FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

کلام آصف الدولہ

 

 

 

 

جمع و ترتیب: محمد عظیم الدین، اعجاز عبید

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

 

اس ادا سے مجھے سلام کیا

ایک ہی آن میں غلام کیا

 

لے گیا ننگ و نام اب مجھ سے

عشق نے آخر اپنا کام کیا

 

یارو اس گل بدن کے تئیں ہم نے

کل صبا سے یہی پیام کیا

 

ہم سے ملتے رہا کرو پیارے

چاہ میں گرچہ اپنا نام کیا

 

قصۂ جاں گداز اے آصفؔ

تھوڑی سی بات میں تمام کیا

٭٭٭

 

 

 

آنکھوں سے اپنی آصفؔ تو احتراز کرنا

یہ خو بری ہے ان کا افشائے راز کرنا

 

جاتے تو ہو پیارے اکتا کے مجھ کنے سے

پر واسطے خدا کے پھر سرفراز کرنا

 

دو چار دن میں ظالم ہووے گی خط کی شدت

یہ حسن عارضی ہے اس پر نہ ناز کرنا

 

پھرتے ہو تم ہر اک جا ہم بھی تو آشنا ہیں

یاں بھی کرم کبھی اے بندہ نواز کرنا

 

دل تو بہت لیے ہیں تم نے ہر ایک جا سے

اس میرے دل کا صاحب کچھ امتیاز کرنا

٭٭٭

 

 

 

 

 

جب سے میرے دل میں آ کر عشق کا تھانا ہوا

ہوش و صبر و عقل و دیں کیا سب سے بیگانہ ہوا

 

دل ہمارا خانۂ اللہ گر مشہور تھا

سو بتوں کے عشق میں اب یہ بھی بت خانہ ہوا

 

قصۂ فرہاد و مجنوں رات دن پڑھتے تھے ہم

سو تو وہ ماضی پڑا اب اپنا افسانہ ہوا

 

رات دن یہ سوچ رہتا ہے مرے دل کے تئیں

اے خدا یاں سے وہ جا کر کس کا ہم کھانا ہوا

 

کیا حقیقت پوچھتا ہے میری تنہائی کی تو

جب کہ میرے پاس سے پیارے ترا جانا ہوا

 

بھوک پیاس اور نیند سب جاتی رہی اے جان من

بلکہ ان لوگوں میں میں مشہور دیوانا ہوا

 

شیخ جی آیا نہ وعدے پر تو اب آصفؔ کا یار

تم تو خوش ہو گے تمہارا ہی جو فرمانا ہوا

٭٭٭

 

 

 

جس دن سے یار مجھ سے وہ شوخ آشنا ہوا

رسوا ہوا خراب ہوا مبتلا ہوا

 

پہلے تو با وفا مجھے دکھلایا آپ کو

جب دل کو لے چکا تو یہ کچھ بے وفا ہوا

 

افسوس کیوں کرے ہے ہمیں قتل کر کے تو

ہم سا جو ایک مر گیا پیارے تو کیا ہوا

 

تیغ فراق یار کا مجروح ہو کے میں

پھرتا ہوں خاک و خوں میں سدا لوٹتا ہوا

 

آصفؔ ہمیشہ دل کو نصیحت کروں تہاں

کہنا مرا نہ مانا یہ جا مبتلا ہوا

٭٭٭

 

 

 

 

دل دیا جی دیا خفا نہ کیا

بے وفا تجھ سے سے میں نے کیا نہ کیا

 

غم دوری کو تیری دیکھ کے یار

آج تک جان سے جدا نہ کیا

 

فائدہ کیا ہے اب بگڑنے کا

کون تھا جس سے تو ملا نہ کیا

 

یہ ہمیں تھے کہ ان جفاؤں پر

پھر کبھی تجھ ستی گلا نہ کیا

 

کون سی شب تھی ہجر کی آصفؔ

کہ یہ دل شمع ساں جلا نہ کیا

٭٭٭

 

 

سینے میں داغ ہے تپش انتظار کا

اب کیا کروں علاج دل داغدار کا

 

اس سے مجھے ملاؤ کہ مرتا ہوں ہجر میں

باعث ہے زندگی کا مری وصل یار کا

 

صیاد اب تو چھوڑ دے آتی ہے فصل گل

دیکھوں گا ہائے کیوں کہ تماشا بہار کا

 

شاید تمہارے دیں میں ہے اے دلبرو روا

دل چھین لینا عاشق سینہ فگار کا

 

شبنم نہیں ہے برگ کے اوپر چمن کے بیچ

آصفؔ گرا ہے اشک کسی بے قرار کا

٭٭٭

 

 

 

 

 

طالب ہو وہاں آن کے کیا کوئی صنم کا

ہو جس کو بھروسہ نہ جہاں ایک بھی دم کا

 

کیا میں تجھے احوال دل و جاں کا بتاؤں

اب میں تو ارادہ کیے بیٹھا ہوں عدم کا

 

کی لاکھوں ہیں تدبیر میاں ہم نے وہ لیکن

چھوٹا نہ یہ دل باندھا ہوا زلف کے خم کا

 

یا وصل ہو یا موت کوئی طرح تو ہووے

کب تک رہوں پامال میں اس درد و الم کا

 

جلنے نہ دیا آتش غم سے جگر و دل

کیا کیا کہوں احسان میں اس دیدۂ نم کا

 

آیا جو نشہ مے کا تو شب آنکھ میں اس کی

سو رنگ سے بد مستی کا رنگ آن کے چمکا

 

وصل اس کا میسر نہیں سچ کہتا ہے آصفؔ

کیوں اپنے تئیں رکھتا ہے مصروف تو غم کا

٭٭٭

 

 

 

 

قاصد تو لیے جاتا ہے پیغام ہمارا

پر ڈرتے ہوئے لے جو وہاں نام ہمارا

 

کیا تاب ہے جو سامنے ٹھہرے کوئی اس کے

آفت ہے غضب ہے وہ دل آرام ہمارا

 

آغاز نے تو عشق کے یہ حال دکھایا

اب دیکھیے کیا ہووے گا انجام ہمارا

 

اے چرخ اسی طرح تو گردش میں رہے گا

پر تجھ سے نہ نکلے گا کبھو کام ہمارا

 

اے پیر مغاں دیکھیو آصفؔ یہ کہے ہے

خالی نہ رہے مے سے سدا جام ہمارا

٭٭٭

 

 

 

 

 

کس قدر درد کے شب کرتا تھا مذکور ترا

وہ ہی بیمار ترا خستۂ و رنجور ترا

 

بے خبر اب بھی شتابی سے پہنچ ڈرتا ہوں

کشتۂ ہجر نہ ہو یہ کہیں مہجور ترا

 

یہ نہ آنے کے بہانے ہیں سبھی ورنہ میاں

اتنا تو گھر سے مرے کچھ نہیں گھر دور ترا

 

نیچی نظروں سے تری ڈرتا ہوں کیا کچھ نہ کریں

دیکھ لینا تو یہاں سب کو ہے منظور ترا

 

آنکھیں ان روزوں میں سچ کہیو لڑائیں کس سے

بے طرح جھمکے ہے کچھ دیدۂ مخمور ترا

 

جس کی تو یاری کرے یاریِ دو جگ وہ کرے

ناصر ہر دو جہاں ہووے ہے منصور ترا

 

شش جہت تجھ ستی معمور ہے اللہ اللہ

جھمکے ہے چاروں طرف نام خدا نور ترا

٭٭٭

 

 

 

مر گیا غم میں ترے ہائے میں روتا روتا

جیب و دامن کے تئیں اشک سے دھوتا دھوتا

 

غیر از خار ستم کچھ نہ اگا اور کہیں

کشت الفت میں پھرا اشک میں بوتا بوتا

 

رفتہ رفتہ ہوا آخر کے تئیں کو مفلس

نقد کو عمر کی میں ہجر میں کھوتا کھوتا

 

 

گرچہ فرہاد تھا اور قیس جنوں میں مشہور

ایک دن میں بھی پہنچ جاؤں گا ہوتا ہوتا

 

چونک آصفؔ نے بنایا عجب اپنا احوال

اٹھ گیا پاس سیں تو صبح جو سوتا سوتا

٭٭٭

 

 

نامہ ترا میں لے کر منہ دیکھ رہ گیا تھا

کیا جانیے کہ قاصد کیا مجھ کو کہہ گیا تھا

 

کوچے سے اپنے تو نے مجھ کو عبث اٹھایا

سب تو چلے گئے تھے اک میں ہی رہ گیا تھا

 

پہلے جو آنسو دیکھا لوہو سا لال تم نے

ناصح وہ دل ہمارا خوں ہو کے بہہ گیا تھا

 

کچھ بھی نہ سوجھتا تھا اس بن مجھے تو آصفؔ

جس دن ستی یہاں سے وہ رشک مہ گیا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہم نے قصہ بہت کہا دل کا

نہ سنا تم نے ماجرا دل کا

 

اپنے مطلب کی سب ہی کہتے ہیں

ہے نہیں کوئی آشنا دل کا

 

عشق میں ایسی کھینچی رسوائی

ہو گیا شور جا بجا دل کا

 

اس قدر بے حواس رہتا ہے

جیسے کچھ کوئی لے گیا دل کا

 

ایک بوسے پہ بیچتے تھے ہم

تو نے سودا نہ کچھ کیا دل کا

 

تیرے ملنے سے فائدہ کیا ہے

نہ ہو حاصل جو مدعا دل کا

 

کیوں دیا آصفؔ اس ستم گر کو

آپ تو مدعی ہوا دل کا

٭٭٭

 

 

 

 

یا ڈر مجھے تیرا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

یا حوصلہ میرا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

 

ہم راہ رقیبوں کے تجھے باغ میں سن کر

دل دینے کا ثمرا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

 

کہتا ہے بہت کچھ وہ مجھے چپکے ہی چپکے

ظاہر میں یہ کہتا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

 

کہتا ہے تو کچھ یا نہیں آصفؔ سے یہ تو جان

یاں کس کو سناتا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

٭٭٭

 

 

 

 

 

غیر پر لطف کرے ہم پہ ستم یا قسمت

تھا نصیبوں میں ہمارے یہ صنم یا قسمت

 

یار تو یار نہیں بخت ہیں سو الٹے ہیں

کب تلک ہم یہ سہیں درد و الم یا قسمت

 

کوچہ گردی سے اسے شوق ہے لیکن گاہے

اس طرف کو نہیں رکھتا وہ قدم یا قسمت

 

کوچۂ یار میں تھوڑی سی جگہ دے اے بخت

مانگتا تجھ سے نہیں ملک عجم یا قسمت

 

جان و دل میں سے نہیں ایک بھی اب نیک نصیب

دونوں کم بخت ہوئے آ کے بہم یا قسمت

 

آصفؔ اب اور لگے کرنے ترقی دن رات

شامت بخت ہوئی میری تو کم یا قسمت

٭٭٭

 

 

 

 

دام الفت میں پھنسا دل ہائے دل افسوس دل

اب نہ ہووے گا رہا دل ہائے دل افسوس دل

 

وہ اسے کیا کیا کہے اور یہ سرکتا ہی نہیں

ہو گیا یوں بے حیا دل ہائے دل افسوس دل

 

ملتے ہی ظالم نے مجھ کو چھوڑ کر یوں یک بیک

ہو گیا مجھ سے جدا دل ہائے دل افسوس دل

 

آہ و نالے کی صدا بھی اب تو آنے سے رہی

مر گیا شاید مرا دل ہائے دل افسوس دل

 

کس طرح اس سے بنے گی ہے بہت وہ بے وفا

اور مرا ہے با وفا دل ہائے دل افسوس دل

 

میں نے کتنا دل کو سمجھایا کہ اب بھی عشق سے

باز آ دل باز آ دل ہائے دل افسوس دل

 

سو نہ مانا دل نے اور سودے میں آخر عشق کے

یوں دوانہ ہو گیا دل ہائے دل افسوس دل

 

چھوڑ کر میرے تئیں اور پاس ظالم کے رہے

اور سہے جور و جفا دل ہائے دل افسوس دل

 

پھر تو آصفؔ غیر سے کس بات کی کیجے امید

جب کہ اپنا دے دغا دل ہائے دل افسوس دل

٭٭٭

 

 

 

 

بسمل کسی کو رکھنا رسم وفا نہیں ہے

اور منہ چھپا کے چلنا شرط وفا نہیں ہے

 

زلفوں کو شانہ کیجے یا بھوں بنا کے چلیے

گر پاس دل نہ رکھیے تو یہ ادا نہیں ہے

 

اک روز وہ ستم گر مجھ سے ہوا مخاطب

میں نے کہا کہ پیارے اب یہ روا نہیں ہے

 

مرتے ہیں ہم تڑپتے پھرتے ہو تم ہر اک جا

جانا کہ تم کو ہم سے کچھ مدعا نہیں ہے

 

تب سن کے شوخ دل کش جھنجھلا کے کہنے لاگا

کیا وضع میری آصفؔ تو جانتا نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

جس دم ترے کوچے سے ہم آن نکلتے ہیں

ہر گام پہ دہشت سے بے جان نکلتے ہیں

 

یہ آن ہے اے یارو یا نوک ہے برچھی کی

یا سینے سے تیروں کے پیکان نکلتے ہیں

 

رندوں نے کہیں ان کی خدمت میں بے ادبی کی

جو شیخ جی مجلس سے سرسان نکلتے ہیں

 

یہ طفل سرشک اپنے ایسا ہو میاں بہکیں

بے طرح یہ اب گھر سے نادان نکلتے ہیں

 

یہ ضد ہے جنہیں یارو آ جائیں جو مشہد پر

تو تھام کے ہاتھوں سے دامان نکلتے ہیں

 

کس طرح غبار ان تک پہنچے گا بھلا اپنا

آصفؔ جو کبھی گھر سے خوبان نکلتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

جو شمشیر تیری علم دیکھتے ہیں

تو ووہیں سر اپنا قلم دیکھتے ہیں

 

تجھے غیر سے جب بہم دیکھتے ہیں

نہ دیکھے کوئی جو کہ ہم دیکھتے ہیں

 

جو چاہیں کہ لکھیں کچھ احوال دل کا

تو ہاتھوں کو اپنے قلم دیکھتے ہیں

 

تو جلدی سے آور نہ میرے مسیحا

کوئی دم کو راہ عدم دیکھتے ہیں

 

گلی میں بتوں کی شب و روز آصفؔ

تماشا خدائی کا ہم دیکھتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

شکل اس کی کسی صورت سے جو دکھلائے ہمیں

دوست ایسا نہیں ملتا ہے کوئی ہائے ہمیں

 

بن بلائے جو سدا آپ چلا آتا تھا

اب یہ نفرت اسے آئی کہ نہ بلوائے ہمیں

 

فائدہ کیا ہے نصیحت سے پھرے ہو ناصح

ہم سمجھنے کے نہیں لاکھ تو سمجھائے ہمیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

صبا کہیو زبانی میری ٹک اس سرو قامت کو

کہ جب سے دل لیا آئے نہ پھر صاحب سلامت کو

 

مرے رونے کو سن کر یوں لگا جھنجھلا کے وہ کہنے

میاں یہ جان کھانا ہے اٹھا دو اس ملامت کو

 

جو ملنا ہے تو آ جاؤ گلے سے لگ کے سو رہئے

نہیں تو کام کیا آؤ گے اے صاحب قیامت کو

 

اٹھائے سو طرح کے ظلم اور جور و جفا تیرے

کہا شاباش بھی تو نے نہ میری استقامت کو

 

ہوا میں خاک اے آصفؔ نہ پہنچا اس کے داماں تک

لیے جاؤں گا ساتھ اپنے عدم تک اس ندامت کو

٭٭٭

 

 

 

کیا فاش کروں غم نہاں کو

پایاں نہیں میری داستاں کو

 

قصے کو نہ پوچھو میرے ہرگز

یارا ہی نہیں دل‌ و زباں کو

 

درپئے ہیں نصیحتوں کے یا رب

سمجھاؤں میں کیوں کے دوستاں کو

 

گو ہم نے سلایا جیب و داماں

کیا کیجئے گا چشم خوں فشاں کو

 

ہو گر نہ وہ شمع رو ہی تو پھر

کیا آگ لگاؤں دود‌ ماں کو

 

گزرا تھا ادھر سے کل جو شاید

آیا تھا وہ میرے امتحاں کو

 

آئے تو ابھی تھے میرے صاحب

ایسی جلدی چلے کہاں کو

 

اے یارو سمجھ کے بولو اس بن

میں جاؤں گا باغ و بوستاں کو

 

آصفؔ ابھی میں نے کیا کہا تھا

ٹک بند نہیں تری زباں کو

٭٭٭

 

 

 

 

مرے دل کو زلفوں کی زنجیر کیجو

یہ دیوانہ اپنا ہے تدبیر کیجو

 

ہمیں قتل ہے یا ہے اب قید ظالم

جو کچھ تجھ سے ہووے نہ تقصیر کیجو

 

مرے دل نے زلفوں میں مسکن کیا ہے

یہ مہمان ہے آئے توقیر کیجو

 

جلالی تو ہے آہ تو آسماں تک

ٹک اک اس کے دل میں بھی تاثیر کیجو

 

یہ آصفؔ تمہارا ہے اے بندہ پرور

اسے ہر گھڑی تم نہ دلگیر کیجو

٭٭٭

 

 

 

 

آتا ہے تیغ ہاتھ میں وہ جنگجو لیے

جاتا ہوں میں بھی سر کے تئیں روبرو لیے

 

گلزار یک بہ یک جو مہکنے لگا ہے یوں

سچ کہہ صبا تو پھرتی ہے یاں کس کی بو لیے

 

سوئے کبھی نہ ساتھ ہمارے خوشی سے تم

جاویں گے گور میں یہی ہم آرزو لیے

 

دیتا نہیں ہے چین الٰہی میں کیا کروں

پھرتا ہوں رات دن دل بے تاب کو لیے

 

آصفؔ نہ چھوڑ دست سخاوت کو زینہار

لایا ہے کچھ نہ ساتھ نہ جاوے گا تو لیے

٭٭٭

 

 

 

 

 

پوچھتے کیا ہو مرے تم دل‌ دیوانے سے

عشق کے رمز کو پوچھو کسی فرزانے سے

 

جی نکل جاوے گا ظالم مرا اب جانے سے

یاں نہ آنا ہی بھلا تھا ترے اس آنے سے

 

روز کے دکھ سے چھٹا رات کے جلنے سے رہا

دوستی شمع نے کی دوستو پروانے سے

 

دل بجا لاوے گا جو کچھ اسے کیجے ارشاد

یہ تو باہر نہیں کچھ آپ کے فرمانے سے

 

یوں یکایک جو ہوئے اس کے جگر کے ٹکڑے

نہیں معلوم کہا زلف نے کیا شانے سے

 

ضبط لازم ہے جب ہی تک کہ نہ ہو آنکھ میں اشک

اب تو بھر آیا ہے دل اشک کے بھر آنے سے

 

رو لے دل کھول کے تو اس گھڑی آصفؔ اپنا

نہیں گھٹ جاوے گا دم اشک کے پی جانے سے

٭٭٭

 

 

 

 

 

جس گھڑی تیرے آستاں سے گئے

ہم نے جانا کہ دو جہاں سے گئے

 

تیرے کوچے میں نقش پا کی طرح

ایسے بیٹھے کہ پھر نہ واں سے گئے

 

شمع کی طرح رفتہ رفتہ ہم

ایسے گزرے کہ جسم و جاں سے گئے

 

ایک دن میں نے یار سے یہ کہا

اب تو ہم طاقت و تواں سے گئے

 

ہنس کے بولا کہ سن لے اے آصفؔ

یہی کہہ کہہ کے لاکھوں جاں سے گئے

٭٭٭

 

 

 

ملنے کو تجھ سے دل تو مرا بے قرار ہے

تو آ کے مل نہ مل یہ ترا اختیار ہے

 

جس جس کے پاس دوستو جس جس کا یار ہے

بہتر چمن سے گھر میں اسی کے بہار ہے

 

تم زخم دل کی میرے خبر پوچھتے ہو کیا

تیر نگاہ دل کے تو اب وار پار ہے

 

گر دشمنی پہ دوست نے باندھی مرے کمر

دشمن ہے اب جو کوئی مرا دوست دار ہے

 

لگتی نہیں پلک سے مری اب ذرا پلک

آنے کا اس کے جب سے مجھے انتظار ہے

 

اے شہسوار اس کو بھی کر لے تو اب شکار

یہ صید دل بھی عمر سے امیدوار ہے

 

یہ کچھ تو حال تیرے دیوانے کا اب ہوا

جیدھر کو جاوے آہ اسے مار مار ہے

 

اے گل تجھے عزیز ہوں رکھتا میں اس لیے

یعنی کہ تجھ میں ایک رمق بوئے یار ہے

 

یہ کس کے دل کو چھین کے کرتے ہیں پائمال

ان ظالموں کا آہ یہی کاروبار ہے

 

آصفؔ خدا کے واسطے مت دے بتوں کو دل

یہ وہ ہیں جن کے قول کا کیا اعتبار ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

وحشت میں سوئے دشت جو یہ آہ لے گئی

کیا کیا کنوئیں جھکانے تری چاہ لے گئی

 

آئے کبھی نہ راہ پہ کیا جانیے ہمیں

کیدھر کو یہ طبیعت گمراہ لے گئی

 

کعبے میں بھی گئے تو ہمیں تیری یاد آہ

پھر سوئے دیر اے بت دل خواہ لے گئی

 

اس نے کہاں بلایا تھا یہ اس کے گھر ہمیں

ناحق زبان خلق کی افواہ لے گئی

 

جاروب کش نے اس کے نہ رہنے دیا مجھے

گرداں نسیم شکل پر کاہ لے گئی

 

جوں تیر دل سے آہ جو نکلے تو کیا کہوں

بس جان کو بھی اپنے وہ ہم راہ لے گئی

 

آصفؔ چمن میں آتے ہی اس رشک گل کی یاد

کیا جانیے کدھر مجھے ناگاہ لے گئی

٭٭٭

 

 

 

 

 

یہ اشک چشموں میں ہم دم رہے رہے نہ رہے

حباب دار کوئی دم رہے رہے نہ رہے

 

تو اپنے شیوۂ جور و جفا سے مت گزرے

تری بلا سے مرا دم رہے رہے نہ رہے

 

پھبا ہے رخ پہ ترے خوش نما صنم لیکن

ہمیشہ گل پہ یہ شبنم رہے رہے نہ رہے

٭٭٭

ماخذ: ریختہ ڈاٹ آرگ

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل