FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 
جونک
اور دوسرے ڈرامے

 

اوپندر ناتھ اشکؔ

مشمولہ ’اردو ڈرامے‘ اور ’اردو پلے‘ مرتبہ پروفیسر سید معز الدین احمد فاروق

 

پڑوسن کا کوٹ

 
مقام :دلی کی ایک ’’پاش‘‘ کالونی میں شری سی بی کے بنگلے کا ڈرائنگ روم۔ جس میں کھانے کی میز کرسیاں، سائڈ بورڈ بھی ہے، ریفریجریٹر بھی رکھا ہے۔ کوچ، سنٹر ٹیبل اور کوچوں کے ساتھ چھوٹی تپائی وغیرہ۔ دو دروازے ہیں۔ ایک برآمدے میں کھلتا ہے۔ دوسرا کچن میں جاتا ہے۔
وقت :۱۹۷۸ء۔ سردیوں کی ایک شام۔

کردار

نیلما :مرکزی وزارت عوامی فلاح و بہبود کے جوائنٹ سکریٹری شری سی بی کھیڑا کی بیوی۔ عمر ۳۵ سال، نہ زیادہ موٹی نہ پتلی دبلی، درمیانہ قد، گورا رنگ، کٹے ہوئے بال، بتیسی ذرا سی باہر کو نکلی ہوئی۔ مسکراتی ہے تو خوبصورت لگتی ہے۔ غصے میں چہرہ بناتے ہوئے چلاتی ہے تو چہرے پر دانت ہی دانت ابھر آتے ہیں اور اسے خوفناک بنا دیتے ہیں۔
مسز گنجو :عمر ۳۵ سال۔ لیکن ۴۰ کی لگتی ہے۔ تیکھے ناک نقشے والی۔ گوری چٹی، گورے بدن کی کشمیری خاتون۔
مسز حنیف :گنجو کی سہیلی۔ گول مٹول۔ ہلکے سانولے رنگ کی۔
مسز سلوجا :نیلما کی سہیلی۔ اوپر سے اعلیٰ اور جدید طبقے سے متعلق خاتون کا خول چڑھائے ہوئے، لیکن باطن میں پرانے خیالات کی عورت۔
پاروتی :اسی عمر کی گوری چٹی خادمہ۔
سی۔ بی :شری چندر بدن کھیڑا، نیلما کے آئی اے ایس شوہر۔ عمر ۴۵ سال۔ دوست احباب اور بیوی صرف سی بی کہتے ہیں۔ فربہی کی طرف مائل بدن کے دنیا دار اور ملنسار آدمی۔ چہرے پر کچھ ایسا جذبہ جو امیر باپ کی بیٹیوں کے زن مرید شوہروں کے چہروں پر آ جاتا ہے۔
رام ادھار :چپراسی۔ عمر چالیس سال۔
خانساماں :جیسا کہ سخت گیر مالکن کے خانساماں کو سنجیدہ ہونا چاہئے۔
منظر

(پردہ اٹھتے وقت مسز نیلما کھیڑا جو اپنی سہیلیوں میں نیلو یا نیلی کے نام سے پکاری جاتی ہے، ڈرائنگ روم میں بیٹھی سوئیٹر بن رہی ہے۔ جبھی چپراسی ایک ہاتھ میں ٹفن کیریر اور دوسرے میں اپنے صاحب کا ہینڈ بیگ لئے ہوئے داخل ہوتا ہے۔ )

نیلما :سی بی نہیں آئے رام ادھار۔
رام ادھار :آئن ہن میم صاحیب ملا رستوا ماں اتر گئن۔
نیلما :راستے میں !کہاں ؟
رام ادھار :پی سی صاحب آپن بنگلا کے گیٹ پر کھڑا رہن۔ انہی صاحب کے بلائی لیہن۔ ایہی سے اوہی اتر گئن۔ آؤر ہم کا ڈرائبر کے سنگ پٹھائے دہن۔
نیلما :آنے کے بارے میں۔ ۔ ۔
رام ادھار :ہم سے تو کچھؤ ناہیں کہن میم صاحب!
نیلما : اور میں یہاں چائے کا پانی چڑھائے بیٹھی ہوں۔ (بنا ہوا سوئیٹر کوچ پر پٹک کر اٹھ کھڑی ہوتی ہے۔ ) سی بی یہی خامی ہے۔ اتنے بڑے افسر ہیں اور ٹائم سنس ذرا نہیں۔
(بے چینی سے کمرے میں گھومنے لگتی ہے۔ اسی وقت ٹیلی فون کی گھنٹی بجتی ہے۔ )
نیلما :دیکھو رام ادھار کون ہے۔
رام ادھار : (ٹیلیفون کا ریسیور اٹھاتے ہوئے) ڈبل سک نین نین نین جی میں رام ادھار بول رہا ہوں۔ ۔ ۔ جی ہیں۔ ۔ ۔ جی دیتا ہوں۔ (نیلما کی طرف دیکھ کر) صاحیب کے فون ہے میم صاحب۔
(نیلما تنتناتی ہوئی دوہی قدموں میں بڑھ کر چپراسی سے ریسیور جھٹک لیتی ہے۔ رام ادھار ٹفن اور ہینڈ بیگ کچن اور سٹڈی میں رکھنے کے لئے چلا جاتا ہے۔ )
نیلما : (غصے سے) سی بی تم وہیں راستے میں رک گئے اور میں چائے کا پانی چڑھائے تمہاری راہ تک رہی ہوں۔ یہ کیا وتیرہ ہے تمہارا کہ دفتر سے گھر آتے آتے راستے ہی میں دوستوں کے ہاں جا بیٹھے ہو۔ چائے ناشتے کے بعد شام کو غپ نہیں ہو سکتی؟۔ ۔ ۔ ہاں ہاں سن رہی ہوں۔ ۔ ۔ اچھا۔ ۔ ۔ (نرمی سے اکساتے ہوئے) تم تو ذرا دھیرا سے کہنا کہ خود ہی نہیں، بلکہ اپنی پڑوسنوں سے بھی کہہ دیں کہ وہ کلب کے سالانہ چناؤ میں ہمارا ساتھ دیں۔ ۔ ۔ ہاں ہاں کیا حرج ہے۔ گرین پارک کی لیڈیز کیوں ممبر نہیں بن سکتیں ؟تم پی سی سے کہنا کہ دھیرا اگر ہماری مدد کرے گی تومیں اپنی جگہ سکریٹری شپ کے لئے اس کے نام پر زور دوں گی۔ ا بار شہلا کا جادو توڑ دینا ہے۔ ۔ ۔ ہاں !۔ ۔ ۔ تم انھیں سمجھانا کہ شہلا صدر ہے اور نیلما سکریٹری دونوں میں پٹتی نہیں اور کلب کا کام سفر (Suffer) کرتا ہے نیلما صدر ہو جائے اور دھیرا سکریٹری تو کام مزے میں چلے گا۔ ۔ ۔ وہ تو ہئی ہے۔ وہ تو ہئی ہے۔ تم ذرا اپنی طرف سے دونوں کو اچھی طرح سے سمجھا دینا۔ ۔ ۔ پی سی ان لوگوں کے بھی تو دوست ہیں۔ شہلا کے لئے ان کے دل میں وہ کچھ ذرا نازک سا۔ ۔ ۔ (ہنستی ہے)۔ ۔ ۔ اسی لئے، سمجھتے ہونا۔ ۔ ۔ ہاں ہاں !۔ ۔ ۔ (ذرا ہنس کر) میں نے تمہیں کتنی بار کہا ہے کہ مجھے محترمہ وحترمہ مت کہا کرو۔ ۔ ۔ دوستوں میں ایسا دکھاتے ہو کہ جیسے میرے بغیر۔ ۔ ۔ کیا گھر جلدی آنے کا ارادہ نہیں ہے جو اتنا مکھن لگا رہے ہو۔ ۔ ۔ ہاں ہاں چائے تو تم وہیں پیو گے۔ ۔ ۔ میں جانتی تھی۔ ۔ ۔ مسز گنجو اور بیگم حنیف کا انتظار کر رہی تھی۔ ۔ ۔ نہیں۔ ۔ ۔ اب اکیلے ہی پی لوں گی!
(چپراسی ٹفن کیریر اور ہینڈ بیگ رکھ آتا ہے اور چپ چاپ دروازے کی طرف جانے لگتا ہے کہ فون پر بات کرتے کرتے نیلما ٹوکتی ہے۔ ۔ ۔ )
نیلما :ٹھہرو!تم سے ذرا بات کرنی ہے۔ (فون میں) نہیں۔ ۔ ۔ نہیں۔ ۔ ۔ تم سے نہیں کہا سی بی میں چپراسی سے کہہ رہی تھی۔ ۔ ۔ اچھا تواب تم وہیں نہ بیٹھ رہنا۔ ۔ ۔ بات کر کے جلدی آنا۔ ذرا پاراشرز کے ہاں ہو آئیں گے۔ ۔ ۔ ہاں کیا حرج ہے۔ ۔ ۔ موہن بھائی کو میری یاد دلانا اور ساتھ لانا۔ (فون رکھ دیتی ہے۔ ۔ ۔ رام ادھار سے) خانساماں سے کہو۔ صاحب نہیں آئیں گے۔ چھوٹی کیتلی میں دو پیالی چائے میرے لئے بنا لائے !
(چپراسی چلا جاتا ہے۔ نیلما ریفریجریٹر سے ایک سیب نکالتی ہے اور سائڈ بورڈ سے پلیٹ لے کراس پر رکھ دیتی ہے۔ سائڈ بورڈ کے خانے سے بسکٹوں کا ڈبہ نکال کراس میں سے کچھ بسکٹ دوسری پلیٹ میں رکھتی ہے اور دونوں پلیٹیں کھانے کی میز پر سجاتی ہے۔ پھر ایک کرسی پر بیٹھ جاتی ہے۔
اسی وقت آگے آگے رام ادھار اور پیچھے پیچھے خانساماں چائے کی ٹرے لے آتا ہے۔ خالی ٹرے میز پر رکھتا ہے۔ چپراسی ادب سے ایک طرف کھڑا ہو جاتا ہے۔ خانساماں ایک پیالی میں چائے انڈیلتا ہے۔ )
نیلما : (غصے بھرے لہجے میں)یہ شکر دانی پوری کی پوری بھر لائے ہو۔ تم سے کہا نہیں رام ادھار نے کہ صرف میں چائے پیوں گی۔
خانساماں :وہ جی۔ ۔ ۔ جی وہ صاحب آنے والے تھے۔
نیلما :ہاں صاب آنے والے تھے، لیکن جب نہیں آئے اور صرف مجھے ہی چائے پینا تھی تو شکر واپس نہیں رکھی جا سکتی۔ ہزار بار تم سے کہا ہے کہ جتنے چمچے درکار ہوں، اتنے ہی گن کر شکر دانی میں ڈالا کرو۔ خانساماں کے ہاتھوں کی چابکدستی اڑانے میں ہی نہیں، بچانے میں بھی ہوتی ہے۔
(چائے کی پیالی اپنے سامنے کرتی ہے۔ خانساماں واپس کچن کی طرف چلا جاتا ہے۔ نیلما پلیٹ سے ایک بسکٹ اٹھا کر کترتی ہے اور چائے کی چسکی لیتی ہے۔ پھر چپراسی کی طرف مڑتی ہے۔ )
نیلما :تم نے پاروتی سے باتیں کیں رام ادھار؟
رام ادھار :کرے رہن میم صاحب!
نیلما :تو؟
رام ادھار :او بات ای ہے میم صاحیب کہ سیلا میم صاحیب اوکے چھوڑے کا تیار ناہیں ہیں۔
نیلما : (قہر و غضب سے)چھوڑنے کو تیار نہیں۔ کیا شہلا نے خرید لیا ہے اسے۔ جب وہ کام کرنا نہیں چاہے گی تو وہ اسے کیسے زبردستی رکھ لے گی۔
رام ادھار :بات ای ہے میم صاحیب کہ پاربتی کے اوہاں نوکری کرت بہت دن ہوئے گئن۔ ٹکو بابا او سے بہت ملے ہن۔ اوہو کے من ماں ممتا ہے۔ آپ جیسے سمجھائے رہن وئیسے ہم پاربتی کے سیلا میم صاحیب سے بات کرئے بدلے کہے رہے۔
نیلما : (بے خبری سے)پھر؟
رام ادھار :او او کے پندرہ روپیہ کی ترکی دے دہن۔
نیلما : (قدرے جھٹکا لگتا ہے) ایک ساتھ۔
رام ادھار :جی میم صاحیب!
نیلما :لیکن پاروتی نے مجھے کیوں نہ بتایا۔ میں دھیرا سے کہہ کر دو روپے زیادہ ہی دلا دیتی۔
رام ادھار :جی میم صاحیب! او دھیر میم صاحیب کے ایہاں ناہیں چائے چاہت۔
نیلما :کیوں ؟
رام ادھار :پتہ نہیں اوسے کے کہہ دہس کہ دھیرا میم صاحیب بہت کھٹ کھٹ کرت ہیں۔
نیلما : (چمک کر) آیا نے کہا ہو گا۔ وہ آیا ایک ہی بد ذات ہے۔ اسی کی جگہ تو وہ پاروتی کو رکھنا چاہتی ہیں۔
رام ادھار :بات ای ہے میم صاحیب، پاربتی عورت جات ہے، او کرے من ماں بھئے بیٹھ گاہے۔ سیلا میم صاحیب آپ کے سامنے تو رہت ہن۔ روج آپ سے ملت ہن۔ آپ ہی کا ہے ناہیں کہہ دیتن کہ اوکے چھوڑے دیں۔
نیلما :تم تو احمق ہو۔ میں شہلا سے کیسے کہہ سکتی ہوں۔
(چائے کی پیالی وہیں چھوڑ کر کمرے میں چکر لگاتی ہے۔ پھر چپراسی کے سامنے آ کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ )
نیلما :دیکھو رام ادھار۔ ۔ ۔ ایک بات سمجھ لو۔ ۔ ۔ اگر تمہاری بیوی شہلا کے گھر کام کرنا نہیں چھوڑتی تو تم نہ صاحب کے دفتر میں کام کر سکتے ہو نہ ہمارے بنگلے میں رہ سکتے ہو۔
(رام ادھار چپ رہتا ہے۔ )
نیلما :تم فاقے کرتے تھے، جب میں نے تمہیں اپنے کالج میں چپراسی رکھوا دیا۔ یاد ہے ؟
(رام ادھار کوئی جواب نہیں دیتا۔ )
نیلما :جب تین سال بعد صاحب سے میری شادی ہو گئی اور ہم دلی سے جانے لگے تومیں نے تمہیں ساتھ چلنے کے لئے کہا تھا یاد ہے ؟
(رام ادھار صرف خاموش رہتا ہے۔ )
نیلما :لیکن تم پاربتی کے چکر میں پڑے تھے، نہیں گئے اور نہ ڈپٹی کلکٹروں اور کلکٹروں کے چپراسی مالکوں سے زیادہ مزے کرتے ہیں۔ لیکن میری بات تمہاری سمجھ میں نہیں آئی۔ تم یہاں رہ گئے، بیمار پڑ گئے۔ گاؤں چلے گئے۔ چھے مہینے وہاں پڑے رہے۔ پیچھے تمہاری نوکری چھوٹ گئی۔ واپس دلی آئے۔ پھر تمہاری کوئی پکی نوکری نہیں لگی۔ جب تین سال پہلے صاحب جوائنٹ سکریٹری ہو کر یہاں آئے اور تم ایک دن اچانک کناٹ پیلیس میں سامنے پڑ گئے تومیں تمہیں پہچان تک نہ سکی۔ اتنی بری حالت تھی تمہاری۔ تمہیں نے پہچانا یاد ہے ؟۔ ۔ ۔ ارے بولتا کیوں نہیں۔
(رام ادھار بدستور خاموش رہتا ہے۔ )
نیلما :لگتا تھا جیسے ہفتوں سے تمہارے منھ میں دانا نہیں گیا۔ میں نے صاحب سے کہہ کر تمہیں ان کے دفتر چپراسی بھرتی کرا دیا۔ کوئی پوسٹ نہیں تھی۔ پھر بھی عارضی طور پر تم چپراسی بنے چلے آ رہے ہو۔ وہاں نہال چند کے کتنی گندی غلیظ اندھیری اور رسیلی کوٹھری میں تم لوگ رہتے تھے۔ وہاں سے لا کر تمہیں بنگلے میں جگہ دی۔
رام ادھار : (عاجزی آمیز سختی سے)سبتے یاد ہے میم صاحیب۔ ہمؤ آپ کے سیوا ماں کوتوں کسر ناہیں اٹھاوت رہے۔ تنکھا دپتر سے پائت ہے، لیکن سبیرے چارے بجے سے دس بجے راتے تک آپے کا ڈیوٹی وئیت ہے۔ پاربتی سیلا میم صاحیب کے ایہاں پورے مہینہ کی تنکھا پاوت ہے۔ تبھؤ جب آپ کا کام پڑت ہے، دوڑی آوت ہے۔
نیلما :وہ سب ٹھیک ہے، لیکن میں کب سے کہہ رہی ہوں کہ پاروتی کو کسی اور جگہ نوکری کرنے کے لئے کہو۔ دھیرا کے یہاں نہ سہی، دوسرے دس گھروں میں اسے اتنے پر، بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ پر۔ ۔ ۔
رام ادھار : (پیترا بدل کر)ہم تو مناؤت رہت ہیں میم صاحیب کہ بھگوان آپے کا گودی بھرے اور پاربتی آپ کے بچوا کے کھلا وے۔ آپ دس دیئیں یا کچھو نہ دیتیں۔
نیلما :تم باتیں بہت کرنا سیکھ گئے ہو رام ادھار۔ دیکھو اگر پاروتی سامنے کے گھر میں کام چھوڑ دے گی، تو جیسے بھی ہو گا میں تمہاری نوکری پکی کرا دوں گی۔ نہیں چھوڑے گی تو تم لوگ مجھے جانتے ہو۔ ۔ ۔ (باہر کال بل بجتی ہے) دیکھو کون ہے ؟بنا مجھ سے پوچھے مت بول دینا کہ۔ ۔ ۔ (آ کر پھر ڈرائنگ ٹیبل پر بیٹھ جاتی ہے۔ ۔ ۔ زور سے آواز دیتی ہے۔ ) خانساماں !
خانساماں : (کچن سے) جی میم صاب!
نیلما :یہ پیالی ٹھنڈی ہو گئی۔ ایک پیالی اور بناؤ۔
(پیالی کی چائے واش بیسن میں گراتا ہے۔ تھوڑا سا چائے کا پانی ڈال کر کر پیالی گرم کرتا ہے، پھر تازہ چائے ڈالتا ہے۔ رام ادھار باہر کے دروازے سے داخل ہوتا ہے۔ )
رام ادھار :میم صاحب!گنجو میم صاحیب اور بیگم حنیف ہئین۔
نیلما :انھیں ادھر بھیج دو اور تم جاؤ اور پاروتی کو سمجھاؤ۔ (خانساماں سے) چائے کا پانی اور چڑھا دینا۔
(خانساماں چلا جاتا ہے۔ نیلما جلدی جلدی ہاتھ کا بسکٹ ایک ساتھ کھا کر چائے پیتی ہے۔ رام ادھار کے پیچھے پیچھے مسز گنجو اور مسز حنیف آتی ہیں۔ )
نیلما :یہ ساڑھے پانچ بجے شام آئی ہو۔ پورا آدھا گھنٹہ انتظار کر کے اکیلی چائے پینے لگی تھی۔ (رام ادھار کو واپس جاتے دیکھ کر) رام ادھار میری بات یاد رکھنا۔ (مہمانوں سے) آؤ۔ آؤ۔ ادھر ہی آ جاؤ (پلیٹ آگے کر کے) لو، اتنے میں ایک ایک بسکٹ لو۔
(اٹھ کر ریفریجریٹر سے دو سیب اور نکال کر، ایک پلیٹ میں کچھ دال موٹھ دوسری میں نمک پارے اور تیسری میں ریفریجریٹر سے رس گلے نکال کر پلیٹیں اپنی سہیلیوں کے آگے رکھتی ہے۔ )
مسز گنجو :ہم تو عین وقت پر پہنچ جاتے کہ تم سے وعدہ کیا تھا، لیکن سوچا راستے میں ذرا پاراشرز کے یہاں ہوتے چلیں۔
نیلما :میں خود سوچ رہی تھی کہ سی بی آ جائیں تومیں بھی مسز پاراشر کے یہاں ہو آؤں (سرگوشی میں) کچھ اندازہ کیا، ہوا کا رخ کدھر ہے ؟
مسز گنجو :ہم تو دو تین دن سے گھوم رہے ہیں۔ جو سب کا حال ہے وہی مسز پاراشر کا ہے۔
نیلما :کیا مطلب؟
مسز گنجو :مطلب یہی کہ کچھ پتہ نہیں چلتا۔ کہتی سب یہی ہیں کہ آپ جو کہیں گی، ویسے ہی کریں گی، لیکن کسی کی بات چیت اور اشارے کنائے سے ان کے من کا اندازہ نہیں ہوتا۔ چناؤ کے سلسلے میں لوگ بہت چالاک ہو گئے ہیں۔
مسز حنیف :کسی نے جواب میں بھی خیال نہیں کیا تھا کہ ۷۷ میں اندرا ہار جائیں گی اور اس بری طرح ہار جائیں گی۔ رشیدہ کانگریس میں ہے۔ ان دنوں کنویسنگ کرتی تھی۔ اسی سے معلوم ہوا کہ کنویسر جب پہنچتے تو تو لوگ دانت نکال کر سر ہلا دیتے کہ جیسا آپ کہتی ہیں ویسا ہی ہو گا۔ کہ ہم بھی یہی سوچتے ہیں۔ نتیجہ کیا نکلا، یکدم نیچے کا اوپر ہو گیا۔
مسز گنجو :اب بھئی بات یہ ہے کہ وہ لوگ بھی چپ نہیں بیٹھے ہیں۔ سنہا اور شیلا۔
نیلما :شہلا کہو شہلا۔ سنہا کو یہی نام پسند ہے اور تو اور اب شیلا بھی اپنے آپ کو شہلا کہنے لگی ہے۔
مسز حنیف :شہلا یا شیلا؟ لکھتی تو وہ ایس۔ ایچ۔ ای۔ آئی۔ ایل۔ اے ہے۔
نیلما :کوئی شہلا کہتا ہے، کوئی شیلا، کوئی شیلا مگر ہمارے پڑوسی کی بیوی تو اسے ہمیشہ سیلا کہتی ہے۔
(تینوں تکلف سے تھوڑا ہنستی ہیں۔ )
مسز گنجو :میں تو اسے شیلا ہی پکارتی ہوں اور میرے سامنے تو اس نے کبھی یوں بننے کی کوشش نہیں کی۔ بہرحال میں کہہ یہ رہی تھی کہ وہ دونوں پھرکی طرح گھوم رہے ہیں۔
مسز حنیف :اب میاں بیوی کے پاس اپنی اپنی کار ہے تو۔ ۔ ۔ ہماری طرح تو نہیں کہ میاں دفتر سے آئیں تو کار میں جانا نصیب ہو۔
مسز گنجو :سنہا صاحب کی اتنی بڑی فرم ہے۔ چار ہزار ان کی تنخواہ مکان اور کار اور دو نوکر کمپنی کی طرف سے۔ پھر واہی تباہی منافع۔ شیلا کا دل بھی دریا ہے۔ اتنے تحفے تحائف بانٹتی رہتی ہے کہ پچھلے دس برس سے کلب کی ممبر بنی چلی آ رہی ہے۔
نیلما : (مسکراتے ہوئے۔ ذرا طنز سے) اپنا روپیہ کون اڑاتا ہے۔ ہزاروں روپیہ چندے میں اکٹھا ہوتا ہے۔ ہزاروں کی سرکار سے مدد ملتی ہے۔ سماج سیوا بھی ہو جاتی ہے اور بزنس بھی بڑھتا ہے۔ ایسے ہی تو پھرکی کی طرح ان کی کاریں نہیں گھوم رہی ہیں۔
مسز حنیف : (سرگوشی سے) آپ تومسز کھیڑا سال بھر سے کلب کی سکریٹری ہیں۔ دیکھا کچھ ادھر ادھر کرتے شہلا کو؟
نیلما : (ہاتھ چمکا کر) میرے رہتے کچھ ایسا ویسا ہو سکتا ہے کیا؟اسی لئے تو میں شہلا کو ایک آنکھ نہیں بھاتی(جھلا کر اٹھتی ہے) اس خانساماں کمبخت کو کیا ہو گیا ہے۔ ابھی تک چائے نہیں لایا۔
مسز گنجو :ارے نیلو! تم بیکار تکلف کرتی ہو۔ چائے توہم پاراشرز کے۔ ۔ ۔
نیلما :چائے پر جب میں نے بلایا تھا تو وہاں کیسے پی آئیں۔ رکو میں منٹ بھر میں آئی۔
(خانساماں !خانساماں !پکارتی ہوئی کچن کی طرف نکل جاتی ہے۔ )
مسز گنجو : (آنکھوں کی بھویں اوپر اٹھا کر، دھیرے سے) مسز پاراشر کیا کہتی تھیں۔ ۔ ۔
مسز حنیف :یہی کہ کب کا روپیہ خرد برد کرنا چاہتی ہے۔ شہلا نے ساتھ نہیں دیاتو اس کے پیچھے پڑ گئی ہاتھ دھوکر۔ اب اس کا مالک اتنا کماتا ہے۔ بڑے باپ کی بیٹی ہے، اسے کیا ضرورت ہے کلب کا روپیہ ہڑپنے کی۔
مسز گنجو : (سرگوشی سے) دیکھو بانو!تم اپنی طرف سے کچھ نہ کہنا۔ بس ۷۷ کے و وٹروں کی طرح سر ہلا دینا۔ (ہنستی ہے) میں تو اس کے ساتھ پڑھتی تھی۔ یہ سخت کینہ پرور عورت ہے۔ کھیڑا یوں بھی خاصے بدنام آدمی ہیں۔ دلی آنے سے پہلے جہاں تھے وہاں ان پر رشوت کے بڑے الزامات تھے۔ انکوائری تک بیٹھ گئی تھی۔ سرکار نے بال اور پر نوچ کر سنٹر میں بٹھا دیا۔
مسز حنیف :ہاں بھائی اپنی عزت اپنے ہاتھ!بغیر کچھ کئے ہاتھ چلتے یں۔ کرنے پر تو۔ ۔ ۔
مسز گنجو :ارے ہم کچھ کیوں کریں گے۔ باڑھ کے دکھیاروں کے لئے دن رات ایک کر کے روپیہ اکٹھا کیا ہے۔ ہمارے لئے تو کانی کوڑی بھی حرام ہے۔
(آگے آگے نیلما پیچھے پیچھے چائے کی ٹرے لئے خانساماں داخل ہوتا ہے۔ نیلما پیالوں میں چائے ڈالتی ہے۔)
نیلما :چینی گنجو؟
مسز گنجو :میرے پیالے میں چینی نہیں۔
نیلما :سیکرین کی گولی ڈال دوں۔ کھیڑا صاحب کے بلڈ میں ڈاکٹر نے کچھ شک ظاہر کیا تھا سو۔ ۔ ۔
مسز گنجو :نہیں نہیں، اس کا ذائقہ مجھے اچھا نہیں لگتا۔ اب تو بغیر چینی کے پینے کی عادت ہو گئی ہے۔
نیلما : اور آپ بانو؟
مسز حنیف :بس ڈیڑھ چمچ۔
نیلما :تم تو گنجو میٹھا لو گی نہیں۔ یہ نمک پارے اور دال موٹھ لو(دونوں پلیٹ مسز گنجو کے آگے کرتی ہے)تمہارے لئے میں بانو سیب چھیلتی ہوں۔ اتنے میں تم بسکٹ یا رس گلے لو۔
مسز گنجو :ارے تم فکر نہ کرو۔ ہم لے لیں گے۔
(فون کی گھنٹی بجتی ہے۔ )
نیلما : (زور سے چلا کر) خانساماں ذرا فون دیکھو۔
(خانساماں بھاگا بھاگا آتا ہے اور فون اٹھاتا ہے۔ )
خانساماں :ہیلو!جی کھیڑا صاحب کے بنگلے سے بول رہے ہیں۔ ۔ ۔ نہیں صاحب گھر پر نہیں ہیں۔ ۔ ۔ کون صاحب بول رہے ہیں۔ ۔ ۔ ذرا رکئے بتاتے ہیں۔ (ریسیور پر ہاتھ رکھ کر) میم صاحب کوئی آر بی کھیڑا ہیں۔ آپ کو پوچھ رہے ہیں۔
نیلما :کہو وہ نہیں ہیں۔
خانساماں :میم صاحب یہیں تھیں۔ پڑوس کے بنگلے میں چلی گئی ہیں۔ آپ نمبر دے دیجئے۔
(خانساماں فون رکھ دیتا ہے۔ )
نیلما :فون نمبر وہاں پیڈ پر نوٹ کر دو۔
خانساماں :انھوں نے کہا وہ پھر فون کریں گے۔
(واپس چلا جاتا ہے۔ )
نیلما : (سیب چھیل کر پلیٹ مسز حنیف کے سامنے رکھتے ہوئے) دیکھو گنجو! تم سے کوئی پردہ نہیں۔ تم میری کلاس فیلو رہی ہو۔ پھر گنجو صاحب اور کھیڑا صاحب اکٹھے کام کرتے ہیں۔ تم پر میرا حق ہوتا ہے۔
مسز گنجو :کیوں نہیں۔ ۔ ۔ کیوں نہیں۔ !
نیلما :میں یہ جانتی ہو ں کہ شہلا سے آپ لوگوں کی اچھی راہ و رسم ہے۔ لیکن میں یہی کہنا چاہتا ہوں کہ میں بھی آپ سے دور نہیں۔ یوں دوستی کی شرط میں یہ مانتی ہوں کہ دوست آپ کے لئے کچھ کرے۔ اتنے برسوں سے شہلا صدر بنی ہوئی چلی آ رہی ہے، اس نے تمہیں گنجو ایگزیکٹیو میں تو نہیں لیا۔ ۔ ۔
مسز گنجو :میں نے کبھی چاہا بھی نہیں۔
نیلما :تمہارے نہ چاہنے سے کیا ہوتا ہے۔ میں صدر ہو جاؤں تو دیکھوں تم کیسے میری ایگزیکٹیو میں نہیں آتیں بلکہ میں تو تمہارا نام سکریٹری کے طور پر پروپوز کرنے کی سوچتی ہوں۔ کیوں گنجو کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ تم صدارت کے لئے میرے نام کی۔ ۔ ۔
مسز گنجو :بھائی دیکھو تم مجھ سے اپنا نام پروپوز وروپوز، مت کراؤ باقی ہم تمہارے ساتھ ہیں۔
نیلما :آپ بانو!(فون کی گھنٹی بجتی ہے۔ زور سے آواز دیتی ہے)خانساماں !
(خانساماں بھاگا بھاگا آتا ہے۔ فون اٹھاتا ہے۔ )
خانساماں :ہیلو۔ ۔ ۔ جی ہاں۔ ۔ ۔ میں خانساماں بول رہا ہوں۔ ۔ ۔ ابھی دیکھ کر بناتا ہوں۔ کچھ مہمان آئے ہوئے ہیں۔ ۔ ۔ (ریسیور پر ہاتھ رکھ کر) کانتا میم صاب کا فون ہے۔
نیلما :کہدو میم صاحب ابھی پانچ منٹ میں آپ کو فون کریں گی۔
خانساماں :میم صاب، ابھی پانچ منٹ میں آپ کو فون کرتی ہیں۔
(خانساماں ریسیور رکھ دیتا ہے۔ )
مسز گنجو :اچھا تو نیلو ہم چلتے ہیں۔
نیلما :ارے بیٹھو پانچ منٹ۔ ہاں تو بانو صاحبہ۔ ۔ ۔ میں کچھ امید کروں۔
مسز حنیف :ہم تو خادم ہیں۔
نیلما :کلب کی ایگزیکٹیو میں مائنورٹی کمیونٹی کی نمائندگی بہت کم ہے۔ میں صدر بنی تو آپ کو میرے ساتھ ایگزیکٹیو میں کام کرنا ہو گا۔
مسز گنجو :تم بانو کی طرف سے بے فکر رہو۔ یہ دوستوں کی دوست ہیں۔ (اٹھتی ہے۔ مسز حنیف بھی اٹھتی ہیں) اچھا تو نیلو، اب اجازت دو۔
مسزحنیف :یہ کوٹ تو آپ نے مسز کھیڑا بہت شاندار بنوایا ہے۔ کیا ولایتی کپڑا ہے ؟
نیلما :نہیں۔ او سی ایم کا ہے۔ انھوں نے ولایت والوں کی طرز پر لیڈیز کوٹنگ کا یہ ڈیزائن نکالا ہے۔ کھنہ کہتا تھا کہ طرح طرح کی شالیں چل جانے سے کوٹوں کا رواج کم ہو رہا ہے۔ اس لئے انھوں نے ایک ہی تھان منگایا تھا۔ گرمیوں میں پہاڑ پر جاتے ہیں۔ کوٹ کے بغیر کام تھوڑی چلتا ہے۔
مسز حنیف : (چلتے چلتے) کتنے میں بن گیا ہو گا؟
نیلما :یوں تو ڈھائی پونے تین سو میں بن جانا چاہئے۔ لیکن اس کی لائننگ ذرا قیمتی ہے۔ این ایس احمد آباد کی۔ کھنہ کہتا تھا کہ درزی تو اتنی مہنگی لائننگ لگاتے نہیں اور لائننگ کو خرید کر درزی کو دینے کی زحمت کوئی مول لیتا نہیں۔ سو دو تھان انھوں نے اپنے ہی لئے منگائے تھے۔ میرے زور دینے پر کھنہ نے کوٹ کو لائننگ دے دی۔ پچاس زیادہ لگ گئے۔ (کوٹ کے بٹن کھول کر اندر کی لائننگ دکھاتی ہے۔ ) دیکھو نا کتنی شاندار ہے، کتنی ملائم اور پھر رنگ اور ڈیزائن کیسا خوبصورت ہے۔
مسزحنیف : (کوٹ کے کپڑے اور لائننگ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے) جی چاہتا ہے کہ مل جائے تو ایک کوٹ ایسا ہی میں بھی بنوا لوں۔ (اٹھتی ہے۔ نیلما بھی اٹھتی ہے) نہیں نہیں اب آپ بیٹھئے۔
نیلما :ذرا خیال رکھئے گا اور اپنی سہیلیوں سے بھی کہئے گا۔ تم بھی گنجو۔
مسز گنجو :ضرور ضرور!(چلتی ہیں۔ نیلما دروازے تک چھوڑنے جاتی ہے۔ نیلما کو وہیں۔ روک کر) اب تم بیٹھو۔ بائی۔ ۔ ۔ بائی۔ ۔ ۔
(نیلما ہاتھ اٹھا کر بائی کہتی ہے۔ دونوں سہیلیاں چلی جاتی ہیں۔ نیلما دروازہ بند کر کے پلٹتی ہے۔ فون کی گھنٹی پھر بجتی ہے۔ )
خانساماں : (اندر سے آ کر فون اٹھاتا ہے) جی میں خانساماں بول رہا ہوں۔ ۔ ۔ جی ذرا رکئے (ریسیور کے آگے ہاتھ رکھ کر) کانتا میم صاحب کا فون ہے۔
نیلما :بولو، آتی ہیں۔
خانساماں :جی آ رہی ہیں۔
(ریسیور تپائی پر رکھ دیتا ہے۔ کچھ لمحے بعد نیلما ریسیور اٹھاتی ہے۔ خانساماں کچن میں چلا جاتا ہے۔ )
نیلما :میں تمہیں فون کرنے ہی والی تھی کانتا۔ ۔ ۔ ارے نہیں سچ!گنجو اور بانو آ گئی تھیں۔ ۔ ۔ اب کیا بتا سکتی ہوں۔ انھیں کہہ دیا ہے اور انھوں نے وعدہ بھی کر لیا ہے لیکن میں ان پر بینک نہیں کر سکتی۔ بینک تومیں تم پر، دھیرا پر اور دوسری دوستوں پر کرتی ہوں۔ ۔ ۔ ہاں میرے ساتھ پڑھی ہے گنجو۔ ۔ ۔ لیکن شہلا سے بھی اس کا بہت میل جول ہے۔ اب بھئی شہلا اتنی پڑھی لکھی نہیں۔ ۔ ۔ ہاں۔ ۔ ۔ ہاں۔ ۔ ۔ بی اے ہے۔ لیکن بی اے تو آج کل چپراسی بھی ہوتے ہیں۔ یہ ڈی فل اور ڈی لٹ قسم کی چیزیں شہلا کے لئے بہت بڑی توپ ہیں۔ یہ اس کے ہاں جاتی ہیں تو ان کی بڑی خاطر تواضع کرتی ہے۔ خودی عزت اور آبرو کا خیال اور سوفسکیشن تو شہلا میں ہے نہیں۔ ان کے آگے بچھ بچھ جاتی ہے۔ ان کی انا کو بھی تسکین ملتی ہے۔ میرے تو برابر کی ہے گنجو میں تو وہ سب نہیں کر سکتی۔ ۔ ۔ ہاں ہاں وہ توہے۔ ۔ ۔ وہ توہے۔ ۔ ۔ وہ کہہ تو گئی ہے کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ ۔ ۔ نہیں، پروپوز، وہ نہیں کرے گی۔ ۔ ۔ (باہر کے دروازے پر کال بل بجتی ہے) ایک منٹ رکو کانتا باہر کوئی آیا ہے۔ (فون کے آگے ہاتھ رکھ کر خانساماں سے جو کچن سے آ گیا ہے) دیکھو خانساماں کون ہے ؟(خانساماں دروازے کی طرف جاتا ہے) اور سنو کوئی صاحب کو پوچھ رہا ہو تو نام پتہ لے لینا اور چلتا کر دینا۔ کوئی مجھ سے ملنے والا ہو تو ادھر برآمدے میں بٹھانا۔ ۔ ۔ اور دیکھو مجھے بات کرتے ہوئے ڈسٹرب مت کرنا۔ ۔ ۔
خانساماں : (تسلیم کرتے ہوئے سر ہلا کر) جی میم صاب۔
(چلا جاتا ہے۔ )
نیلما : (ریسیور سے ہاتھ ہٹا کر) تومیں کہہ رہی تھی کہ ’’پروپوز‘‘ تو میرا نام تم کو یا دھیرا کو کرنا پڑے گا۔ اب تم دونوں مل کر طے کر لو۔ (قدرے دھیمی آواز میں)دیکھو کانتا۔ ہم کو گٹ تو بنانا ہی پڑے گا۔ جب ملک کی سیاسی پارٹیوں کا، ملک کی سرکار کا کام گٹوں کے بغیر نہیں چلتا تو ہمارا ہی کیسے چلے گا۔ ہم ایک دوسرے کو سپورٹ کریں گے، جبھی کچھ کر سکیں گے۔ میں چاہتی ہوں کہ تم خزانچی بنو۔ ۔ ۔ ارے نہیں کیا۔ ۔ ۔ بینک کے منیجر کی بیوی ہو اور خزانچی بننے سے گھبراتی ہو۔ ہم سارا اکاؤنٹ تمہارے مہروترا صاحب کے بنک میں ٹرانسفر کر دیں گے۔ مانو نہ مانو۔ بناگٹ بنائے۔ بنا ایک جٹ ہوئے کام چلے گا نہیں۔ ۔ ۔ سی بی بتاتے تھے کہ سماجی فلاح و بہبود کے شعبے میں بہت سی ایسی ا سکیمیں ہیں جن سے غریبوں کو راحت پہنچانے کے لئے سرکار روپیہ دیتی ہے۔ ۔ ۔ اب یہ تو صدر اور خزانچی کوہی معلوم ہونا چاہئے کہ کہاں کتنا خرچ ہوا۔ (طنز سے) کون کتنا رکھتا ہے یہ۔ ۔ ۔ (فوراً لہجہ بدل کر) نہیں نہیں میں یہ نہیں کہتی کہ شہلا ایسا کرتی ہے۔ ۔ ۔ لیکن بغیر کسی فائدہ کے وہ یوں ہی تو اس عہدے سے نہیں چمٹی ہوئی۔ ۔ ۔ ہاں۔ ۔ ۔ ہاں۔ ۔ ۔ ہزار دو ہزار اپنے پاس سے بھی خرچ کر دیتی ہو گی۔ ۔ ۔ لیکن یہ تو دیکھو کہ جن غریبوں میں وہ روپیہ بانٹتی ہے ان کے ووٹ کنٹرول کرتی ہے۔ ۔ ۔ اور سیاست میں اس کی بڑی اہمیت ہے۔ ۔ ۔ ہاں ہاں میں نے بھی سنا ہے کہ سنہا صاحب کارپوریشن کے چناؤ میں کھڑے ہونا چاہتے ہیں۔ ۔ ۔ تو بس تم خود ہی سوچ لو۔ ۔ ۔ ہاں ہاں اثر و رسوخ کی بات بھی ہے ہی۔
(خانساماں چپ چاپ کھڑا ہو جاتا ہے کہ نیلما اپنی بات ختم کرے تو وہ اپنی کہے۔ )
نیلما :تومیں تم پر بینک کروں۔ یقین رکھو اگر میں صدر ہوتی ہوں، دھیرا سکریٹری، تم خزانچی اور ایگزیکٹیو میں ہماری اکثریت ہوتی ہے تو مہروترا صاحب کا بھی اس میں یقیناً بہت فائدہ ہو گا۔ ٹھیک ہے تم سوچ لینا میں کل شام چھ بجے تمہاری طرف آؤں گی(ہنستی ہے) سعیدہ بانو! ارے وہ تو مسز گنجو کی ضمیمہ ہے۔ گنجو جو کرے گی وہی بانو کرے گی۔ ۔ ۔ میرے کوٹ کی بڑی تعریف کر رہی تھی اور خود بھی بنوانا چاہتی ہے۔ ۔ ۔ ہاں ہاں۔ ۔ ۔ تم نے بھی کی تھی۔ ۔ ۔ دیکھوں گی اگر کپڑا مل گیا تو تمہارے لئے ایک کوٹ کا ضرور لاؤں گی۔ ۔ ۔ اچھا بائی۔ ۔ ۔ کوئی باہر ملنے کے لئے آیا ہوا ہے۔ او۔ کے۔
(ریسیور رکھ دیتی ہے۔ )
نیلما :کو ن ہے ؟
خانساماں :سلوجا میم صاب ہیں۔
نیلما :سرلا!۔ ۔ ۔ ارے تولے آتے۔
خانساماں :آپ ہی نے کہا تھا کہ آپ سے کوئی ملنے آئے تو۔ ۔ ۔
نیلما اسے ادھر بٹھانے کو تھوڑی کہا تھا۔ مگر ٹھیک ہے ادھر کے برآمدے میں سبھی آ جاتے ہیں اور میں نہیں چاہتی کہ سلوجا کو شہلا کی کوئی دوست یا پڑوسن یہاں دیکھے۔ کوئی آئے تو باہر بٹھانا۔ یہ مت کہنا کہ ادھر بیٹھی ہوں۔ کہنا کہ دیکھ کر بتاتا ہوں۔ پڑوس میں نہ نکل گئی ہوں۔
خانساماں :جی بہتر میم صاب۔
(نیلما باہر جاتی ہے۔ خانساماں دروازے کی چٹخنی چڑھا کر کھانے کی میز صاف کرتا ہے۔ پھلوں اور رس گلوں کی پلیٹیں ریفریجریٹر میں اور نمکین وغیرہ کی طشتریاں سائڈ بورڈ پر ٹکا کر چائے کی پیالی اور ٹی پاٹ وغیرہ ٹرے میں رکھ کچن کو لے جاتا ہے۔ کچھ لمحوں کے بعد کال بل بجتی ہے۔ خانساماں باورچی خانے سے بھاگا آتا ہے اور دروازہ کھولتا ہے۔ جناب چندر بدن کھیڑا جو دوست احباب اور قریبی رشتے داروں اور عزیزوں میں سی بی کے نام مشہور ہیں داخل ہوتے ہیں۔ )
سی بی : (بیوی کو آواز دیتے ہوئے) محترمہ نیلما جی!
خانساماں :میم صاب سلوجا میم صاب کے ساتھ ادھر کے برآمدے میں بیٹھی ہیں۔ بلا لاؤں صاب؟
سی بی :انہیں بیٹھنے دو۔ تم پانی کا ایک گلاس لے آؤ(پیچھے کی طرف مڑ کر) آؤ موہن آؤ۔
(موہن ایک خوش پوش نوجوان۔ سی بی صاحب کے پیچھے داخل ہوتا ہے۔ ٹھیکے دا رہے۔ قومی فلاح و بہبود کے ڈپارٹمنٹ سے ٹھیکے لیتا ہے۔ تاہم سی بی صاحب سے عمر میں دس سال چھوٹا ہے۔ لیکن ان سے خاصا بے تکلف ہے۔ )
سی بی : (موہن سے)محترمہ نیلما جی تو ادھر برآمدے میں اپنی اس چڑیا کی بیگم جیسی سہیلی کے ساتھ بیٹھی ہیں۔ تم آرام سے بیٹھو موہن۔ میں بہت تھک گیا ہوں، ذرا لیٹوں گا۔
موہن : (جو کوچ پر بیٹھ گیا تھا مگر سی بی صاحب کی بات سن کر ذرا سا اٹھتا ہے اور دونوں ہاتھ بڑھا کر کہتا ہے) ہاں ہاں آپ آرام کیجئے۔
(سی بی صاحب لمبے کوچ پر لیٹ جاتے ہیں اور لیٹنے سے پہلے تپائی سے ویکلی اٹھا کر موہن کی طرف پھینکتے ہیں۔ )
سی بی :تم ذرا ویکلی دیکھو۔ خشونت سنگھ کاتو پتا کٹ گیا۔ تازہ سنڈے میں اس کے بیٹے راہل کا بیان چھپا ہے کہ مالکوں نے کیسے ان سیریمونئیلی اس کو چلتا کر دیا اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ ایمرجنسی میں جو آواز بند ہو گئی تھی، اسے آزاد کر دیا گیا ہے اور سنسر شپ ہٹا دی گئی ہے۔
(بغل سے گڈی اٹھا کرسر کے نیچے رکھتے ہیں اور سر کو ذرا سا ٹھیک کر کے آرام سے لمبے کوچ پر دراز ہو جاتے ہیں اور اخبار پڑھنے لگتے ہیں۔ )
موہن :تب تو ایک ورگھیز کو لے کر ہائے توبہ مچی تھی۔ اب تو تین تین ایڈیٹروں کو ہٹا دیا گیا ہے۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ ہندی روزنامے کے جس ایڈیٹر کو عمر کی بنا پر ریٹائر کیا گیا ہے، ایڈیٹر اس سے کئی سال بڑا ہے۔
(سی بی فرمائشی قہقہہ لگاتے ہیں۔ موہن ویکلی کے صفحے پلٹتا ہے۔ خانساماں پانی کا گلاس لے کر آتا ہے تپائی رکھ جاتا ہے۔ اسی وقت نیلما کے تیز تیز چلنے اور چلانے کی آواز آتی ہے۔ دوسرے لمحے دروازہ پٹاخ سے کھلتا ہے۔ پاروتی کا بازو پکڑے چلاتی ہوئی آگے آگے نیلما، پیچھے رام ادھار اور سرلا داخل ہوتے ہیں۔ نیلما پاروتی کو گھسیٹتی ہوئی کمرے کے عین وسط میں آ جاتی ہے۔ ۔ ۔ پاروتی خوبصورت ہے، جس نے بالکل نیلما جیسا کوٹ پہن رکھا ہے۔ پانوں میں اس کے آلتا ہے۔ چاندی کی پازیب اور صاف ستھری سوتی ساڑی پہنے ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس کا سارا وجود اس کے نوکرانی ہونے کی چغلی کھاتا ہے۔ رام ادھار وہاں دروازے کے پاس رک جاتا ہے۔ سرلا بڑھ کر دوسرے سنگل کوچ پر بیٹھ جاتی ہے۔ )
نیلما :تیری جرأت ہوئی کیسے، میرے بنگلے میں رہ کر میرا مقابلہ کرنے کی!
(نوکرانی کا بازو چھوڑ کر کمرے کا چکر لگاتی ہے۔ معاً اس کی نگاہ کوچ پر لیٹے اپنے شوہر پر جاتی ہے جو اچھل کر اٹھ بیٹھتا ہے۔ )
نیلما :اچھا ہوا سی بی تم آ گئے۔ تم ہمیشہ اس پاروتی کی طرف داری کرتے ہو اور مجھ پر الزام لگاتے ہو۔ دیکھو ذرا اس بدتمیز عورت کی حرکت۔
(پھر پاگلوں کی طرح کمرے میں چکر لگاتی ہے۔ )
سی بی :ہوا کیا محترمہ؟
نیلما : (بالکل شوہر کے پاس جا کر جیسے اس کے سر پر سوار ہو کر گرجتے ہوئے) ہوا میرا سر۔ کبھی توسیریس رہ کر بات کیا کرو۔ تمہیں ہر وقت مذاقی سوجھتا ہے۔
سی بی : ( اور بھی گھبراتے ہوئے) کچھ بتاؤ بھی!
موہن :کیا ہوا بھابی؟
نیلما : (ذرا سا مڑ کر دونوں کو سناتے ہوئے) میں کانتا سے بات کر رہی تھی کہ سرلا نے کال بیل بجائی۔ مجھے ڈسٹرب نہ کرنے کے خیال سے خانساماں اسے ادھر کے برآمدے میں لے گیا۔
سی بی : (سرلا کی طرف دیکھتے ہوئے) عجب احمق ہے۔
نیلما : (جیسے سرلا کو صفائی دیتے ہوئے) میں نے ہی کہا تھا کہ وہ مسز پلے آئے تو ادھر کے برآمدے میں بٹھانا۔ یہ سرلا کو ہی ادھر بٹھا آیا۔ فون رکھنے پر جب مجھے پتہ چلا تو میں بھاگی گئی۔ ابھی ٹھیک سے بیٹھی بھی نہ تھی کہ پاروتی سجی بجی رام ادھار کے ساتھ کوٹھری سے نکلی اور میرے سامنے سے ہو کر گیٹ کی طرف۔ ۔ ۔
رام ادھار :باہر جائے کے دوسر کونو رستہ ناہنا میم صاحب۔
نیلما :سوال دوسرے راستے کا نہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس نے یہ کوٹ سلایا کیسے ؟
(پھر کمرے میں گھومنے لگتی ہے۔ )
رام ادھار : (صفائی دیتے ہوئے) میم صاحیب!پاربتی ناہیں۔ ۔ ۔
سی بی :کون سا کوٹ؟
نیلما : (پلٹ کر) تم نے کیا آنکھیں بند کر رکھی ہیں سی بی۔ (پاروتی کے پاس جا کراس کے کوٹ کا دامن کھینچ کر شوہر کو دکھاتے ہوئے) یہ۔ ۔ ۔ یہ۔ ۔ ۔ یہ!دیکھتے نہیں، عین مین میرا والا کپڑا ہے۔ اسے یہ سلانے کی ہمت کیسے ہوئی؟
سی بی :تم نے پیسے دیئے تھے ؟
نیلما : (بے طرح چڑ کر) تمہیں کیا ہو گیا ہے سی بی اس نے اپنے پیسے خرچ کئے ہوں تو بھی کیا اسی کپڑے کا کوٹ اسے سلانا چاہئے، جواس کی مالکن پہنتی ہے۔ ۔ ۔ کیوں سرلا۔ ۔ ۔ موہن؟
سرلا : (جیسے شاستروں میں لکھی ہوئی کوئی صداقت بیان کر رہی ہو) نوکروں کو اپنی اوقات میں رہنا چاہئے۔۔ ۔
نیلما : اور کیا!
موہن :لیکن بھابی۔ ۔ ۔
رام ادھار : (صفائی دیتے ہوئے) میم صاحب پاربتی۔ ۔ ۔
نیلما : (جا کر جیسے ان کو اپنے وجود سے چھاتے ہوئے)میم صاب پاروتی۔ ۔ ۔ میم صاب پاروتی۔ ۔ ۔ میم صاب پاروتی۔ ۔ ۔ کیا!۔ ۔ ۔ تیری یہ اوقات ہے کہ تو اپنی بیوی کو اپنی مالکن جیسا کوٹ پہنچائے۔ اسی کے بنگلے میں رہ کر!۔ ۔ ۔ دن تو سارا اس کا برتن مانجھنے، بچہ کھلاتے، کپڑے دھوتے گزرتا ہے، اور چلی ہے مقابلہ کرنے اپنی مالکن کا۔ (منھ بچکا کر) بانڈی بستیاں شہیتروں سے گل بہیاں۔
سی بی :محترمہ نیلما جی۔ ۔ ۔
موہن : (سمجھانے اور پھسلانے کے انداز میں) بھابی!۔ ۔ ۔
(لیکن نیلما نہیں سنتی، غصے میں کمرے کا چکر لگاتی ہے۔ )
رام ادھار :میم صاحب!اسی خودے ناہی سیائس۔ ۔ ۔
نیلما : (بیچ ہی سے مڑ کر) اس نے نہیں سلایا تو کیا آسمان سے ٹپک پڑا؟
رام ادھار :سیلا میم صاحب سیائے دہن۔
نیلما :کیا کہتے ہو۔ او سی ایم کا کپڑا اور این ایس احمد آباد کی لائننگ۔ ۔ ۔ دو سو روپئے تو کپڑے پر لگ جاتے ہں اور شہلا نے اسے سلا دیا۔
رام ادھار :آپ کھانساماں کو بھیج کے پچھوایٔ لیؤ۔ پچھلا مہینہ جب آپ نوا کوٹ بنوائے رہن۔ ہم کہے رہے کہ ہجواری پران والا پاربتی کے دے دیؤ۔ تب آپ منع کر دہن کہ تینو برس ناہیں بھوا اے کے سیائے۔
پاروتی :ہم سیلا میم صاحیب سے کہا کہ سردی آئے گئی با۔ کونو پران دھران کوٹ دے دیؤ۔ تب سیلا میم صاحیب کہن پران دھران کا، تے پہن تو نوا سلائے دیئی۔ ہم ناہیں چاہت تے پران دھران کوٹ پہن کے ٹکو بابا کے کھلاوت پھرے۔ اور بچہ کے جنم دن پر۔ ۔ ۔
نیلما : (گرج کر) اس نے تین سو کا کوٹ سلا دیا۔
رام ادھار :آپ کھانساماں کا بھیج کے پچھوائی لیؤ۔
نیلما :لیکن جب انھوں نے کپڑا پسند کیا تھا تو تم سے کہا نہیں گیا کہ اس کپڑے کا کوٹ میم صاحب پہنتی ہیں۔ آپ کوئی دوسرا لے دیجئے۔
پاروتی :اون کپڑے دکھائے ناہیں میم صاحب۔ درجی کے بلائی کے ناپ لے لیہن۔ اور کوٹ بن کے آئی تو پہرائی دہن۔
نیلما :تو جاؤ، اسے ابھی جا کر شہلا کو واپس کر کے آؤ۔
موہن :بھابی! اس میں اس بے چاری کا کیا قصور ہے ؟
نیلما :قصور۔ ۔ ۔ اس کاکیوں نہیں ہے ؟
سی بی :محترمہ نیلما جی! آپ زیادتی کرتی ہیں۔
نیلما :تم چپ رہو سی پی۔ ۔ ۔ جو بات تم نہیں سمجھتے اس میں ٹانگ مت اڑاؤ۔
موہن :لیکن بھابی! یہ کوٹ واپس دینے جائے گا تو اس میں شہلا کی بے عزتی نہیں ہو گی۔
نیلما :یہی تومیں چاہتی ہوں۔
سی بی :لیکن۔ ۔ ۔
نیلما : (غصے سے) تم یہ نہیں سمجھتے کہ پاروتی یہ کوٹ پہنے گی تومیں کیسے پہن سکتی ہوں۔ تم ہی نے اسے اتنی لفٹ دے رکھی ہے کہ آج یہ میرے مقابلے پرآ کھڑی ہوئی ہے۔ اسے میرے بنگلے میں رہنا ہے تو اسے کوٹ ابھی اسی وقت جا کر واپس کرنا ہو گا۔
پاروتی :ہم تو میم صاحب کہے رہے سیلا میم صاحیب سے کہ ہم گریب متئی ہئی سرکار، برتن بھانڈا کرت ہے، اتنا مہنگا کوٹ ناہیں پہر سکت۔ میم صاحیب بولیں :نوکر مالک میں کونو پھرک ناہیں۔ کل تور تین لاکھ کی لاٹری نکل آوے توکاتے برھیا کوٹ نہ سلوائے لیبے۔ تے محنت کرت ہے۔ کونوکھیرات ناہیں پاوتے۔ ٹکو بابا کے ساتھ جاوا کرتوالے ہی ہی کوٹ پہرا کر۔ ہم لاکھ کہامیم صاحیب لیکن او ایکو نہ سنائن۔ ۔ ۔ ہم ابہن ٹکو بابا کے ہی کھلاوے جات رہے۔
نیلما :تو جاؤ، انھیں کے گھر جا کر رہو۔
(نہ پاور تی ہلتی ہے نہ رام ادھار۔ ایک لمحے کی خاموشی)
نیلما : (زور سے چلا کر) تم تو یہ کوٹ واپس نہیں کرو گی(دونوں میں کوئی نہیں ہلتا) رام ادھار!میں نے تم سے پہلے ہی کہا تھا کہ پاروتی سامنے کے بنگلے کا کام نہیں چھوڑ سکتی تو تم یہاں نہیں رہ سکتے۔ تم دونوں اسی وقت میرا بنگلہ خالی کر دو۔ جاؤ۔ ۔ ۔ جاؤ(پاروتی تذبذب میں ہے) جاؤ۔ ۔ ۔
رام ادھار :چلو پاربتی۔
(اچانک رام ادھار بڑھ کراس کا بازو پکڑتا ہے اور اسے لے جاتا ہے۔ )
نیلما : (اس وقت جب وہ دروازے میں ہی ہوتے ہیں) اور سی بی تم نے اس احسان فراموش کو اگر کل دفتر سے نہ نکالا تو مجھ سے برا کوئی نہ ہو گا۔
سی بی :میں نے تمہارے ہی زور دینے پر اسے رکھا تھا(کندھے جھٹکاتے ہوئے) تم کہتی ہو تو کل نکال دوں گا۔ لیکن سوچ لو۔ آج کلاس فور کے افسر۔ ۔ ۔ یعنی یہ چپراسی۔ ۔ ۔ اپنے آپ کو کلاس ون کے افسروں سے کم نہیں سمجھتے۔ رام ادھار جیسا بھلا چپراسی جلدی میں نہیں مل سکتا۔
نیلما :میں اور اب کچھ برداشت کر سکتی ہوں لیکن احسان فراموشی برداشت نہیں کر سکتی۔ اک دم بیکار اور بھوکا مرتا تھا۔ جب میں نے کالج میں اسے نوکری دی تھی۔ پھر جب اس کی نوکری چھوٹ گئی اور یہ کناٹ پلیس میں۔ ۔ ۔
سی بی :لیکن محترمہ نیلما جی، وہ صبح سے رات گیارہ بجے تک ہماری خدمت اسی لئے تو کرتا ہے۔ صبح سویرے اٹھ کر ایک میل جا کر وہ بھینس کا دودھ دوا کر لاتا ہے۔ مارکیٹ میں جا کر سبزی ترکاری لاتا ہے۔ کمرے صاف کرتا ہے۔ مہمان آ جاتے ہیں تو گیارہ گیارہ بجے رات بیرے کا۔ ۔ ۔
نیلما :مجھ سے بحث مت کرو سی بی اس نے میری بات نہیں مانی اور وہ میرے بنگلے میں نہیں رہ سکتا۔
موہن :لیکن بھابی اتنے ون ان لوگوں نے آپ کی خدمت کی ہے۔ مکان پڑے ہوئے نہیں ملتے۔ یہ کہاں جائیں گے۔ بے چارے۔ ۔ ۔
نیلما :میری طرف سے جہنم میں جائیں۔ ایسے احسان فراموشوں کو میں اپنے بنگلے میں نہیں رہنے دوں گی۔
سرلا : (سی بی سے) نیلما ٹھیک کہتی ہے بھائی صاحب۔ جب شہلا سے اس کی ٹھن گئی ہے تو اگر آپ کو نوکر یا اس کی بیوی اس کے ہاں کام کرتے ہیں تو سمجھئے اس کا ایک جاسوس دن رات آپ کے ہاں رہتا ہے۔ پھر سرکاری نوکری بھائی صاحب آج کل گری پڑی نہیں مل جاتی۔ بی اے، ایم اے پڑھے چپراسی ہونے کے لئے مارے مارے پھرتے ہیں۔ دو مہینے بے کار رہے گا تو آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو جائے گا اور پھر آ کر آپ کے پاؤں پرسر رگڑے گا۔
(خانساماں کچن سے تیز تیز داخل ہوتا ہے۔ )
خانساماں :صاحب وہ رام ادھار اور پاربتیا اپنا سارا سامان اٹھا کر سامنے کے بنگلے میں جا رہے ہیں۔
نیلما : (غصے اور حیرت سے) کیا۔ ۔ ۔ !
خانساماں :رام ادھار کہتا گیا ہے کہ میم صاب ہماری نوکری لیوا چاہت ہیں۔ ہماری نوکری کی کونو کمی ناہیں نا۔
سرلا : (اک دم اٹھ کر) میں کہتی ہوں یہ سب شہلا کی سازش ہے۔ اس کا خانساماں دیس جا رہا ہے۔ اسے یقیناً رام ادھار کی ضرورت ہو گی اور اس نے۔ ۔ ۔
موہن :چناؤ سر پر ہے۔ بھابی آپ نے نوکروں کو نکال کر اچھا نہیں کیا۔ نہ جانے یہ ساری لوکیلیٹی میں کیا کیا کہتے پھریں گے۔ ۔ ۔
سی بی :محترمہ نیلما جی، مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تمہاری پڑوسن نے صرف ایک گرم کوٹ سلوا کر تمہارے دونوں نوکر چھین لئے۔ میں نہ کہتا تھا کہ۔ ۔ ۔
نیلما : (غصے سے بے قابو ہو کر) تم چپ رہو سی بی!تم چپ رہو!
(لاچار سی ہو کر کرسی میں دھنس جاتی ہے۔ اچانک سی بی کی نظر پانی کے گلاس پر جاتی ہے۔ وہ چپ چاپ گلاس اٹھا کر پانی پینے لگتے ہیں۔ جب فوراً پردہ گرتا ہے۔ )
***
’’پڑوسن کا کوٹ اور دوسرے یک بابی ڈرامے ‘‘، نیا ادارہ، الہ آباد
٭٭٭
جونک

افراد

بھولا ناتھ
پروفسرچ آنند
بنواری
کملا
ایک پنجابی، ایک ہندوستانی، ایک مارواڑی
اور کچھ دوسرے لوگ

پہلا منظر

(وقت:دس بجے دن۔ جگہ بھولا ناتھ کے مکان کا ایک کمرہ)
(کمرہ بہت بڑا نہںج اور نہ بہت کشادہ ہے۔ کمرے مںھ دو چار پائا ں بچھی ہوئی ہںا اور دو کرساکں اور ایک چھوٹی سی مزن بھی رکھی ہے۔ اس لئے اسے سونے کا کمرہ بھی کہہ سکتے ہں اور ڈرائنگ روم بھی۔ کمرے مںو سامان وہی ہے جو کسی عام کلرک، اخبارنویس یا اییے ہی پوزیشن کے کسی شخص کے ہاں ہو سکتا ہے۔ پردہ اٹھنے پر ہم آنند کو مزا کے پاس رکھی کرسی پر بٹھے ایک اخبار کی ورق گردانی کرتے ہوئے دیکھتے ہں ۔
پروفسر آنند شکل صورت سے پروفسر معلوم ہوتے ہںا ، یہ بات نہں ۔ جب سے ہندوستان مںو تعلم کا رواج زیادہ ہوا ہے اور خوراک کا کم، تب سے کالجوں مں ایسے طلبا آنے لگے ہںں جنھںی بقول پطرس آسانی سے ان کی مائں نصف ٹکٹ لے کر اپنے ساتھ زنانے ڈبے مںی بٹھا سکتی ہںل۔ طالب علمی کے زمانے مںک پروفسرر آنند شاید اسی قسم کے طالب علم تھے۔ حال ہی مںت ایم اے کی ڈگری لے کر انھوں نے پڑھانے کا شغل اختایر کیا ہے اس لئے اس کی عمر یا شکل مںڑ کچھ فرق نہں ہوا۔ پہلی نظر مںن انھں بآسانی مٹراک کا طالب علم سمجھا جا سکتا ہے۔ اس وقت تو وہ پروفسرل کی پوشاک مں بھی نہں ہںا۔ ایک تہمد اور قمضک پہنے ہوئے شاید حجامت بنا کر بٹھےہ ہںم کولں کہ صابن کی سفدتی ابھی تک ان کے چہرے پر لگی ہوئی دکھائی دییا ہے اور مزے پر پڑا ہوا حجامت کا کھلا ہوا سامان بھی اس بات کی گواہی دیتا ہے۔
پردہ اٹھنے کے کچھ لمحے کے بعد بھولا ناتھ دائںز طرف کے کمرے سے داخل ہوتا ہے جدھر شاید رسوئی ہے۔ شکل و صورت سے بھی بھولا ناتھ پروفسرہ صاحب سے کچھ موٹا تازہ ہے لکنہ پروفسرب صاحب کے چہرے سے جو دانشمندی ٹپکتی ہے اس کا وہاں فقدان ہے۔ سدرھا سا آدمی ہے۔ کندھے جھٹکنے کی عادت ہے۔ ایسے مردوں کو بار ہا لوگ زن مرید کہہ دیا کرتے ہںم۔ اس وقت اس کے چہرے پر گھبراہٹ جھلک رہی ہے۔ آنند بدستور اخبار دیکھنے مںگ محو ہے۔)
بھولا ناتھ:(پریشانی سے)یہ پھر آ گات۔ تم مربی مدد کرو۔ آنند۔ خدا کے لئے۔
آنند:(اخبار مزے پر رکھ کر) آخر بات کیا ہے؟گھبرائے ہوئے کوکں ہو؟
(بھولا ناتھ پریشان سا چارپائی پر بٹھ جاتا ہے۔)
بھولا ناتھ:یہ ایک بار آ جاتا ہے تو جانے کا نام نہں لتاا۔
آنند:آخر معلوم بھی ہو کون ہے؟
بھولا ناتھ:ارے کون کیا؟را ہوں کا بادشاہ ہے۔
آنند:را ہوں کا!پھر تو تمہارا ہم وطن ہوا۔
بھولا ناتھ:(طنز سے) اب را ہوں کے ہزاروں آدمی مرمے ہم وطن ہںو اور کمرے (کندھے جھٹک کر) مر۔ے پاس صرف یی دو ہںو۔
(مجبور ہنسی ہنستا ہے۔)
آنند:(حرسانی سے)تو کیا ان سے جان پہچان بھی نہںا؟
(اٹھ کر کمرے مںی گھومتا ہے۔)
بھولا ناتھ:بس اس بات کا گنہ گار ہوں کہ اپنے چھوٹے بھائی سے ان کے کا رہائے نمایاں سنتا رہا ہوں یا پھر اپنے شہر کے ڈاکٹر بھگوان۔۔۔
آنند:را ہوں شہر نہں۔ قصبہ ہے۔
بھولا ناتھ:ارے ہاں وہںو ڈاکٹر بھگوان۔۔۔
آنند:(پھر قطع کلام کر کے) لکنٹ تم نے کہانا کہ یہ پھر آ گاا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے بھی یہ صاحب تمہںی مہمان نوازی کا شرف بخش چکے ہںن۔
بھولا ناتھ:اب مںا تمہںچ کیا بتاؤں تم۔۔۔ تم۔۔۔ (کندھے جھٹک کر) ذرا بٹھو تو تفصلھ سے باٹن کروں۔
(آنند چارپائی پر بٹھنا چاہتا ہے۔)
بھولا ناتھ:ارے۔۔۔ ارے۔۔۔ یہاں کیا بٹھتے ہو۔ وہ کرسی لے لو۔
(کرسی گھسٹتا ہے۔)
آنند:مںئ یں۔۔ اچھا ہوں۔ تم کہو۔
بھولا ناتھ:(پھر ذرا ہنس کر)بات یہ ہے کہ وہ مر ا چھوٹا بھائی ہے نا سری رام۔ جساف وہ خود آوارہ ہے ویسے ہی اس کے دوست ہںا۔ انھںر مںس سے ایک کا نام سوم یا موم یا کیا جانے کیا تھا۔ وہ جب کبھی آتا تھا اپنے اس بھائی کی تعریف کے پل باندھ دیا کرتا تھا۔
آنند:دیش بھگت ہں۔؟
بھولا ناتھ:خاک۔
آنند:شاعر؟
بھولا ناتھ:اس کی سات پشتوں مں؟ سے کسی نے شعر کا نام نہںج لات۔
آنند:تو مقرر؟سدھارک؟حکم ؟وید؟ڈاکٹر؟
بھولا ناتھ:(چڑ کر) تم سنتے ہو نہںے اور لے اڑتے ہو وہ تھے نا، مشہور ایکٹر ماسٹر فطرت۔ یہ ان کے ساتھ رہ چکا ہے۔
آنند:(قہقہہ لگا کر) تویوں کہو کہ یہ صاحب ایکٹر ہںر۔
بھولا ناتھ:اب ماسٹر فطرت کے مشہور ڈراموں ’’عشق کی آگ‘‘ اور ’’درد جگر‘‘ مںف اس نے کوئی کام کیا ہے یا نہںل اس بات کا مجھے کوئی علم نہںا۔ اتنا سنا تھا کہ یہ ماسٹر فطرت کا دایاں ہاتھ ہے۔
آنند:لکنر اس بات سے تمہںہ کیا دلچسپی؟
بھولا ناتھ:(ہنس کر) ارے بچپن تھا اور کیا؟جب ہم مٹر ک مںر پڑھتے تھے تو ان کے ناٹک پڑھنے کا بہت شوق تھا۔
آنند:’’عشق کی آگ‘‘، ’’درد جگر‘‘۔
(ہنستا ہے۔)
بھولا ناتھ:ارے بھائی ان دنوں ہمارے لئے ماسٹر فطرت ہی کالی داس اور شئرپر تھے۔ اگر چہ ہمں ان کے دیکھنے کا اتفاق نہں ہوا تھا لکنے ہم ان کے ناٹکوں کو پڑھ کر محلے کے ایک لڑکے سے ان کے گانے سن کرہی ان کے آرٹ کے قائل تھے۔
آنند: اور ان کے غیی مداحوں مں سے تھے۔
بھولا ناتھ:تم اچھی طرح جانتے ہو مشہور مصنفوں ، لڈتروں ، ایکٹروں ، ادیبوں کو لوگ عام انسانوں سے کچھ اونچا ہی سمجھتے ہںم اور ان سے تو ایک طرف ان کے ساتھ رہنے والوں تک سے بات کر کے پھولے نہںد سماتے۔ یہ تو ماسٹر فطرت کا دایاں ہاتھ تھا۔
آنند:تو ان سے تمہاری ملاقات کسےھ ہوئی؟
(پھر اٹھ کر گھومنے لگتا ہے۔)
بھولا ناتھ:ملاقات؟(کندھے جھٹک کر)تم اسے ملاقات کہہ سکتے ہو؟ہمارے شہر کے ہںا نا ڈاکٹر بھگوان۔۔۔
آنند:شہر نہںم قصبہ کہو۔ را ہوں قصبہ ہے۔
بھولا ناتھ:ہاں ہاں قصبہ، قصبہ۔ تومںق نے اسے ڈاکٹر بھگوان داس کی دوکان پر بٹھےا دیکھا۔ اس کی باتںت دلچسپی سے سنںل اور شاید دو ایک باتوں کا جواب بھی دیا۔
آنند:پھر تم انھں اپنے گھر لے آئے۔
بھولا ناتھ:ارے کہاں؟تم مجھے بات بھی کرنے دو گے۔ اس کوتو دس برس بتے گئے۔ اس کے بعد یہ صاحب گزشتہ برس ملے اور تمہںم معلوم ہے کہ ان دنوں مں مں کیپر مصبت سے دن کاٹ رہا تھا۔ چنگڑ محلے کا وہ پپلا ویڑا اور اس مںا لالہ جوالا داس کا وہ جہنمی مکان اور اس کی وہ اندھربی کوٹھریاں جن مںک نہ کوئی روشن دان ہے۔ نہ کھڑکی۔ گرمومں مںل باہر گلی مں سونا پڑتا تھا۔
آنند:لکنا تم بات تو ان سے ملنے کی کر رہے تھے۔
بھولا ناتھ:ہاں ہاں انھںت دنوں جب مں وہاں رہتا تھا اور دن بھر نوکری کی تلاش مں مارا مارا پھر تا تھا یہ ایک دن پپلن ویڑا کے پاس ہی چنگڑ محلے مںھ مل گئے اور انھوں نے دور ہی سے نمسکار کی۔ مں جلدی مں تھا لکنا لمحہ بھر کے لئے رک گاا۔
آنند:تو کہنے کا مطلب۔۔۔
بھولا ناتھ:(بات جاری رکھتے ہوئے) انھوں نے بڑے تپاک سے ہاتھ ملایا اور کہا ڈاکٹر بھگوان داس آپ کی بڑی تعریف کرتے ہں ۔ آپ مجھے پہچان تو گئے ہںن؟مںے نے کہا ’’ہاں ہاں۔۔۔ ماسٹر فطرت‘‘ کہنے لگے بما ر ہے بے چارہ درد گردہ سے۔
آنند:درد جگر سے نہںآ۔
بھولا ناتھ:(آنند کے طنز کی طرف نہ دھانن کر کے)مں نے افسوس کا اظہار کیا اور پوچھا کہ سنائے‘ کسےے آئے۔ کہنے لگے مجھے درد گردہ کی شکایت ہے۔
آنند:(قہقہہ لگا کر) کند ہم جنس باہم جنس پرواز۔
بھولا ناتھ:مںل نے بھی افسوس کا اظہار کیا۔ کہنے لگے ’’ کرنل ماتھر کو دکھانے آیا ہوں کل چلا جاؤں گا۔‘‘مںہ نے کہا:’’تو آئےب کچھ پانی وانی پی لجئے ۔ ہنس کر کہنے لگے لالہ سندر لال تو انتظار کر رہے ہوں گے لکنے چلئے اپنے ہم وطن کا اصرار کسےر رد کیا جا سکتا ہے۔‘‘
آنند:اپنے ہم وطن کا۔۔۔ خوب!
(ہنستا ہے۔)
بھولا ناتھ:مرنے تو پاؤں تلے سے زمن کھسک گئی۔ ضروری کام سے جا رہا تھا اور مںد نے رسمی طور پر ہی اسے جل پان کے لئے پوچھا تھا۔ خر۔ گھر لے آیا اور حفظ ماتقدم کے طور پر مںئ نے بو ی سے صرف ٹھنڈے پانی کا گلاس لانے کے لئے کہا۔ پانی پی کر یہ مہاشہ وہںف گلی مںر بچھی ہوئی چارپائی پر لٹ گئے۔ مجھے جلد جانا تھا۔ مں نے جھجکتے ہوئے کہا: ’’مجھے۔۔۔ آ۔۔۔ ذرا جلدی ہے۔ آپ کدھر جا رہے ہںر؟ ساتھ ساتھ ہی۔۔۔ ‘‘لکنٹ جناب ٹانگںہ پسارتے ہوئے مرےی بات کاٹ کر بے پرواہی سے بولے :’’ہاں ہاں آپ شوق سے ہو آئے ۔ مںی ذرا تھک گاا ہوں۔ یں ہ آرام کر لوں گا۔‘‘
آنند:(ہنس کر)خوب!
بھولا ناتھ:(کندھے جھٹک کر) تم ہوتے تو مر ی صورت دیکھتے۔۔۔ نئی نئی شادی ہوئی تھی اور یہ ہمارا ہم وطن۔۔۔
(آنند پھر قہقہہ لگاتا ہے۔)
بھولا ناتھ:مرتا کیا نہ کرتا۔ مجھے تو جلدی تھی۔ ناچار چلا گا ۔ واپس آیا تو آپ مزے سے بستر بچھوا کر خراٹے لے رہے تھے اور بوری بچابری اندر گرمی مںی پڑی تھی۔ داخل ہوا تو کہنے لگی آپ کا ایسا بے تکلف دوست تو کوئی دیکھا نہںے۔ آپ کے جانے کے بعد کہنے لگا:’’تم تو شاید نواں شہر کی ہو۔‘‘مںھ چپ رہی تو بولا:’’پھر تو ہماری بہن ہوئی۔‘‘
آنند:بہن؟!
(ہنستا ہے۔)
بھولا ناتھ:اب کملا مجھ سے پوچھنے لگی یہ کون ہے؟مںپ کیا بتاتا؟اتنا کہہ کر چپ ہو رہا کہ ہمارے دیس کے ہںپ۔ چار پائا:ں ہمارے پاس صرف دو تھںی۔آخر وہ غریب سخت گرمی مںی اندر فرش پر سوئی۔ خاکل تھا دوسرے دن چلے جائںے گے لکنا پورے سات دن رہے اور جب گئے تومںر نے قسم کھا کر کملا سے کہا کہ اب کبھی نہںی آئںچ گے لکنا آج پھر آ دھمکے ہں اور کملا۔۔۔
(کملا داخل ہوتی ہے۔)
کملا:مںئ پوچھتی ہوں آپ چپ چاپ ادھر آ کر بٹھک گئے ہں اور وہ مجھے اس طرح حکم دے رہے ہںی جسےا مںچ ان کی کوئی زر خرید لونڈی ہوں۔ ’’کملا پان لا دو۔ کملا یہ کر دو۔ کملا وہ کر دو۔‘‘ مں پوچھتی ہوں یہ ہں کون؟آپ تو کہتے تھے مںئ اسے جانتا تک نہں پھر کووں یہ منھ اٹھائے ادھر چلے آتے ہںے؟کوئی اور ٹھور ٹھکانہ ان کے لئے نہںک کیا؟ کون ہں یہ؟
بھولا ناتھ:(بالکل گھبرا کر کندھے جھٹکتے ہوئے) اب بتاؤ۔۔۔
(اٹھ کھڑا ہو جاتا ہے۔)
آنند:تم ٹھہرو۔بھابی۔ مجھے سوچنے دو۔
کملا:لکنٹ آپ سوچ کر کریں گے کیا؟یہ کوئی ان کا پرانا یار غار ہو گا مجھے اسی بات سے چڑ ہے کہ آخر یہ مجھ سے چھپاتے کولں ہں ؟کیا مںھ ان کے دوستوں کو گھر سے نکال دییر ہوں۔
(چارپائی کے کنارے بٹھی جاتی ہے۔)
آنند:دیکھو بھابی۔
کملا:مںن کچھ نہںب دیکھنا چاہتی۔ دیکھئے آپ سے کوئی پردہ نہں ۔ کمرے ہمارے پاس ییھ دو ہںھ جن مںے دروازوں کے روشندان مںں ششے تک نہںچ اور ہم کارڈ بورڈ سے کلام چلا رہے ہںا اور بستر بھی فالتو نہںھ اور پھر آپ بھی یہاں ہںھ۔ ان کے یہ دوست تو مزے سے بستر بچھوا کر سوئںھ گے اور مںں ٹھٹھرا کروں گی باہر برآمدے مںن۔
آنند:دیکھو بھابی وہ ان کے دوست نہں ہوں اس بات کا تمہں یندہ دلاتا ہوں۔
کملا:تو پھر یہ صاف جواب کواں نہں دیتے؟
آنند:اگر ان سے یہ ہو سکتا تب نا۔۔۔
بھولا ناتھ:(جواس دوران مںا ادھر ادھر گھومتا رہتا ہے رک کر اور کندھے جھٹک کر) ہاں اب ہم وطن ہںو۔۔۔
کملا:ہم وطن ہں تو۔۔۔
(انگارہ سی آنکھوں سے شوہر کی طرف دییھت ہے۔)
آنند:دیکھو جھگڑے سے کچھ نہ بنے گا۔ اس آدمی کو دھتا بتائی چاہئے۔
کملا:یی تومںج بھی کہتی ہوں۔۔۔
آنند:لکنو یہ ان سے ہو چکا ان صاحب کی مہمان داری تو کسی دوسری طرح ہی کی جائے گی۔
(کچھ لمحے کے لئے خاموشی جس مں آنند سوچتا ہے اور بھولا ناتھ انگڑائی لتائ ہے۔)
آنند:(دھی خ آواز مںس) مں پوچھتا ہوں وہ کیا کر رہا ہے۔
کملا:شاید باہر گام ہے جاتے جاتے پوچھتا تھا کہ آج کیا سبزی پکانے کا ارادہ ہے۔ بازار سے۔۔۔
آنند:(جسے اس دوران مںں تدبر سوجھ گئی ہے)مںک کہتا ہوں تم لحاف لے لو بھابی اور چپ چاپ لٹا جاؤ اور اگر کراہ سکو تو تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد کراہتی بھی جاؤ(بھولا ناتھ سے)دیکھو بھائی کھانے کا ذکر آئے تو تم کہہ دینا کہ مجھے بھوک نہںڑ ہے اور مںا بہانہ کروں گا کہ گرانی طبع سے مںک آج فاقہ کر رہا ہوں اور بس(چٹکی بجاتا ہے۔ سڑکھوےں پر پاؤں کی چاپ سنائی دییک ہے۔ مڑ کر) مںھ کہتا ہوں جلدی کرو(ایک ایک لفظ پر زور دے کر) جلدی کرو۔ انہی کپڑوں سمتی لٹا جاؤ۔
(کملا جلدی سے بستر پر لٹے کر لحاف اوڑھ لییج ہے۔ ہاتھ مںل دو لوکیاں لئے ہوئے بنواری لال داخل ہوتا ہے۔)
بھولا ناتھ:آئےہ آئےم کدھر چلے گئے تھے آپ؟(آنند کی طرف اشارہ کر کے) یہ ہں مسٹر بنواری لال۔ مروے ہم وطن۔ کسی زمانے مںے مشہور ایکٹر ماسٹر فطرت کے ساتھ۔۔۔
آنند:(ذرا ہنستے ہوئے) آپ سے مل کربڑی خوشی ہوئی۔
بنواری لال:آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔
بھولا ناتھ:یہ آپ کیا اٹھا لائے اتنی لوکیاں؟
(کملا دھی۔ی سی کراہتی ہے۔)
بنواری لال:باہر بک رہی تھںن (ہنس کر) مںی نے کہا۔۔۔ (کملا ذرا اور زور سے کراہتی ہے)(مڑ کر اور ذرا چونک کر) کیا بات ہے۔ کیا بات ہے؟؟
(آواز مںد تشویش)
بھولا ناتھ:اسے دفعتاً دورہ پڑ گات۔ بڑی مشکل سے ہوش آیا ہے۔۔۔ عموماً پڑ جایا کرتا ہے۔ ہسٹریا۔
بنواری لال:تو آپ علاج۔۔۔
بھولا ناتھ:علاج بہت کرایا کرنل(پھر بات کا رخ بدل کر) یہ تو بما۔ر پڑ گئں اور (ذرا ہنس کر) لوکیاں آپ اتنی اٹھا لائے پھر (آنند سے) کونں بھائی تم کیا کہتے تھے؟۔۔۔
آنند:مںئ تو آج فاقہ سے ہوں طبعتن بھاری ہے۔
بھولا ناتھ: اور مں خود کھانے کے موڈ مںا نہںی۔
بنواری لال:(رسوئی کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے) تو بھابی جی مررا مطلب ہے کہ لوکی۔۔۔ یینک لوکی کی کھرک ہسٹریا مںا بے حد مفدہ ہے اور کھرہ بنا بھی اچھی لتاب ہوں۔ ساتھ ہی مںا اپنے لئے بھی دو روٹاوں اتار لوں گا اور بھاجی بھی لوکی ہی کی بن جائے گی۔ مرتا تو خاال ہے آپ بھی کھائں۔۔ لطف نہ آ جائے تو نام نہںی۔ اندر انگیھرو تو ہو گی ہی۔ کوئلوں کی آنچ مجھے بے حد پسند ہے۔ دھوئںو سے آنکھں نہں۔ نکلتں اور پھر کوئلوں پر لوکی کی کھرے بنتی بھی ایی ہے کہ کیا کہوں۔
(رسوئی مںا چلا جاتا ہے۔)
آنند:(دھررے سے) یہ اس طرح نہں۔ جائے گا۔
بنواری:(رسوئی سے) کو ں بھئی مسالہ کہاں ہے؟
کملا:(لٹےر لٹے ) کہہ دو ختم ہو گاک۔
بھولا ناتھ:(ذرا زور سے) مسالہ تو یار ختم ہو گاو۔
بنواری:(اندر سے) اور گھی کہاں ہے؟
بھولا ناتھ:(کندھے جھٹک کر) اب یہ کسےں کہہ دوں؟!
آنند:(اونچی آواز مںے) ارے گھی نہں لائے تم؟ علی الصباح بھابی نے کہا تھا کہ گھی ختم ہو گای ہے کسےس گرہستی ہو تم؟!
(دھراے سے شرارت کی ہنسی ہنستا ہے۔)
بنواری:(دروازے سے جھانک کر) اچھا ایک آنے کا گھی کم سے کم آج کے لئے تو لتای آؤں۔ مسالہ بھی نہںط اور کھانڈ بھی۔ مرےا خا ل ہے۔۔۔ نہںے ! مں چند منٹوں مںو سب کچھ لایا۔ یہ جب تک کچھ کھائںج گی نہںس کمزوری دور نہںے ہو گی۔
(چلا جاتا ہے۔)
آنند:(حرےانی سے) یہ عجب۔ مہمان ہے تمہارا۔ مہمان کے ساتھ مزنبانی کے فرائض بھی سرانجام دے رہا ہے اور اپنی جبے سے۔
بھولا ناتھ:مںو کہتا ہوں آنند۔ یہ جونک ہے جونک۔ خدا کے لئے کوئی اور ترکبز سوچو۔کیا ہوا۔ یہ آج جبا سے پانچ آنے خرچ کر دے گا۔ گذشتہ سال جاتا جاتا مجھ سے پانچ روپئے لے گاک تھا۔
کملا:(ایک دم سے زور سے اٹھ کر) دے دیئے آپ نے پانچ روپئے۔
بھولا ناتھ:(کندھے جھٹک کر)اب مںے۔۔۔
کملا: اور مںج پانچ پسےی مانگتی ہوں تو نہںے ملتے۔
بھولا ناتھ:اب ہم وطن۔۔۔
کملا:تو پڑے بھگتئے پانچ کیا مرسی طرف سے پانچ سودے آئےہ۔ بس مجھے مکے چھوڑ آئےو۔
آنند: اور(خوشی سے تالی بجا کر)سپلنڈ ڈ مکےا !۔۔۔ ٹھکے(بھولا ناتھ سے) جلدی کرو بھابی کولے کر کسی پڑوسی کے یہاں چلے جاؤ۔ وہ آیا تومںس کہہ دوں گا کہ بھابی کی طبعتک بہت خراب ہو گئی تھی آخر بھائی صاحب انھںی چھوڑنے مکےں چلے گئے۔ کو ں؟
(داد کی خواہش سے دونوں کی طرف دیکھتا ہے اور ہنستا ہے۔)
بھولا ناتھ:بھئی تدبر تو خوب ہے (بو ی سے)تم ذرا اندر پڑوسن سے باتں کرنا۔ مں کچھ دیر کے لئے باہر ا ن کے شوہر کے پاس بٹھ جاؤں گا۔ (آنند سے) لکن یار مںی کہتا ہوں اگر وہ نہ گا ؟
آنند:جائے گا کسےی نہںد۔ تمہارے جاتے ہی مںس بھی تالا لگا کر سٹک جاؤں گا۔وہ کیا اس کا باپ بھی جائے گا۔
کملا:واہ تالا لگا کر آپ کھسک جائںی گے اور جو وہ برتن لے گای ہے وہ نہںہ آپ یوں کہئے گا کہ وہ چلے گئے ہں اور مںل بھی چلا جا رہا ہوں۔بس اسے نکال کر گھاس منڈی تک چھوڑ آئےو۔
آنند:ہاں ہاں تم جلدی کرو۔ وہ آ جائے گا۔
بھولا ناتھ:ہاں ہاں جلدی کرو۔(کملا کو ٹرنک کھولنے کے لئے جاتے دیکھ کر) مں کہتا ہوں نئی ساڑی پہننے کی ضرورت نہںھ تم سچ مچ مکےی نہںا جا رہی ہو اور ہمارے پڑوسی تمہں۔ اس حالت مں۔ کئی بار دیکھ چکے ہںن۔
کملا:(ٹرنک کو زور سے بند کرتے ہوئے) مںن پوچھتی ہوں۔
آنند:ہاں ہاں۔ وہںت پوچھنا۔۔۔ چلو چلو۔۔۔
(دونوں کو ڈھکلتا ہوا لے جاتا ہے۔)
پردہ

دوسرا منظر

(وقت:ایک گھنٹے بعد۔۔۔ مقام:اسی مکان کا برآمدہ)

(برآمدہ ایک طرف سے جدھر ناظرین بٹھے ہںآ کھلا ہے۔ اس طرف بڑی لمبی لمبی چقںو پڑی ہوئی ہں جو کھول دی جاتی ہںچ تو یہی برآمدہ ایک لمبا سا کمرہ بن جاتا ہے۔اس وقت چونکہ چقںہ لپٹ کر چھت سے لٹک رہی ہں اس لئے برآمدہ مںہ جو کچھ ہو رہا ہے اس سے حاضرین بخوبی دیکھ سکتے ہںا۔ دو ہلکی ہلکی بد کی کرسا ں برآمدے مںہ بائںچ طرف رکھی ہںھ۔ دو سال سے روغن نہں کیا گا ہے جس کی وجہ سے بد کی سفدےی نظر آنے لگی ہے۔ کرسوہں کے آگے ایک بد ہی کی تپائی رکھی ہے جس پر ملاد سا کرسویں کے رنگ کا کپڑا بچھا ہوا ہے۔
بائںہ طرف ایک دروازہ ہے جو سڑگھوکں پر کھلتا ہے۔ سامنے کی دیوار مںت دروازے جو بالترتبق پہلے منظر کے کمرے اور اس کے ساتھ والے کمرے مںک کھلتے ہںی۔ دروازے پرانی طرز کے ہں ۔ ان کے اوپر ساتھ ہی روشندان ہںک۔ جن کے ششےں شاید ابھی تک نہںت لگے ہں یا خستہ اور بوسدلہ ہو کر ٹوٹ گئے ہںن۔ ہاں ان کی جگہ کتے کے مستطلی ٹکڑے لگے ہوئے ہںز۔ ایک چارپائی دیوار سے لگی کھڑی ہے۔
ایک کرسی پر پروفسرک آنند بٹھے ہوئے ، دوسری پران کے پاؤں ہںے ان کے دائںھ طرف تپائی پر جھوٹے خالی برتن رکھے ہںو۔ جس وقت پردہ اٹھتا ہے وہ سگریٹ سلگانے کی فکر مںت ہے۔)

آنند:(اسی دیا سلائی کو جو بجھ گئی ہے زمنک پر پٹک کر)اونھ!
(بھولا ناتھ سڑسھووں کے دروازے سے جھانکتا ہے۔)
بھولا ناتھ:مںب کہتا ہوں ہمںک وہاں بٹھے بٹھے ایک گھنٹہ ہو گاے اور تم نے ابھی تک آواز نہںہ دی۔
(چل کر پروفسرب آنند اس کے پاس جاتے ہںب۔)
آنند:ارے دھرفے بولو۔ وہ ادھر رسوئی مںج بٹھا کھانا کھا رہا ہے۔
بھولا ناتھ۔:(برتنوں کی طرف دیکھ کر) اور تم۔۔۔
آنند:مںے نے بھی روزہ افطار کر لاک ہے۔ کمبخت لوکی کی کھرل بڑے مزے کی بناتا ہے۔
بھولا ناتھ:لکنو۔۔۔
آنند:لکن کیا؟مںل نے اسی کے مطابق سب کچھ کیا جو طے ہوا تھا لکن وہ بھی ایک شطاآن ہے۔
بھولا ناتھ:(سوچتے ہوئے) تو گار نہںھ۔
آنند:وہ ایین آسانی سے نہ جائے گا۔ ایسوں کو صاف جواب۔۔۔
بھولا ناتھ:لکنو اخلاق بھی تو۔۔۔ (کندھے جھٹک کر) تم سمجھتے نہںھ آنند۔
(سر کھجاتے ہوئے کمرے مں؟ گھومنے لگتا ہے۔)
آنند:صاف جواب نہںو دے سکتے تو بھگتو۔
بھولا ناتھ:تم نے اس سے کہا نہںگ کہ بھابی کی طبعتم۔۔۔
آنند:کہا کواں نہں ۔ جب وہ سب چزایں لے کر واپس آیا تو مںھ نے برا سا منھ بنا کر کہا ’’بھابی کی طبعت بڑی خراب ہو گئی تھی۔ انھوں نے اصرار کیا کہ مںج تو مکے جاؤں گی اور وہ ٹھہر ے زن مرید فوراً تاار ہو کر چلے گئے۔‘‘
بھولا ناتھ:(غضب ناک ہو کر) زن مرید۔۔۔؟!
آنند:(ہنس کر اور بھی آہستہ سے رازدارانہ انداز مںد) ارے وہ تومںت نے صرف یہ کہہ کر مںد قفل اٹھانے کے لئے بڑھا اور وہ اندر رسوئی مںں چلے گئے۔ مںز نے تالے کولے کر ہاتھ مںل اچھالتے ہوئے کہا مں تو جا رہا ہوں کہنے لگے کھانا تو کھا کے جائےت گا۔ لوکی کی کھر کا مزا۔۔۔
بھولا ناتھ: اور تمہارے منھ مں پانی بھر آیا۔
آنند:نہںہ مں نے کہا مںن تو جاؤں گا۔
بھولا ناتھ:پھر؟
آنند:انھوں نے بے فکری سے انگیھنے مںب کوئلے سلگاتے ہوئے کہا۔ اچھا تو ہو آئےد لکن آ جائےر گا جلدی۔ ٹھنڈی کھرے کا مزا کیا خاک آئے گا۔
بھولا ناتھ:(غصے سے دانت پسہ کر) ہوں۔
آنند:تب مں( نے بھی دل مںر سوچا کہ یہ اس طرح نہ جائںک گے۔ کوئی دوسری ترکبں ہی کرنی پڑے گی۔ چاہئے تو یہ تھا کہ مںت قفل لگا کر باہر برآمدے ہی مںن ملتا لکنط بھابی کی دو طشتریوں نے۔
بھولا ناتھ:(جلدی سے) پھر۔۔۔ پھر۔۔۔؟
آنند:پھر کیا۔ مں نے سوچا کہ انھںز یہاں چھوڑ جانا بواقوفی ہی ہو گی نہ جانے کون سی چزن اٹھا کر چمپت ہو جائںا۔ اس لئے جھٹ بات بدل کر مں نے کہا:’’نہںا کوئی خاص جلدی تو نہںگ مجھے۔ یہ آپ نے ٹھکل کہا کہ کھر کا مزا گر م گرم ہی مںں ہے۔ تو لائےی دیںھا تو سہی آپ کیہ بناتے ہں ۔ بس انھوں نے کھرم تاھر کی، لوکی کی بھاجی بنائی اور پھر ہلکی پھلکی روٹا ں پکائںں۔ ابھی ختم کر کے اٹھا ہوں۔ کمبخت غضب کی رسوئی بناتا ہے۔ مںی پوچھتا ہوں یہ ماسٹر فطرت کا باورچی تو نہںں تھا۔
(دبا ہوا قہقہہ لگاتا ہے۔)
بھولا ناتھ:(مایوسی سے) اب۔۔۔
(چارپائی مںل دھنس جاتا ہے۔)
آنند:تم بھی بلا تکلف کھالو۔ بھوکے پٹ کیا خاک سوجھے گا۔ تر مال اندر آ جائے تو۔۔۔
(بنواری رومال سے ہاتھ پوچھتا ہوا رسوائی کی طرف سے داخل ہوتا ہے۔)
بنواری:ارے گئے نہںے آپ۔
بھولا ناتھ:(جسےے قبر مںپ سے) گاڑی مس (Miss) کر گئے۔
بنواری: اور کملا جی؟
بھولا ناتھ:(چڑچڑے پن کے ساتھ) انھں پھر دورہ پڑ گات تھا۔
بنواری:(نہایت سنجد)گی سے) اوہ!تو کہاں۔۔۔
بھولا ناتھ:ویٹنگ روم مںر بٹھا آیا ہوں۔ دوسری گاڑی دیر سے جاتی ہے اسی لئے۔
بنواری:(افسوس کے ساتھ اندر مڑتا ہے)ایک ڈبے مںہ کھرا دیئے دیتا ہوں۔ ین ا کجئے لوکی کی کھر ہسٹریا کے دورے مںا بے حد مفدھ ہوتی ہے اور پھر وہ بھی صبح سے بھوکی ہوں گی۔
بھولا ناتھ:(غصے کو چھپاتے ہوئے) نہں تکلفی نہ کجئےs۔ مںی دوا کے ساتھ تھوڑا سا دودھ پلا آیا ہوں۔
بنواری:تو آپ ہی لجئے ۔(آنند کی طرف دیکھ کر)کوںں پروفسرا صاحب انھوں نے بھی تو صبح کا۔۔۔
بھولا ناتھ:مںس کھانے کے موڈ مںت نہں ہوں۔
بنواری:(خففو ہوئے بغری) کونں نہ ہو۔(ذرا ہنس کر) مں نے ایک بار ایک فقر سے پوچھا تھا۔ کھانے کا ٹھکا وقت کون سا ہے؟ اس نے خواب دیا امر۔ کی جب طبعتا ہو اور غریب کو جب ملے۔ بھائی آپ ٹھہرے امرا آدمی اور ہم۔۔۔ غریب!اچھا پان تولںی گے نا۔
بھولا ناتھ:(چڑ کر) مںے پان نہں کھاتا۔
بنواری:(مسکرا کر) اور پروفسرغ صاحب؟
آنند:(جس نے خوب سری ہو کر کھایا ہے) مجھے کوئی خاص اعتراض نہںے۔
بنواری:اچھا مں ذرا نچےی پنواری سے پان لے آؤں۔
(بے پروائی سے ہنستا ہوا چلا جاتا ہے۔)
بھولا ناتھ:(کندھے جھٹک کر) مںت کہتا ہوں اب۔۔۔
آنند:چپ۔
بھولا ناتھ:(بے صبری سے) مںھ کہتا ہوں اب کیا کیا جائے۔ وہ کب تک پڑوسی کے یہاں بیھ۔ رہے گی۔ تم تو مزے سے کھانا کھا کر کرسی پر ڈٹ گئے اور ہماری آنتںک۔۔۔
آنند:بھئی کھانا کھانے کے بعد مرھی سوچنے اور سمجھنے کی قوتںو سلب ہو جاتی ہںغ۔ مںل تو ذرا سوؤں گا۔
بھولا ناتھ:لکن تم تو کہتے تھے کہ مں اس سے نمٹوں گا۔
(اٹھتا ہے۔)
آنند:وہ تو ٹھکص ہے مگر دو چار منٹ ذرا آنکھ لگ جائے تو کچھ سوجھے۔
(خمار آلود آنکھوں سے بھولا ناتھ کی طرف دیکھتا ہے اور ہنستا ہے۔ بھولا ناتھ مایوس ہو کر ہاتھ کمر کے پچھےس رکھ کر سوچتا ہے اور گھومتا ہے۔)
بھولا ناتھ:اٹھو یہ کام ہو چکا تم سے۔ باہر تالا لگائے دیتے ہںے۔ خود ہی رو پٹا کر چلائے گا۔ دونوں کسی ہوٹل مںو کھانا کھا لں گے۔
(پھر ٹہلنے لگتا ہے۔)
آنند:(کرسی پر پچھے کی طرف لٹ کر اور جمائی لے کر) تو پھر مجھے کوھں گھسٹتےھ ہو۔مجھے نندے آ رہی ہے۔
(پھر کرسی سے اٹھتا ہے۔)
بھولا ناتھ:(جو بہت تزہی سے برآمدے مںک گھوم رہا ہے اچانک رک کر) کیا مطلب ہے تمہارا؟
آنند:(پھر کرسی مںھ دھنس جاتا ہے) ارے بھائی تم باہر سے تالا لگا کر جانا چاہتے ہو تو چلے جاؤ۔ اس کمرے کو اندر سے بند کر جاؤ اور س مںھ باہر سے تالا لگا جاؤ۔ مجھے تنک بجے پرنسپل گردھاری لال سے ملنے جانا ہے۔ تب اس کمرے سے نکل کر باہر سے تالا لگاتا جاؤں گا۔ اب جلدی کرو نہںل تو وہ آ جائے گا۔(اٹھ کر بائں طرف کے کمرے مں چلا جاتا ہے ، اندر سے) لو مںا تو لٹت گان۔ اب پان خواب ہی مںے کھاؤں گا۔
(بھولا ناتھ کچھ لمحے تک تزا تزو گھومتا ہے پھر تز ی سے وہ بھی اندر چلا جاتا ہے۔ اس کی غصے سے بھری چڑچڑی آواز آتی ہے۔)
بھولا ناتھ:تالا کہاں ہے؟مں کہتا ہوں تالا کہاں ہے؟کمبخت تالا۔۔۔ مل گار۔۔۔ مل گاا۔
(تالا ہاتھ مںا لئے آتا ہے اور چابو ں کی زنجری انگلی مںہ گھماتا ہے۔)
آنند:(اندر سے) ارے دیکھو یہ اس کا بیگ باہر رکھتے جاؤ نہںت تو اسی بہانے آ جائے گا۔
(بھولا ناتھ پھر اندر جاتا ہے اور کپڑے کا ایک پرانا پھٹا ہوا ہنڈ بگں لے کر آتا ہے اور دروازے کے نزدیک باہر دیوار کے ساتھ ساتھ دیتا ہے اور دروازہ بند کر کے قفل چڑھانے لگتا ہے اور اندر سے پروفسرک آنند کی آواز آتی ہے۔)
آنند:ارے سنو، سنو۔
بھولا ناتھ:(پھر جلدی سے کواڑ کھول کر) کہو۔
آنند:ارے برتن تو اندر رکھتے جاؤ۔
(بھولا ناتھ جلدی سے برتن اٹھا کر دیتا ہے۔)
آنند: اور یہ تپائی اور کرساہں بھی دے دو۔
(بھولا ناتھ جلدی جلدی کرسا ں اور تپائی دیتا ہے۔)
آنند: اور یہ چارپائی؟
بھولا ناتھ:اسے پڑا رہنے دو۔ اسے کوئی نہ اٹھا لے جائے گا۔
(جلدی جلدی تالا لگاتا ہے۔ جلدی مںک چارپائی سے ٹھوکر کھاتا ہے اور بڑبڑاتا ہوا چلا جاتا ہے۔)
(کچھ لمحے خاموشی جس مںا دور پر کوئی گھڑیال ٹن ٹن بارہ بجاتا ہے۔ پھر کچھ لمحوں بعد بنواری لال گال مںف پان دبائے کاغذ مںد لپٹی پان کی گلوری ایک ہاتھ مںد تھامے داخل ہوتا ہے۔ کمرے مںب قفل اور باہر اپنا بگا پڑا ہوا دیکھ کر چونکتا ہے۔ بھولا ناتھ کا نام لے کر دو بار آواز دیتا ہے۔ ذرا گھومتا ہے پھر مسکراتا ہے اور اپنے آپ سے کہتا ہے۔)
بنواری:مںی تو ابھی سوؤں گا۔
(چارپائی بچھاتا ہے جو دوسرے کمرے کے دروازے کو بالکل روک لیار ہے۔ اس پر لٹ کر سگریٹ سلگاتا ہے۔ ایک دو کش لگا کر کروٹ بدل لتاک ہے۔)
پردہ

تردہا منظر

(پردہ آہستہ آہستہ اٹھتا ہے۔ منظر وہی۔ بنواری لال کروٹ بدلتا ہے۔ باہر کہیں گھڑیال بجتا ہے پھر۔)

بنواری: اور تنر بج گئے۔
(دروازے کے اوپر روشن دان کا گتا ہلتا ہے اور پھر کسی کا ہاتھ باہر نکلتا ہے۔)
(بنواری لال چونکتا ہے پھر کروٹ بدل لتا ہے۔ آہستہ آہستہ بوٹ سوٹ پہنے پروفسرہ آنند روشن دان کے گتے کو ہلا کر بڑی مشکل سے نچےہ اترنے کی کوشش کرتے ہںس۔)
بنواری:(جسےل کسی کی آہٹ سے چونک کر) کون ہے (پھر چونک کر اور اٹھ کر) کون کون روشن دان کے اندر داخل ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔(شور مچاتا ہے) دوڑئون۔۔۔ بھاگوو۔۔۔ چور۔۔۔ چور۔!!
آنند:مںا ہوں آنند۔
(آواز گلے مںو پھنسی ہوئی ہے۔)
بنواری:(بدستور گھبرائی ہوئی آواز مںر) چور!چور!!۔۔۔ دوڑیو۔۔۔ بھاگوے!!
(ایک مارواڑی، ایک ہندوستانی اور دو ایک پنجابی بھاگتے ہوئے سڑےھوشں سے داخل ہوتے ہںی۔)
مارواڑی:(جس کی سانس پھول رہی ہے)کائں) مجھے بابو جی۔ کائںر چھے !!
ہندوستانی:کیا بات ہے بھاھ۔ کیا بات ہے؟!
پنجابی:(ان کو پچھے ہٹاتا ہوا) کی گل اے؟کی گل اے؟کدھر چوری ہوئی اے۔ کدھر چوری ہوئی؟
بنواری:(آنند کی طرف اشارہ کر کے) یہ دیکھئے آج کل کے جنٹلمنا بکا ر کوئی کام نہ ملا تو یہی پشہے اختاکر کر لاھ۔ دن دہاڑے ڈاکہ ڈال رہے ہںو۔ مر ے دوست ہںن نا پنڈت بھولا ناتھ۔ مںٹ ان سے ملنے کے لئے آ رہا تھا دیکھتا ہوں تو آپ اندر داخل ہو رہے ہںف۔ یہ بگئ شاید پہلی بار نکال کر رکھ چکے تھے۔(آنند کی طرف دیکھ کر طنز سے) اترئےد صاحب۔ اب ذرا چند دن بڑے گھرکی روٹاپں توڑئےک۔
ہندوستانی:(آگے بڑھ کر) یہ بگس اٹھا رہے تھے؟
بنواری:نانا۔ اسے ہاتھ نہ لگائےب۔ اس مںو سب گہنے بند ہوں گے۔ پولست ہی آ کر کھولے گی۔
آنند:(جو بالکل گھبرا گاا ہے)مں ۔ مں ۔
مارواڑی:ابے شالہ مںب مںس کیا۔ نچے اتر۔ مار مارکر بھوسا بنا دیں گے۔
ہندوستانی:(فلسفاانہ انداز مںس) آج کل بکا؟ری نے نوجوانوں کو چور اور ڈاکو بنا دیا ہے۔
پنجابی:اوے۔ اتراوے۔ اوتھے ٹنگیا ایں۔ سوٹ تادیکھو جویں ناڈھوخان داملا ہوندا اے۔
(آگے بڑھ کر پروفسرو آنند کو پاؤں سے پکڑ کر گھسٹتا ہے۔ وہ دھم سے زمنب پرآ گرتے ہںد۔ وہ پنجابی نوجوان دو چار گھونسے تھپڑ ان کے رسد کر دیتا ہے۔ آنند غصے اور بے عزتی سے جل کر کہتا ہے۔)
آنند:مںر پنڈت بھولا ناتھ کا دوست پروفسرن آنند۔۔۔
پنجابی:چل چل پروفسرپ دا بچہ۔ جا کے تھانے والا۔ں نوں دسںر کہ توپروپھیسر ہںآ یا ڈپٹی۔
(سب قہقہہ لگاتے ہں ۔)
بنواری:مں بھی ان کا دوست ہوں لکن ان کی غرں حاضری مںی چوری تو نہںت کرتا پھر تا۔
مارواڑی:آج کل جمانوالویئی چھے۔ بابوجی کائی کریو جائے۔
(آج کل کا زمانہ ہی ایسا ہے بابو جی کیا کیا جائے۔)
بنواری:(گرج کر) مںی ابھی پولسج کو ٹیر۔ فون کرتا ہوں۔ آپ اسے پکڑے رکھںت۔ (جاتے ہوئے) دیکھئے بگا کو ہاتھ نہ لگائےر۔
(کئی اور لوگ داخل ہوتے ہںی۔)
(’’کیا ہوا۔ کیا ہوا۔‘‘ کا شور مچ جاتا ہے۔)
مارواڑی:(نو واردوں سے) یہ چور چوڑے دہاڑے چوری کر رہو چھو شاپ۔
(یہ چور دن دہاڑے چوری کر رہا تھا۔)
ہندوستانی:(طنز سے) جنٹلمن چور!
آنند:مںا کہتا ہوں۔
پنجابی:(ایک اور تھپڑ رسدت کر کے) تون کہنا ایں نائے چور نائے پتر۔
(بھڑن کو چروتا ہوا بھولا ناتھ آتا ہے۔)
بھولا ناتھ:کیا بات ہے؟کیا بات ہے؟
مارواڑی:بچ گاو۔ چھے شاپ۔ تھاکے چوری کرہو چھو۔
ہندوستانی:سمجھئے بچ گئے۔ آپ کے دوست نے عنر موقع پر چوری کرتے ہوئے پکڑ لان۔
آنند:(جس کا حوصلہ بھولا ناتھ کے آنے سے بڑھ گاو تھا) مں کہتا ہوں۔
مارواڑی:(لپک کر)تو کائںڑ کہے چھے۔
ہندوستانی:(ادا سے) یہ کہتا ہے۔
پنجابی:ایہہ کہندا اے (چبا چبا کر) نالے چورنالے چتر۔
(سب ہنستے ہںہ۔ بھولا ناتھ بڑھ کر آنند کو پنجابی کی گرفت سے چھڑاتا ہے۔)
بھولا ناتھ:چھوڑئےا چھوڑئےت آپ سب جائےے۔ یہ مر ے دوست ہں ۔ مں ان سے نمٹ لوں گا۔
ہندوستانی:لکنڑ چور۔
بھولا ناتھ:مںن کہتا ہوں انھوں نے کوئی چوری نہںے کی۔ آپ جائےو مروی بوری آ رہی ہے۔ آپ سب سڑکھااں روکے کھڑے ہںی۔
(سب بڑبڑاتے ہوئے چلے جاتے ہںل۔)
پنجابی:(رک کر) پردہ بابو۔
بھولا ناتھ:(چخت کر) وہ بدمعاش گاچ نہںے۔
(پنجابی جلدی جلدی جاتا ہے۔)
آنند:وہ تو پولسی مںن رپورٹ لکھوانے گاا ہے۔
بھولا ناتھ:آخر ہوا کیا؟
آنند:ہونا کیا تھا سب اس کی بدمعاشی ہے۔
بھولا ناتھ:آخر بات کیا ہوئی؟
آنند:ہوتی کیا؟تمہارے جانے کے بعد مںگ لٹو گات تو کچھ ہی دیر بعد وہ آیا۔پہلے شاید تمہںی آوازیں دیں۔ پھر تالا دیکھ کر بڑبڑایا۔ پھر چارپائی گھسٹں کر بالکل اسی دروازے کے آگے لٹہ گا ۔ پھر مںی۔۔۔
بھولا ناتھ:تمہارے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہئے تھا۔ کہا جو تھا چلو ہمارے ساتھ۔
آنند:ساڑھے تنت بجے مجھے پرنسپل صاحب سے ملنا تھا۔ آخر انتظار کر کے مںے تاار ہوا لکنڑ جاؤں کدھر سے۔ دروازے کے شگاف سے روشن دان تک چڑھا پھر دھوتی باندھ کر اترنے لگا تھا کہ۔۔۔
بھولا ناتھ: اور وہ تمہارا استاد نکلا۔ مں نے کہا تھا اول درجے کا بدمعاش ہے۔
آنند:اس نے چور، چور کا شور مچا دیا اتنے آدمی اکٹھے کر لئے اور اس پنجابی نے کئی تھپڑ مجھے رسدر کئے۔
(بنواری داخل ہوتا ہے۔)
بنواری:(جسےل کچھ جانتا ہی نہںر)عجب دوست ہںھ آپ کے یہ تو سب کچھ اٹھا کر ہی لے چلے تھے۔
بھولا ناتھ:آپ کو شرم نہںت آتی۔ یہ تو اندر ہی تھے۔
بنواری:لکنو مجھے کیا معلوم تھا۔ مںد نے آوازیں دیں۔ یہ بولے تک نہںے۔
بھولا ناتھ:سور رہے ہوں گے۔
بنواری:تو جب بدےار ہوئے تب مجھے آواز دیتے۔ روشن دان سے اترنے کی کیا ضرورت تھی۔
بھولا ناتھ:اچھا ہٹائےج۔ اس قصے کو۔ کملا کی طبعتی خراب ہو رہی ہے۔ مںو اسی گاڑی سے اسے گورداس پورلے جاؤں گا۔ چلو آنند تم بھی مراے ساتھ چلو۔ اب پرنسپل صاحب سے کل مل لنار۔
بنواری:آپ گورداس پور جا رہے ہںا۔ آپ کا سسرال تو نواں شہر ہے۔
بھولا ناتھ:(بے پروائی سے) وہاں کملا کے بڑے بھائی رہتے ہںح۔
بنواری:بھائی؟!
بھولا ناتھ:مودنسپل کمیہس مںم ہڈ کلرک ہںو۔
بنواری:موانسپل کمیرک مںا (مسرت سے ہلکی سی تالی بجا کر) یہ آپ نے اچھی خبر سنائی وہاں موونسپل کمی آ مںھ مجھے کام ہے۔ مںل خود پریشان تھا۔ سوچتا تھا کہاں ٹھہروں گا۔ کسےے ہڈی کلرک سے ملاقات کروں گا۔ وہاں مر ا کوئی واقف نہںم۔ اب آپ ساتھ ہوں گے تو سب کچھ بآسانی ہو جائے گا۔ ٹھہرئےہ مںی بگت اٹھا لوں۔
(بڑھ کر بگا اٹھاتا ہے۔)
پردہ گرتا ہے

***
ماخذ:’’نئے ڈرامے ‘‘، پروفسرو محمد حسن، مرتبہ :محمدقاسم صدییق، انجمن ترقی اردو(ہند)ایجوکشنل بک ہاؤس ۔دلی/علی گڑھ

ٹرنک کال
افراد

گورنام:مشہور فلم پروڈیوسر۔ عمر ۴۵برس
ہرنام:اس کا چھوٹا بھائی اور منجرھ۔ عمر۴۰سال
کرٹ:مزاحہش ایکٹر
ستندمر:عام اداکار
شری ہر:جوتشی
وکلد:کمپنی کا قانونی صلاح کار
پانڈے اور مشرا:لڑکی کے لئے بات کرنے والے
چپراسی:عمر۵۵برس
مقام:بمبئی کے مشہور فلم پروڈیوسر گورنام پنجوانی کا دفتر
وقت:حال کا

منظر

(پردہ اٹھنے پر گورنام آرام کرسی پر لیٹا ہے اور مزاحیہ اداکار کرٹ جس نے اس کی تازہ فلم میں ایک چھوٹا سا رول لے رکھا ہے اور آئندہ فلم میں بڑا رول پانے کی کوشش میں ہے اس کے پاؤں دبا رہا ہے۔)

گورنام:تم مرڑی عادت بگاڑ دو گے کرٹ۔ مرھی زندگی مںا ایسے دن بھی آئے ہںں ، جب مںا نے ہفتوں مہنوکں سولہ سولہ گھنٹے کام کیا ہے ، لکنی نہ کبھی مجھے تکان محسوس ہوئی اور نہ مں نے کسی سے پرٹ دبوائے۔ (ہنس کر) اور جب سے تم کمپنی مں آئے ہو اور مٹھی چاپی کرنے لگے ہو، مررا جسم بھی درد کرنے لگا ہے اور مجھے پاؤں دبوانے کی خواہش بھی محسوس ہونے لگی ہے۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ تم اوم پرکاش، آغا، کنہاجلال یا محمود کی طرح مشہور ایکٹر ہو گئے تو۔۔۔
کرٹ:گورنام صاحب یہ سب تو مزاحہے اداکار ہںچ ، بھگوان کرنے مںک ہر و ہو جاؤں تو بھی ان قدموں کی دھول اپنے ماتھے پر لگانا اپنی خوش قسمتی سمجھوں گا۔ آپ نے مجھے بریک دیا ہے۔ مںم آپ کو اپنے استاد اور بڑے بھائی کے برابر سمجھتا ہوں۔
(اور بھی جوش سے پنڈلی دبانے لگتا ہے۔)
گورنام:نہ جانے آج کندھے کو ں درد کر رہے ہں۔۔
کرٹ:(جلدی سے اٹھ کر کندھے دباتے ہوئے) آپ کام بھی تو بہت کرتے ہںل گورنام صاحب۔ اس ساری انڈسٹری مںے ایک بھی پروڈیوسر نہںت ، جو آپ کے مقابلے مںل نصف کام بھی کرتا ہو۔ مںس نے تو اسی لئے آپ کو اپنا آدرش بنا لاے ہے۔
(تندہی سے کندھے دباتا ہے۔ ہرنام تزد تزد داخل ہوتا ہے۔)
ہرنام: بھائی صاحب کیا یہ سچ ہے؟
گورنام:کیا سچ ہے؟
ہرنام:ییے جو مںا سن رہا ہوں۔
گورنام:کیا سن رہے ہو؟
ہرنام:بھابھی کو آپ نے ان کے مکےت بھجب رکھا ہے۔۔۔ جموں۔۔۔ سال بھر سے اور۔۔۔
گورنام:سال بھر سے نہںے ، مشکل سے نو مہنےی۔۔۔ (ٹیں۔ فون کی گھنٹی بجتی ہے) کرٹ ذرا دیکھنا کون ہے؟
کرٹ:(کندھے دبانا چھوڑ کر فون کا چونگا اٹھاتا ہے) ہلوب۔۔۔ ڈبل تھری، ڈبل فور، ڈبل فائوے!۔۔۔ کون صاحب بول رہے ہںب۔۔۔ کھوسلہ صاحب (گھگھیاتی آواز مںت) آداب۔۔۔ آداب! مںر آپ کا پرانا خادم کرٹ۔۔۔ جی ہاں۔۔۔ جی ہاں۔۔۔ ابھی دیتا ہوں۔(فون اٹھا کر گورنام کے پاس لے جاتے ہوئے) کھوسلہ صاحب کا فون ہے۔
گورنام:(فون کا چونگا لے کر)آداب عرض حضور کھوسلہ صاحب۔۔۔ ہاں ہاں آپ کی مہربانی ہے۔ بس آخری ریل کی ایڈیٹنگ باقی ہے۔ مرلی بے انتہا خواہش ہے کہ ریز۔ سے پہلے آپ اسے ایک نظر دیکھ لںق۔۔۔ ارے نہںن حضور، آپ تو خود فرمایا کرتے ہںہ۔۔۔ بڑے سے بڑا پروڈیوسر نں۔ جان پاتا کہ اس کی فلم ہٹ ہو گی یا فلاپ!۔۔۔ ہاں مروی چار چار فلمں ہٹ ہو گئی ہں ۔ لکنس پانچویں فلاپ نہںی ہو گی، اس کی کیا گارنٹی ہے؟۔۔۔ اپنا زور تو حضور کھوسلہ صاحب محنت پر ہے۔ کاماںبی یا ناکامی تو اوپر والے کے ہاتھ مںا ہے۔ ہاں۔ ہاں ٹھکا۔۔۔ طے۔۔۔ نہایت شکر گزار ہوں گا۔ آداب عرض!
ہرنام:(بڑے بھائی کے ہاتھ سے چونگا لے کرٹ کو تھماتے ہوئے) کرٹ اسے ادھر رکھو۔(گورنام سے) نو ماہ بھی بھابھی کو جموں گئے ہو گئے تو کم نہںو ہں سنا ہے۔ انہںا مکےا بھجا کر آپ دوسری شادی رچانے کی فکر مں؟ ہںی۔
گورنام:کون کہتا ہے؟
ہرنام:کوئی بھی کہتا ہو۔ آپ سنے پر ہاتھ رکھ کر کہئے ، جھوٹ ہے؟
(ستند:ر داخل ہوتا ہے۔)
گورنام:کیا بات ہے ستندسر، گھبرائے ہوئے کواں ہو۔
ستندار:مںت ابھی فمس اسٹوڈیو سے آ رہا ہوں۔ سلوانا نے فلم ایڈٹ کرتے ہوئے مریے دو سنگ ہی گول کر دئے۔
گورنام:تم ان دونوں مںخ کانپ رہے تھے۔
ستندار:وکرم نے جتنی بار کہا، مں نے ریہرسلںر دیں۔ جب تک اس نے اوکے نہںو کیا ، مں نے بس نہںی کی۔
گورنام:ہاں ، لکنک جسےپ ہی وکرم کہتا۔۔۔ ٹکھ(Take) کمر ا آن ہوتا۔ تم کانپنے لگتے۔ تمہاری خوشی کے لئے مںر نے سن بڑھادیا۔ تمہارا کلوز اپ شاٹ لنےو کی ہدایت دے دی۔ لکنن افسر کے آتے ہی سپاہی اٹنشن۔ (Attention) مںر ہو کرسلواٹ مارے ، کمررے مںس اس کا کلوز اپ ہو اور اس کا ہاتھ کانپتا دکھائی دے تب اس سنt کو کاٹ دینے کے سوا کیا چارہ ہے۔ سلوانا نے نہںا ، مںپ نے ہی اسے تلف کرنے کی ہدایت دی تھی۔
ستندنر:کچھ مناظر تو آپ دوبارہ شوٹ کرنے والے ہںر نا۔ اس سنا کو بھی ری ٹکو کر لجئےے گا۔ یناس دلاتا ہوں۔ اب کے ہاتھ ذرا نہں کانپے گا۔
گورنام:دیںھک گے۔۔۔ تم کہتے تھے۔۔۔ وکلر اور پانڈے آج ہی آئں گے۔ کیا ہوا ان کو؟ کیا وکل نے کاغذات تاھر نہںظ کئے۔
ستندار:بس مںہ ادھر ہی جا رہا ہوں۔
گورنام: اوراس جوںتش اچاریہ پرکیا بنی۔ وہ کوآں نہںک آیا؟
ستندار:ادھر تو کرٹ جانے والا تھا۔
کرٹ:جورتشی جی نے آج آنے کو کہا تھا۔ مںم ابھی فون کرتا ہوں۔ (دھمےآ لہجے مں ) یوں انھوں نے کہا تھا کہ پچھلے مہنے سے لے کر ایک سال اور اکسہ دن تک آپ کے گھر لڑکا ہونے کا جوگ ہے۔ شری ہری راج جویتشی ہںھ اور ان کی بات کبھی غلط نہںک ہوتی۔
گورنام:ستندار!تم جاؤ۔ اس معاملے کو ادھر ادھر کرو(کرٹ سے) تم فون اٹھا کر باہر لے جاؤ۔(کرٹ فون اٹھا کر باہر جانے لگتا ہے۔) اور ذرا ان جو تش اچاریہ کا پتہ کرو۔ فون نمبر تویاد ہو گا تمہں ؟
کرٹ:جی یاد ہے۔
گورنام:دیکھو چپراسی سے کہہ دو کسی کو اندر آنے کی اجازت نہ دے۔ کوئی بہت ضروری فون آئے تو نمبر لے لے۔ کہہ دے صاحب باتھ روم مںا ہں ۔ ابھی فون کریں گے۔ غرو ضروری ہو تو ٹال جائے۔
کرٹ:جی بہت اچھا۔
(فون لے کر چلا جاتا ہے۔)
ہرنام:آپ مجھے بس اتنا بتا دیجئے بھائی صاحب کہ بھابھی مںہ خامی کیا ہے؟ اتنی خوبصورت، سمجھدار، سلقےے اور سگھڑاپے والی، شائستہ اور پڑھی لکھی خاتون ساری فلمی دنا مںو ڈھونڈنے سے نہںب مل سکتی۔
گورنام:مںے کب کہتا ہوں۔
ہرنام:تو۔۔۔
گورنام:تو۔۔۔
ہرنام:تو آپ کواں یہ گناہ کرنے جا رہے ہںا۔
گورنام:کیا بکتے ہو؟
ہرنام:گناہ ہی نہںک ، یہ جرم بھی ہے۔ آپ تو ہمشہ کہا کرتے ہںی کہ فلمی دناہ مںر آپ کی اس حرات انگزں ترقی کایی راز ہے کہ آپ کبھی شراب اور عورت کے چکر مںر نہںھ پڑے۔
گورنام:اب بھی مںا کسی چکر مںی نہں ہوں۔
ہرنام:چکر مںت ہونا اور کسے کہتے ہںہ۔ یہ ستن سالا جے کے مںک دلالی کرتا تھا۔ یہاں آ کر آپ کے ایسا منہ لگا ہے کہ نہایت ہی غر اہم معمولی سا اس کا پارٹ ہے اور اسے بھی ری ٹکں کرنے کے لئے آپ پر زور دے رہا ہے۔ یہ سالے تو زندگی بھر ایکٹر نہںا بن سکتے۔ لکن اپنی غرض کے لئے آپ کو تو کسی نہ کسی گہرے گڑھے مںی ڈھکلہ سکتے ہںے۔
گورنام:دیکھو ہرنام! مجھے اس بمبئی مںں رہتے پندرہ برس ہونے کو آئے ہںن اور جہاں مر ے شروع کے ساتھی آج بھی فٹ پاتھوں پر سوتے ہںا مںب کامایبی کی چوٹی پرجا پہنچا ہوں اور تم دلی مںی کلرکی کرنے کے بجائے تنا ہزار روپہ ماہانہ پا رہے ہو۔ تم اتنا سمجھ لو کہ اپنا بھلا برا، فائدہ نقصان مںپ خوب سمجھتا ہوں۔ یہ بھی کہ مںہ کوئی گناہ کر رہا ہوں ، نہ کوئی جرم، یاد رکھو کہ مںج نے تمہاری شادی کر دی۔ الگ فلٹ دے دیا الگ کار لے دی۔ تمہاری اپنی نجی زندگی مںک کسی طرح کا دخل نہںب دیا۔۔۔ اس وقت بھی نہں جب ننا کے قصے کولے کر تمہاری بوری روتی ہوئی یہاں آئی تھی۔۔۔
ہرنام:اسے محض وہم تھا۔ آپ جانتے ہںی۔
گورنام:تمہںو بھی محض وہم ہے اور یہ مں جانتا ہوں۔
ہرنام:معاف کجئےہ گا بھائی صاحب!بھابھی کو مںا ماں کے برابر مانتا آیا ہوں۔ مںھ تو مٹردک مں پڑھتا تھا جب آپ کی شادی ہوئی تھی۔ بھابھی نے مجھے اپنے بچے جی محبت دی ہے۔
گورنام:مجھے بھی(قدرے ہنستا ہے) لکنھ اس سے کوئی فرق نہں پڑتا۔ دس برس ہونے کو آئے ہں مر ی شادی ہوئے اور مں: نے اولاد کا منہ نہںہ دیکھا۔۔۔ یہ سالی زمنن جائدےاد، یہ فلٹس، یہ سٹوڈیو، یہ کاریں ، یہ فارم۔۔۔
ہرنام:مںا سمجھتا ہوں بھائی صاحب۔ لکنض مںا یین عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آپ بہت جلدی نا امدے ہو گئے ہںت۔ جب آپ کی شادی ہوئی تو بھابھی صرف پندرہ برس کی تھںی اور اب پچسل برس کی ہں ۔ کیا عمر گزر گئی ان کی ماں بننے کی؟ڈاکٹر سب نس۔۔۔
گورنام:ارے ان ڈاکٹروں۔ ڈاکٹروں کو کچھ نہںھ آتا۔ ہے کوئی بمبئی کی مشہور لڈیی ڈاکٹر یا ایکسپرٹ ڈاکٹر جسے مںر نے ارملا کو نہںح دکھایا۔ کون سا ٹسٹی ہے جو مںر نے اس کا نہںٹ کرایا۔ سبھی کہتے ہںک کوئی نقص نہںر۔۔۔ کوئی نقص نہںا تو بچہ کوںں نہں۔ ہوتا۔
ہرنام:نقص آپ مںہ بھی تو ہو سکتا ہے۔
گورنام:تم سمجھتے ہو کہ مجھ مںہ نقص ہوتا تومں جان نہ پاتا۔ مجھے ین ک ہوتا کہ مجھ مںے نقص ہے تومںی دوسری شادی کرنے کی سوچتا؟
ہرنام:مںص نے ڈاکٹر سب نس سے پوچھا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ بظاہر اس سلسلے مںم سب کچھ ٹھکل معلوم ہوتا ہے۔ آدمی عورت کے پاس جاتا ہے۔آدمی کو کوئی کمی محسوس نہںے ہوتی۔ مرد عورت دونوں مطمئن بھی ہوتے ہںت، لکنی۔۔۔
گورنام:ڈاکٹر پاریکھ نے بہت اچھی طرح دیکھا ہے۔ نہایت باریی سے معائنہ کیا ہے۔ مر ے لاکھ انکار کے باوجود اس نے مجھے انجکشن لگا دئے۔ اس بات کو بھی سال بھر ہونے کو آیا ہے۔
ہرنام:آپ ذرا ڈاکٹر سب نس سے مشورہ۔۔۔
گورنام:مجھے کسی سب نس اب نس سے مشورہ نہںس کرنا۔ مرآے ساتھ بے کار کی بحث مںم وقت ضائع کرنے کے بجائے بہتر ہوتا کہ تم آخری ریل بھی لے آتے۔ مںس نے کھوسلہ صاحب سے فکس کیا ہے۔ کل گادرہ بجے انہںئ گولڈی کے پروجکشنہ ہال مں فلم دکھانی ہے۔
ہرنام:آپ نے مجھ سے راجشم کھنہ کے ہاں جانے کو کہا تھا۔۔۔ اگلی فلم کے لئے اس سے بات کرنے کے سلسلے مںن۔
گورنام:ٹھکج ہے ، تم اپنے کمرے مںہ جا کر فون پراس کے سکریٹری سے بات کر کے ٹائم لے لو۔ وہ وقت دیدے تو آج رات ادھر چلے جانا۔ ابھی فمس مںا فون کرو۔ دیکھو اگر ایڈیٹنگ ختم ہو گئی ہو تو جا کر فلم لے آؤ۔
ہرنام:جی بہتر، لکنل مںم نے جو عرض کیا ہے ، اس پر ٹھنڈے دل سے غور کئے بغرک جلدی مںہ کوئی فصلہ نہ کجئےں گا۔ شادیاں تو، اب آپ طاقتور ہںے ، دس کر سکتے ہں ۔ لکنر نبھاؤ مشکل ہو جاتا ہے۔ آپ نے دیکھا نہںب جنیجا کو۔ اسی چکر مں، اس کی پہلی بوںی نے خودکشی کر لی اور دوسری نے اس کی زندگی وبال کر رکھی ہے۔
گورنام:تم مرھی فکر نہ کرو۔ اپنے کام دیکھو۔
ہرنام:مں آپ کو شکایت کا موقعہ نہںھ دوں گا۔
(چلا جاتا ہے۔ گورنام اٹھ کر کچھ لمحے چپ چاپ کمرے مںے ٹہلتا ہے۔ پھر کرسی پر آ بٹھتا ہے اور بزر دباتا ہے۔ دوسرے لمحے چپراسی حاضر ہوتا ہے۔)
چپراسی:حضور!
گورنام:ذرا کرٹ کو بھجو۔۔
(چپراسی چلا جاتا ہے۔ دوسرے لمحے کرٹ داخل ہوتا ہے۔)
کرٹ:مںا نے آپ سے عرض کیا تھا نا کہ شری ہری ضرور آئںی گے۔ مںم نے ان کے فلٹہ پر فون کیا تو معلوم ہوا، کب کے چل چکے ہںں۔ ادھر فون رکھا، ادھر دروازے مںد ان کے درشن ہوئے۔ (دروازہ ذرا سا کھول کر) آئے، جواتشی جی!
(شری ہری، شری ہری، کا جاپ کرتے ہوئے جو(تشی جی داخل ہوتے ہںے۔ نام تو ان کا مدن گوپال ہے ، لکنل متواتر شری ہری کا نام جپنے سے وہ خود شری ہری کہلانے لگے۔)
گورنام:کہئے پنڈت جی، دییھو ہماری کنڈلی؟
شری ہری:آپ کا آدیش(حکم) ہو اور ہم نہ مانں۔ ، یہ کسےل ہو سکتا ہے۔ شری ہری۔۔۔ شری ہری۔۔۔ بھگوان ساکشی (گواہ) ہے سات کنڈلایں بننے کو پڑی تھںن۔ کھوسلہ صاحب کے ناتی کی کنڈلی بنانی ہے ، روپہو انھوں نے پیگن بھجوا دیا ہے ، لکنا ایک کشن کا اوکاش (فرصت) نہںں ملا اور ان کے فون پر فون آ رہے ہںپ۔ کیا کروں ، سارا دن تو لوگ آتے رہتے ہںن۔ رات گامرہ بجے سے پہلے تو اوکاش ہی نہںت ملتا۔ کل رات بارہ بجے آپ کی کنڈلی لے کر بٹھا تو تن بجے اٹھا۔ شری ہری۔۔۔ شری ہری۔۔۔
گورنام:کچھ بتائےو بھی مہاراج ، شری ہری نے ہمارے بھاگہک مںک کیا لکھا ہے۔
شری ہری:فلم تو آپ کی ہٹ ہو گی۔ سو مںے پچھتر بسوا۔ شری ہری۔۔۔ شری ہری۔۔۔
گورنام:یہ پچس فصدکی کی رکاوٹ کسےں لگا دی مہاراج۔
شری ہری:بات یہ ہے کہ بھگوان شنی ذرا وکری (ٹڑکھا) ہے۔ اس کا جاپ کر دوں گا۔ آپ چنتا نہ کریں۔ یوں بھی ڈھائی تنت مہنےہ کے بعد یہ سویمیو (اپنے آپ) سد ھا ہو جائے گا۔ فلم ایک دم ریزن نہ کریں۔ شنی مہاراج کو ذرا سدشھے ہو لنےن دیں۔ شری ہری۔۔۔ شری ہری۔۔۔ اور جسا۔ مں۔ نے نویدن کیا تھا، نلمں کی انگوٹھی۔۔۔
گورنام:مںا نے شہر مںن اکسی سنماہ ہال بک کر رکھے ہں ۔ ایک ہی دن سب مںی ریزا، ہو گی۔
شری ہری:تو۔۔۔ تو۔۔۔ آپ۔۔۔
گورنام:کہئے کہئے !
شری ہری:بات یہ ہے کہ آپ کی کنڈلی مںے کسی متر کے ہاتھوں لابھ کا جوگ ہے۔ کیا ایسا نہں ہو سکتا کہ اس فلم مںر آپ کسی کو ساجھے دار بنا لںس۔
گورنام:ساجھے دار تو دس بن جائںج گے۔ چار چار ہٹ فلمں بنا چکا ہوں۔ لکنی آپ ایسا کومں سوچتے ہںل؟
شری ہری:بات یہ ہے کہ جس متر کو ساتھی بنائںب گے اگر اس کا سنچر شکتی شالی ہو گا تو آپ کا وکری شنی کٹ جائے گا اور بھگوان کی کرپا سے چاروں کھونٹ وجے تا پھہرے گی۔ شری ہری۔۔۔ شری ہری۔۔۔
گورنام:ٹھک ہے ، آپ کہتے ہںں تو۔۔۔
شری ہری:لکنا جن جن سے بات کریں ، ان کی کنڈلاسں بہانے سے لے کر مجھے دکھا دیں۔
گورنام:یہ کرٹ کہتا ہے کہ مرہی کنڈلی مںس آپ نے کچھ اور بھی دیکھا ہے۔
شری ہری:بات یہ ہے کہ گرہوں کی ورتمان دشا کا لکھا جوکھا کرنے لگا تو یونہی سوریہ سنگھتا اٹھا کر پھلادیش پڑھنے لگا۔معلوم ہوا کہ اس سال آپ کے گھر سنتان اتپتی کا جوگ ہے۔وہ بھی بالک کا۔ شری ہری۔۔۔ شری ہری۔۔۔
گورنام:(سرگوشی مںر) مںپ پنڈت جی مں۔ دوسری شادی کرنے کی سوچ رہا تھا۔ تھوڑی دو ودھا تھی، سو آپ کی اس پشنل گوئی سے دور ہو گئی۔ ہو سکا تو مںس آج ہی شام طے کر لوں گا۔ نہںھ توکل یناً
شری ہری:پرنتو باتہ کو جوگ تو۔۔۔
(سر کھجلانے لگتا ہے۔)
گورنام:نہںل ہے کیا؟
شری ہری:دھاتن نہںگ دیا۔ کنڈلی دیکھ کر ہی بتا سکتا ہوں۔
گورنام:کیا مرتی پتری آپ ساتھ نہںو لائے۔
شری ہری:مںا واستو مں (حققت ) مںس گھر سے سدیھا ادھر نہںو آیا۔ ڈائریکٹر شنکر کے ہاں چلا گاا تھا۔ وہاں سے مہتہ صاحب کے یہاں چلا گا؟۔ وہاں سے چٹرجی کے۔۔۔ گھر سے سد ھا ادھر آتا تو۔۔۔
گورنام:مجھے آپ کی رائے آج ہی، بلکہ ابھی چاہئے۔
شری ہری:تو ایسے کجئے ، مجھے سٹوڈیو کار میں بھجے دیجئے۔ مںی جا کر کنڈلی دیکھتا ہوں اور آپ کو فون پر بتا دیتا ہوں۔
گورنام:جائے کرٹ آپ کو مروی کار مںم لے جائے گا۔(کرٹ سے) کرٹ جو۔تشی جی کو ذرا کار مں ان کے ہاں پہنچا دو۔
کرٹ:آئے پنڈت جی۔
شری ہری:(چلتے چلتے ذرا رک کر) کہںا کچھ بات چل رہی ہے؟ لڑکی کی کنڈلی دیکھے بنا۔۔۔
گورنام:وہ سب ہو جائے گا۔ آپ جوگ تو دیکھئے۔
شری ہری:ٹھکپ ہے ، مںک گھر پہنچتے ہی پتری دیکھ کر آپ کو فون کرتا ہوں۔
گورنام:یہ لجئے یہ ایک ہرا پتا رکھئے۔
شری ہری:(نوٹ لے کر جب مںں رکھتے اور گھگھیا کر ہنستے ہوئے) ارے بھگوان یہ پھر آ جاتا۔ ہں ہں ۔۔۔ ہںر ہں ۔۔۔ اچھا تو۔۔۔ چلوں !
(جونتشی جی ماتھے پر دونوں ہاتھ لے جاتے ہںر اور شری ہری، کا جاپ کرتے ہوئے چلے جاتے ہں ۔ گورنام مزک پر ٹانگںں پسار کر پچھے کو لٹک جاتا ہے۔ چپراسی داخل ہوتا ہے۔)
چپراسی:سرکار وکل صاحب آئے ہںو۔
گورنام:ان کے ساتھ بھی کوئی ہے۔
چپراسی:وہی پانڈے جی اور مشرا جی ہںھ ، جو دو تنں دن سے آ رہے ہںھ۔
گورنام:بھجک دو اور کیلے مںا فوراً چائے کے لئے پانی چڑھا دو۔
چپراسی:پانی تو گرم ہے۔ ہرنام صاحب کے لئے چائے بن رہی ہے۔
گورنام:تو تنل چار پلٹوحں مں بسکٹ رکھ کر چائے لاؤ۔
چپراسی:جی بہتر(دروازہ کھول کر) آئےا وکلا صاحب۔
(شری برج رتن پانڈے اور درگا پرشاد مشرا کے ساتھ وکلل صاحب۔ داخل ہوتے ہں۔۔)
گورنام:(کھڑے ہو کران کا خر مقدم کرتے ہوئے) آئےت۔۔۔ آئےا۔۔۔ تشریف رکھئے۔
وکلن:کاغذ تو مں نے رف سب تائر کر دئے ہں۔۔ ان کو دکھا بھی دئے ہں ۔ اسٹمپ پپرً آپ کے نام سے خرید لئے ہںن۔ آپ ایک نظر دیکھ لںل تو مں۔ اسٹمپ پپرت پر معاہدہ ٹائپ کرا دوں۔
گورنام:دکھائےغ۔
(وکلچ گورنام کو کاغذ دکھاتا ہے۔ گورنام خاموشی سے پڑھتا ہے۔ اس دوران چپراسی طشتریوں مں بسکٹ اور ردسی گلاس سٹنڈوز مں چائے کے گلاس ٹرے مںخ سجا کر لاتا ہے اور سب کے آگے رکھتا ہے۔)
گورنام:(معاہدہ پڑھنے کے بعد) کوقں پانڈے جی، آپ نے پڑھ لاہ؟
پانڈے :(قدرے ہنس کر) دیکھئے ، اس سب کی ضرورت نہ تھی، لکن مں نے کہانا کہ لڑکی کے ماما نے اس کی ماں کو بہکا دیا۔
گورنام:ہاں۔۔۔ ہاں۔۔۔ وہ بجا ہے۔ ماما جی کو اس طرح سوچنا اور لڑکی کی ماں کا ڈرنا عنھ واجب ہے۔ ماما جی کی جگہ مںل ہوتا تو یہی کرتا اور کہتا۔ یوں تو جہاں تک شاستروں کا تعلق ہے ہندو وواہ اٹل اور اٹوٹ ہے۔ شوہر ذات بدل لے تو بھی نہںی ٹوٹتا۔ لکن۔ جب سے ناو قانون بنا ہے ، مردوں کو وہ پہلے کی سی آزادی نہںا رہی۔ طلاق کے بغر دوسری شادی کو سرکار غر قانونی مانتی ہے۔ نہ دوسری بو ی اور اس کے بچوں کو باپ کی جائدںاد مں کسی طرح کا قانونی حق ہی دیی ہے۔ آپ زور نہ دیتے تو بھی مں یہ سب لکھا پڑھی کرتا۔ لکن خرئ معاہدے کا یہ رف ورژن آپ پڑھ لں اور دیکھ لںج ، کوئی بات رہ گئی ہو تو۔۔۔
پانڈے :نہںو جی، مں نے دیکھ لاک ہے۔ مں مطمئن ہوں۔
گورنام:مشرا جی کو دکھا دیا ہے؟یہ لڑکی کے پھوپھا ہںہ ، ان کی تسلی ہونا لازم ہے۔
پانڈے :ان کے سامنے ہی مںا نے ساری باتںہ وکلت صاحب کو لکھوائی ہںی۔
گورنام:تو آپ کب اس معاملے کو پکا کرنے کی سوچتے ہںں؟
پانڈے :ہماری طرف سے آپ پکا ہی سمجھںا۔ ہمں صرف لڑکی اور اس کے ہونے والے بچوں کے مستقبل کی فکر تھی۔ سو اس سب کا انتظام آپ نے کر دیا ہے۔۔۔ اور ہمںو کچھ نہںب کہنا۔
گورنام:تو۔۔۔
پانڈے :تو آپ کا مطلب ہے کہ تلک۔۔۔
گورنام:ہاں !مں بے حد مصروف آدمی ہوں ، مجھے اپنی نئی پکچر ہی ریزکے نہںی کرنی ہے ، نئی کا مہورت بھی کرنا ہے۔
پانڈے :تلک کا کیا ہے۔ آپ کہئے تو آج یا کل۔۔۔
گورنام:آج، کل اور پرسوں۔۔۔ تنآ ہی شامںی مریی خالی ہںر۔ یینو فی الحال۔۔۔ دو گھنٹے بعد کیا صورت حال ہو گی، مں، نہں۔ جانتا۔
پانڈے :کو،ں مشرا جی ، آج شام کو رکھ لں ۔ انتظام ہو جائے گا۔
گورنام:آپ کو کیا اہتمام کرنا ہے۔ آپ کو صرف چز وں کی فہرست دییں ہے۔ مرنا آدمی کار مںو جا کر سارا سامان خریدوا دے گا۔ دو کاریں آپ کے ڈسپوزل پر ہوں گی۔ کتنے آدمی آئںو گے لڑکی کے ساتھ۔۔۔
پانڈے :کواں مشراجی۔۔۔
گورنام:کیا یہ مناسب نہ ہو گا کہ ہم لڑکی اور اس کی ماں کو بھی یہ کاغذات دکھا دیں۔
پانڈے :مںا سمجھتا ہوں ، جو جو آپ کی سلہج نے چاہا ہے ، مں نے کانٹریکٹ مںا درج کرا دیا۔۔۔ تو بھی اگر آپ چاہتے ہں ۔۔۔ کورں گورنام صاحب؟
مشرا:بات یہ ہے کہ اگر لڑکی کے پتا زندہ ہوتے تو کوئی اڑچن نہ تھی۔ یہ عورتوں کا معاملہ ہے۔ مںل لڑکی کا پھوپھا ہوں۔ پانڈے جی مررے دوست ہںص۔ کل کسی نے کچھ کہہ دیا تو سارا قصور مر ے ماتھے منڈھ دیا جائے گا۔۔۔ وکلے صاحب نے جو کاغذات تاحر کیا ہے ، وہ مں نے دھاچن سے پڑھا ہے۔اس مں لڑکی کو کہںی بھی، بو۔ی نہں لکھا گاذ۔ ہر جگہ اسے دوست کہا گا ہے۔
گورنام:یہ تومںں نے پہلے ہی پانڈے جی کو سمجھا دیا تھا۔ کہ وہ مر ی بوکی ہو گی۔ باقاعدہ پنڈت بلا کر، ہندو شاستروں کے مطابق نو گرہوں کی پوجا اور سپت پدی کی رسم ادا کر کے شادی ہو گی۔ لکنک اگر کوئی شکایت کر دے ، مر ی پہلی بوای کا کوئی رشتے دار، یا مر ا کوئی دشمن دعویٰ دائر کر دے تو لڑکی کو ییس کہنا ہو گا کہ اس نے مر ے ساتھ شادی نہںا کی اور محض دوست کے ناطے مر،ے ساتھ رہتی ہے۔اس بات کا مں آپ کو ین س دلاتا ہوں کہ آپ کی لڑکی کوکسی قسم کی شکایت ہو گی نہ تکلف ، اسی لےں باقاعدہ معاہدہ کیا جا رہا ہے۔
پانڈے :ہمں یناگ نہ ہوتا تو کیا ہم یوں بار بار آتے۔ اب آپ سے کیا کہںا۔ مشرا جی کی بات مںس تھوڑی سچائی توہے ہی۔۔۔ عورتوں کو معاملہ ہے۔۔۔ فلمی دنا مں کام کرنے والوں کے سلسلے مںے دس طرح کی جھوٹی سچی باتں لوگوں مںک مشہور ہںا۔۔۔ اسی لے شاید مشرا جی اپنے اوپر ذمے داری لتے ہوئے ڈرتے ہںں اور چاہتے ہںی کہ لڑکی اور اس کی ماں کو یہ کاغذ دکھا دیا جائے۔
وکلت:دیکھئے مںم آپ سے ایک بات صاف صاف عرض کر دینا چاہتا ہوں۔ برا نہ مانئے گا۔ گورنام صاحب تو بادشاہ آدمی ہں ، لکنو مں۔ ان کا وکل ہوں اور ان کے نفع نقصان کی تمام تر ذمے داری مر ی ہے۔۔۔ معاہدے پر دستخط بھلے ہو جائں۔ لکن ان کاغذوں کی دستخط شدہ نقل آپ کو اسی وقت ملے گی جب آپ تلک دے دیں گے اور لڑکی شادی پر بٹھ۔ جائے گی۔۔۔ آپ نے جتنی شرائط رکھںا وہ سب مںج نے معاہدے مں شامل کر لی ہںت۔ لکنں کاغذ پر ان کا نام ہے۔ آپ چاہں تو اپنے ہاتھ سے معاہدے کی نقل اتار لںے اور ان کی سلہج اور لڑکی کی تشفی کر آئںس۔ آج تلک ہو جائے ، کل شادی، جھنجھٹ ختم۔ آپ کے سر سے لڑکی کا بوجھ اترے اور یہ بھی دوسرے کام مںت۔۔۔
(چپراسی فون لئے داخل ہوتا ہے۔)
گورنام:کس کا فون ہے۔۔۔ مں۔ نے کہا تھا کہ مں۔ فون پر ایوے لے بل Available نہںر ہوں۔۔۔
چپراسی:کرٹ صاحب کا فون ہے۔۔۔
گورنام:(چپراسی کے ہاتھ سے چونگا لے کر) ہاں کرٹ۔۔۔ اچھا۔۔۔ ذرا جوکتشی جی کودو۔۔۔ کوےں مہاراج۔۔۔ کتون دماغ کے گھر مںگ پڑا ہے۔۔۔ کیا کہا۔۔۔ نہںھ ہو سکتا(اچانک سنجد ہ ہو کر) آپ پکا یی سوچتے ہں ۔۔۔ نہںن آپ سے صلاح کئے بغر کہںذ ، کچھ بھی پکا نں س ہو گا۔۔۔ آپ فوراً اسی کار پر واپس آ جائے ۔۔۔ اپنا پوتھا پتری سب ساتھ لتےل آئےچ (ایک چور نظر پانڈے اور مشرا جی پر ڈال کر) مہورت وغریہ نکالنا ہو گا نا۔۔۔
(چونگا واپس چپراسی کو دیتا ہے۔ وہ اسے فون پر رکھ کر اسے لئے لئے باہر جانا چاہتا ہے۔)
گورنام:فون یںےل رہنے دو۔
(چپراسی فون مزے پر رکھ کر چلا جاتا ہے۔)
گورنام:(پانڈے سے)ٹھکہ ہے پانڈے جی۔ آپ لوگ اس معاہدے کی شرطںب نقل کر لجئےر اور لڑکی کی ماں اور خود لڑکی سے ڈسکس کر کے مجھے اپنے فصلے سے مطلع کجئے ۔ ابھی جو تشی آتا ہے۔ مںع اس سے بھی مشورہ کرتا ہوں کہ آج کا دن شبھ ہے یا کل کا؟لڑکی کی پتری ذرا ابھی دوبارہ منگا دیجئے گا۔
پانڈے :ہم آپ کو دو گھنٹے مںے پتہ دیتے ہںر (ہاتھ مسوستے ہوئے) اب کیا بتائں آپ سے۔۔۔ مشرا جی نے ان عورتوں کی پخ لگا دی ورنہ مںا تو۔۔۔
گونام:ٹھکی ہے۔۔۔ ٹھکر ہے ، مںل آپ کا انتظار کروں گا۔ گاڑی تو آپ کے پاس ہے نا؟
پانڈے :جی ہاں۔
(اچانک فون کی گھنٹی زور سے بجتی ہے۔ گورنام بزر دباتا ہے۔ دوسرے لمحے چپراسی حاضر ہوتا ہے۔ اس دوران پانڈے اور مشرا، وکل کے ساتھ چلے جاتے ہںہ۔)
گورنام:(چپراسی سے) دیکھو کس کا فون ہے۔ یہ مت کہنا کہ مںس یہاں بٹھا ہوں۔
(چپراسی چونگا اٹھاتا ہے۔)
چپراسی:(فون مںا) ڈبل تھری، ڈبل فور، ڈبل فائوا۔۔۔ جی کہاں سے بول رہے ہں ؟۔۔۔ جی اینجچ سے؟۔۔۔ جموں سے ٹرنک کال ہے؟۔۔۔ جی دے رہے ہںھ صاحب کو(چونگا گورنام کو دیتے ہوئے) صاحب جموں سے آپ کے نام کال ہے۔
گورنام:(چونگا لے کر) ہلوے۔۔۔ جی ہاں بول رہا ہوں۔۔۔ جی ہاں مںے گورنام بول رہا ہوں۔۔۔ (چونگا کان سے لگائے لگائے سیہے بجاتا ہے پھر اچانک)ہلول۔۔۔ ہلو ۔۔۔ (اور زور سے) ہلو۔۔۔۔ بمبئی۔۔۔ مںے گورنام بول رہا ہوں۔۔۔ کون۔۔۔ (زور سے) ہلوہ۔۔۔ ہلو۔۔۔۔ ہلوی۔۔۔ ہلوں اینجچ ۔۔۔ اینجچ (زور سے)آواز نہں آ رہی۔۔۔ ہلو؟ (فون ٹھکا ہو جاتا ہے ، اس لئے عام لہجے مں بات کرتا ہے) ہاں مں گورنام بول رہا ہوں۔۔۔ کون پنکج؟۔۔۔ مبارکباد۔۔۔ ارے کا ہے کی مبارک باد۔۔۔ (اٹھ کھڑا ہوتا ہے) کیا کہتے ہو۔۔۔ کب؟۔۔۔ رات ہی!۔۔۔ سب ٹھکر توہے۔۔۔ مجھے پہلے کو ں نہںت بتایا۔ اتنے مہنوبں تک خبر کو ں نہںن دی؟۔۔۔ کیا بے وقوفی ہے؟۔۔۔ مںر اسی وجہ سے دوسری شادی کر لتاا۔۔۔ قہر تو ٹوٹ ہی جاتا۔۔۔ ہاں بھگوان نے بھلا کیا۔۔۔ تم لوگ بھی مبارک باد لو۔۔۔ اپنی ماتا جی کو بھی مبارکباد دینا۔۔۔ زچہ بچہ تو ٹھکب ہںب۔۔۔ دونوں کو مراا پاےر دینا۔۔۔ مںر پہلی فلائٹ سے پہنچ رہا ہوں۔۔۔
(گورنام چونگا واپس فون پر ٹکا دیتا ہے۔ چہرہ کھلا پڑتا ہے۔ ہرنام آتا ہے۔)
ہرنام: بھائی صاحب راجشن کھنہ سے وقت طے ہو گا ہے۔ اس وقت مںہ فمس جا رہا ہوں۔
گورنام:نہںئ تم فمسل نہں جا رہے۔ ابھی کار لے کر جاؤ اور مررے لئے جموں کی پہلی فلائٹ مںد سٹ بک کرا دو۔
ہرنام:(حرںان و ششدر) جموں۔
گورنام:تمہارے بھتیجہ ہوا ہے۔
ہرنام:(جوش سے دونوں باہںپ پھلاہئے آگے بڑھتا ہے) بھائی صاحب !!
(دونوں بھائی ایک دوسرے سے بغلگرد ہوتے ہںہ۔)
(پردہ گرتا ہے۔)
***
ماخذ: ماہنامہ ’’شاعر‘‘۔ جلد۔۵۶، شمارہ۔، مدیر:افتخار امام صدیی۔، مکتبہ قصرالادب، ، بمبئی سنٹر ل پوسٹ آفس، بمبئی۔۴۰۰۰۰۸
٭٭٭
تشکر: مصنف اور ڈاکٹر شرف الدین ساحل جن کے توسط سے وہ ان پیج فائل فراہم ہوئی جس سے یہ کتاب ترتیب دی گئی۔
ان پیج سے تبدیلی اور تدوین: اعجاز عبید