فہرست مضامین
- کتاب زیست
- اختر سروشؔ
- جمع و ترتیب: اعجاز عبید
-
- زندگی کے سراب سے بچنا
- دوستی کی روپ میں دھوکہ ملا
- میں بھول جاؤں جسے یہ وہ حادثہ بھی نہیں
- یہ مرے ساتھ کیا کیا تم نے
- آنکھوں میں سمندر ہے اب دیکھئے کیا ہوگا
- نہ جانے کون آنکھوں میں بسا ہے
- پھول گلدان میں سجا رکھنا
- کیجئے پیار چاہتوں کے عوض
- جینے کے لئے کوئی ہنر ڈھونڈ رہا ہوں
- جن کو دعویٰ تھا زمانے میں شناسائی کا
- محبتوں کا بھی نفرتوں میں شمار آیا تو کیا کرو گے ؟
- دیکھیں کسی سے جھوٹی محبت نہ کیجئے
- ان کے کوچے میں گھر بنایا ہے
- کسی کے آنکھ سے ایک بار جو گرا آنسو
- رات دن اک آئینہ دیکھا کیا
- یہ اور بات چھپا لو، تمہیں ہوا کیا ہے
- تو اگر ساتھ چل رہا ہوتا
- Related
- اختر سروشؔ
کتاب زیست
اختر سروشؔ
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
زندگی کے سراب سے بچنا
عمر بھر کے عذاب سے بچنا
جس کی انگڑائی ہوش گم کر دے
ایسے کافر شباب سے بچنا
جو خود اپنے ہی گھر کا دشمن ہو
ایسے خانہ خراب سے بچنا
جس کے پہلو میں لاکھ کانٹے ہوں
ایسے رنگیں گلاب سے بچنا
بے سبب دل نہ ٹوٹ جائیں کہیں
دل لگی میں حساب سے بچنا
پڑھتے رہنا کتاب زیست مگر
بے وفائی کے باب سے بچنا
آگہی خود عذاب ہے لیکن
بے خودی کی شراب سے بچنا
٭٭٭
دوستی کی روپ میں دھوکہ ملا
جو تبسم بھی ملا جھوٹا ملا
دوستی کے زخم جس نے کھائے تھے
دشمنی کی لاش پر روتا ملا
جوڑتا تھا قلب جو ٹوٹے ہوئے
وہ خود اپنی ذات میں ٹوٹ ملا
جو خود اپنی ذات میں اک بزم تھا
وہ مجھے جب بھی ملا تنہا ملا
جاگتا تھا جو کسی کے واسطے
وہ بھی آخر ایک دن سوتا ملا
زندگانی اس طرح بدلی کہ بس
ہر کوئی آفت زدہ سہما ملا
بجھ رہا تھا جب چراغ زندگی
ایک احساس زیاں جلتا ملا
کس سے بولیں کس سے حال دل کہیں
ہر کوئی اپنا ہی گرویدہ ملا
شہر کیا ہے ایک بزم کار زار
ہر کوئی حالات سے لڑتا ملا
٭٭٭
میں بھول جاؤں جسے یہ وہ حادثہ بھی نہیں
وہ آج ایسے ملا جیسے جانتا بھی نہیں
حسین اس سے جہاں میں کوئی سوا بھی نہیں
یہ اور بات ہے کہ میں اس کو چاہتا بھی نہیں
مرے خیال کی دہلیز پر وہ آ بیٹھا
اب اس سے بچ کے گزرنے کا راستہ بھی نہیں
زہے نصیب وہ ناراض ہو گئے ہم سے
یہ اور بات ہے کہ اپنی کوئی خطا بھی نہیں
کسے خبر تھی کہ سورج بھی ڈوب جائے گا
اس اک مکان سے جس میں کوئی دیا بھی نہیں
سجائے رکھتا ہے اشکوں کے دیپ پلکوں پر
عجیب شخص ہے کچھ منہ سے بولتا بھی نہیں
ہماری سمت سبھی راستے سمٹ آئے
تمہاری سمت ابھی یہ قدم اٹھا بھی نہیں
کسی کی رات ہے روشن چراغ کے مانند
کسی مکان میں بجھتا ہوا دیا بھی نہیں
گناہگار نگاہوں نے یہ بھی دیکھا ہے
گناہگار ہوا جس نے کچھ کیا بھی نہیں
لو ہم نے زیست بھی کر دی اسی کے نام سروش
جو ہم کو پیار سے اک بار دیکھتا بھی نہیں
٭٭٭
یہ مرے ساتھ کیا کیا تم نے
مجھ کو بدنام کر دیا تم نے
دو گھڑی بات چیت کیا کر لی
شہرہ عام کر دیا تم نے
ہائے نادان راز دل کہ کر
طشت از بام کر دیا تم نے
دل چرایا چرا کے چپکے سے
مجھ پہ الزام دھر دیا تم نے
چشم و ابرو کے اک اشارے سے
جو نہ کہنا تھا کہ دیا تم نے
دل دھڑکنے لگا ہے سینے میں
کیا مرا نام پھر لیا تم نے
٭٭٭
آنکھوں میں سمندر ہے اب دیکھئے کیا ہوگا
طوفان سر منظر ہے اب دیکھئے کیا ہوگا
ساقی کی نگاہوں میں ہم آئے تو ہاتھوں میں
ٹوٹ ہوا ساغر ہے اب دیکھئے کیا ہوگا
محفل ہے کھربوں کی اور زد پہ نگاہوں کی
اک کانچ کا پیکر ہے اب دیکھئے کیا ہوگا
ایک مست قلندر ہے اور شہر ستمگر ہے
ہر ہاتھ میں پتھر ہے اب دیکھئے کیا ہوگا
رنگوں کی بہاروں میں پھولوں کی قطاروں میں
تنہا دل مضطر ہے اب دیکھئے کیا ہوگا
رخت سفر اٹھاؤ ہوتا ہے چل چلاؤ
نقارہ بج رہا ہے اب دیکھئے کیا ہوگا
٭٭٭
نہ جانے کون آنکھوں میں بسا ہے
نظر میں ہر طرف میلہ لگا ہے
جسے دیکھو مجھی پر ہیں نگاہیں
مرے چہرے پہ آخر کیا لکھا ہے
نہ پوچھو کوئی میرے دل کی حالت
بس اتنا جان لو ٹوٹا ہوا ہے
نہ جانے کیوں نگاہیں پھیر بیٹھا
وہ جس نے پیار تو مجھ سے کیا ہے
ہمیشہ معتبر سمجھا تھا جس کو
وہ آج مجھ کو دھوکہ دے گیا ہے
جسے نشہ تھا ہر دم جیتنے کا
وہ ناکامی کے صدمے سے مرا ہے
اسے اک روز دنیا جانتی تھی
جو تنہائی کے صدمے مرا ہے
فنا کر دیں گے وہ کہتے ہیں ہم کو
ہمارے نام سے جن کی بقا ہے
پلٹ کر پھر نہیں دیکھا کسی نے
ہمارے پاس سے جو اٹھ گیا ہے
نظر میں آ گئی ہے میری منزل
قدم رہ رہ کے مجھ کو روکتا ہے
مجھے تو ایک دنیا جانتی ہے
بتا تجھ کو کوئی پہچانتا ہے ؟
٭٭٭
پھول گلدان میں سجا رکھنا
ان کی یادوں سے رابطہ رکھنا
زندگی حسن کا تبسم ہے
لب تبسم سے آشنا رکھنا
دم نہ گھٹ جائے بند کمرے میں
کچھ ہوا کا بھی راستہ رکھنا
خامشی ہو تو خوف آتا ہے
گفتگو کا بھی سلسلہ رکھنا
روشنی کی طلب رہے نہ رہے
گھر میں لیکن دیا جلا رکھنا
ساز دل زندگی کی دھڑکن ہے
دل کو ہر آن جاگتا رکھنا
بے خودی بے حسی نہ بن جائے
بے شعوری سے فاصلہ رکھنا
چار دن کی بہار کیا معنی
زندگی بھر کا واسطہ رکھنا
ہائے کس کی نظر لگی مجھ کو
دیکھنا دوستو خبر رکھنا
ہے تقاضہ نئی سیاست کا
دشمنوں سے بھی رابطہ رکھنا
اور جب خواب ٹوٹ جائیں سروش
دل کو پابند حوصلہ رکھنا
٭٭٭
کیجئے پیار چاہتوں کے عوض
دکھ نہ دیجے رقابتوں کے عوض
کیا خبر تھی کہ ٹوٹ جائیں گے
خواب دوری کے قربتوں کے عوض
خار دل میں چبھو گیا کوئی
پھول جیسی محبتوں کے عوض
راز دل کہ گئیں تری آنکھیں
میری آنکھوں سے رابطوں کے عوض
چڑھ گئیں بھینٹ کتنی باراتیں
بے سر و پا روایتوں کے عوض
آ گیا بال شیشہ دل میں
دل سے دل کو شکایتوں کے عوض
آخر کار دل نے مانی ہار
جانے کتنی وضاحتوں کے عوض
رنگ چہروں سے اڑ رہی ہیں سروش
چار دن کی رفاقتوں کے عوض
٭٭٭
جینے کے لئے کوئی ہنر ڈھونڈ رہا ہوں
سائے کی تمنا ہے شجر ڈھونڈ رہا ہوں
جس شہر میں بے موت بھی مر جاتے ہیں انسان
اس شہر میں جینے کا ہنر ڈھونڈ رہا ہوں
میں ٹوٹ کر بکھروں تو کوئی مجھ کو سمیٹے
شیشہ ہوں کوئی آئینہ گر ڈھونڈ رہا ہوں
ہر سمٹ لٹیرے ہی یہاں سنگ بدست ہیں
جو سر کو بچائے وہ سپر ڈھونڈ رہا ہوں
آگ اور دھواں دشمن جان چاروں طرف ہے
جاؤں میں کدھر راہ گزر ڈھونڈ رہا ہوں
اس شہر کو سب ہی نے اجاڑا ہے ابھی تک
جو اس کو سجائے وہ بشر ڈھونڈ رہا ہوں
برسوں میں بسایا تھا بہت چاہا سے جس کو
مل جائے وہ جلتا ہوا گھر ڈھونڈ رہا ہوں
اجڑی ہوئی بستی میں خموشی سے کھڑا ہوں
گویا کوئی انسان ،بشر ڈھونڈ رہا ہوں
برسوں ہوئے جس شخص کی صورت نہیں دیکھی
پھر آج اسی شخص کا گھر ڈھونڈ رہا ہوں
٭٭٭
جن کو دعویٰ تھا زمانے میں شناسائی کا
شکوہ کرتے ہیں وہی عالم تنہائی کا
اتنے بزدل تو نہ تھے غیر کی باتیں سنتے
ہم کو دھڑکا تھا جہاں میں تری رسوائی کا
ایک مدت تری بانہوں میں گزاری ہم نے
کیسے گزرے گا زمانہ شب تنہائی کا
اتنے ہمدرد نہیں آپ کے مرہم دیں گے
ہم سے دعوے نہ کریں آپ مسیحائی کا
بھولنے والا ہمیں بھول چکا ہے لیکن
‘نام لے لے کے جئے جاتے ہیں ہر جائی کا
تم نہ دیکھو مرے زخموں کو بہر حال سروش
تم پہ آ جائے گا الزام تماشائی کا
٭٭٭
محبتوں کا بھی نفرتوں میں شمار آیا تو کیا کرو گے ؟
تمہاری جانب سے مرے دل میں غبار آیا تو کیا کرو گے ؟
یہ طعن و تشنیع یہ تلخ باتیں مجھے جلانے کو کر رہے ہو
تمہاری باتوں سے میرے دل کو قرار آیا تو کیا کرو گے ؟
تم اپنی قاتل نظر سے جاناں شرر فشانی تو کر رہے ہو
مری نگاہوں میں زندگی کا خمار آیا تو کیا کرو گے ؟
نہ امتحان وفا میں ڈالو میرے ارادے عظیم تر ہیں
میں راستے کی ہر ایک منزل گزار آیا تو کیا کرو گے ؟
سروش گلشن اجاڑتے ہو ،گلوں سے گھر کو سجا رہے ہو
جو گلستاں میں گلوں کے بدلے ،شرار آیا تو کیا کرو گے ؟
٭٭٭
دیکھیں کسی سے جھوٹی محبت نہ کیجئے
مر جائے کوئی ایسی شرارت نہ کیجئے
ہونے لگا ہے خود پہ ہمیں اور ہی گماں
الله اس قدر بھی محبت نہ کیجئے
مانا کہ دل ہے چیز بہت قیمتی مگر
اب اس کی اسقدر بھی حفاظت نہ کیجئے
لگ جائے نہ کہیں نظر حسن و جمال کو
یوں اپنی اب اسقدر بھی زیارت نہ کیجئے
بدنامیوں کے دیپ نہ جلنے لگیں حضور
ہم سے تعلقات کی شہرت نہ کیجئے
ہم کو غم فراق کی عادت سی ہو گئی
اب آپ التفات کی زحمت نہ کیجئے
وہ خود تو کھیلتے ہیں مرے دل سے رات دن
اور مجھ کو یہ قسم کہ شرارت نہ کیجئے
٭٭٭
ان کے کوچے میں گھر بنایا ہے
آندھیوں میں دیا جلایا ہے
لگ رہی ہیں حقیقتیں بھی فریب
دل نے اتنا فریب کھایا ہے
سانس بھی لے رہا ہوں آہستہ
جب سے شیشے کا گھر بنایا ہے
اس میں تیرا کوئی کمال نہیں
میں نے تجھ کو صنم بنایا ہے
ان کی پلکیں اٹھیں تو یہ جانا
دل ہمارا نہیں پرایا ہے
آپ نے بس نگاہ پھیری تھی
لوگ کہتے ہیں دل دکھایا ہے
یہ نہ پوچھو حال دل کیا ہے
بس یہ جانو کہ دل لگایا ہے
ہے خرابے کی بات مت پوچھو
وقت نے ہم کو آزمایا ہے
تیری ہمت کی داد ہے اختر
کس خرابے میں مسکرایا ہے
٭٭٭
کسی کے آنکھ سے ایک بار جو گرا آنسو
ہمارے دل پہ کئی وار کر گیا آنسو
وہ دیکھو ایک ستارہ فلک سے ٹوٹ گیا
نگاہ ناز سے رخسار پہ گرا آنسو
تری خموش مزاجی تجھے مبارک ہو
بتا گیا ترا ہر راز بولتا آنسو
تمہیں نہیں ہے ضرورت زبان سے کچھ کہنے کی
تمہارا درد ٹرپ کر بتا گیا آنسو
تمام عمر نہ کہ پائی جو زبان میری
بس ایک پل میں وہی بات کہ گیا آنسو
پلک پہ آ کے یہ سوچا کہ اب کدھر جائے
سمجھ میں کچھ نہیں آیا تو گر پر آنسو
بہت سنبھال کے رکھ اب اس کو پائمال نہ کر
جو چشم خواب میں رہتا ہے جاگتا آنسو
رہا جو آنکھ میں موتی بنا رہا لیکن
گرا جو آنکھ سے مٹی میں مل گیا آنسو
ہمارا خون بھی حساس ہے بلا کا سروش
ذرا سا جوش میں آیا تو بن گیا آنسو
٭٭٭
رات دن اک آئینہ دیکھا کیا
میں خود اپنے عیب کو ڈھونڈا کیا
زندگی اتنی گزر جانے کے بعد
سوچتا ہوں زندگی میں کیا کیا
یوں گزاری ہم نے اپنی زندگی
جیسے جبرا ً کوئی سمجھوتہ کیا
بے تکلف ہو گئے ہم سے سبھی
جس نے چاہا ہم کو شرمندہ کیا
ہم شکایت بھی نہ لب پر لا سکے
اس نے اتنے پیار سے رسوا کیا
راستے سب بند تھے اپنے لئے
دل کے دروازے کو ہم نے وا کیا
کشت و خوں کا کھل دیکھا اس قدر
زندگی کو موت کا تحفہ کیا
رہزن ملتے رہے ہر موڑ پر
راہبر کا خواب ہی دیکھا کیا
چل دئے ہم جس سمت کو چل دئے
منہ اٹھا جس سمت کو رستہ کیا
جب لبوں کو سی لیا ہم نے سروش
خامشی نے بیکراں چرچا کیا
٭٭٭
یہ اور بات چھپا لو، تمہیں ہوا کیا ہے
وگرنہ چہرہ بتاتا ہے سانحہ کیا ہے
یہ اور بات ہے آنکھوں نے بیوفائی کی
وگرنہ کس کو خبر تھی ہمیں ہوا کیا ہے
یہ اور بات بھلا دو تمام ہی وعدے
وگرنہ تم ہی بتا دو مری خطا کیا ہے
یہ اور بات نیا زخم کوئی دے جاؤ
وگرنہ تم سے مری جان آسرا کیا ہے
یہ اور بات کہ تم سے گلہ نہیں کرتے
وگرنہ ہم بھی سمجھتے ہیں ماجرا کیا ہے
یہ اور بات کہ ہم پر عیاں نہیں کرتے
وگرنہ تم بھی سمجھتے ہو مدعا کیا ہے
یہ اور بات ، ارادے ہی ٹوٹ جائیں سروش
وگرنہ دل کسی ناصح کی مانتا کیا ہے
٭٭٭
تو اگر ساتھ چل رہا ہوتا
شہر کا شہر جل رہا ہوتا
ہر نگاہ طالب کے سینے سے
اک دھواں سا نکل رہا ہوتا
آگ لگ جاتی آسمانوں میں
سایۂ ابر جل رہا ہوتا
خون ہو جاتی ہر کلی جانم
ہر گل تر ،مچل رہا ہوتا
گلستان کی حسین باہوں میں
تن بدن گل کا .جل رہا ہوتا
روشنی چاند سے بھی چھن جاتی
اور سورج پگھل رہا ہوتا
بانسری کے سریلے سینے سے
غم کا لاوا ابل رہا ہوتا
بکھرے ہوتے ستارے راہوں میں
میں ستاروں پہ چل رہا ہوتا
٭٭٭
ماخذ:
http://urduhaijiskanam.yolasite.com/%D8%A7%D8%AE%D8%AA%D8%B1-%D8%B3%D8%B1%D9%88%D8%B4.php
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید