ رہِ
حسین بلند
بہ قدرِ فہم ہے گر
کیمیا کہیں اُس کو
نظارہ سوز ہے یاں تک
ہر ایک ذرّۂ خاک
کہ لوگ جوہرِ [116]
تیغِ قضا کہیں اُس کو
ہمارے درد کی یا رب
کہیں دوا نہ ملے
اگر نہ درد کی اپنے
دوا کہیں اُس کو
ہمارا منہ ہے کہ دَیں
اس کے حسنِ صبر کی داد
مگر نبی و علی مرحبا
کہیں اُس کو
زمامِ ناقہ کف اُس کے
میں ہے کہ اہلِ یقیں
پس از حسینِ علی
پیشوا کہیں اُس کو
وہ ریگِ لقمۂ[117]
وادی میں خامہ فرسا ہے
کہ طالبانِ خدا رہنما
کہیں اُس کو
امامِ وقت کی یہ قدر
ہے کہ اہلِ عناد
پیادہ لے چلیں اور
ناسزا کہیں اُس کو
یہ اجتہاد عجب ہے کہ
ایک دشمنِ دیں
علی سے آگے لڑے اور
خطا کہیں اُس کو
یزید کو تو نہ تھا
اجتہاد کا پایہ
بُرا نہ مانیئے گر ہم
بُرا کہیں اُس کو
علی کے بعد حسن اور
حسن کے بعد حسین
کرے جو ان سے بُرائی،
بھلا کہیں اُس کو؟
نبی کا ہو نہ جسے
اعتقاد، کافر ہے
رکھے امام سے جو بغض،
کیا کہیں اُس کو؟
بھرا ہے غالبؔ دِل
خستہ کے کلام میں درد
غلط نہیں ہے کہ خونیں
نوا کہیں اُس کو
سہرے
۱
خوش
ہو اے بخت
[118]خوش ہو اَے بخت کہ ہے
آج تِرے سر سہرا
باندھ شہزادہ[119]
جواں بخت کے سر پر سہرا
کیا ہی اِس چاند سے
مُکھڑے پہ بھلا لگتا ہے!
ہے تِرے حُسنِ دل
افروز کا زیور سہرا
سر پہ چڑھنا تجھے
پھبتا ہے پر اے طرفِ کُلاہ
مجھ کو ڈر ہے کہ نہ
چھینے تِرا لمبر سہرا
ناؤ بھر کر ہی پروئے
گئے ہوں گے موتی
ورنہ کیوں لائے ہیں
کشتی میں لگا کر سہرا
سات دریا کے فراہم
کئے ہوں گے موتی
تب بنا ہو گا اِس
انداز کا گز بھر سِہرا
رُخ پہ دُولھا کے جو
گرمی سے پسینا ٹپکا
ہے رگِ ابرِ گُہر بار
سَراسَر سِہرا
یہ بھی اِک بے ادبی
تھی کہ قبا سے بڑھ جائے
رہ گیا آن کے دامن کے
برابر سِہرا
جی میں اِترائیں نہ
موتی کہ ہمیں ہیں اِک چیز
چاہیے پھُولوں کا بھی
ایک مقرّر[120] سہرا
جب کہ اپنے میں
سماویں نہ خوشی کے مارے
گوندھے پھُولوں کا
بھلا پھر کوئی کیوں کر سِہرا
رُخ روشن کی دَمک،
گوہرِ غلتاں[121] کی چمک
کیوں نہ دکھلائے فروغِ
مہ و اختر سہرا
تار ریشم کا نہیں، ہے
یہ رَگِ ابرِ بہار
لائے گا تابِ گراں
باریِ گوہر سِہرا!
ہم سُخن فہم ہیں،
غالبؔ کے طرف دار نہیں
دیکھیں، اس سہرے سے
کہہ دے کوئی بڑھ کر سہرا![122]
۲
قطعہ
ہم نشیں تارے ہیں اور
چاند شہاب الدیں خاں
بزمِ شادی ہے فلک،
کاہکشاں ہے سہرا
ان کو لڑیاں نہ کہو،
بحر کی موجیں سمجھو
ہے تو کشتی میں، ولے
بحرِ رواں ہے سہرا
۳
چرخ
تک دھوم ہے
چرخ
تک دھوم ہے، کس دھوم سے آیا سہرا
چاند کا دائرہ لے،
زہرہ نے گایا سہرا
رشک سے لڑتی ہیں آپس
میں اُلجھ کر لڑیاں
باندھنے کے لئے جب سر
پہ اُٹھایا سہرا
[123]جسے کہتے ہیں خوشی، ا س نے بلائیں لے کر
کبھی چوما، کبھی
آنکھوں سے لگایا سہرا
صاف آتی ہیں نظر آبِ گہر
کی لہریں
جنبشِ بادِ سحر نے جو
ہلایا سہرا
۴
بیانِ
مصنّف
منظُور ہے گُزارشِ احوالِ
واقعی
اپنا
بیانِ حُسنِ طبیعت نہیں مجھے
سَو پُشت سے ہے پیشۂ
آبا سپہ گری
کچھ شاعری ذریعۂ عزت
نہیں مجھے
آزادہ رَو ہوں اور مِرا
مسلک ہے صلحِ کُل
ہر گز کبھی کسی سے
عداوت نہیں مجھے
کیا کم ہے یہ شرف کہ
ظفر کا غلام ہوں
مانا کہ جاہ و منصب و
ثروت نہیں مجھے
اُستادِ شہ سے ہو
مجھے پَرخاش کا خیال؟
یہ تاب، یہ مجال، یہ
طاقت نہیں مجھے
جامِ جہاں نُما ہے
شہنشاہ کا ضمیر
سَوگند اور گواہ کی
حاجت نہیں مجھے
میں کون اور ریختہ،
ہاں اِس سے مدعا
جُز انبساطِ خاطرِ حضرت
نہیں مجھے
سِ ہرا لکھا گیا ز رہِ
امتثالِ اَمر
دیکھا کہ چارہ غیر
اطاعت نہیں مجھے
مقطع میں آ پڑی ہے[124]
سُخن گُسترانہ بات
مقصود اس سے قطعِ محبت
نہیں مجھے
رُوئے سُخن کسی کی
طرف ہو تو رُو سیاہ
سودا نہیں، جُنوں
نہیں، وحشت نہیں مجھے
قسمت بُری سہی پَہ
طبیعت بُری نہیں
ہے شُکر کی جگہ کہ
شکایت نہیں مجھے
صادق ہوں اپنے قول
میں[125]
غالبؔ، خدا گواہ
کہتا ہوں سچ کہ جھُوٹ
کی عادت نہیں مجھے[126]
قطعات
۱
گزارشِ
غالبؔ
اے شہنشاہِ فلک منظرِ
بے مثل و نظیر
اے جہان دارِ کرم
شیوۂ بے شبہ و عدیل
پاؤں سے تیرے مَلے
فرقِ ارادتِ اَورنگ
فرق سے تیرے کرے کسبِ
سعادتِ اِکلیل
تیرا اندازِ سُخَن
شانۂ زُلفِ اِلہام
تیری رفتارِ قلم
جُنبشِ بالِ جبریل
تجھ سے عِ الم پہ کھُلا
رابطۂ قُربِ کلیم
تُجھ سے دنیا میں بِ چھا
مائدۂ بَذلِ خلیل
بہ سُخَن اَوجِ دہِ مرتبۂ
معنی و لفظ
بہ کرم داغِ نِہِ ناصیۂ
قُلزُم و نِیل
تا، ترے وقت میں ہو
عَیش و طرب کی توفیر[127]
تا، ترے عہد میں ہو
رنج و اَلَم کی تقلیل
ماہ نے چھوڑ دیا ثَور
سے جانا باہر
زُہرہ نے ترک کیا
حُوت سے کرنا تحویل
تیری دانش، مری اصلاحِ
مَفاسدؔ کی رَہین
تیری بخشش، مِرے اِنجاحِ
مقاصد کی کفیل
تیرا اقبالِ تَرَحُّم
مِرے جینے کی نَوِید
تیرا اندازِ تَغافُل مِرے
مرنے کی دلیل
بختِ ناساز نے چاہا
کہ نہ دے مُجھ کو اماں
چرخِ کج باز نے چاہا
کہ کرے مُجھ کو ذلیل
پیچھے ڈالی ہے سرِ رشتۂ
اوقات میں گانٹھ
پہلے ٹھونکی ہے بُنِ ناخُنِ
تدبیر میں کیل
تَپِشِ دل نہیں بے
رابطۂ خَوفِ عظیم
کششِ دم نہیں بے
ضابطۂ جَرِّ ثقیل
دُرِ معنی سے مِرا
صفحہ، لقا کی ڈاڑھی
غَمِ گیتی سے مِرا
سینہ امَر[128] کی زنبیل
فکر میری گُہر اندوزِ
اشاراتِ کثیر
کِلک میری رقَم آموزِ
عباراتِ قلیل
میرے ابہام پہ ہوتی
ہے تصدُق توضیح
میرے اجمال سے کرتی
ہے تراوش تفصیل
نیک ہوتی مِری حالت
تو نہ دیتا تکلیف
جمع ہوتی مِری خاطر
تو نہ کرتا تعجیل
قبلۂ کون و مکاں،
خستہ نوازی میں یہ دیر؟
کعبۂ امن و اماں، عُقدہ
کُشائی میں یہ ڈھیل؟
۲
قطعہ
گئے وہ دن کہ نا
دانستہ غیروں کی وفا داری
کیا
کرتے تھے تم تقریر، ہم خاموش رہتے تھے
بس اب بگڑے پہ کیا
شرمندگی، جانے دو، مل جاؤ
قَسم لو ہم سے گر یہ
بھی کہیں ’’کیوں ہم نہ کہتے تھے‘‘
۳
ہائے
ہائے
کلکتے کا جو ذکر کیا
تُو نے ہم نشیں!
اِک
تِیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے
وہ سبزہ زار ہائے
مُطرّا کہ، ہے غضب!
وُہ نازنیں بُتانِ خود
آرا کہ ہائے ہائے!
صبر آزما وہ اُن کی
نگاہیں کہ حف نظر!
طاقت رُبا وہ اُن کا
اشارا کہ ہائے ہائے!
وہ میوہ ہائے تازۂ
شیریں کہ، واہ واہ
وہ بادہ ہائے نابِ گوارا
کہ ہائے ہائے!
۴
در مدح ڈلی[129]
ہے جو صاحب کے کفِ دست
پہ یہ چکنی ڈلی
زیب
دیتا ہے اسے جس قدر اچھّا کہیے
خامہ انگشت بہ دنداں،
کہ اسے کیا لکھیے
ناطقہ سر بہ گریباں
کہ اسے کیا کہیے
مُہرِ مکتوبِ عزیزانِ
گرامی لکھیے
حرزِ بازوئے شگرفانِ خود
آرا کہیے
مِسی آلود سر انگشتِ حسیناں
لکھیے
داغِ طرفِ جگرِ عاشقِ
شیدا کہیے
خاتمِ دستِ سلیماں کے
مشابہ لکھیے
سرِ پستانِ پری زاد
سے مانا کہیے
اخترِ سوختۂ قیس سے
نسبت دیجے
خالِ مشکینِ رُخِ دل
کشِ لیلیٰ کہیے
حجر الاسودِ دیوارِ حرم
کیجے فرض
نافہ، آہوئے بیابانِ خُتن
کا کہیے
وضع میں اس کو اگر
سمجھیے قافِ تریاق[130]
رنگ میں سبزۂ نو خیزِ
مسیحا کہیے
صَومعے میں اسے
ٹھہرائیے گر مُہرِ نماز
مے کدے میں اسے خشتِ خُمِ
صہبا کہیے
کیوں اسے قُفلِ درِ گنجِ
محبّت لکھیے
کیوں اسے نقطۂ پَرکارِ
تمنّا کہیے
کیوں اسے گوہرِ نایاب
تصوّر کیجے
کیوں اسے مردُمکِ دیدۂ
عَنقا کہیے
کیوں اسے تکمۂ پیراہنِ
لیلیٰ لکھیے
کیوں اسے نقشِ پئے
ناقۂ سلمیٰ کہیے
بندہ پرور کے کفِ دست
کو دل کیجے فرض
اور اِس چِکنی سُپاری
کو سُویدا کہیے
۵
بیسنی
روٹی
نہ پُوچھ اِس کی
حقیقت، حُضُورِ والا نے
مجھے جو بھیجی ہے
بیسن کی رَوغَنی روٹی
نہ کھاتے گیہوں،
نکلتے نہ خُلد سے باہر
جو کھاتے حضرتِ آدم
یہ بیسَنی روٹی
۶
چہار
شنبہ آخرَ ماہِ صفر
ہے چار شنبہ آخرِ ماہِ
صَفَر چلو
رکھ دیں چمن میں بھر
کے مئے مُشک بُو کی ناند
جو آئے، جام بھر کے
پیے اور ہو کے مست
سبزے کو رَوندتا
پھرے، پھُولوں کو جائے پھاند
غالبؔ یہ کیا بیاں
ہے، بجُز مدحِ پادشاہ[131]
بھاتی نہیں ہے اب
مجھے کوئی نوشتِ [132]
خواند
بَٹتے ہیں سونے رُوپے
کے چھلے حُضُور میں
ہے جن کے آگے سیم و
زر و مہر و ماہ ماند
یوں سمجھیے کہ بیچ سے
خالی کیے ہوئے
لاکھوں ہی آفتاب ہیں
اور بے شمار چاند
۷
روزہ
افطارِ صوم کی جسے کچھ
دستگاہ ہو[133]
اُس
شخص کو ضرور ہے روزہ رکھا کرے
جس پاس روزہ کھول کے
کھانے کو کچھ نہ ہو
روزہ اگر نہ کھائے تو
نا چار کیا کرے
۸
طائرِ
دل
[134] اٹھا اک دن بگولا سا جو کچھ، مَیں جوشِ
وحشت میں
پھرا
آسیمہ سر، گھبرا گیا تھا جی بیاباں سے
نظر آیا مجھے اک طائرِ
مجروح پَر بستہ[135]
ٹپکتا تھا سرِ شوریدہ
دیوارِ گلستاں سے
کہا میں نے کہ‘‘او
گمنام! آخر ماجرا کیا ہےَ
پڑا ہے کام تجھ کو کس
ستم گر آفتِ جاں سے‘‘
ہنسا کچھ کھلکھلا کر
پہلے، پھر مجھ کو جو پہچانا
تو یہ رویا کہ جوئے
خوں بہی پلکوں کے داماں سے
کہا،‘‘میں صید ہوں
اُس کا کہ جس کے دامِ گیسو میں
پھنسا کرتے ہیں طائر
روز آ کر باغِ رضواں سے
اسی کی زلف و رُخ کا
دھیان ہے شام و سحر مجھ کو
نہ مطلب کُفر سے ہے
اور نہ ہے کچھ کام ایماں سے‘‘
بہ چشمِ غور جو
دیکھا، مِرا ہی طائرِ دل تھا
کہ جل کر ہو گیا یوں
خاک میری آہِ سوزاں سے[136]
۹
خط
منظوم بنام علائی
خوشی تو ہے آنے کی
برسات کے[137]
سر آغازِ موسم میں
اندھے ہیں ہم
کہ دِلّی کو چھوڑیں،
لوہارو کو جائیں
سِ وا اناج کے جو ہے
مطلوبِ جاں[138]
نہ واں آم پائیں، نہ
انگور پائیں
ہوا حکم باورچیوں کو،
کہ ہاں
ابھی جا کے پوچھو کہ
کل کیا پکائیں
وہ کھٹّے کہاں پائیں اِملی
کے پھول
وہ کڑوے کریلے کہاں
سے منگائیں
فقط گوشت، سو بھیڑ کا
ریشہ دار
کہو اس کو کیا کھا کے
ہم حِظ اُٹھائیں
۱۰
قطعہ
تاریخ
خُجستہ انجمن طُوئے
میرزا جعفر
کہ
جس کے دیکھے سے سب کا ہوا ہے جی محظوظ
ہوئی ہے ایسے ہی
فرخندہ سال میں غالبؔ
نہ کیوں ہو مادۂ سالِ
عیسوی‘‘محظوظ‘‘[139]
۱۱
قطعہ
تاریخ
ہوئی جب میرزا جعفر
کی شادی
کہا غالبؔ سے:‘‘تاریخ
اس کی کیا ہے؟‘‘
تو بولا:‘‘اِنشراحِ جشنِ
جمشید‘‘[140]
۱۲
قطعہ تاریخ
اِس کتابِ طرب نصاب
نے جب
فکرِ تاریخِ سال میں،
مجھ کو
ایک صورت نئی نظر آئی
ہندسے پہلے سات سات
کے دو
دیے ناگاہ مجھ کو
دکھلائی
اور پھر ہندسہ تھا
بارہ کا
با ہزاراں ہزار
زیبائی
سالِ ہجری تو ہو گیا
معلوم [141]
بے شمولِ عبارت آرائی
مگر اب ذوقِ بذلہ
سنجی کو
ہے جدا گانہ کار
فرمائی
سات اور سات ہوتے ہیں
چودہ
بہ اُمیدِ سعادت
افزائی
غرض اِس سے ہیں چار
دہ معصُوم
جس سے ہے چشمِ جاں کو
زیبائی
اور بارہ امام ہیں
بارہ
جس سے ایماں کو ہے
توانائی
اُن کو غالبؔ یہ سال
اچھا ہے
جو ائِمّہ کے ہیں
تولاّئی
۱۳
بلا
عنوان[142]
سیہ گلیم ہوں لازم ہے
میرا نام نہ لے
جہاں
میں جو کوئی فتح و ظفر کا طالب ہے
ہوا نہ غلبہ میسر
کبھی کسی پہ مجھے
کہ جو شریک ہو میرا،
شریکِ غالبؔ ہے
۱۴
قطعہ
سہل تھا مُسہل ولے یہ
سخت مُشکل آ پڑی
مجھ
پہ کیا گُزرے گی، اتنے روز حاضر بِن ہوئے
تین دن مسہل سے پہلے،
تین دن مسہل کے بعد
تین مُسہل، تین تَبریدیں،
یہ سب کَے دِن ہوئے؟
۱۵
قطعہ
[143]گو ایک بادشاہ کے سب خانہ زاد ہیں
کانوں پہ ہاتھ دھرتے
ہیں کرتے ہوئے سلام
اس سے مُراد یہ ہے کہ
ہم آشنا نہیں[144]
۱۶
قطعہ
یک اہلِ درد نے سنسان
جو دیکھا قفس
یوں
کہا آتی نہیں اب کیوں صدائے عندلیب؟[145]
بال و پر دو چار
دکھلا کر کہا صیّاد نے
یہ نشانی رہ گئی ہے
اب بجائے عندلیب[146]
۱۷
قطعہ
ضائعِ ہفت چرخ، ہفت
اقلیم
نام میکلوڈ جن کا ہے
مشہور
یہ ہمیشہ بہ صد نشاط
و سرور
عمر و دولت سے شادمان
رہیں
اور غالبؔ پہ مہربان
رہیں[147]
۱۸
قطعہ
گوڑ گانویں کی ہے
جتنی رعیّت، وہ یک قلم
عاشق
ہے اپنے حاکمِ عادل کے نام کی
سو یہ نظر فروز قلم
دان نذر ہے
مسٹر کووان صاحبِ عالی
مقام کی
رباعیات
رباعی۱
شب
زُلف و رُخِ عَرَق فِشاں کا غم تھا
کیا شرح کروں کہ
طُرفہ تَر عالَم تھا
رویا میں ہزار آنکھ
سے صُبح تلک
ہر قطرۂ اشک دیدۂ پُر
نَم تھا
رباعی ۲
اُس سے گِلہ مند ہو
گیا ہے گویا
پَر یار کے آگے بول
سکتے ہی نہیں
غالبؔ منہ بند ہو گیا
ہے گویا
رباعی ۳
دکھ
جی کے پسند ہو گیا ہے غالبؔ
دل رُک رُک کر بند ہو
گیا ہے غالبؔ[148]
واللہ کہ شب کو نیند
آتی ہی نہیں
سونا سَوگند ہو گیا
ہے غالبؔ
رباعی ۴
ہے سوزِ جگر کا بھی
اسی طور کا حال
تھا مُوجدِ عشق بھی
قیامت کوئی
لڑکوں کے لئے گیا ہے
کیا کھیل نکال!
رباعی ۵
بعد
از اِتمامِ بزمِ عیدِ اطفال
ایّامِ جوانی رہے
ساغر کَش حال
آ پہنچے ہیں تا سوادِ
اقلیم عدم
اے عُمرِ گُذشتہ یک
قدم استقبال
رباعی ۶
مشکل ہے ز بس کلام
میرا اے دل
سُن سُن کے اسے
سخنورانِ کامل
آساں کہنے کی کرتے
ہیں فرمائش
گویم مشکل و گر نگویم
مشکل
رباعی ۷
ہیں
شہ میں صفاتِ ذوالجلالی باہم
آثارِ جلالی و جمالی
باہم
ہوں شاد نہ کیوں سافل
و عالی باہم
ہے اب کے شبِ قدر و
دِوالی باہم
رباعی ۸
کہتے
ہیں کہ اب وہ مَردُم آزار نہیں
عُشّاق کی پُرسش سے
اُسے عار نہیں
جو ہاتھ کہ ظلم سے
اٹھایا ہو گا
کیوں کر مانوں کہ اُس
میں تلوار نہیں!
رباعی ۹
سامانِ
خور و خواب کہاں سے لاؤں؟
آرام کے اسباب کہاں
سے لاؤں؟
روزہ مِرا اِیمان ہے
غالبؔ! لیکن
خَس خانہ و برفاب
کہاں سے لاؤں؟
رباعی ۱۰
دل
تھا، کہ جو جانِ دردِ تمہید سہی
بے تابیِ رشک و حسرتِ
دید سہی
ہم اور فُسُردن اے
تجلی افسوس
تکرار روا نہیں تو
تجدید سہی
رباعی ۱۱
وحشت کدۂ تلاش لڑنے
کے لئے
یعنی ہر بار صُورتِ کاغذِ
باد[149]
ملتے ہیں یہ بدمعاش
لڑنے کے لئے
رباعی ۱۲
بھیجی
ہے جو مجھ کو شاہِ جَمِ جاہ نے دال
ہے لُطف و عنایاتِ شہنشاہِ
پہ دال
یہ شاہ پسند دال بے
بحث و جِدال
ہے دولت و دین و دانش
و داد کی دال
رباعی ۱۳
حق
شہ کی بقا سے خلق کو شاد کرے
تا شاہ شیوعِ دانش و
داد کرے
یہ جو دی گئی ہے رشتۂ
عمر میں گانٹھ
ہے صِفر کہ افزائشِ اعداد
کرے
رباعی ۱۴
اِس
رشتے میں لاکھ تار ہوں، بلکہ سِوا
اِتنے ہی برس شُمار
ہوں، بلکہ سِوا
ہر سیکڑے کو ایک گرہ
فرض کریں
ایسی گرہیں ہزار ہوں،
بلکہ سِوا
رباعی ۱۵
کرتے ہیں دِرنگ، کام
کرنے والے
کہتے ہیں کہیں خدا
سے، اللہ اللہ!
وُہ آپ ہیں صُبح و
شام کرنے والے!
رباعی ۱۶
اِن
سیم کے بِیجوں کو کوئی کیا جانے
بھیجے ہیں جو
اَرمُغاں شہِ والا نے
گِن کر دیویں گے ہم
دُعائیں سَو بار
فیروزے کی تسبیح کے،
ہیں یہ دانے
رباعی ۱۷
رقعے
کا جواب کیوں نہ بھیجا تم نے
ثاقب! حرکت یہ کی ہے
بے جا تم نے
حاجی کلّو کو دے کے
بے وجہ جواب
غالبؔ کا پکا دیا
کلیجا تم نے
رباعی ۱۸
کٹتا ہے بتاؤ کس طرح
سے رَمَضاں؟
ہوتی ہے تراویح سے
فرصت کب تک
سُنتے ہو تراویح میں
کتنا قرآں
رباعی ۱۹
اے
منشیِ خیرہ سر! سخن ساز نہ ہو
عصفور ہے تو، مقابلِ باز
نہ ہو
آواز تیری نکلی اور
آواز کے ساتھ
آواز تیری نکلے اور
آواز کے ساتھ
[150]لاٹھی وہ لگی کہ جس میں آواز نہ ہو
رباعی ۲۰
جن
لوگوں کو ہے مجھ سے عداوت گہری
کہتے ہیں مجھے وہ
رافضی و دہری
دہری کیوں کر ہو جو
کہ ہووے صوفی؟
شیعی کیوں کر ہو
ماوراء النہری
متفرقات
جس دن
سے کہ ہم خستہ گرفتارِ بلا ہیں[151]
کپڑوں
میں جوئیں، بخیے کے ٹانکوں سے سوا ہیں
==
ہلاکِ بے خبری نغمۂ
وجود و عدم
جہان و اہلِ جہاں سے
جہاں جہاں فریاد
==
کتابیات
۱۔ دیوانِ
غالب۔
مکتبہ
الفاظ علی گڑھ
۲۔ دیوان
غالب۔
نسخہ
تاج کمپنی لاہور
۳۔ دیوانِ
غالب۔
نول
کشور پریس لکھنؤ
۴۔ نوائے سروش از مولانا غلام رسول مہر(نسخۂ مہر)
۵۔ شرحِ
دیوانِ غالبؔ از علامہ عبدالباری آسی ( نسخۂ آسی)
۶۔ دیوانِ
غالبؔ (فرہنگ کے ساتھ)
۷۔ دیوانِ
غالبؔ نسخۂ طاہر
۸۔ دیوان
غالب (نسخۂ حمیدیہ)
۹۔ دیوانِ
غالب (بہ تصحیحِ متن و ترتیب حامد علی خان) مطبوعہ ۱۹۶۹
۱۰ گلِ رعنا، نسخۂ شیرانی، نسخۂ بھوپال بخطِ غالب، نسخۂ
رضا سے
۱۱۔ انتخاب
نسخۂ بھوپال کی باز یافت۔ سید
تصنیف حیدر، ماہنامہ آج کل، فروری ۲۰۰۷ء
(نسخۂ مبارک علی کے حوالے اسی سے ماخوذ ہیں)
۱۲۔ دیوانِ
غالب (کامل) تاریخی ترتیب سے۔ کالی
داس گپتا رضاؔ
٭٭٭
تدوین
اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
مکمل کلیات ڈاؤن لوڈ
کریں
[1] نسخۂ رضا سے مزید۔ (ج۔
م۔)
[2] بعض نسخوں میں ’’میری‘‘ کی
جگہ یہاں ’’مِری‘‘ چھپا ہے مگر یہاں ’’میری‘‘ زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ اور اکثر نسخوں میں ’’میری‘‘ ہی چھپا ہے (ح۔ع۔خ۔)
[3] ہو جو۔ ہو جیو۔ یہ ’’ہو جو‘‘ نہیں ہے۔
جیسا بعض اصحاب پڑھتے ہیں۔ ’’ہُو‘‘ بہ واو معروف بولا جاتا ہے (ح۔ع۔خ۔)
[4] نسخۂ حمیدیہ میں یہ شعر یوں ہے اور اسی غزل کا مطلع اولیٰ ہے:
عیادت
بس کہ تجھ سے گرمیِ بازارِ بستر ہے
فروغِ
شمعِ بالیں طالعِ بیدارِ بستر ہے (ج۔
م۔)
[5] اس شعر سے مقطع اولیٰ تک نسخۂ رضا سے شامل شدہ
ہے۔ (ج۔
م۔)
[6] متداول دیوان میں یہ غزل صرف مطلع اور مقطع پر
مشتمل ہے۔
باقی اشعار نسخۂ رضا/حمیدیہ سے
شامل کئے گئے ہیں۔ (ج۔
م۔)
[7] نسخۂ بھوپال میں اس غزل
کی ردیف ’جاوے‘ ہے (ا۔ ع۔)
[8] نسخۂ حمیدیہ میں ’’ڈرتا
ہوں‘‘ درج ہے۔ (ج۔ م۔)
[9] نسخہ نظامی، نسخۂ عرشی
اور نسخۂ مالک رام میں یہ مصرع یوں ہے: پَر تُجھ سی کوئی شے نہیں ہے۔ ایک خستہ حال پرانے نسخے میں بھی جو شاید مطبعِ احمدی دہلی چھپا تھا لفظ
’’تو‘‘ نہیں ہے (نسخۂ حامد میں یہ مصرع یوں ہے: پَر تُجھ سی تو کوئی شے نہیں ہے
(ج۔ م۔) باقی تمام قدیم و جدید نسخوں میں، جو نظر سے گزرے، ’’تُو‘‘ موجود ہے۔ دو قدیم نسخوں میں ’’سی‘‘ کی جگہ ’’سے‘‘ بھی چھپا ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)
[10] نسخۂ عرشی: ’’رہوے‘‘
(ح۔ع۔خ۔)
[11] یہ دونوں شعر نسخۂ حمیدیہ
میں درج نہیں۔ یہاں نسخۂ رضا سے شامل کئے گئے ہیں۔ (ج۔ م۔)
[12] متداول دیوان میں یہ غزل صرف ان دو شعروں مشتمل
ہے۔ باقی اشعار نسخۂ رضاسے شامل کئے گئے ہی۔ (ج۔
م۔)
[13] متداول دیوان میں یہ غزل ان تین شعروں اور اسدؔ ہے نزع۔۔۔ والے مقطع مشتمل
ہے۔
باقی اشعار نسخۂ رضاسے شامل
کئے گئے ہیں۔ (ج۔
م۔)
[14] نسخۂ حامد علی خاں میں ’’سرِ
شوریدہ‘‘ کی جگہ ’’دلِ شوریدہ‘‘ درج ہے۔ ملاحظہ
ہو ان کا حاشیہ (ج۔ م۔)
نسخۂ
عرشی میں غالباً بالیں کی رعایت سے ’’سرِ شوریدہ‘‘ درج کیا گیا ہے مگر دوسرے قدیم
و جدید نسخوں میں جو نظر سے گزرے، ’’دلِ شوریدہ‘‘ ہی چھپا ہے۔ طباطبائی نے متن میں ’’دل شوریدہ‘‘ درج کر کے احتمال ظاہر کیا ہے کہ غالب
نے ’’سرِ شوریدہ‘‘ ہی لکھا ہو گا۔ پھر
لکھتے ہیں کہ معنیِ شعر دونوں طرح ظاہر ہیں۔ (ح۔ع۔خ۔)
[15] نسخۂ حمیدیہ میں مقطع نہیں
ہے (ج۔ م۔)
[16] متداول دیوان میں یہ غزل ان دو شعروں اور مقطع مشتمل ہے۔ باقی اشعار نسخۂ رضاسے شامل کئے گئے ہیں۔ (ج۔ م۔)
[17] نظامی، حمیدیہ اور متعدد
دوسرے قدیم نسخوں: نیز طباطبائی، حسرت موہانی، بیخود دہلوی، مہر وغیرہم کے نسخوں
میں ’’ہی‘‘ ہی چھپا ہے۔
مگر نسخۂ عرشی میں ’’بھی‘‘ درج ہے جو غالباً منشی
شیو نارائن کے نسخے کی تقلید میں ہے۔ بہر
حال اس سے کوئی خاص معنوی فرق پیدا نہیں ہوتا۔ (ح۔ ا۔ خ۔)
[18] حاشیہ از نسخۂ رضا: ٭ یہ غزل قلعے کے مشاعرے منعقدہ ۳ جمادی الثانی ۱۲۶۹ ھ، مطابق ۱۰ اپریل ۱۸۵۳ء کے لئے کہی گئی تھی (خط بنام حقیرؔ بحوالہ غالب کے خطوط صفحہ ۱۱۴۵)۔
اور دہلی اردو اخبار (تتمہ) جلد
۱۵ نمبر ۱۷ میں ۲۴ اپریل ۱۸۵۳ء کو شائع ہوئی
تھی
[19] حاشیہ از نسخۂ رضا: (اس غزل کے دو شعر (تیسرا
اور چوتھا) نسخہ شیرانی (۱۸۲۶) میں موجود ہیں۔
اور جس غزل میں یہ دو شعر اضافہ کیے گئے ہیں۔ وہ اصلاً نسخہ بھوپال میں ہے اور اس کی جداگانہ حیثیت ہے۔ اس لیے اصول کے مطابق اس غزل کو نسخہ شیرانی میں ہی رکھا جائے گا۔ تاہم مکمل غزل گلِ رعنا میں شامل ہے۔ آخری
شعر سے معلوم ہوتا ہے کہ غالب نے متداول غزل کے باقی شعر اپنے بیمار بھائی یوسف کی
صحت یابی کی خبر (اپریل ۱۸۲ء) سن کر کلکتے کے قیام کے دوران فکر کیے ہوں گے۔ چونکہ گلِ رعنا کلام کا انتخاب ہے اس لیے تین شعر (مطلع، مقطع اور پانچواں
شعر) انتخاب نہیں کیے گئے)
[20] یہ اور اگلے دو شعر نسخۂ رضا سے شامل کردہ ہیں۔ (ج۔
م۔)
[21] نسخۂ عرشی میں ’’ہنوز‘‘ کی
جگہ ’’ابھی‘‘ چھپا ہے۔
جو قدیم و جدید نسخے نظر سے گزرے، ان سے اس کی
کوئی سند نہیں ملی۔
یہ غالباً سہوِ کتابت ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)
[22] نسخۂ مہر میں ’’رہے گر دل
میں تیر‘‘ (ج۔ م۔) مزید: نظامی، عرشی، حمیدیہ اور متعدد دیگر نسخۂ ہائے قدیم و جدید میں یہ مصرع اسی طرح درج ہے جس طرح متن میں درج کیا مگر نسخۂ
مہر غالباً سہوِ کتابت سے ’’رہے گر دل میں تیر اچھا‘‘ ملتا ہے۔ بعض قدیم نسخوں میں ’’دل میں ہی‘‘ چھپا ہے جو سہوِ کتابت ہے۔ مگر ’’رہے گر دل میں تیر‘‘ کہیں نہ ملا۔ نہ
یہ قابل ترجیح معلوم ہوتا ہے۔
(ح۔ع۔خ۔)
[23] اصل نسخوں میں آزمایش ہے
لیکن ہم نے موجودہ املا کو ترجیح دے کر آزمائش لکھا ہے۔ (ا۔ ع۔)
[24] نسخۂ ح۔ع۔خ۔ میں ’’کھِچتا‘‘
(ج۔ م۔) ملاحظہ ان کا حاشیہ:
نظامی
اور بعض دیگر قدیم نسخون میں ’’کھِچتا‘‘ ہی درج ہے جو بجائے خود درست ہے مگر اکثر جدید
نسخوں میں ’’کھنچتا‘‘ چھپا ہے۔
(ح۔ع۔خ۔)
[25] طباطبائی کی رائے میں یہاں
’’کہ‘‘ کی بجائے ’’تو‘‘ ہونا چاہیے تھا۔ (ح۔ع۔خ۔)
[26] مقطع نسخۂ رضا سے شامل کردہ ہے۔ (ج۔
م۔)
[27] نسخۂ عرشی میں ’’کہ‘‘ کی جگہ ’’جو‘‘ چھپا ہے۔ نظامی میں ’’کہ‘‘ درج ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)
[28] اس شعر کا پہلا مصرع یوں
ہی ہے۔ دوسرے کے متعلق طباطبائی نے لکھا ہے کہ غالب نے آنکھیں دکھانا بہ صیغۂ جمع
باندھا ہے مگر فصیح وہی ہے کہ ’’آنکھ دکھانا کہیں‘‘ ۔ یہ
بات سمجھ میں نہیں آئی کیونکہ اردو کے اکثر فصیح اساتذہ نے آنکھیں دکھانا بھی کہا
ہے۔ ان میں میر، مصحفی، امیر، اُنس، ذوق، مومن، ظفر، جرأت، نسیم دہلوی وغیرہم
شامل ہیں۔ (ح۔ع۔خ۔)
[29] حاشیہ از نسخۂ رضا: ٭ یہ غزل بھی ’’بشر ہے، کیا کہیے‘‘ والی غزل
کے ساتھ کہی گئی تھی، ۱۰ اپریل ۱۸۵۳ء کو یا اس سے ایک دو روز پہلے۔ مگر
دہلی اردو اخبار (تتمہ) میں ۲۲ مئی ۱۸۵۳ء کو شائع ہوئی تھی
[30] نسخۂ نظامی میں یہاں ’’کبھی‘‘
کی جگہ ’’کہیں‘‘ درج ہے جو مبرہن طور پر سہوِ کتابت ہے۔ دیگر قدیم و جدید نسخوں میں یہ دونوں شعر صحیح یا غلط، دونوں ہی صورتوں
میں ملتے ہیں۔ صحیح صورت سے مراد وہ صورت ہے جو متن میں درج کی گئی۔ دوسری صورت میں ’’کہیں‘‘ کے ساتھ غلط ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)
[31] نسخۂ رضا میں یہ مصرع یوں ہے، شاید کتابت کی غلطی ہے: (ج۔ م۔) : دھوئے
گئے ہم اتنے کہ بس پاک ہو گئے
[32] ایک آدھ نسخے میں ’’ہم‘‘ بھی درج ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)
[33] نسخۂ رضا سے مزید۔ نسخۂ حمیدیہ میں یہ شعر درج نہیں۔ (ج۔ م۔)
[34] نسخۂ مہر میں یہ مصرع یوں
درج ہے: اس رنگ سے کل اٹھائی اس نے اسدؔ کی نعش
مقابلے
سے معلوم ہوا کہ دوسرے کسی زیرِ نظر قدیم و جدید نسخے میں یہ مصرع یوں درج نہیں۔ لہٰذا اسے سہو کتابت سمجھنا چاہیے۔ ایک
آدھ نسخے میں ’’نعش‘‘ کی جگہ ’’لاش‘‘ بھی چھپا ہے۔ (ح۔ ع۔ خ۔)
[35] متداول دیوان میں صرف یہ دو شعر ہیں۔ پوری غزل نسخۂ رضا سے شامل کردہ ہے۔ (ج۔
م۔)
[36] نسخۂ رضا۔ (ج۔
م۔)
[37] نسخۂ رضا میں ’’ہیں‘‘ بجائے ’’ہے‘‘ ۔ (ج۔
م۔)
[38] نسخۂ عرشی اور دوسرے مؤقر
نسخوں میں یہاں ’’سوزش‘‘ کی جگہ ’’شورش‘‘ چھپا ہے۔ شاعر
نے یقیناً ’’سوزشِ باطن‘‘ ہی کہا ہو گا کیونکہ احباب اس کے لب ہائے خنداں کو دیکھ کر اس کے غمِ پنہاں کا انکار کرتے ہیں۔ خندہ آشنا لب کا تقابل ’’سوزشِ باطن‘‘ سے ہو سکتا ہے۔ شورش باطن کا ذکر یہاں غیر متعلق سا ہے۔ نسخہ
نظامی میں ’’سوزشِ باطن‘‘ ہی درج ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)
[39] نسخۂ رضا۔ (ج۔
م۔)
[40] نسخۂ حمیدیہ: تا شکستِ
قیمتِ دل ہا صدائے خندہ ہے۔
(ج۔ م۔)
[41] نسخۂ رضا۔ (ج۔
م۔)
[42] یہ شعر اور مقطع نسخۂ رضا سے شامل کردہ ہیں۔ (ج۔
م۔)
[43] نسخۂ رضا سے مزید شعر۔ (ج۔
م۔)
[44] نوٹ: یہ مصرعہ مختلف نسخوں
میں مختلف ہے۔ (ج۔ م۔)
نسخۂ مہر:
یہ درد وہ نہیں ہےکہ پیدا کرے کوئی
نسخۂ طاہر:
یہ درد وہ نہیں ہے جو پیدا کرے کوئی
نسخۂ آسی:
یہ درد وہ نہیں کہ نہ پیدا کرے کوئی
نسخۂ حمیدیہ:
یہ درد وہ نہیں کہ نہ پیدا کرے کوئی
مزید: نسخۂ
رضا میں یہ شعر اُس غزل کا حصہ ہے جس کا مطلع ہے
وحشت کہاں کہ بے خودی انشا کرے کوئی؟
ہستی کو لفظِ معنیِ عنقا کرے کوئی (ج۔ م۔)
[45] ایک اچھے نسخے میں بلا
اعلانِ نون ’’کاں کا تیر‘‘ چھپا ہے۔ باقی
تمام زیرِ نظر نسخوں میں ’’کمان کا تیر‘‘ چھپا ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)
[46] نسخۂ حمیدیہ میں یہ شعر
درج نہیں ہے۔ (ج۔ م۔)
[47] زیادہ نسخوں میں ’’بادشاہ‘‘
اور کم میں ’’پادشاہ‘‘ درج ہے۔
(ح۔ع۔خ۔)
[48] یہ شعر نسخۂ مہر کے علاوہ کسی اور نسخے میں نہیں ملا۔ مہر
صاحب نے نوائے سروش میں اس شعر کو متن میں جگہ تو دی ہے مگر تشریح نہیں لکھی۔ میرا
خیال ہے کہ غالب سے اس کی نسبت مشکوک ہے (ج۔ م۔)
[49] نسخۂ حمیدیہ (اور مہر) میں
یہاں لفظ ’’اگر‘‘ ہے، دوسرے تمام نسخوں میں ’’مگر‘‘ ، صرف طباطبائی نے حمیدیہ کی
املا قبول کی ہے۔
ممکن ہے کہ حمیدیہ میں یہ لفظ کتابت کی غلطی ہو۔ (ا۔ ع۔)
مزید:
نسخۂ مہر میں یہاں ’’مگر‘‘ کی جگہ ’’اگر‘‘ چھپا ہے لیکن نسخۂ حمیدیہ، نسخۂ عرشی،
نسخۂ مالک رام، نسخۂ نظامی، نسخۂ حسرت موہانی نسخۂ بیخود اور دیگر تمام پیشِ نظر
قدیم و جدید نسخوں میں ’’مگر‘‘ ہی چھپا ہے اور اس میں احتمالِ معنوی نے ایک مزید
لطف بھی پیدا کر دیا ہے۔
تمام مہیا شہادتوں سے یہاں ’’مگر‘‘ ہی غالب کا
لفظ معلوم ہوتا ہے البتہ نسخۂ طباطبائی (لکھنو ۱۹۶۱) میں نسخۂ مہر ہی کی طرح
’’اگر‘‘ چھپا ہے۔
اس نسخے میں اغلاطِ کتابت کی کثرت ہے۔ غالباً ان دونوں نسخوں میں ’’اگر‘‘ غلطیِ کاتب ہے۔ علاوہ ازیں نسخۂ مہر میں کاتب نے اس غزل کے اشعار کی ترتیب بے محابا بدل
ڈالی ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)
[50] یہ
مشہور شعر نسخۂ مہر اور نسخۂ طاہر کے علاوہ کسی اور نسخے میں نہیں ملا۔
گمان
غالب ہے کہ یہ شعر بہادر شاہ ظفر کا ہے۔ نیز مہر صاحب نے نوائے سروش میں اس
شعر کو متن میں جگہ تو دی ہے مگر تشریح نہیں لکھی۔ (ج۔
م۔)
[51] متداول دیوان میں صرف یہ دو شعر ہیں۔ پوری غزل نسخۂ رضا سے شامل کردہ ہے۔ (ج۔
م۔)
[52] متداول دیوان میں یہ غزل صرف ان دو شعروں اور
مقطع پر مشتمل ہے۔
پوری غزل نسخۂ رضا سے شامل
کردہ ہے۔ (ج۔
م۔)
[53] نسخۂ مہر میں ’’اسد‘‘ کی جگہ
’’مجھے‘‘ چھپا ہے مگر یہ سہوِ کتابت معلوم ہوتا ہے کیونکہ دوسرے مصرع میں متکلم نے
صیغۂ جمع استعمال کیا ہے۔
(ح۔ع۔خ۔)
[54] متداول دیوان میں یہ غزل صرف اس ایک شعر پر
مشتمل ہے۔
پوری غزل نسخۂ رضا سے شامل
کردہ ہے۔ (ج۔
م۔)
[55] متداول دیوان میں یہ غزل صرف ان دو شعروں پر
مشتمل ہے۔
پوری غزل نسخۂ رضا سے شامل
کردہ ہے۔ (ج۔
م۔)
[56] آئے۔ نسخۂ مہر (ج۔ م۔)
[57] متداول دیوان میں یہ غزل صرف ایک شعر پر مشتمل
ہے۔ پوری غزل نسخۂ رضا سے شامل کردہ ہے۔ (ج۔
م۔)
[58] اس شعر سے آخر تک کے اشعار نسخۂ رضا سے شامل
کئے گئے ہیں۔
(ج۔ م۔)
[59] نسخۂ حسرت موہانی میں ’’ترے‘‘
چھپا ہے۔ قدیم نسخوں میں ’’ترے‘‘ اور ’’تری‘‘ کی تمیز مشکل تھی۔ شعر کا مفہوم دونوں صورتوں میں تقریباً ایک ہی رہتا ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)
[60] اس شعر سے آخر تک کے اشعار نسخۂ رضا سے شامل
کئے گئے ہیں۔
(ج۔ م۔)
[61] نسخۂ طباطبائی میں ’’کی
نقاب‘‘ چھپا ہے۔ قدیم نسخوں میں یوں بھی یائے حطی ہی چھپی ہے۔ مگر نقاب
کی تذکیر و تانیث کے بارے میں تو دہلی و لکھنو کا جدا جدا شیوہ بھی تھا۔ غالب نے لکھا ہے: زلف سے بڑھ کر نقاب اس شوخ کے رخ پر کھلا۔ (ح۔ع۔خ۔)
[62] یہاں
سے آخر تک کے چار اشعار نسخۂ رضا سے شامل کئے گئے ہیں۔ (ج۔
م۔)
[63] نسخۂ رضا سے مزید شعر۔ (ج۔
م۔)
[64] نسخۂ مہر میں ’’کوئی ہے‘‘ کی
جگہ ’’ہے کوئی‘‘ چھپا ہے۔
کسی دوسرے پیشِ نظر قدیم و جدید نسخوں میں یہ شعر
اس طرح درج نہیں۔
(ح۔ع۔خ۔)
[65] نسخۂ عرشی میں ’’نور‘‘ کی
جگہ ’’طور‘‘ چھپا ہے۔
یہ سہوِ طباعت ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)
[66] نسخۂ مہر ’’آؤ نا‘‘
(ح۔ع۔خ۔)
[67] بعض حضرات بہ اضافت ’’بزمِ
چراغاں‘‘ لکھتے اور پڑھتے ہیں۔
’’بزم کرنا‘‘ کوئی اردو محاورہ نہیں۔ یہاں مراد یہ ہے کہ جوشِ قدح سے بزم کو چراغاں کیے ہوئے مدت گزر چکی ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)
[68] نسخۂ مہر میں ’’ہے‘‘ (ج۔
م۔)
[69] نسخۂ رضا میں ’’ڈھونڈے ہے‘‘ بجائے ’’مانگے ہے‘‘
[70] نسخۂ مہر میں ’’کے‘‘ (ج۔
م۔)
[71] یہ عجیب بات ہے کہ نسخۂ
نظامی اور نسخۂ مہر میں نیز متعدد دوسرے قدیم نسخوں میں یہ مصرع ایک ہی طور پر
مہمل چھپا ہے، یعنی:
گدا
سمجھ کے وہ چپ تھا، مری خوشامد سے۔ (ح۔ع۔خ۔)
[72] حاشیہ
از نسخۂ رضا: (غزل میں نواب تجمل حسین خاں فرخ آبادی سے متعلق مدحیہ اشعار ہیں۔ نواب صاحب کا انتقال ۹ نومبر ۱۸۴۶ کو ہوا تھا۔ غزل نسخہ کراچی مکتوبہ ۳۰ اگست ۱۸۴۵ میں نہیں ہے لہذا اسے ۳۰ اگست ۱۸۴۵ تا ۹ نومبر ۱۸۴۶ کی فکر کردہ تسلیم کرنا
چاہیے۔ دیوانِ ذوقؔ مرتبہ آزادؔ میں
درج ہے کہ یہ غزل نواب اصغر علی خاں نسیمؔ رام پوری مقیم دہلی کے طرحی مشاعرہ
منعقدہ ۱۸۴۵ میں پڑھی گئی تھی۔ ذوق ؔ، مومنؔ، داغؔ وغیرہ بھی
موجود تھے۔
گویا
مشاعرہ ۱۸۴۵ء میں بعد از ۳۰ اگست منعقد ہوا تھا۔ ظاہر ہے غزل بھی اسی زمانے
میں کہی گئی ہو گی)
[73] یہ غزل متداول دیوان میں درج نہیں۔ مگر نسخۂ مہر میں غلام رسول مہر صاحب نے ابوالکلام کے
حوالے سے اس کو درج کیا ہے۔ (ج۔
م۔)
[74] نسخۂ رضا میں ’’یا‘‘ بجائے ’’اے‘‘ (ج۔ م۔)
[75] نسخۂ رضا میں ’’کیوں کر‘‘ بجائے ’’کیوں سر‘‘
(ج۔ م۔)
[76] یہ مصرع نسخہ رضا میں یوں درج ہے: دوست گر کوئی نہیں ہے، جو کرے
چارہ گری
[77] یہ غزل متداول دیوان میں درج نہیں۔ اس کی وجہ غلام رسول مہر کے بقول یہ ہے کہ غالب کی
زندگی میں آخری بار جو دیوان چھپا تھا، یہ اس سے بعد کہی گئی ہے۔ (ج۔
م۔)
مزید‘ ٭ ’’یہ غزل مرزا صاحب نے اپنے دوسرے سفرِ رام پورمیں ۲۸ دسمبر ۱۸۶۵ء کو یہاں سے رخصت
ہونے سے پہلے کہی تھی۔
اس زمانے میں کلب علی خاں بہادر رام پور کے نواب
تھے۔‘‘ نسخہ عرشی طبع دوم، صفحہ ۴۳۳ (نسخۂ رضا)
[78] نسخۂ رضا سے مزید دو شعر۔ (ج۔
م۔)
[79] یہ غزل بھی متداول دیوان میں درج نہیں۔ اس کی وجہ غلام رسول مہر کے بقول یہ ہے کہ غالب کی
زندگی میں آخری بار جو دیوان چھپا تھا، یہ اس سے بعد کہی گئی ہے۔ (ج۔
م۔)
مزید: ٭خط بنام نواب امین الدین احمد خاں، مورخہ ۲۶ جولائی ۱۸۶۵ء (نسخۂ رضا)
[80] نسخۂ رضا: کاٹ کر پھینکیے
ناخن، تو باندازِ ہلال (ج۔ م۔)
[81] سبز، مثلِ خطِ نوخیز، ہو خطِ پرکار (نسخۂ رضا)
[82] مروجہ نسخوں میں ’’کے‘‘ کی
جگہ ’’کی‘‘ چھپا ہے۔
(ح۔ع۔خ۔)
مزید:
حامد علی خاں کے نسخے میں یہ مصرع یوں ہے: وہ شہنشاہ کہ جس کے پئے تعمیرِ سرا (ج۔
م۔)
[83] اکثر مروجہ نسخوں میں ’’کی
خاشاک‘‘ چھپا ہے۔
لفظِ خاشاک بہ صیغۂ مذکر استعمال ہوتا ہے۔ دیکھیے فرہنگِ آصفیہ۔
اس قسم کے اغلاط کی وجہ پہلے حواشی میں جگہ جگہ
بیان ہو چکی ہے۔ (ح۔ع۔خ۔) مزید: نسخۂ حامد علی خاں میں : واں کے خاشاک سے
حاصل ہو جسے یک پرِ کاہ (ج۔ م۔)
[84] نسخۂ مہر میں ’’غم خوار‘‘
(ج۔ م۔)
[85] نسخۂ مہر میں یہاں ’’مظہرِ
ذات خدا‘‘ کے الفاظ درج ہیں۔
یہ الفاظ دوسرے کسی زیر نظر نسخے میں نہیں ملے۔ (ح۔ع۔خ۔)
[86] نسخۂ مہر میں یہاں ’’سدا‘‘
کی جگہ ’’اسد‘‘ چھپا ہے مگر اس کی تصدیق کسی دوسرے نسخے سے نہیں ہو سکی۔ (ح۔ع۔خ۔)
[87] نسخۂ عرشی: ’’کیے‘‘
(ح۔ع۔خ۔)
[88] بعض اچھے نسخوں میں ’’شعلۂ
دود دوزخ‘‘ چھپا ہے۔
’’شعلۂ دود‘‘ بے محل بات ہے۔ (ح۔ع۔خ۔) مزید: نسخۂ ح۔ع۔خ۔
میں : ’’شعلہ و دود دوزخ‘‘ (ج۔ م۔)
[89] بعض نسخوں میں ’’گُل و
سنبل و فردوسِ بریں‘‘ کی عجیب و غریب ترکیب چھپی ہے۔ غالب
نے ’’شعلہ و دودِ دوزخ‘‘ کا مقابلہ ’’گُل و سنبلِ فردوسِ بریں‘‘ سے کیا ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)
[90] نسخۂ نظامی : جائے، آئے۔۔ نسخۂ شِو نرائن : جاوے، آوے۔ (ح۔ع۔خ۔)
[91] بعض نسخوں میں ’’ہر روزہ‘‘
کی جگہ ’’ہر روز‘‘ چھپا ہے جو سہوِ کتابت ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)
[92] بعض نسخوں میں غلط فہمی کی
بنا پر ’’چکے‘‘ کی جگہ ’’چکی‘‘ چھپا ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)
[93] بعض مروجہ نسخوں میں ’’چاہتا
ہے لگام‘‘ چھپا ہے۔
جو غلط ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)
[94] نسخۂ مہر میں ’’غم سے زیست
ہو گئی ہو حرام‘‘ یہ غالباً سہوِ کتابت ہے۔ (ح۔ع۔خ۔) مزید: نسخۂ
رضا میں بھی ’’ہو حرام‘‘ (ج۔ م۔)
[95] مزید شعر از نسخۂ رضا۔ (ج۔
م۔)
[96] نسخۂ نظامی کی تقلید میں
مستند نسخوں میں بھی یہاں ’’اُس‘‘ چھپا ہے۔ نسخۂ
نظامی میں یہ سہوِ کتابت معلوم ہوتا ہے کیوں کہ‘‘ اِس رقم‘‘ میں اشارہ قریبی
تحریرِ ما بعد یعنی آخری شعر کی طرف ہے۔ نظر
بہ ظاہر یہی معلوم ہوتا ہے۔
(ح۔ع۔خ۔)
[97] چند نسخوں میں ’’روائیِ‘‘ ہے۔ اکثر جگہ ’روانی‘ کر دیا گیا ہے جو غلط ہے۔ (ا۔ ع۔) مزید: بعض نسخوں میں ’’روائی‘‘ کی جگہ ’’روانئی‘‘
چھپا ہے، غالب نے ’’رسائی‘‘ کے مقابلے میں ’’روائی‘‘ لکھا تھا۔ دیکھیے طباطبائی۔
(ح۔ع۔خ۔)
مزید:
ہم نے متن میں اکثر مستند نسخوں کی تقلید میں ’’روانئی‘‘ کو ترجیح دی ہے۔ (ج۔ م۔)
[98] نسخۂ عرشی اور بعض دیگر
مستند نسخوں میں ’’دکھا دوں گا‘‘ ہے مگر نسخۂ نظامی میں، نیز دیگر قدیم نسخوں ’’میں
دکھاؤں گا‘‘ ہی ہے۔
(ح۔ ا۔ خ۔)
[99] نسخۂ مہر میں ’’پائیں‘‘
(ج۔ م۔)
مزید:
نسخۂ عرشی میں یہ مصرع یوں چھپا ہے: خامے سے پائی طبیعت نے مدد۔ دونوں طرح شعر تقریباً ہم معنی ہی رہتا ہے۔ متن
نسخۂ نظامی کے مطابق ہے۔
نسخۂ مہر میں دوسرا مصرع یوں چھپا ہے: بادباں کے
اٹھتے ہی لنگر کھلا
یہ صریحاً سہوِ کتابت ہے۔ لنگر اٹھتا، بادبان کھلتا ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)
[100] ٭یہ قصیدہ مرزا صاحب نے منشی شیو نرائن کی طرف سے مسٹر ایلن برون کے یہاں
بیٹا پیدا ہونے کی مبارک باد پر لکھا تھا (نسخۂ رضا)
[101] مزید شعر از نسخۂ رضا۔ (ج۔
م۔)
[102] نسخۂ رضا میں یہ مصرع یوں ہے: انجمِ چرخ، گوہر آگیں فرش (ج۔ م۔)
[103] نسخۂ رضا میں یہ مصرع یوں ہے : کہ جہاں گدیہ گر کا نام نہیں۔ (ج۔ م۔)
[104] نسخۂ نظامی میں ’’ستائش‘‘ کی
جگہ ’’شکایت‘‘ چھپا ہے، ستائش ہی بہ ظاہر درست ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)
[105] نسخۂ مہر میں ’’کھائے‘‘ (ج۔
م۔)
[106] بعض قدیم و جدید نسخوں میں
’’تو‘‘ کی جگہ ’’کہ‘‘ چھپا ہے۔
متن نسخۂ نظامی کے مطابق ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)
[107] غالب نے قلم مذکر و مونث
دونوں طرح لکھا ہے۔
(ح۔ع۔خ۔)
[108] نسخۂ مہر میں ’’جائے‘‘ (ج۔
م۔)
[109] نسخۂ آسی میں ’’نہ شاخ و
برگ و بار (ج۔ م۔)
[110] جب خزاں ہو تب آئے اس کی بہار
(نسخۂ مہر)
[111] نسخۂ مہر میں ’’شاخِ برگ و
بار‘‘ (ج۔ م۔)
[112] نسخۂ مہر میں ’’عز جاہ و
شانِ جلال‘‘ چھپا ہے۔
اس سے کوئی خاص معنوی فرق پیدا نہیں ہوتا۔ (ح۔ع۔خ۔)
[113] نسخۂ مہر میں یہ شعر اس طرح
درج ہے:
اب
تو مِل جائے گی ان سے تیری سانٹھ لیکن آخر
کو پڑے گی ایسی گانٹھ (ج۔ م۔)
[114] نسخۂ مہر میں ’’بہ جا‘‘ (ج۔
م۔)
[115] نسخۂ مہر میں یہ مصرعہ اس
طرح درج ہے: اب مہر میں اور برق میں کچھ
فرق نہیں ہے (ج۔ م۔)
[116] نسخۂ مہر میں ’’کہ ایک جوہر‘‘
(ج۔ م۔)
[117] نسخۂ مہر میں ’’تفتہ‘‘ (ج۔
م۔)
[118] غالب نے یہ سہرا اپنے دیوان
میں شامل نہیں کیا تھا۔
(ح۔ع۔خ۔)
[119] نسخۂ مہر میں ’’شہزادے‘‘
(ج۔ م۔)
[120] نسخۂ حسرت میں ’’مکرر‘‘ چھپا
ہے لیکن کسی اور نسخے میں اس کی سند نہیں ملی۔ (ح۔ع۔خ۔)
[121] اس کی ایک املا ’’غلطاں‘‘ بھی
ہے (ج۔ م۔)
[122] نسخۂ مہر میں یہ مصرعہ اس
طرح درج ہے:
دیکھیں،
کہہ دے کوئی اس سہرے سے بڑھ کر سہرا! (ج۔ م۔)
مزید:
محمد حسین آزاد کی آبِ حیات میں ’’بڑھ کر‘‘ کی جگہ ’’بہتر‘‘ چھپا ہے مگر مروجہ
نسخوں میں اختلاف ہے۔
معلوم نہیں کہ غالب نے کیا کہا تھا۔ (ح۔ع۔خ۔)
مزید:
(مرزا جواں بخت کی شادی کی تاریخیں یکم و دوم ماہِ اپریل۱۸۵۲ بتائی جاتی ہیں) نسخۂ رضا
[123] آخری دو شعر نسخۂ رضا سے شامل کئے گئے ہیں۔ (ج۔
م۔)
[124] نسخۂ مہر میں ’’تھی‘‘ (ج۔
م۔)
[125] آزاد کے آبِ حیات میں ’’قول
کا‘‘ چھپا ہے، نسخۂ نظامی میں ’’قول میں‘‘ (ح۔ع۔خ۔)
[126] حاشیہ از نسخۂ رضا: (یہ
قطعہ دہلی اردو اخبار جلد ۱۴ نمبر ۱۳ مورخہ ۲۸ مارچ ۱۸۵۲ء میں شائع ہوا تھا)
[127] نسخۂ نظامی، سہوِ کتابت:
توقیر۔ (ح۔ع۔خ۔)
[128] غالبؔ نے اسے جان بوجھ کر
الف سے لکھا ہے حالاں کہ زنبیل سے مراد عَمر عیّار (جسے عَمرو عیّار بھی کہتے ہیں)
کی زنبیل ہی ہے۔ مبادا یہ دانستہ اس لئے الف سے لکھا ہے کہ کسی کا دھیان حضرت عمر رضی اللہ
تعالیٰ عنہ کی طرف نہ جائے۔ (ا۔ ع۔)
مزید:
غالب نے یہاں ’’امر‘‘ ہی لکھا ہے، یعنی متحرک میم کے ساتھ۔ جن حضرات کا یہ خیال ہے کہ یہاں ’’عمرو‘‘ ہی لکھنا مناسب ہے، انہیں یہ بھی
سوچنا چاہیے کہ ’’عمرو‘‘ میں میم ساکن ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)
[129] نسخۂ مہر میں عنوان ’’چکنی
ڈلی‘‘ (ج۔ م۔)
[130] نسخۂ مہر میں یہ مصرعہ یوں
درج ہے:
وضع
میں اس کو سمجھ لیجئے قافِ تریاق (ج۔ م۔) مزید: غالب نے ’’سمجھیے‘‘ میں میم کو
متحرک اور ساکن دونوں طرح استعمال کیا ہے۔ اب
اس لفظ میں سکون جائز نہیں۔
نسخۂ مہر میں ’’اگر سمجھیے‘‘ کی جگہ ’’سمجھ لیجیے‘‘
چھپا ہے لیکن اور کسی دستیاب نسخے میں یہ شعر یوں نہیں ملا۔ (ح۔ع۔خ۔)
[131] ٭ نسخۂ مہر میں ’’بادشاہ‘‘
(ج۔ م۔)
[132] نسخۂ حمیدیہ اور نسخۂ مہر
میں ’’نوشت و خواند‘‘ چھپا ہے۔
باقی اکثر نسخوں میں (بشمول نسخۂ نظامی، عرشی) ’’نوشت
خواند‘‘ چھپا ہے جو اہلِ زبان بولتے ہیں۔ (ح۔ع۔خ۔)
[133] نسخۂ رضا میں یہ مصرع یوں ہے: افطارِ صوم کی کچھ، اگر، دستگاہ ہو۔
(ج۔ م۔)
[134] چند نسخوں میں یہ مصرع یوں
درج ہے: اٹھا اک دن بگولہ سا جو تھا کچھ جوشِ وحشت میں (ا۔ ع۔)
[135] نسخۂ مہر میں ’’تشنہ‘‘ لفظ
آیا ہے جو کہ کتابت کی غلطی ہے۔
(ج۔ م۔)
[136] حاشیہ از نسخۂ رضا: یہ
قطعہ رسالہ مخزن اپریل ۱۹۰۷ء میں اس تمہید کے ساتھ شائع ہوا تھا:۔ ’’تھوڑے
دن ہوئے میجر سید حسن صاحب بلگرامی سے تذکرہ شعرا ہو رہا تھا جس میں انہوں نے
غالبؔ کا ایک قطعہ سنایا۔
قطعے کے عمدہ ہونے میں کیا شک ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہی ان کے اس بیان نے کہ یہ قطعہ ان کے والد مرحوم سے ان کو
پہنچا اور اب تک غالبؔ کے کسی کلام میں شائع نہیں ہوا، اس کی خوبی زیادہ کر دی۔ میں نے اسے لکھ لیا اور ان کی اجازت سے مخزن کو بھیجتا ہوں۔ شیداؔ از کیمبرج۔‘‘
(ج۔ م۔)
[137] نسخۂ مہر میں مصرعہ یوں ہے:
خوشی ہے یہ آنے کی برسات کے (ج۔ م۔)
[138] نسخۂ رضا میں مصرعہ یوں ہے: سِوا
اناج کے، جو ہے مقلوبِ جاں
[139] محظوظ سے سال ۱۸۵۴ عیسوی نکلتا ہے
[140] ۱۲۷۰ ہجری
[141] ۱۲۷۷ ہجری
[142] نسخۂ مہر میں اس قطعہ کا
عنوان ہے۔ شریکِ غالبؔ (ج۔ م۔)
[143] نسخۂ مہر میں اس قطعہ کا
عنوان ہے۔ درباری (ج۔ م۔)
[144] نسخۂ مہر میں یہ مصرعہ یوں
ہے: اس سے ہے یہ مراد کہ ہم آشنا نہیں (ج۔ م۔)
[145] نسخۂ مہر میں یہ مصرعہ اس
طرح درج ہے:
یوں
کہا آتی نہیں کیوں اب صدائے عندلیب؟ (ج۔ م۔)
[146] حاشیہ از نسخۂ رضا: مولانا نظامیؔ
بدایونی مرحوم نے اپنی شرح دیوانِ غالبؔ صفحہ نمبر ۲۴۸ میں قطعہ #۴ اور قطعہ #۵ کے متعلق لکھا ہے،
کہ سب سے پہلے ان قطعات کا اضافہ طبعِ سوم میں اس ریمارک کے ساتھ ہوا تھا کہ بعض
نقادانِ سخن ان قطعات کے طرزِ بیان کو حضرتِ غالبؔ کے رنگ سے جداگانہ سمجھتے ہیں۔ اس پر طبعِ سوم کے ناظرین میں سے بعض اہل الرائے حضرات نے شکایت کی کہ ان
قطعات کو دیوانِ غالبؔ میں جگہ دینا غالبؔ کے کلام کی توہین کرنا ہے۔ ہم نے نواب عماد الملک (میجر سید حسن بلگرامی کے بھائی) سے ان کے متعلق
دریافت کیا۔ وہ فرمانے لگے کہ وہ یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ یہ غالبؔ کے مصنفہ ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک بزرگ سے سنے تھے جو ان کو غالبؔ سے منسوب کرتے تھے،
ممکن ہے کہ یہ غالبؔ کا ابتدائی کلام ہو۔
یعنی (۱) شیداؔ نے ان اشعار کو میجر سید حسن بلگرامی سے لیا
اور سید حسن صاحب کو یہ ان کے والد گرامی سے پہنچے اور (۲) نظامی بدایونی کے دریافت
کرنے پر سید حسن صاحب کے بھائی نے تصدیق کی کہ انہوں نے اپنے ایک بزرگ سے (اپنے
والد مرحوم سے نہیں) سنا تھا اور اس لیے وہ یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ یہ غالبؔ
کے مصنفہ ہیں۔ یہ روایت خاصی ضعیف ہے
جناب قاضی عبد الودود نے اپنے مضمون ’’کتب خانہ
خدا بخش اور غالبؔ‘‘ مشمولہ اردوئے معلیٰ دہلی، غالبؔ نمبر، حصہ دوم، صفحہ ۷۸میں لکھا ہے کہ ’’دیوانِ
غالبؔ اردو کے ان نسخوں میں سے جو غالبؔ کے دورانِ حیات میں طبع ہو چکے تھے، یہاں
موجود ہیں: نسخہ مطبع احمدی، مطبع نظامی۔ مقدم
الذکر کے یہاں دو نسخے تھے، جن میں سے ایک کا باوجودِ تلاش اس وقت کچھ پتا نہ ملا۔ اس کے آخر میں جناب قاسم حسن خان و برادر زادہ خدا بخش خان منتظمِ کتب
خانہ کے قول کے مطابق غالبؔ کا ایک قطعہ ہے جو محمد بخش خاں پدرِ خدا بخش خاں کے
ہاتھ کا لکھا ہوا ہے۔
یہ قطعہ وہی ہے جو عماد الملک کی روایت پر غالبؔ
سے منسوب کیا گیا ہے۔
نیز مخزن میں اس قطعے کو شائع کرنے والے صاحب کا
نام شیدا لکھا گیا ہے۔
یہ عبدالحمید خواجہ ہیں جو ان دنوں کیمبرج میں
مقیم تھے۔۔۔۔‘‘
(نوٹ:
اب میں نے معلوم کر لیا ہے کہ قطعہ نمبر ۵ ’’صدائے عندلیب‘‘ غالبؔ کے شاگرد مرزا عبدالصمد بیگ
ذاکرؔ کا ہے (دیکھو دیوانِ ذاکرؔ صفحہ ۲۱)
[147] حاشیہ از نسخۂ رضا: ٭ یہ مثنوی مرزا غالبؔ کے مرتبہ اس بے نام اردو کتابچے کے دیباچے کے آخر
میں ملتی ہے، جو شاید انہوں نے ہندوستان میں مقیم انگریزوں کو اردو سکھانے کے لئے
اپنے منتخب رقعات اور اشعار پر مشتمل ترتیب دیا تھا
[148] کچھ نسخوں میں یہ مصرعہ یوں
ہے: دل رُک کر بند ہو گیا ہے غالبؔ
اور
اس سلسلے میں خضر ناگپوری (رازِ حیات۔ خضر
ناگپوری) نے بحث کی ہے کہ وہی مصرعہ درست ہے جس میں ’رک رُک‘ ہے (ا۔ ع۔)
مزید:
اس رباعی کے دوسرے مصرع کے متعلق بڑا جھگڑا رہا ہے۔ یہ
بہ ظاہر حضرت طباطبائی کے عروضی اعتراض سے شروع ہوا جو غالباً غلط فہمی پر مبنی
تھا۔ اس کے بعد مختلف حضرات اس مصرع پر طبع آزمائی کرتے رہے اور انہوں نے ’’رک
رک کر‘‘ کے بجائے صرف ’’رک کر‘‘ رکھ کر اس کی اصلاح کی کوشش بھی کی مگر یہ لحاظ نہ فرمایا کہ
س اصلاح سے رباعی کی جان بھی نکالی گئی ہے۔ ’’دل
رک کر بند ہو گیا‘‘ تو ایسا ہی مہمل ہے جیسا ’’دل رک کر رک گیا‘‘ یا ’’دل بند کر بند
ہو گیا‘‘ ۔ غالب نے ’’دل رک رک کر‘‘ کہا تھا تو اس طرح ایک ایسے تدریجی عمل کی طرف
ایک بلیغ اشارہ کیا تھا جو آخرِ کار حرکتِ قلب کاملاً بند ہو جانے کی تمہید بنا
تھا اور جس کا ذکر کیے بغیر مصرع قطعاً بے کیف رہ جاتا ہے۔ عروض خواہ کچھ کہے ’’رک کر‘‘ کو ’’رک رک کر‘‘ کی جگہ نہیں دی جا سکتی۔ (ح۔ع۔خ۔)
[149] نسخۂ طباطبائی میں یہ مصرع
یوں درج ہے: ’’یعنی ہر بار کاغذِ باد کی طرح‘‘ متن نسخۂ نظامی کے مطابق ہے۔ (ح۔ع۔خ۔)
[150] نسخۂ رضا میں یہ مصرع یوں ہے: لاٹھی وہ لگے کہ جس میں آواز نہ ہو
(ج۔ م۔)
[151] نسخۂ رضا میں یہ مصرع یوں ہے: جس دن سے کہ ہم
غمزدہ زنجیر بپا ہیں (ج۔ م۔)۔