FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

کرشن چندر کے چار ڈرامے

 

               کرشن چندر

 

مشمولہ ’اردو ڈرامے‘ اور ’اردو پلے‘ مرتبہ پروفیسر سیدمعزالدین احمدفاروق

 

 

 

 

 

دروازہ

 

پہلی بار:دہلی ۱۷/اگست ۱۹۴۰ء؁

 

ڈرامے کے افراد  اور  اداکار

 

ماں :چندر کرن چھایا

کانتا:خورشید بیگم

شانتا:سرلا دیوی

مالک مکان:محمد حسین

اجنبی:تاج محمد

زمانہ :حال

 

 

 

 (کھڑکی زور سے کھلتی ہے۔ بادل کی گرج ہلکی سی  اور  ہوا کے فراٹے کے ساتھ بارش کی آواز کمرے کے اندر سنائی دیتی ہے۔ )

 

 

ماں     :اب تو بارش بھی شروع ہو گئی بیٹی۔ ۔ ۔ (وقفہ)۔ ۔ ۔  اور  یہ ہوا کا طوفان۔ ۔ ۔ (وقفہ)۔ ۔ ۔ اب کون آئے گا۔ اس طوفان کے اندھیارے میں۔ ۔ ۔ (وقفہ)۔ ۔ ۔  کانتا بیٹی۔ اب کیا وقت ہو گا؟

کانتا    :مجھے نہیں معلوم۔

ماں     :بتا بھی دے بیٹی(آبدیدہ ہو کر)اگر آج میری آنکھیں ہوتیں تومیں خود دیکھ لیتی۔

کانتا    :گھڑی شانتا کے میز کے اوپر پڑی ہے۔ شانتا میز پرسے ہلے تومیں وقت معلوم کروں۔

ماں     :شانتا بیٹی۔

شانتا    : (کمرے کے دوسرے کونے سے آواز) ساڑھے آٹھ بجے ہیں۔

(وقفہ)

ماں     :ساڑھے۔ ۔ ۔ آٹھ۔ ۔ ۔ رات ہو گئی۔ رات  اور  طوفان۔ اس طوفان میں اب کون آئے گا؟

شانتا    :میں نے ونود سے کہا تھا۔

ماں     :ونود کیوں ہمارے گھر آنے لگا۔ ونود کیوں کسی غریب بہن سے راکھی بندھوائے گا۔ شانتا تم نے ونود سے کب کہا تھا؟

شانتا    :صبح ہی۔ ابھی وہ پوجا پاٹ سے فارغ ہوا تھا کہ اس کی بہن نے اس کے راکھی باندھ دی تھی  اور  اس نے اسے ایک پونڈ دیا تھا سچ مچ کا پونڈ سونے کا پونڈ۔ جب میں ونود کے گھر گئی تو اس وقت وہ ہنس ہنس کر اپنی بہن سے باتیں کر رہا تھا۔ لال چندن کا تلک اس کے ماتھے پرتھا۔ بال پانی سے بھیگے ہوئے تھے۔ ہاتھوں پر سنہری تاروں سے گندھی ہوئی راکھی۔ میں نے اس سے کہا بھیا راکھی بندھوا لو(آبدیدہ ہو کر) اس نے کہا شانتا  تم گھر چلو میں ابھی چلا آتا ہوں۔ اب ساڑھے آٹھ بجے ہیں۔ ۔ ۔ رات ہو گئی۔

ماں     :رات  اور  طوفان۔

(شانتا سسکیاں لیتی ہے۔ )

ماں     :رو نہیں بیٹی۔ ادھر آ میرے پاس۔ اگر اس وقت تیرا بھائی ہوتا میرا پیارا چاند!ہائے برا ہو ان ڈاکوؤں کاجو میرے چاند کو اٹھا کر لے گئے۔ (کھڑکا) کون ہو؟

شانتا    :ونود!؟

(بلی کا بولنا۔ )

کانتا    : (کمرے کا دروازہ کھول کر)نہیں بلی ہے۔ بارش سے پناہ مانگ رہی ہے۔

(میاؤں میاؤں۔ )

ماں     :کانتا اسے اندر لے آ۔

کانتا    :لیکن ہم اسے کھلائیں گے کیا۔ گھر میں تواب کچھ بھی نہیں۔

ماں     :صبح کی ایک روٹی بچی تھی۔

شانتا    : (شرمسار ہو کر)مجھے بھوک لگی تھی ماں، میں نے کھالی۔

(میاؤں میاؤں۔ )

ماں     :اگر تمہارے پتا اس وقت زندہ ہوتے۔ ۔ ۔

کانتا    : (طنز سے)اگر ۔

ماں     :کیا کہا؟

کانتا    :کچھ نہیں۔

ماں     :کچھ تو کہا بیٹی۔ اندھی ماں کونہ بتاؤ گی؟

کانتا    : (چڑ کر) کچھ کہا ہو تو بتاؤں۔ تمہارے کان تو جیسے ہوا میں ہر وقت کسی کی آواز کو سنتے رہتے ہیں۔

ماں     :لیکن مجھے وہ آواز کبھی نہیں سنائی دیتی۔ جب میرا پیارا چاند مجھے کہا کرتا تھا ماں۔ ماں۔ مجھے بھوک لگی ہے۔ ماں مجھے ماسٹر نے مارا ہے۔ ماں مجھے پیشہ دو۔ اس کا وہ گورا گورا ہر وقت ہنستا ہوا چہرہ۔

کانتا    : (ناراضگی سے) ماں۔

ماں     : (ان سنی کر کے)جب وہ ہنستا تھا تو اس کے داہنے گال پر ایک عجیب خم سا پڑتا تھا؟جو مجھے بہت بھلا معلوم ہوتا تھا  اور  جب ہمیں اس کے بال سنوار کر اسے ٹوپی پہناتی تھی۔ اس وقت میں اندھی نہ تھی بیٹا!

کانتا    :ماں!!

ماں     :ایک دن وہ سکول سے دوڑتا دوڑتا گھر پہنچا کہنے لگا ماں آج قصبہ میں جگہ جگہ اشتہار لگے ہوئے ہیں۔ کہ آج یہاں ڈا کہ پڑے گا۔ قصبے کے سب لوگ پریشان ہو رہے ہیں۔ ماسٹر جی نے ہمیں جلد چھٹی دے دی ہے۔ پھر کچھ دیر کے بعد چاند کے پتا جی بھی آ گئے۔ انھوں نے بھی یہی بات سنائی۔ وہ دن ہم نے جس پریشانی میں گزارا۔ ۔ ۔  تم تو اس وقت پیدا ہی نہ ہوئی تھیں۔ اچھا ہوا۔ ورنہ ڈاکو تمہیں بھی اٹھا لے جاتے  اور   پھر وہ رات۔ وہ کالی بھیانک رات۔

کانتا    :ماں!!

ماں     : (چیخ کر)میرا آٹھ سال کا بچہ۔ پلا پلایا۔ میرا لاڈلا۔ اکلوتا چاند۔ ہائے وہ سب کچھ لے گئے تھے۔ لیکن میرے بچے کو تو نہ لے جاتے۔ میں نے ان کے آگے ہاتھ جوڑے۔ اپنے بال کھول کران کے پاؤں پر دھرے لیکن انھوں نے ایک نہ سنی۔ کہتے تھے۔ کہ ایک مہینہ کے اندر پانچ ہزار روپئے ادا کر دو گے۔ تو تمہارا چاند تمہیں واپس مل جائے گا۔ میری ان آنکھوں کے سامنے وہ میرے لال کو اٹھا کر لے گئے تھے۔ تمہارے پتا رسیوں سے جکڑے ہوئے چارپائی پر پڑے تھے۔ چاند چلا رہا تھا۔ ایک ڈاکو نے اسی کے منہ پر زور سے طمانچہ مارا  اور   اس کے لبوں سے خون کی دھار پھوٹ کر بہنے لگی۔ وہ میرے سامنے میرے لال کولے گئے۔ کاش میں جنم اندھی ہی پیدا ہوتی۔ ۔ ۔ یوں کڑ کڑ کر میرے نصیبوں میں لکھا تھا۔ تمہارے پتا جی اسی سوچ میں گھل گھل کر مر گئے۔ کہ کہیں سے پانچ ہزار روپیہ اکھٹا نہ ہوا۔

(بادل کی گرج۔ بارش کی آواز تیز ہو جاتی ہے۔ )

کھڑی کی بند کر دو کانتا ہوا کے تیز فراٹے میرے رخساروں کو جیسے چیر رہے ہیں۔

شانتا    :شانتا بہن کھڑکی کھلی رہنے دو۔ شاید ونود بھیا آتے ہوں کھڑکی بند دیکھ کر واپس چلے جائیں گے۔

کانتا    : (دور سے کھڑکی کے قریب جا کر سر باہر نکالتے ہوئے) کوئی بھی نہیں آ رہا۔ گلی سنسان پڑی ہے۔ چورا ہے پر پولیس کا سپاہی جیپ کے نیچے کھڑا بارش میں بھیگ رہا ہے۔ اب کون آئے گا شانتا بہن تم نے ایک ونود سے کہا تو میں نے کتنوں سے کہا رام بھروسے سے شنکر لال سے ودیا ناتھ سے لیکن سبھی ٹال گئے سبھی کہتے تھے گھر آ کر بندھوائیں گے دیکھو کوئی اس وقت پہنچا؟کون آئے گا؟کسے ضرورت ہے کہ غریب بہنوں کا بھائی بنے۔ مفت کا خرچ  اور  پھر ہماری راکھی بھی کیا ہے ؟ کچے سوت کا لال دھاگا جس میں نہ زری کے تار نہ موتیوں کی جھلک۔ نہ ریشم کے مسکراتے ہوئے پھول۔ ہماری راکھی بھی ہماری زندگیوں کی طرح پھیکی۔ اداس  اور  بے رنگ و  بو ہے۔ اس راکھی کو کون پسند کرے گا؟ تم ونود پر آس لگائے بیٹھی رہو۔ میں کھڑکی بند کئے دیتی ہوں۔

کانتا    : (طنز سے) تو جا کر اس پولیس مین کے راکھی باندھ آؤ جو چورا ہے پر کھڑا ہے۔

ماں     :ناحق غصہ کرتی ہو کانتا بیٹی۔

شانتا    :آج تمہیں کیا ہوا ہے ؟

کانتا    :تمہارے ونود بھیا جو ابھی آ رہے ہیں۔ ہاہاہاہا۔ ونود بھیا۔

ماں     :کانتا!کانتا!!

کانتا    : (بلند آواز میں) تومیں کیا کروں ؟جیسے میں نے پنڈت بنارسی داس کے بیٹے کو کہا ہی نہیں۔ جیسے میں چترویدی جی کے لڑکے سے ہاتھ جوڑ کر التجا نہیں کی کہ آئے  اور  ہم سے راکھی بندھوا جائے لیکن کوئی آئے بھی تو۔ اس گھر میں کون آئے گا  اور  کوئی یہاں آئے بھی کیوں ؟راکھی بندھوا کر اسے کون سی دکشنا مل جاتی۔ یہی سوکھی ہوئی روٹی  اور  باسی دال  اور  اب تو یہ گھر بھی ہمارا نہ رہے گا۔ میں نے تمہیں بتایا نہیں کہ مالک مکان آج دوپہر کو مجھے  گھر سے باہر ملا تھا۔ کہہ رہا تھا آج تیسرا مہینہ شروع ہو گیا ہے۔ لیکن کرایہ ابھی تک نہیں پہنچا۔ کہتا تھا اگر ایک مہینہ تک کرایہ ادانہ کیا تو اس مکان سے باہر نکلنا ہو گا۔

ماں     :ہے بھگوان۔ ان لوگوں کا خون کس قدر سفید ہو گیا ہے لیکن سبھی لوگ تو ایسے نہیں ہوتے۔ سبھی لوگوں کے دل  تو ایسے کٹھور نہیں ہوتے۔ راکھی کی کتھا میں شرون کمار کا بھی  برنن ہے۔ شرون کمار بھی تو ایک براہمن کے بیٹے تھے۔ لیکن انھوں نے اپنے اندھے ماں باپ کی کتنی سیوا کی دن رات انہیں ڈولی میں اٹھائے کاندھوں پر اٹھائے پھرے  اور   سارے بھارت ورش کی جاترا کرا دی۔ یہی شرون کمار جینتی کا دن ہے  اور  آج کوئی غریب بہن کو راکھی بھی نہیں باندھنے دیتا کہ شاید مرجادا کا پالن کرنا پڑے۔ آج راکھی کا پوتر تہوار ہے  اور  اشنان  اور  پوجا پاٹ کے بعد وید منتروں کا اچارن  اور  ہون کے ساتھ لوگ پرانے جنیو بدلتے ہیں۔ گویا زندگی کا ایک نیا چولا، نیا روپ بدلتے ہیں  اور  میری بچی کی کوئی راکھی قبول نہیں کرتا۔

کانتا    : (تلخی سے)یہ بھی تو ایک نیا روپ ہے۔

شانتا    :ماں۔ کیوں اپنے جی کا ہلکان کرتی ہو کانتا تو بھی کیوں کچوکے پر کچو کے دئے جاتی ہے۔ ماں !!ا س جی جلانے سے کیا حاصل؟ اب سو جاؤ۔

ماں     :میں سوتی رہوں یا جاگتی رہوں۔ میرے سونے  اور  جاگنے میں فرق ہی کیا ہے۔ میرے لئے توکل دنیا اسی دن ایک کالی رات بن گئی تھی جس دن میرا لال مجھ سے چھینا گیا تھا۔ پھر جب  پتی مر گئے تو زندگی کی آخری کرن بھی غائب ہو گئی۔ میرے لئے تو اس جنم میں اندھیارا ہی اندھیارا ہے۔ یہ وہ کالی رات ہے بیٹی  جس کی کوئی صبح نہیں۔ وہ درد ہے جس کی کوئی دوا نہیں۔ وہ دکھ ساگر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں۔ (ہوا کا جھونکا روزنوں میں گزر کر ایک دردناک سیٹی پیدا کرتا ہوا گزرتا ہے) یہ کس نے آواز دی؟

شانتا    :کوئی نہیں ہے ماں۔ گلی بالکل خالی ہے۔ یہ ہوا روزنوں میں سے آواز پیدا کرتی ہوئی گزر رہی ہے۔

کانتا    :سو جاؤ ماں  اور  اپنے ان گیلے رخساروں کو پونچھ ڈالو۔ اٹھو ماں۔

ماں     :بہت اچھا بیٹی۔ بہت اچھا بیٹی۔ چلو مجھے اوپر سونے کے کمرے میں لے چلو۔

(فرش پر لکڑی ٹیکنے کی آواز۔ قدموں کی آواز۔ )

(کانتا گنگناتی ہے  اور  پھر آہستہ آہستہ پر سوز لے میں گاتی ہے۔ )

 

نیر بھرے نینن کی پنچھی

کس بدھ پیاس بجھاؤں

من کی بنسیا ٹوٹ چکی

اب کیسے اسے بجاؤں

چھوٹی سی نینن کی نیا

بیچ سمایو ساگر

پلکوں کے پتوار لگا کر

کس بدھ پار لگاؤں

پنچھی کس بدھ پیاس بجھاؤں

ہردے میں دکھ درد بہت ہے

گھاؤ بہت ہیں پیڑ بہت ہے

پھر بھی یہ سونی ہے بستی

کیسے اسے بساؤں

پنچھی کس بدھ پیاس بجھاؤں

پنچھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

شانتا    :کانتا بہن تم رو رہی ہو۔

کانتا    : (کھڑکی کھول کر) مہینہ تھم گیا ہے۔

(دروازے پر دستک)

کانتا    :تمہارے بھیا ونود ہوں گے۔

شانتا    :نہیں پنڈت ودیا ناتھ ہوں گے۔

آواز   :دروازہ کھولو۔

(دروازہ کھولنے کی آواز)

کانتا    :اخاہ، آپ ہیں۔ تشریف رکھئے۔ کہئے اس وقت کیسے آنا ہوا؟غالباً آپ راکھی بندھوانے کے لئے آئے ہیں۔ ذرا ٹھہرئیے میں ابھی لال رنگ کا دھاگا لائی۔

مالک مکان      :میں۔ ۔ ۔ ار۔ ۔ ۔ میں۔ ۔ ۔ راکھی۔ ۔ ۔  اور ۔ ۔ ۔ میں حاضر ہوا تھا یہ کہنے کے لئے کہ آپ نے تین ماہ کا کرایہ ادا نہیں کیا ہے۔ ۔ ۔ میں ار۔ ۔ ۔  ار۔ ۔ ۔ راکھی نہیں بندھواؤں گا میں تو کبھی کا بندھوا چکا ہوں۔ بات یہ ہے کہ اگر آپ نے پرسوں تک کرایہ ادانہ کیا تو آپ کو اس مکان سے نکلنا ہو گا۔

کانتا    :اچھا یہ بات ہے۔ آج صبح ایک ہفتہ کی میعاد ملی تھی۔ اب دو دن رہ گئے۔ شریمان جی آج راکھی کے دن بھی آپ کو ایسی بات کرتے ہوئے شرم نہیں آئی۔ ٹھہرئیے میں لائی لال سوت لاتی ہوں۔

مالک مکان      :ار۔ ار۔ نہیں نہیں میں یہی کہنے کے لئے حاضر ہوا تھا۔ اب میں چلتا ہوں۔ مجھے ضروری کام ہے۔

(دروازہ زور سے بند ہو جاتا ہے۔ )

(وقفہ)

شانتا    :گیا!

کانتا    :نہیں سمجھو سر پر ایک  اور  مصیبت آئی۔

شانتا    :اب کیا ہو گا۔ ۔ ۔ (وقفہ)۔ ۔ ۔ کانتا بہن۔ ۔ ۔ وقفہ۔ ۔ ۔ کانتا بہن! یہ تم کھڑکی میں کھڑی کسے دیکھ رہی ہو؟

کانتا    :اپنے آنے والے دنوں کو۔

شانتا    :میں نے جو بستر کی چادر کاڑھ کر دی تھی اس کے مجھے صرف آٹھ آنے ملے ہیں۔

کانتا    :دو روپیہ کرایہ کے لئے میں نے بھی بچا رکھے ہیں۔

شانتا    :یہ تو اڑھائی روپئے ہوئے۔ ابھی چھ روپئے  اور  چاہئیں۔

کانتا    :ہاں چھ روپئے  اور  چاہئیں۔

شانتا    :اب کیا ہو گا!پرسوں تک چھ روپے کہاں سے آئیں گے ؟مجھے تو کوئی امید نظر نہیں آتی۔ چاروں طرف اندھیارہ ہی اندھیارہ دکھائی دیتا ہے۔

کانتا    : (طنز سے) ماں کی اندھی آنکھوں کی طرح؟

شانتا    :کانتا بہن تم مذاق کرتی ہو بے ہودہ مذاق۔ مجھے تمہاری یہ عادت مطلق پسند نہیں۔ اپنی ماں کے متعلق یہ الفاظ؟تمہیں کیا ہو گیا ہے۔ میں تو پوچھتی ہوں کہ یہ چھ روپئے ہم پرسوں تک کہاں سے لائیں گے۔

کانتا    :سوچو!دماغ پر زور دو۔

شانتا    :مجھے تو کچھ نہیں سوجھتا۔

کانتا    :جب سب دروازے بند ہو جائیں اس وقت بھی عورت کے لئے ایک دروازہ ہمیشہ کے لئے کھلا رہتا ہے۔

شانتا    :تم کیا کہہ رہی ہو؟

کانتا    :اس دنیا میں مرد مالک ہیں  اور  عورتیں غلام۔ مرد خریدار ہوتے ہیں  اور   عورتیں جنس خرید۔ مرد کتے ہیں  اور  عورتیں ہڈیاں۔ مرد راکھی بندھوانا پسند نہیں کرتے۔ وہ راکھی توڑنا پسند کرتے ہیں۔

شانتا    :کانتا بہن تمہیں کیا ہو گیا ہے۔ تمہیں کیا ہو گیا ہے ؟

کانتا    :سنو۔ اس کھڑکی کے ایک دوسری کھڑکی ہے۔ اس میں سے ایک اوباش مزاج نوجوان مجھے اکثر گھورا کرتا ہے۔ وہ ایک لحاظ سے خوبصورت بھی ہے ور دولت مند بھی  اور  پھر اس مکان کے نیچے گیرج میں اس کی ایک موٹر بھی ہے۔ اس نے کئی بار مجھے پریم پتر لکھے ہیں لیکن میں نے کبھی کسی کا جواب نہیں دیا۔ مجھے اس کی کھڑکی میں سے ابھی تک روشنی نظر آ رہی ہے۔

شانتا    :کانتا بہن کھڑکی بند کر لو۔

کانتا    :تمہاری سب آشائیں پوری ہو سکتی ہیں۔ سبھی۔ ۔ ۔ چھ روپئے نہیں سینکڑوں روپئے۔ ہزاروں روپئے بولو۔

شانتا    :کانتا بہن کھڑکی بند کر دو۔ ۔ ۔ کھڑکی سے پرے ہٹ جاؤ نہیں مجھے خود ہی اسے بند  کرنا ہو گا۔

(کھڑکی بند ہونے کی آواز)

کانتا    :تم نے کھڑکی بند کر دی۔ بھولی شانتا لیکن میں اس کھڑکی سے باہر تو نہ کود سکتی تھی۔ میں تو جب جاؤں گی سامنے کا دروازہ کھول کر جاؤں گی۔

(فرش پر چلنے کی آواز۔ )

(فرش پر تیز تیز قدموں سے بھاگنے کی آواز کسی جسم کے دروازے سے زور سے لگنے کی آواز۔ )

کانتا    :ہٹو مجھے جانے دو۔

شانتا    :نہیں، میں نہیں جانے دوں گی۔

کانتا    :دروازہ کھول دو۔

شانتا    :نہیں میں دروازہ کبھی نہیں کھولوں گی۔

کانتا    :میں کہتی ہوں دروازہ کھول دو، دروازہ کھول دو۔

شانتا    :نہیں، نہیں۔ کبھی میں۔

کانتا    :معلوم ہوتا ہے۔ تم ایسے نہیں ہٹو گی۔

(کشمکش کی آواز۔ شانتا کے منہ سے ایک بلند چیخ نکلتا ہے لیکن کانتا فوراً ہی اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیتی ہے۔)

(وقفہ)

(دروازہ پر دستک۔ زور زور سے دستک)

(وقفہ)

آواز   :دروازہ کھولو۔

(وقفہ)

کانتا    : (سرگوشی سے) دروازہ کھول دو۔ اب تو۔

(دروازہ کھلنے کی آواز)

(ایک اجنبی اندر داخل ہوتا ہے۔ )

اجنبی   :اوہ میں سمجھا۔ کوئی خون خرابہ ہو رہا ہے۔ میں باہر سے گزر رہا تھا کہ میں نے ایک چیخ سنی۔

کانتا    :چیخ یا قہقہہ؟

اجنبی   :کچھ سمجھ لو بہن۔ لیکن مجھے تو چیخ ہی سنائی دی۔

شانتا    :بیٹھ جائیے۔ تشریف رکھئے۔

اجنبی   :شکریہ۔ (وقفہ)کیا آپ دونوں بہنیں یہاں اکیلی رہتی ہیں ؟

کانتا    :یہ آپ نے کیسے جانا کہ ہم دونوں بہنیں ہیں ؟

اجنبی   : (ہنستے ہوئے) آپ کے چہروں سے۔

شانتا    :جی ہاں ہم اپنی ماتا جی کے ساتھ یہاں رہتی ہیں۔

اجنبی   :اگر آپ برا نہ مانیں۔ پوچھوں کہ جھگڑا کس بات پر ہو رہا تھا؟

کانتا    :راکھی تیوہار پر۔

اجنبی   :اچھا آج راکھی ہے۔

کانتا    :آپ کو معلوم نہیں ؟

اجنبی   :میں بہت مدت سے سفر میں ہوں اس جگہ ابھی ابھی وارد ہوا ہوں۔ سفر میں آدمی بہت سی باتیں بھول جاتا ہے۔ ۔ ۔ اچھا تو پھر کیا ہوا؟

کانتا    :یہ کانتا کہہ رہی تھی کہ راکھی کا تیوہار اچھا ہے،  اور  میں کہہ رہی تھی کہ مجھے اتنا پسند نہیں۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ہم دونوں بہنوں کو آج بہت مایوسی ہوئی ہے۔ آپ دیکھئے ہمارا کوئی بھائی نہیں۔

کانتا    : اور  میں بہن شانتا سے کہہ رہی تھی کہ دروازہ کھول دے سامنے کے مکان۔ ۔ ۔

شانتا    :خاموش کانتا!۔ ۔ ۔  تو کیسی بچوں کی سی باتیں کرتی ہے۔ (وقفہ)ہوں۔ یہ بات ہے۔

(وقفہ)

اجنبی   :کانتا لاؤ۔ تم۔ مجھے راکھی باندھ دو اور  شانتا بہن تم بھی!

کانتا    :کیا آپ راکھی بندھوائیں گے سچ مچ؟

شانتا    :لیکن آپ تو پردیس میں ہیں۔

اجنبی   :پردیسی بھی بھائی بن سکتے ہیں۔ بہن۔

کانتا    :میں ابھی لال دھاگا لائی۔

شانتا    :آپ کا نام کیا ہے ؟

اجنبی   :مجھے اجے کمار کہتے ہیں۔

کانتا    :لیجئے ہاتھ بڑھائیے۔ شانتا تم بھی۔ ۔ ۔ دوسری کلائی پر۔

شانتا    :اجے بھیا۔

(سیڑھیوں سے اترنے کی آواز)

شانتا    :یہ کیا؟پونڈ!سچ مچ کے پونڈ۔ ۔ ۔ سونے کے پونڈ۔

اجنبی   :غریب بھائی کی طرف سے یہ نذر قبول ہو۔

(لکڑی ٹیکنے کی آواز قریب ہو جاتی ہے۔ )

شانتا    : (سرگوشی سے) ماں جی ہمیں۔

ماں     :کون ہے !یہ کیا جھگڑا ہو رہا ہے ؟

شانتا    : (سرگوشی سے) آپ ٹکٹکی لگائے ان کی آنکھوں کی طرف کیوں تک رہے ہیں ؟انہیں کچھ دکھائی نہیں دیتا۔

کانتا    :ہم راکھی باندھ رہے تھے  اور  شانتا خوشی سے ناچ رہی تھی۔

ماں     :کیا ونود آ گئے ؟

شانتا    :نہیں ماں۔ یہ اجے بھیا ہیں (سرگوشی میں) ماتا جی کو پرنام کرو۔

اجنبی   :ماتا جی پرنام۔

ماں     :جیتے رہو بیٹا۔ تم کون ہو؟ ادھر کیسے آئے ؟

اجنبی   :جی میں باہر سے گزر رہا تھا۔ اس کمرے میں ان دونوں بہنوں کے جھگڑنے کی آواز سنی۔ دروازے پر دستک دی  اور  (ہنس کر) اندر چلا آیا۔ یہاں ان دونوں شریر لڑکیوں نے مجھے راکھی سے باندھ دیا۔

ماں     :بہنیں ہیں بیٹا یہ تمہاری بہنیں۔ اس عمر میں راکھی باندھنے کی بہت چاہ ہوتی ہے۔ اچھا بیٹا تم اس شہر میں کیسے آ رہے ہو؟

اجنبی   :یونہی ڈھونڈتا ہوا آ رہا ہوں۔ کھوج نکالنے کے لئے نکلا ہوں۔

ماں     :کسے ڈھونڈ رہے ہو بیٹا؟

اجنبی   :اپنے ماں باپ کو،  مدت ہوئی مظفر گڑھ سے مجھے ڈاکو اٹھا لے گئے تھے، بہت مدت تک ان کے ساتھ رہا۔ پھر ایک دن ان کے چنگل سے نکل بھاگا۔ بمبئی جا کر ملازمت اختیار کر لی۔ پھر ماں باپ کا پتہ لگانے نکلا۔ مظفر گڑھ گیا۔ معلوم ہوا!پتا جی کا انتقال ہو گیا ہے پھر اس شہر کا کسی نے پتہ دیا۔  اور  میں ادھر سے۔ ۔ ۔

ماں     : (اٹھ کر کھڑی ہو جاتی ہے، لکڑی زمین پر گر جاتی ہے۔ )ادھر آؤ بیٹا اجے کمار، ذرا میرے قریب آؤ۔ میں تمہیں اپنی اندھی آنکھوں سے دیکھنا چاہتی ہوں۔ (قدموں کی آواز) اور  قریب آؤ بیٹا۔ تمہارا چہرہ کہاں ہے ؟کہاں ہو تم اجے کمار بیٹا۔ یہ آنکھیں تمہیں پہچان نہیں سکتیں۔ لیکن ماں کی انگلیاں تمہیں پہچان لیں گی۔ ہاں یہ وہی ناک ہے وہی ہونٹ یہ کان کے پاس وہی تل میرے لال میرے چاند۔ میری چھاتی سے لگ جاؤ بیٹا۔ تم نے مجھے بہت دکھ دیا ہے۔

(سسکیوں کی آواز۔ )

اجنبی   :ماں!

کانتا،  شانتا      :بھیا!

ماں     :ہاں ہاں وہی توہے تمہارا چاند۔ وہی گھنگرالے بال ہیں جن میں کنگھی کر کے تمہیں ٹوپی پہنایا کرتی تھی۔ وہی ابرو اور  یہاں زخم کا نشان، بیٹا مجھے اچھی طرح پکڑ لو۔ مجھے گرنے نہ دینا اپنے طاقتور بازوؤں کا سہارا دو۔ میرے چاند۔ میری اندھی آنکھوں کے روشن ستارے۔ میری اجڑی زندگی کے اجیارے۔ ۔ ۔

اجنبی   :ماں۔

(پردہ)

***

ماخذ: ’’دروازہ‘‘، آزاد بک ڈپو، پالبازار، امرتسر

٭٭٭

 

 

 

 

 

بیکاری

 

پہلی بار:لا ہور۔ اکتوبر۱۹۳۷ء؁

 

ڈرامے کے افراد  اور  اداکار

بھیا لال:کنہیا لال

شیام سندر:کے۔ سی

اظہر:چتر بھج

سپاہی:چودھری

 

 (ہندو ہوسٹل میں ۴۴ نمبر کا کمرہ گندہ، خاک آلودہ، دوچار پائیوں پر میلے بستر، ایک میز پر بہت سی کتابیں، سگریٹوں کا ڈبہ، قلمدان  اور  تھوڑی سی نقدی۔ ایک چارپائی پر شیام سندر بال بکھیرے غمگین صورت بنائے بیٹھا ہے  اور  سگریٹ کے کش لگا کر دھوئیں کے مرغولے سے ہوا میں چھوڑ رہا ہے۔ یکایک دروازے سے بھیا لال داخل ہوتا ہے۔ لمبا، دبلا، پتلا، جوان ہے۔ گال اندر پچکے ہوئے، زرد رو، ایم اے پاس)

 

 

بھیا لال: (چارپائی پر بیٹھ کر) آج وہ بدلہ لیا کہ ساری عمر یاد رکھے ہی رکھے گی۔ یہ اونچے طبقے کے لوگ نہ جانے ہمیں کیوں کیڑوں مکوڑوں سے بھی بدتر خیال کرتے ہیں۔

شیام سندر       : (ایک حزیں مسکراہٹ کے ساتھ) کیا بات ہوئی؟ کس سے بدلہ لیا؟ وہ بدقسمت کون ہے ؟

بھیا لال:وہی توہے ڈاکٹر گھنشیام لال کی بیوی جمنا۔ اوہ مگر  تم اسے نہیں جانتے۔ موٹی سانولی سی ہے۔ دو بچے ہو جانے پربھی ایف اے میں پڑھتی ہے۔ میں آج تین مہینے سے اسے تواریخ پڑھا رہا ہوں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ عورتوں کو تواریخ کی کیا ضرورت ہے۔ انہیں تو چاہئے چولہا چاہئے۔ خیر ہمیں تو اپنے پیسوں سے کام ہے۔ دو گھنٹے پڑھاتا ہوں۔ پندرہ روپئے ملتے ہیں۔

شیام سندر       :غنیمت جانو۔

بھیا لال: (ایک نقلی آہ بھرکر) ٹھیک ہے مگر ۔ ۔ ۔ میری شکل و صورت میں اسی بارے میں تم سے مشورہ کرنے آیا تھا کہ۔ ۔ ۔

شیام سندر       : (بات کاٹ کر)مگر  تم سے کس مسخرے نے کہہ دیا کہ میں حسن کا جراح ہوں۔

بھیا لال: (بات ان سنی کر کے)ا وہ!میں اپنی صورت کو کیا کہوں۔ میرا رنگ قدرتی طور پر زرد ہے۔ جس سے ہر شخص کو مجھ پر تپ دق کا مریض ہونے کا شبہ ہوتا ہے۔ اب بتاؤ میں کیا کروں۔ جس دن سنڈے ٹائمز میں اشتہار دیکھا اسی دن عرضی لے کر ڈاکٹر گھنشیام لال کے پاس چلا گیا۔ وہ تو وہاں نہیں تھا  اور  آخر پڑھنا بھی تو اس کی بیوی ہی کو تھا۔ مجھے دیکھتے ہی گھبرا گئی۔ کہنے لگی آپ کچھ بیمار تو نہیں رہتے  اور  یہ اس نے کچھ ایسے ہمدردانہ لہجہ میں پوچھا کہ مجھ سے انکار نہ ہو سکا۔ جھوٹ موٹ کہ دیا ’’جی ہاں ‘‘ وہ اس پر کچھ  گھبرا سی گئی۔ رکتے رکتے بولی ’’اوہ۔ ۔ ۔ آپ۔ ۔ ۔ آپ کو کیا بیماری تھی۔ میں نے ایک قدم اس کے قریب بڑھ کر کہا ’’تب۔ محرقہ۔ ٹائیفائیڈ‘‘ وہ یہ سن کر دو قدم پیچھے ہٹ گئی۔ کہنے لگی ’’تب محرقہ؟‘‘ گویا اسے اب بھی یقین نہیں آتا تھا کہ میرے جیسا متین صورت بھی کبھی تب محرقہ میں مبتلا ہو سکتا ہے۔ میں نے سوچا بچاری نہایت ہمدرد اور   غریب نواز معلوم ہوتی ہے۔ آؤ لگے ہاتھوں اس کا فائدہ اٹھا لیں۔ چنانچہ میں نے  اور  بھی مسکین بن کر کہا جی ہاں ٹائیفائیڈ۔ پچھلے چار مہینے بستر پر پڑا رہا ہوں۔ اب کہیں جا کر افاقہ ہوا ہے۔ آپ کا اشتہار پڑھا کہ آپ کو ایک استاد کی ضرورت ہے جو دو گھنٹے روزانہ تواریخ کا درس دے سکے۔ اسی لئے حاضر ہوا ہوں۔ فیس وغیرہ طے کر لیجئے یہ رہے سرٹیفکٹ۔ باقی رہی ذہنی قابلیت تو اس کے لئے میرا صرف یہ ہی کہہ دینا مگر  وہ جلد ہی یبچ میں بول اٹھی ’’نہیں نہیں ‘‘ اس نے مجھے پریشان نگاہوں سے مجھے دیکھتے ہوئے کہا۔ اتنی جلدی کیا پڑی ہے۔ آپ کو کم از کم دو تین ہفتے آرام کرنا چاہئے۔ آپ۔ ۔ ۔  آپ دو تین ہفتوں کے بعد ضرور تشریف لائیے۔ اے یار خیال یار کیا کرنا تھا  اور  کیا کر دیا تھا۔ ۔ ۔  میں نے اپنے آپ کو بہت بہت کوسا۔ مگر  اب لکیر پیٹنے سے کیا ہوتا تھا۔ ناچار واپس چلا آیا  اور   پھر دوسرے دن ڈاکٹر گھنشیام لال کے ایک جگری دوست سے سفارش بہم پہنچائی۔

’’مگر  وہ تو بیمار معلوم ہوتے تھے۔ ڈاکٹر کی بیوی نے سفارش کے جواب میں کہا۔ انھوں نے مجھے خود بتایا کہ انہیں تب محرقہ تھا۔ ‘‘

میری سفارش کرنے والے نے ہنس کر کہا۔ میں نے اسے آج تک کبھی بیما رہی نہیں دیکھا۔ اس بچارے کی شکل ہی ایسی ہے۔ ۔ ۔  اور  یہ ہے بھی ٹھیک۔ ۔ ۔  میں اسے مدت سے جانتا ہوں۔ یہ بھی ٹھیک تھا۔ ۔ ۔

تواب تین مہینے سے اسے پڑھا رہا ہوں۔ بالکل کوڑ مغز ہے۔ دل میں مدت سے کسک تھی کہ اس سے بدلہ لوں۔ سو آج موقع مل گیا۔

شیام سندر       :کیا ہوا؟

بھیا لال: (جیسے اس نے سوال سنا ہی نہیں) یوں تو اس میں اب مجھے بھی کچھ شک نہیں کہ صورت سے میں تپدق کا مریض دکھائی دیتا ہوں مگر  کیا تم نے وہ انگریزی ضرب المثل نہیں سنی۔ کہ صورتیں اکثر دھوکا دیتی ہیں مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب میں پانچویں جماعت میں تھا اس وقت بھی ایسا ہی دبلا پتلا تھا ا ور جماعت میں ہمیشہ ہر مضمون میں اول رہا کرتا تھا۔ چنانچہ حسب عادت پانچویں جماعت میں بھی اول ہی رہا۔ جب سالانہ جلسہ پر انعام تقسیم ہونے لگے تو میرے حصہ میں بہت سے انعام آئے۔ ان دنوں میں میری جماعت میں ایک  اور  لڑکا بشنداس بھی پڑھا کرتا تھا۔ نہایت ہی خوبصورت وجیہہ توانا تھا۔ نہایت اچھا گلا پایا تھا۔ کمبخت نے اسے بھی موسیقی میں اول رہنے پر تمغہ ملا۔ مجھے یاد ہے وہ مجھے تپقی کہا کرتا تھا۔ اس دن جلسہ پر اس کی خوبصورت بہنیں بھی آئی ہوئی تھیں  اور  میری دبلی پتلی بہنیں بھی  اور  جب میں بہت سے انعام سمیٹ کر لے گیا تو بشنداس کی بہنوں نے میری بہنوں کو اونچی آواز میں سنا کر کہا آہ  بچارا بھیا لال۔ یہ سب انعام اس کے کس کام کے جب کہ اس کو تپدق ہے۔ مجھے یاد ہے میری بہنوں نے بہت برا مانا تھا۔ مگر  قسمت کی ستم ظریفی ملاحظہ ہو میں ابھی تک زندہ سلامت ہوں  اور   بچارا شکیل و توانا بشنداس دو سال ہوئے تپدق سے بیمار ہو کر چل بسا۔ آہ صورتیں کس قدر دھوکا دیتی ہیں۔ وہ بہت اچھا آدمی تھا  اور  جب کبھی میں پچھلے سالوں میں اپنے گاؤں گیا ہوں۔ وہ ہمیشہ مجھ سے میری صحت، میری کھانسی، میری حرارت عزیزی کے متعلق سوال کیا کرتا تھا  اور   یہ سوال توہر الو کا پٹھا جو مجھے دیکھ لے ایک دم سے جڑ دیتا ہے۔ مثلاً اگر میں کسی ڈاکٹر کے پاس چلا جاؤں  اور  اس سے کہوں کہ مجھے خفیف سی کھانسی آتی ہے۔ تو وہ میری شکل دیکھ کر بے اختیار کہہ اٹھتا ہے :

’’آپ کورات کو پسینہ تو نہیں آتا؟‘‘

’’جی نہیں۔ البتہ دن کو ضرور آتا ہے۔ خصوصاً جبکہ ورزش کرتا ہوں۔ ‘‘

’’کیا آپ کو کھانسی کے ساتھ خون بھی آتا ہے ؟‘‘

’’نہیں جی۔ خون تو نہیں۔ مگر  بلغم ضرور نکلتا ہے۔ ‘‘

’’اوہ۔ ۔ ۔ بخار؟‘‘

’’ابھی تک تو نہیں۔ ۔ ۔ لیکن اگر آپ کے سوالوں کی یہی رفتار رہی تو عین ممکن ہے کہ جلدی۔ ۔ ۔ ‘‘

ڈاکٹر(قطع کلام کر کے) آپ کمرے سے باہر تشریف لے جائیں۔

بس تقریباً جس ڈاکٹر کے پاس جاؤ یہی ہوتا ہے۔ اب میں صلاح کر رہا ہوں کہ ڈاکٹر یار محمد سے اپنی چھاتی  اور  پھیپھڑوں کا ایکس رے فوٹو گراف لے کر ہمیشہ پاس رکھوں۔ تا کہ جب کوئی نیا ڈاکٹر یا پرانا حکیم سوال کرے آپ کو پسینہ تو نہیں آتا؟خون نکلتا ہے ؟ بخار کب سے ؟ تو جھٹ یہی ایکسرے فوٹو اس کے ہاتھ میں دے دوں  اور   کہوں۔ بھلے مانس کل میں نے ذرا آچار زیادہ کھا لیا تھا اس لئے صرف کھانسی کی دوا چاہئے۔

شیام سندر       :نیک خیال ہے۔

بھیا لال:بچارے ڈاکٹر لوگ تو الگ رہے۔ خود میرے استاد۔ ۔ ۔ کیا کہوں ؟۔ ۔ ۔  بہت دنوں کی بات ہے۔ میں ان دنوں نئی نئی ورزشیں سیکھ رہا تھا۔ چاہتا تھا کہ اپنے نحیف جسم کو فربہ بنا لوں  اور  چہرے کی زرد رنگت کو گلاب کی سرخی میں تبدیل کر دوں چنانچہ خوب ڈنڈ پیلتا تھا  اور   دودھ پیتا تھا۔ تین چار مہینے یہی کیفیت رہی۔ اس کے بعد ہمارا جغرافیہ کا ٹیچر جو ساڑھے تین مہینے کی چھٹی لے کر اپنی لڑکی کا بیاہ کرنے کے لئے جنڈیالہ گیا ہوا تھا۔ واپس آ گیا  اور  مجھے دیکھتے گراؤنڈ کے قریب ملا۔ مجھے دیکھتے ہی کہنے لگا اوہ تم بہت کمزور ہو گئے ہو۔ کیا بیمار ہو گئے تھے۔ میں نے دل میں سوچا بیمار تو نہیں رہا البتہ ورزش ضرور کرتا رہا ہوں۔ اس دن سے لے کر آج تک میں نے پھر ورزش نہیں کی۔ بھلا ورزش کا فائدہ ہی کیا ہے۔ جب یہ دوسروں کو مغالطہ میں ڈال دے  اور  پھر مفت میں اپنے جسم کو تکلیف دینا۔ قید با مشقت نہیں تو اور  کیا ہے۔

شیام سندر       :نہیں آپ ورزش سے اپنے جسم کو صحت ور بنا سکتے ہیں۔ ورزش سے جسم میں چشتی آتی ہے۔ بہت ہلکا پھلکا۔ ۔ ۔

بھیا لال:مجھے بتاتے ہو، شیام سندر؟ تیسری جماعت کا سبق دہرا رہے ہو۔ اس میں تو اور  بھی کئی نکمی  اور  جھوٹی باتیں لکھی ہیں مثلاً ورزش نہایت اچھی ہوتی ہے، جھوٹ بولنا گناہ ہے، دیانتداری بڑی نعمت ہے، دوسرے کی چیز پر نگاہ نہ ڈالو۔ سب بکو اس، سفید جھوٹ۔

شیام سندر       :تم ڈاکٹر گھنشیام لال کی بیوی کا ذکر کر رہے تھے۔ جسے تم پڑھاتے رہے ہو۔

بھیا لال:ہاں میں جمنا کا ذکر کر رہا تھا۔ مگر  تم نے کبھی سوچا کہ میری بدصورتی میں میرا کتنا قصور ہے۔ میرے ماں باپ بھی ایسے ہی تھے۔ قصور تو ان کا ہے کہ اپنی بدصورتی کو جانتے ہوئے بھی مجھے جنم دیا۔

شیام سندر       :یہ تو محض حسن اتفاق تھا۔

بھیا لال:مجھے تو اس میں خاک بھی ’’حسن اتفاق‘‘ نظر نہیں آتا  اور  یوں دیکھا جائے تو اس میں قباحت ہی کیا ہے۔ ذرا خیال تو کرو۔ قدرت نے دو کان، آنکھ، ہاتھ، پاؤں، نتھنوں  اور  ہونٹوں کے مجموعہ سے انسانوں کے کتنے نمونے ایجاد کئے ہیں کہ ایک کی شکل دوسرے سے نہیں ملتی۔ بجانے اس کے قدرت کی طباعی  اور  فنکاری کی داد دی جائے۔ لوگ مجھ پر ہنستے ہیں۔ کتنی بے وقوفی ہے۔ آج انسانوں میں کوئی بڑے سے بڑا آرٹسٹ قدرت کے اس شاندار تنوع کی ایک مثال پیدا کر دے۔ تو میں جانوں۔

شیام سندر       :بے شک۔ بے شک، مگر  وہ ڈاکٹر کی بیوی۔ ۔ ۔

بھیا لال:ارے بھائی۔ اب اس کی بیوی کی کون سی بات رہ گئی۔ میں اسے تین مہینے سے پڑھا رہا ہوں  اور  اس عرصہ میں وہ کوئی پندرہ بار بیمار پڑی ہو گی  اور  کوئی اس دس با رہی اس کے ڈاکٹر خاوند کو موسمی بخار کا شکار ہونا پڑا ہے۔ کبھی دیکھو تو سر میں درد ہے، کبھی پیٹ میں، کبھی بخار، کبھی نزلہ  اور   مجھ دیکھو تو ان تین مہینوں میں ایک چھینک بھی نہیں آئی۔ آج جب میں پڑھانے گیا تو کل کی طرح پھر کہنے لگی ’’مجھے زکام کی شکایت ہے۔ ‘‘میں نے کہا آپ کی بھی عجیب صحت ہے۔ آپ ڈاکٹر لوگ جب پرہیز نہیں کریں گے تو اور   کون کرے گا۔ مجھے دیکھئے اپنی صحت کا خیال رکھتا ہوں۔ کبھی کوئی تکلیف نہیں ہونے پاتی۔

شیام سندر       :خوب بدلہ لیا۔

(اظہر کمرے میں داخل ہوتا ہے۔ درمیانہ قد۔ دہرے بدن کا جوان ہے۔ نیلا سوٹ پہن رکھا ہے۔ ہاتھ میں ایک تا رہے۔ )

اظہر    :ہیلو شیام! ہیلو تب دق!

شیام سندر       :ہیلو اظہر!یہ تار کیسا ہے ؟

اظہر    :امجد نے بھیجا ہے۔ لکھا ہے کہ بی ٹی کی ڈگری مل گئی ہے  اور  اب وہ الہ آباد جا رہا ہے۔ جہاں میونسپل سکول میں اسے پینتیس روپئے کی آسامی مل گئی ہے۔

شیام سندر       :مگر  ایم اے، بی ٹی  اور  صرف پینتیس۔

اظہر    :میں اسے مبارک باد کا خط لکھ رہا ہوں۔ اس دور مہاجنی میں تم  اور   کر بھی کیا سکتے ہو۔

بھیا لال:کل مجھے کیلاش ناتھ ملا تھا۔ وہ جو بی اے میں ہمارے ساتھ پڑھا کرتا تھا  اور  فیل ہو گیا تھا۔ اب اپنے باپ کے کارخانہ میں منیجر ہو گیا ہے اپنی کار میں بیٹھا ہوا تھا۔ میری طرف ترحم آمیز نگاہوں سے دیکھ کر کہنے لگا ’’آج کل کیا کرتے ہو؟۔ ۔ ۔  اور   یہ وہی شخص ہے جو انگریزی کا جواب مضمون مجھ سے خوشامدیں کر کے ٹھیک کرایا کرتا تھا۔ ‘‘

شیام سندر       : (اداس لہجے میں) جانے دو ان باتوں کو۔ مجھے مسعود کا فکر ہو رہا ہے۔ تم جانتے ہو۔ بچارہ  دو مہینے سے میرے پاس رہتا ہے۔ مگر  ابھی تک نوکری کہیں نہیں ملی۔ کل سے واپس نہیں آیا۔

اظہر    :واپس گاؤں کو چلا گیا ہو گا۔

شیام سندر       : (رکتے ہوئے) شاید!مگر  اس کا ٹرنک  اور  بستر یہی ہیں۔

بھیا لال:کوئی ضروری کام ہو گا(زیادہ حوصلہ افزا لہجہ میں)شاید کوئی نوکری مل گئی ہو گی  اور  آج تمہیں پتہ دینے کے لئے آ جائے۔

شیام سندر       : (رکتے ہوئے)شاید۔

اظہر    : (سر ہلاتے ہوئے) کتنی بے کاری ہے  اور  کتنی جہالت ہے ؟کل میں موتی لال میں پروفیسر روچانند کا لیکچر سننے گیا۔ فاضل مقرر جو ایک روئی کے کارخانہ میں تین سو حصوں کا مالک نہایت پر جوش لہجہ میں گریجویٹوں کی کم عقلی کا ماتم کر رہا ہوں کہ موجودہ بے کاری اقتصادی نہیں بلکہ تعلیم یافتہ طبقہ کی آرام پسندی کا نتیجہ ہے۔ چنانچہ اس نے چند نہایت درد مندانہ تجاویز سامعین کے سامنے پیش کیں۔ مثلاً یہ کہ گریجویٹ چھوٹے موٹے کاروبار کو اپنے ہاتھوں میں لیں۔ بوٹ پالش کرنا، ایک تھوک فروش سے جوتے ادھار لے کر گلیوں میں چکر لگا کر انہیں بیچنا، گھی کی دوکان کھولنا، مونگ پھلی کی تجارت۔ ۔ ۔

شیام سندر       : (تلخ لہجہ میں) چنا جور گرم۔

بھیا لال:بے کاری دور کرنے کے ایسے کئی گر مجھے یاد ہیں۔

اظہر    :مثلاً۔

بھیا لال: (وا سکٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالتے ہوئے)مثلاً تم  اور  شیام سندر انگریزی میں اچھا لکھ سکتے ہو۔ اخبار نکال لو۔

اظہر، شیام سندر  :مگر  روپیہ!

بھیا لال:اچھا کچھ  اور  سہی۔ ایک عمدہ ہوٹل کھول لو۔ نفیس کمرے، عمدہ کھانے، تھوڑا کرایہ، واجبی نرخ۔

شیام، اظہر      :مگر  روپیہ۔ ۔ ۔ ؟

بھیا لال: (ہنس کر  اور  وا سکٹ کی جیب سے ہاتھ نکالتے ہوئے) اچھایہ بھی سہی، لو اب میں تمہیں وہ گر بتاتا ہوں جو کبھی خطا نہیں ہو سکتا۔

شیام سندر       :وہ کیا ہے ؟

بھیا لال:عورت۔

شیام سندر       :عورت؟

بھیا لال:ہاں۔ ہاں، عورت۔ ایک عورت کا انتخاب کر لوجو نہایت جاہل ہو۔ ایک نہایت مالدار آدمی کی اکلوتی بیٹی ہو۔

شیام سندر       :پھر؟

بھیا لال:پھر اس سے شادی کر لو۔

اظہر    :بھئی کیا خوب۔ تم تو تواریخ جاننے کے علاوہ عقل مند بھی ہو۔

شیام سندر       : (دونوں آنکھیں میچ کر)ہوں۔ ۔ ۔ ہوں۔

اظہر،  بھیا لال   :’’ہوں۔ ہوں ‘‘ کا کیا مطلب ؟

شیام سندر       : (آنکھیں بند کئے ہوئے) ایک ایسی عورت بالکل میری نگاہ میں ہے۔

بھیا لال: (گہری دلچسپی سے)کیا وہ ایک مالدار آدمی کی لڑکی ہے ؟

شیام سندر       : (سر ہلاتا ہے) ہاں تو۔ ۔ ۔

بھیا لال: اور ۔ ۔ ۔  اور ۔ ۔ ۔ اکلوتی لڑکی۔

شیام سندر       :ہاں اکلوتی بیٹی۔ بالکل اکلوتی۔

بھیا لال:ارے یار بتاؤ۔ اس کی شکل کیسی ہے ؟ خوبصورت ہو گی؟

شیام سندر       :وہ نہایت خوبصورت ہے، حسین جیسے چاند کی کرن، نازک جیسے کنول کی پتی، حیا پرور جیسے لاجونتی کی ڈالی۔ بس کائی سی صورت ہے۔ میں اس سے محبت کرتا ہوں  اور  وہ مجھ سے محبت کرتی ہے  اور  اس کا مالدار باپ اپنی ساری دولت مجھے جہیز میں دے دینا چاہتا ہے۔

بھیا لال: (بہت دلچسپی  اور رشک و حسد کے ساتھ) ارے بتاؤ وہ کون ہے ؟ کہاں رہتی ہے ؟ اس کا نام کیا ہے ؟

شیام سندر       : (یکایک آنکھیں کھول کر) اوہ وہ کدھر چلی گئی۔ وہ کون تھی؟ اس کا نام کیا تھا؟

(شیام سندر، اظہر، بھیا لال تینوں یکایک قہقہہ لگا کر ہنستے ہیں  اور   ایک دو منٹ تک ہنستے رہتے ہیں۔ )

(ایک ب اور  دی پولیس کا سپاہی آتا ہے۔ )

سپاہی   :آپ میں شیام سندر کون ہے ؟

(شیام سندر اٹھ کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ )

سپاہی   : (ایک لفافہ آگے بڑھاتے ہوئے)سول ہسپتال میں چل کر ایک لاش کی شناخت کر لیجئے۔ وہ ریل گاڑی کے نیچے آ کر مرگیا ہے۔ ا س کی جیب سے آپ کا پتہ نکلا ہے۔

شیام سندر       :مسعود۔ ۔ ۔  آہ۔

(اپنے ہاتھوں سے منہ چھپا کر کہتا ہے۔ )

(پردہ گرتا ہے)

***

ماخذ: ’’دروازہ‘‘، آزاد بک ڈپو پالبازار، امرتسر

٭٭٭

 

 

 

 

سرائے کے باہر

 

 

ڈرامے کے افراد

 

اندھا بھکاری

منی:اندھے بھکاری کی ایک نوجوان لڑکی۔

بھکارن:اندھے بھکاری کی بیوی۔

جانی لنگڑا:ایک چالاک پر فن بھک منگا۔

ایک آوارہ شاعر

سرائے کا مالک

بی بی:سرائے کی نوکرانی

چند شکاری  اور  ان کی بیویاں

 

منظر

 

(ایک پہاڑی قصبے کی سرائے کے دروازے پر، دروازے سے چند گز کے فاصلہ پر اندھا بھکاری  اور اس کی بیوی الاؤ پر بیٹھے آگ تاپ رہے ہیں۔ منی سرائے کے بڑے دروازے پر کھڑی سرائے کی نوکرانی سے باتیں کر رہی ہے۔)

 

منی:بی بی کچھ کھانے کودو گی، صبح سے بھوکی ہوں۔

بی بی:پرے ہٹ مردار، کیوں اندر گھسی چلی آتی ہے۔ جا کسی مشٹنڈے کی بغل میں بیٹھ  اور چین سے رہ، تیری جوانی کو آگ لگے۔

منی:بی بی کیوں ناحق گالی دیتی ہو؟

بی بی:گالی، اری دو ٹکے کی بھکارن، تجھے بھی گالی لگتی ہے۔ اے ہے میری شرم کی ماری لاجونتی دن بھر دیدے مٹکاتی پھر تی ہے  اور سرائے کے مسافروں کو تاکتی پھر تی ہے  اور اب رات کے وقت معصوم، بڑی شریف، بڑی وہ، اونہہ چڑیل۔

منی:بی بی۔

بی بی:بی بی کی بچی۔ اری اگر  میں تجھے گالی دیتی ہوں تو اس کے بدلے تجھے کھانا بھی تو دیتی ہوں ، تجھے  اور تیرے بوڑھے بھکاری باپ کو  اور  تیری چڑیل کٹنی کو۔ دو گالیوں میں کیا یہ سودا مہنگا ہے۔ مجھے دیکھ اس سرائے میں صبح سے لے کر شام تک جھوٹے برتن مانجھتی ہوں ، کنویں سے پانی نکالتی ہوں مالک  اور مالکن کی سو سو خوشامدیں کرتی ہوں  اور۔۔۔  دیکھ اس وقت مجھے نہ ستا،  مسافر خانے کے اندراس وقت بہت لوگ جمع ہیں۔ مجھے کئی کی دیکھ بھال کرنی ہے جب یہ لوگ کھانا کھا چکیں گے ، اس کھڑکی کی طرف آ جائیو اور جو کچھ تیری قسمت میں ہو گا لے جائیو۔ اری دیکھ اب موٹے موٹے  دیدوں میں آنسو نہ چھلکا۔ ہائے رام، ان فقیروں نے تو ناک میں دم کر رکھا ہے۔ میں مالکن سے کہتی ہوں کہ ان بھک منگوں  کو کم  از کم سرائے کے باہر عین دروازے پرتو جمع نہ ہونے دیا کرے۔

(سرائے کا دروازہ  بند کر دیتی ہے۔)

بھکارن:منی؟

منی:آئی ماں۔

(وقفہ)

بھکارن:کیا ہوا منی۔

اندھا بھکاری:منی، بیٹا بڑی بھوک لگی ہے۔

منی:تو مجھے کھالو۔ بھوک لگی ہے۔ بھوک لگی ہے۔ جب سنو بھوک لگی ہے۔ جانے یہ پیٹ ہے کیا بلا۔ کبھی بھرتا ہی نہیں۔ ادھر بی بی الگ گالیاں دیتی ہیں  اور ادھر یہ میری جان کو کھائے جاتے ہیں بھوک لگی ہے تومیں روٹی کہاں سے لاؤں ، بی بی کہہ گئی ہے کہ جب کھڑکی کھلے گی جب روٹی ملے گی۔

اندھا بھکاری:کھڑکی کب کھلے گی؟

منی:جب مسافر کھانا کھا چکیں گے۔

اندھا بھکاری:مسافر کب کھانا ختم کریں گے؟

منی:جب کھڑکی کھلے گی۔

اندھا بھکاری:جب کھڑکی کھلے گی۔۔۔ کب کھڑکی کھلے گی؟میں کچھ نہیں جانتا۔ منی تو کیا کہہ رہی ہے۔۔۔ جب سے میری آنکھوں میں روشنی نہیں رہی، مجھے وقت پر بھیک کی روٹی بھی کوئی نہیں لا دیتا۔ منی کی اماں کیا تمہارے پاس تھوڑی سی روٹی بھی نہیں ہے۔ ہاں نہیں ہو گی۔۔۔ میں اندھا ہوں۔۔۔  بوڑھا ہوں۔۔۔ اپنی گستاخ بیٹی کا محتاج ہوں۔

بھکارن:صبر کرو، اب تھوڑی دیر میں بی بی کھڑکی کھولے گی۔ پھر تمہیں پیٹ بھر کھانا ملے گا۔ آج سرائے میں بہت سے مسافر آئے  ہیں میں تو ہر روز دعا مانگتی رہتی ہوں کہ سرائے مسافروں سے بھری رہے تا کہ ان کی پلیٹوں سے بہت سا جھوٹا کھانا ہمارے لئے بچ جایا کرے۔

منی:لیکن اماں بعض مسافر تو اتنے پیٹو ہوتے ہیں کہ پلیٹیں بالکل صاف کر دیتے ہیں  اور کھانا تو ذرا بھی نہیں بچتا۔ ایسے موقع پر اگر بی بی سچ مچ مہربان نہ ہو تو۔۔۔

بھکارن:بری باتیں منھ سے نہ نکال، وہ سب کا والی ہے۔۔۔ توبہ توبہ۔۔۔  آج کتنی تیز سردی ہے۔ منی آگ ذرا تیز کر دے۔

(الاؤ کی لکڑیاں ادھر ادھر کرتی ہے۔)

منی:یہ چیڑ کی لکڑیاں دھواں زیادہ دیتی ہیں آگ کم۔

بھکارن:تو جنگل سے کاؤ کی لکڑیاں چن کر لایا کر، میں نے تجھ کئی بار سمجھایا ہے۔

منی:ماں ، کاؤ کا جنگل بہت گھنا ہے۔ مجھے ڈر معلوم ہوتا ہے۔

بھکارن:باؤلی ہوئی ہے۔ ڈر کا ہے کا؟

اندھا بھکاری:منی دیکھ، ابھی کھڑکی کھلی کہ نہیں۔ یہ کون آ رہے ہیں؟

منی:مسافر ہیں ، سرائے کے اندر جا رہے ہیں۔ اچھا میں جا کر کھڑکی کے پاس کھڑی ہوتی ہوں۔ ابا، امید ہے کہ اب کے کچھ نہ کچھ ضرور ہی ہو گا۔

(چلی جاتی ہے۔)

بھکارن:تم نے سنا۔ منی کو کاؤ کے جنگل میں لکڑیاں چننے سے ڈر لگتا ہے۔

اندھا بھکاری:ہاں منی جوان ہو گئی ہے۔

بھکارن:تم اس کا بیاہ کیوں نہیں کر دیتے۔

اندھا بھکاری:اس قصبے میں تو کوئی  ایسا بھک منگا ہے نہیں یہ سنا ہے کہ شہروں کے بھک منگے بڑے امیر ہوتے ہیں مجھے ایک دفعہ سرائے کا ایک مسافر بتا رہا تھا کہ اس نے ایک دفعہ اخبار میں پڑھا تھا کہ ایک شہر میں ، مجھے اس شہر کا نام یاد نہیں رہا۔ بھلا سا نام تھا۔ایک بھک منگا رہتا تھا جب وہ مرا تو منی کی اماں ، ساٹھ ہزار روپیہ چھوڑ کر مرا۔ساٹھ ہزار روپیہ کتنا ہوتا ہے۔ تمہیں معلوم ہے؟

بھکارن:نہیں۔ پر میں سوچتی ہوں کہ میری منی کو بھی کوئی ایسا ہی بھک منگا مل جائے۔

اندھا بھکاری:تم نے تو میری بات نہیں مانی۔ وہ بنیا پانسو روپئے دیتا تھا، اسی کے پلے باندھ دیتے۔منی کی زندگی بھی سدھر جاتی  اور  ہم بھی۔

بھکارن:تم کیا کرتے ان پانسو روپئے سے۔

اندھا بھکاری:ان پانسو روپئے سے میں پھر ایک قطعہ زمین خرید لیتا۔ گائیں رکھتا، بھیڑ بکریاں۔ میرا ایک چھوٹا سا خوبصورت گھر ہوتا۔ کچی مٹی کا بنا ہوا۔ کھڑیا مٹی سے تپا ہوا۔ منی کی اماں ، تجھے کیا معلوم ہے کہ بھکاریوں کی ٹولی میں داخل ہونے سے پہلے میں ایک کسان تھا۔

بھکارن:مجھے معلوم ہے تم ایسی باتیں مجھے کئی بار سنا چکے ہو۔

اندھا بھکاری:تم ایک بوڑھے اندھے کی باتوں پر کب اعتبار کرو گی!لیکن منی کی اماں میں نے بھی اچھے دن دیکھے ہیں۔ جہاں میں رہتا تھا وہاں چاروں طرف خوبصورت کھیت تھے ، کھیتوں سے پرے پہاڑ۔ ایک اجلی اجلی ندی دھان کے کھیتوں میں میٹھے میٹھے گیت گاتی ہوئی بہتی تھی، اس ندی کے ساتھ چلتے چلتے میں اپنی بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کو رکھ میں جایا کرتا تھا جہاں لمبی لمبی دوب تھی  اور بنفشے کے پھول  اور کھٹے اناروں کے جنگل  اور۔۔۔

بھکارن: اور پھر تمہارا باپ مرگیا  اور  تمہارے باپ کو گاؤں کے بنیے کا بہت سا روپیہ قرضہ دینا تھا  اور  بنیے نے تمہاری زمین قرق کرالی  اور  تم ہوتے ہوتے بھک منگے بن گئے  اور پھر تم ہماری ٹولی میں آملے۔ میں یہ سب باتیں اچھی طرح جانتی ہوں کہ تم ہمیشہ سے ایک بھک منگے تھے ہمیشہ رہو گے  اور ایک بھک منگے کی موت ہی مرو گے۔ صرف یہ بات سچ ہے باقی سب جھوٹ ہے۔ نہ تمہارا باپ کسان تھانہ میری ماں امیر زادی تھی۔ مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں میری ماں کون تھی ایک کھتری سی چڑیل کی یاد ہے جو میرے سارے پیسے جو میں بازار میں لوگوں کے پیچھے بھاگ بھا گ اکٹھے کیا کرتی تھی چھین لیا کرتی تھی  اور اکثر راتوں کو بھی بھوکا رکھا کرتی تھی تا کہ میں کہیں موٹی نہ ہو جاؤں۔

(دو مسافر داخل ہوتے ہیں۔)

بھکارن:کون ہے؟

اندھا بھکاری:کون ہے؟

شاعر اور جانی لنگڑا:مسافر ہیں ، بابا، ذرا  آگ تاپ لیں۔

اندھا بھکاری:مسافر ہو تو سرائے میں جاؤ۔ ہم فقیروں کے پاس کیا کام ہے۔

جانی لنگڑا:سرائے میں جانے کی توفیق ہوتی توہم تم سے بات ہی کیوں کرتے۔

اندھا بھکاری:تم کون ہو؟

جانی لنگڑا:میرا نام جانی لنگڑا۔ پہلے میں تور پور میں بھیک مانگتا تھا، پر وہاں پولیس والوں نے تنگ کر رکھا ہے۔ بے چارے بھکاریوں کی ہر روز پیشی، ہر روز بلاوا، میری ٹانگ لنگڑی تھی۔ کچھ اس پر پرانے دو چار گلے سڑے ناسور بھی ہیں۔ مزے سے بیٹھے بٹھائے روٹی مل جاتی تھی۔ لیکن برا ہو ان پولیس والوں کا۔

اندھا بھکاری: اور تمہارے ساتھ یہ دوسرا ساتھی کون ہے؟

جانی لنگڑا:یہ اسی سے پوچھو۔

شاعر:میں۔ میں شاعر ہوں۔

اندھا بھکاری:شاعر کیا ہوتا ہے۔ بھئی بڑے بڑے بھک منگے دیکھے ، قسم قسم کے بھکاری لیکن یہ قسم آج ہی سننے میں آئی۔

جانی لنگڑا:ارے بابا یہ شاعر کبت بناتا ہے کبت،  اور گاؤں گاؤں سنا کر اپنا پیٹ پالتا ہے۔

اندھا بھکاری:آں ہاں ، تو بھاٹ کہو نا۔۔۔ کہ میں بھاٹ ہوں۔ شاعر!عجب نام ڈھونڈا ہے اس نے بھی۔

جانی لنگڑا:یہ راستے میں مجھے مل گیا تھامیں نے کہا سفر میں دوہوں تو راستہ آسانی سے کٹ جاتا ہے۔اسی لئے اسے ساتھ لیتا آیا۔ بابا تم تو یہاں بڑے مزے میں ہو۔ یہ بڑھیا کون ہے؟

اندھا بھکاری:یہ میری بیوی ہے۔(قدموں کی آواز)  اور یہ میری منی آ رہی ہے۔ میری لڑکی۔منی۔ یہ جانی لنگڑا ہے۔ یہ شاعر کبت بناتا ہے۔ بی بی نے کھڑکی کھولی؟

منی :ہاں۔

اندھا بھکاری:تو جلدی سے کھانا دے مجھے۔

منی:لیکن بی بی کہتی ہے کہ ابھی کھانے کے بعد ملے گا۔ آج سرائے میں مسافروں کی بہت بھیڑ ہے۔

اندھا بھکاری:تو کچھ تھوڑا ساہی اس نے دے دیا ہوتا۔ میں بھوک سے مرا جا رہا ہوں۔

شاعر:یہ ایک مکی کا بھٹا ہے۔ بھائی اسے بھون کر کھالو۔

اندھا بھکاری:کدھر ہے ، کدھر ہے۔ کہاں ہے۔ منی بیٹا۔ ذرا اسے آگ پر بھون ڈال۔اف کتنی سردی ہو رہی ہے ، آج اس گرم گدڑی میں بھی جان نکلی جا رہی ہے۔۔۔ کون ہے؟کسی امیر آدمی کی گاڑی آ کر رکی ہے۔ منی جا ذرا بھاگ کر۔

جانی لنگڑا:میں بھی چلتا ہوں تمہارے ساتھ۔ شاید ایک دو چھدام مجھے بھی مل جائیں۔ منی ذرا مجھے  سہارا دینا۔ آہ!

(سرائے کے دروازے پر ایک گھوڑا گاڑی آ کر رکتی ہے۔)

پہلا شکاری:اف، آج تو تھک کر چور ہو گئے۔

پہلے شکاری کی بیوی:یہ تو کوئی بڑی ذلیل سی سرائے معلوم ہوتی ہے۔ ذرا مجھے سہارا دینا۔ تھینک یو۔

دوسرے شکاری کی بیوی: اور بھئی ہمیں تو بہت بھوک لگی ہے۔ جان نکلی جا رہی ہے  اور  پھر یہ بلا کی سردی، شکر کریں گے جب کل گھر پہنچیں گے۔

دوسرا شکاری:شکار پر مردوں کے ساتھ آنا بھی کوئی ہنسی کھیل نہیں۔

دوسرے شکاری کی بیوی:شکار پر مردوں کے ساتھ آنا بھی کوئی ہنسی کھیل نہیں۔ دیکھ لی آج ہم نے تمہاری دلیری۔

منی:صاحب ایک پیسہ میم صاحب کی جوڑی بنی رہے۔ ایک پیسہ مل جائے۔

جانی لنگڑا:غریب محتاج لنگڑے پر ترس کر جاؤ رے بابا۔

تیسرا  شکاری:او ڈیم۔ یہ کم بخت ہر جگہ موجود ہیں۔ اب کسے خیال تھا کہ اس سرائے میں بھی یہ مخلوق مغز چاٹنے کے لیے موجود ہو گی۔

منی:میم صاحبوں کی جوڑی سلامت، صاحب کا اقبال بلند ہو، میم صاحب جی آپ کے گھر ایک خوبصورت پیارا بچہ۔۔۔

پہلے  اور دوسرے شکاریوں کی بیویاں :ہش ہش چلو جلدی اندر چلیں ورنہ یہ بھک منگے تو ہماری جان کھا جائیں گے۔

(سرائے کے اندر داخل ہوتی ہیں۔)

پہلا شکاری:ہاں آپ چلئے ، ہم ذرا سامان اتروا لیں۔۔۔ بھئی وہسکی  کدھر ہے؟

تیسرا شکاری:کیریر میں۔ فکر نہ کرو، اسے میں کیسے بھول سکتا ہوں !

منی:کچھ مل جائے حضور۔

دوسرا شکاری:بیرہ۔ انھیں کچھ دینا۔

(بیرہ منی کو ایک دونی دیتا ہے۔)

سرائے کا مالک:آئیے۔ آئیے۔ حضور۔ اندر تشریف لائیے۔

پہلا شکاری:اوہ۔ تم اس سرائے کا مالک ہے۔

جانی لنگڑا:حضور کا اقبال بلند ہو، اس غریب محتاج لنگڑے کو بھی کچھ مل جائے۔

پہلا شکاری:اوہ بیرہ۔ جلدی سے بلڈی  بیگر کو کچھ دے کر ٹالو۔۔۔  اور تم اس سرائے کا مالک ہے  اور دروازے پر بھک منگوں  کو بٹھائے رکھتا ہے۔

دوسرا شکاری:مسافروں کو دونوں طرح سے لوٹتا ہے اندر بھی باہر بھی۔

سرائے کا مالک:حضور اندر تشریف لائیے۔ سرائے کے باہر کی زمین کا میں مالک نہیں ہوں۔ اندر تشریف لائیے حضور۔

منی:صاحب جی، آپ بھی۔

تیسرا شکاری:یہ بھکارن لڑکی تو مجھے خاصی اچھی معلوم ہوتی ہے تمہارا کیا خیال ہے اس بارے میں۔۔۔

دوسرا شکاری:ہش۔ بڑے بے ہودہ ہو تم۔ بیرا سب سامان ٹھیک ہے؟

بیرا:جی حضور۔

پہلا شکاری:چلو بھئی اندر چلیں۔ یہاں کھڑے کھڑے  تو لہو بھی جم جائے گا۔

سرائے کا مالک:اندر تشریف لے چلئے حضور۔

منی:صاحب جی آپ بھی ایک دونی۔

(صاحب لوگ دروازے کے اندر چلے جاتے ہیں۔)

بیرا:بھاگو بھاگو یہاں سے کس وقت سے کھڑی چلا رہی ہے مشٹنڈی کہیں کی۔

 

 

دوسرا سین

 

 

اندھا بھکاری:کچھ ملا؟

جانی لنگڑا:ایک اکنی۔

منی: اور ایک دونی مجھے بھی۔

جانی لنگڑا:جوان عورتوں کو لوگ یوں بھی زیادہ خیرات دے دیتے ہیں  اور تمہاری لڑکی تو۔۔۔

اندھا بھکاری:ہاں ، ایک بنیا اس کے پانسو روپئے دیتا تھا لیکن منی کی ماں نے۔

جانی لنگڑا:منی کی اماں نے عقل مندی سے کام لیا۔ اگر تم بھی عقل مندی سے کام لو تو  یہ لڑکی تمہاری عمر کے لیے روٹیاں مہیا کر سکتی ہے۔ شاعر میاں ، تمہارا کیا خیال ہے۔

(وقفہ)

جانی لنگڑا:شاعر بھائی۔

شاعر:ایں ، کیا کہا۔ معاف کرنا میں نے سنا نہیں۔

جانی لنگڑا:ہی ہی ہی اچھا ہوا تم نے نہیں سنا۔ اب یہ بتاؤ تم کیا کوئی نیا کبت بنا رہے تھے۔

شاعر:ہاں ایک نیا کبت ہی تھا۔

جانی لنگڑا:ذرا سناؤ اور اس سارنگی کو کاندھے پرسے اتارو۔

گانا

میں ہوں ایک بھکاری میرا جیون ہے کشکول

پھیلی پھیلی دھرتی پر پھر تا ہوں میں آوارہ

نہ میں کسی کا پریمی ہوں نہ کوئی میرا پیار

دیکھتا ہوں جب زخمی آہیں یا نینوں کی دھارا

سونے گانے گاتا ہے من ہو کر ڈانوا ڈول

میں ہوں ایک بھکاری میرا جیون ہے کشکول

میری طرح یہ گیت ہیں میرے ننگے بھوک کے مارے

میری طرح یہ گیت ہیں میرے آوارہ بے چارے

دن کو پھر تے ہیں یہ در در، رات کو گنتے تارے

دنیا والے ان کی خاطر پیٹ کا مندر کھول

میں ہوں ایک بھکاری میرا جیون ہے کشکول

(وشوا متر عادل)

شاعر:تم کیوں رو رہے ہو بابا۔

اندھا بھکاری:مجھے اپنے سکھ کے دن یاد آ گئے۔ وہ دھان کے پیارے کھیت، وہ بہتی ہوئی ندی کا نرمل شفاف پانی، وہ رکھ جہاں اپنا ریوڑ چرایا کرتا تھا، میری ماں جو مجھے لوریاں دیا کرتی تھی، میرا باپ جو مجھے کاندھے پر بٹھا کر قصبہ کے بازار میں سیر کرانے کے لیے لایا کرتا تھا۔

بھکارن:جھوٹ ہے۔ یہ بالکل جھوٹ ہے۔ میں اس قصبے کے بازار میں اسے بھیک مانگتے ہوئے دیکھا ہے۔ کسان کا بیٹا۔ اونھ،  رہنا سرائے کے باہر  اور خواب دیکھے محلوں کے۔

شاعر:ہاں ہاں تم سچ کہتی ہو۔ ہم سرائے کے باہر رہنے والی مخلوق ہیں۔ کتے  اور  بھکاری جو مسافروں کا بچا کھچا کھانا کھا کر اپنا پیٹ بھرتے ہیں  اور  اکثر اوقات تو پیٹ بھی نہیں بھر سکتے ہمیں ایسے سنہرے خواب نہیں دیکھنے چاہئیں۔ کبھی نہیں دیکھنے چاہئیں۔

جانی لنگڑا:میاں ان باتوں کے سوچنے سے کیا ہوتا ہے۔ اپنے نے تو بس یہ سمجھ رکھا ہے کہ جیو بھکاری  اور مرو بھکاری۔ ایمان کی بات ہے کہ یہ پیشہ کوئی برا نہیں۔ بیٹھے بٹھائے روٹی مل جاتی ہے لوگ دو چار گالیاں ہی دے دیتے ہیں نا۔ لیکن سچ پوچھو تو گالیاں کس پیشے میں نہیں۔ ہم نے بڑے بڑے لوگوں کو دیکھا ہے کہ گالیاں کھاتے ہیں  اور چوں نہیں کرتے۔۔۔  یار، اپنے نے تو بس یہی پیشہ پسند کیا ہے۔

(وقفہ)

منی:شاعر، کیا تمہارے گیت سبھی ایسے ہوتے ہیں۔

شاعر:کیا مطلب ہے تمہارا منی۔

منی:تمہارا گیت بڑا برا تھا ا س نے بابا کو رلا دیا  اور مجھے بھی۔

شاعر:تم بھی۔

منی:ہاں ، میری آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے۔

شاعر:منی میرے پاس آنسوؤں کا ایک خزانہ ہے۔ اسے میں نے دھرتی کے مختلف کونوں سے چن چن  کر اکٹھا کیا ہے۔ ان آنسوؤں کے اندر جھانک کر دیکھا ہے۔ ان میں میلوں تک سرخ سرخ انگاروں کے میدان ہیں  اور  لاکھوں شعلے اپنی خوفناک زبانیں پھیلائے ہوئے آسمان کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ان میں زخمیوں کی چیخ پکا رہے  اور کم سن بچوں  اور بیوہ عورتوں کے شیون، ان آنسوؤں کے افق پر ہمیشہ کالی گھٹا چھائی رہتی ہے جس میں کبھی کبھی ایک ایسی خوفناک بجلی کا کوندہ لہراتا ہے کہ بڑے بڑے جیالوں کے دل دہل جاتے ہیں۔

منی:ہائے۔ تم نے تو مجھے  ڈرا دیا ہے۔

شاعر:لیکن ان آنسوؤں کے پیچھے کبھی کبھی سات رنگوں والی دھنک کا نرم و نازک جھولا بھی نظر آ جایا کرتا ہے۔ بس ایک لمحے کے لیے ، پھر وہ اسی کالی گھٹا میں غائب ہو جاتا ہے  اور لاکھوں کی سرخ پتلی زبانیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں۔

منی:میں آج تک کبھی کسی جھولے پر نہیں بیٹھی۔ شاعر۔ کیا میں اس سات رنگوں والی دھنک پر بیٹھ سکتی ہوں۔ بس صرف ایک لمحے کے لیے۔

شاعر:تم بڑی بھولی ہو منی۔ ابھی تک کسی انسان نے اس دھنک کو نہیں چھوا ہے۔ چھونا تو کیا بہت سوں نے تو اسے دیکھا بھی نہیں ہے۔ میں نے بھی تو کبھی کبھی اسے دیکھا ہے۔ یہ دھنک ہر ایک آدمی کے آنسوؤں میں نہیں جھلملاتی۔ ہاں جب میں گیت گاتا ہوں  اور جب میرے گیت سن کر کسی معصوم بچے کی آنکھوں میں آنسو مچلنے لگتے ہیں اس وقت میں اس دھنک کو ایک لمحہ کے لیے دیکھ لیتا ہوں۔ اگر وہ دھنک ہر ایک آنسو میں دکھائی دے تو یہ آگ کے جہنمی شعلے ہمیشہ کے لیے بجھ جائیں۔

منی:تو پھر کیا ہو شاعر، تم بڑے ہی عجیب آدمی ہو۔

شاعر:پھر کیا ہو گا منی۔ پھر وہ ہو گا جو تمہاری آنکھوں نے کبھی نہیں دیکھا۔ جس کھڑکی کے کھلنے کی تمنا تم ہر دم کرتی رہتی ہو، وہ کھڑکی ہمیشہ کے لیے کھل جائے گی۔

منی:تو کیا تم اس واسطے دھرتی کے مختلف کونوں سے آنسو جمع کرتے رہتے ہو۔

شاعر:ہاں۔

منی:ابا ابا۔ یہ مسافر کہتا ہے کہ دھرتی کے مختلف کونوں سے آنسو جمع کرتا رہتا ہوں تا کہ ہماری یہ سرائے والی کھڑکی ہمیشہ کے لیے کھلی رہے۔

(شاعر کے علاوہ باقی سب خوب ہنستے ہیں۔)

جانی لنگڑا:یہ گیت بنانے والے سبھی پاگل ہوتے ہیں۔

(ہوا کا تیز جھونکا  اور جنگل میں گیڈروں کے بولنے کی آواز)

اف، یہ ہوا کتنی سرد اور برفیلی ہے بے چارے انسانوں پر تو آفت ہے ہی یہ جنگل میں گیڈروں تک سردی میں ٹھٹھرتے ہوئے چلا رہے ہیں۔

اندھا بھکاری:کیا تم نے وہ کہانی نہیں سنی؟ایک تھا راجہ، اس نے جب سردی کے دنوں میں گیدڑوں کو یوں چلاتے ہوئے سنا تو اپنے  وزیر سے پوچھا کہ کیا ماجرا ہے۔ وزیر نے بتایا کہ مہاراج ان گیدڑوں کو سردی لگتی ہے۔ مہاراج نے حکم دیا کہ اسی وقت ان گیدڑوں میں کمبل  اور  لحاف مفت تقسیم کئے جائیں۔

(شاعر ہنستا ہے۔)

اندھا بھکاری:(خفا ہو کر) کیوں ہنستے ہو شاعر؟

شاعر:میں پوچھتا ہوں کیا اس راجہ کے شہر میں کوئی بھکاری نہ تھا؟

(ہنستا ہے۔)

اندھا بھکاری:بھکاری کیوں نہ ہوں گے۔ یہ شاعر کیسی باتیں کرتا ہے۔ بھلا جہاں راجہ ہو گا وہاں بھکاری بھی ہوں گے۔ لیکن اس بات کا میری کہانی سے کیا تعلق؟میں کہانی سنا رہا ہوں  اور بیچ میں ٹوک دیتا ہے۔ خواہ مخواہ یہ کیسا آدمی ہے ، تمہارا دوست جانی؟

جانی لنگڑا:معاف کرو بھئی، اسے تم جانتے ہی ہو یہ کبت بنانے والے اسی طرح بے سر و پا باتیں کیا کرتے ہیں۔

بھکارن:گیدڑوں والی کہانی سے مجھے بھی ایک بات یاد آ گئی۔ ایک دفعہ میں سڑک پر بیٹھی بھیک مانگ رہی تھی،  اور کہہ رہی تھی ’’کوئی روٹی، کوئی پیسہ بھکارن بھوکی ہے۔‘‘ اتنے میں میرے قریب سے ایک خوبصورت عورت گزری۔ اس کے ساتھ ایک نہایت پیاری ننھی لڑکی تھی۔ میں نے انھیں دیکھ کر اور بھی مسکین آواز میں کہا:’’کوئی روٹی، کوئی پیسہ، بھکارن بھوکی ہے۔‘‘ اس پروہ ٹھٹھک کر کھڑی ہو گئی  اور  اس نے اپنے بٹوے سے ایک پیسہ نکال کر میری ہتھیلی پر رکھا ننھی بول اٹھی۔ کہنے لگی: ’’ماں ، یہ بھوکی ہے۔‘‘ ماں نے کہا:’’ہاں بیٹا یہ بھکارن ہے ، غریب ہے۔بھوکی ہے۔‘‘ ننھی لڑکی بولی:’’ماں یہ بھوکی ہے تو  بسکٹ کیوں نہیں کھاتی‘‘  بسکٹ؟! سنا تم نے منی کے ابا۔  بسکٹ(کھوکھلے انداز میں ہنستی ہے) اس کی ماں نے اسے ایک زور کا طمانچہ لگایا  اور  پھر اپنی روتی ہوئی لڑکی کولے کر آگے نکل گئی۔

(کھوکھلے انداز میں ہنستی ہے۔)

اندھا بھکاری:ابھی میری کہانی تو پوری ہوئی نہیں کہ تم لوگوں نے بیچ میں سے۔۔۔

بی بی:(دور سے آواز دیتی ہے) منی منی  منی بٹیا۔

اندھا بھکاری:کھڑکی کھل گئی ہے۔ منی کھڑکی کھل گئی ہے۔ بی بی تجھے بلا رہی ہے ، بھاگ کر جا۔

بی بی:منی منی۔

جانی لنگڑا:بی بی کھڑکی پر نہیں ہے ، وہ تو سرائے کے دروازے پر کھڑی ہوئی آوازیں لگا رہی ہے۔

بھکارن:منی، جا بھاگ کر!

منی:آئی بی بی جی۔ (دوڑتی ہوئی جاتی ہے) بی بی، اب کھانا دو گی؟

بی بی:ہاں ہاں چڑیل تجھے کھانا بھی دوں گی  اور بہت سی اچھی اچھی چیزیں بھی دوں گی، چل، سرائے کے اندر چل، سرائے کے مالک تجھے بلا رہے ہیں۔

منی:اہاہا (تالی بجا کر) کہاں ہیں سرائے کے مالک!

(سرائے کا دروازہ بند ہو جاتا ہے۔)

بھکارن:منی سرائے کے اندر چلی گئی۔

جانی لنگڑا:بی بی منی کولے کر سرائے کے اندر چلی گئی۔ سرائے کا دروازہ بند ہو گیا۔

اندھا بھکاری:سرائے کے اندر چلی گئی؟کیا کہہ رہے ہو جانی؟میری منی تو آج تک سرائے کے اندر نہ گئی تھی۔۔۔ منی کیسے سرائے کے اندر چلی گئی سرائے کے اندر۔۔۔ منی منی منی۔

شاعر:آخر ایک نہ ایک دن اسے سرائے کا اندر جانا ہی تھا۔

اندھا بھکاری:نہیں میری بیٹی۔۔۔

شاعر: اور آج سرائے کی دہلیز نے اس کی زندگی کے دو ٹکڑے کر دئیے ، سرائے کے اندر اور سرائے کے باہر  اور اب منی کی لاج اسی سرائے کی دہلیز پر آوارہ ہو کر بھٹکا کرے گی۔ذرا آگ تیز کر دو جانی، میرے گیت اس برفیلی رات میں سردی سے ٹھٹھرے جا رہے ہیں۔ وہ ان آوارہ گیدڑوں کی طرح ہیں جنھیں سردیوں میں کوئی کمبل نہیں دیتا۔ وہ ان اندھے بھکاریوں کی طرح ہیں جن کی بوسیدہ  اور پرانی گدڑی میں ہوا برف کے  گالے بن کر چبھتی ہے۔ میرے گیت بھوکے ننگے  اور  پیاسے ہیں انھیں کوئی  بسکٹ نہیں دیتا۔ میرے گیت کائنات کے گلے سڑے ناسور ہیں ، ان رستے زخموں پر آج تک کسی نے پھاہا نہیں رکھا۔

(سارنگی بجانے لگتا ہے۔)

جانی لنگڑا:ہی ہی ہی۔ دماغ چل گیا ہے سردی سے بے چارے کا۔

شاعر:(گاتا ہے۔)

میری طرح یہ گیت ہیں میرے ننگے بھوک کے مارے

میری طرح یہ گیت ہیں میرے آوارہ بے چارے

دن کو پھر تے ہیں یہ در در، رات کو گنتے تارے

دنیا والے ان کی خاطر پیٹ کا مندر کھول

میں ہوں ایک بھکاری میرا جیون ہے کشکول

ان کی خاطر پیٹ کا مندر کھول  اور  دنیا والے

اس میں پھر اک سندر سی آشا کی جوت جگالے

تن کی دولت کو ٹھکرا دے ، من کی دولت پالے

من کی دولت ڈھونڈنے والے سن لے میرے بول

میں ہوں ایک بھکاری میرا جیون ہے کشکول

(اندھا بھکاری اپنی گدڑی سمیٹنے لگتا ہے۔)

بھکارن:کہاں جا رہے ہو منی کے ابا۔

اندھا بھکاری:میں اپنی منی کو واپس بلانے جا رہا ہوں۔ میں سرائے کا دروازہ کھٹکھٹاؤں گا، شور و غل مچاؤں گا، چیخوں گا، چلاؤں گا۔گالیاں دوں گا، سمجھا کیا ہے انھوں نے میں بھی کبھی کسان تھا، میرا بھی گھر تھا، بیلوں کی جوڑی تھی، خوبصورت کھیت تھا۔۔۔ میری منی۔

جانی لنگڑا:چلو چلو۔ میں تمہارے ساتھ چلتا ہوں۔ آؤ شاعر میاں۔

(آہستہ آہستہ جاتے جاتے ہیں۔)

جانی لنگڑا:دروازہ کھٹکھٹاؤ۔(کھٹ کھٹ)

کوئی نہیں بولتا۔(کھٹ کھٹ)

سرائے میں خاموشی۔(کھٹ کھٹ)

شاعر:(طنز سے)منی بھی سو رہی ہو گی؟

اندھا بھکاری:(چیخ کر) دروازہ کھول دو۔ دروازہ کھول دو۔ سرائے کے بدمعاش کتو، دروازہ کھول دو۔ میری بچی کو میرے حوالے کر دو، میری بیٹی کو میرے حوالے کر دو۔ میں منی کا باپ ہوں ، دروازہ کھول دو۔ دروازہ کھول دو (کھٹ کھٹ)آہ، ظالمو، شیطان کے جہنمی بیٹو، میری معصوم بچی کو مجھے واپس دے دو، اس نے تمہارا کیا بگاڑا ہے۔ تم نے مجھ سے میرا گھر چھینا، میرے سنہرے کھیت چھینے ، میرے خوبصورت بیلوں کی جوڑی۔ میری آنکھیں بھی تم نے مجھ سے چھین لیں۔ اب میں اندھا ہوں۔۔۔  تمہارے دروازے کا بھکاری، آہ یہ دروازہ کھول دو(کھٹ کھٹ) کھول دو ظالمو، ایک اندھے بھکاری پر رحم کرو، اس کے بڑھاپے کا سہارا، اس کی اندھی زندگی کی جوت اسے واپس دے دو۔ ہاں مجھے میری منی واپس کر دو۔ میں اب تم سے کبھی کچھ نہیں مانگوں گا، چپ چاپ یہاں سے چلا جاؤں گا  اور جنگل کے گیدڑوں میں جا کر بسیرا کر لوں گا، چپ چاپ چلا جاؤں گا۔ چپ چاپ۔

(ہلکے ہلکے کھٹ کھٹ کرتا ہے۔)

(سسکیاں لیتا ہے۔)

شاعر:(دکھ بھرے لہجے میں)میں جانتا ہوں ، یہ سرائے کبھی نہ بولے گی، سرائے کا ہر سانس جامد ہوتا ہے ، اس کا سینہ پتھر کا ہوتا ہے ، پتھر جو ہر روز تمہارے ننگے پاؤں سے ٹکراتے ہیں  اور ان میں زخم پیدا کر دیتے ہیں ، یہ پتھر جن سے سرائے کی دیواریں بنی ہیں ، صرف دیواریں ہی نہیں ، ان کا سینہ بھی پتھر ہی کا ہے ، اس سینے میں دھڑکن پیدا نہیں ہوتی  اور  جہاں دھڑکن پیدا نہ ہو وہاں آواز بھی نہیں ہوتی، اسی لیے تو سرائے خاموش ہے لیکن گھبراؤ نہیں ، اس بے آواز سرائے میں جس طاقت نے منی کو نگل لیا ہے وہ وقت آنے پر خودبخود اسے اگل کر باہر پھینک دے گی، آؤ الاؤ پر چلیں۔ بڑھیا بے چاری اکیلی رو رہی ہو گی۔

(آہستہ آہستہ الاؤ کی طرف مڑ جاتے ہیں۔)

 

 

تیسرا سین

 

(قصبہ کا کلاک ایک بجاتا ہے۔ اندھیرا چاروں طرف گھرا ہے۔)

 

شاعر:ایک!

(وقفہ)

(قصبے کا کلاک دو بجاتا ہے۔)

شاعر:دو!!

(وقفہ)

(کلاک تین بجاتا ہے۔)

شاعر:تین!!!

(خراٹوں کی مدھم آوازیں)

شاعر:سو گئے ، سب سو گئے ، اندھا، لنگڑا، بھکارن سب سو گئے۔ الاؤ کے تپتے ہوئے سرخ شعلے بھی جاگ جاگ کر سو گئے۔ اب کالی برفیلی رات ہے  اور  ہواؤں کے تیز فراٹے۔ لیکن یہ تیز فراٹے سرائے کے منجمد سینے کو نہیں چیر سکتے۔ جس طوفان کاتو منتظر ہے وہ یہاں کبھی نہیں آئے گا۔ اس لنگڑے کو اپنے ناسوروں سے محبت ہے ، اس بھکاری کو  اپنی بھوک سے  اور  تو۔۔۔ تو اس بے مصرف سارنگی کے بوجھ کو کاندھے پر اٹھائے اس بجھتے الاؤ کے کنارے کیوں بیٹھا ہے۔ اٹھ چل۔ پگڈنڈی کی پرانی راہ تجھے بلا رہی ہے۔ تو راہی ہے ، عاشق نہیں۔ تو مسافر ہے ، محبت کرنے والا نہیں۔

(قدموں کی آہٹ)

شاعر:کون ہے؟

منی:میں ہوں من۔۔۔نی۔۔۔ من نی۔۔۔ منی سرائے کی ملکہ ہے۔ اس نے کہا۔

شاعر:کس نے کہا تھا۔ یہ تیرے قدم کیوں لڑکھڑا رہے ہیں۔ یہ تیرے۔۔۔  منھ سے کیسی بو آ رہی ہے۔

منی:بو آ رہی ہے۔۔۔ ہی ہی۔۔۔ بو کہ خوشبو، تم  شاعر ہو کر بھی بو  اور خوشبو میں تمیز نہیں کر سکتے۔ اہاہاہا!

جانی لنگڑا:(جاگ کر) کون؟

اندھا بھکاری:یہ منی کی آواز تھی۔

بھکارن:منی، میری بٹیا، تو اتنے عرصے کہاں رہی؟

منی:س۔۔۔ س۔۔۔ سرائے کے اندر  اور اب سرائے کے باہر ہوں۔ آج میں بہت خوش ہوں۔ آج میں نے انگوروں کا رس پیا ہے۔ ریشم کے کپڑے پہنے ہیں ، لذیذ اور میٹھے کھانے کھائے ہیں ، تمہارے لیے بھی لائی ہوں لو۔۔۔ لو اس رومال میں سب کچھ بندھا ہے  اور یہ۔۔۔ یہ۔۔۔  یہ بھی لے لو۔

بھکارن:یہ کیا؟

جانی لنگڑا:نوٹ۔ دس۔ بیس۔ تیس۔ چالیس۔ واہ میرے یار، یہ لونڈیا تو بڑی  ہوشیار ہے۔

بھکارن:چالیس؟وہ بنیا تو پانسو دیتا تھا۔

اندھا بھکاری:(چلا کر) منی منی۔۔۔ ذرا میرے قریب آ میری بیٹی۔

منی:کیا بات ہے ابا۔

اندھا بھکاری: اور قریب آ۔ میرے قریب آ جا میری بیٹی!

(اندھا منی  کا گلا دبانے کی کوشش کرتا ہے۔ منی چیختی ہے۔ شاعر  اور  جانی ان دونوں کو الگ الگ کر دیتے ہیں۔)

منی :کیا بات ہے ابا؟!۔۔۔ کیا بات ہے؟!!۔۔۔ تم تو مجھے (لمبی لمبی سانسیں لے کر) جان ہی سے مارے ڈالتے تھے۔ میں نے کیا کوئی بری بات کی ہے۔ میں تمہارے لیے کھانا لائی ہوں ، اپنے لیے یہ خوبصورت کپڑے ، دیکھو شاعر یہ میرے بدن پر کیسے سجتے ہیں ، اچھے ہیں نا؟! وہ بہت ہی اچھا آدمی ہے ، وہ مجھ سے بہت محبت کرتا ہے ، کہتا تھا جب میں نے سرائے کے باہر دوانی دی تھی اسی لمحے سے میں تم سے محبت کرنے لگا تھا، اس کی باتیں بہت ہی رسیلی تھیں۔ اس نے مجھے پیار کیا شاعر۔ وہ کہتا ہے۔۔۔ میں تم سے شادی کر لوں گا۔ وہ کل اپنے گھر جائے گا پھر وہاں سے سرائے کے مالک کو خط لکھے گا  اور پھر میرے لیے ایک خوبصورت چار گھوڑوں والی گاڑی آئے گی  اور میں اس میں بیٹھ کر اپنے خاوند کے گھر  جاؤں گی۔ اماں تمہیں یاد ہے نا ایک بار ایک بھکاری نے میرا ہاتھ دیکھ کر کہا تھا کہ یہ لڑکی بڑی ہو کر شہزادی بنے گی۔ بھکارن سے شہزادی۔ اماں وہ بہت ہی امیر ہے میلوں تک اس کے کھیت پھیلے پڑے ہیں۔ اس کے پاس بیلوں کی جوڑیاں ان گنت ہیں ، اس کا گھر سرخ اینٹوں کا بنا ہوا ہے  اور اس کے چاروں طرف ایک وسیع باغ ہے۔ ماں وہ بڑا ہی اچھا آدمی ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ میں اپنے ابا  اور  اماں کو بھی ساتھ لے چلوں گی۔ وہ کہنے لگا یہ تو بہت ہی اچھی بات ہے میں ان دونوں کے لیے ایک الگ مکان بنوا دوں گا  اور  تمہارے ابا کے لیے کھیت  اور بیلوں کی جوڑی بھی خرید دوں گا۔ تم میرے ساتھ چلو گے نا ابا؟اماں تم بھی؟ اب ہم بھکاری نہیں رہیں گے ، دربدر بھیک نہیں مانگیں گے۔ بی بی کی گالیاں نہیں سنیں گے۔ سرائے کے باہر سردی میں ٹھٹھرتے ہوئے الاؤ کی مدھم آگ نہیں تاپیں گے۔ ہاں جانی کو بھی ساتھ لیتے چلیں گے۔ میں اس سے کہہ دوں گی وہ بڑا اچھا آدمی ہے۔ شاعر تم بھی ہمارے ساتھ چلنا۔ تمہارے میٹھے گیت سن کراس کی آنکھوں میں آنسو آ جائیں گے۔ کیوں ٹھیک ہے نا ابا، (وقفہ) اماں (وقفہ)جانی(وقفہ) تم سب چپ کیوں ہو۔ شاعر کیا بات ہے۔ تم بھی نہیں بولتے۔۔۔ (مدھم آواز میں سسکیاں لیتے ہوئے) تم بھی نہیں بولتے !

(سسکیاں لیتی ہے۔)

شاعر:رو مت منی۔ آج تم واقعی اس کالی رات اندھیاری رات کی شہزادی ہو۔ اس سرائے کی ملکہ ہو۔ تمہارا لباس ریشم کا ہے ، تمہارے بالوں میں گلاب کے پھول ٹکے ہوئے ہیں ، تمہارے لبوں پر تمہارے محبوب کے بوسے چمک رہے ہیں۔ آج کی رات تم نے سات رنگوں والی قوس قزح دیکھی ہے۔ آج کی رات وہ تمہارا خاوند ہے ، آج کی رات وہ تمہیں اپنی چار گھوڑوں والی گاڑی میں بٹھا کر اپنی بیاہتا بنا کر اپنے گھر لے گیا ہے ، آج کی رات اس نے تمہیں اپنے سونے  اور جواہرات کے بنے ہوئے محلوں کی سیر کرائی ہے ، تمہاری کمر میں ہاتھ ڈالے اپنے وسیع باغات میں پھر آیا ہے ، رو مت منی ان خوشی کے آنسوؤں کو سنبھال کر رکھ۔ ان آنسوؤں کوتو دوبارہ حاصل نہ کر سکے گی۔ آج کی رات تو نے کیا کھویا  اور  کیا پایا۔ یہ شاید تو اس وقت نہیں جان سکتی۔ کل صبح جب وہ مسافر اپنی چار گھوڑوں والی گاڑی میں سوار ہو کر اپنے سونے کے محل میں واپس چلا جائے گا۔اس وقت تجھے معلوم ہو گا کہ تو ظالم سرائے کی پتھریلی دہلیز سے بیاہی گئی ہے جس کے آستانے کی جبہ سائی کرتے کرتے  تیرا باپ اندھا ہو چکا ہے ، رو مت منی۔ رو مت منی، رونے کے لیے ساری عمر پڑی ہے۔ کل تجھے معلوم ہو گا کہ وہ قوس قزح غائب ہو چکی ہے۔ وہ سونے کا محل راکھ کا ڈھیر ہو گیا ہے۔ وہ وسیع باغات  اور  کھیت بنجر  اور  ویران ہو گئے ہیں۔ ان میں تپتی ہوئی ریت کے بگولے اٹھتے ہیں  اور  غول بیابانی چیخیں مارتے ہیں  اور تو اپنے چیتھڑوں میں لپٹی ہوئی ہاتھ پھیلائے بھیک مانگتی پھر تی ہے : ’’کوئی روٹی، کوئی پیسہ، بھکارن ہوں۔۔۔ ‘‘

منی:نہیں نہیں شاعر، یہ کیسے خوفناک الفاظ ہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا۔ میں نے کسی کا کیا بگاڑا ہے۔

شاعر:تیری بدنصیبی یہی ہے کہ تو نے ابدی مسرت کے چند لا زوال لمحے اپنی پاک  اور صاف روح کی پہنائیوں سے نکال کر ایک ایسے آدمی کو بخش دیے جوان کی قدر و قیمت نہیں جانتا، وہ لمحات جن کا جواب چاند  اور  سورج کی دنیاؤں کے پاس بھی نہیں۔ لیکن انسان ابھی بھی انسان نہیں ہے۔ وہ ہراس چیز کو گزند پہنچاتا ہے جو خوبصورت ہو، مقدس ہو  اور  معصوم ہو اور ہراس چیز کا پجاری ہے جواس پر ظلم کرتی ہے اس کی روح کو کچل کراس کے نازک احساسات کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتی ہے۔

جانی لنگڑا:چچ چچ۔ بہک گیا ہے بے چارہ۔ دماغ چل نکلا ہے اس کا۔ چاند  اور  سورج شعلے  اور قوس قزح بھلا ان باتوں کا چالیس روپوں سے کیا تعلق جا بھائی جا۔ بہت مغز چاٹ  لیا تو نے۔ اب اگر یوں سیدھی طرح نہ جائے گا تو جانی لنگڑا تجھے اپنی لنگڑی ٹانگ کے کرتب دکھائے گا۔ یہ میری لنگڑی ٹانگ ایسے موقعوں پر خوب چلتی ہے۔ بڑا آیا منی کو سمجھانے والا۔ چلا جا یہاں سے !!

(شاعر آہستہ آہستہ پگڈنڈی کی طرف قدم بڑھاتا ہے۔)

منی:شاعر ٹھہرو(وقفہ) مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلو۔

شاعر:نہیں میں اب نہیں ٹھہر سکتا۔ میں تمہارے آنسو اپنے ساتھ لیے جا رہا ہوں منی۔محبت کرنا یا زخمی زندگیوں پر پھاہا رکھنا میرا کام نہیں۔ میں تو صرف دھرتی کے آنسو جمع کرتا ہوں۔

(چلا جاتا ہے۔)

(خاموشی۔ پھر جنگل میں گیدڑوں کے بولنے کی آواز۔)                     (پردہ)

***

ماخذ:’’دروازہ‘‘، آزاد بک ڈپو، ہال بازار، امرتسر

٭٭٭

 

عشق کے بعد

 

کردار

 

لیلیٰ۔۔۔ مجنوں۔۔۔ مجنوں کی ماں۔۔۔ رومیو

جولیٹ۔۔۔ ہیر۔۔۔ رانجھا۔۔۔ راوی

چپڑاسی۔۔۔ فلم ڈائریکٹر۔۔۔ کلرک وغیرہ

وقت۔۔۔۔۔۔ زمانہ حال

 

پہلا منظر

 

(جب پردہ اٹھتا ہے تو اسٹیج  پر اندھیرا ہے۔ صرف دائیں وینگ میں ایک چھوٹا سا لیمپ شیڈ روشنی کا ایک کمزور سا ہالہ بنائے ایک چھوٹی تپائی پر جھکا ہوا ہے اس تپائی کے سامنے ایک آرام کرسی پر ایک ادھیڑ عمر کا خوش پوش آدمی بیٹھا ہے  اور ایک کتاب پڑھ رہا ہے۔ جب پردہ اٹھتا ہے تو اس کے چند لمحوں کے بعد وہ آدمی اپنی عینک رومال سے صاف کرتے ہوئے لوگوں کی طرف دیکھ کے کہتا ہے۔)

 

راوی:آپ نے سنا ہو گا کہ محبت لازوال ہے۔ ابدی ہے کبھی نہیں مٹتی کبھی نہیں مرتی۔ سچی محبت کرنے والے ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ اگر  یہ سچ ہے تو لیلیٰ مجنوں ، ہیر رانجھا، سستی پنوں ، رومیو جولیٹ آج بھی زندہ ہیں  اور  محبت کر رہے ہیں۔ یہ بات بالکل سچ ہے لیکن پہلے میں اسے سچ نہیں سمجھتا تھا لیکن ایک دن کیا ہوا میں شام کے وقت شہر کے باہر چہل قدمی کو نکلا  اور  ذرا دور نکل گیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ سڑک سے ذرا ہٹ کے خانہ بدوشوں کی دوچار جھونپڑیاں ہیں  اور ان میں سے آخری  اور  گندی جھونپڑی کے دروازے پر ایک آدمی دستک دے رہا ہے  اور  زور زور سے چلا رہا ہے۔

(دستک کی آواز آتے ہی اسٹیج پر دھیرے دھیرے روشنی پھیلنے لگتی ہے  اور  وینگ کے قریب کا لیمپ شیڈ بجھ جاتا ہے  اور کتاب پڑھنے والا آدمی کتاب لئے ہوئے ونگ کے اندر چلا جاتا ہے۔ اب اسٹیج کے اجالے میں ایک ٹوٹے ہوئے جھونپڑے کا اندرونی حصہ نظر آتا ہے۔ انتہائی مفلسی کا عالم ہے۔ دیواروں پر دھوئیں کی  کلونچ ہے۔ ایک کونے میں لیلیٰ چولھے میں گیلی لکڑیاں سلگانے کی ناکام کوشش کر رہی ہے۔ بار بار پھونک مارنے سے اس کا زرد مرجھایا ہوا چہرہ  تمتما اٹھتا ہے۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔ جھونپڑا دھوئیں سے بھر رہا ہے۔ تیسری چوتھی دستک پر لیلیٰ چولھے سے اٹھ کر بائیں وینگ پرجا کر دروازہ کھولتی ہے۔)

مجنوں :لیلیٰ!اے لیلیٰ!اری کمبخت لیلیٰ!! کدھر مر گئی؟دروازہ کھول۔ کب سے کھڑا دروازے پر چلا رہا ہوں۔

لیلیٰ آئی مجنوں۔ آئی!

(دروازہ کھلتا ہے۔)

لیلیٰ:کیا بات ہے؟اتنے زور سے دروازہ پیٹ رہے ہو۔ اگر کہیں دروازہ ٹوٹ جاتا تو؟۔۔۔

مجنوں :تو نیا آ جاتا۔

لیلیٰ:(نقل کر کے) نیا آ جاتا۔۔۔ کہاں سے آ جاتا؟شادی ہوئے اتنے سال ہونے کو آئے ایک چاندی کا چھلا تولا کے دیا نہیں۔

مجنوں :محبت کو سونے  اور چاندی میں نہیں تولا کرتے میری جان!(کھانستا ہے) توبہ توبہ  کتنا دھواں ہو رہا ہے۔

لیلیٰ:جنگل میں گیلی لکڑیاں ہیں۔ دھواں نہ دیں گی تو کیا آگ برسائیں گی۔ تم سے تو اتنا نہ ہوا کہ مہینے میں ایک بوری کوئیلے ہی کی لا دیتے۔

مجنوں :لیلیٰ !لیلیٰ!میں آج بھی تمہارے لئے اپنی جان دے سکتا ہوں !

لیلیٰ:جان دے سکتے ہو لیکن  کوئیلے کی ایک بوری نہیں دے سکتے۔

مجنوں :کہو تو میں تمہارے لئے آسمان سے تارے توڑ لاؤں؟

لیلیٰ:لیکن چار گز لٹھا نہیں لا سکتے۔ دیکھتے نہیں ہو میری قمیص کا کیا حال ہو رہا ہے !

مجنوں :اماں کہاں ہیں؟

لیلیٰ:اونٹ کو چرانے لے گئی ہیں۔ بس تمہیں تو ہر وقت اپنی اماں کی فکر پڑی رہتی ہے۔ جب باہر سے آؤ گے پوچھو گے۔ اماں کہاں ہیں؟ باہر جاؤ گے میری امی! اچھی امی!تمہاری امی نہ ہوئیں میری جان کا روگ ہو گئیں۔ امی بڑھیا ہو گئیں لیکن کھانے میں دس جوانوں کو بھی مات کرتی ہیں۔ پرات کو ہاتھ لگائے تو روٹیاں غائب کر دے۔ ہانڈی کو ہاتھ لگائے تو سالن کی صفائی۔ جانے اس کا پیٹ ہے کہ شمعون  کا اصطبل۔ جتنا گھاس دانہ، چارہ  ڈالو سب ختم ہو جاتا ہے۔

مجنوں :میری اماں کو گالی نہ دوجی۔ میں تم سے ہزار بار کہہ چکا ہوں کہ میں تمہاری سب باتیں گوارا کر سکتا ہوں۔لیکن اپنی اماں کے لئے گالی نہیں سن سکتا۔نہیں سن سکتا(اور اونچی  آواز سے) نہیں سن سکتا۔سنتی ہو؟

لیلیٰ:سنتی ہوں۔ کوئی بہری نہیں ہوں۔ ہاں اگر اس جھونپڑی میں چند سال تمہارے ساتھ رہ گئی تو شاید بہری بھی ہو جاؤں۔ ہائے کیسی بری گھڑی تھی جب۔۔۔ جب۔۔۔ میں تمہاری میٹھی میٹھی محبت کی باتوں میں آ گئی  اور تمہارے ساتھ جنگل میں چلی آئی۔

(سسکی لے کر روتی ہے۔)

مجنوں :لیلیٰ!لیلیٰ! میری جان، مجھے معاف کر دو۔ میں ذرا غصے میں تھا۔ دن بھر کا تھکا ہارا چلا آ رہا تھا۔ یہاں آ کر تم سے کچھ کڑوی باتیں سننے کو ملیں۔ منہ کا  مزہ  اور بگڑ گیا۔ جان من!کیا کروں میرا دل خود نہیں چاہتا کہ اپنی نازوں سے پالی، شاہی محلوں میں رہنے والی لیلیٰ کو اس خانہ بدوشوں کی سی زندگی بسر کرنے پر مجبور کروں لیکن کیا کروں کہیں نوکری نہیں ملتی۔

لیلیٰ:آج Employment Exchange   کے دفتر میں نہیں گئے تھے؟

مجنوں :گیا تھا۔

لیلیٰ:پھر کیا ہوا؟

مجنوں :وہاں بے کار لوگوں  کا بہت بڑا کیؤ لگا تھا۔ کہیں دو گھنٹے کے بعد میری باری آئی۔

(مجنوں اپنے مکالمے کے دوران میں اسٹیج کے مرکزی پردے کی طرف ہٹتا ہے۔ مرکزی پردے کو ہاتھ لگاتے ہی وہ پردہ اوپر اٹھ جاتا ہے۔ جھونپڑے والے سیٹ کی روشنی گل ہو جاتی ہے  اور اندر والا سیٹ روشن ہو جاتا ہے۔ لیکن اس کی روشنی چھن چھن  کر سامنے والے جھونپڑے کے سیٹ پر پڑتی رہتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اسٹیج کا اگلا حصہ اندھیرے میں ہے  اور اس اندھیرے میں لیلیٰ کھڑی گزشتہ منظر دیکھ رہی ہے۔ پیچھے حصے کے اسٹیج میں ایک Employment Exchange   کا دفتر دکھائی دیتا ہے۔ یہاں بے کار نوجوانوں کا کیؤ کے کچھ نوجوان آگے کی میزوں پر اپنے کاغذات مکمل کرا رہے ہیں۔ مجنوں بیچ والی میز کے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے اس میز کا کلرک اس سے سوال کرتا ہے۔)

کلرک:تمہارا نام؟

مجنوں :مجنوں !

کلرک:باپ کا نام؟

مجنوں :خلدون۔

کلرک:کہاں تک تعلیم پائی ہے؟

مجنوں :جی؟

کلرک:میرا مطلب ہے کہ میٹرک پاس ہو کربی اے ، ایم اے ، کون سی ڈگری لے چکے؟

مجنوں :فی الحال تو ایک پٹھان نے میرے خلاف ایک ڈگری لے لی ہے عدالت سے۔ ایک سال سے جھونپڑے کا کرایہ نہیں دیا تھا۔

کلرک:تو گویا تم پڑھے لکھے بالکل نہیں ہو؟

مجنوں :جی نہیں۔ البتہ مادر زاد شاعر ضرور ہوں۔

کلرک:شاعری کا نوکری سے کیا تعلق؟اچھا  اور کیا کام کرتے ہو؟

مجنوں :جی عشق کرتا ہوں  اور صحرا صحرا ریت چھانتا ہوں  اور جب اس سے جی اکتا جائے تو گریبان  پھاڑ کر لیلیٰ لیلیٰ چلانے لگتا ہوں :

(گاتے ہوئے)

لیلیٰ لیلیٰ پکاروں میں بن میں

میری لیلیٰ بسی میرے من میں

(مجنوں گاتے گاتے چپ ہو جاتا ہے۔)

کلرک:میرے خیال سے مجنوں صاحب اگر آپ نوکری ڈھونڈنے سے پہلے کسی ڈاکٹر  سے رجوع کریں تو  اچھا رہے گا۔ آپ کی دماغی حالت مجھے بہت مخدوش دکھائی دیتی ہے۔Next۔

(جب کلرکNext   کہتا ہے تو مجنوں مایوسی سے ہٹتا ہے  اور اسٹیج کے پہلے حصے یعنی اپنے جھونپڑے کے سیٹ کی طرف چلتا ہے۔ پچھلے سیٹ کی روشنی گل ہو جاتی ہے  اور جب مجنوں اپنے جھونپڑے کے سیٹ میں داخل ہوتا ہے تو مرکزی پردہ پھر گر کر اسٹیج کے پچھلے حصے کو غائب کر دیتا ہے۔ مجنوں پریشان حال لیلیٰ کی طرف دیکھتا ہے جو آہستہ آہستہ سسکیاں لے رہی ہے۔)

مجنوں :تو یہ ہے آج کل کا زمانہ۔ یہ لوگ سچی محبت کرنے والے کو بے کار سمجھتے ہیں۔ حالانکہ یہ بہت بڑا کام ہے۔ آپ ذرا چوکے  اور محبوب غائب۔

لیلیٰ:لیکن اب تو تم پہلی سی محبت بھی مجھ سے نہیں کرتے۔

مجنوں :مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ!

لیلیٰ:کیوں؟

مجنوں :دیکھو اب تم خود وہ پہلی سی نہیں رہیں بہت دبلی ہو گئی ہو۔

لیلیٰ:میں دبلی ہو گئی ہوں  اور تم موٹے ہو گئے ہو۔ ذرا آئینے میں اپنی صورت تو دیکھو کلے پر کلا چڑھتا آ رہا ہے۔تمہاری صورت دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ دہی آوارہ مزاج، آشفتہ سر مجنوں ہے۔ جو صحرا صحرا جنگل جنگل اپنی محبوبہ کی محبت میں بے چین پھر تا تھا۔ ارے کچھ تو شرم کرو۔ میں تمہارے لئے گھر سے بھاگی۔ جنگل میں آ کے رہی۔ آج بھی تمہارے لئے فاقے کرتی ہوں۔ کھانا پکاتی ہوں۔ چولھے میں سر جھونکتی ہوں۔ جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لاتی ہوں۔ تار تار چیتھڑوں میں رہتی ہوں۔ اپنا پیٹ کاٹ کر تمہیں کھلاتی ہوں۔ لیکن ایک تم ہو کہ میرے لئے نخلستان کی کھجوریں بھی نہیں لاتے۔

مجنوں :کیا کروں لیلیٰ کھجوریں مہنگی ہو گئی ہیں۔

مجنوں کی ماں :اری او مردار چڑیل کیا  ٹھسکے سے کھڑی میرے بچے سے باتیں کر رہی ہے۔ اری دیکھتی نہیں چولھے پر ہانڈی ابلی جا رہی ہے۔

لیلیٰ:(آہستہ سے) تمہاری امی آ گئیں (زور سے) معاف کرو اماں ، باتوں ، باتوں میں دھیان نہ رہا۔

مجنوں کی ماں :باتوں باتوں میں دھیان نہ رہا۔ مردار چین سے پڑی کھاتی ہے۔

لیلیٰ:بہت لاڈ لڈاتی ہونا اماں مجھے۔ بہت سا زیور دیا تھا تم نے شادی میں مجھے۔۔۔ !

ماں :اری گھر سے بھاگنے والیوں کو بھی کوئی زیور دیتا ہے۔ وہ تو خود جہیز گھر سے لاتی ہیں۔ اتنے امیر باپ کی بیٹی  اور  دو کپڑوں میں اونٹ پر سوار ہو کر آ گئی۔ میں تو کہہ رہی تھی مجنوں سے ، برا پھنس رہا ہے۔ محبت میں دولت نہیں ملتی  اور  جہاں دولت نہ ہو وہاں آخر میں دلندری کے سوا کچھ نہیں ملتا۔

لیلیٰ:اچھا تو میں دلندر ہوں؟

ماں :میرا مطلب۔۔۔

لیلیٰ:پھر کہہ تو سہی۔ نک کٹی۔ ندیدی۔ چڑیل!

مجنوں :میری اماں کو گالی نہ دو۔۔۔

لیلیٰ:کیوں نہ دوں۔ کیا ملا ہے مجھے تمہارے گھر آ کے؟طعنے ، فاقے ، روزے ، دھکے ، مکے ، گالی گلوج!یہی تمہاری سچی محبت تھی۔۔۔؟ مجنوں کے بچے؟کیا کھا کے بھینس کی طرح پھیل گیا ہے  اور میں تمہاری خدمت کرتی کرتی سوکھ کر کانٹا ہوتی جا رہی ہوں۔ کیا میری خدمت کا یہی صلہ ہے؟لاؤ میرا اونٹ کس دو۔ اس پر کجاوا  اور  محمل میں ابھی اپنے میکے جاتی ہوں۔

ماں :جا جا!میکے کی دھمکی نہ دے۔ میرے لڑکے کے لئے ایک نہیں ہزار بیویاں ہیں۔

لیلیٰ:بکواس نہ کر!

ماں :تو بکواس نہ کر!

لیلیٰ:(چانٹا مار کر) مردار!

ماں :(جواب میں چانٹا مار کر) بھٹیل!

لیلیٰ:بللی!

ماں :بد قدمی!

(لیلیٰ  اور مجنوں کی ماں میں بڑی زوردار لڑائی ہوتی ہے۔ اس لڑائی کے دوران میں مجنوں کبھی اپنی ماں سے ، کبھی اپنی لیلیٰ سے پٹ جاتے ہیں ، آہستہ آہستہ پردہ گرتا ہے۔)

 

 

 

دوسرا منظر

 

(جب دوسرے منظر پر پردہ اٹھتا ہے تو پہلے منظر کا راوی وکیل کے لباس میں اپنے دفتر میں بیٹھا ہوا نظر آتا ہے۔ یہ ایک خوش حال وکیل کا کمرہ نہیں ہے۔ زمانے کی ناقدری کے ستائے ہوئے غریب وکیل کا کمرہ معلوم ہوتا ہے۔ فرنیچر سے ، کتابوں کی جلدوں سے ، کمرے کی دیواروں سے  اور خود اس کے اپنے لباس سے اس ادھیڑ عمر کے وکیل کی غربت نمایاں ہو جاتی ہے۔

وکیل ہاتھ میں ایک کتاب لئے پڑھ رہا ہے۔ پردہ اٹھنے کے چند ثانیوں کے بعد تماشائیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے۔)

 

راوی:آہ!کیا یہی ہے انجام وفا؟کیا یہی وہ لیلیٰ تھی جس کی شرمیلی نگاہوں  اور  لجائی ہوئی اداؤں نے مجنوں کو پاگل بنا دیا تھا  اور اسے دشت پیمائی کے لئے مجبور کر دیا تھا۔ کیا یہی وہ مجنوں تھا جو لیلیٰ کی قسم نہیں کھاتا تھا۔ جو جنگل کے درختوں سے ، صحرا کی چٹانوں  اور  ریت کے بگولوں سے لیلیٰ کا پتہ پوچھتا تھا۔ عقل حیران تھی یقین کرنے کو جی نہیں چاہتا تھا۔ لیکن آدمی آنکھوں دیکھی بات پر کیسے یقین نہ کرے۔ پھر بھی میں نے یہ سوچ کر اپنے ذہن کو تسلی دے دی کہ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے۔ برے حالات میں بعض آدمی برے بن جاتے ہیں یعنی جب آٹا مہنگا ہوتا ہے تو عشق سستا ہو جاتا ہے۔ بلکہ بالکل بے قدر ہو جاتا ہے کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے۔ چلو کیا ہوا اگر لیلیٰ مجنوں ایک دوسرے سے نباہ نہ سکے۔۔۔  ابھی محبت جوان ہے ، عشق زندہ  اور  پائندہ ہے۔ دنیا میں ایک اکیلا، واحد جذبہ ہے۔ جو دوسرے حالات کے ساتھ نہیں بدلتا۔ بلکہ ایک، چٹان کی طرح، روشنی کے مینار کی طرح مشعل ہدایت بن کر کھڑا رہتا ہے۔ کیا ہوا اگر لیلیٰ مجنوں کمزور  اور بودے نکلے۔ ابھی دنیا میں شیریں فرہاد سستی پنوں ، ہیر رانجھا  اور  رومیو جولیٹ کی لازوال محبت موجود ہے۔۔۔ یہی سوچ کر میں نے اپنے دل کو تسلی دے لی۔ لیکن پھر ایک دن کیا ہوا، میں اپنے دفتر میں بیٹھا کام کر رہا تھا کہ چپراسی نے ایک کارڈ لا کے دیا۔ کارڈ پر لکھا تھا۔

’’رومیو  مانٹگیو(Romeo Mantague)

راوی:(چپراسی سے) رومیو مانٹگیو کون ہے؟

چپراسی:صاحب کوئی یورپین معلوم ہوتا ہے۔ ان کے ساتھ میں ایک میم بھی ہے۔

راوی:اچھا تو انہیں اندر بلاؤ۔

رومیو:Good Morning

جولیٹ:Good Morning

راوی:گڈ مارننگ تشریف رکھئے۔

رومیو:معاف کیجئے گا۔ بغیر اپوائنٹ منٹ کے آپ کے پاس چلے آئے لیکن معاملہ ہی کچھ ایسا ہے۔ آپ وکیل ہیں۔ اس لئے آپ سے مشورہ کرنا بہت ضروری ہے۔

راوی:فرمائیے !

رومیو:جی وہ قصہ یہ ہے۔ مگر ٹھہرئیے۔ پہلے میں اپنا تعارف کرا دوں۔ میرا نام رومیو مانٹگیو ہے۔ یہ میری بیوی جولیٹ ہے۔

جولیٹ:(امریکن لہجے میں) ہائی یا گاگا!

رومیو:وہ ہمارا قصہ تو آپ نے سنا ہو گا؟

راوی:جی کچھ یاد تو آتا ہے۔

رومیو:ہم دونوں اٹلی کے ایک شہر دی اینا میں رہتے ہیں۔ میرا باپ  مانٹگیو قبیلے کا سردار تھا  اور میری بیوی جولیٹ  کا باپ کیہولٹ قبیلے کا سردار تھا۔

راوی:اچھا اچھا یاد آیا۔ آپ دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے لیکن آپ کے ماں باپ۔۔۔ میرا مطلب ہے آپ دونوں کے قبیلے والے ایک دوسرے کے جانی دشمن تھے۔

رومیو:ابھی تک ہیں صاحب ابھی تک ہیں۔ محبت مر جاتی ہے لیکن ان کمبخت انسانوں کی دشمنی کبھی نہیں مرتی۔

راوی:آپ بہت مایوس معلوم ہوتے ہیں؟

رومیو:جی زندگی نے بہت تلخ تجربے سکھائے ہیں۔

راوی:یہ تو صحیح ہے لیکن جہاں تک مجھے یاد آتا ہے۔ آپ دونوں کی خفیہ شادی ہوئی تھی لیکن اس میں جولیٹ یعنی آپ کی بیوی کے ماں باپ ان کی شادی نہیں کر رہے تھے  اور پھر کچھ ایسا کہ ایک قبرستان میں جب آپ جو لیٹ سے ملنے گئے وہاں آپ نے جولیٹ کی لاش دیکھی  اور  زہر کھا لیا  اور پھر شاید جولیٹ مری نہیں تھی۔ میرا مطلب ہے آپ جب اٹھیں تو آپ نے رومیو کو مردہ پایا  اور خنجر سینے میں چبھو کے مر گئیں۔

جولیٹ:(طنزاً) جی۔ جی۔جی۔ لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ اس زہر کھانے کے بعد یہ رومیو صاحب بچ گئے۔ کیوں کہ انھوں نے جس ڈاکٹر  سے زہر لیا تھا۔ اس کمبخت نے اس زہر میں اس کا توڑ بھی شامل کر دیا تھا۔

راوی:بہت خوب!

رومیو:(طنزاً) جی ہاں۔  اور ان کے ساتھ یعنی میری بیوی کے ساتھ بھی یہی حادثہ ہوا کہ جب یہ میری محبت میں مرنے جا رہی تھیں تو خنجر ان کے سینے میں اترنے کے بجائے ذرا پسلیوں کی طرف چلا گیا  اور یہ بچ گئیں۔

جولیٹ:بس اسی غلطی کا خمیازہ اب تک بھگت رہی ہوں۔

راوی:میڈم یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں۔ آپ لوگوں کی محبت تو لا زوال ہے۔ ولیم شیکسپیئر ایسے عظیم ڈرامہ نگار نے آپ کی محبت کو زندۂ جاوید کر دیا ہے دنیا آپ کی محبت پر سر دھنتی ہے  اور  روتی ہے۔

جولیٹ:جیسے میں آج تک رو رہی ہوں۔

راوی:کیا بات کیا ہے میڈم؟

جولیٹ:جی بات صرف اتنی ہے کہ میں عاجز آ گئی ہوں  اور ان سے طلاق لینا چاہتی ہوں۔

راوی:طلاق؟ اور رومیو سے؟میڈم یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں؟دنیا کیا کہے گی۔ خود ہمارا ولیم شیکسپیئر کیا کہے گا۔ اس بے چارے نے تو ایک پورا ڈرامہ آپ کی مدح سرائی میں۔۔۔

جولیٹ:چولھے میں جائے دنیا  اور  بھاڑ میں جائے شیکسپیئر!میں تو رومیو سے طلاق لے کر ہی چھوڑ دوں گی۔

راوی:لیکن اس میں رومیو کا قصور کیا ہے ، کیوں صاحب؟

(رومیو سے مخاطب ہو کر)

رومیو:اجی صاحب!میرا قصور صرف اتنا ہے کہ میں نے اس پھوہڑ عورت کے لئے اپنا وطن چھوڑ دیا  اور ہندوستان میں آ کر سر چھپایا تا کہ ہم اپنے قبیلے والوں کی دشمنی سے محفوظ رہیں۔

راوی:یہاں آپ کیا کام کرتے ہیں؟

رومیو:جی میں چمڑے کا سوداگر ہوں۔ خدا کے فضل و کرم سے میرا کاروبار اچھا چل رہا ہے۔ چمڑا کالا ہو، گورا ہو، میں سب بیچتا ہوں  اور  اپنا نفع نکالتا ہوں۔ میرے پاس ایک کا رہے۔ ایک کوٹھی ہے۔ نوکر چاکر اللہ کا دیا بہت کچھ موجود ہے۔

راوی:پھر میڈم آپ ان سے طلاق کیوں لینا چاہتی ہیں؟

جولیٹ:میں۔۔۔ میں۔۔۔ دیکھئے وکیل صاحب یہ ہر روز گھر پر رات کے ڈیڑھ بجے ، دو بجے شراب کے نشے میں دھت آتے ہیں  اور آتے ہی بستر پر جوتوں سمیت دراز ہو جاتے ہیں۔ میں کسی ایسے آدمی کی بیوی بن کے نہیں رہ سکتی جو جوتوں سمیت بستر پرسوتا ہو اور رات کے بارہ گھنٹوں میں دس گھنٹے خراٹے لیتا ہو۔

راوی:لیکن آپ تو ان سے شدید محبت کرتی ہیں نا؟مجھے یاد ہے جب آپ نے رومیو کو اس قبرستان میں مردہ پایا تھا، تو کہا تھا۔۔۔

جولیٹ:میں سناتی ہوں۔۔۔

What’s Hear? A cup closed in my True love’s Hand? Poison I see Hath been his timeless end o churl, drunk all, and left no friendly drop to help me after?

Iwill kiss thy lips …….

جولیٹ:یہی کہا تھا نا؟

راوی:جی کچھ ایسا ہی میں نے شیکسپیئر کے ڈرامے میں پڑھا تھا۔

جولیٹ:شیکسپیئر بے چارہ کیا جانے۔ اسے کبھی رومیو کے خراٹوں سے واسطہ نہیں پڑا تھا۔ اجی صاحب میں کہتی ہوں جب یہ خراٹے لیتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے دو ہزار گھوڑے ایک ساتھ ہنہنا رہے ہوں۔ میری محبت اگر  کوہ ہمالیہ جتنی مضبوط ہوتی تو بھی ان خراٹوں کے سامنے کبھی نہ ٹھہر سکتی تھی۔ لیکن میں تو گوشت پوست کی بنی ہوئی ایک معمولی عورت ہوں۔

راوی:میرے خیال میں اگر  آپ کی محبت میں صرف ان کے خراٹے ہی حائل ہیں تو ان  کا تو بہت آسانی سے علاج ہو سکتا ہے۔ میرے خیال میں اگر  آپ اپنے شوہر کی غذا میں تھوڑی سی اصلاح۔۔۔

رومیو:ہاہاہا۔ کیا کہا آپ نے غذا میں اصلاح؟میری ڈارلنگ جولیٹ کو وکیل صاحب، فرصت ہی کہاں ہے کہ اس غریب کی غذا پر دھیان دیں یہ تو دن بھر لپ اسٹک  اور پوڈر اور پھر پک نک  اور پھر شام کو کبھی اس کلب میں کبھی اس کلب میں کبھی اس پارٹی میں کبھی اس پارٹی میں کبھی اس شغل میں کبھی اس شغل میں  اور جانے کیا  کیا کچھ۔ اب میں کیا بتاؤں بس میں تو ابلے ہوئے آلو اور گوبھی کھا کر سور بن رہا ہوں۔

(ڈکارتا ہے)

جولیٹ:دیکھا آپ نے اس جانور کی ساری خصلتیں ان میں پائی جاتی ہیں۔ ایک ڈکارنے پرہی کیا موقوف ہے۔ ان کی محبت بھی اسی طرح کی ہو گئی ہے۔ آج کل مجھے چھوڑ کراس حرافہ روزالین کے چکر میں گرفتار ہیں جسے چھوڑ کر انھوں نے مجھ سے شادی کی تھی  اور  اب مجھ سے شادی کر کے اب پھر اسی کے پیچھے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔

راوی:رومیو اور بے وفا!چچ چچ، مسٹر رومیو! شیکسپیئر کیا کہے گا؟

رومیو:اب کچھ بھی کہے صاحب!لیکن حق بات تو یہ ہے کہ روزالین  کو چھوڑ کر میں نے سخت غلطی کی۔ یہ ٹھیک ہے کہ وہ جولیٹ  کی طرح حسین نہیں ہے لیکن صاحب!دنیا میں صرف حسن ہی پر گزر نہیں ہو سکتی  اور سچ بات تو یہ ہے مسٹر کہ  روزالین میرا بہت خیال رکھتی ہے  اور کھانے تو اتنے اچھے پکاتی ہے کہ کیا کہوں۔ کسی روز آپ آئیے نا؟

جولیٹ:ہاں ہاں لے جاؤ ان کو بھی ساری دنیا کو دکھا لو کہ تم کتنے شریف ہو۔

رومیو: اور اپنی شرافت کی بھی تو بات کرو۔ میں عورت سمجھ کے چپ ہوں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ تم سر پر چڑھتی جاؤ۔ میں اندھا نہیں ہوں کہ تمہاری حرکات پر نظر نہیں رکھ سکتا۔ مجھے معلوم ہے کہ تم کہاں کہاں جاتی ہو اور کن کن بہانوں سے ارل پیرس سے ملتی ہو۔

جولیٹ:ہاں ملتی ہوں !ملتی ہوں !اب تم اس طرح کہو گے تومیں بھی ساری دنیا کے سامنے چیخ چیخ  کر کہوں گی، میں ارل پیرس سے ملتی ہوں۔ وہ مجھے بہت پسند ہے۔ میں اس سے محبت کرتی ہوں۔

راوی:ارل پیرس سے؟لیکن میڈم وہ تو عمر میں آپ سے زیادہ۔۔۔ شیکسپیئر نے تو یہی لکھا ہے۔

جولیٹ:اجی عمر زیادہ ہے تو کیا ہوا۔ عقل بھی زیادہ ہے۔ زندگی کا تجربہ بھی زیادہ ہے اس کے پاس  اور بڑی بات یہ ہے وکیل صاحب کہ وہ آدمی میرے جذبات کا انتہا سے زیادہ احترام کرتا ہے۔

رومیو:یوں کیوں نہیں کہتی کہ وہ ایک بالکل چغد ہے۔

جولیٹ:چغد تم ہو۔

رومیو:شٹ اپ۔

جولیٹ:یو شٹ اپ۔

رومیو:عدالت میں چلو۔

جولیٹ:چلو ابھی چلو۔

رومیو: اور طلاق؟

جولیٹ:طلاق وکیل صاحب؟

رومیو:طلاق؟

راوی:لیکن صاحب ولیم شیکسپیئر کیا کہے گا؟

جولیٹ:میں کچھ نہیں سنوں گی۔ مجھے فوراً طلاق چاہئے۔

رومیو:میں کچھ نہیں سنوں گا۔ مجھے فوراً طلاق چاہئے۔

 

 

 

تیسرا منظر

 

(وہی کمرہ جو دوسرے منظر میں تھا۔ لیکن اس وقت کمرے میں اندھیرا ہے  اور ہمارا راوی اسی طرح پہلے منظر کی جگہ پر دائیں ونگ کے قریب ایک تپائی پر ایک لیمپ شیڈ کے سامنے جھکا ہوا ہے  اور ایک کتاب پڑھ رہا ہے۔ پردہ اٹھنے کے بعد کتاب سے نظریں اٹھا کر تماشائیوں پر گاڑ دیتا ہے  اور کہتا ہے۔)

 

راوی:میں نے ان کا مقدمہ نہیں لیا۔ اس لئے میں نہیں کہہ سکتا کہ آگے چل کے رومیو جولیٹ  کا کیا ہوا۔ کیا انھوں نے طلاق لے لی؟یا پھر وہ دونوں ایک ہو گئے  اور محبت کی وادیوں میں کھو گئے۔ میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ لیکن یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ ان کی تلخ کلامی نے ایک گہرا اثر میرے ذہن پر چھوڑا  اور میں اس واقعے کے کئی دن بعد تک  مضطرب  اور  پریشان سا رہا۔ کیونکہ اس واقعے نے میرے دل کے بہت سے رومانی سپنے  اور  سہارے توڑ دئیے تھے۔

ایک روز میں اپنے کمرے میں بیٹھا بالکونی کے قریب کتاب پڑھ رہا تھا ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی۔ جھکڑ بھی چل رہا تھا کبھی کبھی بجلی بھی کوند جاتی تھی۔ بہت خوشگوار سماں تھا۔ میں اپنے خیالوں میں کھویا ہوا تھا۔ یکایک بجلی کا ایک روز کا کوندا لپکا  اور میرے دروازے کے پٹ زور سے کھل گئے  اور میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک نوجوان مرد اور ایک نوجوان عورت دونوں پانی میں بھیگے ہوئے میرے کمرے میں داخل ہوئے۔ میں بالکونی میں اندھیرے میں تھا اس لئے ان کی نظر مجھ پرنہ پڑی۔

(راوی کی لیمپ شیڈ کی بتی گل ہو جاتی ہے۔ کمرے میں اندھیرا  اور  بڑھ جاتا ہے۔)

رانجھا:(ہنس کر)ہیرئیے !شکر کہ اس کمرے کا دروازہ کھلا تھا۔ نہیں تو بارش  اور  جھکڑ سے بھیگ جاتے۔

ہیر:یہ کمرہ کس کا ہے رانجھا؟

رانجھا:کسی کا بھی ہو ہیرئیے !اپنے کو کیا لینا۔ ذرا پل کی پل رک جائیں گے۔ بارش تھم جائے گی تو چلے جائیں گے۔

ہیر:کہاں؟

رانجھا:وہیں باہر فٹ پاتھ پر۔

ہیر:رانجھے !میں اسی لئے تم سے کہتی تھی۔ اپنا گاؤں چھوڑ کر بمبئی مت چلو۔

رانجھا:میرے گاؤں میں سب میرے دشمن تھے۔ کوئی مجھے نہیں چاہتا تھا تیرے سوا۔ وہاں اگر  ہم رہتے تو ہماری محبت کبھی زندہ نہیں رہ سکتی تھی۔

ہیر:لیکن وہاں دو وقت روٹی تو ملتی تھی  اور لسی بھر اچھلنا  اور مکھن سے بھرا ہوا  کٹورہ  اور سرسوں کا ساگ  اور کھلی ہوئی فضا  اور تم کبھی جو گی بن کر میرے پاس آ جاتے تھے ، تو میرے دل کے ہر کونے میں رنگین تتلیاں سی اڑنے لگتی تھیں۔

رانجھا: اور آج کل چوہے دوڑ رہے ہیں پیٹ میں (ہنس کر) سچ مچ ہیرئیے لسی پئے تو ایک عرصہ ہو گیا۔ سرسوں کا ساگ کھائے ہوئے کئی سال ہو گئے  اور مکھن یعنی مسکہ تو یہاں کھایا نہیں جاتا۔ صرف خوشامد میں لگایا جاتا ہے۔

ہیر:سچ مچ تم بہت دبلے ہو گئے ہو۔

رانجھا:یاد ہے جب ہم پہلے دن اس شہر میں آئے تھے  اور لسی پینے کے لئے ایک حلوائی کی دوکان پر آئے تھے  اور اسی سے لسی بنانے کو کہا تھا۔ اس نے پوچھا تھا لسی کتنے دہی کی بناؤں۔ میں نے کہا تھا، اس برتن میں جتنا دہی ہے سب کی بنا دو۔

ہیر: اور وہ حلوائی یہ سنتے ہی غش کھا کے گر گیا تھا۔

(دونوں ہنستے ہیں۔)

ہیر:یہاں اندھیرا بہت ہے رانجھا۔

رانجھا:دیکھتا ہوں۔ بتی بجلی کہیں ہو گی(سوچ کر) لو روشنی بھی ہو گئی۔

ہیر:یہ بجلی بھی خوب چیز ہے رانجھا۔ بٹن دباؤ  اور  روشنی ہو جاتی ہے۔ ہمارے زمانے میں بجلی نہیں تھی۔

رانجھا:لیکن ہمارے زمانے میں بٹن دبانے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی تھی۔ ہم ایک لمحے میں تیرے رخ روشن سے اپنے دل میں اجالا کر لیتے تھے  اور  پھر اس روشنی پر کوئی ٹیکس بھی تو نہیں دینا پڑتا۔

ہیر:رانجھا مجھے بہت بھوک لگی ہے۔

رانجھا:تین دن سے میں نے بھی کچھ نہیں کھایا ہیرئیے !تین دن سے ایسی لگاتار بارش ہو رہی ہے کہ کسی کام پربھی نہیں جا سکتا۔ اس بارش کی وجہ سے بلڈنگ باندھنے کا کام بھی بند ہے۔ پہلے اینٹیں ڈھونے کی مزدوری تو مل جاتی تھی۔ اب وہ بھی بند ہے۔

ہیر:غریب آدمی بارش میں کیا کرتے ہوں گے؟

رانجھا:ہماری طرح بارش میں بھیگتے ہوں گے  اور بھوکے رہتے ہوں گے۔

ہیر:بڑی مصیبت ہے۔

رانجھا:مصیبت توہے لیکن ہمت کرو تو بڑی سے بڑی مصیبت بھی کٹ جاتی ہے۔ ارے ہاں۔۔۔ میں تو تم سے پوچھنا بھول ہی گیا۔ تم اس فلم کمپنی میں گئی تھیں؟

ہیر:کسی فلم کمپنی میں؟

رانجھا:وہ جہاں ہیر رانجھے کا فلم بن رہا ہے۔ یعنی اپنی محبت کی کہانی کا۔

ہیر:ہاں گئی تھی۔

رانجھا:ڈائرکٹر سے ملی تھیں؟

ہیر:ہاں ملی تھی۔

رانجھا:پھر۔۔۔؟

ہیر:وہ تو بہت ہی عجیب آدمی معلوم ہوتا ہے۔ وہاں تو سب کے سب بہت عجیب سے آدمی بیٹھے تھے میں اندر داخل ہوئی تو مجھے ایسے گھورنے لگے جیسے گوالا بھوری بھینس کو دیکھ کر گھورتا ہے۔ ڈائرکٹر نے مجھ سے پوچھا۔۔۔

(یکایک ہیر گھوم کر اپنے بیچ کے مرکزی پردے کی طرف چلنے لگتی ہے پردے کے قریب پہنچتے ہی پردہ اٹھ جاتا ہے  اور وکیل کے سیٹ پر اندھیرا چھا جاتا ہے  اور پچھلے سیٹ پر روشنی ہو جاتی ہے۔ یہ ایک فلم کمپنی کا دفتر ہے۔ جہاں چھ سات آدمی ٹوٹے ہوئے پیالوں میں چائے پی رہے ہیں۔ چائے پلانے والا نوکر صورت سے بالکل دلیپ کمار معلوم ہوتا ہے۔ بیچ کی میز پر ایک فلم ڈائریکٹر بیٹھا ہے۔ اس نے آوارہ ٹائپ کی پتلون  اور گہرے زرد رنگ کی ٹی شرٹ پہن رکھی ہے صورت شکل سے وہ فلم ڈائریکٹر کم  اور دارا سنگھ پہلوان کا اسسٹنٹ زیادہ معلوم ہوتا ہے۔ پردہ اٹھنے کے بعد وہ چائے پلانے والے نوکر سے کہتا ہے۔)

فلم ڈائریکٹر:(صوفے پر بیٹھتے ہوئے ایک گنجے آدمی سے)صاحب کو ایک سنگل چائے مارو۔(دوسرے آدمی سے مخاطب ہو کر) ہاں بھئی کٹر رکر آج فنانسر کے پاس بھی جانا ہے۔ سالے نے آج ڈیڑھ لاکھ دینے کا وعدہ تو کیا ہے ، ایک چونی ہے تمہاری جیب ہیں؟اس چائے والے کودے دو۔

(کٹر رکر ایک سکہ نکال کر چائے والے کو دیتا ہے ، جو سکے کی طرف دیکھ کے کہتا ہے۔)

چائے والا دلیپ کمار:مگر یہ چونی تو کھوٹی ہے۔

فلم ڈائریکٹر:کوئی بات نہیں۔ کل لے جانا  اور  ہاں بھئی شرما جی! وہ نیگٹیو کا بندوبست کیا؟

شرما جی:کل ہو جائے گا۔ بچو بھائی سیٹھ اگر بھوندو بھائی سے کہہ دیں گے تو کام ہو جائے گا۔

فلم ڈائریکٹر:مگر بچو بھائی کیوں کہیں گے؟

شرما جی:ان کا راستہ بھی ڈھونڈ لیا ہے۔ وہ ہے نا اپنی سائیڈ ہیروئن مس مدھر بالا۔

(سب لوگ زور سے قہقہہ لگاتے ہیں۔ اب فلم ڈائریکٹر میز کے سامنے کھڑی ہیر کی طرف مخاطب ہوتا ہے۔)

فلم ڈائریکٹر:کیا کام ہے تم کو؟

ہیر:پٹاخہ فلم کمپنی کا دفتر یہی ہے؟

ڈائریکٹر:ہاں ہاں یہی ہے۔ پھر؟

ہیر:سنا ہے آپ ہیر رانجھا فلم بنا رہے ہیں؟

ڈائریکٹر:ہاں ہاں بنا رہے ہیں۔ پھر؟

ہیر:میں اس فلم میں کام کرنے آئی ہوں۔

ڈائریکٹر:تم کو کیا کام آتا ہے؟کبھی کسی فلم میں کام کیا ہے پھر؟

ہیر:نہیں۔

ڈائریکٹر:تم کو ناچنا آتا ہے؟

ہیر:نہیں۔ لیکن ناچنے کی کیا ضرورت ہے۔ ہیر تو نہیں ناچتی تھی۔

ڈائریکٹر:تم کو کیسے معلوم ہے کہ نہیں ناچتی تھی۔ ہماری فلم میں تو وہ ناچتی ہے ، کتھک، بھارت ناٹیم، منی پوری سب ناچتی ہے۔ رمبھا سمبھا بھی ناچتی ہے۔

ہیر:اس زمانے میں رمبھا  سمبھا نہیں تھا۔

ڈائریکٹر:تم کو کیا معلوم ہے۔ ہمارا فلم  رائٹر کیا گدھا ہے پھر؟اس نے دس کتاب دیکھ کے اس کا کہانی لکھا ہے۔ اچھا یہ بات چھوڑو۔ ہم تم سے مغز پچی نہیں کرے گا، تم کو اس فلم میں کام کرنے کا ہے۔ ہم تم کو اس فلم میں ہیر کی ماں کا پارٹ دے گا۔بولو منظور ہے؟

ہیر:ہیر کی  ماں کا؟مگر میں۔۔۔ میں ہیر  کی ماں کا پارٹ کیسے کر سکتی ہوں؟

ڈائریکٹر:کیوں؟

ہیر:کیونکہ میں خود ہیر ہوں۔

ڈائریکٹر:ہیر ہاہاہا!!او مگن بھائی، کٹر رکر، سدھا کر، بلی موریا، محمودخان ارے دیکھو خود ہیر ہماری فلم میں کام کرنے کو آئی ہے۔ ارے اس کی صورت دیکھو، شکل دیکھو، رنگ روپ دیکھو، ارے یہ ہیر معلوم ہوتی ہے۔ ہیر۔۔۔ !

(قہقہہ)

ہیر:ہاں ڈائریکٹر صاحب!سچ مچ میں ہیر ہوں ہیر۔ وارث شاہ کی ہیر! پانچ دریاؤں کی سرزمین کی ہیر۔ محبت  اور حسن کے لازوال گیتوں کی حسین ترین تعبیر!

(فلم ڈائریکٹر اور اس کے ساتھیوں کے طنزیہ قہقہے بڑھتے جاتے ہیں۔ ہیر کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔ وہ ڈبڈبائی ہوئی آنکھوں سے واپس آ جاتی ہے  اور پہلے سیٹ کی طرف بڑھتی ہے۔ پیچھے کی روشنیاں گل ہو جاتی ہیں۔ غریب ہیر اپنے پہلے سیٹ میں واپس آتی ہے۔ مرکزی پردہ گر جاتا ہے  اور اب وہ اپنی آنسوؤں بھری آنکھوں سے چپ چاپ رانجھے کی طرف دیکھ رہی ہے۔)

رانجھا:(آبدیدہ ہو کر) وہ لوگ تمہارے حسن کو نہیں دیکھ سکتے تھے۔ ہیر کے حسن کو کوئی رانجھا ہی دیکھ سکتا ہے۔

(ہیر سسکیاں لیتی ہے۔ رانجھا اس کے قریب آ جاتا ہے۔)

رانجھا:وہ لوگ محبت کرنے والے نہیں ہیں۔ محبت کو ایک  فیتے کی طرح لپیٹ کر بازار میں بیچنے والے ہیں۔ بس اپنے آنسو پونچھ ڈال۔

ہیر:سچ کہتی ہوں رانجھیا، مجھے زور کی بھوک لگی ہے۔ اب صبر نہیں ہو سکتا۔

رانجھا:دیکھتا ہوں۔ شاید یہاں کچھ مل جائے۔ لیکن یہاں ملے گا کیا۔ یہاں تو سب کاغذ ہی  کاغذ ہیں۔ کوئی بھوکا وکیل معلوم ہوتا ہے۔

(کھڑ بڑ کی آواز)

رانجھا:مل گیا، مل گیا!آخر کچھ کھانے کومل گیا!

ہیر:کیا ہے؟

رانجھا:ڈبل روٹی جسے بمبئی کے لوگ پاؤ کہتے ہیں۔ حالانکہ وزن میں ایک چھٹانک بھی نہیں ہے۔

ہیر:مجھے دو!

رانجھا:ہیرئیے  ذرا ٹھہر!

ہیر:جلدی سے دو جلدی۔

(روٹی کی طرف ہاتھ بڑھاتی ہے۔)

رانجھا:ذرا ٹھہر ہیرئیے ، ذرا سوچنے دے ہیرئیے ، یہ تو جانتی ہے۔ ہم یہاں صرف بارش سے پناہ لینے کے لئے آئے تھے۔

ہیر:ہاں لیکن یہ ڈبل روٹی؟

(پھر روٹی کی طرف بے قرار ہو کے بڑھتی ہے۔ رانجھا پیچھے ہٹ جاتا ہے۔)

رانجھا:ذرا ٹھہر۔  اور یہ  ہمارا گھر نہیں ہے۔ تو جانتی ہے۔

ہیر:لیکن یہ روٹی جلدی سے دے دے۔ میں تین دن سے بھوکی ہوں۔

رانجھا:لیکن یہ چوری ہو گی ہیرئیے۔ اگر ہم یہ ڈبل روٹی کھائیں گے تو یہ چوری ہو گی۔

ہیر:لیکن مجھے بھوک لگی ہے رانجھا!

رانجھا:تجھے میری محبت کی قسم ہیرئیے !یہ روٹی نہ کھا۔

ہیر:اب میں کوئی قسم نہیں کھاؤں گی رانجھیا!میں تو صرف روٹی کھاؤں گی جلدی سے یہ روٹی دے دے۔

(ہیر آگے بڑھ کے جھپٹ کر روٹی چھین لیتی ہے۔)

رانجھا:نہیں نہیں ہیرئیے۔ دیکھو وہ سامنے دیوار پر ہم دونوں کی تصویر لگی ہے ، کوئی بھلا آدمی معلوم ہوتا ہے۔ آج بھی بھوک، افلاس، بیکاری  اور  خود غرضی کے زمانے میں اس نے ہماری تصویر لگا رکھی ہے۔ دیکھ یہ آدمی کتنی عزت کرتا ہے ہماری محبت کی۔ ہم اس کے گھر میں چوری نہیں کریں گے۔ لا مجھے روٹی واپس کر دے۔ میں اسے اسی دراز میں رکھے دیتا ہوں جہاں سے اسے اٹھایا ہے۔

(ہیر کبھی روٹی کبھی دیوار سے لگی ہوئی تصویر کی طرف دیکھتی ہے۔ آخر میں روٹی واپس کر دیتی ہے۔ رانجھا میز کی دراز کھول کراس میں روٹی رکھ دیتا ہے۔ ہیر سسکیاں لیتی ہے۔)

رانجھا:نہ رو ہیرئیے۔ میری اپنی ہیرئیے !یہ بارش تھم جائے گی۔ پھر مجھے کہیں نہ کہیں کام مل جائے گا۔ پھر ہم دونوں پیٹ بھرکے کھانا کھائیں گے۔

(بارش  اور طوفان کی آواز باہر سے آتی ہے۔ کھڑکیاں بجنے لگتی ہیں)

ہیر:یہ بارش کبھی نہیں تھمے گی۔ یہ طوفان کبھی ختم نہ ہو گا۔ ہم سدا بھوکے رہیں گے۔

رانجھا:نہیں !ایک دن یہ بارش تھم جائے گی۔ ایک دن یہ طوفان ختم ہو جائے گا ایک دن یہ بادل چھٹ جائیں گے  اور سورج کی روشنی ساری زمین کے سارے آنسو چوس لے گی۔ اس دن کوئی بھوکا نہ ہو گا۔ کوئی کسی کی ڈبل روٹی نہ چرائے گا۔ اس دن سارے جذبے  اور ساری آرزوئیں  اور  ساری محبتیں مکمل ہو جائیں گی۔

(رانجھا بہت پیار سے ہیر کو اپنے بازوؤں کا سہارا دیتا ہے۔ دونوں دروازے کی طرف چلنے لگتے ہیں۔ اندھیرے میں اجالا آنے لگتا ہے۔ روشنی کی ایک کرن بالکنی سے بڑھتے ہوئے دیوار پر لگی ہوئی ہیر رانجھے کی تصویر کے گرد ایک منور ہالہ بنا دیتی ہے !)

(پردہ)

***

ماخذ:’’کتاب کا کفن‘‘، بیسویں صدی بکڈپو، دریا گنج،  ، نئی دہلی

٭٭٭

تشکر: مصنف اور ڈاکٹر شرف الدین ساحل جن کے توسط سے وہ ان پیج فائل فراہم ہوئی جس سے یہ کتاب ترتیب دی گئی۔

ان پیج سے تبدیلی اور تدوین: اعجاز عبید