فہرست مضامین
- کتابِ وفا
- انتساب
- حرفِ آغاز
- ناقدینِ اُردو ادب میں خوب صورت اضافہ… شبیر ناقدؔ
- شبیر ناقد ؔ … شاعر، ادیب، نقاد
- شاعر علی شاعرؔ(کراچی)
- کہاں کھو گیا فلسفہ اب خوشی کا؟
- نیا فلسفہ کوئی لاؤ خوشی کا
- ترے قہقہوں کو ترستی ہے دنیا
- جگر ہے پیہم فگار اپنا
- جو زندگی میں قرار ہوتا
- مجھے کوزہ گر نے ہے طُرفہ بنایا
- شہرتوں کے جنوں سے مفر کب رہا؟
- کیا سنائیں اپنے دل کا ماجرا؟
- کچھ نہیں جیبِ ہنر میں تیری چاہت کے سوا
- ہر کسی سے وفا نہیں کرتا
- ہر کسی پہ نہ آشکار ہوا
- ہوا آج موسم ہے بے حد سہانا
- دعا میں ہے مولا اثر کی تمنا
- سدا ہم نے وفاؤں کا بھرم رکھا
- ہمیں تنہا نہیں کرنا
- ادب سے سر جھکائے جا
- جس کی خاطر ہم نے جیون تج دیا
- ہمیں اپنی جنسِ وفا نے رُلایا
- ہے ہر نظر اک التجا
- ہے فکر کیوں یوں نارسا؟
- مجھے باقی سب ہے اذیت گوارا
- عاشقی کے اس سفر میں ہم رہے تنہا سدا
- ہے یاد مجھے اقرار مِرا
- دل صدمے دکھلائے گا
- بہت وقت میرا علالت میں گزرا
- مرے دروں میں ہے نور تیرا
- مجھے ہے سدا مہ جبینوں نے لوٹا
- یہ دھرتی ہے تیری یہ امبر ہے تیرا
- مجھ کو غمِ حیات نے لاچار کر دیا
- ہیں کچھ دنوں سے جناب غائب
- پیار کچھ تو ہو گیا ہے زندگی کے ساتھ اب
- سدا میں نے کی رتجگوں کی ریاضت
- ترے قہقہوں کی مسرت ہے راحت
- مری فکر ہے ترجمانِ حیات
- سانسیں ہیں سکرات کی صورت
- ترا حسن تیری جوانی قیامت
- مجھے ہے تمھاری دعا کی ضرورت
- نہ پیغام نہ کوئی بات
- دل قفس میں بھی ہے گھبرایا بہت
- مری زندگی کی ریاضت محبت
- تجھے مجھ سے نہ تھی الفت
- حیات میں تو نہیں رہی اب سکوں کی دولت
- زندگی کا سفر مختصر مختصر
- راس آیا نہیں آگہی کا سفر
- تیرا شباب محشر
- لگ رہے ہیں ہم ادھورے آج دلبر کے بغیر
- زندگی حُزن کا اک سفر
- ہر ستم ایجاد کر
- ستم زندگی کے ہیں سب میری خاطر
- من مندر ہے سوچ سمندر
- تیر پہنچا ہے کیا نشانے تک؟
- ہم ہیں درد کے مارے لوگ
- ذرا کاش رکھتے ہمارا خیال
- زمانہ مجھے ہے ستانے پہ مائل
- شبِ ظلمت کے مارے ہم
- ہوئے عشق میں ایسے لاچار ہم
- تیری خوشی کی خاطر تجھ سے ہیں دور پیہم
- مہیب شب کا مثیل جیون
- ہیں آگہی کے چراغ روشن
- کون سمجھا ہے مرا سوز دروں ؟
- جو مجھ پہ کرم تیرے دن رات کے ہیں
- محبت میں تیری کمی دیکھتا ہوں
- جو آئی آفت تو ہٹ گیا ہوں
- ترے قہقہے بھی تو عشرت فشاں ہیں
- نہ یہاں نہ میں وہاں ہوں تجھے کیا بتاؤں جاناں ؟
- ہمیں کب ہے اعراض الفت سے جاناں ؟
- ازل سے ہیں جو میرے سر بلائیں رقص کرتی ہیں
- غمِ غربت نے گھیرا ہے وفائیں بیچ ڈالی ہیں
- زندگی کا نصاب لکھتے ہیں
- ہر کسی سے محبتیں پائیں
- دسترس میں زمیں ہے نہ اب آسماں
- کچھ خواب خیال میں رہنے دو
- مجھے اذنِ تکلم دو جو کہتا ہوں وہ کہنے دو
- نہیں ہے غرض ہم کو شہرت سے یارو
- محبتوں کی ضیا سے اہل جہاں کو اپنا اسیر کر لو
- جو وعدہ کیا تھا وفا تو کرو
- ساجن گیت وفا کے گاؤ
- کٹھن ہے سخن کا سفر جان جاؤ
- مری جاں بہت خوب صورت ہے تو
- خدا کا کرو خوف سونے مجھے دو
- رہی زندگی کی ادا محرمانہ
- تیری یادوں سے حسیں ہے زندگی
- ہمیں راس آئی نہیں دنیا داری
- اذیتوں کا سماں ہے ہستی
- معتبر ہر عہد میں اپنی رہے گی آگہی
- مجھے زندگی نے ہے مہلت کہاں دی؟
- عبارت مسائل سے ہے زندگانی
- دن کو بے چینی بد حالی
- خوشی کے بدلے خوشی ملے گی
- بِتائے ہیں مشکل سے دن بے بسی کے
- جو سوز ہے گداز ہے
- حیات مستعار ہے
- اگرچہ مرے پاس غم ہیں فراواں مگر لب پہ میرے دہائی نہیں ہے
- زندگی کس کرب کی تفسیر ہے ؟
- اگر کوئی دلربا نہیں ہے
- محبتوں کا ثمر نہیں ہے
- کسی کی صباحت جو دھیمی ہوئی ہے
- لگے خوب ہیں آپ کے قہقہے
- اک اذیت کو پال رکھا ہے
- نہ گھر میں سکوں ہے نہ باہر سکوں ہے
- طلوعِ غزل ہے مرا قہقہوں سے
- Related
- شاعر علی شاعرؔ(کراچی)
کتابِ وفا
(مجموعۂ غزل)
شبیر ناقِدؔ
انتساب
اپنی کُل کائنات اپنے بیٹے محمد کاوش
اور اُس کی ماں
کے نام!
ہم پڑھاتے رہے ہیں کتابِ وفا
ہر جفا کار ہم سے خفا رہ گیا
(ابوالبیان ظہور احمد فاتحؔ)
حرفِ آغاز
ابوالبیان ظہور احمد فاتحؔ
یکم جنوری؍ 2016ء دوپہر
دنیا رنگ برنگی ہے اور کائناتِ رنگ و بو طرح طرح کی بوقلمونیوں سے عبارت ہے۔ کیوں نہ ہو کہ اِسے بنانے والے نے اسی انداز میں اِسے تخلیق فرمایا ہے ذاتِ صانع خود بھی وسیع المقدرت ہے اور اُسی کی بساطِ تخلیقات بے انتہا وسیع و عریض ہے نیز اُس کی ذی روح مخلوقات بھی خود میں بے حد و حساب نیرنگیاں رکھتی ہیں مالک القدوس کی لامحدود عطا یا میں سے من جملہ دیگر اعضائے رئیسہ کے دل و دماغ اور نطق و شعور کے جواہر بھی بے حد حیران کن اور پُر افادہ ہیں خلاقِ عالم نے اپنی ذی وقار مخلوق انسان کو دنیا میں جن آلات سے متعارف کرایا اُن میں سے ایک نہایت قیمتی آلہ قلم ہے۔ جس کی نسبت گہرے طور پر کاغذ سے مسلَّم ہے وہ انسان جو عقلِ رساں رکھتا ہے اس کے ساتھ ساتھ فکر و خیال کی خوبیوں سے بھی متصل ہے نیز نطق و بیان کا استحقاق رکھتا ہے۔
عصرِ حاضر میں جب کہ علم و ہنر کا دور دورہ ہے طبقۂ شعرا بھی اپنا لوہا منواتا نظر آ رہا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر دور میں اہلِ سخن ممتاز و ممیز رہے ہیں۔ عہدِ رواں کے ایک منفرد شاعر شبیر ناقدؔ کا ساتواں شعری مجموعہ ’’کتابِ وفا‘‘ کے نام سے آپ کے ہاتھ میں ہے ہمیں باضابطہ اُس کے مطالعہ کا موقع ملا ہے۔ مجموعہ کلام کئی خواص کا حامل ہے۔ بلحاظ ہیئت یہ غزلیات کا مجموعہ ہے جنھیں ابجد کے اعتبار سے ردیف وار مرتب کیا گیا ہے یوں ناقدؔ جی نے روایت سے ناتا گانٹھنے کی اچھی کوشش کی ہے۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ انھوں نے دانستہ اور خود ساختہ انداز میں طبع آزمائی کر کے ہر ردیف پر لکھنے سے گریز کیا ہے تاکہ کلام کی فطری لطافتیں تصنع کی بھینٹ نہ چڑھ جائیں بلکہ اُنھوں نے بے ساختہ انداز میں لکھی جانے والی غزلیات کو اس انداز میں مرتب کیا ہے کہ بین الکلام فنی محاسن کی جھلکیاں جگہ جگہ مشاہدہ کی جا سکتی ہیں نظامِ تشبیہات و استعارات خاصا جاندار ہے بیان کی سادگی و سلاست بھی خاص دلکش رکھتی ہے۔ علاوہ ازیں صنائع بدائع کا اہتمام بھی باضابطہ پایا جاتا ہے شاعر کا فکری کینوس بھی خاصا وسیع ہے معشرِ شعرا کی عمومی روایت رہی ہے کہ وہ پاسداران جنوں واقع ہوئے ہیں مگر شبیر ناقدؔ جنوں کی بجائے آگہی کی طرف داری کرتا ہے اور خود کو نمائندہ دانش سمجھتا ہے اس کی کاوشیں معاشرتی مسائل خصوصاً غربت افلاس کی آئینہ بندی بھی کرتی ہیں اگرچہ اُس کے ہاں مہر و محبت اور ذوقِ جمال کی کمی نہیں لیکن اُس کا اظہاری سانچہ بہت مختلف ہے بقولِ شاعر وہ آفاقی محبت کا علمبردار ہے عصری رویے اُس کے ہاں خاص کردار ادا کرتے ہیں وہ فن کو فروغِ آگہی کا مقدر قرار دیتا ہے اور اپنے اس کارنامے پر فاخر و نازاں ہے چند محاسنِ سخن کا حوالہ دینے کا موقع ملا ہے تاہم قارئین کرام کی ژرف نگاہی کئی اور آفاق بھی وا کر سکتی ہے۔
شبیر ناقدؔ صرف ایک سخن ور ہی نہیں بلکہ وہ ایک نقادِ سخن اور تذکرہ نگار کی نسبت سے بھی اپنے آپ کو منوا چکا ہے اس سلسلے میں کئی کتابیں ان کے رشحاتِ قلم سے منصہ شہود پر آئی ہیں۔ یہاں ہم شاعراتِ ارضِ پاک کا ذکر خصوصیت سے کریں گے جو کم و بیش سات جلدوں پر مشتمل ایک رواں د واں سلسلہ ہے جو ہنوز جاری ہے جسے ہم نسائی شعری تنقید کے حوالے سے ایک گراں بہا دائرہِ معارف قرار دے سکتے ہیں ایک کتاب ’’ابوالبیان ظہور احمد فاتحؔ کا کیفِ غزل‘‘ کے نام سے تصنیف کی ہے جو راقم کے حوالے سے ہے اور ناقدؔ جی کی ایک کاوش بے حد پسندیدہ قرار پائی ہے ایک اور تنقیدی مضامین کا مجموعہ جو مختلف شعرا، افسانہ نویسوں، ناول نگاروں، ناقدینِ فن اور محققین کی نسبت سے مرتب کیا گیا ہے۔ ’’نقدِ فن‘‘ کے نام سے منظرِ عام پر آیا ہے علاوہ ازیں ’’فضاؔ اعظمی کی شاعری تلمیحات کے آئینے میں ‘‘ کے نام سے ایک اور کتاب منظرِ عام پر آ چکی ہے اس تفصیل میں جانے کا مقصد یہ عرض کرنا ہے کہ شبیر ناقدؔ نظم و نثر دونوں میدانوں میں مستقل مزاجی کے ساتھ پیش رفت کر رہا ہے۔ یہ وہ فرہادِ ادب ہے جو گرمی سردی کا خیال کیے بغیر تندیِ حالات کے تھپیڑے کھاتا ہوا جوئے شیر لانے کی دھن میں ہے خدا کرے ادب کی شیریں اِسے مطلوبہ پذیرائی سے ہم کنار کر دے۔
مطالعہ کے ماحصل کے طور پر پائینِ تحریر شبیر ناقدؔ کے چند چیدہ چیدہ اشعار ہدیۂ قارئین ہیں :
بہت بے حسی بڑھ گئی ہے جہاں میں
یہاں صید ہے ہر نفس بے حسی کا
٭
سخن میں کئی زاویے تھے سمائے
سبق دین و دنیا کا ہم نے پڑھایا
٭
ہمیں فکر بس دوسروں کی رہی
رہے ہیں اِسی دکھ میں رہنِ ملال
٭
غموں نے مجھ کو امر کیا ہے
مرے دروں میں ہیں داغ روشن
٭
کیا خبر کس دیس میں ہم آ گئے ؟
پیار عُنقا ہے جہاں نفرت فزوں
٭
خلوص و وفا اور مہر و محبت
یہ سب استعارے مضافات کے ہیں
٭
یہاں گردشِ وقت کو میں نے دیکھا
میں خاک اُس کے رخ پر جمی دیکھتا ہوں
٭
حسیں لوگوں نے بیچا ہے سدا اپنی صباحت کو
تبسم بیچ ڈالا ہے ادائیں بیچ ڈالی ہیں
٭
محبتوں کی ضیا سے اہل جہاں کو اپنا اسیر کر لو
روا کسی سے نہ ہو کدورت کچھ ایسا اپنا ضمیر کر لو
٭
اگر ہو فکر و عمل سلامت
تو ایک جنت سماں ہے ہستی
٭
دور ہیں جوشِ جنوں سے زندگی خوش حال ہے
پھوٹتی ہے اپنے پہلو سے خرد کی روشنی
٭
اُسی دور میں زندگی ہم نے کی ہے
کہ چرچے تھے جس میں بہت خودکشی کے
٭
معترف میرے سخن کا ہے جہاں
میرے سر پر دستِ لطفِ میرؔ ہے
٭٭٭
ناقدینِ اُردو ادب میں خوب صورت اضافہ… شبیر ناقدؔ
سعید الظفرؔ صدیقی(کراچی)
شبیر ناقدؔ سے تعارف شاعر علی شاعرؔ کی نسبت سے ہوا۔ اُنھوں نے شاعراتِ ارض پاک کے کچھ حصے مجھے تحفتاً پیش کیے تھے۔ میں نے اُن کی فہرست پر نظر ڈالی تو مجھے خوش گوار حیرت ہوئی کہ اُن کا انتخاب اُن شاعرات پر مشتمل تھا جو اُردو دنیا میں ا پنا مقام رکھتی ہیں۔ کچھ نو آموز شاعرات بھی شامل تھیں اور کچھ ایسے نام بھی شامل تھے جن سے میں واقف نہیں تھا مگر اُن سب کا کلام ایسا تھا جو قارئین کو چوکنے پر مجبور کر رہا تھا۔
شاعر علی شاعرؔ نے یہ بھی بتایا کہ اُنھوں نے شبیر ناقدؔ کو میری کتابیں بھی ارسال کی ہیں اور جلد ہی شبیر ناقدؔ کی ایک کتاب ’’نقدِ فن‘‘ کے نام سے لا کر مجھے تھمادی جس میں میرے فنِ شعر گوئی پر بھی تنقیدی مضمون لکھا گیا تھا۔ شبیر ناقدؔ کی مجھ سے فون پر بات بھی کرائی گئی۔ مجھے اچھا لگا کہ کوئی شخص شعر و سخن کا اِس قدر قاری ہے اور فنی و عروضی سطح پر اِس قدر ادراک رکھتا ہے کہ شعر میں چھپے محاسن و معائب کو کھوج لیتا ہے اور اُنھیں تفصیل سے بیان کرتے ہوئے بھی نہیں ڈرتا کہ لوگ تنقید برداشت نہیں کرتے۔ تعریف سننے کے عادی ہو گئے ہیں۔ مگر تنقید کا پہلا اصول ہی یہی ہے کہ کلام کے محاسن و معائب ایمان داری سے بیان کر دیے جائیں، سو شبیر ناقدؔ نے بھی ایسا ہی کیا ہے۔ اُنھوں نے تنقید کا پورا پورا حق ادا کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کا نام رفتہ رفتہ اُن کے وقیع کام کے ساتھ ساتھ مستند ہو رہا ہے اور مجھے اُمید ہے، شبیر ناقدؔ کی صورت میں پاکستان کے ناقدین میں ایک خوب صورت اضافہ ہو گیاہے۔
شبیر ناقدؔ کی مجموعی طورپر سترہویں کتاب ’’کتابِ وفا‘‘ کا مسودہ میرے سامنے ہے۔ ’’کتابِ وفا‘‘ اُن کا ساتواں شعری مجموعہ ہے۔ اِس سے پہلے اُن کے مندرجہ ذیل چھ شعری مجموعہ ہائے کلام زیورِ طباعت سے آراستہ ہو کر نہ صرف منصہ شہود پر آ چکے ہیں بلکہ قارئینِ شعر و سخن اور ناقدینِ فن و ہنر سے داد و تحسین بھی پا چکے ہیں :
۱۔ صلیبِ شعور
۲۔ من دی مسجد
۳۔ آہنگِ خاطر
۴۔ جادۂ فکر
۵۔ دل سے دور نہیں ہو تم
۶۔ صبحِ کاوش
کتابِ وفا کی شاعری پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ شبیر ناقدؔ نے اپنے اسلاف شعرا کا مطالعہ بھی خوب کیا ہے اور اُن کے فن سے استفادہ بھی۔ یہی وہ سیکھنے کا عمل ہے جس سے اکثر سخن ور محروم رہتے ہیں۔ آج کل کے سخن وروں میں ایک خامی یہ ہے کہ اُن کا مطالعہ بہت کم ہوتا ہے اور دوسری خامی یہ ہے کہ وہ جو مطالعہ کرتے ہیں، اُس سے سرسری گزر جاتے ہیں۔ جب کہ شبیر ناقدؔ نے اپنے مطالعے کے بحرِ بے کراں سے فن و ہنر کے گوہرِ نایاب حاصل کیے ہیں۔ اُن کی شاعری میں تازہ کاری کے ساتھ ساتھ احساس آفرینی، خیال آفرینی اور مضمون آفرینی اور معانی آفرینی پائی جاتی ہے۔ وہ خیال کو سجا کر پیش کرتے ہیں۔ اُن کے یہاں خیال کو ندرت بہ کثرت ملتی ہے۔ فکرکی گہرائی اور سوچ کی گیرائی اپنی جگہ ہے۔ اُن کی مادری زبان سرائیکی ہے مگر وہ اُردو زبان میں اہلِ زبان کی طرح لکھ رہے ہیں۔ یہ ہنر کم نہیں ہے۔ اُردو زبان سے محبت اور مہارت ہی نے ڈاکٹر علامہ محمداقبالؔ کو’’شاعرِ مشرق‘‘ کا خطاب عطا کر وایا تھا۔ شبیر ناقدؔ کی بھی اُردو سے شناسائی، گہری واقفیت، دلی محبت، دانش مندی اور شعور و آگاہی اُن کو دنیا بھر میں عزت دلائیں گے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ کسی انسان کی محنت کو ضائع نہیں ہونے دیتا۔ میں نے دیکھا ہے کہ شبیر ناقدؔ کی محنت دنیائے اُردو ادب میں رنگ لا رہی ہے۔ اُن کا نام پاکستان کے ناقدین میں مستند ہو رہا ہے اور اُن کے تنقیدی، تحقیقی، تالیفی، تصنیفی اور تجزیاتی و تبصراتی کام کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔ وہ ایک اچھے نقاد، ادیب اور شاعر ہیں۔ اُن کی غزلیں پڑھ کر سلاست و روانی کا خوش گوار احساس اُبھرتا ہے۔ اُن کی زبان دیکھ کر فصاحت و بلاغت کے محاسن سامنے آتے ہیں۔ اُن کے اکثر اشعار میں تخیل کی بلند پروازی نظر آتی ہے۔ اُن کے کلام میں فنی نقائص اور عروضی معائب نہ ہونے کے برابر ہیں۔ چند ہیں بھی تو وہ اِس بات کا ثبوت ہے کہ یہ کلام انسان کا ہے۔ میں اُن کے کلام سے چند نمونے پیش کر کے اجازت چاہوں گا:
یہاں گردشِ وقت کو میں نے دیکھا
میں خاک اُس کے رخ پر جمی دیکھتا ہوں
٭
حسیں لوگوں نے بیچا ہے سدا اپنی صباحت کو
تبسم بیچ ڈالا ہے ادائیں بیچ ڈالی ہیں
٭
محبتوں کی ضیا سے اہل جہاں کو اپنا اسیر کر لو
روا کسی سے نہ ہو کدورت کچھ ایسا اپنا ضمیر کر لو
٭
اگر ہو فکر و عمل سلامت
تو ایک جنت سماں ہے ہستی
٭٭٭
شبیر ناقد ؔ … شاعر، ادیب، نقاد
شاعر علی شاعرؔ(کراچی)
ویسے تو شبیر ناقدؔ ایک سیدھے سادے انسان ہیں اور پاک فوج کی ملازمت اختیار کیے ہوئے ہیں مگر سخن میں اُن کا عکس اُن کی سادگی کے برخلاف ہے۔ وہ شاعری میں اپنے فن کی پُر کاری دکھاتے ہیں اور بیان کی رنگینی سے نہ صرف دنیائے شعروسخن کو رنگین و دل کش بنا دیتے ہیں بلکہ اپنے قارئین و سامعین کے دل و دماغ کی فضا کو بھی نئے معانی و مفاہیم سے خوش گوار بنا دیتے ہیں۔ شبیر ناقدؔ کی چمن زارِ ادب میں کئی جہتیں ہیں جن میں شاعر، ادیب اور نقاد کے کردار شامل ہیں۔ کہتے ہیں کہ ایک شخص ایک وقت میں ایک ہی فیلڈ میں ماہر ہو سکتا ہے مگر یہ معقولہ شبیر ناقدؔ پر صادق نہیں آتا۔ وہ بہ یک وقت تینوں میدانوں میں ماہر ہیں اور اِن میں کارہائے نمایاں انجام دے رہے ہیں۔ جہاں تک شاعری کا تعلق ہے، اُن کے اب تک چھ شعری مجموعے ۱۔ ’’صلیبِ شعور‘‘، ۲۔ ’’من دی مسجد‘‘، ۳۔ ’’آہنگِ خاطر‘‘، ۴۔ ’’جادۂ فکر‘‘، ۵۔ ’’دل سے دور نہیں ہو تم‘‘، ۶۔ ’’صبحِ کاوش‘‘ نہ صرف زیورِ طباعت سے آراستہ ہو کر منصہ شہود پر آ چکے ہیں بلکہ قارئینِ شعروسخن اور ناقدینِ فن و ہنر سے دادوتحسین بھی پا چکے ہیں۔ اب اُن کے سات ویں شعری مجموعے کا مسودہ میرے ہاتھوں میں ہے۔
اُن کی شاعری میں جہاں زندگی کے مختلف نشیب و فراز کے تلخ و شیریں تجربات پائے جاتے ہیں، وہیں اُن میں انسان کے مختلف کردار اور رویوں کی جھلک بھی ملتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اُنھوں نے کتابیں کم پڑھی ہیں اور انسانوں کے کتابی چہروں کا مطالعہ زیادہ کیا ہے۔ وہ انسان کے ظاہری اور باطنی دونوں کرداروں سے واقفیت رکھتے ہیں۔ اِس دنیا میں تخلیقِ انسانی وہ پیکر ہے جس کا سمجھنا سب سے آسان وسہل بھی ہے اور سب سے مشکل و پیچیدہ بھی۔ شبیر ناقدؔ نے انسان کا آسان و سہل پہلو بھی سمجھاہے اور مشکل و پیچیدہ گرہیں بھی کھولی ہیں۔ اِنھی تلخ و شیریں تجربات، عمیق مشاہدات اور نازک احساسات کا مجموعہ اُن کی شاعری ہے۔ آئیے اُن کی شاعری سے چند نمونے ملاحظہ کرتے ہیں :
بہت زخم دنیا سے کھائے ہوئے ہیں
ہے جینا روایت، نبھائے ہوئے ہیں
٭
میرے چاروں طرف بے وفا لوگ ہیں
کچھ سمجھ میں نہ آئے یہ کیا لوگ ہیں
٭
وفا کی یہاں قدر و قیمت نہیں ہے
کسی کو کسی سے محبت نہیں ہے
شبیر ناقدؔ کی دوسری جہت ادیب ہے۔ اِس کارزار میں بھی اُنھوں نے گل ہائے رنگ رنگ کھلائے ہیں اور اُن کی معطر و بھینی بھینی خوشبوؤں سے ادبی ماحول کو مہکایا ہے۔ اُنھوں نے ایک کتاب بہ عنوان ’’فضاؔ اعظمی کی شاعری… تلمیحات کے آئینے میں ‘‘ تصنیف کی ہے، جس میں اُنھوں نے تلمیح کی تاریخ، تعریف، ارتقا اور اُس کی مختلف اقسام کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ بعد ازاں کثیر التصانیف شاعر فضاؔ اعظمی کی تیرہ شعری کتابوں سے تلمیحات چن چن کر اُن کو مختلف اقسام پر پرویا ہے۔ پھر اُن تلمیحات کی تشریح، توضیح اور تفسیر بیان کی ہے۔ اِسی طرح شبیر ناقدؔ ایک کتاب بہ عنوان ’’تذکرۂ شعرائے پاکستان‘‘ میرے اشاعتی ادارے ’’رنگِ ادب پبلی کیشنز‘‘، کے لیے تصنیف کر رہے ہیں جو میری فرمائش پر لکھی جا رہی ہے اور میں اُسے اپنے ادارے سے شائع کروں گا۔ اِس کتاب میں پاکستان میں موجود، بہ قیدِ حیات اور پاکستان کے 100نام ور شعرا کا انتخاب کیا گیا ہے جن پر تذکرہ لکھا جائے گا۔
جناب ابوالبیان ظہور احمد فاتحؔ شبیر ناقدؔ کے اُستادِ فن ہیں جن کی عالمانہ رائے، مفید مشوروں اوردرست سمت میں راہ نمائی سے آج وہ اِس مقام پر فائز ہوئے ہیں۔ بچے کو انگلی پکڑ کر چلنا سکھانا سرپرست کا کام ہوتا ہے، اِس کے بعد سنبھل کر چلنا اور دوڑنا بچے کی عقل و شعور، دانش مندی اور جسمانی ساخت پر منحصر ہوتا ہے۔ جناب ابوالبیان ظہور احمد فاتحؔ نے بھی شبیر ناقدؔ کو دنیائے شعروسخن میں انگلی پکڑ کر چلنا سکھا دیا تھا۔ آج وہ اِس میدان میں اپنی منزلِ معراج کی طرف، درست سمت میں اور مناسب رفتار سے رواں دواں ہیں اور ہر قسم کے حالات، مشکلات اور رکاوٹوں کا مقابلہ، قدرت کے واقعات پر صبر کرتے، انسانی رویوں کو سہتے اور اپنا مثبت کردار نبھاتے چلے جا رہے ہیں۔ شبیر ناقدؔ نے اپنے استاد کی شخصیت و فن پر ایک کتاب تصنیف کی ہے جس کا نام انھوں نے ’’کیفِ غزل‘‘ رکھا ہے۔ بہار کی ہوا خود اپنا تعارف ہوا کرتی ہے۔ جناب ابوالبیان ظہور احمد فاتحؔ کے کلام سے اہلِ شعروسخن پہلے ہی واقف تھے اور ناقدینِ فن و ہنر آشنا بھی مگر شبیر ناقدؔ کی اِس کتاب سے اُن کے فن کی مزید خوبیاں اور اوصافِ شعری نکھر اور کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔
شبیر ناقدؔ کی تیسری جہت تنقید نگاری ہے۔ یہاں اُن کو اسم بامسمیٰ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ اُن کا تخلص ناقدؔ ہے اور اِس میدان میں اُنھوں نے کچھ زیادہ ہی کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔ تنقیدی موضوع پر اُن کی اب تک 8 کتابیں شائع ہو چکی ہیں جن میں ایک کتاب ’’نقدِفن‘‘ ہے جس میں 55 سے زائد اہلِ شعروسخن پر تنقیدی و تحقیقی مضامین شامل ہیں۔ اِن مضامین کی عبارت سلیس ہونے کی بجائے دقیق ہے، آسان و عام فہم ہونے کی بجائے مشکل و پیچیدہ ہے۔ اِس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ شبیر ناقدؔ کی لفظیات عام ناقدین سے ہٹ کر ہیں۔ وہ بنی بنائی روش پر چلنے کے قائل نہیں ہیں۔ اُنھوں نے اپنے راستے خود تراشے ہیں۔ وہ اپنی تنقیدی تحریروں میں اُردو کے ٹھیٹ الفاظ کثرت سے استعمال کرتے ہیں۔ اُن کے الفاظ واحد کم اور جمع زیادہ استعمال ہوتے ہیں۔ اُن کے جملوں اور الفاظ کی تراکیب کو سمجھنے کے لیے لغت لے کر بیٹھنا پڑتا ہے کیوں کہ وہ آسان الفاظ کم اور مشکل الفاظ کثرت سے استعمال کرتے ہیں۔ یہی اُن کا اظہارِ اُسلوب ہے جس نے اُن کو تنقید کی دنیا میں پہچان عطا کی ہے۔ آئیے اُن کے ایک تنقیدی مضمون کی عبارت سے اقتباس نمونے کے طور پر ملاحظہ کرتے ہیں :
’’شاعر علی شاعرؔ کے ہاں داخلی و خارجی اظہار کی یکساں تمثیلات ہیں۔ گویا ان کا تخیل داخلیت و خارجیت کا حسیں امتزاج ہے۔ ان کا کلام عصرِ حاضر کا خوب صورت ترجمان ہے۔ انھوں نے اپنے عہد کی انتہائی عمدگی کے پیرائے میں عکاسی کی ہے، جس میں عکسِ دوراں انتہائی صاف اور شفاف دکھائی دیتا ہے۔ ان کے شعری مخزن میں عصری آشوب کے بھر پور شواہد ملتے ہیں، جس میں عصرِ حاضر کی دہشتوں ‘ ظلمتوں اور آشوب زدگیوں کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ ان کی قوتِ متخیلہ عمیق رومانیت کی غماز ہے، جس میں معاملہ بندی کی صنعت ایک شانِ دل آویزی کے ساتھ پائی جاتی ہے، جس میں وصال کی آسودگی کے پہلو بہ پہلو ایک کرب کی کیفیت بھی موجود ہے، جہاں جمالیاتی احساسات کے ساتھ ساتھ جمالیاتی اقدار کی حسین پاس داری ملتی ہے۔ ‘‘
(نقدِ فن : ص ۱۵۹)
شبیر ناقدؔ کا سب سے معروف تنقیدی سلسلہ ’’شاعراتِ ارضِ پاک‘‘ ہے جس کے جنوری 2016ء تک سات حصے منظرِ عام پر آ چکے ہیں۔ وہ ’’شاعراتِ ارضِ پاک‘‘ میں اُردو دنیا کی شاعرات کے فن پر تنقیدی مضامین لکھ رہے ہیں اور شاعرات کا منتخب کلام پیش کر رہے ہیں۔ اِس سلسلے میں وہ شاعرات بھی شامل ہیں جو، اب اِس دنیائے فانی سے کوچ کر کے ملکِ عدم میں جا بسی ہیں اور وہ شاعرات بھی شامل ہیں جو پاکستان سے باہر دنیا کے دیگر ممالک میں بہ سلسلہ روزگار و تعلیم مقیم ہیں۔ وہ شاعرات بھی شامل ہیں جو بہ قیدِ حیات ہیں اور اپنے فن سے پاکستان کا نام روشن کر رہی ہیں۔ اِس سلسلے میں شبیر ناقدؔ نے اُن شاعرات کو بھی شامل کیا ہے جو ابھی نو آموز مگر تازہ کار ہیں جن سے مستقبل میں اچھی شاعری کی اُمیدیں وابستہ کی جا سکتی ہیں۔ اِس تنقیدی سلسلے کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس کی ہر کتاب کے سرورق کو کسی ایک شاعرہ کی تصویر سے زینت دے کر سجایا جاتا ہے۔ اب تک سات حصوں پر سجنے والی شاعرات کے ناموں کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے :
۱۔ شاعراتِ ارضِ پاک حصہ اوّل پروینؔ شاکر
۲۔ شاعراتِ ارضِ پاک حصہ دوم شگفتہؔ شفیق
۳۔ شاعراتِ ارضِ پاک حصہ سوم بسملؔ صابری
۴۔ شاعراتِ ارضِ پاک حصہ چہارم صدفؔ غوری
۵۔ شاعراتِ ارضِ پاک حصہ پنجم شائستہ سحرؔ
۶۔ شاعراتِ ارضِ پاک حصہ ششم نگہتؔ عائشہ
۷۔ شاعراتِ ارضِ پاک حصہ ہفتم شاہدہؔ لطیف
شبیر ناقدؔ کے لکھے ہوئے تنقیدی مضامین تنقید کا پورا پورا حق ادا کرتے ہیں۔ وہ سخن ور کے کلام کے محاسن و معائب بیان کر دیتے ہیں۔ اُن کا اصل مقصد تنقید برائے تنقید نہیں ہوتا، تنقید برائے تعمیر ہوتا ہے تاکہ سخن ور آئندہ اصلاح فرما لیں اور نشان زد اغلاط نہ کریں۔ شبیر ناقدؔ سخن وروں کے عروضی و فنی محاسن بھی تفصیل سے لکھ دیتے ہیں تاکہ ادب میں سخن ور کے مقام و مرتبے کا تعین ہو سکے۔
آج کل ’’شاعراتِ ارضِ پاک‘‘ کے سات حصوں کی تکمیل کے بعد شبیر ناقدؔ ’’شاعراتِ ارضِ پاک‘‘ کا جامع ایڈیشن تیار کر رہے ہیں جس کے سرورق کو کراچی کی تازہ کار شاعرہ محترمہ حمیدہ سحرؔ کی تصویر سے زینت دے کر سجایا جائے گا۔ بعد ازاں ’’شاعراتِ ارضِ پاک‘‘ کا دوسراجامع ایڈیشن تیار کیا جائے گا۔ اِسی طرح شبیر ناقدؔ اپنے تنقیدی مضامین ’’میزانِ تنقید‘‘ پر کام کر رہے ہیں۔ اُن کا تصنیفی و تالیفی، تنقیدی و تحقیقی ادبی سفر تسلسل سے جاری و ساری ہے۔ وہ اپنے تینوں میدانوں کے کام یاب شہ سوار ہیں۔
اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعاگو ہوں کہ شبیر ناقدؔ کی صحت اور عمر میں اضافہ فرمائے اور اُن کے زورِ قلم کو بڑھائے تاکہ وہ اُردو ادب میں مزید کارہائے نمایاں انجام دیتے رہیں اور اُردو ادب کا دامن گوہر ہائے نایاب سے مالا مال ہوتا رہے۔
٭٭٭
کہاں کھو گیا فلسفہ اب خوشی کا؟
بھیانک ہوا رنگ کیوں زندگی کا؟
مجھے تو نے کب پیار سے ہے نوازا؟
نہ آیا قرینہ تجھے دلبری کا
کوئی نام اس کو مناسب عطا ہو
یہ جینا بھی جینا ہے کیا مفلسی کا؟
کہاں ہے دوا چارہ سازوں کے بس میں ؟
مرض مجھ کو لاحق ہے جو آگہی کا
عبث زندگانی کے ہیں دن گزارے
صلہ کب ملا ہے یہاں عاشقی کا؟
رہی زندگی خندہ زن ہم پہ ناقدؔ
فسانہ سُنائیں کسے بے کسی کا؟
نیا فلسفہ کوئی لاؤ خوشی کا
فسانہ ہے ابتر مری زندگی کا
ملے مجھ کو قسمت سے غم ہیں فراواں
سو ہے حزن عنواں مری شاعری کا
رہی تیرگی میری ہستی کا مسکن
نشاں تک نہیں جس میں اب روشنی کا
بہت بے حسی بڑھ گئی ہے جہاں میں
یہاں صید ہے ہر نفس بے حسی کا
اُسے کیا میسر ہوں خوشیاں جہاں میں ؟
جو مارا ہوا ہے یہاں مفلسی کا
مجھے فکر ناقدؔ نہیں راس آئی
کرم ایسا مجھ پر ہوا آگہی کا
ترے قہقہوں کو ترستی ہے دنیا
ترے عشوے غمزے پہ مرتی ہے دنیا
خطرناک جتنا جہاں میں کوئی ہے
اُسی اہلِ بیت سے ڈرتی ہے دنیا
یہ شیرازہ بندی سے عاری رہی ہے
یہی ہے سبب کہ بکھرتی ہے دنیا
ثبات اس کو حاصل نہیں ہے اگرچہ
مگر پھر بھی بنتی سنورتی ہے دنیا
یہ کرتی ہے کرنے کو چاہت کے دعوے
خبر ہو تمھیں پھر مکرتی ہے دنیا
سمجھتا ہوں میں اس کے انداز ناقدؔ
کہ نینوں میں میرے نکھرتی ہے دنیا
جگر ہے پیہم فگار اپنا
ہوا ہے غارت نکھار اپنا
ہماری قسمت میں رتجگے ہیں
ہے عابدوں میں شمار اپنا
سُنے جو میرے دروں کی بپتا
کوئی تو ہوتا نگار اپنا
کیے ہے رسوا تری محبت
ابھی ہے باقی بخار اپنا
ابھی جہاں میں ہیں معتبر ہم
ابھی ہے قائم وقار اپنا
تمھیں رہا پھر بھی ہم سے شکوہ
کیا ہے دل بھی نثار اپنا
جو بے کسوں کا رہا ہے حامی
وہی ہے پروردگار اپنا
وہ بے خودی میں نشہ ہے ناقدؔ
نہیں اُترتا خمار اپنا
جو زندگی میں قرار ہوتا
سماں بھی پھر پُر بہار ہوتا
مروتوں میں نمو جو ہوتی
نہ دل بھی اپنا فگار ہوتا
جو فصلِ گل ہوتی گلستاں میں
تو پھر گلوں پر نکھار ہوتا
مجھے بھی یہ آرزو رہی ہے
مرا بھی کوئی نگار ہوتا
وفا کو تجھ سے جو ہوتی نسبت
مجھے ترا انتظار ہوتا
اگر نہ ہوتا خلوص تجھ میں
مجھے بھی تجھ سے نہ پیار ہوتا
ہمیں شکایت نہ ہوتی جگ سے
اگر ہمارا وقار ہوتا
تری جفا سے نہ رہتے نالاں
اگر جفا کا شمار ہوتا
جدائی ہوتی نہ کاش ناقدؔ
وصالِ مئے کا خمار ہوتا
مجھے کوزہ گر نے ہے طُرفہ بنایا
کوئی اِس لیے ہے سمجھ بھی نہ پایا
مری آگہی صرف تھی دوش میرا
مجھے اہل دنیا نے بے حد ستایا
سخن میں کئی زاویے تھے سمائے
سبق دین و دنیا کا ہم نے پڑھایا
رہے اہلِ دنیا سمجھنے سے قاصر
وہ نغمہ جو ہم نے جہاں کو سنایا
تھا دونوں میں زعمِ انا کچھ زیادہ
نہ میں نے بلایا نہ وہ پاس آیا
ہوا علم سے ذہن میرا منوّر
پلٹتی گئی ہے بتدریج کایا
ہوئے معترف میرے اسی وصف کے سب
کہ مجھ میں تھا اخلاص بے حد سمایا
نہ تھی بادہ خواری کبھی مجھ کو زیبا
پیا جام ناقدؔ نہ میں نے پلایا
شہرتوں کے جنوں سے مفر کب رہا؟
ہے اسی نے تو مجھ کو اُجاگر کیا
زندگی نے مجھے غم دیے بارہا
خامشی سے ہے ہر اک ستم سہہ لیا
میری منزل تھی گمنامیوں کا سفر
کوئی کیسے بھلا ساتھ دیتا مرا؟
میں نے شکوہ مناسب نہ جانا کبھی
جس نے جو کچھ کیا اُس نے اچھا کیا
بے عمل رہ کے رسوا رہا عمر بھر
زعم تیرا نہ تیرے ہے کام آ سکا
دنیا داری تو میرے لیے داغ تھی
نہ کوئی آرزو نہ کوئی خواب تھا
مجھ کو اخلاص ناقدؔ ودیعت ہوا
میری فطرت میں تھی صرف جِنسِ وفا
کیا سنائیں اپنے دل کا ماجرا؟
چار سو ہے حسن کا محشر بپا
کب کسی سے کوئی ہے مخلص ہوا؟
جانِ جاں تو بے وفا میں بے وفا
کب ہماری بات ہے تم نے سنی؟
عمر بھر ٹھہرے ہیں ہم تو بے نوا
وہ تو اپنے آپ سے مخلص نہیں
گر کسی نے ہے کسی کو دل دیا
کیا ستائے اب کسی کا حسن بھی؟
دل بھی اپنا ہے کبھی کا مرچکا
زندگی ہر دم ہے ناقدؔ نوحہ خواں
کب سکوں کا ہے ہمیں لمحہ ملا؟
کچھ نہیں جیبِ ہنر میں تیری چاہت کے سوا
زندگی بے سود سی ہے تیری چاہت کے سوا
پیار بھی اخلاص بھی وافر ہے میرے قلب میں
پاس میرے ہے سبھی کچھ جنسِ نفرت کے سوا
زندگی کی بھیڑ میں اب کھو گئیں رعنائیاں
رنگ پھیکے پڑ گئے ہیں سب محبت کے سوا
تیری الفت میں بھلایا ہم نے سب سنسار کو
کچھ نہیں مطلوب ہم کو تیری قربت کے سوا
جگ کی سب آسائشیں ہیں دولت و شہرت بھی ہے
کچھ نہیں مرغوب ناقدؔ دل کی راحت کے سوا
ہر کسی سے وفا نہیں کرتا
مجھ سے ایسا ہوا نہیں کرتا
ہر کسی کو دعائیں دیتا ہوں
اپنے حق میں دعا نہیں کرتا
اپنا ناتا ہے بس مروَّت سے
میں کسی سے جفا نہیں کرتا
پیار تو یہ زمانہ کرتا ہے
پیار کا حق ادا نہیں کرتا
جس میں ناقدؔ جزا ہو صدیوں کی
ایسا سجدہ قضا نہیں کرتا
ہر کسی پہ نہ آشکار ہوا
یوں ہی حاصل نہ اعتبار ہوا
صرف مہر و وفا کو اپنایا
میں وفا کا ہی پاسدار ہوا
ہجر تیرا بہت بھیانک ہے
حادثہ پر یہ بار بار ہوا
حادثوں سے ڈرا نہ میں ہرگز
سیلِ غم کے جو میں آر پار ہوا
جس کو ہم نے عزیز جانا تھا
پھول اپنے لیے وہ خار ہوا
تم نے خوشیاں خرید لیں ناقدؔ
ہم سے صدموں کا کاروبار ہوا
کبھی بے وفائی کا طعنہ نہ دینا
مجھے کج ادائی کا طعنہ نہ دینا
ترے پیار نے مجھ کو رسوا کیا ہے
مجھے جگ ہنسائی کا طعنہ نہ دینا
مری نیک نامی ہے اخلاص و الفت
کبھی پارسائی کا طعنہ نہ دینا
محبت سے ہم کو بہت کچھ ملا ہے
غمِ آشنائی کا طعنہ نہ دینا
تری جستجو میں ہی گھائل ہے ناقدؔ
اسے خستہ پائی کا طعنہ نہ دینا
ہوا آج موسم ہے بے حد سہانا
فسانۂ غم ہو گیا ہے پُرانا
اگرچہ بہت کاوشیں میں نے کی ہیں
نہ آیا مجھے تیری یادیں بھلانا
میں پہلے ہی غم کا ستایا ہوا ہوں
کبھی بھول کر نہ مجھے تم ستانا
ہوں میں منتظر تیری آمد کا کب سے ؟
اگر ہو سکے تو مرے پاس آنا
کسی طور مجھ کو گوارا نہیں ہے
ترا پاس اغیار کے آنا جانا
جو مل بیٹھیں گے ہم سخن سازی ہو گی
کہ ہے شغل اپنا تو لکھنا لکھانا
اُسی کی حماقت کے قصے سنے ہیں
جسے زعم تھا یہ کہ میں ہوں سیانا
مری ذات مقروض ناقدؔ بہت ہے
مجھے قرض سانسوں کا بھی ہے چکانا
دعا میں ہے مولا اثر کی تمنا
ہے تیرے کرم کی نظر کی تمنا
رہوں جس میں شاداں و فرحاں سدا میں
مجھے تو ہے اک ایسے گھر کی تمنا
مجھے زندگی سے بہت پیار بھی ہے
نہیں مجھ کو ہرگز مفر کی تمنا
ترے در سے منسوب ہیں میری آسیں
نہیں ہے مجھے دربدر کی تمنا
مرے روز و شب ہوں مدینے میں مالک
کہ رکھتا ہوں میں اس نگر کی تمنا
سدا خلوتوں میں رہا تیرا ناقدؔ
اسے ہے حسیں ہمسفر کی تمنا
سدا ہم نے وفاؤں کا بھرم رکھا
اسی رستے میں ہی ہر دم قدم رکھا
ہوا کرتی ہے اُس پہ رب کی رحمت بھی
روا اوروں سے جس نے ہے کرم رکھا
مرے ہونٹوں پہ اک موجِ تبسّم ہے
ہے یوں تو اپنے سینے میں الم رکھا
نہیں خائف ہوئے تیغ و سناں سے ہم
ہے جب سے ہاتھ میں اپنے قلم رکھا
رہا ناقدؔ جہاں ہم سے گریزاں ہے
کہ دل میں سوز و غم کو ہے بہم رکھا
ہمیں تنہا نہیں کرنا
کبھی رسوا نہیں کرنا
مجھے تم سے محبت ہے
مگر چرچا نہیں کرنا
بہا کر اشک آنکھوں کو
کبھی دریا نہیں کرنا
اکیلا چھوڑ جائے جو
اُسے چاہا نہیں کرنا
نہ مل پاؤں گا میں ناقدؔ
مرا پیچھا نہیں کرنا
ادب سے سر جھکائے جا
جہاں اپنا بنائے جا
بسیرے ظلمتوں کے ہیں
اندھیرے سب مٹائے جا
لبوں پر پیاس ہو چاہے
تو ساقی بن پلائے جا
جو قاطع نفرتوں کے ہوں
تو وہ نغمے سنائے جا
ہیں خار و سنگ رستے میں
اُنھیں ناقدؔ ہٹائے جا
جس کی خاطر ہم نے جیون تج دیا
ہے اُسی نے ہی بہت شکوہ کیا
آج ہم نے کام کیا اچھا کیا
اک حسیں تصویر کو بوسہ دیا
کیا سنائیں زندگی کی داستاں ؟
جیسے بھی حالات گزرے جی لیا
یاد آئی پیاس تیرے ہجر کی
میکدے میں جب بھی میں پینے گیا
وہ رہا تا عمر محروم سکوں
جس نے جامِ عشق و الفت پی لیا
جب رفو گر ہی نہ مل پایا کوئی
چاک اپنا ہم نے خود ہی سی لیا
بن تمھارے زیست لاحاصل رہی
ہجر میں ناقدؔ جیا تو کیا جیا؟
ہمیں اپنی جنسِ وفا نے رُلایا
تمھارے سلوکِ جفا نے رُلایا
کسی اور غم سے نہ تھے رونے والے
ہمیں تیری ظالم ادا نے رُلایا
تمھاری صباحت نے راغب کیا ہے
طریقِ غرور و انا نے رُلایا
ترا وصل پایا نہ پل بھر کو ہم نے
جدائی کی حارق سزا نے رُلایا
خدا جانے انجام الفت کا کیا ہو؟
بہت پیار کی ابتدا نے رُلایا
جفائیں رہیں روز و شب تیری جاری
تِرے ظلم کی انتہا نے رُلایا
ہوئی زندگی مہرباں کب ہے ناقدؔ؟
دعا نے رُلایا دوا نے رُلایا
ہے ہر نظر اک التجا
کمیاب ہے مہر و وفا
تو نے ستم اتنا کیا
جیون بھی میں نے تج دیا
کیوں ساتھ چھوڑا آپ نے ؟
اک ساتھ رہنا تھا سدا
مجھ سے ہوئی ہے کیا خطا؟
بے درد اتنا تو بتا
ناقدؔ ہے گردش میں نظر
ہے سانس بھی رُکتا ہوا
ہے فکر کیوں یوں نارسا؟
اس کا سبب کچھ تو بتا
سُن تو سہی کہتے ہیں کیا؟
معلوم تو کر مدّعا
کیسا خوشی سے واسطہ؟
رہتے ہیں دکھ میں مبتلا
مجھ کو کسی سے کیا گلہ؟
شاکر ہوں میں جو کچھ ملا
غم سے ہے پھر بھی رابطہ
ہر چند ہے یہ لادوا
ناقدؔ رہے گا سلسلہ
جتنے کرو صدمے عطا
دھوکے بھی بہت کھائے غم بھی ہے بہت کھایا
دل تیری محبت سے کیوں باز نہیں آیا؟
تو نے جو پکارا ہے ہم بھی تو چلے آئے
وہ وقت بتا ہم کو جب پاس نہیں پایا
ہم گیت وفا کے ہیں سنگیت محبت کے
یہ پیار وہ نغمہ ہے ہر دل نے جسے گایا
تم کیسے چھپاؤ گے احسان یہ چاہت کا؟
جو رنگ محبت کا دل پہ ہے ترے چھایا
نادان سا بندہ ہے ناقدؔ یہ گدا تیرا
خالی نہ اسے لوٹا در پر جو خدا لایا
مجھے باقی سب ہے اذیت گوارا
نہیں رابطوں میں یہ غفلت گوارا
مری جان میں تو ہوں چاہت کا رسیا
کہاں ہے مجھے تیری نفرت گوارا؟
ترے ہجر نے جسم دوزخ بنایا
نہیں بے رخی کی عنایت گوارا
ترے عشق نے یہ سلیقہ سکھایا
ہوئی ہے جہاں کی کدورت گوارا
مجھے بخش دو وصل کا جام دلبر
نہیں ہے مجھے داغِ حسرت گوارا
ترا غم ملا ہے بہت کچھ ملا ہے
مجھے کیوں نہ ہو ایسی دولت گوارا؟
ترے جسم پر غیر کا ہے تسلّط
نہیں غیر کی اب حکومت گوارا
خرد نے عطا کی مجھے سرگرانی
رہی فکر و فن کی ریاضت گوارا
فقط ہے غرض تیری چاہت سے مجھ کو
جہاں کی نہیں ہے حقارت گوارا
ستم تیرے سارے گوارا ہیں ناقدؔ
نہیں غیر سے تیری چاہت گوارا
عاشقی کے اس سفر میں ہم رہے تنہا سدا
عشق تجھ سے کیا ملا اے عشق اب تو ہی بتا؟
دل کی دنیا لُٹ چکی ہے ہم نے دل کو کیا دیا؟
زندگی کی جس کی خاطر وہ ہمارا نہ ہوا
اُس نے رکھا ہے سدا ہم سے سلوک ناروا
وہ ستمگر وہ ہے جابر وہ ہے قاتل بے وفا
ہم غموں میں بھی گھرے ہیں نیر بھی جاری ہوئے
خواہشیں کی دفن جس نے دشمنِ جاں بھی بنا
دل میں ہے اک حشر برپا خواہشوں کی بھیڑ ہے
اور ناقدؔ تو ہے گم سم جانے کیا ہے ماجرا؟
ہے یاد مجھے اقرار مِرا
وہ چاہت کا اظہار مِرا
ہر گام یہ نفرت ملتی ہے
ہے ہر لمحہ پُر خار مِرا
کب مخلص میرا ہے کوئی؟
کب مونس ہے غم خوار مِرا؟
احباب تو کھوٹے سکے ہیں
اب کون بنے دلدار مِرا؟
کب کوئی سنگی ہے ناقدؔ؟
پس دل میرا ہے یار مِرا
دل صدمے دکھلائے گا
اس کو چین نہ آئے گا
جو بھی وقت گنوائے گا
آخر وہ پچھتائے گا
وہ تو لوٹ کے آئے گا
کیسے چھوڑ کے جائے گا؟
اُس کے دل میں دل میرا
دل سے دل بہلائے گا
ناقدؔ غم جب وافر ہو
کیسے نغمے گائے گا؟
بہت وقت میرا علالت میں گزرا
غموں کی سدا ہے رفاقت میں گزرا
مرے رنج و آلام ساتھی رہے ہیں
کہ پل پل مرا ہے اذیت میں گزرا
چمن سے مجھے بھی تو الفت رہی ہے
ہے جیون گلوں کی محبت میں گزرا
مجھے فخر ہے اس لیے زندگی پر
مرا وقت تیری نیابت میں گزرا
وہی میری ساعت حقیقی ہے ناقدؔ
وہ لمحہ جو ہے تیری چاہت میں گزرا
مرے دروں میں ہے نور تیرا
میں شیفتہ ہوں حضور تیرا
رہوں گا میں مضطرب ہمیشہ
ہے کرب میرا سرور تیرا
نہیں ہے احصا ستمگروں کا
ہے ذکر بین السطور تیرا
میں مرنے والا نہیں تھا ہرگز
ہے میرا قاتل غرور تیرا
تجھے کسی کی خبر نہیں ہے
ہے ذہن مستی میں چور تیرا
نہ ہوتا کچھ بھی جہاں میں ناقدؔ
اگر نہ ہوتا ظہور تیرا
مجھے ہے سدا مہ جبینوں نے لوٹا
بہت خوبرو دِل نشینوں نے لوٹا
مری زندگی ہے سراپا اذیت
کہ پل پل مجھے ہے حسینوں نے لوٹا
بنا میرا مسکن ہے مقتل کی صورت
مکاں نے نہیں ہے مکینوں نے لوٹا
میں کس کس ستم کی سناؤں کہانی؟
ترے سب جفا کے قرینوں نے لوٹا
یہاں دن سکوں کا نہیں کوئی ناقدؔ
مجھے سال کے سب مہینوں نے لوٹا
یہ دھرتی ہے تیری یہ امبر ہے تیرا
مری جان تو ہی تو دلبر ہے میرا
بھلا کیسے اعراض تجھ سے کروں میں ؟
مرے فن میں ہر دم ہے تیرا بسیرا
سدا تیرگی میری قسمت رہی ہے
نہیں دیکھا میں نے حقیقی سویرا
رہی مجھ کو حسرت ہے روشن سحر کی
مسلط رہا ہے مسلسل اندھیرا
یہاں زندگی سخت مشکل ہے ناقدؔ
جسے دیکھیے وہ بنا ہے لُٹیرا
مجھ کو غمِ حیات نے لاچار کر دیا
اک تندرست شخص کو بیمار کر دیا
حیرت ہوئی مجھے تیری طاقت کو دیکھ کر
میرے سکون کو میرا آزار کر دیا
قدرت کے فیصلے بھی تو ہوتے عجیب ہیں
میرا عدو جو تھا میرا دلدار کر دیا
راہِ خلوص میں مجھے اکثر الم ملے
صد شکر تو نے رنج کا حب دار کر دیا
قدرت وہ دن نہ لائے میں بولوں ترے خلاف
ناقدؔ مجھے تو یوں ہی گناہ گار کر دیا
ہیں کچھ دنوں سے جناب غائب
خوشی کے ہیں سب نصاب غائب
جو آپ آئے سکوں ملا ہے
ہیں غم کے سارے عذاب غائب
دروں کی دنیا اُجڑ گئی ہے
گناہ عنقا ثواب غائب
تری جفا کا شمار مشکل
ہوئے ہیں سارے حساب غائب
نظر میں ہے موجزن سمندر
مگر ہے ناقدؔ حباب غائب
پیار کچھ تو ہو گیا ہے زندگی کے ساتھ اب
ہر الم کے ساتھ اب اور ہر خوشی کے ساتھ اب
تو نے بے حد دکھ دیے ہیں غم دئیے ہیں بے شمار
یوں نبھانا ہی پڑے گا بے رخی کے ساتھ اب
یہ ردیفوں سے تہی ہے قافیوں سے پاک ہے
اک ستم یہ بھی ہوا ہے شاعری کے ساتھ اب
الفت و نفرت یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں
دوستی بھی چل رہی ہے دشمنی کے ساتھ اب
ہر تمنا کرب کا طوفاں بھی ہے ارماں بھی ہے
بڑھ گئے ناقدؔ مسائل دوستی کے ساتھ اب
اُس بے وفا کی دوستی مجھ کو نہیں مطلوب اب
رسوائی ہے تنہا ہوں میں تنہائی ہے مرغوب اب
کوئی کسی کا ساتھ کیا دے اب کوئی مخلص نہیں
کوئی نہیں ہے با وفا کوئی نہیں محبوب اب
میرا سخن میرا بیاں تو ترجمانِ عصر ہے
ہے فکر بھی میری ہوئی حالت سے منسوب اب
افکار میں رفعت بھی ہے کردار میں عظمت بھی ہے
بارگاہِ ناز میں ٹھہریں گے کیوں معتوب اب؟
جرأت و طاقت بھی ہے جذبے بھی ہیں اپنے جواں
ناقدؔ جہاں کے ظلم سے ہوتے نہیں مرعوب اب
سدا میں نے کی رتجگوں کی ریاضت
مری فکر میں اس لیے ہے فراست
ہے تنقید تو کارِ انصاف ہمدم
روا اس میں کب ہے حمایت عداوت؟
ہمیں زندگی نے دیے سخت دھوکے
ہے کمزوری اپنی شرافت مروت
ہوئے معتبر اس لیے ہم جہاں میں
بیاں میں ہمارے رہی ہے صداقت
عداوت پہ مائل ہوئے اہلِ عالم
روئیوں میں بھی ان کے ہے اک رقابت
زمانہ رہا ہے سدا ہم سے خائف
عیاں اپنی ہستی سے ہے اک جلالت
ہمیں روندتا یہ جہاں کس طرح پھر؟
مسلم تھی جگ میں ہماری ذکاوت
مرا جرم ٹھہرا حقیقت نگاری
ملی اس کی پاداش میں ہے کدورت
مری شاعری پر کوئی معترض ہے
کہ ہے سادگی سے مرا فن عبارت
محبت کے لائق ہے دنیا کو سمجھا
اگرچہ ہے ناقدؔ نے پائی اذیت
ترے قہقہوں کی مسرت ہے راحت
جو ان میں نہاں ہے وہ چاہت ہے راحت
جہاں سے مجھے کوئی رغبت نہیں ہے
جو تجھ سے ہے میری عقیدت ہے راحت
نہیں شور و شر اہل دنیا کا اچھا
مرے دیکھنے میں شرافت ہے راحت
نہیں میں ستم سے تمھارے ہراساں
تمھاری جفا کی اذیت ہے راحت
نہیں پاس ناقدؔ زمانے کی خوشیاں
نگاہوں میں میری عبادت ہے راحت
مری فکر ہے ترجمانِ حیات
مرا ذہن ہے پاسبانِ حیات
کوئی بھی یہاں مجھ کو سمجھا نہیں
ہے طرفہ مری داستانِ حیات
کئی زاویے ہیں مرے شعر کے
سخن ہے مرا ارمغانِ حیات
بپا ہر طرف دہشتیں ہیں یہاں
ہوئی بے اثر ہر فغانِ حیات
سفر اس کا ناقدؔ رُکے گا نہیں
رہے گا رواں کاروانِ حیات
سانسیں ہیں سکرات کی صورت
دن لگتا ہے رات کی صورت
ہونٹ تکلم کو ترسے ہیں
کوئی نکلے بات کی صورت
بچ کے نکلنا اب مشکل ہے
ہر سو ہے خدشات کی صورت
اس آشا میں ہم زندہ ہیں
دیکھیں گے پَربھات کی صورت
تن دھرتی کو نیر ڈبوئیں
اشک رواں برسات کی صورت
ہر دم تیری دید کو ترسوں
درشن ہے سوغات کی صورت
صورت کوئی نظر نہ آئے
بس دیکھوں صدمات کی صورت
جیون پر آشوب سماں ہے
بگڑی ہے حالات کی صورت
ناقدؔ صبر کہاں سے لاؤں ؟
دکھ پائے آفات کی صورت
ترا حسن تیری جوانی قیامت
مرے پیار کی بیکرانی قیامت
جو تصویر تیری کو میں دیکھتا ہوں
صباحت کی ہے یہ نشانی قیامت
ترے عشوے غمزے ہیں بے حد نرالے
تری ہر ادا میرے جانی قیامت
جفائیں تری کیا ستم ڈھا رہی ہیں ؟
تری دشمنی ہے پرانی قیامت
مری خامشی میں چھپی داستاں ہے
مگر ہے تری بے زبانی قیامت
مسلسل الم پہ الم لکھ رہا ہے
ہے میرے قلم کی روانی قیامت
ہوا دل اذیت سے دوچار میرا
ہے دل پہ تِری حکمرانی قیامت
کرم تیرے اوروں پہ بے حد بڑھے ہیں
مگر میری خاطر ہے ٹھانی قیامت
کبھی سکھ سکوں تو نے ناقدؔ نہ بخشا
مری زندگی تھی بنانی قیامت
مجھے ہے تمھاری دعا کی ضرورت
مرے ساتھ ہر پل وفا کی ضرورت
نہیں شئے کوئی اور مطلوب مجھ کو
ہے بس تیرے ناز و ادا کی ضرورت
جرائم سے جس نے جہاں کو ہے روندا
اُسے ہے یقیناً سزا کی ضرورت
زمانے میں ہیں بے حیائی کے چرچے
جہاں کو ہے شرم و حیا کی ضرورت
غرض اہلِ دنیا سے مجھ کو نہیں ہے
مجھے ہے خدا کی عطا کی ضرورت
نہیں صرف موقوف لطف و کرم پر
مجھے ہے تمھاری جفا کی ضرورت
نہیں خامشی تیری ناقدؔ گوارا
جہاں کو ہے تیری نوا کی ضرورت
نہ پیغام نہ کوئی بات
ہم پہ بھاری ہے یہ رات
خوشیوں کی امید نہیں ہے
اپنی قسمت ہیں صدمات
سیلِ گریہ ساتھ ہمارے
نیروں کی جاری برسات
ہم ہارے دُکھ جیت گیا ہے
غم کی جیت ہے اپنی مات
اپنا حال تو اصل میں یہ ہے
جیسے طاری ہو سکرات
کب قسمت ہیں قرب کے لمحے ؟
ناقدؔ ہجر کی ہے بہتات
دل قفس میں بھی ہے گھبرایا بہت
یاد پل پل تو ہمیں آیا بہت
کچھ ملا قسمت سے ہم کو بھی نہیں
ہر ڈگر ہر گام دُکھ پایا بہت
چین سے محروم ہیں ہم ہر گھڑی
پیار تیرا بھی تو غم لایا بہت
شکر ہے مالک ترا احسان ہے
تو نے پلٹی ہے مری کایا بہت
کیا ملا ہے ہم کو کارِ عشق سے ؟
گیت ناقدؔ اس کا ہے گایا بہت
مری زندگی کی ریاضت محبت
ہے میرے لیے اک عبادت محبت
میں تیری جفاؤں سے نالاں نہیں ہوں
حقیقت میں ہے تیری نفرت محبت
مری ذات کے ہیں یہ سب استعارے
خلوص و وفا و شرافت محبت
کرم تیرے اوروں پہ بے حد رہے ہیں
ہو کچھ تو ہمیں بھی عنایت محبت
نفاذِ شریعت ہے ناقدؔ ضروری
بڑھائے گی جگ میں خلافت محبت
تجھے مجھ سے نہ تھی الفت
سدا تو نے ہے کی نفرت
غمِ ہجراں نے مارا ہے
نہیں حاصل تری قربت
مجھے سب نے ستایا ہے
نہ مل پائی کبھی راحت
مجھے دنیا سے کیا لینا؟
مری مایا تری چاہت
مرے ناقدؔ الم وافر
خوشی سے اب نہیں رغبت
حیات میں تو نہیں رہی اب سکوں کی دولت
ہوئی میسر مجھے ہے جب سے جنوں کی دولت
بہت بڑی یہ عطا ہے مجھ پر کرم ہے اُس کا
کہ اُس نے بخشی مجھے ہے یارو غموں کی دولت
خوشی نہیں ہے تو غم نہیں ہے الم نہیں ہے
وفا پرستو گراں بہا ہے دکھوں کی دولت
نہ دنیا داروں، نہ دنیا داری سے کچھ غرض ہے
مری حقیقت، مری مروت دروں کی دولت
سدا صداقت، خلوص و الفت موانست بھی
رہی ہے ناقدؔ ازل سے ہی بے کسوں کی دولت
زندگی کا سفر مختصر مختصر
پیار کی رہگزر مختصر مختصر
تم نے کب کی ہے نظرِ کرم بھول کر؟
اے مرے چارہ گر مختصر مختصر
مات کھائی ہے ہم نے سدا جیت کر
ہے خوشی کی ڈگر مختصر مختصر
جس نے دل کو مسلسل ہے گھائل کیا
تیرا تیرِ نظر مختصر مختصر
میرے غم سے شناسا ہے سارا جہاں
ہے فغاں میں اثر مختصر مختصر
تم کو دیکھا کیا میں بڑے غور سے
صرفِ بارِ دگر مختصر مختصر
میری خاطر یہ دُکھ جان لیوا نہیں
میرا زخمی جگر مختصر مختصر
کوئی ناقدؔ نہیں فن سے مخلص یہاں
سب کو اس سے مفر مختصر مختصر
راس آیا نہیں آگہی کا سفر
باعثِ کرب ہے زندگی کا سفر
ظلمتوں میں رہا اپنا جیون سدا
کب مقدر میں ہے روشنی کا سفر؟
کوئی اپنا نہیں اجنبی ہے جہاں
جانگسل ہے بہت بے کسی کا سفر
دنیا داری سے اب رابطہ نہ رہا
ہم کو مرغوب ہے مفلسی کا سفر
شعر کہنا نہیں کوئی آساں عمل
سخت دشوار ہے شاعری کا سفر
نفسا نفسی کا عالم رہا دہر میں
اک تسلسل میں ہے بے حسی کا سفر
میرے جیون میں ہے بے کلی کا سماں
میری ریکھا میں ہے بے بسی کا سفر
اپنے جیون میں ناقدؔ جنوں جب نہیں
کب ہے زیبا مجھے عاشقی کا سفر؟
تیرا شباب محشر
غم کا عذاب محشر
رہے عشق سے گریزاں
اس کا نصاب محشر
میرا سوال طرفہ
تیرا جواب محشر
لائے ہیں کیا قیامت؟
بن کر جناب محشر
خائف نہ کیوں ہو ناقدؔ؟
اُن کا عتاب محشر
لگ رہے ہیں ہم ادھورے آج دلبر کے بغیر
کیسے پورے ہوں گے سپنے آج دلبر کے بغیر؟
گامزن تھے جن پہ دونوں یاد ہیں وہ منزلیں
سونے سونے سے ہیں راستے آج دلبر کے بغیر
ہر گھڑی ہر وقت اُن کو یاد کرتے رہتے ہیں
ہم ہیں کتنے مضطرب سے آج دلبر کے بغیر؟
دل کی دنیا کرب میں ہے ہم بھی سوزاں آج ہیں
راہِ الفت میں اکیلے آج دلبر کے بغیر
ہر طرف ہیں بارشیں آلام کی آفات کی
خود سے بھی ناقدؔ ہیں شکوے آج دلبر کے بغیر
زندگی حُزن کا اک سفر
غم پھرائے مجھے دربدر
تیری دولت کی پرواہ نہیں
چاہیے پیار کی اک نظر
میرے من میں اک آس ہے
تم بنو گے مرے چارہ گر
موت بھی اپنے بس میں نہیں
زندگی سے ہو کیسے مفر؟
مجھ کو ناقدؔ خبر یہ نہیں
پیار مجھ کو ملے کس ڈگر؟
مجھے دکھ ہوا ہے تری بات پر
مجھے نیند آئی نہیں رات بھر
مرے پیار کا نہ تمسخر اُڑا
نہیں ہے تجھے مجھ سے الفت اگر
سرِ عام اُس کو ہی روندا گیا
ترے شہر میں تھا جو بے حد نڈر
یہاں چار سو بے حسی جو ہے چھائی
کسی دل پہ ہوتا نہیں ہے اثر
نہیں زیست سے یوں تو رغبت مجھے
نہیں زندگی سے بھی ناقدؔ مفر
ہر ستم ایجاد کر
تو مجھے ناشاد کر
تجھ کو میں نے دل دیا
چاہے تو برباد کر
کوئی بھی ساتھی نہیں
اے خدا امداد کر
جس نے تنہا کر دیا
مت اُسے تو یاد کر
دل رہا محبوس ہے
اب اسے آزاد کر
یا مجھے شیریں بنا
یا مجھے فرہاد کر
کون ہے ناقدؔ ترا؟
مت عبث فریاد کر
ستم زندگی کے ہیں سب میری خاطر
خوشی تیری خاطر غضب میری خاطر
نوازش رہی تیری اوروں کی خاطر
رہا ہے ترا پیار کب میری خاطر؟
غرض کچھ نہیں مجھ کو اہلِ جہاں سے
مگر لازمی ہے ادب میری خاطر
اسے میں مقدر کی معراج سمجھوں
اگر وقف ہوں تیرے لب میری خاطر
سدا معتبر آگہی کو ہے جانا
ہے بے معنی نام و نسب میری خاطر
یہ فن بھی تو میرا اسی کی عطا ہے
چنا اُس نے ناقدؔ لقب میری خاطر
من مندر ہے سوچ سمندر
پیار ہے پنہاں میرے اندر
میں تو ہوں اب سخت پریشاں
مولا مجھ پہ رحم و کرم کر
جس نے پیت کا پاپ کیا ہے
وہ روگی ہے اور قلندر
تجھ سے میری ایک گزارش
مجھ پر ظلم ستم کچھ کم کر
ہونٹوں پر تو پیار ہی مچلے
لیکن اُن کی بغل میں خنجر
میری تو بس سوچ یہی ہے
ہر بندہ ہے مجھ سے بہتر
اپنا تو بس طور یہی ہے
دنیا میں رہنا ہے مٹ کر
میرا کب احساس ہے اُس کو؟
وہ سنگدل ہے وہ ہے پتھر
اپنی فکر تو سب کرتے ہیں
تو اوروں کا بھی کچھ غم کر
ناقدؔ تم ہو اعلیٰ ارفع
میں احقر بھی اور ہوں کم تر
تیر پہنچا ہے کیا نشانے تک؟
راز پنہاں گیا زمانے تک
میری قسمت میں گھر نہ تھا کوئی
میں کہ زندہ تھا گھر بنانے تک
سخت مشکل ہے دوستی اُس کی
سلسلہ ہے یہ آزمانے تک
زندگی حسنِ ظن سے ہے اپنی
خوش گمانی ہے ہر بہانے تک
شہر شعلوں کی زد میں جب آیا
آگ پہنچی مرے ٹھکانے تک
جیسے ممکن ہوا ترا ناقدؔ
آئے گا تیرے آستانے تک
ہم ہیں درد کے مارے لوگ
بے درماں دُکھیارے لوگ
اپنی قسمت خوشیاں کب ہیں ؟
ہم ہیں بھاگوں ہارے لوگ
کوئی تو ان میں مخلص ہو گا
کب دشمن ہیں سارے لوگ؟
غم تو سب کی قسمت میں ہے
ہیں سارے بے چارے لوگ
ایک جگہ کیا رہنا ناقدؔ؟
ہم ٹھہرے بنجارے لوگ
ذرا کاش رکھتے ہمارا خیال
ہمیں یوں نہ آتا کبھی پھر زوال
انا کا بھرم ہم نے رکھا سدا
کبھی لب پہ لائے نہ حرفِ سوال
ہمیں فکر بس دوسروں کی رہی
رہے ہیں اسی دکھ میں رہنِ ملال
مجھے اور بھی کرنے ہیں کارِ خیر
نہ تن سے ابھی روح میری نکال
ابھی خود سنبھلنے کے قابل نہیں
کرم ہو گا تیرا مجھے تو سنبھال
قویٰ مضمحل ہو گئے ہیں مرے
رہا مجھ میں باقی نہ کوئی کمال
دعا تیرے حق میں ہے ناقدؔ کی یہ
رہے معتبر تیرا حسن و جمال
زمانہ مجھے ہے ستانے پہ مائل
مرا کربِ جاں ہے بڑھانے پہ مائل
سدا اُس سے کی ہیں وفائیں ہی میں نے
تو پھر کیوں ہے وہ آزمانے پہ مائل؟
مرا دل اُسی کے ہی نغمے الاپے
مگر یار ہے دل دکھانے پہ مائل
رہی اہلِ دنیا سے الفت ہمیں تو
ہمیں یہ جہاں ہے مٹانے پہ مائل
خرد گرچہ میری معاون ہے ناقدؔ
جنوں میرا ہے دھوکہ کھانے پہ مائل
شبِ ظلمت کے مارے ہم
سدا سے بے سہارے ہم
یہ پل دو پل کا جیون ہے
کہ جیسے ہوں اُدھارے ہم
جہاں مسکن ہے دہشت کا
سو عقبیٰ کو سدھارے ہم
اگر نیّا بھنور میں ہے
کھڑے ہیں کیوں کنارے ہم؟
ہمیں سے رونقِ ہستی
ہیں ماں دھرتی کے تارے ہم
کوئی ہو ملتفت ناقدؔ
کہ ہیں دلکش نظارے ہم
ہوئے عشق میں ایسے لاچار ہم
رہے ہیں جدائی میں بیمار ہم
ترے قہقہے ہم کو مطلوب ہیں
غمِ روز و شب سے ہیں بیزار ہم
کوئی اور اپنا تقاضا نہیں
ہیں چشمِ کرم کے طلب گار ہم
عطا یوں ہوئے مستقل رتجگے
رہے منتظر اور بیدار ہم
نہ کرنا کبھی نفرتوں کا گماں
کہ ہیں دشمنوں کے بھی غمخوار ہم
ہمیں زُہد کا زَعم کوئی نہیں
خطا کار ہم ہیں گناہ گار ہم
رہا دل میں ناقدؔ غمِ دو جہاں
دکھوں کے ہیں ہر دم خریدار ہم
تیری خوشی کی خاطر تجھ سے ہیں دور پیہم
دل ہے فگار اپنا آنکھیں ہوئی ہیں پرنم
ناتا مسرتوں سے ہر دم جواں رہا ہے
خائف رہیں گے کیسے کوئی نہیں ہے جوکھم؟
تیری جدائیوں میں دن رات رو رہا ہوں
تجھ کو یہ دل پکارے آ جا اے میرے ہمدم
کالی گھٹا ہے چھائی طوفاں اُمڈ ہے آیا
کیسا ستم ہوا ہے قدرت ہوئی ہے برہم؟
کیسا کسی سے شکوہ کوئی نہیں شکایت؟
میری حریف ہر دم میری رہی ہے بیگم
ہر کوئی غم میں غلطاں خوشیاں ہوئی ہیں عنقا
ہے قحط سا خوشی کا کوئی نہیں ہے بے غم
پل پل ہوا ہے برزخ جیون مثیلِ دوزخ
میں نے سکون جگ میں پایا بہت ہی کم کم
قسمت میں کب ہے راحت لکھے گئے مصائب؟
ناقدؔ ہے بے سکونی بے چین ہوں میں ہر دم
مہیب شب کا مثیل جیون
غموں میں ہے خود کفیل جیون
مجھے رہی ہر کسی سے الفت
مرا وفا کی دلیل جیون
کبھی بھی میں نے سکوں نہ پایا
اذیتوں کی سبیل جیون
اسے کسی کی نہیں ضرورت
ہے آپ اپنا وکیل جیون
صنم نے اتنی جفائیں کی ہیں
کہ ہو گیا ہے علیل جیون
مروتیں بانٹتا رہا ہے
نہیں ہمارا بخیل جیون
مجھے محبت نہ راس آئی
گزارا میں نے ذلیل جیون
کہاں سبک رہ سکا ہوں ناقدؔ؟
عطا ہوا ہے ثقیل جیون
ہیں آگہی کے چراغ روشن
ہوئے ہیں جن سے دماغ روشن
بہار آئی کھلے ہیں غنچے
ہوئے ہیں اب سارے باغ روشن
نہ مئے رہی ہے نہ مئے پرستی
نہیں رہے اب ایاغ روشن
غموں نے مجھ کو امر کیا ہے
مرے دروں میں ہیں داغ روشن
کبھی تو قدرت کرے گی ناقدؔ
مسرتوں کے سراغ روشن
کون سمجھا ہے مرا سوز دروں ؟
کس نے پوچھا ہے مرا حالِ زبوں ؟
جس نے چھوڑا ہے اُسے اب چھوڑ دوں
کیوں کسی کے ہجر میں مرتا رہوں ؟
کیا خبر کس دیس میں ہم آ گئے ؟
پیار عنقا ہے جہاں نفرت فزوں
تو نے کی برباد میری زندگی
اس سے بڑھ کر اور تجھ کو کیا کہوں ؟
کس پہ دوں میں دوش اپنے قتل کا؟
میرا دشمن ہے فقط میرا جنوں
ہو نہ پائی پوری کوئی آرزو
ہو چکی ہے زندگی اب خواب گوں
ہے دمِ سکرات بس خواہش یہی
چہرۂ زیبا ترا میں دیکھ لوں
پیار کی دنیا تو میری لٹ چکی
کسیے آئے پاس میرے اب سکوں ؟
اک یہی حسرت رہی مجھ کو سدا
میں تری چاہت میں ناقدؔ مر مٹوں
٭٭٭
جو مجھ پہ کرم تیرے دن رات کے ہیں
کرشمے یہ تیری عنایات کے ہیں
خلوص و وفا اور مہر و محبت
یہ سب استعارے مضافات کے ہیں
ٹھٹھرتے ہیں سردی سے احباب میرے
ہوئے کتنے احسان برسات کے ہیں ؟
اگر ہم نہ ملتے تو بہتر یہی تھا
عذابات سارے ملاقات کے ہیں
ترستے رہے ہیں تری گفتگو کو
رہے منتظر ہم تری بات کے ہیں
دکھائی دیے ہیں مجھے دن کو تارے
یہ جلوے تمھاری کرامات کے ہیں
مجھے عشق تجھ سے تجھے عشق مجھ سے
فسانے یہ سارے خرابات کے ہیں
نہ دن کو سکوں ہے نہ شب کو ہے راحت
خطرناک تیور جو حالات کے ہیں
ہے آزادی نعمت خدا کی یقیناً
خیالات اہلِ حوالات کے ہیں
رقیبوں کی مت بات مانو مری جاں
یہ خوگر سدا سے خرافات کے ہیں
نہیں کچھ بھی ناقدؔ خلافِ توقع
عمل اپنے شایان صدمات کے ہیں
٭٭٭
محبت میں تیری کمی دیکھتا ہوں
مگر آنکھ میں بھی نمی دیکھتا ہوں
سماں جس کا میرے دروں میں رہا ہے
ہوا بھی جوانب تھمی دیکھتا ہوں
زمانے کی خوشیاں مرے سامنے ہیں
غموں کی بھی اک آرمی دیکھتا ہوں
سبھی چہرے اُترے ہوئے خوف سے ہیں
پریشان ہر آدمی دیکھتا ہوں
بھلا دیتا ہوں میں سبھی غم جہاں کے
ترے ہونٹ جب شبنمی دیکھتا ہوں
کوئی سانحہ ہو زمانے میں جس دم
میں دل کی فضا ماتمی دیکھتا ہوں
یہاں گردشِ وقت کو میں نے دیکھا
میں خاک اُس کے رُخ پر جمی دیکھتا ہوں
کوئی رُت مجھے راس آتی نہیں ہے
عداوت یہاں موسمی دیکھتا ہوں
سماں ایک دہشت کا پاتا ہوں ناقدؔ
خبر جب کوئی عالمی دیکھتا ہوں
جو آئی آفت تو ہٹ گیا ہوں
مثال بادل کی چھٹ گیا ہوں
میں خواب دنیا میں رہ کے یارو
حقیقی دنیا سے کٹ گیا ہوں
کوئی بھی حصہ نہیں سلامت
میں کتنے حصوں میں بٹ گیا ہوں ؟
نہیں فسانوں میں دل بہلتا
کئی فسانے جو رٹ گیا ہوں
یہ فکر مجھ کو ستا رہی ہے
میں اپنی قامت سے گھٹ گیا ہوں
کوئی ڈراوا ڈرا نہ پایا
میں کتنے تختے الٹ گیا ہوں ؟
کسی نے مجھ کو نہ دی محبت
میں آ کے تجھ سے لپٹ گیا ہوں
صدائیں تجھ کو نہ دے سکا میں
میں ڈر سے خالی پلٹ گیا ہوں
کسی طرف نہ نظر اُٹھے اب
میں خود میں ناقدؔ سمٹ گیا ہوں
ترے قہقہے بھی تو عشرت فشاں ہیں
مسرت و راحت کے یہ راز داں ہیں
شکایت نہیں ضعفِ پیری کی مجھ کو
کہ جذبات میرے ابھی تک جواں ہیں
کبھی مشکلوں سے میں ہارا نہیں ہوں
رہے ولولے میرے ہر دم تپاں ہیں
زمانے میں ہے سکھ سکوں ہم نے کھویا
رہے مستقل سوئے منزل رواں ہیں
ہمیں اور کیا دل لگانا جہاں سے ؟
سفر مختتم ہے سو ہم رفتگاں ہیں
ہمیں حسنِ ظن سے ہی نسبت رہی ہے
کہ احباب سے ہم کو اچھے گماں ہیں
جنھیں آگے بڑھنے سے رغبت رہی ہو
نہ وہ جوش جذبے نہ وہ کارواں ہیں
ہمارا حوالہ محبت ہے ناقدؔ
اُٹھائے ہوئے چاہتوں کے نشاں ہیں
نہ یہاں نہ میں وہاں ہوں تجھے کیا بتاؤں جاناں ؟
تجھے کیا خبر کہاں ہوں تجھے کیا بتاؤں جاناں ؟
جسے پڑھ کے غم غلط ہوں جسے سن کے غم رُلائیں
میں عجیب داستاں ہوں تجھے کیا بتاؤں جاناں ؟
کوئی دل دکھا کے رویا کوئی خندہ زن ہوا ہے
میں الم کا اک نشاں ہوں تجھے کیا بتاؤں جاناں ؟
برتا خلوص ہر دم اپنے قلم سے میں نے
کوئی بے خبر فغاں ہوں تجھے کیا بتاؤں جاناں ؟
کوئی نہیں ہے من میں ویراں ہے دل کی دنیا
میں اُجاڑ سا مکاں ہوں تجھے کیا بتاؤں جاناں ؟
گھیرے ہوئے ہیں مجھ کو کئی بے چگوں مصائب
کڑے کرب کا جہاں ہوں تجھے کیا بتاؤں جاناں ؟
میرا سخن ہے سوزاں دل بھی فگار میرا
بڑا دُکھ بھرا بیاں ہوں تجھے کیا بتاؤں جاناں ؟
نہ سمجھ فراق ناقدؔ ہے یہ رنگ قربتوں کا
کھِلا تیرے درمیاں ہوں تجھے کیا بتاؤں جاناں ؟
ہمیں کب ہے اعراض الفت سے جاناں ؟
ہمیں ہے غرض تیری چاہت سے جاناں
ترے پیار میں جینا مرنا ہے ہم نے
ہمیں واسطہ ہے محبت سے جاناں
سزا وار تو ہم نہ تھے اس کے ہرگز
ملا پیار تیری عنایت سے جاناں
عطا ہوں ہمیں وصل کی چند گھڑیاں
سروکار دل کی ہے راحت سے جاناں
ہمیں پل کی فرصت میسر نہیں ہے
ہمیں سابقہ ہے ریاضت سے جاناں
ہمیں راس آیا ہے اخلاص تیرا
ہے نفرت ہمیں تیری نفرت سے جاناں
بِتاؤ مرے ساتھ جیون کے لمحے
نہ مر جاؤں میں رشک و حسرت سے جاناں
غنیمت محبت میں ہیں چند سانسیں
نہیں پیار ناقدؔ کو دولت سے جاناں
ازل سے ہیں جو میرے سر بلائیں رقص کرتی ہیں
محبت میں ملی ہیں جو سزائیں رقص کرتی ہیں
مجھے کچھ بھی نہیں ہوتا سدا خوش باش رہتا ہوں
مرے حق میں مری ماں کی دعائیں رقص کرتی ہیں
ہمیں نفرت سے کیا لینا ہمیں چاہت ہے الفت سے
ہمارے دل میں ہر لمحہ وفائیں رقص کرتی ہیں
غم و آلام کا مارا کبھی میں سو بھی جاتا ہوں
مرے خوابوں میں کچھ وحشی صدائیں رقص کرتی ہیں
مسرت کیا میسر ہو جہاں کلفت کا دھرنا ہو؟
اندھیرا ہے یہاں کالی گھٹائیں رقص کرتی ہیں
اُسے ناقدؔ بھلا دوں میں بھلا کیسے یہ ممکن ہے ؟
مرے دل میں سدا اُس کی ادائیں رقص کرتی ہیں
غمِ غربت نے گھیرا ہے وفائیں بیچ ڈالی ہیں
جو مبنی تھیں مروت پر دعائیں بیچ ڈالی ہیں
سدا محتاج رہتے ہیں سدا ہے ہاتھ میں کاسہ
کہ ہم نے اپنی دھرتی کی فضائیں بیچ ڈالی ہیں
نسیمِ صبح کیا آئے چمن اپنا تو ویراں ہے ؟
چمن والوں نے بلبل کی نوائیں بیچ ڈالی ہیں
کبھی برکھا نہ چھائے گی کبھی بارش نہ برسے گی
کہ ہم وہ خود غرض ٹھہرے گھٹائیں بیچ ڈالی ہیں
کوئی فن سے نہیں مخلص سبھی بندے غرض کے ہیں
صدا کاروں نے بھی اپنی صدائیں بیچ ڈالی ہیں
حسیں لوگوں نے بیچا ہے سدا اپنی صباحت کو
تبسم بیچ ڈالا ہے ادائیں بیچ ڈالی ہیں
کہاں سے تو نے سیکھا ہے چلن بیوپار کا ناقدؔ؟
کلاہیں بیچ ڈالی ہیں قبائیں بیچ ڈالی ہیں
زندگی کا نصاب لکھتے ہیں
روز و شب کی کتاب لکھتے ہیں
بے حسی کے جہان میں رہ کر
آگہی کے عذاب لکھتے ہیں
پیار اُس کا سمجھ سے باہر ہے
دوستی ہے عتاب لکھتے ہیں
وہ جو ہم کو فریب دیتا ہے
اُس کو عالی جناب لکھتے ہیں
ساتھ دینے سے جو رہا قاصر
ہم اُسے ہمرکاب لکھتے ہیں
ہم اُسے اور کچھ نہیں کہتے
شہرِ دل کا نواب لکھتے ہیں
مثلِ میزاں ہے شاعری ناقدؔ
ہم رُتوں کا حساب لکھتے ہیں
ہر کسی سے محبتیں پائیں
یوں فزوں تر ہیں راحتیں پائیں
آپ کا شکوہ کر نہیں سکتے
آپ سے تو عنایتیں پائیں
دوش ہوتا ہے عقل کا سارا
احمقوں سے عداوتیں پائیں
زندگی خوشگوار ہے اپنی
مہرباں کچھ رفاقتیں پائیں
حاسدوں سے ہمیں شکایت کیا؟
بخت سے ہی رقابتیں پائیں
ہم کہ روشن دماغ ٹھہرے ہیں
ہے سبب یہ صداقتیں پائیں
جو رہیں گی سدا امر جگ میں
ہم نے ایسی روایتیں پائیں
جن میں عنقا خلوص ہو ناقدؔ
ایسی کب ہم نے جدتیں پائیں ؟
دسترس میں زمیں ہے نہ اب آسماں
کچھ سمجھ میں نہ آئے کہ جاؤں کہاں ؟
فرقتیں کرب ہیں قربتیں امتحاں
کب ملا مجھ کو قسمت سے آرامِ جاں ؟
آفتوں کے جلو میں ہے جیون ملا
ہیں نشیمن پہ میرے گریں بجلیاں
بے حسی کا تسلط رہا ہر طرف
بے اثر رہ گئی یوں ہی میری فغاں
کب کسی نے مجھے ہے سہارا دیا؟
کس قدر ہو گیا ہے یہ ظالم جہاں ؟
بے وفا دہر ہے بے کسی قہر ہے
دہشتیں ہر طرف اب ہیں ناقدؔ جواں
کچھ خواب خیال میں رہنے دو
ہم کو اس حال میں رہنے دو
یہ دنیا چار دنوں کی ہے
کچھ مال منال میں رہنے دو
ہم پیار کریں گے آئندہ
اس جاری سال میں رہنے دو
یہ راس ہمیں آیا ہے بہت
اس کرب دھمال میں رہنے دو
مت ناقدؔ اتنا تنگ کرو
ہمیں اپنی کھال میں رہنے دو
مجھے اذنِ تکلم دو جو کہتا ہوں وہ کہنے دو
میں اک باغی بشر ہوں بس مجھے باغی ہی رہنے دو
غبارِ دل ذرا نکلے کہ دل کا بوجھ ہلکا ہو
مرے تم اشک مت پونچھو مرے یہ نیر بہنے دو
مجھے خود سے گزرنا ہے سفر ایسے ہی کرنا ہے
کہ خود کو آزمانا ہے ستم جتنے ہیں سہنے دو
اسے دو لاج کا زیور نہ تم بازار میں لاؤ
ہے عورت گھر کی زینت پہننے کو اس کو گہنے دو
ہمیشہ دنیا و برزخ کو ناقدؔ ایک سا جانا
وہاں بھی دو ہی پہنوں گا یہاں کپڑے ہیں پہنے دو
نہیں ہے غرض ہم کو شہرت سے یارو
تعلق ہے فن کی ریاضت سے یارو
بھلا کیسے لب پہ ہو حرفِ شکایت؟
ہمیں سب نے لوٹا ہے الفت سے یارو
طلب گار چاہت کی دنیا ہے ساری
ہمیں عشق ٹھہرا ہے نفرت سے یارو
ہیں مانوس حزن و مصائب سے ہم تو
مزہ ہم نے پایا اذیت سے یارو
محبت سے لُوٹو جسے لوٹنا ہے
نہیں زہر بڑھ کر محبت سے یارو
کسی سے بھی ناقدؔ کرے گا نہ شکوہ
کہ ہے تنگ حرفِ شکایت سے یارو
محبتوں کی ضیا سے اہل جہاں کو اپنا اسیر کر لو
روا کسی سے نہ ہو کدورت کچھ ایسا اپنا ضمیر کر لو
شرور سے دور تم رہو اور خیر سے دوستی سدا ہو
عمل سے وابستہ عاقبت ہے عمل کو منکر نکیر کر لو
تمھارا حامی تمھارا ناصر تمھارا مالک فقط خدا ہے
کسی سے ہر گز مدد نہ مانگو اُسی کو اپنا نصیر کر لو
یہ سیم و زر اور مال و دولت یہ سب خزائن ہیں عارضی سے
تمھارا ایمان رہنما ہو اسی کو نقدِ کثیر کر لو
جو سب کا مونس ہے سب کا مخلص ہے ساری دنیا سے معتبر ہے
بناؤ تم پیشوا اُسی کو اُسے ہی اپنا امیر کر لو
ریا سے عاری عبادتیں ہوں خلوص آگیں ریاضتیں ہوں
ضرور ہو کچھ نہ کچھ بھلائی صغیر کر لو کبیر کر لو
خلوص جانِ وقار ٹھہرے وفا تمھارا شعار ٹھہرے
بساؤ دل میں نہ تم تکبر خودی کو اپنی فقیر کر لو
نہ ہونا ہرگز غلامِ خواہش تمھارا ناقدؔ چلن ہو کاوش
کہ نورِ شعر و سخن سے اپنی حیات کو مستنیر کر لو
جو وعدہ کیا تھا وفا تو کرو
کچھ مرے پیار کا حق ادا تو کرو
ہے یہ تسلیم قاصر وفا سے ہو تم
اے مری جان مجھ سے جفا تو کرو
خدمتِ خلق میں ہی سکوں دل کا ہے
جس قدر ہو سکے تم بھلا تو کرو
آیا ہوں شہرِ خوباں میں ملنے تمھیں
اے مرے دلربا تم ملا تو کرو
میں بھلا دوں گا دنیا تمھارے لیے
اک ذرا قرب ناقدؔ عطا تو کرو
ساجن گیت وفا کے گاؤ
اپنے میت کا ساتھ نبھاؤ
دُکھ ہی دیتے ہو تم اکثر
خوشیوں کا تحفہ بھی لاؤ
اُس کی دلجوئی ہے لازم
جب کوئی دکھیارا پاؤ
ساتھ تمھارا دے جو ہر دم
تم اُس کے ساتھی بن جاؤ
جس کا جگ میں کوئی نہیں ہے
ناقدؔ اُس کا من پرچاؤ
تم ہو چنچل کرن یاد آتی رہو
اے مری گل بدن یاد آتی رہو
تم سے برپا ہے جشنِ بہاراں مرا
رشکِ سر و سمن یاد آتی رہو
تم سے قائم چمن کی یہ مہکار ہے
غیرتِ نسترن یاد آتی رہو
غیر ممکن ہے میں بھول جاؤں تمھیں
تم ہو جانِ چمن یاد آتی رہو
عشوے غمزے تمھارے ہیں قاتل مرے
تم سے ہے بانکپن یاد آتی رہو
تم سے ناقدؔ زمیں پر ہیں رعنائیاں
تم سے تاباں گگن یاد آتی رہو
کٹھن ہے سخن کا سفر جان جاؤ
حقیقت ہے جانِ جگر جان جاؤ
سمجھ میں یہاں کچھ بھی آتا نہیں ہے
ہے پُر خار یہ رہگزر جان جاؤ
زمیں چھن گئی آسماں چھن گیا ہے
نہیں ہے یہ جھوٹی خبر جان جاؤ
غموں سے سدا دوستانہ رہا ہے
ہے من بھی غموں کا نگر جان جاؤ
ملی ہے تمھیں غم سے جو رُستگاری
ہے اپنی دعا کا اثر جان جاؤ
نہ ظلمت رہے گی نہ وحشت رہے گی
ہے ناقدؔ مقدر سحر جان جاؤ
مری جاں بہت خوب صورت ہے تو
جو من میں بسی ہے وہ مورت ہے تو
ستم گر ہمیں اب گلے سے لگا
ہمیں کس لیے ایسے گھورت ہے تو؟
مجھے اب کسی کی طلب ہی نہیں
فقط دلربا اک ضرورت ہے تو
بہت دور ہے پیار اخلاص سے
مرے دوست وقفِ کدورت ہے تو
بنا تیرے ناقدؔ میں کیسے رہوں ؟
مری عاشقی کی مہورت ہے تو
خدا کا کرو خوف سونے مجھے دو
میں کھویا ہوا ہوں تو کھونے مجھے دو
خوشی سے مجھے اب کے نفرت ہوئی ہے
اگر رو رہا ہوں تو رونے مجھے دو
مرے نیر نینوں سے تم اب نہ روکو
کہ اشکوں سے دامن کو دھونے مجھے دو
بقا میری ٹھہریں گے میرے نوشتے
ذرا معتبر بھی تو ہونے مجھے دو
گرایا ہے تو نے محل یاد کا جو
سو بکھرا ہوا ملبہ ڈھونے مجھے دو
رہا نفرتوں کا سدا راج ناقدؔ
یہاں بیج الفت کا بونے مجھے دو
رہی زندگی کی ادا محرمانہ
مرا کام تو ہے ہوا معجزانہ
مجھے تلخیوں سے مفر کب رہا ہے ؟
مصائب سے میرا رہا دوستانہ
حقیقت پسندی کی یہ اک عطا ہے
کہ انداز میرا بنا ناقدانہ
مری تجھ سے تو اک شکایت یہی ہے
جفا تیری مجھ سے رو احمقانہ
مجھے اس لیے کوئی بھی غم نہیں ہے
کہ پائی ہے میں نے سزا عاقالانہ
مِرا حزن ٹھہرا ہے پہچان میری
اسی میں ہی لکھا گیا آب و دانہ
سدا تیرا ممنوں یہ ناقدؔ رہے گا
کرو اس پہ کوئی عطا مشفقانہ
تیری یادوں سے حسیں ہے زندگی
راس آئی ہے مجھے یہ دوستی
تو نے میرے غم کو شدت بخش دی
تو نے بخشی ہے مجھے یہ بے کلی
پیار تیرا ہے ہمیں پاگل کیے
مار ڈالے گی ہمیں یہ بے رخی
پیار کے قابل نہیں کوئی یہاں
کیا کسی سے ہو ہماری دل لگی؟
ہم کو بخشا عشق نے اخلاص ہے
کیا کریں گے ہم کسی سے دشمنی؟
پیار کے نغمے سدا ہم نے لکھے
لائقِ تحسین اپنی آگہی
ہم کو اوروں کی نہیں کوئی خبر
پیار تیرا ہے ہماری بے خودی
الفتوں کی روشنی کو عام کر
رکھ نہ دل میں نفرتوں کی تیرگی
میرے بس میں کچھ نہیں بے بس ہوں میں
میری قاتل ہے مری یہ بے بسی
چہرۂ زیبا تمھارا دیکھ لوں
یہ تمنا ہے مجھے اب ہر گھڑی
آہ تو میری رہی ہے نارسا
رہ گئی شاید دعا میں کچھ کمی
مجھ کو دنیا سے غرض ناقدؔ نہیں
بخش دی تو نے مجھے وہ سر خوشی
ہمیں راس آئی نہیں دنیا داری
کہ ہم نے اسے محض سمجھا خواری
یہی ہم نے بس راہِ ہستی میں جانا
ادب سے نہیں کوئی بھی چیز پیاری
مجھے شک ہے امشب نہ آؤ گے جاناں
سو کرتا رہوں گا میں اختر شماری
لڑی ہے مری آنکھ جس دن سے تجھ سے
بڑھی جا رہی ہے مری بے قراری
کرو چاہے جتنی جفائیں بھی جاناں
یہ دل ہے تمھارا یہ دھڑکن تمھاری
تمھیں پہ ہی میں وار بیٹھا ہوں تن من
تمھارے لیے ہے مری جاں سپاری
میں نا آشنا ہوں مسرت سے ناقدؔ
ہے دنیا دروں کی مری غم کی ماری
اذیتوں کا سماں ہے ہستی
ازل سے محوِ فغاں ہے ہستی
چہار سو جب ہوں نفرتیں ہی
تو اک خروشِ سگاں ہے ہستی
سمجھ نہ پایا اسے کبھی جو
اُسی سے شکوہ کُناں ہے ہستی
اگر ہو فکر و عمل سلامت
تو ایک جنت سماں ہے ہستی
اگر ہوں فکر و نظر پہ پہرے
سمجھ لو دوزخ نشاں ہے ہستی
مہیب منظر الم کے سارے
مگر سدا سے جواں ہے ہستی
کوئی اسے کب ڈرا سکا ہے ؟
جہاں کی روحِ رواں ہے ہستی
خیال کوچے خزاں نگر میں
عجیب ناقدؔ مکاں ہے ہستی
معتبر ہر عہد میں اپنی رہے گی آگہی
پُر تکلف نثر ہے اور سہل تر ہے شاعری
سہل شبدوں کی زباں برتی ہے اکثر شعر میں
اس لیے چھوڑی نہ میں نے بات کوئی ان کہی
دور ہیں جوشِ جنوں سے زندگی خوش حال ہے
پھوٹتی ہے اپنے پہلو سے خرد کی روشنی
اپنی قسمت پر ہمیشہ میں تو ہوں قانع رہا
یوں مشیت کی ودیعت پر کیا ہے شکر بھی
پابجولاں میں رہا ہوں احمقوں کی قید میں
جبرِ پیہم نے مجھے سکھلائی ہے آمادگی
کیا کسی کے پیار میں پائیں گے ہم رسوائیاں ؟
عشق سے واقف نہیں تو کیا کریں گے عاشقی؟
پاس اپنے وقت کا کچھ اور مصرف ہی نہیں
خدمتِ فن روز و شب کرتا ہوں میں تو ہر گھڑی
کوئی ارماں کوئی خواہش آج کل ناقدؔ نہیں
ماورائے آرزو رہ کر گزاری زندگی
مجھے زندگی نے ہے مہلت کہاں دی؟
کسی سے محبت کی دولت کہاں دی؟
سدا کام جس کا ہے ایزا رسانی
مشیت نے اُس کو ہے راحت کہاں دی؟
رہا شغل جس کا سدا عیب جوئی
بھلی اُس کو قسمت نے سیرت کہاں دی؟
ملی ہے جسے خود غرض سی طبیعت
خدا نے اُسے ہے قناعت کہاں دی؟
کسی کی محبت میں لکھتا میں نغمے
ادب نے مجھے ہے فراغت کہاں دی؟
کدورت رہی جس کے خاطر میں پیہم
ہے قسمت نے اُس کو محبت کہاں دی؟
حسد جس کو ہر دم جلاتا رہا ہے
ہے قدرت نے اُس کو مروت کہاں دی؟
ستم پر ستم اُس نے ناقدؔ کیے ہیں
کبھی بھول کر اُس نے چاہت کہاں دی؟
عبارت مسائل سے ہے زندگانی
مقدر میں لکھی گئی سرگرانی
نئے روپ میں غم ہویدا ہوا ہے
نہ ہونٹوں پہ نم ہے نہ آنکھوں میں پانی
قلم اپنا رو کے سے رُکتا نہیں ہے
مشیت سے پائی ہے اس نے روانی
کسی غم سے میں ٹوٹا پھوٹا نہیں ہوں
ازل سے ہے پُرکیف میری کہانی
کوئی معترض ہو بھلا مجھ پہ کیسے ؟
کہ پائی ہے بے داغ میں نے جوانی
جو ہیں با بصیرت مرے قدر داں ہیں
کریں نا سمجھ کیا میری قدر دانی؟
مری سوچ کے مختلف زاویے ہیں
مری فکر سے ہے عیاں بیکرانی
عمل سے ہے منسوب ناقدؔ کا جیون
نہیں اس کے دعوے سراسر زبانی
دن کو بے چینی بد حالی
رات نہیں خطروں سے خالی
جیون پر آشوب سماں ہے
جیسے اک ڈائن ہو کالی
محو تری تمجید میں پیہم
پتا پتا، ڈالی ڈالی
پیاسے میرے ہونٹ ازل سے
تیرے لب پر چمکے لالی
تیرا راستہ تکتے تکتے
رہ گئے میرے نین سوالی
تنہا تنہا جیون پایا
نہ گھر نہ کوئی گھر والی
جبر ہے ناقدؔ جی زوروں پر
کس ظالم نے ریت یہ ڈالی؟
خوشی کے بدلے خوشی ملے گی
اسی سے ہی زندگی ملے گی
قیام اپنا ہے مختصر سا
مگر بہت شاعری ملے گی
مروتوں کو فروغ بخشیں
نہ پھر کہیں بے کسی ملے گی
سدا غریبوں کے کام آئیں
رضا خداوند کی ملے گی
محبتوں کے دئیے جلائیں
ہمیں نہ پھر دشمنی ملے گی
وفا کے نغمے سدا آلاپیں
سخن میں پھر آگہی ملے گی
ہے ظلمتِ شب سے جنگ لازم
گریز پا تیرگی ملے گی
وفا ہو ناقدؔ شعار تیرا
تجھے نہ پھر بے رُخی ملے گی
بِتائے ہیں مشکل سے دن بے بسی کے
فسانے ہیں ظالم شبِ تیرگی کے
میں ہوں رنج پرور مجھے اور بھی دو
مرے دُکھ ثمر ہیں مری بے کسی کے
میں کس کس کرم کی سناؤں کہانی؟
ستم دیکھے کیا کیا تری بے رُخی کے
مقدر سدا سرگرانی رہی ہے
ہوئے مجھ پہ احساں بہت زندگی کے
یہی کچھ میسر ہوا ہے جہاں میں
اُٹھائے ہیں صدمے تری عاشقی کے
رہے ہیں جواں میرے ہر پل مصائب
ملے ہیں صلے یہ مجھے آگہی کے
تہی قافیوں سے ردیفوں سے جو ہے
مسائل بہت سے ہیں اُس شاعری کے
مرا اُن سے اعراض ممکن نہ ہو گا
ملیں جس قدر غم تری دوستی کے
اُسی دور میں زندگی ہم نے کی ہے
کہ چرچے تھے جس میں بہت خودکشی کے
کسی کی رقابت نہ ہو پائی حائل
عدو بھی تو قابل نہ تھے دشمنی کے
کریں عرض کیا وہ ادا کیا تھی ایسی؟
کہ ہم ہو گئے شیفتہ اجنبی کے
مجھے کیا غرض ایسی باتوں سے ناقدؔ؟
نہ قصے سناؤ مجھے دل لگی کے
جو سوز ہے گداز ہے
وہ بے خودی کا راز ہے
کسی کی جو تلاش ہے
وہی مری نماز ہے
یہ راہ مختصر نہیں
سفر مرا دراز ہے
جفا تری روا ہے یوں
یہ راز ہے نیاز ہے
وہ شعر ساز چل دیے
نہ فیض نَے فراز ہے
وصال جاں نواز تھا
فراق دل گداز ہے
خبر ہو ناقدؔ حزیں
جفا کا کیا جواز ہے ؟
حیات مستعار ہے
کب اس پہ اختیار ہے ؟
مجھے جفا سے کیا غرض؟
وفا مرا شعار ہے
ہو مفلسی سے کیا گلہ؟
کہ یہ مرا وقار ہے
کسی سے کیا ہو دل لگی؟
کہ دل مرا فگار ہے
عذاب سی ہے زندگی
ازل سے بے قرار ہے
ہے بے خودی بھی اک نشہ
بنا پیئے خمار ہے
مجھے خزاں کا خوف کیا؟
کہ دل تو پُر بہار ہے
نہیں ہے ایک غم یہاں
دکھوں کی اک قطار ہے
اے ناقدِؔ حزیں سنو
الم بھی اک نکھار ہے
اگرچہ مرے پاس غم ہیں فراواں مگر لب پہ میرے دہائی نہیں ہے
مرا حزن پنہاں ہے میرے دروں میں کبھی داستاں خود سنائی نہیں ہے
جہاں ایک شاہد ہے اہلِ جہاں معترف اور مشتاق میرے رہے ہیں
سدا میں رہا ہوں حقیقت کا حامی، حقیقت ہے یہ خود ستائی نہیں ہے
ترے عشق نے درد و غم سے نوازا بنی زندگانی عقوبت کا ساماں
زباں پر ترا ذکر ہر دم رہا ہے کبھی یاد تیری بھلائی نہیں ہے
سفر میرا ویران گمنام راہوں کی ہے اک مسافت اذیت جواں ہے
مرے بس میں تجھ سے نہیں میرا ملنا کہ تجھ تک تو میری رسائی نہیں ہے
ملی مجھ کو ورثے میں غربت، فلاکت، مرے بچے خوش حال رہتے بھلا کیا؟
مسائل سے پیہم الجھتا رہا ہوں سو جاگیر اب تک بنائی نہیں ہے
مری اور کوئی حقیقت نہیں ہے میں بیمارِ الفت ہوں دُکھ دائمی ہے
یہ افسوس ہے مجھ سے کہتا ہے میرا مسیحائی تمھاری دوائی نہیں ہے
رہی مجھ کو شعر و ادب سے ہی نسبت میسر نہ تھی اور کوئی بھی فرحت
کبھی تیرے ناقدؔ نے پائی نہ فرصت سکوں سے یہ ہستی بتائی نہیں ہے
زندگی کس کرب کی تفسیر ہے ؟
چیستاں سی آج تک تحریر ہے
جس کے رنجِ ہجر میں غلطاں رہو
اب کہاں ایسی کوئی تصویر ہے ؟
داستانیں ہیں یہ ساری ناتمام
ہے کہیں عذرا کسی میں ہیر ہے
معترف میرے سخن کا ہے جہاں
میرے سر پر دستِ لطفِ میر ہے
یوں ہی خائف مجھ سے ہیں اہل جہاں
پاس اپنے کب تفنگ و تیر ہے ؟
محوِ غم پڑھ کر ہوا سارا جہاں
داستانِ دل مری دل گیر ہے
درد و غم سے اب مفر ممکن کہاں ؟
کرنے والا کب کوئی تدبیر ہے ؟
ضبط کی دولت ہوئی ناقدؔ عطا
کوئی نالہ ہے نہ کوئی نیر ہے
اگر کوئی دلربا نہیں ہے
تو زندگی خوشنما نہیں ہے
اذیتوں میں حیات گزری
یہ پیار کیسے خطا نہیں ہے ؟
سکوں سے پل بھر جیا نہیں میں
حیات بھی کیا سزا نہیں ہے ؟
اُس کی مجھ کو ہے فکر پیہم
وفا جو پیماں ہوا نہیں ہے
جنوں نے مجھ کو کیا ہے رسوا
جسے ہے چاہا ملا نہیں ہے
ہوں معتقد میں تمھارا دل سے
جفا تمھاری جفا نہیں ہے
مجھے ہے قدرت نے صبر بخشا
جہاں کی کوئی عطا نہیں ہے
میں آگہی کے عذاب میں ہوں
مِرے مرض کی دوا نہیں ہے
وہ جس نے رب کو بھلا دیا ہے
اُسی کے لب پر دعا نہیں ہے
میں جس کو دیتا رہا صدائیں
وہ ساتھ ناقدؔ رہا نہیں ہے
محبتوں کا ثمر نہیں ہے
وفا میں کوئی اثر نہیں ہے
جو میرے حق میں نہیں ہے مخلص
اُسی سے مجھ کو مفر نہیں ہے
ہے زندگی گو مگو سی اُس کی
وہ جس کو دردِ جگر نہیں ہے
نہ جس میں پاؤں جھلک حیا کی
کوئی بھی ایسی نظر نہیں ہے
جفا کا پیہم عذاب جھیلا
خوشی کی کوئی ڈگر نہیں ہے
رواں دواں میں ہوں سوئے منزل
کوئی مرا ہم سفر نہیں ہے
جو روز و شب غم کو بانٹتا ہے
کسی کا وہ چارہ گر نہیں ہے
نگاہیں اپنی جمی ہیں ناقدؔ
وہ مہ جبیں بام پر نہیں ہے
کسی کی صباحت جو دھیمی ہوئی ہے
جہاں کی محبت بھی کم ہو گئی ہے
ہیں اخلاق عالی سے محروم صاحب
یہاں چار سو بے حسی کج روی ہے
نہ جینے کے لائق نہ مرنے کے قابل
سو کچھ ایسی حالت مری اب ہوئی ہے
مرے چاروں جانب جفا ہے ستم ہیں
بتا میرے مالک یہ کیسی گھڑی ہے ؟
نہ اخلاص ہے اب نہ انسانیت بھی
فقط بے کسی ہے فقط دشمنی ہے
کوئی داستاں میری کیسے سنے گا؟
یہاں ہر کسی کو تو اپنی پڑی ہے
کبھی تو نے الفت کے لائق نہ جانا
عجب دوستی ہے جفا بے رُخی ہے
بہت کچھ اگرچہ ہے ناقدؔ کہا بھی
مری بات لیکن رہی ان کہی ہے
لگے خوب ہیں آپ کے قہقہے
ہیں جس دم بھی ہم نے سُنے قہقہے
نہیں کچھ بھی ہم کو ملا آپ سے
فقط آپ سے ہیں ملے قہقہے
تبسّم سے ہم سیر ہوتے نہیں
ہماری ضرورت رہے قہقہے
خوشی اور کوئی نہیں راس اب
مسرت سے بھی ہیں بھلے قہقہے
کوئی اور اپنی تو دولت نہیں
فقط اپنی پونجی ترے قہقہے
جہاں سمجھا دیوانہ ناقدؔ ہمیں
ہماری طلب پر لگے قہقہے
اک اذیت کو پال رکھا ہے
پاس اپنے یہ مال رکھا ہے
پیار کے کیا فریب کھائیں ہم؟
خود کو ہم نے سنبھال رکھا ہے
کوئی آئے نہ فن کی دنیا میں
اس جہاں میں ملال رکھا ہے
ایسے عالم نہیں ہوا شیدا
رب نے مجھ میں کمال رکھا ہے
یاد اُس کی بھلا نہیں پایا
سلسلہ اک بحال رکھا ہے
مجھ سے سجنی کو کیا شکایت ہو؟
اُس نے گھر سے نکال رکھا ہے
کوئی مجھ سے خفا نہ ہو ناقدؔ
بس یہی اک خیال رکھا ہے
نہ گھر میں سکوں ہے نہ باہر سکوں ہے
ہوئی چار سو اب تو حالت زبوں ہے
نہ کیوں اتنا مسرور و شاداں ہو دلبر؟
نہ الفت کسی سے نہ جوشِ جنوں ہے
کوئی اور دولت میں رکھتا نہیں ہوں
مرے پاس تو صرف سوزِ دروں ہے
گزارا ہے خوابوں خیالوں میں جیون
لگی اپنی ہستی ہمیں خواب گوں ہے
کسی نے بھی چاہت کے لائق نہ جانا
ہوا اس لیے حزن میرا فزوں ہے
مرا غم نرالا ہے سارے جہاں سے
رہا درد میرا سدا بے چگوں ہے
نہ کیوں مجھ کو سکھ چین حاصل ہو ناقدؔ؟
محبت کا مجھ پہ نہ کوئی فسوں ہے
طلوعِ غزل ہے مرا قہقہوں سے
کہ نسبت نہیں ہے مجھے اب غموں سے
ستم کتنے جھیلا کیے مہ وشوں کے ؟
کوئی جا کے پوچھے کبھی عاشقوں سے
شب و روز کتنے گراں ہو گئے ہیں ؟
نہ پوچھا کسی نے کبھی بے کسوں سے
مسلّط کوئی دکھ نہ ہو پایا مجھ پر
شب و روزِ ہستی کٹے خواب گوں سے
عدو کی عداوت بنی سنگِ منزل
شکایت نہیں ہے ہمیں دوستوں سے
مرے شعر میں اور بھی ہیں خصائص
سجا ہے سخن اپنا سوزِ دروں سے
کوئی ان کا واضح تشخص نہیں تھا
گریزاں رہے اس لیے الفتوں سے
کبھی قرب ناقدؔ کو بخشا نہیں ہے
یہ شکوہ رہا ہے اُسے مہ رخوں سے
٭٭٭
تشکر: ناصر ملک جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی شکیل: اعجاز عبید