فہرست مضامین
- کربِ آرزو
- انتساب
- کربِ تخلیق
- شائستہ سحرؔ کی ’’متاعِ فکر‘‘ کا تجزیاتی مطالعہ
- شائستہ سحرؔ کا سخن اور استفہامیہ اشارات
- ایک نظر شائستہ سحرؔ کی شاعری پر
- حمد
- نعتِ رسولِ مقبول
- غزلیں
- باغ میں کلیوں کا مسکانا گیا
- سراپا انتظار تھا مری طرح
- میں نے دیکھے ہیں وہ نظارے بھی
- اگرچہ فاصلہ رکھا ہوا ہے
- جو دالان میں دھوپ بوئے ہوا
- اے زندگی کہاں ہے تو پکار اب
- تری صورت ہی پل پل دیکھتے ہیں
- ہے شکایت گردشِ افلاک سے
- کیا چاک دل نے گریباں عبث
- درد اور دل بہم رہیں گے میاں
- ستاروں سے آنکھیں ملانے لگی ہوں
- سنگ ہے، خار ہے ہمارے بیچ
- وفا ہوئی جو بے اثر تو ہم نے شعر کہہ دیا
- درونِ ذات کے در کھولتا ہے
- بے بصارت ہو گئیں آنکھیں مگر منظر توہے
- مثالِ تتلی، گلاب میں ہوں
- دل کو آگ لگانی ہو گی
- تری دنیا کے پیچ و خم
- جب ہو قدغن گرمیِ گفتار پر
- یہ چاندنی کے سراب رستے
- ایک افسردگی جو من میں ہے
- زندگی کو زندگی کے روبرو میں نے کیا
- نکلا ہے مرا دن نہ مری شام ہوئی ہے
- اپنے سپنے چرا خیال نکال
- فلک نے ہم پہ بانہیں کھول دی ہیں
- پتے خزاں کے جب مری پوشاک ہو گئے
- سکوتِ شام کی بوجھل گھڑی ہے
- تم کو بھی سوزِ جاں نے سونے نہیں دیا
- دریچہ بے صدا دیکھا نہ جائے
- ہو گیا پیوستۂ تقدیر کیا
- بنتا نہیں مرا وہ
- دل کی دیوار پر لکھا ہے عشق
- آج مہمانِ ماہ و اختر ہوں
- اب گلہ کوئی نہیں ناکامیِ تقدیر سے
- صدور غم کا ہے کہاں دماغ اب
- اُٹھائیں گے بارِ گراں اور کتنے
- بے کل دل ہے اب رنجور
- اک ستارہ بھی نہیں ہے بام پر
- گل نہیں، خار سمجھتے ہیں مجھے
- ہاتھ سے اپنے جو پیمانہ گیا
- یہ جو تیری مری کہانی ہے
- تری فرقت کے صدمے کم نہیں تھے
- اُٹھائے گا کب تو حجابات ساقی
- کس میں ہے دم خم دلبرِ من
- حسن کے جانثار موسم ہیں
- یہ جو نکلا ہے آفتاب نہیں
- نصیبوں میں جو آندھیاں اور بھی ہیں
- منتشر کر کے ڈال ڈال وجود
- مرا چہرہ مری آنکھیں کہاں ہیں
- بے کنار و بے کراں
- حرفوں میں نہ اخگر باندھ
- روئیے زار زار فرقت میں
- جو یوں ہی بدلتے رہو گے ٹھکانے
- شام کی رنگت نیلی ہونے والی ہے
- کس کے سینے میں تیر پار کریں
- کرم کا سائباں رکھے ہوئے ہیں
- نہیں تجھ سے کچھ طاس گوں چاہیے
- مثلِ گل تھا جو کبھی خار ہوا جاتا ہے
- مجھ کو آزادیِ جسم و جاں چاہیے
- زندانیِ جاں شامِ غریباں میں رہا ہے
- درکار اب نہیں مجھے خیرات پاس رکھ
- جدا مجھ سے تھا وہ بچھڑا نہیں تھا
- وہ دردِ نہاں سوزِ جگر کس کے لیے تھا
- میں بھی چپ ہوں، تو بھی چپ
- خائف عدو ہیں ہاتھ میں تلوار دیکھ کر
- اب فقیروں کی دعا لینے دے
- ستارے تھے کبھی جن کا مقدر، لوٹ آئے ہیں
- چند سانسیں اُدھار لیں گے ہم
- نقش ہے تیرا نام پھولوں پر
- آنکھوں میں جو نمی ہے
- خوشبو سے گل عاری نہ تھا، موجِ صبا تنہا نہ تھی
- شاخِ درد سے لپٹے لوگ
- ملالِ گردِ سفر نہیں ہے
- گلشن سے ادھر بادِ صبا کیوں نہیں آتی
- تیری عادت نہ مار دے ہم کو
- روح جلتی ہے یہ تن جلتا ہے
- شوق آزار تھوڑی ہوتا ہے
- گل چپ ہے مہک بند، گھٹا بند، صبا بند
- تعلق توڑ دیتے ہو
- یقین کو گمان دے رہی ہوں
- فراق ڈھویا، قربت کے جال سے نکلے
- کب سُنی تم نے راگنی میری
- رفاقتوں کا ہم نے عجب اثر دیکھا
- اجل سے برسرِ پیکار ہونا چاہیے تھا
- ایک صورت جو من میں در آئی
- سکوں پل بھر تو ہوتا
- اس کو بلائیں یا پھر اس کے در جائیں
- کس رہ سے گزرنا ہے معلوم کسے ہے یہ
- سراپا آرزو ہوں
- خود پہ تہمت نہ لگا پہلے سے
- بگڑے ہوئے نصیب بنانے میں لگ گئے
- لو طے مرحلہ ہجر کا ہو گیا
- آج صبا کے گھر میں جو مہمان ہوئے
- یاد جو آیا بچھڑنے کا مآل
- سب کچھ ہے ترے حلقۂ ادراک میں پنہاں
- سکھ ہمیں ایسا کہاں عید منانے سے ہوا
- سمیٹی جا سکی نہ راکھ میری
- اے خواہشِ یک طرفۂ تاراجِ جنوں سُن
- کتنا بدل گئی ہوں
- خواب ہے خواب کی تعبیر نہیں ہو سکتی
- نظمیں
- کنارِ ماہ
- استفسار
- موسمِ دل
- لفظ گنگناتے ہیں
- اُدھڑن
- آراء
کربِ آرزو
(شعری مجموعہ)
شائستہ سحرؔ
انتساب
والدہ محترمہ کے نام
جن کی جدائی نے کربِ آگہی
سے روشناس کرایا
کربِ تخلیق
ابوالبیان ظہور احمد فاتحؔ
صانعِ ازل نے حضرتِ انسان کو تخلیق فرمایا اور بہت خوب تخلیق فرمایا پھر اُس پر فیضانِ علم کر کے معشرِ فرشتگان پر اُس کی فضیلت ثابت فرما دی اور یہ راز بھی افشا کر دیا کہ تم میں سے آپس کی مسابقت میں ز یادہ معزز کون ہو گا۔ جی ہاں آپ بجا سمجھ رہے ہیں، واضح فرما دیا کہ جو اللہ سے جتنا زیادہ ڈرے گا اُتنا زیادہ صاحبِ عزت و تکریم ٹھہرے گا۔ مزید براں مقصدِ تخلیق پر یوں روشنی ڈالی ہے کہ ہم نے تمھیں صرف اور صرف اپنی فرماں برداری اور نیاز مندی کے لیے پیدا کیا ہے۔ اولادِ آدم کو مقصدِ حیات حاصل کرنے کے لیے جن جواہر سے نوازا گیا ہے اُن میں دل و دماغ، عقل و شعور، ذہن و فکر اور طینت و سرشت جیسی خوبیاں شامل ہیں۔ پھر کرۂ ارض پر آ کر اِس انگارۂ خاکی پر یہ حیرت انگیز انکشاف بھی ہوا کہ دنیا میں کچھ اور معیاراتِ فضیلت بھی ہیں جن میں سے ایک ہنر بھی ہے۔ ہنر کئی طرح کے ہو سکتے ہیں، من جملہ جن کے ایک نطق و بیان میں کمال بھی ہے گویا صلاحیتِ شعر و سخن بھی ایک کیفیتِ افتخار ہے :
ایں سعادت بزورِ بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
ماشاء اللہ یہ امر باعثِ تسکین و مسرت ہے کہ وطنِ عزیز میں شعر و ادب کو بڑی پذیرائی حاصل ہے۔ مردوں کے ساتھ ساتھ طبقۂ اناث بھی اب پوری شد و مد سے شریکِ کارواں ہے۔ نت نئی کتب منصہ شہود پر آ رہی ہیں اور یوں عروسِ شعر و ادب کا دامن مالا مال ہوتا جا رہا ہے :
اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ
اِس قبیل میں کچھ ایسے سر پھرے بھی شامل ہیں جنھوں نے یہ طے کر رکھا ہے کہ دامے، درمے، سخنے، قدمے ہر رنگ میں خدمتِ ادب کا فریضہ سر انجام دیں گے اور اِس کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریں گے :
ہم پرورشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہے ہیں گے
اِسی قافلۂ سعادت کی ایک رُکن پروفیسر شائستہ سحرؔ کا تیسرا مجموعۂ کلام ’’کربِ آرزو‘‘ زیرِ نظر ہے جو کسی کشیدِ جاں سے کم نہیں۔ ہر چند ایک خاتون ہونے کے ناتے اُن کی ذمہ داریاں بہت زیادہ ہیں۔ پھر فریضۂ تدریس بھی اُن میں شامل ہے لیکن اِن سب باتوں کے باوجود وہ دھُن کی پکی اور لگن میں ثابت قدم ثابت ہوئی ہیں۔ اُن کا یہ شعری مجموعہ اُن کے بھرپور وجدانی ادراکات کا غماز ہے۔ الفاظ کی چست بندش، مرکبات کی ندرت، تشبیہات کا تطابق اور استعارات کا برمحل توارد اُن کے کلام کے اوصافِ اربعہ ہیں۔ اُن کی فکری برجستگی اور منطقیت بھی اِس امر کی شاہد عادل ہے کہ وہ مشقِ سخن کو ریاضِ فن کا درجہ دیتی ہیں۔ اِن سب باتوں کے باوجود اُن کی فروتنی اور انکساری ملاحظہ ہو:
بے ہنر ہونا بھی گویا ہے ہنر
راز یہ تاخیر سے جانا گیا
وہ زندگی ہر رنگ میں بصد ہمت گزارنے کی قائل ہیں۔ اِس لیے وہ کسی تلخیِ حالات کو خاطر میں نہیں لاتیں۔ ذرا اُن کا یہ شعر ملاحظہ ہو:
تشنگی، مے سے اب نہیں بجھتی
ڈال ساغر میں کچھ شرارے بھی
وہ محبت میں عفت و پاکیزگی اور رکھ رکھاؤ کی قائل ہیں۔ ذراسی بے احتیاطی کو بھی بڑی سنجیدگی سے لیتی ہیں اور خود کو اِس کا دوشی قرار دیتی ہیں۔ اُن کا یہ شعر اِس پر دال ہے :
بے حجابانہ تجھے تکتے ہیں ہم
بے وضو پڑھتے ہیں ہم اکثر نماز
ایک معلمہ ہونے کے ناتے وہ تہذیبِ سخن پر بہت زیادہ توجہ دینے کی قائل ہیں۔ فنی تلازمات کو بہ حسن و خوبی نبھانا اور مسامحاتِ ہنر کو قلم زد کرنا، اپنا فرضِ منصبی سمجھتی ہیں۔ چناں چہ لکھتی ہیں :
نیا لفظ اک ضبطِ تحریر میں ہے
جو حرفِ غلط ہے مٹانے لگی ہوں
انسان کو قدرت نے عجب نشاۃِ ثانیہ کی خاصیت سے نوازا ہے۔ جیسے مشہور شعر ہے :
موت اک ماندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے بڑھیں گے دم لے کر
بالکل یہی ارفع خیال ایک نئے رنگ ڈھنگ میں شائستہ سحرؔ کے ہاں پایا جاتا ہے۔ اُن کا یہ شعر ملاحظہ ہو:
پیراہن مٹی کا دے کر خوش نہ ہو
دیکھنا ہم پھر اُٹھیں گے خاک سے
زمانہ بہت سے انداز رکھتا ہے جن میں سے ایک جارحیت بھی ہے۔ جارحیت کا مقابلہ جارحیت سے بھی کیا جا سکتا ہے لیکن کچھ اصحابِ تدبیر صرف مدافعت پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن سے کسی زیادتی کی توقع کم ہی رکھی جا سکتی ہے۔ شائستہ سحرؔ بھی اسی پُر امن بقائے باہمی کی قائل ہیں۔ اُن کا یہ تخیل کتنا لطیف ہے :
پاس میرے ہے محبت کی سپر
ناز تجھ کو ہے اگر ہتھیار پر
جہاں بانی کا سلسلہ کارِ دشوار ہے اِس لیے طرح طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اپنے بھی بیگانے بن جاتے ہیں، حلیف بھی مخالفت پر اُتر آتے ہیں اور ساجن دشمن بن جاتے ہیں۔ ایسی واژگونیوں کے باوجود سلامت روی بہت بڑے تدبر کی بات ہے۔ اِسی کی طرف اُن کا یہ شعر مشیر ہے :
تندیِ بادِ مخالف کی قسم
پھر دیا رکھوں گی میں دیوار پر
شائستہ سحرؔ کے ہاں تلمیحات کا بھی باضابطہ اہتمام پایا جاتا ہے۔ حضرت آدم و حوا کا جنت سے نکالا جانا، اکثر شعرا نے اپنے اپنے انداز میں بیان کیا ہے لیکن جو رنگ اِنھوں نے برتا ہے وہ بھی خالی از دلچسپی نہیں ہے۔ چناں چہ لکھتی ہیں :
فرشتو دیکھ لو لغزش ہماری
کہ اک دانے سے بہکائے گئے ہیں
زندگی میں کچھ ایسے مواقع بھی آتے ہیں کہ منفی سے مثبت کے پہلو نکل آتے ہیں۔ ضرر سے منفعت کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ اِس صورتِ حال کو سحرؔ نے کس خوبی سے پیش کیا ہے :
بخشا ہے تیرے قرب نے ہم کو شعورِ جاں
کھویا تجھے تو صاحبِ ادراک ہو گئے
یقیناً ایسے اشعار باعثِ اُمید و رجا ہوا کرتے ہیں۔ اگر آس کی شمعیں روشن رہیں تو انسان یاس کے گھپ اندھیروں سے بچا رہتا ہے۔
جبر و قدر کا مسئلہ بھی کافی دیرینہ ہے۔ کچھ لوگ فلسفۂ مجبورِ محض کے قائل ہیں اور کچھ مختارِ کل کی وکالت کرتے ہیں۔ دونوں موقف عرصۂ دراز سے باہم دست و گریبان رہے ہیں۔ آئیے ذیل کے شعر میں دیکھتے ہیں کہ شائستہ جی کس موقف کی قائل ہیں :
میں کوزہ گر کے ہاتھ میں یوں کھیل سا بنی رہی
کبھی مجھے بنا گیا، کبھی سحرؔ مٹا گیا
مگر یہ بھی مت سمجھیے گا کہ وہ خود کو تقدیر کا صیدِ زبوں سمجھتی ہیں۔ اِس کے لیے وہ مقدور بھر کدو کاوش کی قائل ہیں اور حتیٰ الامکان ہاتھ پیر مارنے کی روا دار ہیں۔ اُن کی غزل کا یہ شعر اِسی بات کی ترجمانی کرتا ہے :
اب گلہ کوئی نہیں ناکامیِ تقدیر سے
میں نے ٹالا ہر بلا کو ناخنِ تدبیر سے
عرفانِ ذات انسان کے لیے بے حد ضروری ہے۔ یہی پیغام اقبالؔ نے خودی اور خود داری کے انداز میں دیا ہے۔ شاعرہ موصوفہ بھی اپنی قدر و قیمت سے آگاہ ہیں، جس کا اظہار اُنھوں نے کچھ یوں کیا ہے :
میرے بنا ادھورا ہے مضمونِ کائنات
میں حرفِ ناگزیر ہوں نفسِ بیان میں
کہا جاتا ہے کہ ہمارا تمدن مردوں کا سماج ہے اور اِسی میں عورت کی توقیر کو مطلق ملحوظ نہیں رکھا جاتا ہے۔ یہ بجا طور پر ایک صداقت ہے۔ تاہم عصرِ حاضر میں اِس چبھتے ہوئے مسئلے کی شدت میں کچھ نہ کچھ فرق آ چلا ہے مگر کہیں نہ کہیں پھر بھی عورت کو ستانے کی شقاوتیں ضرور نظر آ جاتی ہیں۔ اِن کا ذیل کا شعر اِسی احساس کی کڑواہٹ کا مظہر ہے :
میں مسئلے ترے نہیں لائی جہیز میں
اے بدگماں یہ تلخیِ حالات پاس رکھ
یعنی مردوں کے خود پیدا کردہ مسائل کو عورتوں کے سر تھوپنا سراسر نا انصافی ہے۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ شائستہ سحرؔ کا کلام ہیئتی، تکنیکی، اُسلوبیاتی اور فکری و فنی اعتبار سے ایک پسندیدہ سلسلۂ شعر ہے جس کی پذیرائی یقیناً قارئین کے دلوں میں ہو گی۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُنھیں بہتر سے بہتر انداز میں شعر کہنے کی خوب صورت صلاحیت عطا فرمائے۔ آمین
شائستہ سحرؔ کی ’’متاعِ فکر‘‘ کا تجزیاتی مطالعہ
جسارت خیالیؔ
اُردو شعری ادب کو جہاں شعراء نے بامِ عروج تک پہنچانے میں اپنا تاریخی کردار ادا کیا ہے وہاں ہماری شاعرات نے بھی خدمتِ ادب میں کسر نہیں چھوڑی ہے، موجودہ ادبی منظر نامے میں لاتعداد شاعرات اپنے افکارِ تازہ سے نظم و غزل کو مہکا رہی ہیں۔
اُن میں ایک معتبر نام میرپور خاص کی شائستہ سحرؔ کا بھی ہے، جو چھوٹی عمر میں دنیائے ادب میں منفرد اور توانا آواز بن کر اُبھری ہے۔ جس نے ماحول کی گھٹن، دُشواریِ حالات اور محرومیوں کے حصار کو نہ صرف علم و آگہی سے توڑا، بلکہ مَردوں کے اِس سفّاک معاشرے میں اپنا دامن بھی بچایا ہے۔
اُس کا پہلا شعری مجموعہ ’’عذابِ آگہی‘‘ کے نام سے چھپ چکا ہے، جسے ادبی حلقوں میں بے حد پذیرائی ملی ہے۔ آگہی تو اسرارِ حیات و کائنات کے در وا کرتی ہے، انسان کو ترقی کی معراج کے ساتھ ساتھ روحانیت کے درجۂ کمال تک پہنچاتی ہے، نہ جانے شائستہ سحرؔ نے آگہی کو عذاب سے کیوں تعبیر کیا ہے ؟ اُس کا دوسرا شعری مجموعہ ’’متاعِ فکر‘‘ رنگِ ادب پبلی کیشنز، کراچی نے 2015ء میں چھاپا ہے، ظہور احمد فاتحؔ، شبیر ناقدؔ، نوید سروشؔ کے گراں قدر مضامین اور شاعر علی شاعرؔ کے تاثرات نے شائستہ سحرؔ کی شاعری کو مزید اعتبار بخشا ہے۔
شائستہ سحرؔ کی شاعری میں روایت اور جدت کا حسیں امتزاج نظر آتا ہے، اُس نے ہجر مسلک تو اختیار کیا لیکن یہ ناسور اُس کے من کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ زندگی کو نئے زاویوں سے دیکھنے والی کو زخمِ تنہائی ملا۔ شعورِ ذات کیا ملا کہ اُسے شہرِ کم شناس میں ہر شے تیرگی کے دائرے میں گھومتی نظر آتی ہے۔ کُنجِ تنہائی میں اُس کی صبحیں نوحہ کناں اور شامیں پُرنم ہیں۔ خوابوں کی زُلفیں نہ صرف برہم ہیں بلکہ سب تحریریں ریزہ ریزہ بھی ہو گئی ہیں۔ اُس کا مثالِ گل چہرہ مہک کر بہاروں میں سلگتا اذیت ناک زندگی سے کم نہیں ہے۔ اُسے یہ بھی دُکھ ہے کہ جسے اپنی سوچوں کا محور بنایا، وہی ارمانوں کا قاتل نکلا۔ اِس کے باوجود وہ اپنے سر پر حزن و ملال کی چادر لیے زندہ اور دولتِ دیدار کی متمنی ہے کیوں کہ اُس کے عشق میں پاکیزگی اور تہذیبی شائستگی ہے۔ اِس حوالے سے چند اشعار دیکھیے :
مجھ کو کانٹوں کا دے گئے تحفہ
جو تھے پھولوں میں تولنے والے
٭
عطا ہو دولتِ دیارِ جاناں
کہ اِک مدت ہوئی ہے خواب ہوں مَیں
٭
اُس نے بھی پھیر لی نظر ہم سے
زندگی ہم نے جس پہ واری ہے
٭
کس شدت سے تم کو چاہا
لیکن تم سے پائے پتھر
٭
جب سے تم بچھڑے ہو میرے دل نشیں
ایک ساعت بھی سکوں پایا نہیں
٭
میری خوشبوئیں تمھیں دیں گی صدا
تم ہواؤں سے لپٹ کر دیکھنا
شائستہ سحرؔ کی شاعری میں اضطرابی کیفیت ہی نہیں، بلکہ زندگی کو نئے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کا احساس بھی ملتا ہے۔ اُس نے مسائلِ حیات کو نہ صرف شعور کی آنکھ سے دیکھا ہے بلکہ اُسے شعری زبان بھی دی ہے۔ اُس نے داخلی سچائیوں کو بھی کھول کر پیش کیا ہے۔ وہ خود عورت ہے، اِس لیے عورتوں کے مسائل سے مکمل آگہی رکھتی ہے۔ وہ مقامی کالج میں درس و تدریس سے وابستہ ہی نہیں بلکہ تاریخِ عالم اور تاریخِ اسلام پر بھی کڑی نظر رکھے ہوئے ہے۔ اُسے اِس بات کا ادراک ہے کہ جب ملکیت کا تصور پیدا ہوا تو زر، زمین کے ساتھ زن کو بھی شاملِ ملکیت کر لیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ یونانی، مصری، رومی، ایرانی اور ہندی معاشروں میں بھی عورت ذلت آمیز زندگی گزارنے پر مجبور تھی۔ یہودیت اور عیسائیت میں بھی عورت کے حوالے سے حقارت آمیز نظریات ملتے ہیں۔ عرب معاشرے میں بھی عورت، مرد کی خوشنودی کا ساماں رہی۔ البتہ اسلام نے پہلی بار عورت کو معاشرے میں با عزت مقام دیا اور اُسے نئے عزم سے جینے کا حوصلہ عطا کیا۔ لیکن رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم) کے وصال کے بعد عورت پھر زیرِ عتاب ٹھہری اور تمام سماجی حقوق سے محروم کر دی گئی، اِس کی روشن مثال وطنِ عزیز میں عورتوں کے ساتھ ہونے والا ناروا سلوک دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ اِس حوالے سے تیزاب گردی، ونی کی رسم، جنسی تشدد اور قتل واضح مثالیں ہیں۔ چوں کہ شائستہ سحرؔ روشن فکر ہے، اُس کے درج ذیل اشعار عورتوں پر ہونے والے مظالم، محرومیوں کے غماز ہیں :
چُن دیا کس نے مجھے دیوار میں
چپ کھڑی ہوں گنبد و مینار میں
٭
جب جیون ہو سوگ سحرؔ پھر کیا جینا
غم کا بلبل من کے اندر بولتا ہے
٭
کب سے ہوں اِس دشت میں تنہا سحرؔ
مَیں بھی شامل ہوں اِسی آزار میں
یہ تاریخی حقیقت ہے کہ قدیم فارس میں دو خداؤں کا تصور رہا ہے۔ نیکی کے خدا کو یزداں اور برائی کے خدا کو اہرمن کہا جاتا تھا، خود ساختہ مذاہب میں بھی ابلیس برائی کی علامت ٹھہرا۔ شائستہ سحرؔ نے بھی اپنے ایک شعر میں ابلیس کو مذہب کی عینک سے دیکھ کر شر کا موجب ٹھہرایا ہے۔ لیکن فلاسفہ اور صوفیا نے ابلیس کو کس زاویے سے دیکھا، مَیں اِس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا، البتہ اقبالؔ نے اپنی نظموں ’’ابلیس کی مجلسِ شوریٰ‘‘، ’’ابلیس و یزداں ‘‘اور’’تسخیرِ فطرت‘‘، میں ابلیس کو متحرک کردار کے طور پر پیش کیا ہے۔ ہیگل کے نزدیک بھی زندگی کی نمو شر سے ہے۔ مارکسی دانشور اور انقلابی شاعر ڈاکٹر خیالؔ امروہوی نے اپنا نقطۂ نظر یوں پیش کیا ہے :
ابلیس کی شہ پر نہ کسی شر سے لگی ہے
جو آگ لگی ہے وہ مرے گھر سے لگی ہے
لیکن شائستہ سحرؔ یوں کہتی ہے :
دور دورہ ہے شر کا دنیا میں
کارِ ابلیس ہے کہ جاری ہے
شائستہ سحرؔ اپنے ماحول پر بھی کڑی نظر رکھے ہوئے ہے، وہ خارج میں ہونے والے خونچکاں حالات و واقعات سے باخبر ہے کہ جہاں دہشت گردی، معاشرتی قباحتیں، بم دھماکے، ہر سُو لاشوں کے انبار اور خوف و ہراس کی فضا میں جینا دُشوار ہو گیا ہے جس کا سبب استحصالی سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ اُس کا یہ شعر سارے عوامل کا آئینہ دار ہے :
فضا میں وحشتوں کا ہے بسیرا
پرندہ شاخ پر سہما ہوا ہے
وہ منفی معاشرتی رویوں، خود پسندی اور خود نمائی جیسے سفلی جذبوں پر یوں طنز کرتی ہے کہ جن سے سارا ماحول آلودہ ہو گیا ہے۔ شعر دیکھیے :
فریب و مکر، لالچ، خود پسندی
یہ سب آلائشیں ہیں اور ہم ہیں
اِس کے باوجود شائستہ سحرؔ مایوس نہیں ہے بلکہ پُر اُمید ہو کر اپنی زندگی کا اثاثہ محبت قرار دیتی ہے اور اِسے عام کرنے کے لیے افرادِ معاشرہ کو دلوں کے آئینے صاف رکھنے کی نصیحت بھی کرتی ہے تاکہ اعلیٰ و ارفع اخلاقی اقدار کو فروغ مل سکے، لیکن وہ مادہ پرستی کے اِس بھیانک دور میں روح کی فرحت و راحت کے ساماں تصوف میں ڈھونڈتی ہے :
محبت ہے مرا سارا اثاثہ
تمھیں جو میں ودیعت کر رہی ہوں
٭
آج سحرؔ چل اُن کے در پر
من برتن کو کر کشکول
شائستہ سحرؔ نے شاعری میں استعارات، تشبیہات و تمثیلات کا استعمال بھی قرینے سے کیا ہے، قوافی اور ردیفوں کے باہمی ربط کو ٹوٹنے نہیں دیا۔ طائر، پتھر اور دھوپ جیسے الفاظ اُس کے داخی و خارجی احساسات کے آئینہ دار ہیں، اِس کے علاوہ چشمِ سرمگیں، لمسِ عنبریں، حجرۂ دل، بحرِ خرابات، رخشِ عمر، رقصِ وحشت، کلفتِ شب، کربِ عصر، چشمِ مسیحا، کارِ ابلیس، کربِ دروں، چشمِ پُر نم، نخلِ با ثمر اور جبرِ پیہم جیسی تراکیب استعمال کر کے نئی معنویت کا ملبوس دیا ہے جو، اِس کے تخلیقی جوہر کا واضح ثبوت ہے۔ متاعِ فکر کی زیادہ تر غزلیں بحرِ رمل مسدس محذوف، بحرِ ہزج مسدس محذوف، بحرِ متقارب، بحرِ خفیف، بحرِ ہزج اخرب مکفوف محذوف اور بحرِ ہزج مثمن سالم میں کہی گئی ہیں۔ شائستہ سحرؔ کی شاعری میں شعریت، موسیقیت، سلاست و روانی ہے۔ لہجے میں دھیما پن ہی نہیں خاموش احتجاج بھی ہے، اُسلوب سادہ مگر پُر درد ہے۔
شائستہ سحرؔ کا سخن اور استفہامیہ اشارات
شبیر ناقدؔ
حضرتِ انسان کا شعوری ارتقا فطری انداز میں بطنِ مادر سے ہی آغاز پذیر ہو جاتا ہے کیوں کہ ماں کے پیٹ سے وہ خوراک لینا شروع کر دیتا ہے یوں اُسے اپنی جسمانی ضروریات و احتیاجات کا علم ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زچگی کے عمل سے قبل زچہ کی صحت و خوراک پر خصوصی توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔ جب بچہ متولد ہو جاتا ہے ابھی اُس نے اپنی زبان سے بولنے کے عمل کا آغاز نہیں کیا ہوتا لیکن اُس کے خد و خال اور اُس کی حرکات و سکنات کے قوتِ گویائی سے ہم آہنگ اشاریے ملنا شروع ہو جاتے ہیں۔ جب بولنے کے عمل سے آشنا ہوتا ہے تو وہ اپنے ادراکات کو وسیع تر کرنے کے لیے کب، کیوں، کہاں، کیسے، کون، کیا، کس لیے اور کس نے کے استفہامیہ اشارات کا استعمال خالص فطری انداز میں کرتا ہے۔ اُس کا یہ عمل تا حیات جاری و ساری رہتا ہے یہاں تک کہ موت کی آغوش میں چلا جاتا ہے۔ اِس کے بعد بھی قبر میں سوال و جواب اور روزِ محشر کا احتسابی عمل بھی استفہامیہ اشاریوں کا مرہونِ منت ہو گا گویا دنیا و عقبیٰ میں استفہامیہ تلازمات کی اہمیت سے مفر ناممکنات کا حصہ ہے چناں چہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ سوالیہ جملے انسانی شعور کی کلید ہیں۔
ہمیں شائستہ سحرؔ کے کلام کے فکری و فنی گوشوں کی سیر حاصل غواصی کے مواقع میسر آئے ہیں اور اُن کے فکر و فن کے ادراکی کینوس کا مطالعہ و مشاہدہ وقتِ نظر سے کیا ہے۔ شعر و سخن سے اُن کی وابستگی روحانی نوعیت و اہمیت کی حامل ہے۔ اُن کی ذات میں تجسس اور جستجو کے عوامل پائے جاتے ہیں جو اُنھیں عروسِ سخن سے والہانہ موانست سے نوازتے ہیں۔ اُن کا ذوق و شوق اور اُن کا خلوص اُنھیں محوِ ریاض رکھتا ہے۔ ایک جنون ہے جو اُنھیں اپنی صحت کی پروا بھی نہیں کرنے دیتا۔ امورِ خانہ داری ہوں یا پیشہ ورانہ معاملات یا گیسوئے شعر کی آرائش و زیبائش کا عمل، وہ ہمیشہ محوِ تگ و تاز رہتی ہیں۔ منازل و معیارات کی بازیافت کا عمل اُن کے ہاں تند و تیز صورت میں پایا جاتا ہے۔ اُنھوں نے فنِ شعر کی باضابطہ تربیت حاصل کی ہے اور اُسے سبقاً سبقاً سیکھا ہے۔ عصرِ حاضر میں نہ صرف بیشتر شاعرات علمِ عروض سے نابلد ہیں بلکہ شعرائے کرام بھی کنی کتراتے ہوئے پائے گئے ہیں جب کہ شائستہ سحرؔ نے علمِ عروض کو سخن سازی کی بنیادی ضرورت سمجھتے ہوئے اِسے سیکھا اور پھر بہ حسن و خوبی برتا، وہ ہر نوع کی مشکل و سنگلاخ بحور میں اعتماد کی فضا میں شعر گوئی کر سکتی ہیں۔ اُن کے تخلیقی عمل کا آغاز اُن کے شعری مجموعہ ’’عذابِ آگہی‘‘ سے شروع ہوا ’’متاعِ فکر‘‘ سے ہوتے ہوئے ’’کربِ آرزو‘‘ تک انقلابی تغیرات کا حامل ہو گیا۔ جہاں اُن کے عروضی ادراکات مضبوط و مستحکم ہوئے ہیں، وہاں اُن کے اظہاری پیمانوں اور سانچوں میں جدت و ندرت کے شواہد بھی آغوش کشا نظر آتے ہیں۔ اُن کے فکری کینوس کی بہت بڑی خوبی یہ ہے کہ اُن کے ہاں استفہامیہ اشارات بہ کثرت پائے جاتے ہیں۔ اِنتقادی تناظر میں جو وقیع اور قابلِ قدر ہیں۔ اگر مرزا غالبؔ کے افکار کا تنقیدی مطالعہ کیا جائے تو اُن کے استفہامیہ شعری اظہار میں زورِ بیان اور شدتِ احساس فزوں تر ہے۔ اُن کا لہجہ بھی بلند بانگ ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ یہی ماجرا شائستہ سحرؔ کی شعر گوئی سے جڑا ہوا ہے مگر اُن کا لہجہ بلند بانگ نہیں ہوتا بلکہ دھیمے پن کا حامل نظر آتا ہے جو نسائی شعر و سخن کا امتیازی وصف ہے اور تہذیب و شائستگی کی علامت ہے۔ اُن کے استفہامیہ اشاریے امتیازی اور نمایاں حیثیت رکھتے ہیں جو، اُن کے کلام میں وفور سے پائے جاتے ہیں۔
سحرؔ کے ہاں کربِ ذات کا موضوع بھی بسیط صورت اختیار کیے ہوئے ہے جس کی سنگینی کی بدولت اُن کے تخیلات پر ایک حزنیہ رنگ چھایا ہوا ہے۔ کربِ ذات کے سبب اُن کے ہاں شکستِ ذات اور ہزیمت خواب کے تصورات ملتے ہیں۔ تعمیری قوتوں کی نسبت تخریبی قوتیں زیادہ تندرست و توانا نظر آتی ہیں۔ خیر کی نسبت شر کا کردار زیادہ بھرپور نوعیت کا محسوس ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے ہاں نالہ و شیون کی حکایت و روایت بھی اپنی مکمل تابانیوں کے ساتھ موجود ہے۔ اِس کے برعکس اُن کا عزم و حوصلہ جواں ہے۔ اُن کے ہاں اعتماد کی مضبوط و مستحکم فضا ملتی ہے۔ تعلیاتی شواہد بھی جلوہ ریزیاں کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ تھک کر بیٹھنے کی قائل نہیں ہیں بلکہ مستقل طور پر مائلِ سفر رہتی ہیں۔
اُن کے تفکرات میں تاثیرات کے فزوں تر کوائف ملتے ہیں۔ معرفت و تصوف کے شواہد ہدیۂ تشکر کے پیرائے میں کار فرما ہیں۔ اُن کی شاعری میں ایہام گوئی کا وصفِ خاص پایا جاتا ہے اِس لیے حقیقت و مجاز کے تلازمات باہم شیر و شکر ہوتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ رومانوی حوالے اخترؔ شیرانی سے بھی زیادہ وقیع نظر آتے ہیں کیوں کہ اخترؔ شیرانی کے ہاں راز داری کا عمل مفقود ہے جب کہ شائستہ سحرؔ کے ہاں وضع داری، راز داری، ضبط اور پندار و اَنا کے معاملات مشاہدہ کیے جا سکتے ہیں خمریاتی حوالوں سے عبدالحمید عدمؔ اور جگرؔ مراد آبادی کی یاد بے ساختہ طور پر تازہ ہو جاتی ہے۔ اُن کے کلام کو عمومی نسائی تناظرات میں دیکھنا ایک صریح تنقیدی نا انصافی ہے۔ بسا اوقات نسائی شعری اظہار بھی جلوہ ریزیاں کرتا دکھائی دیتا ہے اِس لیے گھونگھٹ، زیور اور جہیز جسے فکری تلازمات کو بروئے کار لائی ہیں۔ کہیں کہیں میرؔ جیسا سوز و گداز اور غالبؔ جیسی فلسفیانہ موشگافیاں بھی توجہ طلب نظر آتی ہیں۔ اُن کی شاعری فکر و فن کے حسیں تاثر کی آئینہ دار ہے۔
شائستہ سحرؔ کا مجموعۂ شعر ’’کربِ آرزو‘‘ جو اِس وقت آپ کے حسین ہاتھوں کی زینت ہے نہ صرف اُن کے فکر ی کینوس کا ترجمان ہے بلکہ اُن کے فنی ادراکات کا مظہر بھی ہے۔ اُنھوں نے مشکل ردیفوں اور قوافی کا استخدام بھی بہ حسن و خوبی کیا ہے۔ بعض اوقات اُن کے ہاں غیر مردّف غزلیات بھی مشاہدہ کی جا سکتی ہیں اور یوں وہ ردیف کے تکلف سے بے نیاز دکھائی دیتی ہیں جو اُن کی فنی چابک دستی کی علامت ہے۔ اُن کی اِس کتابِ شعر کا آغاز حمد و نعت کی حسیں روایت سے ہوا ہے جس سے بہ خوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ شعری حوالوں سے حسین کلاسیکی اقدار کی حامل ہیں۔ غزلیات کے مقابلے میں نظمیات کا تناسب آٹے میں نمک کے برابر ہے مگر اُن کی نظمیں فکری و فنی معیار کی پاس دار ہیں۔ ’’شاعراتِ ارضِ پاک‘‘ کے بسیط تنقیدی و تحقیقی تجربے اور مشاہدے سے یہ حقیقت اظہر من الشمس ہوتی ہے کہ نسائی غزل کی نسبت نسائی نظم فکری و فنی حوالوں سے زیادہ زبوں حالی کا شکار ہے اگرچہ فکری حوالے سے اُن کے نظمیاتی کینوس کے ادراکات انتہائی معصوم ہیں جو تربیاتی عمل کی عکاسی کرتے ہیں جنھیں فزوں تر ریاضت و بالیدگی درکار ہے لیکن فنی حوالوں سے معائب سے مبرا و ماورا ہے۔
’’کربِ آرزو‘‘شائستہ سحرؔ کے فکر و فن کا حسیں شاہکار ہے۔ استفہامیہ تناظر میں مشتے از خور وارے کے بہ مصداق ہم اُن کے چند اشعار کا انتقادی مطالعہ پیش کریں گے اور تا دیر کتاب و قاری کے مابین حائل نہیں رہیں گے۔ اُن کے مکمل استفہامیہ کینوس کا تنقیدی جائزہ تو ایک طویل و عریض مقالے کا متقاضی ہے جس کے لیے ایک تنقیدی شذرے کا مختصر پیمانہ متحمل نہیں ہو سکتا۔ اُن کی کچھ غزلیات کی ردیفیں بھی استفہامیہ شعری اظہار سے مرصع ہیں۔
وہ اپنی سماجیات اور محبوب کے دوہرے رویوں کو بھرپور انداز میں ہدفِ تنقید بناتی ہیں۔ اُن کی شاعری میں عصری رویے وفور سے ملتے ہیں۔ کھوٹ، منافقت اور لوبھ جیسے سماجی خبائث کے خلاف ایک کدورت آمیز رویہ پایا جاتا ہے جو مثبت و تعمیری اقدار کی طرف پیش رفت کرتا دکھائی دیتا ہے۔ اُن کے کلام میں وہ ہمہ گیری ہے کہ مجازی و قومی معاملات کی باہمی آویزش نظر آتی ہے۔ وہ مغربی تہذیبی یلغار کی مذمت کرتی ہیں اور مشرقی اقدار کی آموزش کا حسیں آدرش دیتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ بالعموم نسائی شعری اظہار میں داخلیت کی عمل داری فزوں تر اور خارجیت گریز پا نظر آتی ہے مگر اُن کے ہاں خارجی عوامل بھی تندرست و توانا ہیں اور کہیں کہیں خرد آموزی کے امکانات بھی پائے جاتے ہیں جسے اُن کی بالیدہ فکری کا قوی تر پہلو گردانا جا سکتا ہے۔ جنوں سے خرد کی طرف ایک مراجعت محسوس ہوتی ہے۔
سحرؔ نے عصری بے حسی کے موضوع پر بھی بھرپور انداز میں لکھا ہے۔ یوں وہ اجتماعی انسانی ضمیر کو جھنجھوڑتی نظر آتی ہیں۔ انسان دوستی کا حسیں آدرش پند و موعظت کے روپ میں جلوہ گر نظر آتا ہے اصلاح و فلاح کو اپنی شاعری کا مشن سمجھتی ہیں اور انسان کی تربیت صحیح خطوط پر استوار کرنے کی خواہاں ہیں۔ انسانی تکبر انھیں ناروا اور نازیبا محسوس ہوتا ہے جو اُن کی عقلِ سلیم کا ثبوت فراہم کرتا ہے۔ وہ چاہتی ہیں کہ انسان اپنی ذات کے حصار سے باہر نکل کر وسیع تناظر میں سوچنے کی خود میں خو پیدا کرے، مطلب پرستی و خود پرستی کے شکنجے میں پھنس کر کٹھ پتلی نہ بنے۔ اُنھیں اپنے قاری کے ادراکات کو وسیع تر کرنے کی فکر پیہم دامن گیر رہتی ہے۔ اُن کے سخن میں نسائی حوالے اگرچہ بہت کم ہیں مگر وہ معشرِ اناث کے مسائل کا بہ خوبی ادراک رکھتی ہیں جن کی ترجمانی بھی وہ کرتی ہیں۔ عصری آشوب کی بپتا بھی اُن کے ہاں دل گداز پیرائے میں ملتی ہے یوں وہ اپنی معاشرت سے بے خبر محسوس نہیں ہوتیں۔ وہ انفرادی حوالوں کے لبادے میں اجتماعی دشواریوں کا ذکر کرتی ہیں جو اُن کا ایک منفرد انداز ہے۔ حیات کی کٹھنائیوں کی بدولت زندگی کا تلخ تصور اُجاگر ہوتا ہے۔
شائستہ سحرؔ کا اُسلوب سہل و شستہ روایت سے مربوط ہے مگر کہیں کہیں زبان و بیان کی جدتیں بھی آشکار ہوئی ہیں شوکتِ الفاظ کے شواہد بھی ملتے ہیں، علمِ بدیع کے مظاہر صنائع بدائع، تشبیہات و استعارات، تلمیحات اور ترکیبات کے رنگ میں کار فرما ہیں۔ فکری حوالے سے اختصار و جامعیت، معروضیت و منطقیت اور معقولیت کا عنصر پایا جاتا ہے۔ عروضی حوالے سے اُنھوں نے بحرِ متقارب، بحرِ رمل، بحرِ ہزج، بحرِ رجز، بحرِ متدارک، بحرِ خفیف اور بحرِ مضارع کے مختلف اوزان میں بہ طریق احسن طبع آزمائی کی ہے۔ دیگر مرکب بحور اور عروضی زحافات کا استخدام قرینہ کاری کی تمثیل پیش کرتا ہے۔ اُمید ہے کہ شائستہ سحرؔ اِسی ذوق و انہماک اور اعتماد سے اپنا تخلیقی سفر جاری رکھیں گی۔ منفرد شعری پہچان بنانے اور مقامِ استحسان کے حصول کا عمل اُن کے لیے سہل تر ہو جائے گا۔ یوں معیارات و منازل کی بازیافت اُن کے لیے آسان ہو جائے گی۔ ’’کربِ آرزو‘‘ سے چند استفہامیہ اشارات کی حامل شعری استشہادات سپردِ قرطاس ہیں :
کتنے چہرے رکھتا ہے وہ ایک شخص
کب سحرؔ تم سے وہ پہچانا گیا
٭
تم نے کیوں اپنا لیے دنیا کے رنگ
بھول کر اپنی سحرؔ وہ بود و باش
٭
سحرؔ گم ہیں سب اپنے روز و شب میں
یہاں کس کو بھلا کس کی پڑی ہے
٭
انساں تو پہلے بن لے
بنتا ہے کیوں خدا وہ
٭
تو اپنے دائروں میں قید ہی رہا
کہ خود سے مل سکا تجھے فراغ کب
٭
جو دکھ گھونگھٹ میں پلتے ہیں تجھے اُن کی خبر کیا ہے
نویدِ جانفزا پہنچے کہ زیور لوٹ آئے ہیں
٭
کب نہیں ملتی سحرؔ دل کو سزا
ہائے کب روزِ جزا ہوتا نہیں
ایک نظر شائستہ سحرؔ کی شاعری پر
افتخار بخاری
شائستہ سحرؔکی شاعری سے جو زیادہ تر غزلیات پر مشتمل ہے میری شناسائی ’’فیس بک‘‘ کے واسطے سے ہوئی۔ مجھے یہ احساس ہوا کہ وہ فیس بک پر شائع ہونے والے فنکاروں میں ایک الگ شناخت اور انفرادیت کی حامل شاعرہ ہیں۔ میری ذاتی طور پر شائستہ سے بھی واقفیت نہیں رہی مگر اُس کی شاعری کی صداقت اور ہنر مندی نے مجھے متوجہ کیا۔ میں نے مناسب جانا کہ اُسے سنجیدگی سے پڑھا جائے۔
دورانِ قرأت جو بات مجھے زیادہ پُر کشش اور اچھی لگی، وہ اُس کی تازہ فکر اور ندرتِ خیال ہے، گھسے پٹے مضامین سے بچ کر اپنے لیے علیحدہ راہ بناتے ہوئے وہ زیادہ اپنی ہر غزل اور شعر میں ایک نئی فکر اور منفرد طرزِ احساس کا اظہار کرتی دکھائی دیتی ہے۔ یہ اظہار آپ کو اُس کی تمام شاعری میں بدرجہ اتم نظر آتا ہے۔
اِس رویے نے شاعرہ کے لاشعور میں گمشدہ کائنات کی پُراسرار جہات دریافت کرنے میں مدد دی۔ وہ صوری پیکروں کی تشکیل کے وسیلے سے خیال کے بیج کو خوب صورت گلزار بنانے کے عمل میں بھرپور تخلیقی توانائی کا مظاہرہ کرتی ہے۔ اُس کی غزلوں کا آہنگ کائناتی خاموشی کو بامعنی حیات دیتا نظر آتا ہے۔ تمثال گری کے اِس اعجاز کی آج کی غزل میں خاص اہمیت ہے اور یہ ہنر مندی شائستہ کی شاعری میں دھیمے مگر نمایاں انداز میں ہر سطح پر موجود ہے۔ اُس کی شاعری میں حقیقت علامت کے وسیلے سے اپنی جزئیات کے ساتھ نہایت خوب صورتی سے اظہار کرتی ہے۔ زندگی کے گہرے اسرار کی کھوج میں نکلے ہوئے اشیا کے درون اُتر کر خوب صورتی تلاش کرنا، اُس کے فن کی ایک خاص جہت ہے۔ اِس حوالے سے وہ معاصرین میں ایک الگ شناخت اور انفرادیت کی حامل شاعرہ بھی ہے اور عصرِ حاضر کے تقاضوں سے بھی جُڑی ہوئی ہے۔ اُس کی شاعری پڑھتے ہوئے نغمگی اور تازگی کا ایک دل گداز احساس ہوتا ہے جس کی نشان دہی بھی ضروری خیال کرتا ہوں۔
شائستہ ایک ایسی شاعرہ ہے جس سے آئندہ بھی دل پذیر اور معتبر شاعری کی توقعات وابستہ ہیں۔
حمد
زمین تیری، زمان تیرا
مکین تیرے، مکان تیرا
ہے میری آنکھوں کی یہ تمنا
دکھائی دے آستان تیرا
جہاں میں ہر سو ہیں تیرے جلوے
عیاں ہیں سب پر نشان تیرا
یہ ساری مخلوق بھی ہے تیری
ہے سب کا سب خاکدان تیرا
بہم ازل سے سحرؔ ہیں دونوں
زبان میری، بیان تیرا
نعتِ رسولِ مقبول
کیونکر بیان کر سکوں نعتیں حضور کی
حاصل ہو روشنائی مجھے کاش طور کی
حبِ نبی میں اشک جو میں نے بہائے ہیں
گویا وہ نہر بن گئے آبِ طہور کی
شفاف ہو گیا ہے یہ آئینۂ حیات
ہر اک کدورت آقاؐ نے اِس دل سے دُور کی
جن و بشر کے لب پر اُنھی کے درود ہیں
پڑھتی ہیں اُن کی نعت سب آنکھیں طیور کی
پاتے ہیں فیض آپؐ سے شاہ و گدا سبھی
سرچشمۂ فیوض ہے ہستی حضور کی
اُن کے کرم کے سائے ہی پھیلے چار سو
جگ میں سحرؔ ضیا ہے نبیؐ کے ظہور کی
غزلیں
باغ میں کلیوں کا مسکانا گیا
پھول پر تتلی کا منڈلانا گیا
بے ہنر ہونا بھی گویا ہے ہنر
راز یہ تاخیر سے جانا گیا
ہاتھ ملتا رہ گیا، شوقِ جنوں
توڑ کر زنجیر، دل دانا گیا
آگہی کی مشکلیں ناگفتنی
کیوں تجھے حد سے سوا جانا گیا
بندِ غم سے ہم نہ ہو پائے رہا
رائیگاں سب، تیرا سمجھانا گیا
میرے دل میں بھی تپاں ہیں ولولے
کیوں مجھے بے آرزو مانا گیا
ہو گئی پامالِ قدر بندگی
جب اسے کارِ زیاں جانا گیا
کتنے چہرے رکھتا ہے وہ ایک شخص
کب سحرؔ تم سے وہ پہچانا گیا
سراپا انتظار تھا مری طرح
وہ شخص بے قرار تھا مری طرح
جسے اُڑا کے لے گئی ہوائے غم
کسی کا غم گسار کا تھا مری طرح
اسے بھی کھا گئی جہاں کی کج روی
اسے بھی اعتبار تھا مری طرح
نہ جی سکا وہ ساعت یقین میں
گماں پہ انحصار تھا مری طرح
فروغِ مے کشی اسے روا نہ تھا
شکستۂ خمار تھا مری طرح
ہے آج وہ رہینِ موسمِ خزاں
شگفتِ نو بہار تھا مری طرح
تمام تر تھا شوقِ بے کنار وہ
جنونِ تازہ کار تھا مری طرح
لیے پھرا وہ لخت لخت جسم کو
قبائے تار تار تھا مری طرح
لو آ گیا اسے بھی زیست کا ہنر
سکوتِ لالہ زار تھا مری طرح
جو ہنس رہا ہے خستہ و خراب پر
کبھی وہ دل فگار تھا مری طرح
اُڑا کے لے گئی وفا غرور سب
کبھی وہ باوقار تھا مری طرح
چھپا ہوا تھا چاندنی کی اوٹ میں
نہاں پسِ غبار تھا مری طرح
مثالِ زخم آج ہے کھلا ہوا
جو منتِ بہار تھا مری طرح
سحرؔ تری نگاہ کیوں اُداس ہے
کیا زندگی سے پیار تھا مری طرح
میں نے دیکھے ہیں وہ نظارے بھی
ڈوب جاتے ہیں جب کنارے بھی
آسماں بے سبب نہیں برہم
اُس کے موجب ہیں کچھ اشارے بھی
تشنگی مے سے اب نہیں بجھتی
ڈال ساغر میں کچھ شرارے بھی
وقتِ رخصت رہی یہی حسرت
چشمِ نم سے مجھے پکارے بھی
چاند ہی بے سکوں نہیں تنہا
مضطرب مضطرب ہیں تارے بھی
شعر تو ہے سحرؔ مرا آساں
اور آساں ہیں استعارے بھی
اگرچہ فاصلہ رکھا ہوا ہے
مگر اک سلسلہ رکھا ہوا ہے
ابھی مفقود ہے لیکن یہیں پر
نہاں اک راستہ رکھا ہوا ہے
من و سلویٰ نہیں میرے دہن میں
گیہوں کا ذائقہ رکھا ہوا ہے
تمھارا نام لکھوں اور مٹاؤں
یہی اک مشغلہ رکھا ہوا ہے
کبھی اپنے بھی خد و خال دیکھو
عبث یہ آئینہ رکھا ہوا ہے
یہاں اچھوں کو سب کہتے برا ہیں
بروں سے واسطہ رکھا ہوا ہے
کئی یادیں بھی تو شیریں ہیں ہمدم
کیوں ازبر سانحہ رکھا ہوا ہے
زمانے بھر سے میرے مراسم
جو تم سے رابطہ رکھا ہوا ہے
مری پہچاں سحرؔ سب سے الگ ہے
الگ ہی راستہ رکھا ہوا ہے
جو دالان میں دھوپ بوئے ہوا
سدا پھر تمازت کو روئے ہوا
تجھے بھول جاؤں بھلا کس طرح
مہک تیری من میں سموئے ہوا
مقدر بنیں رتجگے ہی سدا
کہاں اُس کی قسمت کہ سوئے ہوا
تمھاری نگاہیں تبسم فشاں
نہ اب اشک اِن میں سموئے ہوا
کھلائے گی کیا پھول زخموں کے پھر
مرے زخم کو جو بھگوئے ہوا
بدن جیسے صحرا کا اک پھول ہے
سحرؔ اِن میں شبنم پروئے ہوا
اے زندگی کہاں ہے تو پکار اب
تمام ہو چکا ہے انتظار اب
بدل چکی ادائے شامِ مے کشی
اُتر گیا ہے جام کا خمار اب
ہے آرزوئے وصل بھی گریز پا
کہ چبھ رہے ہیں فرقتوں کے خار اب
یہ کس مقام پر لے آئی زندگی
نہ چین ہی رہا ہے، نہ قرار اب
وصال کی بہار بھی نصیب کر
مجھے صلیبِ ہجر سے اُتار اب
سحرؔ جہاں میں تیرگی کا راج ہے
ملے کوئی نویدِ زرنگار اب
تری صورت ہی پل پل دیکھتے ہیں
نظارے آنکھیں مل مل دیکھتے ہیں
فزوں ہوتی ہے دل کی اضطرابی
گھروں کو جب مقفل دیکھتے ہیں
حصارِ دید میں ہے ایک چہرہ
اُسی کو ہم مسلسل دیکھتے ہیں
بدن گویا ہے اک ویران خانہ
جسے ہم مثلِ کربل دیکھتے ہیں
کبھی تو مقتدر اقلیم کے ہیں
کبھی پیروں میں دلدل دیکھتے ہیں
بکھر جائیں نہ یہ اجزائے ہستی
کہ خود میں آج ہلچل دیکھتے ہیں
سحرؔ جس کو کبھی زعمِ خرد تھا
اُسی انساں کو پاگل دیکھتے ہیں
چھپ نہیں سکتا تری فرقت کا راز
جس کے باعث دل نے پایا امتیاز
پھول کی ہیں پتیاں یہ لب ترے
اور تری آنکھیں شرابی نیم باز
شکوۂ بیداد ہم کیوں کر کریں
یہ تری مخلوق بھی ہے بے نیاز
موسمِ وصلت رہا ہے مجتنب
ہجر ہی ہر دم رہا ہے سوز و ساز
بے حجابانہ تجھے تکتے ہیں ہم
بے وضو پڑھتے ہیں یوں اکثر نماز
رنج و غم جیون کا حصہ ہیں سحرؔ
اِس لیے بانی ہے میری دل گداز
ہے شکایت گردشِ افلاک سے
خوں بہا کیوں دیدۂ نمناک سے
دستِ کوزہ گر میں ہیں محبوس جو
کب اُتاریں جائیں گے وہ چاک سے
پیراہن مٹی کا دے کر خوش نہ ہو
دیکھنا ہم پھر اُٹھیں گے خاک سے
وہ معمے زیست کے سلجھا گئے
جو تھے خائف گیسوئے پیچاک سے
اب سحرؔ کو بھی ہو اذنِ حاضری
ہے گزارش یہ شہہِؐ لولاک سے
٭٭٭
کیا چاک دل نے گریباں عبث
عیاں ہو گیا رازِ پنہاں عبث
بہت ہے مجھے تیری چشمِ غضب
کیا قتل کا تو نے ساماں عبث
ہے کیا مسئلہ کچھ خبر تم کو ہے
ہوئے جا رہے ہو پشیماں عبث
ستم گر ہے لیکن وہ ہے مہرباں
گنوایا ہے لوگوں نے ایماں عبث
چمن میں نہ آیا وہ جانِ سحرؔ
کھِلا میرے دل کا گلستاں عبث
درد اور دل بہم رہیں گے میاں
ہم کو لاحق یہ غم رہیں گے میاں
اب نہ سلجھے گی ڈور ہستی کی
یوں ہی زلفوں میں خم رہیں گے میاں
سرِ باطل کھلے گا سجدوں میں
آستیں میں صنم رہیں گے میاں
تیرے دریاؤں میں اُتر کر بھی
ہم تو محتاجِ نم رہیں گے میاں
چاہے دنیا سے تم گزر جاؤ
جورِ اہلِ ستم رہیں گے میاں
تیرا بیکار ہے مفر ہم سے
تیری دنیا میں ہم رہیں گے میاں
مت سحرؔ سے گریز پا رہیے
ہم سفر ہم قدم رہیں گے میاں
ستاروں سے آنکھیں ملانے لگی ہوں
میں دنیا کو ٹھوکر لگانے لگی ہوں
میں تسخیر کر کے زمیں آسماں کو
تہہِ آب ہلچل مچانے لگی ہوں
جوازِ محبت نہ باقی رہے گا
وجودِ طلب ہی جلانے لگی ہوں
کہاں تیرے بس میں ہے یہ کارِ الفت
تجھے راز میں یہ بتانے لگی ہوں
فلک سے ذرا اذنِ تعمیر لے لوں
نیا آشیاں جو بنانے لگی ہوں
بناتے تھے اطفال کاغذ کی ناؤ
میں پھولوں سے کشتی بنانے لگی ہوں
نیا اک حرف، ضبطِ تحریر میں ہے
جو حرفِ غلط ہے مٹانے لگی ہوں
محبت، عبادت سحرؔ سب عبث ہیں
یہ داغِ جنوں ہی مٹانے لگی ہوں
سنگ ہے، خار ہے ہمارے بیچ
ہجر دیوار ہے ہمارے بیچ
تم سے ملنا ہوا ہے ناممکن
سارا سنسار ہے ہمارے بیچ
اب نہیں خواہشوں کا عالم وہ
وصل بیزار ہے ہمارے بیچ
دل پہ اکثر گمان ہوتا ہے
کوئی عیار ہے ہمارے بیچ
یہ تعلق سحرؔ ہے رسمی سا
یوں ہی بے کار ہے ہمارے بیچ
(اُستادِ محترم ظہور احمد فاتح کی نذر)
وفا ہوئی جو بے اثر تو ہم نے شعر کہہ دیا
ملا نہ کوئی چارہ گر تو ہم نے شعر کہہ دیا
نفس نفس ہے رفتگاں کی یاد میں بسا ہوا
ہوئی جو لے یہ تیز تر تو ہم نے شعر کہہ دیا
لو آ گیا وہ مہرباں، وہ چارہ گر، وہ دل رُبا
چراغ لے کے بام پر تو ہم نے شعر کہہ دیا
نہ بلبلوں کے گیت ہیں، نہ رقص میں صبا ہے اب
ہوئی بہار بے اثر تو ہم نے شعر کہہ دیا
نگر نگر، ڈگر ڈگر، تجھے تلاشتے رہے
ملی نہ جب تری خبر تو ہم نے شعر کہہ دیا
یہ بے گھری، یہ بے کلی اُسے تھی راس کب سحرؔ
وہ آ گیا جو لوٹ کر تو ہم نے شعر کہہ دیا
درونِ ذات کے در کھولتا ہے
کوئی تو ہے جو اندر بولتا ہے
مرا فن میری ہستی کی کمائی
کیوں سکوں میں ستم گر تولتا ہے
وہی ہیں اعتبارِ آدمیت
فلک جن کو زمیں پر رولتا ہے
ہے میری خامشی میرا تکلم
جسے سوچوں میں اکثر بولتا ہے
بڑھے گا کارِ فن اِس آس پر کہ
خدا ہے وہ فزوں تر تولتا ہے
جو بڑھتی ہے غموں کی زہر ناکی
ترا قندِ سخن رس گھولتا ہے
سحرؔ مشروط ہے تابِ نظر سے
یہ من بندِ قبا گر کھولتا ہے
بے بصارت ہو گئیں آنکھیں مگر منظر توہے
بے در و دیوار سا مجھ میں کہیں اک گھر تو ہے
وہ تہی داماں ہمارے شہر میں آیا نہیں
گل نہیں ہاتھوں میں اُس کے ہاں مگر پتھر تو ہے
روشنی کا یہ تعاقب جانے لے جائے کہاں
ساتھ ہوں اُس کے مگر ناکامیوں کا ڈر تو ہے
اِس جہانِ بے بقا میں اور کیا درکار ہے
پاؤں کے نیچے ہے دھرتی سر پہ اک امبر تو ہے
یہ قبائے جسم ہے اک مظہرِ بوسیدگی
روحِ تازہ کو مگر حاصل سحرؔ چادر تو ہے
مثالِ تتلی، گلاب میں ہوں
عقوبتوں کے نصاب میں ہوں
میں حسنِ فطرت کی داستاں ہوں
عیاں ہوں لیکن حجاب میں ہوں
تو مثلِ پارہ رواں ہے مجھ میں
میں موجۂ اضطراب میں ہوں
بلا رہا ہے کوئی فلک سے
مجھے نہ روکو شتاب میں ہوں
عیاں ہے سب پر جمال میرا
نہاں میں ہر اک گلاب میں ہوں
عجیب رشتہ ہے خود سے میرا
سحرؔ یہ کیسے عذاب میں ہوں
دل کو آگ لگانی ہو گی
جب یہ ختم کہانی ہو گی
سورج کی کرنوں کو لے کر
اک تصویر بنانی ہو گی
در کا ساغر چھلکایا ہے
آنکھ تو پانی پانی ہو گی
دھندلا میری فکر کا شیشہ
جو دیکھے حیرانی ہو گی
بات جو راز میں رکھنے کی ہے
اب سب کو بتلانی ہو گی
جانے کیوں چپ چاپ کھڑا ہے
کچھ تو دل میں ٹھانی ہو گی
تم کو جو بے تاب کیے ہے
موج سحرؔ دیوانی ہو گی
تری دنیا کے پیچ و خم
کبھی واضح، کبھی مبہم
فزوں کر دے نشہ میرا
شرابِ بے خودی ہے کم
تحیّر ہی تحیّر ہے
جدھر دیکھوں عجب موسم
محبت کا فسوں اُترا
مجھے کھائے غمِ عالم
ترے عارض پہ یوں آنسو
گلوں پر جس طرح شبنم
مری قسمت فقط صحرا
ترے حصے میں جامِ جم
ہوائے تیز میں بھی ہے
شگفتہ یاد کا پرچم
سلجھتا کیوں نہیں آخر
یہ میری ذات کا ریشم
سحرؔ بھولی، نہیں اب تک
وہ بکھرے بال، چشمِ نم
جب ہو قدغن گرمیِ گفتار پر
بات آئے گی ترے کردار پر
پاس ہے میرے محبت کی سپر
ناز تجھ کو ہے اگر ہتھیار پر
کب تلک دیتے رہیں گے یوں فریب
کچھ کرم تو کیجیے بیمار پر
کر چکی ہوں میں مسخر کُل جہاں
اب نظر ہے ثابت و سیار پر
عقل و دانش عالمِ حیرت میں تھے
عشق محوِ رقص تھا تلوار پر
تندیِ بادِ مخالف کی قسم
پھر دیا رکھوں گی میں دیوار پر
ہو سرِ محفل عدو کا تذکرہ
تبصرہ ہوتا رہے عیار پر
اک نظر سورج نے ڈالی تھی سحرؔ
ثبت ہیں وہ حدتیں رخسار پر
یہ چاندنی کے سراب رستے
وفا، محبت، عذاب رستے
زمیں ہے کس کو یہاں میسر
حیات مشکل، نصاب رستے
یہ کن مشاغل میں مبتلا ہو
بھلا کے سارے ثواب رستے
ستم گزیدہ ہیں منزلیں بھی
بنے مقدر، سراب رستے
میں دشتِ فرقت میں جل رہی تھی
بنائے اُس نے گلاب رستے
سحرؔ ہے سر پہ دہکتا سورج
نہیں مقدر، سحاب رستے
ایک افسردگی جو من میں ہے
جسم سارا اِسی تھکن میں ہے
مثلِ خنجر ہے شوقِ بے پروا
جنسِ انمول میرے دھن میں ہے
خندۂ گل ہی قصور وار نہیں
گریاں بلبل بھی اِس چمن میں ہے
کیا خبر تجھ کو اے مرے ساجن
سوگ کیا میرے تن بدن میں ہے
کوئی جا کر خبر لے جگنو کی
شب اندھیری، محیط بن میں ہے
ایک ہی درد سے شناسا ہوں
ایک ہی ذائقہ بدن میں ہے
پہلے اپنا محاسبہ کر لے
تیری نیت جو نقدِ فن میں ہے
پیش ہونے کو ہے سحرؔ کا فن
رنگ کیا آج انجمن میں ہے
زندگی کو زندگی کے روبرو میں نے کیا
تیرگی کو روشنی سے مشک بو میں نے کیا
تھام لی رفتار میں نے موجۂ بیتاب کی
تو کہ سیلِ بیکراں تھا آب جُو میں نے کیا
تو تہی داماں تھا، تیرے پاس تھا کچھ بھی نہیں
تیری نسبت خود کو رہنِ آرزو میں نے کیا
میرے ہمراہ تھیں دعائیں بھی مرے سرکار کی
قوتِ باطل کو جب بے آبرو میں نے کیا
یاد آیا پھر مآلِ زیرکی ہوتا ہے کیا
جب کبھی چاکِ گریباں کو رفو میں نے کیا
سرمد و منصور میرے پیشوا تھے اِس لیے
سجدۂ ہر گام پر خوں سے وضو میں نے کیا
ہاتھ کب آتے سحرؔ جو اِس قدر طرار ہوں
دام تجھ کو اے غزالِ تند خو میں نے کیا
نکلا ہے مرا دن نہ مری شام ہوئی ہے
ہر ایک خلش دل کی ترے نام ہوئی ہے
تتلی کے پروں پر یہی تحریر ہے کندہ
پھولوں کی محبت میں وہ بدنام ہوئی ہے
لبریز لہو سے ہیں مرے کوچہ و بازار
اب رسمِ جفا گردشِ ایام ہوئی ہے
اُس غم کو لگا بیٹھے ہو سینے سے ابھی تک
اک خواہشِ دنیا ہی تو ناکام ہوئی ہے
کیوں چھوڑ گئے ہو مجھے تم راہ میں ہمدم
دیکھو یہ طلب تیز بہرگام ہوئی ہے
یہ دل ہے مرا سرِ محبت کا خزینہ
ہر آن نئی آمدِ الہام ہوئی ہے
اب درپئے آزار ہوئی جاتی ہے دھڑکن
دھڑکن جو تری باعثِ دشنام ہوئی ہے
خود پر بھی یہاں رحم کسی کو نہیں آتا
کچھ ایسی سحرؔ صورتِ آلام ہوئی ہے
اپنے سپنے چرا خیال نکال
پایۂ دل سے اپنے جال نکال
تو کہ آباد ہے مرے دل میں
کیسے درشن ہوں تیرے، فال نکال
اُس کا چہرہ سجا کے آنکھوں میں
اپنی سوچوں سے خد و خال نکال
کوئی آیا ہے فیصلہ کرنے
تو بھی نکتہ اُٹھا، سوال نکال
زعمِ چارہ گری ترا برحق
میرے زخموں کا اِندمال نکال
چین سے ہے اگر سحرؔ جینا
زیست سے پیت کا وبال نکال
جو اپنے آپ میں لائے گئے ہیں
تو کیسے کسیے تڑپائے گئے ہیں
فلک نے ہم پہ بانہیں کھول دی ہیں
زمیں زادوں میں ٹھکرائے گئے ہیں
ستارے بن کے چمکی خاک اپنی
فضا میں ہم جو بکھرائے گئے ہیں
زمیں تم نے کیوں ہم پہ تنگ کی ہے
نہیں آئے ہیں خود، لائے گئے ہیں
نصابِ زیست میں شامل ہیں تیری
ترے ماتھے پہ لکھوائے گئے ہیں
فرشتوں دیکھ لو لغزش ہماری
کہ اک دانے سے بہکائے گئے ہیں
لگی ہے جس کی پیشانی پہ آنکھیں
اُسی کی دید کو لائے گئے ہیں
ہمارے من میں ہیں چیخیں ہماری
کہیں اندر ہی چنوائے گئے ہیں
برونِ ذات ہے ترتیب اپنی
درونِ ذات اُلجھائے گئے ہیں
سوا نیزے پہ ہے اپنی حرارت
بہ شکلِ شمس دہکائے گئے ہیں
سحرؔ کیسے ہنسی آتی لبوں تک
کہ ہم خوشیوں کو ترسائے گئے ہیں
پتے خزاں کے جب مری پوشاک ہو گئے
تیور صبا کے اور ہی سفاک ہو گئے
بخشا ہے تیرے قرب نے ہم کو شعورِ جاں
کھویا تجھے تو صاحبِ ادراک ہو گئے
سلجھے کسی بھی طور نہ ہستی کے پیچ و خم
یہ بل بھی گویا زلف کے پیچاک ہو گئے
ملنے گئے جو اُس بتِ شرم و حیا سے لوگ
اُس کو ملے تو اور ہی بے باک ہو گئے
یوں ہی کیا تھا ہم نے تو ذکرِ وفا سحرؔ
گوشے کیوں تیری آنکھ کے نم ناک ہو گئے
سکوتِ شام کی بوجھل گھڑی ہے
ہوا معتوب ہے نادم کھڑی ہے
شبِ فرقت منور ہو گئی ہے
بنی یادوں سے ہیروں کی لڑی ہے
لبِ لعلیں کا چرچا ہے بہر جا
لیے موجِ تبسم پنکھڑی ہے
نہیں آنکھوں میں خوابوں کی سکونت
نہاں آنکھوں میں اشکوں کی جھڑی ہے
تجھے بھولے بنا چارہ نہیں ہے
عجب اُفتاد مجھ پہ آ پڑی ہے
سحرؔ گم ہیں سب اپنے روز و شب میں
یہ ساعت درد کی کتنی کڑی ہے
تم کو بھی سوزِ جاں نے سونے نہیں دیا
مجھ کو بھی رفتگاں نے سونے نہیں دیا
میری طرح سے ہے وہ تقدیر کا ڈسا
اُس کو بھی آسماں نے سونے نہیں دیا
دن بھر کسی لگن میں جلتا رہا بدن
شب کو غمِ نہاں نے سونے نہیں دیا
منزل یقین کی جب نزدیک تر ہوئی
اک صورتِ گماں نے سونے نہیں دیا
آنکھیں ہیں گم ابھی تک حیرت کے باب میں
انوارِ حسنِ جاں نے سونے نہیں دیا
پھولوں کی سیج پر میں سونے لگی سحرؔ
لیکن مجھے خزاں نے سونے نہیں دیا
دریچہ بے صدا دیکھا نہ جائے
تہی دستِ صبا دیکھا نہ جائے
یہ کیا اُفتاد مجھ پر آ پڑی ہے
کوئی تیرے سوا دیکھا نہ جائے
مرا جانا ضروری ہو گیا ہے
کسی کا روکنا دیکھا نہ جائے
بکھیروں گی میں خود اپنا گھروندہ
کہ اب زعمِ ہوا دیکھا نہ جائے
یہ محویت کا عالم اللہ اللہ
تجھے محوِ دعا دیکھا نہ جائے
سحرؔ پھر آرزو کی روشنی کر
دلِ بے مدّعا دیکھا نہ جائے
ہو گیا پیوستۂ تقدیر کیا
رائیگاں تھی بیعتِ زنجیر کیا
قید سے چھوٹا اگر مر جائے گا
کہہ رہا ہے سن ترا نخچیر کیا
کیوں ستاروں سے نظر ہٹتی نہیں
کر چکے ہو دل مرا تسخیر کیا
بانٹتے ہو خود کو کیوں ٹکڑوں میں تم
رہ گئی ہے حسرتِ تعمیر کیا
کاسۂ غم ہو گیا خالی مرا
لے اُڑا کوئی مری جاگیر کیا
یہ جو اُس کو بھولنے کی مشق ہے
زندگی کرنے کی ہے تدبیر کیا
زندگی ہے یا کوئی دامِ فریب
خواب کیا دیکھا تھا اور تعبیر کیا
سننے والے سب سحرؔ دلگیر ہیں
کھو گئی ہے لذتِ تقدیر کیا
بنتا نہیں مرا وہ
ہے اِس قدر خفا وہ
اعضا کی مشق ہے بس
ہو حرف یا دعا وہ
ڈھونڈا جسے جہاں میں
رستے میں مل گیا وہ
میں کس خوشی میں گاؤں
نہ ابر، نہ ہوا وہ
مجھ سے بچھڑ کے لوگوں
بولوں کہاں گیا وہ
جی چاہے سجدہ کرنا
مانا نہیں، خدا وہ
کتنی صدائیں دیں تھیں
لیکن نہیں رُکا وہ
کلیوں کا بانکپن ہے
پھولوں کی ہے ادا وہ
میں انتہائے اُلفت
اور حسنِ ابتدا وہ
جتنا اسے سمیٹا
اتنا بکھر گیا وہ
اک فرض تھی محبت
پورا نہ کر سکا وہ
انساں تو پہلے بن لے
بنتا ہے کیوں خدا وہ
جتنا سمجھ رہے ہو
اتنا نہیں برا وہ
کیا یاد اور آئے
بھولا ہے جب وفا وہ
دل کا پتا جو پوچھے
کہنا کہ مر گیا وہ
چاہا تھا جس کو میں نے
تم سا تھا دوسرا وہ
میری تلاش میں تھا
خود بھی بکھر گیا وہ
اک اجنبی تھا لیکن
اپنا سحرؔ لگا وہ
دل کی دیوار پر لکھا ہے عشق
میں نے خود سے کہاں چُنا ہے عشق
بے خبر ہے زمانہ کیا ہے عشق
اُس کی سوچوں سے ماورا ہے عشق
فاصلہ کالعدم ہے دونوں میں
بندگی عشق ہے، خدا ہے عشق
کھُل گئے راز دونوں عالم کے
منکشف مجھ پہ یوں ہوا ہے عشق
چین وابستہ درد سے تیرے
میرے ہر درد کی دوا ہے عشق
حسن کو دے کے خود شناسائی
چین اپنا گنوا چکا ہے عشق
رقص میں آج موجۂ خوں ہے
سازِ گیتی میں ڈھل رہا ہے عشق
چوٹ کھا کر خرد کی بانہوں میں
دھیرے دھیرے سنبھل رہا ہے عشق
شام ہوتے ہی میرے آنگن میں
بحرِ گلگشت، گھومتا ہے عشق
بات اُن کی روا نہیں ہے سحرؔ
وہ جو کہتے ہیں ناروا ہے عشق
آج مہمانِ ماہ و اختر ہوں
چاندنی رات ہے فلک پر ہوں
ڈھونڈتا عمر سے ہے باہر کیا
میں تو صدیوں سے تیرے اندر ہوں
مجھ سے اعراض کیسے برتے گا
تیری قسمت، ترا مقدر ہوں
چند سانسیں بچی ہیں میرے پاس
پھر کہاں خود کو بھی میسر ہوں
نور ہے مجھ میں کچھ اندھیروں کا
چند کانٹوں سے میں معطّر ہوں
میرا اپنا کوئی کمال نہیں
تیرے رنگوں سے میں مصور ہوں
مجھ کو تصویر کیا کرے گا تو
میں تیرے زاویوں سے باہر ہوں
مجھ سے ملنے کی چاہ مت کرنا
رنج پاؤ گے دیدۂ تر ہوں
چاند نکلا ہے دیکھنے مجھ کو
آج مدت کے بعد گھر پر ہوں
دیکھ دل میں ہجوم یادوں کا
کون کہتا ہے قصرِ بے در ہوں
دیکھتے کیا ہو مجھ کو حیرت سے
کوئی تصویر ہوں نہ منظر ہوں
کیا سنائی تجھے نہیں دیتا
کب سے گریاں میں تیرے اندر ہوں
قرب تیرا مجھے ملے نہ ملے
تیرے احساس سے معنبر ہوں
کیا عنایت سحرؔ ہو صحرا پر
میں تو خود پیاس کا سمندر ہوں
اب گلہ کوئی نہیں ناکامیِ تقدیر سے
میں نے ٹالا ہر بلا کو ناخنِ تدبیر سے
دامِ اُلفت سے نکلنا دل کا اب ممکن کہاں
باندھ رکھا ہو اسے جب زلف کی زنجیر سے
قوتِ ایماں کی مجھ میں روشنی ہے موجزن
میں بھلا کیسے ڈروں گی ظلمتِ شب گیر سے
شکوۂ عہدِ خزاں بھی اب تو ہے شاید عبث
باغباں راضی ہو فصلِ گل کی جب تاخیر سے
کون کہتا ہے سحرؔ قسمت بدل سکتی نہیں
میں دکھا دوں گی بدل کر آہ کی تاثیر سے
صدور غم کا ہے کہاں دماغ اب
کہ بجھ رہے ہیں فکر کے چراغ سب
تجھے پکار کر تھکی ہے چاندنی
کہ ڈھونڈتی رہی ترا سراغ شب
تو اپنے دائروں میں قید ہی رہا
کہ خود سے مل سکا تجھے فراغ کب
جو سوزشِ جگر کو میری چھو گئے
تو ہو گئے صبا کے داغ داغ لب
سوا طلب ہوئی تھی جب خمار کی
سحرؔ وہ لے گیا، مرے ایاغ تب
اُٹھائیں گے بارِ گراں اور کتنے
ہیں باقی ابھی امتحاں اور کتنے
اگر ہو اجازت تو اک بات پوچھوں
کرو گے ستم مہرباں اور کتنے
دعائیں ہوا میں معلق رہیں تو
بنیں گے جبیں پر نشاں اور کتنے
تہی ہو گیا جو مکانِ محبت
بسے اِس میں جا کر گماں اور کتنے
جو نکلے زمیں کی حدوں سے تو دیکھا
پسِ آسماں، آسماں اور کتنے
سحرؔ آرزو تیری ہے جان لیوا
کرے گی ابھی بے نشاں اور کتنے
بے کل دل ہے اب رنجور
رہتے ہو جو مجھ سے دور
ایک طرف دریا کی کشش
ایک طرف ساحل کا نور
اپنی راہ نکالی خود
توڑ کے دنیا کے دستور
بھید بھری تنہائی میں
سوچ رہی ہے شب دیجور
اب تو ہیں وحشت آثار
لوگ سحرؔ تھے مثلِ حور
اک ستارہ بھی نہیں ہے بام پر
ہے تحیّر رات کے انجام پر
توڑ کر جس کو بنایا راستہ
ہے وہی پتھر مرے ہر گام پر
چھو لیا اُس کو اگر جل جاؤ گے
ہیں نشاں اُس کے لبوں کے جام پر
بند تھے تاروں کے لب، کھلنے لگے
اک نظر کی جو سکوتِ شام پر
تم نہیں ملتے تو پھر کس سے ملوں
رو رہی ہوں آرزوئے خام پر
آئے گا سحرؔ کیسے شباب
آہ مری اِس خواہشِ بے نام پر
گل نہیں، خار سمجھتے ہیں مجھے
سب گراں بار سمجھتے ہیں مجھے
ہیں اندھیرے بھی گریزاں مجھ سے
چشمِ بیدار سمجھتے ہیں مجھے
دولتِ غم اثاثہ ہے مرا
کیوں وہ نادار سمجھتے ہیں مجھے
میری پیشانی پہ محراب نہیں
وہ گنہ گار سمجھتے ہیں مجھے
دور بیٹھے ہیں محفل سے مری
وجہِ آزار سمجھتے ہیں مجھے
اِن طبیبوں کے نہیں بس کا یہ روگ
تیرا بیمار سمجھتے ہیں مجھے
راستہ میں نے دکھایا تھا جنھیں
اب وہ دیوار سمجھتے ہیں مجھے
کیا کہوں اُن سے مآلِ اُلفت
جو تری ہار سمجھتے ہیں مجھے
میری غربت نہیں کھُلتی مجھ پر
لوگ زر دار سمجھتے ہیں مجھے
مرا اثبات محبت میری
لوگ انکار سمجھتے ہیں مجھے
میں نہیں بزم سے جانے والی
اہلِ دربار سمجھتے ہیں مجھے
ہائے کیوں کر وہ مجھے سمجھیں گے
کارِ دشوار سمجھتے ہیں مجھے
کیوں سحرؔ حال سناؤں اُن کو
مرے غم خوار سمجھتے ہیں مجھے
ہاتھ سے اپنے جو پیمانہ گیا
ہم نے جانا لطفِ مے خانہ گیا
اب لہو کس کا پیئے گی شمع تو
تیری محفل سے تو پروانہ گیا
ہم کو دیکھا مستیِ اُلفت میں چُور
ترکِ صحرا کر کے دیوانہ گیا
بزمِ ساقی میں کہاں وہ رونقیں
رند کا بھی ذوقِ رندانہ گیا
اب سحرؔ دیکھا تجھے کس حال میں
تیرا وہ رنگِ خطیبانہ گیا
یہ جو تیری مری کہانی ہے
بہتے دریاؤں کی روانی ہے
دیکھ رستے میں زیست مت آنا
میں نے مرنے کی آج ٹھانی ہے
درد و غم ہے ترا عطا کردہ
گیت میرا تری نشانی ہے
خوف کیسا ہے، کیا پریشانی
جب یہ طے ہے کہ جان جانی ہے
نارسائی میں پارسا ہوں میں
میرا مقصود لامکانی ہے
جس کا رشتہ چمن سے ہے محکم
اُس کی پھولوں بھری جوانی ہے
یوں ہی پایا نہیں مقام سحرؔ
دشتِ فرقت کی خاک چھانی ہے
تری فرقت کے صدمے کم نہیں تھے
مگر آنکھوں کے گوشے نم نہیں تھے
تری چاہت میں جتنے موڑ آئے
کبھی زلفوں میں ایسے خم نہیں تھے
ابھی ملنے کی دل میں حسرتیں تھیں
بچھڑنے کے تو یہ موسم نہیں تھے
بجا تھا وہ ترا حرفِ خرد بھی
جنوں کے سلسلے بھی کم نہیں تھے
تری پہنائیوں میں اک جہاں تھا
مگر چشمِ فسوں گر ہم نہیں تھے
بہت دیکھے تھے قسمت کے تھپیڑے
سحرؔ اتنے تو پیچ و خم نہیں تھے
اُٹھائے گا کب تو حجابات ساقی
گرفتار مشکل میں ہے ذات ساقی
یہ محصور کن دائروں میں ہوئی ہوں
نہ دن ہی مرا، نہ مری رات ساقی
رکھو حوصلہ زندہ رہنے کا دل میں
ہے جب تک دِلوں میں مواسات ساقی
اگر مل گئے ہو تو رُک جاؤ دو پل
نہ جانے ہو پھر کب ملاقات ساقی
ترا مے کدہ، یہ سبو اور ساغر
کرے کوئی کیسے شکایات ساقی
سحرؔ تیری آنکھوں کے وہ جامِ دلکش
نہیں بھولے ہم وہ مدارات ساقی
کس میں ہے دم خم دلبرِ من
کر دے جو مصور دل کی تھکن
کلیوں نے بدن پر ہونٹ رکھے
اُتری نہیں لیکن دل کی تھکن
الفاظ ہیں گنگ تیرے آگے
کیا تجھ سے کہوں اے جانِ سخن
ہر زخم کا منہ کھل جائے گا
چلنے کو ہے وہ منہ زور پون
مجھ کو بھی ترنگ میں آنے دو
ہے آج نشے میں نیل گگن
بے نام تعلق تجھ سے ہے
سینے میں ہے اک بے کیف لگن
لے جاؤ قرارِ دیدۂ و دل
ہے مجھ کو بہت یہ رنج و محن
خوابوں نے ہے چھوڑا ساتھ مگر
باقی ہے ابھی آنکھوں میں دکھن
یہ بات سحرؔ ناممکن ہے
بن تیرے جیوں خاکم بدہن
حسن کے جانثار موسم ہیں
بن کے اُڑتے غبار موسم ہیں
میرے مکھ پہ ہے ایک رنگ لیکن
میرے دل میں ہزار موسم ہیں
ابر، خوشبو، ہوا، شفق، جگنو
تیرے آنے کے یار موسم ہیں
خوں ٹپکتا ہے آسمانوں سے
ہائے کیا دل فگار موسم ہیں
رنگ چسپاں ہیں تیرے پھولوں کے
تیرے نقش و نگار موسم ہیں
سوئے آفاق کیسے دیکھوں میں
میری آنکھوں پہ بار موسم ہیں
کوئی کھلتا ہے، کوئی مرجھاتا
یہ ہی لیل و نہار موسم ہیں
پھر وہی خواہشوں کے موسم ہیں
پھر وہی طرح دار موسم ہیں
اشک آہیں، اُداسی، تنہائی
شعر کہنے کے چار موسم ہیں
پھر سے اُٹھا ہے درد پہلو میں
پھر کیے بے قرار موسم ہیں
یہ وہی رُت ہے تیری قربت کی
یہ وہی پُر بہار موسم ہیں
اِن کو حاصل سحرؔ ثبات نہیں
تیرے قول و قرار موسم ہیں
یہ جو نکلا ہے آفتاب نہیں
تیرگی اُف ترا جواب نہیں
بہہ رہا ہے جو آنکھ سے پل پل
موجِ خوں ہے وہ جوئے آب نہیں
میری تقدیر کا نوشتہ ہے
تو مرا حسنِ انتخاب نہیں
رقص کیسے ہو اِس کی سرگم پر
زندگی چنگ یا رباب نہیں
حسن کو خود سے ہے پشیمانی
عشق تجھ سے تو اجتناب نہیں
میرے اندر ہے اک تلاطم سا
میرے چہرے پہ اضطراب نہیں
ہو گئی بند چشمِ حسرت بھی
خالی کاسہ ہے کوئی خواب نہیں
آپ دے درد، آپ ہی روئے
عشق والے ترا جواب نہیں
میں نے پائی ہے وہ شکیبائی
رنج بے کل کرے یہ تاب نہیں
تو پڑھی جائے گی سحرؔ کیسے
تو ابھی شاملِ نصاب نہیں
نصیبوں میں جو آندھیاں اور بھی ہیں
عزائم ہمارے جواں اور بھی ہیں
نہیں ہے اگر ایک مہ تک رسائی
ستاروں بھرے کارواں اور بھی ہیں
مرے ساتھ روتے ہیں دیوار و در بھی
تجھے کیا پتا راز داں اور بھی ہیں
نہیں ایک محبوسِ غم تو جہاں میں
سرِ شہر نوحہ کناں اور بھی ہیں
اگر اپنی دہلیز پہ تم ہو نازاں
ہمارے لیے آستاں اور بھی ہیں
ہوئی داستاں قیس کی اب پرانی
کہ صحرا میں آتش بجاں اور بھی ہیں
سحرؔ زخم کچھ اور سہنا پڑیں گے
ابھی منتظر مہرباں اور بھی ہیں
منتشر کر کے ڈال ڈال وجود
اب وہ کہتا ہے لے سنبھال وجود
ہم نے اِس کی قدر نہ جانی آہ
اِس نے بخشا تھا جو کمال وجود
تیری لہروں سے خود کو باندھا ہے
اپنے دریا سے اب نکال وجود
کوئی آئے سمیٹ لے اِس کو
ایک مدت سے ہے نڈھال وجود
سن ذرا روح کی صدا بھی سن
مادیت سے ذرا نکال وجود
رُواں رُواں دہائی دیتا ہے
آتشِ ہجر میں نہ ڈال وجود
وصل مجھ سے صبا کا ہونے دے
زیست ایسے نہ کر محال وجود
نظمِ دنیا سنبھل ہی جائے گا
پہلے سانسوں کو کر بحال وجود
تیرگی کھا گئی ہے جذبوں کو
شبِ یلدا کو آ اُجال وجود
کرچیاں درد کی رہو چنتے
یہ محبت کا ہے مآل وجود
مرا چہرہ مری آنکھیں کہاں ہیں
وہ میری پھول سی بانہیں کہاں ہیں
کہاں گم ہو گیا میرا ستارہ
وہ میری چاندنی راتیں کہاں ہیں
پرندے جھومتے گاتے تھے جس پر
گھنے برگد کی وہ شاخیں کہاں ہیں
ہوا ویران گلزارِ تمنا
محبت کی گزر گاہیں کہاں ہیں
جنوں دل میں سحرؔ آتش بجاں ہے
مری دمساز برساتیں کہاں ہیں
بے کنار و بے کراں
زندگی رواں دواں
ذات کو ثبات دے
ہو نہ جاؤں بے نشاں
ہر نفس ہے مضطرب
ہر نفس ہے نیم جاں
کائناتِ شعر میں
ہر سطر دھُواں دھُواں
ابر ہے، بہار ہے
تو نہ جانے ہے کہاں
سب ترے حصار میں
یہ مکان و لامکاں
کیا ہی طمطراق ہے
آ گیا وہ مہرباں
ہیں سحرؔ سبھی خفا
عجب ہے رمزِ دوستاں
حرفوں میں نہ اخگر باندھ
اب اظہار میں عنبر باندھ
جس نے تجھ میں رنگ بھرے
اُس کو اک صورت گر باندھ
پہلے من کی گرہیں کھول
پھر آنسو کو گوہر باندھ
دلبر کو دشمن کر دے
اور دشمن کو دلبر باندھ
چہروں سے اعراض برت
اُجلے اُجلے منظر باندھ
دشمن تیرے عقب میں ہے
رختِ سفر میں خنجر باندھ
ماں بیٹے سے کہتی ہے
بیٹا پیٹ پہ پتھر باندھ
دنیا کی ہے ریت سحرؔ
مُشتِ خاک امبر باندھ
روئیے زار زار فرقت میں
اور کیا پائیے گا چاہت میں
اب کہ آنکھیں ہیں سوختہ ساماں
دل ہے غارت دیارِ حسرت میں
اُس کو آرائشِ بدن سے کیا
خون بیچا ہو جس نے عسرت میں
اپنی بینائی بھی گنوا بیٹھے
کیا ملا خواب کی زیارت میں
میرے سینے میں اک الاؤ ہے
جسم جلتا ہے اِس تمازت میں
بابِ فرقت ہے ناتمام ابھی
وصل رکھو نصابِ اُلفت میں
تیری آمد پہ لوگ کہتے ہیں
دیر کتنی ہے اب قیامت میں
کون سنتا ہے داستانِ غم
کس کو رغبت ہے اِس حکایت میں
کیا اُجالوں کی جستجو کیجیے
جب سحرؔ ہی نہیں ہو قسمت میں
جو یوں ہی بدلتے رہو گے ٹھکانے
کہاں چین پاؤ گے پھر تم دیوانے
کھلائے تھے گل جتنے دستِ صبا نے
بکھیرا اُنھیں تیرے جور و جفا نے
یہ طوفان کیسا اُٹھایا ہے جگ میں
دلِ مضطرب تیری آہ و بقا نے
جیئے جا رہے ہیں ترا نام لے کر
نہ چھوڑا کہیں کا بھی خوئے وفا نے
نہیں کوئی ملتی کہیں جائے سجدہ
خدا جانے کیوں بند ہیں آستانے
جسے راس آئی ہو صحرا نوردی
سحرؔ وہ بنائے گا کیوں آشیانے
شام کی رنگت نیلی ہونے والی ہے
یادِ صبا زہریلی ہونے والی ہے
درد کے سارے بادل چھٹنے والے ہیں
صبحِ وطن چمکیلی ہونے والی ہے
تم نے لو جو دی ہے بجھتے خوابوں کو
جیون رُت بھڑکیلی ہونے والی ہے
باندھ لیا ہے رختِ سفر دیوانوں نے
صحرا میں تبدیلی ہونے والی ہے
آج بہت گہرے ہیں بادل اشکوں کے
روح کی چادر گیلی ہونے والی ہے
موسمِ احساس ہوا ہے یخ بستہ
سوچ سحرؔ برفیلی ہونے والی ہے
کس کے سینے میں تیر پار کریں
کیوں نہ خود کو ہی ہم شکار کریں
اے فلک اب ترا بھروسہ کیا
کس طرح تجھ کو راز دار کریں
لوحِ محفوظ کا بھرم رکھیں
مسلکِ درد ہی شعار کریں
آرزوؤں کے گل کھلا کے ہم
آؤ تسکینِ نو بہار کریں
پھیر دینا سلائی آنکھوں میں
اب ستارے جو ہم شمار کریں
بعد تیرے بتا کدھر جائیں
کون سی راہ اختیار کریں
جب ہمارا نہ ہو سکا تُو پھر
کیوں سحرؔ منتِ بہار کریں
کرم کا سائباں رکھے ہوئے ہیں
ابھی ہم دل جواں رکھے ہوئے ہیں
کہاں ایسے تہی دامان ہیں ہم
نظر میں آسماں رکھے ہوئے ہیں
طنابِ آسماں کھنچنے لگی ہے
غضب کی ہم فغاں رکھے ہوئے ہیں
نہیں چھپتی کسی شے کی حقیقت
نگاہِ بے کراں رکھے ہوئے ہیں
بھلا ڈالا ہے تیری بے رخی کو
شگفتہ سے گماں رکھے ہوئے ہیں
ہمیں سے ہیں فقط ناآشنا وہ
خیالِ دیگراں رکھے ہوئے ہیں
سحرؔ تم آزما کے دیکھ لینا
ہتھیلی پر یہ جاں رکھے ہوئے ہیں
نہیں تجھ سے کچھ طاس گوں چاہیے
مجھے زندگی میں سکوں چاہیے
لگا پھر کوئی چوٹ گہری مجھے
قلم کو مرے تازہ خوں چاہیے
گریبانِ صحرا کی عریانیاں
جو ڈھانپے وہ تارِ جنوں چاہیے
ترے پاس ہے جو مرے ہم نشیں
مجھے بھی وہ سوزِ دروں چاہیے
زمیں چاہیے سرخ پھولوں بھری
سحرؔ آسماں نیلگوں چاہیے
مثلِ گل تھا جو کبھی خار ہوا جاتا ہے
ہائے کیوں دل ترا بیمار ہوا جاتا ہے
کج کلاہی کا چلن عام ہوا جاتا ہے
ہر کوئی صاحبِ دستار ہوا جاتا ہے
کیوں پڑا جاتا ہے چہرہ تیرا پیلا پیلا
کیا تجھے اے میرے غم خوار ہوا جاتا ہے
ضبط کا میرے بھرم رکھنا مرے مولا کہ
ہر کوئی صاحبِ اسرار ہوا جاتا ہے
دشمنِ جاں تو وہ اپنا بھی بنا ہے لیکن
میرے حق میں بھی وہ تلوار ہوا جاتا ہے
کوئی مجھ کو یہ بتائے کہ مناؤں کیسے
کہ خفا مجھ سے وہ دلدار ہوا جاتا ہے
یاد رکھنا کہ نہ زنداں سے نکلنے پائے
تیرا قیدی ہے گرفتار ہوا جاتا ہے
یہ بھی ممکن ہے کہ تجھ سے نہ سنبھالا جائے
کیوں مرے غم کا خریدار ہوا جاتا ہے
مرے غم خانے پہ لرزہ سا عجب طاری ہے
حشر برپا پسِ دیوار ہوا جاتا ہے
خضر صورت وہ مجھے رہ میں کہیں مل جائے
راستہ پھر میرا دشوار ہوا جاتا ہے
میں سحرؔخود کو تجاذب سے بچاؤں کیسے
ہر گھڑی تیرا طلب گار ہوا جاتا ہے
مجھ کو آزادیِ جسم و جاں چاہیے
یہ مکاں اب نہیں، لامکاں چاہیے
تیرے زہر آب لہجے کے کانٹے نہیں
پھول، کلیوں سے بھرا گلستاں چاہیے
گرم گفتاریوں سے ہوں آتش بیجاں
کوئی ہم ذوق شبنم فشاں چاہیے
جس کو دھُندلا دیا وقت کی گرد نے
پھر وہی محبت رفتگاں چاہیے
جو مری بے قراری کا درماں بنے
وہ سحرؔ بادۂ ارغواں چاہیے
زندانیِ جاں شامِ غریباں میں رہا ہے
دل یوسفِ گم گشتہ ہے زنداں میں رہا ہے
تھی میرے مقدر میں فقط صحرا نوردی
وہ اور کوئی ہے جو گلستاں میں رہا ہے
آیا تھا پئے گریہ کوئی مکتبِ جاں میں
اک شورِ فغاں تب سے دبستاں میں رہا ہے
کر ہی نہ سکی تجھ سے کبھی صرفِ نظر میں
تو بن کے لہو میری رگِ جاں میں رہا ہے
یہ رشتۂ احساس ہر اک شے سے ورا ہے
شامل تو مرے حالِ پریشاں میں رہا ہے
ہر روز دکھاتی ہیں سحرؔ آہیں تماشا
اک تارِ جنوں ایسا گریباں میں رہا ہے
درکار اب نہیں مجھے خیرات پاس رکھ
جھوٹی رفاقتوں کی یہ سوغات پاس رکھ
مجھ سے وہ کہہ رہا ہے تُو اپنی حدوں میں رہ
تجھ پر بھی لازمی ہے کہ اوقات پاس رکھ
پتھر کا ایک بت مجھے تو نے بنا دیا
بیکار ہے یہ شعلۂ جذبات پاس رکھ
میں مسئلے تیرے نہیں لائی جہیز میں
اے بدگماں یہ تلخیِ حالات پاس رکھ
اُلفت کو تو یقین کی بنیاد چاہیے
کہنا اسے سحرؔ کہ یہ خدشات پاس رکھ
جدا مجھ سے تھا وہ بچھڑا نہیں تھا
نہیں وہ اِس قدر تنہا نہیں تھا
ہر اک سر میں ترا سودا سمایا
ترے جیسا کوئی دوجا نہیں تھا
مجھے دنیا نظر آتی بھی کیسے
سوا تیرے تو کچھ دیکھا نہیں تھا
مری آنکھوں میں سیاہی بھر گئی ہے
تری دنیا کا رنگ ایسا نہیں تھا
سحرؔ پھر لوٹ کر آیا نہیں وہ
جدائی کا جسے دھڑکا نہیں تھا
وہ دردِ نہاں سوزِ جگر کس کے لیے تھا
طوفانِ فغاں بارِ دگر کس کے لیے تھا
کہہ دے کہ ستاروں کا سفر کس کے لیے تھا
دھرتی کی بہاروں سے مفر کس کے لیے تھا
سورج کا کفن اوڑھ کے میں اب سوچ رہی ہوں
آخر وہ حریمِ گلِ تر کس کے لیے تھا
ترسا کیے چھاؤں کو جو بچے مرے گھر کے
آنگن میں اُگا تھا وہ شجر کس کے لیے تھا
دامن میں ترے اذنِ حضر ہم کو نہیں جب
جو تو نے بنایا تھا وہ گھر کس کے لیے تھا
جس ہجر کی آتش میں جلایا ہے سحرؔ دل
وہ حسنِ مکمل تھا مگر کس کے لیے تھا
میں بھی چپ ہوں، تو بھی چپ
نور بھی چپ، خوشبو بھی چپ
قفل ہے بادل کے لب پر
موسم کا جادو بھی چپ
زہر سکوت کا چھایا ہے
فکر کے ہیں آہو بھی چپ
تم بھی ہو خاموش سحرؔ
اور ہے وہ مہ رو بھی چپ
خائف عدو ہیں ہاتھ میں تلوار دیکھ کر
حیراں ہیں خود سے برسرِ پیکار دیکھ کر
رفتار میری گویا ہے اک موجِ تند و تیز
رُکتی نہیں ہوں راہ کو دشوار دیکھ کر
رنج و الم نے چھین لی چہرے سے دلکشی
اب کیا کرو گے اے مرے دلدار دیکھ کر
مرہم سے تیرے زخم سے رسنے لگا لہو
کھل جائیں میرے چاک نہ غم خوار دیکھ کر
کھل ہی گئیں آخر تری پھولوں سی انکھڑیاں
خوش ہوں تجھے میں نیند سے بیدار دیکھ کر
کس کو ملے گی مے سحرؔ پیاسا رہے گا کون
ہو گا یہ طے اب ظرفِ قدح خوار دیکھ کر
اب فقیروں کی دعا لینے دے
آیتِ ردِ بلا لینے دے
حضرتِ دل کو منا لینے دے
آگ بھڑکی ہے، بجھا لینے دے
قفل ٹوٹا ہے بڑی مشکل سے
کھول در تازہ ہوا لینے دے
ہم سکھائیں گے جہاں داری بھی
ہوش میں تُو ہم کو آ لینے دے
جس کی فطرت میں ہے دریوزہ گری
تو اسے نامِ وفا لینے دے
تیری تصویر نکھر آئے گی
اشک آنکھوں سے بہا لینے دے
ہے تہی کُنجِ دروں مدت سے
یادِ رفتہ کو جگا لینے دے
آج اچھا ہے مزاج اُن کا سحرؔ
درسِ اخلاق و وفا لینے دے
ستارے تھے کبھی جن کا مقدر، لوٹ آئے ہیں
زمیں کی سیر کو غمگیں مسافر لوٹ آئے ہیں
شہیدوں کے لہو سے ہیں وفا کے راستے روشن
سلام اُن غازیوں پر بھی کہ جو گھر لوٹ آئے ہیں
پرندے اُڑ گئے سارے جو تھے منڈیروں پر بیٹھے
فضا پر خوف طاری ہے ستم گر لوٹ آئے ہیں
جو دکھ گھونگھٹ میں پلتے ہیں تجھے اُن کی خبر کب ہے
نویدِ جانفزا پہنچے کہ زیور لوٹ آئے ہیں
وہ جن کی دید کی پیاسی مری آنکھیں ہیں مدت سے
خدا کا شکر ہے سارے وہ منظر لوٹ آئے ہیں
مقدر کے کرم کا ہے سحرؔ اعجاز کچھ ایسا
جنھیں ہجراں میں چاہا تھا وہ دلبر لوٹ آئے ہیں
چند سانسیں اُدھار لیں گے ہم
اور دامن میں خار لیں گے ہم
تم سمندر ہو بانہیں وا کر لو
تم سے موجِ خمار لیں گے ہم
تو اجازت اگر ہمیں دے گا
چند پھولوں کے ہار لیں گے ہم
پھر سجائی دکانِ شوق اُس نے
پھر متاعِ قرار لیں گے ہم
تم ہی درپن ہو زیبِ ہستی کا
تم میں خود کو سنوار لیں گے ہم
پھونک دیں گے سحرؔ یہ خرمن خود
انتقامِ بہار لیں گے ہم
نقش ہے تیرا نام پھولوں پر
میرے محبوب میرے دل سے گزر
ہر تمنا کو لفظ مل جائے
مجھ کو دیکھے جو وہ نظر بھر کر
شعلگی آسمانوں تک پہنچی
کون یہ جل بجھا مرے اندر
کر عطا دل کو صبرِ ایوبی
یا مرے چشم و دل کو پتھر کر
بیج پھولوں کے میں نے بوئے ہیں
کھل گئے صحن میں مگر پتھر
اوڑھ کر تیرگی جو نکلے ہو
کچھ ملا ہے سحرؔ کو ٹھکرا کر
آنکھوں میں جو نمی ہے
شاید تری کمی ہے
حالات رہنِ گریہ
ماحول ماتمی ہے
طوفاں گزر گیا ہے
بارش ذرا تھمی ہے
مژگان کھولوں کیسے
گردِ سفر جمی ہے
نکلا تھا کیوں عدن سے
اُلجھن میں آدمی ہے
بدلے سحرؔ نے تیور
لہجے میں برہمی ہے
خوشبو سے گل عاری نہ تھا، موجِ صبا تنہا نہ تھی
ہر سو اندھیرے تھے مگر ایسی شبِ یلدا نہ تھی
قحطِ محبت وہ پڑا دشوار جینا ہو گیا
پہلے کبھی اِس طور سے انسانیت رُسوا نہ تھی
کیوں دامنِ دل کو مرے تو نے کیا ہے بے طلب
دنیا سے تھی ناراض میں پر رغبتِ صحرا نہ تھی
چہرے کئی گلفام سے آئے تھے میری راہ میں
حسرت تھی جس کی دید کی وہ صورتِ زیبا نہ تھی
آنکھوں کے سوتے کیا کہیں بہتی ہیں اِن میں جوئے خوں
بے درد تو پہلے بھی تھی، ایسی مگر دُنیا نہ تھی
الزام کیسے دوں سحرؔ میں دہر کی ظلمات کو
اِس نفرتوں کے عہد میں تنہا میری بپتا نہ تھی
شاخِ درد سے لپٹے لوگ
خود میں سمٹے سمٹے لوگ
کوزہ گر کے ہاتھ میں ہیں
پل پل بنتے مٹتے لوگ
جیون بازی ہار گئے
راہ تمھاری تکتے لوگ
بے کل بے کل پھرتے ہیں
گل کی صورت کھلتے لوگ
کیا جانیں کس سوچ میں ہیں
زانو پر سر رکھے لوگ
کیسی شان سے نکلے تھے
کیوں پھر یکدم پلٹے لوگ
خاک سے مل کر خاک ہوئے
تیری آنکھ سے بہتے لوگ
یکجائی اک دھوکہ ہے
مل کے اور ہی بچھڑے لوگ
نقدِ عمر گنوا دیں گے
وقت کے ہاتھوں بکتے لوگ
باہر کیونکر آئیں گے
تیرے اندر کھوئے لوگ
قطرہ قطرہ چھلک اُٹھے
جیون گاگر بھرتے لوگ
خود منظر بن جائیں گے
منظر سے یہ ہٹتے لوگ
آخر کب تک جبر سہیں
بھوکے، پیاسے، ننگے لوگ
اک ساعت میں اُجڑ گئے
سارے ہنستے بستے لوگ
کیوں ہو تم غمگین سحرؔ
ہم سے پوچھتے آئے لوگ
ملالِ گردِ سفر نہیں ہے
یہ دل ہے دل رہ گزر نہیں ہے
ستارے کس کو پکارتے ہیں
ابھی تو وہ بام پر نہیں ہے
یہاں تسلط ہے تیرگی کا
کہ روشنی میں اثر نہیں ہے
ہر ایک منظر ہے دیدنی پر
تجھے میسّر نظر نہیں ہے
درُوں کی دنیا اجاڑ سی ہے
متاعِ سوزِ جگر نہیں ہے
عذاب سورج نے وہ ڈھایا
سحر بھی جیسے سحرؔ نہیں ہے
گلشن سے ادھر بادِ صبا کیوں نہیں آتی
آنگن میں محبت کی گھٹا کیوں نہیں آتی
رہ رہ کے اٹھا کرتی ہے اک ٹیس سی دل میں
ہونٹوں کو تبسم کی ادا کیوں نہیں آتی
سینوں میں چھپا رکھے ہیں دل کی جگہ پتھر
دشنام لبوں پر ہیں دعا کیوں نہیں آتی
پندارِ وفا تو نے بدل ڈالا ہے یکسر
لفظوں سے ترے بوئے وفا کیوں نہیں آتی
جینا ہے سحرؔ قحطِ محبت میں اذیت
افسوس ہے مرنے کی ادا کیوں نہیں آتی
تیری عادت نہ مار دے ہم کو
دردِ الفت نہ مار دے ہم کو
دل کہ خوگر ہے رنج فرقت کا
اب یہ فرقت نہ مار دے ہم کو
وہ جو دل میں بسا ہے مدت سے
وقتِ ہجرت نہ مار دے ہم کو
یوں نہ ڈالو نگاہِ دزدیدہ
چشمِ حسرت نہ مار دے ہم کو
ساتھ چاہوں ترا میں شعلوں پر
ذوقِ عشرت نہ مار دے ہم کو
عہد و پیماں تیرے ہیں قائم
پر یہ عجلت نہ مار دے ہم کو
آئینے یوں نہ دیکھ حیرت سے
تیری حیرت نہ مار دے ہم کو
بن کے سورج ہمیں جلاتا ہے
داغِ وحشت نہ مار دے ہم کو
عمر گزری تھی کارِ گریہ میں
اب یہ فرصت نہ مار دے ہم کو
روح جلتی ہے یہ تن جلتا ہے
اب تو بارش میں بھی من جلتا ہے
ایسا کیا ہے ترے پیمانے میں
جس کی حدت سے بدن جلتا ہے
پوچھنا کیا ترے سودائی کا
سوزِ ہجراں میں مگن جلتا ہے
آہ گلشن کو جلایا کس نے
لالہ و سر و سمن جلتا ہے
کیا بتائیں کہ سہا کیا کیا کچھ
ناصحا طرزِ سخن جلتا ہے
چیخیں سنتا ہے بھلا کون اس کی
جب کوئی زیرِ کفن جلتا ہے
خاکِ ہجراں میں ہے چنگاری سی
ایسی شدت ہے بدن جلتا ہے
پہلے جلتے تھے مری فکر کے پر
اب سحرؔ تن کا بھی دھن جلتا ہے
شوق آزار تھوڑی ہوتا ہے
کوئی بیکار تھوڑی ہوتا ہے
قتل کرنا ہے تو رہو دل میں
اس طرح وار تھوڑی ہوتا ہے
چور نظروں سے جو کرے روشن
وہ گنہ گار تھوڑی ہوتا ہے
سوگ تیرا تو اک خزانہ ہے
درد نادار تھوڑی ہوتا ہے
تیرا ہر لفظ تیرے جذبوں کا
آئینہ دار تھوڑی ہوتا ہے
دیکھ لے جو ذرا توجہ سے
وہ طلب گار تھوڑی ہوتا ہے
قید ہو جو تری نگاہوں میں
وہ گرفتار تھوڑی ہوتا ہے
دل سے خوابوں کو بیچنے والے
دل خریدار تھوڑی ہوتا ہے
درد دل تو خدا کی نعمت ہے
یہ گراں بار تھوڑی ہوتا ہے
عشق ہوتا ہے ایک بار سحرؔ
یہ کئی بار تھوڑی ہوتا ہے
گل چپ ہے مہک بند، گھٹا بند، صبا بند
مدت سے مرے صحن میں ہے تازہ ہوا بند
میں نے بھی محبت کی سبھی رسمیں بھلا دیں
مجھ پر جو کیے تو نے سخن ہائے بند
پھر میں نے کہیں جا کے نہیں مانگی مرادیں
جس دن سے ہوا مجھ پہ ترا بابِ دعا بند
کیوں درد کی شدت سے سلگتے ہیں دل و جاں
کر دی کیا مسیحا نے مرے غم کی دوا بند
کیا جانیے کہ مجھ سے ہوا سرزد گناہ کیا
کیا جانیے کیوں ہو گئی سوغاتِ جزا بند
اس قیدِ اذیت سے مجھے آنا ہے باہر
کیوں تو نے مجھے رکھا ہے اے عبدِ خدا بند
اب اشک نہ آہیں نہ اداسی نہ تڑپ ہے
لگتا ہے کہ ہے میرے لیے رختِ دعا بند
تعلق توڑ دیتے ہو
اکیلا چھوڑ دیتے ہو
کہاں سے ہوں شکستہ میں
کہاں سے جوڑ دیتے ہو
میں گہری نیند میں ہوں تم
مجھے جھنجھوڑ دیتے ہو
کلائی تو نہیں ہے پل
جو ایسے موڑ دیتے ہو
تمھارا عکس ہے اس میں
جو شیشہ دیتے ہو
جسے اپنا بناتے ہو
اسے پھر چھوڑ دیتے ہو
یقین کو گمان دے رہی ہوں
زمیں کو آسمان دے رہی ہوں
یہ دھڑکنیں ہیں گویا مثلِ آری
ہر آن امتحان دے رہی ہوں
وہ آسمان کا ہے رہنے والا
میں جس کو خاکدان دے رہی ہوں
تلاش لے مجھے تو اپنے اندر
میں نام اور نشان دے رہی ہوں
وہ شاخ جس پہ پھول کھل نہ پائے
میں اس کا بھی لگان دے رہی ہوں
ہے گوش بر صدا ہر اک سماعت
خموشی کو زبان دے رہی ہوں
وہ خاک میرے پیروں کی نہ لے لے
جسے میں سائبان دے رہی ہوں
نقیب ہو نہ جائے وہ بھی گھر کا
وہ جس کو میں امان دے رہی ہوں
سحرؔ میں کاٹ کر ان بازوؤں کو
پرندوں کو اڑان دے رہی ہوں
فراق ڈھویا، قربت کے جال سے نکلے
سیارگانِ وحشت کی چال سے نکلے
نہ راس آیا تجھ میں قیام کا موسم
قرار دے کر دل کا وبال سے نکلے
قبول ہم کو پت جھڑ بھی نہ کرے شاید
جو اس طرح ہم شاخِ نہال سے نکلے
بنا بنا کر کس کو تو پھر مٹائے گا
اگر جو ہم بھی دستِ کمال سے نکلے
نکل رہی تھیں شاخِ سحرؔ بُنِ مُو سے
نہ پوچھ کیسے، خواہش کے جال سے نکلے
کب سُنی تم نے راگنی میری
گفتنی ہے یہ خامشی میری
ایک آہٹ سے جاگتی ہوں میں
ایک دستک ہے زندگی میری
ابرِ ظلمت کسے ڈراتا ہے
اور پھیلے گی چاندنی میری
کون ٹھہرے گا دیکھنا یہ ہے
دورِ مینا یا تشنگی میری
آہ آیا ہی تھا وہ سپنے میں
دفعتاً آنکھ کھل گئی میری
وجہ بے چینی کیا بتاؤں میں
چین تیرا ہے بے کلی میری
تجھ پہ گزرے نہ عالمِ وحشت
تو نہ دیکھے یہ بے بسی میری
اُس نے رکھا جو سامنے ساغر
بڑھ گئی اور تشنگی میری
میں تو سائے سے اپنے کتراؤں
دیکھ خود سے یہ کج روی میری
تم فروزاں ہو اک ستارے سے
میرے اندر ہے روشنی میری
تجھ کو دیکھوں تو کچھ نہیں دیکھوں
تیری خواہش ہے دیدنی میری
رفاقتوں کا ہم نے عجب اثر دیکھا
رفیق کس کا تھا کس کا ہم سفر دیکھا
جو آگ اس کی دہلیز پر لگائی تھی
اُسی کی زد میں جلتا یہ بام و در دیکھا
نہ جانے کیسا جادو تھا اس کی آنکھوں میں
نہ آبلے ہی دیکھے نہ اپنا گھر دیکھا
کسے اجازت وحشت کو ناچتے دیکھے
پہ ہم نے چھپ کے یہ رقص رات بھر دیکھا
تھے لوگ خائف جس راستے پہ جانے سے
ہم اہلِ دل تھے ہم نے یہ کر گزر دیکھا
اجل سے برسرِ پیکار ہونا چاہیے تھا
مگر ہمراہ کوئی غم خوار ہونا چاہیے تھا
سہوں کیسے اکیلے پن کی یہ وحشت خدایا
کوئی دشمن کوئی دلدار ہونا چاہیے تھا
نہیں منظور مجھ کو یہ تری کاغذ کی کشتی
وہی ناؤ وہی پتوار ہونا چاہیے تھا
تری آنکھیں اگر ہیں شاملِ منظر یقینا
اسے تو اور بھی رنگ دار ہونا چاہیے تھا
ستارے پوچھتے پھرتے ہیں اس تیرہ شبی میں
کیا میری صبح کو روشن دار ہونا چاہیے تھا
یہ دنیا کم مزاحم تو نہ تھی میری ڈگر میں
تجھے بھی لازمی دیوار ہونا چاہیے تھا
زمانہ تھا بدلنے کو اگر تیار تو پھر
مجھے بھی نیند سے بیدار ہونا چاہیے تھا
سر محفل لگا بکنے وہ پھر ہذیان لوگوں
جسے شائستۂ افکار ہونا چاہیے تھا
اندھیروں سے لڑے کب تک بھلا ننھا سا جگنو
کوئی لمحہ سحرؔ آثار ہونا چاہیے تھا
نظر ہر آتی جاتی پڑنی ہے اس پر مسلسل
یہاں پر گھر نہیں بازار ہونا چاہیے تھا
یہاں بھی دھوپ سے جھلستے ہوئے چہرے ہیں بستے
یہاں بھی سایۂ دیوار ہونا چاہیے تھا
یہ جو تو بانٹتا پھرتا ہے لوگوں میں محبت
مرے دل تجھ کو ساہوکار ہونا چاہیے تھا
یہ کیا ہر شخص پھرتا ہے ہتھیلی پر لیے جاں
محبت کو سوا دشوار ہونا چاہیے تھا
میں ہی تھی موضوعِ تمثیل اس قصۂ دل میں
سو میرا لازمی کردار ہونا چاہیے تھا
سحرؔ تیرے لہو میں ہے شرافت تو یقیناً
تجھے بھی صاحبِ کردار ہونا چاہیے تھا
ایک صورت جو من میں در آئی
پھر کہاں چین اور شکیبائی
ریت پر میں نے ہاتھ پھیرا تھا
تیری تصویر کیوں ابھر آئی
تم ہی اندر ہو تم ہی ہو باہر
تم تماشا ہو یا تماشائی
اپنے بچوں میں دیکھتی ہوں میں
اپنا بچپن میں اپنی برنائی
شور بڑھنے لگا ہے یادوں کا
محوِ گریاں ہوئی جو تنہائی
تجھ کو دیکھیں تو گنگنا اٹھیں
میری آنکھوں کو دے وہ گویائی
میری آنکھوں سے دیکھتے ہو تم
تم نے لے لی سحرؔ سے بینائی
سکوں پل بھر تو ہوتا
کوئی دلبر تو ہوتا
نہیں تھا آدمی گر
تو پھر پتھر تو ہوتا
مرا دم گھٹ رہا ہے
یہاں اک در تو ہوتا
کہاں مانگی تھی جنت
مرا گھر، گھر تو ہوتا
ہواؤں کے سفر میں
میسر پر تو ہوتا
اڑاتے اپنے پرزے
وہ صورت گر تو ہوتا
یہ آنکھیں دان کرتے
کوئی منظر تو ہوتا
مرے خوابوں کا جگنو
کبھی اختر تو ہوتا
اگر دشمن نہیں تھا
وہ چارہ گر تو ہوتا
اس کو بلائیں یا پھر اس کے در جائیں
شاید ایسے زخم ہمارے بھر جائیں
تڑپ رہا ہے تاریکی کی بانہوں میں
چاند کو لے کر کیوں نہ اپنے گھر جائیں
ہجر کی آگ میں جلنے والے اور ہی ہیں
ہم تو وہ ہیں جو کہ اور نکھر جائیں
سوچ رہی ہوں میں یہ ڈوبتی سانسوں میں
زندہ لوگ بھی ساتھ مرے نہ مر جائیں
آخر کب تک طوفانوں سے سر پھوڑیں
اب تو دل چاہتا ہے پار اتر جائیں
نہ جانے اس مٹی میں تاثیر ہے کیا
جتنے نقش مٹاؤں اور ابھر جائیں
جب خلوت کے ساز پہ دھڑکن رقص کرے
ہم کو دیکھ کے سورج چاند ٹھہر جائیں
کس رہ سے گزرنا ہے معلوم کسے ہے یہ
جینا ہے کہ مرنا ہے معلوم کسے ہے یہ
اب دیکھ رہی ہوں میں حسرت سے تجھے ہمدم
تو سچ ہے کہ سپنا ہے معلوم کسے ہے یہ
ہم نے تو جلایا ہے اک دیپ اندھیرے میں
بُجھنا ہے کہ جلنا ہے معلوم کسے ہے یہ
دریا کی محبت میں یہ بات بھلا بیٹھے
کہ پار اُترنا ہے معلوم کسے ہے یہ
طوفان کی آنکھوں سے آنکھیں تو مِلا لیں ہیں
پر کیسے نبٹنا ہے معلوم کسے ہے یہ
اک درد محبت ہے اک دردِ زمانہ ہے
کس آگ میں جلنا ہے معلوم کسے ہے یہ
راہ وارِ محبت ہم گھر سے تو نکل آئے
کس نہج پہ چلنا ہے معلوم کسے ہے یہ
سراپا آرزو ہوں
ابھی تک بے نمو ہوں
ہمارے درمیاں نہ آ
میں خود سے دوبدو ہوں
سخن کا ارتفاع ہوں
غزل کی آبرو ہوں
تمنا تھی کسی کی
کسی کی جستجو ہوں
نہیں دنیا سے نسبت
میں ایک بیزار خو ہوں
نشانِ بے بسی ہوں
جفا کی آبرو ہوں
مرا ساحل کہاں ہے
میانِ آب جُو ہوں
گماں خود پر ہے تیرا
مجھے لگتا ہے تُو ہوں
تُو میری خامشی ہے
میں تیری گفتگو ہوں
دئیے تو نے وہ گھاؤ
ابھی تک میں لہو ہوں
لُٹا کے تم پہ ہستی
سحرؔ میں سرخرو ہوں
خود پہ تہمت نہ لگا پہلے سے
میں ہوں ویران سرا پہلے سے
خود سے ملنے کی سعی کرنے دے
یوں نہ دیوار اٹھا پہلے سے
تیری آمد کا یہ ہنگامہ نہیں
مجھ میں ہے شور بپا پہلے سے
حوصلے جمع مجھے کرنے دے
سامنے میرے نہ آ پہلے سے
اس سے کیا صورتِ یکجائی ہو
وہ تو اپنا بھی نہ تھا پہلے سے
خائفِ ردِ دعا مت ہونا
میری شامل ہے نوا پہلے سے
یہ ستائش تجھے زیبا ہی نہیں
میں ہوں پابندِ وفا پہلے سے
کیوں ڈراتا ہے جہنم سے مجھے
مجھ میں ہے خوفِ خدا پہلے سے
اے مسیحا تری تقصیر نہیں
دل تھا بیمار مرا پہلے سے
تیری صورت کا یہ محتاج نہیں
دل ہے آئینہ مرا پہلے سے
دوش کیوں کر دوں خزاؤں کو سحرؔ
رنگ تھا میرا اُڑا پہلے سے
بگڑے ہوئے نصیب بنانے میں لگ گئے
برسوں تجھے قریب بلانے میں لگ گئے
اپنا یہ زرد رنگ تو دیکھا نہیں گیا
اور ہم کو آئینہ وہ دکھانے میں لگ گئے
آیا کہاں سے تھا کوئی پتھر کسے خبر
بس لوگ کرچیوں کو اٹھانے میں لگ گئے
چاہا تھا ہم نے ان سے بس اتنا سا اک عہد
ساتوں جنم انھیں تو نبھانے میں لگ گئے
تھا کس کے پاس وقت کے کانٹوں کو دیکھتا
سب لوگ زادِ راہ کو اٹھانے میں لگ گئے
پھر کون لے خبر بھلا اس غم نصیب کی
تم بھی جو یوں ہی اشک بہانے میں لگ گئے
پوچھا کسی نے حال تو میرا کہاں سحرؔ
سب اپنا اپنا حال سنانے میں لگ گئے
لو طے مرحلہ ہجر کا ہو گیا
کہ وہ بندِ غم سے رہا ہو گیا
اُسی نے تو پائی حیاتِ دوام
تری راہ میں جو فنا ہو گیا
لو پھر کھِل گیا دشتِ ظلمت میں پھول
نشانۂ قضا کا خطا ہو گیا
یہ بے ربط سانسیں سنبھل نہ سکیں
ترا ہاتھ دل سے جدا ہو گیا
نہیں گزری مجھ پر ہی شامِ الم
سحرؔ وہ بھی تو کیا سے کیا ہو گیا
آج صبا کے گھر میں جو مہمان ہوئے
پتے، بوٹے، گل، شاخیں، حیران ہوئے
ہم نے خود ہی وحشت بھر لی دامن میں
ایسے تیرے ہجر کا ہم سامان ہوئے
ساری خوشیاں اس کے حصے میں آئیں
اس جھگڑے میں ہم کو سوا نقصان ہوئے
چلنے والے تھوڑی دور تو چلتے ہیں
تم تو ہجر کا پہلے سے عنوان ہوئے
یہ بھی تماشا دیکھا جلتی آنکھوں نے
خود ہی آگ لگائی خود ویران ہوئے
دور دیش کو جانے والی پنچھی سن
تیرے بعد یہ گھر تو قبرستان ہوئے
ہم نے جو اک حرفِ محبت پڑھ ڈالا
اس کے بعد تو سب ہی سبق آسان ہوئے
ہم تو نہیں یہ سحرؔ ہے شاید اور کوئی
دیکھ کے درپن میں خود کو حیران ہوئے
یاد جو آیا بچھڑنے کا مآل
دل مرا کہنے لگا خود کو سنبھال
جاوداں تھا جو حرارت سے مری
کر دیا اُس نے مری روح کو نڈھال
تھام بھی لو ریشمی الفاظ سے
ڈوب جائے نہ کہیں نبضِ خیال
ذوق ہمراہی ترا مجھ کو قبول
خار لیکن پہلے پیروں سے نکال
جل اٹھا دل گرمئی جذبات سے
ہے تصور میں کوئی آتش خصال
میں نے بخشا تیری ہستی کو ثبات
اب ذرا دل سے مجھے اپنے نکال
رزقِ پت جھڑ ہو گیا وہ نامراد
ماں سحرؔ کہتی تھی جس کو میرے لال
سب کچھ ہے ترے حلقۂ ادراک میں پنہاں
درکار ہے تجھ کو وہ ہے افلاک میں پنہاں
چہرے پہ مرے رنگ فقط غم کا نہیں ہے
اک درد سوا اور بھی ہے خاک میں پنہاں
جب توڑ کے زنجیر ہوا صید روانہ
اک حشر سا برپا ہوا فتراک میں پنہاں
وہ جس کو بہاروں میں گنوا ڈالا ہے تم نے
شاید وہ کہیں ہو خس و خاشاک میں پنہاں
جب تو ہی نہیں ہے تو سمیٹے گا اُسے کون
مدت سے پریشاں ہے جو اس چاک میں پنہاں
یہ ٹوٹے ہوئے خوابوں کے پیوند ہیں لوگوں
ہیریں تو نہیں ہیں مری پوشاک میں پنہاں
میں نے جو تراشا تھا، صنم اور کوئی تھا
ہے کون یہ اب شیشۂ سفاک میں پنہاں
سکھ ہمیں ایسا کہاں عید منانے سے ہوا
دل پہ جو لطف و کرم آپ کے آنے سے ہوا
جب مرے دل میں نہیں تیرے لیے کوئی جگہ
فائدہ خاک، ترا ساتھ نبھانے سے ہوا
اس میں پنہاں ہیں و ہ سب داغ جو دنیا نے دئیے
آئینہ صاف کہاں عکس مٹانے سے ہوا
پھر ہوئی شام کھلے درد کی جھیلوں میں کنول
پھر وہی حال ترے، بام پہ آنے سے ہوا
سب ہی چپ چاپ سے بیٹھے تھے تری محفل میں
شور برپا مرے آواز اُٹھانے سے ہوا
لوگ رہتے تھے یہاں پیار و محبت سے سحرؔ
گھر میں جھگڑا تو یہ دیوار اٹھانے سے ہوا
سمیٹی جا سکی نہ راکھ میری
گواہ ہے نسبتِ خاشاک میری
نہیں بدلا مری وحشت کا موسم
وہی صورت وہی پوشاک میری
وہی ہے درد کی ٹیسیں بدن میں
وہی ہے دیدۂ نمناک میری
بکھر جاؤں جو میں خوشبو کی صورت
کہاں لے جا سکے گا خاک میری
زمانے میں تری چالوں کو سمجھوں
کہاں ہے فطرتِ چالاک میری
وہ کیا کھولے گا میرے سامنے لب
ہے جس پر ہیبتِ ادراک میری
زمیں کو اوڑھ کر جب سو گئی میں
تو آئی چادرِ افلاک میری
بچا لے مجھ سے اپنے دیدۂ و دل
کہ فطرت ہے بہت سفاک میری
بہاروں سے مجھے سندیس آیا
کہ بدلی جائے گی پوشاک میری
مجسم کب تلک ہونے نہ دے گی
سحرؔ وابستگی چاک میری
اے خواہشِ یک طرفۂ تاراجِ جنوں سُن
سُن دل کے قریں زمزمۂ کُن فیکوں سُن
سننے کی جو ہے تاب تو پھر کھول دریچے
اے گوشِ محبت مرا احوالِ زبوں سُن
کیوں اس میں جلاتا نہیں تو یاد کی شمعیں
کب تک تو رہے گا یوں تہی کُنج دروں سُن
اک بار وہ آیا تھا مری عشرتِ شب میں
طاری ہے مرے دل پہ وہی شامِ فسوں سُن
خمیازۂ بیداریِ شب جھیل رہی ہوں
روٹھا ہے سحرؔ مجھ سے مرا خوابِ دروں سُن
کتنا بدل گئی ہوں
میں اب سنبھل گئی ہوں
کیسا ہے شور مجھ میں
میں کیوں مچل گئی ہوں
کانٹا نہیں تھی لیکن
دل سے نکل گئی ہوں
مانا فریب کھائے
پر اب سنبھل گئی ہوں
تم بھی بچھڑ کے خوش ہو
میں بھی بہل گئی ہوں
خواب ہے خواب کی تعبیر نہیں ہو سکتی
اب کوئی شے بھی تو زنجیر نہیں ہو سکتی
یہ مرے کرب کی تفسیر نہیں ہو سکتی
شاعری باعثِ توقیر نہیں ہو سکتی
سلوٹیں کرب کی چہرے پہ ابھر آئیں ہیں
اب وہ پہلے سی تو تصویر نہیں ہو سکتی
میں کسی اور سے ملنے کی روادار نہیں
تیرے ملنے کی جو تدبیر نہیں ہو سکتی
ریگ ساحل پہ مرا نقش بنانے والے
اس خرابے میں یہ تعمیر نہیں ہو سکتی
جان دے کر بھی ہے دیکھا تری پلکوں کے تلے
آنکھ تری، میری جاگیر نہیں ہو سکتی
ہیں کسی اور کی ریکھائیں میرے ہاتھوں پر
مری سنوری ہوئی تقدیر نہیں ہو سکتی
نظمیں
کنارِ ماہ
چاندنی کے پھولوں پر
خوشبوؤں کی بارش ہے
پانیوں کے دھاروں پر
محوِ رقص ہیں پریاں
دودھیا اُجالوں میں
حسن محوِ حیرت ہے
آج چاندنی شب ہے
کوہ و سبزہ زاروں پر
بے خودی سی طاری ہے
تیری قربتوں کے رنگ
زر نگاہ شب میں ہیں
جلوہ گاہِ عشرت میں
پھول تیری الفت کے
رنگ تیری باتوں کے
آج پھر فراواں ہیں
شب کے ریشمی
دھیرے دھیرے سر کے ہیں
خامشی یہ کہتی ہے
جو بھی تیرے دل میں ہے
آج بول دے جاناں
آج چاندنی شب ہے
آج چاندنی شب ہے
استفسار
ساحل کی گیلی ریت
ٹھنڈی ہوا کا شور
ہاتھ میں تیرا ہاتھ
لب پر یہی ہے بات
کب تک چلو گے ساتھ
موسمِ دل
غرفۂ حبس میں ایک روزن کھلا
روشنی کی کھنک گوشِ بینائی سے
ایسے گزری کہ بس ایک ساعت میں
اک دریچہ کھلا، ایک آہٹ ہوئی
شوقِ آزادیِ لب فزوں تر ہوا
لفظِ پیکر بنیں، بات کرنے لگے
فکر رقصاں ہوئی
حلقِ تنہائی میں چیخ بند ہو گئی
مدتوں سے تھا بند میرا کنج دروں
آنکھ روشن ہوئی
حرف تارے بنے رنج راحت ہوا خواب خوشبو بنیں
جادۂ ہست کو اذنِ منزل ملا
ابرِ مایوس امید کی چھاؤں کو اوڑھ کر
بن کے رحمت سرِ جاں برسنے لگا
لفظ گنگناتے ہیں
حال اس کا جو نامہ بر لکھنا
اس کی خوشبو نگر نگر لکھنا
یہ بھی لکھنا کہ اس کی آنکھوں میں
اب کہ تصویر ایک چسپاں ہے
اس کی بے چین الجھی سانسوں میں
ایک وعدے کی ہے دھمک باقی
اس کے ہونٹوں کی آبشاروں میں
ان کہے لفظ گنگناتے ہیں
ان کہے خواب جگمگاتے ہیں
ایسا لگتا ہے دور مندر میں
ایک دیوی کسی کے چرنوں میں
اپنے جیون کا دان دیتی ہے
جلترنگ چیخ میں بدلتی ہے
اس کی چیخوں میں من کے موتی تھے
سانس نکلی تو آس نکلی تھی
اس سے کہنا یہ نامہ بر جا کر
اب کسی دشت میں نہ گلشن میں
دیپ کوئی نہیں جلائے گا
نہ کوئی آرتی اتارے گا
کوئی دیوی نہ اپنی جاں دے گی
نہ کوئی دیوتا کی صورت میں
آسماں سے زمیں پہ اُترے گا
اس کو کہنا کہ عشقِ صادق میں
حرفِ اوّل ہی آخری ہو گا
اُدھڑن
جب میں چھوٹی سی تھی مجھ سے
میری ماں یہ کہتی تھی کہ
چال کو اپنی سیدھا رکھا
اپنے پیر اٹھا کر رکھو
ادھڑن تیرے پائنچوں کی
تنگ کرتی ہے
بار بار کے ان بخیوں سے
تنگ آئی میں
کتنے پیوند اور لگیں گے
گھسٹ گھسٹ کے کیوں چلتی ہو
آنے سے پہلے ہی تمھاری
آمد شور مچا دیتی ہے
چپلوں کی آواز بتا دیتی ہے
کہ دروازے پہ تم ہو
اب جب اس کو بچھڑے مجھ سے
برسوں بیتے
صدیاں بیتیں
کپڑوں کی ادھڑن تو میری
ماں سیتی تھی
اب جو میری روح کے بخیے
ادھڑ رہے ہیں
پیوند مجھ سے لگتے نہیں ہیں
بخیے لگانا بھول گئی ہوں
ماں تجھ سے یہ کیسے بولوں
میرے ان زخموں کی ادھڑن
کون سیئے گا
٭٭٭
آراء
پروفیسرڈاکٹر اخترؔ ہاشمی
شائستہ سحرؔ گو کہ پاکستان کے کسی بڑے اور جدید سہولیات سے آراستہ شہر سے تعلق نہیں رکھتیں مگر اُن کی شاعری میں جدید اسالیب کو واضح طور پر ملاحظہ کیا جا سکتا ہے، یا تو یہ اُن کی پرورش و تربیت کا حصہ ہے، یا اُن کی تعلیمی قابلیت نے اُن کو بات کرنے کا سلیقہ، الفاظ کو عمدگی سے ترتیب دینے اور سجا کر پیش کرنے کا طریقہ سکھایا ہے۔
اُن کی غزلوں میں روانی، سلاست، فصاحت، بلاغت اور تاثیریت قارئینِ شعر و سخن کو بغیر ڈھونڈے مل جاتی ہے۔ وہ ایک نو آموز تازہ کار شاعرہ ہیں۔ ابتدا میں اُن کا کلام اِس قدر پُر تاثیر، دل میں اُترنے والا، موسیقیت اور غنائیت سے بھرپور ہے تو مستقبل قریب میں وہ اپنی ہم عصر شاعرات کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتی ہیں۔ میری دعائیں اُن کے ساتھ ہیں۔
شاعر علی شاعرؔ
ہر عبقری سخن ور کی یہ پہچان ہوتی ہے کہ وہ اپنے تلخ و شیریں تجربات، عمیق مشاہدات، نازک احساسات، شدید جذبات اور محسوسات کو اپنی شاعری میں منظوم کرتا ہے جو اُس کے عہد کی تاریخ بھی ہوتی ہے اور اُس کے معاشرتی حالات کی دستاویز بھی۔ شائستہ سحرؔ کے کلام میں مذکورہ بالا تمام لوازمات شد و مد کے ساتھ بدرجہ اتم موجود ہیں۔ شائستہ سحرؔ نے اپنے آپ ہی کو لکھا ہے تو شاعری کا روپ سامنے آیا ہے۔ اُن کے اندازِ تکلم، طرزِ تخاطب، ذہنی استعداد، ندرتِ خیال، تخیل کی پرواز، فکر کی گہرائی، سوچ کی گیرائی، الفاظ و محاورات کو منتخب کرنے، سجا کر پیش کرنے کا عمل، مشقِ سخن سے اُن کے دل کش اسلوبِ اظہار، ذہانت و فطانت اور تعلیمی قابلیت کا ثبوت ملتا ہے۔
شائستہ سحرؔ کا زیرِ نظر شعری مجموعہ ’’کربِ آرزو‘‘ دنیائے اُردو ادب میں اُن کی پہچان بنے گا تشنگان و حریصانِ شعر و ادب کی پیاس بجھانے میں ممد و معاون اور اُن کی شہرت کا سنگِ میل ثابت ہو گا۔
جاوید رسول جوہرؔ
’’متاعِ فکر‘‘ کی شاعرہ شائستہ سحرؔ کی شاعری جو میری نگاہ سے گزری اُن کے مطالعے سے اُن کی فکر، موضوعات اور فنی گرفت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ آپ کی شاعری روایت اور جدت کے ساتھ ساتھ سفر کرتی دکھائی دیتی ہے۔ آپ مجموعی طور پر غزل کی شاعرہ ہیں۔
انسانی زندگی خوشی اور غمی سے عبارت ہے۔ شاعری داخلی اور خارجی عوامل سے تخلیق پانے والے اِن سچے جذبوں کی صدائے بازگشت کا نام ہے جو کلامِ موزوں کی صورت میں نمو پاتی ہے۔ انسانی احساسات جب کرب ناک لمحوں کی زد پر آتے ہیں تو روح کے تار جھنجھنا اُٹھتے ہیں۔ خیال و فکر میں ایک ارتعاش پیدا ہو جاتا ہے اور وہیں ایک تخیل کی دنیا آباد ہو جاتی ہے۔ خارج میں پھیلا ہوا اضطراب، باطن کی دنیا سے ہم آہنگ ہو کر شعر کے پیکر میں ڈھل جاتا ہے اور یہی وہ عوامل ہیں جو شائستہ سحرؔ کو شعر کہنے پر متحرک رکھتے ہیں۔
شائستہ سحرؔ جدید عہد میں سانس لے رہی ہیں۔ آپ نے اپنی شاعری میں جدید دور کے تمام تقاضوں کو بھرپور انداز میں پیش کیا ہے مگر سب سے اہم بات یہ ہے کہ کہیں بھی کلاسیکی روایت سے آپ کا رشتہ نہیں ٹوٹا۔ شائستہ سحرؔ کے ہاں وارداتِ قلبی اُن کے اپنے تجربات سے مملو ہے۔ آپ کی شاعری اپنے ماحول، اپنی ذات کے تجربات و مشاہدات اور مطالعے سے جنم لیتی دکھائی دیتی ہے۔ آپ نے جو دیکھا، محسوس کیا، اُسے من و عن صفحۂ قرطاس پر منتقل کر دیا اور یہی وہ جذبوں کی سچائی ہے جو آپ کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہیں۔ آپ کی شاعری میں سادگی، سچائی اور بلند خیالی جا بہ جا دکھائی دیتی ہے۔ خیال آفرینی کے ساتھ ساتھ زبان و بیان پر گرفت نے آپ کی شاعری کو بامِ عروج پر پہنچا دیا۔ مختصر یہ کہ موضوع کی مناسبت سے آپ نے جو اسلوبِ بیان اور لہجۂ گفتار اختیار کیا ہے، اُس سے آپ کی تخلیقات میں ایک خاص نوع کا جمالیاتی آہنگ اُبھرتا ہے جو آپ کے روشن مستقبل کی واضح دلیل ہے۔
٭٭٭
تشکر: ناصر ملک جنہوں نے فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید