FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

کلامِ شاہ آثم

 

 

شاہ آثمؔ

 

 

جمع و ترتیب: محمد عظیم الدین، اعجاز عبید

 

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں

 

 

 

اس دل میں اگر جلوۂ دل دار نہ ہوتا

زنہار یہ دل مظہر اسرار نہ ہوتا

 

ہوتا نہ اگر جام مے عشق سے سرشار

ہرگز دل دیوانہ یہ ہشیار نہ ہوتا

 

ہوتا نہ اگر اس کی محبت سے سروکار

یہ غمزدہ رسوا سر بازار نہ ہوتا

 

ہوتی نہ کبھوں اس دل بیمار کو صحت

گر لطف مسیحائے لب یار نہ ہوتا

 

پیتا نہ اگر جام مے عشق تو ہرگز

دل سر حقیقت سے خبردار نہ ہوتا

 

ہوتا نہ اگر آئینۂ جلوۂ دل دار

دل مہر صفت مطلع انوار نہ ہوتا

 

ہوتا نہ اگر عشق کو منظور یہ اظہار

وحدت سے یہ کثرت کو سروکار نہ ہوتا

 

آگاہ حقیقت سے نہ ہوتا کبھوں آثمؔ

خادم کا اگر فیض مددگار نہ ہوتا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

بے خودی میں عجب مزا دیکھا

سر مخفی کو برملا دیکھا

 

آپ ہی گل ہی آپ ہی بلبل

اس کو ہر رنگ آشنا دیکھا

 

کہتا ہے آپ سمجھے بھی ہے آپ

اس کو ہر شے میں خود نما دیکھا

 

صورت قیس میں ہوا مجنوں

شکل لیلیٰ میں خوش نما دیکھا

 

آپ ہی بن کے عیسیٰ اور مردہ

آپ ہی آپ کو جلا دیکھا

 

ہو بر افروختہ بہ صورت شمع

شکل پروانہ میں جلا دیکھا

 

ساغر بے خودی سے ہو سرشار

ہم نے ہر شے میں اب خدا دیکھا

 

عالم عشق میں کہیں کیا ہم

جلوۂ حسن جا بجا دیکھا

 

فیض خادم صفی سے اے آثمؔ

اس کو دیکھا جسے نہ تھا دیکھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

مجھے ساقیِ چشم یار نے عجب ایک جام پلا دیا

کہ نشہ نے جس کے غم جہاں مرے دل سے صاف بھلا دیا

 

کروں کیا بیان میں وصف اب مئے ناب عشق کا دوستو

کہ خودی کی قید سے یک قلم بخدا کہ مجھ کو چھڑا دیا

 

اثر اس کی چشم کرم کا اب کروں کس زبان سے میں بیاں

کہ بہ ہر مکان و بہ ہر طرف مجھے حق کا جلوہ دکھا دیا

 

کسی آرزو کی رہی نہیں ہے مرے دل میں کچھ بھی سمائے اب

مجھے ساقیا مے لطف سے تو نے کیا ہی خوب چکھا دیا

 

تری تیغ غمزۂ چشم نے جو ہیں قتل مجھ کو کیا صنم

تو وہیں پہ عیسیٰ ناز نے مجھے ایک دم میں جلا دیا

 

نہ فقط تمہاری نگاہ نے مرے دل کو ہاتھ سے لے لیا

کہ تمہاری زلف دراز نے مجھے سو بلا میں پھنسا دیا

 

نہ تھی چشم مجھ کو یہ اے صنم کہ تمہاری چشم نے یک قلم

مرے رخت عقل و شکیب کو برق نگہ سے جلا دیا

 

مجھے تو نے اپنے جمال کے دکھلا کے طرحیں نو بنو

کبھو مثل ابر رلا دیا کبھو مثل برق ہنسا دیا

 

میں فدائے خادم شاہ ہوں دل و جان سے آثمؔ جس نے اب

جسے بوجھنا ہی محال تھا اسے ایک پل میں سوجھا دیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

لشکر عشق آ پڑا ہے ملک دل پر ٹوٹ ٹوٹ

کان میں آتی نہیں ہے جز صدائے لوٹ لوٹ

 

مل نہیں سکتا خدا ہے اس خودی کے ساتھ میں

اے دل اس قید خودی سے جلد تر اب چھوٹ چھوٹ

 

برق ساں ہنسنا ترا یاد آوے ہے جس دم مجھے

ابر کی مانند روتا ہوں میں یکسر پھوٹ پھوٹ

 

ہے صدائے خندۂ گل خار اس کے کان میں

اس لئے کہتا ہوں میں نالہ کو اپنے کھوٹ کھوٹ

 

تیرے کفر زلف کی ڈوری میں اکثر اہل دیں

قید دیں داری سے بھاگے ہیں نکل کر چھوٹ چھوٹ

 

کوئی کافر ہی نہیں جز نفس خود اس دہر میں

پس اسی کافر کے سر کو رات دن تو کوٹ کوٹ

 

آ گیا بحر حقیقت کا ہی گوہر ہاتھ میں

ہے ملا جب سے شہ خادم سے آثمؔ ٹوٹ ٹوٹ

٭٭٭

 

 

 

 

 

سن لیوے اگر تو مری دل دار کی آواز

ہرگز نہ سنے پھر کبھوں مزمار کی آواز

 

کھل جاویں اگر کان ترے دل کے تو بے شک

ہر سمت سے پھر آئے تجھے یار کی آواز

 

سن کر وہ صدا طائر دل کی مرے بولے

شاید کہ یہ ہے بلبل گل زار کی آواز

 

ہو جاوے کماں تیر فلک بار الم سے

سن لیوے جو تیرے لب سوفار کی آواز

 

مردہ کو جلا کر کے بناوے ہے مسیحا

اے عیسیٰ دوراں تری رفتار کی آواز

 

سنتا ہوں میں آثمؔ شہ خادم کے لبوں سے

ہر لحظہ بدل شبلی اور عطار کی آواز

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

سبحہ سے ہے نہ کام نہ زنار سے غرض

ہے مجھ کو صرف گیسوئے دلدار سے غرض

 

ہے دل کو میری کوچۂ دل دار سے غرض

بلبل کو جیسے ہوتی ہے گلزار سے غرض

 

بیمار عشق ہوں نہیں عیسیٰ سے مجھ کو کام

ہے صرف مجھ کو شربت دیدار سے غرض

 

مجھ کو دیا جنوں نے ہے عریانی کا لباس

مجھ کو نہیں ہے جبہ و دستار سے غرض

 

خواہش نہیں ہے سایۂ طوبیٰ کی زاہدا

ہے مجھ کو روز و شب قد دلدار سے غرض

 

مجھ کو نہیں ہے خانۂ بستاں سے کچھ بھی کام

رکھتا ہوں اس کے سایۂ دیوار سے غرض

 

ہے زندگی مری مئے گل رنگ سے مدام

بے وجہ مجھ کو ہے نہیں خمار سے غرض

 

مذہب ہے عشق اور ہے رندی سے مجھ کو کار

کافر سے ہے نہ کام نہ دیں دار سے غرض

 

زخمیِ تیغ عشق ہوں اس واسطے مجھے

ہرگز نہیں ہے مرہم زنگار سے غرض

 

دل کو مرے ہے جور سے اس کے ہمیشہ کار

ہو مشتری کو جیسے خریدار سے غرض

 

رکھتا ہوں میں غرض شہ خادم کی عشق سے

آثمؔ مجھے ہے یار نہ اغیار سے غرض

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہے دل کو میرے عارض جاناں سے ارتباط

بلبل کو جس طرح ہو گلستاں سے ارتباط

 

مجھ درد مند عشق کی تدبیر ہے عبث

ہو گا نہ میرے درد کو درماں سے ارتباط

 

بندہ ہوں عشق کا نہیں مذہب سے مجھ کو کام

کیوں کر کروں میں گبرو مسلماں سے ارتباط

 

ہے ربط مجھ کو کوچۂ جاناں سے روز و شب

مجنوں کو جس طرح تھا بیاباں سے ارتباط

 

مذہب ہے میرا عشق اور رندی ہے میرا کام

ہے کفر سے نہ مجھ کو نہ ایماں سے ارتباط

 

ہے ربط مجھ کو قامت جاناں سے جس طرح

قمری کا ہووے سرو گلستاں سے ارتباط

 

آثمؔ جہان میں شہ خادم کے میں سوا

کافر ہوں گر کروں کسی انساں سے ارتباط

٭٭٭

 

 

 

 

 

دستیاب اس کو ہوا جب سے ہے گلدستۂ داغ

بلبل دل کا نہیں ملتا ہے زنہار دماغ

 

حلقۂ زلف سے اس کی جو عیاں ہیں عارض

شب تاریک میں گویا کہ فروزاں ہے چراغ

 

گر فروغ رخ جانانہ مدد فرما ہو

غم کونین سے ہو جاوے وہیں دل کو فراغ

 

فضل ایزد سے مبارک رہے اے واعظ شہر

کوچۂ یار ہمیں اور تجھے فردوس کا باغ

 

مست عشق شہ خادم ہوں میں آثمؔ یکسر

جس نے بخشا ہے مجھے بادۂ عرفاں کا ایاغ

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہے فنا بسم اللہ دیوان عشق

آفرینہا بر سبق خوانان عشق

 

زہرۂ دوزخ ہے آگے اس کے آب

الامان از آتش سوزان عشق

 

ہے رہا قید غم کونین سے

پائے تا سر قیدیِ زندان عشق

 

تنگ رکھتا ہے دوا کے نام سے

مبتلائے درد بے درمان عشق

 

خون دل پیتا ہے اور ہے جانتا

نعمت عظمی اسے مہمان عشق

 

غور کر دیکھا تو ہفت اقلیم میں

حکمراں ہے بے گماں سلطان عشق

 

کشتیِ گردوں سراپا ڈوب جائے

جوش میں آوے اگر طوفان عشق

 

بندہ کو مولا بناتا ہے مدام

کس قدر ہے یے عیاں احسان عشق

 

بھول جاوے زہد و تقویٰ زاہدا

گر کرے تو سیر کفرستان عشق

 

فیض سے آثمؔ شہ خادم کے ہے

سیر میں اپنی بہارستان عشق

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

کوئی دم تھمتا نہیں باران اشک

الاماں از چشم پر طوفان اشک

 

کس لب میگوں کی خواہش ہے مدام

جوش زن ہے یہ مے جوشان اشک

 

شور نالوں کا مرے سن دم بدم

سہمگیں ہیں یک قلم طفلان اشک

 

کشتیِ گردوں یقیں ہے ڈوب جائے

بڑھ چلا ہے بحر بے پایان اشک

 

شوق میں اس سلک دنداں کی مدام

ہیں نکلتے یہ در غلطان اشک

 

جل کے ہوتا خاک سوز دل سے تن

گر نہ کرتی آنکھ یہ سامان اشک

 

فیض سے خون دل مجروح کی

رشک گلشن ہو گیا دامان اشک

 

دھو گیا خاطر سے جاناں کی غبار

جان پر میری ہے یہ احسان اشک

 

ہوں میں گریاں عشق خادم شاہ میں

اس لیے آثمؔ ہوں میں نازان اشک

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

اٹھی ہے جب سے دل میں مرے عشق کی ترنگ

شادی و غم ہیں آگے مرے دونوں ایک رنگ

 

جب سے ہوا ہوں بادۂ توحید سے میں مست

اٹھتی ہے دل سے نغمۂ منصور کی امنگ

 

دل اندرون سینہ مگر ہو گیا ہے خون

نکلے ہیں میری آنکھوں سے جو اشک سرخ رنگ

 

پہنچے ہے تیر آہ مرا عرش کے پرے

جب سے لگا ہے دل میں مرے عشق کا خدنگ

 

نیرنگیاں تری ہیں ہوئی جیسے جلوہ گر

ہوش و حواس و عقل رسا جملہ ہیں یہ دنگ

 

اک بار گر وہ دیکھے ترے رخ کو بے نقاب

کعبہ پرست ہووے وہیں پر بت فرنگ

 

کر نام و ننگ ترک دلا راہ عشق میں

عاشق وہی ہے جس کو کہ ہے اس سے عار و ننگ

 

مت رکھ تو بحر عشق میں اے بو الہوس قدم

ہر قطرہ میں یہاں ہیں بلا کے دو صد نہنگ

 

آثمؔ میں کیا کروں شہ خادم کی اب ثنا

ہے پائے عقل عرصۂ مدحت میں اس کے لنگ

٭٭٭

 

 

 

 

 

شکل جانانہ جا بجا ہیں ہم

کہیں ناز اور کہیں ادا ہیں ہم

 

کہیں عیسیٰ ہیں ہم کہیں مردہ

کہیں زندہ کہیں فنا ہیں ہم

 

کہیں اعلیٰ ہیں اور کہیں ادنیٰ

کہیں سلطاں کہیں گدا ہیں ہم

 

ہیں کہیں عاشق جگر خستہ

کہیں معشوق دل ربا ہیں ہم

 

کہیں قطرہ ہیں اور کہیں دریا

کہیں کشتی کے ناخدا ہیں ہم

 

ہیں کہیں ہم دوائے دافع درد

اور کہیں درد لا دوا ہیں ہم

 

کہیں ہیں شاہ صورت خادم

اور کہیں آثمؔ گدا ہیں ہم

٭٭٭

 

 

 

 

 

بندۂ عشق ہوں جز یار مجھے کام نہیں

خواہش ننگ نہیں کچھ ہوس نام نہیں

 

مذہب عشق کا یہ ڈھنگ نرالا دیکھا

کچھ وہاں تذکرۂ کفر اور اسلام نہیں

 

عشق کو جانتا ہوں دین و ایمان اپنا

غیر معشوق پرستی مجھے کچھ کام نہیں

 

کعبۂ جاں ہے مرا کوچۂ جاناں یارو

سجدۂ دیر و حرم سے مجھے کچھ کام نہیں

 

صید مرغ دل عاشق لیے اے دلبر

خال ہے دانہ اور یہ زلف کم از دام نہیں

 

درد دل نے ہمیں کیا کیا ہے چکھائی لذت

اس لیے دل کو مرے خواہش آرام نہیں

 

مذہب عشق میں آ کر کے ہمیں اے آثمؔ

شاہ خادم کے سوا اور سے کچھ کام نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

بہ چشم حقیقت جہاں دیکھتا ہوں

میں جاناں کا جلوہ عیاں دیکھتا ہوں

 

یہ جو کچھ کہ ظاہر ہے سب نور حق ہے

میں حق دیکھتا ہوں جہاں دیکھتا ہوں

 

بہر رنگ و ہر شے و ہر جا و ہر سو

تجھی کو میں جلوہ کناں دیکھتا ہوں

 

ہر اک قطرۂ بحر کثرت میں یارو

میں دریائے وحدت رواں دیکھتا ہوں

 

جہاں دیکھتا ہوں میں جلوہ ہے تیرا

ترے غیر کو میں زیاں دیکھتا ہوں

 

یہ تاثیر ہے راز الفت کا دل پر

چو شادی و غم ایک ساں دیکھتا ہوں

 

بجز ذات مرشد وہاں کچھ نہ پایا

میں شیخ و برہمن یہاں دیکھتا ہوں

 

کھلا مجھ پہ ہے جب سے سر حقیقت

میں اپنے تئیں خود گماں دیکھتا ہوں

 

ہوا فیض خادم صفیؔ سے یہ آثمؔ

کہ سب شان مولیٰ عیاں دیکھتا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

عاشق زار ہوں جز عشق مجھے کام نہیں

طالب کفر نہیں تابع اسلام نہیں
غم نہیں کچھ بھی خرابی سے ہے ہم مستوں کو

گردش جام ہے یہ گردش ایام نہیں
قتل عاشق کے لیے ایک ادا بس ہے تری

بسمل عشق کو کچھ حاجت صمصام نہیں

 

کیا ہوا ابر بھی ہے مے بھی ہے ساغر بھی ہے

ہے یہ سب ہیچ اگر ساقیِ گلفام نہیں

 

دیکھ کر مجھ کو تجھے کیوں ہے تحیر ناصح

مشرب عشق ہے یہ مذہب اسلام نہیں

 

خانۂ ناز ہے وہ بلکہ چراغ مردہ

دل کے آئینہ میں گر روئے دل آرام نہیں

 

عشق خادم سے ہوا ہے دل آثمؔ معمور

اس لیے دین و دنیا سے اسے کام نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

قید دل سے ہے مری کاکل پیچاں نازاں

اور مرے قتل سے ہے خنجر مژگاں نازاں

 

ہے مری چنگل وحشت سے گریباں نازاں

اور مری بارش اشکوں سے ہے داماں نازاں

 

کافر عشق ہوا جب سے میں اس دہر میں ہوں

ہے مرے کفر سے یہ دین اور ایماں نازاں

 

زخم کھانے سے مرے فخر کناں ہے یہ دل

خون دل سے ہیں مرے دیدۂ گریاں نازاں

 

ساکن خانۂ زنجیر ہوا ہوں جب سے

مثل ہر حلقۂ زنجیر ہے زنداں نازاں

 

ہوں وہ مجنوں کہ مرے آبلہ ہائے پا سے

دشت وحشت میں ہے ہر خار بیاباں نازاں

 

محو عشق شہ خادم ہوں میں آثمؔ یکسر

حسن پر جس کے ہیں یہ میرے دل و جاں نازاں

٭٭٭

 

 

کون و مکاں میں یارو آباد ہیں تو ہم ہیں

اس ارض اور سما کی بنیاد ہیں تو ہم ہیں

 

وحدت سے تا بہ کثرت سب سے ظہور اپنا

گر ایک ہیں تو ہم ہیں ہفتاد ہیں تو ہم ہیں

 

سب مرز بوم عالم ہے جلوہ گاہ اپنی

ویران ہیں تو ہم ہیں آباد ہیں تو ہم ہیں

 

اقلیم خیر و شر میں ہے حکم اپنا جاری

گر داد ہیں تو ہم ہیں بیداد ہیں تو ہم ہیں

 

اس گلشن جہاں میں سب ہے بہار اپنی

گر قمری ہیں تو ہم ہیں شمشاد ہیں تو ہم ہیں

 

ہیں جوہر اپنے یارو ہر رنگ میں نمایاں

گر تیغ ہیں تو ہم ہیں جلاد ہیں تو ہم ہیں

 

ہے دست گاہ اپنی سب شے میں کار فرما

گر فصد ہیں تو ہم ہیں فصاد ہیں تو ہم ہیں

 

یہ دارگیر عالم سب اپنی حالتیں ہیں

گر دام ہیں تو ہم ہیں صیاد ہیں تو ہم ہیں

 

یہ راز ہم نے آثمؔ خادم صفی سے پایا

گر رشد ہیں تو ہم ہیں ارشاد ہیں تو ہم ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

کیا کہوں تم سے میں یارو کون ہوں

ہوں سراپا قیس صحرائے جنوں

 

چشم خوں افشاں مری رو دیں اگر

دشت ہو جاوے ابھی دریائے خوں

 

دار پر رکھیں مجھیں منصور وار

فاش کر دوں میں اگر راز دروں

 

عشق ہے گنجینۂ اصرار حق

پا نہیں سکتی اسے عقل زبوں

 

کون کر سکتا ہے مجھ دیوانہ کون

قید جز زنجیر و زلف پر فسوں

 

روبرو مستان جام عشق کے

دین کیا ہے اور کیا دنیائے دوں

 

اب تو آثمؔ عشق خادم شاہ میں

ہوں سراپا قیس صحرائے جنوں

٭٭٭

 

 

 

 

ہے عیاں روئے یار آنکھوں میں

چھائی ہے کیا بہار آنکھوں میں

 

شعلے اٹھتے ہیں بار بار عجیب

کون ہے شمع وار آنکھوں میں

 

کون ہے شہسوارتوسن حسن

جس کا ہے یہ غبار آنکھوں میں

 

کیسی مے تو نے دی پلا مجھ کو

اب تلک ہے خمار آنکھوں میں

 

دل ہے بلبل صفت بنالہ و آہ

کون ہے گلعذار آنکھوں میں

 

شوق میں کس کی ہے نکل آیا

دل پر اضطرار آنکھوں میں

 

ابل آتا ہے کس کی شوق میں آہ

خون دل بار بار آنکھوں میں
ہر طرف ہے عیاں رخ دل دار

ہے خزاں نوبہار آنکھوں میں

 

فیض خادم صفی سے ہے آثمؔ

جلوہ گر حسن یار آنکھوں میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

افسانہ مرے دل کا دل آزار سے کہہ دو

بلبل کے ذرا درد کو گلزار سے کہہ دو

 

سودائے محبت نے کیا ہے مجھے مجنوں

جا سلسلۂ گیسوئے دلدار سے کہہ دو

 

مجھ تشنۂ دیدار کی ہے ہونٹوں پہ اب جان

للہ یہ چاہ زقن یار سے کہہ دو

 

گردن پہ مری سر یہ بہت بار گراں ہے

تیغ دو دم ابروئے خم دار سے کہہ دو

 

اس چشم سے کہہ دو مری رنجوری کی حالت

پیغام یہ بیمار کا بیمار سے کہہ دو

 

ہوں بندۂ الفت نہیں مذہب کی ہے خواہش

یہ حال مرا سبحہ و زنار سے کہہ دو

 

منصور صفت دل سے نکلتا ہے انا الحق

یہ حال مرا جلد سر دار سے کہہ دو

 

مژگان ستم گر نے کیا مجھ کو ہے بسمل

اعجاز مسیحائے لب یار سے کہہ دو

 

آثمؔ ہی ہوا کافر عشق شہ خادم

اس رمز کو ہر صاحب اسرار سے کہہ دو

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

اسلام اور کفر ہمارا ہی نام ہے

کعبہ کنشت دونوں میں اپنا مقام ہے

 

یہ عشق جس کا شور ہے عالم میں ہیں ہمیں

یہ حسن ہم ہیں جس کی یہ سب دھوم دھام ہے

 

بن کر سخن زبان پہ عالم کی ہیں ہمیں

مصروف اپنے ذکر میں بس ہر اک دام ہے

 

دیکھو جس آنکھ میں تو ہمارا ہی نور ہے

ہر کان میں بھرا یہ ہمارا کلام ہے

 

جو کشتگان معرکہ تیغ عشق ہیں

ان کے لئے یہ عالم ہستی دوام ہے

 

کوئے صنم سے ہم کو سروکار ہے فقط

واعظ تری بہشت کو اپنا سلام ہے

 

آثمؔ نہ چھوڑو دامن خادم صفی کبھوں

معمور جس کی فیض سے ہر خاص و عام ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

عجب تو نے جلوہ دکھایا مجھے

کہ عالم میں پھر کچھ نہ بھایا مجھے

 

کروں کیا بیاں میں یہ احسان عشق

کہ قطرہ سے دریا بنایا مجھے

 

فدا ہوں میں اس ناز جاں بخش پر

کہ جوں جوں موا میں جلایا مجھے

 

تری زلف پیچاں نے اے رشک گل

ہزاروں بلا میں پھنسایا مجھے

 

رلایا کبھوں مجھ کو مانند ابر

کبھوں برق آسا ہنسایا مجھے

 

جو اپنے تئیں میں نے دیکھا بغور

سراپا نظر تو ہی آیا مجھے

 

میں ہوں شاہ خادم پر آثمؔ فدا

کہ جوں جوں میں بگڑا بنایا مجھے

٭٭٭

 

 

 

 

 

عشق کے اقلیم میں چال و چلن کچھ اور ہے

ہے نرالا ڈھنگ واں کا اور عجائب طور ہے

خون دل پیتی ہیں واں اور کھاتی ہیں لخت جگر

لطف کے بدلے اٹھانے کو جفا و جور ہے

ان کی گلیوں میں نہیں ہوتا گزر ہی عقل کا

ہے جنوں کا بند و بست اور عاشقی کا دور ہے

زندگی اور مرگ شادی اور غم اور نیک و بد

ایک ساں ہیں سب وہاں لیکن مقام غور ہے

لا مکاں ہے واسطے ان کی مقام بود و باش

گو بظاہر کہنے کو کلکتہ اور لاہور ہے

آہ و نالہ کی چلا کرتی ہیں واں تیر و سنان

جو کہ جاتا ہے وہاں رہتا وہیں وہ ٹھور ہے

ابتدا میں جیتے جی مر جانا پڑتا ہے وہاں

پر جو مر جاتا ہے واں جیتا وہیں فی الفور ہے

ہوں میں جان و دل سے آثمؔ شاہ خادم پر فدا

عشق کے کشور میں جس کی شان و شوکت اور ہے

٭٭٭

ماخذ: ریختہ داٹ آرگ

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں