فہرست مضامین
- کلیاتِ میر
- دیوان سوم
- ردیف ۱لف
- (۱۰۵۵)
- (۱۰۵۶)
- (۱۰۵۸)
- (۱۰۵۸)
- (۱۰۵۸)
- (۱۰۶۰)
- (۱۰۶۱)
- (۱۰۶۲)
- (۱۰۶۳)
- (۱۰۶۴)
- (۱۰۶۵)
- (۱۰۶۶)
- (۱۰۶۸)
- (۱۰۶۸)
- (۱۰۶۸)
- (۱۰۸۰)
- (۱۰۸۱)
- (۱۰۸۲)
- (۱۰۸۳)
- (۱۰۸۴)
- (۱۰۸۵)
- (۱۰۸۶)
- (۱۰۸۸)
- (۱۰۸۸)
- (۱۰۸۸)
- (۱۰۸۰)
- (۱۰۸۱)
- (۱۰۸۲)
- (۱۰۸۳)
- (۱۰۸۴)
- (۱۰۸۵)
- (۱۰۸۶)
- (۱۰۸۸)
- (۱۰۸۸)
- (۱۰۸۸)
- (۱۰۸۰)
- (۱۰۸۱)
- (۱۰۸۲)
- (۱۰۸۳)
- (۱۰۸۴)
- (۱۰۸۵)
- (۱۰۸۶)
- (۱۰۸۸)
- (۱۰۸۸)
- (۱۰۸۸)
- (۱۱۰۰)
- (۱۱۰۱)
- (۱۱۰۲)
- (۱۱۰۳)
- ردیف ب
- ردیف ت
- ردیف ٹ
- ردیف ث
- ردیف چ
- ردیف ح
- ردیف د
- ردیف ر
- ردیف ز
- ردیف س
- ردیف ش
- ردیف ص
- ردیف ض
- ردیف ط
- ردیف ظ
- ردیف ع
- ردیف غ
- ردیف ف
- ردیف ق
- ردیف ک
- ردیف گ
- ردیف ل
- ردیف م
- ردیف ن
- (۱۱۸۴)
- (۱۱۸۵)
- (۱۱۸۶)
- (۱۱۸۸)
- (۱۱۸۸)
- (۱۱۸۸)
- (۱۱۸۰)
- (۱۱۸۱)
- (۱۱۸۲)
- (۱۱۸۳)
- (۱۱۸۴)
- (۱۱۸۵)
- (۱۱۸۶)
- (۱۱۸۸)
- (۱۱۸۸)
- (۱۱۸۸)
- (۱۱۸۰)
- (۱۱۸۱)
- (۱۱۸۲)
- (۱۱۸۳)
- (۱۱۸۴)
- (۱۱۸۵)
- (۱۱۸۶)
- (۱۱۸۸)
- (۱۱۸۸)
- (۱۱۸۸)
- (۱۲۰۰)
- (۱۲۰۱)
- (۱۲۰۲)
- (۱۲۰۳)
- (۱۲۰۴)
- (۱۲۰۵)
- (۱۲۰۶)
- (۱۲۰۸)
- (۱۲۰۸)
- (۱۲۰۸)
- (۱۲۱۰)
- (۱۲۱۱)
- (۱۲۱۲)
- (۱۲۱۳)
- (۱۲۱۴)
- (۱۲۱۵)
- (۱۲۱۶)
- (۱۲۱۸)
- (۱۲۱۸)
- ردیف و
- ردیف ہ
- ردیف ی
- (۱۲۵۲)
- (۱۲۵۳)
- (۱۲۵۴)
- (۱۲۵۵)
- (۱۲۵۶)
- (۱۲۵۸)
- (۱۲۵۸)
- (۱۲۵۸)
- (۱۲۶۰)
- (۱۲۶۱)
- (۱۲۶۲)
- (۱۲۶۳)
- (۱۲۶۴)
- (۱۲۶۵)
- (۱۲۶۶)
- (۱۲۶۸)
- (۱۲۶۸)
- (۱۲۶۸)
- (۱۲۸۰)
- (۱۲۸۱)
- (۱۲۸۲)
- (۱۲۸۳)
- (۱۲۸۴)
- (۱۲۸۵)
- (۱۲۸۶)
- (۱۲۸۸)
- (۱۲۸۸)
- (۱۲۸۸)
- (۱۲۸۰)
- (۱۲۸۱)
- (۱۲۸۲)
- (۱۲۸۳)
- (۱۲۸۴)
- (۱۲۸۵)
- (۱۲۸۶)
- (۱۲۸۸)
- (۱۲۸۸)
- (۱۲۸۸)
- (۱۲۸۰)
- (۱۲۸۱)
- (۱۲۸۲)
- (۱۲۸۳)
- (۱۲۸۴)
- (۱۲۸۵)
- (۱۲۸۶)
- (۱۲۸۸)
- (۱۲۸۸)
- (۱۲۸۸)
- (۱۳۰۰)
- (۱۳۰۱)
- (۱۳۰۲)
- (۱۳۰۳)
- (۱۳۰۴)
- (۱۳۰۵)
- (۱۳۰۶)
- (۱۳۰۸)
- (۱۳۰۸)
- (۱۳۰۸)
- (۱۳۱۰)
- (۱۳۱۱)
- ردیف ۱لف
کلیاتِ میر
میر تقی میرؔ
دیوان سوم
ردیف ۱لف
(۱۰۵۵)
میرے مالک نے مرے حق میں یہ احسان کیا
خاک ناچیز تھا میں سو مجھے انسان کیا
اس سرے دل کی خرابی ہوئی اے عشق دریغ
تو نے کس خانۂ مطبوع کو ویران کیا
ضبط تھا جب تئیں چاہت نہ ہوئی تھی ظاہر
اشک نے بہ کے مرے چہرے پہ طوفان کیا
انتہا شوق کی دل کے جو صبا سے پوچھی
اک کف خاک کو لے ان نے پریشان کیا
۸۰۸۵
مجھ کو شاعر نہ کہو میرؔ کہ صاحب میں نے
درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا
(۱۰۵۶)
دین و دل کے غم کو آساں ناتواں میں لے گیا
یا محبت کہہ کے یہ بار گراں میں لے گیا
خاک و خوں میں لوٹ کر رہ جانے ہی کا لطف ہے
جان کو کیا جو سلامت نیم جاں میں لے گیا
سرگذشت عشق کی تہ کو نہ پہنچا یاں کوئی
گرچہ پیش دوستاں یہ داستاں میں لے گیا
عرصۂ دشت قیامت باغ ہو جائے گا سب
اس طرح سے جو یہ چشم خوں فشاں میں لے گیا
۸۰۸۰
ذکر دل جانے کا وہ پر کینہ سن کہنے لگا
یہ سناتے ہو کسے کیا مہرباں میں لے گیا
یک جہاں مہر و وفا کی جنس تھی میرے کنے
لیکن اس کو پھیر ہی لایا جہاں میں لے گیا
ریختہ کاہے کو تھا اس رتبۂ اعلیٰ میں میرؔ
جو زمیں نکلی اسے تا آسماں میں لے گیا
(۱۰۵۸)
میرا ہی مقلد عمل تھا
مجنوں کے دماغ میں خلل تھا
دل ٹوٹ گیا تو خوں نہ نکلا
شیشہ یہ بہت ہی کم بغل تھا
۸۰۸۵
تھیں سب کی نظر میں اس کی بھوویں
افسوس یہ شعر مبتذل تھا
کیا قدر ہے ریختے کی گو میں
اس فن میں نظیرؔی کا بدل تھا
تھا نزع میں دست میرؔ دل پر
شاید غم کا یہی محل تھا
(۱۰۵۸)
کرتا جنوں جہاں میں بے نام و ننگ آیا
اک جمع لڑکوں کا بھی لے لے کے سنگ آیا
شب شمع کی بھی جھپکی مجلس میں لگ گئی تھی
سرگرم شوق مردن جس دم پتنگ آیا
۸۰۸۰
فتنے فساد اٹھیں گے گھر گھر میں خون ہوں گے
گر شہر میں خراماں وہ خانہ جنگ آیا
ہر سر نہیں ہے شایاں شور قلندری کا
گو شیخ شہر باندھے زنجیر و زنگ آیا
چسپاں ہے اس بدن سے پیراہن حریری
اتنی بھی تنگ پوشی جی اب تو تنگ آیا
باتیں ہماری ساری بے ڈھنگیاں ہیں وے ہی
بوڑھے ہوئے پہ ہم کو اب تک نہ ڈھنگ آیا
بشرے کی اپنے رونق اے میرؔ عارضی ہے
جب دل کو خوں کیا تو چہرے پہ رنگ آیا
۸۰۸۵
(۱۰۵۸)
دل اگر کہتا ہوں تو کہتا ہے وہ یہ دل ہے کیا
ایسے ناداں دلربا کے ملنے کا حاصل ہے کیا
جاننا باطل کسو کو یہ قصور فہم ہے
حق اگر سمجھے تو سب کچھ حق ہے یاں باطل ہے کیا
یاں کوئی دن رات وقفہ کر کے قصد آگے کا کر
کارواں گاہ جہان رفتنی منزل ہے کیا
تک رہے ہیں اس کو سو ہم تک رہے ہیں ایک سے
دیدۂ حیراں ہمارا دیدۂ بسمل ہے کیا
وہ حقیقت ایک ہی ساری نہیں ہے سب میں تو
آب سا ہر رنگ میں یہ اور کچھ شامل ہے کیا
۸۱۰۰
چوٹ میرے دل میں ایسی ہے کہ ہوں میں دم بخود
وہ کشندہ یوں ہی کہتا ہے کہ تو گھائل ہے کیا
کہتے ہیں ظاہر ہے اک ہی لیلی ہفت اقلیم میں
اس عبارت کا نہیں معلوم کچھ محمل ہے کیا
ہم تو سو سو بار مر رہتے ہیں ایک ایک آن میں
عشق میں اس کے گذرنا جان سے مشکل ہے کیا
شاخ پر گل یا نہال اودھر جھکے جاتے ہیں سب
قامت دلکش کا اس کی سرو ہی مائل ہے کیا
مرثیہ میرے بھی دل کا رقت آور ہے بلا
محتشمؔ کو میرؔ میں کیا جانوں اور مقبلؔ ہے کیا
۸۱۰۵
(۱۰۶۰)
ان دلبروں سے رابطہ کرنا ہے کام کیا
کر اک سلام پوچھنا صاحب کا نام کیا
حیرت ہے کھولیں چشم تماشا کہاں کہاں
حسن و جمال ویسا ہے اس کا خرام کیا
کی اک نگاہ گرم جہاں ان سے مل گئے
عاشق کو دلبروں سے سلام و پیام کیا
شکر خدا کہ سر نہ فرو لائے ہم کہیں
کیا جانیں سجدہ کہتے ہیں کس کو سلام کیا
اس کنج لب پہ چپکے ہوئے منھ کو رکھ کے ہم
دلچسپ اس مقام میں حرف و کلام کیا
۸۱۱۰
جس جائے اس کے چہرے سے کرتے ہیں گفتگو
مرآت و ماہ و گل کا ہے اس جا مقام کیا
کہتا ہے کون بدر میں نقصان کچھ رہا
پر منھ کھلے پہ اس کے ہے ماہ تمام کیا
یہ جانوں ہوں کہ دل کو ہے اس رو ومو سے لاگ
کیا جانوں پیش آوے ہے اب صبح و شام کیا
تسبیح تک تو میرؔ نے رکھا کلال کے
وقت نماز اب بھی ہوئے تھے امام کیا
(۱۰۶۱)
چال یہ کیا تھی کہ ایدھر کو گذارا نہ کیا
دور ہی دور پھرے پاس ہمارا نہ کیا
۸۱۱۵
اس کو منظور نہ تھی ہم سے مروت کرنی
ایک چشمک بھی نہ کی ایک اشارہ نہ کیا
بعد دشنام تھی بوسے کی توقع بھی ولے
تلخ سننے کے تئیں ہم نے گوارا نہ کیا
مر کے بے حوصلہ لوگوں میں کہا یا فرہاد
چندے پتھر ہی سے سر اور بھی مارا نہ کیا
جی رہے ڈوبتے دریائے غم عشق میں لیک
بوالہوس کی سی طرح ہم نے کنارہ نہ کیا
نیم جاں صدقے کی اس پر نہ زیاں دیکھا نہ سود
ہم تو کچھ دوستی میں وارے کا سارا نہ کیا
۸۱۲۰
لے گیا مٹی بھی دروازے کی ان کے میں میرؔ
پر اطبا نے مرے درد کا چارہ نہ کیا
(۱۰۶۲)
وہ دل نہیں رہا ہے تعب جو اٹھائے گا
یا لوہو اشک خونی سے منھ پر بہائے گا
اب یہ نظر پڑے ہے کہ برگشتہ وہ مژہ
کاوش کرے گی ٹک بھی تو سنبھلا نہ جائے گا
کھینچا جو میں وہ ساعد سیمیں تو کہہ اٹھا
بس بس کہیں ہمیں ابھی صاحب غش آئے گا
ریجھے تو اس کے طور پہ مجلس میں شیخ جی
پھر بھی ملا تو خوب سا ان کو رجھائے گا
۸۱۲۵
جلوے سے اس کے جل کے ہوئے خاک سنگ و خشت
بیتاب دل بہت ہے یہ کیا تاب لائے گا
ہم رہ چکے جو ایسے ہی غم میں کھپا کیے
معلوم جی کی چال سے ہوتا ہے جائے گا
اڑ کر لگے ہے پاؤں میں زلف اس کی پیچ دار
بازی نہیں یہ سانپ جو کوئی کھلائے گا
اڑتی رہے گی خاک جنوں کرتی دشت دشت
کچھ دست اگر یہ بے سر و ساماں بھی پائے گا
درپے ہے اب وہ سادہ قراول پسر بہت
دیکھیں تو میرؔ کے تئیں کوئی بچائے گا
۸۱۳۰
(۱۰۶۳)
وہ جو گلشن میں جلوہ ناک ہوا
پھول غیرت سے جل کے خاک ہوا
اس کے دامن تلک نہ پہنچا ہاتھ
تھا سر دست جیب چاک ہوا
کس قدر تھا خبیث شیخ شہر
اس کے مرنے سے شہر پاک ہوا
ڈریے اس رشک خور کی گرمی سے
کچھ تو ہے ہم سے جو تپاک ہوا
میرؔ ہلکان ہو گیا تھا بہت
سو طلب ہی میں پھر ہلاک ہوا
۸۱۳۵
(۱۰۶۴)
کیا روئیے ہمیں کو یوں آن کر کے مارا
مہر بت دگر سے طوفان کر کے مارا
تربت کا میری لوحہ آئینے سے کرے ہے
یعنی کہ ان نے مجھ کو حیران کر کے مارا
بیگانہ جان ان نے کیا چوٹ رات کو کی
منھ دیکھ دیکھ میرا پہچان کر کے مارا
پہلے گلے لگایا پھر دست جور اٹھایا
مارا تو ان نے لیکن احسان کر کے مارا
اس سست عہد نے کیا کی تھی قسم مجھی سے
بہتوں کو ان نے عہد و پیمان کر کے مارا
۸۱۴۰
حاضر یراق ہونا کاہے کو چاہیے تھا
مجھ بے نوا کو کیا کیا سامان کر کے مارا
کہنے لگا کہ شب کو میرے تئیں نشہ تھا
مستانہ میرؔ کو میں کیا جان کر کے مارا
(۱۰۶۵)
گیا حسن خوبان بد راہ کا
ہمیشہ رہے نام اللہ کا
پشیماں ہوا دوستی کر کے میں
بہت مجھ کو ارمان تھا چاہ کا
جگر کی سپر پھوٹ جانے لگی
بلا توڑ ہے ناوک آہ کا
۸۱۴۵
اسیری کا دیتا ہے مژدہ مجھے
مرا زمزمہ گاہ و بیگاہ کا
رہوں جا کے مر حضرت یار میں
یہی قصد ہے بندہ درگاہ کا
کہا ہو دم قتل کچھ تو کہے
جواب اس کو کیا میرے خونخواہ کا
عدم کو نہیں مل کے جاتے ہیں لوگ
غم اس راہ میں کیا ہے ہمراہ کا
نظر خواب میں اس کے منھ پر پڑی
بہت خوب ہے دیکھنا ماہ کا
۸۱۵۰
لگونہی اگر آنکھ تیری ہو میرؔ
تماشا کر اس کی نظر گاہ کا
(۱۰۶۶)
چشم سے خوں ہزار نکلے گا
کوئی دل کا بخار نکلے گا
اس کی نخچیر گہ سے روح الامیں
ہو کے آخر شکار نکلے گا
آندھیوں سے سیاہ ہو گا چرخ
دل کا تب کچھ غبار نکلے گا
ہوئے رے لاگ تیر مژگاں کی
کس کے سینے کے پار نکلے گا
۸۱۵۵
ناز خورشید کب تلک کھینچیں
گھر سے کب اپنے یار نکلے گا
خون ہی آئے گا تو آنکھوں سے
ایک سیل بہار نکلے گا
عزلت میرؔ عشق میں کب تک
ہو کے بے اختیار نکلے گا
(۱۰۶۸)
اعجاز منھ تکے ہے ترے لب کے کام کا
کیا ذکر یاں مسیح علیہ السلام کا
رقعہ ہمیں جو آوے ہے سو تیر میں بندھا
کیا دیجیے جواب اجل کے پیام کا
۸۱۶۰
کچھ سدھ سنبھالتے ہی رکھی ان نے پگڑی پھیر
ممنون میں نہیں ہوں جواب سلام کا
منھ دیکھو بدر کا کہ تری روکشی کرے
تو یوں ہی نام لے ہے کسو ناتمام کا
نوبت ہے اپنی جب سے یہی کوچ کاہے شور
بجنا سنا نہیں ہے کبھو یاں مقام کا
کنج لب اس کا دیکھ کے خاموش رہ گئے
یعنی کہ تھا مقام یہ ختم کلام کا
اس رو و مو کے محو کو کیا روزگار سے
جلوہ ہی کچھ جدا ہے مرے صبح و شام کا
۸۱۶۵
صاحب ہو مار ڈالو مجھے تم وگرنہ کچھ
جز عاشقی گناہ نہیں ہے غلام کا
کب اقتدا ہو مجھ سے کسو کی سوائے میرؔ
بندہ ہوں دل سے میں اسی سید امام کا
(۱۰۶۸)
ہوں نشاں کیوں نہ تیر خوباں کا
مجھ پہ تودہ ہوا ہے طوفاں کا
ہاتھ زنجیر ہو جنوں میں رہا
اپنے زنجیرۂ گریباں کا
چپکے دیکھو جھمکتے وے لب سرخ
ذکر یاں کیا ہے لعل و مرجاں کا
۸۱۸۰
ایک رہزن ہے اس کی کافر زلف
غم ہی رہتا ہے دین و ایماں کا
عمر آوارگی میں سب گذری
کچھ ٹھکانا نہیں دل و جاں کا
کافرستاں ہے خال و خط و زلف
وقر کیا ہے دل مسلماں کا
مر گیا میرؔ نالہ کش بیکس
نَے نے ماتم میں اس کے منھ ڈھانکا
(۱۰۶۸)
جس خشم سے وہ شوخ چلا آج شب آیا
آیا کبھو یاں دن کو بھی یوں تو غضب آیا
۸۱۸۵
اس نرگس مستانہ کو کر یاد کڑھوں ہوں
کیا گریۂ سرشار مجھے بے سبب آیا
راہ اس سے ہوئی خلق کو کس طور سے یارب
ہم کو کبھی ملنے کا تو اس کے نہ ڈھب آیا
کیا پوچھتے ہو دب کے سخن منھ سے نہ نکلا
کچھ دیکھتے اس کو مجھے ایسا ادب آیا
کہتے تو ہیں میلان طبیعت ہے اسے بھی
یہ باتیں ہیں ایدھر کو مزاج اس کا کب آیا
خوں ہوتی رہی دل ہی میں آزردگی میری
کس روز گلہ اس کا مرے تابہ لب آیا
۸۱۸۰
جی آنکھوں میں آیا ہے جگر منھ تئیں میرے
کیا فائدہ یاں چل کر اگر یار اب آیا
آتے ہوئے اس کے تو ہوئی بے خودی طاری
وہ یاں سے گیا اٹھ کے مجھے ہوش جب آیا
جاتا تھا چلا راہ عجب چال سے کل میرؔ
دیکھا اسے جس شخص نے اس کو عجب آیا
(۱۰۸۰)
کیا کام کیا ہم نے دل یوں نہ لگانا تھا
اس جان کی جوکھوں کو اس وقت نہ جانا تھا
تھا جسم کا ترک اولیٰ ایام میں پیری کے
جاتا تھا چلا ہر دم جامہ بھی پرانا تھا
۸۱۸۵
ہر آن تھی سرگوشی یا بات نہیں گاہے
اوقات ہے اک یہ بھی اک وہ بھی زمانہ تھا
پامالی عزیزوں کی رکھنی تھی نظر میں ٹک
اتنا بھی تمھیں آ کر یاں سر نہ اٹھانا تھا
اک محو تماشا ہیں اک گرم ہیں قصے کے
یاں آج جو کچھ دیکھا سو کل وہ فسانہ تھا
کیونکر گلی سے اس کی میں اٹھ کے چلا جاتا
یاں خاک میں ملنا تھا لوہو میں نہانا تھا
جو تیر چلا اس کا سو میری طرف آیا
اس عشق کے میداں میں میں ہی تو نشانہ تھا
۸۱۸۰
جب تو نے نظر پھیری تب جان گئی اس کی
مرنا ترے عاشق کا مرنا کہ بہانہ تھا
کہتا تھا کسو سے کچھ تکتا تھا کسو کا منھ
کل میرؔ کھڑا تھا یاں سچ ہے کہ دوانہ تھا
کب اور غزل کہتا میں اس زمیں میں لیکن
پردے میں مجھے اپنا احوال سنانا تھا
(۱۰۸۱)
سہل ایسا نہ تھا آخر جی سے مرا جانا تھا
ٹک رنجہ قدم کر کر مجھ تک اسے آنا تھا
کیا مو کی پریشانی کیا پردے میں پنہانی
منھ یار کو ہر صورت عاشق سے چھپانا تھا
۸۱۸۵
لذت سے نہ تھا خالی جانا تہ تیغ اس کی
اے صید حرم تجھ کو اک زخم تو کھانا تھا
کیا صورتیں بگڑی ہیں مشتاقوں کی ہجراں میں
اس چہرے کو اے خالق ایسا نہ بنانا تھا
مت سہل ہمیں سمجھو پہنچے تھے بہم تب ہم
برسوں تئیں گردوں نے جب خاک کو چھانا تھا
کیا ظلم کیا بے جا مارا جیوں سے ان نے
کچھ ٹھور بھی تھی اس کی کچھ اس کا ٹھکانا تھا
اے شور قیامت اب وعدے سے قیامت ہے
خوابیدہ مرے خوں کو ظالم نہ جگانا تھا
۸۲۰۰
ہو باغ و بہار آیا گل پھول کہیں پایا
جلوہ اسے یاں اپنا صد رنگ دکھانا تھا
کہتے نہ تھے ہم واں سے پھر آ چکے جیتے تم
میرؔ اس گلی میں تم کو زنہار نہ جانا تھا
(۱۰۸۲)
تد اس بہشتی رو سے یہ خلطہ بہم کیا
جد برسوں ہم نے سورۂ یوسفؑ کو دم کیا
چہرے کو نوچ نوچ لیا چھاتی کوٹ لی
جانے کا دل کے ہم نے بہت غم الم کیا
مربوط اور لوگوں سے شاید کہ وے ہوئے
وہ ربط و رابطہ جو بہت ہم سے کم کیا
۸۲۰۵
کیا کیا سخن زباں پہ مری آئے ہوکے قتل
مانند خامہ گو کہ مرا سر قلم کیا
کی ہم نے تب درونے کی سوزش سے عاقبت
سب تن بدن اس آگ نے اپنا بھسم کیا
یاں اپنے جسم زار پہ تلوار سی لگی
ان نے جو بے دماغی سے ابرو کو خم کیا
اس زندگی سے مارے ہی جانا بھلا تھا میرؔ
رحم ان نے میرے حق میں کیا کیا ستم کیا
(۱۰۸۳)
اب کے جو گل کی فصل میں ہم کو جنوں ہوا
وہ دل کہ جس پہ اپنا بھروسا تھا خوں ہوا
۸۲۱۰
ٹھہرا گیا ہو ٹک بھی تو تم سے بیاں کروں
آتے ہی اس کے رفتن صبر و سکوں ہوا
تھا شوق طوف تربت مجنوں مجھے بہت
اک گردباد دشت مرا رہنموں ہوا
سیلاب آگے آیا چلا جاتے دشت میں
بے اختیار رونے کا میرے شگوں ہوا
جان اس کی تیغ تیز سے رکھ کر دریغ میرؔ
صید حرم ندان شکار زبوں ہوا
(۱۰۸۴)
رات سے آنسو مری آنکھوں میں پھر آنے لگا
یک رمق جی تھا بدن میں سو بھی گھبرانے لگا
۸۲۱۵
وہ لڑکپن سے نکل کر تیغ چمکانے لگا
خون کرنے کا خیال اب کچھ اسے آنے لگا
لعل جاں بخش اس کے تھے پوشیدہ جوں آب حیات
اب تو کوئی کوئی ان ہونٹوں پہ مر جانے لگا
حیف میں اس کے سخن پر ٹک نہ رکھا گوش کو
یوں تو ناصح نے کہا تھا دل نہ دیوانے لگا
حبس دم کے معتقد تم ہو گے شیخ شہر کے
یہ تو البتہ کہ سن کر لعن دم کھانے لگا
گرم ملنا اس گل نازک طبیعت سے نہ ہو
چاندنی میں رات بیٹھا تھا سو مرجھانے لگا
عاشقوں کی پائمالی میں اسے اصرار ہے
یعنی وہ محشر خرام اب پاؤں پھیلانے لگا
۸۲۲۰
چشمک اس مہ کی سی دلکش دید میں آئی نہیں
گو ستارہ صبح کا بھی آنکھ جھپکانے لگا
کیونکر اس آئینہ رو سے میرؔ ملیے بے حجاب
وہ تو اپنے عکس سے بھی دیکھو شرمانے لگا
(۱۰۸۵)
ضبط کرتے کرتے اب جو لب کو میں نے وا کیا
سو بھی رہتا ہوں یہ کہتا ہائے دل نے کیا کیا
آنکھ پڑتی تھی تمھارے منھ پہ جب تک چین تھا
کیا کیا تم نے کہ مجھ بیتاب سے پردہ کیا
۸۲۲۵
گور ہی اس کو جھنکائی عشق جس کے ہاں گیا
اس طبیب بد شگوں نے کس کے تیں اچھا کیا
دیکھ خبطی مجھ کو رستے بند ہو جاتے ہیں اب
عشق نے کیا کوچہ و بازار میں رسوا کیا
لوگ دل دیتے سنے تھے میرؔ دے گذرا ہے جی
لیک اپنے طور پر ان نے بھی اک سودا کیا
(۱۰۸۶)
سینہ کوبی ہے طپش سے غم ہوا
دل کے جانے کا بڑا ماتم ہوا
آنکھیں دوڑیں خلق جا اودھر گری
اٹھ گیا پردہ کہاں اودھم ہوا
۸۲۳۰
کیا لکھوں رویا جو لکھتے جوں قلم
سب مرے نامے کا کاغذ نم ہوا
ہم جو اس بن خوار ہیں حد سے زیاد
یار یاں تک آن کر کیا کم ہوا
آ گیا یوں ہی خراماں وہ تو پھر
حشر کا ہنگامہ ہی برہم ہوا
درہمی سے برہمی سے دیکھیو
دونوں عالم کا عجب عالم ہوا
جسم خاکی کا جہاں پردہ اٹھا
ہم ہوئے وہ میرؔ سب وہ ہم ہوا
۸۲۳۵
(۱۰۸۸)
ہجر کی اک آن میں دل کا ٹھکانا ہو گیا
ہر زماں ملتے تھے باہم سو زمانہ ہو گیا
واں تعلل ہی تجھے کرتے گئے شام و سحر
یاں ترے مشتاق کا مرنا بہانہ ہو گیا
شیب میں بھی ہے لباس جسم کا ظاہر قماش
پر اسے اب چھوڑیے جامہ پرانا ہو گیا
کہنے تو کہہ بیٹھے مہ بہتر ہے روئے یار سے
شہر میں پھر ہم کو مشکل منھ دکھانا ہو گیا
صد سخن آئے تھے لب تک پر نہ کہنے پائے ایک
ناگہاں اس کی گلی سے اپنا جانا ہو گیا
۸۲۴۰
رہنے کے قابل تو ہرگز تھی نہ یہ عبرت سرائے
اتفاقاً اس طرف اپنا بھی آنا ہو گیا
سینکڑوں افسوں دنوں کو پڑھتے تھے تس پر بھی میرؔ
بیٹھنا راتوں کو باہم اب فسانہ ہو گیا
(۱۰۸۸)
یاد خط میں اس کے جی بھر آ کے گھبراتا رہا
رات کا بھی کیا ہی مینھ آیا تھا پر جاتا رہا
کیا قیامت ہوتی بے پردہ ہوئے کیا جانیے
مصلحت ہی ہو گی ہم سے وہ جو شرماتا رہا
قد موزوں یار کا خاطر سے جاتا ہی نہیں
میں اسی مصرع کو ساری عمر ڈولاتا رہا
۸۲۴۵
کل مکل بیتاب دل سے آج کل کی کچھ نہیں
میں تو اس غم کش کو بے کل ہی سدا پاتا رہا
آگ کھا جاتی ہے خشک و تر جو اس کے منھ پڑے
میں تو جیسے شمع اپنے ہی تئیں کھاتا رہا
میری تیری چاہ منھ دیکھے کی ہے جوں آرسی
آنکھ پھیری جس گھڑی پھر کاہے کا ناتا رہا
ہو گئے ہم محتسب کی بے شعوری سے اسیر
شیخ میں کچھ ہوش تھا میخانے سے جاتا رہا
لوگ ہی اس کارواں کے حرف نشنو تھے تمام
راہ چلتے تو جرس ہر گام چلاتا رہا
۸۲۵۰
میرؔ دیوانہ ہے اچھا بات کیا سمجھے مری
یوں تو مجھ سے جب ملا میں اس کو سمجھاتا رہا
(۱۰۸۸)
میں گلستاں میں آ کے عبث آشیاں کیا
بلبل نے بھی نہ طور گلوں کا بیاں کیا
پھر اس کے ابرواں کا خم و تاب ہے وہی
تلوار کے تلے بھی مرا امتحاں کیا
دوں کس کو دوش دشمن جانی تھی دوستی
اس سودے میں صریح میں نقصان جاں کیا
گالی ہے حرف یار قلم نے قضا کے ہائے
صورت نکالی خوب ولے بد زباں کیا
۸۲۵۵
اس جنس خوش کے پیچھے کھپا میں چواؤ کیا
میں نے کسو کا کیا کیا اپنا زیاں کیا
لڑکے جہان آباد کے یک شہر کرتے ناز
آ جاتے ہیں بغل میں اشارہ جہاں کیا
میں منتظر جواب کا نامے کے مر گیا
ناچار میرؔ جان کو اودھر رواں کیا
(۱۰۸۰)
وفا تھی مہر تھی اخلاص تھا تلطف تھا
کبھو مزاج میں اس کے ہمیں تصرف تھا
جو خوب دیکھو تو ساری وہی حقیقت ہے
چھپانا چہرے کا عشاق سے تکلف تھا
۸۲۶۰
اسیر عشق نہیں باز خواہ خوں رکھتے
ہمارے قتل میں اس کو عبث توقف تھا
نہ پوچھو خوب ہے بد عہدیوں کی مشق اس کو
ہزاروں عہد کیے پر وہی تخلف تھا
جہاں میں میرؔ سے کاہے کو ہوتے ہیں پیدا
سنا یہ واقعہ جن نے اسے تاسف تھا
(۱۰۸۱)
جنوں میں ساتھ تھا کل لڑکوں کا لشکر جہاں میں تھا
چلے آتے تھے چاروں اور سے پتھر جہاں میں تھا
۸۲۶۵
تجلی جلوہ اس رشک قمر کا قرب تھا مجھ کو
جلے جاتے تھے واں جائے ملک کے پر جہاں میں تھا
گلی میں اس کی میری رات کیا آرام سے گذری
یہی تھا سنگ بالیں خاک تھی بستر جہاں میں تھا
غضب کچھ شور تھا سر میں بلا بے طاقتی جی میں
قیامت لحظہ لحظہ تھی مرے دل پر جہاں میں تھا
چبھیں تھیں جی میں وے پلکیں لگیں تھیں دل کو وے بھوویں
یہی شمشیر چلتی تھی یہی خنجر جہاں میں تھا
خیال چشم و روئے یار کا بھی طرفہ عالم ہے
نظر آیا ہے واں اک عالم دیگر جہاں میں تھا
عجب دن میرؔ تھے دیوانگی میں دشت گردی کے
سر اوپر سایہ گستر ہوتے تھے کیکر جہاں میں تھا
۸۲۸۰
(۱۰۸۲)
گل بھی ہے معشوق لیکن کب ہے اس محبوب سا
آگے اس قد کے ہے سرو باغ بے اسلوب سا
اس کے وعدے کی وفا تک وہ کوئی ہووے گا جو
ہو معمر نوحؑ سا صابر ہو پھر ایوبؑ سا
عشق سے کن نے مرے آگہ کیا اس شوخ کو
اب مرے آنے سے ہو جاتا ہے وہ محجوب سا
بعد مردن یہ غزل مطرب سے جن نے گوش کی
گور کے میری گلے جا لگ کے رویا خوب سا
عاقلانہ حرف زن ہو میرؔ تو کریے بیاں
زیر لب کیا جانیے کہتا ہے کیا مجذوب سا
۸۲۸۵
(۱۰۸۳)
کبھو وہ توجہ ادھر کر رہے گا
ہمیں عشق ہے تو اثر کر رہے گا
ہمارا ہے احوال حیرت کی جاگہ
جو دیکھے گا وہ بھی نظر کر رہے گا
نہیں اس طرف میرؔ جانے سے رہتا
رہے گا تو اودھر ہی مر کر رہے گا
(۱۰۸۴)
میرؔ کل صحبت میں اس کی حرف سرکر رہ گیا
پیش جاتے کچھ نہ دیکھی چشم تر کر رہ گیا
خوبی اپنے طالع بد کی کہ شب وہ رشک ماہ
گھر مرے آنے کو تھا سو منھ ادھر کر رہ گیا
۸۲۸۰
طنز و تعریض بتان بے وفا کے در جواب
میں بھی کچھ کہتا خدا سے اپنے ڈر کر رہ گیا
سرگذشت اپنی سبب ہے حیرت احباب کی
جس سے دل خالی کیا وہ آہ بھر کر رہ گیا
میرؔ کو کتنے دنوں سے رہتی تھی بے طاقتی
رات دل تڑپا بہت شاید کہ مر کر رہ گیا
(۱۰۸۵)
مجھ زار نے کیا گرمی بازار سے پایا
کبریت نمط جن نے لیا مجھ کو جلایا
بیتاب تہ تیغ ستم دیر رہا میں
جب تک نہ گئی جان مجھے صبر نہ آیا
۸۲۸۵
جانا فلک دوں نے کہ سرسبز ہوا میں
گر خاک سے سبزہ کوئی پژمردہ اگایا
اس رخ نے بہت صورتیں لوگوں کی بگاڑیں
اس قد نے قیامت کا سا ہنگامہ اٹھایا
مت راہ سخن دے کہ پھر آپھی تو کہے گا
کیوں میں نے محبت کے عبث منھ کو کھلایا
ہر چند کہ تھی ریجھنے کی جائے ترے لب
پر گالیاں دیں اتنی انھوں سے کہ رجھایا
گردش میں رہا کرتے ہیں ہم دید میں ان کی
آنکھوں نے تری خوب سماں ہم کو دکھایا
۸۲۸۰
کس روز یہ اندوہ جگر سوز تھا آگے
کب شب لب و یارب تھی مری یوں ہی خدایا
دن جی کے الجھنے کے ہی جھگڑے میں کٹے ہے
رات اس کے خیالات سے رہتے ہیں قضایا
کیا کہیے دماغ اس کا کہ گل گشت میں کل میرؔ
گل شاخوں سے جھک آئے تھے پر منھ نہ لگایا
(۱۰۸۶)
جب گل کہے ہے اپنے تئیں یار کے رو سا
تب آنکھوں تلے میری اترتا ہے لہو سا
تحقیق کروں کس سے حقیقت کے نشے کو
خضر آب اسے کہتا ہے آتش کہے موسیٰ
۸۲۸۵
کیا دور ہے شربت پہ اگر قند کے تھوکے
ٹک جن نے ترے شربتی ان ہونٹوں کو چوسا
دم لا بہ کریں شیخ رکھیں شملے تو کیا ہے
ہونا مگر آسان ہے اس کے سگ کو سا
تعبیر جسے کرتے ہیں ہنگامۂ محشر
وہ یار کے کوچے کا ہے کچھ شور غلو سا
آرائش درویشی بھی اپنی نہیں بے لطف
ہے بوریے کا نقش مرے تن پہ اتو سا
کب کی ہے حدیث اس سے سخن کرنے کی میں نے
کیا میرؔ سے بولے کوئی ہے بیہدہ گو سا
۸۳۰۰
(۱۰۸۸)
اگر وہ ماہ نکل گھر سے ٹک ادھر آتا
تو رک کے منھ تئیں کاہے کو شب جگر آتا
مرید پیر مغاں صدق سے نہ ہم ہوتے
جو حق شناس کوئی اور بھی نظر آتا
نہ پتھروں سے جو سر کو دو پارہ میں کرتا
زمانہ غم کا مرے کس طرح بسر آتا
کسو ہنر سے تو ملتے تھے باہم اگلے لوگ
ہمیں بھی کاشکے ایسا کوئی ہنر آتا
شراب خانے میں شب مست ہو رہا شاید
جو میرؔ ہوش میں ہوتا تو اپنے گھر آتا
۸۳۰۵
(۱۰۸۸)
وہ کم نما و دل ہے شائق کمال اس کا
جو کوئی اس کو چاہے ظاہر ہے حال اس کا
ہم کیا کریں علاقہ جس کو بہت ہے اس سے
رکھ دیتے ہیں گلے پر خنجر نکال اس کا
بس ہو تو وام کر بھی اس پر نثار کریے
یک نقد دل رکھے ہیں سو تو ہے مال اس کا
یہ جانتا تو اس سے ہم خواب میں نہ ہوتا
پکا خیال جی کا ایسا خیال اس کا
ان زلفوں سے نہ لگ کر چل اے نسیم ظالم
تاریک ہے جہاں پھر بکا جو بال اس کا
۸۳۱۰
جس داغ سے کہ عالم ہے مبتلا بلا میں
سو داغ جان عاشق منھ پر ہے خال اس کا
مستانہ ساتھ میرے روتی پھرے ہے بلبل
گل سے جو دل لگا ہے ابتر ہے حال اس کا
میری طرح جھکے ہیں بے خود ہو سرو و گل بھی
دیکھا کہیں چمن میں شاید جمال اس کا
کیا تم کو پیار سے وہ اے میرؔ منھ لگاوے
پہلے ہی چومے تم تو کاٹو ہو گال اس کا
(۱۰۸۸)
زار رکھا بے حال رکھا بے تاب رکھا بیمار رکھا
حال رکھا تھا کچھ بھی ہم نے عشق نے آخر مار رکھا
۸۳۱۵
میلان اس کا تھا کاہے کو جانب الفت کیشوں کے
اپنی طرف سے ہم نے اب تک اس ظالم سے پیار رکھا
عشق بھی ہم میں ہائے تصرف کیسے کیسے کرتا ہے
دل کو چاک جگر کو زخمی آنکھوں کو خونبار رکھا
کیا پوچھو ہودیں کے اکابر فاضل کامل صابر رنج
عزت والے کیا لوگوں کو گلیوں میں ان نے خوار رکھا
کام اس سے اک طور پہ لیتے بے طور اس کو ہونے نہ دیتے
حیف ہے میرؔ سپہر دوں نے ہم سے اس کو نہ یار رکھا
(۱۰۸۰)
دل رات دن رہے ہے سینے میں عشق ملتا
ہرچند چاہتا ہوں پر جی نہیں سنبھلتا
۸۳۲۰
اب تو بدن میں سارے اک پھنک رہی ہے آتش
وہ مہ گلے سے لگتا تو یوں جگر نہ جلتا
شب ماہ چار دہ تھا کس حسن سے نمایاں
ہوتا بڑا تماشا جو یار بھی نکلتا
اے رشک شمع گویا تو موم کا بنا ہے
مہتاب میں تجھی کو دیکھا ہے یوں پگھلتا
تکلیف باغ ہم کو یاروں نے کی وگرنہ
گل پھول سے کوئی دم اپنا بھی دل بہلتا
رونے کا جوش ویسا آنکھوں کو ہے بعینہ
جیسے ہو رود کوئی برسات میں ابلتا
۸۳۲۵
کرتا ہے وے سلوک اب جس سے کہ جان جاوے
ہم میرؔ یوں نہ مرتے اس پر جو دل نہ چلتا
(۱۰۸۱)
بوسہ اس بت کا لے کے منھ موڑا
بھاری پتھر تھا چوم کر چھوڑا
ہوکے دیوانے ہم ہوئے زنجیر
دیکھ کر اس کے پاؤں کا توڑا
دل نے کیا کیا نہ درد رات دیے
جیسے پکتا رہے کوئی پھوڑا
گرم رفتن ہے کیا سمند عمر
نہ لگے جس کو باؤ کا گھوڑا
۸۳۳۰
کیا کرے بخت مدعی تھے بلند
کوہکن نے تو سر بہت پھوڑا
دل ہی مرغ چمن کا ٹوٹ گیا
پھول گل چیں نے ہائے کیوں توڑا
ہے لب بام آفتاب عمر
کریے سو کیا ہے میرؔ دن تھوڑا
(۱۰۸۲)
ہے عشق میں صبر ناگوارا
پھر صبر بن اور کیا ہے چارا
ان بالوں سے مشک مت خجل ہو
عنبر تو عرق عرق ہے سارا
۸۳۳۵
یوں بات کرے ہے میرے خوں سے
گویا نہیں ان نے مجھ کو مارا
دیکھو ہو تو دور بھاگتے ہو
کچھ پاس نہیں تمھیں ہمارا
تھا کس کو دماغ باغ اس بن
بلبل نے بہت مجھے پکارا
رخسار کے پاس وہ در گوش
ہے پہلوئے ماہ میں ستارا
ہوتے ہیں فرشتے صید آ کر
آہوئے حرم ہیں یاں چکارا
۸۳۴۰
پھولی مجھے دیکھ کر گلوں میں
بلبل کا ہے باغ میں اجارا
جب جی سے گذر گئے ہم اے میرؔ
اس کوچے میں تب ہوا گذارا
(۱۰۸۳)
دل عجب چرچے کی جاگہ تھی سو ویرانہ ہوا
جوش غم سے جی جو بولایا سو دیوانہ ہوا
بزم عشرت پر جہاں کی گوش وا کر جائے چشم
آج یاں دیکھا گیا جو کچھ کل افسانہ ہوا
دیر میں جو میں گدایانہ گیا اودھر کہا
شاہ جی کہیے کدھر سے آپ کا آنا ہوا
۸۳۴۵
کیا کہیں حسرت لیے جیسے جہاں سے کوئی جائے
یار کے کوچے سے اپنا اس طرح جانا ہوا
میرؔ تیر ان جور کیشوں کے جو کھائے بے شمار
چھاتی اب چھلنی ہے میری ہے جگر چھانا ہوا
(۱۰۸۴)
کیا کہے حال کہیں دل زدہ جا کر اپنا
دل نہ اپنا ہے محبت میں نہ دلبر اپنا
دوری یار میں ہے حال دل ابتر اپنا
ہم کو سو کوس سے آتا ہے نظر گھر اپنا
یک گھڑی صاف نہیں ہم سے ہوا یار کبھی
دل بھی جوں شیشۂ ساعت ہے مکدر اپنا
۸۳۵۰
ہر طرف آئینہ داری میں ہے اس کے رو کی
شوق سے دیکھیے منھ ہووے ہے کیدھر اپنا
لب پہ لب رکھ کے نہ اس گل کے کبھو ہم سوئے
یہ بساط خسک و خار ہے بستر اپنا
کس طرح حرف ہو ناصح کا موثر ہم میں
سختیاں کھینچتے ہی دل ہوا پتھر اپنا
کیسی رسوائی ہوئی عشق میں کیا نقل کریں
شہر و قصبات میں مذکور ہے گھر گھر اپنا
اس گل تر کی قبا کے کہیں کھولے تھے بند
رنگوں گل برگ کے ناخن ہے معطر اپنا
۸۳۵۵
تجھ سے بے مہر کے لگ لگنے نہ دیتے ہرگز
زور چلتا کچھ اگر چاہ میں دل پر اپنا
پیش کچھ آؤ یہیں ہم تو ہیں ہر صورت سے
مثل آئینہ نہیں چھوڑتے ہم گھر اپنا
دل بہت کھینچتی ہے یار کے کوچے کی زمیں
لوہو اس خاک پہ گرنا ہے مقرر اپنا
میرؔ خط بھیجے پر اب رنگ اڑا جاتا ہے
کہ کہاں بیٹھے کدھر جاوے کبوتر اپنا
(۱۰۸۵)
کیا میرؔ دل شکستہ بھی وحشی مثال تھا
دنبالہ گرد چشم سیاہ غزال تھا
۸۳۶۰
آخر کو خواب مرگ ہمیں جا سے لے گئی
جی دیتے تک بھی سر میں اسی کا خیال تھا
میں جو کہا کہ دل کو تو تم نے ہرا دیا
بولا کہ ذوق اپنا ہمارا ہی مال تھا
سرو اس طرف کو جیسے گنہگار تھا کھڑا
اودھر جو آب جو کے وہ نازک نہال تھا
کیا میرے روزگار کے اہل سخن کی بات
ہر ناقص اپنے زعم میں صاحب کمال تھا
کیا کیا ہوائیں دیدۂ تر سے نظر پڑیں
جب رونے بیٹھ جاتے تھے تب برشکال تھا
۸۳۶۵
کہتے تھے ہم تباہ ہے اب حال میرؔ کا
دیکھا نہ تم نے اس میں بھلا کچھ بھی حال تھا
(۱۰۸۶)
ان نے کھینچا ہے مرے ہاتھ سے داماں اپنا
کیا کروں گر نہ کروں چاک گریباں اپنا
بارہا جاں لب جاں بخش سے دی جن نے ہمیں
دشمن جانی ہوا اب وہی جاناں اپنا
خلطے یاد آتے ہیں وے جب کہ بدلتے کپڑے
مجھ کو پہناتے تھے رعنائی کا ساماں اپنا
کیا ہوئی یکجہتی وہ کہ طرف تھے میرے
اب یہ طرفہ ہے کہ منھ کرتے ہیں پنہاں اپنا
۸۳۸۰
جس طرح شاخ پراگندہ نظر آتے ہیں بید
تھا جنوں میں کبھو سر مو سے پریشاں اپنا
مشکلیں سینکڑوں چاہت میں ہمیں آئیں پیش
کام ہو دیکھیے کس طور سے آساں اپنا
دل فقیری سے نہیں میرؔ کسو کا ناساز
خوش ہوا کتنا ہے یہ خانۂ ویراں اپنا
(۱۰۸۸)
دل عجب شہر تھا خیالوں کا
لوٹا مارا ہے حسن والوں کا
جی کو جنجال دل کو ہے الجھاؤ
یار کے حلقہ حلقہ بالوں کا
۸۳۸۵
موئے دلبر سے مشک بو ہے نسیم
حال خوش اس کے خستہ حالوں کا
نہ کہا کچھ نہ آ پھرا نہ ملا
کیا جواب ان مرے سوالوں کا
دم نہ لے اس کی زلفوں کا مارا
میرؔ کاٹا جیے نہ کالوں کا
(۱۰۸۸)
احوال نہ پوچھو کچھ ہم ظلم رسیدوں کا
کیا حال محبت کے آزار کشیدوں کا
دیوانگی عاشق کی سمجھو نہ لباسی ہے
صد پارہ جگر بھی ہے ہم جامہ دریدوں کا
۸۳۸۰
عاشق ہے دل اپنا تو گل گشت گلستاں میں
جدول کے کنارے کے نو بادہ دمیدوں کا
ناچار گئے مارے میدان محبت میں
پایا نہ گیا چارہ کچھ اس کے شہیدوں کا
پتے کے کھڑکنے سے ہوتی ہے ہمیں وحشت
کیا طور ہے ہم اپنے سائے سے رمیدوں کا
کیا کیا نہ گیا اس بن صبر اور دماغ و دل
رونق گئی بشرے سے پھر نور بھی دیدوں کا
کرتے ہیں پس از سالے دل شاد گلے لگ کر
سو میرؔ وہ ملنا بھی اب ترک ہے عیدوں کا
۸۳۸۵
(۱۰۸۸)
سطح جو ہاتھوں میں تھا اس کے رخ گلفام کا
ہاتھ ملنا کام ہے اب عاشق بدنام کا
کچھ نہیں عنقا صفت پر شہرۂ آفاق ہوں
سیر کے قابل ہے ہونا پہن میرے نام کا
ہجر کی راتیں بڑی چھوٹی جو ٹک ہوتیں کہیں
اس میں کچھ نقصان ہوتا تھا مگر ایام کا
روؤں یاد زلف میں اس کی تو پھر روتا رہوں
صبح تک جاتا نہیں ہے مینھ آیا شام کا
تاب کس کو اپنا کچا سوت کچھ الجھا ہے میرؔ
گم ہے سررشتہ ہمارے خواب اور آرام کا
۸۳۸۰
(۱۱۰۰)
کل رات رو کے صبح تلک میں رہا گرا
خونبار میری آنکھوں سے کیا جانوں کیا گرا
اب شہر خوش عمارت دل کا ہے کیا خیال
ناگاہ آ کے عشق نے مارا جلا گرا
کیا طے ہو راہ عشق کی عاشق غریب ہے
مشکل گذر طریق ہے یاں رہگرا گرا
لازم پڑی ہے کسل دلی کو فتادگی
بیمار عشق رہتا ہے اکثر پڑا گرا
ٹھہرے نہ اس کے عشق کا سرگشتہ و ضعیف
ٹھوکر کہیں لگی کہ رہا سرپھرا گرا
۸۳۸۵
دے مارنے کو تکیہ سے سر ٹک اٹھا تو کیا
بستر سے کب اٹھے ہے غم عشق کا گرا
پھرتا تھا میرؔ غم زدہ یک عمر سے خراب
اب شکر ہے کہ بارے کسی در پہ جا گرا
(۱۱۰۱)
چاہت کے طرح کش ہو کچھ بھی اثر نہ دیکھا
طرحیں بدل گئیں پر ان نے ادھر نہ دیکھا
خالی بدن جیوں سے یاں ہو گئے ولیکن
اس شوخ نے ادھر کو بھر کر نظر نہ دیکھا
کس دن سرشک خونیں منھ پر نہ بہ کر آئے
کس شب پلک کے اوپر لخت جگر نہ دیکھا
۸۴۰۰
یاں شہر شہر بستی اوجڑ ہی ہوتے پائی
اقلیم عاشقی میں بستا نگر نہ دیکھا
اب کیا کریں کہ آیا آنکھوں میں جی ہمارا
افسوس پہلے ہم نے ٹک سوچ کر نہ دیکھا
لاتے نہیں فرو سر ہرگز بتاں خدا سے
آنکھوں سے اپنی تم نے ان کا گہر نہ دیکھا
سوجھا نہ چاہ میں کچھ برباد کر چکے دل
میرؔ اندھے ہو رہے تھے اپنا بھی گھر نہ دیکھا
(۱۱۰۲)
کیا ہے عشق جب سے میں نے اس ترک سپاہی کا
پھروں ہوں چور زخمی اس کی تیغ کم نگاہی کا
۸۴۰۵
اگر ہم قطعۂ شب سا لیے چہرہ چلے آئے
قیامت شور ہو گا حشر کے دن روسیاہی کا
ہوا ہے عارفان شہر کو عرفان بھی اوندھا
کہ ہر درویش ہے مارا ہوا شوق الٰہی کا
ہمیشہ التفات اس کا کسو کے بخت سے ہو گا
نہیں شرمندہ میں تو اس کے لطف گاہ گاہی کا
برنگ کہربائی شمع اس کا رنگ جھمکے ہے
دماغ سیر اس کو کب ہے میرے رنگ کاہی کا
بڑھیں گے عہد کے درویش اس سے اور کیا یارو
کیا ہے لڑکوں نے دینا انھوں کو تاج شاہی کا
۸۴۱۰
خراب احوال کچھ بکتا پھرے ہے دیر و کعبے میں
سخن کیا معتبر ہے میرؔ سے واہی تباہی کا
(۱۱۰۳)
آنکھوں میں اپنی رات کو خوناب تھا سو تھا
جی دل کے اضطراب سے بے تاب تھا سو تھا
آ کر کھڑا ہوا تھا بہ صدحسن جلوہ ناک
اپنی نظر میں وہ در نایاب تھا سو تھا
ساون ہرے نہ بھادوں میں ہم سوکھے اہل درد
سبزہ ہماری پلکوں کا سیراب تھا سو تھا
درویش کچھ گھٹا نہ بڑھا ملک شاہ سے
خرقہ کلاہ پاس جو اسباب تھا سو تھا
۸۴۱۵
کیا بھاری بھاری قافلے یاں سے چلے گئے
تجھ کو وہی خیال گراں خواب تھا سو تھا
برسوں سے ہے تلاوت و سجادہ و نماز
پر میل دل جو سوئے مئے ناب تھا سو تھا
ہم خشک لب جو روتے رہے جوئیں بہ چلیں
پر میرؔ دشت عشق کا بے آب تھا سو تھا
ردیف ب
(۱۱۰۴)
ماہ صیام آیا ہے قصد اعتکاف اب
جا بیٹھیں میکدے میں مسجد سے اٹھ کے صاف اب
مسلم ہیں رفتہ رو کے کافر ہیں خستہ مو کے
یہ بیچ سے اٹھے گا کس طور اختلاف اب
۸۴۲۰
جو حرف ہیں سو ٹیڑھے خط میں لکھے ہیں شاید
اس کے مزاج میں ہے کچھ ہم سے انحراف اب
مجرم ٹھہر گئے ہم پھرنے سے ساتھ تیرے
بہتر ہے جو رکھے تو اس سے ہمیں معاف اب
گو لگ گیا گلے میں مت کھینچ تیغ مجھ پر
اپنے گنہ کا میں تو کرتا ہوں اعتراف اب
کیا خاک میں ملا کر اپنے تئیں موا ہے
پیدا ہو گور مجنوں تو کیجیے طواف اب
کھنچتے ہیں جامے خوں میں کن کن کے میرؔ دیکھیں
لگتی ہے سرخ اس کے دامن کے تیں سنجاف اب
۸۴۲۵
(۱۱۰۵)
طاقت تعب کی غم میں تمھارے نہیں ہے اب
گویا کہ جان جسم میں سارے نہیں ہے اب
کل کچھ صبا ہوئی تھی گل افشاں قفس میں بھی
وہ بے کلی تو جان کو بارے نہیں ہے اب
جیتے تو لاگ پلکوں کی اس کی کہیں گے ہم
کچھ ہوش ہم کو چھڑیوں کے مارے نہیں ہے اب
زردی چہرہ اب تو سفیدی کو کھنچ گئی
وہ رنگ آگے کا سا پیارے نہیں ہے اب
مسکن جہاں تھا دل زدہ مسکیں کا ہم تو واں
کل دیر میرؔ میرؔ پکارے نہیں ہے اب
۸۴۳۰
(۱۱۰۶)
بولا جو موپریشاں آ نکلے میرؔ صاحب
آنا ہوا کہاں سے کہیے فقیر صاحب
ہر لحظہ اک شرارت ہر دم ہے یک اشارت
اس عمر میں قیامت تم ہو شریر صاحب
بندے پہ اب نوازش کیجے تو کیجے ورنہ
کیا لطف ہے جو آئے وقت اخیر صاحب
دل کا الجھنا اپنے ایسا نہیں کہ سلجھے
ہیں دام زلف میں ہم اس کے اسیر صاحب
فکر جگر رہے ہے اس دم غلام کو بھی
جس دم لگو ہو کرنے تم مشق تیر صاحب
۸۴۳۵
(۱۱۰۸)
دل پر تو چوٹ تھی ہی زخمی ہوا جگر سب
ہر دم بھری رہے ہے لوہو سے چشم تر سب
حیف اس سے حال میرا کہتا نہیں ہے کوئی
نالوں سے شب کے میرے رکھتے تو ہیں خبر سب
بجلی سی اک تجلی آئی تھی آسماں سے
آنکھیں لگا رہے ہیں اہل نظر ادھر سب
اس ماہ بن تو اپنی دکھ میں بسر ہوئی تھی
کل رات آ گیا تو وہ دکھ گیا بسر سب
ق
کیا فہم کیا فراست ذوق و بصر سماعت
تاب و توان و طاقت یہ کر گئے سفر سب
۸۴۴۰
منزل کو مرگ کی تھا آخر مجھے پہنچنا
بھیجا ہے میں نے اپنا اسباب پیشتر سب
دنیا میں حسن و خوبی میرؔ اک عجیب شے ہے
رندان و پارسا یاں جس پر رکھیں نظر سب
(۱۱۰۸)
شیون میں شب کے ٹوٹی زنجیر میرؔ صاحب
اب کیا مرے جنوں کی تدبیر میرؔ صاحب
ہم سر بکھیرتے تو وہ تیغ کھنچ نہ سکتی
اپنا گناہ اپنی تقصیر میرؔ صاحب
کھنچتی نہیں کماں اب ہم سے ہوائے گل کی
بادسحر لگے ہے جوں تیر میرؔ صاحب
۸۴۴۵
کب ہیں جوانی کے سے اشعار شور آور
شاید کہ کچھ ہوئے ہیں اب پیر میرؔ صاحب
تم کس خیال میں ہو تصویر سے جو چپ ہو
کرتے ہیں لوگ کیا کیا تقریر میرؔ صاحب
(۱۱۰۸)
سب آتش سو زندۂ دل سے ہے جگر آب
بے صرفہ کرے صرف نہ کیوں دیدۂ تر آب
پھرتی ہے اڑی خاک بھی مشتاق کسو کی
سر مار کے کرتا ہے پہاڑوں میں بسر آب
کیا کریے اسے آگ سا بھڑکایا ہے جن نے
نزدیک تر اب اس کو کرے غرق مگر آب
۸۴۵۰
دل میں تو لگی دوں سی بھریں چشمے سی آنکھیں
کیا اپنے تئیں روؤں ادھر آگ ادھر آب
کس طور سے بھر آنکھ کوئی یار کو دیکھے
اس آتشیں رخسار سے ہوتی ہے نظر آب
ہم ڈرتے شکر رنجی سے کہتے نہیں یہ بھی
خجلت سے ترے ہونٹوں کی ہیں شہد و شکر آب
کس شکل سے اک رنگ پہ رہنا ہو جہاں کا
رہتی ہیں کوئی صورتیں یہ نقش ہیں بر آب
شعلے جو مرے دل سے اٹھیں ہیں سو نہ بیٹھیں
برسوں تئیں چھڑکا کرو تم ان پہ اگر آب
۸۴۵۵
استادہ ہو دریا تو خطرناکی بہت ہے
آ اپنے کھلے بالوں سے زنجیر نہ کر آب
شب روؤں ہوں ایسا کہ جدھر یار کا گھر ہے
جاتا ہوں گلے چھاتی تک اودھر کو اتر آب
اس دشت سے ہو میرؔ ترا کیونکے گذارا
تا زانو ترے گل ہے تری تا بہ کمر آب
(۱۱۱۰)
پڑا ہے فرق خورد و خواب میں اب
رہا ہے کیا دل بے تاب میں اب
جنوں میں اب کے نے دامن ہے نے جیب
کمی آئی بہت اسباب میں اب
۸۴۶۰
ہوا ہے خواب ملنا اس سے شب کا
کبھو آتا ہے وہ مہ خواب میں اب
گدائی لی ہے میں نے اس کے در کی
کہے کیا دیکھوں میرے باب میں اب
گلے لگنے بن اس کے اتنا روئے
کہ ہم ہیں گے گلے تک آب میں اب
کہاں بل کھائے بال اس کے کہاں یہ
عبث سنبل ہے پیچ و تاب میں اب
بلا چرچا ہے میرے عشق کا میرؔ
یہی ہے ذکر شیخ و شاب میں اب
۸۴۶۵
ردیف ت
(۱۱۱۱)
شعر کے پردے میں میں نے غم سنایا ہے بہت
مرثیے نے دل کے میرے بھی رلایا ہے بہت
بے سبب آتا نہیں اب دم بہ دم عاشق کو غش
درد کھینچا ہے نہایت رنج اٹھایا ہے بہت
وادی و کہسار میں روتا ہوں ڈاڑھیں مار مار
دلبران شہر نے مجھ کو ستایا ہے بہت
وا نہیں ہوتا کسو سے دل گرفتہ عشق کا
ظاہراً غمگیں اسے رہنا خوش آیا ہے بہت
میرؔ گم گشتہ کا ملنا اتفاقی امر ہے
جب کبھو پایا ہے خواہش مند پایا ہے بہت
۸۴۸۰
(۱۱۱۲)
عجب نہیں ہے نہ جانے جو میرؔ چاہ کی ریت
سنا نہیں ہے مگر یہ کہ جوگی کس کے میت
مت ان نمازیوں کو خانہ ساز دیں جانو
کہ ایک اینٹ کی خاطر یہ ڈھاتے ہیں گے مسیت
غم زمانہ سے فارغ ہیں مایہ باختگاں
قمار خانۂ آفاق میں ہے ہار ہی جیت
ہزار شانہ و مسواک و غسل شیخ کرے
ہمارے عندیے میں تو ہے وہ خبیث پلیت
کسو کے بستر و سنجاب و قصر سے کیا کام
ہماری گور کے بھی ڈھیر میں مکاں ہے مبیت
۸۴۸۵
ہوئے ہیں سوکھ کے عاشق طنبورے کے سے تار
رقیب دیکھو تو گاتے ہیں بیٹھے اور ہی گیت
شفق سے ہیں در و دیوار زرد شام و سحر
ہوا ہے لکھنؤ اس رہگذر میں پیلی بھیت
کہا تھا ہم نے بہت بولنا نہیں ہے خوب
ہمارے یار کو سو اب ہمیں سے بات نہ چیت
ملے تھے میرؔ سے ہم کل کنار دریا پر
فتیلہ مو وہ جگر سوختہ ہے جیسے اتیت
(۱۱۱۳)
جب سے چلی چمن میں ترے رنگ پاں کی بات
سنتا نہیں ہے کوئی کلی کے دہاں کی بات
۸۴۸۰
یاں شہر حسن میں تو کہیں ذکر بھی نہیں
کیا جانیے کہ مہر و وفا ہے کہاں کی بات
اختر شناس کو بھی خلل ہے دماغ کا
پوچھو اگر زمیں سے کہیں آسماں کی بات
ایسا خدا ہی جانے کہ ہو عرش یا نہ ہو
دل بولنے کی جا نہیں کیا اس مکاں کی بات
کیا لطف جو سنو اسے کہتے پھرا کرو
یوں چاہیے کہ بھول وہیں ہو جہاں کی بات
لے شام سے جہاں میں ہے تا صبح ایک شور
اپنی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آتی یاں کی بات
۸۴۸۵
اوباش کس کو پوچھتے ہیں التفات سے
سیدھی کبھو سنی نہیں اس بد زباں کی بات
ہر حرف میں ہے ایک کجی ہر سخن میں پیچ
پنہاں رہے ہے کب کسو کی ٹیڑھی بانکی بات
کینے سے کچھ کہا ہی کیا زیر لب مجھے
کیا پوچھتے ہو میرؔ مرے مہرباں کی بات
(۱۱۱۴)
مانند مرغ دوست نہ کہہ بار بار دوست
ٹک سوچ بھی ہزار ہیں دشمن ہزار دوست
کھڑکے ہے پات بھی تو لگا بیٹھتا ہے چوٹ
رم خوردہ وہ غزال بہت ہے شکار دوست
۸۴۸۰
سب کو ہے رشک مجھ میں جو تجھ میں ہے اختلاط
دشمن ہوئے ہیں دوستی سے تیری یار دوست
تجھ سے ہزار ان نے بنا کر دیے بگاڑ
مت جان سادگی سے کہ ہے روزگار دوست
یہ تو کچھ آگے دشمن جانی سے بھی چلا
میں جانتا تھا ہو گا دل بے قرار دوست
بیگانگی خلق جہاں جائے خوف ہے
سو دشمنوں میں کیا ہے جو نکلے بھی چار دوست
مجھ بے نوا کی یاد رہے میرؔ یہ صدا
اس میکدے میں رہیو بہت ہوشیار دوست
۸۴۸۵
(۱۱۱۵)
سیر کی ہم نے اٹھ کے تا صورت
ویسی دیکھی نہ ایک جا صورت
منھ لگانا تو درکنار ان نے
نہ کہا ہے یہ آشنا صورت
منھ دکھاتی ہے آرسی ہر صبح
تو بھی اپنی تو ٹک دکھا صورت
خوب ہے چہرۂ پری لیکن
آگے اس کے ہے کیا بلا صورت
ق
کب تلک کوئی جیسے صورت باز
آوے پیاری بنا بنا صورت
۸۵۰۰
ایک دن تو یہ کہہ کہ ملنے کی
تو بھی ٹھہرا کے کوئی لا صورت
حلقے آنکھوں میں پڑ گئے منھ زرد
ہو گئی میرؔ تیری کیا صورت
(۱۱۱۶)
وصل دلبر نہ ٹک ہوا قسمت
مر چلے ہجر میں ہی یا قسمت
ایک بوسے پہ بھی نہ صلح ہوئی
ہم نے دیکھی بہت لڑا قسمت
شیخ جنت تجھے مجھے دیدار
واں بھی ہر اک کی ہے جدا قسمت
۸۵۰۵
پھول جن ہاتھوں سے سبھوں کو دیے
زخم تیغ ان سے اپنی تھا قسمت
کیا ازل میں ملا نہ لوگوں کو
تھی ہماری بھی میرؔ کیا قسمت
(۱۱۱۸)
زخم جھیلے داغ بھی کھائے بہت
دل لگا کر ہم تو پچھتائے بہت
جب نہ تب جاگہ سے تم جایا کیے
ہم تو اپنی اور سے آئے بہت
دیر سے سوئے حرم آیا نہ ٹک
ہم مزاج اپنا ادھر لائے بہت
۸۵۱۰
پھول گل شمس و قمر سارے ہی تھے
پر ہمیں ان میں تمھیں بھائے بہت
گر بکا اس شور سے شب کو ہے تو
روویں گے سونے کو ہمسائے بہت
وہ جو نکلا صبح جیسے آفتاب
رشک سے گل پھول مرجھائے بہت
میرؔ سے پوچھا جو میں عاشق ہو تم
ہوکے کچھ چپکے سے شرمائے بہت
(۱۱۱۸)
کوشش اپنی تھی عبث پر کی بہت
کیا کریں ہم چاہتا تھا جی بہت
۸۵۱۵
کعبۂ مقصود کو پہنچے نہ ہائے
سعی کی اے شیخ ہم نے بھی بہت
سب ترے محو دعائے جان ہیں
آرزو اپنی بھی ہے تو جی بہت
رک رہا ہے دیر سے تڑپا نہیں
عشق نے کیوں دل کو مہلت دی بہت
کیوں نہ ہوں دوری میں ہم نزدیک مرگ
دل کو اس کے ساتھ الفت تھی بہت
وہ نہ چاہے جب تئیں ہوتا ہے کیا
جہد کی ملنے میں اپنی سی بہت
۸۵۲۰
کب سنا حرف شگون وصل یار
یوں تو فال گوش ہم نے لی بہت
تھا قوی آخر ملے ہم خاک میں
آسماں سے یوں رہی کشتی بہت
آج درہم کرتے تھے کچھ گفتگو
میرؔ نے شاید کہ دارو پی بہت
(۱۱۱۸)
خدا جانیے ہووے گی کیا نہایت
اجل تو ہے دل کے مرض کی بدایت
سخن غم سے آغشتہ خوں ہے ولیکن
نہیں لب مرے آشنائے شکایت
۸۵۲۵
نہیں یہ گنہگار ملنے کے قابل
کرم کریے تو مہربانی عنایت
گیا آسماں پر جو نالہ تو کیا ہے
نہیں یار کے دل میں کرتا سرایت
ہمیں عشق میں میرؔ چپ لگ گئی ہے
نہ شکر و شکایت نہ حرف و حکایت
ردیف ٹ
(۱۱۲۰)
کیا لڑکے دلی کے ہیں عیار اور نٹ کھٹ
دل لیں ہیں یوں کہ ہرگز ہوتی نہیں ہے آہٹ
ہم عاشقوں کو مرتے کیا دیر کچھ لگے ہے
چٹ جن نے دل پہ کھائی وہ ہو گیا ہے چٹ پٹ
۸۵۳۰
دل ہے جدھر کو اودھر کچھ آگ سی لگی تھی
اس پہلو ہم جو لیٹے جل جل گئی ہے کروٹ
کلیوں کو تو نے چٹ چٹ اے باغباں جو توڑا
بلبل کے دل جگر کو ظالم لگی ہے کیا چٹ
جی ہی ہٹے نہ میرا تو اس کو کیا کروں میں
ہر چند بیٹھتا ہوں مجلس میں اس سے ہٹ ہٹ
دیتی ہے طول بلبل کیا نالہ و فغاں کو
دل کے الجھنے سے ہیں یہ عاشقوں کی پھپٹ
مردے نہ تھے ہم ایسے دریا پہ جب تھا تکیہ
اس گھاٹ گاہ و بیگہ رہنے لگا تھا جمگھٹ
۸۵۳۵
رک رک کے دل ہمارا بیتاب کیوں نہ ہووے
کثرت سے درد و غم کی رہتا ہے اس پہ جھرمٹ
شب میرؔ سے ملے ہم اک وہم رہ گیا ہے
اس کے خیال مو میں اب تو گیا بہت لٹ
ردیف ث
(۱۱۲۱)
تری جستجو یار کی ہے عبث
یہ کوشش گنہگار کی ہے عبث
تو پیدا ہے لیکن ہویدا نہیں
یہ تصدیع ہموار کی ہے عبث
نہ ہاتھ آئی اے میرؔ کچھ وجہ مے
گرو میں نے دستار کی ہے عبث
۸۵۴۰
ردیف چ
(۱۱۲۲)
حال کہنے کی کسے تاب اس آزار کے بیچ
حال رہتا ہی نہیں عشق کے بیمار کے بیچ
آرزومند ہے خورشید میسر ہے کہاں
کہ تنک ٹھہرے ترے سایۂ دیوار کے بیچ
کیا کہیں ہم کہ گلے ڈالے پھریں مستی میں
دانے سبحہ کے پرو رشتۂ زنار کے بیچ
رشک خوبی کا اسی کے جگر مہ میں ہے داغ
یہ جو اک خال پڑا ہے ترے رخسار کے بیچ
مل گیا پھولوں میں اس رنگ سے کرتے ہوئے سیر
کہ تامل کیے پایا اسے گلزار کے بیچ
۸۵۴۵
قدر گو تم نہ کرو میری متاع دل کی
جنس لگ جاوے گی یہ بھی کسو سرکار کے بیچ
گرد سررفتہ ہیں اے میرؔ ہم اس کشتے کے
رہ گیا یار کی جو ایک ہی تلوار کے بیچ
(۱۱۲۳)
کل لے گئے تھے یار ہمیں بھی چمن کے بیچ
اس کی سی بو نہ آئی گل و یاسمن کے بیچ
کشتہ ہوں میں تو شیریں زبانی یار کا
اے کاش وہ زبان ہو میرے دہن کے بیچ
اس بحر میں رہا مجھے چکر بھنور کے طور
سر گشتگی میں عمر گئی سب وطن کے بیچ
۸۵۵۰
گر دل جلا بھنا یہی ہم ساتھ لے گئے
تو آگ لگ اٹھے گی ہمارے کفن کے بیچ
تنگی جامہ ظلم ہے اے باعث حیات
پاتے ہیں لطف جان کا ہم تیرے تن کے بیچ
نازک بہت ہے تو کہیں افسردگی نہ آئے
چسپانی لباس سے پیارے بدن کے بیچ
ہے قہر وہ جو دیکھے نظر بھر کے جن نے میرؔ
برہم کیا جہاں مژہ برہم زدن کے بیچ
(۱۱۲۴)
جانا نہ دل کو تھا تری زلف رسا کے بیچ
دانستہ جا پڑے ہے کوئی بھی بلا کے بیچ
۸۵۵۵
فرہاد و قیس جس سے مجھے چاہو پوچھ لو
مشہور ہے فقیر بھی اہل وفا کے بیچ
آخر تو میں نے طول دیا بحث عشق کو
کوتاہی تم بھی مت کرو جور و جفا کے بیچ
آئی جو لب پہ آہ تو میں اٹھ کھڑا ہوا
بیٹھا گیا نہ مجھ سے تو ایسی ہوا کے بیچ
اقبال دیکھ اس ستم و ظلم و جور پر
دیکھوں ہوں جس کو ہے وہ اسی کی دعا کے بیچ
دل اس چمن میں بہتوں سے میرا لگا ولے
بوئے وفا نہ پائی کسو آشنا کے بیچ
۸۵۶۰
جوش و خروش میرؔ کے جاتے رہے نہ سب
ہوتا ہے شور چاہنے کی ابتدا کے بیچ
ردیف ح
(۱۱۲۵)
یاد آ گیا تو بہنے لگیں آنکھیں جو کی طرح
کچھ آ گئی تھی سرو چمن میں کسو کی طرح
چسپاں قبا وہ شوخ سدا غصے ہی رہا
چین جبیں سے اس کی اٹھائی اتو کی طرح
گالی لڑائی آگے تو تم جانتے نہ تھے
اب یہ نکالی تم نے نئی گفتگو کی طرح
ہم جانتے تھے تازہ بنائے جہاں کو لیک
یہ منزل خراب ہوئی ہے کبھو کی طرح
۸۵۶۵
سرسبز ہم ہوئے نہ تھے جو زرد ہو چلے
اس کشت میں پڑی یہ ہمارے نمو کی طرح
وے دن کہاں کہ مست سرانداز خم میں تھے
سر اب تو جھوجھرا ہے شکستہ سبو کی طرح
تسکین دل کی کب ہوئی سیرچمن کیے
گو پھول دل میں آ گئے کچھ اس کے رو کی طرح
آخر کو اس کی راہ میں ہم آپ گم ہوئے
مدت میں پائی یار کی یہ جستجو کی طرح
کیا لوگ یوں ہی آتش سوزاں میں جا پڑے
کچھ ہو گی جلتی آگ میں اس تندخو کی طرح
۸۵۸۰
ڈرتا ہوں چاک دل کو مرے پلکوں سے سیے
نازک نظر پڑی ہے بہت اس رفو کی طرح
دھوتے ہیں اشک خونی سے دست و دہن کو میرؔ
طور نماز کیا ہے جو یہ ہے وضو کی طرح
ردیف د
(۱۱۲۶)
زمیں پر میں جو پھینکا خط کو کر بند
بہت تڑپا کیا جوں مرغ پربند
گرفت دل سے ناچاری ہے یعنی
رہا ہوں بیٹھ میں بھی کر کے گھر بند
پھنسا دل زلف و کاکل میں نہ پوچھو
پڑا ہے ناگہ آ کر بند پر بند
۸۵۸۵
سب اس کی چشم پر نیرنگ کے محو
مگر کی ان نے عالم کی نظر بند
چمن میں کیونکے ہم پربستہ جاویں
بلند ازبس کہ ہے دیوار و در بند
بہت پیکان تیر یار ٹوٹے
تمام آہن ہے اب میرا جگر بند
ہوئیں رونے کی مانع میری پلکیں
بندھا خاشاک سے سیلاب پر بند
کہا کیا جائے ان ہونٹوں کے آگے
ہماری لب گزی ہے یہ شکر بند
۸۵۸۰
کھلے بندوں نہ آیا یاں وہ اوباش
پھرا مونڈھے پہ ڈالے بیشتر بند
یہی اوقات ہے گی دید کی یاں
رکھ اپنی چشم کو شام و سحر بند
نچا رہتا تھا چہرہ جس سے سو اب
گریباں میں ہے وہ دست ہنر بند
فن اشعار میں ہوں پہلواں میرؔ
مجھے ہے یاد اس کشتی کا ہر بند
(۱۱۲۸)
ہماری بات کو اے شمع بزم کریو یاد
زبان سرخ سرِسبز دیتی ہے برباد
۸۵۸۵
ہمیں اسیر تو ہونا ہے اپنا اچھا یاد
کشش نہ دام کی دیکھی نہ کوشش صیاد
نہ دردمندی سے یہ راہ تم چلے ورنہ
قدم قدم پہ تھی یاں جائے نالہ و فریاد
ہزار فاختہ گردن میں طوق پہنے پھرے
اسے خیال نہیں کچھ وہ سرو ہے آزاد
جہاں میں اتنے ہی آشوب کیا رہیں گے بس
ابھی پڑے گا مرے خون بے گنہ سے زیاد
چمن میں اٹھتے ہیں سنّاہٹے سے اے بلبل
جگر خراش یہ نالے ہیں تیرے منھ سے زیاد
۸۵۸۰
ثبات قصر و در و بام و خشت و گل کتنا
عمارت دل درویش کی رکھو بنیاد
چمن میں یار ہمیں لے گئے تھے وا نہ ہوئے
ہمارے ساتھ یہی غم یہی دل ناشاد
ہمیں تو مرنے کا طور اس کے خوش بہت آیا
طواف کریے جو ہو نخل ماتم فرہاد
نظر نہ کرنی طرف صید کے دم بسمل
یہ ظلم تازہ ہوا اس کشندے سے ایجاد
چلے نہ تیغ اگر ہم نگاہ عجز کریں
ہماری اور نہ دیکھے خدا کرے جلاد
۸۵۸۵
کب ان نے دل میں کر انصاف ہم پہ لطف کیا
وہی ہے خشم وہی یاں سے جا وہی بیداد
تمام ریجھ پچاؤ ہیں اب تو پھر پس مرگ
کہا کنھوں نے تو کیا عزّاسمہٗ استاد
اگرچہ گنج بھی ہے پر خرابیاں ہیں بہت
نہ پھر خرابے میں اے میرؔ خانماں برباد
(۱۱۲۸)
عشق لوہو پی گیا سب تن میں ہے سو درد درد
پھول میری خاک سے نکلیں گے بھی تو زرد زرد
کب مری شب کو سحر ہے ایک بدحالی کے بیچ
جانتا ہوں صبح ہے ہوتا ہوں جب میں سرد سرد
۸۶۰۰
کارواں در کارواں یاں سے چلے جاتے ہیں لوگ
ہر طرف اس خاکداں میں دیکھتے ہیں گرد گرد
مرد و زن سب ہیں نہ پیر دیر و دخت تاک سے
یہ غلط فہمی ہے ہر زن زن ہے یا ہر مرد مرد
دفتر اعمال میرا بھول جاویں میرؔ کاش
ہے قیامت اس جریدے کو جو دیکھیں فرد فرد
(۱۱۲۸)
بہت ہے تن درد پرورد زرد
اٹھے گی مری خاک سے گرد زرد
وہ بیمار گو تو نہ جانے مجھے
مرا نامہ لکھنے کو ہو فرد زرد
۸۶۰۵
گذرتی ہے کیا میرؔ دل پر ترے
تو ہوتا ہے ہر لحظہ کچھ زرد زرد
ردیف ر
(۱۱۳۰)
گرمی سے گفتگو کی کر لے قیاس جاں پر
شعلہ ہے شمع ساں یاں ہر یک سخن زباں پر
دیکھ اس کے خط کی خوبی لگ جاتی ہے چپ ایسی
گویا کہ مہر کی ہے ان نے مرے دہاں پر
ہوں خاک مجھ کو ان سے نسبت حساب کیا ہے
میں گنتی میں نہیں ہوں وے ہفتم آسماں پر
گھر باغ میں بنایا پر ہم نے یہ نہ جانا
بجلی سے بھی پڑے گا پھول آ کے آشیاں پر
۸۶۱۰
روتے ہیں دوست اکثر سن سرگذشت عاشق
تو بھی تو گوش وا کر ٹک میری داستاں پر
کیا بات میں تب اس کی جاوے کسو سے بولا
ہونے لگے ہوں خوں جب ہونٹوں کے رنگ پاں پر
تڑپے ہے دل گھڑی بھر تو پہروں غش رہے ہے
کیا جانوں آفت آئی کیا طاقت و تواں پر
سودا بنے جو اس سے تو میرؔ منفعت ہے
اپنی نظر نہیں ہے پھر جان کے زیاں پر
(۱۱۳۱)
پیس مارا دل غموں نے کوٹ کر
کیا اجاڑا اس نگر کو لوٹ کر
۸۶۱۵
ابر سے آشوب ایسا کب اٹھا
خوب روئے دیدۂ تر پھوٹ کر
کیوں گریباں کو پھروں پھاڑے نہ میرؔ
دامن اس کا تو گیا ہے چھوٹ کر
(۱۱۳۲)
اے مرغ چمن صبح ہوئی زمزمہ سر کر
دم کھینچ تہ دل سے کوئی ٹکڑے جگر کر
وہ آئینہ رو باغ کے پھولوں میں جو دیکھا
ہم رہ گئے حیران اسی منھ پہ نظر کر
ہے بے خبری مجھ کو ترے دیکھے سے ساقی
ہر لحظہ مری جان مجھے میری خبر کر
۸۶۲۰
جس جائے سراپا میں نظر جاتی ہے اس کے
آتا ہے مرے جی میں یہیں عمر بسر کر
فرہاد سے پتھر پہ ہوئیں صنعتیں کیا کیا
دل جا کے جگر کاوی میں کچھ تو بھی ہنر کر
پڑتے نگہ اس شوخ کی ہوتا ہے وہ احوال
رہ جاوے ہے جیسے کہ کوئی بجلی سے ڈر کر
معشوق کا کیا وصل ورے ایسا دھرا ہے
تا شمع پتنگا بھی جو پہنچے ہے تو مر کر
یک شب طرف اس چہرۂ تاباں سے ہوا تھا
پھر چاند نظر ہی نہ چڑھا جی سے اتر کر
۸۶۲۵
کسب اور کیا ہوتا عوض ریختے کے کاش
پچھتائے بہت میرؔ ہم اس کام کو کر کر
(۱۱۳۳)
جب ہم کلام ہم سے ہوتا ہے پان کھا کر
کس رنگ سے کرے ہے باتیں چبا چبا کر
تھی جملہ تن لطافت عالم میں جاں کے ہم تو
مٹی میں اٹ گئے ہیں اس خاکداں میں آ کر
سعی و طلب بہت کی مطلب کے تیں نہ پہنچے
ناچار اب جہاں سے بیٹھے ہیں ہاتھ اٹھا کر
غیرت یہ تھی کہ آیا اس سے جو میں خفا ہو
مرتے موا پہ ہرگز اودھر پھرا نہ جا کر
۸۶۳۰
قدرت خدا کی سب میں خلع العذار آؤ
بیٹھو جو مجھ کنے تو پردے میں منھ چھپا کر
ارمان ہے جنھوں کو وے اب کریں محبت
ہم تو ہوئے پشیماں دل کے تئیں لگا کر
میں میرؔ ترک لے کر دنیا سے ہاتھ اٹھایا
درویش تو بھی تو ہے حق میں مرے دعا کر
(۱۱۳۴)
پڑتی ہے آنکھ ہر دم جا کر صفائے تن پر
سو جی گئے تھے صدقے اس شوخ کے بدن پر
نام خدا نکالے کیا پاؤں رفتہ رفتہ
تلواریں چلتیاں ہیں اس کے تو اب چلن پر
۸۶۳۵
تو بھی تو ایک دن چل گلشن میں ساتھ میرے
کرتی ہے کیا تبختر بلبل گل چمن پر
دل جو بجا نہیں ہے وحشی سا میں پھروں ہوں
تم جائیو نہ ہرگز میرے دوانے پن پر
درکار عاشقوں کو کیا ہے جو اب نامہ
یک نام یار بس ہے لکھنا مرے کفن پر
تب ہی بھلے تھے جب تک حرف آشنا نہ تھے تم
لینے لگے لڑائی اب تو سخن سخن پر
گرد رخ اس کے پیدا خط کا غبار یوں ہے
گرد اک تنک سی بیٹھے جس رنگ یاسمن پر
۸۶۴۰
کس طرح میرؔ جی کا ہم توبہ کرنا مانیں
کل تک بھی داغ مے تھے سب ان کے پیرہن پر
(۱۱۳۵)
سحر گوش گل میں کہا میں نے جا کر
کھلے بند مرغ چمن سے ملا کر
لگا کہنے فرصت ہے یاں یک تبسم
سو وہ بھی گریباں میں منھ کو چھپا کر
تناسب پہ اعضا کے اتنا تبختر
بگاڑا تجھے خوب صورت بنا کر
قیامت رہا اضطراب اس کے غم میں
جگر پھر گیا رات ہونٹوں پہ آ کر
۸۶۴۵
اسی آرزو میں گئے ہم جہاں سے
نہ پوچھا کبھو لطف سے ٹک بلا کر
کھنچی تیغ اس کی تو یاں نیم جاں تھے
خجالت سے ہم رہ گئے سر جھکا کر
مبارک تمھیں میرؔ ہو عشق کرنا
بہت ہم تو پچھتائے دل کو لگا کر
(۱۱۳۶)
صاف غلطاں خوں میں ہے نخچیر یار
لے گیا رنگ اس کے دل سے تیر یار
کوتہی کی میرے طول عمر نے
جور میں تو کچھ نہ تھی تقصیر یار
۸۶۵۰
آ کڑوں کے پاؤں میں بیڑی ہوئی
ہاتھ میں سونے کی وہ زنجیر یار
ہے کشیدہ جیسے تیغ آفتاب
میان میں رہتی نہیں شمشیر یار
میرؔ ہم تو ناز ہی کھینچا کیے
کیونکے کوئی کھینچے ہے تصویر یار
(۱۱۳۸)
مذہب سے میرے کیا تجھے میرا دیار اور
میں اور یار اور مرا کاروبار اور
چلتا ہے کام مرگ کا خوب اس کے دور میں
ہوتی ہے گرد شہر کے روز اک مزار اور
۸۶۵۵
بندے کو ان فقیروں میں گنیے نہ شہر کے
صاحب نے میرے مجھ کو دیا اعتبار اور
دل کو تو لاگ ہی ہے تکوں راہ کب تلک
اس پر ہے یک عذاب شدید انتظار اور
بسمل پسند کر کے تڑپنا نہ دیکھنا
ہے میرے صیدپیشہ کا طور شکار اور
میں اس کی گرد رہ کا رہا منتظر بہت
سو آنکھیں دونوں لائیں مری اک غبار اور
درد سر اب جو عشق کا ہے گور تک ہے ساتھ
کچھ یہ نشہ ہی اور ہے اس کا خمار اور
۸۶۶۰
کاہے کو اس قرار سے تھا اضطراب قلب
ہوتا ہے ہاتھ رکھنے سے دل بے قرار اور
کس کو فقیری میں سر و دل حرف کا ہے میرؔ
کرتے ہیں اس دماغ پہ ہم انکسار اور
(۱۱۳۸)
دعویٰ ہے یوں ہی اس کا ترے حسن گوش پر
یاں کون تھوکے ہے صدف ہرزہ کوش پر
شاید کسو میں اس میں بہت ہو گیا ہے بعد
تم بھی تو گوش رکھو جرس کے خروش پر
جیب و کنار سے تو بڑھا پانی دیکھیے
چشمہ ہماری چشم کا رہتا ہے جوش پر
۸۶۶۵
اک شور ہے جو عالم کون و فساد میں
ہنگامہ ہے اسی کے یہ لعل خموش پر
ہے بار دوش جس کے لیے زندگی سو وہ
رکھ ہاتھ راہ ٹک نہ چلا میرے دوش پر
جو ہے سو مست بادۂ وہم و خیال ہے
کس کو ہے یاں نگاہ کسو درد نوش پر
مرغ چمن نے کیا حق صحبت ادا کیا
لالا کے گل بکھیرے مرے قبر پوش پر
جب تک بہار رہتی ہے رہتا ہے مست تو
عاشق ہیں میرؔ ہم تو تری عقل و ہوش پر
۸۶۸۰
(۱۱۳۸)
کیا جانیں گے کہ ہم بھی عاشق ہوئے کسو پر
غصے سے تیغ اکثر اپنے رہی گلو پر
ہر کوئی چاہتا ہے سرمہ کرے نظر کا
ہونے لگے ہیں اب تو خون اس کی خاک کو پر
کر باغباں حیا ٹک گل کو نہ ہاتھ میں مل
دیتی ہے جان بلبل پھولوں کے رنگ و بو پر
حسرت سے دیکھتے ہیں پرواز ہم صفیراں
شائستہ بھی ہمارے ایسے ہی تھے کبھو پر
حرف و سخن کرے ہے کس لطف سے برابر
سلک گہر بھی صدقے کی اس کی گفتگو پر
۸۶۸۵
گو شوق سے ہو دل خوں مجھ کو ادب وہی ہے
میں رو کبھو نہ رکھا گستاخ اس کے رو پر
تن راکھ سے ملا سب آنکھیں دیے سی جلتی
ٹھہری نظر نہ جوگی میرؔ اس فتیلہ مو پر
ردیف ز
(۱۱۴۰)
ہے تند و تیز اس کی نگاہ اس طرف ہنوز
مارا ہے بے گناہ و گناہ اس طرف ہنوز
سر کاٹ کر ہم اس کے قدم کے تلے رکھا
ٹیڑھی ہے اس کی طرف کلاہ اس طرف ہنوز
مدت سے مثل شب ہے مرا تیرہ روزگار
آتا نہیں وہ غیرت ماہ اس طرف ہنوز
۸۶۸۰
پتھرا گئیں ہیں آنکھیں مری نقش پا کے طور
پڑتی نہیں ہے یار کی راہ اس طرف ہنوز
جس کی جہت سے مرنے کے نزدیک پہنچے ہم
پھرتا نہیں وہ آن کے واہ اس طرف ہنوز
آنکھیں ہماری مند چلیں ہیں جس بغیر یاں
وہ دیکھتا بھی ٹک نہیں آہ اس طرف ہنوز
برسوں سے میرؔ ماتم مجنوں ہے دشت میں
روتا ہے آ کے ابر سیاہ اس طرف ہنوز
ردیف س
(۱۱۴۱)
گلا مت توڑ اپنا اے جرس بس
نہیں اس راہ میں فریادرس بس
۸۶۸۵
کبھو دل کی نہ کہنے پائے اس سے
جہاں بولے لگا کہنے کہ بس بس
گل و گلزار سے کیا قیدیوں کو
ہمیں داغ دل و کنج قفس بس
نہ ترساؤ یکایک مار ڈالو
کرو گے کب تلک ہم پر ترس بس
بہت کم دیتے تھے بادل دکھائی
رہے ہم ہی تو روتے اس برس بس
کسو محبوب کی ہو گور پر گل
ہماری خاک کو ہے خار و خس بس
۸۶۸۰
چمن کے غم میں سینہ داغ ہے میرؔ
بہت نکلی ہماری بھی ہوس بس
(۱۱۴۲)
عشق میں غم نہ چشم تر ہے بس
نہ یہی خوں دل و جگر ہے بس
رہ گئے منھ نہوں سے نوچ کے ہم
گر ہوس ہے اسی قدر ہے بس
آپ سے جا کے پھر نہ آئے ہم
بس ہمیں تو یہی سفر ہے بس
چاہ میں ہم نہیں زیادہ طلب
کبھو پوچھو جو تم خبر ہے بس
۸۶۸۵
چشم پوشی نہ کر فقیر ہے میرؔ
مہر کی اس کو اک نظر ہے بس
(۱۱۴۳)
امیروں تک رسائی ہو چکی بس
مری بخت آزمائی ہو چکی بس
بہار اب کے بھی جو گذری قفس میں
تو پھر اپنی رہائی ہو چکی بس
کہاں تک اس سے قصہ قضیہ ہر شب
بہت باہم لڑائی ہو چکی بس
نہ آیا وہ مرے جاتے جہاں سے
یہیں تک آشنائی ہو چکی بس
۸۸۰۰
لگا ہے حوصلہ بھی کرنے تنگی
غموں کی اب سمائی ہو چکی بس
برابر خاک کے تو کر دکھایا
فلک بس بے ادائی ہو چکی بس
دنی کے پاس کچھ رہتی ہے دولت
ہمارے ہاتھ آئی ہو چکی بس
دکھا اس بت کو پھر بھی یا خدایا
تری قدرت نمائی ہو چکی بس
شرر کی سی ہے چشمک فرصت عمر
جہاں دی ٹک دکھائی ہو چکی بس
۸۸۰۵
گلے میں گیروی کفنی ہے اب میرؔ
تمھاری میرزائی ہو چکی بس
ردیف ش
(۱۱۴۴)
اس کے در پر شب نہ کر اے دل خروش
کہتے ہیں دیوار بھی رکھے ہے گوش
پاؤں پڑتا ہے کہیں آنکھیں کہیں
اس کی مستی دیکھ کر جاتا ہے ہوش
کتنے یہ فتنے ہیں موجب شور کے
قد و خد و گیسو و لعل خموش
مر گیا اس ماہ بن میں کیا عجب
چاندنی سے ہو جو میرا قبر پوش
۸۸۱۰
صافی مے چادر اپنی میں نے کی
اور کیا کرتے ہیں مفلس درد نوش
دوستوں کا درد دل ٹک گوش کر
گر نصیب دشمناں ہے درد گوش
جب نہ تب ملتا ہے بازاروں میں میرؔ
ایک لوطی ہے وہ ظالم سرفروش
(۱۱۴۵)
طرح خوش ناز خوش اس کی ادا خوش
خوشا ہم جو نہ رکھے ہم کو ناخوش
نہیں ناساز فقر اپنا کسو کا
خرابے کی ہمارے ہے ہوا خوش
۸۸۱۵
بتوں کے غم میں نالاں جب نہ تب ہوں
نہ راضی خلق مجھ سے نے خدا خوش
کلی رکتی ہے گل ہے دل پریشاں
کسو کی اس چمن میں گذرے کیا خوش
جہان تنگ کڑھنے ہی کی جا تھی
کوئی دن میں تکلف سے رہا خوش
رہا پھولوں میں کرتا زمزمہ میں
مری اس باغ میں گذری سدا خوش
گیا اس شہر ہی سے میرؔ آخر
تمھاری طرز بد سے کچھ نہ تھا خوش
۸۸۲۰
(۱۱۴۶)
فکر میں مرگ کے ہوں سر درپیش
ہے عجب طور کا سفر درپیش
کس کی آنکھیں پھرے ہیں آنکھوں میں
دم بہ دم ہے مری نظر درپیش
مستی بھی اہل ہوش کی ہے جنھیں
آوے ہے عالم دگر درپیش
کیا کروں نقل راہ ہستی میں
مرحلے آئے کس قدر درپیش
کیا پتنگے کو شمع روئے میرؔ
اس کی شب کو بھی ہے سحر درپیش
۸۸۲۵
(۱۱۴۸)
ہوں تو دریا پر کیا ترک خروش
دل کے دل ہی میں کھپائے اپنے جوش
مست رہتے ہیں ہم اپنے حال میں
عرض کریے حال پر یہ کس کے گوش
عاقبت تجھ کو لباس راہ راہ
لے گیا ہے راہ سے اے تنگ پوش
ہو نہ آگے میرے جوں سوسن زباں
ہوسکے تو گل کے رنگوں رہیے گوش
میرؔ کو طفلان تہ بازار میں
دیکھو شاید ہو وہیں وہ دل فروش
۸۸۳۰
ردیف ص
(۱۱۴۸)
ہے دل بے تاب کا بھی ویسا رقص
رقص بسمل تم سنو ہو جیسا رقص
ردیف ض
(۱۱۴۸)
آج رکھ آیا کمر میں پیش قبض
سو ہی کھینچی مجھ پہ گھر میں پیش قبض
ردیف ط
(۱۱۵۰)
شاید اس سادہ نے رکھا ہے خط
کہ ہمیں متصل لکھا ہے خط
شوق سے بات بڑھ گئی تھی بہت
دفتر اس کو لکھیں ہیں کیا ہے خط
نامہ کب یار نے پڑھا سارا
نہ کہا یہ بھی آشنا ہے خط
۸۸۳۵
ساتھ ہم بھی گئے ہیں دور تلک
جب ادھر کے تئیں چلا ہے خط
کچھ خلل راہ میں ہوا اے میرؔ
نامہ بر کب سے لے گیا ہے خط
(۱۱۵۱)
ہم نہ سمجھے رابطہ ان نو خطوں سے تھا غلط
ہوتے ہیں بر خود غلط یہ ہو گیا یہ کیا غلط
کہتے ہو کیا کیا لکھا ہے خط میں مجھ کو میرؔ نے
کب کہا کن نے یہ سب جھوٹ افترا بے جا غلط
ردیف ظ
(۱۱۵۲)
جو وہ ہے تو ہے زندگانی سے حظ
مزہ عمر کا ہے جوانی سے حظ
۸۸۴۰
نہیں وہ تو سب کچھ یہ بے لطف ہے
نہ کھانے میں لذت نہ پانی سے حظ
کہا درد دل رات کیا میرؔ نے
اٹھایا بہت اس کہانی سے حظ
ردیف ع
(۱۱۵۳)
آگے جب اس آتشیں رخسار کے آتی ہے شمع
پانی پانی شرم مفرط سے ہوئی جاتی ہے شمع
(۱۱۵۴)
ہے مری ہر اک غزل پر اجتماع
خانقہ میں کرتے ہیں صوفی سماع
وجد میں رکھتا ہے اہل فہم کو
میرے شعر و شاعری کا استماع
۸۸۴۵
نیم بسمل چھوڑ دینا رحم کر
اس شکار افگن کا ہے گا اختراع
کچھ ضرر عائد ہوا میری ہی اور
ورنہ اس سے سب کو پہنچا انتفاع
یار دشمن ہو گیا اس کے سبب
ہے متاع دوستی بھی کیا متاع
دل جگر خوں ہو کے رخصت ہو گئے
حسرت آلودہ ہے کیا اشک وداع
میرؔ درد دل نہ کہہ ظالم بس اب
ہو گیا ہے سامعوں کو تو صداع
۸۸۵۰
ردیف غ
(۱۱۵۵)
اب نہیں سینے میں میرے جائے داغ
سوز دل سے داغ ہے بالائے داغ
دل جلا آنکھیں جلیں جی جل گیا
عشق نے کیا کیا ہمیں دکھلائے داغ
دل جگر جل کر ہوئے ہیں دونوں ایک
درمیان آیا ہے جب سےپائے داغ
منفعل ہیں لالہ و شمع و چراغ
ہم نے بھی کیا عاشقی میں کھائے داغ
وہ نہیں اب میرؔ جو چھاتی جلے
کھا گیا سارے جگر کو ہائے داغ
۸۸۵۵
(۱۱۵۶)
صحبت کسو سے رکھنے کا اس کو نہ تھا دماغ
تھا میرؔ بے دماغ کو بھی کیا بلا دماغ
باتیں کرے برشتگی دل کی پر کہاں
کرتا ہے اس دماغ جلے کا وفا دماغ
دو حرف زیر لب کہے پھر ہو گیا خموش
یعنی کہ بات کرنے کا کس کو رہا دماغ
کر فکر اپنی طاقت فکری جو ہو ضعیف
اب شعر و شاعری کی طرف کب لگا دماغ
آتش زبانی شمع نمط میرؔ کی بہت
اب چاہیے معاف رکھیں جل گیا دماغ
۸۸۶۰
ردیف ف
(۱۱۵۸)
کیا پیام و سلام ہے موقوف
رسم ظاہر تمام ہے موقوف
حیرت حسن یار سے چپ ہیں
سب سے حرف و کلام ہے موقوف
روز وعدہ ہے ملنے کا لیکن
صبح موقوف شام ہے موقوف
وہ نہیں ہے کہ داد لے چھوڑیں
اب ترحم پہ کام ہے موقوف
پیش مژگاں دھرے رہے خنجر
آگے زلفوں کے دام ہے موقوف
۸۸۶۵
کہہ کے صاحب کبھو بلاتے تھے
سو وقار غلام ہے موقوف
اقتدا میرؔ ہم سے کس کی ہوئی
اپنے ہاں اب امام ہے موقوف
ردیف ق
(۱۱۵۸)
کیا حقیقت کہوں کہ کیا ہے عشق
حق شناسوں کے ہاں خدا ہے عشق
دل لگا ہو تو جی جہاں سے اٹھا
موت کا نام پیار کا ہے عشق
اور تدبیر کو نہیں کچھ دخل
عشق کے درد کی دوا ہے عشق
۸۸۸۰
کیا ڈبایا محیط میں غم کے
ہم نے جانا تھا آشنا ہے عشق
عشق سے جا نہیں کوئی خالی
دل سے لے عرش تک بھرا ہے عشق
کوہکن کیا پہاڑ کاٹے گا
پردے میں زور آزما ہے عشق
عشق ہے عشق کرنے والوں کو
کیسا کیسا بہم کیا ہے عشق
کون مقصد کو عشق بن پہنچا
آرزو عشق مدعا ہے عشق
۸۸۸۵
میرؔ مرنا پڑے ہے خوباں پر
عشق مت کر کہ بد بلا ہے عشق
(۱۱۵۸)
گر بادیے میں تجھ کو صبا لے کے جائے شوق
مجنوں کو میری اور سے کہیو دعائے شوق
وصل و جدائی سے ہے مبرا وہ کام جاں
معلوم کچھ ہوا نہ ہمیں یاں سو ائے شوق
ہر چار اور اڑتی پھرے ہے ہماری خاک
سر سے گئی نہ جی بھی گئے پر ہوائے شوق
دیر و حرم میں ہم کو پھراتا ہے دیر تک
پھر بھی ہمارے ساتھ وہی ہے ادائے شوق
۸۸۸۰
افسوس ایسے کوچے سے تم آشنا نہیں
کیا دردناک نے بھی کوئی ہے نو ائے شوق
درد اور آہ و نالہ کرے ہے دم سحر
یک مشت پر ہے مرغ گلستاں پہ ہائے شوق
کیا پوچھتے ہو شوق کہاں تک ہے ہم کو میرؔ
مرنا ہی اہل درد کا ہے انتہائے شوق
ردیف ک
(۱۱۶۰)
ہر چند صرف غم ہیں لے دل جگر سے جاں تک
لیکن کبھو شکایت آئی نہیں زباں تک
کیا کوئی اس کے رنگوں گل باغ میں کھلا ہے
شور آج بلبلوں کا جاتا ہے آسماں تک
۸۸۸۵
دو چار دن جو ہوں تو رک رک کے کوئی کاٹے
ناچار صبر کرنا عاشق سے ہو کہاں تک
ان جلتی ہڈیوں کو شاید ہما نہ کھاوے
تب عشق کی ہمارے پہنچی ہے استخواں تک
روئے جہاں جہاں ہم جوں ابر میرؔ اس بن
اب آب ہے سراسر جاوے نظر جہاں تک
ردیف گ
(۱۱۶۱)
قتل گہ میں دست بوس اس کا کریں فی الفور لوگ
ہم کھڑے تلواریں کھاویں نقش ماریں اور لوگ
کج روی ہم عاشقوں سے اس کی بس اب جا چکی
ایک تو ناساز پھر اس سے ملے بے طور لوگ
۸۸۸۰
زخم تیغ یار غائر ہو کے پہنچا دل تلک
حیف میرے حال پر کرتے نہیں ٹک غور لوگ
جا کے دنیا سے تجھے یاد آؤں گا میں بھی بہت
بعد میرے کب اٹھاویں گے ترے یہ جور لوگ
رسم و عادت ہے کہ ہر یک وقت کا ہوتا ہے ذکر
میرؔ بارے یاد کر روویں گے کیا یہ دور لوگ
(۱۱۶۲)
چاک دل ہے انار کے سے رنگ
چشم پر خوں فگار کے سے رنگ
کام میں ہے ہوائے گل کی موج
تیغ خوں ریز یار کے سے رنگ
۸۸۸۵
تاب ہی میں رہے ہے اس کی زلف
افعی پیچ دار کے سے رنگ
کیا جو افسردگی کے ساتھ کھلا
دل گل بے بہار کے سے رنگ
برق ابر بہار نے بھی لیے
اب دل بے قرار کے سے رنگ
کنج نخچیر گہ میں ہیں مامون
ہم بھی لاغر شکار کے سے رنگ
عمر کا بھی سرنگ جاتا ہے
ابلق روزگار کے سے رنگ
۸۸۰۰
برگ گل میں نہ دل کشی ہو گی
کف پائے نگار کے سے رنگ
اس بیاباں میں میرؔ محو ہوئے
ناتواں اک غبار کے سے رنگ
ردیف ل
(۱۱۶۳)
اب کے ہزار رنگ گلستاں میں آئے گل
پر اس بغیر اپنے تو جی کو نہ بھائے گل
بلبل کو ناز کیوں نہ خیابان گل پہ ہو
کیا جانے جن نے چھاتی پہ بھر کر نہ کھائے گل
کب تک حنائی پاؤں بن اس کے یہ بے کلی
لگ جائے ٹک چمن میں کہیں آنکھ پائے گل
۸۸۰۵
ناچار ہو چمن میں نہ رہیے کہوں ہوں جب
بلبل کہے ہے اور کوئی دن برائے گل
چلیے بغل میں لے کے گلابی کسو طرف
دامان دل کو کھینچے ہے ساقی ہوائے گل
پگڑی میں پھول رکھتے ہیں رعنا جوان شہر
داغ جنوں ہی سر پہ رہا یاں بجائے گل
بلبل کو کیا سنے کوئی اڑ جاتے ہیں حواس
جب دردمند کہتی ہے دم بھر کے ہائے گل
سویا نہ وہ بدن کی نزاکت سے ساری رات
بستر پہ اس کے خواب کے کن نے بچھائے گل
۸۸۱۰
مصروف یار چاہیے مرغ چمن سا ہو
دل نذر و دیدہ پیش کش و جاں فدائے گل
ہم طرح آشیاں کی نہ گلشن میں ڈالتے
معلوم ہوتی آگے جو ہم کو وفائے گل
چسپاں لباس ہوتے ہیں لیکن نہ اس قدر
ہے چاک رشک جامہ سے اس کے قبائے گل
کیا سمجھے لطف چہروں کے رنگ و بہار کا
بلبل نے اور کچھ نہیں دیکھا سوائے گل
تھا وصف ان لبوں کا زبان قلم پہ میرؔ
یا منھ میں عندلیب کے تھے برگ ہائے گل
۸۸۱۵
(۱۱۶۴)
نہ ٹک واشد ہوئی جب سے لگا دل
الٰہی غنچہ ہے پژمردہ یا دل
نہ اس سے یاں تئیں آیا گیا حیف
رہے ہم جب تلک اس میں رہا دل
اٹھایا داغ لالہ نے چمن سے
کروں کیا دیکھتے ہی جل گیا دل
نہیں کم رایت اقبال شہ سے
علم اپنا یہ دنیا سے اٹھا دل
ہمارا خاص مشرب عشق اس میں
پیمبر دل ہے قبلہ دل خدا دل
۸۸۲۰
ہمارے منھ پہ طفل اشک دوڑا
کیا ہے اس بھی لڑکے نے بڑا دل
سبھوں سے میرؔ بیگانے سے رہتے
جو ہوتا اس سے کچھ بھی آشنا دل
(۱۱۶۵)
نہ خوشہ یاں نہ دانہ یاں جلانا گھاس کیا حاصل
ترا اے برق خاطف اس طرف گرنا ہے لاحاصل
سکندر ہو کے مالک سات اقلیموں کا آخر کو
گیا دست تہی لے یاں سے یہ کچھ کر گیا حاصل
بلا قحط مروت ہے کہ ہے محصول غلے پر
کہیں سے چار دانے لاؤ لیویں جا بجا حاصل
۸۸۲۵
نہ کھینچیں کیونکے نقصاں ہم تو قیدی ہیں تعین کے
خودی سے کوئی نکلے تو اسے ہووے خدا حاصل
عبارت خوب لکھی شاعری انشا طرازی کی
ولے مطلب ہے گم دیکھیں تو کب ہو مدعا حاصل
بہت مصروف کشت و کار تھے مزرع میں دنیا کے
اٹھا حسرت سے ہاتھ آخر ہمیں یہ کچھ ہوا حاصل
پھرا مت میرؔ سر اپنا گراں گوشوں کی مجلس میں
سنے کوئی تو کچھ کہیے بھی اس کہنے کا کیا حاصل
ردیف م
(۱۱۶۶)
جی کے تئیں چھپاتے نہیں یوں تو غم سے ہم
پر تنگ آ گئے ہیں تمھارے ستم سے ہم
۸۸۳۰
اپنے خیال ہی میں گذرتی ہے اپنی عمر
پر کچھ نہ پوچھو سمجھے نہیں جاتے ہم سے ہم
زانو پہ سر ہے قامت خم گشتہ کے سبب
پیری میں اپنی آن لگے ہیں قدم سے ہم
جوں چکمہ میر حاج کا ہے خوار جانماز
بت خانے میں جو آئے ہیں چل کر حرم سے ہم
روتے بھی ان نے دیکھ کے ہم کو کیا نہ رحم
اک چشم داشت رکھتے تھے مژگان نم سے ہم
بد عہدیاں ہی کرتے گئے اس کو سال و ماہ
اب کب تسلی ہوتے ہیں قول و قسم سے ہم
۸۸۳۵
زنار سا بندھا ہے گلے اپنے اب تو کفر
بدنام ہیں جہان میں عشق صنم سے ہم
لوگوں کے وصف کرنے سے بالیدگی ہوئی
جوں شیشہ پھیل پھوٹ پڑے ان کے دم سے ہم
طرفیں رکھے ہے ایک سخن چار چار میرؔ
کیا کیا کہا کریں ہیں زبان قلم سے ہم
(۱۱۶۸)
سرزیر پر ہیں دیر سے اے ہم صفیر ہم
واقف نہیں ہوائے چمن سے اسیر ہم
کیا ظلم تھے لباس میں اس تنگ پوش کے
دل تنگی سے نکل گئے ہو کر فقیر ہم
۸۸۴۰
دیکھ اس کو راہ جاتے تو بے حال ہو گئے
اب دیکھیے بحال کب آتے ہیں میرؔ ہم
(۱۱۶۸)
جو رہے یوں ہی غم کے مارے ہم
تو یہی آج کل سدھارے ہم
مرتے رہتے تھے اس پہ یوں پر اب
جا لگے گور کے کنارے ہم
دن گذرتا ہے دم شماری میں
شب کو رہتے ہیں گنتے تارے ہم
ہے مروت سے اپنی وحشت دور
انس رکھتے ہیں تم سے پیارے ہم
۸۸۴۵
زندگی بار دوش آج ہے یاں
دیکھیں گے کل جو ہوں گے بارے ہم
جا چکی بازی یعنی مرتے ہیں
جیتے تم یہ قمار ہارے ہم
میرؔ آؤ گے آپ میں بھی کبھو
سخت مشتاق ہیں تمھارے ہم
(۱۱۶۸)
گئے عشق کی راہ سر کر قدم
بلا پر چلے آئے ہر ہر قدم
عجب راہ پرخوف و مشکل گذر
اٹھایا گیا ہم سے مر مر قدم
۸۸۵۰
بہت مستی عشق پالغز تھی
خدا جانے پڑتا تھا کیدھر قدم
ہوا ہو گا خالی بدن جاں سے جب
چلے ہوں گے یہ راہ جو بھر قدم
وہ عیار یوں چشم تر سے گیا
کہ ہرگز نہ اس کا ہوا تر قدم
جگر کو ہے ان سر سے گذروں کے عشق
گئے جو ہمارے قدم بر قدم
جو کچھ آوے سالک کے آگے ہے خیر
رکھا ہم نے اب گھر سے باہر قدم
۸۸۵۵
ہمیں سرکشی سربلندی سے کیا
رہے ضعف میں ہم تو سر در قدم
کہیں کیا کف پا میں میرؔ آبلے
چلیں ہم سروں پر مگر دھر قدم
(۱۱۸۰)
میرؔ آج وہ بدمست ہے ہشیار رہو تم
ہے بے خبری اس کو خبردار رہو تم
جی جائے کسی کا کہ رہے تم کو قسم ہے
مقدور تلک درپئے آزار رہو تم
وہ محو جمال اپنی ہی پروا نہیں اس کو
خواہاں رہو تم اب کہ طلب گار رہو تم
۸۸۶۰
اس معنی کے ادراک سے حیرت ہی ہے حاصل
آئینہ نمط صورت دیوار رہو تم
یک بار ہوا دل کی تسلی کا وہ باعث
یہ کیا کہ اسی طور پہ ہر بار رہو تم
ہو لطف اسی کا تو کوئی کام کو پہنچے
تسبیح گلے ڈال کے زنار رہو تم
کیا میرؔ بری چال سے جینے کی چلے ہے
بہتر ہے کہ اپنے تئیں اب مار رہو تم
(۱۱۸۱)
آ ٹک شتاب جاتے ہیں ورنہ جہاں سے ہم
کچھ ہو رہے ہیں غم میں ترے نیم جاں سے ہم
۸۸۶۵
ہر بات کے جواب میں گالی کہاں تلک
اب جاں بہ لب ہوئے ہیں تمھاری زباں سے ہم
وعدہ کرو تو سوچ لو مدت کو دل میں بھی
یہ حال ہے تو دیر رہیں گے کہاں سے ہم
الجھاؤ دل کا جس سے ہے جھنجھلا کے اس بغیر
جھگڑا کیا کریں ہیں زمین آسماں سے ہم
لاویں ہماری خاک پر اس کینہ ور کو بھی
یہ کہہ مریں گے اپنے ہر اک مہرباں سے ہم
دربان سنگدل نے خبر واں تلک نہ کی
سر مار مار صبح کی اس آستاں سے ہم
۸۸۸۰
جب اس کی تیغ رکھنے لگا اپنے پاس میرؔ
امید قطع کی تھی تبھی اس جواں سے ہم
(۱۱۸۲)
بیماری دلی سے زار و نزار ہیں ہم
اک مشت استخواں ہیں پر اپنے بار ہیں ہم
مارا تڑپتے چھوڑا فتراک سے نہ باندھا
بے چشم و رو کسو کے شاید شکار ہیں ہم
ہر دم جبیں خراشی ہر آن سینہ کاوی
حیران عشق تو ہیں پر گرم کار ہیں ہم
حور و قصور و غلماں نہر و نعیم و جنت
یہ کلہم جہنم مشتاق یار ہیں ہم
۸۸۸۵
بے حد و حصر گردش اپنی ہے عاشقی میں
رسوائے شہر و دیہ، و دشت و دیار ہیں ہم
اب سیل سیل آنسو آتے ہیں چشم تر سے
دیوار و در سے کہہ دو بے اختیار ہیں ہم
روتے ہیں یوں کہ جیسے شدت سے ابر برسے
کیا جانیے کہ کیسے دل کے بخار ہیں ہم
اب تو گلے بندھا ہے زنجیر و طوق ہونا
عشق و جنوں کے اپنے ناموس دار ہیں ہم
لیتا ہے میرؔ عبرت جو کوئی دیکھتا ہے
کیا یار کی گلی میں بے اعتبار ہیں ہم
۸۸۸۰
(۱۱۸۳)
ہر ہر سخن پہ اب تو کرتے ہو گفتگو تم
ان بد مزاجیوں کو چھوڑو گے بھی کبھو تم
یاں آپھی آپ آ کر گم آپ میں ہوئے ہو
پیدا نہیں کہ کس کی کرتے ہو جستجو تم
چاہیں تو تم کو چاہیں دیکھیں تو تم کو دیکھیں
خواہش دلوں کی تم ہو آنکھوں کی آرزو تم
حیرت زدہ کسو کی یہ آنکھ سی لگے ہے
مت بیٹھو آرسی کے ہر لحظہ روبرو تم
تھے تم بھبھوکے سے تو پر اب جلا ہی دوہو
سوزندہ آگ کی کیا سیکھے ہو ساری خو تم
۸۸۸۵
نسبت تو ہم دگر ہے گو دور کی ہو نسبت
ہم ہیں نوائے بلبل ہو گل کے رنگ و بو تم
دیکھ اشک سرخ بولا یہ رنگ اور لائے
ہیں میرؔ منھ پہ آنسو یا روتے ہو لہو تم
ردیف ن
(۱۱۸۴)
ٹھنڈی سانسیں بھریں ہیں جلتے ہیں کیا تاب میں ہیں
دل کے پہلو سے ہم آتش میں ہیں اور آب میں ہیں
ساتھ اپنے نہیں اسباب مساعد مطلق
ہم بھی کہنے کے تئیں عالم اسباب میں ہیں
غفلت دل سے ستم گذریں ہیں سو مت پوچھو
قافلے چلنے کو تیار ہیں ہم خواب میں ہیں
۸۸۸۰
عشق کے ہیں گے جو سرگشتہ پڑے ہیں ڈوبے
کشتیاں نکلیں سو کیا آن کے گرداب میں ہیں
دور کیا اس سے جو بیٹھے ہے غبار اپنا دور
پاس اس طور کے بھی عشق کے آداب میں ہیں
ہے فروغ مہ تاباں سے فراغ کلی
دل جلے پرتو رخ سے ترے مہتاب میں ہیں
ہم بھی اس شہر میں ان لوگوں سے ہیں خانہ خراب
میرؔ گھر بار جنھوں کے رہ سیلاب میں ہیں
(۱۱۸۵)
کہے تو ہم نشیں رنگ تصرف کچھ دکھاؤں میں
الگ بیٹھا حنا بندوں کو آنکھوں میں رچاؤں میں
۸۸۸۵
نہیں ہوں بے ادب اتنا کہ گل سے منھ لگاؤں میں
جگر ہو ٹکڑے ٹکڑے گر چمن کی اور جاؤں میں
کیا ہے اضطراب دل نے کیا مجھ کو سبک آخر
کہاں تک یار کے کوچے سے جا جا کر پھر آؤں میں
وفا صد کارواں رکھتا ہوں لیکن شہر خوبی میں
خریداری نہیں مطلق کہاں جا کر بکاؤں میں
مجھے سر در گریباں رہنے دو میں بے توقع ہوں
کسو پتھر سے پٹکوں ہوں ابھی سر جو اٹھاؤں میں
بلا حسرت ہے یارب کام دل کیونکر کروں حاصل
مگر لب ہائے شیریں پر کسو کے زہر کھاؤں میں
۸۸۰۰
نہ روؤں حال پر کیونکر بلا ناآشنا ہے وہ
کہیں آنکھ اس کی ملتی ہے جو آنکھیں ٹک ملاؤں میں
نہ ئاے رشک بہار آنکھیں اٹھاوے پشت پا سے تو
ہتھیلی پر اگر سرسوں ترے آگے جماؤں میں
کہوں کیا صحبت اس سے ہر گھڑی بگڑی ہی جاتی ہے
جو ٹک راہ سخن نکلے تو سو باتیں بناؤں میں
نگاہ حسرت بت دیر سے جانے کی مانع ہے
مزاج اپنا بہت چاہا کہ سوئے کعبہ لاؤں میں
اسیر زلف کو اس بت کے کیا قیدمسلمانی
تمنا ہے گلا زنار سے اپنا بندھاؤں میں
۸۸۰۵
کہوں ہوں میرؔ سے دل دے کہیں تا جی لگے تیرا
جو ہو نقصان جاں اس کا تو کیونکر پھر مناؤں میں
(۱۱۸۶)
رو چکا خون جگر سب اب جگر میں خوں کہاں
غم سے پانی ہوکے کب کا بہہ گیا میں ہوں کہاں
دست و دامن جیب و آغوش اپنے اس لائق نہ تھے
پھول میں اس باغ خوبی سے جو لوں تو لوں کہاں
عاشق و معشوق یاں آخر فسانے ہو گئے
جائے گریہ ہے جہاں لیلیٰ کہاں مجنوں کہاں
آگ برسی تیرہ عالم ہو گیا جادو سے پر
اس کی چشم پرفسوں کے سامنے افسوں کہاں
۸۸۱۰
سیر کی رنگیں بیاض باغ کی ہم نے بہت
سرو کا مصرع کہاں وہ قامت موزوں کہاں
کوچہ ہر یک جائے دلکش عالم خاکی میں ہے
پر کہیں لگتا نہیں جی ہائے میں دل دوں کہاں
ایک دم سے قیس کے جنگل بھرا رہتا تھا کیا
اب گئے پر اس کے ویسی رونق ہاموں کہاں
ناصح مشفق تو کہتا تھا کہ اس سے مت ملے
پر سمجھتا ہے ہمارا یہ دل محزوں کہاں
باؤ کے گھوڑے پہ تھے اس باغ کے ساکن سوار
اب کہاں فرہاد و شیریں خسرو گلگوں کہاں
۸۸۱۵
کھا گیا اندوہ مجھ کو دوستان رفتہ کا
ڈھونڈتا ہے جی بہت پر اب انھیں پاؤں کہاں
تھا وہ فتنہ ملنے کی گوں کب کسی درویش کے
کیا کہیں ہم میرؔ صاحب سے ہوئے مفتوں کہاں
(۱۱۸۸)
عشق نے خوار و ذلیل کیا ہم سر کو بکھیرے پھرتے ہیں
سوز و درد و داغ و الم سب جی کو گھیرے پھرتے ہیں
ہر شب ہوں سرگشتہ و نالاں اس بن کوچہ و برزن میں
یاس نہیں ہے اب بھی دیکھوں کب دن میرے پھرتے ہیں
دل لشکر میں ایک سپاہی زادے نے ہم سے چھین لیا
ہم درویش طلب میں اس کی ڈیرے ڈیرے پھرتے ہیں
۸۸۲۰
بے خود اس کی زلف و رخ کے کاہے کو آپ میں پھر آئے
ہم کہتے ہیں تسلی دل کو سانجھ سویرے پھرتے ہیں
نقش کسو کا درون سینہ گرم طلب ہیں ویسے رنگ
جیسی خیالی پاس لیے تصویر چتیرے پھرتے ہیں
برسے اگر شمشیر سروں پر منھ موڑیں زنہار نہیں
سیدھے جانے والے ادھر کے کس کے پھیرے پھرتے ہیں
پائے نگار آلودہ کہیں سانجھ کو میرؔ نے دیکھے تھے
صبح تک اب بھی آنکھوں میں اس کی پاؤں تیرے پھرتے ہیں
(۱۱۸۸)
جمع ہوتے نہیں حواس کہیں
جائیں یاں سے جو ہم اداس کہیں
۸۸۲۵
دل کی دو اشک سے نہ نکلی بھڑاس
اوسوں بجھتی نہیں ہے پیاس کہیں
باؤ خوشبو ہے آئی ہے واں سے
کوئی چھپتی ہے گل کی باس کہیں
اس جنوں میں کہیں ہے سر پر خاک
ٹکڑے ہو کر گرا لباس کہیں
گرد سر یار کے پھریں پہروں
ہم جو ہوں اس کے آس پاس کہیں
سب جگہ لوگ حق و ناحق پر
نہ ملا حیف حق شناس کہیں
۸۸۳۰
ہر طرف ہیں امیدوار یار
اس سے کوئی نہیں نراس کہیں
عشق کا محو دشت شیریں ہوں
جان کا بھی نہیں ہراس کہیں
عرش تک تو خیال پہنچے میرؔ
وہم پھر ہے کہیں قیاس کہیں
(۱۱۸۸)
جائیں تو جائیں کہاں جو گھر رہیں کیا گھر رہیں
یار بن لگتا نہیں جی کاشکے ہم مر رہیں
دل جو اکتاتا ہے یارب رہ نہیں سکتے کہیں
کیا کریں جاویں کہاں گھر میں رہیں باہر رہیں
۸۸۳۵
وہ نہیں جو تیغ سے اس کی گلا کٹوائیے
تنگ آئے ہیں بہت اب آپھی جوہو کر رہیں
بے دماغی بے قراری بے کسی بے طاقتی
کیا جیے وہ جس کے جی کو روگ یہ اکثر رہیں
مضطرب ہو ایک دو دم تو تدارک بھی ہو کچھ
متصل تڑپے ہے کب تک ہاتھ لے دل پر رہیں
زندگی دوبھر ہوئی ہے میرؔ آخر تاکجا
دل جگر جلتے رہیں آنکھیں ہماری تر رہیں
(۱۱۸۰)
کہاں کے لوگ ہیں خوباں محبت ان کو نہیں
مریں بھی ہم تو نہ دیکھیں مروت ان کو نہیں
۸۸۴۰
خراب و خوار ہے سلطاں شکستہ حال امیر
کسو فقیر سے شاید کہ صحبت ان کو نہیں
ہمارے دیدہ و دل سے ہی ہم پہ کام ہے تنگ
کہ رونے کڑھنے سے یک لحظہ فرصت ان کو نہیں
پری و سرو کو دعویٰ ہے اس رخ و قد سے
شکایت اس سے نہیں آدمیت ان کو نہیں
چلا ہے تیغ بکف یار غیر کی جانب
ہوئے ہیں میرؔ تماشائی غیرت ان کو نہیں
(۱۱۸۱)
ظلم و ستم کیا جور و جفا کیا جو کچھ کہیے اٹھاتا ہوں
خفت کھینچ کے جاتا ہوں رہتا نہیں دل پھر آتا ہوں
۸۸۴۵
گھر سے اٹھ کر لڑکوں میں بیٹھا بیت پڑھی دو باتیں کیں
کس کس طور سے اپنے دل کو اس بن میں بہلاتا ہوں
ہائے سبک ہونا یہ میرا فرط شوق سے مجلس میں
وہ تو نہیں سنتا دل دے کر میں ہی باتیں بناتا ہوں
قتل میں میرے یہ صحبت ہے غم غصے سے محبت کے
لوہو اپنا پیتا ہوں تلواریں اس کی کھاتا ہوں
آنے کی میری فرصت کتنی دو دم دو پل ایک گھڑی
رنجش کیوں کا ہے کو خشونت غصہ کیا ہے جاتا ہوں
سرماروں ہوں ایدھر اودھر دور تلک جاتا ہوں نکل
پاس نہیں پاتا جو اس کو کیا کیا میں گھبراتا ہوں
۸۸۵۰
پھاڑ کے خط کو گلے میں ڈالا شہر میں سب تشہیر کیا
سامنے ہوں قاصد کے کیونکر اس سے میں شرماتا ہوں
پہلے فریب لطف سے اس کے کچھ نہ ہوا معلوم مجھے
اب جو چاہ نے بدلیں طرحیں کڑھتا ہوں پچھتاتا ہوں
مجرم اس خاطر ہوتا ہوں میں بعضی بعضی شوخی کر
عذر گناہ میں جا کر اس کے پاؤں کو ہاتھ لگاتا ہوں
دیکھے ان پلکوں کے اکثر میرؔ ہوں بے خود تنگ آیا
آپ کو پاتا ہوں تو چھری اس وقت نہیں میں پاتا ہوں
(۱۱۸۲)
کبھو ملے ہے سو وہ یوں کہ پھر ملا نہ کریں
کرے ہے آپھی شکایت کہ ہم گلہ نہ کریں
۸۸۵۵
ہوئی یہ چاہ میں مشکل کہ جی گیا ہوتا
نہ رہتے جیتے اگر ہم مساہلہ نہ کریں
ہمارے حرف پریشاں ہی لطف رکھتے ہیں
جنوں ہے بحث جو وحشت میں عاقلانہ کریں
صفائے دل جو ہوئی ٹک تو دیکھیں ہیں کیا کیا
ہم ایسے آئینے کو اپنے کیوں جلا نہ کریں
وبال میں نہ گرفتار ہوں کہیں مہ و مہر
خدا کرے ترے رخ سے مقابلہ نہ کریں
دل اب تو ہم سے ہے بد باز اگر رہے جیتے
کسو سے ہم بھی ولے پھر معاملہ نہ کریں
۸۸۶۰
سخن کے ملک کا میں مستقل امیر ہوں میرؔ
ہزار مدعی بھی مجھ کو دہ دلا نہ کریں
(۱۱۸۳)
شعر کچھ میں نے کہے بالوں کی اس کے یاد میں
سو غزل پڑھتے پھرے ہیں لوگ فیض آباد میں
سرخ آنکھیں خشم سے کیں ان نے مجھ پر صبح کو
دیکھی یہ تاثیر شب کی خوں چکاں فریاد میں
یہ تصرف عشق کا ہے سب وگرنہ ظرف کیا
ایک عالم غم سمایا خاطر ناشاد میں
عشق کی دیوانگی لائی ہمیں جنگل کی اور
ورنہ ہم پھرتے بگولے سے نہ خاک و باد میں
۸۸۶۵
دیر لگتا ہے گلے تلوار پر وہ رکھ کے ہاتھ
خوبیاں بھی تو بہت ہیں اس ستم ایجاد میں
یہ بنا رہتی سی آتی ہے نظر کچھ یاں مجھے
اچھی ہے تعمیر دل کی اس خراب آباد میں
میرؔ ہم جبہ خراشوں سے کسو کا ذکر کیا
وے ہنر ہم میں ہیں جو تھے تیشۂ فرہاد میں
(۱۱۸۴)
درویشوں سے تو ان نے ضدیں نکالیاں ہیں
ایدھر سے ہیں دعائیں اودھر سے گالیاں ہیں
جبہے سے سینہ تک ہیں کیا کیا خراش ناخن
گویا کہ ہم نے منھ پر تلواریں کھالیاں ہیں
۸۸۸۰
جب لگ گئے جھمکنے رخسار یار دونوں
تب مہر و مہ نے اپنی آنکھیں چھپا لیاں ہیں
صبح چمن کا جلوہ ہندی بتوں میں دیکھا
صندل بھری جبیں ہیں ہونٹوں کی لالیاں ہیں
درد و الم ہی میں سب جاتے ہیں روز و شب یاں
دن اشک ریزیاں ہیں شب زار نالیاں ہیں
حیزوں نے ریختے کو ووں ریختی بنایا
جوں ان دنوں میں بالے لڑکوں کی بالیاں ہیں
اجماع بوالہوس کو رکھ رکھ لیا ہے آگے
مت جان ایسی بھیڑیں جی دینے والیاں ہیں
۸۸۸۵
ان گل رخوں کی قامت لہکے ہے یوں ہوا میں
جس رنگ سے لچکتی پھولوں کی ڈالیاں ہیں
وہ دزد دل نہیں تو کیوں دیکھتے ہی مجھ کو
پلکیں جھکا لیاں ہیں آنکھیں چرا لیاں ہیں
اس آفتاب بن یاں اندھیر ہو رہا ہے
دن بھی سیاہ اپنے جوں راتیں کالیاں ہیں
چلتے ہیں یہ تو ٹھوکر لگتی ہے میرؔ دل کو
چالیں ہی دلبروں کی سب سے نرالیاں ہیں
(۱۱۸۵)
رفتگاں میں جہاں کے ہم بھی ہیں
ساتھ اس کارواں کے ہم بھی ہیں
۸۸۸۰
شمع ہی سر نہ دے گئی برباد
کشتہ اپنی زباں کے ہم بھی ہیں
ہم کو مجنوں کو عشق میں مت بوجھ
ننگ اس خانداں کے ہم بھی ہیں
جس چمن زار کا ہے تو گل تر
بلبل اس گلستاں کے ہم بھی ہیں
نہیں مجنوں سے دل قوی لیکن
یار اس ناتواں کے ہم بھی ہیں
بوسہ مت دے کسو کے در پہ نسیم
خاک اس آستاں کے ہم بھی ہیں
۸۸۸۵
گو شب اس در سے دور پہروں پھریں
پاس تو پاسباں کے ہم بھی ہیں
وجہ بیگانگی نہیں معلوم
تم جہاں کے ہو واں کے ہم بھی ہیں
مر گئے مر گئے نہیں تو نہیں
خاک سے منھ کو ڈھانکے ہم بھی ہیں
اپنا شیوہ نہیں کجی یوں تو
یار جی ٹیڑھے بانکے ہم بھی ہیں
اس سرے کی ہے پارسائی میرؔ
معتقد اس جواں کے ہم بھی ہیں
۸۸۸۰
(۱۱۸۶)
نئی گردش ہے اس کی ہر زماں میں
خلل سا ہے دماغ آسماں میں
ہوا تن ضعف سے ایسا کہے تو
کہ اب جی ہی نہیں اس ناتواں میں
کہا میں درد دل یا آگ اگلی
پھپھولے پڑ گئے میری زباں میں
متاع حسن یوسفؑ سی کہاں اب
تجسس کرتے ہیں ہر کارواں میں
بلائے جاں ہے وہ لڑکا پری زاد
اسی کا شور ہے پیر و جواں میں
۸۸۸۵
بہت ناآشنا تھے لوگ یاں کے
چلے ہم چار دن رہ کر جہاں میں
تری شورش بھی بے کل ہے مگر میرؔ
ملا دے پیس کر بجلی فغاں میں
(۱۱۸۸)
تیغ کی نوبت کب پہنچے ہے اپنے جی کی غارت میں
عاشق زار کو مار رکھے ہے ایک ابرو کی اشارت میں
گذرے گر دل میں ہو کر تو ایک نگاہ ضروری ہے
کچھ کچھ تیرے غم نے لکھا ہے آ کر واں کی عمارت میں
سوکھ کے میں تو عشق کے غم میں خس کی مثال حقیر ہوا
وہ تقصیر نہیں کرتا ہے اب تک میری حقارت میں
۸۰۰۰
ایک بگولا ساتھ مجھے بھی تربت قیس پہ لے آیا
کتنے غزال نظر واں آئے تھے مشغول زیارت میں
دل کو آگ اک دم میں دے دی اشک ہوئے چنگاری سے
کیا ہی شریر ہے شوخی برق ملائی ان نے شرارت میں
شیخ جو تھا دیدار بتاں کا منکر ایسا تھا معذور
دل کو بصیرت تھی نہ اس کے بے نوری تھی بصارت میں
خط و کتابت ایک طرف ہے دفتر لکھ لکھ بھیجے میرؔ
کہیے کچھ جو صریر قلم کی کوتاہی ہو سفارت میں
(۱۱۸۸)
تری پلکیں چبھتی نظر میں بھی ہیں
یہ کانٹے کھٹکتے جگر میں بھی ہیں
۸۰۰۵
رہے پھرتے دریا میں گرداب سے
وطن میں بھی ہیں ہم سفر میں بھی ہیں
کہاں سے کہ مجنوں بھی ہم سا ہی تھا
غلط کے شوائب نظر میں بھی ہیں
نہ بھولو نزاکت لچک ہی نہیں
چھپے خنجر اس کی کمر میں بھی ہیں
جھمک سطح رخ کی سی اس کے کہاں
صفا و ضیا تو گہر میں بھی ہیں
دل و دلی دونوں اگر ہیں خراب
پہ کچھ لطف اس اجڑے گھر میں بھی ہیں
۸۰۱۰
چلو میرؔ کے تو تجسس کے بعد
کہ وے وحشی تو اپنے گھر میں بھی ہیں
(۱۱۸۸)
نہ کر شوق کشتوں سے جانے کی باتیں
نہیں آتیں کیا تجھ کو آنے کی باتیں
سماجت جو کی بوس لب پر تو بولا
نہیں خوب یہ مار کھانے کی باتیں
زبانیں بدلتے ہیں ہر آن خوباں
یہ سب کچھ ہیں بگڑے زمانے کی باتیں
نظر جب کرو زیر لب کچھ کہے ہے
کہو یار کے آستانے کی باتیں
۸۰۱۵
سہی جائے گالی اگر دوستی ہو
بری بھی بھلی ہیں لگانے کی باتیں
ہمیں دیر و کعبے سے کیا گفتگو ہے
چلی جاتی ہیں یہ سیانے کی باتیں
بگڑ بھی چکے یار سے ہم تو یارو
کرو کچھ اب اس سے بنانے کی باتیں
کیا سیر کل میں نے دیوان مجنوں
خوش آئیں بہت اس دوانے کی باتیں
بہت ہرزہ گوئی کی یاں میرؔ صاحب
کرو واں کے کچھ منھ دکھانے کی باتیں
۸۰۲۰
(۱۱۸۰)
کیا کروں سودائی اس کی زلف کی تدبیر میں
ظل ممدود چمن میں ہوں مگر زنجیر میں
گل تو مجھ حیران کی خاطر بہت کرتا ہے لیک
وا نہیں ہوتا برنگ غنچۂ تصویر میں
روبرو اس کے گئے خاموش ہو جاتا ہوں کچھ
کس سے اپنے چپکے رہنے کی کروں تقریر میں
تن بدن میں دل کی گرمی نے لگا رکھی ہے آگ
عشق کی تو ہے جوانی ہو گیا گو پیر میں
ہو اگر خونریز کا اپنے سبب تو کچھ کہو
وہ ستمگر ہے مقرر اور بے تقصیر میں
۸۰۲۵
بے دماغی شور شب سے یار کو دونی ہوئی
دیکھی بس اس بے سرایت نالے کی تاثیر میں
کچھ نہیں پوچھا ہے مجھ سے جز حدیث روئے یار
ہاتھ بلبل کے لگا ہوں باغ میں جب میرؔ میں
(۱۱۸۱)
کہتے ہیں بہار آئی گل پھول نکلتے ہیں
ہم کنج قفس میں ہیں دل سینوں میں جلتے ہیں
اب ایک سی بیہوشی رہتی نہیں ہے ہم کو
کچھ دل بھی سنبھلتے ہیں پر دیر سنبھلتے ہیں
وہ تو نہیں اک چھینٹا رونے کا ہوا گاہے
اب دیدۂ تر اکثر دریا سے ابلتے ہیں
۸۰۳۰
ان پاؤں کو آنکھوں سے ہم ملتے رہے جیسا
افسوس سے ہاتھوں کو اب ویسا ہی ملتے ہیں
کیا کہیے کہ اعضا سب پانی ہوئے ہیں اپنے
ہم آتش ہجراں میں یوں ہی پڑے گلتے ہیں
کرتے ہیں صفت جب ہم لعل لب جاناں کی
تب کوئی ہمیں دیکھے کیا لعل اگلتے ہیں
گل پھول سے بھی اپنے دل تو نہیں لگتے ٹک
جی لوگوں کے بے جاناں کس طور بہلتے ہیں
ہیں نرم صنم گونہ کہنے کے تئیں ورنہ
پتھر ہیں انھوں کے دل کاہے کو پگھلتے ہیں
۸۰۳۵
اے گرم سفر یاراں جو ہے سو سر رہ ہے
جو رہ سکو رہ جاؤ اب میرؔ بھی چلتے ہیں
(۱۱۸۲)
دل عجب جنس گراں قدر ہے بازار نہیں
وے بہا سہل جو دیتے ہیں خریدار نہیں
کچھ تمھیں ملنے سے بیزار ہو میرے ورنہ
دوستی ننگ نہیں عیب نہیں عار نہیں
ایک دو بات کبھو ہم سے کہو یا نہ کہو
قدر کیا اپنی ہمیں اس لیے تکرار نہیں
ناز و انداز و ادا عشوہ و اغماض و حیا
آب و گل میں ترے سب کچھ ہے یہی پیار نہیں
۸۰۴۰
صورت آئینے میں ٹک دیکھ تو کیا صورت ہے
بدزبانی تجھے اس منھ پہ سزاوار نہیں
دل کے الجھاؤ کو کیا تجھ سے کہوں اے ناصح
تو کسو زلف کے پھندے میں گرفتار نہیں
اس کے کاکل کی پہیلی کہو تم بوجھے میرؔ
کیا ہے زنجیر نہیں دام نہیں مار نہیں
(۱۱۸۳)
چمکنا برق کا کرتا ہے کار تیغ ہجراں میں
برسنا مینھ کا داخل ہے اس بن تیر باراں میں
بھرے رہتے ہیں سارے پھول ہی جس کے گریباں میں
وہ کیا جانے کہ ٹکڑے ہیں جگر کے میرے داماں میں
۸۰۴۵
کہیں شام و سحر رویا تھا مجنوں عشق لیلیٰ میں
ہنوز آشوب دونوں وقت رہتا ہے بیاباں میں
خیال یار میں آگے ہے یک مہ پارہ یاں ہر دم
اگر ہجراں میں زندانی ہوں پر ہوں یوسفستاں میں
رکھا عرصہ جنوں پر تنگ مشتاقوں کی دوری سے
کسے مارا ہے اس گھتیے نے سنمکھ ہوکے میداں میں
جہاں سے دیکھیے اک شعر شور انگیز نکلے ہے
قیامت کا سا ہنگامہ ہے ہر جا میرے دیواں میں
جو دیکھو تو نہیں یہ حال اپنا حسن سے خالی
دمک الماس کی سی ہے ہماری چشم حیراں میں
۸۰۵۰
خرابی آ گئی دینوں میں ملت گئی اسے دیکھے
ملے سے اس کے رخنے پڑ گئے لوگوں کے ایماں میں
نکل آتا ہے گھر سے ہر گھڑی ننگے بدن باہر
برا یہ آپڑا ہے عیب اس آسائش جاں میں
ستم کے تیر اس کے میرے سینے میں بہت ٹوٹے
کیا جاتا ہے مشکل فرق اب دل اور پیکاں میں
ہوائے ابر میں کیا میرؔ ہنستا باغ میں وہ تھا
گری پڑتی ہے بجلی آج کچھ صحن گلستاں میں
(۱۱۸۴)
تھا شوق مجھے طالب دیدار ہوا میں
سو آئینہ سا صورت دیوار ہوا میں
۸۰۵۵
جب دور گیا قافلہ تب چشم ہوئی باز
کیا پوچھتے ہو دیر خبردار ہوا میں
اب پست و بلند ایک ہے جوں نقش قدم یاں
پامال ہوا خوب تو ہموار ہوا میں
کب ناز سے شمشیر ستم ان نے نہ کھینچی
کب ذوق سے مرنے کو نہ تیار ہوا میں
بازار وفا میں سرسودا تھا سبھوں کو
پر بیچ کے جی ایک خریدار ہوا میں
ہشیار تھے سب دام میں آئے نہ ہم آواز
تھی رفتگی سی مجھ کو گرفتار ہوا میں
۸۰۶۰
کیا چیتنے کا فائدہ جو شیب میں چیتا
سونے کا سماں آیا تو بیدار ہوا میں
تم اپنی کہو عشق میں کیا پوچھو ہو میری
عزت گئی رسوائی ہوئی خوار ہوا میں
اس نرگس مستانہ کو دیکھے ہوئے برسوں
افراط سے اندوہ کی بیمار ہوا میں
رہتا ہوں سدا مرنے کے نزدیک ہی اب میرؔ
اس جان کے دشمن سے بھلا یار ہوا میں
(۱۱۸۵)
جلا از بس تمھارے طور سے اے جامہ زیباں ہوں
بھروسا کیا ہے میرا میں چراغ زیر داماں ہوں
۸۰۶۵
سر حرف و سخن کس کو خیال زلف میں اس کے
تنک میں جو بکھر جاتا ہوں میں خاطر پریشاں ہوں
کہن سالی میں شاہد بازیاں کاہے کو زیبا تھیں
دیا لڑکوں کو دل میں نے قیامت میں بھی ناداں ہوں
کبھو خورشید و مہ کو دیکھ رہتا ہوں کبھو گل کو
مرے انداز سے ظاہر ہے میں اس رو کا حیراں ہوں
کسو کی یاد رو میں اشک آنکھوں سے نہیں تھمتے
برنگ ابر قبلہ آج میں شدت سے گریاں ہوں
بکا جب تک نہیں کرتا ہوں تب تک خیر ہے ورنہ
بلا ہوں فتنہ ہوں آشوب ہوں آفت ہوں طوفاں ہوں
۸۰۸۰
بحال سگ پھرا کب تک کروں یوں اس کے کوچے میں
خجالت کھینچتا ہوں میرؔ آخر میں بھی انساں ہوں
(۱۱۸۶)
عشق وہ خانماں خراب ہے میاں
جس سے دل آگ و چشم آب ہے میاں
تن میں جب تک ہے جاں تکلف ہے
ہم میں اس میں ابھی حجاب ہے میاں
گو نہیں میں کسو شمار میں یاں
عاقبت ایک دن حساب ہے میاں
کو دماغ و جگر کہاں وہ قلب
یاں عجب ایک انقلاب ہے میاں
۸۰۸۵
زلف بل کھا رہی ہے گو اس کی
دل کو اپنے تو پیچ و تاب ہے میاں
لطف و مہر و وفا وہ کیا جانے
ناز ہے خشم ہے عتاب ہے میاں
لوہو اپنا پیوں ہوں چپکا ہوں
کس کو اس بن سر شراب ہے میاں
چشم وا یاں کی چشم بسمل ہے
جاگنا یہ نہیں ہے خواب ہے میاں
منھ سے کچھ بولتا نہیں قاصد
شاید اودھر سے اب جواب ہے میاں
۸۰۸۰
دل ہی اپنا نہیں فقط بے چین
جی کو بھی زور اضطراب ہے میاں
چاہیے وہ کہے سو لکھ رکھیں
ہر سخن میرؔ کا کتاب ہے میاں
(۱۱۸۸)
گرفتہ دل ہوں سر ارتباط مجھ کو نہیں
کسو سے شہر میں کچھ اختلاط مجھ کو نہیں
جہاں ہو تیغ بکف کوئی سادہ جا لگنا
اب اپنی جان کا کچھ احتیاط مجھ کو نہیں
کرے گا کون قیامت کو ریسماں بازی
دل و دماغ گذار صراط مجھ کو نہیں
۸۰۸۵
جسے ہو مرگ سا پیش استحالہ کیوں نہ کڑھے
اس اپنے جینے سے کچھ انبساط مجھ کو نہیں
ہوا ہوں فرط اذیت سے میں تو سن اے میرؔ
تمیز رنج و خیال نشاط مجھ کو نہیں
(۱۱۸۸)
جوش غم اٹھنے سے اک آندھی چلی آتی ہے میاں
خاک سی منھ پر مرے اس وقت اڑ جاتی ہے میاں
پڑ گئے سوراخ دل کے غم میں سینے کوٹتے
سل تو پتھر کی نہیں آخر مری چھاتی ہے میاں
میں حیا والا ہوا رسوائے عالم عشق میں
آنکھ میری اس سبب لوگوں سے شرماتی ہے میاں
۸۰۸۰
رشک اس کے چہرۂ پر نور کا ہے جاں گداز
شمع مجلس میں کھڑی اپنے تئیں کھاتی ہے میاں
آگ غیرت سے قفس کو دوں ہوں چاروں اور سے
ایک دو گلبرگ جب بادسحر لاتی ہے میاں
ہے حزیں نالیدن اس کا نغمۂ طنبور سا
خوش نوا مرغ گلستاں رند باغاتی ہے میاں
کیا کہوں منھ تک جگر آتا ہے جب رکتا ہے دل
جان میری تن میں کیسی کیسی گھبراتی ہے میاں
اس کے ابروئے کشیدہ خم ہی رہتے ہیں سدا
یہ کجی اس تیغ کی تو جوہر ذاتی ہے میاں
۸۰۸۵
گات اس اوباش کی لیں کیونکے بر میں میرؔ ہم
ایک جھرمٹ شال کا اک شال کی گاتی ہے میاں
(۱۱۸۸)
چنگاریاں گرے ہیں جب پلکیں ہلتیاں ہیں
رونے سے تب تو میری کچھ آنکھیں جلتیاں ہیں
آنکھیں ملا کے اس سے ٹک دیکھو حال دل کا
وے انکھڑیاں جیوں کو اپنے تو ملتیاں ہیں
ہم تو بھی فصل گل میں چل ٹک تو پاس بیٹھیں
سر جوڑ جوڑ کیسی کلیاں نکلتیاں ہیں
مذکور دخت رز کا کیا شیخ رہگذر میں
اس سے ابھی ہماری باتیں ہی چلتیاں ہیں
۸۱۰۰
دیکھیں تو میرؔ کیا ہو بے طاقتی سے حالت
اب دیر دیر جانیں اپنی سنبھلتیاں ہیں
(۱۲۰۰)
بہار آئی کھلے گل پھول شاید باغ و صحرا میں
جھلک سی مارتی ہے کچھ سیاہی داغ سودا میں
نفاق مردماں عاجز سے ہے زعم تکبر پر
کہوں کیا اتفاق ایسا بھی ہو جاتا ہے دنیا میں
نموداری ہماری بے کلی سے ایک چشمک ہے
ٹھہرنا برق سا اپنا ہے ہو چکنا اسی جا میں
سخن دس پانچ یاں ہیں جمع کس حسن لطافت سے
تفاوت ہے مرے مجموعہ و عقد ثریا میں
۸۱۰۵
کنواں دیکھا نہ کوئی غار میں نے شوق کے مارے
بعینہ راہ اندھا سا چلا اس کی تمنا میں
بہت تھا شور وحشت سر میں میرے سوچ نے تیری
لکھی تصویر تو زنجیر پہلے کھینچ لی پا میں
جدائی کے تعب کھینچے نہیں ہیں میرؔ راضی ہوں
جلاویں آگ میں یا مجھ کو پھینکیں قعر دریا میں
(۱۲۰۱)
شہروں ملکوں میں جو یہ میرؔ کہاتا ہے میاں
دیدنی ہے پہ بہت کم نظر آتا ہے میاں
عالم آئینہ ہے جس کا وہ مصور بے مثل
ہائے کیا صورتیں پردے میں بناتا ہے میاں
۸۱۱۰
قسمت اس بزم میں لائی کہ جہاں کا ساقی
دے ہے مے سب کو ہمیں زہر پلاتا ہے میاں
ہوکے عاشق ترے جان و دل و دیں کھو بیٹھے
جیسا کرتا ہے کوئی ویسا ہی پاتا ہے میاں
حسن یک چیز ہے ہم ہوویں کہ تو ہو ناصح
ایسی شے سے کوئی بھی ہاتھ اٹھاتا ہے میاں
جھکّڑ اس حادثے کا کوہ گراں سنگ کو بھی
جوں پر کاہ اڑائے لیے جاتا ہے میاں
کیا پری خواں ہے جو راتوں کو جگاوے ہے میرؔ
شام سے دل جگر و جان جلاتا ہے میاں
۸۱۱۵
(۱۲۰۲)
جائے ہے جی نجات کے غم میں
ایسی جنت گئی جہنم میں
نزع میں میرے ایک دم ٹھہرو
دم ابھی ہیں ہزار اک دم میں
نعل ہم چھاتیوں پہ جڑ کے پھرے
اپنے خوں گشتہ دل کے ماتم میں
ہے بہت جیب چاکی ہی جوں صبح
کیا کیا جائے فرصت کم میں
پرکے تھی بے کلی قفس میں بہت
دیکھیے اب کے گل کے موسم میں
۸۱۲۰
آپ میں ہم نہیں تو کیا ہے عجب
دور اس سے رہا ہے کیا ہم میں
بے خودی پر نہ میرؔ کی جاؤ
تم نے دیکھا ہے اور عالم میں
(۱۲۰۳)
جس کا خوباں خیال لیتے ہیں
دل کلیجا نکال لیتے ہیں
کیا نظر گاہ ہے کہ شرم سے گل
سر گریباں میں ڈال لیتے ہیں
دیکھ اسے ہو ملک سے بھی لغزش
ہم تو دل کو سنبھال لیتے ہیں
۸۱۲۵
کھول کر بال سادہ رو لڑکے
خلق کا کیوں وبال لیتے ہیں
تیغ کھینچے ہیں جب یہ خوش ظاہر
ماہ و خور منھ پہ ڈھال لیتے ہیں
دلبراں نقد دل کو عاشق کے
جان کر اپنا مال لیتے ہیں
ہیں گدا میرؔ بھی ولے دوجہاں
کر کے اک ہی سوال لیتے ہیں
(۱۲۰۴)
دور اس سے جی چکے ہیں ہم اس روزگار میں
دن آج کا بھی سانجھ ہوا انتظار میں
۸۱۳۰
داغوں سے بھر گیا ہے مرا سینۂ فگار
گل پھول زور زور کھلے اس بہار میں
کیا اعتبار طائر دل کی تڑپ کا اب
مذبوحی سی ہے کچھ حرکت اس شکار میں
بوسہ لبوں کا مانگتے ہی تم بگڑ گئے
بہتیری باتیں ہوتی ہیں اخلاص پیار میں
دل پھر کے ہم سے خانۂ زنجیر کے قریب
ٹک پہنچتا ہی ہے شکن زلف یار میں
اس بحرحسن پاس نہ خنجر تھا کل نہ تیغ
میں جان دی ہے حسرت بوس و کنار میں
چلتا ہے ٹک تو دیکھ کے چل پاؤں ہر نفس
آنکھیں ہی بچھ گئی ہیں ترے رہگذار میں
۸۱۳۵
کس کس ادا سے ریختے میں نے کہے ولے
سمجھا نہ کوئی میری زبان اس دیار میں
تڑپے ہے متصل وہ کہاں ایسے روز و شب
ہے فرق میرؔ برق و دل بے قرار میں
(۱۲۰۵)
کیسی وفا و الفت کھاتے عبث ہو قسمیں
مدت ہوئی اٹھا دیں تم نے یہ ساری رسمیں
ساون تو اب کے ایسا برسا نہیں جو کہیے
روتا رہا ہوں میں ہی دن رات اس برس میں
۸۱۴۰
گھبرا کے یوں لگے ہے سینے میں دل تڑپنے
جیسے اسیر تازہ بیتاب ہو قفس میں
جانکاہ ایسے نالے لوہے سے تو نہ ہوویں
بیتاب دل کسو کا رکھا ہے کیا جرس میں
اب لاغری سے دیں ہیں ساری رگیں دکھائی
پر عشق بھر رہا ہے ایک ایک میری نس میں
اے ابر ہم بھی برسوں روتے پھرا کیے ہیں
دریا بندھے پڑے ہیں وادی کے خار و خس میں
کیا میرؔ بس کرے ہے اب زاری آہ شب کی
دل آ گیا ہے اس کا ظالم کسو کے بس میں
۸۱۴۵
(۱۲۰۶)
روتے ہیں نالہ کش ہیں یا رات دن جلے ہیں
ہجراں میں اس کے ہم کو بہتیرے مشغلے ہیں
جوں دود عمر گذری سب پیچ و تاب ہی میں
اتنا ستا نہ ظالم ہم بھی جلے بلے ہیں
مرنا ہے خاک ہونا ہو خاک اڑتے پھرنا
اس راہ میں ابھی تو درپیش مرحلے ہیں
کس دن چمن میں یارب ہو گی صبا گل افشاں
کتنے شکستہ پر ہم دیوار کے تلے ہیں
جب یاد آ گئے ہیں پائے حنائی اس کے
افسوس سے تب اپنے ہم ہاتھ ہی ملے ہیں
۸۱۵۰
تھا جو مزاج اپنا سو تو کہاں رہا ہے
پر نسبت اگلی تو بھی ہم ان دنوں بھلے ہیں
کچھ وہ جو کھنچ رہا ہے ہم کانپتے ہیں ڈر سے
یاں جوں کمان گھر میں ہر وقت زلزلے ہیں
اک شور ہی رہا ہے دیوانہ پن میں اپنے
زنجیر سے ہلے ہیں گر کچھ بھی ہم ہلے ہیں
پست و بلند دیکھیں کیا میرؔ پیش آئے
اس دشت سے ہم اب تو سیلاب سے چلے ہیں
(۱۲۰۸)
شرر سے اشک ہیں اب چشم تر میں
لگی ہے آگ اک میرے جگر میں
۸۱۵۵
نگین عاشق و معشوق کے رنگ
جدا رہتے ہیں ہم وے ایک گھر میں
بلا ہنگامہ تھا کل اس کے در پر
قیامت گم ہوئی اس شور و شر میں
بگولے کی روش وحشت زدہ ہم
رہے برچیدہ دامن اس سفر میں
سماں یاں سانجھ کا سا ہو نہ جاتا
اثر ہوتا اگر آہ سحر میں
لچکنے ہی نے ہم کو مار رکھا
کٹاری تو نہ تھی اس کی کمر میں
۸۱۶۰
رہا تھا دیکھ اودھر میرؔ چلتے
عجب اک ناامیدی تھی نظر میں
(۱۲۰۸)
اثر ہوتا ہماری گر دعا میں
لگ اٹھتی آگ سب جوِّ سما میں
نہ اٹکا ہائے ٹک یوسفؑ کا مالک
وگرنہ مصر سب ملتا بہا میں
قصور اپنے ہی طول عمر کا تھا
نہ کی تقصیر ان نے تو جفا میں
سخن مشتاق ہیں بندے کے سب لوگ
سر و دل کس کو ہے عشق خدا میں
۸۱۶۵
کفن کیا عشق میں میں نے ہی پہنا
کھنچے لوہو میں بہتیروں کے جامیں
پیام اس گل کو اس کے ہاتھ دیتے
سبک پائی نہ ہوتی گر صبا میں
جیو خوش یا کوئی ناخوش ہمیں کیا
ہم اپنے محو ہیں ذوق فنا میں
ہمیں فرہاد و مجنوں جس سے چاہو
تم آ کر پوچھ لو شہر وفا میں
سراپا ہی ادا و ناز ہے یار
قیامت آتی ہے اس کی ادا میں
۸۱۸۰
بلا زلف سیاہ اس کی ہے پر پیچ
وطن دل نے کیا ہے کس بلا میں
ضعیف و زار تنگی سے ہیں ہرچند
ولیکن میرؔ اڑتے ہیں ہوا میں
(۱۲۰۸)
نچیں جب ہے عاشق اگر دست پائیں
خدا نُہ نہ دے ان کو جو سر کھجائیں
جھمکنے لگا خوں تو جائے سرشک
ابھی دیکھیں آنکھیں ہمیں کیا دکھائیں
رہیں کس کو سانسے کہ اب ضعف سے
مرا جی ہی کرنے لگا سائیں سائیں
۸۱۸۵
خدا ساز تھا آزر بت تراش
ہم اپنے تئیں آدمی تو بنائیں
چلا یار کی اور جاتا ہے جی
جو ہو اختیاری تو اودھر نہ جائیں
جگر سوز ہیں اس کے لعل خموش
طلب کریے بوسہ تو باتیں بنائیں
ہمیں بے نیازی نے بٹھلا دیا
کہاں اتنی طاقت کہ منت اٹھائیں
کہیں دیکھے وہ بید مجنوں کہ ہم
فراموش کار اپنے کو تا دکھائیں
۸۱۸۰
کہیں میرؔ عشق مجازی ہے بد
حقیقت ہو معلوم گر دل لگائیں
(۱۲۱۰)
اب کے ماہ رمضاں دیکھا تھا پیمانے میں
بارے سب روزے تو گذرے مجھے میخانے میں
جیسے بجلی کے چمکنے سے کسو کی سدھ جائے
بے خودی آئی اچانک ترے آ جانے میں
وہ تو بالیں تئیں آیا تھا ہماری لیکن
سدھ بھی کچھ ہم کو نہ تھی جانے کے گھبرانے میں
آج سنتے ہیں کہ فردا وہ قد آرا ہو گا
دیر کچھ اتنی قیامت کے نہیں آنے میں
۸۱۸۵
حق جو چاہے تو بندھی مٹھی چلا جاؤں میرؔ
مصلحت دیکھی نہ میں ہاتھ کے پھیلانے میں
(۱۲۱۱)
میں نالہ کش تھا صبح کو یادحبیب میں
سوراخ پڑ گئے جگر عندلیب میں
سر مارتے ہیں سنگ سے فرہاد کے سے رنگ
دیکھیں تو ہم بھی کیا ہے ہمارے نصیب میں
جانے کو سوئے دوست مسافر ہوئے ہیں ہم
ڈر ہر قدم ہے عشق کی راہ غریب میں
کیا رفتگاں کے ہاتھ سے ہو کتنے ان کے پاؤں
اکثر جنھوں کا ہاتھ ہے دست طبیب میں
۸۱۸۰
دل خستہ چشم بستہ و رو زرد تس پہ گرد
حیرت ہے ہم کو میرؔ کے حال عجیب میں
(۱۲۱۲)
افیوں ہی کے تو دل شدہ ہم رو سیاہ ہیں
ہو تخت کچھ دماغ تو ہم پادشاہ ہیں
یاں جیسے شمع بزم اقامت نہ کر خیال
ہم دل کباب پردے میں سرگرم راہ ہیں
کہنا نہ کچھ کبھو کھڑے حسرت سے دیکھنا
ہم کشتنی ہیں واقعی گر بے گناہ ہیں
گہ مہرباں ہوں دور سے گہ آنکھیں پھیر لیں
معشوق آفتاب ہیں عشاق ماہ ہیں
۸۱۸۵
آنکھیں ہماری پاؤں تلے کیوں نہ وہ ملے
ہم بھی تو میرؔ کشتۂ طرز نگاہ ہیں
(۱۲۱۳)
مجھ کو دماغ وصف گل و یاسمن نہیں
میں جوں نسیم باد فروش چمن نہیں
کہنے لگا کہ لب سے ترے لعل خوب ہے
اس رنگ ڈھنگ سے تو ہمارا سخن نہیں
پہنچا نہ ہو گا منزل مقصود کے تئیں
خاک رہ اس کی جس کا عبیر کفن نہیں
ہم کو خرام ناز سے مت خاک میں ملا
دل سے ہے جن کو راہ یہ ان کا چلن نہیں
۸۲۰۰
گل کام آوے ہے ترے منھ کے نثار کے
صحبت رکھے جو تجھ سے یہ اس کا دہن نہیں
کل جا کے ہم نے میرؔ کے ہاں یہ سنا جواب
مدت ہوئی کہ یاں تو وہ غربت وطن نہیں
(۱۲۱۴)
ہجر تا چند ہم اب وصل طلب کرتے ہیں
لگ گیا ڈھب تو اسی شوخ سے ڈھب کرتے ہیں
روز اک ظلم نیا کرتے ہیں یہ دلبر اور
روز کہتے ہیں ستم ترک ہم اب کرتے ہیں
لاگ ہے جی کے تئیں اپنے اسی یار سے ایک
اور سب یاروں کا ہم لوگ تو سب کرتے ہیں
۸۲۰۵
تم کبھو میرؔ کو چاہو سو کہ چاہیں ہیں تمھیں
اور ہم لوگ تو سب ان کا ادب کرتے ہیں
ہوں جو بے حال اس اعجوبۂ عالم کے لیے
حال سن سن کے مرا لوگ عجب کرتے ہیں
میرؔ سے بحث یہ تھی کچھ جو نہ تھے حرف شناس
اب سخن کرتے ہیں کوئی تو غضب کرتے ہیں
(۱۲۱۵)
مدت ہوئی کہ کوئی نہ آیا ادھر سے یاں
جاتی رہے گی جان اسی رہگذر سے یاں
وہ آپ چل کے آوے تو شاید کہ جی رہے
ہوتی نہیں تسلی دل اب خبر سے یاں
۸۲۱۰
پوچھے کوئی تو سینہ خراشی دکھائیے
سو تو نہیں ہے حرف و حکایت ہنر سے یاں
آگے تو اشک پانی سے آ جاتے تھے کبھو
اب آگ ہی نکلنے لگی ہے جگر سے یاں
ٹپکا کریں ہیں پلکوں سے بے فاصلہ سرشک
برسات کی ہوا ہے سدا چشم تر سے یاں
اے بت گرسنہ چشم ہیں مردم نہ ان سے مل
دیکھیں ہیں ہم نے پھوٹتے پتھر نظر سے یاں
راہ و روش کا ہووے ٹھکانہ تو کچھ کہیں
کیا جانے میرؔ آ گئے تھے کل کدھر سے یاں
۸۲۱۵
(۱۲۱۶)
مصرع کوئی کوئی کبھو موزوں کروں ہوں میں
کس خوش سلیقگی سے جگر خوں کروں ہوں میں
بات اپنے ڈھب کی کوئی کرے وہ تو کچھ کہوں
بیٹھا خموش سامنے ہوں ہوں کروں ہوں میں
اس بن نظر زمین سے سی دی ہے تو کہے
کاہے کو چشم جانب گردوں کروں ہوں میں
اٹھتا ہے بے دماغ ہی ہرچند رات کو
افسانہ کہتے سینکڑوں افسوں کروں ہوں میں
کب بے دماغی شہر سے دیتی ہے اٹھنے میرؔ
یوں تو خیال وادی مجنوں کروں ہوں میں
۸۲۲۰
(۱۲۱۸)
تا چند وہ ستم کرے ہم درگذر کریں
اب جی میں ہے کہ شہر سے اس کے سفر کریں
بے رو سے ایسی بات کے کرنے کا لطف کیا
وہ منھ کو پھیر پھیر لے ہم حرف سر کریں
کب تک ہم انتظار میں ہر لحظہ بے قرار
گھر سے نکل نکل کے گلی میں نظر کریں
فرہاد و قیس کوہکن و دشت گرد تھے
منھ نوچیں چھاتی کوٹیں یہی ہم ہنر کریں
سختی مسلم اس سے جدا رہنے میں ولے
سر سنگ سے نہ ماریں تو کیوں کر بسر کریں
۸۲۲۵
وہ تو نہیں کہ دیکھیں اس آئینہ رو کو صبح
ہم کس امید پر شب غم کو سحر کریں
لاویں کہاں سے خون دل اتنا کہ میرؔ ہم
جس وقت بات کرنے لگیں چشم تر کریں
(۱۲۱۸)
تکیے میں اپنے دل کا ہم غم کیا کریں ہیں
درویش کتنے ماتم باہم کیا کریں ہیں
جب نام دل کا کوئی لے بیٹھتا ہے ناگہ
منھ دیکھ ہم دگر کا ماتم کیا کریں ہیں
مستوں کی بات کیا ہے جو کوئی اس پہ جاوے
ہم گفتگو نشے میں درہم کیا کریں ہیں
۸۲۳۰
حکم فسانہ سازی پیدا کریں ہیں شب کو
افسوں ہم اس کے اوپر جو دم کیا کریں ہیں
کچھ چال میرؔ جی کی آتی نہیں سمجھ میں
ہم بھی سلوک ان سے اب کم کیا کریں ہیں
ردیف و
(۱۲۱۸)
قتل کیے پر غصہ کیا ہے لاش مری اٹھوانے دو
جان سے بھی ہم جاتے رہے ہیں تم بھی آؤ جانے دو
جان سلامت لے کر جاوے کعبہ میں تو سلام کریں
ایک جراحت ان ہاتھوں کا صید حرم کو کھانے دو
اس کی گلی کی خاک سبھوں کے دامن دل کو کھینچے ہے
ایک اگر جی لے بھی گیا تو آتے ہیں مر جانے دو
۸۲۳۵
کرتے ہو تم نیچی نظریں یہ بھی کوئی مروت ہے
برسوں سے پھرتے ہیں جدا ہم آنکھ سے آنکھ ملانے دو
کیا کیا اپنے لوہو پئیں گے دم میں مریں گے دم میں جئیں گے
دل جو بغل میں رہ نہیں سکتا اس کو کسو سے بکانے دو
اب کے بہت ہے شور بہاراں ہم کو مت زنجیر کرو
دل کی ہوس ٹک ہم بھی نکالیں دھومیں ہم کو مچانے دو
عرصہ کتنا سارے جہاں کا وحشت پر جو آ جاویں
پاؤں تو ہم پھیلاویں گے پر فرصت ہم کو پانے دو
کیا جاتا ہے اس میں ہمارا چپکے ہم تو بیٹھے ہیں
دل جو سمجھنا تھا سو سمجھا ناصح کو سمجھانے دو
۸۲۴۰
ضعف بہت ہے میرؔ تمھیں کچھ اس کی گلی میں مت جاؤ
صبر کرو کچھ اور بھی صاحب طاقت جی میں آنے دو
بات بنانا مشکل سا ہے شعر سبھی یاں کہتے ہیں
فکر بلند سے یاروں کو ایک ایسی غزل کہہ لانے دو
(۱۲۲۰)
گردش میں وے مست آنکھیں ہیں جیسے بھرے پیمانے دو
دانت سنا ہے جھمکیں ہیں اس کے موتی کے سے دانے دو
خوب نہیں اے شمع کی غیرت ساتھ رہیں بیگانے دو
کب فرمان پہ تیرے ہوئے یہ بازو کے پروانے دو
ایسے بہانہ طلب سے ہم بھی روز گذاری کرتے ہیں
کب وعدے کی شب آئی جو ان نے کیے نہ بہانے دو
۸۲۴۵
تیرستم اس دشمن جاں کا تا دو کماں پر ہو نہ کہیں
دل سے اور جگر سے اپنے ہم نے رکھیں ہیں نشانے دو
کس کو دماغ رہا ہے یاں اب ضدیں اس کی اٹھانے کا
چار پہر جب منت کریے تب وہ باتیں مانے دو
غم کھاویں یا غصہ کھاویں یوں اوقات گذرتی ہے
قسمت میں کیا خستہ دلوں کی یہ ہی لکھے تھے کھانے دو
خال سیاہ و خط سیاہ ایمان و دل کے رہزن تھے
اک مدت میں ہم نے بارے چوٹٹے یہ پہچانے دو
عشق کی صنعت مت پوچھو جوں نیچے بھوؤں کے چشم بتاں
دیکھیں جہاں محرابیں ان نے طرح کیے میخانے دو
۸۲۵۰
رونے سے تو پھوٹیں آنکھیں دل کو غموں نے خراب کیا
دیکھنے قابل اس کے ہوئے ہیں اب تو یہ ویرانے دو
دشت و کوہ میں میرؔ پھرو تم لیکن ایک ادب کے ساتھ
کوہکن و مجنوں بھی تھے اس ناحیے میں دیوانے دو
(۱۲۲۱)
دوست رکھتا ہوں بہت اپنے دل بیمار کو
خوں کیا ہے مدتوں اس میں غم بسیار کو
جز عزیز از جاں نہیں یوسف کو لکھتا یہ کبھو
کیا غرور میرزائی ہے ہمارے یار کو
جب کبھو ایدھر سے نکلے ہے تو اک حسرت کے ساتھ
دیکھے ہے خورشید اس کے سایۂ دیوار کو
۸۲۵۵
بوجھ تو اچھا تھا پر آخر گرو رکھتے ہوئے
وجہ جام مے نہ پایا خرقہ و دستار کو
خوں چکاں شکوے ہیں دل سے تا زباں میری ولے
سی لیا ہے تو کہے میں نے لب اظہار کو
تصفیے سے دل میں میرے منھ نظر آتا ہے لیک
کیا کروں آئینہ ساں میں حسرت دیدار کو
عاشقی وہ روگ ہے جس میں کہ ہو جاتی ہے یاس
اچھے ہوتے کم سنا ہے میرؔ اس آزار کو
(۱۲۲۲)
تم بن چمن کے گل نہیں چڑھتے نظر کبھو
یہ کیا روش ہے آؤ چلے ٹک ادھر کبھو
۸۲۶۰
دریا سی آنکھیں بہتی ہی رہتی تھیں سو کہاں
ہوتی ہے کوئی کوئی پلک اب تو تر کبھو
جی جانے ہے جو اپنے پہ ہوتی ہے مار مار
جاتے ہیں اس گلی میں کہاں ہم مگر کبھو
آنکھیں سفید ہو چلی ہیں راہ دیکھتے
یارب انھوں کا ہو گا ادھر بھی گذر کبھو
مدت ہوئی ہے نامہ کبوتر کو لے گئے
آ جاتی ہے کچھ اڑتی سی ہم تک خبر کبھو
ہم جستجو میں ان کی کیے دست و پا بھی گم
افسوس ہے کہ آئے نہ وہ راہ پر کبھو
۸۲۶۵
غم کو تمھارے دل کے نہایت نہیں ہے میرؔ
اس قصے کو کرو گے بھی تم مختصر کبھو
(۱۲۲۳)
یہ سرا سونے کی جاگہ نہیں بیدار رہو
ہم نے کر دی ہے خبر تم کو خبردار رہو
آپ تو ایسے بنے اب کہ جلے جی سب کا
ہم کو کہتے ہیں کہ تم جی کے تئیں مار رہو
لاگ اگر دل کو نہیں لطف نہیں جینے کا
الجھے سلجھے کسو کاکل کے گرفتار رہو
گرچہ وہ گوہر تر ہاتھ نہیں لگتا لیک
دم میں دم جب تئیں ہے اس کے طلبگار رہو
۸۲۸۰
سارے بازار جہاں کا ہے یہی مول اے میرؔ
جان کو بیچ کے بھی دل کے خریدار رہو
(۱۲۲۴)
کرنا شعار خوب ہے عجز و نیاز کو
بے وقر جانتے ہیں دل بے گداز کو
ہجراں کی سرگذشت مری گفتنی نہیں
کیا کہیے تم سے قصۂ دور و دراز کو
جوں شمع سر کٹے ہے بیاں حال کا کیے
لانا زباں پہ خوب نہیں دل کے راز کو
حیران ہو رہو گے جو ہم ہو چکے کبھی
دیکھا نہیں ہے مرتے کسو عشق باز کو
۸۲۸۵
جانکاہ و دل خراش ہیں سارے ترے سلوک
دل ہم تو دیتے کاش کسو دل نواز کو
صوفی کی پارسائی کی ہے خانقہ میں دھوم
لے چلیے گا کبھو ادھر اس مست ناز کو
ہے دور ادب سے تم کھڑے میں پاکشیدہ ہوں
مت آئیو جنازے کی میرے نماز کو
(۱۲۲۵)
سر کاٹ کے ڈلوا دیے انداز تو دیکھو
پامال ہے سب خلق جہاں ناز تو دیکھو
کچھ سوجھ نہیں پڑتی تمھیں بے خبری سے
ٹک ہوش کی آنکھوں کو کرو باز تو دیکھو
۸۲۸۰
اس بت سے نہیں جب تئیں صحبت تو نہیں ہے
یہ ڈول جو ہوتا ہے خدا ساز تو دیکھو
شب آنکھ مری لگنے نہیں دیتی ہے بلبل
اس مرغ کی بیتابی آواز تو دیکھو
دل ایک تڑپنے میں پرے عرش کے پایا
اس طائر بے بال کی پرواز تو دیکھو
کی زلف و خط و خال نے ایک اور قیامت
تصویر سے چہرے پہ یہ پرداز تو دیکھو
سب میرؔ کو دیتے ہیں جگہ آنکھوں پر اپنی
اس خاک رہ عشق کا اعزاز تو دیکھو
۸۲۸۵
(۱۲۲۶)
آرسی اس کے سامنے دھر لو
کب ہے ویسی مواجہ کر لو
اس کی تیغ ستم بلند ہوئی
جی ہے مرنے کو تو چلو مر لو
در پئے خوں ہیں میرے خورد و کلاں
یہ وبال اپنے کوئی سر پر لو
کچھ طرح ہو کہ بے طرح ہو حال
عمر کے دن کسو طرح بھر لو
کیا بلا خیز جا ہے کوچۂ عشق
تم بھی یاں میرؔ مول اک گھر لو
۸۲۸۰
(۱۲۲۸)
کھینچنا رنج و تعب کا دوستاں عادت کرو
تب کسی ناآشنائے مہر سے الفت کرو
روٹھ کر منتا نہیں وہ شوخ یوں کیوں نہ کوئی
عذر چاہو دیر تک مدت تلک منت کرو
کب تک اے صورت گراں حیراں پھروں بے روئے یار
نقش اس کا کھینچ رکھنے کی کوئی صورت کرو
انس اگر ان نو خطان شہر سے منظور ہے
اپنی پرچھائیں سے بھی جوں خامہ تم وحشت کرو
کچھ نہ پوچھو صحبت دیروزہ کی کم فرصتی
جوں ہی جا بیٹھے لگا کہنے انھیں رخصت کرو
۸۲۸۵
عشق میں کیا دخل ہے نازک مزاجی کے تئیں
کوہکن کے طور سے جی توڑ کر محنت کرو
پہلے دیوانے ہوئے پھر میرؔ آخر ہو گئے
ہم نہ کہتے تھے کہ صاحب عاشقی تم مت کرو
(۱۲۲۸)
بہرفردوس ہو آدم کو الم کاہے کو
وقف اولاد ہے وہ باغ تو غم کاہے کو
کہتے ہیں آوے گا ایدھر وہ قیامت رفتار
چلتے پھرتے رہیں گے تب تئیں ہم کاہے کو
یہ بھی اک ڈھب ہے نہ ایذا نہ کسو کو راحت
رحم موقوف کیا ہے تو ستم کاہے کو
۸۳۰۰
نرگس ان آنکھوں کو جو لکھ گئے نابینا تھے
اپنے نزدیک ہیں وے دست قلم کاہے کو
اس کی تلوار سے گر جان کو رکھتے نہ عزیز
مرتے اس خواری سے تو صید حرم کاہے کو
چشم پوشی کا مری جان تمھیں لپکا ہے
کھاتے ہو دیدہ درائی سے قسم کاہے کو
میری آنکھوں پہ رکھو پاؤں جو آؤ لیکن
رکھتے ہو ایسی جگہ تم تو قدم کاہے کو
دل کو کہتے ہیں کہ اس گنج رواں کا گھر ہے
اس خرابے میں کرے ہے وہ کرم کاہے کو
۸۳۰۵
شور نے نام خدا ان کے بلا سر کھینچا
میرؔ سا ہے کوئی عالم میں علم کاہے کو
(۱۲۲۸)
غریب شہر خوباں ہوں مرا کچھ حال مت پوچھو
ہوا جی زلف و کاکل کے لیے جنجال مت پوچھو
دل صد پارہ کو پیوند کرتا ہوں جدائی میں
کرے ہے کہنہ نسخہ وصل جوں وصّال مت پوچھو
جگر جل کر ہوا ہے کوئلہ بیتاب تو بھی ہوں
طپش سے دل کی میرے سر پہ ہے دھمال مت پوچھو
تعجب ہے کہ دل اس گنج سرگشتہ میں رہتا ہے
خرابے جس سے یہ پاتے ہیں مالامال مت پوچھو
۸۳۱۰
لگا جی اس کی زلفوں سے بہت ہم میرؔ پچھتائے
ہوا ہے مدعی ایک ایک اپنا بال مت پوچھو
(۱۲۳۰)
بارے دنیا میں رہو غم زدہ یا شاد رہو
ایسا کچھ کر کے چلو یاں کہ بہت یاد رہو
عشق پیچے کی طرح حسن گرفتاری ہے
لطف کیا سرو کی مانند گر آزاد رہو
ہم کو دیوانگی شہروں ہی میں خوش آتی ہے
دشت میں قیس رہو کوہ میں فرہاد رہو
وہ گراں خواب جو ہے ناز کا اپنے سو ہے
داد بے داد رہو شب کو کہ فریاد رہو
۸۳۱۵
میرؔ ہم مل کے بہت خوش ہوئے تم سے پیارے
اس خرابے میں مری جان تم آباد رہو
(۱۲۳۱)
زلفوں کو میں چھوا سو غصے ہوئے کھڑے ہو
یہ بات ایسی کیا ہے جس پر الجھ پڑے ہو
منھ پھیر پھیر لو ہو ہر بات میں ادھر سے
یاں کس ستم زدہ سے آزردہ ہو لڑے ہو
نرمی مخالفوں سے سختی موافقوں سے
واں موم سے بنے ہو یاں لوہے سے کڑے ہو
مل جاؤ مغبچوں سے تو داڑھی ہو تبرک
ہر چند شیخ صاحب تم بوڑھے ہو بڑے ہو
۸۳۲۰
ہوتے ہیں خاک رہ بھی لیکن نہ میرؔ ایسے
رستے میں آدھے دھڑ تک مٹی میں تم گڑے ہو
(۱۲۳۲)
زخموں پہ اپنے لون چھڑکتے رہا کرو
دل کو مزے سے بھی تو تنک آشنا کرو
کیا آنکھ بند کر کے مراقب ہوئے ہو تم
جاتے ہیں کیسے کیسے سمیں چشم وا کرو
موقوف ہرزہ گردی نہیں کچھ قلندری
زنجیر سر اتار کے زنجیر پا کرو
ہر چند اس متاع کی اب قدر کچھ نہیں
پر جس کسو کے ساتھ رہو تم وفا کرو
۸۳۲۵
تدبیر کو مزاج محبت میں دخل کیا
جانکاہ اس مرض کی نہ کوئی دوا کرو
طفلی سے تم نے لطف و غضب مختلط کیے
ٹک مہر کو جدا کرو غصہ جدا کرو
بیٹھے ہو میرؔ ہو کے در کعبہ پر فقیر
اس روسیہ کے باب میں بھی کچھ دعا کرو
(۱۲۳۳)
سر پہ عاشق کے نہ یہ روز سیہ لایا کرو
جی الجھتا ہے بہت مت بال سلجھایا کرو
تاب مہ کی تاب کب ہے نازکی سے یار کو
چاندنی میں آفتابی کا مگر سایہ کرو
۸۳۳۰
گرچہ شان کفر ارفع ہے ولے اے راہباں
ایک دو ہم سوں کو بھی زنار بندھوایا کرو
شوق سے دیدار کے بھی آنکھوں میں کھنچ آیا جی
اس سمیں میں دیکھنے ہم کو بہت آیا کرو
کوہکن کی ہے قدم گاہ آخر اے اہل وفاق
طوف کرنے بے ستوں کا بھی کبھی جایا کرو
فرق یار و غیر میں بھی اے بتاں کچھ چاہیے
اتنی ہٹ دھرمی بھی کیا انصاف فرمایا کرو
کب میسر اس کے منھ کا دیکھنا آتا ہے میرؔ
پھول گل سے اپنے دل کو تم بھی بہلایا کرو
۸۳۳۵
(۱۲۳۴)
کہتا ہے کون میرؔ کہ بے اختیار رو
ایسا تو رو کہ رونے پہ تیرے ہنسی نہ ہو
پایا گیا وہ گوہر نایاب سہل کب
نکلا ہے اس کو ڈھونڈنے تو پہلے جان کھو
کام اس کے لب سے ہے مجھے بنت العنب سے کیا
ہے آب زندگی بھی تو لے جائے مردہ شو
سنتے نہیں کہے جو نہ کہیے تو دم رکے
کچھ پوچھیے نہ قصہ ہمارا ہے گومگو
مشعر ہے بے دماغی پہ مطلق نہ بولنا
ہم دیں تمھیں دعا ہمیں تم گالیاں تو دو
۸۳۴۰
کرنا جگر ضرور ہے دل دادگاں کو بھی
وہ بولتا نہیں تو تم آپھی سے چھیڑ لو
اے غافلان دہر یہ کچھ راہ کی ہے بات
چلنے کو قافلے ہیں یہاں تم رہے ہوسو
گردش میں جو کوئی ہو رکھے اس سے کیا امید
دن رات آپھی چرخ میں ہے آسمان تو
جب دیکھتے ہیں پاؤں ہی دابو ہو اس کے میرؔ
کیوں ہوتے ہو ذلیل تم اتنا تو مت دبو
(۱۲۳۵)
رکھو مت سر چڑھائے دلبروں کے گوندھے بالوں کو
کھلانا کھولنا مشکل بہت ہے ایسے کالوں کو
۸۳۴۵
اڑایا غم نے ان کے سوکھے پتوں کی روش ہم کو
الٰہی سبز رکھیو باغ خوبی کے نہالوں کو
جہاں دیکھو کہا کرتے ہیں اس کے عشق کے غم میں
نہ ہم دوچار بیٹھے دل شکستے اپنے حالوں کو
نہ چشم کم سے مجھ درویش کی آوارگی دیکھو
تبرک کرتے ہیں کانٹے مرے پاؤں کے چھالوں کو
کرے ہے جس پہ بلبل غش سو یہ اس جنس کی قیمت
نہیں افسوس آنکھیں بے حقیقت پھول والوں کو
دل عاشق کو رو کیا جانوں خوباں کیوں نہیں دیتے
بہت آئینے سے تو ربط ہے صاحب جمالوں کو
۸۳۵۰
یہی کچھ وہم سی ہے سہل کب آئے قیاسوں میں
تفکر اس کمر کا کھا گیا نازک خیالوں کو
نہ ایسی طرز دیدن ہے نہ ہرنوں کی یہ چتون ہے
کبھو جنگل میں لے چلیے گا ان شہری غزالوں کو
کوئی بھی اس طرح سے اپنے جی پر کھیل جاتا ہے
مگر بازیچہ سمجھے میرؔ عشق خوردسالوں کو
(۱۲۳۶)
رہتا ہے پیش دیدۂ تر آہ کا سبھاؤ
جیسے مصاحب ابر کی ہوتی ہے کوئی باؤ
برسے گی برف عرصۂ محشر میں دشت دشت
گر میری سرد آہوں کا واں ہو گیا جماؤ
۸۳۵۵
حاصل کوئی امید ہوئی ہو تو میں کہوں
خوں ہی ہوا کیے ہیں مرے دل میں سارے چاؤ
آنکھوں کے آگے رونے سے میرے محیط ہے
ابروں سے جا کہے کوئی پانی پیو تو آؤ
رہتی تھی اشک خونیں میں ڈوبی سب آستیں
اس چشم بحر خوں کے کبھو دیکھے ہیں چڑھاؤ
اظہار درد اگرچہ بہت بے نمک ہے پر
ٹک بیٹھو تو دکھاویں تمھیں چھاتیوں کے گھاؤ
آ عاشقوں کی آنکھوں میں ٹکائے بہ دل قریب
ان منظروں سے بھی ہے بہت دور تک دکھاؤ
۸۳۶۰
صحبت جو اس سے رہتی ہے کیا نقل کریے ہائے
جب آ گئے ہیں ہم تو کہا ان نے یاں سے جاؤ
صد چاک اپنے دل سے تو بگڑا ہی کی وہ زلف
افسوں کیا ہے شانے نے جو اس سے ہے بناؤ
اس ہی زمیں میں میرؔ غزل اور ایک کہہ
گو خوش نہ آوے سامعوں کو بات کا بڑھاؤ
(۱۲۳۸)
سب کھا گئے جگر تری پلکوں کے کاو کاو
ہم سینہ خستہ لوگوں سے بس آنکھ مت لگاؤ
آنکھوں کا جھڑ برسنے سے ہتھیا کے کم نہیں
پل مارتے ہے پیش نظر ہاتھی کا ڈباؤ
۸۳۶۵
کشتی چشم ڈوبی رہی بحر اشک میں
آئی نہ پار ہوتی نظر عاشقوں کی ناؤ
سینے کے اپنے زخم سے خاطر ہو جمع کیا
دل ہی کی اور پاتے ہیں سب لوہو کا بہاؤ
بیتابی دل افعی خامہ نے کیا لکھی
کاغذ کو شکل مار سراسر ہے پیچ تاؤ
ہرچند جانیں جاتی ہیں پر تیغ جور سے
تم کو ہمارے سر کی سوں تم ہاتھ مت اٹھاؤ
سر نیچے ہو تو پاؤں ترا دابیں ہم کبھی
دبتا وہی ہے جس کے تئیں کچھ بھی ہو دباؤ
۸۳۸۰
چاک قفس سے آنکھیں لگیں کب تلک رہیں
اک برگ گل نسیم ہماری طرف بھی لاؤ
غیرت کا عشق کی ہے طریقہ ہی کچھ جدا
اس کی گلی کی خضرؑ کو بھی راہ مت بتاؤ
ظاہر ہیں دیکھنے سے گنہ کیونکہ تیرے سب
چھپتے ہیں میرؔ کوئی دلوں کے کہیں لگاؤ
(۱۲۳۸)
گر قصد ترک سر ہے کہو شرم مت کرو
کہتے ہیں اپنی ٹوپی سے بھی مشورت کرو
اچھی ہے اس کی تیغ تو باندھو گلے سے میرؔ
مرتا ہوں میں تو آگے مرے مت صفت کرو
۸۳۸۵
(۱۲۳۸)
دل کہے میں ہوں تو کاہے کو کوئی بیتاب ہو
آنکھ کا لگنا نہ ہو تو اشک کیوں خوناب ہو
وہ نہیں چھڑکاؤ سا میں اشک ریزی سے کروں
اب جو رونے بیٹھ جاؤں جھیل ہو تالاب ہو
جلد کھینچے تیغ بیتابی کریں جو ہم تو پھر
مارنا مشکل ہمارا تم کو جوں سیماب ہو
شہر میں زیر درختاں کیا رہوں میں برگ بند
ہو نہ صحرا نے مری گنجائش اسباب ہو
بے تصرف عشق کے ہوتا ہے ایسا حال کب
دل ہمارا خون ہو سب چشم یکسر آب ہو
۸۳۸۰
لطف سے اے ابر رحمت ایک دو بارش ادھر
کشت زرد ناامیداں بھی تو ٹک سیراب ہو
بخت خفتہ سوویں پر ٹک چونکتے سوویں کہ میرؔ
ایک شب ہم دل زدوں سے وہ پری ہم خواب ہو
(۱۲۴۰)
آج ہمارا جی بے کل ہے تم بھی غفلت مت کریو
دل نہ رہے جو ہاتھ رکھے تو سماجت ات گت مت کریو
ڈھیری رہے اک خاک کی تو کیا ایسے خاک برابر کی
مجھ کو زمیں میں گاڑو گے تو نشان تربت مت کریو
ایسی جان کہاں ہے ہم میں رنج نہ دینا ہاتھوں کو
ایک ہی وار میں ہو چکیے گا دوسری ضربت مت کریو
۸۳۸۵
ہم کو تو مارا عشق نے آخر پر یہ وصیت یاد رہے
دیر جہاں میں تم جو ہو تو کسو سے الفت مت کریو
میری طرف کی یارو اس سے بات کوئی کہتے ہو کہو
مانے نہ مانے وہ جانے پھر تم بھی منت مت کریو
کہیے سو کیا اب چپکے دیکھو گو میں اس میں مر جاؤں
تم کو قسم ہے حرف و سخن کی مجھ سے مروت مت کریو
ہوش نہیں اپنا تو ہمیں ٹک میرؔ آئے ہیں پرسش کو
جانے سے آگے ان کو ہمارے پیارے رخصت مت کریو
ردیف ہ
(۱۲۴۱)
میں کیا کہوں جگر میں لہو میرے کم ہے کچھ
کچھ تو الم ہے دل کی جگہ اور غم ہے کچھ
۸۳۸۰
پوشیدہ تو نہیں ہے کہ ہم ناتواں نہیں
کپڑوں میں یوں ہی تم کو ہمارا بھرم ہے کچھ
کیا اپنے دل دھڑکنے سے ہوں میں ہی دم بخود
جو دیکھتا ہے میرے تئیں سو دہم ہے کچھ
جب سے کھلی ہے نرگس مست اس کی ظلم ہے
کیا آج کل سے یار کو میل ستم ہے کچھ
بلبل میں گل میں کیا خفگی آ گئی ہے میرؔ
آمد شد نسیم سحر دم بہ دم ہے کچھ
(۱۲۴۲)
کہتے تو ہیں کہ ہم کو اس کی طلب نہیں کچھ
پر جی اسی کو اپنا ڈھونڈے ہے ڈھب نہیں کچھ
۸۳۸۵
اخلاص و ربط اس سے ہوتا تو شور اٹھاتے
لب تشنہ اپنے تب ہیں دلبر سے جب نہیں کچھ
یاں اعتبار کریے جو کچھ وہی ہے ظاہر
یہ کائنات اپنی آنکھوں میں سب نہیں کچھ
رکھ منھ کو گل کے منھ پر کیا غنچہ ہو کے سوئے
ہے شوخ چشم شبنم اس کو ادب نہیں کچھ
دل خوں نہ ہووے کیونکر یکسرورائے الفت
یا سابقے بہت تھے یا اس سے اب نہیں کچھ
یہ حال بے سبب تو ہوتا نہیں ہے لیکن
رونے کا لمحہ لمحہ ظاہر سبب نہیں کچھ
۸۴۰۰
کر عشق میرؔ اس کا مارے کہیں نہ جاویں
جلدی مزاج میں ہے اس سے عجب نہیں کچھ
(۱۲۴۳)
رستے سے چاک دل کے ہو آگاہ
یار تک پھر تو کس قدر ہے راہ
رہتی ہے خلق آہ شب سے تنگ
وے نہیں سنتے میری بات اللہ
آنکھ اس منھ پہ کس طرح کھولوں
جوں پلک جل رہی ہے میری نگاہ
خط مرا دیکھ دیکھ کہنے لگا
ہائے کیا کیا لکھے ہے نامہ سیاہ
۸۴۰۵
ہیں مسلمان ان بتوں سے ہمیں
عشق ہے لا الٰہ الا اللہ
پلکیں اس طور روتے روتے گئیں
سبزہ ہوتا ہے جس طرح لب چاہ
میرؔ کعبے سے قصد دیر کیا
جاؤ پیارے بھلا خدا ہمراہ
(۱۲۴۴)
ہے تمنائے وصال اس کی مری جان کے ساتھ
جان ہی جائے گی آخر کو اس ارمان کے ساتھ
کیا فقط توڑ کے چھاتی ہی گیا تیر اس کا
لے گیا صاف مرے دل کو بھی پیکان کے ساتھ
۸۴۱۰
دین و دل ہی کے رہا میرے وہ کافر درپے
خصمی قاطبہ اس کو ہے مسلمان کے ساتھ
بحر پر نہر پہ برسے ہے برابر ہی ابر
پیش ہر اک سے کریم آتے ہیں احسان کے ساتھ
سطرزلف آئی ہے اس روئے مخطط پہ نظر
یہ عبارت نئی لاحق ہوئی قرآن کے ساتھ
تیر اس کا جو گذر دل سے چلا جی بھی چلا
رسم تعظیم سے ہو لیتے ہیں مہمان کے ساتھ
میں تو لڑکا نہیں جو بالے بتاؤ مجھ کو
یہ فریبندگی کریے کسو نادان کے ساتھ
۸۴۱۵
خون مسلم کو تو واجب یہ بتاں جانے ہیں
ہو جے کافر کہ اماں یاں نہیں ایمان کے ساتھ
آدمیت سے تمھیں میرؔ ہو کیونکر بہرہ
تم نے صحبت نہیں رکھی کسو انسان کے ساتھ
(۱۲۴۵)
جانے دے مت اس قدر اب زلف و خط و خال دیکھ
حال کچھ بھی تجھ میں ہے اے میرؔ اپنا حال دیکھ
کیا مری طول پریشانی کی حیرت ہم نفس
آنکھیں تو دی ہیں خدا نے اس کے لپٹے بال دیکھ
دامن صحرا میں کیا وسعت ہے جو دل میں نہیں
موند کر آنکھیں گریباں میں بھی ٹک سر ڈال دیکھ
۸۴۲۰
چشم و دل کا اس سے لگ جانا تو تھا جس تس طرح
جی بھی ان بالوں میں الجھا اور یہ جنجال دیکھ
گرچہ اس مہ کی جدائی میں مجھے برسوں ہوئے
لیکن اے اخترشناس اب کا ہے کیسا سال دیکھ
کب نظر میری پڑے گی اس کے روئے خوب پر
ہم نشیں ٹک تو بھی مصحف کھول کر تو فال دیکھ
ٹھوکریں دل کو لگے ہیں جب چلے ہے راہ تو
یہ خرام ناز ہے ظالم ٹک اپنی چال دیکھ
(۱۲۴۶)
آنکھیں جو ہوں تو عین ہے مقصود ہر جگہ
بالذات ہے جہاں میں وہ موجود ہر جگہ
۸۴۲۵
واقف ہو شان بندگی سے قید قبلہ کیا
سر ہر کہیں جھکا کہ ہے مسجود ہر جگہ
مو تن پہ ہم نہ سوختہ جانوں کے ہیں نمود
ہے سوزش دروں سے بروں دود ہر جگہ
دلی کے لکھنؤ کے خوش اندام خوب لیک
راہ وفا و مہر ہے مسدود ہر جگہ
پھرتی ہے اپنے ساتھ لگی متصل فنا
آب رواں سے ہم ہوئے نابود ہر جگہ
شہرہ رکھے ہے تیری خریت جہاں میں شیخ
مجلس ہو یا کہ دشت اچھل کود ہر جگہ
۸۴۳۰
سودائے عاشقی میں تو جی کا زیان ہے
پھرتے ہیں میرؔ ڈھونڈتے ہی سود ہر جگہ
(۱۲۴۸)
وے دن اب سالتے ہیں جن میں پھرے یار کے ساتھ
لطف سے حرف و سخن تھے نگہ اک پیار کے ساتھ
رو بہ پس یار کے کوچے سے جو خورشید گیا
عشق تھا اس کے مگر سایۂ دیوار کے ساتھ
دستے نرگس کے رکھیں گور پہ میری وارث
تا یہ جانیں کہ گیا میں غم دیدار کے ساتھ
واں کھنچی میان سے یاں سر کو جھکایا میں نے
گردن اپنی ہے بندھی یار کی تلوار کے ساتھ
۸۴۳۵
عشق کے زار سے بولا نہ خشونت سے کرو
لطف سے بات کوئی کرتے ہیں بیمار کے ساتھ
تہمت عشق سے آبادی بھی وادی ہے ہمیں
کون صحبت رکھے ہے خوں کے سزاوار کے ساتھ
اب خوشامد انھیں کی آٹھ پہر کرتے ہیں
گفتگو میرؔ کو جن لوگوں سے تھی عار کے ساتھ
(۱۲۴۸)
نہ باتیں کرو سرگرانی کے ساتھ
مری زیست ہے مہربانی کے ساتھ
نہ اٹھ کر در یار سے جاسکے
یہ کم لطف ہے ناتوانی کے ساتھ
۸۴۴۰
فرو درد آنسو پیے کچھ ہوا
دوا جیسے پیتے ہیں پانی کے ساتھ
کہے میں نے اشعار ہر بحر میں
ولیکن قیامت روانی کے ساتھ
شتابی گئی اس روش فصل گل
کہ جوں رفتگی ہو جوانی کے ساتھ
بکھیرے ہے جوں لخت دل آہ صبح
ہوا کب ہے اس گل فشانی کے ساتھ
جلا جی بہت قصۂ میرؔ سن
بلا سوز تھا اس کہانی کے ساتھ
۸۴۴۵
(۱۲۴۸)
کب تک رہیں گے یارب ہر دم ہم آبدیدہ
ضائع ہے جیب و دامن جوں جنس آب دیدہ
اس حور سے شبوں کا ملنا گیا سو چپ ہوں
جاتا نہیں کہا کچھ جوں گنگ خواب دیدہ
راز محبت اپنا رسوا نہ اس قدر ہو
گر ہو نہ اشک افشاں خانہ خراب دیدہ
جب دیکھو لگ رہا ہے در کی طرف اسی کے
ہے جیسے کہیے ویسے ذلت کا باب دیدہ
دوزخ میں میرؔ ہوں میں یار بہشت رو بن
جاں ہے ستم رسیدہ دل ہے عذاب دیدہ
۸۴۵۰
(۱۲۵۰)
ادھر مت کر نگاہ تیز جا بیٹھ
نہ تیر روئے ترکش یوں چلا بیٹھ
اثر ہوتا تو کب کا ہو بھی چکتا
دعائے صبح سے اب ہاتھ اٹھا بیٹھ
پھرے گا ہم سے کب تک دور ظالم
کبھو تو گھر سے اٹھ کر پاس آ بیٹھ
نہ کر دیوار کا مجلس میں تکیہ
ہمارے مونڈھے سے مونڈھا لگا بیٹھ
بہت پھرتے ہیں ٹیڑھے ٹیڑھے دشمن
انھیں دو سیدھیاں تو بھی سنا بیٹھ
۸۴۵۵
تلاش اپنی نہ کم تھی جو وہ ملتا
بہت میں دیکھ کر آخر رہا بیٹھ
مخالف سے نہ مل بیٹھا کر اتنا
کہیں لے میرؔ صاحب کو جدا بیٹھ
(۱۲۵۱)
کیا کریں نیچی نظر کرنے سے غصہ کھائے وہ
اور مجلس میں جو رہیے دیکھ تو شرمائے وہ
کس طرح تڑپے ہے کیا کیا جی گھٹا جاتا ہے ہائے
ساتھ اس کے دل لگا ہو جس کسو کا وائے وہ
کیا سلوک اس بے وفا کے نقل کریے ہم نشیں
منتیں کریے تو یاں تک گھر سے چل کر آئے وہ
۸۴۶۰
لطف سے لبریز ہے اس کام جاں کا سب بدن
مختلط ہو جائے ہم سے جو کبھو تو ہائے وہ
بے خودی ہے جی چلا جاتا ہے ہوں صاحب فراش
بے خبر اے کاش بالیں پر مری آ جائے وہ
ہم نہیں ملتے وگرنہ یار ہے تا قتل ساتھ
لوہو پی جاوے ہمارا ہم کو اب جو پائے وہ
میرؔ کو واشد نہیں ہے مقصد اس کا اور ہے
عشق سے لڑکوں کے دل کو کب تلک بہلائے وہ
ردیف ی
(۱۲۵۲)
تدبیر غم دل کی بستی میں نہ ٹھہرائی
جنگل میں نکل آئے کچھ واں بھی نہ بن آئی
۸۴۶۵
خواہش ہو جسے دل کی دل دوں اسے اور سر بھی
میں نے تو اسی دل سے تصدیع بہت پائی
بے پردہ نہ ہونا تھا اسرار محبت کو
عاشق کشی ہے جب سے ہے عشق کی رسوائی
گھر دل کا بہت چھوٹا پر جائے تعجب ہے
عالم کو تمام اس میں کس طرح ہے گنجائی
گھر بار لٹایا جب تب وہ سہی قد آیا
مفلوک ہوئے اب ہم کر خرچ یہ بالائی
خوبی سے ندان اس کی سب صورتیں یاں بگڑیں
وہ زلف بنی دیکھی سب بن گئے سودائی
۸۴۸۰
کیا عہدہ بر آئی ہو اس گل کی دو رنگی سے
ہر لحظہ ہے خودرائی ہر آن ہے رعنائی
عاشق کی جسے ہووے کچھ قدر نہیں پیدا
جیتا نہ رہا اب تک مجنوں ہی کو موت آئی
آزار بہت کھینچے اب میرؔ توکل ہے
کھینچی نہ گئی ہم سے ہر ایک کی مرزائی
(۱۲۵۳)
شور کیا جو اس کی گلی میں رات کو ہیں سب جان گئے
آہ و فغاں کے طور سے میرے لوگ مجھے پہچان گئے
عہد میں اس کی یاری کے خوں دل میں ہوئے ہیں کیا کیا چاؤ
خاک میں آخر ساتھ ہی میرے سب میرے ارمان گئے
۸۴۸۵
موت جو آئے سر پر انساں دست و پا گم کرتا ہے
دیکھتے ہی شمشیر بکف کچھ آج اسے اوسان گئے
مہلت عمر دو روزہ کتنی کریے فضولی کاہے پر
آئے جو ہیں دنیا میں ہم تو جیسے کہیں مہمان گئے
ہاتھ لگا وہ گوہر مقصد جیسا ہے معلوم ہمیں
محو طلب ہو اہل طلب سب خاک بھی یاں کی چھان گئے
کہیے سلوک انھوں کے کیا کیا چھیڑ تجاہل کی ہے نئی
نکلے تھے اس رستے سو وے جان کے بھی انجان گئے
میرؔ نظر کی دل کی طرف کی عرش کی جانب فکر بہت
تھی جو طلب مطلوب کی ہم کو کیدھر کیدھر دھیان گئے
۸۴۸۰
(۱۲۵۴)
سوزدروں سے آگ لگی ہے سارے بدن میں تب سی ہے
طاقت دل کی تمام ہوئی ہے جی کی چال کڈھب سی ہے
سینے کے زخم نمایاں رہتے چاک کیے سو پردۂ در
مدت سے یہ رخنے پڑے تھے چھاتی پھٹی میں اب سی ہے
پرسش حال کبھو کرتے ہیں ناز و چشم اشارت سے
ان کی عنایت حال پہ میرے کیا پوچھو ہو غضب سی ہے
گود میں میری رکھ دیتا ہے پاؤں حنائی دبنے کو
یوں پامال جو میں ہوتا ہوں مجھ کو بھی تو دب سی ہے
لطف کہاں وہ بات کیے پر پھول سے جھڑنے لگ جاویں
سرخ کلی بھی گل کی اگرچہ یار کے لعل لب سی ہے
۸۴۸۵
خانہ خراب ہو خواہش دل کا آہ نہایت اس کو نہیں
جان لبوں پر آئی ہے پر تو بھی گرم طلب سی ہے
تم کہتے ہو بوسہ طلب تھے شاید شوخی کرتے ہوں
میرؔ تو چپ تصویر سے تھے یہ بات انھوں سے عجب سی ہے
(۱۲۵۵)
کیسے نحس دنوں میں یارب میں نے اس سے محبت کی
دھوم رہی ہے سر پر میرے رنج و عتاب و کلفت کی
میں تو سرو و شاخ گل کی قطع ہی کا دیوانہ تھا
یار نے قد قامت دکھلا کر سر پر میرے قیامت کی
قسمت میں جو کچھ کہ بدا ہو دیتے ہیں وہ ہی انساں کو
غم غصہ ہی ہم کو ملا ہے خوبی اپنی قسمت کی
۸۴۸۰
خلوت یار ہے عالم عالم ایک نہیں ہے ہم کو بار
در پر جا کر پھر آتے ہیں خوب ہماری عزت کی
اک گردن سے سو حق باندھے کیا کیا کریے ہوں جو ادا
مدت اس پر ایک نفس جوں صبح ہماری فرصت کی
شیوہ اس کا قہر و غضب ہے ناز و خشم و ستم وے سب
کوئی نگاہ لطف اگر کی ان نے ہم سے مروت کی
بے پروائی درویشی کی تھوڑی تھوڑی تب آئی
جب کہ فقیری کے اوپر میں خرچ بڑی سی دولت کی
ناز و خشم کا رتبہ کیسا ہٹ کس اعلیٰ درجے میں
بات ہماری ایک نہ مانی برسوں ہم نے منت کی
۸۴۸۵
دکھن پورب پچھم سے لوگ آ کر مجھ کو دیکھیں ہیں
حیف کہ پروا تم کو نہیں ہے مطلق میری صحبت کی
دوستی یاری الفت باہم عہد میں اس کے رسم نہیں
یہ جانے ہیں مہر و وفا اک بات ہے گویا مدت کی
آب حسرت آنکھوں میں اس کی نومیدانہ پھرتا تھا
میرؔ نے شاید خواہش دل کی آج کوئی پھر رخصت کی
(۱۲۵۶)
کیسے ناز و تبختر سے ہم اپنے یار کو دیکھا ہے
نوگل جیسے جلوہ کرے اس رشک بہار کو دیکھا ہے
چال زمانے کی ہے نظر میں شام و سحر کس کو ہے قیام
نووارد ہم یاں کے ہیں پر لیل و نہار کو دیکھا ہے
۸۵۰۰
ایک نہ آیا دید میں اپنی دلکش دلچسپ اس کے رنگ
ان آنکھوں سے اس گلشن میں یوں تو ہزار کو دیکھا ہے
قدر کفر اسلام سے زائد جانی سبحہ فروشی سے
بکتے کہیں بازار میں تو نے گہ زنار کو دیکھا ہے
قلب و دماغ و جگر کے گئے پر ضعف ہے جی کی غارت میں
کیا جانے یہ قلقچی ان نے کس سردار کو دیکھا ہے
باؤ سے بھی گر پتا کھڑکے چوٹ چلے ہے ظالم کی
ہم نے دام گہوں میں اس کے ذوق شکار کو دیکھا ہے
جمع کرو دل میرؔ سے تم بھی بیتابی تھی دل کو بہت
اچھے کچھ آثار نہ تھے میں اس بیمار کو دیکھا ہے
۸۵۰۵
(۱۲۵۸)
ناز و ادا کے ساتھ وہ دلبر شکیل ہے
تصویر چیں کی روبرو اس کے ذلیل ہے
ہم خاک منھ کو مل کے نہ جوں آرسی پھرے
یاں پاس قرط آب اگر ہے سبیل ہے
جنگل میں خضرؑ و کعبہ کا ہونا مری طرح
دونوں کی نارسائی کے اوپر دلیل ہے
آگے جنوں سے چھاؤں میں تھے سرو و گل کی ہم
سر پر ہمارے سایہ فگن اب کریل ہے
کچھ چیز و مال ہو تو خریدار ہو کوئی
دنیا کی قدر کیا کہ متاع قلیل ہے
۸۵۱۰
کیا روؤں اشک آتے ہیں آنکھوں سے سیل سیل
پل مارنے میں پیش نظر ایک جھیل ہے
آتے نہیں نظر میں مری ہاتھی کے سوار
کانوں میں جو فسانۂ اصحاب فیل ہے
ہو صبر اس جو یوسف ثانی کے بے جمال
تو مصحف مجید میں صبر جمیل ہے
شکر و گلہ سے عشق کے لبریز ہے جہاں
کریے جہاں نگاہ یہی قال و قیل ہے
ہم دیر سے ہیں منتظر قد کشی یار
کچھ شامت عمل سے قیامت میں ڈھیل ہے
۸۵۱۵
جب دیکھتے ہیں میرؔ تمھیں بے دماغ ہو
کاہے کو ناز عشق میں صاحب دخیل ہے
(۱۲۵۸)
برسوں گذرے ہیں ملے کب تئیں یوں پیار رہے
دور سے دیکھ لیا اس کو تو جی مار رہے
وہ مودت کہ جو قلبی ہو اسے سو معلوم
چار دن کہنے کو اس شوخ سے ہم یار رہے
مرگ کے حال جدائی میں جئیں یوں کب تک
جان بیتاب رہے دل کو اک آزار رہے
وجہ یہ تھی کہ ترے ساتھ لڑی آنکھ اس کی
ہم جو صورت سے تھے آئینے کی بیزار رہے
۸۵۲۰
دین و دنیا کا زیاں کار کہو ہم کو میرؔ
دو جہاں داونخستیں ہی میں ہم ہار رہے
(۱۲۵۸)
اب تک تو نبھی اچھی اب دیکھیے پیری ہے
سب لوگوں میں ہیں لاگیں یاں محض فقیری ہے
کیا دھیر بندھے اس کی جو عشق کا رسوا ہو
نکلے تو کہیں لڑکے دھیری ہے بے دھیری ہے
خوں عشق کی گرمی سے سوکھا جگر و دل میں
اک بوند تھی لوہو کی اب چھاتی جو چیری ہے
ہم طائر نوپر ہیں وے جن کو بہاراں میں
گل گشت گلستاں کا ہے شوق و اسیری ہے
۸۵۲۵
اس دلبر بد ظن سے خوش گذرے ہے عاشق کی
نے رحم ہے خاطر میں نے عذر پذیری ہے
ہم مرثیہ دل ہی کا اکثر کہا کرتے ہیں
اب کریے تخلص تو شائستہ ضمیریؔ ہے
کیا اہل دول سے ہے اے میرؔ مجھے نسبت
یاں عجز و فقیری ہے واں ناز امیری ہے
(۱۲۶۰)
سوز دروں نے آخر جی ہی کھپا دیا ہے
ٹھنڈا دل اب ہے ایسا جیسے بجھا دیا ہے
اب نیند کیونکے آوے گرمی نے عاشقی کی
دل ہے جدھر وہ پہلو سارا جلا دیا ہے
۸۵۳۰
حرف غلط تھے کیا ہم صفحے پہ زندگی کے
جو صاف یوں قضا نے ہم کو مٹا دیا ہے
کڑھتے ہمیشہ رہنا ہم کو بغیر اس کے
کیا روگ دوستی نے جی کو لگا دیا ہے
اچرج ہے یہ کہ ہے وہ میرا چراغ تربت
کتنوں کا ورنہ خوں کر ان نے دبا دیا ہے
آنکھوں کی کچھ حیا تھی سو موند لیں ادھر سے
پردہ جو رہ گیا تھا وہ بھی اٹھا دیا ہے
ہم دل زدہ رہے ہیں انواع تلخ سنتے
ان شکریں لبوں نے ہم کو رجھا دیا ہے
۸۵۳۵
جب طول میں دیا ہے نامے کو شوق کے تب
جوں کاغذ ہوائی ان نے اڑا دیا ہے
مرنے ہی کا مہیا اپنے رہا کیا ہوں
واں تیغ اٹھائی ان نے یاں سر جھکا دیا ہے
کیا بے نمک ہوا ہے پروانہ راکھ جل کر
رہ رہ کے ہم جلے تو ہم کو مزہ دیا ہے
تھے جوں چراغ مفلس مضطر نہ ترک تھا جب
بارے فقیری نے تو آرام سا دیا ہے
شہروں کے تنگ کوچے کاہے کو گوں ہیں اپنی
ہم وحشیوں کے قابل رہنے کے بادیہ ہے
۸۵۴۰
نا درد مند بلبل نالاں ہے بے تہی سے
دل ہم کو بھی خدا نے درد آشنا دیا ہے
کیا نامہ بر ہمارا ہے صاف بے مروت
خط نا نوشتہ ہم کو اودھر سے لا دیا ہے
عالم شکار ہے وہ اس سن میں میرؔ اس کو
ڈھب جان مارنے کا کن نے بتا دیا ہے
(۱۲۶۱)
ہم چمن میں گئے تھے وا نہ ہوئے
نکہت گل سے آشنا نہ ہوئے
سر کسو سے فرو نہیں آتا
حیف بندے ہوئے خدا نہ ہوئے
۸۵۴۵
خوار و زار و ذلیل و بے رویت
عاشق اس کے ہوئے سو کیا نہ ہوئے
کیسا کیسا قفس سے سر مارا
موسم گل میں ہم رہا نہ ہوئے
میں نہ گردن کٹائی جب تک میرؔ
عشق کے مجھ سے حق ادا نہ ہوئے
(۱۲۶۲)
دیکھیے کیا ہو سانجھ تلک احوال ہمارا ابتر ہے
دل اپنا تو بجھا سا دیا ہے جان چراغ مضطر ہے
خاطر اپنی اتنی پریشاں آنکھیں پھریں ہیں اس بن حیراں
تم نے کہا دل چاہے تو بیٹھو دل کیا جانے کیدھر ہے
۸۵۵۰
تاب و تواں کا حال وہی ہے آج تنک ہم چیتے ہیں
تم پوچھو تو اور کہیں کیا نسبت کل کی بہتر ہے
اس بے مہر صنم کی خاطر سختی سی سختی کھینچی ہم
جی پگھلے کیا اس کا ہم پر رحم کہاں وہ پتھر ہے
سر نہ بڑے کے چڑھیے اس میں ہرگز زیاں ہے سر ہی کا
سمجھے نہ سمجھے کوئی اسے یہ پہاڑ کی آخر ٹکر ہے
جب سے ملا اس آئینہ رو سے خوش کی ان نے نمد پوشی
پانی بھی دے ہے پھینک شبوں کو میرؔ فقیر قلندر ہے
(۱۲۶۳)
آشوب چشم چشمہ زا اب کوہ و صحرا پر بھی ہے
طوفان سا شہروں میں ہے اک شور دریا پر بھی ہے
۸۵۵۵
گو چشم بندی شیخ کی ہو آخرت کے واسطے
لیکن نظر اعمیٰ نمط پردے میں دنیا پر بھی ہے
نے دست مزد بندگی نے قدر سرافگندگی
جو مکرمت ہم پر ہوئی اب جلف و ادنیٰ پر بھی ہے
تنگ آن کر گم ہو گئے مقصود جو مقصود تھا
ہم خرج رہ کیونکر نہ ہوں پیدا ہی پیدا پر بھی ہے
ہیں خوبیاں ہی خوبیاں وحشی طبیعت میرؔ میں
پر انس کم ہم سے دلیل اب کے یہ سودا پر بھی ہے
(۱۲۶۴)
آنکھوں سے راہ عشق کی ہم جوں نگہ گئے
آخر کو روتے روتے پریشاں ہو بہ گئے
۸۵۶۰
اس عرصے سے گیا ہو کہیں کوئی تو کہیں
چل پھر کے لوگ یاں کے یہیں سارے رہ گئے
کیا کیا ہوئے ہیں اہل زماں ڈھیر خاک کے
کیا کیا مکان دیکھتے ناگاہ ڈھہ گئے
ان دلبروں سے کیا کہیں مظلوم عشق ہم
ناچار ظلم و جور و ستم ان کے سہ گئے
تسبیحیں ٹوٹیں خرقے مصلے پھٹے جلے
کیا جانے خانقاہ میں کیا میرؔ کہہ گئے
(۱۲۶۵)
میرؔ کیوں رہتے ہیں اکثر ان منے
کر نہیں بنتی کسو سے جو بنے
۸۵۶۵
خون ہو کر بہ گیا مدت ہوئی
دل جو ڈھونڈو ہو سو کیسا کس کنے
ہے تو کل جب سے ہم درویش ہیں
کر ہی چکتے ہیں جو کچھ دل میں ٹھنے
عالم خاکی بھی بسمل گاہ ہے
ہو رہے ہیں ڈھیر یاں سو سو جنے
اس شکار افگن کے ہم بھی صید ہیں
خاک و خوں میں لوٹتے چھاتی چھنے
(۱۲۶۶)
ہم پہ رہتے ہو کیا کمر کستے
اچھے ہوتے نہیں جگر خستے
۸۵۸۰
ہنستے کھینچا نہ کیجیے تلوار
ہم نہ مر جائیں ہنستے ہی ہنستے
شوق لکھنے قلم جو ہاتھ آئی
لکھے کاغذ کے دستے کے دستے
سیر قابل ہیں تنگ پوش اب کے
کہنیاں پھٹتے چولیاں چستے
رنگ لیتی ہے سب ہوا اس کا
اس سے باغ و بہار ہیں رستے
اک نگہ کر کے ان نے مول لیا
بک گئے آہ ہم بھی کیا سستے
۸۵۸۵
میرؔ جنگل پڑے ہیں آج جہاں
لوگ کیا کیا نہیں تھے کل بستے
(۱۲۶۸)
سب شرم جبین یار سے پانی ہے
ہرچند کہ گل شگفتہ پیشانی ہے
سمجھے نہ کہ بازیچۂ اطفال ہوئے
لڑکوں سے ملاقات ہی نادانی ہے
جوں آئینہ سامنے کھڑا ہوں یعنی
خوبی سے ترے چہرے کی حیرانی ہے
خط لکھتے جو خوں فشاں تھے ہم ان نے کہا
کاغذ جو لکھے ہے اب سو افشانی ہے
۸۵۸۰
دوزخ میں ہوں جلتی جو رہے ہے چھاتی
دل سوختگی عذاب روحانی ہے
منت کی بہت تو ان نے دو حرف کہے
سو برسوں میں اک بات مری مانی ہے
کل سیل سا جوشاں جو ادھر آیا میرؔ
سب بولے کہ یہ فقیر سیلانی ہے
(۱۲۶۸)
جی کے لگنے کی میرؔ کچھ کہہ بھی
ہے وہی بات جس میں ہو تہ بھی
حسن اے رشک مہ نہیں رہتا
چار دن کی ہے چاندنی یہ بھی
۸۵۸۵
شور شیریں تو ہے جہاں میں ولے
ہے حلاوت زمانے کی وہ بھی
اس کے پنجے سے دل نکل نہ سکا
زور بیٹھی ہی یار کی گہ بھی
اس زمیں گرد میرے مہ سا نہیں
آسماں پر اگرچہ ہے مہ بھی
کیا کہوں اس کی زلف بن رو رو
میں پراگندہ دل گیا بہ بھی
مضطرب ہو جو ہمرہی کی میرؔ
پھر کے بولا کہ بس کہیں رہ بھی
۸۵۸۰
(۱۲۶۸)
کہیں آگ آہ سوزندہ نہ چھاتی میں لگا دیوے
خبر ہوتے ہی ہوتے دل جگر دونوں جلا دیوے
بہت روئے ہمارے دیدۂ تر اب نہیں کھلتے
متاع آب دیدہ ہے کوئی اس کو ہوا دیوے
تمھارے پاؤں گھر جانے کو عاشق کے نہیں اٹھتے
تم آؤ تو تمھیں آنکھوں پہ سر پر اپنے جا دیوے
دلیل گم رہی ہے خضر جو ملتا ہے جنگل میں
پھرے ہے آپھی بھولا کیا ہمیں رستہ بتا دیوے
گئے ہی جی کے فیصل ہو نیاز و ناز کا جھگڑا
کہیں وہ تیغ کھینچے بھی کہ بندہ سر جھکا دیوے
۸۵۸۵
لڑائی ہی رہی روزوں میں باہم بے دماغی سے
گلے سے اس کے ہم کو عید اب شاید ملا دیوے
ہوا میں میرؔ جو اس بت سے سائل بوسۂ لب کا
لگا کہنے ظرافت سے کہ شہ صاحب خدا دیوے
(۱۲۸۰)
تیر جوڑے وہ ماہ آتا ہے
ہم کو یہ تیر ماہ جاتا ہے
گل کو سر پر رکھیں سبھی لیکن
اب دماغ اپنا کب اٹھاتا ہے
اپنا اپنا ہے ذائقہ ہم کو
بوسۂ کنج لب ہی بھاتا ہے
۸۶۰۰
آتش عشق جس کے دل کو لگے
شمع ساں آپ ہی کو کھاتا ہے
دیکھنا ہے تو ہے بہم پر وہ
ہم سے آنکھوں کو کب ملاتا ہے
میری تو ہے پلک سے چھوٹی نگاہ
اور وہ اس پہ منھ چھپاتا ہے
میرؔ صناع ہے ملو اس سے
دیکھو تو باتیں کیا بناتا ہے
(۱۲۸۱)
شائستۂ غم و ستم یار ہم ہوئے
عاشق کہاں ہوئے کہ گنہگار ہم ہوئے
۸۶۰۵
کی عرض جو متاع امانت ازل کے بیچ
سب اور لے سکے نہ خریدار ہم ہوئے
جی کھنچ گیا اسیرقفس کی فغاں کی اور
تھی چوٹ اپنے دل کو گرفتار ہم ہوئے
پامال یوں کیا کہ برابر ہیں خاک کے
کیا ظلم ہو گیا جو طلبگار ہم ہوئے
ہوتا نہیں ہے بے خبری کا مآل خوب
افسوس ہے کہ دیر خبردار ہم ہوئے
وصل اس طبیب زادے کا جی چاہتا رہا
آخر اس آرزو ہی میں بیمار ہم ہوئے
۸۶۱۰
پھل ہے یہ میرؔ عشق کا اس نوبہار کے
آخر جو کشت و خوں کے سزاوار ہم ہوئے
(۱۲۸۲)
کہی میں ان لبوں کی جاں فزائی
یہ بات اک بے خودی میں منھ پر آئی
تعارف کیا رہا اہل چمن سے
ہوئی اک عمر میں اپنی رہائی
کہاں کا بے ستوں فرہاد کیسا
یہ سب تھی عشق کی زور آزمائی
جفا اٹھتی وفا جو عمر کرتی
سو کی اس رفتنی نے بے وفائی
۸۶۱۵
کہیں سو کیا کہیں سر پر ہمارے
قیامت شامت اعمال لائی
گیا اس ترک کی آمد کو سن جی
تھمی ہم سے نہ اک دم بھی اوائی
موافق ٹک ہو تو تو پھر جہاں میں
مثل ہو میری تیری آشنائی
بغیر از چہرۂ مہتابی یار
ہمارے منھ پہ چھوٹے ہے ہوائی
گئی ٹکڑے ہو دل کی آرسی تو
ہوئی صد چند اس کی خود نمائی
۸۶۲۰
فراق یار کو آساں نہ سمجھو
کہ جان و تن کی مشکل ہے جدائی
پھر آنا کعبے سے اپنا نہ ہو گا
اب اس کے گھر کی ہم نے راہ پائی
ہوئے ہیں درد دل سے میرؔ کے تنگ
پھر اس جوگی نے یاں دھونی لگائی
(۱۲۸۳)
ہوں خاک پا جو اس کی ہر کوئی سر چڑھاوے
منھ پھیرے وہ تو ہم کو پھر کون منھ لگاوے
ان دو ہی صورتوں میں شکل اب نباہ کی ہے
یا صبر ہم کو آوے یا رحم اس کو آوے
۸۶۲۵
اس مہ بغیر عالم آنکھوں میں سب سیہ ہے
دیکھیں تو عشق کیا کیا ہم کو سمیں دکھاوے
کچھ زخم کھل چلے ہیں کچھ داغ کھل رہے ہیں
اب کے بہار دیکھیں کیا کیا شگوفے لاوے
جوں لیلیٰ اور مجنوں تا نقش کچھ رہے یاں
اس کی مری بھی صورت یک جا کوئی بناوے
یہ طرح دار لڑکے دیں بیٹھنے تب اس کو
جب جی سے اپنے کوئی ہر طرح دل اٹھاوے
ہم جس زمیں پہ آئے واں آسماں یہی تھا
یارب جو کوئی جاوے تو کس طرف کو جاوے
۸۶۳۰
شب سنتے حال میرا لیتا ہے موند آنکھیں
مچلے سے میں کہوں کیا سوتا ہو تو جگاوے
طاعت کا محو تب ہے جب ڈھب نہیں بتوں سے
چھوڑے نماز واجب گر میرؔ وقت پاوے
(۱۲۸۴)
بہار آئی نکالو مت مجھے اب کے گلستاں سے
مرا دامن بنے تو باندھ دو گل کے گریباں سے
نہ ٹک واشد ہوئی دل کو نہ جی کی لاگ کچھ پائی
رہے دس دن جو اپنی عمر کے یاں ہم سو مہماں سے
غم ہجراں نے شاید آگ دی اس ماہ بن دل کو
شرارے تب تو نکلے ہیں ہماری چشم گریاں سے
۸۶۳۵
سبب آشفتہ طبعی کا ہماری رہتے ہیں دونوں
نہ دل جمعی ہے اس کے خط سے نے زلف پریشاں سے
ادھر زنجیر کے غل ہیں ادھر ہنگامے لڑکوں کے
جنوں اس دشت میں ہم نے کیا ہے کیسے ساماں سے
محبت میں کسو کی رنج و محنت سے گئے دونوں
رہی شرمندگی ہی عمر بھر مجھ کو دل و جاں سے
خدا جانے کہ دل کس خانہ آباداں کو دے بیٹھے
کھڑے تھے میرؔ صاحب گھر کے دروازے پہ حیراں سے
(۱۲۸۵)
برسوں تک جی کو مار مار رہے
رات دن ہم امیدوار رہے
۸۶۴۰
موسم گل تلک رہے گا کون
چبھتے ہی دل کو خار خار رہے
وصل یا ہجر کچھ ٹھہر جاوے
دل کو اپنے اگر قرار رہے
خوش نوا کیسے کیسے طائر قدس
اس جفا پیشہ کے شکار رہے
اس کی آنکھوں کی مستی سے عاشق
چاہیے یوں کہ ہوشیار رہے
دل لگے پر رہا نہیں جاتا
رہیے اپنا جو اختیار رہے
۸۶۴۵
کم ہے کیا لذت ہم آغوشی
سب مزے میرؔ درکنار رہے
(۱۲۸۶)
یوں جنوں کرتے جو ہم یاں سے گئے
تو میاں مجنوں بیاباں سے گئے
مر گئے دم کب تلک رکتے رہیں
بارے جی کے ساتھ سب سانسے گئے
کیا بدن دیکھا چسی چولی سے ہائے
مارے حسرت کے ہی ہم جاں سے گئے
جانب مسجد تھی وہ کافر نگاہ
شیخ صاحب دین و ایماں سے گئے
۸۶۵۰
پیچ میں آئے کسو کی زلف کے
میرؔ اس رستے پریشاں سے گئے
(۱۲۸۸)
اے نوخط ایک دن ہے جھگڑا ہمارے تیرے
سبزی بہت لگی ہے منھ سے پیارے تیرے
حیران حال عاشق ہو گی اجل پہنچ کر
کیا حال یاں رہا ہے ظلموں کے مارے تیرے
ہر بار دیکھے ہے تو ایدھر ہی آہ شب نے
کچھ تو اثر کیا ہے جی میں بھی بارے تیرے
باغ و بہار و نکہت گل پھول سب ہی تو ہے
یاروں کی ہیں نظر میں یہ رنگ سارے تیرے
۸۶۵۵
الماس میرؔ تجھ کو کیا عشق نے دیا ہے
لخت جگر گرے ہیں جوں لعل پارے تیرے
(۱۲۸۸)
دو دیدۂ تر اپنے جو یار کو ہیں تکتے
اک ایک کو نہیں پھر غیرت سے دیکھ سکتے
حرکت دلوں کی اپنے مذبوحی سی رہے ہے
اب وہ نہیں کہ دھڑ دھڑ رہتے ہیں دل دھڑکتے
پلکوں کی اس کی جنبش جاتی نہیں نظر سے
کانٹے سے اپنے دل میں رہتے ہیں کچھ کھٹکتے
ہوتا تھا گاہ گاہے محسوس درد آگے
اب دل جگر ہمارے پھوڑے سے ہیں لپکتے
۸۶۶۰
پڑتی ہیں ایدھر اودھر وے سرخ آنکھیں ایسی
دو ترک مست جیسے ہوں راہ میں بہکتے
شعلوں کے ڈانک گویا لعلوں تلے دھرے ہیں
چہروں کے رنگ ہم نے دیکھے ہیں کیا جھمکتے
یاں بات راہ کی تو سنتا نہیں ہے کوئی
جاتے ہیں ہم جرس سے اس قافلے میں بکتے
جاگہ سے لے گئے ہیں نازاں جب آ گئے ہیں
نوباوگان خوبی جوں شاخ گل لچکتے
اس حسن سے کہاں ہے غلطانی موتیوں کی
جس خوبصورتی سے میرؔ اشک ہیں ڈھلکتے
۸۶۶۵
(۱۲۸۸)
غم مرگ سے دل جگر ریش ہے
عجب مرحلہ ہم کو درپیش ہے
بلا ہے اسے شوق تیر و کماں
یہیں سے ہے پیدا ستم کیش ہے
دلا اس کے ظاہر پہ مت جائیو
وہ خوش رو تو ہے پر بد اندیش ہے
بہت خوب ہے لعل نوشین یار
ولیکن خط پشت لب نیش ہے
ہمیں کیا جو ہے میرؔ بیہوش سا
خدا جانے یہ کیا ہی درویش ہے
۸۶۸۰
(۱۲۸۰)
گوش ہر یک کا اسی کی اور ہے
کیا قیامت کا قیامت شور ہے
پوچھنا اس ناتواں کا خوب تھا
پر نہ پوچھا ان نے وہ بھی زور ہے
صندل درد سر مہر و وفا
عاقبت دیکھا تو خاک گور ہے
رشتۂ الفت تو نازک ہے بہت
کیا سمجھ کر خلق اس پر ڈور ہے
ناکسی سے میرؔ اس کوچے کے بیچ
اس طرح نکلے ہے جیسے چور ہے
۸۶۸۵
(۱۲۸۱)
شب اگر دل خواہ اپنے بے قراری کیجیے
لے زمیں سے تا فلک فریاد و زاری کیجیے
ایک دن ہو تو کریں احوال گیری دل کی آہ
مر گئے ہم کب تلک تیمارداری کیجیے
نوچیے ناخن سے منھ یا چاک کریے سب جگر
جی میں ہے آگے ترے کچھ دستکاری کیجیے
جائیے اس شہر ہی سے اب گریباں پھاڑ کر
کیجیے کیا غم سے یوں ماتم گذاری کیجیے
یوں بنے کب تک کہ بے لعل لب اس کے ہر گھڑی
چشمہ چشمہ خون دل آنکھوں سے جاری کیجیے
۸۶۸۰
کنج لب اس شوخ کا بھی ریجھنے کی جائے ہے
صرف کیجے عمر تو اس جائے ساری کیجیے
کوہ غم سر پر اٹھا لیجے نہ کہیے منھ سے کچھ
عشق میں جوں کوہکن کچھ بردباری کیجیے
گرچہ جی کب چاہتا ہے آپ کا آنے کو یاں
پر کبھو تو آئیے خاطر ہماری کیجیے
آشنا ہو اس سے ہم مر مر گئے آئندہ میرؔ
جیتے رہیے تو کسو سے اب نہ یاری کیجیے
(۱۲۸۲)
صد گونہ عاشقی میں ہم نے جفا سہی ہے
پر یہ کہا نہ ظالم اس کی نہیں سہی ہے
۸۶۸۵
کرتی پھری ہے رسوا سارے چمن میں مجھ کو
گر کوئی بات دل کی بلبل سے میں کہی ہے
ہے صبح کا سا عرصہ پیری کا اس میں کیا ہو
باقی ہے وقت کتنا فرصت کہاں رہی ہے
درویش جب ہوئے ہم تب ہے ہمیں برابر
کشکول بازگوں ہے یا افسرشہی ہے
جیتے رہے بہت ہم جو یہ ستم اٹھائے
عمر دراز کی سب تقصیر و کوتہی ہے
رونے میں متصل ہے ہونٹوں پہ آہ میری
جاتا نہیں ہے سمجھا یہ باؤ کیا بہی ہے
۸۶۸۰
آزار عاشقی میں کاہے کی پھر توقع
ہو جائے یاس جس سے سو رنج یہ وہی ہے
روتا ہمیں نظر کر رہنا کیے کنارہ
چڑھنا ہمارے منھ پہ دریا کی بے تہی ہے
چلاہٹ اس طرح کی جز میرؔ کس سے ہووے
باور نہ ہو تو دیکھو یہ ہو نہ ہو وہی ہے
(۱۲۸۳)
کل جوش غم میں آنسو ٹپکے نہ چشم تر سے
افسوس ہے کہ آ کر یوں مینھ ٹک نہ برسے
کیا ہے نمود مردم جو کہیے دیکھیو تم
مژگاں بہم زدن میں جاتی رہی نظر سے
۸۶۸۵
ہم سا شکستہ خاطر اس بستی میں نہ ہو گا
برسے ہے عشق اپنے دیوار اور در سے
معلوم اگلی سی تو جرأت الم کشی میں
کیا کام نکلے گا اب ٹکڑے ہوئے جگر سے
آئینہ دار اسی کے پاتے ہیں شش جہت کو
دیکھیں تو منھ دکھاوے وہ کام جاں کدھر سے
مت رنج کھینچ مل کر ہشیار مردماں سے
اس کی خبر ملے گی اک آدھ بے خبر سے
جب گوش زد ہو اس کے تب بے دماغ ہو وہ
بس ہو چکی توقع اب نالۂ سحر سے
۸۸۰۰
اے رشک مہ کبھو تو آ چاند سا نکل کر
منھ دیکھنے کو تیرا تا چند کوئی ترسے
چاہت بری بلا ہے کل میرؔ نالہ کش بھی
ہمراہ نے سواراں دوڑے پھرے نفر سے
(۱۲۸۴)
برق و شرار و شعلہ و پروانہ سب ہیں یے
جوں ہم جلا کریں ہیں بھلا جلتے کب ہیں یے
لے موئے سر سے ناخن پا تک بھری ہے آگ
جلتے ہیں دردمند پہ جلتے کڈھب ہیں یے
ہوتا ہے دل کا حال عجب غم سے اس گھڑی
کہتا ہے جب وہ طنز سے ہم کو عجب ہیں یے
۸۸۰۵
آتی ہے گرم باد صبا اس کی اور سے
اپنے جگر کے جلنے کے بارے سبب ہیں یے
غربت پہ مہرباں ہوئے میری سو یہ کہا
ان کو غریب کوئی نہ سمجھے غضب ہیں یے
ق
فرہاد و قیس کے گئے کہتے ہیں اب یہ لوگ
رکھے خدا سلامت انھوں کو کہ اب ہیں یے
سید ہیں میرؔ صاحب و درویش و دردمند
سر رکھیے ان کے پاؤں پہ جائے ادب ہیں یے
(۱۲۸۵)
خوش طرح مکاں دل کے ڈھانے میں شتابی کی
اس عشق و محبت نے کیا خانہ خرابی کی
۸۸۱۰
سسکے ہے دل ایدھرکو بہتا ہے جگر اودھر
چھاتی ہوئی ہے میری دکان کبابی کی
وہ نرگس مستانہ باتیں کرے ہے درہم
تم دیکھو نہ کچھ بولو کیا بات شرابی کی
بے سدھ ہوئے ہم آئی اک بو جو گلستاں سے
پر زور تھی مے کتنی غنچوں کی گلابی کی
رونے سے دل شب کے تر میرؔ کے کپڑے ہیں
پر قدر نہیں اس کو اس جامۂ آبی کی
(۱۲۸۶)
کوئی ساحر اس کو کچھ جادو کرے
وہ جو بے رو اس طرف ٹک رو کرے
۸۸۱۵
دور سے ٹک ملتفت ہوتے رہو
جب تلک دوری سے کوئی خو کرے
دم میں ہو آئینۂ عالم سیاہ
ایک اگر عاشق قلندر ہو کرے
کس سے تیری چاہیے داد ستم
کاش انصاف اپنے دل میں تو کرے
غنچہ پیشانی چمن میں میں رہا
بے دماغ عشق گل کیا بو کرے
لوہو پانی ایک کر دیتا ہے عشق
پانی کر دے چشم دل لوہو کرے
۸۸۲۰
اب جنوں میں میرؔ سوئے دشت جائے
کار وحشت کے تئیں یک سو کرے
(۱۲۸۸)
حدیث زلف دراز اس کے منھ کی بات بڑی
کبھو کے دن ہیں بڑے یاں کبھو کی رات بڑی
کبھو جو گالی ہمیں دیتے ہو کرو موقوف
تمھاری بس ہیں یہی ہم پر التفات بڑی
دخیل ذات نہیں عشق میں کہ میرؔ کو دیکھ
ذلیل کیسے ہیں ان کی ہے گو کہ ذات بڑی
(۱۲۸۸)
ہے تماشا حسن و خط حیرت بھی ہے
یعنی خط تو خوب ہے صورت بھی ہے
۸۸۲۵
تا دم آخر نہیں بولے ہیں ہم
کچھ کہیں گے بارے اب رخصت بھی ہے
ہے وہ فتنہ ہم حریف و ہم ظریف
مار ہے گالی ہے پھر منت بھی ہے
تیغ نے اس کی ہمیں قسمت کیا
خوش نصیبی ہے تو پر قسمت بھی ہے
وا نسیم صبح سے ہوتا ہے گل
تجھ کو اے مرغ چمن غیرت بھی ہے
جی ہی دینے کا نہیں کڑھنا فقط
اس کے در سے جانے کی حسرت بھی ہے
۸۸۳۰
دور سے باتیں کرے ہے یوں ہی یار
میرؔ صاحب سے انھیں صحبت بھی ہے
(۱۲۸۸)
چلے ہم اگر تم کو ا کراہ ہے
فقیروں کی اللہ اللہ ہے
نہ افسر ہے نے درد سر نے کلہ
کہ یاں جیسا سر ویسا سرواہ ہے
جہاں لگ چلے گل سے ہم داغ ہیں
اگرچہ صبا بھی ہوا خواہ ہے
غم عشق ہے ناگہانی بلا
جہاں دل لگا کڑھنا جانکاہ ہے
۸۸۳۵
چراغان گل سے ہے کیا روشنی
گلستاں کسو کی قدم گاہ ہے
محبت ہے دریا میں جا ڈوبنا
کنوئیں میں بھی گرنا یہی چاہ ہے
کلی سا ہے کہتے ہیں منھ یار کا
نہیں معتبر کچھ یہ افواہ ہے
نہ کی کوتہی بت پرستی میں کچھ
خدا اس عقیدے سے آگاہ ہے
گیا میرؔ کے جی کی سن کر وہ شوخ
لگا کہنے سب کو یہی راہ ہے
۸۸۴۰
(۱۲۸۰)
یار کا جور و ستم کام ہی کر جاتا ہے
کتنا جی عاشق بیتاب کا مر جاتا ہے
جیسے گرداب ہے گردش مری ہر چار طرف
شوق کیا جانے لیے مجھ کو کدھر جاتا ہے
جوشش اشک میں ٹک ٹھہرے رہو پیش نظر
اب کوئی پل میں یہ سیلاب اتر جاتا ہے
زرد رخسار پہ کیوں اشک نہ آوے گل رنگ
آگے سے آنکھوں کے وہ باغ نظر جاتا ہے
زہ گریباں کی ہے خونناب سے تر ہوتی نہیں
سارا زنجیرۂ دامن بھی تو بھر جاتا ہے
۸۸۴۵
واعظ شہر تنک آب ہے مانند حباب
ٹک ہوا لگتی ہے اس کو تو اپھر جاتا ہے
کیا لکھوں بخت کی برگشتگی نالوں سے مرے
نامہ بر مجھ سے کبوتر بھی چپر جاتا ہے
آن اس دلبر شیریں کی چھری شہد کی ہے
عاشق اک آن ہی میں جی سے گذر جاتا ہے
ہر سحر پیچھے اس اوباش کے خورشید اے میرؔ
ڈھال تلوار لیے جیسے نفر جاتا ہے
(۱۲۸۱)
ٹھوکر لگا کے چلنا اس رشک ماہ کو بھی
یہ چوٹ ہی رہی ہے اس روسیاہ کو بھی
۸۸۵۰
اس شاہ حسن کی کچھ مژگاں پھری ہوئی ہیں
غمزے نے ورغلایا شاید سپاہ کو بھی
کی عمر صرف ساری پر گم ہے مطلب اپنا
منزل نہ پہنچے ہم تو طے کر کے راہ کو بھی
سر پھوڑنا ہمارا اس لڑکے پر نہ دیکھو
ٹک دیکھو اس شکست طرف کلاہ کو بھی
کرتی نہیں خلش ہی مژگان یار دل میں
کاوش رہی ہے جی سے اس کی نگاہ کو بھی
خوں ریزی کے تو لاگو ہوتے نہیں یکایک
پہلے تو پوچھتے ہیں ظالم گناہ کو بھی
۸۸۵۵
جوں خاک سے ہے یکساں میرا نہال قامت
پامال یوں نہ ہوتے دیکھا گیاہ کو بھی
ہر لحظہ پھیر لینا آنکھوں کا ہم سے کیا ہے
منظور رکھیے کچھ تو بارے نباہ کو بھی
خواہش بہت جو ہو تو کاہش ہے جان و دل کی
کچھ کم کر ان دنوں میں اے میرؔ چاہ کو بھی
(۱۲۸۲)
سنا جاتا ہے اے گھتیے ترے مجلس نشینوں سے
کہ تو دارو پیے ہے رات کو مل کر کمینوں سے
گئی گرم اختلاطی کب کی ان سحر آفرینوں سے
لگے رہتے ہیں داغ ہجر ہی اب اپنے سینوں سے
۸۸۶۰
گلے لگ کر نہ یک شب کاش وہ مہ سوگیا ہوتا
مری چھاتی جلا کرتی ہے اب کتنے مہینوں سے
خدا جانے ہے اپنا تو جگر کانپا ہی کرتا ہے
چڑھی تیوری سے محبوبوں کی اور ابرو کی چینوں سے
بہت کوتاہ دامن خرقے شیخوں کے پھٹے پائے
کہیں نکلے تھے گورے ہاتھ اس کے آستینوں سے
رہے محو خیال اس کے تو یک دقت سے ہاتھ آئے
نزاکت اس کمر کی پوچھی ہم باریک بینوں سے
برنگ برگ گل ساتھ ایک شادابی کے ہوتا ہے
عرق چیں بھیگتا ہے دلبروں کے جب پسینوں سے
۸۸۶۵
بہت میں لخت دل رویا مجھے اک خلق نے جانا
ہوا ہے پہن میرا نام ان رنگیں نگینوں سے
غزل ہی کی ردیف و قافیہ کا رفتہ رہنا ہے
نکلنا میرؔ اب مشکل ہے میرا ان زمینوں سے
(۱۲۸۳)
بیتابی جو دل ہر گھڑی اظہار کرے ہے
اب دیکھوں مجھے کس کا گرفتار کرے ہے
کچھ میں بھی عجب جنس ہوں بازار جہاں میں
سو ناز مجھے لیتے خریدار کرے ہے
ہے اشک سے بلبل کے بھرا چقروں میں پانی
گل باغ سے کیا رخت سفر بار کرے ہے
۸۸۸۰
اس چاہ نے دل ہی کی تو بیمار کیے ہیں
یہ دوستی ہی ہے جو گرفتار کرے ہے
آگے تو جو کچھ ہم نے کہا مان لیا اب
ایک ایک سخن پر بھی وہ تکرار کرے ہے
زنہار نہ جا پرورش دور زماں پر
مرنے کے لیے لوگوں کو تیار کرے ہے
کیا عشق میں ہم اس کے ہوئے خاک برابر
کب اپنے تئیں یوں کوئی ہموار کرے ہے
تصویر سے دروازے پہ ہم اس کے کھڑے ہیں
انسان کو حیرانی بھی دیوار کرے ہے
۸۸۸۵
کیوں کر نہ ہو تم میرؔ کے آزار کے درپے
یہ جرم ہے اس کا کہ تمھیں پیار کرے ہے
(۱۲۸۴)
دشمنوں کے روبرو دشنام ہے
یہ بھی کوئی لطف بے ہنگام ہے
محو زلف یار ہے عالم تمام
حسن کا بھی شہرہ جوش شام ہے
عشق کی ہے راہ کیا مشکل گذر
سر کا جانا جس میں ہر اک گام ہے
گر کہا ناکام ملنے کو کبھی
تو یہ کہتا ہے کہ مجھ کو کام ہے
۸۸۸۰
روز و شب پھرتا ہوں اس کوچے کے گرد
کیا کہوں کیا گردش ایام ہے
چین دن کو ہے نہ شب کو خواب ٹک
اس کی دوری میں کسے آرام ہے
بزم میں پوچھا تو یوں انجان ہو
میرؔ ان لوگوں میں کس کا نام ہے
(۱۲۸۵)
دل عجب نسخۂ تصوف ہے
ہم نہ سمجھے بڑا تاسف ہے
آپ ہی صرف عشق ہو جانا
یہ بھی درویش کا تصرف ہے
۸۸۸۵
منھ ادھر کر کے وہ نہیں سوتا
خواب میں آوے تو تلطف ہے
یاں تو تکلیف سی کھنچی تکلیف
واں وہی اب تلک تکلف ہے
چھیڑ اس شوخ نے رکھی ہم سے
عہد پر عہد ہے تخلف ہے
مرگ کیا منزل مراد ہے میرؔ
یہ بھی اک راہ کا توقف ہے
(۱۲۸۶)
تسکین درد مندوں کو یارب شتاب دے
دل کو ہمارے چین دے آنکھوں کو خواب دے
۸۸۸۰
اس کا غضب سے نامہ نہ لکھنا تو سہل ہے
لوگوں کے پوچھنے کا کوئی کیا جواب دے
گل ہے بہار تب ہے جب آنکھوں میں ہو نشہ
جاتی ہے فصل گل کہیں ساقی شراب دے
وہ تیغ میری تشنۂ خوں ہو گئی ہے کند
کر رحم مجھ پہ کاشکے یار اس کو آب دے
دو چار الم جو ہوویں تو ہیں بابت بتاں
کیا درد بے شمار کا کوئی حساب دے
تار نگہ کا سوت نہیں بندھتا ضعف سے
بیجان ہے یہ رشتہ دلا اس کو تاب دے
۸۸۸۵
مژگان تر کو یار کے چہرے پہ کھول میرؔ
اس آب خستہ سبزے کو ٹک آفتاب دے
(۱۲۸۸)
نہ جرأت ہے نہ جذبہ ہے نہ یاری بخت بد سے ہے
یہی بے طاقتی خوں گشتہ دل کو میرے کد سے ہے
جہاں شطرنج بازندہ فلک ہم تم ہیں سب مہرے
بسان شاطر نو ذوق اسے مہروں کی زد سے ہے
سخن کرنے میں نستعلیق گوئی ہی نہیں کرتا
پڑھیں ہیں شعر کوئی ہم سو وہ بھی شد و مد سے ہے
ہوا سرسبز آگے یار کے سرو گلستاں کب
کہ نسبت دور کی طوبیٰ کو اس کے نخل قد سے ہے
۸۸۰۰
لکھا کب تک کریں اس سرزمیں سے آپھی اب جاویں
ہمیں ملنے کا شوق اس کے زیاد اے میرؔ حد سے ہے
(۱۲۸۸)
کٹ کر گریں گے راہ میں مشتاق علف سے
مٹھ بھیڑ اگر ہو گئی اس تیغ بکف سے
جاتا ہے کوئی دشت عرب کو جو بگولا
کہہ دوں ہوں دعا مجنوں کو میں اپنی طرف سے
دریا تھا مگر آگ کا دریائے غم عشق
سب آبلے ہیں میرے درونے میں صدف سے
دل اور جگر یہ تو جلے آتش غم میں
جی کیونکے بچاؤں کہو اس آگ کی تف سے
۸۸۰۵
شب اس کے سگ کو نے ہمیں پاس بٹھایا
ہم اپنے تئیں دور نہ کیوں کھینچیں شرف سے
چھاتی میں بھری آگ ہے کیا جس سے شب و روز
چنگاریاں گرتی ہیں مری پلکوں کی صف سے
اے میرؔ گدائی کروں دروازے کی اس کے
مانگوں ہوں یہی آٹھ پہر شاہ نجف سے
(۱۲۸۸)
کہو کچھ میرؔ کی وحشت سے ان گلیوں میں آنے کی
خبر کیوں پوچھتے ہیں مجھ سے لڑکے اس دوانے کی
جہاں سے دل کو دیکھو منھ نظر جوں کان طلق آوے
نہ کی کچھ قدر اس نے حیف اس آئینہ خانے کی
۸۸۱۰
ہمیں لیتے ہو آنکھیں موند کر لو تم کہ جنس اپنی
وفا و مہر ہے سو وہ نہیں بابت دکھانے کی
کہو ہو زیر لب کیا دیکھ کر ہم ناتوانوں کو
ہماری جان میں طاقت نہیں باتیں اٹھانے کی
برنگ طائر نو پر ہوئے آوارہ ہم اٹھ کر
کہ پھر پائی نہ ہم نے راہ اپنے آشیانے کی
عجب چوپڑ بچھی ہے ہر زماں اڑتا ہے رنگ اپنا
سمجھ میں چال کچھ آتی نہیں اپنے زمانے کی
اگر طالع کرے یاری تو مریے کربلا جا کر
عبیر اپنے کفن کی خاک ہو اس آستانے کی
۸۸۱۵
غزل اک اور بھی اس گل زمیں میں قصد ہے کہیے
ہوئی ہے اب تو خو آخر ہمیں باتیں بنانے کی
(۱۳۰۰)
عزیز و کون سی صورت ہے ظاہر اس کے آنے کی
قسم کھائی ہو جس نے خواب میں بھی منھ دکھانے کی
تگ ان پلکوں کو ہے ٹھوکر سے فتنے کے جگانے کی
طرح آتی ہے اس قد کو قیامت سر پہ لانے کی
کسو سے آنکھ کے ملتے ہی اپنی جان دے بیٹھے
نئی یہ رسم ہم جاتے ہیں چھوڑے دل لگانے کی
جہاں ہم آئے چہرے پر بکھیرے بال جا سوئے
ادا کرتے ہو تم کیا خوب ہم سے منھ چھپانے کی
۸۸۲۰
مسیں بھیگی ہیں اس کے سبزۂ خط کی بدایت سے
مسیحؑ و خضرؑ کو پہنچی بشارت زہر کھانے کی
جہاں اس کے لیے غربال کر نومید ہو بیٹھے
یہی اجرت ملی ہے کیا ہماری خاک چھانے کی
کہوں کیا ایک بوسہ لب کا دے کر خوب رگڑایا
رکھی برسوں تلک منت کبھو کی بات مانے کی
بگولا کوئی اٹھتا ہے کہ آندھی کوئی آتی ہے
نشان یادگاری ہے ہماری خاک اڑانے کی
کرے ہے داغ اس کا عید کو سب سے گلے ملنا
اکت لی ہے نئی یہ میری چھاتی کے جلانے کی
۸۸۲۵
لڑا کر آنکھیں اس اوباش سے اک پل میں مر گذرا
حکایت بوالعجب ہے میرؔ جی کے مارے جانے کی
(۱۳۰۱)
کریہہ الشکل ہیئت آن کر ایسی نہیں دیکھی
کہ صورت آسماں کی دیکھ کر میں نے زمیں دیکھی
کبھو دیکھو گے تم جو وہ طرح دار اس طرف آیا
طرح ترکیب ایسی ہم نے اب تک تو نہیں دیکھی
مہ یک ہفتہ دلکش اس قدر کاہے کو ہوتا ہے
کروں ہوں شکر کے سجدے کہ میں نے وہ جبیں دیکھی
کہاں وہ طرز کیں اس کی کہاں چین جبیں اس کی
لگا کر بارہا اس شوخ سے تصویر چیں دیکھی
۸۸۳۰
گریباں پھاڑ ڈالیں دیکھ کر دامن کشاں اس کو
پھٹے خرقے بہت جو چاک کی وہ آستیں دیکھی
ترے بیمار کی بالیں پہ جا کر ہم بہت روئے
بلا حسرت کے ساتھ اس کی نگاہ واپسیں دیکھی
نظر اس کی حیا سے میرؔ پشت پا پر اکثر ہے
کنھوں نے کاہے کو اس کی سی چشم شرمگیں دیکھی
(۱۳۰۲)
دن فصل گل کے اب کے بھی جاتے ہیں باؤ سے
دل داغ ہو رہا ہے چمن کے سبھاؤ سے
پہنچی نہ باس گل کی ہمارے مشام میں
یاں کھل رہے ہیں دیدۂ خوں بار گھاؤ سے
۸۸۳۵
نامہ مرے عمل کا بھی اے کاش ساتھ جائے
جب آسمان لپٹیں گے کاغذ کے تاؤ سے
وارفتگان عشق بھی کیا طرفہ لوگ ہیں
دل کے گئے پہ دیتے ہیں جی کیسے چاؤ سے
کہتے تو کہیے بات کوئی دل کی میرؔ سے
پر جی بہت ڈرے ہے انھوں کے چواؤ سے
(۱۳۰۳)
کیا چال نکالی ہے کہ جو دیکھے سو مر جائے
بھیچک کوئی رہ جائے کوئی جی سے گذر جائے
تا چند یہ خمیازہ کشی تنگ ہوں یارب
آغوش مری ایک شب اس شوخ سے بھر جائے
۸۸۴۰
بے طاقتی دل سے مری جان ہے لب پر
تم ٹھہرو کوئی دم تو مرا جی بھی ٹھہر جائے
پڑتے نگہ یار مرا حال ہے ویسا
بجلی کے تڑپنے سے کوئی جیسے کہ ڈر جائے
اس آئینہ رو شوخ مفتن سے کہیں کیا
عاشق کو برا کہہ کے منھ ہی منھ میں مکر جائے
ناکس کی تلافی ستم کون کرے ہے
ڈرتا ہوں کہ وہ اور بھی آزردہ نہ کر جائے
جاتا ہے جدھر منزل مقصود نہیں وہ
آوارہ جو ہو عشق کا بے چارہ کدھر جائے
۸۸۴۵
رونے میں مرے سر نہ چڑھو صبر کرو ٹک
یہ سیل جو اک زور سے آتا ہے اتر جائے
کیا ذکر مرا میں تو کہیں اس سے ملوں ہوں
ان خانہ خرابوں کی کہو جن کے وہ گھر جائے
اس زلف کا ہر بال رگ جان ہے اپنی
یاں جی ہی بکھرتا ہے صبا وہ جو بکھر جائے
گردش میں جو وے آنکھ نشے کی بھری دیکھیں
ہشیار سروں کے تئیں سدھ اپنی بسر جائے
آنکھیں ہی لگی جاتی ہیں اس جاذبہ کو میرؔ
آتی ہے بہت دیر جو اس منھ پہ نظر جائے
۸۸۵۰
(۱۳۰۴)
بتوں کے جرم الفت پر ہمیں زجرو ملامت ہے
مسلماں بھی خدا لگتی نہیں کہتے قیامت ہے
کھڑا ہوتا نہیں وہ رہزن دل پاس عاشق کے
موافق رسم کے اک دور کی صاحب سلامت ہے
جھکی ہے شاخ پر گل ناز سے کیا صحن گلشن میں
نہال قد کی اس کے مدعی تھی سو ندامت ہے
نکلتا ہے سحر خورشید ہر روز اس کے گھر پر سے
مقابل ہو گیا اس سے تو اس سادہ کی شامت ہے
پیے دارو پڑے پھرتے تھے کل تک میرؔ کوچوں میں
انھیں کو مسجد جامع کی دیکھی آج امامت ہے
۸۸۵۵
(۱۳۰۵)
خدا کرے مرے دل کو ٹک اک قرار آوے
کہ زندگی تو کروں جب تلک کہ یار آوے
کمانیں اس کی بھووں کی چڑھی ہی رہتی ہیں
نہ جب تلک سرتیرستم شکار آوے
ہمیں تو ایک گھڑی گل بغیر دوبھر ہے
خدا ہی جانے کہ اب کب تلک بہار آوے
اٹھی بھی گرد رہ اس کی کہیں تو لطف ہے کیا
جب انتظار میں آنکھوں ہی پر غبار آوے
ہر ایک شے کا ہے موسم نہ جانے تھا منصور
کہ نخل دار میں حلق بریدہ بار آوے
۸۸۶۰
تمھارے جوروں سے اب حال جائے عبرت ہے
کسو سے کہیے تو اس کو نہ اعتبار آوے
نہیں ہے چاہ بھلی اتنی بھی دعا کر میرؔ
کہ اب جو دیکھوں اسے میں بہت نہ پیار آوے
(۱۳۰۶)
نکلے ہے جی کا رستہ آواز کی رکن سے
آزردہ ہو نہ بلبل جاتے ہیں ہم چمن سے
جی غش کرے ہے اب تو رفتار دیکھ اس کی
دیکھیں نبھے ہے اپنی کس طور اس چلن سے
گر اس کی اور کوئی گرمی سے دیکھتا ہے
اک آگ لگ اٹھے ہے اپنے تو تن بدن سے
۸۸۶۵
رنگیں خرامی کیا کیا لیتی ہے کھینچ دل کو
کیا نقش پا کو اس کے نسبت گل و سمن سے
دن رات گاہ و بے گہ جب دیکھو ہیں سفر میں
ہم کس گھڑی وداعی یارب ہوئے وطن سے
دل سوختہ ہوں مجھ کو تکلیف حرف مت کر
اک آگ کی لپٹ سی نکلے ہے ہر سخن سے
دل کا اسیر ہونا جی میرؔ جانتا ہے
کیا پیچ پاچ دیکھے اس زلف پر شکن سے
(۱۳۰۸)
کعبے کے در پہ تھے ہم یا دیر میں در آئے
آوارگی تو دیکھو کیدھر سے کیدھر آئے
۸۸۸۰
دیوانگی ہے میری اب کے کوئی تماشا
رہتے ہیں گھیرے مجھ کو کیا اپنے کیا پرائے
پاک اب ہوئی ہے کشتی ہم کو جو عشق سے تھی
عہدے سے اس بلا کے کب ناتواں بر آئے
وسعت بیاں کروں کیا دامان چشم تر کی
رونے سے میرے کیا کیا ابرسیہ تر آئے
آ ہم نشیں بنے تو آج ان کنے بھی چلیے
کہتے ہیں میرؔ صاحب مدت میں کل گھر آئے
(۱۳۰۸)
قصر و مکان و منزل ایکوں کو سب جگہ ہے
ایکوں کو جا نہیں ہے دنیا عجب جگہ ہے
۸۸۸۵
اس کے بدن میں ہر جا دلکش ہے یوں و لیکن
یا سطح رخ جگہ ہے یا کنج لب جگہ ہے
پست و بلندیاں ہیں ارض و سما سے ظاہر
دیکھا جہاں کو ہم نے کتنی کڈھب جگہ ہے
دروازے سے لگے ہم تصویر سے کھڑے ہیں
وارفتگاں کو اس کی مجلس میں کب جگہ ہے
بارے ادھر کیا ہے منھ ان نے میرؔ اپنا
ہو حرف زن سخن کی تیرے بھی اب جگہ ہے
(۱۳۰۸)
دل کی بیماری سے طاقت طاق ہے
زندگانی اب تو کرنا شاق ہے
۸۸۸۰
دم شماری سی ہے رنج قلب سے
اب حساب زندگی بیباق ہے
اپنی عزلت رکھتی ہے عالم ہی اور
یہ سیہ رو شہرۂ آفاق ہے
فرط خجلت سے گرا جاتا ہے سرو
قد دلکش اس کا بالا چاق ہے
دل زدہ کو اس کے دیکھا نزع میں
تھا نمودار آنکھ سے مشتاق ہے
رنگ میں اس کے جھمک ہے برق کی
سطح کیا رخسار کا براق ہے
۸۸۸۵
گو خط اس کے پشت لب کا زہر ہو
بوسۂ کنج دہن تریاق ہے
خشک کر دیتی ہے گرمی عشق کی
بید صحرائی سا مجنوں قاق ہے
مت پڑا رہ دیر کے ٹکڑوں پہ میرؔ
اٹھ کے کعبے چل خدا رزاق ہے
(۱۳۱۰)
بات کیا آدمی کی بن آئی
آسماں سے زمین نپوائی
چرخ زن اس کے واسطے ہے مدام
ہو گیا دن تمام رات آئی
۸۸۸۰
ماہ و خورشید و ابر و باد سبھی
اس کی خاطر ہوئے ہیں سودائی
کیسے کیسے کیے تردد جب
رنگ رنگ اس کو چیز پہنچائی
اس کو ترجیح سب کے اوپر دی
لطف حق نے کی عزت افزائی
حیرت آتی ہے اس کی باتیں دیکھ
خودسری خودستائی خودرائی
شکر کے سجدوں میں یہ واجب تھا
یہ بھی کرتا سدا جبیں سائی
۸۸۸۵
سو تو اس کی طبیعت سرکش
سر نہ لائی فرو کہ ٹک لائی
میرؔ ناچیز مشت خاک اللہ
ان نے یہ کبریا کہاں پائی
(۱۳۱۱)
دست بستہ کام ناخن کر گئے
سب خراشوں ہی سے جبہے بھر گئے
بت کدے سے تو چلے کعبے ولے
دس قدم ہم دل کو کر پتھر گئے
کیا جو اڑتی سی سنی آئے ہیں گل
ہم اسیروں کے تو بال و پر گئے
۸۸۰۰
مجلسوں کی مجلسیں برہم ہوئیں
لوگ وے پل مارتے کیدھر گئے
تھے لب جو پر جو گرم دید یار
سبزے کے سے رنگ مژگاں تر گئے
خانوادے ہو گئے کیا کیا خراب
خانہ ساز دین کیسے مر گئے
دست افشاں پائے کوباں شوق میں
صومعے سے میرؔ بھی باہر گئے
٭٭٭
تشکر: تصنیف حیدر جنہوں نے فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید