FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

ڈاکو آ رہے ہیں۔۔۔

 

 

 

               اقبال نیازی

 

مشمولہ اردو ڈرامے،  مرتبہ پروفیسر سیدمعزالدین احمدفاروق

 

 

 

 

 

کردار

 

 

نٹ

بوڑھا کریم

نٹی

جمن

تھانیدار

بھجنگ

چار سپاہی

سنتا

گاؤں کا چوکیدار

نتھو

مکھیا

سنتے کی بہو

نتھو کی بیوہ بہو

۔۔۔ اور ۔۔۔

ایک کتا

 

 

 

منظر

 

(تاشے کی تیز آواز کے ساتھ پردہ کھلتا ہے۔ اسٹیج پر ایک گاؤں کا منظر۔۔۔ گاؤں کے سبھی لوگ کسی نہ کسی کام میں مصروف ہیں اور گیت گا رہے ہیں اور ناچ رہے ہیں۔)

 

سب     :ڈاکو آئے۔۔۔ ڈاکو آئے۔۔۔ ڈاکو آئے۔۔۔

ڈاکو آئے۔۔۔ ڈاکو آئے۔۔۔ ڈاکو آئے۔۔۔

گروپ ۱:گاؤں بچانے کو۔۔۔ سب کو لبھانے کو۔

گروپ ۲:رسمیں نبھانے کو۔۔۔ رنگ جمانے کو۔

گروپ ۱:دکھ درد مٹانے کو۔۔۔ فکریں بھگانے کو۔

سب     :ڈاکو آئے۔۔۔ ڈاکو آئے۔۔۔ ڈاکو آئے۔۔۔

عورتیں             :ہم نے بلایا ہے۔۔۔ سپنا سجایا ہے۔

مرد      :ہوا ہو ہو ہو ہو ہو۔۔۔

عورتیں             :جائیں گے وہ دیکھو سب کچھ سدھار کے اب۔۔۔

مرد      :ہوا ہو ہو ہو ہو ہو۔۔۔

عورتیں             :چنتائیں کا ہے کی ہے؟بے فکری ہے ہر سو۔

(کتا بھونکتا ہے۔)

سوئیں گے اب سارے پیر پسار کے ہم۔

(کتا بھونکتا ہے۔)

سب     ۔:ڈاکو آئے۔۔۔ ڈاکو آئے۔۔۔ ڈاکو آئے۔۔۔

سب کی حفاظت کو

گاؤں کی راحت کو۔۔۔

سب کی سدھار دیں گے

بگڑی ہوئی حالت کو۔۔۔

ڈاکو آئے۔۔۔ ڈاکو آئے۔۔۔ ڈاکو آئے۔۔۔

(گاتے ناچتے ہوئے سب جاتے ہیں۔ بوڑھا چوکیدار اسٹیج پر رہتا ہے۔ بوڑھا چوکیدار لاٹھی ٹیکتے ہوئے اور ہاتھ آنکھوں پر لگائے دور دیکھتے ہوئے آتا ہے۔۔۔ اچانک گھوڑوں کی ٹاپیں سنائی دیتی ہیں اور یہ تیز رفتار آوازیں دور سے قریب آنے لگتیں ہیں۔ آوازیں بڑھتی جاتی ہیں اور بوڑھا چوکیدار پوری طاقت سے چلاتا ہے۔)

چوکیدار            :ڈاکو آئی رہے ہیں بابو۔۔۔ ہوشیار۔۔۔ ڈاکو آئی رہے ہیں۔۔۔ (ایک مریل سا کتا چوکیدار کو دیکھ کر زور زور سے بھونکتا ہے۔ چوکیدار اسے لاٹھی سے مار کر بھگاتا ہے اور پھر گھبرائے گھبرائے لہجہ میں پکارتے ہوئے ونگ میں جاتا ہے۔)ڈاکو آئی رہے ہیں بابو۔۔۔ ڈاکو آئی رہے۔

(کتا بھی گھبرا کر ادھر ادھر دیکھتا ہے اور پھر بھونکتے ہوئے ونگ میں بھاگتا ہے۔۔۔ فیڈ آؤٹ)

 

 

 

سین نمبر۱

 

(روشنی آنے پر ڈھول کی مخصوص تال پرنٹ اور نٹی ناچتے اور گاتے ہوئے داخل ہوتے ہیں۔)

 

نٹی        :سنو سنو!ہم لائے بھیا ایک کہانی۔۔۔ ایک کہانی۔۔۔

نٹ      :گاؤں گاؤں میں پھیلی ہے یہ عجب کہانی۔۔۔ ایک کہانی۔۔۔

نٹی        :(پکار کر) ڈاکو آ رہے ہیں ہو۔۔۔ بابو جی۔۔۔

نٹ      :باپ رے۔۔۔ نٹی پیاری۔۔۔ ڈ۔۔۔ ڈ۔۔۔ ڈاکو۔۔۔ لیکن کس گاؤں میں؟

نٹی        :ہندوستان کے کسی بھی گاؤں میں نٹو پیارے۔۔۔ ہر گاؤں میں ملیں گے۔۔۔ یہ ڈاکو۔۔۔

نٹ      :(ڈر کر بھاگتے ہوئے ) پھر۔ پھر تو میں چلا پیاری نٹی۔۔۔ تم ہی سنبھالو۔۔۔

(نٹی، نٹ کا کالر پکڑ کر گھسیٹتی ہے۔)

نٹی        :یہ ڈاکو۔۔۔ کوئی پھولن دیوی نہیں۔۔۔

نٹ      :نہیں؟سچی!

نٹی        :وہ تومر گئی۔۔۔

نٹ      :چلو اچھا ہوا۔۔۔ (خوش ہو کر) لیکن ویرپن۔۔۔

نٹی        :وہ تو جنگل میں ہے۔۔۔ چندن کی لکڑیوں کے بیچ۔

نٹ      :ابھی مرا۔۔۔ میرا مطلب پکرا نہیں گیا؟

(تھوک نگل کر۔)

نٹی        :(اترا کر) سرکار جب چاہے گی پکڑ لے گی نٹو پیارے۔۔۔ ہائے ہائے کیا مونچھیں ہیں اس کی۔۔۔ یہ لمبی لمبی۔۔۔ مونچھیں ہوں تو بس۔۔۔

نٹ      :بے سرم۔۔۔ بے حیا۔۔۔ نرلج میرے  سامنے پرائے مرد کا نام لیتے تجھے لاج نہیں آتی؟

نٹی        :پرایا مرد؟ارے وہ مرد کہاں رے۔۔۔ وہ تو اسمگلر ہے نا۔۔۔

نٹ      :تو اسمگلر مرد نہیں ہوتے کیا۔۔۔؟

نٹی        :یہ تو پولیس والے جانیں۔ تو پٹری سے مت اتر۔ ہم ڈاکوؤں کی بات کر رہے تھے۔

نٹ      :ہم نہیں۔۔۔ تو کر رہی تھی۔۔۔ (گھبرا کر) باپ رے۔ ڈاکو۔ کہاں ہے؟ کہاں ہے؟

نٹی        :ہر طرف۔۔۔ ہمارے آس پاس۔۔۔ آمنے سامنے۔۔۔ پیچھے آگے۔۔۔

نٹ      :توتو ہمیں کہاں کے ڈاکو سے ملا رہی ہو نٹی ڈارلنگ؟

نٹی        :ایک نئے ڈاکو سے ڈیئرنٹ۔۔۔ ایک نئے گاؤں میں !

نٹ      :تو چلو چلتے ہیں۔

نٹی        :ہاں ہاں چلو۔ ان ڈاکوؤں سے ملتے ہیں۔

(دونوں ایک ساتھ پکار کے ) ڈاکو آ رہے ہیں ہو بابو جی

(ناچتے ہوئے جاتے ہیں۔)

 

 

 

سین نمبر۲

 

(اسٹیج کے دائیں حصہ میں روشنی ہوتی ہے۔ تھانیدار کرسی پر پیر پھیلائے منہ پر رومال ڈال کر خراٹے لے رہا ہے۔۔۔ سپاہی وائرلیس فو ن لے کر آتا ہے۔)

 

سپاہی    ۱:حضور!حضور اٹھئے۔۔۔ ایس پی صاحب۔۔۔ ایس پی صاحب

(تھانیدار ہڑبڑا کر اٹھتا ہے۔۔۔ جلدی جلدی یونیفارم ٹھیک کرتا ہے، کیپ پہنتا ہے۔)

تھانیدار:کہاں ہے۔۔۔ کہاں ہے بے۔۔۔؟

سپاہی    ۱:(وائرلیس کی طرف اشارہ کر کے ) حضور یہاں !

تھانیدار:(برا سا منہ بنا کر)یہ وائرلیس ٹھیک کام کر رہا ہے کیا؟

سپاہی    ۱:جی حضور۔۔۔ ابھی ابھی کرنا شروع کیا ہے۔۔۔

تھانیدار:(بڑبڑاتے ہوئے ) سالا جب کام نہیں کرنا چاہئے تب برابر کرتا ہے۔۔۔ لاؤ۔۔۔ (وائرلیس فون لے کر لہجہ بدل کر) حضور! تھانیدار گیندا سنگھ۔۔۔

(دوسری طرف سے ایس پی کی آواز سنائی دیتی ہے۔)

آواز     :شٹ اپ۔۔۔ کہاں تھے اتنی دیر سے؟ کیا کر رہے تھے؟

تھانیدار:(بوکھلا کر) سر!دو نمبر میں تھا۔۔۔ ایک نمبر کر رہا تھا۔۔۔

آواز     :(دہاڑ کر) شب آپ۔۔۔ سارا وقت وہی کرتے رہتے ہو۔

تھانیدار:جی حضور۔۔۔ حکم کیجئے۔

آواز     :ابھی ابھی خبر ملی ہے نیا گاؤں میں کچھ ڈاکو حملہ کرنے والے ہیں۔ تم فوراً اپنے سپاہیوں کولے کر وہاں پہنچو۔

تھانیدار:جی حضور۔۔۔

آواز     :اور بھاری بندوبست سے جاؤ۔۔۔ ضرورت پڑے تو پڑوس کے تھانے سے بھی مدد لو۔

تھانیدار:جی حضور۔۔۔ لیکن حضور۔۔۔ یہ خبر سچی ہے نا۔۔۔؟

آواز     :شٹ آپ! جانتے ہو کس سے بات کر رہے ہو؟

تھانیدار:(بوکھلا کر) نہیں حضور۔۔۔ وہ۔۔۔ م۔۔۔ م۔۔۔ میں اس لیے پوچھ رہا تھا کہ پچھلی بار پوری تیاری سے گئے تھے۔ سوس پاہی لے گئے تھے، ہتھیار تھے، جیپیں تھیں، گولہ بارود سب تھا۔۔۔ اور ہم انتظار کرتے رہ گئے۔۔۔ لیکن ڈاکو نہیں آئے۔۔۔

آواز     :(طنز سے ) تو تم کیا چاہتے ہوا نہیں گاؤں میں لوٹ مچانے کے لیے باقاعدہ Invitation  بھیجا جائے۔۔۔؟

تھانیدار:یس سر۔۔۔ میرا مطلب۔۔۔ نو۔۔۔ نو۔۔۔ سر۔۔۔

آواز     :شٹ اپ۔۔۔ مجھے پل پل کی خبر ملنی چاہئے۔

(وائرلیس بند ہو جاتا ہے۔)

تھانیدار:(لمبی سانس لیتے ہوئے )’’شٹ اپ‘‘ بولتے بولتے ایس پی بن گئے اور اب وہاں بیٹھے بیٹھے حکم چلا رہے ہیں ’’نیا گاؤں پر ڈاکو حملہ کرنے والے ہیں۔۔۔ سپاہی لے کر پہنچ جاؤ‘‘(آواز دے کر) نمبر ایک۔۔۔ جا بے سب سپاہیوں کوبلا لا اور دیکھو سب ادھر ادھر ننگے پڑے ہوں گے ان سے کہنا کہ وردی پہن کر آئیں۔۔۔ نیا گاؤں میں کیمپ ڈالنا ہے۔

(نمبر ایک سپاہی خوشی خوشی جاتا ہے۔ روشنی دھیمی ہو جاتی ہے۔ نٹ اور نٹی داخل ہوتے ہیں۔)

نٹ      :دیکھا نٹی تھانیدار گینڈا سنگھ کو؟

نٹی        :گینڈا نہیں نٹو! گیندا۔۔۔ بے چارہ گیندا۔۔۔ کتنا آرام تھا تھانے میں !

نٹ      :اور اب کیمپ لگانا ہے نیا گاؤں میں۔

نٹی        :اسے فکر تھی یہ خبر کہ ڈاکو آ رہے ہیں ایس پی کو کہاں سے ملی ہو گی؟

نٹ      :انٹلی جنس نے ہوم ڈپارٹمنٹ کودی ہو گی اور ہوم ڈپارٹمنٹ نے ایس پی کو، ایس پی نے تھانیدار کو۔۔۔ اور تھانیدار نے۔۔۔

نٹی        :ڈاکوؤں کودے دی ہو گی۔۔۔

نٹ      :تیرا مطلب! ڈاکوؤں کو بھی یہ خبر کر دی گئی کہ ا نہیں نیا گاؤں میں ڈاکہ ڈالنے آنا ہے۔

نٹی        :بدھو!ڈاکوؤں کو یہ خبر دی گئی کہ تھانیدار نیا گاؤں میں آ رہے ہیں۔

نٹ      :(آنکھیں مٹکا کر) اوہو۔۔۔ تبھی تو میں سوچوں کہ تھانیدار اتنا بے فکر کیوں ہے؟

نٹی        :ارے تھانیدار تو ایسی خبروں کو روز شام کی دارو کے ساتھ پی جاتا ہے۔۔۔

نٹ      :مطلب! ڈاکوؤں سے ہم نہیں ملیں گے نا۔۔۔ چلو اچھا ہوا۔۔۔

(خوش ہوتا ہے۔)

(نٹ چلاتے ہوئے ونگ میں جاتا ہے۔۔۔ نٹی اس کے پیچھے پیچھے پکارتے ہوئے جاتی ہے۔)

دونوں   :ڈاکو نہیں آ رہے ہیں بھئی۔۔۔ نہیں آ رہے ہیں۔

 

 

 

سین نمبر۳

 

(اسٹیج کے پچھلے حصے میں روشنی ہوتی ہے۔ رات کا وقت۔ گاؤں کے لوگ جمع ہیں۔ سب فکرمند ہیں۔)

 

مکھیا       :دیکھو! اس گاؤں کا مکھیا ہونے کے ناطے میں سب کو تاکید کر رہا ہوں کہ اپنے اپنے گھرکی، گھر والوں کی حفاظت خود کرو۔۔۔ ڈاکو کبھی بھی حملہ کر سکتے ہیں۔

بوڑھا کریم         :میں تو کہوں گا کہ کوئی رات کو باہر کھٹیا پر نہ ہوئے۔ سب لوگ گھروں میں رہیں اور چوکنے رہیں۔

سنتا       :تو پھر ڈاکوؤں کے آنے کی خبر ہمیں کیسے لگے گی؟

مکھیا       :ہم نے گاؤں کے چو رستے پر اپنے چوکیدار کو بٹھا رکھا ہے۔ وہ دور سے دیکھ کر پہچان لے گا۔۔۔

بھجنگ   :پر مکھیا جی! یہ جیٹھ بیساکھ کا موسم بڑا بھاری پڑتا ہے۔۔۔

نتھو        :ہاں !گرمی اور لو کے مارے گھر میں سویا نہیں جاتا کا کریں؟

مکھیا       :(ڈانٹ کر) تم تھوڑی تکلیف نہیں اٹھا سکتے؟ہر وقت آرام چاہئے بس۔ سن نہیں رہے ہو۔۔۔ آس پاس کے گاؤں سے کیسی بھیانک بھیانک خبریں آ رہی ہیں۔۔۔ آج ڈاکوؤں نے فلاں گاؤں لوٹ ڈالا۔۔۔ پرسوں فلاں گاؤں۔۔۔

بوڑھا کریم         :لیکن تھانے میں خبر کر دیتے مکھیا تو۔۔۔

مکھیا       :خبر کر دی ہے میں نے۔۔۔ تھانیدار اپنے سپاہیوں کے ساتھ بس پہنچتے ہوں گے۔۔۔ ارے وہ دیکھو چوکیدار یہیں آ رہا ہے۔

(روشنی دھیمی ہوتی ہے۔ سین بدلتا ہے۔)

 

 

 

سین نمبر۴

 

(تھانیدار وردی پوش سپاہیوں کو قطار میں کھڑا کر کے ان کا معائنہ کر رہا ہے۔ سب کے پیٹ نکلے ہوئے ہیں۔)

 

تھانیدار:سیدھے کھڑے رہو بے۔ اٹینشن۔۔۔ !سالو!تم سے سیدھا کھڑا بھی نہیں رہا جاتا۔۔۔ دیکھو دیکھو۔۔۔ اپنے پیٹ کی طرف۔۔۔ سب کے پیٹ کیسے لٹک رہے ہیں۔۔۔ حرام خورو! کھا کھا کے بس چربی جمع ہو گئی ہے۔۔۔ سیدھے کھڑے رہو سینہ باہر نکالو۔۔۔ ایسے۔۔۔

(اپنا سینہ پھلا کر بتاتا ہے۔ سپاہی منہ دبا کر ہنستے ہیں۔ تھانیدار کو احساس ہوتا ہے کہ اس کا بھی پیٹ نکلا ہوا ہے اور سینہ پھلانے کی کوشش میں وہ کارٹون جیسا لگ رہا ہے۔)

تھانیدار:ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔۔۔ سب نے رائفلیں لے لیں۔۔۔؟

(چاروں سپاہی سیلوٹ کرتے ہیں اور تھری ناٹ تھری کی رائفلوں کو کندھے پر رکھتے ہیں۔)

سپاہی    ۱:حضور! یہ رائفلیں انگریز کے زمانوں کی ہیں۔ اب ٹھیک سے چلتی بھی نہیں۔۔۔ ڈاکوؤں کے پاس ہمارے سے زیادہ Latest  ہتھیار ہیں۔

تھانیدار:چپ بے ! تجھے کیا AK 47  لا کر دیں؟ ان حرامزادے ڈاکوؤں کی اتّی عزت کہ ا نہیں امپورٹیڈ گن سے ماریں؟ ارے انگریزوں نے ان رائفلوں کو اس لیے رد نہیں کیا تھا کہ اہنسا وادی جب ا نہیں رائفلوں سے مر رہے تھے تو پھر Latest  ہتھیاروں پر وہ روپیہ کیوں خرچ کرتے ! سمجھے۔۔۔؟

سپاہی    ۲:لیکن حضور!سرکار ہمیں نئے ہتھیار کیوں نہیں دیتی؟

تھانیدار:بہت منہ کھل رہا ہے رے حرامی! بہت پیر پسار رہے ہو۔۔۔ ابے معلوم نہیں سرکاری خزانہ خالی ہے۔ نئے ہتھیار کہاں سے لیں گے؟ہاں کسی انڈر ورلڈ کے گودام پر چھاپہ پڑے یا ڈاکو سرینڈر کر دیں توان کے نئے ہتھیار تمہیں مل سکتے ہیں۔

سپاہی    ۳:(دھیرے سے )اور ایسا زندگی بھر نہیں ہو سکتا۔۔۔

سپاہی    ۲:ہاں !کیوں کہ ا نہیں چھاپوں سے پہلے پتہ چل جاتا ہے۔۔۔

تھانیدار:چپ بے۔۔۔ کتے سالے ! ہم نیا گاؤں میں کیمپ ڈالنے جا رہے ہیں۔ ڈاکوؤں سے بھڑنے۔۔۔ کوئی کارگل پرجنگ لڑنے نہیں جا رہے ہیں (بڑبڑاتا ہے ) چل بے نمبر۴۔۔۔ جلدی جیپ نکال۔۔۔

(سب سیلوٹ کرتے ہوئے لیفٹ رائٹ کرتے ہوئے روانہ ہوتے ہیں۔ تھانیدار کچھ ڈھونڈ رہا ہے۔۔۔ جیپ اسٹارٹ ہونے کی آواز۔۔۔ )

سپاہی    ۱:(پکار کر) تھانیدار صاحب چلئے۔۔۔ ہم تیا رہیں۔۔۔

تھانیدار:ابے آ رہا ہوں۔۔۔ میرا ہتھیار تو لینے دے۔۔۔

(شراب کی ایک لمبی بوتل نکال کر وردی کے اندر ٹھونستا ہے۔۔۔ اسٹیج پر ونگ سے جیپ کا دھواں آتا ہے اور آواز کے ساتھ جیپ روانہ ہوتی ہے۔)

(فیڈ آؤٹ)

 

 

 

 

سین نمبر۵

 

(گاؤں کا وہی منظر۔ سارے لوگ اپنی جگہ کھڑے ہیں چوکیدار چلاتے ہوئے آتا ہے۔)

 

چوکیدار            :’’ڈاکو آ رہے ہیں بابو۔۔۔ ڈاکو آ رہے ہیں۔۔۔ ہوشیار۔۔۔ ‘‘

(گاؤں کے لوگ خوفزدہ ہو کر چٹائی کے کھڑکی دروازوں کے کٹ آؤٹ میں چھپ جاتے ہیں۔ چوکیدار اسٹیج پر آتا ہے۔ مخالف سمت سے تھانیدار اپنے چاروں سپاہیوں کے ساتھ ناچتے ہوئے داخل ہوتا ہے۔۔۔ ڈھول کی تھاپ پر۔۔۔ کتا اندر آ کر ا نہیں دیکھ کر زور زور سے بھونکتا ہے۔۔۔ چوکیدار زور سے چلاتا ہے )

چوکیدار            :ڈاکو آ رہے ہیں۔۔۔ ہوشیار۔۔۔

تھانیدار:(کتے کو ایک لات مارکر) ابے بڈھے ! کیا بک رہا ہے؟ہم تجھے ڈاکو دکھ رہے ہیں؟

(بوڑھا چوکیدار نزدیک آ کر ہتھیلی سے آنکھوں کو چھجہ دے کران کو پہچاننے کی کوشش کرتا ہے اور پھر خوش ہو کر۔۔۔ )

چوکیدار            :ارے تھانیدار صاحب! معاف کرنا حجور! عمر کے ساتھ ساتھ نجر بھی کمجور ہو گئی ہے اس لیے ڈاکوؤں میں اور  آپ میں پھرک نہیں کر سکا۔۔۔

سپاہی    ۱:(غصے سے آگے بڑھ کر)تجھے ہمارے ہاتھوں پر لگے یہ چمکتے بلے نظر نہیں آتے؟

چوکیدار            :بوڑھا چوکیدار ہوں سرکار!معاف کر دیجئے۔(آسمان کی طرف دیکھ کر) ہے بھگوان تیری کرپا ہے۔۔۔ ڈاکو نہیں پولس والے آئے ہیں۔۔۔ (زور لگا کر گوہار لگاتا ہے ) تھانیدار آئے ہیں بابو۔۔۔ تھانیدار۔۔۔

(چٹائی کے دروازے اور کھڑکی پر چہرے نمودار ہوتے ہیں اور پھر سب گاؤں والے دھیرے دھیرے تھانیدار اور سپاہیوں کے آس پاس جمع ہوتے ہیں۔ ان گاؤں والوں میں بوڑھے بچے مرد عورتیں سبھی شامل ہیں۔۔۔ نتھو جلدی سے چارپائی بچھاتا ہے۔۔۔ اس کی بیٹی دری لا کر دیتی ہے۔ نتھو چارپائی پر دری بچھاتا ہے۔ تھانیدار کو بیٹھنے کے لیے کہتا ہے۔ باقی سپاہیوں کو مونڈھے دیے جاتے ہیں۔ ایک دیہاتی چھتری لے کر تھانیدار کے پاس کھڑا ہو جاتا ہے۔ تھانیدار چاروں طرف دیکھتے ہوئے، مونچھوں پر تاؤ دیتے ہوئے چارپائی پر گر جاتا ہے۔ باقی چاروں سپاہی بھی مونڈھے پر بیٹھتے ہیں۔ سب لوگ بہت خوش اور مطمئن نظر آ رہے ہیں۔ بوڑھا کریم دوڑ کر پیتل کے لوٹے اور گلاس میں ٹھنڈا پانی لا کر دیتا ہے۔ بھجنگ بھاگ کر مٹھا لاتا ہے۔ کوئی پان لا کر سپاہیوں کو دیتا ہے اور کوئی سگریٹ سارا گاؤں دوڑ دوڑ کر تھانیدار اور چار سپاہیوں کی خدمت کر رہا ہے۔ نٹ نٹی گاتے ہوئے داخل ہوتے ہیں۔)

نٹی        :توب ھیا! گاؤں والوں نے لی چین کی سانس۔۔۔

نٹ      :دلوں سے دور ہو گیا ڈاکوؤں کا ڈر اور احساس۔۔۔

نٹی        :سب جٹ گئے پولس کے سپیا کی خدمت میں جی جان سے

نٹ      :سب کو تھا سکون سوئیں گے آج پیر پھیلا کر اطمینان سے۔۔۔

نٹی        :مکھیا تھا خوش کہ اس کا گاؤں بچ جائے گا۔۔۔

نٹ      :چوکیدار بے فکر کہ اب کوئی ڈاکو نہ آ پائے گا۔۔۔

نٹی        :چوکیدار رہ رہ کر تھانیدار کے سامنے جوڑتا تھا ہاتھ۔۔۔

نٹ      :وہی ہاتھ جو کاٹ کر وراثت میں دے گیا تھا اس کا باپ

نٹی        :یہ وہی ہاتھ تھے جسے اس کا باپ کبھی انگریز ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے سامنے جوڑا کرتا تھا۔۔۔

نٹ      :اور اب وہی کمزور ہاتھ جوڑ جوڑ وہ ان سے نوالے توڑا کرتا تھا۔۔۔

نٹی        :تھانیدار اور سپیا کا حال نہ پوچھو۔۔۔ کیسی ہوئی ان کی آؤ بھگت۔۔۔

نٹ      :آؤ دیکھیں نیا گاؤں میں ہوتا ہے اب رات کا وکھت

 

 

 

 

سین نمبر۶

 

(روشنی دھیمی ہوتی ہے۔ رات کا منظر۔ تھانیدار اور سپاہی چارپائیوں پر پھیل کر لیٹے ہیں اور شراب کی بوتلیں ادھر ادھر پڑی ہیں۔ مریل کتا زمین سونگھ رہا ہے اور خالی بوتلوں کو چاٹ رہا ہے۔)

 

تھانیدار:مکھیا۔۔۔ ارے او مکھیا۔۔۔

مکھیا       :(قریب آ کر) جی حضور!

تھانیدار:اجی ہم کیا ایسے ہی بیٹھے رہیں گے؟ ناؤن ہمارا گوڑ دھونے نہیں آوے گی؟

مکھیا       :(گھگھیا کر) ایسے کیسے ہو سکتا ہے حجور! ابھی بلواتے ہیں۔۔۔ ناون، گوڑ تو کیا آجو بولیں گے وہ دھوئے گی۔۔۔

(کتا زور زور سے بھونکتا ہے فوراً چوکیدار گھبرا کر پکار اٹھتا ہے۔۔۔ )

چوکیدار            :ڈاکو آئے رہے ہیں بابو۔۔۔ ڈاکو۔۔۔

(سب اٹینشن ہو جاتے ہیں تھانیدار اور سپاہی بندوقیں تان لیتے ہیں۔۔۔ چوکیدار کو اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے اور  اپنے ہاتھوں سے اپنے سر پر چپت لگاتا ہے اور پھر تھانیدار اور سپاہیوں کو دیکھ کر)

چوکیدار            :معاف کرنا حجور۔۔۔؟تھانیدار آئے ہیں بابو، تھانیدار۔۔۔

(سب چوکیدار پر غصہ کرتے ہیں، بڑبڑاتے ہیں۔)

مکھیا       :(قہر آلود نظروں سے گھورتے ہوئے ) جا۔۔۔ جلدی سے سنتے کی بہو کو بلا لا۔۔۔

(سنتا خود ہی اپنی بہو کو لے کر داخل ہوتا ہے پیروں کی جھانجھر چھن چھن بجاتے نئی نویلی بہو شرماتی لجاتی ہوئی آتی ہے۔۔۔ اس کے ہاتھ میں ایک لوٹا اور تھال ہے۔۔۔ تھانیدار اور چاروں سپاہی ہوس بھری نگاہوں سے اسے دیکھنے لگتے ہیں۔۔۔ سنتے کی بہو تھانیدار کی کھٹیا کے پاس بیٹھ جاتی ہے اور تھانیدار کے پیروں سے جوتے اور موزے اتارتی ہے اور اس کے پیروں کو تھال میں رکھ کر خوب مل مل کر دھونے لگتی ہیں۔ تھانیدار جلدی جلدی بوتل سے شراب کے گھونٹ حلق میں انڈیلتا ہے۔ سپاہی یہ دیکھ کر جلدی سے اپنے پیروں کے اتارے ہوئے موزے پہننے لگتے ہیں۔ تھانیدار سنتے کی بہو کو گھور گھور کر دیکھتا ہے اور اس کی ٹھڈی پر ہاتھ لگا کر۔۔۔ )

تھانیدار:بہت سندر ہے ری تو۔۔۔ کیا نام ہے تیرا ہاں۔۔۔؟

عورت  :غریب لوگن کا نام کہاں ہوتا ہے حجور۔۔۔ ہم تو گاؤں والوں کی بھابھی ہیں۔

تھانیدار:(زوردار قہقہہ لگا کر) اچھا اچھا! کیا کہتے ہیں وہ۔۔۔ غریب کی بھابھی سب کی جورو۔

مکھیا       :(جلدی سے ) ناہی ناہی حضور! ایسا نہیں ہے وہ۔۔۔ غریب کی جورو۔۔۔ سب کی بھابھی۔۔۔

تھانیدار:ارے ایک ہی بات ہے مکھیا۔۔۔ (زور زور سے ہنستا ہے ) کس کی لڑکی ہے رے یہ؟

سنتا       :حجور! میرے  بیٹے کی گھر والی ہے۔

تھانیدار:(بے حیائی سے ) اچھا!سنبھال کر رکھ سنتا۔ ڈاکوؤں کی نظر اس پر پڑی تو پہلے اسے ہی اٹھا لے جائیں گے۔

سنتا       :(ہاتھ جوڑ کر) آپ ہیں نا مائی باپ یہاں ! آپ ہیں۔

(تھانیدار اور سپاہی پھر بے ڈھنگے پن سے ہنستے ہیں۔ سنتے کی بہو اندر بھاگتی ہے اور مریل کتا پھر ایک بار بھونکتا ہے۔)

مکھیا       :حضور!خبر ملی ہے کہ ڈاکو گاؤں پر ڈاکہ ڈالنے والے ہیں۔۔۔

تھانیدار:(اپنی پتلون کی زپ چڑھاتے ہوئے ) ہم لوگ یہاں تمہاری حفاظت کے لیے دوچار روز کیمپ کریں گے۔۔۔ پھر دیکھتے ہیں۔۔۔ ڈاکو سالے آنے کی کیسے ہمت کرتے ہیں۔۔۔ نمبر ایک بتا ان کو۔۔۔

سپاہی    ۱:(مکھیا کو الگ لے جا کر) تھانیدار صاحب نے سب بندوبست کر لیا ہے اور ہمارے پاس ہتھیار بھی بہت ہیں۔۔۔ بس!جب تک ہم اس گاؤں میں ہیں ہمارا۔۔۔ مطلب تھانیدار صاحب کا ہر طرح سے خیال رکھنا تم سب کا دھرم ہے۔۔۔ سمجھے۔۔۔ مکھیا سمجھا دو سب کو۔۔۔ !

سپاہی    ۲:اور تھانیدار صاحب جو مانگیں ا نہیں فوراً دے دو۔ارے وہ خوش رہیں گے تبھی تو ڈاکوؤں سے لڑ سکیں گے نا۔۔۔ ا نہیں دوڑا سکیں گے۔۔۔

نتھو        :(دھیرے سے بھجنگ سے پوچھتا ہے ) بھجنگ۔ یہ موٹے موٹے سپاہی کیا اتنا پیٹ لے کر ڈاکو لوگن کے پیچھے بھاگ سکیں گے؟

بھجنگ   :(اشارے سے چپ کرا کے ) چپ رہ۔۔۔ تھانیدار سنے گا تو ڈاکو لوگن کو چھوڑ تیرے پیچھے بھاگے گا۔

چوکیدار            :اور ویسے بھی پولس والن کی دوستی اور دسمنی کوئلے کی طرح ہوت ہے۔ گرم ہوئے تو ہاتھ جلا دیت ہیں اور ٹھنڈئے تو ہاتھ کالا کر دیت ہیں۔

تھانیدار:(پسینہ پونچھتے ہوئے ) ارے مکھیا۔ سالا کتنی گرمی ہے ادھر،۔۔۔ کہیں سے مٹھا وٹھا منگواؤ۔۔۔

چوکیدار            :ابھی لائے حجور۔۔۔

(لاٹھی پکڑ کر جانے لگتا ہے۔)

تھانیدار:سن بے چوکیدار کسی کمھار، جلا ہے یا پاسی کے یہاں سے مت لانا۔۔۔ سمجھا۔۔۔ کوئی بامن کے گھرکا ہونا چاہئے۔

چوکیدار            :(تعجب سے ) بامن!

سپاہی    ۲:اور کیا؟تھانیدار چھوٹی جات کے لوگوں کے گھر کا پانی بھی نہیں پیتے۔۔۔

چوکیدار            :(دھیرے سے مکھیا کو)مکھیا جی بامن بے چارہ تو خود دھارمک ادھیکاروں کے نام پر مانگ کر کھاتا ہے۔۔۔ پھر مٹھا کہاں سے دیوے گا؟

مکھیا       :تو جا۔۔۔ وہ پچھواڑے کے گھر میں گنگا سے کہہ دے وہ۔۔۔

تھانیدار:(چلا کر) ابے کیا کھسر پھسر ہو رہی ہے ادھر۔۔۔؟ ہاں۔۔۔

مکھیا       :نہیں حجور!وہ مٹھا۔۔۔

سپاہی    ۲:ہاں ہاں ! تو جلدی منگواؤ۔۔۔ اور یاد رکھو کسی چھوٹی جات کے گھر کا نہ ہو۔اب جلدی جاؤ۔۔۔ کھڑے کیا ہو۔۔۔

(چوکیدار جاتا ہے۔)

تھانیدار:ہاں تو مکھیا۔۔۔ سبیرے ناشتے میں کیا کھلواؤ گے۔۔۔؟

مکھیا       :جو حضور کہیں۔۔۔

تھانیدار:دس بارہ انڈے ہوں۔۔۔ پراٹھے بنوا لو۔۔۔ مکھن لگا کے۔۔۔

سپاہی۴ :اور گرما گرم پکوڑیاں بھی بنا دو۔۔۔

مکھیا       :اور دوپہر کے بھوجن میں۔۔۔؟

تھانیدار:ابے بکرا وکرا کاٹ ڈالو۔۔۔ ران کا گوشت بھن کر لانا۔۔۔ اور دیکھ لیجیو بکرا بھی کہیں کسی۔۔۔

بوڑھا کریم         :(جلدی سے ) چھوٹی جات والے کے گھر کا نہ ہو۔۔۔

تھانیدار:(پہلے گھور کر کریم کو دیکھتا ہے اور پھر ہنستا ہے )بڈھا بہت ہوشیار ہے۔

(چوکیدار پیتل کی بالٹی میں مٹھا لے کر آتا ہے اور پیتل کے گلاس سے بھر بھر کر پہلے تھانیدار اور پھر سپاہیوں کو دیتا ہے۔ تھانیدار پتیا ہے اور زور دار ڈکار لیتا ہے۔)

تھانیدار:ٹھیک ہے۔ تم لوگ اب جاؤ اور پیر پسار کر سو جاؤ۔۔۔ ایکدم بے فکر۔۔۔ ہم لوگ جاگ رہے ہیں۔ دیکھتے ہیں سالے ڈاکوؤں کو جاؤ۔۔۔

(سب ہاتھ جوڑ کر نمستے کرتے ہوئے جاتے ہیں۔)

(روشنی مدھم ہوتی ہے۔۔۔ سپاہی شراب کی بوتلیں نکال کر کھولتے ہیں تھانیدار سپاہی ۳کو اشارہ کرتا ہے وہ ہنستے ہوئے جاتا ہے۔۔۔ کچھ دیر بعد اپنے ساتھ بھجنگ کی جوان بیٹی کولے کر آتا ہے۔۔۔ تھانیدار اسے دیکھ کر خوش ہو جاتا ہے۔)

تھانیدار:کیا نام ہے تیرا؟

لڑکی     :(سر جھکا کر) چمپا!حضور!

تھانیدار:(ہنس کر) چمپا۔۔۔ ! کون جات کی ہو۔۔۔؟

لڑکی     :پاسی ہیں حجور۔۔۔ !

تھانیدار:ہوں۔۔۔

(کچھ دیر تک اسے اوپر سے نیچے تک دیکھتا ہے۔)

سپاہی ۳:بھجنگ پاسی کی بیٹی ہے حضور یہ!

تھانیدار:(بے پرواہی سے )ارے کسی کی بھی ہو۔۔۔ ہمیں اس سے کیا۔۔۔؟ دیکھ چمپا! ہم لوگ یہاں گاؤں میں کس کی سرکھشا کے لیے آئے ہیں۔

چمپا       :ہم لوگن کی حجور!

تھانیدار:تو تم لوگن کا کام ہے نا ہماری دکھ تکلیف کا خیال کرو۔۔۔

چمپا       :جی حجور۔۔۔ آپ حکم کرو۔۔۔

تھانیدار:چمپا!رات میں جب تک میری گھر والی پیٹھ کی مالش نہیں کرتی سسری نیند ہی نہیں آتی۔۔۔ آ ذرا مالش کر دے۔۔۔

چمپا       :(جھجکتے ہوئے ) پر حجور۔۔۔ میں۔۔۔ وہ باپو۔۔۔

تھانیدار:(مکروہ ہنسی کے ساتھ) باپو۔۔۔؟کون گاندھی جی؟ارے تو ان کی چنتا مت کر، انھوں نے خود کہا ہے کہا اونچ نیچ کا بھید بھاؤ مت رکھو۔۔۔ چل آ۔۔۔

(چمپا جھجکتے ہوئے چلتی ہے پھر رک جاتی ہے۔)

چمپا       :پر حجور ہم تو چھوٹی جات کے ہیں، آپ کو کیسے ہاتھ لگائیں؟

تھانیدار:(فوراً اس کا ہاتھ پکڑ کر) ارے توہم تجھے ہاتھ لگا دیتے ہیں۔۔۔ اس میں کیا ہمارے لیے سب برابر ہیں۔ ایک جیسے۔ ہم باپو کے اصولوں پر ہی چلتے ہیں ہم نہیں مانتے یہ سب۔۔۔ تو چل بس۔۔۔

(کہتے کہتے اسے ونگ میں لے جاتا ہے۔)

(سپاہی زور زور سے ہنستے ہیں۔۔۔ بھجنگ پاسی دوڑتے ہوئے اسٹیج پر آتا ہے۔ ونگ سے چمپا کے چلانے کی آوازیں آتی ہیں۔۔۔ )

چمپا       :حجور۔۔۔ چھوڑ دیجئے۔۔۔ ایسا مت کرئیے۔۔۔ ہم گریب ہیں سرکار۔

بھجنگ   :سرکار۔۔۔ میری بیٹی۔۔۔ چھوڑ دیجئے سرکار۔۔۔

سپاہی نمبر۱          :چپ بے بھجنگ۔۔۔ ابے تھانیدار صاحب تمہارے گاؤں میں مہمان ہیں اور مہمان بھگوان سمان ہوتا ہے۔

بھجنگ   :لیکن مالک۔۔۔ ہم چھوٹی جات کے ہیں، پاسی ہیں اور تھانیدار صاحب تو۔۔۔

سپاہی نمبر۲         :سب چلتا ہے ا نہیں۔۔۔ کیا چھوٹا کیا بڑا۔۔۔

سپاہی نمبر۱          :اور ویسے بھی بتیاں بجھی ہوں توا نہیں سب عورتیں ایک جیسی لگتی ہیں۔۔۔

(تینوں سپاہی ہنستے ہیں۔)

سپاہی نمبر۳         :تو جا گھر جا کر سوجا۔۔۔ ابھی تھوڑی دیر میں آ جائے گی تیری بیٹی!

بھجنگ   :ایسا جلم نہ کرو مالک۔۔۔ بن ماں کی بچی ہے۔۔۔

سپاہی نمبر۳         :(بے شرمی سے ) فکر مت کر۔۔۔ کچھ دن بعد وہ خود ایک بچی کی ماں بن جائے گی۔

(چاروں سپاہی بے شرمی سے ہنستے ہیں۔۔۔ چمپا پھٹے کپڑوں سے اپنا بدن چھپاتی۔۔۔ بکھرے بالوں کو ٹھیک کرتے ہوئے سسکتے ہوئے آتی ہے اور باپ کے سینے سے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر روتی ہے۔ دکھ بھرا الاپ ونگ سے ابھرتا ہے۔ تھانیدار ہانپتے ہوئے ونگ سے باہر اسٹیج پر آتا ہے۔۔۔ شرٹ کے بٹن کھلے ہوئے۔۔۔ کتا اسٹیج پر آتا ہے اور تھانیدار کے قریب جا کر زور زور سے بھونکتا ہے۔۔۔ سپاہی اسے بھگاتے ہیں اور ایک دوسرے کو اشارے کر کے اپنی اپنی کھٹیا پر سو جاتے ہیں چمپا اور بھجنگ دھیرے دھیرے اپنے گھر کی طرف جاتے ہیں۔ تھانیدار کھٹیا پر گر کر بے خبر سو جاتا ہے۔۔۔ روشنی مدھم ہوتی ہے۔)

 

 

 

سین نمبر۷

 

(روشنی ہوتی ہے۔ کتا دھیرے دھیرے واپس اسٹیج پر آتا ہے۔ تھانیدار کی کھاٹ کے سرہانے رکھے مونڈے پر چڑھتا ہے اور پھر ٹانگ اٹھا کر تھانیدار کے منہ پر پیشاب کرتا ہے۔۔۔ تھانیدار ہڑبڑا کر اٹھتا ہے اور کتے کے پیچھے بھاگتا ہے۔۔۔ کتا بھونکتے ہوئے تیزی سے بھاگ جاتا ہے۔۔۔ )

 

تھانیدار:حرامزادہ۔۔۔ کتا۔۔۔ سالا۔۔۔ منہ کا مزہ خراب کر دیا۔

(کراس فیڈ آؤٹ۔۔۔ فرنٹ اسٹیج پر اسپاٹ لائٹ میں نٹ نٹی تھرکتے ہوئے داخل ہوتے ہیں۔)

نٹی        :تھانیدار نے بھجنگ کی بیٹی چمپا کی عزت سے کھیلتے ہوئے یہ بالکل نہیں سوچا کہ وہ چھوٹی جات کی ہے۔۔۔

نٹ      :صرف کھانے پینے میں اسے برہمن کے گھر کا چاہئے۔۔۔ ورنہ تو۔۔۔

نٹی        :بھجنگ اور اس کی معصوم بیٹی نے آنسو بھری آنکھوں سے آسمان کی طرف دیکھا۔

نٹ      :مکھیا نے یہ کہہ کر سمجھایا کہ جانے دے۔۔۔ وہ کر رہے ہیں اپنی سرکھشا۔

نٹی        :تھانیدار کی رات تو ہوئی رنگین۔۔۔ پھر سپاہی کیوں رہتے غمگین؟

نٹ      :کھلے تھے ا ن کے لیے سب رستے جس گھر میں دل چاہتا وہیں جا گھستے۔۔۔

نٹی        :پوری نہیں ہوئی ابھی نیا گاؤں کی داستان۔۔۔

نٹ      :آگے آگے دیکھتے ہیں کیا گل کھلتے ہیں صاحبان

 

 

 

 

سین نمبر۸

 

(چڑیوں کی چہچہاہٹ اور جانوروں کے ڈکرانے اور ممیانے کی آوازوں کے ساتھ صبح ہوتی ہے۔ اسٹیج پر چارپائیاں خالی پڑی ہیں۔۔۔ نتھو پہلی ونگ سے نکل کر سامنے کی طرف جا کر آواز دیتا ہے۔)

 

نتھو        :کریم چاچا۔۔۔ او کریم چاچا۔۔۔ (کریم چاچا گمچھے سے منہ پوچھتے باہر آتے ہیں۔)کریم چاچا مکھیا جی نے کہا ہے دس بارہ انڈے دے دو۔۔۔

کریم چاچا            :اور پیسے۔۔۔؟

نتھو        :پیسے کیسے؟ تھانیدار اور سپاہیوں کے ناشتے کا بندوبست کرنا ہے نا۔

کریم چاچا            :لیکن نتھو! یہ انڈے بیچ کر تو میں اپنا گزارا کرتا ہوں۔۔۔ اگر اتنے سارے انڈے تجھے دے دوں گا تو بیچوں گا کیا اور کھاؤں گا کیا؟

نتھو        :سوچ لو کریم چاچا۔۔۔ تھانیدار کا ناشتہ اچھا نہیں ہوا توہم سب پر مصیبت آ جائے گی۔۔۔ ارے وہ ہم لوگن کو ڈاکوؤں سے بچانے کے لیے آئے ہیں ان کے کھانے ناستے کی ذمہ داری تو ہماری ہے نا۔۔۔

(کریم چاچا بڑ بڑ کرتے جاتے ہیں اور تھیلی میں انڈے لا کر دیتے ہیں۔ نتھو انڈے لے کر جاتا ہے اور دوسرے گھرکے دروازے پر دستک دیتا ہے۔ جمن باہر آتا ہے۔)

جمن      :کیا ہے نتھو؟

نتھو        :وہ سپاہی اور تھانیدار صاحب کے دوپہر کے بھوجن کا انتظام کرنا ہے۔

جمن      :تو۔۔۔؟

نتھو        :مکھیا جی نے کہا ہے ایک بکرا کاٹ دو۔۔۔

جمن      :بکرا کاٹ دو۔۔۔ لیکن میں نے سنیچر کے ہاٹ میں گوشت کے دھندے کے لیے سات سو روپئے میں کل ہی خریدا ہے۔

نتھو        :وہ مجھے نہیں معلوم۔۔۔ مکھیا جی کا حکم ہے کہ تھانیدار اور سپاہیوں کو دوپہر کے بھوجن میں بکرا چاہئے اور ران کا گوشت بھنا ہوا۔

جمن      :لیکن یہ تو جلم ہے نتھو۔ میں گریب گوشت بیچ کر اپنا دھندہ کرتا ہوں۔۔۔ چار پیسے کمانے کے لیے۔

نتھو        ۔:اگر ڈاکو آ کر تمہارے یہی چار پیسے لوٹ لیں اور تمہیں جان سے مار دیں یا تمہارا بکرا چھین کر لے جائیں تب کیا کرو گے؟

(جمن سر جھکا کر سوچتا ہے۔)

نتھو        :ارے جمن! یہ تھانیدار اور پولس کے سپاہی ہمارے واسطے تو یہاں آئے ہیں۔۔۔ ڈاکوؤں سے بچانے کے لیے۔۔۔ چل جا جلدی بکرا کاٹ کے بنا کے لے آ۔۔۔ پولس والوں کو جلدی جلدی بھوک لگتی ہے۔۔۔

(جمن عجیب نظروں سے اسے جاتے ہوئے دیکھتا ہے اور مرے قدموں سے اندر جاتا ہے۔ فیڈ آؤٹ)

 

 

 

 

سین نمبر۹

 

(روشنی ہوتی ہے۔ گاؤں والے سب جمع ہیں۔۔۔ تھانیدار وائرلس پر ایس پی سے بات کر رہا ہے۔ چاروں سپاہی بھی کھڑے ہیں۔)

 

تھانیدار:حضور۔۔۔ نیا گاؤں کا پولس بندوبست دیکھ کر ڈاکو نہیں آئے۔۔۔ ہاں حضور۔۔۔ ہم نے کڑا پہرہ رکھا ہے۔۔۔ دن رات ایک کر دئیے ہیں۔۔۔ اگر ڈاکو آ گئے تو بچ کر نہیں جائیں گے۔۔۔ جی حضور۔۔۔ جی اچھا۔۔۔ (وائرلیس بندکر کے تعریفی نظروں سے گاؤں والوں کی طرف دیکھتا ہے ) دیکھا۔۔۔ پولس کی مستعدی کی ایس پی صاحب بھی تعریف کر رہے ہیں۔ سالے ڈرکے مارے آئے نہیں تمہارے ڈاکو۔۔۔ انھیں خبر لگ تھی شاید گینداسنگھ (مونچھوں پرتاؤ دے کر)اپنے سپاہیوں کے ساتھ ڈیرہ ڈالے ہوئے ہے۔۔۔ ڈرپوک سالے۔۔۔

سپاہی نمبر           ۲:حضوروہ جمن کھانا لے کرآیا ہے۔۔۔

تھانیدار:تولگاؤ۔۔۔ اور ہاں !بلاؤ اس کو۔۔۔ (جمن آتا ہے۔)کیوں بے جمن سنا تو بکرا نہیں کاٹ رہا تھا۔۔۔ ہمارے لیے !

جمن      :سرکاربیگارکر کے پائی پائی جوڑکے یہ بکرالایا تھا۔ سنیچر کے بازار میں گوشت کا دھندہ لگانا تھا۔

تھانیدار:(تمباکو مسلتے ہوئے ) لائسنس ہے تیرے پاس؟

جمن      :کا ہے کاسرکار۔۔۔؟

تھانیدار:ابے بکراکاٹنے کاسرکاری اجازت نامہ ہے؟

جمن      :ناہی سرکار۔۔۔

تھانیدار:پھر تجھے نہیں معلوم بنالائسنس کے جانور کاٹناگناہ ہے اس کی سزا ہو سکتی ہے۔

جمن      :لیکن ابھی توہم نے آپ لوگن کے لیے یہ بکراکاٹا ہے تو۔۔۔؟

تھانیدار:(تمباکوکاسوکھا منہ میں ڈال کر) ابے گدھے !ابھی توتونے بکرا قانون والوں کے لیے کاٹا ہے۔ مطلب ہمارے لیے۔۔۔ توقانون تجھے معاف کر دے گا۔۔۔ لیکن توگوشت بیچ نہیں سکتا۔۔۔ سمجھا۔۔۔

جمن      :حضور!ایساجلم نہ کرو۔۔۔ ہمیں سرکاری اجاجت دلادیوحضور۔۔۔ ہماری دال روٹی کابندوبست ہو جاوے گا۔۔۔

تھانیدار:ٹھیک ہے۔۔۔ تھانے آ جانا۔۔۔ میں ایس پی صاحب سے بات کروں گا۔۔۔ لیکن اس کے لیے کچھ روپیہ خرچ کرنا پڑے گا۔۔۔ سمجھا۔

جمن      :جی حضور۔۔۔ لیکن پھر مجھے بکرا کاٹنے کا لائسنس تو مل جائے گانا۔۔۔؟

تھانیدار:ابے روپیہ خرچ کرے گا تو بکرا کیا آدمی کاٹنے کا بھی لائسنس مل جائے گا۔

(تھانیدار اور سپاہی زور زور سے ہنستے ہیں۔)

تھانیدار:اور سن!سنا ہے پڑوس کے گاؤں میں کوئی ناچن والی تیری رستے دار ہے؟

جمن      :جی سرکار۔

تھانیدار:ابے تورات میں بلا اسے۔ کچھ ہمارا دل تو بہلا۔۔۔ سالا ہم اپنے گھر بار سے اتّی دور تمہارے یہ سڑے گاؤں میں بور ہو رہے ہیں۔۔۔

جمن      :لیکن وہ ڈاکو آ گئے تو حجور۔۔۔

تھانیدار:ابے تو ڈاکوؤں کو بھی بٹھا دیویں گے ان کا ناچ دکھانے۔۔۔ تو لاتو سہی۔۔۔ ہاں۔۔۔

(بے ڈھنگے پن سے ہنستا ہے۔)

جمن      :جی سرکار۔۔۔ میں ابھی جا کے بولتا ہوں۔۔۔

تھانیدار:مکھیا جی۔۔۔ رات میں جشن ہو گا۔۔۔ رات کے کھانے میں مرغے کاٹو مرغے اور مہوہ کی شراب بھی منگواؤ۔۔۔ سالا یہ اس میں مزا نہیں آ رہا ہے۔

(کتا بھونکتے ہوئے داخل ہوتا ہے۔ تھانیدار اسے دیکھ کر بندوق اٹھاتا ہے۔۔۔ )

تھانیدار:سالا!حرامی کتا۔۔۔ رات میں اسی نے میرے  منہ پر۔۔۔ (کچھ سوچ کر، آس پاس دیکھ کر چپ ہو جاتا ہے۔۔۔ ) ابھی بتاتا ہوں تجھے۔۔۔

(کتے کے پیچھے بھاگتا ہے۔ گاؤں کے لوگ ہکا بکا اسے بھاگتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ نٹ نٹی داخل ہوتے ہیں۔)

نٹ نٹی  :(دونوں ایک ساتھ گاتے ہوئے۔)

ڈاکو آئے، ڈاکو آئے۔۔۔ ڈاکو آئے۔۔۔

(دو بار)

گاؤں بچانے کو۔۔۔ لوٹ کے کھانے کو۔۔۔

رنگ جمانے کو۔۔۔ جشن منانے کو۔۔۔

ڈاکو ڈاکو آئے۔۔۔ ڈاکو آئے۔۔۔

نٹی        :تو صاحبان! گیندا سنگھ کے سپاہی بہت خوش، جاگی قسمت سوئی ہوئی۔

نٹ      :اتنا مزہ۔۔۔ اتنی مستی تو آج تک کسی کیمپ میں نہیں ہوئی۔

نٹی        :گیندا سنگھ کے لیے نیا گاؤں کا ڈیرہ پکنک سے کم نہ تھا۔

نٹ      :ڈاکوؤں کے انتظار میں دن گزرے، کوئی غم نہ تھا۔

نٹی        :گاؤں والوں پریہ دن گزرے بہت بھاری۔

پولس والوں کی موج مستی زوروں پربھی جاری۔

نٹ      :آج ہمیں بلایا ہے گاؤں میں ان کا دل بہلانے۔

میں نٹی کے ساتھ ہوں فکر نہیں وہ ڈالے گا دانے۔

نٹی        :تو نہ بھی ہو تو میری بلاسے نٹو۔۔۔ میں کوئی کریم چاچا کے انڈے

جمن کا بکرا، یا پاسی کی بہو نہیں ہوں جسے تھانیدار گھات رہا ہے۔

نٹ      :ویسے جوتا پہننے والا ہی جانتا ہے کہ وہ اسے کہاں کاٹ رہا ہے۔

(دونوں ناچتے ہوئے اسٹیج کے پچھلے حصے میں جاتے ہیں جہاں زور دار قہقہے لگا کر تھانیدار اور سپاہی مرغے کی ٹانگیں نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں اور ساتھ ساتھ شراب کے گھونٹ بھی لیتے جاتے ہیں۔ مرغے نوچ نوچ کر کھا کے ہڈیاں پھینک رہے ہیں جسے کتا لپک کر اٹھا لیتا ہے۔ نٹ نٹی آ کر سلام کرتے ہیں۔۔۔ انھیں دیکھ کر تھانیدار چہکتا ہے۔)

تھانیدار:آؤ آؤ نچنی۔۔۔ دکھاؤ دوچار اچھے ٹھمکے۔۔۔

سپاہی نمبر۱          :اور کوئی پھڑکتا ہوا گانا۔۔۔ طبیعت ہری ہو جائے۔۔۔ حضور کی۔۔۔

(ونگ سے ایک فوک گیت بجتا ہے جس پرنٹ اور نٹی ناچتے ہیں۔۔۔ تھانیدار شراب کی بوتل لے کر نٹی کے ساتھ بدست ہو کر ناچتا ہے اور جیب سے روپئے نکال کر دیتا جاتا ہے۔ گاؤں والے حیرت سے رقص و سرور کا یہ تماشہ دیکھتے ہیں۔۔۔ چوکیدار ابھی بھی فکر مند نظروں سے اس سڑک کی طرف دیکھ رہا ہے جہاں سے ڈاکو آنے کا خطرہ ہے۔۔۔ سپاہی نمبر۲ نظر بچا کر چپکے سے ایک ونگ کی طرف کھسکتا ہے۔۔۔ کچھ دیر بعد جب ناچ اور گانا شباب پر ہوتا ہے تو لڑکی کی زوردار چیخ ابھرتی ہے۔۔۔ سب چونک کر اس طرف دیکھتے ہیں۔۔۔ نٹ اور نٹی روپئے سمیٹ کر نکل جاتے ہیں نتھو دوڑتے ہوئے آتا ہے اور تھانیدار کے پیر پکڑ کر کے۔۔۔ )

نتھو        :حجور۔۔۔ میری بہو کے ساتھ آپ کا سپاہی جور جبردستی کر رہا ہے۔۔۔ اسے منع کر دیجئے سرکار۔۔۔ میری بہو ودھوا ہے۔۔۔ اس کے دو چھوٹے بچے ہیں حجور۔۔۔

تھانیدار:(شراب کے نشے میں دھت)ارے تو کیا کر رہا نتھو!کیا بول رہا ہے۔۔۔؟ تیری بہو ودھوا ہے۔۔۔؟ہاں۔۔۔؟ اس کو ودھوا مت سمجھ۔۔۔ یہ سپاہی کیا تیرے بیٹے جیسا نہیں ہے؟ہاں۔۔۔ ارے اپنے گھربار سے دور۔۔۔ کتنی تکلیف میں تین چار دن سے۔۔۔ یہاں مر رہے ہیں۔۔۔ بھوک لگتی ہے۔۔۔ تو کھانا کھاتے ہیں نا۔۔۔؟نتھو!تو چاہتا ہے میرے  سپاہی بھوک سے مر جائیں۔۔۔ ہاں۔۔۔ (ہچکی) فکر مت کر۔۔۔ تیری بہو کو ہم۔۔۔ یہاں سے دلہن بنا کے لے جائیں گے۔ اچھا۔۔۔ اب تو خوش!جا۔۔۔ کچھ نہیں ہو گا۔۔۔ جا۔۔۔

(سپاہی نمبر۳ کھلے شرٹ کے بٹن لگاتے ہوئے آتا ہے اور دوسرے سپاہیوں سے ہنس ہنس کر مائم میں پورا حال سنانے لگتا ہے۔)

نتھو        :(سپاہی نمبر۳کو دیکھ کر) ایک بھوکے کتے کا پیٹ بھریں اس کو پالیں تو وہ کبھی نہیں کاٹتا۔۔۔ یہ سب سے بڑا پھرک ہے آدمی اور کتے میں۔

آدمی     :(ہانپتے ہوئے آتا ہے )نتھو۔۔۔ نتھو بھیا۔۔۔ تیری بہو نے کنویں میں چھلانگ لگا دی۔۔۔ جلدی چل۔

نتھو        :کیا۔۔۔؟نہیں۔۔۔

(چیختے ہوئے بھاگتا ہے۔ گاؤں کے سبھی لوگ اس کے پیچھے جاتے ہیں۔ اسٹیج پر صرف تھانیدار اور سپاہی رہ جاتے ہیں۔)

تھانیدار:(سپاہی نمبر۳کو اشارے سے بلا کر)کیوں بے۔۔۔ یہ کیا کر دیا حرامی؟

سپاہی نمبر۳         :(ڈھٹائی سے )مجھے پیاس لگی تھی صاحب! میں تو بس پانی۔۔۔ پینے۔۔۔ اندر گیا تھا۔۔۔ اور وہ۔۔۔

تھانیدار:(ایک لات جما کر) ابے ! آج کل تجھے بہت جلدی جلدی پیاس لگ رہی ہے؟کتے سالے دو دو گھنٹے میں، ان کو بھی دیکھ۔۔۔ (دوسرے سپاہیوں کی طرف اشارہ کر کے ) سالے انھوں نے کل رات میں پانی پیا تھا۔۔۔ مجھے دیکھ جنم جنم کا پیاسا ہوں۔۔۔ سالے !اب وہ مر گئی تو ایس پی کو۔۔۔ کیا جواب دیں گے۔۔۔ ہاں۔۔۔ ادھر آ۔۔۔ (اشارے سے قریب بلاتا ہے۔۔۔ سپاہی نمبر۳ ڈرتے ڈرتے آتا ہے ) ویسے پانی کیسا تھا، میٹھا تھا کہ نہیں؟ ہاں۔۔۔ (بے ڈھنگے پن سے ہنستا ہے ) ابے پیاس بجھی کہ نہیں۔۔۔؟؟

(سارے سپاہی اور سپاہی نمبر۳ کھل کر ہنستے ہیں۔)

(گاؤں کے سبھی لوگ مردہ قدموں سے داخل ہوتے ہیں۔)

مکھیا       :تھانیدار صاحب! اگر نتھو کی بہو کو کنوئیں سے نکالنے میں ذرا دیر ہو جاتی تو وہ مر جاتی۔۔۔ اس کی سانس ابھی بھی بڑی مشکل سے چل رہی ہے۔۔۔

تھانیدار:مکھیا جی! آپ۔۔۔ فکر مت کرو۔۔۔ اس حرامی کی کمپلنٹ میں نے ایس پی صاحب سے کر دی ہے۔۔۔ اسے suspend  کر دیا جائے گا۔۔۔ (سپاہی نمبر۳کو ڈنڈے سے مارتے ہوئے ) حرامی کتے ! تجھے ودھوا عورت ہی ملی۔۔۔؟اتنی گرمی چڑھی تھی تو مکھیا جی سے کہہ دیتا۔۔۔ وہ انتظام کر رہے تھے نا۔۔۔ !مکھیا جی! آپ فکر مت کرو جی اس کا بندوبست تو کر دیا ہے میں نے۔۔۔ چل یہاں سے دفع ہو۔۔۔

(سپاہی نمبر۳ باہر جاتا ہے۔)

(تھانیدار چاروں طرف دیکھتا ہے۔۔۔ کسی فاتح کی طرح)

تھانیدار:مکھیا جی! مجھے لگتا ہے اب ہمیں اپنا کیمپ ہٹا لینا چاہئے۔۔۔

مکھیا       :جی سرکار۔۔۔

تھانیدار:مجھے نہیں لگتا اب ڈاکو آئیں گے۔۔۔ اب ہمیں چلنا چاہئے کیوں نمبر۱۔

سپاہی نمبر           ۱:حضور۔۔۔ وہ۔۔۔ وہ تو کہہ دیجئے۔

(کان میں پھسپھساتا ہے۔)

تھانیدار:ٹھیک ہے تم جیپ نکالو۔۔۔ مکھیا جی۔۔۔ ذرا جیپ میں آلو کی پانچ بوریاں اور ایک دس بارہ بھیلیاں رکھوا دو۔

(مکھیا، چوکیدار کو اور باری باری سب کو دیکھتا ہے۔۔۔ سب چپ ہیں۔۔۔ تھانیدار معاملے کو سمجھتے ہوئے۔۔۔ سپاہی نمبر ۱کو آواز دے کر)

تھانیدار:ارے نمبر۱۔۔۔ دیکھ یہ لوگ ابھی بھی ڈاکوؤں سے ڈرے ہوئے لگتے ہیں رے۔ ایسا کرتے ہیں اور دوچار دن ڈیرہ ڈال لیتے ہیں۔۔۔

مکھیا       :(جلدی سے ) ارے نہیں نہیں حجور۔۔۔ ہم کہاں ڈرتے ہوئے ہیں۔۔۔ آپ جوہیں دیکھو سب لوگ کتنے بے پھکر ہو کر دن میں بھی سور رہے ہیں۔۔۔

بوڑھا کریم         :اور اب ڈاکو نہیں آئیں گے حضور۔۔۔ ڈر گئے ہیں سالے آپ سے۔۔۔

سنتا       :(دانت پیس کر)ہاں !حضور! اور آ گئے تواب ہمیں سمجھ گیا ہے کہ ان کو کیسے بھگانا ہے۔

مکھیا       :سنتا۔

بھجنگ   :(جلدی سے بات سنبھال کر) ہم ترنت آپ کو خبر کر دیں گے سرکار۔

(تھانیدار مسکراتا ہے۔)

تھانیدار:تو مکھیا پھر ہم جاویں۔۔۔؟

مکھیا       :جیسی حجور کی اچھا۔۔۔ اے جمن۔۔۔ (پکار کے ) سرکار کی جیپ میں آلو اور بھیلی کے بورے رکھ دے رے۔۔۔ جلدی۔۔۔

(تھانیدار اور سپاہی دھیرے دھیرے اٹھتے ہیں۔۔۔ چاروں طرف دیکھتے ہیں اور ونگ میں کھڑی جیپ کی طرف جاتے ہیں۔۔۔ گاؤں کے سبھی لوگ انھیں جاتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔۔۔ کتا دھیرے سے آتا ہے اور ونگ کی طرف دیکھ کر بھونکنے لگتا ہے۔)

چوکیدار            :(تھوکتے ہوئے ) ارے ایسے شہد سے کیا پھائدہ جس میں زہر ملا ہو اس سے تو اچھا وہ زہر ہے جس میں شہد ملا ہو۔۔۔

مکھیا       :(چوکیدار کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر تسلی دیتے ہوئے ) کاکا! گڑ کی بھیلی سے سر پھوڑیں گے تو خون ہی نکلے گا گنے کا رس نہیں۔۔۔

(ایک بچہ جو اپنی ماں سے لپٹا کھڑا ہے پوچھتا ہے۔)

بچہ        :ماں !ڈاکو آ رہے ہیں کیا؟

ماں       :(بچے کو لپٹاتے ہوئے ) نہیں بیٹا۔۔۔ جا رہے ہیں۔۔۔

(جیپ کا دھواں اسٹیج پر آتا ہے۔۔۔ جیپ اسٹارٹ ہونے کی آواز اور اسی کے ساتھ کتا زور زور سے بھونکنے لگتا ہے اور مسلسل بھونکتا رہتا ہے۔۔۔ جیپ کی آواز پر گھوڑوں کی آوازیں Overlap  ہوتی ہیں سب کی نظریں ونگ کی طرف ہیں اور پردہ گرتا ہے۔)

سب ٹھیک ہے !

٭٭٭

ماخذ:’’نیا ورق‘‘ پبلی کیشنز، ممبئی

مشمولہ اردو ڈرامے،  مرتبہ پروفیسر سیدمعزالدین احمدفاروق

فائل کے لئے تشکر: ڈاکٹر شرف الدین ساحل، ساحل کمپیوٹرس، ناگپور

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید