فہرست مضامین
- کربِ تنہائی
- نعت شریف
- نعت شریف
- نعت شریف
- سلام بیادِ امامِ عالی مقامؓ
- بیاد قبلہ پیر غلام معین الدین صاحبؒ عرف لالہ جی آف گولڑہ شریف
- بیادِ والد محترم نیاز احمد چشتی صاحب مرحوم و مغفور
- کھو کر میں کسے اور کدھر ڈھونڈ رہا ہوں
- سب یہ کہتے ہیں تم بے وفا ہو گئے
- محبوب ہو ساجن مِرا دلدار کوئی ہو
- کچھ ہم نہ کہیں گے تجھے رُسوا نہ کریں گے
- بیتے ہوئے لمحات میں جھانکا نہیں کرنا
- وہ آئے گا کلی بن کر چٹک کر ہم بھی دیکھیں گے
- وفا کی رہ میں کچھ حائل نہیں ہے
- اُن کی وہ جفا اپنی وفا یاد رہے گی
- پھر تو خزاں بھی ہو گی فصلِ بہار ہم کو
- دل میں آتے ہیں واہمے کیونکر
- دنیا وہ میرے دل کی سجاتا چلا گیا
- کرتا ہوں تجھ سے پیار ذرا آنکھ تو ملا
- ساتھ اس کے جو بھی گزری ہے سُہانی اپنی
- چاند نہ اُترا کبھی ان پانیوں میں
- آنکھوں سے لگی رہتی ہے برسات مسلسل
- کس کو کس نے کتنا چاہا بھول گئے
- دل کے کوچے میں ہوئی ویرانیاں
- تو نگاہوں سے گیا دل میں اُتر
- اپنی بپتا میں کسی کو نہ سنانا چاہوں
- ہر دم دیکھوں چہرہ تیرا
- وہ عنایت وہ کرم اور وہ زمانہ نہ رہا
- تری راہوں کو ہر دم دیکھے یہ میری نظریا سانوریا
- تو دل میں دھڑکتا ہے صبح و شام ابھی تک
- وہ شخص مری ذات سے بچھڑا نہیں لگتا
- جب ماضی کی راہ سے گزرا اس دل نے پھر یاد کیا
- کچھ بھی تِری چاہت کے سوا یاد نہیں ہے
- بیتے ہیں بڑے روز وہ قاتل نہیں دیکھا
- گر نہیں دیکھا یہ تم نے آ کے منظر دیکھ لو
- یہی مجھ پر کرم فرما رہے ہیں
- ہر اِک سمت ہی دیکھے میں نے گھائل گھائل لوگ
- ہمراہیِ دلدار کا لمحہ ہے بہت کچھ
- ابھی اس کام کے کچھ مرحلے ہیں
- مجھ پر تو کسی کی وہ عنایت ہی نہیں ہے
- ہر بات تری مجھ کو ہر اِک بات سے بڑھ کر
- کس چیز کا پھر آج طلبگار ہوا ہے
- فقط اب دُکھ کا پیکر ہو گئے ہیں
- شبِ الم ہوئی بستر سے ہی عیاں میری
- یہ بھی ایک خواب ہے
- مدتوں بعد جو اس شخص کو سوچا پھر سے
- ہر بات سے دل انکاری ہے
- باغباں ہی جسے کاٹے وہ ہرا کیسے ہو
- کیسا اب دیکھو دور آیا ہے
- یاد تیری ہی تیرا بدل ہو گئی
- یہ پھیلی بات اب تو کُو بہ کُو ہے
- کوئی ساتھی نہیں تیرا کہاں تک ایسے جاؤ گے
- تنہائیاں قسمت میں ہیں
- سبھی کے من یہاں اُجلے کہاں ہیں
- کبھی تو کھول کے دل کی کتاب دیکھو تو
- تمہارے غم کا دریا اور میں ہوں
- اِک تیری ذات کو ہی بھلایا نہیں گیا
- دیکھوں چاند ستارے لوگ
- بے چین ہے میری نظر
- چاہت سے اُس نے حال جو پوچھا تو رو دیا
- کس کو میں نے چاہا سوچوں
- یاد مجھے وہ آئے اکثر
- اُٹھتے قدم جاتے کہاں
- ہاتھ میں تیرا ہاتھ کہاں ہے
- ہرجائی سے اب رسمِ وفا ہو نہیں سکتی
- اوروں کے ستم اُن کی جفا دیکھ رہا ہوں
- تیرا حسن و جمال دیکھ لیا
- ترے خیال سے دل بھی مہک مہک سا گیا
- رہزن ہی بنے سب کے نگہبان ہوئے ہیں
- میں نے راحت نہ ذہن کی پائی
- کوئی ہو جو مجھ کو سمجھ سکے مجھے عمر بھر یہ خلش رہی
- ہم نے خوش ہو کے یہ عذاب لیا
- ہجر میں مَیں نے قیامت دیکھ لی
- چھانے لگے ہر اِک سُو رنج و الم کے سائے
- کوئی بھی مَیں پُر کیف نظارا نہیں بھولا
- خوش رنگ منظر دیکھ لوں
- تیرے ہی بسیرے مِری یادوں کے نگر میں
- ڈھونڈا ایک سہارا ہم نے
- کسی سے کچھ نہ کہوں گا یہ فیصلہ میرا
- نگاہ و دل سے کہنا ہے
- گُل کھِلتا کھِلتا تیرے لیے
- کس کو بتلاؤں مجھے چھوڑ گیا ہے کوئی
- بنی جو تیری یہ حالت سمجھ نہیں آئی
- غم زدوں کو مَیں قہقہے بیچوں
- وہ اِک ہی شخص جب اپنا نہیں ہے
- یہ دل جاں اب تمہارا کر رہا ہوں
- دل میں اس کا خیال کیا کہنے
- اس کی آنکھوں کا جام دیکھ تو لوں
- تاریکی میں تارے کی ہو تنویر کہاں تک
- یاد وہ آئے
- میری قسمت کا ستارا گردشوں میں گھِر گیا
- میری طرف دیکھو ذرا
- خوابوں کو ملے تعبیر کہاں
- کسی کو کچھ نہیں کہنا سبھی کچھ ضبط کر لینا
- اپنی پستی کا سبب خود ہی بنا دیتا رہا
- اپنے مرے مرنے کی دُعا مانگ رہے ہیں
- سمجھایا پر سمجھ نہ پایا پاگل دل دیوانہ دل
- تم یقیں جو کرو نہ کرو دلربا دل تجھے ہر گھڑی یاد کرتا رہا
- جب ڈھونڈ ڈھونڈ تھک جاؤ گے پھر میں تم کو یاد آؤں گا
- کہوں ایسے لطف و کرم پہ کیا میرے دلربا تیرا شکریہ
- Related
کربِ تنہائی
فیصلؔ زمان چشتی
ڈاؤن لوڈ کریں
نعت شریف
کر دو کرم کی اِک نظر
اے سیّدِ خیر البشرؐ
بس اِک اشارا ہو ترا
یہ زندگی جائے سنور
ہے بس میری خواہش یہی
درپیش ہو وہ اِک سفر
اِک خواب میری زندگی
چوکھٹ تری میرا ہو سَر
کر دے منوّر قلب کو
تیرا ہے ایسا پاک در
درماں نہیں کچھ اور اب
بس آپ میرے چارہ گر
انگشت کی جنبش سے پھر
ٹکڑے ہوا تھا یہ بدر
اس آس پہ جیتا ہوں میں
پہنچوں گا لے کے چشمِ تر
دنیا نے مانگا جو بھی ہے
تو مانگ فیصلؔ اُن کا در
٭٭٭
نعت شریف
بے نواؤں کو نوا دی آپؐ نے
سب اندھیروں کو ضیا دی آپؐ نے
آئے وہ بن کر مسیحائے جہاں
لا علاجوں کو شفا دی آپؐ نے
وصف یہ دیکھا جہاں نے آپؐ کا
ظلم سہہ کر بھی دُعا دی آپؐ نے
اُن کے در پہ جو بھی مجرم آ گیا
اُس کو رحمت کی سزا دی آپؐ نے
نامکمل تھا جہاں اُن کے بغیر
محفلِ عالم سجا دی آپؐ نے
سب ہی مظلوموں کو دے دی ہے زباں
ظلم کی شمع بجھا دی آپ نے
بعد میرے آئے نہ کوئی نبی
بات یہ سب کو بتا دی آپؐ نے
جو بھی فیصلؔ اُن کے در پر آ گیا
اس کو کملی میں جگہ دی آپؐ نے
٭٭٭
نعت شریف
عاصی و گناہگار و سیہ کار ترے ہیں
جیسے بھی ترے ہیں مری سرکار ترے ہیں
اتنی ہے بسی دل میں محبت تری آقاؐ
سو بار جنم لیں تو ہر اِک بار ترے ہیں
مانجھی تو ہمارا ہے تو ہی ایک سہارا
گردابِ جہاں سے تو لگا پار ترے ہیں
دنیا کے یہ سورج یہ فلک چاند ستارے
گلشن بھی سبھی اور یہ گلزار ترے ہیں
فیصلؔ تو پریشان ہوا کر نہ دکھوں میں
غم کیا تجھے کونین کے مختار ترے ہیں
٭٭٭
سلام بیادِ امامِ عالی مقامؓ
ابن حیدرؓ نے کی ہے وہ دیں سے وفا مرحبا مرحبا
دیکھ کر جس کو خود ہی خدا نے کہا مرحبا مرحبا
بند پانی ہوا سارا گھر لُٹ گیا پر جگر دیکھئے
پاس ہر چیز تھی پر نہیں کچھ کِیا یہ نظر دیکھئے
کی نہیں اہلِ بیعت نے آہ و بکا مرحبا مرحبا
جب نکالی تھی برچھی وہ اکبر کے سینے سے دلگیر نے
صبر کی انتہا کر دی تھی اُس سمے پیارے شبیرؓ نے
عرش سے فرش تک اِک یہی تھی صدا مرحبا مرحبا
ریگِ کربل کو وہ ذو فشاں کر گئے جو کہ پیاسے رہے
دینِ حق کو وہ پھر سے جواں کر گئے جو کہ پیاسے رہے
اُن کے دَر کی ہے مشہور جُود و سخا مرحبا مرحبا
کچھ بچایا نہیں اپنی خاطر نبی کے نواسے نے پھر
اِک وہ تاریخ لکھی جو لکھی لہُو سے پیاسے نے پھر
دیں پہ قربان اصغرؓ تلک کر دیا مرحبا مرحبا
اپنے عمّو سے وہ پیاس دیکھی گئی نہ سکینہ کی جب
زِین گھوڑے پہ ڈالے وہ کہتے گئے پانی لاؤں گا اب
غازی عباسؓ نے پھر وہ پانی بھرا مرحبا مرحبا
کوئی ثانی نہیں تُو نے احساں کیا ہے وہ اسلام پر
سارا کنبہ کیا تو نے قربان اللہ کے نام پر
ہے دو عالم مفخرّ تری ذات پر سیّدِ کربلاؓ مرحبا مرحبا
سر کٹانے کا جب مرحلہ آ گیا حیدریؓ خوں اُٹھا
ہے یہ عالم گواہ کہ انہوں نے ہے پھر حق ادا کر دیا
پیچھے مڑ کر نہ دیکھا کسی نے ذرا مرحبا مرحبا
ساری دنیا پہ تُو نے ہے ثابت کیا اے شہیدِ امامؓ
اس زمانے کو پھر سے ہے بتلا دیا جو ہے تیرا پیام
نیزے کی نوک پہ بھی ہے قرآں پڑھا مرحبا مرحبا
شاہِ کرب و بلا تیری شان اولیٰ کیسے لکھے قلم
جو گرائے گا کوئی نہ محشر تلک وہ لگایا علم
تو محمدؐ کا ہے اور محمدؐ تِرا مرحبا مرحبا
دینِ اسلام پر ننھے سے بچے بھی ہو رہے ہیں فدا
خالی جھولی ہوئی دین ہے بچ گیا اور کچھ نہ بچا
تیرِ حُرمل بھی معصوم اصغرؓ سہا مرحبا مرحبا
نجس دربار میں شامی بازار میں کون ہے ذات وہ
مرحلے سارے ہی پورے وہ کر گئے صبر کے ساتھ جو
بی بی زینبؓ کا دیکھو ذرا حوصلہ مرحبا مرحبا
٭٭٭
بیاد قبلہ پیر غلام معین الدین صاحبؒ عرف لالہ جی آف گولڑہ شریف
دنیا والو! اس دنیا سے ہم دُکھیوں کے غم خوار چلے
اب وصلِ خدا کی خاطر ہیں وہ گولڑہ کے سرکار چلے
ہر آنکھ ہے ڈوبی اشکوں میں ہر شخص پہ سکتہ طاری ہے
کیوں مُرشد چھوڑ گیا ہم کو ہر لب پہ گِریہ و زاری ہے
اللہ سے بلاوا آیا تھا سب چھوڑ کے سنگی، یار چلے
اے مہرؓ و محی الدینؓ کے پیارے شان تری سبحان اللہ
سرکارِ دو عالمؐ سے نسبت پہچان تری سبحان اللہ
ہم کو تنہا تنہا کر کے کس دیس کو ہو تیار چلے
اُن کی رِحلت پہ مجھ کو بھی ویران سا عالم لگتا ہے
ہر سمت ہے چھائی خاموشی من کا آنگن بھی سُونا ہے
گلشن اب بھی موجود مگر گلشن کا رنگِ بہار چلے
ہے رُشد و ہدایت کا سرچشمہ ذات تمہاری لالہ جیؒ
تم مئے عرفان کے ساقی ہو کیا بات تمہاری لالہ جیؒ
محرومیِ دنیا چھوڑ کے وہ دنیا کا یہ بازار چلے
ہے آپ کی فرقت مار گئی ہم بے چارے سے لوگوں کو
بے آسرا سے ہم لگتے ہیں تم آ کر ہم کو دیکھو تو
پھر قرب تمہارا مل جائے وہ دَور کبھی اِک بار چلے
جو دل کے پیارے ہوتے ہیں کب دل سے جدا وہ ہوتے ہیں
کہتا ہوں میں سب لوگوں سے وہ سب کے دل میں رہتے ہیں
دِلگیر بہت ہیں سب فیصلؔ کیوں چھوڑ کے وہ دلدار چلے
بیادِ والد محترم نیاز احمد چشتی صاحب مرحوم و مغفور
مرا ہم نشیں مرا راز داں مرا غمگسار چلا گیا
ہوئی بے قرار سی زندگی وہ سکوں قرار چلا گیا
میں تو پہلے ہی سے تھا ناتواں نہ تھا حوصلہ ترے ہجر کا
کیا ضبط ہے پئے اشک ہیں کہ خدا کا ہے یہی فیصلہ
میں قدم قدم پہ ہوں ڈھونڈتا جانے کس دِیار چلا گیا
مرا ہم نشیں مرا راز داں مرا غمگسار چلا گیا
مجھے اور کون بتائے گا تیری طرح ساری حقیقتیں
ہمہ عمر کوئی نہ دے سکے مجھے تیرے جیسی محبتیں
میں تھا جس کی چھاؤں میں بیٹھتا وہی سایہ دار چلا گیا
مرا ہم نشیں مرا راز داں مرا غم گسار چلا گیا
تیری یاد میں روئی آنکھ یوں حدیں ضبط کی سبھی توڑ کر
کیسے جی رہے ہیں تمہارے بن تو کہاں گیا ہمیں چھوڑ کر
ساری عمر کے لگے روگ اب دے کے غم ہزار چلا گیا
مرا ہم نشیں مرا راز داں مرا غمگسار چلا گیا
سبھی کہہ رہے ہیں کہ صبر کر ترے غم کو کیسے میں چھوڑ دوں
نہیں یہ یقیں تو یہاں نہیں دلِ بے قرار کا کیا کروں
ہمیں دشتِ ہجر میں چھوڑ کر سرِ رہگذار چلا گیا
مرا ہم نشیں مرا راز داں مرا غمگسار چلا گیا
تو نے یہ عمل سے بتا دیا کہ جہاں میں چیز ہے کیا وفا
جو بھی درد تھے جو بھی دُکھ ملے تو خدا کا شکر ادا کیا
ترا ضبط دیکھ کے سب کہیں کوئی کوہسار چلا گیا
مرا ہم نشیں مرا راز داں مرا غم گسار چلا گیا
ترے دم سے اپنی تھی زندگی فقط ایک بار تو لوٹ آ
ذرا دیکھ لے کہ فراق میں ہوا حال اپنا جہاں میں کیا
ہمیں جس کی ہستی پہ ناز تھا وہی شاہکار چلا گیا
مرا ہم نشیں مرا راز داں مرا غمگسار چلا گیا
ساری عمر بھول نہ میں سکوں مرے توڑ کر گیا مان وہ
پڑی دھوپ جو تو نظر پڑی گیا سر سے اب سائبان وہ
میں ہوں گر رہا سرِ راہ اب مرا شہسوار چلا گیا
مرا ہم نشیں مرا راز داں مرا غمگسار چلا گیا
مری بزم کا وہ وقار تھا مرے اس چمن کی بہار تھا
مرے گلستاں کا نکھار تھا دلِ ناتواں کی پکار تھا
مری شان اُس کے ہی دم سے تھی مرا ذی وقار چلا گیا
مرا ہم نشیں مرا راز داں مرا غمگسار چلا گیا
تیرے مرتبے ہوں بلند اب سدا رحمتوں کا نزول ہو
مری اِک خدا سے ہے یہ دعا ترے ساتھ اُس کا رسولؐ ہو
تو وصالِ شافعیِ حشر میں رہا بے قرار چلا گیا
مرا ہم نشیں مرا راز داں مرا غمگسار چلا گیا
یہ جو زندگانی کا موڑ ہے اسے دیکھ فیصلِؔ بے خبر
جو گزر گئی سو گزر گئی شروع اب ہے ایک نیا سفر
جو سبھی کا رکھتا خیال تھا وہی بُردبار چلا گیا
مرا ہم نشیں مرا راز داں مرا غمگسار چلا گیا
٭٭٭
کھو کر میں کسے اور کدھر ڈھونڈ رہا ہوں
آئے نہ سمجھ کس کو اِدھر ڈھونڈ رہا ہوں
بھٹکا ہوا ہوں دشت کے پُر خار سفر میں
دکھلائے جو رہ ایسی نظر ڈھونڈ رہا ہوں
گزرے تھے جہاں سے کبھی ہم دونوں کے سائے
کب سے میں وہی راہ گزر ڈھونڈ رہا ہوں
پاگل ہوں میں کتنا، ہیں عجب خواہشیں میری
تاریک سی راتوں میں سحر ڈھونڈ رہا ہوں
اُکھڑے نہ جو طوفان سے اور تیز ہَوا سے
بکھرے نہ خزاں میں وہ شجر ڈھونڈ رہا ہوں
اِس دل کے دریچے میں کئی لوگ ہیں آئے
جو رُوح میں اُترے وہ نظر ڈھونڈ رہا ہوں
ہیں لوگ بہت پر یہاں انسان نہیں ہیں
ہو پورا جو انساں وہ بشر ڈھونڈ رہا ہوں
کتبہ ہو لکھا جس پہ ترے نام کا فیصلؔ
وہ قبر میں ہر ایک نگر ڈھونڈ رہا ہوں
٭٭٭
سب یہ کہتے ہیں تم بے وفا ہو گئے
لوگ سارے ہی اب تو خفا ہو گئے
جو ملا مجھ کو وہ داغ ہی دے گیا
جو بھی ساتھی ملے کیا سے کیا ہو گئے
سب ہی بیگانے بیگانے ہونے لگے
اپنے سب دُور کی اب صدا ہو گئے
عمر گزری ہے میری سسکتے ہوئے
سارے درد و الم آشنا ہو گئے
ایسی تقدیر ہو گی یہ سوچا نہ تھا
میری قسمت کے تارے فنا ہو گئے
ہر طرف ہی یزیدوں کی اب فوج ہے
سارے رستے ہی کرب و بلا ہو گئے
میرے حصے کے جو سُکھ تھے مجھ کو ملے
کر کے اِک ایک سارے جُدا ہو گئے
کیا رکھیں آس مل جائیں گی منزلیں
خود جو بھٹکے تھے وہ رہنما ہو گئے
جا رہے ہو اے فیصلؔ کفن اوڑھ کے
تم سبھی مشکلوں سے رِہا ہو گئے
٭٭٭
محبوب ہو ساجن مِرا دلدار کوئی ہو
دل میں رہی حسرت مرا غمخوار کوئی ہو
کوئی تو ہو دنیا میں جو دُکھ درد بھی بانٹے
ٹوٹے ہوئے سپنوں کا خریدار کوئی ہو
دل چیز ہے کیا جان بھی ہم نام لگا دیں
انمول سی چاہت کا طلبگار کوئی ہو
آ جائیں گے بازار میں ہم بکنے کی خاطر
لینے کے لیے تو سرِ بازار کوئی ہو
کوئی تو ہو جو دیکھے اِدھر آنکھ اُٹھا کر
میرا بھری دنیا میں طرفدار کوئی ہو
ویرانۂ دل میں نہیں دیکھا کوئی فیصلؔ
خواہش ہے کہ آبادی کا آثار کوئی ہو
٭٭٭
کچھ ہم نہ کہیں گے تجھے رُسوا نہ کریں گے
دنیا سے تِرے پیار کا چرچا نہ کریں گے
صورت تو دکھا جاؤ کہ تسکین ہو دل کی
ہم آنکھ ملانے کا تقاضا نہ کریں گے
اِک بار وہ کہہ دے کہ نہیں کوئی بھی رشتہ
تنہائی میں ہم بیٹھ کے رویا نہ کریں گے
مخمور نگاہوں کا ملے جام چھلکتا
ہم لوگ طلب ساغر و مینا نہ کریں گے
جس چیز کے بدلے میں ترا پیار گنوا دوں
ہم زیست میں ایسا کبھی سودا نہ کریں گے
مل جائے وہ اِک شخص تو مل جائے گی دنیا
بعد اس کے کوئی اور تمنا نہ کریں گے
حالات کی گرمی سے جھُلس جائے گا فیصلؔ
گر پیار کا ٹھنڈا سا وہ سایہ نہ کریں گے
٭٭٭
بیتے ہوئے لمحات میں جھانکا نہیں کرنا
اس دل کو کسی وقت بھی تنہا نہیں کرنا
اب ہاتھ سے چھُوٹے نہ کبھی صبر کا دامن
اس آنکھ کے قطرے کو بھی دَریا نہیں کرنا
ہے یاد ابھی تک مجھے اپنا یہ سبق بھی
اوقات سے بڑھ کر کبھی دعویٰ نہیں کرنا
اب بھول کے بھی درد کے قصے نہیں سننا
چنگاریِ دل کو کبھی شُعلہ نہیں کرنا
نکلا ہے یہی پہلی محبت کا نتیجہ
اس طرح کسی شخص کو چاہا نہیں کرنا
ہم جیسے فقیروں کا ہے شیوہ یہی فیصلؔ
سہنا ہے سبھی کچھ کبھی شکوہ نہیں کرنا
٭٭٭
وہ آئے گا کلی بن کر چٹک کر ہم بھی دیکھیں گے
کہ خوشبوئے محبت سے مہک کر ہم بھی دیکھیں گے
میں جتنا اس میں کھو جاؤں گا اپنا آپ پاؤں گا
تری یادوں کے گلشن میں بھٹک کر ہم بھی دیکھیں گے
جو ہونا ہو چکا اب تو سبھی بیکار ہیں باتیں
جو لگنی لگ چکی اب تو بھَڑک کر ہم بھی دیکھیں گے
ہمیں معلوم ہے تجھ کو بھُلا نہ پائیں گے لیکن
تری یادیں خیالوں سے جھٹک کر ہم بھی دیکھیں گے
پتہ لگ جائے گا مجھ کو سرُور آئے گا اس میں کیا
تری گلیوں میں دانستہ بھٹک کر ہم بھی دیکھیں گے
نہ اتنا ظرف چھوٹا ہے مگر فیصلؔ یہ دل چاہے
وہ نظروں سے پلا دے تو بہک کر ہم بھی دیکھیں گے
٭٭٭
وفا کی رہ میں کچھ حائل نہیں ہے
ارادہ ہو تو کچھ مشکل نہیں ہے
نہ آئیں لوٹ کر گزرے زمانے
وہ باتیں اور وہ محفل نہیں ہے
محبت وہ سمندر ہے کہ جس کا
ملا کوئی کہیں ساحل نہیں ہے
بس اس میں رہ گزر ہے اور سفر ہے
کوئی بھی عشق کی منزل نہیں ہے
خِرد والو خِرد کی بات چھوڑو
طبیعت اس طرف مائل نہیں ہے
ہر اِک لمحہ تمہاری یاد آئی
کبھی دل آپ سے غافل نہیں ہے
مجھے سب کچھ ملا ہے پیار سے ہی
کہوں کیسے کہ کچھ حاصل نہیں ہے
وہ کیوں لوگوں سے کہتا پھر رہا ہے
کہ یہ پہلا سا وہ فیصلؔ نہیں ہے
٭٭٭
اُن کی وہ جفا اپنی وفا یاد رہے گی
دلچسپ محبت کی خطا یاد رہے گی
دنیا کی ہر اِک بات اگر بھول بھی جاؤں
مجھ کو ترے ملنے کی دُعا یاد رہے گی
دھڑکن میں ترا نام ہی پاؤں گا ہمیشہ
کچھ بات نہ اب تیرے سِوا یاد رہے گی
شرما کے نگاہوں کا چُرا لینا وہ مجھ سے
مجھ کو یہ نرالی سی اَدا یاد رہے گی
اب تک ہیں مجھے یاد وہ لمحاتِ جدائی
پائی جو محبت میں سزا یاد رہے گی
چاہے بھی جو فیصلؔ تو تجھے بھول نہ پائے
ہر ایک تری بات پِیا یاد رہے گی
٭٭٭
پھر تو خزاں بھی ہو گی فصلِ بہار ہم کو
’’اے کاش کوئی دے دے تھوڑا سا پیار ہم کو‘‘
تَرسے ہیں مدتوں سے اِس شہر میں اکیلے
تنہائیوں نے گھیرا اکثر ہے یار ہم کو
صحرائے زندگی میں مثلِ چراغ ہم ہیں
کس جرم کی سزا ہے پروردگار ہم کو
ہم نے وفا ہے کرنی ہم تو وفا کریں گے
اپنے مزاج پر ہے کب اختیار ہم کو
احوال اپنے جگ میں کس کو سنائیں فیصلؔ
آیا نظر یہاں نہ اِک غمگسار ہم کو
٭٭٭
دل میں آتے ہیں واہمے کیونکر
ظلم کی آس آپ سے کیونکر
زندگی جن کے دم سے ہے اُن سے
ٹوٹ جاتے ہیں سلسلے کیونکر
رتجگے، دُکھ، الم ہیں حاصل اب
دوستی کے ہیں یہ صلے کیونکر
میں کسی سمت اب چلا بھی نہیں
پاؤں پہ آئے آبلے کیونکر
سب ہی لوگوں کے ساتھ پتھر ہیں
بیچتا ہے تُو آئینے کیونکر
سوچنا یہ ہے منزلوں کے قریب
ٹوٹ جاتے ہیں حوصلے کیونکر
چارہ گر ہیں بہت یہاں فیصلؔ
پھر بھی آباد غم کدے کیونکر
٭٭٭
دنیا وہ میرے دل کی سجاتا چلا گیا
مجھ سے نگاہیں اپنی ملاتا چلا گیا
کیسے ہوا تھا پیار یہ مجھ کو نہیں خبر
اِک چہرہ میرے دل میں سماتا چلا گیا
اس کے بِنا زمانہ یہ ویران سا لگے
اس دل میں گھر وہ اپنا بناتا چلا گیا
مجھ کو تو کچھ بھی یاد نہیں ہے ترے بغیر
تیرا خیال ذہن پہ چھاتا چلا گیا
کیسا یہ کرب ہے جو ملا تیرے پیار میں
دریائے اَشک یونہی بہاتا چلا گیا
بجلی کا خوف تھا نہ بکھرنے کا ڈر اُسے
پنچھی تو آشیاں کو بناتا چلا گیا
دیکھا نگاہوں نے تو وہ دل میں اُتر گیا
فیصلؔ کو ایک شخص یوں بھاتا چلا گیا
٭٭٭
کرتا ہوں تجھ سے پیار ذرا آنکھ تو ملا
آئی ہے اب بہار ذرا آنکھ تو ملا
تری نگاہِ ناز ہے تسکینِ وجۂ جاں
دل کو ملے قرار ذرا آنکھ تو ملا
جب تو نہ پاس ہو گا تو پھر بات اور ہے
اب تو ہے اختیار ذرا آنکھ تو ملا
آنکھوں سے دُور ہو کے بھی بھولا نہیں ہوں میں
دل کی ہے تُو پکار ذرا آنکھ تو ملا
مُسکائے جا رہے ہو ہے یہ کون سی اَدا
فیصلؔ کے غمگسار ذرا آنکھ تو ملا
٭٭٭
ساتھ اس کے جو بھی گزری ہے سُہانی اپنی
دل یہ چاہے نہ سناؤں وہ کہانی اپنی
یاد آتا ہے مجھے گزرا زمانہ اپنا
یاد آتی ہے مجھے کوئی پرانی اپنی
میں نے ہر بار اسی دل کا کہا مانا ہے
زندگی میں تو کوئی بات نہ مانی اپنی
وہ بھی ٹہنی سے بچھڑتے ہیں حسیں موسم میں
کس قدر ملتی ہے پھولوں سے کہانی اپنی
پیار تجھ سے میں تو بس تجھ سے کیے جاتا ہوں
ہم نے بدلی نہ روِش کوئی پُرانی اپنی
میری آنکھوں سے ہی پڑھ لے جو ہے گزری دل پر
کیسے بِپتا میں سناؤں گا زبانی اپنی
بعد اس کے جو ہُوا حال نہ پوچھو ہم سے
اب تو یہ شُغل بنا خاک اُڑانی اپنی
یاد اس کی ہے مِرا سارا اثاثہ فیصلؔ
اس نے دی ہے مجھے یہ ایک نشانی اپنی
٭٭٭
چاند نہ اُترا کبھی ان پانیوں میں
آئی نہ خوشبو کبھی بھی کاغذوں میں
جب بھی تجھ کو ڈھونڈتا ہوں اس جہاں میں
آخرش پاتا ہوں اپنی دھڑکنوں میں
اس جہاں میں بارہا دیکھا ہے میں نے
کوئی ہوتا ہی نہیں شامل دُکھوں میں
سب یہاں پر کام تک پہچانتے ہیں
کچھ وفا باقی نہیں ان دوستوں میں
جب یہ روتے ہیں تو بن جاتے ہیں دریا
درد کا جذبہ بھی ہے اِن پتھروں میں
آنکھوں ہی آنکھوں میں ہوتی بات دل کی
پیار یوں بڑھتا گیا اُن دو دِلوں میں
ہنسنے والوں کی نہ صورت دیکھ فیصلؔ
درد بھی ہوتے ہیں پنہاں قہقہوں میں
٭٭٭
آنکھوں سے لگی رہتی ہے برسات مسلسل
دل میرا کرے یار تری بات مسلسل
ان جاگتی آنکھوں میں تو ملتا نہیں کوئی
خوابوں میں تو ہوتی ہے ملاقات مسلسل
تجھ سے ہی کروں پیار کروں پیار کروں پیار
دل میرا کہے جائے یہی بات مسلسل
لمحہ کے لیے بھی تو جُدا ہو نہیں پایا
آیا ہے مجھے یاد تو دن رات مسلسل
جس جگہ ترے قرب میں تھا وقت گزارا
آتے ہیں وہی یاد مقامات مسلسل
فیصلؔ تھا عجب کیف مرے بیتے دنوں میں
اِک شخص سے ہوتی تھی ملاقات مسلسل
٭٭٭
کس کو کس نے کتنا چاہا بھول گئے
کیا وہ لوگ بھی پیار کا قِصہ بھول گئے
کتنے شکوے کتنی باتیں کرنی تھیں
جب دیکھا وہ پیارا چہرہ، بھول گئے
ہر اِک سوچ میں تیری سوچ ہے شامل اب
تیری یاد میں ہم تو دُنیا بھول گئے
ہجر ترے میں روز ہی مرنا پڑتا ہے
ہم بن تیرے ساجن جینا بھول گئے
بھول گیا تو رخصت کے لمحات کو بھی
اپنی آنکھ میں کاجل پھَیلا بھول گئے
آئے ہو کیا بات ہے، لیکن بات کہوں
کیسے آج اِدھر کا رستہ بھول گئے
اس کی روکھی باتیں سن کر بول اُٹھا
میٹھا میٹھا پیارا لہجہ بھول گئے
وہ باتیں وہ ناز ادا اور وہ شامیں
ساتھ ترے جو وقت گزارا بھول گئے
روٹھ کے جانا تیرا ہر اِک بات پہ وہ
میرے منانے پر شرمانا بھول گئے
ہر لمحہ میں تجھ کو دیکھتا جاتا تھا
آنکھ ملا کر آنکھ چرانا بھول گئے
بن میرے تو چین تمہیں نہ آتا تھا
کیا گزرا وہ ایک زمانہ بھول گئے
جو بھی ہو جائے آخر ہم تیرے ہیں
کیا تم اپنا یار پرانا بھول گئے
مجھ سے رُخ کو پھیرنے سے پہلے اپنا
میرے دل سے نام مٹانا بھول گئے
عشق نے کر دیا سب کو ہی پاگل فیصلؔ
اپنی سب دانائی دَانا بھول گئے
٭٭٭
دل کے کوچے میں ہوئی ویرانیاں
بڑھ گئیں اب تو بہت تنہائیاں
جب بندھی اُمید وصلِ یار کی
دل کے اندر بج اُٹھی شہنائیاں
جو گرا اس جھیل میں پھر نہ بچا
تیری آنکھوں میں ہیں وہ گہرائیاں
لب پہ تیرا نام نہ آیا کبھی
پیار میں پھر بھی ہوئی رسوائیاں
ہجر میں ہم سے نہ پوچھو کیا ہوا
غم کی فیصلؔ چھا گئی پرچھائیاں
٭٭٭
تو نگاہوں سے گیا دل میں اُتر
یاد آئے گا مجھے تو عُمر بھر
پھیلتا ہے جب اندھیرا شام کو
چاند یادوں کا پھر آتا ہے اُبھر
مشکلوں میں چھوڑ دیتے ہیں سبھی
میں نے تو دیکھا یہی ہے بیشتر
کس طرح سے کوئی یاں محفوظ ہے
راہزن اب ہو گئے ہیں راہبر
مجھ سے کہتے ہیں وہ جا پرواز کر
چھین کر مجھ سے مرے سب بال و پَر
قرب تیرا بھی حسیں اِک خواب تھا
ہم تو پچھتائے ہیں آنکھیں کھول کر
ظلمتوں کی شب میں پھوٹے گی کرن
آس رکھو رات کی ہو گی سحر
بھول جاؤں گا میں تیرے پیار کو
کانپ جاتا ہوں میں ایسا سوچ کر
مل گیا بدلہ وفا کا کیوں جفا
کیا یہی ہے اس محبت کا ثمر
اِک اسی ہی بات پر قائم رہو
پیار کر فیصلؔ یہاں بس پیار کر
٭٭٭
اپنی بپتا میں کسی کو نہ سنانا چاہوں
اپنے دُکھ سارے میں لوگوں سے چھپانا چاہوں
کون دشمن ہے ترا کون ترا ساتھی ہے
خوابِ غفلت سے میں یہ ذہن جگانا چاہوں
پیار انمول سا تحفہ ہے جہاں والوں پر
ساری دنیا کو یہی بات بتانا چاہوں
جو زمانے کی ہواؤں سے نہ بُجھ پائے گی
روشنی کی میں وہ قندیل جلانا چاہوں
مجھ کو اتنے ہیں ملے درد زمانے بھر سے
جانے کس دکھ کے لیے اشک بہانا چاہوں
جانے کس آگ میں جلنے کو مرا جی چاہے
اپنی ہی ذات کو فیصلؔ نہ بچانا چاہوں
٭٭٭
ہر دم دیکھوں چہرہ تیرا
میرا دل دیوانہ تیرا
مرنے بعد بھی ٹوٹ نہ پائے
رشتہ ایسا میرا تیرا
دل کی بستی کے آنگن میں
ہر دم ہے اِک چرچا ترا
تجھ سے باتیں کرتا جاؤں
امرت لاگے لہجہ تیرا
ہر انداز میں دل کو بھائے
جب بھی چہرہ دیکھا تیرا
اور کسی کو سوچ نہ پائے
فیصلؔ ہے بس تیرا تیرا
٭٭٭
وہ عنایت وہ کرم اور وہ زمانہ نہ رہا
میٹھا لہجہ پیاری باتیں مسکرانا نہ رہا
جل رہے ہیں زندگی کی دھوپ میں تنہا ہی ہم
پیار والا ٹھنڈا ٹھنڈا شامیانہ نہ رہا
گردشِ حالات نے کچھ ایسا بے گھر کر دیا
اس کے دل میں جو کبھی تھا وہ ٹھکانہ نہ رہا
اب تو میری زندگی میں پھیکا پن سا آ گیا
وہ کہانی، وہ جوانی، وہ فسانہ نہ رہا
جل رہا ہے دل مرا ہر دم کسی کی یاد میں
میرے بس میں میرے دل کا اب بچانا نہ رہا
عشق نے دنیا میں فیصلؔ سب کو رو گی کر دیا
سب ہی مجنوں ہو گئے اور کوئی دانا نہ رہا
٭٭٭
تری راہوں کو ہر دم دیکھے یہ میری نظریا سانوریا
ترے رستوں کو تکتے تکتے گئی عمر گزریا سانوریا
تجھے آنکھ نے جب بھی دیکھا ہے اس روح کو چین سا آیا ہے
تیرا مکھڑا ایسے لگتا ہے جیسے چاند بَدریا سانوریا
ہر شے بن تیرے سُونی ہے ہر گام پہ تیری یاد آئی
بن تیرے مشکل لگتی ہے یہ زیست سفریا سانوریا
دیکھا تو دل کے صحرا میں اِک ٹھنڈی سی ہے لہر چلی
پیاسی کب سے ہے دیکھ بھی لے یہ دشت نظریا سانوریا
قانون ہوا اس نگری کا جو آئے دل اور جان وہ دے
جو کھوئے گا وہی پائے گا ایسی پریم نگریا سانوریا
تو بس گیا میری سوچوں میں جیسے سیپ میں کوئی موتی ہو
اب تیرے نام ہی کر دی ہے یہ اپنی عمریا سانوریا
بس دھیان میں ہر دم فیصلؔ وہ اور ہر شے میں وہ چہرہ ہے
تیرے بعد جدائی نہ پوچھو کیسے کی بسریا سانوریا
٭٭٭
تو دل میں دھڑکتا ہے صبح و شام ابھی تک
بھولا نہیں مجھ سے تو ترا نام ابھی تک
ہمراہی تری جن میں میسر مجھے آئی
آتے ہیں مجھے یاد وہ ایّام ابھی تک
دنیا کے حوادث نے مٹا ڈالا تھا جن کو
پنہاں ہیں دلوں میں وہی اصنام ابھی تک
دنیا کو بھلا کے جو پئے پریم کے ساغر
بھولی نہیں وہ مَے وہ بھرے جام ابھی تک
اب کس کے دلاسوں سے سکوں مجھ کو ملے گا
آیا نہیں اس روح کو آرام ابھی تک
بوئی تھی جو اس نے میں وہی کاٹ رہا ہوں
دیتا ہوں میں دِل اپنے کو الزام ابھی تک
اقرار محبت کا کِیا تو نے جو مجھ سے
ہے نقش وہ اس دل پہ حسیں شام ابھی تک
جس سمت کو نکلا ہے زمانہ ارے فیصلؔ
معلوم نہیں اس کا بھی انجام ابھی تک
٭٭٭
وہ شخص مری ذات سے بچھڑا نہیں لگتا
ہر وقت وہی دل میں ہے، تنہا نہیں لگتا
اتنا ہے یہاں کال محبت کا نہ پوچھو
دنیا میں کوئی بھی مجھے اپنا نہیں لگتا
بن اس کے مری روح بھٹکنے سی لگی ہے
کوئی بھی سکوں کا مجھے لمحہ نہیں لگتا
یوں مجھ میں ترے پیار کا احساس بسا ہے
اب تیرے بِنا کوئی بھی اچھا نہیں لگتا
ہر ایک گریزاں ہے تری ذات سے فیصلؔ
اب کے تو ترا، تیرا یہ سایہ نہیں لگتا
٭٭٭
جب ماضی کی راہ سے گزرا اس دل نے پھر یاد کیا
یادوں کے آنگن میں جھانکا اس دل نے پھر یاد کیا
اُس کو جب بھی سوچا تو سب گزری باتیں یاد آئیں
زخم ہوا ہے تازہ تازہ اس دل نے پھر یاد کیا
جانے کیوں وہ پیارے لمحے بھول نہیں سکتا ہوں میں
درد ہوا ہے دھِیما دھِیما اس دل نے پھر یاد کیا
بن تیرے کھنڈر سے لگتے ہیں یہ تاج محل سارے
دل کا شہر ہے سُونا سُونا اس دل نے پھر یاد کیا
ہمراہی نہ تیری ہو تو لگتا ہے کوئی ساتھ نہیں
بن تیرے ہوں تنہا تنہا اس دل نے پھر یاد کیا
ہر دم تیری باتیں سوچوں ہر دم تجھ کو چاہوں مَیں
ذکر جہاں بھی پیار کا آیا اس دل نے پھر یاد کیا
فیصلؔ نے بِن تیرے چین کہیں پر بھی نہ پایا ہے
سچ پوچھو تو اِک اِک لمحہ اس دل نے پھر یاد کیا
٭٭٭
کچھ بھی تِری چاہت کے سوا یاد نہیں ہے
اب تو مجھے اپنا بھی پتہ یاد نہیں ہے
کہتے تھے گزاریں گے جدائی تیری کیسے
کہتے ہیں وہی عہدِ وفا یاد نہیں ہے
چھائی تری آواز سماعت پہ مری یوں
جو کچھ بھی ہے دنیا کا سنا یاد نہیں ہے
فرقت پہ تری دل میں وہ ہنگامہ بپا ہے
کس وقت ہُوا تجھ سے جدا یاد نہیں ہے
یوں میں تِری یادوں میں خیالوں میں ہوں کھویا
بن تیرے مجھے کچھ بھی رَہا یاد نہیں ہے
فیصلؔ جو ہے جوبَن میں گلستان سے بچھڑا
اس پھول کو کچھ بھی تو بھَلا یاد نہیں ہے
٭٭٭
بیتے ہیں بڑے روز وہ قاتل نہیں دیکھا
عرصہ ہی ہوا آنکھوں نے سانول نہیں دیکھا
اب کے تو زمانہ میں عجب لہر چلی ہے
صحرا پہ برستا ہوا بادل نہیں دیکھا
ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا
دنیا میں کوئی کام بھی مشکل نہیں دیکھا
رسوائی تری دل کو بھی منظور نہیں ہے
بے چین اسے بھی سرِ محفل نہیں دیکھا
آ جاؤ کہ انسان کی بستی سے ہو آئیں
میں نے تو بڑے روز سے دنگل نہیں دیکھا
کس دیس میں کس نگری میں آباد ہوا ہے
رہتا ہے کہاں میں نے تو فیصلؔ نہیں دیکھا
٭٭٭
گر نہیں دیکھا یہ تم نے آ کے منظر دیکھ لو
کس طرح نیلام ہوتا ہے یہ گوہر دیکھ لو
یہ زمانہ بے خبر تھا تم کو تو معلوم تھا
پھر بھی تم نے سب سے پہلے مارا پتھر دیکھ لو
کوئی ہے وہ جس کو ہے بس پیار کا ہی آسرا
جانے والے جاتے جاتے ہی پلٹ کر دیکھ لو
جام تھے بخشے گئے کل میکدے میں ساقیا
میں ہی بس تشنہ رہا میرا مقدّر دیکھ لو
میں یہ کہتا ہوں کہ مجھ کو ہے نہیں کوئی ہوس
مجھ کو کافی ہے یہی کہ آنکھ بھر کر دیکھ لو
اب کسی احساس بن تجھ سے جیا نہ جائے گا
فیصلؔ اس کی یاد اس دل سے بھلا کر دیکھ لو
٭٭٭
یہی مجھ پر کرم فرما رہے ہیں
مری یادوں میں پائے جا رہے ہیں
ستم لاکھوں وہ اپنے بھول بیٹھے
وہ اپنا اِک کرم گنوا رہے ہیں
کوئی تیرا نہیں ہے اس جہاں میں
یہ باتیں خود کو ہم سمجھا رہے ہیں
ہوا کیا آج فیصلؔ ایک صحرا
کبھی ہم لوگ بھی دریا رہے ہیں
٭٭٭
ہر اِک سمت ہی دیکھے میں نے گھائل گھائل لوگ
اپنوں کے الطاف سے ہو گئے سائل سائل لوگ
جس کو پانا ہے وہ من میں ہر دم رہتا ہے
کس کو ڈھونڈ رہے ہیں دیکھو جنگل جنگل لوگ
عشق میں جو مجنوں ہوتے ہیں اُن کی بات نہ پوچھو
دنیا والو! دانا ہیں وہ پاگل پاگل لوگ
جن کے سینے میں ہمدردی، چاہت اور محبت ہے
ڈھونڈتے ہیں یاں لے کر اُن کو مشعل مشعل لوگ
دل کی دھڑکن روح کا چین وہ کیوں بن جاتے ہیں
آنکھوں میں بس جاتے ہیں جب کومل کومل لوگ
کس سے حال کریں ہم اپنا کون کرے انصاف
قاضی بن بیٹھے ہیں فیصلؔ قاتل قاتل لوگ
٭٭٭
ہمراہیِ دلدار کا لمحہ ہے بہت کچھ
اندھیارے میں جگنو کا اُجالا ہے بہت کچھ
دنیا کی ہوس ہو تو خزانے بھی پڑیں کم
ہو صبر و رضا ساتھ تو ذرّہ ہے بہت کم
اس زیست کی پُرخار سی اس راہگذر پر
پایا ہے جو کچھ میں نے تو کھویا ہے بہت کچھ
ہمت نہ ہو گر ساتھ تو لشکر بھی ہے تھوڑا
جرأت ہو اگر ساتھ تو سایا ہے بہت کچھ
اُستاد زمانہ بنا ہر ایک بشر کا
دنیا سے تو فیصلؔ نے بھی سیکھا ہے بہت کچھ
٭٭٭
ابھی اس کام کے کچھ مرحلے ہیں
ابھی تو عشق کی جانب چلے ہیں
مجھے تنہائیاں جھُلسا رہی تھیں
تری سوچوں کے اب سائے ڈھلے ہیں
زمانے کا تماشا بن گیا ہوں
ہر اِک جانب سے مجھ پر قہقہے ہیں
ندی کے دو کنارے مل نہ پائیں
سو اپنے درمیاں بھی فاصلے ہیں
یہ اس کے بعد میرا حال فیصلؔ
میں ہوں، درد و الم کے سلسلے ہیں
٭٭٭
مجھ پر تو کسی کی وہ عنایت ہی نہیں ہے
جینے کی یہاں کوئی بھی صورت ہی نہیں ہے
ہو جس میں میسر مجھے سکھ چین مسرت
ایسی میری لکھی ہوئی قسمت ہی نہیں ہے
ہر چیز کو دیکھیں گے یہ پیسے کی نظر سے
لوگوں کی نگاہوں میں تو وسعت ہی نہیں ہے
جیسا تھا لکھا میرا مقدر، ہُوا حاصل
مجھ کو تو کسی سے بھی شکایت ہی نہیں ہے
ہو کوئی جو سب لوگوں کے دکھ درد بٹائے
لیکن یہاں اب ایسی روایت ہی نہیں ہے
ہیں رنج و الم کے لیے مخصوص یہاں دل
ہر ایک کی قسمت میں محبت ہی نہیں ہے
جذبوں کی بھی پہچان کوئی سیکھ لے کرنا
دنیا میں سبھی کچھ یہی دولت ہی نہیں ہے
مت اشک بہا گردشِ ایّام میں فیصلؔ
اس گوہرِ انمول کی قیمت ہی نہیں ہے
٭٭٭
ہر بات تری مجھ کو ہر اِک بات سے بڑھ کر
ہم نے تجھے چاہا ہے تو اوقات سے بڑھ کر
جو عشق کی بازی میں ہو محبوب کے ہاتھوں
جیتے کی خوشی بھی نہیں اُس مَات سے بڑھ کر
کیا چوٹ پڑی دل پہ سمجھ میں نہیں آئے
آنکھوں سے جھڑی لگ گئی برسات سے بڑھ کر
یہ بھی ہے نوازش کہ خیالات میں آئے
ہے یاد تری مجھ کو ملاقات سے بڑھ کر
لوگوں کو امارت پہ گھمنڈ اتنا ہوا کیوں
مجھ کو مری کُٹیا ہے محلآت سے بڑھ کر
لکھا ہے مقدر میں سہے جاتا ہوں فیصلؔ
دنیا کے ستم مجھ کو عنایات سے بڑھ کر
٭٭٭
کس چیز کا پھر آج طلبگار ہوا ہے
روکو دلِ وحشی کو اسے پیار ہوا ہے
پھر دل میں محبت نے نئی لی کوئی کروٹ
پھر دل یہ غموں کا ہی خریدار ہوا ہے
منصور کی تقلید کیے جائیں گے ہم لوگ
یہ فیصلہ پھر آج لبِ دار ہوا ہے
چھوڑا مجھے دنیا نے اکیلا ہی سفر میں
ایسا تو مرے ساتھ ہر اِک بار ہوا ہے
اب ساتھ کوئی یاد کوئی بات نہیں ہے
ایسے میں تو رہنا مرا دشوار ہوا ہے
جس نے ہیں کیے لاکھوں ستم جان پہ تیری
کیوں شخص وہ فیصلؔ ترا غمخوار ہوا ہے
٭٭٭
فقط اب دُکھ کا پیکر ہو گئے ہیں
یہ غم میرا مقدر ہو گئے ہیں
ہر اِک سے بچ کے چلنا گر ہے جینا
سبھی کے پاس خنجر ہو گئے ہیں
یہ کس نے سب پہ جادو کر دیا ہے
یہ کیوں سب لوگ پتھر ہو گئے ہیں
وہی جو کہہ رہے تھے ہم ہیں تیرے
اب اُن کے اور تیور ہو گئے ہیں
وہ چشمِ مست اتنی مہرباں ہے
کہ ہم خود مے و ساغر ہو گئے ہیں
سدا غافل رہے جو دوست اپنے
وہ کب سے بندہ پرور ہو گئے ہیں
جنھیں حاصل ہوا ہے قرب تیرا
وہ قسمت کے سکندر ہو گئے ہیں
جنھیں ہے لُوٹنے کا ڈھنگ آتا
وہی اب لوگ راہبر ہو گئے ہیں
ہر اِک ہی سمت سے فیصلؔ اکیلا
مقابل میں تو لشکر ہو گئے ہیں
٭٭٭
شبِ الم ہوئی بستر سے ہی عیاں میری
کہ سلوٹوں نے لکھی ساری داستاں میری
شکایتیں میں زمانے سے کر نہیں سکتا
کہ نالے کر نہیں سکتی ہے یہ زباں میری
جو زندگی کے کٹھن راستے پہ چلتا ہوں
وہ اِک خیال ہی بنتا ہے بس اماں میری
ترے وصال کی جنت کہ ہجرِ دوزخ میں
میں جاؤں گا وہیں قسمت ہوئی جہاں میری
جہاں جہاں پہ ضرورت ہے جان دینے کی
پڑے گی تجھ کو ضرورت وہاں وہاں میری
ہے تو جو ساتھ تو ہیں ساتھ ساتھ سب موسم
بہار ساتھ ہے فیصلؔ ہے یہ خزاں میری
٭٭٭
یہ بھی ایک خواب ہے
پاس وہ گلاب ہے
اس کو پڑھتا ہی رہوں
وہ مرا نصاب ہے
جام دے گئی مجھے
آنکھ وہ شراب ہے
اُس کے ذکرِ خیر پر
آنکھ میں کیوں آب ہے
میں ترا ہوں تو مرا
پھر یہ کیوں حجاب ہے
آنکھ جو ملا سکے
کس میں اتنی تاب ہے
بن ترے یہ زندگی
بن گئی عذاب ہے
فیصلؔ اس کو دیکھنا
میں کہوں ثواب ہے
٭٭٭
مدتوں بعد جو اس شخص کو سوچا پھر سے
میری آنکھوں میں وہی چاند سا آیا پھر سے
زندگی کے جو حوادث سے میں کچھ سنبھلا ہوں
اِک نئے عزم سے منزل کو ہے ڈھونڈا پھر سے
جانے کیا بات تھی کچھ کہنا تھا جو کہہ نہ سکا
جاتے جاتے ہوئے اس شخص کو روکا پھر سے
کوئی سمجھائے اُسے کچھ تو کرے وہ بھی خیال
اس کو احساس نہیں مجھ سے ہے رُوٹھا پھر سے
آشیانے پہ گریں بجلیاں پھر سے فیصلؔ
اس نے جو آنکھ ملا کے مجھے دیکھا پھر سے
٭٭٭
ہر بات سے دل انکاری ہے
کیسی مجھ کو بیماری ہے
کچھ لو کچھ دو کی رِیت چلی
دنیا ہو گئی بازاری ہے
کوئی پیار کا بول نہ بول سکے
اب رُوٹھ گئی دلداری ہے
سب کو سب ہی پاگل سمجھیں
یاں عقل سبھی کی ماری ہے
اِک اِک کر کے سب چھوڑ گئے
اب کے میری ہی باری ہے
ہے ظلم و ستم کا دور یہاں
دنیا بن گئی تاتاری ہے
بچ کے چلنا گر جینا ہے
یہ دنیا ایک شکاری ہے
فیصلؔ وہ کسی کا دوست نہیں
ہر ایک سے جس کی یاری ہے
٭٭٭
باغباں ہی جسے کاٹے وہ ہرا کیسے ہو
جس کو اپنوں نے جھکایا وہ کھڑا کیسے ہو
بعد اس کے تو سبھی خواہشیں دم توڑ گئیں
کوئی حسرت نہ رہی مجھ سے دُعا کیسے ہو
وصلِ محبوب ہی اب اس کا فقط درماں ہے
دردِ اُلفت کی تو دنیا سے دوا کیسے ہو
جب یہ یادیں ہی مری زیست کا حاصل ٹھہریں
اپنے ماضی کا دِیا مجھ سے بجھا کیسے ہو
جن کا شیوہ ہی نہیں ساتھ نبھانا فیصلؔ
جن کو معلوم نہیں اُن سے وفا کیسے ہو
٭٭٭
کیسا اب دیکھو دور آیا ہے
ہر طرف خواہشوں کا سایا ہے
ساتھ چھوڑا ہر اِک نے مشکل میں
چاہے اپنا ہے یا پرایا ہے
ہر کوئی اپنا فائدہ دیکھے
حرص ذہنوں پہ اب تو چھایا ہے
پاس میرے ہے اِک تری چاہت
بعد اس کے نہ کچھ بقایا ہے
رُسوا کر دے گا یہ زمانے میں
عشق دنیا سے جو چھپایا ہے
اب تلک نہ سمجھ سکا فیصلؔ
کیسی دنیا مرے خدایا ہے
٭٭٭
یاد تیری ہی تیرا بدل ہو گئی
تجھ کو سوچا تو مجھ سے غزل ہو گئی
اپنے بیگانے میں کچھ تفاوت نہیں
کیسی محفل تری آج کل ہو گئی
اتنی مادہ پرستی ہے چھائی ہوئی
یہ محبت بھی ذہنی خلل ہو گئی
چھوڑ سکتا نہیں پیار کی راہ کو
بات میری بھی یہ تو اَٹل ہو گئی
شہر سے تیرے فیصلؔ چلا ہی گیا
وہ جو مشکل تھی اِک وہ بھی حل ہو گئی
٭٭٭
یہ پھیلی بات اب تو کُو بہ کُو ہے
کہ میری زندگی میں ایک تُو ہے
یہ کس کی یاد کی مہکار اُٹھی
یہ کیا خوشبو فضا میں چار سُو ہے
جسے حاصل ہوا ہے قرب تیرا
وہ ہر اِک امتحاں میں سرخرو ہے
یہ سج کے کون مقتل گہ میں آیا
یہ کس کے ہاتھ پر میرا لہو ہے
مجھے ہر لمحہ وہ ہے یاد رکھتا
بہت پیارا مجھے میرا عدو ہے
جہاں میں جتنے بھی ہیں لوگ فیصلؔ
مقدم ہر نفس کی آبرو ہے
٭٭٭
کوئی ساتھی نہیں تیرا کہاں تک ایسے جاؤ گے
اکیلے چلتے چلتے تھک کے آخر لوٹ آؤ گے
زمانے نے ستم تم پر کیے لاکھوں مگر چپ ہو
تم اپنے ضبط کو آخر کہاں تک آزماؤ گے
تمہارے قہقہوں میں درد پنہاں چھپ نہیں سکتا
کہاں تک خود کو دھوکہ دو گے کب تک مسکراؤ گے
چلو ساتھ اس زمانے کے اگر کچھ کر دکھانا ہے
اگر پیچھے رہے تم تو یہاں سے کچھ نہ پاؤ گے
تجھے یہ ماننا ہو گا تجھے اس سے محبت ہے
کسی کی یاد کو اس ذہن سے کب تک بھلاؤ گے
اگر ٹھکرایا دنیا نے کرو ہمت میں کہتا ہوں
نہ تم پیچھے ہٹو گے اور نہ آنسو بہاؤ گے
تمہارے سپنے جب فیصلؔ یہ ٹوٹیں گے کہو گے تم
ہیں تعبیریں کہاں ان کی تم آوازیں لگاؤ گے
٭٭٭
تنہائیاں قسمت میں ہیں
انگڑائیاں قسمت میں ہیں
چھوڑا ہے ساتھ اپنوں نے بھی
ہرجائیاں قسمت میں ہیں
میں سوچتا ہوں تجھ کو بس
رعنائیاں قسمت میں ہیں
اس عشق کے چرچے ہوئے
رسوائیاں قسمت میں ہیں
ڈوبا تری آنکھوں میں ہوں
گہرائیاں قسمت میں ہیں
فیصلؔ خیالِ یار کی
پرچھائیاں قسمت میں ہیں
٭٭٭
سبھی کے من یہاں اُجلے کہاں ہیں
جہاں کے لوگ سب اچھے کہاں ہیں
مجھے بچھڑے ملے ہیں اپنے ساتھی
نصیب اتنے مرے جاگے کہاں ہیں
کبھی منسوب تھے دن رات جن سے
نہیں معلوم وہ ہوتے کہاں ہیں
مجھے حالات نے جھلسا دیا ہے
مقدر میں مرے سائے کہاں ہیں
اگر اب مل گئی ہے سب کو منزل
تو فیصلؔ لوگ پھر کھوئے کہاں ہیں
٭٭٭
کبھی تو کھول کے دل کی کتاب دیکھو تو
ترے ہی نام لکھا انتساب، دیکھو تو
تصورات کی دنیا میں اِک چمن سا لگے
مرے خیال میں کھِلتا گلاب دیکھو تو
فراقِ یار تجھے موت سے لگے گا نہ کم
جدائیوں کا کبھی جو عذاب دیکھو تو
نگاہ پیار کی کرنا بھی اِک عبادت ہے
ثواب تجھ کو ملے گا جناب دیکھو تو
تمہیں پتہ ہی نہیں ہے کہ درد کیا شے ہے
کسی نگاہ میں اُترا چناب دیکھو تو
ہے ملنا سپنوں کی تعبیر بات قسمت کی
تم اس نگاہ سے فیصلؔ وہ خواب دیکھو تو
٭٭٭
تمہارے غم کا دریا اور میں ہوں
ہے اِک تنہائی تنہا اور میں ہوں
نجانے دن کہاں بیتے گئے وہ
ہے اب یادوں کا میلہ اور میں ہوں
کسی نے ساتھ نہ پورا نبھایا
وہی سفّاک دنیا اور میں ہوں
بس اِک لمحہ کوئی پھوٹی کرن، پھر
وہی تاریک رستہ اور میں ہوں
نہ پوچھو ہے وہ حالت بعد تیرے
ترا نقشِ کفِ پا اور میں ہوں
ملا نہ چارہ گر کوئی بھی فیصلؔ
ہے دل بے چارہ میرا اور میں ہوں
٭٭٭
اِک تیری ذات کو ہی بھلایا نہیں گیا
خود کو اذیّتوں سے بچایا نہیں گیا
آئی شبِ سیاہ تو چھوڑا ہے سب نے ساتھ
حتّیٰ کہ میرے ساتھ تو سایا نہیں گیا
موسم بہار کا تھا گلستاں اُجڑ گیا
اِک حادثہ وہ مجھ سے بھُلایا نہیں گیا
چپ چاپ اپنی آگ میں جلتا رہا ہوں میں
دنیا کو اپنا حال سنایا نہیں گیا
بن تیرے جی سکیں گے نہ فیصلؔ جہان میں
ہم سے یہ ایک قول نبھایا نہیں گیا
٭٭٭
دیکھوں چاند ستارے لوگ
دل میں اُترے پیارے لوگ
کس کی راہ کو تکتے تکتے
تھک گئے آخر سارے لوگ
کُوئے یار یا سُوئے دار
جائیں غم کے مارے لوگ
زیست کے سفر میں چلتے چلتے
ہر اِک گام پکارے ’’لوگ‘‘
دیوانے سے لگتے ہیں سب
پاگل ہو گئے سارے لوگ
گئے تھے ہمت کر کے جو بھی
لگ گئے پار کنارے لوگ
جس کو چاہیں وہ نہ پائیں
فیصلؔ یہ بے چارے لوگ
٭٭٭
بے چین ہے میری نظر
اب آ بھی جا اے بے خبر
جس آگ میں جلتا ہوں میں
اس آگ سے تُو بھی گزر
سب لوگ تجھ سے ہی لگیں
اس آنکھ میں تو ہی اَمر
تنہائی میرے ساتھ ہے
مجھ کو نہیں ہے کوئی ڈر
بتلا رہے تھے راستے
ایسے بھی ہیں دیکھے بھنور
جو بھی ہے بویا کاٹ وہ
لوگوں پہ نہ الزام دھَر
جس نے بھلا ڈالا مجھے
یاد آئے گا وہ عمر بھر
جھوٹے ہیں پر سچے لگیں
کیسا ہے لوگوں کو ہنر
بس آنکھ کھلتے ہی مرے
سپنے گئے سارے بکھر
یہ دل میں حسرت ہی رہی
رکھتی دُعا میری اثر
دن رات کا سکھ لے گئی
معصوم سی وہ اِک نظر
فیصلؔ پہ جو چھاؤں کرے
ایسا ملے کوئی شجر
٭٭٭
چاہت سے اُس نے حال جو پوچھا تو رو دیا
مدت کے بعد اس کو جو دیکھا تو رو دیا
خوابوں کے اس جہان میں رہتا تھا خوش بہت
میں نے حقیقتوں کو ہے جانا تو رو دیا
اپنے مرے جدا ہوئے اِک ایک کر کے سب
رستے میں رہ گیا جو میں تنہا تو رو دیا
ہو گی کبھی تو ظلم کی اس رات کی سحر
سوچا جو میں نے صبح اُجالا تو رو دیا
حالات کے تھپیڑوں نے اُلجھا دیا مجھے
پُرسانِ حال کوئی نہ دیکھا تو رو دیا
تنہائیوں کے خوف سے اس دشت میں کبھی
گھبرا کے فیصلؔ اس کو پکارا تو رو دیا
٭٭٭
کس کو میں نے چاہا سوچوں
کون ہے دل میں دھڑکا سوچوں
دنیا کے جو لوگ ملے ہیں
کون ہے اُن میں میرا سوچوں
آخر کون سی بات ہوئی ہے
کیوں وہ بکھرا بکھرا سوچوں
جب بھی سوچوں اس کو سوچوں
کچھ نہ ایسا ویسا سوچوں
کچھ نہ لوگوں کو بتلاؤں
تنہائی میں تنہا سوچوں
دنیا ایک تماشائی ہے
خود ہوں ایک تماشہ سوچوں
ظلم کا گھور اندھیرا فیصلؔ
چھوڑ گیا ہے سایا سوچوں
٭٭٭
یاد مجھے وہ آئے اکثر
سوچوں کو اُلجھائے اکثر
آنکھیں میری نم رہتی تھیں
نقش رہے دھُندلائے اکثر
تیرے ہجر کی باتیں سوچے
دل میرا گھبرائے اکثر
مشکل کی جب گھڑیاں آئیں
چھوڑ گئے ہیں سائے اکثر
سوچوں میں آ جانا تیرا
یادوں کو مہکائے اکثر
پھول نہ جن کو گُلچیں توڑے
ڈالی پر مرجھائے اکثر
شمع تو جلتی رہتی ہے
پروانہ جل جائے اکثر
ذہن کی لوح پہ جب کچھ دیکھوں
کیا سے کیا بن جائے اکثر
مجھ سے تیرا نہ ملنا بھی
آس کا دیپ بجھائے اکثر
ایک تصور اُس کا فیصلؔ
کتنے درد بڑھائے اکثر
٭٭٭
اُٹھتے قدم جاتے کہاں
تیرے ہیں ہم جاتے کہاں
تجھ کو بھلا دیتے جو ہم
قول و قسم جاتے کہاں
ہم جو نہ تم کو چاہتے
میرے صنم، جاتے کہاں
نہ پونچھتا آنسو کوئی
دیدۂ نم جاتے کہاں
ہوتے نہ جو ہم سے گدا
اہلِ کرم جاتے کہاں
فیصلؔ لگاتا نہ گلے
درد و الم جاتے کہاں
٭٭٭
ہاتھ میں تیرا ہاتھ کہاں ہے
تو اب میرے ساتھ کہاں ہے
ملتے ہیں وہ مجھ سے اب بھی
پہلی سی وہ بات کہاں ہے
شکوے وہ بھی تجھ سے ساجن
میری یہ اوقات کہاں ہے
من مندر میں جو دیوی ہے
سوچوں ایسی ذات کہاں ہے
صبح اُجالا سب سے پوچھے
اندھیاری سی رات کہاں ہے
ظلم کو سہہ کر ہنس دیتا ہوں
آنکھوں میں برسات کہاں ہے
جو ہارے گا وہ پائے گا
عشق میں فیصلؔ مات کہاں ہے
٭٭٭
ہرجائی سے اب رسمِ وفا ہو نہیں سکتی
اندھیاروں سے دنیا میں ضیا ہو نہیں سکتی
دنیا کو ضرورت مِری کچھ بھی تو نہیں ہے
میرے لیے لوگوں سے دُعا ہو نہیں سکتی
بیمار جو ہیں ہجر و جدائی کے یہاں پر
اے چارہ گرو اُن کو شفا ہو نہیں سکتی
چھوڑو سبھی باتیں مَیں تو اِک بات کہوں گا
یہ زیست بسر تیرے بنا ہو نہیں سکتی
فیصلؔ کو وہ چھوڑے گا کبھی ہو نہیں سکتا
ایسی بھی زمانے کی ہَوا ہو نہیں سکتی
٭٭٭
اوروں کے ستم اُن کی جفا دیکھ رہا ہوں
ہر روز نئی ایک سزا دیکھ رہا ہوں
ہر سمت ہی چھانے لگا اب ظلم کا سایہ
خاموش فلک پر ہے خدا دیکھ رہا ہوں
جب سے ہے ملا مجھ کو جدائی کا یہ موسم
اِس ذات میں اِک حشر بپا دیکھ رہا ہوں
اِس گردشِ حالات نے اُلجھا دیا اتنا
یہ بھی نہیں معلوم کہ کیا دیکھ رہا ہوں
میرے لیے ہر روز نئی کرب و بلا ہے
دُنیا کی میں اِک ایک اَدا دیکھ رہا ہوں
بیگانے ہیں سب کوئی نہ اپنا نظر آئے
بدلی ہے زمانے کی ہوا دیکھ رہا ہوں
آئے ہیں بہت نام ترے نام سے فیصلؔ
چہرے پہ جو آئی ہے حیا دیکھ رہا ہوں
٭٭٭
تیرا حسن و جمال دیکھ لیا
ہم نے تیرا کمال دیکھ لیا
نام اس پر دھڑک دھڑک جائے
اپنے دل کا زوال دیکھ لیا
اب کوئی چیز بھی نہیں بھاتی
کوئی ایسا خیال دیکھ لیا
رات آئے وہ خواب میں ملنے
ہجر میں بھی وصال دیکھ لیا
تیری محفل میں پیار کا جذبہ
ہو گیا پائمال، دیکھ لیا
تم نہ آئے نہ کوئی خط بھیجا
زندگی میں وہ سال دیکھ لیا
باغباں، وہ نہیں تو کچھ بھی نہیں
اس چمن کو سنبھال، دیکھ لیا
وہ ہے بے چین بے قرار ہوں میں
جذبۂ بے مثال دیکھ لیا
چین آیا نہیں ہے فیصلؔ کو
جب سے چشمِ غزال دیکھ لیا
٭٭٭
ترے خیال سے دل بھی مہک مہک سا گیا
کلی کی طرح سے دیکھو چٹک چٹک سا گیا
سوال آیا ہے جب بھی سرور و مستی کا
تمہاری آنکھ سے ساغر چھلک چھلک سا گیا
یہ ہاتھ جب سے کسی مہرباں نے چھوڑ دیا
میں زندگی کے سفر میں بھٹک بھٹک سا گیا
نجانے کتنے ہی دکھ درد دے کے پالا تھا
جو ایک قطرہ نگہ سے ٹپک ٹپک سا گیا
کہیں پہ حُسن و محبت کا تذکرہ جو چھڑا
تمہارا نام ہی دل میں دھڑک دھڑک سا گیا
یہ دل مرا بھی سلامت کہاں رہا فیصلؔ
کسی کی یاد میں اب تو بھڑک بھڑک سا گیا
٭٭٭
رہزن ہی بنے سب کے نگہبان ہوئے ہیں
نادان جو تھے سارے وہ لقمان ہوئے ہیں
جنگل کا ہی قانون بنا شہر میں دیکھو
مجبور تو اتنے سبھی انسان ہوئے ہیں
آئی ہے خزاں اب کے بہاریں نہیں آئیں
رُخ پھیر یہ کوچے ذرا ویران ہوئے ہیں
ہر ذہن پہ دولت کی ہوس چھائی ہوئی ہے
لوگوں کے زر و مال ہی ایمان ہوئے ہیں
وہ آنکھ مہربان ہوئی مجھ پہ ہے دیکھو
اب مرحلے فیصلؔ سبھی آسان ہوئے ہیں
٭٭٭
میں نے راحت نہ ذہن کی پائی
اپنی ہستی میں تشنگی پائی
اک تماشہ بنا ہوں دنیا کا
زندگی میں نے دیدنی پائی
خواہشوں کے حصار نے جکڑا
کیسی بے چین زندگی پائی
دیکھے ہیں مہ جبیں یہاں لاکھوں
ذات کوئی نہ آپ سی پائی
دربدر ہو گیا ہوں پھر فیصلؔ
زیست کی میں نے آگہی پائی
٭٭٭
کوئی ہو جو مجھ کو سمجھ سکے مجھے عمر بھر یہ خلش رہی
اُسے ڈھونڈتا ہی میں رہ گیا کبھی اِس گلی کبھی اُس گلی
مری سوچ کو مری بات کو مرے حال کو مری ذات کو
انھیں کوئی بھی نہ سمجھ سکا یونہی زندگی یہ گزر گئی
مری تیز اتنی نظر نہیں مجھے اس جہاں کی خبر نہیں
سبھی کہہ رہے ہیں یہاں تجھے کسی چیز کی نہیں آگہی
نہ میں ہٹ سکوں نہ پلٹ سکوں نہ بکھر سکوں نہ سمٹ سکوں
مجھے ایسے حال پہ چھوڑ دے میری ’’بے نیاز‘‘ سی زندگی
کئی آئے اور چلے گئے کسے کیا پڑی تیرے حال سے
تو یہی سمجھ تو ہے مر چکا جگہ ڈھونڈ اپنی تو قبر کی
کوئی رنگ ہے نہ اُمنگ ہے رہی زندگانی سے جنگ ہے
جو کسی کے ذہن سے مٹ گیا ایسے خواب کی سی ہے زندگی
سبھی یک زباں تو ہے بے زباں تیرے گلستاں میں سدا خزاں
میں ازل سے آیا ہوں دیکھتا یہاں کوئی بھی نہ کلی کھلی
ذرا دیکھ فیصلِؔ بے خبر تو حقیقتوں کو بھی جان لے
تیری واہ واہ تیرے منہ پر تیرے بعد تیری بُری بھَلی
٭٭٭
ہم نے خوش ہو کے یہ عذاب لیا
دے کے دل جان ایک خواب لیا
اس کو پوجا ہے اس کو چاہا ہے
زندگی میں یہی ثواب لیا
اِک ترا نام اس پہ لکھا ہے
ہم نے جو عشق کا نصاب لیا
ہم نے کانٹوں پہ ہر گھڑی کاٹی
زندگی سے بڑا حساب لیا
تشنگی ہم کو وہ بھی دے فیصلؔ
جس کے بدلے ہر اِک سراب لیا
٭٭٭
ہجر میں مَیں نے قیامت دیکھ لی
اس محبت کی حقیقت دیکھ لی
چین اِک پُر کیف سا ہے آ گیا
ہم نے جب بھی تیری صورت دیکھ لی
رتجگے، بے چینیاں اور دکھ ملے
پیار کی مَیں نے ریاضت دیکھ لی
اس جہاں میں حال نہ پوچھو مرا
جیتے جی اپنی ہی تربت دیکھ لی
روز کھولوں اس کی یادوں کی کتاب
کتنی اچھی اپنی عادت دیکھ لی
ہجر سے تو نے مرا کاسہ بھرا
دیکھ لی تیری سخاوت دیکھ لی
اس کو دیکھوں بھول جاؤں دکھ سبھی
پیار میں ملتی ہے راحت دیکھ لی
اِک گھڑی بھی چین آتا ہی نہیں
کیا بلا ہے یہ محبت دیکھ لی
چند سپنے اور ہیں یادوں کے دیپ
مَیں نے فیصلؔ کی ہے دولت دیکھ لی
٭٭٭
چھانے لگے ہر اِک سُو رنج و الم کے سائے
آثار راحتوں کے ہم کو نظر نہ آئے
مَیں سوچتا ہوں اکثر دنیا کو کیا ہوا ہے
کیسا یہ دور آیا اپنے ہوئے پرائے
مر بھی گیا تھا لیکن آنکھیں کھلی ہوئی تھیں
ہم نے تو اپنے وعدے آخر تلک نبھائے
کچھ تو پتہ بتاؤ کوئی خبر تو لاؤ
ہے کون زندگی پر تیرِ ستم چلائے
یہ بھی پتہ ہے ان کی تعبیر کچھ نہ ہو گی
آنکھوں میں پھر بھی سپنے فیصلؔ نے ہیں بسائے
٭٭٭
کوئی بھی مَیں پُر کیف نظارا نہیں بھولا
جو وقت ترے ساتھ گزارا نہیں بھولا
سانسوں میں نگاہوں میں خیالات میں وہ ہے
اب تک وہ مجھے جان سے پیارا نہیں بھولا
اس دشتِ بلا میں مَیں اکیلا ہی تھا راہی
تو نے جو دِیا مجھ کو سہارا نہیں بھولا
سب کچھ میں بھُلا سکتا ہوں لیکن مِری جاناں
مَیں تیری نگاہوں کا اشارا نہیں بھولا
جس سمت بھی دیکھا ہے وہاں نام کئی تھے
فیصلؔ کو مگر نام تمہارا نہیں بھولا
٭٭٭
خوش رنگ منظر دیکھ لوں
اپنا ستم گر دیکھ لوں
آگے تو بڑھتا ہوں مگر
لوگوں کے تیور دیکھ لوں
آیا ہے کیا مدّو جزر
دل کا سمندر دیکھ لوں
مجھ پہ ہی برسیں گے فقط
جی بھر کے پتھر دیکھ لوں
جس کو مَیں ڈھونڈوں ہر جگہ
دل میں ہی اکثر دیکھ لوں
مقتول جس سے ہو گیا
وہ چشمِ خنجر دیکھ لوں
کرتا ہوں میں سیدھی صفیں
دشمن کے لشکر دیکھ لوں
اس دل کے در پر کون ہے
باہر نکل کر دیکھ لوں
جس سے ہوں مَیں مخمور سا
وہ چشمِ ساغر دیکھ لوں
ہے کون فیصلؔ یاد میں
سوچوں کا محور دیکھ لوں
٭٭٭
تیرے ہی بسیرے مِری یادوں کے نگر میں
ہوں گے نہ اندھیرے مِری یادوں کے نگر میں
آوارہ سا گھومے ہے ترا نام ہی لے کر
ہر شام سویرے مِری یادوں کے نگر میں
یہ روشنی کے ہالے جو مَیں دیکھ رہا ہوں
تو نے ہی بکھیرے مِری یادوں کے نگر میں
ہے یاد تری سوچ تری رنگ بھی تیرا
سب رُوپ ہیں تیرے مِری یادوں کے نگر میں
اِک وہ ہے خیال اس کا ہے یہ سوچ بھی اُس کی
سب لوگ ہیں میرے مِری یادوں کے نگر میں
ہر وقت جو فیصلؔ ہے مرے ذہن پہ چھایا
ڈالے ہے وہ ڈیرے میری یادوں کے نگر میں
٭٭٭
ڈھونڈا ایک سہارا ہم نے
اپنی جان سے پیارا ہم نے
دل کی جو دھڑکن ہے اس کو
ہر اِک وقت پکارا ہم نے
نہ دیکھوں وہ چین نہ آئے
بہت کیا ہے چارا ہم نے
بار بار وہ ٹوٹ رہا تھا
دیکھا ایسا تارا ہم نے
اُس کی آنکھوں کے صدقے میں
بدلا وقت کا دھارا ہم نے
بکھرا بکھرا ہی دیکھا ہے
ہر اِک غم کا مارا ہم نے
فیصلؔ منزل پر پہنچیں گے
دیکھا درد کنارا ہم نے
٭٭٭
کسی سے کچھ نہ کہوں گا یہ فیصلہ میرا
زمانہ دیکھ لے کتنا ہے حوصلہ میرا
مصیبتیں ہیں ملیں وہ کہ یہ بھی ہوش نہیں
کہاں پہ مَیں ہوں کہاں پہ ہے قافلہ میرا
ہے جب تلک اسے جلنا جلے گا ہر صورت
دِیا بجھا نہیں سکتی ہے یہ ہَوا میرا
ہر ایک سمت سے مایوسیاں ملیں مجھ کو
ملا کہیں پہ بھی مجھ کو نہ آشنا میرا
کہاں پہ منزلیں کھوئی ہوئی تمہاری ہیں
کہے پکار کے پاؤں کا آبلہ میرا
وہ ایک لمحہ بچھڑنا عذاب لگتا تھا
اس ایک شخص سے ایسا تھا سلسلہ میرا
ہمارے سینے میں دل ہے یہ دیکھ لو فیصلؔ
کرو نہ کوہ سے اب تو موازنہ میرا
٭٭٭
نگاہ و دل سے کہنا ہے
بہے کاجل سے کہنا ہے
کبھی آؤ اندھیرے میں
مہِ کامل سے کہنا ہے
کبھی برسو بھی صحرا پر
یہی بادل سے کہنا ہے
ملے گا نہ یہاں سے کچھ
ترے سائل سے کہنا ہے
کبھی سن لے سماعت یہ
کہ کچھ فیصلؔ سے کہنا ہے
٭٭٭
گُل کھِلتا کھِلتا تیرے لیے
سب مہکا مہکا تیرے لیے
اب آ جاؤ رہ تکتا ہے
ہر رستہ رستہ تیرے لیے
میں کھوج میں ہر دم رہتا ہوں
اب صحرا صحرا تیرے لیے
جو بہت برا ہے میرا ہے
سب اچھا اچھا تیرے لیے
سب اندھیارے ہیں نام مرے
دل جلتا جلتا ترے لیے
فیصلؔ کب سے رہ تکتا ہے
من اُجلا اُجلا تیرے لیے
٭٭٭
کس کو بتلاؤں مجھے چھوڑ گیا ہے کوئی
اب کہاں جاؤں مجھے چھوڑ گیا ہے کوئی
ہو گی تکلیف بہت زخم ہے تازہ تازہ
دل کو سمجھاؤں مجھے چھوڑ گیا ہے کوئی
کوئی دنیا میں نہیں درد جو میرے بانٹے
خود ہی چِلآؤں مجھے چھوڑ گیا ہے کوئی
ذکرِ فرقت پہ گلستاں کا گلستاں اُجڑا
کیسے دُہراؤں مجھے چھوڑ گیا ہے کوئی
اُس کے رستے پہ کھڑا ہو کے میں فیصلؔ کب سے
جھولی پھیلاؤں مجھے چھوڑ گیا ہے کوئی
٭٭٭
بنی جو تیری یہ حالت سمجھ نہیں آئی
ہے کس سے تجھ کو محبت سمجھ نہیں آئی
ابھی تلک مَیں جہاں کو سمجھ نہیں پایا
مجھے زمانے کی فطرت سمجھ نہیں آئی
جسے بھی دیکھتا ہوں مَیں بنا ہے لیڈر وہ
ہے کس کے ہاتھ قیادت سمجھ نہیں آئی
جہاں میں رہنا بھی اِک روزِ حشر لگتا ہے
وہ کیسی ہو گی قیامت سمجھ نہیں آئی
جو کل تلک مِرے دشمن تھے میرے دوست بنے
یزیدیوں کی اطاعت سمجھ نہیں آئی
سگِ امیر ہے پسرِ غریب سے بڑھ کر
مجھے خدا کی یہ قدرت سمجھ نہیں آئی
تمہارے ساتھ تو فیصلؔ یہاں پہ کیا نہ ہوا
ہے کیسی تیری بھی قسمت سمجھ نہیں آئی
٭٭٭
غم زدوں کو مَیں قہقہے بیچوں
اندھے لوگوں کو آئینے بیچوں
کتنا پاگل ہوں کیسی سوچ مری
دن چڑھا ہے تو پھر دِیے بیچوں
شعر لکھے تو داد دی سب نے
اپنی چاہت کے سلسلے بیچوں
کوئی اپنا مقام بن نہ سکا
دوسروں کو مَیں مرتبے بیچوں
ہے خریدار کوئی سپنوں کا
فیصلؔ ارمان مَیں کسے بیچوں
٭٭٭
وہ اِک ہی شخص جب اپنا نہیں ہے
بھری دنیا میں کچھ میرا نہیں ہے
محبت پیار ہے سب ایک دھوکہ
کوئی رشتہ ملا سچا نہیں ہے
بنایا ایک ہی محبوب مَیں نے
ہر اِک ہی شخص کو چاہا نہیں ہے
میں کس بستی میں آ کر رہ گیا ہوں
کہیں بھی پیار کا سایہ نہیں ہے
مری دنیا میں آیا وہ اکیلا
نگاہوں میں کوئی ویسا نہیں ہے
مرا دستِ طلب فیصلؔ ابھی تک
دُعاؤں کے لیے اُٹھا نہیں ہے
٭٭٭
یہ دل جاں اب تمہارا کر رہا ہوں
مَیں دنیا سے کنارا کر رہا ہوں
کسی کو سونپ کر اپنا سبھی کچھ
مَیں جینے کا سہارا کر رہا ہوں
یہ دنیا کو خبر کیا بن تمہارے
مَیں کس طرح گزارا کر رہا ہوں
سلامت اب رہے یا ٹوٹ جائے
اُسے قسمت کا تارا کر رہا ہوں
کوئی تو بات اس میں ہے جو فیصلؔ
مَیں اس کو جاں سے پیارا کر رہا ہوں
٭٭٭
دل میں اس کا خیال کیا کہنے
ہم نے دیکھا وصال کیا کہنے
درد سہہ کر نہیں کوئی شکوہ
لوگ ہیں باکمال کیا کہنے
اُس سے پایا نشہ شرابوں نے
آنکھ وہ ہے غزال کیا کہنے
کتنا پیارا بنایا ہے اس کو
مالکِ ذوالجلال کیا کہنے
اس سا دیکھا نہیں ہے آنکھوں نے
حسن وہ بے مثال کیا کہنے
تم نے دیوانہ کر دیا فیصلؔ
کر دیا ہے کمال کیا کہنے
٭٭٭
اس کی آنکھوں کا جام دیکھ تو لوں
مَے کدے کا نظام دیکھ تو لوں
اس زمانے میں اس کے روپ ہیں کیا
آدمی کا مقام دیکھ تو لوں
ہم سفر میرے ساتھ کون چلا
ساتھ کس کا ہے نام دیکھ تو لوں
آدمی نے جہاں میں رہنے کو
کیا کِیا اہتمام دیکھ تو لوں
مصر میں بک گئے تھے یوسفؑ بھی
میرے ہیں کتنے دام دیکھ تو لوں
میری فیصلؔ یہ ایک حسرت ہے
اس کے ساتھ ایک شام دیکھ تو لوں
٭٭٭
تاریکی میں تارے کی ہو تنویر کہاں تک
رکھے گی زباں میری بھی تاثیر کہاں تک
مظلوم کی آواز کو کوئی نہیں سنتا
کھینچو گے تم انصاف کی زنجیر کہاں تک
چمکے گی وہ بجلی تو یہ جل جائے گا سب کچھ
کر لو گے تم ارمانوں کی تعمیر کہاں تک
اِک روز تو حق بات بھی آئے گی لبِ بام
تم سچ کی چھپا رکھو گے تصویر کہاں تک
قسمت کے مَیں ہوں رحم و کرم پر مِرے فیصلؔ
لے جائے گی مجھ کو میری تقدیر کہاں تک
٭٭٭
یاد وہ آئے
کیوں تڑپائے
بڑھتے جائیں
شام کے سائے
دل کا آنگن
سونا ہائے
اس کی باتیں
کون سنائے
بھولے نہ وہ
لاکھ بھلائے
آنکھوں سے اب
کون پلائے
آ گئے سب ہی
وہ نہ آئے
میٹھی باتیں
کون سنائے
چاہت تیری
بڑھتی جائے
فیصلؔ تیرا
کدھر کو جائے
٭٭٭
میری قسمت کا ستارا گردشوں میں گھِر گیا
دنیا والوں کی منظم سازشوں میں گھِر گیا
میں نے جن باتوں کا دل میں بھی کبھی سوچا نہ تھا
کیسے کیسے اب انوکھے حادثوں میں گھِر گیا
یہ مصیبت آ پڑی مَیں کس کو اپنی جان دوں
ایک میرا دل ہزاروں قاتلوں میں گھِر گیا
ہر طرف سے مشکلیں ہی مشکلیں ہوں دیکھتا
جیسے جنگل میں مسافر رہزنوں میں گھِر گیا
وہ کسی کو دے گا کیا جو خود ہی مفلس شخص ہو
ایک فیصلؔ شہر بھر کے سائلوں میں گھِر گیا
٭٭٭
میری طرف دیکھو ذرا
اِک بات کو سوچو ذرا
کیوں پیار تجھ سے ہے مجھے
مجھ سے کبھی پوچھو ذرا
بس اِک نظر دیکھو اِدھر
چلتے قدم روکو ذرا
میرا ترا رشتہ ہے کیا
اس بات کو بوجھو ذرا
یہ خامشی اچھی نہیں
توڑو قسم بولو ذرا
مجھ کو ہو تم اچھے لگے
اِک بار یہ کہہ دو ذرا
ٹوٹا روّیوں سے ترے
شیشۂ دل جوڑو ذرا
فیصلؔ تو شیدا ہے ترا
دل میں کبھی جھانکو ذرا
٭٭٭
خوابوں کو ملے تعبیر کہاں
ایسی اپنی تقدیر کہاں
وہ فاتحِ عالم اور ہی تھے
وہ مومن وہ شمشیر کہاں
اب پیار بھی جھوٹا جھوٹا ہے
وہ رانجھا اور وہ ہیر کہاں
جس کی لاٹھی ہے بھینس اس کی
انصاف کی ہے زنجیر کہاں
جب ذہن میں کِرچیاں چُبھتی ہوں
پھر سوچوں کی تعمیر کہاں
دولت سے عزت ہے فیصلؔ
اب بندوں کی توقیر کہاں
٭٭٭
کسی کو کچھ نہیں کہنا سبھی کچھ ضبط کر لینا
ستم پر اب ستم سہنا سبھی کچھ ضبط کر لینا
بُریدہ اپنی حالت ہے مگر شکوہ نہیں لب پر
پھٹا دامن بھی سِی لینا سبھی کچھ ضبط کر لینا
خدا جانے مری ہستی میں کیسا انقلاب آیا
سبھی کچھ دیکھتے رہنا سبھی کچھ ضبط کر لینا
میں اپنے ظرف کے قرباں میں اپنی جان کے صدقے
کسی نے جو بھی کچھ کہنا سبھی کچھ ضبط کر لینا
مرے فیصلؔ یہ کیا عادت بنائی تو نے اب اپنی
تقاضہ کچھ نہیں کرنا سبھی کچھ ضبط کر لینا
٭٭٭
اپنی پستی کا سبب خود ہی بنا دیتا رہا
اپنے دشمن کو میں جینے کی دعا دیتا رہا
زیست کے اس پُرخطر سے راستے میں یہ جہاں
مجھ کو ہر اِک موڑ پر سب کچھ سِکھا دیتا رہا
بھول جائیں نہ کہیں پھر سے زمانے کے سبق
اپنے سارے زخم مَیں سوئے جگا دیتا رہا
اپنے ساقی کی نوازش پہ مَیں حیراں رہ گیا
یہ خبر بھی نہ رہی وہ جام کیا دیتا رہا
زندگانی کے سفر میں مجھ کو ہر اِک گام پر
یہ زمانہ زندہ رہنے کی سزا دیتا رہا
جو روا رکھا زمانے نے یہاں فیصلؔ کے ساتھ
دھیرے دھیرے سے وہی دل کو جلا دیتا رہا
٭٭٭
اپنے مرے مرنے کی دُعا مانگ رہے ہیں
اے میرے خدا دیکھ یہ کیا مانگ رہے ہیں
کیسے ہیں یہ نادان سبھی لوگ یہاں کے
گر شمع جلی ہے تو ہَوا مانگ رہے ہیں
اللہ رے سفّاک ہے یہ کتنا زمانہ
مرتے ہوئے لوگوں کی قضا مانگ رہے ہیں
اتنی ہے بڑھی ذہنوں کی پستی ذرا دیکھو
بیماروں سے بھی لوگ شفا مانگ رہے ہیں
اُس بات کو چاہا ہے جو ممکن ہی نہیں ہے
صحراؤں سے ہم کالی گھٹا مانگ رہے ہیں
جن کے لیے تو خون کی ہر بوند بہا دے
سوچوں وہی کیوں تیرا بُرا مانگ رہے ہیں
کانٹے بھی کبھی پھول بنا کرتے ہیں ناداں
طوفانوں سے کیوں بادِ صبا مانگ رہے ہیں
بھرپور وہ رعنائیوں سے رنگ عجب تھا
پھر سے وہی ہم رنگِ حنا مانگ رہے ہیں
ہر شخص پکارے یہاں دکھ درد کا موسم
کیسی یہاں سب آب و ہوا مانگ رہے ہیں
ہو جس کی پذیرائی جو مقبول ہو فیصلؔ
مدت سے وہ اندازِ نوا مانگ رہے ہیں
٭٭٭
سمجھایا پر سمجھ نہ پایا پاگل دل دیوانہ دل
بھٹک رہا ہے تنہا تنہا پاگل دل دیوانہ دل
زیست کے ہر اِک موڑ پر دنیا والوں نے اس کو توڑا
بنا نشانہ سب لوگوں کا پاگل دل دیوانہ دل
اپنوں نے جب درد و الم کی اس کو دی ہیں سوغاتیں
روکے کیسے آنکھ میں دریا پاگل دل دیوانہ دل
جھوٹوں کی اب بستی میں سچائی ڈھونڈتا پھرتا ہے
کیسی کیسی کرے تمنا پاگل دل دیوانہ دل
اس نگری میں کہاں ملے گا پیار محبت اور خلوص
پھرتا ہے اب مارا مارا پاگل دل دیوانہ دل
دشتِ جہاں میں تپتی ریت پہ اپنی وفا کے لاشے پر
ضبط کے بندھن توڑ کے رویا پاگل دل دیوانہ دل
اب تک اس کی سمجھ نہ آئی کس کا یہ شیدائی ہے
فیصلؔ کس سے پیار ہے کرتا پاگل دل دیوانہ دل
٭٭٭
تم یقیں جو کرو نہ کرو دلربا دل تجھے ہر گھڑی یاد کرتا رہا
صرف تم سے محبت کا رشتہ ہوا دل تجھے ہر گھڑی یاد کرتا رہا
میری یادوں میں ہر جگہ تو ہی ملے ہجر تیرا مری جان کیسے کٹے
چھائی سوچوں پہ یادوں کی کالی گھٹا دل تجھے ہر گھڑی یاد کرتا رہا
تیرا انداز ہر ایک پیارا لگے بن ترے اور کوئی نہ چارا لگے
اِک ترے نام کی دل سے نکلے صدا دل تجھے ہر گھڑی یاد کرتا رہا
ہر خوشی اب مری تو ترے سنگ ہے بن ترے زندگی کتنی بے رنگ ہے
دھیرے دھیرے ترا پیار بڑھتا گیا دل تجھے ہر گھڑی یاد کرتا رہا
تیری باتوں نے مجھ کو ہے بے کل کیا تیری یادوں نے جینا ہے مشکل کیا
دور رہ کے بھی تجھ سے نہیں ہوں جُدا دل تجھے ہر گھڑی یاد کرتا رہا
وقتِ رخصت ترا مجھ کو یوں دیکھنا اور آنکھوں میں تھوڑی نَمی پھیلنا
دل اُسی کرب میں اب تلک مبتلا دل تجھے ہر گھڑی یاد کرتا رہا
پاؤں میں تیری اُلفت کی زنجیر ہے اور آنکھوں میں اک تیری تصویر ہے
کیسے بتلاؤں ہر گام ہر اِک جگہ دل تجھے ہر گھڑی یاد کرتا رہا
تم مرا پہلا اور آخری پیار ہو میری ہستی کے اب تم ہی غمخوار ہو
عمر بھر تم سے کرتا رہوں گا وفا دل تجھے ہر گھڑی یاد کرتا رہا
جانے کیا سوچ کر آنکھ میں ہے نمی جانے کس چیز کی میں نے کی ہے کمی
ایسے مجھ سے نہ ہو جاؤ تم اب خفا دل تجھے ہر گھڑی یاد کرتا رہا
اب جدائی کا یہ امتحاں سر پہ ہے تیری اُلفت کا پرسائباں سر پہ ہے
مجھ کو مشکل میں بھی پیار کا حوصلہ دل تجھے ہر گھڑی یاد کرتا رہا
نام تیرا مری اب تو سانسوں میں ہے اور تصویر اپنی نگاہوں میں ہے
ٹوٹ سکتا نہیں رشتہ یہ ساتھیا دل تجھے ہر گھڑی یاد کرتا رہا
فیصلؔ اِک لمحہ تم کو بھلا پائے نہ تیری یادوں سے دامن چھڑا پائے نہ
تو ہی خلوت میں جلوت میں پِیارے پیا دل تجھے ہر گھڑی یاد کرتا رہا
٭٭٭
جب ڈھونڈ ڈھونڈ تھک جاؤ گے پھر میں تم کو یاد آؤں گا
کہیں مجھ جیسا نہ پاؤ گے پھر میں تم کو یاد آؤں گا
میری کھوج میں جب تم نکلو گے ہر گام پہ ہر اِک محفل میں
میرا سایہ بھی نہ پاؤ گے پھر میں تم کو یاد آؤں گا
اب روک لو اپنے بڑھتے قدم ذرا دیکھ بھی لو آنکھیں پُرنم
تم بعد میں جب پچھتاؤ گے پھر میں تم کو یاد آؤں گا
جب چھوڑیں گے سب ساتھ ترا پھر ڈھونڈے گا تو ہاتھ مرا
تنہائی میں چِلّاؤ گے پھر میں تم کو یاد آؤں گا
کوئی اپنا ہو جس سے بانٹوں دکھ درد سبھی اپنے دل کے
تم خواہش دل میں لاؤ گے پھر میں تم کو یاد آؤں گا
میں چپ ہوں کچھ نہیں کہتا ہوں لیکن تم ہر اِک غلطی کو
دیواروں میں چُنواؤ گے پھر میں تم کو یاد آؤں گا
کتنے ارمانوں سے فیصلؔ تم میری لَحد کے سرہانے
جب پھول مجھے پہناؤ گے پھر میں تم کو یاد آؤں گا
٭٭٭
کہوں ایسے لطف و کرم پہ کیا میرے دلربا تیرا شکریہ
مجھے کی ہے دولتِ غم عطا میرے ساجنا تیرا شکریہ
جو غلط ہے دل نہیں مانتا جو درست ہے وہی اب کروں
مجھے جام کیسا پلا دیا میرے ساقیا تیرا شکریہ
میرا ظرف اتنا بڑا نہیں تیرے فیصلوں کو سمجھ سکوں
مجھے جیسے حال میں بھی رکھا اے میرے خدا تیرا شکریہ
پڑیں ہر طرف سے ہی سنگ اب کروں زندہ رہنے کی جنگ اب
مجھے اس طرح سے وفاؤں کا ہے دیا صلہ تیرا شکریہ
مجھے تجھ سے کوئی گلہ نہیں میرا انتخاب ہی تھا غلط
کہاں منزلیں کہاں میں کھڑا میرے رہنما تیرا شکریہ
نہ مزید ظلم و ستم کرو میری جان پر بھی کرم کرو
میری بات سن نہ لے امتحاں میرے ضبط کا تیرا شکریہ
٭٭٭
ماخذ: کتاب ایپ کی ای پب فائل
ای بک سے تبدیلی، تدوین اور باز تبدیلی: اعجاز عبید
www.idealideaz.com
ڈاؤن لوڈ کریں