چماروں کی گلی تک
عدم گونڈوی
(عدم گونڈوی کی مشہور ہندی نظم اردو رسم الخط میں)
آئیے محسوس کرئے زندگی کے تاپ1 کو
میں چماروں کی گلی تک لے چلوں گا آپ کو
جس گلی میں بھکمری کی یاتنا 2سے اوب کر
مر گئی پھلیا بچاری اک کوئیں میں ڈوب کر
ہے سدھی سر پر بنولی کنڈیوں کی ٹوکری
آ رہی ہے سامنے سے ہرکھوا کی چھوکری
چل رہی ہے چھند 3کے آیام 4کو دیتی دشا5
میں اسے کہتا ہوں سرجو پار کی مونالسا
کیسی یہ بھے بھیت 6ہے ہرنی سی گھبرائی ہوئی
لگ رہی جیسے کلی بیلا کی کمہلائی ہوئی
کل کو یہ واچال7 تھی پر آج کیسی مون8 ہے
جانتے ہو اس کی خاموشی کا کارن کون ہے
تھے یہی ساون کے دن ہرکھو گیا تھا ہاٹ کو
سو رہی بوڑھی اوسارے میں بچھائے کھاٹ کو
ڈوبتی سورج کی کرنیں کھیلتی تھیں ریت سے
گھاس کا گٹھر لئے وہ آ رہی تھی کھیت سے
آ رہی تھی وہ چلی کھوئی ہوئی جذبات میں
کیا پتہ اس کو کہ کوئی بھیڑیا ہے گھات میں
ہونی سے بے خبر کرشنا بے خبر راہوں میں تھی
موڑ پر گھومی تو دیکھا اجنبی بانہوں میں تھی
چیخ نکلی بھی تو ہونٹوں میں ہی گھٹ کر رہ گئی
چھٹپٹائی پہلے، پھر ڈھیلی پڑی، پھر ڈھہ گئی
دن تو سرجو کے کچھاروں میں تھا کب کا ڈھل گیا
واسنا9 کی آگ میں کوماریہ10 اس کا جل گیا
اور اس دن یہ حویلی ہنس رہی تھی موج میں
ہوش میں آئی تو کرشنا تھی پتا کی گود میں
جڑ گئی تھی بھیڑ جس میں زور تھا سیلاب تھا
جو بھی تھا اپنی سنانے کے لئے بیتاب تھا
بڑھ کے منگل نے کہا، ‘کاکا، تو کیسے مون ہے
پوچھ تو بیٹی سے آخر وہ درندہ کون ہے
کوئی ہو سنگھرش سے ہم پاؤں موڑیں گے نہیں
کچا کھا جائیں گے زندہ ان کو چھوڑیں گے نہیں
کیسے ہو سکتا ہے ہونی کہہ کے ہم ٹالا کریں
اور یہ دشمن بہو بیٹی سے منھ کالا کریں’
بولا کرشنا سے – ‘بہن، سو جا میرے انورودھ11 سے
بچ نہیں سکتا ہے وہ پاپی میرے پرتشودھ12 سے’
پڑ گئی اس کی بھنک تھی ٹھاکروں کے کان میں
وہ اکٹھے ہو گئے سرپنچ کے دالان میں
درشٹی13 جس کی ہے جمی بھالے کی لمبی نوک پر
دیکھیئے سکھراج سنگھ بولے ہیں کھینی ٹھونک کر
‘کیا کہیں سرپنچ بھائی! کیا زمانہ آ گیا
کل تلک جو پاؤں کے نیچے تھا رتبہ پا گیا
کہتی ہے سرکار کہ آپس میں مل جل کر رہو
سور کے بچوں کو اب کوری نہیں ہرجن کہو
دیکھیئے نہ یہ جو کرشنا ہے چماروں کے یہاں
پڑ گیا ہے سیپ کا موتی گنواروں کے یہاں
جیسے برساتی ندی الہڑ نشے میں چور ہے
نہ پٹھے پہ ہاتھ رکھنے دیتی ہے، مغرور ہے
بھیجتا بھی ہے نہیں سسرال اس کو ہرکھوا
پھر کوئی بانہوں میں اس کو بھینچ لے تو کیا ہوا
آج سرجو پار اپنے شیام سے ٹکرا گئی
جانے انجانے وہ لذت زندگی کی پا گئی
وہ تو منگل دیکھتا تھا بات آگے بڑھ گئی
ورنہ وہ مردود ان باتوں کو کہنے سے رہی
جانتے ہیں آپ منگل ایک ہی مکار ہے
ہرکھو اس کی شہ پہ تھانے جانے کو تیار ہے
کل صبح گردن اگر نپتی ہے بیٹے باپ کی
گاؤں کی گلیوں میں کیا عزت رہے گی آپ کی’
بات کا لہجہ تھا ایسا، تاؤ سب کو آ گیا
ہاتھ مونچھوں پر گئے ماحول بھی سنا گیا
شنک آویش13 جس میں ہر یووا 14تیمور تھا
ہاں، مگر ہونی کو تو کچھ اور ہی منظور تھا
رات جو آیا نہ اب طوفان وہ پر زور تھا
بھور15 ہوتے ہی وہاں کا درشیہ16 بالکل اور تھا
سر پہ ٹوپی بینت کی لاٹھی سنبھالے ہاتھ میں
ایک درجن تھے سپاہی ٹھاکروں کے ساتھ میں
گھیر کر بستی کہا حلقے کے تھانیدار نے
‘جس کا منگل نام ہو وہ ویکتی17 آئے سامنے’
نکلا منگل جھوپڑی کا پلہ تھوڑا کھول کر
اک سپاہی نے تبھی لاٹھی چلائی دوڑ کر
گر پڑا منگل تو ماتھا بوٹ سے ٹکرا گیا
سن پڑا پھر، ‘مال وہ چوری کا تو نے کیا کیا؟’
‘کیسی چوری، مال کیسا؟’ اس نے جیسے ہی کہا
ایک لاٹھی پھر پڑی بس، ہوش پھر جاتا رہا
ہوش کھو کر وہ پڑا تھا جھوپڑی کے دوار پر
ٹھاکروں سے پھر داروغہ نے کہا للکار کر
"میرا منھ کیا دیکھتے ہو! اسکے منھ میں تھوک دو
آگ لاؤ اور اس کی جھوپڑی بھی پھونک دو”
اور پھر پرتشودھ کی آندھی وہاں چلنے لگی
بے سہارا نربلوں18 کی جھوپڑی جلنے لگی
ددھ منہا بچہ و بڈھا جو وہاں کھیڑے میں تھا
وہ ابھاگا دین 19ہنسک 20بھیڑ کے گھیرے میں تھا
گھر کو جلتے دیکھ کر وہ ہوش کو کھونے لگے
کچھ تو من ہی من مگر کچھ زور سے رونے لگے
‘کہہ دو ان کتوں کے پلوں سے کہ اترائیں نہیں
حکم جب تک میں نہ دوں کوئی کہیں جائے نہیں’
یہ داروغہ جی تھے منھ سے شبد جھرتے پھول سے
آ رہے تھے ٹھیلتے لوگوں کو اپنے رول سے
پھر دہاڑے، ‘ان کو ڈنڈوں سے سدھارا جائے گا
ٹھاکروں سے جو بھی ٹکرایا وہ مارا جائے گا’
اک سپاہی نے کہا، ‘سائکل کدھر کو موڑ دیں
ہوش میں آیا نہیں منگل، کہو تو چھوڑ دیں’
بولا تھانیدار، ‘مرغے کی طرح مت بانگ دو
ہوش میں آیا نہیں تو لاٹھیوں پر ٹانگ لو
یہ سمجھتے ہیں کہ ٹھاکر سے الجھنا کھیل ہے
ایسے پاجی کا ٹھکانہ گھر نہیں ہے جیل ہے’
پوچھتے رہتے ہیں مجھ سے لوگ اکثر یہ سوال
‘کیسا ہے کہئے نہ سرجو پار کی کرشنا کا حال’
ان کی اتسکتا 21کو شہری نگنتا 22کے جوار کو
سڑ رہے جن تنتر 23کے مکار پیروکار کو
دھرم، سنسکرتی24 اور نیتکتا 25کے ٹھیکیدار کو
پرانت26 کے منتریگنوں27 کو کیندر 28کی سرکار کو
میں نمنترن29 دے رہا ہوں آئیں میرے گاؤں میں
تٹ پہ ندیوں کے گھنی امرائیوں کی چھاؤں میں
گاؤں جس میں آج پانچالی اگھاڑی جا رہی
یا اہنسا کی جہاں پر نتھ اتاری جا رہی
ہیں ترستے کتنے ہی منگل لنگوٹی کے لئے
بیچتی ہیں جسم کتنی کرشنا روٹی کے لئے
٭٭٭
1 گرمی
2ظلم
3 بحر، شاعری کی زمین
4 حجم، اطراف
5 سمت
6 خوف زدہ
7 چونچال
8 خاموش، ساکت
9 ہوس
10 کنوار پن
11 فرمائش، خواہش
12 انتقام
13 اندیشے بھرا
14 نو جوان
15 صبح
16 منظر
17 شخص
18 کمزوروں
19 مسکین
20 پر تشدد
21 اضطراب
22 ننگا پن
23 جمہوریت
24 تہذیب
25 اخلاق
26 صوبہ
27 وزیروں
28 مرکزی
29 دعوت
٭٭٭
ہندی سے اردو رسم الخط میں تبدیلی: اعجاز عبید
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید