فہرست مضامین
- کلامِ احمد حسین مائلؔ
- احمد حسین مائلؔ
- جمع و ترتیب: محمد عظیم الدین، اعجاز عبید
- چوری سے دو گھڑی جو نظارے ہوئے تو کیا
- آفتاب آئے چمک کر جو سر جام شراب
- سب کے ہاتھوں پہ تھا شب بھر سفر جام شراب
- نکلی جو روح ہو گئے اجزائے تن خراب
- سمجھ کے حور بڑے ناز سے لگائی چوٹ
- میں ہی مطلوب خود ہوں تو ہے عبث
- وہ بت پری ہے نکالیں نہ بال و پر تعویذ
- محشر میں چلتے چلتے کروں گا ادا نماز
- کھڑے ہیں موسیٰ اٹھاؤ پردا دکھاؤ تم آب و تاب عارض
- روئے تاباں مانگ موئے سر دھواں بتی چراغ
- جنبش میں زلف پر شکن ایک اس طرف ایک اس طرف
- کوئی حسین ہے مختار کار خانۂ عشق
- ہو گئے مضطر دیکھتے ہی وہ ہلتی زلفیں پھرتی نظر ہم
- پیار اپنے پہ جو آتا ہے تو کیا کرتے ہیں
- وہ پارہ ہوں میں جو آگ میں ہوں وہ برق ہوں جو سحاب میں ہوں
- قبلۂ آب و گل تمہیں تو ہو
- زمزمہ نالۂ بلبل ٹھہرے
- شب ماہ میں جو پلنگ پر مرے ساتھ سوئے تو کیا ہوئے
کلامِ احمد حسین مائلؔ
احمد حسین مائلؔ
جمع و ترتیب: محمد عظیم الدین، اعجاز عبید
چوری سے دو گھڑی جو نظارے ہوئے تو کیا
چلمن تو بیچ میں ہے اشارے ہوئے تو کیا
بوسہ دہی کا لطف ملا حسن بڑھ گیا
رخسار لال لال تمہارے ہوئے تو کیا
بے پردہ منہ دکھا کے مرے ہوش اڑاؤ تم
پردے کی آڑ سے جو نظارے ہوئے تو کیا
مجھ کو کڑھا کڑھا کے وہ ماریں گے جان سے
دلبر ہوئے تو کیا مرے پیارے ہوئے تو کیا
اے جاں مقابلہ مرے ہاتھوں سے کب ہوا
جوبن ترے ابھر کے کرارے ہوئے تو کیا
الفت کا لطف کیا جو بغل ہی نہ گرم ہو
وہ دل میں رہنے والے ہمارے ہوئے تو کیا
تاثیر دے دعا میں خدا ہے یہی دعا
اونچے جو دونوں ہاتھ ہمارے ہوئے تو کیا
بوسہ نہ دے وہ مجھ کو تو میں اس کو دل نہ دوں
اس گورے ہاتھ سے جو اشارے ہوئے تو کیا
تم سوؤ پھیل کے پھولوں کی سیج پر
فرقت میں ہم جو گور کنارے ہوئے تو کیا
سینہ ملا کے سینہ سے دل میں جگہ کرو
پھرتے ہو جوبنوں کو ابھارے ہوئے تو کیا
کب کھیلنے پکڑ کے ہوا میں سے لائے وہ
جگنو جو آہ دل کے شرارے ہوئے تو کیا
اے جاں ہے تیری زلف پریشاں کا حسن اور
حوروں کے بال ہیں جو سنوارے ہوئے تو کیا
آنکھیں کھلی بھی ہوں تو وہی سامنے رہے
آنکھوں کو بند کر کے نظارے ہوئے تو کیا
لاکھوں مزے ملیں مرے لب سے اگر ملیں
وہ گورے گال آنکھ کے تارے ہوئے تو کیا
یک بوسہ اور لوں گا عرق منہ سے پوچھ کر
وہ آب آب شرم کے مارے ہوئے تو کیا
مائلؔ نہ ہو وصال تو کیا عشق کا مزا
معشوق دور سے وہ ہمارے ہوئے تو کیا
٭٭٭
کیوں شوق بڑھ گیا رمضاں میں سنگار کا
روزہ نہ ٹوٹ جائے کسی روزہ دار کا
ان کا وہ شوخیوں سے پھڑکنا پلنگ پر
وہ چھاتیوں پہ لوٹنا پھولوں کے ہار کا
حور آئے خلد سے تو بٹھاؤں کہاں اسے
آراستہ ہو ایک تو کونا مزار کا
شیشوں نے طرز اڑائی رکوع و قیام کی
کیا ان میں ہے لہو کسی پرہیزگار کا
کیوں غش ہوئے کلیم تجلی طور پر
وہ اک چراغ تھا مرے دل کے مزار کا
بعد فنا بھی صاف نہیں دل رقیب سے
گنبد کھڑا ہوا ہے لحد پر غبار کا
کثرت کا رنگ شاہد وحدت کا ہے بناؤ
وہ ایک ہی سے نام ہے ہژدہ ہزار کا
ناقوس بن کے پوچھنے جاؤں اگر مزاج
بت بھی کہیں گے شکر ہے پروردگار کا
دولہا کی یہ برات ہے رسمیں ادا کرو
در پر جنازہ آیا ہے اک جاں نثار کا
کیا کیا تڑپ تڑپ کے سرافیل گر پڑے
دم آ گیا جو صور میں مجھ بے قرار کا
سرمہ کے ساتھ پھیل کے کیا وہ بھی مٹ گیا
کیوں نام تک نہیں تری آنکھوں میں پیار کا
کیا رات سے کسی کی نظر لگ گئی اسے
اچھا نہیں مزاج دل بے قرار کا
آنکھیں مری فقیر ہوئیں شوق دید میں
تسمہ کمر میں ہے نگہِ انتظار کا
لوٹوں مزے جو بازیِ شطرنج جیت لوں
اس کھیل میں تو وعدہ ہے بوس کنار کا
اللہ مرا غفور محمد مرا شفیع
مائلؔ کو خوف کچھ نہیں روز شمار کا
٭٭٭
آفتاب آئے چمک کر جو سر جام شراب
رند سمجھیں کہ ہے صادق سحر جام شراب
سب کے ہاتھوں پہ تھا شب بھر سفر جام شراب
ہر خط دست بنا رہ گزر جام شراب
دختر رز پہ گریں مست پتنگوں کی طرح
شمع محفل ہو یہ لخت جگر جام شراب
تھام لے دست سبو آئے جو چلنے میں لچک
خط بغداد ہو موئے کمر جام شراب
طور سینا کا گماں ہو خم مے پر سب کو
اس طرح ہوش اڑاؤ اثر جام شراب
ساغر مے میں نہیں پرتو خال ساقی
ہے کف دختر رز میں سپر جام شراب
خاک مے خانہ کی بن جاتی قیامت پس کر
ہر قدم پر جو لچکتی کمر جام شراب
آج مے نوشوں کا مجمع ہے کہاں اے ساقی
کون سی بزم میں ہے شور و شر جام شراب
جتنے مے خوار ہیں ساقی سے گلے ملتے ہیں
سحر عید بنی ہے خبر جام شراب
شیشۂ مے سے اڑا کاگ کبوتر کی طرح
نامہ پہنچانے چلا نامہ بر جام شراب
موج صہبا پہ گرا سپنۂ مینا اڑ کر
ہے مرے سامنے تیغ و سپر جام شراب
مے پلاتا ہے اگر ڈھانپ لے سینہ ساقی
تیرے جوبن کو لگے گی نظر جام شراب
آفتاب آ کے سکھاتا ہے چلن شب بھر کا
رات کو ہوتا ہے اکثر گزر جام شراب
دست ساقی میں رہے دست قدح کش میں رہے
گردن شیشۂ صہبا کمر جام شراب
مست کرتے ہیں دو عالم کو یہی دو خود مست
لذت نغمۂ مطرب اثر جام شراب
کیا غضب ہے کہ تیرا ہونٹھ نہ چوسے مائلؔ
اور ہو تیرے لبوں تک گزر جام شراب
٭٭٭
کیا روز حشر دوں تجھے اے داد گر جواب
اعمال نامہ کا تو ہے پیشانی پر جواب
رک رک کے ہنس کے یوں ہی تو دے فتنہ گر جواب
دیتا ہے اور لطف مجھے تیرا ہر جواب
کس سے مثال دوں تری زلف دراز کو
عمر طویل خضر ہے اک مختصر جواب
مشکل کے وقت دل ہی سے کچھ مشورہ کریں
کیوں دیں کسی کو غیر سے ہم پوچھ کر جواب
کرتے ہیں سجدہ نقش قدم کو تمام لوگ
ہے خانۂ خدا کا تری رہ گزر جواب
منکر نکیر پوچھتے ہیں ڈانٹ ڈانٹ کر
ہوں منتشر حواس تو کیا دے بشر جواب
خلد و سقر کے بیچ میں ہے کوئی عشق یار
ہے پل صراط کا یہ مری رہ گزر جواب
کیوں سر جھکا رہا ہے ذرا آنکھ تو ملا
دے گی مرے سوال کا تیری نظر جواب
غصہ میں یوں نہ آؤ کہ غصہ حرام ہے
تم بات ہی سے بات کا دو سوچ کر جواب
ذروں کی طرح خاک میں ہیں عاشقوں کے دل
گر تو کرے سوال تو دے رہ گزر جواب
میں نے کیا سلام تو چلمن میں چھپ گئے
در پردہ دے گی اب نگہ پردہ در جواب
ہنگامہ حشر کا صفت گرد رہ گیا
تیرے خرام کا نہ ہوا فتنہ گر جواب
کیا اپنے بھولے پن سے کہیں دم میں آئے ہو
ہر بات کا جو دیتے ہو اب سوچ کر جواب
کیا ہوگا خاک ہو کے سر چرخ جائے گا
یہ زیر پا سوال وہ بالائے سر جواب
لکھا ہے مجھ کو ہو گیا تیرا لہو سفید
میں بھی لکھوں گا خون سے سر پھوڑ کر جواب
بے ہوش کر کے پوچھتے ہو دل کا مدعا
دیتا بھی ہے حضور کہیں بے خبر جواب
غصہ سے کچھ کہوں تو وہ کس طرح چپ رہے
اک بات کا جو شام سے دے تا سحر جواب
چتون سے تاڑ جاتے ہیں مائلؔ کا مدعا
دل میں ادھر سوال ہے لب پر ادھر جواب
٭٭٭
نکلی جو روح ہو گئے اجزائے تن خراب
اک شمع بجھ گئی تو ہوئی انجمن خراب
کیوں ڈالتا ہے خاک کہ ہوگا کفن خراب
میں ہوں سفید پوش نہ کر پیرہن خراب
جی میں یہ ہے کہ دل ہی کو سجدے کیا کروں
دیر و حرم میں لوگ ہیں اے جان من خراب
نازک دلوں کا حسن ہے رنگ شکستگی
پھٹنے سے کب گلوں کا ہوا پیرہن خراب
دنیا نے منہ پہ ڈالا ہے پردہ سراب کا
ہوتے ہیں دوڑ دوڑ کے تشنہ دہن خراب
ابلیس سے یہ کہتا ہے لعنت کا طوق روز
آدم خراب یا صفت ما و من خراب
کیا خوش نما ہو خضر بڑھے گر لباس عمر
قد سے جو ہو دراز تو ہو پیرہن خراب
میرا سلام عشق علیہ السلام کو
خسرو ادھر خراب ادھر کوہ کن خراب
یوسف کے حسن نے یہ زلیخا کو دی صدا
لو انگلیاں کٹیں وہ ہوئے طعنہ زن خراب
گر بس چلے تو آپ پھروں اپنے گرد میں
کعبے کو جا کے کون ہو اے جان من خراب
زخمی ہوا ہے نام کو در پردہ حسن بھی
یوسف کا خون گرگ سے ہے پیرہن خراب
وعدہ کیا ہے غیر سے اور وہ بھی وصل کا
کلی کرو حضور ہوا ہے دہن خراب
اے خاک گور دیکھ نہ دھبا لگے کہیں
رکھ دوں ابھی اتار کے گر ہو کفن خراب
کیسی بھی ہو زمین عجب ہل ہے طبع تیز
مائلؔ جو بوئیں ہم نہ ہو تخم سخن خراب
٭٭٭
سمجھ کے حور بڑے ناز سے لگائی چوٹ
جو اس نے آئنہ دیکھا تو خود ہی کھائی چوٹ
نظر لڑی جو نظر سے تو دل پر آئی چوٹ
گرے کلیم سر طور ایسی کھائی چوٹ
لبوں پہ بن گئی مسی جو دل پر آئی چوٹ
جگہ بدل کے لگی کرنے خود نمائی چوٹ
بڑے دماغ سے مارا نظر سے جب مارا
بڑے غرور سے آئی جو دل پر آئی چوٹ
کسی کا طور پہ نکلا ہے ہاتھ پردے سے
بڑا مزا ہو کرے گر تری کلائی چوٹ
یہ دوڑ دھوپ لڑکپن کی یک قیامت ہے
کہ ٹھوکروں سے قیامت نے خوب کھائی چوٹ
ابھی اٹھی نہ تھی نیچی نگاہ ظالم کی
تڑپ کے دل نے کہا وہ جگر پہ آئی چوٹ
جو آئے حشر میں وہ سب کو مارتے آئے
جدھر نگاہ پھری چوٹ پر لگائی چوٹ
جو دل کا آئنہ مل مل کے ہم نے صاف کیا
پھسل پھسل کے تمہاری نظر نے کھائی چوٹ
کلف نہیں ہے نشاں ہے یہ چاند ماری کا
ہمارے چاند نے لو چاند پر لگائی چوٹ
غش آ رہا ہے مجھے ذکر لن ترانی سے
لگی ہے دل پہ مرے لو سنی سنائی چوٹ
رکیں گے کیا کف گستاخ دست رنگیں سے
کہیں نہ کھائے ترا پنجۂ حنائی چوٹ
دل و جگر کو بتا کر وہ لوٹنا میرا
وہ پوچھنا ترا کس کس جگہ پر آئی چوٹ
مریض ہجر یہ سمجھا جو چمکی چرخ پہ برق
یہ آگ سینکنے لائی شب جدائی چوٹ
اٹھے تڑپ کے اٹھے تو گرے گرے تو مرے
پھڑک کے رہ گئے وہ چوٹ پر لگائی چوٹ
پڑے گی آہ جو میری کھلیں گے بند قبا
شب وصال کرے گی گرہ کشائی چوٹ
گرا ہوں خلد سے لنکا میں پہلے طور پہ بعد
جہاں جہاں میں گیا ساتھ ساتھ آئی چوٹ
وہ جھانک جھانک کے لڑتے ہیں مجھ سے یہ کہہ کر
جو ہم نے وار کیا تم نے کیوں بچائی چوٹ
جو درد دل میں اٹھا ان کی یاد کھچ آئی
دکھاتی ہے اثر جذب کہربائی چوٹ
اٹھا اٹھا کے دل مضطرب نے دے ٹپکا
گرا گرا کے مجھے چوٹ پر لگائی چوٹ
نگاہ شوخ سے جس دم نگاہ شوق لڑی
بڑا ہی لطف رہا یہ گئی وہ آئی چوٹ
لگائی اس نے جو ٹھوکر تو جی اٹھا مائلؔ
نکل کے جان پھر آئی کچھ ایسی کھائی چوٹ
٭٭٭
میں ہی مطلوب خود ہوں تو ہے عبث
آج سے تیری جستجو ہے عبث
سادگی میں ہے لاکھ لاکھ بناؤ
آئنہ تیرے روبرو ہے عبث
مجھ کو دونوں سے کچھ مزا نہ ملا
دل عبث دل کی آرزو ہے عبث
باد آب آگ خاک گرد روح
زشت رویوں میں خوبرو ہے عبث
طور و موسیٰ ہیں ذرہ ذرہ میں
کب ترا جلوہ چار سو ہے عبث
لپٹے ہیں خواب میں وہ دشمن سے
ہاتھ یاں زینت گلو ہے عبث
واہ مائلؔ خودی میں ذکر انا
چپ رہو تم یہ گفتگو ہے عبث
٭٭٭
وہ بت پری ہے نکالیں نہ بال و پر تعویذ
ہیں دونوں بازو پہ اس کے ادھر ادھر تعویذ
وہ ہم نہیں جو ہوں دیوانے ایسے کاموں سے
کسے پلاتے ہو پانی میں گھول کر تعویذ
اٹھے گا پھر نہ کلیجے میں میٹھا میٹھا درد
اگر لکھے مرے دل پر تری نظر تعویذ
کہاں وہ لوگ کہ جن کے عمل کا شہرا تھا
کچھ اس زمانے میں رکھتا نہیں اثر تعویذ
پلایا سانپ کو پانی جو من نکال لیا
نہانے بیٹھے ہیں چوٹی سے کھول کر تعویذ
وہاں گیا جو کوئی دل ہی بھول کر آیا
رکھے ہیں گاڑ کے اس نے ادھر ادھر تعویذ
پس فنا بھی محبت کا سلسلہ نہ مٹا
ترے گلے میں ہے اور میری قبر پر تعویذ
یہ بھید ہے کہ نہ مردے ڈریں فرشتوں سے
بنا کے قبر بناتے ہیں قبر پر تعویذ
یہ کیا کہ زلف میں رکھا ہے باندھ کر مرا دل
اسے بھی گھول کے پی جاؤ جان کر تعویذ
جو چاند سے ہیں بدن ہیں وہ چاند تاروں میں
گلوں میں ہیکلیں ہیکل کے تا کمر تعویذ
ہوئے ہیں حضرت مائلؔ بھی دل میں اب قائل
کچھ ایسا لکھتی ہے اے جاں تری نظر تعویذ
٭٭٭
محشر میں چلتے چلتے کروں گا ادا نماز
پڑھ لوں گا پل صراط پہ مائلؔ قضا نماز
سر جائے عمر بھر کی ہو یا رب ادا نماز
آئے مری قضا تو پڑھوں میں قضا نماز
مانگی نجات ہجر سے تو موت آ گئی
روزے گلے پڑے جو چھڑانے گیا نماز
دیکھو کہ پھنس نہ جائیں فرشتے بھی جال میں
کیوں پڑھ رہے ہو کھول کے زلف رسا نماز
ہر اک ستون خانۂ شرع شریف ہے
روزہ ہو یا زکوٰۃ ہو یا حج ہو یا نماز
یہ کیوں خمیدہ ہے صفت صاحب رکوع
کیا پڑھ رہی ہے دوش پہ زلف دوتا نماز
نیت جو باندھ لی تو چلا میں حضور میں
رہبر مری نماز مری رہنما نماز
ساقی قیام سے یہ جو آیا رکوع میں
شیشہ خدا کے خوف سے پڑھتا ہے کیا نماز
اٹھ اٹھ کے بیٹھ بیٹھ کے کرتا ہے کیوں غرور
زاہد کہیں بڑھائے نہ تیری ریا نماز
ارکان یاد ہیں مجھے اے داور جزا
گر حکم ہو تو سامنے پڑھ لوں قضا نماز
شیطان بن گیا ہے فرشتہ غرور سے
کیا فائدہ ہوا جو پڑھی جا بہ جا نماز
لے جاتے ہیں مجھے سوئے دوزخ کشاں کشاں
روزے مرے ادھر ہیں ادھر ہے قضا نماز
حق الیقیں کا نام عروج مقام ہے
پڑھتے ہیں اولیا سر دوش ہوا نماز
مسجد میں پانچ وقت دعا وہ بھی وصل کی
مائلؔ بتوں کے واسطے پڑھتے ہو کیا نماز
٭٭٭
کھڑے ہیں موسیٰ اٹھاؤ پردا دکھاؤ تم آب و تاب عارض
حجاب کیوں ہے کہ خود تجلی بنی ہوئی ہے حجاب عارض
نہ رک سکے گی ضیائے عارض جو سدِ رہ ہو نقاب عارض
وہ ہوگی بے پردہ رکھ کے پردا غضب کی چنچل ہے تاب عارض
چھپا نہ منہ دونوں ہاتھ سے یوں تڑپتی ہے برق تاب عارض
لگا نہ دے آگ انگلیوں میں یہ گرمی اضطراب عارض
جو ان کو لپٹا کے گال چوما حیا سے آنے لگا پسینہ
ہوئی ہے بوسوں کی گرم بھٹی کھنچے نہ کیوں کر شراب عارض
پری جو دیکھے کہے تڑپ کر جو حور دیکھے کہے پھڑک کر
تمہارا گیسو جواب گیسو تمہارا عارض جواب عارض
حضور گھونگھٹ اٹھا کے آئیں بڑی چمک کس میں ہے دکھائیں
ادھر رہے آفتاب محشر ادھر رہے آفتاب عارض
چھپانا کیا ایک کا تھا منظور آج تک ہیں جو چار مشہور
زبور توریت مصحف انجیل پانچویں ہے کتاب عارض
نہ کیوں ہو دعویٰ برابری کا وہاں ملا تل یہاں سویدا
یہ نقطۂ انتخاب دل ہے وہ نقطۂ انتخاب عارض
پڑا ہوں غش میں مجھے سنگھا دو پسینہ چہرے کا زلف کی بو
نہیں ہے کم لخلخے سے مجھ کو یہ مشک گیسو گلاب عارض
جو شعلہ رو منہ چھپا کے نکلا دھواں سر راہ کچھ کچھ اٹھا
لگی وہ آتش بنے ہے جل کر نقاب عارض کباب عارض
نہ جھیپو صبح وصال دیکھو تم آنکھ سے آنکھ تو ملاؤ
لیے ہیں گن گن کے میں نے بوسے زبان پر ہے حساب عارض
کرو نہ غصے سے لال چہرا بھوؤں میں ڈالو نہ بل خدارا
نہیں مجال جلال ابرو نہیں ہے تاب عتاب عارض
جو گال پر گال ہم رکھیں گے شب وصال ان کے ہاتھ اٹھیں گے
طمانچے ماریں گے پیار سے وہ بجیں گے چنگ و رباب عارض
کمر کو گردن کو دست و لب کو وصال میں لطف دے رہا ہے
شباب زانو شباب بازو شباب سینہ شباب عارض
جناب مائلؔ یہ کودک دل بتوں کی الفت میں ہوگا کامل
پڑھاؤ قرآں کے بدلے اس کو بیاض گردن کتاب عارض
٭٭٭
روئے تاباں مانگ موئے سر دھواں بتی چراغ
کیا نہیں انساں کی گردن پر دھواں بتی چراغ
کچھ نہ پوچھو زاہدوں کے باطن و ظاہر کا حال
ہے اندھیرا گھر میں اور باہر دھواں بتی چراغ
دود افغان و رگ جان و سویدا دل میں ہے
بند ہے قندیل کے اندر دھواں بتی چراغ
طور پر جا کر چراغ طور کیوں دیکھے کوئی
کیا مکانوں میں نہیں پتھر دھواں بتی چراغ
ہو موافق کیوں کر اے پروانے سایہ گستری
ہے مخالف زیر بال و پر دھواں بتی چراغ
کانپتا ہے ہاتھ تاثیر دل بیتاب سے
میں کروں روشن تو ہو مضطر دھواں بتی چراغ
صورت بخشش دکھاویں کاغذ و سطر و حروف
ہو عمل نامہ سر محشر دھواں بتی چراغ
خضر ہے بحری مسافر کا منار روشنی
ہے جہازوں کے لیے رہبر دھواں بتی چراغ
کیا ضرورت روشنی کی بے خودی کی بزم میں
زلف ساقی موج مے ساغر دھواں بتی چراغ
شعلہ رویوں کے مقابل رنگ جمتا ہی نہیں
اڑ نہ جائے بزم سے بن کر دھواں بتی چراغ
کس سلیقہ سے ہے روشن محفل ارض و سما
آسماں پر چاند ہے گھر گھر دھواں بتی چراغ
صبح تک کرتے رہے روشن دلوں سے ہمسری
شام سے روشن نفس ہو کر دھواں بتی چراغ
عشق کی گرمی نے پھونکا پردے پردے میں مجھے
میری چادر میں مرا بستر دھواں بتی چراغ
زلف و رخسار و نظر ہیں دشمن ایمان و دیں
لوٹنے نکلے ہیں وہ لے کر دھواں بتی چراغ
میں وہ طائر ہوں جو ہوں کم خرچ اور بالا نشیں
ایک جگنو یاں ہے اور گھر گھر دھواں بتی چراغ
شب کو مائلؔ وقت آرایش مصاحب تھے یہی
پھول سرمہ آئنہ زیور دھواں بتی چراغ
٭٭٭
جنبش میں زلف پر شکن ایک اس طرف ایک اس طرف
گردش میں چشم سحر فن ایک اس طرف ایک اس طرف
عارض پہ زلف پر شکن ایک اس طرف ایک اس طرف
ہیں آج دو سورج گہن ایک اس طرف ایک اس طرف
مطلب اشاروں سے کہا میں ان اشاروں کے فدا
آنکھیں بھی ہیں گرم سخن ایک اس طرف ایک اس طرف
جس دم سکندر مر گیا حال تہی دستی کھلا
تھے ہاتھ بیرون کفن ایک اس طرف ایک اس طرف
جائے گا دو ہو کر یہ دل آدھا ادھر آدھا ادھر
کھینچے گی زلف پر شکن ایک اس طرف ایک اس طرف
غیروں سے کھل کھیلو نہ تم کر دیں گے رسوا حشر میں
ہیں دو فرشتے جان من ایک اس طرف ایک اس طرف
عارض پہ سمٹے خودبخود زلفوں کے گھونگر والے بال
ہے نافۂ مشک ختن ایک اس طرف ایک اس طرف
شیریں کا خواہاں حشر میں خسرو بھی ہے فرہاد بھی
کھینچیں گے دونوں پیرہن ایک اس طرف ایک اس طرف
گھونگٹ جو گالوں سے اٹھا تار نظارہ جل گیا
سورج تھے دو جلوہ فگن ایک اس طرف ایک اس طرف
قاتل ادھر جراح ادھر میں نیم بسمل خاک پر
اک تیر کش اک تیر زن ایک اس طرف ایک اس طرف
آنکھوں کے اندر جائے غیر آنکھوں کے اوپر ہے نقاب
خلوت میں ہیں دو انجمن ایک اس طرف ایک اس طرف
وہ ہاتھا پائی ہم نے کی بستر پہ ٹوٹے اور گرے
بازو کے دونوں نورتن ایک اس طرف ایک اس طرف
پیش خدا روز جزا میں بھی ہوں چپ قاتل بھی چپ
گویا کھڑے ہیں بے دہن ایک اس طرف ایک اس طرف
رخسار پر خط کا نشاں گل پر ہوا سبزہ عیاں
ہیں دونوں عارض دو چمن ایک اس طرف ایک اس طرف
کافر بھی ہوں مومن بھی ہوں جلنا بھی ہے گڑنا بھی ہے
کھینچیں گے شیخ و برہمن ایک اس طرف ایک اس طرف
گھبرا نہ جائیں دل جگر ہے بند تربت میں ہوا
پنکھے ہوں دو نزد کفن ایک اس طرف ایک اس طرف
یا رب اٹھوں جب قبر سے دو بت رہیں ہم رہ مرے
غارت گر ہند و دکن ایک اس طرف ایک اس طرف
کہتے ہیں انمول اس کو سب کہتے ہیں کچھ گول اس کو سب
کیا چیز ہے اے جان من ایک اس طرف ایک اس طرف
جنت کی حوریں آئیں ہیں مائلؔ دبانے میرے پاؤں
بیٹھی ہیں نزدیک کفن ایک اس طرف ایک اس طرف
٭٭٭
کوئی حسین ہے مختار کار خانۂ عشق
کہ لا مکاں ہی کی چوکھٹ ہے آستانۂ عشق
نگاہیں ڈھونڈ رہی ہیں دل یگانۂ عشق
اشارے پوچھ رہے ہیں کہاں ہے خانۂ عشق
پھریں گے حشر میں گرد دل یگانۂ عشق
کریں گے پیش خدا ہم طواف خانۂ عشق
نئی صدا ہو نئے ہونٹھ ہوں نیا لہجہ
نئی زباں سے کہوں گر کہوں فسانۂ عشق
جو مولوی ہیں وہ لکھیں گے کفر کے فتوے
سناؤں صورت منصور اگر ترانۂ عشق
اگر لگے تو لگے چوٹ میرے نالے کی
اگر پڑے تو پڑے دل پہ تازیانۂ عشق
جو ڈال دیں اسے پتھر پہ بھی پھلے پھولے
درخت طور بنے سبز ہو کے دانۂ عشق
تمہیں کہو جو لٹا دیں تو کون خالی ہو
خزانہ حسن کا افزوں ہے یا خزانۂ عشق
وہ رات آئے کہ سر تیرا لے کے بازو پر
تجھے سلاؤں بیاں کر کے میں فسانۂ عشق
وہ در تک آتے نہیں در سے ہم نہیں اٹھتے
ادھر بہانۂ حسن اور ادھر بہانۂ عشق
سکھائی کس نے یہ رفتار میرے نالے کو
کمر کی طرح لچکتا ہے تازیانۂ عشق
کسی کو پیار کرے گا شباب میں تو بھی
ترے بھی گھر میں جلے گا چراغ خانۂ عشق
جو خوش نویس ملے کوئی دیں گے دل اپنا
ہم اس کتاب میں لکھوائیں گے فسانۂ عشق
گئے ہیں وہ مری محفل میں بھول کر رومال
یہ جانماز بچھا کر پڑھوں دوگانۂ عشق
کسی کے حسن نے کافر بنا دیا مائلؔ
لگا کے قشقۂ درد شراب خانۂ عشق
٭٭٭
ہو گئے مضطر دیکھتے ہی وہ ہلتی زلفیں پھرتی نظر ہم
دیتے ہیں دل اک آفت جاں کو تھامے ہوئے ہاتھوں سے جگر ہم
غیر کو گر وہ پیار کریں گے اپنے لہو میں ہوں گے تر ہم
ڈال ہی دیں گے ان کے قدم پر کاٹ کر اپنے ہاتھ سے سر ہم
صلح ہوئی تو نالے کھینچے یوں کرتے ہیں سب کو خبر ہم
پیٹتے ہیں سینے کا ڈھنڈھورا دیتے ہیں دل بار دگر ہم
اور ملیں گے چھوڑ نہ دیں گے سن کے صدائے مرغ سحر ہم
حلقہ دونوں ہاتھ کا اپنے ڈال رکھیں گے گرد کمر ہم
دل کے اندر طور کے اوپر چشم صنم میں عین حرم میں
تیری ہی صورت تیری ہی مورت پوجنے جائیں تجھ کو کدھر ہم
راز چھپتے تو آغاز اچھا بھید کھلے تو انجام اچھا
مثل سکندر بھیس بدل کر جاتے ہیں بن کر نامہ بر ہم
اندازہ گو کر ہی چکے ہیں آ جاتی ہے مٹھی میں یہ
آج مگر بے پردہ کریں گے دیکھیں گے پتلی سی کمر ہم
لاتے ہی کچھ رنگ جوانی آنکھ سے یوں کیں آنکھ نے باتیں
آؤ دکھائیں سب کو گھاتیں شعبدہ گر تم جادوگر ہم
کہتی ہیں زلفیں مشکیں کس لیں کوئی جو ڈالے ہاتھ کمر میں
پھیل کے سوؤ ڈر کیا تم کو گشت کریں گے گرد کمر ہم
لطف بڑا ہو اور مزا ہو اس کے عوض گر آپ کو پائیں
بیٹھ کے اپنے گھر کے اندر ڈھونڈھ رہے ہیں یار کا گھر ہم
تم کو نزاکت اور خدا دے ہم کو لذت اور خدا دے
پائنچے تم چٹکی سے اٹھا لو تھامے ہوئے چلتے ہیں کمر ہم
اٹھتا جوبن جھکتی گردن دبتی باتیں رکتی گھاتیں
ہائے نہ کیوں سو جاں سے فدا ہوں ان چاروں پر اٹھ پھر ہم
سایہ بن کر ساتھ چلیں گے ساتھ پھریں گے ساتھ رہیں گے
اپنے گھر میں غیر کے دل میں جاؤ جدھر تم آئیں ادھر ہم
جلد تم اٹھو دوڑ کے آؤ ہم کو تھامو ہم کو سنبھالو
گرتے ہیں مثل اشک زمیں پر اٹھتے ہیں شکل درد جگر ہم
سب سے چھڑا کر لائے اڑا کر کیا نہ رکھیں گے دل میں چھپا کر
رہنے بسنے چلنے پھرنے تم کو خدا کا دیں گے گھر ہم
منہ جو کھلے گا رنج بڑھے گا ہم سے نہ بولو ہم کو نہ چھیڑو
کاہیدہ تن آزردہ جان آشفتہ دل خستہ جگر ہم
یہ تو چھپر کھٹ چھوٹا سا ہے پہلو میں تم سوؤ گے کیوں کر
آؤ لٹا لیں سینے پر ہم تم کو سلا لیں چھاتی پر ہم
رنج گر آیا ہو تو بھلا دے پیار بڑھا دے ہم سے ملا دے
ان کی نگہ سے تو گر تو چکے ہیں جائیں نہ یا رب دل سے اتر ہم
دیکھ کے ان کا جوبن ابھرا میں نے کہا یہ مال ہے اچھا
بولے وہ کیا تم لوٹ ہی لو گے گود میں یوں آ جائیں اگر ہم
ٹھہری ہے باہم لطف کی بازی پہلے جو پائے جیت اسی کی
وصل کی شب ہے ڈھونڈ رہے ہیں دل وہ ہمارا ان کی کمر ہم
روز نئے دل لائیں کہاں سے ایسے تحفے پائیں کہاں سے
چاٹ پڑی ہے تم کو دلوں کی لوٹنے جائیں کس کا گھر ہم
غیر کے بر میں ان کو دیکھا خاک میں جائے ایسا نظارہ
ہاتھ میں کمبخت آ نہیں سکتا توڑتے ورنہ تار نظر ہم
نشو و نما پائی ہے دکن میں قدر ہماری کیوں کر ہوگی
گھر کی مرغی دال برابر کس کو دکھائیں اپنا ہنر ہم
کیوں نہ کرے دیوانہ کسی کو شرم کی عادت حسن کی شوخی
ہو گئے مائلؔ دیکھ کے مائل اٹھتا جوبن جھکتی نظر ہم
٭٭٭
پیار اپنے پہ جو آتا ہے تو کیا کرتے ہیں
آئینہ دیکھ کے منہ چوم لیا کرتے ہیں
وصل کا لطف مجھے وصل سے پہلے ہی ملا
جب کہا یار نے گھبرا کے یہ کیا کرتے ہیں
اس قدر تھا مجھے الفت میں بھروسا ان پر
کی جفا بھی تو یہ سمجھا کہ وفا کرتے ہیں
ہے یہی عرض خدا سے کہ فلاں بت مل جائے
وہی اچھے جو نمازوں میں دعا کرتے ہیں
لب کسی کے جو ہلے کان ادھر دھیان ادھر
دل لگا کر وہ مرا ذکر سنا کرتے ہیں
صبح کو دیکھ کے آئینہ میں بوسے کا نشاں
مسکراتے ہوئے ہونٹوں میں گلا کرتے ہیں
کیسے کیسے مجھے بے ساختہ ملتے ہیں خطاب
غصہ آتا ہے تو کیا کیا وہ کہا کرتے ہیں
کیا ہوا مجھ کو رقیبوں نے اگر دی تعظیم
تیری محفل میں تو فتنے ہی اٹھا کرتے ہیں
کان باتوں کی طرف آنکھ ہے کاموں کی طرف
ہو کے انجان مرا ذکر سنا کرتے ہیں
چین پیشانی پہ ہے موج تبسم لب میں
ایسے ہنس مکھ ہیں کہ غصے میں ہنسا کرتے ہیں
بس تو چلتا نہیں کچھ کہہ کے انہیں کیوں ہوں ذلیل
ہم تو اپنا ہی لہو آپ پیا کرتے ہیں
اس اشارے کے فدا ایسے تجاہل کے نثار
مار کر آنکھ وہ منہ پھیر لیا کرتے ہیں
جلسے ہی جلسے ہیں جب سے وہ ہوئے خود مختار
کوئی اتنا نہیں کہتا کہ یہ کیا کرتے ہیں
عاشقانہ ہے عقیدہ بھی ہمارا مائلؔ
لے کے ہم نام بتاں ذکر خدا کرتے ہیں
٭٭٭
وہ پارہ ہوں میں جو آگ میں ہوں وہ برق ہوں جو سحاب میں ہوں
زمیں پہ بھی اضطراب میں ہوں فلک پہ بھی اضطراب میں ہوں
نہ میں ہوا میں نہ خاک میں ہوں نہ آگ میں ہوں نہ آب میں ہوں
شمار میرا نہیں کسی میں اگرچہ میں بھی حساب میں ہوں
اگرچہ پانی کی موج بن کر ہمیشہ میں پیچ و تاب میں ہوں
وہی ہوں قطرہ وہی ہوں دریا جو عین چشم حباب میں ہوں
سلایا کس نے گلے لگا کر کہ صور بھی تھک گیا جگا کر
بپا ہے عالم میں شور محشر مجھے جو دیکھو تو خواب میں ہوں
مزا ہے ساقی ترے کرم سے ظہور میرا ہے تیرے دم سے
وہ بادہ ہوں جو ہوں میکدے میں وہ نشہ ہوں جو شراب میں ہوں
الٰہی وہ گورے گورے تلوے کہیں نہ ہو جائیں مجھ سے میلے
کہ خاک بن کر برنگ سرمہ ہمیشہ چشم رکاب میں ہوں
جو بھیس اپنا بدل کے آیا تو رنگ اطلاق منہ سے دھویا
کیا ہے پانی میں قید مجھ کو ہوا کی صورت حباب میں ہوں
غضب ہے جوش ظہور تیرا پکارتا ہے یہ نور تیرا
خدا نے اندھا کیا ہے جس کو اسی کے آگے حجاب میں ہوں
ہوئی ہے دونوں کی ایک حالت نہ چین اس کو نہ چین مجھ کو
ادھر وہ ہے محو شوخیوں میں ادھر جو میں اضطراب میں ہوں
الٰہی مجھ پر کرم ہو تیرا نہ کھول اعمال نامہ میرا
پکارتا ہے یہ خط قسمت کہ میں بھی فرد حساب میں ہوں
دماغ میں ہوں قدح کشوں کے دہن میں آیا ہوں مہ وشوں کے
نشہ وہ ہوں جو شراب میں ہوں مزا وو ہوں جو کباب میں ہوں
وہ اپنا چہرا اگر دکھائے یقین اندھوں کو خاک آئے
پکارتی ہے یہ بے حجابی کہ میں ازل سے حجاب میں ہوں
علاحدہ کر کے خود سے مجھ کو جو تو نے بخشا تو خاک بخشا
اگرچہ جنت مجھے ملی ہے الٰہی پھر بھی عذاب میں ہوں
ہجوم نظروں کا ہے وہ منہ پر دیا ہے دونو کو جس نے دھوکا
یقیں یہ مجھ کو پڑا ہے پردا گماں یہ ان کو نقاب میں ہوں
جو مجھ کو اس سے جدا کرو گے تو میرا نقصان کیا کرو گے
نہیں ہوں مانند صفر کچھ بھی اگرچہ میں بھی حساب میں ہوں
نہ آیا مر کر بھی چین مجھ کو اٹھا مری خاک سے بگولا
بتوں کا گیسو تو میں نہیں ہوں الٰہی کیوں پیچ و تاب میں ہوں
جو حال پوچھو تو اک کہانی نشان پوچھو تو بے نشانی
وہ ذرہ ہوں جو مٹا ہوا ہوں اگرچہ میں آفتاب میں ہوں
مٹا اگرچہ مزار میرا چھٹا نہ وہ شہسوار میرا
پکارتا ہے غبار میرا کہ میں بھی حاضر رکاب میں ہوں
کرم کی مائلؔ پہ بھی نظر ہو نظر میں پھر چلبلا اثر ہو
ازل سے امیدوار میں بھی الٰہی تیری جناب میں ہوں
٭٭٭
قبلۂ آب و گل تمہیں تو ہو
کعبۂ جان و دل تمہیں تو ہو
لا مکاں دور دل بہت نزدیک
منفصل متصل تمہیں تو ہو
میرے پہلو میں دل نہ کیوں ہو خوش
دل کے پہلو میں دل تمہیں تو ہو
تم سے مل کر خجل ہمیں تو ہیں
ہم سے چھٹ کر خجل تمہیں تو ہو
دل کی سختی کا ہے گلہ تم سے
جس نے رکھی یہ سل تمہیں تو ہو
جیتے جی مجھ کو مار ڈالو تم
مالک جان و دل تمہیں تو ہو
تم کو مائلؔ بہت ہے شرم گناہ
رات دن منفعل تمہیں تو ہو
٭٭٭
زمزمہ نالۂ بلبل ٹھہرے
میں جو فریاد کروں غل ٹھہرے
نغمۂ کن کے کرشمے دیکھو
کہیں قم قم کہیں قلقل ٹھہرے
جال میں کاتب اعمال پھنسیں
دوش پر آ کے جو کاکل ٹھہرے
رات دن رہتی ہے گردش ان کو
چاند سورج قدح مل ٹھہرے
میرا کہنا ترا سننا معلوم
جنبش لب ہی اگر گل ٹھہرے
جان کر بھی وہ نہ جانیں مجھ کو
عارفانہ ہی تجاہل ٹھہرے
عاشقی میں یہ تنزل کیسا
آپ ہم کیوں گل و بلبل ٹھہرے
تجھ پہ کھل جائے جو راز ہمہ اوست
فلسفی دور و تسلسل ٹھہرے
آنکھ سے آنکھ میں پیغام آئے
گر نگاہوں کا توسل ٹھہرے
کھل گئی بے ہمگی با ہمگی
کل میں جب محو ہوئے کل ٹھہرے
دل سے دل بات کرے آنکھ سے آنکھ
عاشقی کا جو توسل ٹھہرے
کیوں نہ فردوس میں جائے مائلؔ
جب محمد کا توسل ٹھہرے
٭٭٭
شب ماہ میں جو پلنگ پر مرے ساتھ سوئے تو کیا ہوئے
کبھی لپٹے بن کے وہ چاندنی کبھی چاند بن کے جدا ہوئے
ہوئے وقت آخری مہرباں دم اولیں جو خفا ہوئے
وہ ابد میں آ کے گلے ملے جو ازل میں ہم سے جدا ہوئے
یہ الٰہی کیسا غضب ہوا وہ سمائے مجھ میں تو کیا ہوئے
مرا دل بنے تو تڑپ گئے مرا سر بنے تو جدا ہوئے
چلے ساتھ ساتھ قدم قدم کوئی یہ نہ سمجھا کہ ہیں بہم
کبھی دھوپ بن کے لپٹ گئے کبھی سایہ بن کے جدا ہوئے
ابھی ہیں زمانہ سے بے خبر رکھا ہاتھ رکھے یہ لاش پر
اٹھو بس اٹھو کہا مان لو مری کیا خطا جو خفا ہوئے
ہیں عجیب مرغ شکستہ پر نہ چمن میں گھر نہ قفس میں گھر
جو گرے تو سایہ ہیں خاک پر جو اٹھے تو موج ہوا ہوئے
وہ عرق عرق ہوئے جس گھڑی مجھے عمر خضر عطا ہوئی
شب وصل قطرے پسینہ کے مرے حق میں آب بقا ہوئے
کبھی شکل آئنہ روبرو کبھی طوطی اور کبھی گفتگو
کبھی شخص بن کے گلے ملے کبھی عکس بن کے جدا ہوئے
نہ تجلیاں ہیں نہ گرمیاں نہ شرارتیں ہیں نہ پھرتیاں
ہمہ تن تھے دن کو تو شوخیاں ہمہ تن وہ شب کو حیا ہوئے
مرے نالے ہیں کہ ازل ابد ترے عشوے ہیں کہ لب مسیح
وہاں کن کا غلغلہ وہ بنے یہاں قم کی یہ جو صدا ہوئے
گرے ذات میں تو ہے جملہ اوست اٹھے جب صفت میں ہمہ از دست
کہا کون ہو تو ملے رہے کہا نام کیا تو جدا ہوئے
کئے اس نے بزم میں شعبدے ملی مہندی ہاتھ پہ شمع کے
جو پتنگے رات کو جل گئے وہ تمام مرغ حنا ہوئے
مرے دل کے دیکھو تو ولولے کہ ہر ایک رنگ میں جا ملی
جو گھٹے تو ان کا دہن بنے جو بڑھے تو ارض و سما ہوئے
وہی فرش و عرش نشیں رہے ہوئے نام الگ جو کہیں رہے
گئے دیر میں تو صنم بنے گئے لا مکاں تو خدا ہوئے
جو تصور ان کا جدا ہوا دل بے خبر نے یہ دی صدا
ابھی ہم بغل تھے کدھر گئے ابھی گود میں تھے وہ کیا ہوئے
کبھی سوزشیں کبھی آفتیں کبھی رنجشیں کبھی راحتیں
ملیں چار ہم کو یہ نعمتیں ترے عشق میں جو فنا ہوئے
ہمیں شوق یہ کہ ہو ایک طور اسے ذوق یہ کہ ہو شکل اور
بنے آگ تو بجھے آب میں ملے خاک میں تو ہوا ہوئے
گئے سر سے جبکہ وہ تا کمر تو الف ادھر کا ہوا ادھر
ترا جوڑا کھلتے ہی بال سب پس پشت آ کے بلا ہوئے
کوئی دب گیا کوئی مر گیا کوئی پس گیا کوئی مٹ گیا
ترے عشوے جب سے فلک بنے ترے غمزے جب سے قضا ہوئے
مجھے گدگدی سے غش آ گیا تو ہلا کے شانہ یہی کہا
ابھی ہنستے تھے ابھی مر گئے ابھی کیا تھے تم ابھی کیا ہوئے
کہو کافروں سے کریں خوشی کہ یہ مسئلہ ہے تناسخی
مرے نالے خاک میں جب ملے تو سبو کے دست دعا ہوئے
پس وصل ہم جو سرک گئے تو وہ کھلکھلا کے پھڑک گئے
کہا شوخیوں نے چلو ہٹو کہ حضور تم سے خفا ہوئے
تمہیں لوگ کہتے ہیں نوجواں کہ ہو بیس تیس کے درمیاں
کہو مجھ سے مائلؔ خوش بیاں وہ تمہارے ولولے کیا ہوئے
٭٭٭
ماخذ: ریختہ ڈاٹ آرگ
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید