FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

ماہ نامہ’’ تعلیم و تربیت‘‘ لاہور  میں شائع ہونے والے مقبول و معروف کردار کی ہنستی مسکراتی کہانیاں

 

 

چچا تیز گام

 

 

 

                   محمد فہیم عالم

 

 

 

رابطہ

faheemaalam@gmail.com

+923214084824

 

 

 

 

چچا چھکن سے چچا تیز گام تک

 

بچوں کے لیے اُردو ادب میں ہر دور میں ہر صنف میں بہت کچھ لکھا گیا ہے اور لکھا جا رہا ہے۔ بچوں کے لیے طنز و مزاح کے حوالے سے بھی نظم اور نثر میں بہت سے لکھنے والوں نے اپنی بساط کے مطابق بہت خوب لکھا ہے۔

سید امتیاز علی تاج کا مزاحیہ کردار چچا چھکن، ڈاکٹر ذکیہ بلگرامی کا چچا بھلکڑ اور محمد ادریس قریشی کا کردار  چچا حیرت بچوں کے مزاحیہ ادب میں کلاسیک کا درجہ حاصل کر چکے ہیں۔ بچوں کے مزاحیہ ادب میں ایک خوش گوار اضافہ نوجوان قلمکار محمد فہیم عالم کے مزاحیہ کردار چچا تیز گام کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ اتنے کم وقت میں جو مقبولیت اس کردار نے حاصل کی ہے وہ بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس کردار کی مقبولیت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ اس پر لکھی جانے والی پہلی کہانی ’’چچا تیز گام نے افطاری کی‘‘ نے ہی ہمارے ادارے ’’شعبہ بچوں کا ادب‘‘ دعوہ اکیڈمی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد اور ’’اورینٹ ایڈورٹائزنگ لمیٹڈ‘‘ کے تحت ہونے والے ’’اورینٹ دعوہ ایوارڈ برائے بچوں کا ادب‘‘ میں امتیاز علی تاج ایوارڈ حاصل کیا۔ بچوں کے مقبول و معروف رسالے ماہ نامہ ’’تعلیم و تربیت‘‘ میں چھپنے والا چچا تیز گام کا کردار بچوں کا مزاحیہ پسندیدہ کردار بنتا جا رہا ہے۔ ہر ماہ بچوں کو چچا تیز گام کی تیز گامیوں کا شدت سے انتظار رہتا ہے۔ یہ بہت ناسپاس گزاری ہو گی کہ میں بچوں کا ادب کے لائٹ ہاؤس نذیر انبالویؔ کا تذکرہ نہ کروں کیوں کہ چچا تیز گام کے کردار کو روشناس اور ہردلعزیز بنانے میں بنیادی کردار بچوں کے مایہ ناز ادیب نذیر انبالوی کا ہے۔ جنہوں نے بے شمار نوآموز قلمکاروں کو بچوں کے ادب کا ممتاز ادیب بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔

اللہ کرے کہ نوجوان قلمکار محمد فہیم عالم بچوں کے لیے اسی طرح دلچسپ اور با مقصد ادب تخلیق کرتے ہوئے جلد بڑے ادیبوں کی صف میں شامل ہو جائیں۔ آمین

 

ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر

انچارج شعبہ ’’بچوں کا ادب‘‘ دعوہ اکیڈمی،

بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد

 

 

 

چچا تیز گام بازار گئے

 

’’محمود کے ابا۔۔! او۔۔! محمود کے ابا۔۔!‘‘ چچا تیز گام کو ان کی بیگم کافی دیر سے آوازیں دے رہی  تھیں۔ جب کافی دیر کے بعد بھی اُن کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا تو تنگ  آ کر بیگم نے ملازم کو پکارا:

’’جمن۔۔! او۔۔ جمن! کہاں ہو؟‘‘ لیکن وہ جمن ہی کیا جو پہلی آواز پر ہی جواب دے دیتا۔ کافی دیر بعد جمن کی صورت نظر آئی۔

’’جی بیگم صاحبہ! جی بیگم صاحبہ!‘‘ جمن نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔

’’اتنی دیر سے بلا رہی ہوں کہاں مر گئے تھے تم۔۔؟‘‘ بیگم غصے سے بولیں۔

’’بیگم صاحبہ۔۔! وہ۔۔‘‘ جمن سے بات نہ بن رہی تھی۔

’’جاؤ! جا کر دیکھو محمود کے ابا کہاں ہیں ؟‘‘ بیگم بولیں۔

’’اچھا بیگم صاحبہ!‘‘ جمن جب چچا تیز گام کے کمرے میں پہنچا تو کمرہ چچا تیز گام کے خراٹوں سے گونج رہا تھا، یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے بادل گرج رہے ہوں، جمن مارے خوف کے بیگم صاحبہ کے کمرے کی طرف بھاگا۔

’’وہ۔۔ بیگم صاحبہ! وہ۔۔ بیگم صاحبہ!‘‘ جمن ہانپتا ہوا بولا۔

’’وہ کیا۔۔؟‘‘ بیگم صاحبہ نے پوچھا۔

’’وہ جی۔۔ وہ۔۔‘‘

’’کیا وہ۔۔ وہ لگا رکھی ہے کچھ کہو بھی۔ ‘‘ بیگم جھنجلا کر بولیں۔

’’وہ مالک اپنے کمرے میں آرام فرما رہے ہیں۔ ‘‘

’’اچھا! تو وہ اپنے کمرے میں آرام فرما رہے ہیں، لیکن۔۔ ! تم اتنے گھبرائے ہوئے کیوں ہو؟‘‘ بیگم نے حیرت سے جمن کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔

’’جی۔۔ وہ۔۔ مالک۔۔ خراٹے ہی اتنی زور سے لیتے ہیں کہ کانوں کے پردے پھٹتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ ‘‘ جمن بولا۔

’’حیرت ہے وہ اتنی جلدی کیسے سو گئے، ابھی کچھ دیر پہلے تو وہ کھانا کھا کر گئے ہیں۔ ‘‘ بیگم نے بڑبڑاتے ہوئے چچا تیز گام کے کمرے کا رخ کیا۔

جمن نے صحیح کہا تھا۔ بیگم کو بھی اپنے کانوں کے پردے اُن کے زوردار خراٹوں سے پھٹتے ہوئے محسوس ہوئے۔ بیگم نے جلدی سے چچا تیز گام کو جھنجوڑا تو یک دم اُن کے خراٹوں کو جیسے بریک لگ گئی۔

’’کک۔۔ کیا۔۔ ہوا۔۔‘‘ چچا تیز گام ہڑبڑا کر اٹھے۔

’’اُف خدایا….. ! آپ کے خراٹے۔۔‘‘ بیگم نے کانوں کو ہاتھ لگایا۔

’’ہیں۔۔ کیا کہا۔۔ خراٹے۔۔ بیگم! تم نے مجھے ویسے ہی بدنام کیا ہوا ہے، میں نے تو آج تک خراٹے نہیں لیے۔ بھلا میرا اور خراٹوں کا کیا تعلق، خراٹے تو تت۔۔ تت۔۔ تیز۔۔ میرا مطلب تنویر احمد سے کوسوں دُور بھاگتے ہیں۔ ‘‘ چچا تیز گام سینہ پھُلا کر بولے۔

’’ابھی کچھ دیر پہلے شاید میرے کان بج رہے تھے۔ ‘‘ بیگم طنزیہ لہجے میں بولیں۔

’’تو پھر بیگم! تمہیں اپنے کانوں کا علاج کروانا چاہیے، اگر تم کہو تو میں کسی ڈاکٹر کو بلواؤں۔ ‘‘ چچا تیز گام تیزی سے بولے۔

’’ڈاکٹر کو بلوانا ہے تو اپنے خراٹوں کے لیے بلواؤ، میرے کان تو الحمد ﷲ بالکل ٹھیک ہیں۔ ہاں …..! تو میں کہہ رہی تھی کہ آپ میرے ساتھ بازار چلیں، مجھے محمود اور عروج کے لیے کپڑے خریدنے ہیں۔ اور ہاں۔۔! آپ وہ اپنی چاند گاڑی کو بھی تیار کر لیجئے گا، آج اسی کو زحمت دینا پڑے گی کیوں کہ سی این جی (C.N.G) کی ہڑتال کی وجہ سے گاڑیاں بند ہیں۔ ‘‘ بیگم بولتی چلی گئیں۔

’’اوہ۔۔ ! میری چاند گاڑی۔۔ اسے تو تم تیار ہی سمجھو!‘‘ اپنی چاند گاڑی کا سن کر چچا تیز گام خوش ہو کر بولے۔

چچا تیز گام کی چاند گاڑی دراصل ایک تاریخی موٹر سائیکل تھی۔ چچا تیز گام اسے اپنا خاندانی ورثہ کہا کرتے تھے۔ جب چچا تیز گام موڈ میں ہوتے تو اس کا ہارن بجاتے، جسے سُن کر راہ گیر نہ صرف راستہ چھوڑ دیتے بلکہ گرتے گرتے بچتے، اور اگر کبھی اتفاق سے وہ اسٹارٹ ہو بھی جاتی تو کانپ کانپ کر چلتی اور رُک رُک کر ہانپتی۔ اگرچہ اس کا سپیڈومیٹر عرصہ ہوا اﷲ کو پیارا ہو چکا تھا، لیکن چچا تیز گام اس کے بغیر بھی رفتار معلوم کر لیتے تھے۔ چچا تیز گام کو اپنے اس خاندانی ورثے پر بڑا فخر تھا۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے:

’’ہمارے دادا حضور نواب فخر الدین فخری نے اس موٹر سائیکل کو انگریزوں کے زمانے میں خریدا تھا۔ دادا حضور اس پر سوار ہو کر بڑے بڑے نوابوں اور مہاراجوں سے ملاقات کے لیے تشریف لے جاتے تھے۔ دادا جان کے انتقال کے بعد یہ ہمارے ابا حضور کو ورثے میں ملی۔ اﷲ بخشے ابا کو، وہ بڑی احتیاط اور پیار سے اسے چلایا کرتے تھے۔ اور اس دنیا فانی سے رخصت ہوتے ہوئے ہمیں وصیّت کر گئے تھے کہ بیٹا آباؤ اجداد کی یہ نشانی سنبھال کر رکھنا۔ ‘‘

چچا تیز گام کو اپنے اس خاندانی ورثے پر جتنا ناز تھا۔ ان کی بیگم کو اتنا ہی اس سے خدا واسطے کا بیر تھا۔ اگر ان کا بس چلتا تو وہ کب کی اسے نکال باہر کرتیں۔ چچا تیز گام اپنی چاند گاڑی کو کبھی کبھار ہی چلاتے تھے، لیکن اس کی صفائی روزانہ کرتے تھے۔

’’آپ جلدی سے تیار ہو جائیں۔۔ ہم نے جلدی واپس بھی آنا ہے۔ ‘‘ یہ کہہ کر بیگم کمرے سے چلی گئیں۔

’’لو بھئی۔۔ ہماری تیاری تو بہت آسان ہے، شیروانی پہنی اور ہم تت۔۔ تیار۔۔ ہو گئے، ارے۔۔ لیکن۔۔ یہ ہماری شیروانی کہاں گئی؟‘‘

کچھ دیر بعد چچا تیز گام نے ہانک لگائی۔

’’جمن۔۔! او۔۔ جمن۔۔! کہاں مر گئے ہو، جلدی آؤ ذرا میری شیروانی تو تلاش کر دو۔ ‘‘

’’جی مالک۔۔ !جی مالک….. !‘‘ جمن دوڑتا ہوا آیا۔

’’میری شیروانی تلاش کر کے دو، ابھی تو یہیں تھی پتہ نہیں کہاں چلی گئی۔۔ جلدی کرو۔ ‘‘ چچا تیز گام جمن پر برس پڑے۔

’’مالک! شیروانی کی کیا مجال جو گم ہو جائے، میں ابھی آپ کو تلاش کر دیتا ہوں۔ ‘‘ جمن چٹکی بجاتے ہوئے بولا اور شیروانی کو تلاش کرنے لگا، لیکن شیروانی نہ ملی۔

’’ارے کم بخت! اگر شیروانی نہیں مل رہی تو استاد کو بھی بلا لے۔ ‘‘

پھر جمن جلدی سے استاد کو بلا لایا۔ ان دونوں نے ہر جگہ شیروانی تلاش کی، لیکن شیروانی کو نہ ملنا تھا نہ ملی۔ تنگ آ کر چچا تیز گام شیروانی تلاش کرنے کے لیے خود ہی اٹھے تو شیروانی ان کے نیچے موجود تھی۔ سوتے ہوئے جلدی میں انہوں نے شیروانی کو کھونٹی پر ٹانکنے کے بجائے بستر پر ہی رکھ دیا تھا۔ چچا تیز گام شیروانی ہاتھ میں پکڑ کر جمن اور استاد پر برس پڑے۔

’’بس رہنے دو مل گئی شیروانی، ہم نے خود ہی ڈھونڈ لی ہے۔ ‘‘

چچا تیز گام نے جلدی سے شیروانی پہنی اور اپنی چاند گاڑی گیراج سے نکال کر صحن میں لے آئے۔ چاند گاڑی کا موڈ اچھا معلوم ہوتا تھا، جو پہلی ہی کک پر اسٹارٹ ہو گئی۔ اب چچا تیز گام لگے بیگم کو آوازیں دینے۔

’’ہائیں !۔۔ ارے بیگم …… !یہ کیا تم ابھی تک تیار نہیں ہوئیں۔ بھئی زمانہ بے حد تیز جا رہا ہے۔ ہمیں بھی اس تیزی میں زمانے کا ساتھ دینا چاہیے۔ ‘‘

’’اتنی تیزی بھی بھلا کس کام کی۔۔کہ زمانہ ہم سے پیچھے رہ جائے اور ہم اُس سے بھی آگے نکل جائیں ؟‘‘ بیگم دروازے سے نکلتے ہوئے منہ بنا کر بولیں۔

جب بیگم ان کے پیچھے موٹرسائیکل پر بیٹھ چکیں تو چچا تیز گام نے ہر کام تیز تیز کرنے پر لیکچر شروع کر دیا۔ چچا تیز گام کا لیکچر جاری تھا کہ اشارہ آ گیا۔ لیکن چچا تیز گام نے اپنا لیکچر پھر بھی بند نہ کیا۔ بیگم نے گھر سے چلتے ہوئے اپنے کانوں میں روئی پہلے رکھ لی تھی۔ بیگم سمجھیں کہ شاید اشارے پر رکنے کی وجہ سے وہ اپنا لیکچر بند کر چکے ہیں۔ بیگم نے جیسے ہی اپنے کانوں سے روئی نکالنا چاہی ان کا پرس سڑک پر گر گیا۔ وہ پرس اٹھانے کے لیے موٹرسائیکل سے اتریں۔ اتنے میں اشارہ کھل گیا۔ چچا ٹھہرے تیز گام۔ وہ یہی سمجھے کہ بیگم ان کے پیچھے بیٹھی ہوئی ہیں۔ لہٰذا اشارہ کھلتے ہی چچا تیز گام یہ جا۔۔ وہ۔۔ جا۔۔ بیگم کھڑی کی کھڑی رہ گئیں۔ وہ اپنا لیکچر جاری رکھے ہوئے تھے۔

’’بیگم! میں تو کہتا ہوں۔ یہ سگنل بھی نہیں ہونے چاہئیں۔ اس سے بہت سا وقت ضائع ہو جاتا ہے۔ جب کہ انسان کو تو ہر کام تیز تیز کرنا چاہیے۔ ‘‘

لوگوں نے ان کو آوازیں بھی دیں لیکن وہ تو اپنی دھن میں مگن تھے۔ بازار میں جا کر چچا تیز گام نے بریک لگائی۔

’’بیگم! تم کہا کرتی تھیں کہ تمہاری یہ چاند گاڑی تو کسی کام کی نہیں، اب دیکھو میری چاند گاڑی کتنے کام کی ہے۔ جو اتنے بُرے وقت پہ ہمارے کام آئی ہے۔ ‘‘

چچا تیز گام پیار سے اپنی چاند گاڑی کو تھپتھپاتے ہوئے بولے، لیکن انہیں بیگم نظر نہیں آئیں۔

’’ارے۔۔ ہائیں۔۔! یہ بیگم کدھر گئیں۔ ‘‘ بیگم کی گمشدگی پر چچا پریشان ہو گئے تھے۔

’’بڑے میاں۔۔!  اپنی بیگم کو تو آپ اشارے پر ہی چھوڑ آئے ہیں۔ ‘‘ قریب سے گزرتے ہوئے ایک موٹر سائیکل سوار نے چچا تیز گام کے پاس موٹر سائیکل روکتے ہوئے کہا۔

’’اشارے پر چھوڑ آیا ہوں کیا مطلب۔۔؟‘‘

’’جب آپ اشارے پر رکے تو آپ کی بیگم کا پرس گر گیا تھا۔ وہ اپنا پرس اٹھانے کے لیے موٹر سائیکل سے نیچے اتریں۔ اتنے میں اشارہ کھل گیا اور آپ نے انہیں بیٹھنے کا موقع ہی نہیں دیا اور چل دئیے۔ ہم نے آپ کو آوازیں بھی دیں، لیکن آپ نے سنی ہی نہیں۔ ‘‘ موٹر سائیکل سوار تفصیل بتاتے ہوئے بولا۔

’’اُف خدایا۔۔ ! یہ کیا ہو گیا۔۔‘‘ چچا تیز گام نے اپنا سر پکڑ لیا اور واپس بیگم کو لینے کے لیے روانہ ہوئے۔ بیگم اشارے پر غصے میں کھڑی تھیں۔

’’بیگم۔۔ وہ۔۔اصل میں۔۔ وہ۔۔‘‘ مارے شرمندگی کے چچا تیز گام سے بولا بھی نہ گیا۔ پھر وہ بیگم کو موٹر سائیکل پر بٹھا کر بازار کی طرف روانہ ہوئے۔

کپڑوں کی دُکان میں داخل ہوتے ہوئے چچا تیز گام کی نظر اچانک گھڑی پر پڑی تو وہ چونک اٹھے۔ انہیں یاد آیا اس وقت تو انہیں اپنے دوست گلو میاں کے پاس ہونا چاہیے تھا۔ کیونکہ روزانہ اس وقت وہ گلو میاں کو ملنے جاتے تھے۔ دُکان دار نے بہت سے کپڑوں کے تھان ان کے سامنے پھیلا دیے، لیکن چچا تیز گام کا ذہن تو گلو میاں کی طرف تھا۔ ان کا جی چاہتا تھا کہ وہ اُڑ کر گلو میاں کے پاس پہنچ جائیں۔

’’اس سوٹ کی قیمت کیا ہے؟‘‘ بیگم کی آواز سن کر چچا تیز گام چونکے۔

’’باجی! یہ کپڑا بہت ہی عمدہ ہے۔ ابھی کل ہی نئی ورائٹی آئی ہے، ویسے میں یہ سوٹ چھ سو سے کم ہرگز نہیں دیتا، لیکن صرف آپ کے لیے 580 روپے کا دے دوں گا۔ ‘‘ دُکان دار دانت نکالتے ہوئے بولا۔

’’لیکن ہم تو یہ سوٹ 570 روپے کا ہی لیں گے۔ اگر دینا ہے تو دے دیں۔ ‘‘ اس سے پہلے کہ بیگم کچھ بولتیں۔ چچا تیز گام تیزی سے بولے۔ بیگم چچا تیز گام کو گھور کر رہ گئیں۔

’’چلو میاں صاحب! آپ بھی کیا یاد کریں گے۔ آپ 570 روپے ہی دے دیں۔ ‘‘ یوں  بیگم کو مجبوراً وہ سوٹ لینا پڑا۔

’’اگر آپ درمیان میں نہ بولتے تو وہ سوٹ 400 روپے کا مل جاتا۔۔‘‘ دوکان سے باہر نکلتے ہی بیگم چچا تیز گام پر برس پڑی۔

’’بیگم! تم بھی کمال کرتی ہو، 570روپے کا سوٹ بھلا 400روپے کا کیسے مل جاتا۔ ‘‘ چچا تیز گام بولے۔

بیگم نے بازار سے اور بھی بہت سی چیزیں خریدیں۔ قیمت کی باری آتی تو چچا تیز گام بیگم کے بولنے سے پہلے ہی جلدی سے قیمت بتا دیتے۔ کیوں کہ چچا تیز گام کو تو گلو میاں سے ملنے کی جلدی تھی۔ یوں بیگم کا اُن کو ساتھ لانا کافی مہنگا پڑ رہا تھا۔

’’بیگم یہ کپڑوں کا شاپنگ بیگ مجھے پکڑاؤ اور جلدی سے بیٹھ جاؤ موٹرسائیکل پر، میں لیٹ ہو رہا ہوں، میں نے اپنے دوست گلو میاں کو بھی ملنے جانا ہے۔ ‘‘ چچا تیز گام جلدی سے بولے اور بیگم سے کپڑوں کا بیگ لے کر موٹر سائیکل کے آگے رکھ لیا۔ ابھی وہ تھوڑی ہی دُور گئے تھے کہ موٹر سائیکل ہچکولے کھانے لگی۔ چچا تیز گام نے نیچے اتر کر دیکھا تو پنکچر ہوا ٹائر ان کو منہ چڑا رہا تھا۔

’’بیگم ….. ! تم یہاں کھڑی رہو۔ میں پنکچر لگوا کر ابھی آتا ہوں۔ ‘‘ چچا تیز گام بولے اور موٹر سائیکل لے کر چل دیے۔ کچھ دیر بعد وہ پنکچر لگوا کر آ گئے اور یوں خدا خدا کر کے وہ گھر کی طرف روانہ ہوئے۔ گھر پہنچ کر چچا تیز گام بیگم کو گھر کے دروازے کے سامنے اتار کر گلو میاں کے گھر کی طرف دوڑے۔ ابھی وہ گلو میاں کے گھر کے دروازے پر پہنچ کر دستک دے ہی رہے تھے کہ ان کا بیٹا محمود دوڑتا ہوا آیا۔

’’ابا جان۔۔! وہ کپڑوں کا شاپنگ بیگ کہاں ہے؟‘‘

’’کپڑوں کا شاپنگ بیگ۔۔! اوہ۔۔ وہ تو میں جلدی میں پنکچر کی دُکان پر بھول  آیا ہوں۔ ‘‘

دستک سن کر گلو میاں دروازے پر آئے تو چچا اپنی چاند گاڑی کو اسٹارٹ کر چکے تھے۔

’’ارے بھئی تیز گام! دستک دے کر کہاں چل دئیے۔۔؟‘‘ گلّو میاں نے انہیں پکارا

’’وہ۔۔ وہ۔۔ کپڑے۔۔ شاپنگ۔۔ پنکچر۔ ‘‘ یہ کہہ کر چچا تیز گام یہ جا وہ جا۔ محمود نے جب تفصیل بتائی تو گلو میاں بولے۔

’’اگر یہ اس طرح کے کام نہ کریں تو انہیں چچا تیز گام کون کہے گا۔ ‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

تیز گام گاؤں گئے

 

’’ارے بھائی صاحب! آخر بس کب آئے گی؟‘‘ چچا تیز گام نے تیسری مرتبہ پوچھا تو وہ شخص جھلا اٹھا:

’’میاں جی! میں آپ کو کتنی مرتبہ بتا چکا ہوں کہ بس آنے والی ہے۔ ‘‘

’’برخوردار! مجھے یہاں کھڑے کافی دیر ہو گئی ہے، لیکن ابھی تک بس دُور دُور تک نظر نہیں آ رہی۔ ‘‘ چچا تیز گام بولے۔

’’ہا۔۔ ہاہا او شیدے! میاں جی کو دیکھو، ان کو یہاں کھڑے ہوئے ابھی پانچ منٹ بھی نہیں ہوئے اور کہہ رہے ہیں کہ مجھے کھڑے ہوئے کافی دیر ہو گئی ہے۔ بزرگو! یہ لوگ جو آپ کو کھڑے نظر آ رہے ہیں نا، ان میں سے کوئی ایک گھنٹے سے بس کا انتظار کر رہا ہے تو کوئی دو گھنٹے سے کھڑا ہے۔ ‘‘

بس سٹاپ پر کھڑے بہت سے لوگ چچا تیز گام کو حیرت سے دیکھنے لگے تھے۔ وہ شخص اور اس کا ساتھی چچا تیز گام کی طرف دیکھ کر ہنس رہے تھے۔ چچا تیز گام کھسیانے سے ہو کر ایک طرف کھڑے ہو گئے۔

وہ اُس وقت کو کوس رہے تھے جب انہوں نے گاؤں جانے کا پروگرام بنایا تھا۔ گاؤں جانے کا سنتے ہی بیگم بھڑک اٹھی تھی۔

’’آخر آپ گاؤں کیا کرنے جا رہے ہیں اور کس کے پاس جا رہے ہیں ؟‘‘

’’لو۔۔ ! بھلا یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے۔ ‘‘ چچا تیز گام بولے۔

’’چلو۔۔!  جو پوچھنے کی بات ہے وہ بتا دیں۔ ‘‘ بیگم بُرا سامنہ بنا کر بولی۔

’’میں گاؤں اپنے دوست شیر محمد کو ملنے جا رہا ہوں۔ ‘‘ چچاتیز گام نے کہا۔

’’جہاں تک میرا خیال ہے اس نام کا آپ کا کوئی دوست نہیں ہے۔ ‘‘

’’بیگم! اپنا خیال اپنے پاس رکھو، شیر محمد اپنا جگری یار ہے۔۔ جگری یار۔۔‘‘

چچا تیز گام مسکرا کر بولے تو بیگم اپنا سا منہ لے کر رہ گئیں۔ اور چچا تیز گام گاؤں جانے کی تیاریوں میں لگ گئے اور یوں جمن اور استاد کی شامت آ گئی۔

آخر خدا خدا کر کے چچا تیز گام تیار ہوئے۔ ابھی وہ گھر سے نکلنے کا سوچ ہی رہے تھے کہ محمود اور عروج اسکول سے آ گئے۔ جب انہیں پتا چلا کہ ابّا جان گاؤں جا رہے ہیں تو دونوں نے انہیں گھیر لیا۔

’’ابا جان! آپ میرے لیے گاؤں سے کیا لائیں گے؟‘‘ محمود بولا۔

’’جو میرا بیٹا کہے گا، میں وہی لاؤں گا۔ ‘‘ چچا تیز گام پیار سے بولے۔

’’میرے دوست آصف کے ابو گاؤں گئے تھے تو وہ اس کے لیے گُڑ لائے تھے۔ آپ بھی میرے لیے گاؤں سے گُڑ لائیے گا۔ ‘‘

’’کیوں نہیں، میں اپنے بیٹے کے لیے گاؤں سے ڈھیر سارا گُڑ لاؤں گا۔ ‘‘

آپ کہہ تو ایسے رہے ہیں جیسے وہاں گُڑ کے پہاڑ ہوں گے۔ ‘‘ بیگم جل کر بولیں۔

’’بیگم! تم بھی کمال کرتی ہو۔ بھلا گُڑ کے بھی پہاڑ ہوتے ہیں، گُڑ کے تو کھیت ہوتے ہیں، کھیت۔۔ میرے جگری یار شیر محمد نے بتایا تھا کہ گاؤں میں اس کے بہت سارے گڑ کے کھیت ہیں۔ ‘‘ چچا تیز گام جلدی جلدی بولے۔

’’لیکن مالک! کھیت تو گنوں کے ہوتے ہیں جن سے گُڑ بنتا ہے، گُڑ کے کھیت نہیں ہوتے۔ ‘‘ جمن نے کہا۔

’’ہاں۔۔! ہاں وہی۔۔ ایک ہی بات ہے۔ ‘‘ چچا تیز گام گردن ہلاتے ہوئے بولے۔

’’اور ابا جان! میرے لیے آپ کیا لائیں گے؟‘‘ محمود نے گھیراؤ ختم کیا ہی تھا کہ ننھی عروج چچا تیز گام کا راستہ روک کر بولی۔

’’تمہارے لیے میں آم لاؤں گا۔ میرے دوست شیر محمد کے گاؤں میں آم کے بہت سے باغات ہیں۔ میں بھی اصل میں آ۔۔ آ۔۔آم۔ ‘‘

چچا تیز گام کچھ کہتے کہتے اچانک رک گئے۔

’’اچھا بھئی میں تو اب چلا گاؤں۔۔‘‘ چچا تیز گام پینترا بدلتے ہوئے بولے۔

’’کہیے۔۔! کہئے۔۔! رُک کیوں گئے۔۔ کہ گاؤں آپ کو آپ کے دوست کی محبت نہیں بلکہ آموں کی خوشبو بلا رہی ہے۔ ‘‘ بیگم طنزیہ لہجے میں بولی۔

’’بیگم۔۔!  بال کی کھال اتارنا تو کوئی تم سے سیکھے۔ ‘‘

چچا تیز گام غصے سے بولے اور گھر سے گاؤں کے لیے رخصت ہوئے۔

شیر محمد سے چچا تیز گام کی دوستی اتفاقیہ ہوئی تھی۔ چچا تیز گام ایک شادی سے واپس   آ رہے تھے۔ جمن اُن کے ساتھ تھا۔ اُن کو ٹرین کا سفر پسند تھا۔ اس لیے اکثر وہ ٹرین پر سفر کرتے تھے۔ شادی سے واپسی پر وہ ٹرین پر سوار تھے۔ چچا تیز گام حسبِ معمول سیٹ پر بیٹھے سوتے میں خراٹے لے رہے تھے۔ اُن کے خراٹے پورے ڈبے میں گونج رہے تھے۔ ٹرین کے چلنے کی آواز ان خراٹوں کی گونج میں دب کر رہ گئی تھی۔

ڈبے میں سبھی مسافر ان کے خراٹوں سے تنگ تھے۔ سب نے انگلیاں کانوں میں ٹھونس رکھی تھیں۔ دُوسرے مسافروں کی نسبت شیر محمد زیادہ تنگ ہو رہے تھے۔ کیوں کہ وہ چچا تیز گام کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ شیر محمد نے پہلے تو جمن کو کہا کہ ان کو اٹھا دو۔ لیکن اُس نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ مالک مجھ پر بگڑیں گے۔

’’کیا آپ ان کے ملازم ہیں ؟‘‘

شیر محمد نے پوچھا تو جمن نے چچا تیز گام کا مکمل تعارف کروا دیا۔ جمن اور شیر محمد ابھی باتیں کر ہی رہے تھے کہ چچا تیز گام کی پھندنے والی ٹوپی گر گئی۔ شیر محمد کو موقع مل گیا اس نے ٹوپی ہاتھ میں پکڑی اور چچا تیز گام کا کندھا ہلاتے ہوئے بولا:

’’بڑے میاں ! آپ کی ٹوپی گر گئی ہے۔ ‘‘

یوں چچا تیز گام کے بیدار ہونے سے ان کے خراٹے رک گئے اور سب لوگوں نے سکون کا سانس لیا۔ چچا تیز گام کا تعارف تو جمن شیر محمد کو پہلے ہی کروا چکا تھا۔ اب باقاعدہ گپ شپ شروع ہو گئی۔ شیر محمد ایک گاؤں میں رہتے تھے۔ اپنے گاؤں کا تذکرہ کرتے ہوئے باتوں باتوں میں وہ چچا تیز گام سے اپنے آموں کے باغ کا ذکر کر بیٹھے اور اس پر ستم یہ کہ چچا تیز گام کو اپنے ہاں آنے کی دعوت بھی دے ڈالی۔ شیر محمد تو اپنے سٹاپ پر اتر گئے، لیکن اُس وقت سے چچا تیز گام پر گاؤں جانے کا بھوت سوار ہو گیا۔ اپنے شہر سے شیر محمد کے شہر تک کا سفر انہوں نے ٹرین پر طے کیا۔ شہر سے شیر محمد کے گاؤں تک کا سفر انہوں نے لوکل بس پر کرنا تھا۔ لوکل بس کے سفر سے چچا تیز گام کی جان جاتی تھی، لیکن اب اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ لہٰذا بس پر سفر کرنا چچا تیز گام کی مجبوری تھی۔ چچا تیز گام کافی دیر سے بس کا انتظار کر رہے تھے، لیکن بس تھی کہ آنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ لوگوں کا ہجوم دیکھ کر چچا تیز گام کو یوں محسوس ہوا جیسے وہ کسی سیاسی جلسے میں آ گئے ہوں۔ ہر شخص بس میں سوار ہونے کے لیے بے چین نظر آتا تھا۔ اچانک فضا میں ایک شور بلند ہوا۔ چچا تیز گام نے گھبرا کر شور کی جانب دیکھا تو دھوئیں کا ایک بادل اسٹاپ کی طرف بڑھتا نظر آیا۔

’’ارے بھئی۔۔ یہ۔۔ یہ کیا ہے؟‘‘ چچا تیز گام حیران و پریشان کھڑے دھوئیں کے اُس بادل کو دیکھ رہے تھے۔

’’ابھی تو اس کے انتظار میں مرے جا رہے تھے اور اب پوچھتے ہو یہ کیا ہے۔ بڑے میاں یہ بس ہے۔۔ بس۔ ‘‘ ایک شخص ہاتھ نچا کر بولا۔ اور تیزی سے سیاہ بادل کی طرف بڑھا۔ دھوئیں کے اس بادل کو دیکھ کر مجمع میں بے چینی کی ایک لہر دوڑ گئی تھی۔ اور سب دھوئیں کے اس بادل پر جھپٹ پڑے تھے۔ یہ منظر دیکھ کر چچا تیز گام کی تیزی نے جوش مارا اور وہ اپنی تمام تر تیزی کو کام میں لاتے ہوئے اس دھوئیں کے بادل میں بس کو تلاش کرنے لگے۔ آخر چچا تیز گام نے دھوئیں کے بادل سے بس کو ڈھونڈ نکالا۔ انہوں نے آؤ دیکھا نا تاؤ جلدی سے بس پر چھلانگ لگا دی اور پائیدان پر قدم جما کر راڈ کو پکڑنے کے لیے ہاتھ آگے پھیلائے۔ جیسے ہی چچا تیز گام کو محسوس ہوا کہ ان کے ہاتھ لوہے کے راڈ کو چھو چکے ہیں، انھوں نے تیزی سے راڈ کو پکڑ لیا، مگر یہ کیا راڈ ٹوٹ کر اُن کے ہاتھ میں آ چکا تھا۔ وہ دھڑام سے سڑک پر گر گئے تھے۔

’’سنبھل کر بڑے میاں۔۔! سنبھل کر۔۔‘‘

چچا تیز گام کو گرتے ہوئے کئی آوازیں سنائی دیں۔ چچا تیز گام اپنی شیروانی جھاڑتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے اور نئے جوش و جذبے کے ساتھ پھر بس کی طرف بڑھے۔ اس مرتبہ چچا تیز گام نے دیکھ بھال کر بس پر چھلانگ لگائی اور بس کے دروازے میں جگہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ وہ بہت خوش تھے۔ اچانک اُن کی نظر اپنے پاؤں پر پڑی تو وہ دھک سے رہ گئے۔ اُن کے جوتے پاؤں سے نکل کر سڑک پر گر گئے تھے۔ وہ افسوس سے ہاتھ بھی نہ مل سکے، ہاتھ ملنا اُن کو زمین سے مِلنے پر مجبور کر سکتا تھا۔ کیوں کہ ہاتھوں سے تو انہوں نے راڈ کو پکڑ رکھا تھا۔

’’بزرگو! دروازے پر مت لٹکو اندر چلو۔ ‘‘ بس کے اندر سے کنڈیکٹر کی غصیلی آواز سنائی دی۔

’’لیکن بھائی صاحب اندر جگہ کہاں ہے؟‘‘

چچا تیز گام حیرت سے بس کے اندر دیکھتے ہوئے بولے۔ کیونکہ بس میں مسافر بیٹھے ہوئے نہیں بلکہ ٹھونسے ہوئے تھے۔ کنڈیکٹر نے اُن کو کو ٹس سے مس نہ ہوتے دیکھ کر پوری قوت سے انہیں بس کے اندر دھکا دیا۔

’’لاؤ ٹکٹ کے پیسے نکالو۔۔‘‘ کنڈیکٹر کی گرج دار آواز بس میں گونجی۔

چچا تیز گام نے پیسے نکالنے کے لیے ہاتھ اپنی شیروانی کی جیب کی طرف بڑھایا اور جیب میں پیسے ٹٹولنے لگے۔

’’ہی ہی ہی۔۔ ہا۔۔ہا۔۔ہا۔ ‘‘ چچا تیز گام کو اپنے دائیں جانب سے بے ہنگم قہقہے سنائی دئیے۔

’’بڑے میاں گدگدی تو نہ کرو۔ ‘‘ قہقہوں کی جانب سے کوئی اُن سے مخاطب ہوا۔ تب انہیں معلوم ہوا کہ اُن کا ہاتھ اپنی شیروانی کی جیب کی بجائے برابر کھڑے ایک چھوٹے قد والے پہلوان کی بغل میں تھا۔

’’مم۔۔ معاف کیجئے گا۔ وہ۔۔ وہ میں دراصل روپے نکال رہا تھا۔ ‘‘چچا تیز گام شرمندہ سے ہو کر بولے۔

’’کیا!‘‘ پہلوان چلا اٹھا۔ پہلوان نما آدمی کی چیخ اتنی خوف ناک تھی کہ دروازے پر لٹکے ایک کمزور دل صاحب کسی پکے ہوئے پھل کی طرح چچا تیز گام پر ٹپک پڑے۔ وہ مسافروں سے بھری بس میں عملی طور پر مرغا بن گئے۔

’’اچھا….. ! تو تم میری جیب سے پیسے نکال رہے تھے۔ ‘‘ پہلوان چچا تیز گام کو گھورتے ہوئے بولا۔

’’یہ آپ سے کس نے کہہ دیا، میں تو اپنی جیب سے پیسے نکال رہا تھا ٹکٹ کے لیے۔ ‘‘ چچا تیز گام جل بھُن کر بولے۔ ان پر گرنے والے صاحب کافی صحت مند تھے۔ وہ ٹھہرے دھان پان سے آدمی۔ اُن کا کچومر نکلا جا رہا تھا۔

’’اوہ۔۔ میں کچھ اور سمجھا تھا۔ ‘‘ پہلوان پُرسکون لہجے میں بولا جب کہ چچا تیز گام مرغے سے دوبارہ انسانوں والی حالت میں آنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اسی اثنا میں کسی مسافر کی جلتی ہوئی سگریٹ ان کی شیروانی میں ایک عدد سوراخ کرنے میں کامیاب ہو چکی تھی۔ بدحواسی میں چچا تیز گام نے ہاتھ پیچھے کی جانب بڑھایا تو ان کا ہاتھ پیچھے کھڑے ایک مسافر کے منہ میں جا گھسا وہ مسافر شاید جمائی لے رہا تھا۔ اس نے غضب ناک ہو کر چچا تیز گام کے ہاتھ کو بھنبھوڑ ڈالا۔ چچا تیز گام نے گھبرا کر تیزی سے جو اپنا ہاتھ کھینچا تو وہ ’’چٹاخ‘‘ کی آواز کے ساتھ ایک مسافر کے گال سے ٹکرایا۔ وہ مسافر پہلے ہی بہت سے مسافروں کے درمیان پھنسا ہوا تھا اس لیے چچا تیز گام کو کچھ کہہ نہ سکا۔

’’گلاب نگر کے تمام مسافر دروازے پر آ جائیں۔ ‘‘ اچانک کنڈیکٹر نے ہانک لگائی۔ اس وقت چچا تیز گام کو کنڈیکٹر کی آواز بہت بھلی معلوم ہوئی تھی اور ان کی جان میں جان آ گئی۔ شیر محمد نے اپنے گاؤں کا نام ’’گلاب نگر‘‘ ہی بتایا تھا۔ چچا تیز گام نے احتیاطاً اپنی جیب سے کاغذ کا وہ ٹکڑا بھی نکال لیا۔ جس پر شیر محمد نے اپنا پتہ لکھ کر دیا تھا۔ اب مسئلہ تھا بس سے نکلنے کا۔ جیسے تیسے کر کے چچا تیز گام بس کے دروازے تک آئے۔ وہ تیزی سے بس سے اترنے کے لیے آگے بڑھے اور بس سے چھلانگ لگا دی۔ لیکن وہ ہوا میں جھول کر رہ گئے۔ انہوں نے مڑ کر پیچھے دیکھا تو اُس پہلوان نما آدمی نے اُن کو گردن سے پکڑا ہوا تھا۔ چچا تیز گام نے تشکر آمیز نظروں سے اُس کی طرف دیکھا۔ کیوں کہ بس ابھی چل رہی تھی۔ اگر وہ چچا تیز گام کو نہ پکڑتا تو اُن کی ہڈی پسلی ایک ہو جانی تھی بس رُکی تو اُس نے چچا تیز گام کو کسی کھلونے کی مانند زمین پر رکھ دیا۔ بس سے اتر کر انھوں نے جو اپنی مٹھی کھولی تو پتے والی پرچی غائب تھی۔ بس سے نکلنے کی جدوجہد میں پرچی ہاتھ سے گر گئی تھی۔ پرچی کو ڈھونڈنے کے لیے چچا تیز گام نے اِدھر اُدھر نظر دوڑائی، لیکن انہیں پرچی نہ ملی۔ دائیں طرف انہیں ’’گلاب نگر‘‘ کا بورڈ نظر آیا۔ چچا تیز گام نے اُسی سمت چلنا شروع کیا۔ انہیں سڑک پر چلتے ہوئے ابھی کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ آگے جا کر وہ سڑک دو رویہ ہو گئی۔ اب وہ شش و پنج میں پڑ گئے کہ گلاب نگر کو کون سا راستہ جاتا ہے؟ قریب ہی ان کو ایک گڈریا نظر آیا۔ چچا تیز گام اس کی طرف چل دئیے۔

’’بھائی! گلاب نگر کو کون سا راستہ جاتا ہے؟‘‘ چچا تیز گام نے پوچھا۔

گڈریا جو کہ آنکھیں بند کیے کچھ گنگنا رہا تھا۔ اُس نے آنکھیں کھول کر چچا تیز گام کی طرف دیکھا تو ’’بھوت۔۔ بھوت‘‘ کہتے ہوئے ایک طرف بھاگ کھڑا ہوا۔ چچا تیز گام اُسے پکارتے ہی رہ گئے۔ چچا تیز گام نے جو اپنے سراپے  پر نظر دوڑائی تو انہیں اپنا آپ کسی بھوت سے کم نظر نہ آیا۔ اُن کی شیروانی کسی گداگر کی گدڑی کا منظر پیش کر رہی تھی۔ شیروانی پر جا بجا داغ ہی داغ نمایاں تھے۔ اور سگریٹ سے جلے ہوئے نشان ہوا دار جالی کا منظر پیش کر رہے تھے تو کہیں پان کے دھبے رنگینی میں اضافہ کر رہے تھے۔ اُن کی غبار آلود داڑھی سے بہت سے تنکے دست و گریباں تھے۔

گڈریے سے مایوس ہو کر وہ دوبارہ اس جگہ آ گئے جہاں سے راستہ دو حصوں میں تقسیم ہو رہا تھا۔ اور اپنا سر پکڑ کر وہیں بیٹھ گئے۔ اتنے میں ایک بیل گاڑی والا وہاں سے گزرا۔

’’بھائی صاحب! یہ راستہ کہاں جاتا ہے؟‘‘

’’کیا بات کرتے ہو بڑے میاں۔۔!  بھلا راستے بھی کہیں جاتے ہیں۔ یہ راستہ تو کہیں نہیں جاتا۔ اسی جگہ پڑا رہتا ہے۔ ‘‘ اس نے حیرت سے چچا تیز گام کی طرف دیکھا۔

’’اچھا تو پھر یہ بتا دو کہ گلاب نگر کا راستہ کون سا ہے؟‘‘

’’یہ راستہ گلاب نگر کا ہی ہے۔ کیوں آپ نے گلاب نگر جانا ہے۔۔؟‘‘ اُس نے پوچھا۔

’’جی ہاں ……!‘‘

’’وہاں کس کے گھر جانا ہے۔۔؟‘‘

’’گلاب نگر میں ہمارے ایک دوست رہتے ہیں شیر محمد اُن کے پاس جانا ہے۔۔‘‘

’’اوہ۔۔ تو آپ چوہدری صاحب کے مہمان ہو آ جاؤ۔۔ بھئی۔ میرے ساتھ ہی  آ جاؤ میں گلاب نگر ہی جا رہا ہوں۔ ‘‘ اُس نے چچا تیز گام کو اپنے ساتھ ہی بیل گاڑی پر بٹھا لیا۔ گاؤں پہنچ کر اُن کو شیر محمد کا گھر تلاش کرنے میں بالکل بھی دقّت نہ ہوئی۔

محلے کے بچے انہیں یوں اول جلول بنے دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔ جیسے ہی چچا تیز گام اُن کے گھر کے سامنے پہنچے تو اُن کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔ کیوں کہ شیر محمد کے گھر کے دروازے پر بڑا سا تالا لگا ہوا تھا۔ ہمسائے نے انہیں بتایا کہ شیر محمد اور اُن کے گھر والے ایک شادی میں کراچی گئے ہوئے ہیں۔ یہ سن کر چچا تیز گام اپنا سر پکڑ کر رہ گئے۔ انہوں نے گھر سے نکلتے ہوئے تیزی میں شیر محمد سے رابطہ بھی نہیں کیا تھا اور وہ بغیر اطلاع کیے چلے آئے تھے۔ انہیں یوں تو گڑ اور آم ہر طرف دکھائی دے رہے تھے، مگر یہ دونوں چیزیں اُن کی پہنچ سے دُور تھیں۔۔۔بہت دور۔۔

٭٭٭

 

 

 

 

چچا تیز گام نے افطاری کی

 

چچا تیز گام بے چینی کے عالم میں اپنے کمرے میں ٹہل رہے تھے۔ وہ ٹہلنے کے ساتھ ساتھ اپنے سر کو بھی زور زور سے ہلا رہے تھے جس سے اُن کی ٹوپی کا پھُند نا کسی مداری کی ڈگڈگی کی طرح اِدھر اُدھر پھدک رہا تھا۔ چچا تیز گام کمرے کے ایک کونے سے دُوسرے کونے کی طرف چکر لگا رہے تھے۔ اُن کا پارہ چڑھا ہوا تھا۔ مارے غصے سے اُن کا چہرہ تمتما رہا تھا۔

بات دراصل یہ تھی کہ آج اُنہیں ایک افطار پارٹی پر جانا تھا۔ افطار پارٹی اُن کے دوست مبین میاں کے ہاں تھی۔ اُن کا گھر شاداب کالونی میں تھا جو چچا تیز گام کے گھر سے تھوڑے فاصلے پر تھی۔ مبین میاں نے اُن کو دعوت کیا دے دی وہ تو ہواؤں میں اڑنے لگے تھے۔ مارے خوشی کے وہ پھول کر کپّا ہو گئے تھے۔

یہ دعوت مبین میاں نے چچا تیز گام کو دی نہیں تھی بلکہ انہوں نے خود لی تھی۔ کل چچا تیز گام شبراتی حلوائی کی دُکان کے سامنے سے گزر رہے تھے کہ انہیں مبین میاں شبراتی حلوائی سے باتیں کرتے نظر آئے۔

’’ٹھیک ہے۔۔ شبراتی۔۔ ذرا دھیان سے۔۔ دو سو سموسے۔۔ اور دس کلو پکوڑے، ذرا اچھے سے انداز میں بنانا، ہاں۔۔ ہاں میں افطاری سے کچھ دیر پہلے لے جاؤں گا۔ ‘‘ مبین میاں کے یہ الفاظ چچا تیز گام کے کانوں میں پڑے تو اُن کے کان کھڑے ہو گئے۔ چچا تیز گام تیر کی طرح اُن کی طرف لپکے۔

’’ارے۔۔ بھئی۔۔! یہ چپکے چپکے کیا باتیں ہو رہی ہیں ؟‘‘چچا تیز گام انجان سے بن کر بولے۔

’’آؤ۔۔ آؤ میاں تیز گام! وہ کل گھر میں افطار پارٹی ہے، اس کے لیے میں شبراتی کو سموسوں اور پکوڑوں کا آرڈر دے رہا تھا۔ ‘‘ مبین میاں چچا تیز گام کو دیکھتے ہوئے بولے۔

’’ارے مبین میاں ! ہمیں نہیں بلاؤ گے۔ افطار پارٹی میں، اکیلے ہی اکیلے روزہ افطار کرو گے!‘‘ چچا تیز گام مصنوعی خفگی سے بولے۔

’’ارے میاں تیز گام! افطار پارٹی میں اگر آپ کو نہیں بلائیں گے تو بھلا کس کو بلائیں گے۔ آپ کے بغیر افطار پارٹی کا خاک مزہ آئے گا۔ آپ تو افطار پارٹی کے مہمان خصوصی ہوں گے۔۔ مہمانِ خصوصی۔ ‘‘ مبین میاں خوشامدانہ انداز میں بولے۔

’’واہ۔۔ بھئی۔۔ واہ۔۔! بہت خوب۔۔! مہمان خصوصی اور وہ بھی ہم۔۔ پھر تو ہم پوری آن بان شان سے آئیں گے، ہم ابھی سے تیاری شروع کر دیتے ہیں۔ ‘‘

چچا تیز گام اکڑ کر بولے۔ چچا تیز گام ابھی گھر کی طرف روانہ ہونے ہی والے تھے کہ مبین میاں بولے۔

’’ارے۔۔ ارے بھئی! یاد رکھئے گا۔۔ افطار پارٹی کل ہے۔۔ آج نہیں۔۔‘‘ مبین میاں کو خطرہ تھا کہ چچا تیز گام اپنی تیزی کی وجہ سے کہیں آج ہی نہ ٹپک پڑیں۔

’’اچھا، اچھا ہمیں یاد ہے اب ہم اتنے بھی تیز گام نہیں۔ ‘‘

چچا تیز گام بُراسا منہ بنا کر بولے اور تیز تیز قدم بڑھاتے ہوئے گھر کی طرف چل دئیے۔

’’بیگم۔۔! او۔۔ بیگم۔۔!‘‘ چچا تیز گام زور زور سے چلاتے ہوئے گھر میں داخل ہوئے۔

’’کیا ہوا ہے؟ کیا مصیبت آن پڑی ہے جو یوں چلا رہے ہو۔ ‘‘ باورچی خانے سے بیگم کی جھلّاتی ہوئی آواز سنائی دی۔

’’مصیبت نہیں۔۔ بیگم! افطار پارٹی آن پڑی ہے۔ افطار پارٹی۔۔ وہ اپنے مبین میاں ہیں نا، ارے وہی جو شاداب کالونی میں رہتے ہیں۔ اُن کے ہاں کل افطار پارٹی ہے۔۔ پتہ ہے۔۔ بیگم۔۔ انہوں نے افطار پارٹی کی دعوت دیتے ہوئے کیا کہا تھا۔ ‘‘ چچا تیز گام تیز تیز بولتے چلے گئے۔

’’مجھے کیا پتہ۔۔ کیا کہا تمہارے مبین میاں نے؟ پتہ نہیں کون ہیں یہ مبین میاں ؟ کھانے کے لئے تو تم ہر ایرے غیرے سے واقفیت نکال لیتے ہو۔ ‘‘ بیگم جلے کٹے لہجے میں بولی۔

’’کیا کہا۔۔؟ ایرا غیرا، اماں جاؤ، مبین میاں کوئی غیر نہیں، اپنا یار ہے جگری یار۔۔ جبھی تو انہوں نے کہا تھا چچا تت۔۔ نہیں۔۔ میرا مطلب ہے۔۔ تنویر احمد آپ تو افطار پارٹی کے مہمانِ خصوصی ہوں گے۔۔ مہمانِ خصوصی!‘‘

’’مہمانِ خصوصی اور آپ۔۔!‘‘ جمن جو کافی دیر سے خاموش تھا، حیرت سے چچا تیز گام کو دیکھتے ہوئے بولا۔

’’کیا آپ مہمانِ خصوصی ہوں گے؟‘‘

’’کیوں۔۔ کیا ہم مہمانِ خصوصی نہیں ہو سکتے؟‘‘ چچا تیز گام نے آنکھیں نکالیں۔

’’ہو سکتے ہیں۔۔ حضور۔۔ ہو سکتے ہیں۔ مہمانِ خصوصی تو کیا آپ سب کچھ ہو سکتے ہیں۔ ‘‘ جمن جلدی سے بولا۔

’’ہاں تو بیگم صاحبہ ہم افطار پارٹی میں مہمانِ خصوصی ہوں گے اس لیے ہماری تیاری بھی تو خصوصی ہونی چاہیے۔ تیاری تو ہم کل کریں گے۔ بیگم تم سے تو بس ہم یہی کہنے آئے ہیں کہ ہمیں سحری کے وقت اٹھا دینا۔ اب بغیر روزہ رکھے افطار پارٹی کے مہمانِ خصوصی بنتے کیا ہم اچھے لگیں گے۔ ‘‘

’’تو یوں کہو نا کہ افطار پارٹی کے لیے روزہ رکھو گے۔ ‘‘ بیگم ہاتھ نچا کر بولیں۔

’’بیگم تم کچھ بھی کہو۔ کل تو خیر ہم روزہ ضرور رکھیں گے۔ اس بلا کی پڑتی ہوئی گرمی میں ہم سے پیاس برداشت نہیں ہوتی۔ ہمارا معدہ کھانے سے اتنی لمبی جدائی برداشت نہیں کر سکتا، لیکن اب ہم اتنے گئے گزرے بھی نہیں ہیں کہ ایک روزہ بھی نہ رکھ سکیں۔ ‘‘ چچا تیز گام بُرے بُرے سے منہ بناتے بولتے چلے گئے۔

وہ دن تو جیسے تیسے گزر گیا۔ رات کو چچا تیز گام خواب میں بھی سموسے، پکوڑے اور دہی بڑے کھاتے رہے۔

سحری کے وقت جب سارا گھر چچا تیز گام کے خراٹوں سے گونج رہا تھا تو ان کی بیگم نے انہیں جگایا:

’’محمود کے ابا۔۔ اب اٹھ بھی جاؤ۔ ‘‘ اس مرتبہ بیگم نے ان کو زور سے جھنجوڑا۔ کیونکہ اس سے پہلے وہ دو مرتبہ چچا تیز گام کو اٹھا چکی تھیں، لیکن وہ چچا تیز گام ہی کیا جو ایک بار کے اٹھانے سے اٹھ جائیں۔ خیر اللہ اللہ کر کے چچا تیز گام اٹھے اور سحری کی۔

نمازِ فجر کے فوراً بعد ہی جمن اور استاد کی شامت آ گئی۔

’’ارے جمن۔۔! او۔۔ جمن! ذرا دوڑ کے میرے پاس آؤ۔۔ اُستاد!  تم بھی آؤ۔ ‘‘

’’جی حضور۔۔!‘‘

’’جمن۔۔! یہ میرے جوتے لے جاؤ اور بدھو موچی سے پالش کروا لاؤ اور سنو! بدھو موچی سے کہنا پالش ذرا بڑھیا قسم کی لگا کر جوتے اچھی طرح چمکائے۔ ‘‘ چچا تیز گام نے جمن کو جوتے تھمائے اور پھر استاد کو کہا:

استاد! میری شیروانی جمعہ خان دھوبی سے استری کروا لاؤ۔ ‘‘

’’جی حضور!‘‘ استاد بولا۔

جمن اور استاد سوچ رہے تھے کہ اس کے بعد اُن کی چھٹی ہو جائے گی، لیکن چچا تیز گام بھلا اتنی جلدی کہاں چھٹی دینے والے تھے۔ دن میں تقریباً دس مرتبہ تو جمن کو جوتے پالش کروانے کے لئے بھجوایا اور اتنی ہی مرتبہ استاد کی شامت آئی۔ تب کہیں جا کر اُن کو جوتوں کی پالش اور اچکن کی استری پسند آئی۔ وہ ابھی تیزی سے شیروانی پہن ہی رہے تھے کہ اُن کی بیگم کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولی:

’’ارے اتنی بلا کی پڑتی ہوئی گرمی میں شیروانی پہننے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘

’’لو بھئی۔۔ اور سنو! ارے۔۔ شیروانی تو ہماری پہچان ہے۔ اور جو قومیں اپنی پہچان کو پسِ پشت ڈال دیتی ہیں وہ کبھی ترقی نہیں کرتیں۔ ‘‘

چچا تیز گام نے کسی مقررّ کی طرح اکڑ کر کہا اور تیزی سے اچکن پہننے لگے، لیکن یہ کیا جیسے ہی انہوں نے شیروانی پہننے کے لئے اپنا سر شیروانی میں ڈالا۔ ان کا سر پھنس کر رہ گیا۔ کیونکہ انہوں نے جلدی میں اپنا سر بازو میں ڈال دیا تھا۔ پھر بڑی مشکل سے انہوں نے اپنا سر بازو میں سے نکالا۔ اب شیروانی پہن کر وہ جلدی جلدی بٹن بند کرنے لگے تو بٹن ٹوٹ گیا۔ بٹن ٹوٹنے پر چچا تیز گام بوکھلا گئے۔

’’جمن۔۔! او جمن۔۔! غضب خدا کا اس نگوڑے مارے بٹن کو بھی آج ہی ٹوٹنا تھا، جاؤ شیدی ماسٹر سے بٹن لگوا کر لاؤ اور ذرا جلدی آنا ہم پہلے ہی بہت لیٹ ہو چکے ہیں۔ ‘‘

جمن کہہ کر تو یہ گیا تھا کہ بس چچا تیز گام میں یوں گیا اور یوں آیا۔ لیکن وہ کافی دیر گزرنے پر بھی نہ آیا تھا۔ اب چچا تیز گام اُس کے انتظار میں کمرے میں ٹہل رہے تھے۔ آخر کافی دیر بعد جمن ہانپتا ہوا نمودار ہوا۔

’’کہاں مر گیا تھا؟‘‘

’’وہ۔۔ مالک کتے۔۔‘‘ جمن میاں نے کہنا چاہا۔

’’کیا کہا۔۔ مالک کتے۔۔ ہم تمہیں کتا نظر آتے ہیں ‘‘ چچا تیز گام غصے سے چلا اُٹھے۔

’’نن۔۔ نہیں مالک! میرا یہ مطلب نہیں تھا‘‘ جمن گھبرا کر جلدی سے بولا۔

’’تو پھر کیا مطلب تھا تمہارا۔۔‘‘ وہ غصے سے پھنکارتے ہوئے بولے

’’میرا مطلب ہے میرے پیچھے کتے لگ گئے تھے۔ اسی لیے میں لیٹ ہو گیا ہوں۔ ‘‘ جمن بولا۔

آخر خدا خدا کر کے چچا تیز گام کی تیاری مکمل ہوئی۔ اور وہ پوری آن بان شان کے ساتھ مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے افطار پارٹی پر جانے کے لئے گھر سے چل پڑے، لیکن یہ کیا جیسے ہی چچا تیز گام گھر سے باہر نکلے بوندا باندی شروع ہو گئی۔

’’ارے۔۔ اس بارش کو بھی آج ہی ہونا تھا۔ استاد۔۔! او۔۔ استاد۔۔! ذرا بھاگ کر جا۔۔ میرے کمرے سے چھتری تو اٹھا لا۔ ‘‘ چچا تیز گام نے دروازے پر کھڑے کھڑے ہانک لگائی۔

’’میں کہتی ہوں، اس بارش میں افطار پارٹی میں جانے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ ‘‘ ان کی بیگم بولی۔

’’بیگم! کیا بات کرتی ہو اگر مہمان خصوصی ہی نہ گیا تو پارٹی کیا خاک ہو گی۔ ‘‘

اتنے میں استاد چھتری لے آیا۔ چچا تیز گام نے چھتری پکڑی اور جلدی سے گھر سے نکلنے ہی لگے تھے کہ ان کی شیروانی دروازے کے ایک کیل میں الجھ کر رہ گئی۔ اب وہ چچا تیز گام ہی کیا جو سکون سے الجھی ہوئی شیروانی کو سلجھاتے۔ چچا تیز گام نے جو زور سے شیروانی کو کھینچا تو ’’چیڑ‘‘ کی آواز کے ساتھ شیروانی کا بازو پھٹ گیا۔

اس اچانک افتاد پر چچا تیز گام ایک مرتبہ تو ٹھٹک کر رہ گئے۔ وہ افطار پارٹی میں جانے یا نہ جانے کے بارے میں سوچ ہی رہے تھے کہ مہمانِ خصوصی کا بھوت پھر اُن کے سر پر سوار ہو گیا۔ سموسے پکوڑے اور دھی بڑے ان کی آنکھوں کے سامنے گردش کر رہے تھے۔ لہٰذا چچا تیز گام ایک نئے جوش و جذبے کے ساتھ پھٹی بازو والی شیروانی پہنے ایک مرتبہ پھر گھر سے چل دئیے۔

بوندا باندی آہستہ آہستہ بارش کی شکل اختیار کرتی جا رہی تھی۔ ہوا بھی تیز چل رہی تھی۔ اب جو ہوا کا ایک تیز جھونکا آیا تو چچا تیز گام کے قدم لڑکھڑا گئے۔ کیونکہ چچا تیز گام ٹھہرے اک دھان پان قسم کے آدمی، اب قدم جو لڑکھڑائے تو چھتری اُن کے ہاتھ سے چھوٹ گئی اور ہوا میں اڑنے لگی۔

’’میری چھتری۔۔ میری چھتری۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ چھتری کے پیچھے ہو لیے۔ اب چھتری آگے آگے اور چچا تیز گام پیچھے پیچھے تھے۔ آخر چچا تیز گام نے چھتری کو جا لیا۔ چھتری ابھی تک ہوا میں محو پرواز تھی۔ چچا تیز گام نے چھتری کو پکڑنے کے لئے ہوا میں چھلانگ لگائی تو وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکے۔ لہٰذا وہ چھتری سمیت زمین پر آ رہے۔ بارش تیز ہونے کی وجہ سے کیچڑ ہو چکی تھی۔ چچا تیز گام کی شیروانی کیچڑ میں لت پت ہو گئی جس سے اُس پر عجیب و غریب نقش و نگار بن گئے تھے۔ لیکن وہ بھلا کب ان نقش و نگار کو خاطر میں لانے والے تھے۔ چھتری مضبوطی سے تھامے تیزی سے مبین میاں کے گھر کی طرف چل دئیے۔ وہ ابھی راستے میں تھے کہ افطاری کا سائرن بج اُٹھا۔ سائرن کا بجنا تھا کہ چچا تیز گام نے

مبین میاں کے گھر کی طرف دوڑ لگا دی۔ کیچڑ میں وہ بھلا کہاں دوڑ سکتے تھے۔ لہٰذا جیسے ہی وہ دوڑے اُن کا پاؤں پھسلا، اب چھتری ایک طرف تو چچا تیز گام دوسری طرف تھے۔ اس مرتبہ چچا تیز گام نے چھتری کی بھی پروا نہ کی اور اٹھ کر دوبارہ دوڑ لگا دی۔ چچا تیز گام مبین کے گھر پہنچے تو وہاں افراتفری کا عالم تھا۔ لوگ سموسوں اور پکوڑوں پر جلدی جلدی ہاتھ صاف کر رہے تھے۔ چچا تیز گام بھی جلدی سے لوگوں کی بھیڑ میں گھس گئے۔

’’ارے ….. ارے کون ہو تم۔۔! جو یوں منہ اٹھائے چلے آ رہے ہو۔ ‘‘ ایک آدمی ان کو دیکھتے ہوئے بولا۔

’’ذرا زبان سنبھال کر بات کرو، میں ہوں اس افطار پارٹی کا مہمانِ خصوصی۔ ‘‘      چچا تیز گام نے اکڑ کر کہا۔

’’ ارے یہ تو اپنے چچا تیز گام ہیں، چچا تیز گام! یہ کیا حالت بنا رکھی ہے؟‘‘

’’مبین میاں ! حالت کو چھوڑو۔۔ کچھ کھانے کو دو۔۔ ورنہ تو لگتا ہے چند ہی منٹوں

میں سب کچھ چٹ ہو جائے گا۔ ‘‘ چچا تیز گام جلدی سے بولے اور پاس رکھے سموسوں پر پل پڑے۔ اُن کی یہ حالت دیکھ کر لوگوں کے قہقہے بلند ہو رہے تھے۔

٭٭٭

 

 

 

 

چچا تیز گام نے موبائل فون خریدا

 

’’جب کافی دیر تک چچا تیز گام نے اپنی نظریں شوکیس میں رکھے موبائل فونز سے نہ ہٹائیں تو دُکان دار تنگ آ کر بولا:

’’بڑے میاں ! اب بس بھی کریں، کہیں آپ کا ارادہ نظروں ہی نظروں میں ان موبائلوں کو کھانے کا تو نہیں۔ ‘‘

’’لو بھلا موبائل بھی کوئی کھانے کی چیز ہے۔ ‘‘ چچا تیز گام کھسیانے سے ہو کر پیچھے ہٹے اور بُرا سا منہ بنا کر بولے۔

’’آپ کھانے کی بات کرتے ہیں بڑے میاں ! لوگ تو موبائل پی بھی جاتے ہیں، ابھی چند دن پہلے کی بات ہے میرا ایک دوست مجھ سے ادھار موبائل فون لے کر گیا اور میرا موبائل پی گیا۔ ابھی تک اُس نے مجھے ایک پائی بھی ادا نہیں کی۔ ‘‘ دُکان دار بولا۔

’’برخوردار! اس وقت ہمارا ارادہ نہ موبائل فون کھانے کا ہے اور نہ ہی پینے کا۔ اس وقت ہمارا ارادہ تو فقط موبائل فون خریدنے کا ہے۔ ‘‘ چچا تیز گام بولے۔

’’تو بتائیے بڑے میاں ! آپ نے ان میں سے کون سا موبائل خریدنا ہے۔ ‘‘

’’وہ سنہری موبائل فون دکھا دیں۔ ‘‘

چچا تیز گام نے شوکیس میں رکھے ایک خوبصورت سنہری موبائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

’’یہ لیں بڑے میاں ! ابھی چند دن پہلے ہی نیا ماڈل آیا ہے۔ بہت عمدہ چیز ہے۔ ‘‘ دُکان دار نے موبائل کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہوئے موبائل اُن کے ہاتھ میں تھما دیا۔

’’اب آپ اس گوہرِ نایاب کی قیمت بھی بتا دیجئے۔ ‘‘جب دوکان دار جی بھر کی موبائل کی تعریف کر چکا تو چچا تیز گام نے پوچھا۔

’’بڑے میاں ! اس کمال کی چیز کے دام بہت ہی مناسب ہیں۔ یوں سمجھ لیں یہ آپ کو مفت ہی مل رہا ہے۔ اس کی قیمت فقط تیس ہزار روپے ہے۔ ‘‘

’’کیا۔۔!! مارے حیرت کے چچا تیز گام اچھل پڑے۔ موبائل ان کے ہاتھوں سے گرتے گرتے بچا۔

’’کیا ہوا بڑے میاں ! آپ کو۔۔؟ کسی بچھو نے تو نہیں کاٹ لیا۔۔!‘‘

چچا تیز گام کو یوں اچھلتے دیکھ کر دُکان دار تعجب سے ان کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔

’’لو بھلا۔۔ ہم نے بچھو کا کیا بگاڑا ہے جو بچھو ہمیں ڈستا پھرے۔ آپ کی بتائی ہوئی قیمت کسی بچھو سے کم ہے کیا۔۔! اس چھوٹے سے موبائل کی قیمت تو آپ نے یوں بتائی ہے جیسے روپے درختوں پر اُگتے ہیں۔ ‘‘

چچا تیز گام نے موبائل دُکان دار کو تھمایا اور تیزی سے آگے بڑھ گئے۔

چچا تیز گام کافی دیر سے موبائل مارکیٹ میں مٹرگشت کر رہے تھے۔ دراصل انہوں نے موبائل خریدنے کا پروگرام بنایا تھا۔ یہ پروگرام انہوں نے خود نہیں بنایا تھا بلکہ ان سے بنوایا گیا تھا۔ ہوا یوں کہ کل وہ اپنے دوست گلو میاں کے ہاں تھے کہ ان کے اور گلو میاں کے مشترکہ دوست ملا چلپی ملاقات کے لیے آئے۔ ملاّ  جی کچھ عرصہ قبل چچا تیز گام کے محلے میں رہتے تھے۔ اب انہوں نے کسی دُوسری کالونی میں گھر لے لیا تھا۔ چچا تیز گام سے ملتے ہی ملاّ جی بھڑک اٹھے اور شکایت کی۔

’’ چچا تیز گام آپ تو ہمیں بھول ہی گئے ہیں۔ ابھی تو ہم نے آپ کا محلہ چھوڑا ہے۔ دُنیا تو نہیں چھوڑی۔ ‘‘

’’ملاّ جی! بھلا آپ بھی کوئی بھولنے کی چیز ہیں۔ ‘‘چچا تیز گام مسکراتے ہوئے بولے۔

’’لیکن! آپ نے تو ہمیں بھولنے والی چیز ہی بنا دیا ہے۔ ملاقات تو دُور کی بات آپ تو کبھی بھولے سے فون بھی نہیں کرتے۔ ‘‘ ملاّ جی نے کہا۔

’’فون۔۔ ارے بھائی کیا بتاؤں۔ جب سے نگوڑے مارے مین روڈ پر کام شروع ہوا ہے۔ تب سے ہمارے گھر کا فون خراب ہے۔ ‘‘چچا تیز گام بولے۔

’’آپ کے گھر کے فون کی لائن خراب ہے، آپ کے موبائل فون کی لائن تو خراب نہیں۔ ‘‘

’’موبائل کی لائن خراب ہو بھی کیسے سکتی ہے کیوں کہ ہمارے پاس موبائل ہے ہی نہیں۔ ‘‘

’’کیا!! آپ کے پاس موبائل فون نہیں ہے۔ ‘‘ ملاّ جی حیرت سے بولے۔

’’آپ بھی کمال کرتے ہیں۔ دُنیا چاند پر پہنچ گئی ہے۔ بلکہ چند سر پھرے تو سورج پر بھی کمند ڈالنے کا سوچ رہے ہیں۔ اور آپ نے ابھی تک موبائل فون بھی نہیں خریدا۔ ‘‘ ملاّ جی تو یہ کہہ کر چلے گئے، لیکن چچا تیز گام کے سر پر موبائل فون خریدنے کا بھوت سوار کر گئے۔

’’بیگم! آج ہم موبائل فون خریدنے بازار جا رہے ہیں۔ ‘‘ چچا تیز گام نے گھر آتے ہی اعلان کیا۔

’’یہ آپ کو یکایک موبائل خریدنے کی کیا سوجھی؟‘‘بیگم نے حیرت سے چچا تیز گام کی طرف دیکھا۔

’’بس بیگم! سوجھ ہی گئی ہے۔ دُنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے اور ہمارے پاس ابھی تک موبائل فون بھی نہیں ہے۔ ‘‘چچا تیز گام بولے۔

’’خیر! آپ کو جو سوجھی ہے اچھی سوجھی ہے۔ موبائل ضرورت کی چیز ہے۔ اسے ضرور خریدنا چاہیے، لیکن آپ اپنے کسی دوست کو ساتھ لے جائیں۔ کہیں ایسا نہ ہو آپ دھوکا کھا جائیں اور مہنگا موبائل خرید لائیں۔ آج کل دن دیہاڑے لوگ دھوکا دے جاتے ہیں۔ ‘‘

’’لو بھلا ہم کوئی بچے ہیں۔ جو دھوکا کھا جائیں گے۔ ‘‘چچا تیز گام بُرا مان کر بولے اور اکیلے ہی موبائل خریدنے نکل کھڑے ہوئے۔ جب چچا تیز گام نے مارکیٹ میں جا کر موبائل فونز کی قیمتیں معلوم کیں تو ان کی قیمتیں آسمانوں سے باتیں کر رہی تھیں۔ جب کہ چچا تیز گام کوئی سستا سا موبائل خریدنا چاہتے تھے۔ کافی تلاش کے بعد بھی وہ کوئی سستا موبائل خرید نہ پائے تھے۔ آخر تھک ہار کر وہ ایک دُکان کے چبوترے پر بیٹھ گئے اور اپنے دونوں ہاتھوں میں اپنا سر تھام کر سوچنے لگے کہ سستا موبائل فون کیسے خریدا جائے۔۔؟

’’بزرگو! کیوں پریشان بیٹھے ہو۔۔؟‘‘ چچا تیز گام کو چبوترے پر بیٹھے ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ ایک آواز نے انہیں چونکا دیا۔

’’ارے بھائی۔۔! کیا بتاؤں، گھر سے نکلا تھا موبائل خریدنے، لیکن مارکیٹ میں آ کر معلوم ہوا ہے موبائل فونز کی قیمتیں تو آسمان کو چھو رہی ہیں۔ ‘‘ چچا تیز گام بولے۔

’’بزرگو! موبائل فون ہی کیا اس نگوڑی ماری مہنگائی نے تو ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ ‘‘ وہ شخص سرد آہ بھرتے ہوئے بولا۔

’’ہاں بھئی، خدا اپنا رحم فرمائے۔ ‘‘ چچا تیز گام نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔

’’ویسے بزرگو! آپ کتنی قیمت کا موبائل فون خریدنا چاہتے ہیں ؟‘‘ اس شخص نے سرسری سے انداز میں پوچھا۔

’’یہی کوئی ہزار پندرہ سو روپے کا مل جائے۔ ‘‘چچا تیز گام بولے۔

’’ہا۔۔ ہا۔۔ ہزار۔۔ پندرہ سو کا موبائل۔۔ ہا ہا۔۔‘‘ چچا تیز گام کی بات سن کر اُس شخص پر تو گویا ہنسی کا دورہ پڑ گیا۔

’’لو بھلا اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے؟‘‘ چچا تیز گام نے بُرا سا منہ بنا کر اس کی طرف دیکھا۔

’’بزرگو! آپ کس دُنیا میں رہتے ہیں ؟ مارکیٹ میں آپ گھوم بھی چکے ہیں۔ اچھا اور نیا موبائل فون دس ہزار سے کم کا نہیں ملے گا۔ ‘‘ وہ آدمی اپنی ہنسی ضبط کرتے ہوئے بولا

’’ویسے اگر آپ چاہیں تو آپ کو پانچ ہزار روپے میں موبائل دلوا سکتا ہوں۔ ‘‘

’’جب مجھے دس ہزار سے کم میں موبائل نہیں ملے گا تو پھر بھلا آپ مجھے پانچ ہزار روپے میں کس طرح دلوا سکتے ہیں ؟‘‘چچا تیز گام نے پوچھا۔

’’یہ آپ مجھ پر چھوڑ دیں۔ ‘‘

’’بھئی پہلے موبائل دکھاؤ تو سہی۔ اگر پسند آئے گا تو لے لوں گا۔ ‘‘ چچا تیز گام بولے۔

’’دکھانے کا کیا ہے وہ تو میں آپ کو ابھی دکھا دیتا ہوں یہ دیکھئے۔ ‘‘ یہ کہہ کر اس شخص نے اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے تھیلے میں سے پیک شدہ ایک خوب صورت ڈبا چچا تیز گام کی طرف بڑھایا۔ چچا تیز گام کا ڈبہ اس کے ہاتھ سے لے کر دیکھنے لگے۔

’’آپ یہ موبائل پانچ ہزار کا کیوں بیچ رہے ہو؟‘‘ چچا تیز گام مشکوک نگاہوں سے اس شخص کی طرف دیکھتے ہوئے بولے۔ کیوں کہ مارکیٹ میں ایسے موبائل کی قیمت انہیں دس ہزار روپے بتائی گئی تھی۔

’’یہ موبائل دراصل میرے بھائی نے امریکہ سے مجھے گفٹ بھیجا ہے۔ اپنے بھائی کے اتنے پیار سے دیے گئے تحفے کو بیچنے کو دل تو نہیں کر رہا، لیکن کیا کروں۔ حالات کے ہاتھوں مجبور ہوں۔ مجھے روپوں کی اشد ضرورت ہے۔ اس لیے دل پر پتھر رکھ کر میں یہ موبائل بیچنے کے لیے گھر سے نکلا ہوں۔ ابھی تو میں نے اس موبائل فون کی پیکنگ بھی نہیں کھولی۔ ‘‘ وہ شخص دکھی لہجے میں بولا۔

’’بھئی یہ موبائل آپ اپنے پاس رکھو! اور جتنے روپوں کی آپ کی ضرورت ہے مجھ سے اُدھار لے لو‘‘ چچا تیز گام ہمدردی سے بولے اُس کی باتوں نے چچا تیز گام پر بڑ اثر کیا تھا۔

’’نہیں بزرگو! قرض تو خیر میں آپ سے نہیں لوں گا۔ ہاں اگر آپ چاہیں تو یہ موبائل مجھ سے خرید لیں۔ میں نے بازار میں اس کی قیمت پتہ نہیں کی پانچ ہزار سے تو زیادہ ہی ہو گی۔ لیکن چوں کہ مجھے ضرورت ہے، اس لیے میں آپ کو یہ پانچ ہزار میں ہی دے دوں گا۔ ‘‘ وہ شخص بولا۔

’’اچھا بھئی! جیسے آپ کی مرضی یہ لو پانچ ہزار روپے۔ ‘‘ پھر انہوں نے پانچ ہزار روپے اس شخص کو دے کر موبائل فون کا ڈبا پکڑا اور خوشی خوشی گھر کی راہ لی۔ مارے خوشی کے ان کا دل بلیوں اچھل رہا تھا۔ کیوں کہ انہیں دس ہزار کا موبائل فون پانچ ہزار میں مل گیا تھا۔

’’لو بیگم! دیکھو، تم کہتی تھی کہ اکیلے بازار جا کر میں دھوکا کھا جاؤں گا۔ اور مہنگا موبائل لے آؤں گا۔ اب دیکھو! میں کتنا قیمتی موبائل فون اونے پونے داموں خرید لایا ہوں۔ ‘‘

گھر جا کر چچا تیز گام موبائل فون والا ڈبا بیگم کے سامنے لہراتے ہوئے بولے۔

’’دکھاؤ تو سہی کیسا موبائل خریدا ہے؟‘‘

’’دیکھو! کتنا خوب صورت موبائل فون ہے۔ ‘‘

کتنے کا خریدا ہے؟‘‘ بیگم نے پوچھا۔

’’پانچ ہزار کا بیگم! صرف پانچ ہزار کا۔ ‘‘ چچا تیز گام چہک کر بولے۔

’’یہ تو آپ کو کافی سستا مل گیا ہے۔ ‘‘ بیگم بولیں۔

’’لو بھلا سستا کیوں نہ ملتا، تت۔۔ تیز۔۔ اوہ۔۔ میرا مطلب ہے۔ تنویر احمد موبائل فون خریدنے جائے اور موبائل سستا نہ ملے۔ ‘‘ چچا تیز گام فخر سے سینہ پھلاتے ہوئے بولے۔

’’لاؤ بیگم! ڈبا مجھے پکڑاؤ۔ سب سے پہلے میں اپنے دوست ملاّ جی کو فون کروں گا۔ کیونکہ یہ موبائل میں نے انہی کے کہنے پر خریدا ہے۔ ‘‘ چچا تیز گام بولے اور بیگم سے ڈبا لے کر کھولنے لگے۔

’’مالک! موبائل کا ڈبا کھولنے سے پہلے آپ ہمیں مٹھائی تو کھلا دیں، کیوں استاد۔۔؟‘‘ چچا تیز گام ڈبہ کھولنے ہی لگے تھے کہ جمن بول اٹھا۔

’’ہاں۔۔ ہاں۔۔ کیوں نہیں۔ بل کہ مٹھائی ہی کیا۔ نئے موبائل کی خوشی میں تو مالک کو ایک بھرپور پارٹی دینی چاہیے۔ آخر مالک نے پہلی مرتبہ موبائل فون خریدا ہے۔ ‘‘ استاد، جمن سے بھی دو ہاتھ آگے بڑھ گیا تھا۔

’’واہ بھئی۔۔ واہ۔۔ استاد! تم نے تو کمال ہی کر دیا، پارٹی۔۔ واہ۔۔ بھئی۔۔ واہ۔ ‘‘

چچا تیز گام خوشی سے جھومتے ہوئے بولے۔ استاد کا خیال انہیں کچھ زیادہ ہی پسند آیا تھا۔

’’واقعی بھئی پارٹی تو ہونی چاہیے اور ضرور ہونی چاہیے۔ بلکہ ہونی چاہیے کیا۔۔ ہو گی۔ اور اس پارٹی میں میرے تمام دوست شریک ہوں گے۔ موبائل کا ڈبا میں سب کے سامنے ہی کھولوں گا۔ ‘‘ چچا تیز گام موبائل کے ڈبے کو دوبارہ شاپر میں رکھتے ہوئے بولے۔

’’چچا تیز گام۔۔!‘‘ جمن نے زور سے نعرہ لگایا

’’زندہ باد۔۔!‘‘ اُستاد نے پُر جوش انداز میں اُس کے نعرے کا جواب دیا

’’میں کہتی ہوں اس فضول خرچی کی ضرورت ہی کیا ہے۔ ‘‘ پارٹی کا سن کر ان کی بیگم بھڑک اٹھیں۔

’’لو۔۔ اور سنو۔۔! بیگم تم بھی کمال کرتی ہو، ہم نے پہلی مرتبہ موبائل فون خریدا ہے۔ اور تم کہتی ہو کہ پارٹی کی ضرورت ہی کیا ہے۔ چلو بھئی جمن۔۔! اور استاد۔۔! پارٹی کی تیاری شروع کرو۔ پارٹی ایسی ہونی چاہیے کہ سب لوگ دیکھتے رہ جائیں۔ ‘‘ چچا تیز گام نے بیگم کے احتجاج کو نظر انداز کرتے ہوئے جمن اور استاد کو مخاطب کیا۔

’’لوگ پارٹی دیکھنے آئیں گے یا آپ کے اس نگوڑے مارے موبائل کو۔۔‘‘ بیگم جَل کر بولیں۔

’’دیکھنے تو خیر موبائل ہی کو آئیں گے۔ اگر ساتھ میں پارٹی کو بھی دیکھ لیں تو اس میں حرج ہی کیا ہے۔۔‘‘ وہ بولے۔

جمن اور اُستاد نے اُن سے پارٹی تو کروا لی تھی لیکن اب وہ پچھتا رہے تھے۔ کیوں کہ تیاری تو اُن دونوں نے ہی کرنی تھی۔ پہلے تو چچا تیز گام نے ان کو اپنے دوستوں کی ایک لمبی چوڑی فہرست تھمائی۔ جن کو پارٹی کی دعوت دینی تھی۔ شام کو کہیں جا کر وہ فہرست ختم ہوئی۔ بھاگ بھاگ کر جمن اور اُستاد کا بُرا حال ہو گیا تھا۔

اگلے دن جمن اور استاد کی شامت آ گئی۔ کیونکہ چچا ٹھہرے تیز گام ہر کام تیز تیز کرنے کے عادی۔۔ وہ تو یہ چاہتے تھے کہ پلک جھپکنے میں سب کام ہو جائیں۔ آخر خدا خدا کر کے پارٹی کی تیاریاں مکمل ہوئیں۔ پارٹی کا وقت مغرب کے بعد کا تھا۔ چچا تیز گام جیسے ہی مغرب کی نماز پڑھ کر گھر آئے مہمانوں کی آمد شروع ہو گئی۔ سب سے پہلے ملاّ جی اور

گلو میاں آئے۔

’’سبحان اﷲ! آپ تو اپنے نام کی طرح بڑے تیز نکلے۔ اِدھر ہم نے بات کی اور اُدھر آپ نے موبائل خرید لیا۔ سبحان اﷲ بھئی سبحان اﷲ‘‘ ملاّ جی بولے۔

’’اور اس پر ستم یہ کہ جھٹ سے پارٹی بھی دے ڈالی‘‘ گلو میاں اپنی بڑی سی توند پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولے۔

جمن اور استاد بھاگ بھاگ کر آنے والے مہمانوں کی ٹھنڈے مشروب سے تواضع کر رہے تھے۔ بیگم شربت بنا بنا کر تھک چکی تھیں، لیکن مہمان تھے کہ ختم ہونے میں نہ آ رہے تھے۔

’’ارے بھائی۔۔! اس موبائل فون کو تو سامنے لائیں جو اس پارٹی کا سبب بنا ہے۔ ‘‘ ملاّ جی بے تابی سے بولے۔

’’ملاّ جی! اتنی جلدی بھی کیا ہے۔ پہلے سب دوست جمع ہو جائیں پھر سب کے سامنے اس کی پیکنگ کھولیں گے۔ ‘‘چچا تیز گام بولے۔

’’تو کیا ابھی تک آپ نے اس کی پیکنگ نہیں کھولی۔ ‘‘ ملاّ جی حیرت سے بولے۔

’’نہیں ملاّ جی! سب کے سامنے پیکنگ کھولنے کے لیے ہی تو یہ پارٹی رکھی گئی ہے۔ ‘‘ چچا تیز گام بولے۔

ہر آنے والا مہمان چچا تیز گام سے موبائل فون دکھانے کی فرمائش کر رہا تھا۔ جب کہ چچا تیز گام ایک ہی بات کہہ رہے تھے کہ موبائل کا ڈبا وہ سب کے سامنے ہی کھولیں گے۔ جب سب لوگ آ گئے تو چچا تیز گام نے سب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’’بھائیو! یہ تو آپ سب کو پتہ ہی ہے کہ یہ پارٹی میں نے نیا موبائل فون خریدنے کی خوشی میں دی ہے۔ اور آپ سب لوگ اس موبائل کو دیکھنے کے لیے بے چین ہیں۔ سچ بات تو یہ ہے کہ میں خود آپ لوگوں سے زیادہ اس موبائل کو دیکھنے کے لیے بے چین ہوں، آپ پہلے کھانا کھائیں اس کے بعد ہم سب مل کر موبائل دیکھیں گے۔ ‘‘

چچا تیز گام کے ان الفاظ کے ساتھ ہی سب لوگ کھانے پر ٹوٹ پڑے۔ جمن اور استاد جلدی جلدی خالی ہوتی ہوئیں ڈشیں بھر بھر کر لا رہے تھے۔ چچا تیز گام خود نگرانی کر رہے تھے۔ چچا تیز گام نے ملاّ جی اور گلو میاں کے سامنے سے بریانی کی خالی ٹرے جمن کو دی اور کہا کہ اس میں اور بریانی لاؤ۔ کچھ دیر بعد جمن خالی ڈش لیے واپس آیا۔ اس کا رنگ اڑا ہوا تھا۔

’’مالک! بریانی ختم ہو گئی ہے۔ ‘‘

’’ارے، پھر میرا منہ کیا تک رہے ہو استاد کو بلاؤ اور ان مہمانوں کے ساتھ کھانے میں شریک ہو جاؤ۔ ‘‘ چچا تیز گام جلدی سے بولے۔ اور پاس بیٹھے مہمان کے ساتھ ہی کھانا کھانے کے لیے بیٹھ گئے اور جلدی جلدی قورمے پر ہاتھ صاف کرنے لگے۔ سب مسکرا مسکرا کر انہیں دیکھ رہے تھے۔

’’ہاں میاں ! اب دکھاؤ اپنا موبائل۔ ‘‘ کھانے کے بعد ملاّ جی بولے۔

’’لو ملاّ جی! تم ہی اپنے مبارک ہاتھوں سے اسے کھولو۔ ‘‘ چچا تیز گام موبائل کا ڈبا ملاّ جی کو پکڑاتے ہوئے بولے:۔

’’ماشاء اﷲ بھئی ماشاء اﷲ میاں تیز گام! موبائل تو ماشاء اﷲ تمہارا بہت ہی خوبصورت ہے اﷲ نظر بد سے بچائے۔ ‘‘ تعریفی نظروں سے ڈبے میں پیک موبائل کو دیکھتے ہوئے بولے

’’آمین۔۔آمین‘‘ کا شور بلند ہوا سب کی نظریں موبائل پر لگی ہوئی تھیں۔

پھر ملاّ جی ڈبا کھولنے لگے۔ پیکنگ بہت ہی زبردست اور مضبوط تھی۔

’’میاں تیز گام! بہت ہی مضبوط پیکنگ کی ہوئی ہے‘‘

’’قیمتی چیز مضبوط پیکنگ میں ہی محفوظ رہتی ہے‘‘ چچا تیز گام بولے، آخر خدا خدا کر کے ڈبا کھلا۔

’’ماشاء اللہ موبائل تو۔۔ ارے۔۔ ارے۔۔ ہائیں۔۔ یہ کیا‘‘ ملاّ جی اچانک اچھل پڑے

’’کیا ہوا ہے؟‘‘ گلو میاں نے پوچھا۔

’’یہ موبائل فون اصلی نہیں بل کہ موبائل کی ڈمّی ہے۔ ‘‘ ملاّ جی نے موبائل فون لہراتے ہوئے مہمانوں کو مخاطب کیا۔

’’کیا۔۔!!! نہیں۔۔ نہیں۔۔‘‘ یہ سن کر چچا تیز گام بے ہوش ہو کر گر گئے کیوں کہ انہوں نے پانچ ہزار روپے موبائل فون خریدنے پر اور دس ہزار روپے پارٹی پر خرچ کر دئیے تھے۔

٭٭٭

 

 

 

 

چچا تیز گام نے آم کھائے

 

گاؤں سے شیر محمد کا خط کیا آیا، چچا تیز گام نے تو سارا گھر سر پر اٹھا لیا۔ جمن اور استاد کی تو گویا شامت ہی آ گئی۔ جمن اُس وقت کو کوس رہا تھا جب اُس نے چچا تیز گام کو خط پکڑایا تھا۔ شام کا وقت تھا۔ چچا تیز گام جیسے ہی گھر میں داخل ہوئے، جمن تیر کی طرح اُن کی طرف لپکا۔

’’مالک۔۔! خط۔۔‘‘

’’اے۔۔ ہے۔۔ کیا کہا۔۔!!‘‘ چچا تیز گام چلآ اٹھے۔

’’دماغ تو نہیں چل گیا تمہارا، میں تمہیں خط نظر آتا ہوں ؟‘‘

’’نن۔۔ نہیں۔۔ مم۔۔ مالک!۔۔ آ۔۔ آپ خط نہیں مم۔۔ میرا مطلب ہے مالک! خط۔ ‘‘ چچا تیز گام کے گھورنے پر جمن بوکھلا گیا۔

’’پھر وہی۔۔ کیا تمہاری آنکھیں نہیں ہیں، دن دیہاڑے میں تمہیں خط نظر آتا ہوں۔ ‘‘

’’مالک! تو کیا آپ رات کو خط نظر آتے ہیں۔ ‘‘ استاد نے حیرت سے چچا تیز گام کی طرف دیکھا۔

’’اُف خدایا۔۔! کیسے پاگلوں سے پالا پڑا ہے۔ ‘‘ چچا تیز گام جھنجھلاہٹ سے اپنے گال پیٹتے ہوئے بولے۔

’’بیگم۔۔! بیگم۔۔! تم کہاں ہو؟‘‘ چچا تیز گام نے بیگم کو پکارا۔

’’کیوں چِلّا رہے ہیں، کیا ہوا؟‘‘ بیگم باورچی خانے سے نکلتے ہوئے بولیں۔

’’بیگم یہ پوچھو کیا نہیں ہوا، ان نا ہنجاروں کو دیکھو، میں ان کو خط نظر آتا ہوں۔ ‘‘ چچا تیز گام غصے سے لال پیلے ہو رہے تھے۔

’’آپ انہیں خط نظر آتے ہیں، کیا مطلب؟‘‘ بیگم حیرت سے بولیں۔

’’مطلب تو تم ان ہی سے پوچھو۔۔!‘‘ چچا تیز گام بولے۔

’’جمن بتاؤ! کیا بات ہے؟‘‘

’’بیگم صاحبہ! آج ڈاکیا مالک کے نام ایک خط دے کر گیا تھا۔ میں تو ان کو وہ خط دے رہا تھا۔ لیکن یہ میری پوری بات سنے بغیر ہی مجھ پر بگڑنے لگے کہ میں انہیں خط کہہ رہا ہوں۔ ‘‘ جمن بُرا سا منہ بنا کر بولا۔

’’آپ بھی نا! بس بال کی کھال اُتار لیتے ہیں ‘‘ بیگم نے بڑبڑاتے ہوئے باورچی خانے کا رخ کیا کیوں کہ انہوں نے رات کا کھانا تیار کرنا تھا۔

’’بال کی کھال۔۔؟ بیگم تم بھی کمال کرتی ہو بھلا بال کی بھی کھال ہوتی ہے۔۔ ارے۔۔ ارے‘‘ چچا تیز گام کہتے کہتے رُک گئے اور جمن کی طرف متوجہ ہوئے۔

’’جمن! تم نے کیا کہا ہمارا خط آیا ہے۔ ارے تم نے پہلے کیوں نہیں بتایا۔ ‘‘

’’آپ سنتے تو بتاتا نا۔۔!‘‘ جمن جل کر بولا۔

’’بس۔۔ بس۔۔ اب زیادہ باتیں نہ بناؤ، لاؤ ہمارا خط۔ ‘‘

چچا تیز گام نے تیزی سے جمن کے ہاتھ سے خط جھپٹ لیا اور لگے اُسے جلدی جلدی کھولنے۔

’’مالک۔۔! ذرا خط آرام سے کھولیے، کہیں خط پھٹ ہی نہ جائے۔ ‘‘ چچا تیز گام کو تیزی سے خط کھولتے دیکھ کر استاد بول پڑا۔

’’اچھا!۔۔ تو اب تم مجھے خط کھولنا سکھاؤ گے۔ ‘‘ وہ اُستاد کو گھورتے ہوئے بولے۔

’’اور یہ کیا۔۔! تم دونوں میرے سر پر کیوں کھڑے ہو، جاؤ جا کر اپنا کام کرو۔ یہ ہمارا خط ہے۔ اسے ہم اکیلے ہی پڑھیں۔ ‘‘

چچا تیز گام کے الفاظ درمیان میں رہ گئے کہ چرکی آواز سنائی دی انہوں نے چونک کر خط کی طرف دیکھا تو خط درمیان سے پھٹ چکا تھا کیوں کہ وہ تو جمن اور اُستاد کی طرف متوجہ تھے۔ اور ہاتھوں سے جلدی جلدی خط کھول رہے تھے۔

’’لو پھڑوا دیا نا خط‘‘ وہ اُن دونوں پر برس پڑے چچا تیز گام نے چونک کر خط کی طرف دیکھا تو وہ پھٹ چکا تھا۔

’’جاؤ جا کر ٹیپ لے کر آؤ۔ ‘‘ چچا تیز گام غصے سے بولے۔ جمن دوڑ کر ٹیپ لے آیا۔

’’تم خط کو پکڑ کر رکھو میں ٹیپ لگاتا ہوں۔ ‘‘ چچا تیز گام ٹیپ لیتے ہوئے بولے۔ پھر جمن خط کو جوڑنے کے لیے دونوں ٹکڑوں کو ملانے لگا۔ چچا تیز گام سے بھلا کہاں صبر ہوتا تھا۔ انہوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ جلدی سے ٹیپ کاٹ کر خط پر لگا دی۔

’’اوہ۔۔ مالک۔۔! یہ آپ نے کیا کر دیا۔۔!‘‘ جمن کے منہ سے نکلا۔

’’اندھے ہو کیا، دیکھتے نہیں ہم نے خط کو جوڑا ہے۔ ‘‘ چچا تیز گام بولے۔

’’دیکھ لیں، آپ نے کس طرح خط جوڑا ہے۔ ‘‘ جمن الٹے جڑے ہوئے خط کو چچا تیز گام کی آنکھوں کے سامنے لہراتے ہوئے بولا۔

’’تم سے آج تک کوئی کام سیدھا ہوا بھی ہے، اب دیکھو خط اُلٹا جڑوا دیا۔ ‘‘ چچا تیز گام اُلٹا جمن پر برس پڑے۔

’’لاؤ مجھے دو خط۔۔ میں جوڑتا ہوں۔۔‘‘ چچا تیز گام غصے سے جمن کی طرف دیکھتے ہوئے بولے اور خط جمن کے ہاتھ سے لے لیا۔

’’مالک !۔۔ خط پر لگی ہوئی ٹیپ ذرا احتیاط سے اتارئیے گا۔ ‘‘ جمن کے اس مشورے پر چچا تیز گام نے کھا جانے والی نظروں سے اُس کی طرف دیکھا، لیکن منہ سے کچھ نہ بولے۔ اور ٹیپ اتارنے لگے۔ جب ٹیپ اتر چکی تو انھوں نے اس مرتبہ پوری احتیاط کے ساتھ ٹیپ لگائی اور یوں خدا خدا کر کے خط جڑا۔ چچا تیز گام خط پڑھنے لگے۔ خط کی عبارت پڑھ کر وہ مارے خوشی کے اچھل پڑے۔

’’اوہ۔۔ مارا۔۔!!‘‘ چچا تیز گام نے پُر جوش انداز میں نعرہ لگایا۔

’’کوئی مچھر بھی آج تک آپ نے نہیں مارا، آج کس کو مار دیا۔۔‘‘ چچا کا زور دار نعرہ سن کر بیگم باورچی خانے سے باہر نکل آئیں۔

’’بیگم تم بھی بس بات کا بتنگڑ بنا لیتی ہو۔ ہمیں کیا پڑی ہے جو کسی کو ماریں۔ اوہ مارا کا نعرہ تو ہم نے خوشی میں لگایا ہے۔ کیوں کہ گاؤں سے ہمارا جگری یار شیر محمد آ رہا ہے۔ ‘‘

’’شیر محمد وہی نا! جسے ملنے آپ گاؤں گئے تو وہ آپ کے گاؤں جانے سے پہلے ہی کہیں چلا گیا تھا۔ ‘‘ بیگم طنزیہ لہجے میں بولیں۔

’’ہاں۔۔ ہاں۔۔ وہی۔۔‘‘ چچا تیز گام زور سے سر ہلاتے ہوئے بولے۔

’’بیگم وہ گاؤں چھوڑ کر نہیں گیا تھا بلکہ۔۔ بلکہ۔۔‘‘ چچا تیز گام اچانک کچھ کہتے کہتے رُک گئے۔

’’کیا بلکہ۔۔؟‘‘ بیگم نے پوچھا۔

’’بلکہ یہ کہ، بلکہ کچھ بھی نہیں۔ ‘‘ چچا تیز گام فوراً بولے۔

اب بھلا وہ کیسے بتاتے کہ گاؤں میں شیر محمد سے اس لیے ملاقات نہیں ہوئی تھی کہ وہ بغیر اطلاع کیے گاؤں پہنچ گئے تھے۔

’’یہ کیا بات ہوئی؟‘‘ بیگم نے عجیب نظروں سے چچا تیز گام کی طرف دیکھا۔

’’بیگم بات کو چھوڑو اور ہمارے جگری یار شیر محمد کا خط سنو!

آہا۔۔ کیا پیارا خط لکھا ہے۔ ‘‘ چچا تیز گام بات ٹالتے ہوئے بولے۔

’’پیارے دوست تنویر احمد!

مجھے یہ جان کر بے حد دکھ ہوا کہ آپ گاؤں آئے اور میں آپ کو نہ مل سکا کیوں کہ میں کراچی ایک شادی میں گیا ہوا تھا۔ آپ بھی تو۔۔ ب۔۔ بغیر۔۔ ا۔۔ ط۔۔‘‘

چچا تیز گام نے پڑھتے پڑھتے یک دم بریک لگا دی۔ کیوں کہ آگے شیر محمد نے چچا تیز گام سے گاؤں آنے کی اطلاع نہ دینے کی شکایت کی تھی۔ چچا تیز گام نے شکایت والی سطروں کو ہضم کیا اور  پینترا بدل کر اگلی سطر پڑھتے ہوئے بولے: ’’ہاں۔۔! تو آگے لکھا ہے۔ ‘‘

’’آگے کا تو آپ بعد میں بتائیے گا۔۔ پہلے یہ تو بتائیں کہ اس سے پیچھے کیا لکھا ہے۔ جو آپ نے چھوڑ دی ہے۔ ‘‘ بیگم مشکوک نظروں سے چچا تیز گام کو دیکھتے ہوئے بولیں۔

’’ہم کیوں چھوڑنے لگے۔۔‘‘ بیگم کے جملے پر چچا تیز گام گڑبڑا گئے۔

’’اچھا تو آپ گاؤں شیر محمد کے پاس بغیر اطلاع دئیے چلے گئے تھے۔ ‘‘ بیگم انھیں گھورتے ہوئے بولیں۔

’’بیگم۔۔! تم بھی کیا پرانی باتیں لے کر بیٹھ گئیں۔ آگے تو سنو! کیا پیاری بات لکھی ہے ہمارے جگری یار شیر محمد نے۔۔‘‘ چچا تیز گام نے بات بدلی اور آگے خط پڑھنے لگے:

’’پیارے تنویر احمد! میرے باغوں کے آم پک چکے ہیں۔ میں ان شاء اﷲ آپ کے لیے آموں کی پیٹیاں لے کر خود آپ کے پاس آؤں گا۔ آنے کی اطلاع میں آپ کو فون کے ذریعے دے دیتا لیکن اُس دن ریل گاڑی میں آپ جلدی میں اپنا ایڈریس دیتے ہوئے اپنا فون نمبر دینا بھول گئے تھے۔ میں 9تاریخ کو آؤں گا اور آپ کے لیے ڈھیر سارے آم لاؤں گا۔

آپ کا دوست شیر محمد۔ ‘‘

’’آہا۔۔ اب آئے گا مزہ۔۔‘‘ چچا تیز گام نے خط ختم کر کے خوشی کا اظہار کیا۔

’’بڑے بڑے۔۔ پیلے پیلے۔۔ مٹھاس بھرے آم۔۔ اور وہ بھی کئی پیٹیاں۔۔واہ بھئی واہ۔۔‘‘ چچا تیز گام خیالوں ہی خیالوں میں میٹھے آم کھا رہے تھے۔ کیوں کہ وہ آموں کے بے حد رسیا تھے، اُن کو غالبؔ صرف آموں کی وجہ سے ہی پسند تھے۔ ورنہ غالبؔ کی شاعری اور خطوط سے اُن کو چنداں دلچسپی نہیں تھی۔ اقبال مرحوم کی سوانح میں سے بھی اُن کو بس وہی ایک واقعہ اچھا لگتا تھا جس میں ڈاکٹر کے منع کرنے کے باوجود انہوں نے سیر پکا آم کھایا تھا۔

’’اچھا تو یہ بات ہے۔ ‘‘ یہ کہہ کر بیگم باورچی خانے کی طرف بڑھ گئیں۔

کچھ دیر بعد چچا نے جمن اور استاد کو طلب کر کے کہا:

’’دیکھو! گاؤں سے ہمارا جگری یار شیر محمد آ رہا ہے۔ ہمارے دوست کے استقبال کی تیاریاں ابھی سے شروع کر دو۔ ہمارے دوست کے استقبال میں کوئی کمی نہیں رہنی چاہیے۔ ہمارا دوست پوری آن بان، شان اور آموں کی پیٹیوں کے ساتھ آ رہا ہے۔ ہم خود شیر محمد کو لینے اپنی چاند گاڑی پر اسٹیشن جائیں گے، ارے۔۔ ! لیکن ہم آموں کی پیٹیاں اسٹیشن سے کیسے لائیں گے؟‘‘ چچا تیز گام بولے۔

’’شیر محمد آموں کی ایک آدھ پیٹی ہی لائیں گے اُسے آپ اپنی چاند گاڑی ہی پر رکھ کر لے آئیے گا۔ ‘‘ جمن بولا۔

’’ہا۔۔ ہا۔۔ ایک آدھ پیٹی۔۔ اماں جاؤ۔۔! گاؤں میں شیر محمد کے بہت سے باغات ہیں۔ وہ بہت سی آموں کی پیٹیاں لے کر آئے گا۔ ‘‘ چچا تیز گام ہاتھ نچاتے ہوئے بولے۔

’’آپ تو ایسے کہہ رہے ہیں جیسے آپ کا دوست شیر محمد اپنا پورا باغ ہی آپ کے لیے اٹھا لائیں گے۔ ‘‘ باورچی خانے سے بیگم کی آواز سنائی دی۔

’’ہاں۔۔! تو جمن میں کہہ رہا تھا کہ آموں کی بہت سی پیٹیاں ہم اسٹیشن سے کس طرح لائیں گے؟‘‘ چچا تیز گام بیگم کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے بولے۔

’’مالک پھر ہم ایک وین کرائے پر لے لیتے ہیں۔۔‘‘

استاد نے مشورہ دیا۔

’’وین۔۔ ہاں۔۔! یہ ٹھیک ہے۔ ‘‘

استاد! لگتا ہے تم ہماری صحبت میں رہتے ہوئے کافی عقل مند ہو گئے ہو۔ ہاں تو یہ طے ہو گیا کہ شیر محمد کو ہم اپنی چاند گاڑی پر لائیں گے اور آموں کی پیٹیاں وین میں آئیں گی۔ اور وین میں آموں کی حفاظت کے فرائض جمن سر انجام دے گا۔ ‘‘ چچا تیز گام تیز تیز بولتے چلے گئے۔

’’آپ مجھے آموں کا محافظ بنانا چاہتے ہیں یعنی مینگو گارڈ (Mango Guard)۔ واہ بھئی واہ۔۔ مزہ آ گیا۔۔مینگو گارڈ۔ ‘‘ جمن کو یہ خطاب کچھ زیادہ ہی پسند آ گیا تھا۔

’’لیکن! خبردار جو تم نے آموں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھا تو۔ ‘‘ چچا تیز گام نے جمن کو آنکھیں دکھائیں۔

’’لیکن مالک۔۔! نظریں اٹھائے بغیر میں آموں کی حفاظت بھلا کس طرح کر سکوں گا؟‘‘

’’ٹھیک ہے تم نظریں اٹھا لینا، لیکن خبردار میلی نظروں سے آموں کی طرف مت دیکھنا۔۔‘‘ چچا تیز گام بولے۔

’’کیوں مالک! کیا اس سے آم میلے ہو جاتے ہیں یا پھر آموں کو نظر لگ جاتی ہے۔ ‘‘اُستاد بول اُٹھا۔

’’دماغ تو نہیں چل گیا تمہارا بھلا آموں کو بھی نظر لگتی ہے۔ یہ تو میں نے اس لیے کہا تھا کہ۔۔ ارے۔۔ ہمیں تو اپنے دوست گلو میاں کی طرف جانا تھا اور تم نے ہمیں باتوں میں لگا لیا جاؤ جا کر اپنا کام کرو، ویسے تو ہمارے دوست کے آنے میں کچھ دن باقی ہیں۔ لیکن تم ہمارے جگری یار کے استقبال کی تیاریاں ابھی سے شروع کر دو، ہمارا دوست پہلی مرتبہ ہمارے گھر آ رہا ہے۔ اور وہ بھی آموں کے ساتھ‘‘ چچا تیز گام نے اُن دونوں کو ہدایات دیں اور   گلّو میاں کی طرف رخ کیا وہ ان کا ہی انتظار کر رہے تھے۔

’’ارے میاں تیز گام! خیر تو ہے آج تو تم نے بہت انتظار کروایا‘‘ اُن کو دیکھ کر    گلّو میاں بولے۔

’’ہاں۔۔ ہاں۔۔! آج تو خیر ہی خیر ہے۔ بلکہ کچھ زیادہ ہی خیر ہے۔ ‘‘ چچا تیز گام مسکراتے ہوئے بولے۔

’’وہ اپنا دوست ہے نا شیر محمد! یار وہی جو گاؤں میں رہتا ہے۔ جس کے پاس ہم گاؤں ملنے گئے تھے۔ وہ آ رہا ہے۔ اور ساتھ میں آموں کی پیٹیاں بھی لا رہا ہے۔ ‘‘

’’اوہ تم آموں کی پیٹیاں اکیلے اکیلے ہی اڑانا چاہتے ہو۔ ‘‘ گلّو میاں اپنی بڑی سی توند پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولے۔

’’اگر میں اکیلے اڑانا چاہتا تو پھر بھلا تمہیں کیوں بتاتا۔۔؟‘‘ چچا تیز گام اُس کی بات کا بُرا مان گئے۔

’’ارے۔۔ تیز گام۔۔! میں تو مذاق کر رہا تھا۔ اچھا تو پھر کب آ رہے ہیں تمہارا دوست شیر محمد؟۔۔‘‘ گلّو میاں کھسیانے سے ہو کر بولے

’’نو تاریخ کو آئے گا۔ چلو یار پہلوان جی کو بھی اس آم پارٹی کی دعوت دے کر آتے ہیں۔ ‘‘ چچا تیز گام بولے۔

اُن کے گھر آموں کے آنے کی خبر جنگل میں آگ کی طرح اُن کے تمام دوستوں میں پھیل گئی تھی۔ چچا تیز گام ہر ملنے والے کے سامنے آموں کا ذکر چھیڑ دیتے اور پھر 9 تاریخ کو آم پارٹی کی دعوت دے ڈالتے۔ اُن کے دوست و احباب میں آج کل آموں کا ہی تذکرہ ہو رہا تھا۔ سب کو 9 تاریخ کا بے چینی سے انتظار تھا۔ خود چچا تیز گام ہر وقت آموں کے خیال میں مست رہنے لگے تھے۔ اب تو خواب میں بھی اُن کو آم ہی نظر آتے تھے۔

9 تاریخ کو صبح صبح ہی جمن اور اُستاد کی شامت آ گئی۔

’’جمن۔۔ ! تم چندو برف والے سے برف کے تین بلاک لے کر آؤ۔۔‘‘

’’لیکن مالک! آپ برف کے تین بلاکوں کا کیا کریں گے؟‘‘ جمن نے حیرت سے پوچھا۔

’’اپنے سر میں ماروں گا۔ ‘‘ چچا تیز گام جھلآ کر بولے۔

’’مم۔۔ مالک اس طرح تو آپ کا سر چوں چوں کا مربہّ بن جائے گا‘‘ جمن گھبرا کر بولا۔

’’ارے بیوقوف! برف سے ہم آموں کو ٹھنڈا کریں گے، برف لگے آموں کو چوسنے کا بھی اپنا ہی مزہ ہے۔ ‘‘ چچا تیز گام اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے بولے۔

’’مالک! تو کیا آپ کے دوست صرف چونسا آم لائیں گے؟‘‘

’’یہ تم سے کس نے کہہ دیا۔۔ شیر محمد کے ہاں دسہری، لنگڑا، سندھڑی، فجری، انور رٹول سبھی قسم کے آموں کے باغ ہیں۔ لہٰذا وہ ہر قسم کے آموں کی دو، دو، تین، تین پیٹیاں لائیں گے۔

’’اوہ مالک! پھر تو مزہ ہی آ جائے گا۔۔‘‘ جمن خوش ہو کر بولا۔

’’اچھا۔۔ اچھا اب زیادہ دماغ نہ کھاؤ اور چندو برف والے سے برف لے کر آؤ اور سنو!۔۔ واپسی پر شبراتی حلوائی سے پانچ کلو دودھ بھی لیتے آنا، آموں کے ساتھ کچی لسّی بھی ہو تو مزہ دوبالا ہو جاتا ہے۔ اور اُستاد! تم شاہین ٹینٹ والوں سے دو بڑے ٹب لے آؤ۔۔‘‘     چچا تیز گام کی ہدایات سن کر وہ دونوں اثبات میں سرہلاتے ہوئے رخصت ہو گے۔ جمن اور اُستاد کے آنے تک چچا تیز گام شیروانی پہنے تیار بیٹھے تھے۔

’’اچھا بیگم! ہم اپنے دوست کو لینے کے لیے اسٹیشن جا رہے ہیں۔ تم دودھ کی کچی لسّی بنا لو۔ اور اُستاد! تم برف کو ٹب میں ڈال کر رکھو۔ جمن! تم میرے ساتھ آؤ۔ تم آموں کی پیٹیوں والی وین میں آؤ گے‘‘ چچا تیز گام نے اپنی چاند گاڑی نکالی وہ جمن کو اپنے پیچھے بٹھا کر گھر سے نکلنے ہی لگے تھے کہ گلّو میاں اور پہلوان جی آ دھمکے۔

’’واہ بھئی واہ بہت خوب! ہمیں ’’مینگو پارٹی‘‘ دے کر خود گھر سے فرار ہو رہے ہو۔ ‘‘ گلّو میاں مشکوک نظروں سے چچا تیز گام کو دیکھتے ہوئے بولے۔

’’لو بھلا میں کیوں ہونے لگا فرار۔۔ میں تو شیر محمد کو اسٹیشن سے لینے جا رہا ہوں۔ ‘‘ چچا تیز گام بُرا سا منہ بنا کر بولے۔

’’اوہ۔۔ ٹھیک ہے پھر تو تم جاؤ۔ ضرور جاؤ۔ لیکن ذرا جلدی آنا یار۔۔! آموں سے اور جدائی اب برداشت نہیں ہو رہی۔ ‘‘ پہلوان جی اپنے پیٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولے

چچا تیز گام اور جمن تو اسٹیشن روانہ ہو گئے۔ اِدھر دھیرے دھیرے اُن کے دوست و احباب مینگو پارٹی اڑانے اُن کے گھر جمع ہونا شروع ہو گئے تھے دوپہر تک اُن کا سارا گھر مہمانوں سے بھر گیا تھا۔ لیکن چچا تیز گام ابھی تک اپنے دوست شیر محمد اور آموں کو لے کر نہیں پہنچے تھے۔ کافی دیر بعد چچا تیز گام منہ لٹکائے گھر میں داخل ہوئے۔ اُن کے ساتھ شیر محمد اور آموں کا دور دور تک پتہ نہیں تھا۔

’’کیوں تیز گام! کیا ہوا۔ ‘‘ پہلوان جی نے پوچھا

’’یار پتہ نہیں شیر محمد کیوں نہیں آیا۔ خط میں تو اُس نے 9 تاریخ ہی لکھی تھی۔ ‘‘      چچا تیز گام افسردہ سے لہجے میں بولے

’’لاؤ دکھاؤ، تمہارے دوست کا خط کہاں ہے؟‘‘

’’یہ رہا خط، خود پڑھ لو اس پر صاف صاف لکھا ہے کہ شیر محمد نے 9 تاریخ کو آنا ہے۔ ‘‘

چچا نے شیروانی کی جیب سے خط نکال کر پہلوان جی کی طرف بڑھایا۔ پہلوان جی نے خط پڑھنا شروع کیا اور اس سطر کو بغور دیکھنے لگے جس پر 9 تاریخ لکھی ہوئی تھی۔ خط کو ٹیپ سے جوڑا گیا تھا اس لیے 9 کا ہندسہ واضح نہیں پڑھا جا رہا تھا۔

’’خط کو ٹیپ کس نے لگائی ہے؟‘‘ پہلوان جی نے پوچھا۔

اس کے جواب میں چچا نے ساری بات بتا دی۔

’’آپ تیزی نہ دکھائیں تو آپ کو چچا تیز گام کون کہے۔ ‘‘

’’کیا مطلب؟‘‘

’’ابھی مطلب بتاتا ہوں۔ ‘‘ یہ کہہ کر پہلوان جی نے نہایت احتیاط کے ساتھ ٹیپ اتاری اور کاغذ کو آپس میں ملا کر دکھاتے ہوئے کہا:

’’اب دیکھو کیا تاریخ پڑھی جا رہی ہے؟‘‘

’’یہ۔۔ یہ۔۔ تو۔۔ ہاں یہ تو 9 کی بجائے 19 پڑھا جا رہا ہے۔ ‘‘

’’جی ہاں شیر محمد نے 19 تاریخ کو آنا ہے، آپ نے ٹیپ لگاتے ہوئے ایک کے ہندسے کو نیچے دبا دیا تھا۔ ‘‘

’’اب کیا ہو گا؟‘‘ چچا نے پہلوان جی کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔

’’اب بے عزتی ہو گی، مہمان باتیں بنائیں گے اور آپ کو بُرا بھلا کہتے ہوئے یہاں سے رخصت ہو جائیں گے۔ ‘‘

’’کیا ایسا ہی ہو گا؟‘‘

’’جی بالکل ایسا ہی ہو گا، آپ کو تیزی کی کچھ تو سزا ملنی چاہیے۔ ‘‘

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مہمانوں میں بے چینی بڑھتی جا رہی تھی۔ پریشانی کی وجہ سے چچا کا سر چکرانے لگا تھا۔ یہ سب کیا دھرا ان کا اپنا تھا۔

مغرب سے کچھ دیر پہلے اچانک چچا تیز گام کے بھانجے نعیم سجاد آ گئے۔ وہ فوج میں تھے۔

’’ماموں ! یہ سب لوگ کیوں آئے ہیں ؟‘‘ نعیم سجاد نے حیرت سے پوچھا

’’وہ آ۔۔ آ۔۔ آم کھانے کے لیے۔

’’آم کھانے کے لیے۔ ‘‘ نعیم سجاد نے حیرت سے دہرایا۔

’’جی ہاں آم کھانے کے لیے، لیکن۔۔‘‘

’’لیکن کیا؟‘‘

اس لیکن کے جواب میں چچا نے تمام داستانِ آم سنا دی۔ ساری بات جان کر نعیم سجاد نے کہا:

’’ماموں ! آپ کا مسئلہ حل ہو گیا ہے۔ ‘‘

’’وہ کیسے؟‘‘

’’آؤ  میرے سا تھ۔ ‘‘

جب چچا تیز گام نعیم سجاد کے ساتھ گلی میں آئے تو گاڑی میں بہت سی آموں کی پیٹیاں تھیں۔

’’یہ۔۔ یہ۔۔ آم۔۔‘‘

’’ماموں یہ میں آپ کے لیے لایا ہوں، مجھے پتا ہے آپ آموں کے شوقین ہیں، ان دنوں میری پوسٹنگ ملتان میں ہے، یہ آم میں وہیں سے لا رہا ہوں۔ ‘‘ نعیم سجاد نے کہا۔

’’تم تو میرے لیے رحمت بن کر آئے ہو اور مزے دار آم لائے ہو، او جمن۔۔!    او استاد۔۔! آؤ اور آم اندر لاؤ، دیر مت کرو، جلدی آؤ۔ ‘‘ چچا نے گلی ہی سے ہانک لگائی۔

کچھ ہی دیر میں مینگو پارٹی اپنے عروج پر تھی۔ مہمان تیزی سے مزے دار آم کھا رہے تھے اور چچا تیز گام کی تعریف کر رہے تھے۔ چچا حسبِ معمول اپنی تیزی پر قابو نہ رکھ سکے اور ترنگ میں آ کر بولے:

’’19 تاریخ کو پھر آم پارٹی ہو گی۔ ‘‘

یہ اعلان سن کر مہمان آم کھاتے جا رہے تھے اور ’’چچا تیز گام زندہ باد‘‘ کے نعرے لگاتے جا رہے تھے۔

٭٭٭

 

 

 

 

چچا تیز گام نے کرکٹ کھیلی

 

اچانک چچا تیز گام کی آنکھ کھل گئی۔

’’حیرت ہے، کمال ہے، تعجب ہے بلکہ افسوس ہے۔ آج ہماری آنکھ اتنی جلدی کیسے کھل گئی۔ ‘‘ وہ حیرت سے بڑبڑائے۔ ویسے تو عموماً چچا تیز گام نمازِ فجر پڑھ کر دوبارہ سوتے اور سات بجے تک اٹھ جاتے تھے کیوں کہ محمود اور عروج فاطمہ نے اسکول جانا ہوتا تھا۔ اس لیے بیگم ناشتہ جلد ہی تیار کر دیتی تھیں، لیکن آج چونکہ اتوار کا دن تھا، محمود اور عروج فاطمہ کی چھٹی ہونے کی وجہ سے اتوار کو ناشتہ بھی دیر سے بنتا تھا۔ اس لیے چچا تیز گام بھی دیر ہی سے اٹھتے تھے۔

’’جمن۔۔! او۔۔ جمن۔۔!‘‘ چچا تیز گام کو اپنی آنکھ کھلنے کی وجہ سمجھ نہ آئی تو انہوں نے بستر پر بیٹھے بیٹھے ہانک لگائی۔

’’جی۔۔ مالک۔۔! جی مالک!‘‘

’’جی مالک کے بچے۔۔! یہ آج ہماری آنکھ اتنی جلدی کیسے کھل گئی؟‘‘ چچا جمن پر برس پڑے۔

’’مم۔۔ مالک۔۔! بب۔۔ بھلا۔ میں کیا کہہ سکتا ہوں یہ تو آپ اپنی آنکھ سے پوچھیے۔ ‘‘ جمن گھبرا کر بولا۔

’’وہ تو خیر ہم ضرور پوچھیں گے، ارے ہائیں کیا کہا۔۔! آنکھ سے پوچھوں، دماغ تو نہیں چل گیا تمہارا۔ ہم آنکھ سے بھلا کیسے پوچھ سکتے ہیں ؟‘‘چچا تیز گام نے جمن کو آنکھیں نکالتے ہوئے کہا۔

’’مم مالک۔۔! وہ۔۔ وہ۔۔ میرا مطلب۔۔‘‘ جمن سے کوئی بات نہ بن پڑی۔

’’کیا مطلب تھا تمہارا؟ ارے۔۔ ارے، یہ کیا!‘‘

چچا تیز گام اچانک اچھل پڑے۔ گول سی کوئی چیز کھڑکی سے ہوتی ہوئی چچا کے سر سے ٹکرائی۔ وہ تو شکر تھا کہ چچا تیز گام نے بیدار ہوتے ہی اپنی پھندنے والی ٹوپی پہن لی تھی۔ چوں کہ  وہ چیز چچا کے سر پر رکھی  ٹوپی سے ٹکرائی اور ٹوپی چچا تیز گام کے سر سے اڑ کر دُور جا گری تھی۔ چچا تیز گام اور جمن نے گھبرا کر اُس چیز کی طرف دیکھا، وہ کرکٹ کی ہارڈ بال تھی۔

’’اُف مالک! اگر آپ کے سر پر ٹوپی نہ ہوتی تو۔۔‘‘ جمن خوف سے جھرجھری لیتے ہوئے بولا۔

’تو کیا ہونا تھا۔۔ کچھ بھی نہیں۔۔ کیوں کہ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ ہمارے سر پر ٹوپی نہ ہو یہ ٹوپی تو ہماری پہچان ہے پہچان۔۔‘‘ چچا تیز گام بڑے فخر سے اپنی ٹوپی کی طرف دیکھتے ہوئے بولے۔

’’ارے اس گیند کو تو ہم بھول ہی گئے۔۔ یہ یہاں کہاں سے آ گئی۔۔؟‘‘

’’مالک۔۔ وہ محمود اپنے دوستوں کے ساتھ گلی میں کرکٹ کھیل رہا ہے، لگتا ہے یہ گیند انہیں کی ہے۔ ‘‘ جمن نے بتایا۔

’’ہوں۔۔ تو ہماری آنکھ بھی ان کے ہی شور کرنے سے کھلی ہے۔۔ گیند اور ٹوپی ذرا ہمیں پکڑاؤ ہم محمود میاں اور اُن کے دوستوں کی خبر لیتے ہیں۔ ‘‘ وہ ٹوپی سر پر سجائے اور گیند ہاتھ میں پکڑے کمرے سے باہر آئے۔ دروازے پر محمود اور اُس کے دوست پہلے ہی گیند لینے کے لیے کھڑے تھے۔

’’چچا تیز گام۔۔! چچا تیز گام۔۔! ہماری گیند دے دیجئے۔ ‘‘

چچا تیز گام کو دیکھتے ہی سب لڑکے پکار اٹھے۔

’’ارے برخوردارو! گلی بھی کوئی کرکٹ کھیلنے کی جگہ ہے۔ ‘‘ چچا تیز گام بولے۔

’’ابا جان! ہمارے علاقے میں کوئی گراؤنڈ تو ہے نہیں، اب اگر ہم گلی میں نہ کھیلیں تو اور کہاں کھیلیں۔ ‘‘ محمود نے جواب دیا۔

’’ارے بھئی ضروری تو نہیں تم کرکٹ ہی کھیلو۔ تم کوئی اور کھیل بھی تو کھیل سکتے ہو۔ بھلا کر کٹ بھی کوئی کھیل ہے۔ ‘‘ چچا تیز گام بُرا سا منہ بنا کر بولے۔

’’چچا جی! آپ کو کیا پتا کرکٹ کتنا زبردست کھیل ہے، آپ نے کبھی کرکٹ جو نہیں کھیلی۔ ‘‘ ایک لڑکا بولا۔

’’جمن۔۔! سنا تم نے، یہ آج کے لونڈے ہمیں کہہ رہے ہیں کہ ہمیں کرکٹ کا پتا نہیں۔ ارے برخودارو! اپنے وقت میں ہم اپنی ٹیم کے کپتان ہوا کرتے تھے، کپتان۔۔؟‘‘

’’ابا جان! کیا آپ بھی کرکٹ کھیلا کرتے تھے؟‘‘ محمود نے حیرت کا اظہار کیا۔ جمن اور تمام بچے بھی حیرت سے چچا کی طرف دیکھ رہے تھے۔ اُن کے لیے یہ ایک نئی بات تھی۔

’’اور نہیں تو کیا، ہمارے چھکے تو پورے علاقے میں مشہور تھے۔ ‘‘

’’مالک۔۔! پھر تو آپ ماشاء اﷲ کرکٹ کے پرانے کھلاڑی ہیں۔ ‘‘ جمن بول اُٹھا۔

’’ہاں۔۔ہاں ہماری ٹیم کی جیت کا دارومدار ہی ہم پر ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ ہمارے گاؤں کا دُوسرے گاؤں والوں کے ساتھ میچ تھا۔ ہماری ٹیم کو جیتنے کے لیے ایک اوور میں 40 رنز کی ضرورت تھی اور آخری بلے باز بھی ہم ہی تھے۔ بس پھر ہم نے وہ چھکے لگائے وہ چھکے لگائے کہ سب عش عش کر اٹھے اور ہم نے ایک اوور میں 40 اسکور پورا کر دیا۔ ‘‘

چچا تیز گام اپنی کرکٹ کی یادیں سناتے ہوئے بولے۔

’’کیا!!‘‘ یہ سن کر سب حیرت سے چلا اٹھے۔

’’لیکن ابا جان۔۔! ایک اوور میں تو صرف چھ گیندیں ہوتی ہیں۔ آپ نے چھ گیندوں میں 40 اسکور کیسے بنا لیا؟‘‘ محمود نے حیرت سے پوچھا۔

’’ہم نے ہر گیند پر چھکا لگایا اور اسکور پورا ہو گیا۔ ‘‘

’’لیکن چچا تیز گام چھ گیندوں پر چھ چھکے لگانے سے بھی 40 اسکور پورا نہیں ہوتا بلکہ چھتیس بنتا ہے۔ ‘‘ ایک لڑکا بولا۔

’’بھئی ایک گیند وائٹ اور ایک نو بال بھی تو ہوئی تھی۔ ‘‘ چچاتیز گام بھلا کہاں ہار ماننے والے تھے۔

’’آپ تو چھپے رستم نکلے۔ ابھی کچھ دیر بعد یونیورسٹی گراؤنڈ میں ایک ٹیم کے ساتھ ہمارا میچ ہے۔ ابھی ہم اُسی میچ کی پریکٹس کر رہے تھے۔ آپ ہمارے امپائر بن جائیں کیوں کہ ہمارے پاس کوئی اَمپائر نہیں ہے۔ ‘‘ محمود کی ٹیم کے کپتان ارسلان نے کہا۔

’’کیا کہا۔۔ ہم اور اَمپائر۔ نا۔۔ بابا۔۔ نا۔۔ بہت عرصہ ہوا ہم کرکٹ چھوڑ چکے ہیں۔ ‘‘ چچا تیز گام امپائر بننے کا سن کر گھبرا کر بولے۔

’’پلیز۔۔ پلیز چچا تیز گام! پلیز۔ ‘‘ ارسلان نے بلند آواز میں کہا تو سب لڑکے بھی یک زبان ہو کر بولے:

’’پلیز چچا تیز گام مان جائیں۔ ‘‘

’’اچھا۔۔ بابا۔۔ اچھا۔۔ ٹھیک ہے۔ ‘‘ آخر اُن کو بچوں کی بات مانتے ہی بنی۔

کچھ دیر بعد چچا تیز گام اَمپائر بنے گراؤنڈ میں کھڑے تھے۔

جیسے ہی باؤلر نے پہلی بال کروائی چچا تیز گام نے جلدی سے نو بال کا اشارہ دیتے ہوئے اپنا دایاں ہاتھ پھیلا دیا۔

’’یہ تو ٹرائی بال تھی۔ ‘‘ باؤلر نے حیرت سے چچا تیز گام کی طرف دیکھا۔

’’ہم بھی تو یہی اشارہ کر رہے تھے کہ یہ نو بال ہے مطلب یہ گیند نہیں ہے۔ ‘‘

چچا تیز گام بولے۔

باؤلر نے سمجھنے کے سے انداز میں سر ہلایا اور دوبارہ باؤلنگ کروانی شروع کی۔ کچھ دیر تو چچا تیز گام اس کی باؤلنگ دیکھتے رہے، لیکن پھر چچا تیز گام نے یوں فضول میں کھڑا رہنا بہتر نہ سمجھا۔ اب جیسے ہی بلے باز نے زور سے گیند کو ہٹ لگائی اور گیند فضا میں بلند ہوئی تو چچا تیز گام نے فوراً اپنے دائیں ہاتھ کی انگلی اُوپر اٹھا لی۔

’’اوہ۔۔ چچا تیز گام۔۔ یہ تو چھکا ہے۔ اور آپ آؤٹ ہونے کا اشارہ کر رہے ہیں۔ ‘‘ چچا تیز گام کو اشارہ دیتے دیکھ کر بلے باز چلا اٹھا۔

’’اوہ۔۔ اچھا۔۔ اچھا۔۔ وہ دراصل ہمارے کان میں خارش ہو تھی۔ اس لیے ایک ہاتھ سے ہم کان میں خارش کر رہے تھے۔ ‘‘ چچا تیز گام دونوں ہاتھوں کی انگلیاں بلند کرتے ہوئے بولے۔

باؤلر نے اگلی گیند کروائی تو بلّے باز نے گیند کو ہلکی سا پُش کیا اور رن لینے کے لیے دوڑتے ہوئے اپنے ساتھی بلے باز کو پکارا: ’’بھاگو۔۔‘‘

چچا تیز گام سمجھے شاید انہیں بھاگنے کے لیے کہا ہے، انہوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور دوڑ پڑے۔

’’چچا تیز گام! آپ کیوں دوڑ رہے ہیں ؟ میں نے تو اپنے ساتھی بلے باز کو دوڑنے کے لیے کہا تھا۔ ‘‘

’’دھت تیرے کی، ہم سمجھے تم نے ہمیں کہا ہے۔ ایسے ہی ہماری دوڑ لگوا دی۔ ‘‘ چچا تیز گام جھلا کر واپس اپنی جگہ پلٹے۔ آخر خدا خدا کر کے پہلی ٹیم کے اوورز مکمل ہوئے اب دُوسری ٹیم کو وقفہ  کے بعد کھیلنا تھا۔

’’ہم سے نہیں ہوتی یہ امپائرنگ۔۔ بھلا یہ بھی کوئی کام ہے، بندہ بت کی طرح ایک جگہ کھڑا رہے۔ ‘‘ چچا تیز گام جھلا کر بولے۔

’’تو پھر آپ ہماری طرف سے بیٹنگ کر لیں۔ ہمارا ایک کھلاڑی ویسے بھی فیلڈنگ کرتے ہوئے زخمی ہو گیا ہے۔ ‘‘ ارسلان بولا۔

’’ابا جان! آپ ماشاء اﷲ تجربے کار کھلاڑی ہیں۔ چوکے چھکے لگائیں گے تو ہم میچ آسانی سے جیت جائیں گے۔ ‘‘ محمود بولا۔

’’چوکے، چھکے لگانا تو ہمارے بائیں ہاتھ کا کام ہے۔ ‘‘

پھر ارسلان نے دُوسری ٹیم کے کپتان سے چچا کے کھیلنے کے بارے میں بات کی تو انہوں نے کوئی اعتراض نہ کیا۔

’’آپ کو ہم بیٹنگ کے لیے آخر میں بھیجیں گے کیوں کہ آپ ماشاء اﷲ چوکے چھکے لگاتے ہیں۔ ‘‘ ارسلان نے کہا۔

’’اُس وقت تک ہم بھلا کیا کریں گے؟‘‘ چچا تیز گام تلملا کر بولے کیوں کہ فارغ بیٹھنے سے اُن کو کوفت سی ہوتی تھی۔

’’اُس وقت تک چچا ہماری طرف سے فیلڈنگ اور باؤلنگ کریں گے آخر یہ ہمارے بھی تو چچا ہیں۔ ‘‘ دُوسری ٹیم کا کپتان بولا۔

’’ہاں۔۔ ہاں۔۔ کیوں نہیں۔ ہم تو سب کے ہی چچا ہیں۔ ‘‘ چچا تیز گام زور سے اپنا سر ہلاتے ہوئے بولے۔

باؤلنگ کے لیے پہلا اوور ان ہی کو دیا گیا۔ جیسے ہی میچ شروع ہوا چچا تیز گام فوراً رن اپ لینے کے لیے دوڑے، لیکن جیسے ہی انہوں نے گیند کروانی چاہی اُن کا ہاتھ فضا ہی میں جھول کر رہ گیا۔ کیوں کہ جلدی میں وہ گیند لینا بھول گئے تھے۔

چچا کی اس حرکت پر سب لوگ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو گئے۔

’’ارے بھئی۔۔ ہمیں گیند تو پکڑا دو۔ ‘‘ چچا تیز گام کھسیانے سے ہو کر بولے۔ پھر انہوں نے گیند جس تیزی سے بلے باز کی طرف پھینکی تھی اُس سے کہیں زیادہ تیزی سے وہ فضا میں بلند ہو کر باؤنڈری لائن سے باہر جا گری۔

’’چچا تیز گام۔۔! دھیان سے۔۔ پہلے ہی گیند پر چھکا کوئی نیک شگون نہیں۔ ‘‘ ایک کھلاڑی چلّایا۔

’’ارے یہ گیند تو میں نے بچہ سمجھ کر ویسے ہی کروائی تھی۔ اب دیکھنا دُوسری گیند پر آؤٹ نہ کیا تو پھر کہنا۔ ‘‘ چچا تیز گام بولے

لیکن وہ اوور مکمل ہونے تک چار چوکے اور دو چھکے کھا چکے تھے۔ میچ کافی دل چسپ ہو گیا تھا۔ پہلی ٹیم نے 120 رنز بنائے تھے۔ محمود کی ٹیم 100 رنز بنا چکی تھی۔ اب میچ جیتنے کے لیے انہیں 20رنز کی ضرورت تھی۔ جب کہ ابھی دو اوورز کا کھیل باقی تھا۔

ٹیم کے 9 کھلاڑی آؤٹ ہو چکے تھے۔ اُس وقت کپتان ہی وکٹ پر کھڑا ہوا تھا۔ چچا تیز گام چوں کہ دونوں طرف سے کھیل رہے تھے۔ اس لیے کپتان کے ساتھ اب چچا تیز گام کو کھیلنا تھا۔ کپتان نے ایک اوور میں ایک چوکا اور ایک چھکا لگایا۔ یوں اسکور 110 ہو گیا۔ کھیل کافی سنسنی خیر مراحل میں داخل ہو چکا تھا۔ سب کی نظریں کپتان پر لگی ہوئی تھیں۔ کیوں کہ چچا تیز گام کے بارے میں تو سب ہی جان چکے تھے کہ وہ کتنے ’’ماہر کھلاڑی‘‘ ہیں۔ آخری اوور کی پہلی گیند پر کپتان نے ایک زور دار ہٹ لگائی اور چوکا ہو گیا۔ اب میچ جیتنے کے لیے تین گیندوں پر صرف چھ رنز کی ضرورت تھی۔ محمود کی ٹیم کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ باؤلر نے جیسے ہی دُوسری گیند کروائی تو کپتان نے تیزی سے ایک رن بنا لیا۔ اب چچا نے باؤلر کا سامنا کرنا تھا۔ خوف کے مارے اُن کا دل دھک دھک کر رہا تھا۔ باؤلر جیسے جیسے ان کی طرف بڑھ رہا تھا اُن کے خوف میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ کپتان کے کہنے کے باوجود وہ بغیر پیڈ اور ہیلمٹ کے کھیل رہے تھے۔ وہ بضد تھے کہ یہ جھنجٹ میں نہیں پالتا، تماشائی ایسے خاموش تھے جیسے انہیں سانپ سونگھ گیا ہو۔

باؤلر نے اتنی تیزی کے ساتھ گیند پھینکی کہ چچا کو نظر ہی نہیں آئی۔ یوں وہ گیند ضائع ہو گئی۔

’’چچا!دھیان سے کھیلیں۔ ‘‘ ارسلان چلّایا۔

’’دھیان ہی سے تو کھیل رہا ہوں اگر مجھے گیند ہی نظر نہ آئے تو میں کیا کر سکتا ہوں۔ ‘‘

’’بس اب ایک چھکے کی ضرورت ہے۔ ‘‘ ارسلان نے کہا۔

’’چھکا۔۔! ارے چھکا لگانا تو میرے بائیں ہاتھ کا کام ہے۔ ‘‘

’’ابّا جان۔۔! آخری گیند پر ہمیں چھ رنز کی ضرورت ہے۔ ‘‘ محمود پکارا۔

’’ارے صاحب زادے! تم فکر ہی نہ کرو، اب گیند میری طرف آئے گی تو میں اس کا ایسا حشر کروں گا کہ اُسے چھٹی کا دودھ یاد آ جائے گا۔ ‘‘ چچا بولے۔

باؤلر گیند کروانے کے لیے تیار تھا۔ وہ تیزی سے وکٹوں کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اُس نے پوری قوت کے ساتھ گیند پھینکی تو چچا تیز گام نے دیکھے بغیر کہ گیند کدھر ہے اپنا بلا گھما دیا۔ ایسا کرتے ہوئے انہوں نے سر کو تیزی سے حرکت دی تھی۔ اُن کے ایسا کرنے کی دیر تھی کہ گیند صاحبہ اُن کی ٹوپی سے تیزی سے ٹکراتے ہوئے اُن کے سر کو لہولہان کر گئی تھی۔ گیند لگنے کی دیر تھی کہ خون کا ایک فوارہ سر سے اُبل پڑا تھا۔ اپنا خون دیکھ کر چچا وکٹ پر ’’چھکا، چھکا، چھکا‘‘ کا راگ الاپتے گرے اور بے ہوش ہو گئے۔

٭٭٭

 

 

 

چچا تیز گام نے روزہ رکھا

 

چچا تیز گام کی آنکھ کھلی تو انہوں نے خود کو گھُپ اندھیرے میں پایا۔ آسمان پر تارے جگمگا رہے تھے۔ ستاروں کے درمیان اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمکتا ہوا چاند کسی دُولہے کی مانند لگ رہا تھا۔ اور سب ستارے اُس کے باراتی۔۔

گرمیاں اختتام کو پہنچنے والی تھیں۔ سب گھر والے صحن میں سوئے ہوئے تھے۔

چچا تیز گام نے اپنی گھڑی کی طرف نظر دوڑائی جو کہ گھپ اندھیرے میں بھی روشن تھی۔ جیسے ہی اُن کی نظر ڈائل پر پڑی وہ چونک اُٹھے۔

’’ارے۔۔ باپ رے۔۔ یہ تو چار بج گئے ہیں اور سب سوئے ہوئے ہیں۔ ‘‘ چچا تیز گام بڑبڑائے۔

’’بیگم۔۔! او۔۔ بیگم۔۔!‘‘ چچا تیز گام بستر پر لیٹے لیٹے چلائے۔ لیکن وہ گہری نیند سوئی ہوئی تھیں۔ وہ بھلا اُن کے چلانے پر کہاں اُٹھتیں، جب اُن کے بار بار پکارنے پر بھی بیگم نہ اُٹھیں تو وہ جھنجھلا اُٹھے۔

’’ارے۔۔ میں کہتا ہوں بیگم اٹھو! چار بج چکے ہیں، سحری کا وقت ختم ہونے والا ہے۔ اور تم ہو کہ ابھی تک گدھے گھوڑے بل کہ پورا اصطبل ہی بیچ کر سوئی ہوئی ہو‘‘ تنگ آ کر اُنہوں نے بیگم کو جھنجھوڑا۔

’’ہائیں کیا کہا۔۔ گدھے، گھوڑے، اصطبل‘‘ بیگم نے نیند سے بیدار ہو کر حیرت سے اِدھر اُدھر دیکھا۔

’’اچھا تو اب آپ کو خواب میں گدھے گھوڑے نظر آتے ہیں۔ ‘‘

’’یہ تم سے کس نے کہہ دیا۔۔ گدھے گھوڑے بھی بھلا کوئی خواب میں نظر آنے کی چیزیں ہیں۔ اور ہاں ! تم ان گدھوں، گھوڑوں کو چھوڑو اور یہ دیکھو!‘‘ چچا تیز گام اپنے دائیں ہاتھ کی کلائی بیگم کے سامنے لہراتے ہوئے بولے۔

’’چار بج چکے ہیں۔ سحری کا وقت ختم ہونے والا ہے‘‘ چچا تیز گام بولے

’’کیا کہا چار بج گئے۔۔؟‘‘ یہ آپ کو کس نے کہہ دیا۔ بیگم نے پہلے آسمان کی طرف اور پھر چچا تیز گام کی طرف حیرت سے دیکھا۔

’’میری گھڑی نے اور کس نے۔۔ یہ گھڑی مجھے میرے دوست محمد علی نے پیرس سے بھجوائی تھی اور دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ پیرس کی سب سے مہنگی گھڑی ہے۔ ‘‘ چچا تیز گام فخر سے اپنی گھڑی کو دیکھتے ہوئے بولے۔

’’اچھا! ذرا دکھاؤ تو کہاں چار بج گئے ہیں۔۔؟‘‘

’’ہاں۔۔ ہاں۔ کیوں نہیں یہ دیکھو!‘‘ چچا تیز گام گھڑی بیگم کے سامنے کرتے  ہوئے بولے۔

’’تو یہ چار بجے ہیں ‘‘ بیگم نے گھڑی دیکھی تو اپنا سر پیٹ لیا

’’اور نہیں تو کیا۔۔ بیگم!۔۔ تمہاری آنکھیں ہیں کہ ٹچ بٹن۔۔ جو تمہیں چار بجتے ہوئے نظر نہیں آ رہے۔ یہ دیکھو! بڑی سوئی تو بارہ پر ہے۔ جب کہ چھوٹی سوئی۔۔ چھوٹی سوئی۔۔‘‘ چچا تیز گام نے ذرا غور سے گھڑی کو دیکھا تو چونک اُٹھے۔

کیوں کہ جسے وہ چھوٹی سوئی سمجھ رہے تھے، وہ دراصل بڑی سوئی تھی جو کہ چار پر تھی یوں چار نہیں بل کہ بارہ بج کر بیس منٹ ہوئے تھے۔

’’اوہ۔۔ یہ تو بارہ بج کر بیس منٹ ہوئے ہیں، چلو کوئی بات نہیں۔ مولانا صاحب کہہ رہے تھے کہ رمضان المبارک کا مہینہ ہے۔ اس کی ایک ایک گھڑی قیمتی ہے۔ ہمیں ان مبارک ساعتوں کی قدر کرنی چاہیے اور ہر لمحہ ہر آن ان کو عبادت میں گزارنا چاہیے، اور رات کو تو خصوصی عبادت کرنی چاہیے۔ اس لیے تو میں نے تمہیں جلدی اُٹھا دیا۔ ‘‘ چچا تیز گام بھلا اپنی غلطی کہاں تسلیم کرنے والے تھے۔

’’لیکن رات کو سونا بھی تو ضروری ہے۔ اگر سوئیں گے نہیں تو صبح سحری کے لیے کیسے اُٹھیں گے۔۔؟‘‘ بیگم جھلآ کر بولیں اور دوبارہ سونے کے لیے لیٹ گئیں۔

رمضان کا مہینہ شروع ہو چکا تھا۔ بیگم کے لاکھ سمجھانے کے باوجود چچا تیز گام نے ابھی تک ایک روزہ بھی نہیں رکھا تھا۔

’’بیگم! ہم اور روزہ رکھیں، تم بھی کمال کرتی ہو، اس بلا کی پڑتی ہوئی گرمی میں روزہ رکھنا آسان کام نہیں ہے۔ آج کل تو دن بھی اتنے لمبے لمبے ہیں، ہمارا معدہ کھانے سے اتنی لمبی جدائی ہرگز برداشت نہ کر پائے گا۔ ‘‘ چچا تیز گام روزہ نہ رکھنے کا جواز پیش کرتے ہوئے بولے۔

بیگم اُن کی باتیں سن کر خاموش ہو گئیں۔ یوں چچا تیز گام کا رمضان بغیر روزوں کے گزر رہا تھا کل جمعۃ المبارک تھا، چچا تیز گام بھی شیروانی زیب تن کیے اور سر پر پھندنے والی ٹوپی سجائے جمعہ پڑھنے گئے مسجد کے مولانا صاحب نے روزے کے فضائل اتنے خوب صورت اور دلکش انداز میں بیان کیے کہ چچا تیز گام پھڑک اُٹھے اور گھر آتے ہی اعلان کیا۔

’’بیگم! کل ہم بھی روزہ رکھیں گے۔ ‘‘

رات کو سوتے ہوئے چچا تیز گام نے بیگم کو تاکید کی تھی کہ وہ سحری کے وقت انہیں ضرور جگائیں۔ لیکن بیگم اُن کو کیا جگاتیں انہوں نے خود بیگم کو جگا دیا تھا اور وہ بھی رات کو بارہ بج کر بیس منٹ پر۔ ‘‘

بیگم کے سو جانے کے بعد چچا تیز گام بھی لمبی تان کر سو گئے سحری کے وقت بیگم اٹھیں تو سارا گھر چچا تیز گام کے خراٹوں سے گونج رہا تھا۔ اُن کے خراٹوں کی دھمک سے کان بہرے ہوتے محسوس ہو رہے تھے۔ بیگم نے اپنے کانوں میں روئی ڈال لی، لیکن وہ بھی آخر چچا تیز گام کے خراٹے تھے۔ روئی رکھنے کے باوجود اُن کی آواز بھی کانوں کے پردوں کو پھاڑ رہی تھی۔ کچھ دیر تو بیگم صبر کرتی رہیں لیکن جب خراٹوں کی آواز برداشت سے باہر ہو گئی تو انہوں نے چچا کو جگانے ہی میں عافیت جانی۔

’’محمود کے ابا!۔۔ اٹھیے۔۔! سحری کا وقت ہو گیا ہے۔ ‘‘

’’اے۔۔ ہے۔۔ کیا ہو گیا ہے بیگم!‘‘

’’ہونا کیا ہے، سحری کا وقت ہو گیا ہے۔ ہمیں تو آدھی رات کو ہی اُٹھا دیا اور اب خود سو رہے ہیں ‘‘ بیگم جل کر بولیں۔

بہت مشکل سے چچا اٹھے اور خوب ڈٹ کر کھانے پر ہاتھ صاف کیا سحری کے بعد   چچا تیز گام نمازِ فجر ادا کرنے کے بعد اشراق پڑھ کر لمبی تان کر سو گئے اور پھر دن چڑھے اٹھے۔ انہوں نے چونکہ سحری ڈٹ کر کی تھی اس لیے دس بجے تک تو انہیں بھوک محسوس نہ ہوئی، لیکن بارہ بجے تک اُن کے پیٹ میں چوہے دوڑنے لگے تھے۔ گرمی کی شدت سے چچا تیز گام کا حلق مارے پیاس کے خشک ہو رہا تھا۔

’’ابھی سے آپ کی یہ حالت ہے تو آگے کیا ہو گا۔۔ ابھی تو پورا دن پڑا ہے۔ آپ ایسا کریں نہا لیں اس سے پیاس کی شدت میں کچھ کمی ہو جائے گی۔۔‘‘ چچا تیز گام کی حالت دیکھ کر بیگم بولیں۔

نہانے سے کچھ دیر تو چچا کو سکون محسوس ہوا، لیکن پھر وہی پیاس اور بھوک ستانے لگی۔ بیگم کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے وہ صبح سے کئی مرتبہ نہا چکے تھے۔

’’جمن۔۔ !او۔۔ جمن۔۔! ارے کہاں مر گئے ہو۔ ‘‘

’’جی مالک۔۔! جی۔۔ مالک۔۔!‘‘ جمن دوڑتا ہوا آیا۔

’’جی مالک کے بچے! کہاں مر گئے تھا، چلو ہمارے ساتھ بازار چلو۔ ‘‘ چچا تیز گام بولے۔

’’بازار۔۔ اور وہ بھی اس وقت!۔۔کیوں مالک۔۔! خیریت تو ہے؟‘‘

’’لو بھئی۔۔ بھلا یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے۔ ارے بھئی۔۔! ہم بازار افطاری کا سامان خریدنے جا رہے ہیں۔ ‘‘ چچا تیز گام نے کہا۔

’’آپ ابھی سے افطاری کا سامان خریدنے جا رہے ہیں۔ ابھی تو افطاری میں بہت سا وقت باقی ہے۔ ‘‘ چچا کی بات سن کر بیگم حیرت سے بولیں۔

’’ہمیں ہر کام جلدی جلدی اور وقت سے پہلے ہی کر لینا چاہیے۔ ‘‘ چچا بولے اور جمن کو ساتھ لے کر بازار روانہ ہو گئے۔

’’سب سے پہلے ہم شبراتی حلوائی کے پاس جائیں گے۔ شبراتی ماشاء اﷲ کیا خوب سموسے بناتا ہے۔ پہلے اس سے سموسے خریدتے ہیں۔ پھر باقی چیزیں خریدیں گے۔ ‘‘

چچا تیز گام بولے۔

’’ٹھیک ہے مالک۔۔ !جیسے آپ کا حکم۔ ‘‘ جمن سعادت مندی سے بولا۔

کچھ دیر بعد چچا تیز گام اور جمن شبراتی حلوائی کی دُکان میں موجود تھے۔ شبراتی سموسوں کے لیے مصالحہ بنا رہا تھا۔

’’شبراتی! تم نے ابھی تک سموسے نہیں بنائے، حیرت ہے، کمال ہے، تعجب ہے بلکہ افسوس ہے۔ افطاری کا وقت ہونے والا ہے اور تم ابھی تک مصالحہ ہی بنا رہے ہو۔ ‘‘

چچا تیز گام حیرت سے بولے۔

’’کیا کہا! افطاری کا وقت ہونے والا ہے۔ ‘‘ شبراتی نے حیرت سے پہلے چچا تیز گام اور پھر گھڑی کی طرف دیکھا۔

’’ارے بھئی میاں تیز گام! ابھی تو 12 بجے ہیں۔ ابھی سے افطاری کا وقت کہاں ہو گیا؟‘‘

’’افطاری کا وقت نہیں ہوا تو کیا ہوا۔ افطاری کی تیاری تو ہمیں پہلے ہی سے اور جلدی جلدی کر لینی چاہیے۔ یار شبراتی۔۔! ہم تو تمہیں بڑا تیز سمجھنے تھے لیکن تم تو بڑے سست نکلے۔ ‘‘ چچا تیز گام بُرا سا منہ بنا کر بولے۔

’’ہاں بھئی تیز گام! تم سے تیز تو خیر میں ہو بھی نہیں سکتا۔ ‘‘ شبراتی ہنستے ہوئے بولا۔

’’اچھا، اچھا۔ تم جلدی سے سموسے بناؤ۔ ہم فروٹ منڈی سے افطاری کے لیے پھل لے آئیں، سموسے ہم واپسی پر لے جائیں گے۔ ‘‘ چچا تیز گام بولے۔

’’ٹھیک ہے، تم واپس آؤ تمہارے لیے میں علیٰحدہ سموسے بنا دوں گا۔ ‘‘

فروٹ  منڈی میں پھل دیکھ کر چچا تیز گام کی رال ٹپکنے لگے تھی خصوصاً آموں کو دیکھ کر تو چچا تیز گام کے منہ میں پانی بھر آیا تھا۔

’’ارے بھئی! یہ آم کیا بھاؤ ہیں ؟‘‘ چچا تیز گام اپنے سوکھے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے بولے۔ پیاس کی شدت سے ہونٹوں پر پپڑیاں جم چکی تھیں۔

’’بڑے میاں ! انہیں آم نہ کہیے۔ رس بھرے کہیے۔ رس بھرے۔ ‘‘ چچا تیز گام کو آموں کی طرف للچائی نظروں سے دیکھتے ہوئے پھل والا آموں کی بلائیں لیتے ہوئے بولا۔

’’اچھا بھائی! رس بھرے ہی سہی۔ اب اپنے ان رس بھروں کی قیمت بھی تو بتا دیجئے۔ ‘‘

’’بڑے میاں ! آپ کو تو پتا ہی ہے۔ مہنگائی کا زمانہ ہے۔ ہر چیز کی قیمت گویا آسمان سے باتیں کر رہی ہے، لیکن پھر بھی میں آپ سے ان رس بھروں کے زیادہ دام نہیں لوں گا۔ یہ صرف سو روپے کلو ہیں۔ ‘‘

’’اماں۔۔ جاؤ۔۔ سو روپے کلو۔۔ الّو تم کسی اور کو بنانا۔۔ ہمارے بھی دوست کا آموں کا باغ ہے۔ ہم تمہیں ایک کلو کے 60 روپے دیں گے۔ ‘‘ چچا تیز گام بُرا سا منہ بنا کر بولے۔

بحث و تکرار کے بعد پھل والا 70 روپے کلو آم دینے پر رضامند ہو گیا۔ چچا تیز گام نے افطاری کے لیے آم کے علاوہ سیب، آلو بخارا، آڑو، خوبانی اور کیلے بھی خریدے۔

’’جمن! تم یہ پھل لے کر گھر جاؤ۔ ہم شبراتی سے سموسے لے کر آتے ہیں۔ ‘‘ چچا تیز گام پھلوں کی ٹوکری جمن کے سر پر رکھتے ہوئے بولے اور پھر شبراتی کی دُکان کا رخ کیا۔

’’ہاں بھئی شبراتی۔۔! بن گئے سموسے؟‘‘ چچا تیز گام شبراتی کی دُکان پر پہنچ کر بولے۔

’’ہاں۔۔ ہاں۔۔! بہت مزے دار سموسے بنائے ہیں تمہارے لیے۔ ‘‘

چچا تیز گام نے روپے شبراتی کو پکڑائے اور گھر کی طرف چل دئیے، سموسوں کی سوندھی سوندھی خوش بو نے اُن کی بھوک کو مزید چمکا دیا تھا۔

’’لگتا ہے آج شبراتی نے سموسے کچھ زیادہ ہی خاص بنائے ہیں جبھی تو اتنی خوش بو آ رہی ہے، دیکھیں تو ذرا کیسے ہیں سموسے۔ ‘‘ چچا تیز گام نے یہ سوچ کر ایک سموسہ نکال کر ہاتھ میں پکڑ لیا۔

’’واہ۔۔ بھئی۔۔ واہ۔۔ شبراتی کے بھی کیا کہنے۔ ‘‘ چچا تیز گام خود کلامی کرتے ہوئے بولے۔ بھوک اُن کی برداشت سے باہر ہو رہی تھی۔

’’خبردار۔۔! ہینڈز اپ۔ ‘‘

چچا تیز گام نے سموسے کی خوش بو سونگھنے کے لیے اسے اپنی ناک کے قریب کیا ہی تھا کہ ایک کڑک دار آواز سنائی دی۔ سموسہ اُن کے ہاتھ سے زمین پر گرتے گرتے بچا۔ اُنہوں نے حیرت سے بولنے والے کی طرف دیکھا تو ایک موٹا تازہ تھانے دار اپنی حد سے باہر نکلی ہوئی توند کو کسی ڈھولکی کی طرح بجاتے ہوئے انہیں گھور رہا تھا۔ اس کے ساتھ دو سپاہی بھی تھے۔

’’گرفتار کر لو اسے۔۔‘‘ تھانے دار چچا تیز گام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سپاہیوں سے مخاطب ہوا۔

’’کک۔۔ کیوں۔۔ ج۔۔ جناب۔۔ ہم۔۔ ہم نے کیا کیا ہے؟‘‘ گرفتاری کا سن کر چچا تیز گام کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔

’’لو۔۔ اور سنو! دن دیہاڑے روزہ خوری کر رہے ہو اور پوچھتے ہو کیا کیا ہے۔ گرفتار کر لو اسے۔ جابر خان کے علاقے میں روزہ خوری۔۔ ناممکن، ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا۔ ‘‘ تھانے دار اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے بولا۔

’’میں روزہ خوری تو نہیں کر رہا تھا۔ میں تو سموسے کو سونگھ کر چیک کر رہا تھا۔ ‘‘

’’اچھا۔۔! تم سموسہ چیک کر رہے تھے، چلو اب حوالات کو بھی جا کر چیک کرو۔ ‘‘ تھانے دار نے چچا کو گھورتے ہوئے کہا۔

چچا تیز گام لاکھ چلائے، لیکن کسی نے ان کی ایک نہ سنی اور تھانے لے جا کر انہیں حوالات میں بند کر دیا۔ چچا کا تو پہلے ہی بھوک کی وجہ سے بُرا حال تھا۔ حوالات میں آ کر تو ان کی حالت اور بھی پتلی ہو گئی تھی۔ جوں جوں افطاری کا وقت قریب آ رہا تھا توں توں چچا تیز گام کی پریشانی بڑھتی جا رہی تھی۔

’’ارے ظالمو! افطاری کے لیے ایک گلاس پانی ہی دے دو۔ ‘‘ جب افطاری میں چند منٹ رہ گئے تو چچا نے التجا کرتے ہوئے کہا۔ بھوک اور پیاس کی شدّت سے اُن پر غشی سی طاری تھی۔

’’اچھا تو تمہارا روزہ ہے، واہ بڑے میاں واہ، دن دیہاڑے سڑک پر سموسہ کھاتے پکڑے گئے ہو اور کہتے ہو کہ میرا روزہ ہے ہم نے چڑی روزہ تو سنا تھا یہ سموسہ روزہ پہلی مرتبہ سن رہے ہیں۔ سیدھی طرح کیوں نہیں کہتے کہ پیاس لگی ہے۔ ‘‘ سپاہی طنزیہ لہجے میں بولا۔

’’میں سچ کہہ رہا ہوں میرا روزہ ہے۔ ‘‘ کچھ دیر بعد سپاہی نے ایک گندے سے گلاس میں پانی چچا کو تھما دیا۔

افطاری کا وقت قریب سے قریب تر آ رہا تھا۔ چچا کے سامنے وہ پھل گھوم رہے تھے جو انہوں نے جمن کے ہاتھوں گھر بھجوائے تھے۔ انہیں رہ رہ کر خود پر غصہ آ رہا تھا کہ انہوں نے کیوں بازار میں سموسے کو سونگھا تھا۔

جب افطاری کا سائرن بجا اور چچا نے پانی سے روزہ افطار کیا تو ان کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔

’’ارے میاں تیز گام۔۔! ہم تمہیں کب سے تلاش کر رہے ہیں اور تم یہاں مزے سے افطاری کر رہے ہو۔ ‘‘

چچا تیز گام کو پانی سے روزہ افطار کیے تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ انہیں گلو میاں کی آواز سنائی دی۔ گلو میاں کے ساتھ پہلوان جی بھی تھے۔

’’مزے سے نہیں صرف پانی سے روزہ افطار کیا ہے۔ ‘‘ چچا تیز گام مسمسی  صورت بنا کر بولے۔

’’ارے بھائی!۔۔ ان کو حوالات سے نکالو۔ میں نے تھانے دار سے بات کر لی ہے۔ ‘‘ گلو میاں نے سپاہی کو مخاطب کیا۔

چچا نے حوالات سے باہر آ کر سُکھ کا سانس لیا تھا۔

’’بڑے میاں ! اب تو میں تمہیں چھوڑ رہا ہوں، لیکن اگر آئندہ روزہ خوری کرتے پکڑے گئے تو ہرگز نہیں چھوڑوں گا۔ ‘‘ تھانے دار چچا تیز گام کو گھورتے ہوئے بولا۔

پھر گلو میاں اور پہلوان جی چچا کو لیے گھر آ گئے۔ چچا کی گم شدگی کے باعث بہت سے لوگ ان کے گھر میں موجود تھے۔

’’کہاں چلے گئے تھے آپ؟‘‘ بیگم اُن کو دیکھتے ہی بولیں۔

’’بیگم! پہلے کچھ کھانے کو دو بہت بھوک لگی ہے، حوالات میں صرف ایک گلاس پانی ہی پیا ہے۔ ‘‘

چچا یہ کہہ کر دستر خوان پر رکھے کھانے کی چیزوں پر ٹوٹ پڑے۔ سب گھر والوں نے بھی چچا کی گمشدگی کی وجہ سے کچھ نہیں کھایا تھا۔ اس لیے دسترخوان پر سب چیزیں جوں کی توں رکھی ہوئی تھیں۔

’’کیا کہا حوالات! کیا آپ حوالات میں تھے؟‘‘ بیگم نے حیرت کا اظہار کیا۔

’’ہاں بھابھی! ہم اِدھر پریشان تھے اور یہ اُدھر حوالات کی سیر کر رہے تھے۔ وہ تو شکر ہے تھانے میں ایک سپاہی میرا جاننے والا نکل آیا اور اُس نے مجھے اطلاع دے دی۔ ورنہ پتہ نہیں یہ اور کتنے دن تھانے کے مہمان بنے رہتے۔ ‘‘ یہ کہہ کر پہلوان جی تھانے دار سے سنی کہانی سب کو سنانے لگے۔ جب کہ چچا ان سب باتوں سے بے نیاز جلدی جلدی کھانے کی چیزوں پر ہاتھ صاف کرنے لگے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

چچا تیز گام نے عیدی دی

 

عید کا چاند نظر آ گیا تھا، جیسے ہی عید کا چاند نظر آیا، ہر طرف خوشی اور شادمانی کی لہر دوڑ گئی، سورج ڈھلتے ہی یہ توقع کی جا رہی تھی کہ عید کا چاند نظر آ جائے گا اور کل عید ہو گی، آخر لوگوں کی دعائیں اور اُمیدیں بر لے ہی آئی تھیں۔ چاند نظر آتے ہی چچا تیز گام نے جمن اور اُستاد کو بازار کی طرف دوڑایا۔

’’اُستاد! بھاگ کر جاؤ اور شبراتی حلوائی سے دس کلو دودھ لے کر آؤ۔ ارے۔۔ یہ کیا۔۔ تم ابھی تک یہیں ہو۔۔ کمبخت! کہیں دودھ ختم نہ ہو جائے، اور جمن! تم یوں کھڑے کھڑے میرا منہ کیوں تک رہے ہو۔ جاؤ سوّیاں اور میوہ لے کر آؤ۔۔‘‘

چچا تیز گام کی ہدایات سن کر دونوں بازار کی طرف سر پہ پاؤں رکھ کر دوڑے۔

’’یہ۔۔ جمن اور اُستاد کہاں غائب ہو گئے، میں کب سے ان کو ڈھونڈ رہی ہوں۔ ‘‘ چچا تیز گام اُن دونوں کو بازار کی طرف دوڑا کر واپس مڑے ہی تھے کہ بیگم کی آواز اُن کے کانوں سے ٹکرائی۔

’’وہ۔۔ ہم نے اُن کو بازار بھیجا ہے، دودھ اور سوّیاں لانے کے لیے‘‘

’’لیکن دودھ اور سوّیاں تو میں پہلے ہی منگوا چکی ہوں۔۔‘‘

’’کیا۔۔!!!‘‘ چچا تیز گام چلا اُٹھے۔

’’اُن کم بختوں نے تو ہمیں بتایا ہی نہیں ٹھہرو۔۔!  ہم ابھی اُن نا معقولوں کی خبر لیتے ہیں۔ ‘‘ یہ کہہ کر چچا تیز گام دروازے کی طرف دوڑے۔

’’ارے۔۔ ارے۔۔ رُک جائیں۔۔ اُن کو لے آنے دیں، جو دودھ اور سوّیاں میں نے منگوا رکھی ہیں۔ وہ کم پڑ جائیں گی۔ کیوں کہ کچھ مہمان بھی آ رہے ہیں۔۔‘‘ بیگم نے اُن کو آواز دی۔

مہمانوں کا سن کر چچا تیز گام ایک جھٹکے سے رک گئے۔

’’ویسے جمن اور اُستاد آپ کو بتائیں تو تب نا جب آپ اُن کی سنیں۔ آپ تو کسی کی سنتے ہی نہیں ہیں۔۔‘‘ بیگم بُراسا منہ بنا کر بولیں۔

’’مہمان۔۔ کون سے مہمان۔۔؟ کہاں سے آ رہے ہیں۔۔؟ کب آ رہے ہیں۔۔؟ اور سب سے بڑا سوال تو یہ ہے کہ کیوں آ رہے ہیں۔۔؟‘‘ چچا تیز گام نے جیسے بیگم کا جملہ سنا ہی نہیں۔

’’وہ جو میری خالہ ہیں نا! خالہ ثمینہ۔۔ وہ آ رہی ہیں۔ وہ آ کیا رہی ہیں۔ میں نے بلایا ہے اُن کو۔ اُن سے ملے ہوئے بہت دن ہو گئے تھے۔ وہ کل صبح صبح چلیں گی اور عید کی نماز تک ہمارے گھر پہنچ جائیں گی۔ ‘‘ بیگم تفصیلات بتاتے ہوئے بولیں۔

’’کیا اُن کے بچے بھی ساتھ آ رہے ہیں۔۔؟‘‘

’’میاں ! تم بھی کمال کرتے ہو۔۔ بھلا بچوں کو وہ کہاں چھوڑ کر آئیں گی۔ ‘‘

’’مطلب وہ نو شتونگڑے پھر ہمارے گھر آ رہے ہیں۔ ‘‘ چچا تیز گام کو خالہ ثمینہ کے 9 عدد بچوں کا خیال ہی مارے ڈال رہا تھا۔

خالہ ثمینہ بیگم کی دُور پرے کی خالہ تھیں۔ اُن کے چھوٹے بڑے سائز کے 9 عدد بچے تھے۔ بچے کیا تھے بس شیطان کے پرکالے تھے۔ اس لیے چچا تیز گام کا کہنا تھا کہ ایسی دور پرے کی خالہ کو پَرے ہی رکھنا چاہیے۔ لیکن بیگم کو اپنی اس خالہ سے خاص انسیت تھی۔

گذشتہ سال بھی عید پر بیگم نے خالہ کو آنے کی دعوت دی تھی۔ عید کے دن صبح صبح ہی خالہ ثمینہ اپنے نو عدد بچوں کے ساتھ آن وارد ہوئی تھیں۔ آتے ہی ان کے بچوں نے سارا گھر سر پہ اُٹھا لیا تھا۔ اور خصوصاً چچا تیز گام کی تو ناک میں دم کر کے رکھ دیا تھا۔ محاورتًا نہیں حقیقتاً۔ ایک دن چچا تیز گام اپنے کمرے میں خوابِ خرگوش کے مزے لے رہے تھے۔ کہ اچانک ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھے۔ اُن کو اپنی ناک میں کوئی چیز داخل ہوتی محسوس ہوئی تھی۔

’’ہاہا۔۔ ہاہا۔۔‘‘ انہوں نے چونک کر اپنے سرہانے دیکھا تو خالہ کا منجھلا بیٹا بنٹو ہاتھ میں ایک لمبا سا تنکا لیے دانت نکال رہا تھا۔ وہ اُسے مارنے کے لیے لپکے تو وہ پل بھر میں کسی چھلاوے کی طرح غائب ہو گیا۔ ایک دن وہ صبح سو کر اُٹھے تو میز سے عینک غائب۔ عینک کی تلاش میں نکلے تو سامنے صحن میں خالہ کا بڑا بیٹا منٹو ان کی عینک ناک پہ ٹکائے ڈاکٹر بنا محمود کا چیک اپ کر رہا تھا۔

چچا تیز گام نے جو اُسے غصے سے عینک دینے کو کہا تو اُس نے ’’چچا کیچ کیجئے‘‘۔۔ کہہ کر عینک اُن کی طرف اُچھال دی۔ جو کہ اُن کے ہاتھوں میں آنے سے پہلے فرش پر گر کر اللہ کو پیاری ہو گئی۔ شیطان کے پرکالے خالہ کے بچوں کو چچا تیز گام سے خدا واسطے کا بیر تھا۔

’’خدا کا خوف کرو میاں ! تم اتنے خوبصورت اور شریف بچوں کو شتونگڑے کہہ رہے ہو۔۔ ایک ہی تو خالہ ہیں میری۔ وہ بھی کبھی کبھی آتی ہیں۔ ‘‘ بیگم بُرا مان گئیں۔

’’اوہ۔۔ امی جان! تو کیا اس عید پر بھی خالہ آ رہی ہیں ‘‘۔ کمرے میں کھیلتے ہوئے عروج فاطمہ اور محمود بھی اُن کے پاس آ گئے تھے۔

’’جی ہاں۔۔!‘‘

’’واہ۔۔ پھر تو مزہ ہی آ جائے گا۔ بنٹو اور منٹو وغیرہ کے ساتھ ہم خوب مل کر کھیلیں گے۔ ‘‘ اُن دونوں کی خالہ کے بچوں کے ساتھ گاڑھی چھنتی تھی۔

’’اور بھائی جان! اس مرتبہ ہم ابا جان سے زیادہ عیدی لیں گے۔ اور مزے مزے کی چیزیں کھائیں گے۔ ‘‘ عروج فاطمہ بولی۔

’’ہاں۔۔ !ہاں۔۔! بھئی کیوں نہیں۔۔ اس مرتبہ ہم تم دونوں کو پہلے سے ڈبل عیدی دیں گے۔ ‘‘ چچا تیز گام انہیں پیار سے چمکارتے ہوئے بولے۔ ساتھ میں انہوں نے اپنی پھولی ہوئی شیروانی کی جیب پر بھی ہاتھ پھیرا تھا۔ آج ہی گاؤں میں موجود اُن کی زمینوں کی گندم کے پیسے آئے تھے۔

’’صرف ہم دونوں کو ہی نہیں۔ بلکہ سب کو۔ بنٹو، منٹو اور اُس کے بہن بھائیوں کو بھی۔۔‘‘ محمود اٹھلا کر بولا۔

’’بیٹا سب کو عیدی دینا تو مشکل ہو جائے گا۔ اتنے روپے بھلا ہم کہاں سے لائیں گے۔ ‘‘

’’اگر آپ ان کو عیدی نہیں دیں گے تو پھر ہم بھی نہیں لیں گے۔ ‘‘ محمود منہ پھُلا کر بولا۔

’’ارے۔۔ ارے۔۔ تم تو ناراض ہی ہو گئے۔ چلو بھئی ٹھیک ہے۔ ہم تم سب کو عیدی دیں گے۔ ‘‘ چچا تیز گام نے محمود کو منانے کے لیے یہ کہہ تو دیا تھا۔ لیکن وہ گہری سوچ میں پڑ گئے تھے۔

وہ شتونگڑے تو ان کو ویسے بھی ایک آنکھ نہیں بھاتے تھے چہ جائے کہ وہ ان کو عیدی دیتے۔ اچانک اُن کے ذہن میں ایک خیال آیا ور وہ بری طرح اُچھلے۔

’’آ گئی۔۔ آ گئی۔۔ واہ بھئی واہ بہت خوب۔۔‘‘

’’ک۔۔ کیا۔ چیز آ گئی مالک!۔۔‘‘ اُن کے قریب سے گزرتے ہوئے اُستاد نے عجیب سی نظروں سے اُن کی طرف دیکھا۔ وہ اور جمن ابھی کچھ دیر پہلے ہی بازار سے واپس آئے تھے۔

’’ایک بہت ہی زبردست اور شاندار ترکیب۔ واہ بھئی واہ۔ ’’چچا تیز گام بولے اور پھر اچانک اُٹھ کر دروازے کی طرف دوڑ لگا دی۔۔ کچھ دیر بعد وہ واپس آئے تو کافی مطمئن اور خوش نظر آ رہے تھے۔ وہ بار بار اپنے سر کو ہلا رہے تھے۔ جس سے اُن کی ٹوپی کا پھندنا بندر والے کی ڈگ ڈگی کی طرح ہل رہا تھا۔۔ صبح جب چچا تیز گام عید کی نماز پڑھ کر گھر آئے تو خالہ اپنے شتونگڑوں کے ساتھ نازل ہو چکی تھیں۔ چچا تیز گام جیسے ہی گھر میں داخل ہوئے بچوں نے اُن کو گھیر لیا اور لگے شور مچانے۔ ’’چچا۔۔چچا۔۔ پیارے چچا ہمیں عیدی دو‘‘

’’ہاں۔۔ ہاں۔۔ کیوں نہیں۔ عید کا دن ہے۔ عیدی تو ہم تمہیں ضرور دیں گے۔ ‘‘

چچا تیز گام مسکرا کر بولے۔ اور دل کھول کر اُن سب کو عیدی دی۔ گھر میں تو اُن شتونگڑوں نے اودھم مچایا ہوا تھا۔ اس لیے وہ اپنے دوستوں پہلوان جی اور گلو میاں کی طرف نکل گئے۔ دوپہر کو واپس آئے تو بیگم تیر کی طرح اُن کی طرف لپکیں۔

’’ارے میاں ! یہ تم نے کیا غضب کر دیا۔ کہاں تو بچوں کو ایک روپیہ بھی عیدی دینے کو تیار نہ تھے۔ اور اب ہزار ہزار روپے پکڑا دئیے۔۔‘‘

’’ہاہا۔۔ ہزار، ہزار روپے۔۔ ہاہا۔۔ بیگم! وہ تو ہم نے نقلی نوٹ دئیے ہیں۔ ‘‘ چچا تیز گام زور زور سے ہنستے ہوئے بولے

’’اور اصلی نوٹ کہاں ہیں۔۔‘‘؟

’’یہ رہے۔ ‘‘ چچا تیز گام نے اپنی شیروانی کی جیب میں سے نوٹوں کی ایک گڈی نکال کر بیگم کے سامنے کر دی۔

’’یہ اصلی نوٹ ہیں۔۔‘‘ بیگم نے کھا جانے والی نظروں سے اُن کی طرف دیکھا

’’اور نہیں تو کک۔۔ ارے یہ کیا۔۔‘‘ جیسے ہی اُن کی نظر نوٹوں پر پڑی وہ دھک سے رہ گئے۔ نوٹوں پر لکھا ہوا جملہ ’’پیارے بچوں کا کھیل۔ ‘‘ اُن کا منہ چڑا رہا تھا۔

’’تت۔۔ تو۔۔ کیا ہم نے اصلی۔۔‘‘ چچا تیز گام کو اپنا سر گھومتا ہوا محسوس ہوا۔ اُن کی شیروانی کی دائیں بائیں دو جیبیں تھیں۔ انہوں نے دائیں طرف اصلی جبکہ بائیں طرف نقلی نوٹ رکھے ہوئے تھے۔ تیزی میں عیدی دیتے ہوئے انہوں نے دیکھے بغیر اصلی نوٹ دے دئیے تھے۔ اس صدمے کی وجہ سے چچا تیز گام تڑ سے گرے اور بے ہوش ہو گئے۔ آنکھیں بند ہونے سے پہلے بس وہ اتنا دیکھ سکے تھے کہ خالہ کے شتونگڑے ہاتھوں میں لال، لال سبز سبز نوٹ پکڑے سارے گھر میں گھوم رہے تھے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

چچا تیز گام بچوں کو اسکول چھوڑنے گئے

 

اچانک چچا تیز گام کی آنکھ کھل گئی اور وہ ہڑبڑا کر آنکھیں ملتے ہوئے اٹھ بیٹھے۔ انہوں نے حیرت سے کمرے میں اِدھر اُدھر نظر دوڑائی۔ انہیں اپنی آنکھ کھلنے کی وجہ سمجھ میں نہیں آئی تھی، لیکن جیسے ہی انہوں نے اپنے بائیں طرف دیکھا، اُن کے اوسان خطا ہو گئے، بیگم اُن کو کھا جانے والی نظروں سے گھور رہی تھی۔

’’کک۔۔ کیا ہوا بیگم! تم نے آج ہمیں یوں صبح صبح کیوں اٹھا دیا ہے؟‘‘

’’پوچھو کیا نہیں ہوا۔ اور یہ تم نے کیا کہا۔۔ صبح صبح۔۔! ذرا گھڑی دیکھو، آٹھ بج چکے ہیں۔۔‘‘ بیگم غصے سے بھری تھی۔

’’تو پھر کیا ہوا؟ 8 ہی تو بجے ہیں۔ ‘‘

’’محمود اور عروج فاطمہ صبح آٹھ بجے اسکول جاتے ہیں دس یا گیارہ بجے نہیں۔ ‘‘

’’ہاں بھئی! واقعی بچے تو آٹھ بجے ہی اسکول جاتے ہیں، اوہ کیا کہا۔۔ آٹھ بج گئے۔۔؟ اف خدا! تم نے ہمیں پہلے کیوں نہیں جگایا۔ ‘‘ چچا تیز گام کو اچانک کچھ یاد آ گیا۔

جمن اپنے بیوی بچوں کو ملنے گاؤں گیا تھا۔ جب کہ استاد کو دو دن سے بخار تھا۔ اس لیے بیگم نے شام ہی کو چچا تیز گام کو بتا دیا تھا۔

’’جمن تو ہے نہیں اور استاد کو بخار ہے، کل بچوں کو آپ اسکول چھوڑ آئیے گا کیوں کہ بچوں کے سالانہ امتحانات نزدیک آ رہے ہیں چھٹی ہو جانے سے بچوں کی پڑھائی کا حرج ہو گا۔ ‘‘

’’ٹھیک ہے۔۔ ٹھیک ہے۔ ہم چھوڑ آئیں گے۔ بچوں کو اسکول چھوڑ کر آنا بھی بھلا کوئی مشکل کام ہے‘‘ چچا تیز گام نے اُس وقت تو بڑے آرام سے کہہ دیا تھا لیکن صبح جب اٹھنے کا وقت آیا تو بیگم کے بار بار اٹھانے پر وہ اٹھ نہیں رہے تھے۔ جب بھی بیگم اُٹھاتیں وہ کروٹ بدل کر پھر سو جاتے۔

’’خود گھوڑے، گدھے بلکہ پورا اصطبل ہی بیچ کر سوتے ہو اور مجھے کہہ رہے ہو پہلے کیوں نہیں جگایا، پچھلے ایک گھنٹے سے میں آپ کو جگا رہی ہوں۔ ‘‘ بیگم ہاتھ نچاتے ہوئے بولی۔

’’اچھا۔۔ اچھا۔۔ اب ذرا جلدی سے بچوں کو تیار کرو، ہم ابھی تیار ہو کر آتے ہیں۔ ‘‘ چچا تیز گام بولے۔

’’بچے تو کب کے تیار ہیں اور یہ آپ نے تیاری کس بات کی کرنی ہے؟ آپ بچوں کو اسکول چھوڑنے جا رہے ہیں  کسی شادی بیاہ میں نہیں۔۔!‘‘ بیگم چونک کر بولی۔

’’بیگم! تم بھی کمال کرتی ہو۔ ہماری تیاری میں دیر ہی کتنی لگتی ہے، تم ہماری شیروانی استری کر کے لاؤ ہم اپنے جوتے پالش کرتے ہیں اور بس یوں ہو جائے گی ہماری تیاری۔ ‘‘ چچا تیز گام چٹکی بجاتے ہوئے بولے۔

بیگم شیروانی ہاتھ میں لیے کمرے سے باہر چلی گئیں۔ پھر چچا تیز گام لحاف سے نکلے اور اپنے جوتے کی تلاش میں اِدھر اُدھر نظر دوڑائی، لیکن انہیں جوتے کہیں نظر نہ آئے۔

’’حیرت ہے، تعجب ہے بلکہ افسوس ہے۔ یہ ہمارے جوتے کہاں گئے۔۔؟‘‘ چچا تیز گام بڑبڑائے۔

’’ارے او جمن!‘‘

پھر اُن کو یاد آیا کہ جمن تو اپنے گاؤں گیا ہوا ہے۔ اور استاد اپنے کوارٹر میں بیمار پڑا ہے۔

’’لو بھلا جوتے تلاش کرنا بھی کوئی مشکل کام ہے۔ ہم خود جوتے تلاش کر لیتے ہیں۔ ‘‘ چچا تیز گام نے خود کلامی کی اور جوتے تلاش کرنے شروع کیے۔

’’جوتا کہاں جا سکتا ہے؟‘‘ چچا تیز گام نے پورے کمرے پر نظر دوڑاتے ہوئے سوچا۔ پلنگ پر آ کر ان کی نظر ٹھہر گئی، انہوں نے سوچا ہو نہ ہو اُن کے جوتے ضرور پلنگ کے نیچے ہوں گے۔ پھر انہوں نے جھک کر پلنگ کے نیچے نظر دوڑائی لیکن انہیں وہاں کچھ بھی نظر نہ آیا، کیوں کہ پلنگ کے نیچے ہلکا ہلکا اندھیرا تھا۔ اور چچا تیز گام جلدی میں اپنی عینک بھی بھول گئے تھے۔ اب اس خیال سے کہ کہیں جوتے اور آگے نہ سرک گئے ہوں وہ گھٹنوں کے بل پلنگ کے نیچے گھس گئے۔ گھٹنوں کے بل بیٹھے بیٹھے چچا تیز گام کی کمر کمان ہو رہی تھی۔ وہ جھلا کر تیزی سے اٹھ کھڑے ہوئے، وہ جلدی میں یہ بھول گئے تھے کہ وہ پلنگ کے نیچے ہیں۔ چنانچہ دھڑام کی آواز کے ساتھ پلنگ اُن کے اوپر آ گرا۔ اصل میں بیگم نے پلنگ کو اُونچا کرنے کے لیے پلنگ کے نیچے اینٹیں رکھی تھیں۔ اور ایسا بیگم نے چچا تیز گام ہی کے کہنے پر کیا تھا۔ کیوں کہ اُن کو کو اُونچی جگہ پر سونا پسند تھا۔ چنانچہ وہ پلنگ کے نیچے پھنس کر رہ گئے، سر پر لگنے والے پائے نے اُن کے سر کا مزاج پوچھ لیا تھا۔ پلنگ اُوپر گرتے ہی ان کے منہ سے ایک فلک شگاف چیخ نکلی۔۔ بیگم جو کہ اُن کی شیروانی کو استری کر رہی تھی۔ چیخ کی آواز سن کر کمرے کی طرف دوڑی۔ اُسے چچا تیز گام کہیں نظر نہ آئے، وہ اُنہیں نظر آتے بھی کیسے۔ وہ تو بے چارے پلنگ کے نیچے پھنسے ہوئے تھے۔

’’ہائیں۔۔! محمود کے ابا تو کمرے میں نہیں، پھر وہ کون چیخا تھا!‘‘ بیگم کے لہجے میں بے پناہ حیرت تھی۔

’’بیگم!۔۔ بیگم۔۔! ہم یہاں ہیں۔ پلنگ کے نیچے۔۔‘‘ پلنگ کے نیچے سے چچا تیز گام کی آواز سنائی دی۔

’’لیکن آپ پلنگ کے نیچے کیا کر رہے ہیں ؟‘‘ بیگم حیرت سے پلنگ کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔

’’بیگم! پہلے اس نگوڑے مارے پلنگ کو تو پرے ہٹاؤ اف اﷲ۔۔ کمر ٹوٹی جا رہی ہے۔ ‘‘ چچا تیز گام کراہتے ہوئے بولے۔ بیگم نے بڑی مشکل سے چچا تیز گام کو پلنگ کے نیچے سے نکالا۔

’’یہ پلنگ تھا یا پہاڑ۔ اس نے تو ہماری کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ ‘‘ چچا تیز گام اپنی کمر سہلاتے ہوئے بولے۔

’’لیکن آپ پلنگ کے نیچے کیا کر رہے تھے؟‘‘ بیگم ابھی تک حیران تھی۔

’’ہمارا جوتا گم ہو گیا ہے۔ ہم اپنا جوتا تلاش کر رہے تھے۔ ‘‘ چچا تیز گام بولے۔

’’لیکن پلنگ کے نیچے بھلا جوتا کہاں سے آ گیا۔۔۔ ‘‘ بیگم یہ کہتے کہتے رُک گئی اور عجیب سی نظروں سے چچا تیز گام کو دیکھتے ہوئے بولی۔

’’آپ کون سا جوتا تلاش کر رہے تھے؟‘‘

’’بیگم تم بھی کمال کرتی ہو۔ ہم اپنا جوتا تلاش کر رہے تھے اور کون سا جوتا تلاش کرتے۔۔‘‘ چچا تیز گام جھٹ سے بولے۔

’’کمال میں نہیں، آپ کرتے ہیں۔ بچہ بغل میں اور ڈھنڈورا شہر میں۔۔ جوتا پاؤں میں ہے اور تلاش پلنگ کے نیچے کر رہے ہیں۔۔‘‘ بیگم جلے کٹے لہجے میں بولی۔

’’جوتا پاؤں میں ہے، بھئی حیرت ہے، کمال ہے۔ یہ جوتا ہمارے پاؤں میں کیسے   آ گیا۔۔‘‘ چچا تیز گام پاؤں میں پہنے ہوئے جوتے کو دیکھتے ہوئے بولے۔ اصل میں ہوا یہ تھا کہ رات سوتے ہوئے چچا تیز گام جلدی میں جوتے اتارنا بھول گئے تھے اور جوتوں سمیت ہی سو گئے تھے۔

’’یہ لو شیروانی اور جلدی سے پہن کر آ جاؤ، بچے اسکول سے لیٹ ہو رہے ہیں۔ ‘‘ بیگم شیروانی چچا تیز گام کو تھما کر باہر چلی گئی۔

چچا تیز گام شیروانی پہننے لگے تو ان کی نظر اپنے جوتوں پر پڑی۔ پلنگ کے نیچے گھسنے سے جوتے گرد آلود ہو گئے تھے۔

انہوں نے سوچا چلو جوتے پالش کر لیتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے جوتے صاف کرنے والا برش ہاتھ میں پکڑا اور جوتے صاف کرنے لگے، جوتوں کو صاف کرنے کے بعد چچا تیز گام پالش کرنے والا برش پکڑ کر جوتوں کو پالش کرنے ہی لگے تھے کہ اچانک اُن کو یاد آیا کہ انہوں نے تو ابھی تک دانت بھی صاف نہیں کیے۔ بچے اسکول سے لیٹ ہو رہے تھے۔ وقت بہت کم تھا۔ چنانچہ انہوں نے سوچا کیوں نہ دونوں کام ایک ساتھ کیے جائیں۔ کچھ ہی دیر بعد وہ اپنے خیال کو عملی جامہ پہنا چکے تھے۔ پالش کی ڈبیا اُن کے سامنے کھلی ہوئی تھی۔ ٹوتھ برش منہ میں تھا۔ اب وہ ایک ہاتھ سے ٹوتھ برش سے دانت صاف اور دُوسرے ہاتھ سے جوتے پالش کر رہے تھے۔

’’ارے۔۔ ارے۔۔ یہ۔۔ یہ آپ کیا کر رہے ہیں ؟‘‘ کافی دیر گزرنے کے بعد بھی چچا تیز گام کمرے سے باہر نہ نکلے تو بیگم نے کمرے کا رخ کیا، چچا تیز گام کو دیکھ کر اُس کی آنکھیں مارے حیرت کے پھیل گئیں۔

’’لو بھئی بھلا یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے۔ دیکھ نہیں رہی ہم جوتے پالش کر رہے ہیں۔۔‘‘ چچا تیز گام بُرا سا منہ بنا کر بولے۔

’’اچھا! تو یہ آپ جوتے پالش کر رہے ہیں۔ ‘‘ بیگم طنزیہ لہجے میں بولی۔

’’ذرا آئینے میں اپنی شکل تو دیکھو۔۔‘‘

’’کیوں۔۔ کیا ہوا ہماری شکل کو۔ ‘‘یہ کہتے ہوئے وہ آئینے کے سامنے جا کھڑے ہوئے۔

’’ارے یہ کیا!‘‘ اُن کے ہونٹ اور دانت سیاہ ہو چکے تھے۔

’’اوہ۔۔ تو کیا ہم دانتوں پر پالش لگاتے رہے ہیں، بیگم! اسی لیے تو میں کہتا ہوں کہ جلدی کا کام شیطان کا ہوتا ہے۔ ‘‘ چچا تیز گام بھلا اپنی غلطی کہاں ماننے والے تھے، آخر خدا خدا کر کے وہ تیار ہوئے۔ اس وقت تک 9 بج چکے تھے۔

’’بچے ایک گھنٹہ لیٹ ہو چکے ہیں، میں کب سے چلاّ رہی ہوں کہ بچے لیٹ ہو رہے ہیں، لیکن آپ میری سنتے ہی کب ہیں۔ ‘‘ گھڑی کی طرف دیکھ کر بیگم کا پارہ چڑھ گیا۔

’’بیگم! تم فکر مت کرو۔ میری چاند گاڑی چند منٹوں میں بچوں کو اسکول پہنچا دے گی۔۔‘‘ چچا تیز گام بولے۔

’’بچے لیٹ تو ہو ہی چکے ہیں۔ اس لیے دھیان سے چلانا اپنی چاند گاڑی کو، کہیں بچوں کو گرا ہی نہ دینا۔ ‘‘ بیگم فکر مند ہو کر بولی۔

’’میں کہتا ہوں بیگم! تم فکر ہی نہ کرو۔ ‘‘ چچا تیز گام بولے۔

پھر وہ عروج فاطمہ اور محمود کو موٹر سائیکل پر بٹھا کر اسکول کی طرف روانہ ہو گئے۔ کچھ دیر تو بیگم کی نصیحت چچا تیز گام کے ذہن میں رہی اور وہ اپنی چاند گاڑی کو آہستہ چلاتے رہے، لیکن آخر کب تک بیگم کی نصیحت کا اثر رہتا، کچھ دیر بعد چاند گاڑی ہوا سے باتیں کر رہی تھی۔

’’ابا جان! موٹر سائیکل ذرا آہستہ چلائیے۔ ہمیں ڈر لگ رہا ہے۔ ‘‘ عروج فاطمہ بولی۔

’’اگر میں موٹر سائیکل آہستہ چلاؤں گا تو تم لوگ اسکول سے لیٹ ہو جاؤ گے۔ ایسا کرو تم دونوں اپنی آنکھیں بند کر لو۔ ‘‘ چچا تیز گام بولے تو عروج فاطمہ اور محمود نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔

’’ابا جان! ہمارا سکول ابھی تک کیوں نہیں آیا۔ جب جمن چچا ہمیں اسکول چھوڑنے آتے تھے تو کچھ ہی دیر بعد اسکول آ جاتا تھا۔ ‘‘ جب کافی دیر گزرنے پر بھی چچا تیز گام نے اپنی چاند گاڑی نہ روکی تو محمود بولا۔

’’بیٹا! تمہارا اسکول ہے کہاں ؟‘‘ چچا تیز گام نے پوچھا کیوں کہ وہ پہلے کبھی بچوں کو اسکول چھوڑنے نہیں آئے تھے۔

’’ابا جان یہاں تو ہمارا اسکول نہیں ہے۔ ‘‘ محمود نے آنکھیں کھول کر دائیں بائیں دیکھا تو وہ کوئی اور ہی جگہ تھی۔

’’تمہارے اسکول کا نام کیا ہے؟ ہم کسی سے پوچھ لیتے ہیں۔ ‘‘ چچا تیز گام نے کہا۔

’’ہمارے اسکول کا نام دین اسلام پبلک اسکول ہے۔ ‘‘

’’ارے بھائی یہ دین اسلام پبلک اسکول کہاں ہے؟‘‘

چچا تیز گام نے ایک راہ گیر سے پوچھا۔

’’اس علاقے میں تو کوئی اس نام کا اسکول نہیں ہے۔ ‘‘ راہ گیر نے جواب دیا۔

’’اوہ۔۔ کہیں ہم آگے تو نہیں آ گئے۔ ‘‘ چچا تیز گام بولے اور پھر واپس ہو لیے۔

’’ابا جان! ہمارا اسکول اسی گلی میں ہے۔ ‘‘

اس مرتبہ محمود نے اپنی آنکھیں بند نہیں کی تھیں۔ کافی دیر بعد جب وہ ایک جگہ سے گزرنے لگے تو محمود چلاّ اٹھا۔

’’جب ہم پہلے یہاں سے گزرے تھے تم نے اُس وقت کیوں نہیں بتایا تھا۔ ‘‘ چچا تیز گام محمود کو گھورتے ہوئے بولے۔

’’ابا جان! اُس وقت تو میری آنکھیں بند تھیں۔ بھلا میں کس طرح بتاتا۔۔‘‘ محمود نے کہا۔

وہ گلی میں داخل ہوئے توسامنے ہی اسکول تھا۔

’’بڑے میاں ! اب تو چھٹی ہونے والی ہے۔ اور آپ بچوں کو اب لے کر آئے ہیں۔ ‘‘ چوکی دار بولا۔

’’کیا کہا چھٹی ہونے والی ہے۔ ‘‘ چچا تیز گام نے اپنی گھڑی کی طرف دیکھا

’’لیکن ابھی تو ساڑھے دس بجے ہیں۔ ‘‘

’’بڑے میاں ! آج جمعہ ہے اور جمعہ کے دن گیارہ بجے چھٹی ہوتی ہے۔ ‘‘ چوکی دار نے جواب دیا۔

’’اوہ۔۔ چلو کوئی بات نہیں چلو بچو! پھر واپس گھر ہی چلتے ہیں۔ ‘‘ چچا تیز گام بولے اور گھر کی راہ لی۔

’’میں نے آپ کو بچوں کو اسکول چھوڑ کر آنے کے لیے کہا تھا، لیکن آپ ان کوساتھ ہی لے آئے ہیں۔ ‘‘ بیگم اُن کو دیکھ کر حیرت سے بولی۔

’’امی جان! آج ہم سکول گئے ہی نہیں۔۔‘‘ عروج فاطمہ بول اٹھی۔

’’لیکن کیوں ؟‘‘ بیگم تیز لہجے میں بولی تو محمود نے اسکول جانے کی تمام داستان انہیں سنا دی۔ بیگم یہ سن کر اپنا سر پکڑ کر رہ گئی۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

چچا تیز گام سیڑھیوں سے گرے

 

’’ہائے۔۔ ہائے۔ اوہ۔۔ اُف خدا۔۔! کتنا درد ہو رہا ہے۔ ارے جمن مالش ذرا دھیرے، دھیرے کر۔۔ آ۔۔ہ۔۔‘‘چچا تیز گام بری طرح کراہ رہے تھے۔

’’مالک! میں تو پہلے ہی مالش بہت آہستہ آہستہ کر رہا ہوں۔ اگر اس سے بھی آہستہ کروں گا تو وہ مالش تھوڑی ہو گی وہ تو بس ہاتھ پھیرنا ہو گا۔ ‘‘ جمن بولا۔

’’مذاق کر رہے ہو ہم سے، ہائے کر لو۔۔ کر لو۔۔ جتنا مذاق کرنا ہے کر لو، جب ہم مر جائیں گے تب دیکھیں گے تم کس سے مذاق کرتے ہو۔ ‘‘ چچا تیز گام آہ بھرتے ہوئے بولے۔

’’مالک! بب۔۔ بھلا میری اتنی جرأت کہاں جو یہ گستاخی کروں۔ ‘‘ جمن گھبرا گیا۔

’’اور ہاں۔۔ مریں آپ کے دشمن، خدا میری عمر بھی آپ کو لگا دے۔۔۔‘‘ جمن دُعائیں دیتے ہوئے بولا۔

آج ہوا دراصل یہ تھا کہ چچا تیز گام صبح تیزی سے سیڑھیاں اُترتے ہوئے گر گئے تھے۔ بیگم نے کئی مرتبہ چچا تیز گام کو منع بھی کیا تھا کہ آپ اتنی تیزی سے سیڑھیاں مت اترا کریں خدا نہ کرے اگر آپ گر گئے تو ہاتھ پاؤں ٹوٹ جائیں گے۔

’’لو بیگم! تم بھی کمال کرتی ہو۔ ہم اتنے بھی گئے گزرے نہیں ہیں کہ سیڑھیوں سے گر جائیں۔ اب بھلا آہستہ آہستہ سیڑھیاں اترتے ہوئے وقت کون ضائع کرے۔ ‘‘ چچا تیز گام بُرا سا منہ بنا کر بولے۔

اُن کا جواب سن کر بیگم اپنا سا منہ لے کر رہ گئیں۔ آخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ چچا تیز گام اپنی عادت کے مطابق تیز تیز سیڑھیاں اتر رہے تھے کہ اچانک پاؤں پھسلا اور وہ قلابازیاں کھاتے ہوئے نیچے آ گرے۔

’’اوہ۔۔ مر گیا، جمن! استاد! کہاں مر گئے ہو تم دونوں، مجھے اُٹھاؤ۔ ‘‘ چچا تیز گام سیڑھیوں سے گرتے ہی چلّاتے ہوئے بولے۔ کچھ دیر بعد جمن اور استاد بھاگتے ہوئے اُن کی طرف بڑھے۔ اور اُن دونوں نے مل کر جلدی سے چچاگام کو اٹھا کر بیڈ پر لٹایا۔

’’کہیں چوٹ تو نہیں آئی آپ کو؟‘‘ بیگم نے پوچھا۔

’’آ۔۔ہ۔۔ بیگم۔۔! تم چوٹ کی بات کرتی ہو، ہائے۔۔! ہماری کمر اور گھٹنا پھوڑے کی طرح درد کر رہا ہے۔ آہ۔۔! میرا گھٹنا۔ ‘‘ چچا تیز گام اپنے گھٹنے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولے۔

’’مالک! اپنا گھٹنا دکھائیے۔ کہیں خون تو نہیں نکل رہا۔ ‘‘ جمن بولا۔ چچا تیز گام پاجامہ اُوپر کیا تو وہاں ظاہری طور پر تو کوئی زخم نہ تھا البتہ گھٹنے پر سوجن تھی۔

’’ارے۔۔ مم۔۔ مالک! کہیں۔۔ کہیں۔۔‘‘ جمن کھوئے کھوئے لہجے میں بولا

’’کہیں کیا۔۔، تم چپ کیوں ہو گئے؟‘‘

’’مالک! کہیں ایسا تو نہیں آپ کے گھٹنے کی ہڈی ٹوٹ گئی ہو۔۔‘‘

’’اوہ۔۔ ہاں۔۔ واقعی۔۔ ضرور ہمارے گھٹنے کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے۔ جبھی تو ہمیں اتنا درد ہو رہا ہے۔ ہائے اﷲ۔۔! میرا گھٹنا ٹوٹ گیا۔ اب میں کس طرح چلا کرو گا۔ اپنے دوستوں پہلوان جی اور گلو میاں کے پاس کس طرح جایا کروں گا۔ جمن، استاد، جاؤ تمام محلے والوں کو بتا آؤ کہ ہمارا کہا سنا معاف کر دیں۔ اور آخری مرتبہ مل جائیں۔ ٹانگ ٹوٹنے کے بعد بھلا ہم کیسے زندہ رہیں گے۔ ‘‘چچا تیز گام زور زور سے واویلا کرتے ہوئے بولے۔

جمن اور استاد نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے دروازے کا رخ کیا۔

’’آپ بھی بات کا بتنگڑ بنا لیتے ہیں۔ بھلا اس معمولی سی چوٹ کے لیے محلے والوں کو بلانے کی کیا ضرورت ہے۔ ‘‘ بیگم جھنجھلا کر بولیں۔

’’بیگم! تمہیں یہ چوٹ معمولی نظر آ رہی ہے۔ اور ہم ہیں کہ درد سے مرے جا رہے ہیں۔ اگر تمہیں چوٹ لگتی تو تمہیں پتہ چلتا۔۔‘‘ چچا تیز گام فوراً بولے۔

’’اﷲ نہ کرے کہ میں سیڑھیوں سے گرتی۔ ‘‘ بیگم فوراً بولیں۔

چچا تیز گام کی ٹانگ ٹوٹنے کی خبر جمن اور استاد نے پورے محلے میں پھیلا دی۔ سب سے پہلے چچا تیز گام کے پڑوسی خالو شبراتی آ گئے۔

’’تیز گام! کیا تم نے دودھ میں ہلدی ملا کر پی ہے؟‘‘ خالو شبراتی نے آتے ہی سوال کیا۔

’’ابھی تک تو کچھ بھی نہیں پیا۔ پیتے بھی کیسے۔ مارے درد کے ہماری جان نکلی جا رہی ہے۔ ‘‘ چچا تیز گام بولے۔

’’تو پھر جلدی سے دو کلو دودھ میں ہلدی ملا کر پیو۔ ‘‘ خالو شبراتی بولے۔

’’اس سے کیا ہو گا۔۔؟‘‘

’’یہ میں بعد میں بتاؤں گا، جمن! جلدی سے دودھ گرم کر کے لاؤ۔ اور ہاں۔۔! دودھ میری دُکان سے لانا۔ بڑا خالص دودھ آیا ہوا ہے آج۔ ‘‘ خالو شبراتی بولے۔ کچھ دیر بعد جمن گرم گرم دودھ میں ہلدی ملا کر لے آیا۔ چچا تیز گام نے ابھی دودھ کے دو تین گھونٹ ہی پیئے تھے کہ انہیں ابکائی آنے لگی۔

’’بس۔۔ بھئی اب ہم سے اور دودھ نہیں پیا جاتا۔۔۔‘‘ چچا تیز گام بولے۔

’’ارے کیوں نہیں پیا جاتا، ہلدی ملا دودھ تمہاری چوٹ سے درد کو کھینچ لے گا، یہ سارا دودھ تم نے پینا ہے۔ ‘‘

’’اچھا! پھر تو ہم ضرور یہ دودھ پئیں گے۔ ‘‘

’’لاؤ جمن! جگ ہی ہمیں پکڑا دو۔ ‘‘ چچا تیز گام بولے۔ پھر وہ جگ کو منہ لگا کر چند منٹوں ہی میں سارا دودھ پی گئے۔

’’تیز گام! یہ میں کیا دیکھ رہا تمہاری ٹانگ ٹوٹی ہوئی ہے اور تم نے اسے یونہی چھوڑا ہوا ہے۔ ‘‘

چچا تیز گام ابھی مونچھوں پر لگی بالائی اور ہلدی کو صاف کر ہی رہے تھے کہ گلو میاں کمرے میں داخل ہوتے ہی بولے۔

’’تو کیا مجھے اپنی ٹانگ باندھ کر رکھنی چاہیے؟‘‘ چچا تیز گام نے حیرت سے پوچھا۔

’’اور نہیں تو کیا!۔۔ چلو میرے ساتھ۔ تمہاری ٹانگ پر پلستر لگوانے چلتے ہیں، میرا بھانجا ڈاکٹر ہے۔ آخر وہ کس دن کام آئے گا۔ ‘‘ گلو میاں بولے۔

چچا تیز گام تو گویا پہلے ہی تیار بیٹھے تھے۔ پھر گلو میاں چچاتیز گام کو اپنے بھانجے شاہد اقبال کے پاس لے گئے۔ ان کے بھانجے ڈاکٹر شاہد اقبال  نے بہت کہا کہ پہلے ایکسرے کرا کے چیک کر لیتے ہیں کہ ٹانگ ٹوٹی بھی ہے کہ نہیں، لیکن چچا تیز گام کی ایک ہی رٹ تھی کہ ایکسرے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں معلوم ہے، ہماری ٹانگ ٹوٹ گئی ہے۔ چچا تیز گام نے اپنی ٹانگ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔

’’یہ دیکھو! یہ جو ہڈی اُبھری ہوئی ہے۔ دراصل یہ ٹوٹی ہوئی ہڈی ہے۔ ‘‘ ڈاکٹر شاہد اقبال  نے بے بسی سے کندھے اچکائے اور پلستر لگانے لگے۔

پلستر لگنے کے بعد گلو میاں چچا تیز گام کو گھر چھوڑ کر چلے گئے۔ ابھی کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ چچا تیز گام کے دوست حکیم تاج الدین چلے آئے۔

’’بھئی تیز گام بڑا افسوس ہوا تمہاری ٹانگ کا سن کر، اﷲ تعالیٰ تمہیں ایک ہی ٹانگ پر صبر کرنے کی توفیق عطا فرمائے، ارے یہ کیا!‘‘ حکیم صاحب اچانک چلا اٹھے۔

’’ تیز گام! تم نے اپنی ٹانگ پر پلستر باندھا ہوا ہے اور وہ بھی ہمارے ہوتے ہوئے، نہیں !۔۔ ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ جمن! استاد! ہمارے دوست کی ٹانگ سے پلستر اتارو۔ اگر ہم بروقت نہ آتے تو ہمارے دوست کی ٹانگ تو گئی تھی۔ ارے بھئی یہ پلستر تو ٹوٹی ہوئی ٹانگ کے لیے زہرِ قاتل ہے۔ اس سے تو تمہاری ٹانگ لٹھ کی طرح اکڑ کر رہ جائے گی۔ ‘‘ حکیم صاحب بولتے چلے گئے۔

’’ہمیں تو پتہ ہی نہیں تھا۔ ارے تم دونوں ہمارا منہ کیا دیکھ رہے ہو، اتارو اس کم بخت پلستر کو۔ اس سے تو واقعی ہماری ٹانگ اکڑ کر رہ گئی ہے۔ ‘‘ چچا تیز گام بولے۔ پھر جمن اور استاد پلستر اتارنے لگے۔

’’جمن! اب تم میرے ساتھ آؤ۔ میں تمہیں ایک تیل دوں گا۔ جو میں نے برسوں کی محنت سے مختلف بوٹیاں ملا کر تیار کیا ہے۔ اُس کی مالش ہمارے دوست تیز گام کو کر دینا۔ پھر دیکھنا اُس تیل کا کمال۔ پلک جھپکنے میں ٹوٹی ہوئی ہڈی کو جوڑ دے گا۔ ‘‘

پلستر اُتر چکا تو حکیم صاحب بولے۔

جمن اس وقت اُسی تیل کی مالش چچا تیز گام کی ٹانگ پر کر رہا تھا۔ عصر کی نماز کا وقت ہو چکا تھا۔ چچا تیز گام ہر روز عصر کی نماز کے بعد گپ شپ لگانے اپنے دوست پہلوان جی کے پاس جاتے تھے۔ آج وہ ٹانگ ٹوٹنے کی وجہ سے نہ جا سکے تھے۔ کچھ دیر تک پہلوان جی اُن کا انتظار کرتے رہے۔ پھر وہ خود ہی چچا تیز گام کے گھر آ گئے۔

’’واہ۔۔ بھئی واہ۔ تیز گام بہت خوب! میں گھر میں تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔ اور تم یہاں مزے سے ٹانگیں دبوا رہے ہو۔ ‘‘ پہلوان جی شکوہ بھرے لہجے میں بولے۔

’’آہ۔۔ ہ۔۔ پہلوان جی۔ مزے سے کہاں، درد سے بے حال ہوں، آج صبح سیڑھیوں سے اُترتے ہوئے میری ٹانگ ٹوٹ گئی ہے۔ ‘‘ پھر چچا تیز گام نے اپنی داستانِ ٹانگ پہلوان جی کو سنا دی۔

’’اگر یہ بات تھی تو مجھے بلا لیا ہوتا۔ ہڈی جوڑنا تو ہمارا خاندانی پیشہ ہے۔ لاؤ دکھاؤ ذرا۔۔‘‘ پہلوان جی بولے۔ چچا تیز گام نے گھٹنا انہیں دکھایا۔ پہلوان جی غور سے گھٹنے کا معائنہ کرنے لگے۔

’’یار تیز گام! کبھی تو اپنی تیزیاں چھوڑ دیا کرو، یہ ہڈی کوئی ٹوٹی ہے۔ یہ تو صرف سوجن ہے۔ جو گرنے سے آ گئی ہے۔ اور تم یوں ہی اپنی ٹانگ توڑے بیٹھے ہو۔ ‘‘ پہلوان جی بولے۔

’’کیا۔۔!! ہماری ٹانگ نہیں ٹوٹی، یا اﷲ تیرا شکر ہے۔ میری ٹانگ ٹوٹنے سے بچ گئی۔ بیگم۔۔ بیگم یہ دیکھو، ہماری ٹانگ بالکل ٹھیک ہے۔ ‘‘ چچا تیز گام مارے خوشی کے بیڈ سے نیچے کود پڑے۔ اور اچھلتے ہوئے بولے۔ چچا تیز گام کو خوش دیکھ کر سب گھر والوں کی جان میں جان آ گئی ورنہ انہوں نے تو اپنی ٹانگ ٹوٹنے کے چکر میں سب گھر والوں کو گھن چکر بنایا ہوا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

چچا تیز گام میلے میں گئے

 

’’واہ بھئی واہ گلو میاں۔۔! مزہ آ گیا۔۔ ماشاء اﷲ کیا ہی مزے دار فالودہ ہے۔ ‘‘ چچا تیز گام انگلیوں سے پیالے کو چاٹتے ہوئے بولے۔

’’تو پھر تو تم فالودے کی دُکان کھول لو، سارا دن خود بھی فالودہ کھانا اور لوگوں کو بھی کھلانا۔ ‘‘ گلو میاں جل کر بولے۔ وہ چچا تیز گام کو فالودہ کھانے کی دعوت دے کر پچھتا رہے تھے۔

’’ہاہا۔۔ ہاہا۔۔ چچا تیز گام فالودہ بیچا کریں گے، واہ بھئی واہ۔۔بہت خوب!

’’چچا تیز گام فالودہ ہاؤس۔ ‘‘ گلو میاں کے مشورے پر پہلوان جی زور زور سے ہنستے ہوئے بولے۔

’’اب فالودہ ہمیں اتنا بھی پسند نہیں کہ ہم فالودے کی دُکان ہی کھول لیں۔ ‘‘      چچا تیز گام اپنی مونچھوں پر لگی ہوئی سویاں صاف کرتے ہوئے کرسی سے اٹھے تو فالودہ کھانے کے لیے کھڑے گاہک نے چچا تیز گام کی اس عنایت پر تشکرانہ نظروں سے اُن کی طرف دیکھا کیوں کہ چچا تیز گام کافی دیر سے کرسی پر قبضہ جمائے بیٹھے تھے اور اٹھنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔

’’ہاں بھائی۔۔! کتنا بل بنا؟‘‘ گلو میاں نے دُکان دار سے پوچھا۔

’’7 پیالوں کے 350 روپے ہوئے، ویسے اگر آپ اپنے دوست کو نہ روکتے تو اُمید تھی کہ دس پیالے تو ہو ہی جاتے۔ ‘‘ دُکان دار چچا تیز گام کی طرف دیکھتے ہوئے مسکرا کر بولا۔

’’آپ دس پیالوں کی بات کرتے ہیں، ان کے سامنے تو سو پیالے بھی کم ہیں۔ ‘‘  گلو میاں جلے کٹے لہجے میں بولے اور کھا جانے والی نظروں سے چچا تیز گام کو دیکھتے ہوئے دُکان دار کو بل ادا کیا۔

چچا تیز گام کا میلے میں جانے کا اپنا تو کوئی ارادہ نہ تھا، لیکن اپنے جگری یار پہلوان جی کی دعوت وہ ٹھکرا نہ سکے، پہلوان جی کے گاؤں دین پور میں سالانہ میلہ لگا ہوا تھا اور پہلوان جی نے میلے میں ہونے والی کشتی کے مقابلے میں اپنے گاؤں کی نمائندگی کرنا تھی۔ گاؤں والوں نے پہلوان جی کو خصوصی طور پر شہر سے میلے میں آنے کی دعوت دی تھی۔ پہلوان جی نے یہ دعوت چچا تیز گام اور گلو میاں کو بھی دے ڈالی، جسے انہوں نے قبول کر لیا تھا۔

’’میں کہتی ہوں کہ آپ کو میلے میں جانے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ اور وہ بھی اس بلا کی پڑتی ہوئی گرمی میں۔ ‘‘ بیگم میلے میں جانے کا سن کر بھڑک کر بولی۔

’’واہ بھئی واہ۔۔ بیگم! تم بھی کمال کرتی ہوں۔ ہمارے دوست پہلوان جی کی کشتی ہو اور ہم دیکھنے نہ جائیں، بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے، ویسے بھی کشتی دیکھنے میں جو مزہ ہے وہ کسی اور کھیل میں کہاں۔۔ ہم بھی اپنے زمانے میں نامی گرامی پہلوان ہوا کرتے تھے۔ ہماری کشتی آس پاس کے سبھی گاؤں میں مشہور تھی۔ ‘‘ چچا تیز گام سینہ پھلاتے ہوئے بولے۔

’’ہاہا۔۔ مالک۔۔! آپ اور کشتی ہاہا۔ ‘‘ استاد دانت نکالتے ہوئے بولا۔

’’کیوں کیا ہم کشتی نہیں کر سکتے۔ ؟‘‘ چچا تیز گام استاد کو گھورتے ہوئے بولے۔

’’نن۔۔ نہیں۔۔ مم۔۔ مالک! میرا یہ مطلب نہیں تھا، کشتی ہی کیا آپ تو سب کچھ کر سکتے ہیں۔ کشتی بھلا آپ کے سامنے کیا حیثیت رکھتی ہے، لیکن کشتی کرنے والے تو پہلوان ہوتے ہیں اور آپ۔۔ ہا۔۔ ہا۔۔‘‘ استاد کی ہنسی تھمنے میں نہیں آ رہی تھی۔

’’اچھا اب ہمارا دماغ نہ چاٹو۔ جاؤ ہماری شیروانی لے کر آؤ۔ ہمیں دیر ہو رہی ہے۔ ‘‘ چچا تیز گام غصے سے بولے اور میلے میں جانے کی تیاری کرنے لگے۔

پہلوان جی کا گاؤں ’’دین پور‘‘ شہر کے مضافات میں واقع تھا۔ دو گھنٹے کے بعد وہ میلے میں تھے، کشتی تو شام کو ہونی تھی، اس لیے وہ میلے کی سیر کو نکل کھڑے ہوئے۔

میلے میں بے حد رش تھا، کھوئے سے کھوا چھل رہا تھا۔ ہر طرف جہازی سائز کے بڑے بڑے رنگا رنگ بورڈ نظر آ رہے تھے۔ کہیں موت کا کنواں تھا تو کہیں سرکس، کہیں پنڈال میں سر کٹی عورت اور بغیر کنکشن کے نل سے پانی آنے کا نظارہ دکھایا جا رہا تھا۔ تو کہیں عجیب و غریب جانور دکھانے کا دعویٰ کیا جا رہا تھا۔ سب اعلانات چونکہ لاؤڈ اسپیکر پر ہو رہے تھے اس لیے کانوں پڑی آواز سنائی نہ دے رہی تھی۔ میلے میں جگہ جگہ کھیل تماشے بھی جاری تھے۔    چچا تیز گام ہر چیز پر تبصرہ کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے۔

’’ارے۔۔! وہاں لوگوں کا مجمع کیوں لگا ہوا ہے؟‘‘ چچا تیز گام چلتے چلتے اچانک رک گئے اور ایک طرف دیکھتے ہوئے بولے۔

’’ہونا کیا ہے کوئی کھیل تماشا ہو رہا ہو گا۔۔ ہمیں اس سے کیا۔۔‘‘ گلو میاں فالودے کے پیسے ادا کرنے کی وجہ سے ابھی تک غصے میں تھے۔

’’چلو چل کر دیکھیں تو سہی آخر وہاں ہو کیا رہا ہے۔۔‘‘ چچا تیز گام جلدی سے بولے اور گلو میاں اور پہلوان جی کا جواب سنے بغیر مجمع کی طرف چل دئیے، مجبوراً گلو میاں اور پہلوان جی کو بھی اُن کا ساتھ دینا پڑا۔

وہاں لوگ ایک دائرے کی شکل میں کھڑے تھے۔ دائرے کے درمیان میں ایک بڑی سی لکڑی کی میز بچھی ہوئی تھی۔ اُس میز پر ایک دبلا پتلا دھان پان سا آدمی لاؤڈ اسپیکر میں اعلان کر رہا تھا۔

’’جوانوں۔۔! دیوانوں۔۔! مستانوں !۔۔ آؤ۔۔! اور اپنی طاقت کے جوہر دکھلاؤ، پنجہ لڑاؤ اور پانچ سو روپے کماؤ۔۔ آؤ۔۔ جلدی، جلدی آؤ۔۔ اور اپنی قسمت آزماؤ۔ ‘‘ لاؤڈ اسپیکر کی آواز اتنی اونچی تھی کہ جب وہ جوکر نما آدمی بولتا تو کانوں کے پردے پھٹتے ہوئے محسوس ہوتے۔

’’چلو بھئی کہیں اور چلتے ہیں، یہاں تو پنجہ لڑایا جا رہا ہے، یہاں بھلا ہمارا کیا کام۔ ‘‘ پہلوان جی بولے۔

’’کیوں ہمارا کام کیوں نہیں، کیا ہم پنجہ نہیں لڑا سکتے؟‘‘چچا تیز گام بولے۔

’’اچھا تو کیا تم پنجہ لڑاؤ گے؟‘‘ پہلوان جی نے حیرت سے چچا تیز گام کی طرف دیکھا۔

’’اور نہیں تو کیا۔ اپنی جوانی میں ہم خوب پنجہ لڑایا کرتے تھے۔ تب کوئی بھی ہمارے سامنے ٹک نہیں سکتا تھا۔ آج ہم پنجہ ضرور لڑائیں گے، اور پانچ سو روپے ضرور پائیں گے۔ ‘‘ چچا تیز گام خیالوں ہی خیالوں میں پانچ سو روپے کے نوٹ پر قبضہ جمائے بیٹھے تھے۔

پہلوان جی اور گلو میاں نے چچا تیز گام کو بہت سمجھایا کہ یہ پنجہ لڑانا آپ کے بس کی بات نہیں، لیکن وہ چچا تیز گام ہی کیا جو بات مان لیں۔

چچا تیز گام جب پنجہ لڑانے کے لیے آگے بڑھے تو اعلان کرنے والے شخص نے اُن کی طرف دیکھ کر حیرت سے کہا:

’’بڑے میاں۔۔! کیا آپ پنجہ لڑائیں گے؟‘‘ وہ حیرت سے چچا تیز گام کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔

’’جی ہاں ! ہم پنجہ لڑائیں گے۔ ‘‘ چچا تیز گام اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے بولے۔

’’دیکھ لیں  بڑے میاں ! اگر آپ ہار گئے تو آپ کو پانچ سو روپے دینا پڑیں گے۔ ‘‘

’’ہم اور ہار جائیں۔۔! ایسا نہیں ہو گا۔ ‘‘

’’چلو ٹھیک ہے، آ جاؤ شیرو تمہارا گاہک آ گیا ہے۔ ‘‘ وہ آدمی ایک خیمے کی طرف منہ کر کے بولا۔

’’ہائیں۔۔! کیا کہا شیرو۔۔ یہ شیرو کون ہے؟‘‘ چچا تیز گام حیرت سے بولے۔

’’بڑے میاں شیرو ہی تو ہے جس سے آپ نے پنجہ لڑانا ہے، لو وہ آ گیا ہے۔ ‘‘ وہ آدمی خیمے کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔ چچا کے سامنے اب ایک موٹا تازہ دیو نما آدمی کھڑا تھا۔ چچا تیز گام تو اس کے سامنے بالکل بچے نظر آ رہے تھے۔

اُسے دیکھ کر چچا کے تو ہاتھوں کے طوطے کبوتر، بٹیر بلکہ پورا پنجرا ہی اڑ گیا۔ وہ تو سمجھے تھے شاید وہ اعلان کرنے والا دھان پان سا آدمی ہی پنجہ لڑائے گا، اور وہ آسانی سے اُسے ہرا کر پانچ سو روپے کا نوٹ حاصل کر لیں گے۔

’’ہم۔۔ ہم۔۔ تو سمجھے تھے۔ ‘‘ دیو نما آدمی کو دیکھ کر چچا تیز گام سے تو بولا بھی نہیں جا رہا تھا۔

’’تم کیا سمجھے تھے تیلی پہلوان!۔۔ آؤ پنجہ لڑاؤ۔ ‘‘ وہ دیو نما آدمی طنزیہ میں بولا۔

اُس کی آواز اتنی خوف ناک تھی جیسے بادل گرج رہے ہوں۔ پھر اُس نے چچا تیز گام کا پتلا سا ہاتھ اپنے ہتھوڑے جیسے ہاتھ میں لیا اور میز پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا۔ کیوں کہ چچا تیز گام کا ہاتھ اُس کے ہاتھ میں تھا اِس لیے چچا تیز گام بھی خودبخود اُس کے ساتھ ہی بیٹھتے چلے گئے، چچا تیز گام اُس کے سامنے تھر تھر کانپ رہے تھے۔ اب سب لوگوں کی نظریں چچا تیز گام پر تھیں۔ گلو میاں اور پہلوان جی چچا تیز گام کی پتلی حالت سے محظوظ ہو رہے تھے۔

’’چلو۔۔ چلو۔۔ پنجہ لڑاؤ۔ ‘‘ وہ دیو نما آدمی بولا اور اپنا پنجہ چچا تیز گام کے پنجے میں پھنسا دیا۔ چچا تیز گام نے مرے مرے سے انداز میں زور لگایا۔ چچا تیز گام کے اس زور لگانے پر پہلے تو اُس دیو نما آدمی نے ایک خوف ناک سا قہقہہ لگایا۔ اور پھر چچا تیز گام کا ہاتھ یوں زمین پر لگا دیا جیسے وہ گھاس کا کوئی تنکا ہو۔

’’اس نے ہمارے ساتھ دھوکا کیا ہے۔ ہم ابھی پوری طرح تیار بھی نہیں ہوئے تھے کہ اس نے پنجہ لڑانا شروع کر دیا۔ ‘‘ چچا تیز گام احتجاج کرتے ہوئے بولے۔

’’اے تیلی پہلوان۔۔! پانچ سو روپے نکال کر یہاں رکھو اور چلتے پھرتے نظر آؤ ورنہ۔۔‘‘ وہ دیو نما آدمی دھاڑا۔

’’جج۔۔ جی۔۔!۔۔ اچھا۔۔‘‘ چچا تیز گام صرف اتنا ہی کہہ سکے اور جلدی سے پانچ سو روپے نکال کر وہاں رکھ کر فوراً آگے بڑھ گئے۔

’’کیوں لڑا لیا پنجہ اور کما لیے پانچ سو روپے۔۔؟‘‘ پہلوان جی طنزیہ لہجے میں بولے۔

’’کھیل میں ہار جیت تو ہوتی ہی رہتی ہے، ہمارے ساتھ دھوکہ ہوا ہے ورنہ ہم جیت جاتے۔ ‘‘ چچا تیز گام بے پروائی سے کندھے اُچکاتے ہوئے بولے۔

’’اچھا بھئی ذرا اب جلدی جلدی گھوم پھر لو کیوں کہ شام ہونے والی ہے، مجھے کشتی کے مقابلے میں بھی حصہ لینا ہے۔ ‘‘ پہلوان جی بولے۔

’’ارے۔۔ ارے ہائیں۔۔ یہ۔۔ یہ۔۔ ہم کیا دیکھ رہے ہیں۔ ‘‘ چچا تیز گام کی حیرت میں ڈوبی ہوئی آواز سنائی دی۔ پہلوان جی کا جملہ جیسے انہوں نے سنا ہی نہیں تھا۔

’’اب کیا عجوبہ دیکھ لیا تم نے؟‘‘

’’عجوبہ نہیں، گلو میاں۔۔! آسمانی جھولا وہ دیکھو۔ ‘‘ چچا تیز گام مسلسل ایک طرف دیکھے جا رہے تھے۔

’’کیا کہا آسمانی جھولا۔۔!‘‘

’’جی ہاں آسمانی جھولا۔ وہ دیکھو۔ واہ بھئی واہ کیا پیارا منظر ہے۔ یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے جھولے میں بیٹھے آدمی آسمان میں اڑ رہے ہوں، ہم آسمانی جھولے میں ضرور بیٹھیں گے۔ ‘‘ چچا تیز گام بولے۔

’’بھلا یہ تمہاری عمر ہے آسمانی جھولے میں بیٹھنے کی۔ ‘‘ پہلوان جی بولے۔

’’پہلوان جی تم بھی کمال کرتے ہو۔ بھلا آسمانی جھولے میں بیٹھنے کی بھی کوئی عمر ہوتی ہے۔ ‘‘ چچا تیز گام بُرا سا منہ بنا کر بولے اور آسمانی جھولے کی طرف بڑھ گئے۔

’’ارے بھئی۔۔! کیا ٹکٹ ہے آسمانی جھولے کی؟‘‘ چچا تیز گام نے پوچھا۔

’’20 روپے۔۔ صرف 20 روپے۔ ‘‘ جھولے کا مالک بولا۔

چچا تیز گام نے ٹکٹ لیا اور جھٹ سے آسمانی جھولے میں بیٹھ گئے۔

جیسے ہی سواریاں مکمل ہوئیں، جھولا چلنا شروع ہو گیا۔

’’ارے بھئی تم آہستہ آہستہ جھولا کیوں چلا رہے ہو۔ ذرا جھولا تیز چلاؤ۔ ‘‘ چچا تیز گام بولے تو جھولے والے نے رفتار تیز کر دی۔

شروع، شروع میں تو چچا تیز گام بہت خوش ہوئے، لیکن جب جھولا زیادہ ہی تیز ہوا تو لگے چیخنے چلّانے۔

’’مجھے بچاؤ۔۔ بچاؤ۔۔ ارے کم بختو جھولا روکو۔ ہمیں چکر آ رہے ہیں، رفتار کم کرو۔ ‘‘ مارے خوف کے چچا تیز گام چیخ و پکار کر رہے تھے۔ گلو میاں اور پہلوان جی چچا تیز گام کی چیخ و پکار سن کر زور زور سے قہقہے لگا رہے تھے۔ میلے میں آئے ہوئے دوسرے لوگ بھی اس منظر سے محظوظ ہو رہے تھے۔

آسمانی جھولا رکا تو چچا تیز گام نے چلّانا بند کیا۔ وہ خاصے سہمے ہوئے تھے۔

شام کے وقت کشتی کا آغاز ہوا تو چچا تیز گام کے خون نے بھی جوش مارا، مگر گلو میاں نے انہیں اکھاڑے میں کودنے سے روک لیا کیوں کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ اکھاڑے میں موجود پہلوان چچا کی ہڈی پسلی ایک کر دے۔ پہلوان جی نے اکھاڑے میں اپنے مدمقابل کو چت کیا تو چچا تیز گام نے آگے بڑھ کر کہا:

’’پہلوان جی! میرا شاگرد ہے، اس میلے میں کوئی میرے شاگرد کا مقابلہ نہیں کر سکتا، میرا شاگرد زندہ باد۔ ‘‘

پہلوان جی اور گلو میاں معنی خیز انداز میں ایک دُوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ دونوں نے چچا کا بھرم رکھا اور لوگوں کو کچھ بتایا نہیں۔ جب لوگوں نے پہلوان جی کو اپنے کندھوں پر اٹھایا تو چچا تیز گام بولے۔

’’ارے ہمیں بھی کندھوں پر اٹھاؤ، آخر ہم اس جیتنے والے پہلوان کے استاد ہیں۔ ‘‘

چچا کی یہ بات سن کر دو نوجوانوں نے چچا کو اپنے کندھوں پر اٹھانے کی کوشش کی تو وہ دھڑام سے زمین پر گر گئے۔

’’مار ڈالا کم بختوں نے، میری ہڈی پسلی ایک کر دی۔ ‘‘

چچا تیز گام چلائے لیکن لوگوں کے نعروں کے شور میں اُن کی آواز کوئی بھی نہ سن سکا۔

٭٭٭

 

 

 

 

چچا تیز گام نے پینٹ کیا

 

چچا تیز گام جیسے ہی چبوترے کی طرف بڑھے چبوترے پر بیٹھے کئی مزدور تیر کی طرح اُن کی طرف لپکے اور چچا تیز گام کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔ کچھ ہی دیر میں ان کے گرد اچھا خاصا رش لگ گیا۔

’’اے بھائی۔۔! رُکو۔۔ رُکو۔ ذرا سانس تو لینے دو۔ ‘‘ چچا تیز گام اس اچانک افتاد پر گھبرا سے گئے۔

’’میاں صاحب! آپ سانس بعد میں لیجیے گا، پہلے کام بتائیے کام، راج گیری، اینٹیں اٹھانا، ریت اٹھانا اور ماربل لگوانا، غرض جو بھی کام آپ کروانا چاہیں بندہ ہر فن مولا ہے۔ ‘‘ ایک دبلا پتلا آدمی اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے بولا۔

’’لیکن مجھے ہرفن مولا نہیں صرف ایک فن مولا چاہیے۔ اور وہ فن ہے پینٹ کرنا۔ ‘‘  چچا تیز گام بولے۔

’’اوہ۔۔!‘‘ چچا تیز گام کی یہ بات سن کر بہت سے چہروں پر اداسی چھا گئی۔ کچھ دیر پہلے جو مزدور شہد کی مکھیوں کی طرح چچا تیز گام کو چمٹ گئے تھے وہ فوراً وہاں سے چلے گئے۔ اب وہاں صرف ایک ہی آدمی رہ گیا تھا۔

’’جی صاحب! کیا پینٹ کروانا ہے؟‘‘ وہ برش چچا تیز گام کی آنکھوں کے سامنے لہراتے ہوئے ایسے بولا جیسے چچا تیز گام نے گھر نہیں اپنا چہرہ پینٹ کروانا ہو۔

’’صرف ایک کمرے میں پینٹ کروانا ہے، بتاؤ کتنے پیسے لو گے؟‘‘

’’ویسے تو میں ایک کمرے میں پینٹ کرنے کے دو ہزار روپے سے کم نہیں لیتا لیکن آپ سے صرف پندرہ سو روپے لے لوں گا۔ ‘‘ وہ گویا چچا تیز گام پر احسان جتلاتے ہوئے بولا۔

’’کیا کہا۔۔! دو ہزار روپے۔ ‘‘ چچا تیز گام اتنے روپوں کا سن کر چِلّا اُٹھے۔

’’اماں جاؤ۔۔ دو ہزار تو تم نے ایسے کہا ہے جیسے روپے درختوں پر اُگتے ہیں، میں تو صرف پانچ سو روپے دوں گا۔ کام کرنا ہے تو بتاؤ ورنہ اپنا راستہ ناپو۔ ‘‘ چچا تیز گام نے کہا۔

’’پانچ سو روپے۔۔ بڑے میاں ! کس زمانے کی بات کرتے ہو۔ وہ زمانہ گیا جب ایک روپے کی بکری اور تین چار روپے کی بھینس آ جاتی تھی۔ میں تو پندرہ سو روپے سے ایک پیسہ بھی کم نہ لو گا۔ اگر کام کروانا ہے تو میں آپ کے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہوں۔ اور ہاں !۔۔ یہ آپ نے کیا کہا میں اپنا راستہ ناپوں، بڑے میاں۔۔! راستہ تو آپ کو ناپنا پڑے گا کیوں کہ اس وقت یہاں میرے علاوہ کوئی اور پینٹ کرنے والا نہیں ہے۔ ‘‘ وہ چچا تیز گام کو گھورتے ہوئے بولا۔

’’لیکن میں تو پانچ سو روپے سے ایک پیسہ بھی زیادہ نہیں دوں گا۔ ‘‘ چچا تیز گام بھی اڑ گئے۔

’’تو پھر آپ کو اپنے کمرے میں پینٹ خود ہی کرنا پڑے گا کیوں کہ اتنے کم روپوں میں تو کوئی کمرہ تو کیا ایک دیوار پر بھی پینٹ نہیں کرے گا۔ ‘‘ وہ جل بھن کر بولا۔

’’واہ بھئی واہ۔۔ کیا بات کہہ دی۔ واقعی پینٹ تو ہم خود بھی کر سکتے ہیں۔ ہم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ ہم خود پینٹ کریں گے۔ ‘‘ چچا تیز گام خود کلامی کرتے ہوئے بولے۔ اور تیزی سے پینٹ کی دُکان کی طرف بڑھے۔

چچا تیز گام کے کمرے کا پینٹ جگہ جگہ سے اکھڑ گیا تھا۔ بیگم اُن سے کئی مرتبہ کہہ چکی تھی کہ اپنے کمرے میں پینٹ کروا لیں، لیکن وہ چچا تیز گام ہی کیا جو ایک بار کا کہا مان لیں۔ وہ اتوار کا دن تھا۔ بیگم، بچوں کے ساتھ اپنے میکے گئی ہوئی تھی۔ چچا تیز گام کے دل میں نہ جانے کیا آئی۔ پینٹ کروانے کے لیے آدمی کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے، لیکن زیادہ پیسوں کا سن کر انہوں نے خود ہی پینٹ کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔

پھر چچا تیز گام پینٹ لے کر گھر آ گئے۔

’’جمن۔۔! او جمن۔۔ استاد!‘‘ چچا تیز گام نے پکارا۔

’’جی مالک! جی مالک۔۔!‘‘ دونوں دوڑتے ہوئے آئے۔

’’جی مالک کے بچو! جاؤ ہمارے کمرے سے سامان باہر نکالو۔ ہم پینٹ کریں گے۔ ‘‘ چچا تیز گام بولے۔

’’مالک! آپ پینٹ کریں گے؟‘‘ جمن نے حیرت کا اظہار کیا۔

’’کیا ہم پینٹ نہیں کر سکتے؟‘‘ چچا تیز گام نے آنکھیں نکالیں۔

’’نہیں مالک! آپ۔۔ آپ۔۔ تو سب کچھ کر سکتے ہیں۔ ‘‘ جمن گھبرا کر بولا۔

’’خیر یہ بات بھی نہیں، جاؤ تم جا کر کمرے سے سامان نکالو ہم پینٹ بناتے ہیں۔ اور استاد تم! باورچی خانے سے جا کر چھُری اور مٹی کا تیل آؤ۔۔‘‘ چچا تیز گام کی بات سن کر دونوں وہاں سے چلے گئے۔

’’مالک! چھُری تو مل گئی ہے۔ لیکن مٹی کا تیل نہیں مل رہا۔ ‘‘ کچھ دیر بعد استاد کی واپسی ہوئی۔

’’تمہیں کوئی چیز کبھی ملی بھی ہے۔ تم پینٹ کے ڈبے کا ڈھکن کھولو ہم مٹی کا تیل ڈھونڈ کر لاتے ہیں۔ ‘‘ چچا تیز گام غصے سے بولے۔ کافی تلاش کے بعد چچا تیز گام کو باورچی خانے میں مٹی کا تیل مل ہی گیا۔

’’یہ لو!۔۔ ڈھونڈ لیا ہم نے مٹی کا تیل۔ ‘‘ چچا تیز گام مٹی کے تیل کی بوتل استاد کی آنکھوں کے سامنے لہراتے ہوئے بولے۔

’’مالک۔۔! یہ مٹی کا تیل ہے۔۔؟‘‘ استاد حیرت سے بوتل کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔

’’اور نہیں تو کیا، چلو اب زیادہ باتیں نہ بناؤ۔ اسے پینٹ میں ڈال کر خوب ہلاؤ۔ ‘‘ استاد نے بے چارگی سے ایک نظر مٹی کے تیل کی بوتل کی طرف اور ایک نظر چچا تیز گام کی طرف دیکھا پھر وہ مٹی کے تیل کو پینٹ میں ملانے لگا۔

’’بس کرو، تم نکال چکے سامان۔۔ ہمیں پینٹ کرنے دو۔ ‘‘

چچا تیز گام کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولے۔

کمرے سے بھاری بھرکم سامان نکالتے جمن کا بھرکس نکل گیا تھا۔

’’لیکن مالک۔۔! وہ۔۔‘‘ جمن نے کہنا چاہا۔

’’کیا لیکن! جاؤ سیڑھی لے کر آؤ۔ ‘‘ چچا تیز گام پینٹ کرنے کے لیے کچھ زیادہ ہی بے چین دکھائی دیتے تھے۔ کچھ دیر بعد جمن سیڑھی لے آیا۔ ایک ہاتھ میں پینٹ کی بالٹی اور دُوسرے ہاتھ میں پینٹ کرنے والا برش پکڑے چچا تیز گام سیڑھی پر چڑھنے لگے۔ ان کے دونوں ہاتھوں میں چیزیں تھیں، اس لیے وہ سیڑھی کیسے پکڑتے۔ لہٰذا ابھی وہ دو تین سیڑھیاں ہی چڑھ پائے تھے کہ توازن برقرار نہ رکھ سکے اور پینٹ کی بالٹی سمیت زمین پر آ گرے۔ پینٹ چچا تیز گام کے چہرے اور کپڑوں پر گرا اور ان کے کپڑوں اور چہرے پر عجیب و غریب نقش و نگار بن گئے۔

’’کم بختو! تم کوئی ایک چیز ہم سے پکڑ نہیں سکتے تھے۔ سارا پینٹ گرا دیا۔ ‘‘ چچا تیز گام جمن اور استاد پر برس پڑے۔

’’اب یوں ٹکر ٹکر ہمارا منہ کیا دیکھ رہے ہو۔ یہ پینٹ کی بالٹی پکڑو۔ جب ہم اُوپر پہنچ جائیں تو ہمیں پینٹ کی بالٹی پکڑانا۔ ‘‘ چچا تیز گام غصے سے بولے اور ایک بار پھر سیڑھی پر چڑھنے لگے۔ جمن نے ان کو پینٹ کی بالٹی پکڑا دی۔ چچا تیز گام نے برش بالٹی میں ڈبویا اور دیوار پر پینٹ کرنے لگے۔ جلدی میں انہوں نے اپنے چہرے سے پینٹ بھی صاف نہیں کیا تھا۔

’’ارے۔۔ یہ کیا۔۔! یہ پینٹ تو بہت گاڑھا ہے۔ یہ پتلا کس طرح ہو گا؟‘‘چچا تیز گام بولے۔ انہوں نے کئی مرتبہ برش کو دیوار پر پھیرا لیکن دیوار پہ پینٹ لگ ہی نہیں رہا تھا۔

’’اوہ۔۔ اب ہم سمجھے۔ یہ پینٹ دیوار پر کیوں نہیں لگ رہا۔ جمن! استاد!۔۔ جاؤ۔۔ جلدی سے ریگ مال لے کر آؤ اور دیوار کو اچھی طرح صاف کرو، پہلے پینٹ کے ہوتے ہوئے دُوسرا پینٹ بھلا کس طرح دیوار پر ٹھہر سکتا ہے۔ ‘‘ چچا تیز گام بولے۔

جمن اور استاد چچا تیز گام کے سامنے مجبور تھے۔ کئی گھنٹے لگا کر دونوں نے کمرے کی دیواروں اور چھت سے پینٹ کھرچ کھرچ کر صاف کیا۔ چچا تیز گام اس دوران مسلسل ان کی نگرانی کرتے رہے۔ کچھ دیر بعد چچا تیز گام دوبارہ پینٹ کرنے لگے، مگر اس مرتبہ بھی پینٹ دیوار پر نہ لگا۔

’’مالک! آپ نے اس میں مٹی کا تیل ملایا تھا؟‘‘ جمن نے پوچھا۔

’’نہیں، مالک نے تیل نہیں بلکہ چینی کا شیرہ ملایا تھا۔ ‘‘ استاد بول اٹھا۔

’’کیا۔۔!!!‘‘ چچا تیز گام چلا اٹھے۔

تو کیا وہ چینی کا شیرہ تھا، کم بخت! تم نے پہلے مجھے کیوں نہیں بتایا۔ ‘‘

’’مالک! میں تو بتانے لگا تھا، لیکن آپ نے سنا ہی نہیں۔ ‘‘ استاد بُرا سا منہ بنا کر بولا۔

’’اب زیادہ باتیں نہ بناؤ جاؤ جا کر مٹی کا تیل لے کر آؤ۔ ‘‘

چچا تیز گام جھنجھلا کر بولے۔ استاد بھاگ کر بازار سے مٹی کا تیل لے آیا۔ مٹی کا تیل ملا کر چچا تیز گام پینٹ کرنے لگے تو پینٹ دیوار پر چپکنے لگا۔

’’یہ ہوئی نا بات! اب آئے گا مزہ۔ ‘‘ چچا تیز گام پینٹ کرتے ہوئے بولے۔ کافی پینٹ تو پہلے ہی گر چکا تھا۔ اس لیے کچھ ہی دیر بعد پینٹ ختم ہو گیا اور چچا تیز گام ویسے بھی برش کو خوب ڈبو ڈبو کر پینٹ کر رہے تھے۔ برش سے بہت سا پینٹ ان کی شیروانی اور ٹوپی کو بھی لگ گیا تھا۔ چچا تیز گام استاد سے مزید پینٹ منگوانے کا سوچ ہی رہے تھے کہ بیگم میکے سے آ گئی۔

’’یہ۔۔ یہ۔۔ کیا ہے؟‘‘ کمرے اور چچا تیز گام کی حالت دیکھ کر بیگم چلائی۔   کمرہ کباڑ خانے کا منظر پیش کر رہا تھا۔

’’یہ پینٹ کیا ہے ہم نے۔ تم کئی دنوں سے پینٹ کروانے کا کہہ رہی تھی نا! تو بس ہم نے خود ہی پینٹ کر دیا ہے۔ ‘‘ چچا تیز گام فخر سے بولے۔

’’لیکن میں نے یہ تو نہیں کہا تھا کہ آپ خود ہی پینٹ کرنے لگ جائیں۔ ‘‘ بیگم جل بھن کر بولیں۔

’’پینٹ کرنے والا آدمی تو بہت زیادہ روپے مانگ رہا تھا۔ میں نے سوچا خود ہی پینٹ کر لیتا ہوں، پینٹ ختم ہو گیا ہے، استاد جاؤ اور پینٹ۔۔‘‘

بیگم ان کی بات کاٹتے ہوئے بولی: ’’بس بس بہت ہو گیا پینٹ۔ کل کسی رنگ ساز کو بلا کر پینٹ کروائیں گے۔ اور یہ۔۔ یہ۔۔ یہ کیا ہے؟‘‘ بیگم کچھ کہتے کہتے اچانک رک گئیں۔ اور دیوار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولیں۔ دیوار پر جہاں چچا تیز گام نے پینٹ کیا تھا۔ وہاں بے شمار مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں۔ چچا تیز گام کی ٹوپی اور شیروانی پر بھی بہت سی مکھیاں بیٹھی تھیں۔

’’بیگم صاحبہ! مالک نے پینٹ میں شیرہ ملایا تھا۔ یہ سب اسی شیرے کی کارستانی ہے۔ ‘‘ استاد بول اٹھا۔

’’پینٹ میں شیرہ۔۔؟‘‘ بیگم نے حیرت سے کہا تو استاد فوراً تمام قصہ سنانے لگا۔ جب کہ چچا تیز گام مسمی صورت بنائے دیوار پر بھنبھناتی مکھیوں کو تک رہے تھے۔

٭٭٭

 

 

 

 

چچا تیز گام نے فون سنا

 

چچا تیز گام کے گھر کے فون کی گھنٹی بجی، دوپہر کا وقت تھا۔ ابھی کچھ دیر پہلے ہی وہ دوپہر کا کھانا کھا کر فارغ ہوئے تھے۔ ان کا معمول تھا کہ وہ روزانہ دوپہر کے کھانے کے بعد قیلولہ ضرور کرتے تھے۔ آج بھی وہ اپنے معمول کے مطابق قیلولہ کرنے کے لیے بستر پر لیٹے ہی تھے کہ فون کی گھنٹی بج اٹھی۔

’’جمن۔۔! او۔۔ جمن!۔۔ استاد۔۔! ارے کہاں مر گئے تم دونوں، فون کی گھنٹی گھنٹے سے بج رہی ہے اور تم ہو کہ تمہارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی‘‘ چچا تیز گام بستر پر لیٹے ہوئے چلّائے۔

’’جج۔۔ جی۔۔ مالک!‘‘ ان کی آواز سن کر جمن اور استاد دونوں کمرے میں رکھے فون کی طرف دوڑے اور بیک وقت دونوں نے جھک کر فون کی طرف ہاتھ بڑھائے تو دونوں کے سر آپس میں بُری طرح ٹکرا گئے اور وہ دونوں اپنے سر پکڑ کر بیٹھتے چلے گئے

’’ارے ہائیں۔۔ بیگم! یہ ہمارے گھر میں ناریل کہاں سے آ گئے اور وہ بھی

بے موسم کے۔۔ کیوں کہ ناریلوں کا موسم تو ابھی آیا ہی نہیں ‘‘ کمرے سے چچا تیز گام کی حیرت بھری آواز سنائی دی

’’ناریل۔۔ کہاں ہیں ناریل۔۔؟ آپ کہیں ناریلوں کا خواب تو نہیں دیکھ رہے۔ ‘‘ بیگم اُن کی آواز سن کر کمرے میں آ گئیں۔

’’بیگم! تم بھی کمال کرتی ہو، بھلا ناریل بھی کوئی خواب میں نظر آنے کی چیز ہے۔ ہم نے تو ابھی جاگتے میں ناریلوں کے ٹکرانے کی آواز سنی ہے۔ ‘‘ چچا تیز گام بُرا سا منہ بنا کر بولے

’’ناریلوں کی آواز بھلا یہاں کہاں سے آ گئی‘‘ بیگم حیرت سے بولیں۔

’’بب۔۔ بیگم صاحبہ! وہ۔۔ وہ۔۔ ناریل نہیں۔۔ ہمارے سر ٹکرائے تھے۔ ‘‘ فون کے کمرے سے اُستاد کی آواز سنائی دی۔

’’کیا کہا۔۔ سر ٹکرائے تھے۔۔؟ کم بختو!میں نے تو تمہیں فون سننے کے لیے کہا تھا اور تم سر ٹکرانے بیٹھ گئے۔ ‘‘ چچا تیز گام چلآ کر بولے۔

’’مم۔۔ مالک! وہ۔۔ وہ۔۔ دراصل۔۔‘‘جمن نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ فون جو کہ بج بج کر خاموش ہو گیا تھا دوبارہ گنگنا اُٹھا۔

’’کیا وہ۔۔ وہ لگا رکھی ہے، چلو ہٹو ہم خود فون سن لیتے ہیں ‘‘ چچا تیز گام بستر سے اُٹھ کر فون کے پاس آ گئے۔

’’السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!‘‘ وہ ریسیور کان سے لگاتے ہوئے بولے۔

’’وعلیکم السلام۔۔ جی و علیکم السلام۔۔ کیا نواب صاحب گھر پر ہیں ؟‘‘ دُوسری طرف موجود شخص کوئی دیہاتی معلوم ہوتا تھا۔

’’نواب صاحب۔۔؟ کون سے نواب صاحب۔۔؟ یہاں تو کوئی نواب صاحب نہیں رہتے۔ یہاں تو بس ہم رہتے ہیں۔ ‘‘ چچاتیز گام بولے۔

’’تو کیا یہ نواب تنویر احمد صاحب کا گھر نہیں ہے؟‘‘

نہیں تو ارے ہائیں۔۔ کیا کہا۔۔ نواب تنویر احمد ہاں۔۔! ہاں بھئی یہ نواب تنویر احمد صاحب کا ہی گھر ہے اور ہم نواب تنویر احمد ہی بات کر رہے ہیں۔ ‘‘ چچا تیز گام با رعب انداز میں بولے۔

’’نواب صاحب! میں چوہدری شیر محمد کے گاؤں سے ان کا ملازم بالی بات کر رہا ہوں۔ ‘‘ دُوسری طرف سے کہا گیا۔

’’اوہ۔۔ بھئی ہمارے دوست چوہدری صاحب کا کیا حال ہے۔۔؟‘‘

’’وہ تو۔۔ ایک منٹ نواب صاحب ہولڈ کیجئے گا۔ ‘‘ وہ کچھ کہتے کہتے رُک گیا۔ شاید اسے کسی نے آواز دی تھی۔

’’وہ تو مر گئے ہیں، ہاں تو جی نواب صاحب۔۔!‘‘

’’کیا!!!۔۔‘‘ اُس کا یہ جملہ سن کر چچا تیز گام چلّا اٹھے۔ ریسیور ان کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔

’’محمود کے ابا کیا ہوا؟‘‘ ان کے چلّانے پر بیگم گھبرا کر دوڑی ہوئی آئیں۔

’’بیگم!۔۔ بیگم۔۔! ہمارا پیارا دوست شیر محمد اس بھری دُنیا میں ہمیں تنہا چھوڑ کر چلا گیا ہے۔ ہائے۔۔ اب ہم کس کو دوست کہہ کر پکاریں گے۔ ‘‘ یہ کہہ کر چچا تیز گام زمین پر بیٹھ کر زور زور سے رونے لگے۔

’’اوہ۔۔! تو کیا بھائی شیر محمد انتقال کر گئے ہیں۔ ‘‘ بیگم بولیں۔

’’جی ہاں ! ابھی گاؤں سے ان کے ملازم کا فون آیا تھا، کہ وہ مر گئے ہیں، ہائے۔۔ کتنے پیار سے وہ ہمیں ہر سال آم بھیجا کرتے تھے۔ اور ہمیں نواب تنویر احمد کہا کرتے تھے۔ ایک وہی تو تھے جو ہمیں ہمارے اصلی نام سے یعنی نواب کہہ کر پکارا کرتے تھے۔ ہائے اب ہمیں نواب تنویر احمد کون کہا کرے گا۔ ‘‘ چچا تیز گام کے رونے کی آواز اور بھی تیز ہو گئی تھی۔

’’اِن للّہ و اِنّ الیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ کو یہی منظور تھا۔ آپ خود کو سنبھالیے اور صبر کیجئے، اﷲ تعالیٰ شیر محمد بھائی کو جنت الفردوس میں جگہ نصیب فرمائے۔ ‘‘

’’آمین۔ ‘‘ چچا تیز گام نے روتے ہوئے کہا۔

’’بیگم! تم جلدی سے ہماری شیروانی استری کر دو۔ ہم اپنے دوست کے جنازے میں جائیں گے۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے شدّتِ غم سے ان کی ہچکی بندھ گئی۔

’’آپ حوصلہ رکھیں میں ابھی آپ کی شیروانی استری کر دیتی ہوں۔ کیا آپ اکیلے جائیں گے؟‘‘ بیگم نے پوچھا۔

’’گلو میاں اور پہلوان جی بھی ہمارے ساتھ جائیں گے، جمن! جاؤ، تم اُن دونوں کو بتا کر آؤ، اور ان سے کہنا ذرا جلدی آ جائیں۔ ‘‘ چچا تیز گام بولے۔ گلو میاں اور پہلوان جی کے آنے تک بیگم نے اُن کی شیروانی استری کر دی، چچا تیز گام نے بے دلی سے شیروانی پہنی، وہ دونوں آئے تو چچا تیز گام پہلوان جی کے گلے لگ کر رونے لگے۔

’’ہائے گلو۔۔! ہمارا دوست ہمیں چھوڑ کر چلا گیا، ہم برباد ہو گئے، گلو! ہم لٹ گئے۔ ‘‘

چچا تیز گام کو روتا دیکھ کر اُن دونوں کی آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے۔ کیوں کہ چوہدری شیر محمد ان کے بھی دوست تھے۔ وہ بڑی محبت سے ان کے لیے گاؤں سے آم بھیجا کرتے تھے۔ چچا تیز گام کے گھر ہر سال جون میں ہونے آم پارٹی انہی کی مرہونِ منت تھی۔

’’جنازہ کتنے بجے ہے؟‘‘ گلو میاں نے پوچھا۔

’’یہ تو میں نے نہیں پوچھا۔ اب وہ میرے بغیر تو میرے دوست کو نہیں دفنا سکتے۔ میں جاؤں گا تو جنازہ ہو گا۔ ‘‘ چچا تیز گام بولے۔

’’اگر ہم بس یا ٹرین سے گئے تو بہت دیر ہو جائے گی، کیوں نہ ہم شبراتی حلوائی سے ان کی وین کے بارے میں بات کر لیں۔ اُمید ہے وہ راضی ہو جائیں گے۔ ‘‘ پہلوان جی نے تجویز پیش کی۔

’’ہاں یہی ٹھیک رہے گا۔ چلو شبراتی کے پاس چلتے ہیں۔ ‘‘ گلو میاں بولے۔

وہ تینوں شبراتی حلوائی کی دُکان پر پہنچے تو چچا تیز گام کے پڑوسی طیب قاسمی اور     عمر فاروق شبراتی کے ساتھ ان کی دُکان میں بیٹھے گرما گرم سموسوں سے انصاف کر رہے تھے۔

’’آؤ۔۔آؤ۔۔ بھئی تیز گام۔۔! تم تو عید کا چاند ہی ہو گئے بڑے دنوں بعد آئے ہو، چلو شکر ہے آ تو گئے۔ آج میں نے بہت ہی زبردست اور خستہ سموسے بنائے۔۔‘‘ شبراتی کہتے کہتے اچانک رک گیا۔

’’ارے۔۔ یہ کیا۔۔! تیز گام یہ میں دیکھ رہا ہوں تمہارے منہ پر بارہ کیوں بجے ہوئے ہیں۔ ‘‘

شبراتی حیرت سے انہیں تکتے ہوئے بولا۔

’’شبراتی میاں ! اس وقت ہمارے چہرے پر تیرہ چودہ بل کہ پندرہ سولہ بھی بج جائیں تو وہ بھی کم ہیں۔ ‘‘ چچا تیز گام اُداس سے لہجے میں بولے

’’کیوں بھئی آخر ایسا کیا ہو گیا۔۔؟‘‘

’’یار وہ جو اپنے تیز گام کا دوست تھا نا چوہدری شیر محمد۔۔ وہ فوت ہو گیا ہے۔ ‘‘ گلّو میاں بولے

’’کیا۔۔!!!‘‘ شبراتی چلّا اٹھا۔

طیب قاسمی اور عمر فاروق بھی سموسے کھانا چھوڑ کر ان کی طرف متوجہ ہو گئے۔

’’وہی نا جو ہر سال آم بھیجا کرتا تھا۔ ‘‘

’’ہاں۔۔ ہاں۔۔ وہی۔۔ ہم اس کے جنازے میں جا رہے ہیں۔ اگر تمہارے پاس وقت ہو تو تم بھی ہمارے ساتھ چلو۔ اگر ہم تمہاری وین میں جائیں گے تو وقت کم لگے گا۔ ‘‘ پہلوان جی بولے۔

’’ہاں۔۔! بھئی کیوں نہیں، تیز گام کا دوست ہمارا دوست ہے۔ ہم ضرور چلیں گے۔ ‘‘ شبراتی بولا۔

’’اور ہم بھی چلیں گے، آخر ہم چچا تیز گام ہمارے پڑوسی ہیں۔ ‘‘ طیب قاسمی اور عمر فاروق بھی بولے۔ شبراتی نے اپنی دوکان بند کی اور کچھ دیر بعد وہ سب وین میں سوار شیر محمد کے گاؤں کی طرف جا رہے تھے۔ مارے غم کے چچا تیز گام کی حالت بُری تھی۔ رو، رو کے ان کا بُرا حال ہو چکا تھا۔ انہیں شیر محمد کے گاؤں پہنچتے پہنچتے عصر کا وقت ہو گیا تھا۔

’’یہاں تو کوئی بھی نہیں ہے۔ جب کہ فوتگی والے گھر تو کافی لوگ جمع ہوئے ہیں۔ ‘‘ وہ شیر محمد کے گھر کے باہر پہنچے تو شبراتی بولا۔

’’ارے۔۔! کہیں میّت کو لے کر قبرستان تو نہیں چلے گئے‘‘ چچا تیز گام بولے۔

اتنے میں شیر محمد کے گھر سے ان کا بیٹا نکلا۔ چچا تیز گام تیر کی طرح اس کی طرف باہیں پھیلائے لپکے۔ وہ اُن کو جانتا تھا۔

’’ہائے۔۔ بیٹا حامد۔۔! ہمارا دوست کیسے فوت ہو گیا؟چند دن پہلے تو ہماری اُن سے بات ہوئی تھی، خیر سے چنگا بھلا تھا۔ آ۔۔ہ! ہمیں کیا پتہ تھا کہ ہم اپنے دوست سے آخری مرتبہ بات کر رہے ہیں۔ ہائے۔۔! ہم تو اُس سے جی بھر کر باتیں بھی نہیں کر سکے۔ ‘‘ چچا تیز گام روتے ہوئے زور زور سے بولتے چلے جا رہے تھے۔

’’آپ کس دوست کی بات کر رہے ہیں ؟‘‘ شیر محمد کے بیٹے حامد نے نے حیرت سے چچا تیز گام کو تکتے ہوئے سوال کیا۔

’’میں آپ کے ابّا جان یعنی اپنے دوست شیر محمد کی بات کر رہا ہوں۔ ‘‘

’’یہ آپ سے کس نے کہہ دیا کہ میرے ابا جان۔۔‘‘ حامد نے ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ گھر سے شیر محمد نکل آیا۔

’’ارے۔۔ شیر محمد۔۔! کیا تم زندہ ہو۔۔‘‘ چچا تیز گام حیرت سے بولے۔ گلّو میاں اور پہلوان جی وغیرہ بھی تعجب سے شیر محمد کو دیکھ رہے تھے

’’تو کیا تمہارے خیال میں مجھے مرا ہوا ہونا چاہیے تھا!‘‘

’’نہیں۔۔ لیکن۔۔ لیکن۔۔ ہمیں تو یہی فون موصول ہوا تھا کہ تم مر گئے ہو۔ ‘‘ چچا تیز گام بولے۔

’’کیا۔۔! یہ فون تمہیں کس نے کیا تھا، حامد! بالی کو بلا کر لاؤ۔ ‘‘ شیر محمد بولا۔

’’آپ لوگ اندر آ جائیے۔ ‘‘ پھر وہ شیر محمد کے ساتھ ان کی بیٹھک میں آ گئے۔ کچھ ہی دیر بعد حامد بالی کو لے کر آ گیا۔

’’بالی! تم نے انہیں فون کیا تھا؟‘‘ شیر محمد نے پوچھا۔

’’جی ہاں۔۔ چوہدری صاحب! آپ نے ہی تو کہا تھا انہیں فون کرنے کو۔۔‘‘ بالی بولا۔

’’لیکن میں نے یہ تو نہیں کہا تھا کہ تم میرے مرنے کی اطلاع دو۔ ‘‘ شیر محمد نے بالی کو گھورتے ہوئے کہا۔

’’لیکن چوہدری صاحب میں نے ان کو ایسی کوئی اطلاع نہیں دی۔ ‘‘

’’ہائیں۔۔ کیا کہا۔۔ اف خدا!، توبہ ہے کیا زمانہ آ گیا ہے۔ لوگ کس دھڑلے سے جھوٹ بولتے ہیں۔ جب میں نے پوچھا تھا کہ ہمارے دوست چوہدری شیر محمد کا کیا حال ہے، تو تم نے کہا تھا وہ تو مر گئے ہیں۔ ‘‘ چچا تیز گام نے کہا۔

’’اوہ۔۔ تو یہ بات ہے، چوہدری صاحب، اصل میں نواب صاحب کو غلط فہمی ہوئی ہے، ہوا یہ تھا کہ میں نے انہیں فون کیا تو پہلی مرتبہ تو کسی نے اُٹھایا ہی نہیں۔ دوسری مرتبہ انہوں نے خود اُٹھایا میں ان سے بات کر ہی رہا تھا کہ حامد نے اسی دوران مجھے آواز دی تو میں نواب صاحب کو فون ہولڈ کروا کر حامد کی بات سننے لگا۔ حامد مجھ سے آم کے درختوں کے پتوں پر موجود کیڑوں کے بارے میں پوچھ رہا تھا کہ سپرے کرنے سے وہ مر گئے ہیں یا نہیں، تو وہ ’’مر گئے ہیں ‘‘ میں نے ان کیڑوں کے بارے میں کہا تھا۔ نواب صاحب نے میری اگلی بات سنی ہی نہیں اور جھٹ سے فون بند کر دیا۔ ‘‘ بالی تفصیل بتاتے ہوئے بولا۔

’’اگر یہ ایسا نہ کریں تو انہیں چچا تیز گام کون کہے گا۔ ‘‘ پہلوان جی بُرا سا منہ بنا کر بولے۔ سب کو اس وقت چچا تیز گام پر بہت غصہ آ رہا تھا۔

’’ویسے بھئی شیر محمد تم ہمیں فون کیوں کروا رہے تھے؟‘‘ چچا تیز گام نے پوچھا۔

’’لو بھلا یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے۔ بھئی۔۔ آم پک چکے ہیں، ہم نے سوچا اس مرتبہ آم تمہارے پاس شہر بھیجنے کی بجائے تمہیں اور تمہارے دوستوں کو یہیں بلا کر آم پارٹی کی جائے۔ ‘‘ شیر محمد بولے۔

’’واہ۔۔ بھئی۔۔ واہ ہّرا۔ ‘‘ آم پارٹی کا سن کر چچا تیز گام نے زوردار نعرہ لگایا۔

’’ پھر تو ہم نے اپنے دوستوں کو ساتھ لا کر اچھا ہی کیا ہے۔ کیوں کہ ہمیں پہلے ہی پتہ تھا ہمارا دوست ہمیں آم کھلائے بغیر بھلا کس طرح مر سکتا ہے۔ ‘‘ چچا تیز گام فخر سے بولے اُن کے یوں کہنے پر شیر محمد نے گھور کر اُن کو دیکھا۔ اُن کے اس طرح گھورنے پر وہ سب ہنس پڑے۔

کچھ ہی دیر بعد وہ سب شیر محمد کے باغ میں بیٹھے موٹے موٹے، پیلے پیلے اور رس بھرے آموں سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

چچا تیز گام کو ڈینگی بخار ہوا

 

چچا تیز گام کے گھر کے سامنے لگے رش کو دیکھ کر گلو میاں اور پہلوان جی چونک اٹھے اور ان کے چلتے ہوئے قدم رک گئے۔

’’گلو میاں ! یہ لوگ چچا تیز گام کے گھر کے سامنے کیوں جمع ہیں ؟‘‘ پہلوان جی کے لہجے میں حیرت تھی۔

’’مجھے تو معلوم نہیں کہ معاملہ کیا ہے۔ ‘‘ گلو میاں نے کہا۔

’’کیوں بھائی شبراتی! یہ چچا تیز گام کے گھر کے سامنے اتنا رش کیوں لگا ہوا ہے؟‘‘ گلو میاں نے چچا تیز گام کے گھر کے سامنے کھڑے ان کے پڑوسی سے پوچھا۔

’’آپ کو نہیں پتہ!‘‘ شبراتی نے حیرت سے اُن دونوں کی طرف دیکھا۔

’’اگر پتہ ہوتا تو آپ سے کیوں پوچھتے۔ ‘‘ پہلوان جی بُرا سا منہ بنا کر بولے۔

’’حیرت ہے، کمال ہے، تعجب ہے بلکہ افسوس ہے۔ یہ بات تو سب کو معلوم ہے، مگر دوست ہونے کے باوجود آپ کو کچھ بھی معلوم نہیں۔ ‘‘ شبراتی نے تعجب کا اظہار کیا۔

’’ہم دونوں شہر سے باہر گئے ہوئے تھے۔ آج ہی واپس آئے ہیں۔ ویسے چچا تیز گام کو ہوا کیا ہے؟‘‘ پہلوان جی نے پوچھا۔

’’بے چارے چچا تیز گام کو ڈینگی بخار ہو گیا ہے۔ یہ سب لوگ اُن کی عیادت کے لیے آئے ہیں۔ ‘‘ شبراتی نے بتایا۔

’’کیا۔۔‘!‘ پہلوان جی اور گلو میاں یک زبان ہو کر بولے۔

کچھ دیر پہلوان جی اور گلو میاں چچا تیز گام کے کمرے میں پہنچے تو انہوں نے دیکھا کمرے کے بالکل درمیان میں بچھے پلنگ پر ایک بڑی سی مچھر دانی لگی ہوئی تھی۔ پلنگ کے چہار اطراف جلتی ہوئی مچھر مار کوائل کا دھواں کمرے میں پھیلا ہوا تھا۔ جیسے ہی گلو میاں اور پہلوان جی کمرے میں داخل ہوئے دھوئیں سے اُن کو اپنا دم گھٹا ہوا محسوس ہوا۔ پلنگ کے دائیں طرف جمن دنیا و مافیھا سے بے نیاز سیب کا جوس بنانے میں مشغول تھا۔ اُس کے پاس ہی سیب کی پانچ چھ پیٹیاں رکھی ہوئی تھیں اور بائیں جانب استاد انار کی چھ سات پیٹیاں رکھے انار کا عرق کشید کرنے میں مصروفِ عمل تھا۔ پلنگ کے ساتھ رکھی میز پر پپیتے کی قاشیں اور پپیتے کے پتوں کا قہوہ تھرماس میں رکھا ہوا تھا اور تھرماس کے ساتھ ہی پینا ڈول کی گولیاں بھی رکھی ہوئی تھیں۔ اُس وقت چچا تیز گام پلنگ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کے ایک ہاتھ میں سیب کے جوس کا گلاس جب کہ دُوسرے ہاتھ میں انار کے جوس کا گلاس تھا۔ چچا تیز گام وقفے۔۔ وقفے سے جوس کی چسکیاں لے رہے تھے۔

’’آؤ۔۔ آؤ۔۔ میرے دوستو۔۔! میں تمہیں ہی یاد کر رہا تھا۔ ‘‘ چچا تیز گام نے پہلوان جی اور گلو میاں کو دیکھتے ہوئے کہا۔

’’ارے بھئی تیز گام! ہم تو تمہیں اچھا بھلا چھوڑ کر گئے تھے۔ یہ ڈینگی بخار تمہیں کیسے گیا؟‘‘ پہلوان جی بولے۔

’’ارے بھئی کیا بتائیں۔ کل شام ہم صحن میں عروج فاطمہ اور محمود کے ساتھ بیٹھے ان کا ہوم ورک چیک کر رہے تھے کہ اچانک ہمیں اپنے ہاتھ پر چبھن کا احساس ہوا۔ ہم نے دیکھا تو ایک مچھر ہمارے ہاتھ پر بیٹھا ہوا تھا، ہم صبح اٹھے تو تیز بخار سے پورا بدن تپ رہا تھا۔ سانپ کا ڈسا تو صرف پانی نہیں مانگتا جب کہ ڈینگی مچھر کا کاٹا ہوا تو کچھ بھی نہیں مانگتا۔ ‘‘ چچا تیز گام اپنی داستانِ ڈینگی سناتے ہوئے بولے۔

’’تو پھر آپ نے کوئی دوا وغیرہ بھی لی ہے یا نہیں۔ ‘‘ گلو میاں نے پوچھا۔

’’یہ دوا ہی تو ہے۔ ‘‘ چچا تیز گام ہاتھوں میں پکڑے ہوئے سیب اور انار کے جوس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولے۔

’’اس کے علاوہ ہم پینا ڈول کی گولیاں بھی کھا رہے ہیں۔ ‘‘

’’سنا ہے اس ڈینگی بخار میں تو جسم کا ایک ایک جوڑ درد کرتا ہے۔ ‘‘ عیادت کے لیے آئے ہوئے چچا تیز گام کے پڑوسی شیخ طیب قاسمی بولے۔

’’ہاں بھئی واقعی۔ اسی لیے تو اسے ہڈی توڑ بخار کہا جاتا ہے۔ ‘‘ شبراتی حلوائی بول اٹھے۔

’’آ۔۔ہ میں بھی تو کہوں میرا پورا جسم کیوں درد کر رہا ہے۔ جمن۔۔! او جمن۔۔! استاد۔۔! کہاں مر گئے ہو تم دونوں۔۔ میرے ہاتھ پاؤں دباؤ۔۔‘‘ چچا تیز گام یہ باتیں سن کر چلّائے۔ جمن اور استاد جوس بنانا چھوڑ کر فوراً چچا تیز گام کی طرف لپکے اور انہیں دبانے لگے۔

’’چچا تیز گام۔۔! آپ پپیتے کے پتوں کا قہوہ بنا کر پئیں۔ ‘‘ پہلوان جی نے مشورہ دیا۔

’’وہ تو ہم پی ہی رہے ہیں۔ اُف کتنا کڑوا ہوتا ہے پپیتے کے پتوں کا قہوہ۔ ہم تو کریلا اور نیم چڑھا کہا کرتے تھے، لیکن پپیتے کے پتوں کا قہوہ پی کر لگتا ہے محاورہ بھی بدلنا پڑے گا کریلا اور پپیتا چڑھا۔۔ اے۔۔ ہے۔۔ ایک۔۔ منٹ۔۔ ایک منٹ خبردار۔ پہلوان جی اپنی جگہ سے ہلنا مت۔ ‘‘ اچانک چچا تیز گام چلا اٹھے اور ایک جھٹکے سے یوں اٹھ بیٹھے جیسے انہیں کسی بچھو نے کاٹ لیا ہو۔ پھر انہوں نے ایک زور دار چپت پہلوان جی کی چمکتی ہوئی چندیا پر جڑ دی۔ یہ سب کچھ اتنی تیزی میں ہوا کہ سب ہکا بکا رہ گئے۔ غصے کے مارے پہلوان جی کا چہرہ سرخ ہو ر ہا تھا۔

’’چچا تیز گام یہ تم نے کیا کیا!‘‘ پہلوان جی دھاڑے۔

’’اوہو۔۔ پہلوان جی آپ تو غصے ہو رہے ہو، ارے بھائی آپ میرا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ میں نے آپ کو ڈینگی سے بچا لیا ہے۔ ‘‘ چچا تیز گام بولے۔

’’ڈینگی سے بچا لیا! کیا مطلب؟‘‘

’’یہ دیکھو۔ یہ نامراد ڈینگی مچھر تمہاری چندیا پر کاٹ رہا تھا۔ وہ تو شکر ہے ہم نے دیکھ لیا۔ ورنہ تمہاری حالت بھی ہمارے جیسی ہوتی۔ ‘‘ چچا تیز گام ہاتھ میں پکڑے ہوئے مردہ مچھر کو پہلوان جی کی آنکھوں کے سامنے لہراتے ہوئے بولے۔

’’اوہ۔۔ تیز گام بھائی پھر تو واقعی آپ کا شکریہ۔ ‘‘ پہلوان جی اپنی چندیا کو سہلاتے ہوئے بولے۔

’’اچھا بھئی تیز گام۔۔! اب ہم چلتے ہیں۔ تم آرام کرو اور سیب انار کا جوس اور پپیتے کے پتو کا قہوہ پیتے رہو اور پینا ڈول گولی کھاتے رہو ان شاء اﷲ تم چند ہی دنوں میں ٹھیک ہو جاؤ گے۔ ‘‘ پہلوان جی اٹھتے ہوئے بولے۔

پھر دونوں وہاں سے چلے گئے۔

چچا تیز گام کو ڈینگی بخار میں مبتلا ہوئے تقریباً ایک ہفتہ ہو چکا تھا۔ اس دوران چچا تیز گام برابر سیب اور انار کے جوس کا استعمال کرتے رہے۔ بیگم پپیتے کا قہوہ بنا کر جب کہ جمن اور استاد سیب اور انار کا جوس بنا بنا کر نڈھال ہو چکے تھے۔ ان اقدامات کے باوجود چچا تیز گام کا بخار تھا کہ اترنے میں نہیں آ رہا تھا۔ ڈینگی مچھر کی چچا تیز گام پر اتنی دھاک بیٹھ چکی تھی کہ وہ ایک پل کے لیے بھی مچھر دانی سے باہر نہ نکلتے تھے۔

’’ارے بھئی تیز گام! تمہیں ڈینگی بخار ہوا اور تم نے ہمیں بتایا ہی نہیں۔ وہ تو شکر ہے۔ تمہارے محلے کا ایک مریض میرے پاس آیا تو مجھے پتہ چلا اور میں فوراً تمہارے پاس دوڑا چلا آیا ہوں۔ ‘‘ چچا تیز گام کے دوست ڈاکٹر عمر فاروق کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولے۔

’’ڈاکٹر صاحب! کیا بتائیں۔ اس نگوڑے مارے ڈینگی بخار نے تو ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ ‘‘ چچا تیز گام بے بسی سے بولے۔

’’تم نے کہیں سے چیک اپ بھی کروایا ہے یا نہیں ؟‘‘ ڈاکٹر عمر نے پوچھا۔

’’ڈاکٹر صاحب چیک اپ کیا کروانا ہے۔ ہمیں معلوم ہے یہ سب کم بخت ڈینگی مچھر کی کارستانی ہے۔ ‘‘ چچا تیز گام نے کہا۔

’’نہیں بھئی ٹیسٹ تو تمہیں ضرور کروانا چاہیے تھا۔ چلو میں اپنے کلینک سے لڑکے کو بھیجتا ہوں وہ تمہارے خون کا نمونہ لے جائے گا۔ میں لیبارٹری میں ٹیسٹ کر کے رپورٹ تمہیں بھجوا دوں گا۔ ‘‘ ڈاکٹر عمر بولے۔

کچھ دیر بعد ایک لڑکا چچا تیز گام کے خون کا نمونہ لینے آ گیا۔ شام کو ڈاکٹر عمر رپورٹ ہاتھ میں لیے کمرے میں داخل ہوئے۔

’’یار تیز گام! تمہارے جیسا تیز بندہ نہ دیکھا نہ سنا، بیمار ہونے میں بھی تم اپنی تیزی دکھانے سے بعض نہیں آئے۔ ‘‘

’’کیوں بھئی آخر ایسا کیا کر دیا ہم نے۔۔‘‘ چچا تیز گام بُرا سا منہ بنا کر بولے۔

’’یہ پوچھو کیا نہیں کر دیا۔۔! یہ اپنی رپورٹ دیکھ رہے ہو۔ ‘‘ ڈاکٹر عمر ہاتھ میں پکڑی رپورٹ اُن کے سامنے لہراتے ہوئے بولے۔

’’جی ہاں۔۔! لیکن رپورٹ میں کیا ہے؟‘‘ چچا تیز گام نے پوچھا۔

’’رپورٹ کے مطابق تمہیں ڈینگی بخار نہیں ہے، تم ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر پینا ڈول کی گولیاں کھاتے رہے ہو، یاد رکھو جب بھی طبیعت خراب ہو فوراً ڈاکٹر سے رجوع کرو اور ڈاکٹر کی ہدایات پر عمل کرو۔ ‘‘ ڈاکٹر عمر نے یہ بتایا تو چچا تیز گام نے جمن اور استاد کی طرف دیکھا وہ سیب اور انار کا جوس بنانے میں مصروف تھے۔

’’تم دونوں اب مزید جُوس مت بناؤ، ہمیں ڈینگی بخار نہیں ہے، ہم ٹھیک ہیں۔ ‘‘ یہ کہہ کر چچا تیز گام نے مچھر دانی بھی اتار دی۔

یہ سن کر جمن اور استاد نے یک زبان ہو کر کہا۔

’’یا اﷲ تیرا شکر ہے۔ ‘‘

دروازے میں کھڑی چچا کی بیگم نے بھی یہ باتیں سن لی تھیں۔ اُن کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ پپیتے کا جوس بنا بنا کر بیگم کی حالت بھی جمن اور استاد سے مختلف نہ تھی۔

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید