کرسٹل
فاطمہ اے۔ ایم خان
"،یس۔ ” دروازے پر ہوتی دستک کا جواب اُس نے بس ایک لفظ میں دیا تھا۔ جولی دروازہ کھول کر اندر آ گئی۔
"بے بی ڈنر لگا دوں ؟” اُس نے گھڑی کی طرف دیکھا، ساڑھے نو بج رہے تھے۔
"مام کہاں ہیں ؟”
"وہ کسی میٹنگ میں جانے کا کہہ رہی تھیں، ڈنر بھی کر کے آئیں گی۔ آپ کے لیے ڈنر لگا دوں ؟”
"نہیں مجھے بھوک نہیں لگی تم کچن سمیٹو اور کوارٹر چلی جاؤ۔ ” وہ اتنی ٹینشن میں تھی کہ بھوک بالکل ہی ختم ہو گئی تھی۔
"آپ ٹھیک ہیں ؟” جولی اُس کے چہرے پر پھیلی پریشانی پڑھ سکتی تھی۔
"جولی۔ میرے ماں باپ کون تھے ؟”وہ ایسا سوال تھا جس کی جولی کو بالکل بھی امید نہیں تھی۔
"آپکے ماں باپ تو مسٹر اینڈ مسز کراسٹو ہیں۔ ” اُس نے غصے میں اسٹڈی ٹیبل کا لیمپ ہاتھ مار کر گرا دیا۔
"جھوٹ مت بولو۔ ۔ تم پچھلے 40 سال سے اِس گھر میں کام کر رہی ہو اور تمھیں حقیقت پتا نہ ہو میں یہ مان ہی نہیں سکتی۔ ” وہ سخت غصہ میں چیخ رہی تھی۔
"وہ۔ ۔ ۔ بے بی۔ ۔ ۔ میڈم۔ ۔ ۔ ” جولی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کہے۔
"شٹ اَپ جسٹ شٹ اَپ۔ ۔ ۔ ۔ گیٹ لاسٹ فرام ہیئر۔ ۔ ۔ ” جولی جو پہلے ہی کرسٹل کے غصہ سے ڈرا کرتی تھی فوراً کوارٹر چلی گئی۔
0
"جولی۔ ۔ ۔ جولی۔ ۔ ۔ کہاں مر گئی ہو؟” مسز کراسٹو کرسٹل کے کمرہ کے باہر کھڑی چلّا رہی تھیں۔ جولی فوراً کچن سے نکلی اورکرسٹل کے کمرے کی طرف دوڑی۔
"یس میڈم؟”
"یہ سب کیا ہے ؟ اور کرسٹل کہاں ہے ؟” پورا کمرہ اُتھل پتھل تھا۔
” مجھے نہیں پتا بے بی کہاں ہے۔ میں نے رات ڈنر کا کہا تھا تو انہوں نے منع کر دیا پھر میں اپنے کوارٹر چلی گئی۔ ”
"اُس نے منع کر دیا اور تم مان گئی! اِسی چیز کے پیسے ملتے ہیں تمھیں ؟” جولی نے کبھی مسز کراسٹو کو اِس طرح اتنے غصّے میں نہیں دیکھا تھا۔
"یہاں کھڑی میرا منہ کیا دیکھ رہی ہو۔ رابرٹ کو بلاؤ۔ ”
"یس میڈم۔ ” مسز کراسٹو اُس کی آواز پر پلٹی۔
"کرسٹل کہاں ہے ؟” انہوں نے سیدھا سوال کیا۔
"میڈم وہ تو رات میں ہی بنگلور واپس چلی گئیں۔ ”
"وہاٹ؟”
"ہاں، میں نے ہی انہیں ائیر پورٹ چھوڑا تھا۔ وہ بہت غصّے میں تھیں۔ بہت رو رہی تھیں، میں نے کہا بھی کہ صبح چلی جائیں مگر وہ نہیں مانیں تو میں انھیں ائیر پورٹ چھوڑ آیا۔ ” رابرٹ نے ساری بات انہیں بتا دی۔
"وہ رو کیوں رہی تھی۔ کیا ہوا ہے اُسے ؟” وہ بے حد پریشان ہو گئیں۔
"اُنہوں نے کسی کو کال کی تھی اور صرف اتنا کہا کہ میں ممبئی سے نکل رہی ہوں مجھے لینے ائیر پورٹ آ جاؤ۔ ” رابرٹ نے فون کال کے بارے میں بتایا۔
” رابرٹ اچھّی طرح یاد کرو، اُس نے کچھ اور کہا تھا؟”
"نو میڈم۔ بس اتنا ہی کہا تھا۔ بلکہ فون پر انہوں نے ہیلو بھی نہیں کہا تھا اور فون پر بات کرتے ہوئے بھی وہ رو رہی تھیں۔ ”
"اچّھا جاؤ تم۔ ” رابرٹ وہاں سے چلا گیا۔
"جولی تم سے کچھ کہا تھا اُس نے ؟” جولی نظریں جھکائے ان کے سامنے آ کر کھڑی ہو گئی۔
"وہ پوچھ رہی تھیں کہ میرے ماں باپ کون ہیں ؟” جولی کی یہ بات مسز کراسٹو کے لیے نیو کلیئر بم سے کم نہیں تھی۔ انہوں نے اپنا سر صوفے کی پشت پر ٹکا لیا۔
"میڈم۔ ” جولی آگے بڑھی۔ سز کراسٹو نے اُسے ہاتھ کے اشارہ سے روک دیا۔
0
وہ ائیر پورٹ پر کھڑا سوچوں میں اُلجھا تھا جبھی وہ سامنے سے آتی دکھائی دی۔ عکاشہ فوراً آگے بڑھا اور بیگ اُس کے
ہاتھوں سے لے لیا۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ اُس نے کوئی مزاحمت نہیں کی تھی۔ اُس کی آنکھیں سوجی ہوئی اور بے
حد سرخ تھیں، وہ شاید پورا راستہ روتے ہوئے آئی تھی۔
"تم ٹھیک ہو؟” گاڑی مین روڈ پر لاتے ہی اُس نے سوال کیا تھا۔
"نہیں۔ ” وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی۔
"عکاشہ اُسے ہارڈ کور کہتا تھا، اُس کے اِس طرح رونے سے وہ ہڑبڑا گیا۔ گاڑی روڈ کے سائڈ پر کھڑی کی اور پانی کی بوتل اُس کی طرف بڑھائی۔
"عکاشہ میں کون ہوں ؟” اُس نے پانی کی بوتل نظر انداز کر دی۔ کرسٹل کے اِس ایک سوال میں ہی عکاشہ کو اپنے سارے جواب مل گئے۔
"سنو کرسٹل، تم رونا بند کرو اور یہ پانی پیو پہلے۔ میں تمھارے ہر سوال کا جواب دے دوں گا۔ ” اُس نے کرسٹل کو سمجھانے کی کوشش کی۔ وہ سیٹ کی پشت سے سر ٹکائے رونے لگی۔ عکاشہ بے بسی سے اُسے دیکھ رہا تھا، اچانک اُس کا سرایک طرف لڑھک گیا۔
” کرسٹل۔ ۔ ۔ کرسٹل۔ ۔ ۔ کیا ہوا ہے تمھیں۔ "اُس نے فوراً پانی کے چھینٹے اُس کے چہرے پر مارے مگر وہ بے ہوش ہو گئی تھی۔
0
"ماں۔ بھائی رات کسی لڑکی کو گھر لے آیا ہے۔ ۔ "وہ روحان تھا، بغیر کسی کا لحاظ کئے بولنے والا۔ واصف صاحب نے اپنی بیوی کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔
"رضا کی بیٹی ہے۔ میں نے آپ کو بتایا تو تھا۔ ”
"اوہ! یہ تو بہت اچّھی بات ہے، کہاں ہے وہ۔ ناشتہ کرنے کیوں نہیں آئی؟ روحان حیرت سے اپنے ماں باپ کے خوشی سے دمکتے چہرے دیکھ رہا تھا۔ ” بھائی آدھی رات کو کسی غیر لڑکی کو گھر لے آیا ہے اور ماں بابا خوش ہو رہے ہیں۔ ”
"اُ سکی طبیعت ٹھیک نہیں ہے، ڈاکٹر نے سکون آور انجکشن دئے ہیں۔ انہیں کے زیراثر سو رہی ہے۔ رات بھر میں اُس کے پاس رہی ہوں ابھی ناشتہ بنانے آئی ہوں تو عکاشہ سے کہہ دیا کہ وہ خیال رکھے۔ ” صنوبر بیگم نے روحان کے بریڈ پر بٹر لگاتے ہوئے کہا۔
"بھائی کو ہاسپٹل نہیں جانا۔ آپ مجھ سے کہہ دیتی میں بیٹھ جاتا اُس کے پاس۔ ” روحان کی زبان میں کھجلی ہوئی تھی۔
"آپی کہو، بہن ہے وہ تمھاری اور وہ بھی بڑی والی۔ ” واصف صاحب نے اپنے چھوٹے بیٹے کے کان کھینچے۔
"یہ تو بڑا ہی ظلم ہے، پتا نہیں اللہ میاں میرے ساتھ ہی ایسا کیوں کرتے ہیں۔ ہر خوبصورت لڑکی یا تو میری بہن ہوتی ہے یا پھر مجھ سے بڑی ہوتی ہے۔ ” اُس نے منہ بسورتے ہوئے کہا۔
"یہ تو اچھا ہے نا کہ خوبصورت لڑکیاں تمھاری بہنیں ہیں۔ ”
"ہاں، خوبصورت تو ہے، بالکل کانچ کی گڑیا جیسی۔ ” اُس نے رات کرسٹل کو اُس وقت دیکھا تھا جب عکاشہ اُسے بانہوں میں اُٹھائے اپنے کمرے میں لے گیا تھا۔ اور پھر یہ خبر صنوبر بیگم کو بھی اُسی نے دی تھی۔
"مگر ماں بابا۔ ۔ وہ صرف میری بہن نہیں ہو گی، وہ بھائی کی بھی بہن ہی ہونی چاہئے۔ اوکے ؟”
” نہیں۔ وہ میری بہن نہیں ہے، بلکہ وہ تمھاری بھابھی ہو گی۔ ” عکاشہ اُس کے برابر والی کرسی پر بیٹھ گیا۔ صنوبر بیگم اور واصف صاحب اُسے حیرت سے جبکہ روحان غصّہ سے دیکھ رہا تھا۔
"کیا ہوا؟” اُس نے جوس گلاس میں انڈیلتے ہوئے پوچھا۔
"ابھی تم نے کیا کہا ہے ؟” سوال واصف صاحب کی طرف سے آیا تھا۔
"بابا میں کرسٹل سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ ” اُس نے صاف الفاظ میں اپنی خواہش کا اظہار کیا۔
"وہ مان جائے گی۔ ”
"کوشش تو کر سکتا ہوں نا۔ ” مگر پہلے آپ سب بتائیں۔ ۔ ۔ ”
"میری طرف سے تو تم ناں ہی سمجھو۔ ” جواب سب سے پہلے روحان کی طرف سے آیا تھا۔
” تھینک یو۔ تم سے نہیں پوچھا گیا ہے۔ ” اُس نے اپنے چھوٹے بھائی کو چھیڑتے ہوئے کہا۔
"ہم راضی ہیں۔ ” صنوبر بیگم نے اپنے شوہر کی طرف دیکھا۔ انہوں نے کوئی سوال نہیں کیا تھا، انہیں اپنی بیوی پر اعتبار تھا اور اندازہ بھی کہ رضا کے حوالے سے کرسٹل انہیں کتنی عزیز ہے۔
"تھینک یو ماں بابا۔ اینڈ تھینک یو مائی نان میٹرک لَور بوائے۔ "اُس نے شرارت سے روحان کو گلے لگانے کی کوشش کی مگر روحان پیچھے ہٹ گیا۔
"اب زیادہ اتراؤ نہیں۔ ” روحان اُس کے گلے لگ گیا۔ "میں تو مذاق کر رہا تھا بھائی۔ ”
"جانتا ہوں میں۔ ” عکاشہ نے اُسے گلے لگاتے ہوئے کہا۔
0
"اوہ گاڈ۔ میں اتنا کیسے سو گئی۔ ” وہ اپنی جگہ سے اُٹھی اور باتھ روم چلی گئی۔ کتنی ہی دیر تک شاور کے نیچے کھڑی آنسو
بہاتی رہی۔ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ مسز کراسٹو نے اُس سے یہ سب باتیں کیوں چھپائی۔
وہ باتھ لے کر باہر نکلی تو وہ سامنے ہی بیڈ پر بیٹھا موبائل میں کچھ کر رہا تھا۔ گرے رنگ کی ٹی شرٹ اور جینز میں وہ ہمیشہ
کی طرح بہت پیارا لگ رہا تھا۔ کرسٹل کی آہٹ پر اُس نے سر اُٹھا کر دیکھا، وہ بالکل سامنے کھڑی تھی۔ کرسٹل کو اپنا کل رات والا رویّہ یاد آیا تو وہ شرمندہ ہو گئی مگر وہ کبھی بھی اپنے آپ کو عکاشہ کے سامنے کمزور نہیں ظاہر کرنا چاہتی تھی، اِسی لئے چہرے پر ہمیشہ کی طرح سختی کا خول چڑھا لیا۔
"تم یہاں کیا کر رہے ہو؟”
"کتنا عجیب سوال ہے نا۔ میرا اپنا گھر، اپنا کمرہ، اپنا بیڈ ہے اور تم مجھ سے پوچھ رہی ہو کہ میں یہاں کیا کر رہا ہوں۔ ”
"تمھارا کمرہ۔ ۔ ۔ ” کرسٹل نے حیرت سے سوال کیا۔
"جی میڈم، جو کہ مستقبل میں ہمارا کمرہ کہلائے گا اور یہ جو سامنے بڑی سی تصویر لگی ہے نا اِس کی جگہ ہم اپنے نکاح کی تصویر لگوائیں گے۔ "عکاشہ اُس کے قریب آ کر جھکا اُس کے کان میں کہہ رہا تھا۔
"شٹ اَپ۔ ” اُس نے شہادت کی اُنگلی اُٹھا کر اُسے تنبیہ کی مگر عکاشہ نے اُس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
"تم کب تک اپنے آپ پر یہ خول چڑھاؤ گی کرسٹل۔ تم مان کیوں نہیں لیتی کہ تم بھی مجھ سے اُتنی ہی محبت کرتی ہو جتنی میں تم سے کرتا ہوں۔ ” وہ اُس کے قریب کھڑا کہہ رہا تھا۔
"نہیں کرتی میں تم سے محبت، تم تو میری نفرت کے بھی قابل نہیں ہو۔ ” اُس نے دونوں ہاتھوں سے عکاشہ کو پیچھے دھکیلتے ہوئے کہا۔
عکاشہ نے ہاتھ بڑھا کر اُسے اپنی طرف کھینچا، وہ اُس کے سینے سے آ ٹکرائی۔ "تم کب تک اپنے آپ کو میرے سامنے یوں پتّھر بنا کر پیش کرتی رہو گی، میں تمھیں ہارڈ کور کہتا تھا مگر تم ویسی ہو نہیں جیسی خود کو ظاہر کرتی ہو۔ تم اگر سچ مچ مجھ سے نفرت کرتی تو میرے ایک بار کہنے پر تم دوڑی دوڑی اگروال ہاسپٹل نہیں چلی جاتی۔ ”
” میں جانتا ہوں کہ تم ماریہ آنٹی سے ملی ہو۔ اور اِسی لئے تم کل سے اتنا زیادہ پریشان ہو۔ ”
"کون ماریہ۔ ۔ میں کسی ماریہ کو نہیں جانتی۔ ۔ ۔ میں ممبئی گئی تھی اپنی مام سے ملنے۔ ” اُس نے عکاشہ کی تمام باتوں کو سرے سے رد کر دیا۔
"میں جانتا ہوں تم جھوٹ بول رہی ہو۔ اور ایک بات۔ ۔ ۔ تم اگر مجھ سے اتنی ہی نفرت کرتی ہوتی تو کبھی بھی مجھے کال نہیں کرتیں، مجھے کبھی بھی ائیر پورٹ نہیں بلاتیں، کبھی بھی میرے سامنے یوں نہ روتیں، کبھی بھی یوں پورے حق کے ساتھ میرا کمرہ اور میری دیگر ذاتی چیزیں نہیں استعمال کرتیں۔ "عکاشہ نے شرارت سے کہا۔
وہ ایک جھٹکے سے پیچھے ہٹی۔ "کتنی مرتبہ میں تم سے کہوں کہ مجھے تم سے کوئی محبت نہیں ہے اور اگر مجھے پتا ہوتا کہ یہ کمرہ تمھارا ہے تو اِسے استعمال کرنے سے پہلے میں مر جانا پسند کرتی۔ ۔ ۔ ۔ میں تم سے نفرت کرتی ہوں عکاشہ، بے انتہاء نفرت۔ ” اُس کے الفاظ زہر میں بجھے ہوئے تیر تھے۔
” اور میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کرسٹل کہ تم ایک دن مجھ سے محبت کرو گی۔ ۔ ۔ بے انتہاء محبت۔ ۔ اور جب تک تم خود میرے پاس نہیں آؤ گی میں تمھارے آس پاس بھی نظر نہیں آؤں گا۔ ” اُس نے بیڈ پر رکھا اپنا فون اُٹھایا اور وہاں سے چلا گیا۔ کرسٹل اب بھی شاک کے عالم میں کھڑی تھی، اُس نے آج تک کبھی بھی عکاشہ کو اِس قدر غصّہ میں نہیں دیکھا تھا۔
0
” آنٹی آپ عکاشہ کی مدر ہیں ؟” وہ صنوبر بیگم اور روحان کے ساتھ لان میں بیٹھی چائے پی رہی تھی۔
"جی بیٹا۔ میں عکاشہ اور روحان کی ماں ہوں۔ ” انہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
"اور جلد ہی آپ کی بھی بن جائیں گی۔ ” روحان نے دھڑ سے کہہ دیا۔
"وہاٹ؟” کرسٹل اُس کی بات نہیں سمجھ پائی تھی۔
"کچھ نہیں بیٹا، اِس کی عادت ہے مذاق کرنے کی۔ ” صنوبر بیگم نے بات سنبھال لی۔
” آنٹی مجھے ہاسٹل واپس جانا ہے۔ "اُس نے ہچکچاتے ہوئے کہا۔
” بیٹا آج رک جاؤ کل عکاشہ کے ساتھ چلی جانا۔ ” وہ اُسے روکنا چاہتی تھیں۔
"میں نے ہاسٹل سے اتنی ہی چھٹّی لی تھی۔ آپ پلیز ڈرائیور سے کہہ دیں۔ ”
"میں عکاشہ سے کہتی ہوں۔ روحان جاؤ بھائی سے کہو کہ میں بلا رہی ہوں۔ ”
"وہ تو کہیں چلا گیا، بہت غصّے میں تھا، میں نے کئی آوازیں دی مگر وہ نہیں رکا۔ ” کرسٹل نے نظریں جھکا لیں۔
"آنٹی آپ پلیز تکلف نہ کریں، میں ڈرائیور کے ساتھ چلی جاؤں گی۔ ”
"اچھا نہیں لگتا بیٹا۔ یہ عکاشہ بھی پتا نہیں کہاں چلا گیا۔ ” وہ سخت شرمندہ ہو رہی تھیں۔
"ماں میں چلا جاتا ہوں آپی کے ساتھ۔ ” کرسٹل نے حیرانگی سے روحان کو دیکھا۔
” ٹھیک ہے تم چلے جاؤ۔ ڈرائیور سے گاڑی نکالنے کا کہو اور جا کر کرسٹل کا بیگ لے آؤ ۔ ” روحان گھر کے اندر چلا گیا۔
"تم رک جاتی بیٹا تو عکاشہ کے بابا سے مل لیتی، وہ تمھارے لئے بے حد فکر مند تھے۔ "صنوبر بیگم اُس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لئے کہہ رہی تھیں۔ "ویک اینڈ وغیرہ پر آتی رہنا، تمھارا اپنا گھر ہے بیٹا، کبھی بھی کوئی بھی پریشانی یا مسئلہ ہو تو ہم لوگ ہمیشہ تمھارے ساتھ ہیں۔ انہوں نے اُسے گلے لگاتے ہوئے کہا۔ کرسٹل کا دل بھر آیا۔ وہ اُن سے مل کر گاڑی میں آ بیٹھی۔
0
"عکاشہ کہاں تھے تم؟”
"میں دوست کی طرف چلا گیا تھا۔ ” اُس نے نظریں چراتے ہوئے کہا۔
"کرسٹل پہلی دفعہ یہاں آئی تھی، بجائے اِس کے کہ تم خود اُسے ہاسٹل چھوڑنے جاتے تم دوست کی طرف نکل گئے۔ تمھیں اندازہ ہے کہ مجھے کتنی شرمندگی اُٹھانی پڑی ہے۔ وہ تو اچھا ہوا کہ روحان گھر میں ہی تھا۔ ” عکاشہ نے جھکا سر ایک جھٹکے سے اُٹھایا۔
"کرسٹل ہاسٹل چلی گئی۔ ۔ ۔ آپ نے اُسے جانے کیوں دیا، اُس کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی ماں۔ ” عکاشہ نے فکر مندی سے سوال کیا۔
"ماں نے روکا تھا مگر وہ نہیں رکی تو میں اُنہیں ہاسٹل چھوڑ آیا۔ ”
اُس نے اپنا سر ہاتھوں میں گرا لیا۔ "ماں آپ نے اُسے روحان کے ساتھ بھیج دیا، اِس نے ضرور کوئی اُلٹی سیدھی بات کی ہو گی۔ آپ مجھے کال کر لیتیں۔ "وہ بے بسی سے ماں کی طرف دیکھ رہا تھا۔
"ایڈیٹ لکھا ہے ؟” روحان نے اپنی پیشانی پر انگلی پھیرتے ہوئے پوچھا۔
"اچھا اب تم دونوں ناراض نہ ہو۔ جلدی جلدی کھانا کھاؤ اور تراویح کے لیے جاؤ۔ آج پہلی تراویح ہے۔ ”
0
نیند اُس کے آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ وہ بیڈ سے اُٹھی اور کھڑکی کے قریب آ بیٹھی۔ دور آسمان میں چمکتا چاند بھی اتنا ہی خاموش تھا جتنا کہ عکاشہ۔
"بیس دن گذر گئے اُسے دیکھے ہوئے، کیا میں اُسے یاد نہیں آتی۔ وہ تو مجھ سے محبت کا دعویدار ہے اور میرے اِس طرح اُس کے گھر سے چلے آنے پر وہ میرے پیچھے تک نہیں آیا، جبکہ وہ جانتا تھا کہ میری طبیعت خراب ہے، میں اندر سے کتنی ٹوٹی ہوئی ہوں۔ ۔ ۔ اور میرا قبول اسلام کا واقعہ۔ ۔ ۔ پورا کیمپس اس بات سے واقف ہے پھر وہ بے خبر کیسے ہو سکتا ہے۔ ۔ ۔ اور اگر اُسے معلوم ہے تو وہ مجھ سے ملنے کیوں نہیں آیا۔ ۔ ۔ وہ جو ہمیشہ میرا سایہ بنا رہتا تھا، جسے میرے پل پل کی خبر ہوتی تھی کیا وہ اب اِتنا بے خبر ہو گیا کہ اُسے یہ تک نہیں پتا کہ میرا دل پگھل رہا ہے۔ ۔ ۔ میں اُسے سوچنے لگی ہوں۔ ۔ وہ دھیرے دھیرے میرے حواسوں پر چھاتا جا رہا ہے۔ ۔ ۔ اوہ اللہ تعالیٰ۔ ۔ ۔ کیا مجھے اُس سے محبت ہو گئی ہے ؟”
وہ کھڑکی کے پاس سے ہٹی اور آئینہ کے سامنے آ کر کھڑی ہو گئی۔ ” ہاں۔ میں اُس سے محبت کرنے لگی ہوں، وہ میرے چہرے پہ رقم ہے ایک حقیقت کی طرح۔ ۔ ۔ ” خود سے گھبرا کر وہ آئینہ کے سامنے سے ہٹی اور آ کر بستر پر لیٹ گئی۔
0
"عکاشہ آج شبِ قدر ہے جاؤ جا کر کرسٹل کو لے آؤ۔ اُس سے کہو کہ عید ہمارے ساتھ کرے۔ ” عکاشہ جو کہ اسٹڈی ٹیبل پر جھکا کچھ لکھنے میں مصروف تھا سر اُٹھا کر صنوبر بیگم کو دیکھنے لگا۔
"میں نے تو گھر میں کسی کو بھی کرسٹل کے قبولِ اسلام کے بارے میں نہیں بتایا پھر ماں کیوں کہہ رہیں ہیں کہ میں اُسے عید کے لیے یہاں لے آؤں۔ ” وہ پین ہونٹوں میں دبائے سوچ رہا تھا۔
"کیا ہوا۔ کیا سوچنے لگ گئے ؟”
"میں بہت مصروف ہوں ماں۔ مجھے ایک سیمینار کے لیے جانا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ رات دیر ہو جائے آنے میں۔ آپ سو جائیے گا، میرے پاس دوسری چابی ہے۔ ” اُس نے ٹیبل پر رکھی چابی اور موبائل اُٹھایا اور چلا گیا۔ صنوبر بیگم حیرت سے دروازہ کی طرف دیکھتی رہ گئیں۔
"کیا ہوا ماں ؟” روحان نے خاموش بیٹھی صنوبر بیگم سے سوال کیا۔
"یہ عکاشہ کو کیا ہوا ہے، کچھ عجیب برتاؤ کر رہا ہے۔ ” صنوبر بیگم اب تک عکاشہ کی حرکت پر پریشان تھیں۔
"مجھے تو کچھ نہیں پتا، ہو سکتا ہے کہ وہ۔ ۔ ۔ ۔ "روحان کی بات مکمّل بھی نہیں ہوئی تھی کہ دستک کی آواز پر دونوں نے گردن موڑ کر دروازے کی سمت دیکھا۔ وہ کرسٹل تھی۔ صنوبر بیگم اور روحان دونوں حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے، حیرت اِس بات کی نہیں کہ کرسٹل وہاں آئی تھی بلکہ حیرت اِس بات کی تھی کہ اُس نے اسکارف اوڑھ رکھا تھا، وہ کرسٹل جو کبھی اسٹول تک گلے میں ڈالنا پسند نہیں کرتی تھی، آج وہ اسکارف سے سر ڈھکے ہوئے تھی۔
"کیا میں غلط وقت پر آ گئی؟”
” ارے نہیں بیٹا۔ آؤ نا، تم بالکل صحیح وقت پر آئی ہو۔ میں ابھی کچھ دیر پہلے عکاشہ سے کہہ رہی تھی کہ جا کر تمھیں لے آئے مگر وہ سیمینار کے لیے نکل گیا۔ ” صنوبر بیگم آگے بڑھ کر اُس سے گلے ملیں۔
"آؤ بیٹھو۔ روحان جاؤ آپی کے لیے ناشتہ کا کہو۔ ”
"آج تو کوئی بھی سیمینار نہیں ہے پھر اُس نے آنٹی سے جھوٹ کیوں بولا۔ کیا وہ جانتا تھا کہ میں آج یہاں آنے والی
ہوں۔ ۔ ۔ کیا تم مجھ سے نفرت کرنے لگے ہو عکاشہ۔ آخر کیوں بھاگ رہے ہو مجھ سے۔ ۔ ” وہ کرسی پر بیٹھی بیٹھی سوچوں میں گم ہو گئی۔
"کیا لو گی تم، کچھ ٹھنڈا منگواؤں یا پھر چائے ؟” صنوبر بیگم نے اُس سے پوچھا۔
"جی؟ سوری میں کچھ اور سوچنے لگی تھی۔ آپ غالباً کچھ کہہ رہی تھیں۔ ”
"میں یہ پوچھ رہی تھی کہ تم ناشتہ میں کیا لو گی؟” کرسٹل نے حیرت سے اُن کی طرف دیکھا۔
"عکاشہ نے اِنہیں نہیں بتایا کہ میں نے اسلام قبول کر لیا ہے ؟” اُسے تکلیف ہوئی تھی۔ ” کچھ بھی نہیں آنٹی، میرا روزہ ہے۔ میں آپ کے ساتھ افطار کروں گی۔ ” ا’س نے خوش مزاجی سے جواب دیا۔
"اوہ واؤ تو آپ نے بھائی سے شادی کے لیے اسلام قبول کیا ہے ؟” روحان نے طنزیہ انداز میں پوچھا۔
"عکاشہ سے شادی؟” وہ روحان کی بات سمجھ کر بھی نہیں سمجھ پائی تھی۔
” ہاں آپ کی مام۔ ۔ ۔ ” روحان اُسے مسز کراسٹو کی آمد کے بارے میں بتانا چاہتا تھا، مگر صنوبر بیگم کی تنبیہی، گھورتی نگاہوں کی وجہ سے خاموش ہو گیا۔
آپ نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا۔ ” روحان اب بھی اُس کے اسلام قبول کرنے کی وجہ جاننے کے لیے بے چین تھا۔
"نہیں میں نے عکاشہ کے لیے نہیں، بلکہ اللہ کی رضا اور اپنی آخرت سنوارنے کے لیے اسلام قبول کیا ہے۔ ” اُس نے نہایت سکون سے جواب دیا تھا۔
"روحان جاؤ بابا کو کال کرو کہ وہ آج جلدی گھر آ جائیں۔ ” وہ نہیں چاہتی تھیں کہ روحان کرسٹل سے کوئی بھی اُلٹی سیدھی بات کرے، اسی لئے اُسے وہاں سے اُٹھا دیا۔
0
"میڈم۔ آپ ٹھیک ہیں ؟” جولی نے فکر مندی سے پوچھا۔
"ہاں میں ٹھیک ہوں۔ مجھے کیا ہونا ہے بھلا؟” انہوں نے اُلٹا سوال داغا۔
” آپ جب سے بنگلور سے آئیں ہیں کافی پریشان لگ رہیں ہیں۔ ” اُس نے سنبھلتے ہوئے کہا۔
"جولی تم نے صحیح کہا تھا کہ میں کرسٹل کو اُس کے ددھیال والوں کے حوالے کر دوں، مگر میں نہیں مانی۔ میں نے اُس پر ظلم کیا، میں نے اُسے کبھی نہیں بتایا کہ اُس کے والدین کون تھے، ان کا مذہب کیا تھا۔ مگر جو گاڈ ہے نا وہ بہت بڑا ہے۔ ۔ ۔ ۔ اُس نے سارے سیکریٹ کھول دئے۔ "جولی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ مسز کراسٹو کیا کہنا چاہ رہی ہیں۔
” اُس نے اسلام قبول کر لیا ہے۔ ۔ ۔ ” جولی ہکا بکا منہ کھولے اُن کی طرف دیکھ رہی تھی۔
"وہ جب پچھلے دنوں یہاں آئی تھی تب وہ اگروال ہاسپٹل گئی تھی۔ وہاں وہ ماریہ سے ملی تھی اور اِسی لئے وہ اتنے غصّے میں تھی۔ ۔ ۔ رضا کی بہن بنگلور میں رہتی ہے، کرسٹل اُس کے بیٹے سے شادی کرنا چاہتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ عکاشہ نام ہے اُس کا۔ بہت ہی اچھا لڑکا ہے۔ ” مسز کراسٹو ٹھہر ٹھہر کر کہہ رہی تھیں۔
” آپ اُسے ایسا کرنے دیں گی ؟” جولی نے دماغ میں چل رہے سوال کو زبان پر لایا۔
"میں کون ہوتی ہوں اُسے روکنے والی۔ اُس نے مجھے دھمکی دی تھی کہ اگر میں اُسے ماریہ اور رضا کی بہن سے ملنے نہیں دوں گی تو وہ عکاشہ سے شادی کر لے گی۔ ۔ ۔ میں نے رضا کی بہن سے بات کی ہے، وہ بہت اچھی عورت ہے۔ ۔ ۔ میں پتا نہیں کیوں اُنہیں برا سمجھتی رہی۔ ۔ ۔ ” جولی کو مسز کراسٹو کی دماغی حالت پر شبہ ہونے لگا تھا۔
"میڈم آپ سر کو کال کر لیں۔ وہ آ کر بے بی کو سمجھائیں گے۔ ” جولی نے ڈرتے ڈرتے ایک مشورہ دیا۔
"مجھے کیا کرنا چاہئے اور کیا نہیں، یہ مجھے تم سے جاننے کی ضرورت نہیں ہے۔ جاؤ جا کر اپنا کام کرو۔ ہمیں بنگلور بھی جانا ہے، عید کی شام اُس کی شادی ہے۔ ” جولی نے ادب سے سر جھکایا اور واپس مڑ گئی۔
0
"تم ابھی آ رہے ہو۔ یہ کونسا طریقہ ہے عکاشہ، تم کبھی دیر رات تک گھر سے باہر نہیں رہتے تھے اور آج پوری رات باہر گذار کر آ رہے ہو۔ ۔ ۔ 29گھنٹے۔ ۔ ۔ پورے 29گھنٹے بعد تم گھر لوٹ رہے ہو۔ ۔ ہو کیا گیا ہے تمھیں عکاشہ؟” صنوبر بیگم سخت غصّہ میں تھیں۔
” سوری ماں، میں سیم کی طرف رک گیا تھا۔ ” اُس نے اپنے چچازاد بھائی کا نام لیا۔
"ٹھیک ہے جاؤ جا کر فریش ہو جاؤ۔ ”
0
انہوں نے کرسٹل کو گیلری میں بیٹھے دیکھا تو اُس کے پاس آ گئیں۔ "تم نے آج ٹھیک سے افطاری بھی نہیں کی، طبیعت تو ٹھیک ہے نا تمھاری؟”
"آنٹی میں بہت بری ہوں پھر بھی آپ مجھ سے اتنی محبت کرتی ہیں، میری اتنی فکر کرتی ہیں۔ آپ جانتی ہیں کہ میں نے ہمیشہ عکاشہ سے کتنی بد تمیزی کی ہے اُس کے باوجود آپ نے مجھے کچھ بھی نہیں کہا۔ ” وہ شرمندہ تھی۔
"میں ہمیشہ اُس کا صبر اور برداشت دیکھ کر سوچتی تھی کہ وہ ڈرامہ کر رہا ہے مگر نہیں، وہ تو آپ کی طرح ہے۔ ہر کسی سے محبت کرنے والا، ہر بات پر صبر کرنے والا، میری بدتمیزیاں برداشت کرنے والا، ہر بات کو درگذر کرنے والا۔” وہ نظریں جھکائے اپنے ہاتھوں کو دیکھتی کہہ رہی تھی۔ ” میں نے ہمیشہ عکاشہ کا دل دکھایا ہے اور اُسی کی سزا اللہ تعالیٰ مجھے دے رہے ہیں، اِسی لئے عکاشہ میرے سامنے بھی نہیں آتا۔ اُسے پتا چل گیا ہو گا کہ میں یہاں آئی ہوئی ہوں اِسی لئے وہ کل سے گھر نہیں لوٹا۔ میں بہت بری ہوں آنٹی، بہت ہی زیادہ بری۔ ” وہ اُن کے گلے لگ کر رونے لگی۔
"ارے ارے کرسٹل۔ ایسے نہیں روتے بیٹا، وہ تم سے ناراض تھوڑی ہے وہ تو اپنے چچا کی طرف چلا گیا تھا۔ "انہوں
نے اُسے تسلی دیتے ہوئے کہا۔
"آنٹی آپ میرے ڈیڈ سے بہت محبت کرتی ہیں نا۔ مجھے اُن کے بارے میں بتائیں، میں نے تو انہیں دیکھا ہی نہیں۔ میں تو مسٹر اینڈ مسز کراسٹو کو ہی اپنے ماں باپ سمجھتی رہی۔ وہ تو عکاشہ نے مجھے بتایا کہ میری مام اگروال ہاسپٹل میں ہیں۔
"ہاں۔ وہ وہاں اپنے ایک اسائنمنٹ کے لیے گیا ہوا تھا جب اُس نے ماریہ کو وہاں دیکھا تھا اور تب سے ہر ماہ وہ اُس سے ملنے جاتا ہے۔ اُس نے جب فریشرس نائٹ پہ تمھیں دیکھا تو تمھیں فوراً پہچان لیا کیونکہ ماریہ جب تمھاری عمر کی تھی تو بالکل تمھاری طرح ہی تھی۔ ، اور شاید اسی دن سے وہ تمھارے پیچھے پڑ گیا، تم سے محبت کرنے لگا۔ "انہوں نے مسکراتے ہوئے کرسٹل کا گال تھپتھپایا۔ وہ بھی جواباً ہلکا سا مسکرا دی۔
"آنٹی میرے مام ڈیڈ کی شادی کیسے ہوئی تھی۔ میری مام تو مسز کراسٹو کی بہن تھی نا، ایک عیسائی عورت۔ "اُس نے تجسس سے سوال کیا۔
"ہاں ماریہ عیسائی تھی جبکہ رضا مسلم۔ رضا نوکری کے سلسلے میں ممبئی گیا تھا جب اُس کی ملاقات ماریہ سے ہوئی۔ ماریہ دل ہی دل میں اُسے پسند کرنے لگی، اُس سے محبت کرنے لگی اور رضا اُس سے نفرت کرتا تھا، اتنی نفرت جتنی تم عکاشہ سے کرتی ہو۔ ”
"نہیں آنٹی میں عکاشہ سے نفرت نہیں کرتی۔ ” اُس نے جھٹ سے کہا۔ وہ مسکرانے لگیں تو کرسٹل نظریں چرا گئی۔
"تمھارا باپ ماریہ کے سایے سے بھی دور بھاگتا تھا جبکہ ماریہ اُس سے شادی کی خواہش مند تھی، اور اُس نے رضا سے شادی کے لیے اسلام قبول کر لیا۔ اُس کی ثابت قدمی سے متاثر ہو کر رضا نے اُس سے شادی کر لی اور دونوں ممبئی میں ہی رہنے لگے۔ شادی کے تین ماہ بعد ہی ڈاکٹرس نے تمھاری آمد کی خبر دی۔ رضا بہت زیادہ خوش تھا مگر ایک ماہ بعد ہی ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں اُس کی موت ہو گئی، مسز کراسٹو ماریہ کو اپنے ساتھ لے گئیں۔ ماریہ کی طبیعت خراب ہونے لگی تھی اور دھیرے دھیرے وہ الزائمر کا شکار ہو گئی۔ وہ تمھارا بالکل بھی خیال نہیں رکھتی تھی، بلکہ اُس نے کئی دفعہ تمھیں مارنے کی کوشش بھی کی تھی، اِسی لئے اُسے ہسپتال میں بھرتی کرا دیا گیا۔ ” انہوں نے دھیمے لہجے میں مختصراً اسے اُس کے والدین کے بارے میں بتایا۔
"آپ مجھ سے ملنے آیا کرتی تھیں نا؟” صنوبر بیگم نے حیرت سے اُسے دیکھا۔
انہیں معاف کر دیں، میں جانتی ہوں کہ انہوں نے آپ لوگوں کے ساتھ بہت زیادتی کی ہے۔ مجھے تو سوچ سوچ کر شرمندگی ہوتی ہے۔ ” وہ اُن کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لئے التجا کر رہی تھی۔
"کوئی بات نہیں بیٹا۔ میں کسی سے ناراض نہیں ہوں۔ وہ تمھیں کھونا نہیں چاہتی تھیں۔ ”
"وہ مجھے کھو چکی ہیں آنٹی۔ وہ آخر کب تک مجھے آپ لوگوں سے چھپا کر رکھتیں، کب تک مجھے حقیقت سے بے خبر رکھتیں۔ ۔ ۔ اللہ بہت بڑا ہے آنٹی، اُس نے آخر مجھے میرے اپنوں تک پہنچا ہی دیا۔ ” وہ اب بھی مسز کراسٹو سے ناراض تھی۔
"ایسے نہیں کہتے بیٹا۔ وہ سب ماضی ہو گیا، بھول جاؤ اُسے۔ انشاءاللہ سب بہتر ہو گا۔ "وہ اُس کے سر پر ہاتھ پھیر کر وہاں سے چلی گئیں۔
"کچھ بھی ٹھیک نہیں ہو گا، عکاشہ مجھ سے نفرت کرنے لگا ہے۔ ” وہ تکیے میں منہ چھپا کر رونے لگی۔
0
کمرے میں بیٹھے بیٹھے گھبراہٹ بڑھنے لگی تو وہ چھت پر آ گئی۔ وہ ریلنگ پر دونوں ہاتھ ٹکائے چاند کو تک رہی تھی جبھی وہ اُس کے پیچھے آ کر کھڑا ہو گیا۔
"یہاں کیوں آئی ہو تم؟” اس کا لہجہ برف کی طرح سرد تھا۔
"یہ گھر تمھارا تھوڑی ہے، میری آنٹی کا ہے۔ میں آؤں یا جاؤں تم کون ہوتے ہو وجہ پوچھنے والے۔ ” اس نے مڑے بغیر سخت لہجے میں جواب دیا۔
"ہاں یہ ٹھیک کہا تم نے، تم تو ہو ہی خود سر، اپنی مرضی کرنے والی۔ ”
"کیا مطلب ہے تمھارا؟”
"اوہ پلیز کرسٹل۔ ۔ ۔ اتنی بھولی بننے کی کوشش تو نہ کرو۔ ” عکاشہ نے تمسخر سے کہا۔ ” کیا تم نے ماں سے یہ نہیں کہا کہ تم مجھ سے شادی کرنا چاہتی ہو؟”
وہ شاک کے عالم میں عکاشہ کی طرف مڑی۔ "شادی۔ ”
"ہاں اور تمھاری خواہش پر ہی تمھاری سو کالڈ خالہ میری ماں سے بات کرنے آئی تھیں۔ "اس کا لہجہ کافی ہتک آمیز تھا۔
"اللہ کی قسم عکاشہ میں نے کسی سے ایسی کوئی بھی بات نہیں کی۔ میں نے تو مسز کراسٹو سے یہ کہا تھا کہ وہ اگر مجھے آنٹی اور مام سے ملنے سے روکنے کی کوشش کریں گی تو میں تم سے شادی کر لوں گی۔ "اُس نے آخری بات کافی دھیرے سے کہی۔ "مگر وہ صرف میں نے اُنہیں دھمکانے کے لیے کہا تھا۔ ۔ ۔ قسم لے لو اس کے علاوہ میں نے کسی سے کوئی بات نہیں کی۔ ۔ یا اللہ یہ مسز کراسٹو کی مجھ سے کیا دشمنی ہے۔ ” وہ رونے لگی تھی۔
"ارے ارے کرسٹل تم رونے کیوں لگ گئی۔ تم تو انسان کو تھوڑی ایکٹنگ بھی نہیں کرنے دیتی۔ میں تو مذاق کر رہا تھا اور تم رونے لگی۔ "وہ آنکھوں میں آنسو لئے بے یقینی سے اُسے دیکھ رہی تھی۔
"ایسے کیا دیکھ رہی ہو، سچ کہہ رہا ہوں۔ میں نے ہی ماں سے کہا تھا کہ وہ تمھاری خالہ سے ہماری شادی کی بات کریں۔ اور خوشخبری یہ ہے کہ مسز کراسٹو مان گئی ہیں، عید کی شام ہمارا نکاح ہے۔ ”
کرسٹل جو اب تک شاک کی کیفیت میں کھڑی تھی، وہ آگے بڑھی اور عکاشہ کے سینے پر مکوں کی بارش کر دی۔
"آہ۔ ۔ کتنی ظالم ہو یار۔ کوئی اپنے شوہر کو یوں مارتا ہے بھلا۔ ” اُس نے کرسٹل کے دونوں ہاتھ پکڑ کر ہونٹوں سے لگا لئے۔ "تم جانتی نہیں مگر میری آج تک کے عید کے تحفوں میں سب سے بہترین تحفہ تم ہو۔ ” کرسٹل روتے روتے ہنس دی۔
"اب بس بھی کر دو رونا۔ ایک تو تم روتے ہوئے اتنی اچھی لگتی ہو کہ سامنے والے کی نیت خراب ہو جائے جبکہ میں نے اور دو دن صبر کرنا ہے۔ ” عکاشہ نے سرد آہ بھرتے ہوئے کہا۔
"بڑے ہی چھچھورے ہو تم۔ ” اُس نے اپنے ہاتھ عکاشہ کے ہاتھوں سے چھڑانے کی کوشش کی۔
چھچھورا نہیں رومینٹک کہو لڑکی۔ "وہ شرارت سے اُس کی آنکھوں میں دیکھ کر مسکرایا۔ کرسٹل نے نظریں جھکا لیں۔
"اوہ گاڈ۔ تم شرماتی بھی ہو۔ "اُس کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر عکاشہ نے مصنوعی حیرت سے کہا۔
"بہت برے ہو تم۔ ” کرسٹل نے غصہ سے اپنا ہاتھ چھڑایا اور سیڑھیوں کی طرف بھاگی۔ عکاشہ نے ایک بلند بانگ قہقہہ لگایا۔ اُسے اپنے صبر و برداشت کا صلہ مل گیا تھا، اپنی محبت مل گئی تھی۔ اور یہ قہقہہ اُس کی خوشی کی ترجمانی کر رہا تھا۔
٭٭٭
تشکر: مصنفہ جنہوں نے اس کی یونی کوڈ فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید