فہرست مضامین
کتنا بڑا جھوٹ
اور دوسری کہانیاں
ڈاکٹر شیر شاہ سید
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
کتنا بڑا جھوٹ
بس جی میں نے سر گلے سے کاٹ کر پہلے تو پرانے اخبار میں اچھے طریقے سے لپیٹا پھر ایک پلاسٹک کی تھیلی میں ڈال کر اوپر سے باندھ دیا، جسم کے ٹکرے کرنا کوئی ایسا مشکل کا م نہیں ہے، جلدی جلدی ٹکڑے کئے پھر ٹرنک میں پہلے دھڑ رکھا اس پر دونوں ہاتھ،دونوں بازو، دونوں ٹانگ اور دونوں ران سجا دیئے، جینی تالے کی چابیاں ٹرنک میں ڈال کر ٹرنک میں تالا لگا کر دبا دیا، سوزوکیکی کیری میں سوٹ رکھ کر بندے کا سر میں نے پچھلی سیٹ پر رکھ لیا، ٹرنک کو لیاری ندی میں گرانا اتنا مشکل نہیں تھا، رات کے وقت کتوں کے علاوہ کوئی نہیں بھونکتا ہے، پولیس ہو بھی تو پیا گیری کے لئے ہوتی ہے، جس کا انتظام کھلے نوٹوں کی شکل میں اوپر والی جیب میں ہوتا ہے، ویسے بھی صبح ہونے والی تھی، اور اس وقت سب کو سخت گہری نیند آتی ہے، اس طرح کے کاموں کے لئے یہی صحیح وقت ہے۔
صبح اٹھ کر میں نے پہلا کام یہ کیا کہ جاوید کے گھر جا کر جاوید کا سر اس کے باپ کو دیا کہ اسے ڈیپ فریزر میں رکھ لیں، بکرے کے سری ہے، دو چار دنوں میں لے جاؤں گا کسی کو دینی ہے، اس کے دوسرے دن میری گرفتاری ہو گئی، ہوا یہ کہ ابراہیم پکڑا گیا، ویسے تو ابراہیم بڑا تگڑا ہے مگر نہ جانے کیا کیا اسپیشل پولیس والوں نے سالے نے سب ہگ دیا، پہلے انہوں نے نسیم کو اٹھایا، پھر پپو کو پکڑ لیا، میں سوچ ہی رہا تھا کہ یہ تینوں کدھر غائب ہیں کہیں سے کوئی خبر نہیں آئی نہ پولیس والوں کی طرف سے خبر ملی جیسے کئ پہلے مل جاتی تھی، تو میں روپوش ہی ہو جاتا سندھ کے کچے کے علاقوں میں اور بلوچستان کے پہاڑی سلسلوں میں ہمارے دوستوں کے ٹھکانے ہیں، جہاں گم ہونے کے بعد کوئی نہیں ملتا ہے، پہلے بھی کئی دفعہ میں ان علاقوں میں جا چکا ہوں اور ہفتوں رہ چکا ہوں جب حالات سنبھل گئے تو واپس آ گیا، اور دوبارہ وہی کام، کام کی کوئی کمی نہیں ہے، آرڈر تو ملتے ہی رہتے ہیں۔
یہ سب سن کر میری سانس پھول گئی، اور مجھے لگا جیسے میں ہزاروں میل بھاگ کر آیا ہوں اور بڑی طرح تھک گیا ہوں۔ مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ سب کچھ سچ کہہ رہا ہے مگر اس کا پر اعتماد چہرا اس بات کی گواہی دے رہا تھا۔ کہ اس باتوں میں کوئی جھوٹ نہیں ہے اس کی چمکتی دمکتی آنکھیں اس کے چہرے پر پھیلا ہوا اعتماد اس کے سچے ہونے کا یقین دلا رہی تھیں، میں سزائے موت کے خلاف ہوں، میرا خیال موت کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا، سزائے موت ریاستی گردی کا ایک حصہ ہے، سزائے موت ریاست کی ناکامی ہے، اور اس پر پردہ ڈالنے کی ایک کوشش ہے، بہت سے لوگوں کے مختلف خیالات ہیں اس بارے میں خون کا بدلہ خانم آنکھ کا بدلہ آنکھ اور دانت کا بدلہ دانت کے اصولوں کے مطابق تو ان کی بات دوست ہے، مگر یہ بات درست نہیں ہے، کہ اس قسم کی سزاوں سے جرائم کم ہو جاتے ہیں یا لوگ جرم کرنا بند کر دیتے ہیں۔ چوری، ڈاکا، قتل اور اس قسم کے جرم ان سزاوں سے ختم ہو جاتے تو آج کا چین جرائم سے پاک ہوتا، وہاں نجانے کتنے لوگوں کو ہر سال پھانسی دی جاتی ہے، اور سخت سزائیں بھی دی جاتی ہیں، اس کے مقابلے میں سویڈن جیسے ملکوں میں سو سال سے زیادہ کا عرصہ گذر چکا ہے، کہ پھانسی کی سزا نہیں دی گئی ہے، قیدیوں پہ تشدد کا خاتمہ کر دیا گیا ہے، اور ساتھ ساتھ یہ دیکھنے کو مل رہا ہے کہ جرائم کم ہوتے جا رہے ہیں، لوگوں کی یہ باتیں سمجھ میں نہیں آتی ہیں، کاش میں انہیں سمجھتا گیا۔
اس کا نام پرویز تھا، اور اسے میرے پاس نفسیاتی معائنے کے لئے بھیجا گیا تھا، اس بات کا فیصلہ کرنے کے لئے اس کے دماغ میں کوئی خرابی تو نہیں ہے، اور وہ نفسیاتی بیماری کا شکار تو نہیں ہے، وہ پاگل تو نہیں ہے، اور جو جرائم اس نے کئے ہیں، وہ پاگل پن کا نتیجہ تو نہیں ہیں، اگر وہ پاگل ہے تو اسے علاج کی ضرورت ہے نہ کہ سزا کی۔ مگر یہ ہوا کہ پرویز کے آنے سے پہلے ہی لوگوں کے فوج آنے لگے کہ ایک قیدی میرے پاس بھیجا جا رہا تھا، جو بے پیچھے پڑھ گئے ہیں، اس کو مدد کی ضرورت ہے اس کے ساتھ نا انصافی نہ ہو وغیرہ وغیرہ، جس دن سرکار کی جانب سے مجھے خط ملا اس دن دو واقعات تقریباً ساتھ ساتھ ہی ہوئے، صبح ہسپتال پہنچے ہی مجھے سپر نٹینڈنٹ نے بلا کر سمجھا یا کہ ایک قیدی پرویز میرے پاس بھیجا جائے گا، اس کے بارے میں مناسب رپورٹ لکھ دیجئے گا، اوپر سے بہت دباؤ ہے، پولیس والے اس کے ساتھ زیادتی کر نے پر تلے بیٹھے ہیں۔ میں نے انہیں یقین دہانی کرائی کہ ایسا ہی ہو گا، میں اسے تسلی سے دیکھوں گا، وقت دوں گا جو بھی سچی بات ہے اس کے مطابق سچائی پر مبنی صحیح رپورٹ لکھوں گا، کسی کو فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
یہی تو مسئلہ ہے، انہوں نے مجھے غور سے دیکھتے ہوئے کہا، صحیح رپورٹ ہی تو نہیں لکھنی ہے، وہ پاگل نہیں ہے اسے کسی کی نفسیا تی بیماری نہیں ہے، یہ اسے بھی پتہ ہے، اور ان کو بھی پتہ ہے جو سفارشیں کر رہے ہیں،اگر عدالت کو یہ احساس ہو گیا کہ ملزم پاگل نہیں ہے تو شاید اسے موت کی سزا ہو جائے گی، مگر میں غلط رپورٹ کیسے لکھ سکتا ہوں، یہ تو بنیادی اصولوں کے خلاف ہے میں نے انہیں غور سے دیکھتے ہوئے کہا تھا، آپ کو پتہ پے کہ میں ایسے کام نہیں کرتا ہوں، اور کسی بھی ڈاکٹر کو ایسا نہیں کرنا چاہیے، تو اسے موت کی سزا ہو جائے گی، انہوں نے بڑے سرد لہجے میں جواب دیا، اور مجھے پتہ ہے کہ تم موت کی سزا کے خلاف ہو، ہونا؟ اور اگر خلاف ہو تو تم کو وہی کرانا چاہئے جس سے اسے موت کی سزا نہ ہو، میں کوئی بھی وعدہ نہیں کر سکتا ہوں خاص طور پر مریض کو دیکھے بغیر میں کوئی بھی ایسا کام نہیں کروں گا، جو ایمانداری کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے، میں وہی کروں گا، جو ہم ڈاکٹروں کے عہد نامے کے مطابق ہو گا، اور ایمانداری کے بنیادی اصولوں سے انحراف نہیں کرے گا، میں نے صاف صاف کہہ دیا تھا۔
اپنی ترقی میں تم خود ہی حائل ہو ہمیشہ اپنے خلاف کام کرتے ہو، کچھ مسئلہ ہے، تمہارے ساتھ یہ کہہ کر وہ خاموش ہو گئے تھے، تھوڑی دیر کے بعد مجھے میڈیکل کالج کا پرنسپل کا بھی فون آ گیا، تم کبھی بھی ترقی نہیں کر سکو گے، زندگی بھر ایسوسی ایٹ پروفیسر کے پھٹے ہوئے جاتے میں لنگڑا لنگڑا کر چلتے رہو گے اور کوئی تمہارا جونیئر تم سے کہیں کم قابل تمہارا باس بن کر آ جائے گا، انہوں نے مجھے سمجھاتے کہا، مگر یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک صحت مند آدمی کو پاگل قرار دے دوں محض اس لیے کہ آپ میڈیکل سپر ڈینڈنٹ اور دوسرے لوگ کی یہ خواہش ہے، رہی بات یہ کہ میری ترقی رک جائے گی میں پروفیسر نہیں بن سکوں گا،باس نہیں بنوں گا، ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ نہیں بن سکوں گا۔ یہ باتیں بے کار کی ہیں کیونکہ ترقی سے زیادہ میرے لیے یہ اہم ہے کہ میری پیشہ وارانہ دیانت داری کا تقاضہ کیا ہے، میں ڈاکٹر ہوں ڈاکو نہیں میرے ماں باپ نے مجھے انسانیت کی تعلیم دی ہے، انہوں نے مجھ سے محبت کی ہے اور لوگوں سے محبت کرنا لکھایا ہے باقی چیزیں میرے لیے کوئی خاص اہم نہیں تھی۔
تم نہیں سمجھوگے انہوں نے تھوڑے غصے سے کہا تھا اگر تمہیں اپنے اصول، دیانت اور ایتھی کل کندکٹ کا اتنا خیال تھا تو پاکستان کیوں واپس آئے ہو، انگلینڈ میں رہتے، اس ملک میں رہنے کے اصول مختلف ہیں، اور سرکاری ملازمت اس لیے نہیں کی جاتی ہے کہ دیانت داری کے مردہ گھوڑے پر سواری کی جائے، اور یہ سمجھا جائے کہ یہ مردہ گھوڑا تمہیں منزل مقصود پہ پہنچا دے گا، نوکری، ترقی تو بعد کی باتیں ہیں، اس ملک میں جانیں بھی چلی جاتی ہیں، لوگ غائب ہو جاتے ہیں، ان کے گھر والوں کو ادھر ادھر کر دیا جاتا ہے، کچھ بھی لکھنے سے پہلے رپورٹ دینے سے پہلے یہ سب کچھ سمجھ لینا فون ہپ اس سے زیادہ نہیں سمجھا سکتا ہوں یہ کہہ کر انہوں نے فون بند کر دیا۔ سہ پہر کو جب میں ہسپتال سے نکل ہی رہا تھا، کہ تین میڈیکل اسٹوڈنٹ ملنے آ گئے تھے، مجھے اس وقت انہیں دیکھ کر حیرت بھی ہوئی کیونکہ عام طور پر میڈیکل کے طالب علم آج کل ایک دو بجے گھر چلے جاتے ہیں، چار بجے تک کون رکھتا ہے، یہ نہ پڑھنے والے اور نہ ہی پڑھانے والے، وہ زمانہ چلا گیا جب میڈیکل کالجوں میں پروفیسر شام تک مل جاتے تھے، اور طلبا راتوں کو بھی مریض دیکھ دیکھ کر اپنے علم میں اضافہ کرتے تھے۔ میری سمجھ میں نہیں آیا تھا، کہ وہ اس وقت کیوں آتے ہیں اسنہوں نے بڑے مہذب طریقے سے بات کی میری توقع کے بر خلاف انہوں نے بھی آنے والے قیدی کا ذکر چھڑ دیا تھا، ان لوگوں سے زیادہ بات کرنا میں مناسب نہیں سمجھا تھا۔ تسلی سے ان کی باتیں سنی تھیں اور کچھ کہے بغیر انہیں رخصت کرنے کی کوشش کی مگر حیرت مجھے اس وقت ہوئی جب جاتے جاتے انہوں نے بھی وہی دھمکی دی جو پرنسپل صاحب نے مجھ سے کہا تھا۔
پہلی دفعہ مجھے احساس ہوا کہ ہمارے ملک میں برے لوگوں کا نیٹ ورک کتنا مضبوط ہے اور اچھے لوگوں کا سپورٹ سسٹم کتنا محدود ہے، پاکستان آنے کے بعد پہلی دفعہ میں نے سوچا کہ کیا میرا واپس آنے کا فیصلہ صحیح تھا۔ کیا یہ ملک اس قابل ہے کہ یہاں رہا جائے، پڑھے لکھے خود غرض جعلی بے ایمان دوغلے لوگوں کے ساتھ کام کیا جائے، میں شسوچتا رہا اور سلگتا رہا دوسرے دن پرویز پولیس والوں کے ساتھ میرے وارڈ میں آ گیا، کاغذی کاروائی کے بعد میری اس سے ملاقات ہوئی تھوڑی سی بات کرنے سے ہی مجھے اندازہ ہو گیا کہ وہ پاگل نہیں ہے،مجھے افسوس اس بات کا ہے کہ اس نے پاگل ہونے کی ادا کاری بھی نہیں کی۔ اس نے بہت صاف صاف الفاظ میں کہا تھا، ڈاکٹر مجھے پتہ ہے تم کو سب کچھ بتایا گیا تھا کہ تمہیں کیا کرنا ہے تو پھر فالتو میں بے کار کی باتیں نہیں کروں گا۔ ٹائم ضائع کرنے کا کوئی فائدہ نہیں آپ دیکھ لو آپ نے کیسے کیا لکھنا ہے۔ میں نے سوچا کہ اس سے بات چیت تو بہر حال کروں گا۔ پتہ تو کروں گا کہ وہ کرتا کیا ہے اس پر الزامات کیا ہیں اور وہ خود کتنا شامل ہے، پورے کھیل میں۔
وہ پانچ تھے پرویز جاوید قصاب، ابراہیم، نسیم اور پپو، اپنے کام میں ماہر غضب کا نشانہ تھا۔ ابراہیم،نسیم کا۔ ہوا میں پھینکے ہوئے سکے پر نشانہ مارتے تھے، کمال تھا۔ آواز پر گولی چلا کر بندا ٹھنڈا کر دیئے تھے، حالات نے ہمیں ملا دیا تھا پھر ہم نے مل کر بہت سارے کام کئے کام کی کوئی کمی نہیں تھی، کسی کو گولی مارنی ہے اغوا کرنا ہے، گلا کاٹ کر لاش پھینکنی ہے، لاش کے ٹکڑے کرنا سب کچھ کرتے تھے، ہم لوگ شروع میں تو پیسے کے لئے کیا ہم لوگوں نے پھر مزا آنے لگا۔ بکرے اور بندے کاٹنے میں زیادہ فرق نہیں ہے، بس بکرے کا یہ جلدی ٹھنڈا ہو جاتا ہے بندا دیر تک تڑپتا ہے، اور تڑپنے سے پہلے نہ جانے کیا کیا کہتا ہے، بس جی جان کا خوف ایسا ہی ہوتا ہے، اب تو عادت ہو گئی ہے، اتنے بندے مار چکے ہیں، کہ یاد بھی نہیں ہے، اس نے ساری باتیں صاف صاف بتا دی تھیں، اپنی قصاب کی دکان بند نہیں کی تھی ہم نے، ہفتے میں دو دن وہ اور جاوید وہاں بیٹھ کر کام کرتے اور بقیہ دن کے لئے دوسرے بندوں کو دے دیا ہوا تھا، دکھاوا بھی تو ضروری تھا لوگوں کو یہ پتہ ہونا چاہیے کہ ہمارا کام کیا ہے، یہ کام مرضی کے مطابق ہو جاتا ہے، قتل، اغوا،آبروریزی، بے عزتی جو کرانا ہے، کرالو بس فیس ہوتی ہے کام ہر کام کی۔
وہ جی اچھا ہوا میں نے جاوید کا کام کر دیا، پولیس والوں سے مل گیا تھا۔ حرامی کا پلا جب اسے میں نے مار دیا تو انہوں نے ابراہیم کو پکڑ لیا، اور ابراہیم نے نسیم، پپو اور میری نشاندہی کر دی اب ہم سب گرفتار ہیں، پچھلے کسی قتل کی وجہ سے کیس بنایا گیا ہے، جاوید کا تو پتہ ہی نہیں سالوں کو، ابھی تو سر ہی تلاش کر رہے ہیں، سر کہاں سے ملے گا وہ تو اس کے ہی گھر کے ڈیپ فریزر میں ٹھنڈا برف ہو رہا ہو گا، یہ کہ کر وہ مسکرایا تھا، مجھ میں ہمت نہیں تھی، کہ پرویز کے بارے میں کوئی رپورٹ لکھتا، اسے پاگل لکھتا کہ نارمل لکھتا، کچھ لکھ نہیں سکتا تھا، میں سمجھ میں نہیں آ رہا تھا، کہ میں کیا کروں۔ ارے ڈاکٹر بچ تو جاؤں گا نہ پاگل بن کر۔ کیا کہتا ہے قانون دوسرے دن اس کا یہی سوال تھا، میں کیا جواب دیتا۔ مجھے اس سے ہمدردی بھی تھی۔ کہ اسے اگر پھانسیمل بھی جائے تو سماج میں کیا فرق پڑے گا، سماج میں تو اور بھی لوگ ہوں گے نہ جانے کہاں چھپے ہوئے۔ خاموشی سے ہر کام کر رہے ہیں قتل سے لے کر اغوا تک اور لڑکیوں کی آبروریزی سے لے کر جسامنی چوٹ پہچانے تک، اور اگر پھانسی نہ بھی ملے تو تو کیا ہو جائے گا، یہ کچھ اور لوگوں کو قتل کرے گا۔ برباد کرے گا۔ اور پھر ایک دن خود قتل بھی ہو جائے گا۔ جاوید کی طرح سے، یہ نظام تو نہیں بدل سکتاہے، وہ مجھے سوچتا دیکھ کر ہنسا تھا۔ کیا سوچتے ہو ڈاکٹر بچ تو جاؤں گاہی، خود مرنا چاہوں تو مر جاؤں گا بھلے خالی پیلی کوئی نہیں مارسکتا اور ابھی مرنا نہیں ہے، مجھے مجھے تو بس اب اس کی پڑی ہے کہ کس دن جاوید کے گھر والے ڈیپ فریزر سے وہ تھیلی نکالیں گے اور کھولیں گے تو جاوید کا سے ملے گا، اپنی آنکھ سے یہ منظر سے یہ منظر دیکھوں تو مزا آئے۔ اس نے چمکتی آنکھوں اور مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا تھا، میرے سر سے ریڑھ کی ہڈی تک سرولہر دوڑتی چلی گئی ہے، یخ، نہ جانے کتنے ہزار منفی درجہ ٹمپریچر کے ساتھ میں اس کے پاس سے اٹھ کر آ گیا تھا، مجھے اپنی بزدلی، بے بسی اور بے کسی کا قرار کر لینا چاہیے۔ میں اس کی فائل سرکار کو بہت بڑا جھوٹ لکھ کر واپس کر دی۔ ایسا جھوٹ کے اس کے بعد پاکستان میں رہ نہیں سکتا تھا میں۔
میں نے لکھا کہ میں پرویز قیدی نمبر ساتھ سو باری کی رپورٹ نہیں لکھ سکتا ہوں، مجھے نہیں پتہ ہے، کہ مریض کی دماغی کیفیت کیا ہے، نہ ہی میں اس کا نفسیاتی معائنہ کر سکتا ہوں کیونکہ مریض مجھ سے تعاون نہیں کر رہا ہے، یہ جھوٹ تھا سفید جھوٹ، اس نے مجھ سے تعاون کیا تھا مکمل سب کچھ بتایا تھا صاف صاف اور سچ سچ۔ میں واپس انگلینڈ آ گیا ہوں کاونٹی کے ایک چھوٹے سے ہسپتال میں ایک چھوٹا سا سائیکٹر سٹ ہوں۔ اتنا بڑا جھوٹ بولنے کے بعد کہاں جا سکتا تھا میں؟
٭٭٭
کلین لڑکی کلین ٹوائلٹ
ہوٹل بہت شاندار تھا۔شاندار کے ساتھ ساتھ کچھ اور بالکل نئی نئی، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہا عجیب و غریب چیزیں تھیں، تو کہنا غلط نہیں ہو گا،اوروں کے لئے شاید عجیب و غریب نہ ہوں مگر کم از کم میرے لیے تو عجیب و غریب ہی تھیں، بات یہ ہے کہ اپنے کام کے سلسلے میں مجھے بہت سے یورپ اور امریکہ کے بڑے بڑے ہوٹلوں میں رہنے کا موقع ملا تھا، مگر یہ ہوٹل بہت ہی مختلف تھا، بالکل مختلف، یورپ اور امریکہ کے ہوٹلوں اور مہمان خانوں سے، ایک بات یہ بھی ہوسکتی ہے کہ مشرق بعید کے ملکوں میں پہلی دفعہ آیا تھا، یورپ کے تقریباً بڑے شہر میں جانا ہوا تھا۔
نئے ہوٹلوں میں بھی اور پرانوں میں بھی، پرانی عمارتوں میں جس طرح جدید سہولتیں مہیا کی گی ہیں یہ ان کا ہی کمال ہے میں زیادہ تر پانچ ستاروں والے مہنگے ترین ہوٹلوں میں رہا تھا، یہاں کام کے لئے رہنے والوں کے لئے ہر قسم کی سہولتیں ہوتی ہیں، آج کل تو انٹر نیٹ کا زمانہ ہے مگر جب کمپیوٹر اور انٹر نیٹ عام نہیں تھے، اس وقت کاغذ، قلم ٹائپ ٹیلیفون اور فیکس، ٹیلکس کی سہولتیں موجود ہوتی تھیں،سکریٹری بھی وقت پرمل جاتے، جو اپنے کام میں ماہر ہوتے تھے، عام طور پر صاف ستھرے کمرے، صاف ستھرے چادروں، تولیوں کے ساتھ صابن، شیمپو، چائے کافی بنانے کی سہولت، ٹیلی ویژن کے ساتھ ملتے تھے، کام کا کام اور آرام کا داخل کے ساتھ ہی ہوٹل کا ایک آدمی جیسے میرے لیے مقرر کر دیا گیا تھا، شاید اسے نام یا شکل سے اندازہ ہو گیا کہ میں مسلمان ہوں۔
اھلاً و سہلاً میں نے ہنس کر جواب دیا۔ ہم لوگوں کی عجیب عادت ہے،کہ السلام وعلیکم کے جواب میں السلام وعلیکم ہی کہتے ہیں، باوجود کوشش کے میں اکثر و بیشتر وعلیکم وسلام کے بجائے السلام علیکم ہی بولتا تھا،وعلیکم سلام وعلیکم وسلام کہہ کر اس نے سامان لانے والے کو اشارہ کیا اور مجھے سیدھا، استقبالیہ کے کاونٹر پر لے گیا تھا، اسپیشل مہمان کے لئے مسلمان کارکن ہے ریسیپشن پر، ان کا نام ہے سلطانہ۔ اس نے استقبالہ پر بیٹھ خوبصورت سی لڑکی سے مجھے متعارف کرایا تھا، اس نے مسکرا کر مجھے غورسے دیکھا اور میرے دیئے ہوئے پاسپورٹ کو دیکھتے ہوئے کمپیوٹر کے اسکرین پر میرا نام تلاش کرنا شروع کر دیا، سولہ سو ایک آپ کے کمرے کا نمبر ہے جناب، دو طرف سمندر اور ایک جانب باغ ہے جہاں مختلف جانور آپ کو نظر آئیں گے، کمرے میں ہی ایک دوربین بھی لگی ہوئی ہے، جس سےآپ سمندر میں جہاز، کشتیوں کو بھی گن سکتے ہیں، اور باغ میں جانوروں کو بھی دیکھ سکتے ہیں۔
شکریہ میں نے ہنس کر کہا تھا، لمبی پرواز کے بعد مجھے باتھ روم کی سخت حاجت ہو رہی تھی، اور میں یہ چاہ رہا تھا کہ جلد از جلد گرما گرم پانی سے نہا دھو کر میٹنگ کے لئے تیار ہو جاؤں، میٹنگ چار بچے شہر میں واقع ہمارے مقامی آفس میں ہونی تھی، جس کی تھوڑی تیاری بھی کرنی تھی، وہ میرے ساتھ ساتھ لفٹ میں پھر کمرے تک آیا، پورٹر ہمارے پہنچنے سے قبل پہنچ کر میرے سوٹ کیس کو کمرے میں مناسب جگہ پر رکھ چکا تھا، اس نے ٹیلی ویژن آن کر دیا۔ دروازہ کھول کر مجھے سیف دکھایا، الماری سے جائے نماز نکال کر یہ بھی بتایا کہ قبلہ کس طرف ہے، ساتھ ہی ہوٹل کی مزید سہولتوں کی تفصیلات بتا ہی رہ تھا، کہ میں نے اس سے کہا کہ ہاں ٹھیک ہے، کوئی مسئلہ نہیں ہے، مجھے اندازہ ہے سہولتوں کا، مجھے اب ٹوائلٹ جانا ہے، کوئی ضرورت ہو گی تو میں فون کر کے آپ کو بلا لوں گا، بہت بہت شکریہ، آپ کا ہوٹل بہت اچھا ہے۔
ضرور ضرور، حاضر حاضر ہمارا کام ہی خدمت کرنا ہے اور ہمارا ٹوائلٹ ٹاپ کلاس ہے دنیا کا نمبر ون ٹوائلٹ۔ ٹب بھی ہے، اور کموڈ ہے بالکل نئے ڈیزائن کا اسلامی کموڈ، بہترین ہئیر ڈرائراورسارے باڈی لوشن ہیں ٹوتھ پیسٹ اور بہترین الیکٹرک، مسواک برش کے ساتھ، مجھے پتا ہے، اسلامی کموڈ کا، اب تو کافی ہوٹلوں میں ہوتا ہے، یہ میں نے دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے اس باتونی آدمی کو جواب دیا۔ نہیں سر نہیں یہ کچھ اور ہے، آئیے آیئے میں دکھاتا ہوں مکمل طور پر کمپیوٹر رائزڈ، آٹو میٹک کیمرہ لگا ہوا ہے، اسکرین موجود ہے سب کچھ خود بخود ہوتا ہے آپ کو بٹن دبانا ہے مکمل طہارت ہے، یہ کہتے ہوئے وہ تیزی سے باتھ روم میں داخل ہو گیا تھا۔ میر حاجت کافی بڑھ گئی تھی، اور میں چاہ رہا تھا کہ یہ آدمی جلد از جلد میری جان چھوڑے۔۔۔۔۔ میں بھی باتھ روم میں داخل ہوا کہ اس سے کہوں کہ وہ اب جائے، میرے داخل ہوتے ہی اس نے مجھے عربی اور انگلش میں لکھے دو ہدایت نامے پکڑا دئے تھے جو پلاسٹک کارڈ پر چھپے ہوئے تھے، کموڈ کی بنی ہوئی تصویر پر صاف نظر آ رہی تھی، میں نے جلدی سے وہ کارڈ لیا اور اسے کہا کہ وہ جائے جب ضرورت ہو گی تو اسے خود ہی بلا لوں گا،میں نے اسے تقریباً دھکا دے کر ٹوائلٹ سے نکالا اور پھر جلدی سے کموڈ پر بیٹھ گیا تھا۔
کموڈ پر بیٹھنے کے بعد میں نے اس ہدایت نامے پر نظر ڈالی تو پتہ لگا کہ وہ کموڈ کواستعمال کرنے کا ہدایت نامہ تھا، کموڈ کے سیدھے ہاتھ ایک گھومنے والے ریک پر اسکرین اوراس کے اوپر کچھ بٹن لگے ہوئے تھے میں اس ریک کو ہدایت کے مطابق دیکھنے کا یہ پہلا تجربہ تھا۔ کچھ سال قبل مجھے پاخانے میں خون کی شکایت ہوئی تو ایک سرجن کے پاس دکھانے گیا۔ اس نے وکٹو اسکوپ نام کا ایک آلہ لگا کر معقد کا تفصیلی معائنہ کیا تھا۔ جس کے بعد ہاضمے میں مزید کوئی خرابی نہیں ہے، خون بواسیر کی وجہ سے آیا ہے جو صحیح ہو جائے گا، اس نے یہ بھی بتایا کہ پاخانے میں خون کے آنے پر معائنہ کرانا ضروری ہے جو میں نے کرا لیا تھا اور شکر ہے کہ ایک مرہم لگانے سے بواسیر صحیح بھی ہو گیا مگر اپنے اس نظام کا بنفس نفیس معائنہ کرنے کا یہ پہلا موقع تھا۔
مجھے یاد ہے کہ اسکول کے زمانے میں ایک شریر لڑکے کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ اپنی جیب میں ایک آئینہ رکھتا ہے اور ضرورت مندوں کو مہیا کرتا ہے تاکہ وہ خود اپنے مقعد کا معائنہ کر سکیں ہم اب لوگ اس بات پر بہت ہنستے تھے مگر وہ اسکول کی باتیں تھیں، جس کے گھمانے سے دھار اور پھوار بھی مختلف جانب حرکت کرتی تھیں۔
ایک اور بٹن کے دبانے سے ایک بہت ہی ملائم برش نکل آیا جسے گھما پھرا کر صفائی کی جا سکتی تھی یہ بھی لکھا ہوا تھا کہ ہر صفائی کے بعد برش خود بخود پانی میں گر جاتا ہے۔ سرخ رنگ کا بٹن آخر میں تھا جس کو دبانے سے تیز گرم ہوا خارج ہوتی تھی اور کسی قسم کے ٹشو پیپر کے بغیر پانی غائب ہو جاتا اور سب کچھ خشک ہو جاتا تھا۔ میں نے یہ سب کچھ استعمال کیا اور مجھے پتہ لگا کہ طہارت کموڈ کیا ہوتا ہے۔ ہوٹل والوں نے عربی مسلمانوں کے لئے ہر طرح کی سہولت مہیا کرنے کی کوشش کی تھی۔ میں حیران بھی اور ساتھ ہی اس ایجاد سے متاثر بھی۔ یقیناً یہ جاپان یا کوریا کا کام ہو گا۔ وہی لوگ اس طرح کی مارکیٹوں کا استعمال جانتے ہیں، بازار میں جاپان کی بنائی ہوئی اس طرح کی چیزیں خوب مل رہی تھی۔
مثلاً اذان دینے والی گھڑی، قبلہ کا رخ دکھانے والی جائے نماز، قرآن کے مختلف آیتوں کی تشریح کرنے والے کمپیوٹر کے پروگرام، مکہ مدینہ کی تصویر والی تسبیح اور اس طرح کے اور بہت ساری چیزوں سے مکہ مدینہ کی دوکانیں بھری ڈالر کا فارن ایکسچینج کما رہے تھے۔ نہانے کے بعد جلدی جلدی میں تیار ہو کر نیچے آیا کہ کھانا کھا کر میٹنگ کے لئے پہنچوں۔ لفٹ سے باہر آتے ہی وہ آ گیا۔ سارا کھانا حلال ہے مرغی، بکرا، گائے بھیڑ سب کچھ اسلامی طریقے سے حلال کروایا جاتا ہے ہمارے ہوٹل میں۔ صبح ناشتے میں لارڈ استعمال نہیں کرتے ہیں ہم لوگ۔ سب کچھ زیتون کے تیل میں پکایا جاتا ہے۔ سور کے گوشت کو پکانے کے لئے الگ برتن ہے اور بالکل الگ باورچی خانہ ہے، اس نے تفصیل سے ہوٹل میں مسلمان باورچی پکاتے ہیں، میں اس انتظام پر حیران ہی ہوا تھا۔
کھانا کھا کر میں باہر آیا ہوٹل کے باہر ٹیکسی تیار کھڑی تھی، وہ ٹیکسی کے ساتھ ہی کھڑا میرا انتظار کر رہا تھا۔ میں نئے ٹیکسی والے کو میٹنگ کی جگہ کا پتہ بتایا۔ اس کے انداز سے مجھے پتہ لگا تھا کہ وہ پتے کو سمجھ گیا ہے۔ ٹیکسی کے چلتے ہی ٹیکسی میں لگے ہوئے چھوٹے سے ٹی وی کے اسکرین پر با تصویر تلاوت شروع ہو گئی، مجھے سمجھ میں آ گیا کہ یہ انتظام بھی ہوٹل کی جانب سے کیا گیا ہو گا۔ تاکہ مسلمانوں کی اس ضرورت کو بھی پورا کیا جائے، دیکھا جائے تو میں ہوٹل کے انتظامات سے مکمل طور پر مرغوب ہو گیا تھا۔ کمرے میں جائے نماز کا وقت بتانے والی گھڑی، شہر کی مسجد میں اذان کے ساتھ کمرے میں بھی اذان کی آواز، الماری میں عزت و احترام سے رکھا ہوا قرآن، باتھ روم میں طہارت کموڈ، کھانے میں حلال کھانا اور یہاں تک کے ٹیکسی میں تلاوت اور ساتھ ہی مکہ مدینہ کی محترم و مبارک جگہوں کی خوبصورت فلم۔ واہ جاپان، کوریا چین ہر ایک کی ضرورت کے مطابق ہر ایک کے لئے انتظام۔ دنیا اسی کا نا م ہے اور ترقی اسی کی ہے جو ان چیزوں کو سمجھے۔
ہماری میٹنگ کافی دیر تک چلتی رہی،میٹنگ کے بعد بہت ہی پر لطف اور پُر تکلف کھانے کا انتظام تھا۔ یہ انتظام دریا میں ایک بڑی سی کشتی پر کیا گیا تھا۔ دریا پر یہ کشتی اس طرح کی بہت ساری کشتیاں خراماں مستیاں کر رہی تھیں۔ اور مختلف جانب سے مختلف قسم کی موسیقی اور گانوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔ موسم بہار کی ٹھنڈی ہوا میں فضا معطر معطر سی ہو رہی تھی۔ مجھے بہت مزا آیا۔ رات گئے میں آفس کی گاڑی سے ہوٹل واپس آ گیا تھا۔ ہوٹل آ کر ایک گرما گرم شاور لینے کے بعد بستر پر لیٹتے ہی سو گیا۔ ابھی شاید نیند کے پہلے ہی مرحلے میں تھا کہ کسی نے دروازے کی گھنٹی بجائی۔ پہلے تو میں سمجھا کی شاید میں غنودگی میں کچھ آواز سن رہا ہوں لیکن دوسری گھنٹی کی آواز میں اُٹھ گیا تھا۔ سائڈ ٹیبل پر موجود بٹن دبا کر میں نے روشنی کی، گاون پہنا اور ہوٹل کے آرام دہ چپل کو پہن کر دروازہ کھولا تھا۔
دروازے کی روشنی میں وہ نہا گئی، میں اسے دیکھتا ہی رہ گیا۔ اتنی ہی خوبصورت تھی یا شاید کاری ڈور کی دھیمی روشنی اور کمرے کی زائد روشنی کے امتزاج میں ڈوبا ہوا جسم و چہرا مجھے اچھا لگا تھا۔ وہ ایک مکمل لڑکی تھی، کسے ہوئے کپڑوں میں کسا ہوا جسم لئے ہوئے۔ میرے کچھ کہنے اور پوچھنے سے قبل وہ دھیرے سے میرے سامنے سے کمرے میں داخل ہو گئی۔ اسی وقت مجھے یہ احساس بھی ہوا کہ وہ بھی اس کے ساتھ ہے۔ اس کے چہرے پر وہی صبح والی خاص مسکراہٹ تھی، جب وہ مجھے طہارت کموڈ کے بارے میں بتا رہا تھا۔
میں سمجھا نہیں میں نے صورت حال کا اندازہ کرتے ہوئے تھوڑا غصے سے پوچھا،آپ کے لئے سر، آپ کی خدمت کے لئے سر دبائے گی۔ جسم دبائے گی مساج کرے گی جو آپ بولو گے، بالکل آپ کے نوکر کی طرح بالکل کلین ہے سر ٹیسٹ ہو چکا ہے، کوئی بیماری نہیں ہے، بالکل ینگ ہے صرف چوبیس سال کی مسلمان گرل سر مسلمان، زبیدہ از ہر نیم۔ میں حیران رہ گیا اس کے انداز پر صبح کہاں وہ اسلامی ضروریات کے مطابق ہر مطالبہ پورا کرنے کو تیار تھا۔ اور اب ایک طوائف کو لے کر آ گیا اور ساتھ یہ بھی کہہ رہا تھا کہ باتیں صبح کروں گا۔ مینجر کے آفس آ کر میں غصے میں زیادہ بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔ صبح ناشتے سے پہلے میں مینجر کے کمرے میں چلا گیا کہ اس سے اس بے ہودگی کی شکایت کروں۔
وہ وہاں پہلے سے ہی موجود تھا ان دونوں نے خوش دلی سے میرا استقبال کیا مینجر نے میری بات توجہ سے سنی اور میری بات ختم ہوتے ہی مجھ سے معافی مانگ لی اور ساتھ ہی اس نے بھی ہاتھ جوڑتے ہوئے اپنی اسی مسکراہٹ کے ساتھ بھر پور انداز میں معافی مانگی کہ ان سے غلطی ہوئی ہے، وہ غلط سمجھے تھے، میرے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کہ بالکل ہی ٹھنڈا ہو جاؤں کہ مزید غصے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔
میں باہر آنے لگا تو اس نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا۔ سر، میں دوبارہ معافی مانگتا ہوں پر صاحب میں کروں کیا۔ میں تو آپ کو بھی عربی وسمجھتا تھا، ان کو ذبیح گوشت، بغیر لارڈ کا کھانا اور طہارت کموڈ کے ساتھ رات کلین لڑکی بھی چاہئیے ہوتی ہے مجھے کیا پتہ تھا کہ آپ عرب نہیں ہیں۔
٭٭٭
ایک پرانی غلطی
میں نےساجدہ کوغورسے دیکھا۔ تھکی ہوئی کسی دیوی کی طرح معصوم لگ رہی تھی وہ۔ چہرے پر تھکن کے ساتھ ساتھ ایک عجیب طرح کا اطمینان تھا۔ وہ بے حس، بے ہوش، بے خبر سو رہی تھی، دینا و مافیہا سے لا علم گہری نیند میں نہ جانے کن خوابوں کی نگری میں کھوئی ہوئی تھی۔
تھکا ہوا تو میں تھا۔مگر ایک بات ہوئی تھی، جس نے میری نیند اُڑا دی، بار بار میرے دل پر کچو کے سے لگتے اور ذہن ماؤف ہوا جاتا تھا۔ کتنی کامیاب زندگی تھی میری، خوبصورت سگھڑ، امیر باپ کی بیٹی جو میری بیوی بنی۔ میں خود ایک انتہائی کامیاب تاجر۔ کیا کمی تھی میری زندگی میں ایک بھر پور کامیاب زندگی گزاری تھی۔ میں نے۔ مگر آج کچھ ہوا اور جیسے ہوا اس نے جیسے میرے دل کے ٹکڑے ٹکڑے، ریزہ ریزہ کر دیا۔ چین لٹ گیا اور نیند ایسی غائب ہوئی کہ لگتا تھا۔ کہ اب کبھی بھی نہیں سو پاوں گا۔کیا تھا۔ یہ احساس ندامت، شرمندگی؟اتنے سال کے بعد؟
میں نے ساجدہ کو غور دیکھا، معصوم سا چہرہ، اس میں غضب کی جاذبیت تھی۔ موٹے ہونٹ اور ستواں ناک کا مزاج ایسا تھا۔ کہ آدمی پاگل ہو جائے، کوئی وجہ تھی کہ میں اس کو دیکھنے کے بعد کسی کی طرف نظر اُٹھا کر دیکھ نہیں سکا۔ میرے دل نے کہا کہ اس کے سرہانے بیٹھ جاؤں، اپنے ہاتھوں سے اس کے بکھرے ہوئے بالوں کو سنواروں، اس کی پلکوں کو چھولوں، ہونٹوں کو چوموں اور اس کے سینے پر سر رکھ کر سو جاؤں، وہ تھی ہی ایسی، گزشتہ ستائیس سالوں میں ایک دن نہیں گزرا تھا، جب میں نے اس سے محبت نہیں کی تھی، اور ایک دن بھی مجھے احساس نہیں ہوا کہ میں اسے کبھی کوئی دکھ دے سکتا یوں، تکلیف پہنچا سکتا ہوں مگر آج کچھ ہوااس کے بعد میں صرف اندر اندر جل رہا تھا، پگھل رہا تھا۔ یہ سوچ سوچ کر کہ مجھ سے نا دانستگی میں کیا ہو گیا۔میرے غرور اور انا سے بنی ہوئی دیوار ریت کی طرح ڈھ گئی تھی۔
تیس سال پہلے میں نے ساجدہ کو طارق روڑ پر دیکھا۔ جب وہ اپنے ڈرائیور کے ساتھ تیز تیز چلتی ہوئی جوتے کی دکان سے نکلی تھی۔ میں ٹنگ نانگ چائینیز ریسٹورنٹ میں کھانا کھا کر نکلا اور اپنی گاڑی سٹارٹ کر کے سگریٹ سلگا رہا تھا۔اس نے تو مجھے نہیں دیکھا مگر میں اسے دیکھتا ہی چلا گیا۔ کسی چیز کی کمی نہیں تھی۔ میں نے تصور، خوابوں اور خیالوں میں جو لڑکی بسائی ہوئی تھی یہ وہی تھی۔ اس کی گاڑی میری گاڑی سے ذرا آگے پارک تھی۔ جیسے ہی اس کے ڈرائیور نے گاڑی اسٹارٹ کی اور اگے چلا ویسے ہی میں نے اپنی گاڑی اس کے پیچھے ڈال دی، بغیر سوچے سمجھے بس دل کے اشارے پر۔
وہ طارق روڑ سے شہید ملت پر واقع میڈی کئیر اسپتال کے پاس سے گزرتے ہوئے بہادر آباد کی چورنگی کی طرف مڑ کر ایک گلی کے خوبصورت سے بنگلے پر رک گئی تھی، میں نے بھی گاڑی اس کی گاڑی سے پیچھے سے کالے گیٹ کے چھوٹے دروازے کو کھول کر اپنے گھر میں داخل ہو گئی تھی۔ تیس بتس سالوں پہلے والا شریف آباد رہائشی علاقہ تھا، جسے بلڈروں کی نظر کھا گئی۔ پیسے کے لالچ نے اب پوری سوسائٹی کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ خوبصورت بنے ہوئے رہائشی مکانات جہاں چار سے آٹھ لوگ سہولت سے رہتے تھے، دیکھتے دیکھتے کئی منزلہ عمارتوں اور فلیٹوں کے کمپلیکس میں بدل گئے ہیں، بھونڈے فلیٹس، خراب سیڑھیاں اور بے ہنگم نقشے بناتے وقت شاید سوچا بھی نہیں گیا کہ یہ کیسے نظر آئیں گے، ہوا کہاں سے آئے گئی، دھوپ کہاں سے گزرے گئی،لوگ کیسے رہیں گے، سامنے کیسا لگے گا۔
یہاں مکان بیچنے والوں نے اپنے جانتے ہوئے مہنگا بیچا اور خریدنے والوں نے اپنے پلان کے مطابق کوڑیوں کے دام لگائے، پھر تین تین منزلہ اپارٹمنٹ بلاک کی اجازت لے کر چھ چھ آٹھ آٹھ منزلہ عمارتیں بنا ڈالی گئیں، شہر میں تو آباد کاروں کی ایک زبردست مافیا کام کر رہی ہے، رہائشی پلاٹوں پر تجارتی عمارتیں بن جاتی ہیں،نقشہ کچھ پاس ہوتا ہے اور بنانے والے کچھ اور بنا ڈالتے ہیں، سب طرف پیسہ چلتا ہے۔ اور سب شامل ہیں، صوبائی حکومت سے لے کر شہری حکومت تک۔ ان بد شکل عمارتوں میں بے شمار لوگ رہنے کے لئے آ گئے ہیں، جہاں پر خوبصورت بنگلے کے ساتھ لان کا تصور تھا، درخت تھے پودے، پیڑوں اور پھولوں کی بہار تھی، وہاں فلیٹس بن گے تھے، جنہیں لوہے کی جالیوں میں قید کر دیا گیا ہے۔ ہر کھڑکی، دروازہ، روشندان، بالکونی، سیڑھی کو ان لوہے کی جالیوں میں پھنسا دیا گیا ہے،اب ان جالیوں کے اوپر سکھنے کے لیے بھیگے ہوئے کپڑے لٹا دئے جاتے ہیں، قمیض، پینٹ، تولیہ،شلوار، کرتا، انڈروئیر اور کسی قید فاختہ کی طرح پھڑ پھڑاتے ہوئے بریزیرز دور سے ہی رہنے والوں کے مزاج کا پتہ دے دیتے ہیں، ان فلیٹوں میں رہنے والوں کو شہری زندگی کے بنیادی اصول تک نہیں پتہ، گندگی، کوڑے کے ڈھیر، پانی کی بوتلیں اور چیونگم کے جا بجا نشانات جہالت، لا علمی اور بے حسی کی خبریں دے رہے ہوتے ہیں، یہ حشر ہوا ہے اس شرد آباد، بہادر آباد کے علاقے کا جہاں ساجدہ رہتی تھی۔
اس دن گھر دیکھ کر میں واپس آ گیا کہ ایک ضروری میٹنگ میں جانا تھا۔ مگر دوسرے دن صبح صبح میں دوبارہ اس کے گھر سے ذرا ہٹ کر اپنی گاڑی سمیت کھڑا ہو گیا۔ صبح سویرے ساڑھے آٹھ بجے کا وقت تھا۔ آتے جاتے لوگ دیکھ کر گزر رہے تھے مگرکسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ میں اپنی کار میں بیٹھا اس گھر سے نکلنے والی لڑکی کا انتظار کر رہا ہوں، پہلے تو میں اخبار پڑھتا رہا جب انگلش اخبار کی خاص خاص چیزیں پڑھ ڈالیں تو گاڑی سے اُتر کر ٹہلتا ہوا بہادر آباد کے دوڑ کی جانب گیا کہ آتے جاتے کسی اخبار والے سے ایک اردو اخبار بھی لے آؤں۔ میں کچھ اس طرح سے گیا کہ گھر نظروں سے اوجھل ہو۔ راستے میں ہی مجھے سائیکل پر سوار اخبار والا مل گیا اور اخبار لے کر میں واپس گاڑی میں بیٹھا ہی تھا، کہ ساجدہ کے گھر کا گیٹ کھلا۔ ساجدہ کے ابو گاڑی گیٹ سے نکال کر باہر آئے اور وہ گیٹ کو بند کر کے گاڑی میں ان کے ساتھ بیٹھ گئی۔نیلے شلوار قمیض میں نیلے ہی رنگ کے ڈوپٹے کے ساتھ وہ مجھے پہلے دن سے زیادہ حسین لگی تھی۔ میرا مقصد پورا ہو گیا۔ میں اسے ایک دفعہ پھر غور سے نظر بھر کے دیکھنا چاہتا تھا۔ رات بھر وہ میرے خیالوں میں بھٹکتی رہی اب تو مجھے صرف فیصلہ کرنا تھا، اور اس فیصلے سے پہلے میں اسے صبح صبح دیکھنا چاہتا تھا۔ میری نانی کہتی تھیں، کہ جو عورت صبح خوبصورت نظر آتی ہے، وہ حقیقت میں خوبصورت ہوتی ہیں۔ اور جو عورتیں رات میں خوبصورت لگتی ہیں۔ وہ بناوٹ ہوتی ہیں۔ نہ جانے اس میں کتنی حقیقت ہے، لیکن سچ بات یہ تھی۔ کہ ساجدہ صبح خوبصورت تھی اور شام کو بھی حسین۔
اسی شام میں نے اپنی خواہش کا اظہار اپنی بہن اور ماں باپ سے کر دیا، میری ماں فوراً ہی تیار ہو گئی تھیں۔ آخر کار میں نے شادی کے لئے ہاں تو کر دو کیونکہ باوجود گھر والوں کے اصرار کے مجھے کوئی لڑکی پسند ہی نہیں تھی، وجہ کوئی نہیں تھی، بس ہوا کہ کسی نے کلک نہیں کیا، شادی میں تھوڑا مسئلہ ضرور ہوا جس کی مجھے امید نہیں تھی، ہو یہ کہ جب میری ماں اور بہنیں ساجدہ کے گھر مٹھائی لے کر اور پیغام لے کر پہنچیں تو ہمیں امید تھی کہ وہ لوگ فوراً ہاں کر دیں گے، صرف ڈر یہ تھا کہ اگر اس کی منگنی ہوئی ہو گی یا اگر کسی سے نکاح ہو چکا ہو گا تو ہم لوگ کیا کریں گے۔ یہ سوچنا ضروری تھا کیونکہ خوبصورت لڑکیوں کی شادی فوراً ہی ہو جاتی ہے، رشتے آنا شروع ہو جاتے ہیں اور ماں باپ کی بھی کوشش ہوتی ہے کہ لڑکیاں سسرال چلی جائیں، چاہے تعلیم ہی چھوڑنا پڑے، کون انتظار کرتا ہے، یہ میں نے سوچا ضرور تھا مگر اس سے آگے نہیں سوچ سکا تھا، اور امید یہی کی تھی کہ اس کا رشتہ وغیرہ کہیں نہیں لگا ہو گا، خوش قسمتی سے ایسا ہی تھا، اس کے رشتے ضرور آئے مگر ان کے گھر والوں نے کسی کو بھی ہاں نہیں کیا کیا تھا۔ شاید میری اچھی تھی، میرے گھر والوں کو ساجدہ کے گھر میں عزت دی گئی، اس کی امی بہت اچھے طریقے سےملیں مگر نہ جانے کیوں اس کے ابو کا رویہ کچھ زیادہ دوستانہ نہیں تھا۔ اس وقت مجھے یہ سب کچھ بہت برا لگا، انہوں نے میرے بارے میں بہت سارے ضروری غیر ضروری سوالات کر ڈالے، باجی کی بات سے مجھے اندازہ ہوا کہ شاید وہ ہمارے رشتے کے پیغام پر کچھ زیادہ خوش نہیں تھے، باجی نے کہا کہ اگر باپ ہی راضی نہیں ہو گا تو رشتہ منظور کرانا بڑا مشکل ہو جائے گا۔
اس وقت مجھے بڈھے پر غصہ بہت آیا تھا، مجھے یاد ہے کہ میں نے دل میں سوچا کہ شرافت کا زمانہ ہی نہیں ہے میں نے کوئی عشق نہیں لڑایا، یونیورسٹی جا کر ساجدہ پر راہ چلتے ڈورے نہیں ڈالے، اس کی کسی سہیلی کے بھائی کو تلاش کر کے اس تک پہنچا نہیں، تحائف کی بارش نہیں کی، غلط باتوں سے اسے بہلایا نہیں، پھسلایا نہیں، یہ سب کچھ اس زمانے کے مروجہ طریقے تھے، یہی کر رہے تھے، لڑکے مگر میرے پاس اس قسم کے طریقوں کے لئے نہ وقت تھا اور نہ ہی میں نے اس طرح کی کوئی منصوبہ بندی کی تھی، لڑکیوں کے لئے میں کچھ کشش چھی رکھتا تھا، تعلیم یافتہ تھا اور سب سے بڑی بات یہ کہ مالی و معاشی طور پر بھی خوشحال بھی تھا۔ یہ بات میری سمجھ سے باہر تھی کہ میں انہیں قابل قبول کیوں نہیں، میرا غصہ ناجائز تو نہیں تھا۔ میرا خیال تھا کہ میرا رشتہ پہنچتے ہی وہ لوگ خوش ہو جائیں گے، کیا کمی تھی مجھ میں، فوراً ہی راضی ہو جائیں گے، اور چٹ منگنی پٹ بیاہ جیسا مسئلہ ہو گا، شاید میں اپنے آپ کو کچھ زیادہ ہی اہمیت دے رہا ہوں گا، مگر ایسا بھی نہیں ہونا چاہیئے تھا، کہ جیسے میری کوئی اہمیت ہی نہیں ہے، حالات و واقعات پر میری کوئی گرفت تھی، نہ اور کوئی اختیار، بڑے میاں کا اپنا دماغ تھا، میری بہنوں نے بتایا کہ ساجدہ کی امی کا رویہ بڑا دوستانہ ہے، مگر ساجدہ کے ابو کے روئیے نے کافی مایوس کیا تھا۔ ہفتے بھر کے انتظار کے بعد میری بہن نے ساجدہ کی امی سے فون پر بات کی تو انہوں نے بتایا کہ ابھی تک وہ لوگ کچھ فیصلہ نہیں کر پائے ہیں، اور ساجدہ کے ابو میرے بارے میں تحقیقات کر رہے ہیں، معلومات جمع کر رہے ہیں، اتنا تو حق ہے نہ بیٹی۔ہمیں انہوں نے ہنستے ہوئے کہا۔
مجھے غصہ آیا۔ تحقیقات کرنا ان کی ذمہ داری تھی، اور ان کا حق بھی، کوئی اپنی بیٹی کی شادی بغیر سوچے سمجھے اور تحقیقات کے کیسے کر سکتاہے۔ مگر میرا مسئلہ یہ تھا، کہ میں نے سوچا بھی نہیں تھا، کہ کوئی مجھے رد کر سکتا ہے۔ کچھ اس قسم کا پُر غرور تھا میں، اور کچھ ایسی انا تھی میری، صحیح یا غلط میں ایسا ہی تھا۔ شاید اس کی وجہ میں کم عمری میں ہی پے در درپے کئی کامیابیاں اصل کرتا ہوا اپنے ابا جان کے چھوٹے سے کاروبار کو بہت تیزی سے اوپر لے گیا تھا، بے شمار خاندانوں کے لوگ اپنی بیٹیوں کی شادی مجھ سے کرنا چاہتے تھے، دفتر میں بھی اور دفتر کے باہر بھی۔ کتنے والدین نے اپنی اس خواہش کا اظہار میرے ابا اور اماں جان سے کیا ایسا بھی ہوا تھا کہ کئی لڑکیاں خوبصورت لڑکیاں خود ہی راستے میں آ گئیں، اپنی پسند کا اظہار کیا مگر سچی بات یہ ہے، کہ کوئی بھی اچھی لگی، کوئی کلک نہیں ہوئی اور اب جب یہ لڑکی کلک ہوئی تو بڑے میاں نے مسائل کھڑے کر دیئے تھے۔
زندگی میں پہلی دفعہ میں پریشان ہوا، زندگی میں پہلی دفعہ جو آدمی مجھے برا لگا اور وہ ساجدہ کے ابو تھے۔ سمجھتے کیا ہیں اپنے آپ کو؟ میرے دل میں کئی وسوسوں نے جنم لیا میں ہر صورت اسے حاصل کرنا چاہتا تھا۔ مجھے لگتا تھا، کہ ساجدہ کے بغیر میری زندگی مشکل ہو جائے گی، مجھے وہ اچھی لگی تھی اور مجھےاُس سے ہی شادی کرنی تھی۔ ایک دن وہ میرے ابو سےملنے ان کے آفس بھی چلے آئے، نہ جانے بوڑھوں کے درمیان کیا بات چیت ہوئی گھنٹے بھر تک کہ دونوں کے بعد ان کے گھر سے رشتے کی قبولی پیغام آ گیا۔ ہم لوگوں کی خوشی اپنی جگہ فطری تھی میرے گھر والوں نے زور و شور سے شادی کی تیاری شروع کی۔ مجھے حیرت اس بات پر تھی۔ کہ بڑے میاں نے مجھ سے کوئی بات نہ کی اور نہ ہی مجھ سے ملے، اس میں بھی مجھے کچھ بے عزتی کا سا احساس ہوا، نہ جانے کیوں۔
پھر ہماری شادی ہو گئ۔ ساجدہ کو پہلے دن سے ہی دیوی بنا کر رکھا میں نے اسے چاہا دل سے اور اسے حاصل کرنے کے بعد ایک دن کے لئے بھی اپنے سے جُدا نہ کرنے کی قسمیں کھائی، وہ تھی بھی ایسی۔ مجھے یاد ہے، کہ شادی کے ساتویں آٹھویں دن سے ساجدہ نے اس کے گھر گیا تھا۔ رات گئے، تک باتیں ہوتی رہیں اس کی بہن سے، اس کے بھائی سے، اس کے ماں باپ سے،شادی کے فوراً بعد دعوتوں کا اپنا مزہ ہوتا ہے، نئے رشتے بنتے ہیں کہ ان کی بنیادیں رکھی جا رہی ہوتی ہیں۔ نئی امیدیں ہوتی تھیں، نئے چراغ جلتے ہیں۔ ایک طرح کا لطیف احساس ہوتا ہے۔
شاید رات کے گیارہ بجے تھے، جب ہم اُٹھنے لگے تو چلتے چلتے ساجدہ کے ابو نے کہا تھا کہ آج رک جاؤ بیٹی۔ دونوں ہی رک جاؤ کل چلے جانا۔ بڑی مشکل سے عادت ہو گی تمہارے بنا رہنے کی، مجھے ان کا دھندلا دھندلا سا مہربان چہرا یاد ہے، اور ہی بھی یاد ہے کہ میں نے کیا سوچا اور کیا کیا تھا۔ ساجدہ نے میری طرف دیکھا اور اس وقت تو جیسے میرے اندر آگ لگ گئی نہ جانے کیاں؟ اور اس سے پہلے کہ کوئی اور بات ہوتی میں نے فوراً ہی کہہ دیا کہ نہیں ہم دونوں کو ابھی گھر جانا ہے۔ مجھے اب احساس ہوتا ہے، کہ بہت سخت اور خشک رویہ تھا میرا میں نے کسی کا کوئی بھی لحاظ نہیں کیا اور ہم گھر چلے آئے تھے۔ پھر کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ بڑے میاں نے ہمیں رات کو روکنے کی کوشش کی ہو۔
ہمارے بچے ہوئے، دو بیٹے ایک بیٹی، وقت نکلتا گیا، سب بڑے ہوتے گے، میرے ابو کا انتقال ہو گیا، ساجدہ کے ابو بھ دنیا سے چلے گئے لکن جتنے سالوں بھی وہ زندہ مجھے ان کی آنکھوں میں ساجدہ کی محبت کی شمع جلتی نظر آتی رہی۔ شاید کوئی دن ایسا نہیں ہوتا ہو گا۔ جن وہ فون پر اس سے بات نہیں کرتے ہوں گے۔ ایک خاص قسم کا رشتہ تھا، باپ بیٹی کے درمیان، ایسا ہی ہوتا ہے، ہمارے سماج میں لگتا ہے کہ بیٹیاں ماؤں سے قریب ہوتی ہیں، ان سےسے ہر طرح کی بات کر لیتی ہیں، ایک طرح سے دوست راز دار ہوتی ہیں، ان کی۔ مگر بیٹیوں کا اپنے باپوں سے بھی رشتہ ہوتا ہے۔ بہت مختلف بالکل الگ۔ شاید انہیں الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہ ہو۔ اسے صرف محسوس کیا جا سکتا ہے، جیسے ساجدہ اور ساجدہ کے ابو کے درمیان تھا۔
ستائیس سالوں کے بعد میری بیٹی کی شادی ہوئی وہ رخصت ہو گئی اور آج شادی کے آٹھویں دن ہمارے گھر آئی تھی، میری بیٹی میرے اور ساجدہ کی محبت کی پہلی نشانی، خاص طور پر مجھ سے ملنے آئی تھی، چار گھنٹے گپ شپ کے بعد جب وہ جانے لگی تو بے اختیار میں کہہ اُٹھا کہ بیٹی آج کی رات ٹھہر جاؤ کل چلی جانا۔ میں خود چھوڑ دوں گا تمہیں، مگر بابا مجھے جانا ہو گا، اس نے راحیل کی طرف دیکھتے ہوئے آہستہ سے کہا تھا۔ ستائیس سال ایک سیکنڈ میں میرے مانے سے گزر گئے۔ ساجدہ کا وہ پُر امید چہرہ اس کے والد کے محبت بھرے چہرے پر خواہش کی چادر اور میرا رکھائی سے منع کر دینا۔ ساجدہ کی بے بسی اور ساجدہ کے ابا کی خاموشی میرے سینے میں خنجر کی طرح اندر تک گھستی چلی گئی۔
یہ تو میں نے سوچا بھی نہیں تھا۔ بجلی کی رفتار سے تیز جھماکوں کے ساتھ وہ تصویر میرے ذہن پر گر جتی گونجتی رہی، آج وہ میرے سامنے بستر پر لیٹی ہوئی تھی، تھکی ہاری مگر چین سے اور میں بے چین تھا۔ اور مجھ میں ہمت نہیں تھی کہ ستائیس سال پرانے گناہ کی معافی مانگ سکوں۔
٭٭٭
و
ماخذ:
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید