FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

پیپل کی چھاؤں میں

 

 

 

                رضیہ اسماعیل

 

ماہیے

 

 

 

 

رضیہ اسماعیل  کے ماہئے

 

                حیدر قریشی

 

 

اُردو میں ماہیا نگاری کی جتنی مخالفت ہو رہی ہے اتنی ہی اسے مقبولیت حاصل ہو رہی ہے۔ تھوڑا عرصہ پہلے برمنگھم میں ممتاز ادیب اور صحافی محمود ہاشمی سے ٹیلی فون پر بات ہو رہی تھی۔ ماہیے کا ذکر ہو تو محمود ہاشمی نے بتایا کہ برمنگھم کی ایک شاعرہ اور مزاح نگار رضیہ اسماعیل بھی ماہیے کہہ رہی ہیں۔ مجھے اس خبر سے خوشی ہوئی تاہم ہلکا سا وسوسہ بھی رہا کہ یہ بھی کہیں عارضی قسم کی ماہیا نگار خاتون نہ نکلیں۔جب ان سے رابطہ ہوا تو میرا وسوسہ دُور ہو چکا تھا۔ وہ مجھ سے کسی رابطے کے بغیر محض ادبی تحریک سے اتنے ماہیے کہہ چکی تھیں کہ ان کا مجموعہ تیار ہو چکا تھا۔ جب رابطہ ہوا تو ان کا دوسرا ادبی کام سامنے آیا۔ خواتین کی ادبی و ثقافتی تنظیم ’’آگہی‘‘ قائم کرنے کے علاوہ تخلیقی سطح پر ان کے کام کی کئی جہات ہیں۔غزلوں کا مجموعہ ’’گلابوں کو تم اپنے پاس رکھو!‘‘ ، طنزیہ و مزاحیہ مضامین کا مجموعہ ’’چاند میں چڑیلیں‘‘ اور نثری نظموں (نثرِ لطیف) کا مجموعہ ’’میں عورت ہوں‘‘ (اُردو ، انگریزی میں ایک ساتھ) شائع ہو چکے ہیں۔شاعری کے بارے میں تو کوئی بات آگے ہوتی رہے گی ۔ ان کی نثر کے حوالے سے محمود ہاشمی کی رائے درج کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ محمود ہاشمی لکھتے ہیں:

’’شاعروں اور مشاعروں کی بالا دستی کے دور میں ایک شاعر کا نثر اور وہ بھی طنز و مزاح کی طرف متوجہ ہونا ایک خوش آئند بات ہے۔

رضیہ اسماعیل مبارک باد کی مستحق ہیں کہ انہوں نے نہ صرف نہایت سنجیدگی سے معیاری شاعری کی ہے بلکہ نثر لکھ کر ثابت کر دیا ہے کہ اگر لکھنے کا ڈھنگ آتا ہو ، مزاج میں اُپج ہو ، طبیعت میں روانی ہو تو نثر میںبرجستگی اور شگفتگی سے ایسی ایسی جادو بیانی کی جا سکتی ہے کہ اس پر کئی شعر قربان کیے جا سکتے ہیں۔

رضیہ اسماعیل نے نثر لکھ کر اِس فصیل کو بہت حد تک توڑ دیا ہے جو آج کے اکثر ادیبوں کے لاشعور میں نثر کی طرف کی جانے والے راستے میں ایک کوہِ گراں بن کر کھڑی رہتی ہے۔‘‘

اب رضیہ اسماعیل کے ڈھیر سارے ماہیے ایک ساتھ پڑھنے کے بعد میرے سامنے رضیہ اسماعیل کی ایک اور جہت روشن ہے ۔ ان کے ماہیے میں ان کے خیالات ، احساسات اور تلخ و شیریں تجربات کا بے ساختہ اظہار ہے۔ ایک طرف ان کے ماہیوں میں حمد ، نرت ، سانحۂ کربلا اور تکریم صحابہ سے متعلق ماہیے ملتے ہیں تو دوسری طرف انگلینڈ میں مقیم ہونے کے باعث یہاں کے ثقافتی ٹکراؤ اور اس سے پیدا ہونے والی صورتِ حال کو عمدگی سے اجاگر کیا گیا ہے۔ پہلے تبرک کے طور پر چند دینی ماہیے دیکھئے۔

 

تو باغ کا مالی ہے

تیری رحمت کا

جگ سارا سوالی ہے

 

ربّ کے احکام ہوئے

آقا آپ کے ہم

بے دام غلام ہوئے

 

اک شاخ انجیر کی ہے

رشتہ مدینے سے

صورت زنجیر کی ہے

 

ہمیں تیرے سہارے ہیں

پیاس بجھا دینا

کوثر کے کنارے ہیں

 

دریا میں سفینہ ہے

ماہِ رمضاں تو

بخشش کا مہینہ ہے

 

معراج کی رات آئی

جھولیاں بھر لو تم

ربّ کی سوغات آئی

 

 

جب غم کی گھٹا چھائی

پیٹتی سر اپنا

کربل کی قضا آئی

 

پانی کا سوالی ہے

نانا نبی جس کا

کوثر کا والی ہے

 

اشکوں سے وضو کر کے

ماہیے لکھتی ہوں

میں دل کو لہو کر کے

 

تو آمنہ جایا ہے

بی بی حلیمہ نے

تجھے دودھ پلایا ہے

 

دو فاطمہؓ جائے تھے

تو نے محبت سے

کاندھوں پہ بٹھائے تھے

 

بڑے دُکھ سُکھ ہوتے ہیں

تیرے پہلو میں

تیرے یار بھی سوتے ہیں

ان ماہیوں میں مذہبی محبت اور عقیدت کا رنگ غالب ہے۔لیکن مجھے مذہب سے یہ لگاؤ ایک طرح سے ثقافتی رنگ میں بھی محسوس ہوا ہے۔ انگلینڈ میں رہتے ہوئے جب ہمیں اپنا دیسی معاشرہ اور ماحول یاد ہے تو اس کا مذہبی رنگ اس انداز سے اپنا جلوہ دکھاتا ہے ۔ یوں بھی ثقافت کے ارضی رنگوں کے دوش بدوش آسمانی رنگوں کی آمیزش سے ہی کسی تہذیب کی تکمیل ہوتی ہے۔آسمانی رنگ میں مذہبی عقائد سب سے قوی اور موثر ہوتے ہیں۔

ثقافتی ٹکراؤ یا ثقافتی بحران کی وی صورت جو برصغیر سے تعلق رکھنے والے ، یورپ میں مقیم کم و بیش ہر فرد کو درپیش ہے ، رضیہ اسماعیل نے اسے اپنے ماہیوں میں عمدگی اور خوب صورتی سے بیان کیا ہے کہ یہ گویا ہر دل کی آواز بن گئی ہے۔ ایسے ماہیوں کی چند مثالوں سے میری بات بہتر طور پر واضح ہو سکے گی:

 

کڑوے ہیں سُکھ ماہیا

کس کو سنائیں اب

انگلینڈ کے دُکھ ماہیا

 

کلچر کا رونا ہے

آ کے ولایت میں

اب کچھ تو کھونا ہے

 

سب زخم چھپاتے ہیں

رہنے کا یورپ میں

ہم قرض چکاتے ہیں

 

یوکے میں بستے ہیں

کیسا مقدر ہے

روتے ہیں ، نہ ہنستے ہیں

 

انگلینڈ کے میلے ہیں

جھرمٹ لوگوں کے

ہم پھر بھی اکیلے ہیں

 

ہیریں ہیں ، نہ رانجھے ہیں

ہم نے ہوٹل میں

برتن بھی مانجھے ہیں

 

یورپ میں مقیم بعض دوسرے ماہیا نگاروں نے بھی یہاں کے مسائل کو عمدگی سے اپنا موضوع بنایا ہے لیکن ایسا انداز کہ جس سے ہم لوگوں کا ثقافتی بحران اور اس مسئلے کی داخلی کیفیات نمایاں ہو سکیں ، اس کو رضیہ اسماعیل نے ایسی بے ساختگی سے بیان کیا ہے کہ یہ انفرادیت بن گئی ہے۔ ایسی انفرادیت جس میں پورے اجتماع کی ترجمانی یا عکاسی موجود ہے۔ یورپی زندگی کی بعض نجی اور اجتماعی نوعیت کی ملی جلی مثالیں بھی دیکھتے چلیں:

کس دیس میں رہتے ہیں

بچے پیرنٹس کو

یہاں شَٹ اَپ کہتے ہیں

 

دادا ہے ، نہ دادی ہے

پکڑ کے ڈیڈی نے

شادی کروا دی ہے

 

یہاں کون ہمارا ہے

سردی دشمن ہے

ہیٹر کا سہارا ہے

 

کونجوں کی ڈاریں ہیں

بینیفِٹ آفس میں

بڑی لمبی قطاریں ہیں

 

مغرب میں رہنے والی ایک پاکستانی عورت کی حیثیت سے ماہیا نگاری کرنے والی رضیہ اسماعیل نے ماہیے کے عمومی موضوعات کو بھی چھوا ہے لیکن ان میں دوسروں میں شامل رہنے کے ان سے ہٹ کر بات کرنے کی کوشش کی ہے۔ کشمیر کے موضوع پاکستان اور انڈیا میں الگ الگ رائے پائی جاتی ہے اور دونوں طرف سے ماہیا نگاروں نے اپنے اپنے موقف کا اظہار کیا ہے۔

رضیہ اسماعیل نے بھی کشمیر کے حوالے سے دو ماہیے کہے ہیں اور ان میں ایک پاکستانی کی حیثیت سے اپنے موقف ک اظہار کیا ہے ۔ تاہم ان کا یک ماہیا اتنا عمدہ ہے کہ اس کی داد انڈیا کے ادبی ذوق رکھنے والے بھی دیں گے۔

 

کشمیر کی وادی ہے

جائے کوئی روکے

یہ جبری شادی ہے

مجھے لگتا ہے کہ یہ ماہیا لکھتے وقت بھی رضیہ کے لاشعور میں یورپی کلچر سے ٹکراؤ کا عمل جاری تھا۔ یہاں بعض والدین نے جس طرح بچوں کی شادیاں جبراً کرنے کی کوشش کی اور اس کے نتیجے میں جو تلخ مسائل پیدا ہوئے ، رضیہ کے ہاں کشمیر کی سیاسی صورتِ حال پر اپنے پاکستانی جذبات کا اظہار کرتے ہوئے لاشعوری طور پر ان کا اظہار ہوا ہے۔ تاہم یوں بھی نہیں کہ صرف یورپ اور مشرق کے ٹکراؤ تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ ان کے ہاں ماہیے کا وہ رنگ بھی نمایاں ہے جو پنجاب کا رنگ کہلاتا ہے۔ ان کے ایسے ماہیے دیکھیں:

 

میں لہر چناب کی ہوں

غیرت بھائیوں کی

بیٹی پنجاب کی ہوں

 

 

اک لڑکی گاؤں میں

ماہیے لکھتی ہے

پیپل کی چھاؤں میں

 

اک نہر کنارہ ہے

گاؤں کا ہر ذرّہ

مجھے جان سے پیارا ہے

 

بیلوں کی جوڑی ہے

اس نے شرارت سے

میرے گاگر توڑی ہے

 

فصلوں کی کٹائی ہے

ساگ پراٹھے ہیں

کہیں دودھ ملائی ہے

 

ہاتھوں میں لکیریں ہیں

پاؤں میں شوگر کی

میٹھی زنجیریں ہیں

عورت کے حقوق کا موضوع رضیہ اسماعیل کا خاص موضوع ہے جو ا ن کی غزلوں ، نظموں سے لے کر طنزیہ مزاحیہ مضامین تک نمایا ہت ۔ ان کے ماہیوں میں بھی اس موضوع کو آنا تھا ، سو آیا۔

عورت کو ستاؤ گے

جنم جلی ہے جو

کیا اس کو جلاؤ گے

 

یہ دیئے کی باتی ہے

قدر کرو اس کی

دکھ سکھ کی ساتھی ہے

 

عورت کو دغا دو گے

بیوی بنا کر تم

چولھے میں جلا دو گے

 

کمھار کا آوا ہے

پکتا رہتا ہے

میرے دل میں جو لاوا ہے

 

شبنم کا قطرہ ہے

تنہا عورت کو

ہر طرف سے خطرہ ہے

رضیہ اسماعیل نے اپنی ماہیا نگاری سے ماہیے کی تحریک کو تقویت پہنچائی ہے ۔ انگلینڈ کے مشاعروں سے لے کر بی بی سی ایشیا کے اُردو ادبی پروگراموں تک اُردو ماہیا کو ادبی وقار کے ساتھ متعارف کرایا ہے۔اب ان کے ماہیوں کا مجموعہ چھپنے جا رہا ہے تو مجھے دلی خوشی ہو رہی ہے ۔ ان کے ماہیے ان کے دل کی کہانی ہیں ۔ اگرچہ انھوں نے یہ کہا ہے۔

یہ دل کی کہانی ہے

کوئی نہیں سنتا

اب خود کو سنانی ہے

 

لیکن مجھے یقین ہے کہ اس مجموعہ کی اشاعت کے بعد ماہیے کے قارئین اس کہانی کو دل چسپی سے پڑھیں گے ۔ کیوں کہ یہ صرف رضیہ اسماعیل کی اپنی ہی نہیں ، ہر صاحبِ دل کی کہانی ہے۔ماہیا ’’کتابِ دل‘‘ ہی تو ہے۔

بہرحال رضیہ اسماعیل کے اس مجموعے کا دلی خوشی کے ساتھ خیرمقدم کرتا ہوں۔

 

حیدر قریشی (جرمنی)

۲۷جنوری ۲۰۰۱ء

 

 

 

 

حمدیہ ماہیے

 

 

کعبے میں اذان ہوئی

سر میرا سجدے میں

تیرے گھر مہمان ہوئی

 

تو باغ کا مالی ہے

تیری رحمت کا

جگ سارا سوالی ہے

 

اک تھال ہے سونے کا

چڑیاں بول اٹھیں

نہیں وقت یہ سونے کا

 

آنکھوں میں ہے دم میرا

کلمے کی برکت سے

سب دُور ہو غم میرا

 

اک قبر اندھیری ہے

اپنا مقدر تو

مٹّی کی ڈھیری ہے

 

ساحل ہے ، سمندر ہے

یاد کرو ربّ کو

ربّ دل کے اندر ہے

 

گندم کا دانہ ہے

چھوٹ گئی جنت

یہ قصہ پرانا ہے

 

دریا میں سفینہ ہے

ماہِ رمضاں تو

بخشش کا مہینہ ہے

 

معراج کی رات آئی

جھولیاں بھر لو تم

ربّ کی سوغات آئی

 

کب خلقت ہوش میں ہے

مانگنا آتا نہیں

تِری رحمت جوش میں ہے

 

زنجیر ہے رشتوں کی

یہ معراج کی شب

ہے عید فرشتوں کی

 

چڑھے تیر کمانوں میں

نام تیرا باقی

رہے دونوں جہانوں میں

 

 

 

نعتیہ ماہیے

 

گلشن میں نظارے ہیں

چاند نبی اپنا

اور باقی ستارے ہیں

 

اے بادِ صبا جانا

خوشبو مدینے کی

تھوڑی سی چرا لانا

 

پانی کا دھارا ہے

تیری محبت نے

میرا بخت سنوارا ہے

 

اک کملی کالی ہے

شان محمد کی

سب جگ سے نرالی ہے

 

اک چہرہ ہے نورانی

چاند ستاروں سی

ہے روشن پیشانی

 

ربّ کے احکام ہوئے

آقا آپ کے ہم

بے دام غلام ہوئے

 

فرمان وہ لے آیا

سینے میں رکھ کر

قرآن وہ لے آیا

 

اک حبشی بلالؓ ہوا

حبِّ نبی میں وہ

ذرہّ تھا ، کمال ہوا

 

جاتی ہوں مدینے کو

پار لگا ئے گا

کیا ڈر ہے سفینے کو

 

بستی ہے مزاروں کی

دل سے دعا نکلے

ہو خیر پیاروں کی

 

اک شاخ انجیر کی ہے

رشتہ مدینے سے

صورت زنجیر کی ہے

 

اسلام کو عام کیا

اپنا نبی وہ ہے

جسے ربّ نے سلام کیا

 

ہمیں تیرے سہارے ہیں

پیاس بجھا دینا

کوثر کے کنارے ہیں

 

بڑی اونچی اڑانیں ہیں

مسجدِ نبوی کی

یاد آتی اذانیں ہیں

 

روضے کی جالی ہے

گنبدِ خضرا ہے

کونین کا والی ہے

 

پتوار سفینے کی

کتنی معطّر ہیں

یہ گلیاں مدینے کی

 

جو ربّ کے پیارے تھے

طائف والوں نے

انھیں پتھر مارے تھے

 

اک باغ مدینے کا

تیری دید بنا

کیا لطف ہے جینے کا

 

بڑے دُکھ سُکھ ہوتے ہیں

تیرے پہلو میں

تیرے یار بھی سوتے ہیں

 

رحمت کی گھٹائیں ہیں

شہرِ مدینہ کی

پاکیزہ فضائیں ہیں

 

تو آمنہ جایا ہے

بی بی حلیمہ نے

تجھے دودھ پلایا ہے

 

دو فاطمہؓ جائے تھے

تو نے محبت سے

کاندھوں پہ بٹھائے تھے

 

سوتے میں جگایا تھا

ربّ نے محمد کو

عرشوں پہ بلایا تھا

 

ہمیں کیوں نہ یقیں آئے

لینے محمد کو

جبریلِ امیں آئے

 

 

 

 

شہیدانِ کربلا کی یاد میں

 

 

اشکوں سے وضو کر کے

ماہیے لکھتی ہوں

میں دل کو لہو کر کے

 

پانی کی جھیلیں ہیں

قطرہ نہ ان کو ملا

اب لگتی سبیلیں ہیں

 

گھوڑوں کا دانہ تھا

شمر کے تیروں کا

بس تو ہی نشانہ تھا

 

تو فاطمہؓ جایا ہے

کوفے والوں کو

ذرا رحم نہ آیا ہے

 

کہیں خیمے جلتے ہیں

قتل کریں خود ہی

پھر ہاتھ بھی ملتے ہیں

 

یوں تیر جو کستے ہو

کون نشانہ ہے

تم کس پہ برستے ہو

 

بڑی سخت چٹانیں تھیں

پیاس سے بچوں کی

جب لب پر جانیں تھیں

 

سادات گھرانا ہے

ظلم یوں ڈھاتے ہو

کیا قرض پرانا ہے

 

بہتا ہے فرات کہیں

پیاسے ہی مار دیئے

نہیں اس کی نجات کہیں

 

اک شورِ قیامت ہے

مٹّی کربل کی

آنسو ہے ، ندامت ہے

 

کوئی بھوکا پیاسا تھا

نیزے پہ سر جس کا

وہ تیرا نواسا تھا

 

کیسی بربادیاں تھیں

ننگے سر جن کے

وہ سید زادیاں تھیں

 

یہ درد ہمارے ہیں

پانی کے قطرے کو

ترسے تِرے پیارے ہیں

 

وہ سب کو پکار آئی

پانی کے بدلے میں

تیروں کی بوچھاڑ آئی

 

کچھ قرض ہمارا تھا

داد رسی کرتے

زینبؓ نے پکارا تھا

 

پانی کا سوالی ہے

نانا نبی جس کا

کوثر کا والی ہے

 

باطل سے نہ ڈرتا تھا

سر تھا نیزے پر

قرآن وہ پڑھتا تھا

 

وہ جیت کے ہار گئے

تیر چلائے جو

انھیں خود ہی مار گئے

 

جب غم کی گھٹا چھائی

پیٹتی سر اپنا

کربل کی قضا آئی

 

یہ کیسی شقاوت ہے

فوجِ یزیدی پر

لعنت ہے ، ملامت ہے

 

کربل میں چلی آندھی

چادریں سر سے اُڑیں

بربادی ہے بربادی!

 

باطل سے لڑائی تھی

سانچ کو آنچ نہیں

فتح حق نے پائی تھی

 

گھر اتنا بھی دُور نہ تھا

حق کے پرچم کا

جھکنا منظور نہ تھا

 

ہوا خون امیدوں کا

سہرا لکھتی ہوں

کربل کے شہیدوں کا

 

وہ فاطمہؓ کا جایا

خاک پہ سجدہ کیا

جب وقتِ نماز آیا

 

دیا خون کا نذرانہ

نانا کی امت کی

غلطی کا تھا ہرجانہ

 

سب فرق مٹا ڈالا

دِین تھا نانا کا

گھر بار لٹا ڈالا

 

ہمیں قرض چکانا ہے

پانی کے بدلے میں

اب خون بہانا ہے

 

عمروں کا رونا ہے

اپنے اشکوں سے

ہمیں داغ یہ دھونا ہے

 

قرآں کے سیپارے ہیں

اپنے گناہوں کے

دینے کفّارے ہیں

 

سب اپنے پرائے تھے

کوفے والوں نے

کیا زخم لگائے تھے

 

کسی ہاتھ کی ریکھا ہے

نانا نے خود آ کر

ترا حال بھی دیکھا ہے

 

اک ہیرا کھویا تھا

تیری شہادت پر

دشمن بھی رویا تھا

 

اب کس لئے روتے ہیں

خاک پہ کربل کی

شہزادے سوتے ہیں

 

بہے خون وریدوں سے

شان ہے جنت کی

کربل کے شہیدوں سے

 

کیکر پہ پھول ہوا

خون شہیدوں کا

عرشوں پہ قبول ہوا

 

 

 

 

غازی علم دین شہیدؒ کی یاد میں

 

 

ہر سمت اُجالا تھا

قبر تھی غازی کی

اک نور کا ہالہ تھا

 

پھانسی کا پھندا تھا

دنیا کیا جانے

یہ عشق کا دھندا تھا

 

جس در کے مرید ہوئے

اس کی محبت میں

غازی سے شہید ہوئے

 

قسمت کا دھنی غازی

ہار کے جاں اپنی

وہ جیت گیا بازی

 

تیرا بخت سنوار دیا

آقا نے ہاتھوں میں

تُربت میں اُتار دیا

 

قدرت کے اشارے ہیں

غازی کے مرقد پر

رحمت کے نظارے ہیں

 

بچپن یا بڑھاپا ہے

غازی اللہ کا

پُر نور سراپا ہے

 

کبھی وقت بھی ٹھہرا ہے

غازی ! فرشتوں کا

تری قبر پہ پہرا ہے

 

شیرینی ہے منّت کی

دلھن غازی کی

اک حور ہے جنت کی

 

ماہر تھا بڑا غازی

نکل گیا آگے

اور جیت گیا بازی

 

جو ہنستا ہے ، روتا ہے

نگری داتا کی

یہاں غازی سوتا ہے

 

تِری قبر میانی میں

سولی لٹک گیا

تو عین جوانی میں

 

آرام سے سوتے ہیں

قبر میں آقا کے

دیدار بھی ہوتے ہیں

 

خوں آنکھوں میں اشک ہوا

تیری قسمت پر

ہر ایک کو رشک ہوا

 

یہی کہتا ہے ہر قاضی

تیری شہادت پر

ربّ تجھ سے ہوا راضی

 

 

 

 

پنجاب رنگ

 

 

میں لہر چناب کی ہوں

غیرت بھائیوں کی

بیٹی پنجاب کی ہوں

 

اک لڑکی گاؤں میں

ماہیے لکھتی ہے

پیپل کی چھاؤں میں

 

گھی دیسی کھانوں میں

پل کے جوان ہوئی

ماہیے کی تانوں میں

 

بڑی چاندی راتیں تھیں

چھاؤں تھی تاروں کی

سکھیوں سے باتیں تھیں

 

کیا رُوپ نکالا تھا

تازہ مکھن تھا

لسّی کا پیالا تھا

 

دو دودھ کی دھاریں ہیں

سکھیاں بچھڑ گئیں

کونجیں ہیں نہ ڈاریں ہیں

 

زنجیر ہے پاؤں میں

دنیا دیکھ چکی

چل واپس گاؤں میں

 

اک نہر کنارہ ہے

گاؤں کا ہر ذرّہ

مجھے جان سے پیارا ہے

 

مٹّی میرے گاؤں کی

اس کو سلام کروں

نہیں دھول یہ پاؤں کی

 

کھیتوں میں کھلی سرسوں

اس ہرجائی نے

نہیں یاد کیا برسوں

 

اک لڑکی دوانی ہے

یاد اک بچپن کی

انمول نشانی ہے

 

ہم باغوں میں جاتے تھے

چھپ کر مالی سے

امرود چراتے تھے

 

فصلوں کی کٹائی ہے

ساگ پراٹھے ہیں

کہیں دودھ ملائی ہے

 

بیلوں کی جوڑی ہے

اس نے شرارت سے

میرے گاگر توڑی ہے

 

کہیں چاندنی چٹکی ہے

دنیا کہتی ہے

’’کُڑی‘‘ رستہ بھٹکی ہے

 

گندم کی بالی ہے

آدھے گھر والی

بڑے نخرے والی ہے

 

کسی بات پہ بھڑکی ہوں

سمجھا ہے کیا تو نے

میں گاؤں کی لڑکی ہوں

 

بڑی لمبی جدائیاں ہیں

پانچ میرے بھائی

اور دو ماں جائیاں ہیں

 

 

 

 

عورت کی کہانی

 

 

بڑا ظلم کماتے ہو

عورت ماں بھی ہے

کیوں اُس کو رُلاتے ہو

 

عورت کو ستاؤ گے

جنم جلی ہے جو

کیا اس کو جلاؤ گے

 

کہیں چیت ہے ، پھاگن ہے

جس کو پیا چاہے

بس وہ ہی سہاگن ہے

 

ہر سمت اُجالا ہے

میرے مقدر کا

اب تو ہی حوالہ ہے

 

بادل ہیں ، گھٹائیں ہیں

میرا اثاثہ تو

ساجن کی وفائیں ہیں

 

اس جگ کا نور ہے ماں

ربّ کے بعد یہاں

دوجے ربّ کا ظہور ہے ماں

 

جنگل میں پرندے ہیں

ڈھانپ لو سر اپنا

ہر طرف درندے ہیں

 

شبنم کا قطرہ ہے

تنہا عورت کو

ہر طرف سے خطرہ ہے

 

ہاتھوں کی لکیریں ہیں

جوگیا ! دیکھ ذرا

کیسی تحریریں ہیں

 

بادل ہے ، بجلی ہے

پیار سے پکڑو ذرا

بڑی نازک تتلی ہے

 

میری ہیرے کی انگوٹھی

تیری نشانی ہے

لگتی ہے مگر جھوٹی

 

کمھار کا آوا ہے

پکتا رہتا ہے

میرے دل میں جو لاوا ہے

 

عورت کو دغا دو گے

بیوی بنا کر تم

چولھے میں جلا دو گے

 

یہ دیئے کی باتی ہے

قدر کرو اس کی

دکھ سکھ کی ساتھی ہے

 

دلھن شرماتی ہے

رات مرادوں کی

برسوں میں آتی ہے

 

تم ہاتھ اٹھا رکھنا

لوٹ ہی آئے گا

دروازہ کھلا رکھنا

 

مر مر کر جیتے ہیں

زہر جدائی کا

ہم روز ہی پیتے ہیں

 

عورت کی کہانی ہے

غور سے سننا تم

گو بات پرانی ہے

 

عورت کو ستاتے ہو

اک پل پیار کرو

اک پل میں رُلاتے ہو

 

سوہنی ، نہ ہیر ہوئی

تیری محبت میں

تیرے گھر میں اسیر ہوئی

 

آنچل کو سنبھالا ہے

عورت کے دم سے

دنیا میں اُجالا ہے

 

چھوٹا سا گھر ہو گا

اپنی دعاؤں میں

کب جانے اثر ہو گا

 

مندر ہے ، پجاری ہے

شان ہے مردوں کی

ناری تو بچاری ہے

 

دو چڑیاں آئی ہیں

کہتی ہیں مالی سے

ہم دونوں پرائی ہیں

 

کیا رِیت بنائی ہے

جس کو جنم دیا

وہی بیٹی پرائی ہے

 

پھولوں کی ڈالی ہے

مہندی لگے جس کو

وہی قسمت والی ہے

 

ہر طرف بلائیں تھیں

بچ کر نکل گئے

سب ماں کی دعائیں تھیں

 

ہائے کتنی گرمی ہے

چھاؤں ممتا کی

پھولوں سی نرمی ہے

 

سہرے کی لڑیاں ہیں

ماں صدقے واری

انمول یہ گھڑیاں ہیں

 

کہیں بجلی کڑکی ہے

آس لگا بیٹھی

نادان یہ لڑکی ہے

 

کسی جھیل میں بجرہ ہے

راہ تکوں بیٹھی

بالوں میں گجرا ہے

 

اک چڑیا اُڑتی ہے

شادی ہو گئی ہے

اب لڑکی کڑھتی ہے

 

 

 

 

 

روایتی ماہیے

 

 

 

دارا ہے ، سکندر ہے

ڈوب گئی میں تو

یہ عشق سمندر ہے

 

مٹّی کا کھلونا ہے

رکھ لے کھٹالی میں

چن دل میرا سونا ہے

 

سب دکھ سکھ بانٹے ہیں

چُن دو ذرا ساجن

رستے میں کانٹے ہیں

 

تیری آنکھ کا تِل ماہیا

بڑا ہرجائی ہے

کبھی آن کے مِل ماہیا

 

خوشبو ہے گلابوں کی

رستے میں حائل ہے

دیوار حجابوں کی

 

پیڑوں کی قطاریں ہیں

پت جھڑ گزر گیا

جوبن پہ بہاریں ہیں

 

پنگھٹ پہ گوری ہے

نٹ کھٹ ماہیے نے

میری بانہہ مروڑی ہے

 

تِرے پیار کی برکھا ہے

بھیگ گئی ساجن

تو ایسے برسا ہے

 

دیوار کا سایہ ہے

دیکھ کے شرمائی

میرا ماہیا آیا ہے

 

مجرم ہے ، کٹہرا ہے

پیار تو کر بیٹھے

سارے جگ کا پہرا ہے

 

بارود کا گولہ ہے

اپنی محبت پر

جگ آگ بگولہ ہے

 

پربت ہے ، بادل ہے

آ کہیں دُور چلیں

جگ راہ میں حائل ہے

 

مکڑی کا جالا ہے

جس پر دل آیا ہے

بڑا نخرے والا ہے

 

دریا میں کشتی ہے

اجڑ نہ جائے کہیں

یہ دل کی بستی ہے

 

ناگن بل کھاتی ہے

چنری ریشم کی

کیوں اُڑ اُڑ جاتی ہے

 

تالاب میں کائی ہے

چٹھی ساجن کی

بڑی دُور سے آئی ہے

 

یوں پیار نبھائیں گے

خونِ جگر سے ہم

اک تاج بنائیں گے

 

ہم لوٹ کے آئیں گے

گلشن یادوں کا

پھر سے مہکائیں گے

 

روتے ، کبھی ہنستے ہیں

دل میں یادوں کے

جگنو سے چمکتے ہیں

 

اک محل ہے سپنوں کا

کھڑکی ، نہ دروازہ

اب ڈر کیا اپنوں کا

 

دریاؤں میں طغیانی

بھول گئی رستہ

اک آنکھ تھی مستانی

 

کاٹیں گے جو بوئیں گے

وقت گنوایا تو

تا عمر ہی روئیں گے

 

تتلی کے رنگ ماہیا

شک مجھے ہوتا ہے

تِرے دیکھ کے ڈھنگ ماہیا

 

چاندی کے کنگن ہیں

کیسے ٹوٹیں گے

یہ دل کے بندھن ہیں

 

لکڑی کا پُل ماہیا

ایسی میں گھبرائی

گیا گھونگھٹ کھُل ماہیا

 

دریا کی روانی ہے

ٹھوکر کھائے گی

منہ زور جوانی ہے

 

بڑے لمبے سائے ہیں

ہم نے بلایا نہیں

وہ خود ہی آئے ہیں

 

جنگل میں جوگی ہیں

دنیا چھوڑ چکے

ہم دل کے روگی ہیں

 

چندا ہے ، نہ تارے ہیں

شکل دکھا جاؤ

ہم ہجر کے مارے ہیں

 

پھولوں کی مہک ساجن

دل میں نہ جانے کیوں

ہوتی ہے کسک ساجن

 

کلی دل کی نہ کھِلتی ہے

بچھڑ گئے دونوں

کسے منزل ملتی ہے

 

ہم جیت کے ہار گئے

دنیا کی رسموں پر

جان اپنی وار گئے

 

کیوں آس لگا بیٹھے

دل کی نگری کا

ہم دیپ جلا بیٹھے

 

پتوں کی آہٹ ہے

کوئی نہیں آیا

پھر کیوں گھبراہٹ ہے

 

اک تارا ٹوٹا ہے

کیسے کہوں سکھیو

میرا ماہیا روٹھا ہے

 

بنجاروں کا ڈیرا ہے

ماضی گزر گیا

تیرا ہے نہ میرا ہے

 

یادوں کے خزانے ہیں

کیسے بھلاؤں گی

کچھ روگ پرانے ہیں

 

کہیں گھنگرو بجتے ہیں

پھول مزاروں کے

کہاں سیج پہ سجتے ہی

 

بڑا گہرا بادل ہے

آنسو نہ بہہ نکلیں

مِری آنکھ میں کاجل ہے

 

نینوں سے جام بھروں

نام تِرا لے کے

آہیں صبح و شام بھروں

 

شہنائی بجتی ہے

تیرے بنا ساتھی

کہاں محفل سجتی ہے

 

لوہے کی ہیں زنجیریں

منہ کیوں موڑ لیا

کیا ہو گئیں تقصیریں

 

پاؤں میں پائل ہے

تانیں ٹوٹ گئیں

ہر نغمہ گھائل ہے

 

ماضی کی یادیں ہیں

بیکل رہتے ہیں

لب پر فریادیں ہیں

 

بستی میں سپیرے ہیں

اپنے مقدر میں

کیوں اتنے اندھیرے ہیں

 

کیا شکوہ نصیبوں سے

کرتے ہیں جاسوسی

عاجز ہیں رقیبوں سے

 

بستی میں ہیں بنجارے

جی کو جلاتے ہیں

تیری باتوں کے انگارے

 

کہیں پھول نہیں کھِلتے

آدمی تو ہیں مگر

انسان نہیں ملتے

 

اب تنہا رہنا ہے

حال ہمیں دل کا

اس سے نہیں کہنا ہے

 

کوئی مست قلندر ہے

غم کی لہر اٹھی

میرا دل تو سمندر ہے

 

کہیں بانسری بجتی ہے

دو دل دُور ہوئے

تقدیر بھی ہنستی ہے

 

بڑی کالی راتیں ہیں

نظر نہیں آتیں

تقدیر کی گھاتیں ہیں

 

کہیں قافلے جاتے ہیں

ناگ جدائی کے

اب مجھ کو ڈراتے ہیں

 

اک پٹری ریل کی ہے

بازی کب جیتا

کوئی پیار کے کھیل کی ہے

 

 

 

 

 

 

وطنِ عزیز کی یاد میں

 

 

کہیں پھول برستے ہیں

بچے غریبوں کے

روٹی کو ترستے ہیں

 

ندیا میں باڑ آئی

کوئی نہیں سنتا

میں سب کو پکار آئی

 

تعبیر ہے ، سپنا ہے

ایسے نہ لُوٹو تم

یہ ملک تو اپنا ہے

 

میں قوم کا لیڈر ہوں

شیر نظر آؤں

اندر سے گیدڑ ہوں

 

غسے میں نہ آیا کرو

ڈھول سپاہیا تم

رشوت نہ کھایا کرو

 

سانگھڑ ہے نہ سکھر ہے

موج اُڑاتے ہیں

پی آر کا چکر ہے

 

ٹیکسوں کی چوری ہے

کرتے ہو ہڑتالیں

کیا سینہ زوری ہے

 

ہمیں فول بناتے ہو

انگلش اُردو الگ

اسکول بناتے ہو

 

روٹی ہے نہ پانی ہے

نوکری ملتی نہیں

اب ڈگری جلانی ہے

 

پیسہ ہے خدا اپنا

پیسے کے کارن ہی

ہوا صوبہ جدا اپنا

 

دریا کی موجیں ہیں

ڈر کیا دشمن کا

سرحد پر فوجیں ہیں

 

جنت کا نظارہ ہے

لے کے رہیں گے ہم

کشمیر ہمارا ہے

 

گندم کے دانے ہیں

پیسے والوں کے

کملے بھی سیانے ہیں

 

پالیٹکس میں آئیں گے

خالی جیبیں ہیں

بڑا مال بنائیں گے

 

مہنگائی نے مارا ہے

پانی ہی پی کر

اب کرنا گزارا ہے

 

بندر ہے ، مداری ہے

روٹی کے چکر میں

دن رات خواری ہے

 

ننگے پاؤں چلتے ہیں

جرم غریبی کا

تیزاب میں جلتے ہیں

 

ندی نالے سوکھے ہیں

کیسی وحشت ہے

یہاں بچے بھوکے ہیں

 

میری چنری میں فیتے ہیں

پانی نہیں ملتا

اب آنسو پیتے ہیں

 

دانتوں کا منجن ہے

ایسے دھواں چھوڑے

یہ بس ہے کہ انجن ہے

 

چنگیز ہلاکو ہے

مجھ کو ڈر لاگے

ڈاکٹر ہے کہ ڈاکو ہے

 

ہم لکشمی جائیں گے

ہائی کولیسٹرول ہے

اور ٹکاٹک کھائیں گے

 

کتنا من موجی ہے

اس کو سیلوٹ کروں

میرا ماہیا فوجی ہے

 

کیمپس کی بہاریں ہیں

نہر کنارہ ہے

جوڑوں کی قطاریں ہیں

 

مہندی کی رات آئی

فلم کا منظر ہے

بالی وُڈ سے برات آئی

 

ہائی وے تو پیارا ہے

کوچیں ڈائیو کی

غیروں کا سہارا ہے

 

ذرا کھل کر ہنس ماہیا

ایئر کنڈیشنڈ ہے

ڈائیو کی بس ماہیا

 

ہائی وے کا زمانہ ہے

مہنگی فلائٹ ہے

بائی روڈ ہی جانا ہے

 

نوشہرہ ہے ، بکھر ہے

جاتے ہیں امریکا

سب ایڈ کا چکر ہے

 

ہائی وے تو بہانہ تھا

کرنی کرپشن تھی

اور مال بنانا تھا

 

شادی ہے امیروں کی

پیچھے پڑ گئی ہے

اک فوج فقیروں کی

 

اک خواب سہانا ہے

لُوٹیں گے جی بھر کے

سرے محل بنانا ہے

 

پھولے نہ سماتے ہو

اُردو میں انگلش کے

پیوند لگاتے ہو

 

راوی کا کنارہ ہے

شاپنگ فوٹریس میں

پیسوں کا سہارا ہے

 

ہم انگلش پڑھتے ہیں

رہ کر مشرق میں

مغرب پر مرتے ہیں

 

میکڈونلڈ جاتے ہیں

روٹی نہیں ملتی

ہم برگر کھاتے ہیں

 

بیوٹی پارلر جاتے ہیں

خود کو نہ جانے کیوں

ہم فول بناتے ہیں

 

یہ کیسی شادی ہے

خالی بوتل تو

خانہ بربادی ہے

 

 

 

 

ولایتی ماہیے

 

 

یوکے میں بستے ہیں

کیسا مقدر ہے

روتے ہیں ، نہ ہنستے ہیں

 

یہ کیسی ولایت ہے

کالوں کو جب دیکھو

گوروں سے شکایت ہے

 

یہ ایسی ولایت ہے

جس میں گوروں کو

کالوں سے شکایت ہے

 

انگلینڈ کے کیا کہنے

میموں نے گرمی میں

کپڑے ہی نہیں پہنے

 

ریشم کی ڈوری ہے

بچ کے ذرا چلنا

انگلینڈ کی گوری ہے

 

بڑے سندر سپنے ہیں

اپنے دُور ہوئے

اب گورے ہی اپنے ہیں

 

سڑکوں پر کاریں ہیں

دیسی میموں کی

ہر طرف بہاریں ہیں

 

یہ کیسی دھرتی ہے

گوری تو گوری ہے

کالی گٹ مٹ کرتی ہے

 

ہم کیسے سوالی ہیں

پہنچ گئے یورپ

اور جھولیاں خالی ہیں

 

پردیس میں آ بیٹھے

چھوڑ کے گھر اپنا

گھر اور بسا بیٹھے

 

باغوں میں جھولے ہیں

گرمی پونڈوں کی

اوقات ہی بھولے ہیں

 

کلچر کا رونا ہے

آ کے ولایت میں

اب کچھ تو کھونا ہے

 

کیسے فریادی ہیں

شکوہ کریں کس سے

ہم اپنے ہی قیدی ہیں

 

کس دیس میں رہتے ہیں

بچے پیرنٹس کو

یہاں شَٹ اَپ کہتے ہیں

 

افیوں ہے ، گانجا ہے

بگڑ گئے بچے

یہ درد تو سانجھا ہے

 

انگلینڈ میں سردی ہے

نشے نے جوانوں کی

کیا حالت کر دی ہے

 

کیا اس پر بیتی ہے

ناری ولایت کی

اب وہسکی پیتی ہے

 

یہ دیسی گوری ہے

کھاتی ہے چکن تِکا

اور کہتی سوری ہے

 

چنری میں تارے ہیں

لاٹری نکل آئی

اب وارے نیارے ہیں

 

پکے ہیں ، نہ کچے ہیں

کہتے ہیں آئی لو یو

انگلینڈ کے بچے ہیں

 

ماتھے پہ پسینا ہے

بچوں سے تنگ آئی

چھٹیوں کا مہینا ہے

 

میں آہیں بھرتی ہوں

دیکھ منگیتر کو

جیتی ہوں نہ مرتی ہوں

 

کشمیر کی وادی ہے

جائے کوئی روکے

یہ جبری شادی ہے

 

دادا ہے ، نہ دادی ہے

پکڑ کے ڈیڈی نے

شادی کروا دی ہے

 

سب زخم چھپاتے ہیں

رہنے کا یورپ میں

ہم قرض چکاتے ہیں

 

گو جان سے جائیں گے

چھپ کر لاری میں

ہم یورپ آئیں گے

 

افطاری کھائیں گے

روزہ نہیں رکھتے

اور عید منائیں گے

 

ملکہ کا زمانہ ہے

دل کی ملکہ تو

شہزادی ڈیانا ہے

 

انگلینڈ کے میلے ہیں

جھرمٹ لوگوں کے

ہم پھر بھی اکیلے ہیں

 

ہیما ہے کبھی ریکھا

رہتے ہیں یو کے میں

لندن ہی نہیں دیکھا

 

میرے ہاتھ میں چابی ہے

روز جھگڑتا ہے

گھر والا شرابی ہے

 

گوری ہے ، نہ کالی ہے

سانولی بیوی میری

بڑی کرماں والی ہے

 

ہم دن کو سوتے ہیں

جاب کرے بیوی

بچے جان کو روتے ہیں

 

ہاتھوں میں لکیریں ہیں

پاؤں میں شوگر کی

میٹھی زنجیریں ہیں

 

یہاں کون ہمارا ہے

سردی دشمن ہے

ہیٹر کا سہارا ہے

 

گھوڑوں پہ شکاری ہیں

اور کہاں جائیں

ملکہ کے پجاری ہیں

 

سر درد پرانا ہے

پیر کوئی ڈھونڈو

تعویذ منگانا ہے

 

چھٹی کا دن ماہیا

کیسے گزرے گا

یہ فلم کے بِن ماہیا

 

یہ اچھا بہانہ ہے

خط اب کون لکھے

آئی ٹی کا زمانہ ہے

 

بنگلہ ہے ، نہ گاڑی ہے

یوکے سیاست تو

بس مفت کی خواری ہے

 

کوچیں کروائیں گے

لیڈر آئے ہیں

فوٹو بنوائیں گے

 

آدھی ہے ، نہ ساری ہے

دیسی سیاست نے

ایسے مت ماری ہے

 

ہمیں ڈسکو جانا ہے

برگر لے آؤ

کیا کھانا پکانا ہے

 

میرج بھی مصیبت ہے

بیڑیاں پاؤں میں

کیا پیار کی قسمت ہے

 

کیوں دیکھتے ہو ایسے

مائیکرو ویو نہیں

کھانا گرم کروں کیسے

 

اوقات دکھا دوں گا

ویزا ملے پکا

تیرے ہوش اُڑا دوں گا

 

ہیریں ہیں ، نہ رانجھے ہیں

ہم نے ہوٹل میں

برتن بھی مانجھے ہیں

 

ہم کتنے سوہنے ہیں

جاب نہیں ملتی

ملکہ کے پروہنے ہیں

 

مجھے ڈائیٹنگ کرنی ہے

وِیک ہے وِل پاور

بڑی فائیٹنگ کرنی ہے

 

شادی میں جانا ہے

بینیفِٹ بُک دے دو

نیا جوڑا سلانا ہے

 

کیوں بک بک کرتی ہو

جوتا ولایتی مرا

تم سہہ نہیں سکتی ہو

 

کونجوں کی ڈاریں ہیں

بینیفِٹ آفس میں

بڑی لمبی قطاریں ہیں

 

باغوں میں جھولے ہیں

دیس کی یادیں تو

صحرا میں بگولے ہیں

 

ہم چھٹیاں مناتے ہیں

گھر ہے بھائی کا

سر بھابی کا کھاتے ہیں

 

غالب ہے کہ جالب ہے ۱

اُردو ہی لکھتا ہے

شہرت کا طالب ہے

 

کیوں جی کو جلاتے ہو

اُردو کو ہندی کا

تڑکا کیوں لگاتے ہو

 

یوں مارتے باؤنسر ہیں

گُہر کو گَہر کہیں

بی بی سی کے اناؤنسر ہیں

——————————————

۱: برطانیہ میں کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ لوگ شہرت کے لئے اُردو میں لکھتے ہیں۔

 

بس آتی ہے ، جاتی ہے

یو گو ، می گو ہے

انگلش نہیں آتی ہے

 

اک روڈ میں رہتے ہیں

لانگ ٹائم اور نو سی ۱

جب ملتے ہیں کہتے ہیں

 

انگور کی بیلیں ہیں

بن گئے ڈِس ایبل

اب ریلیں پیلیں ہیں

——————–

۱:Long time , no see

 

میری گاڑی ٹوٹ گئی

بس پر جانے کی

اب عادت چھوٹ گئی

 

ٹوری ہے کہ لیبر ہے

پاکی کہتا ہے

میرا گورا نیبر ہے

 

گاڑی کا سٹیئرنگ ہے

محکمہ ویلفیئر کا

یہاں کتنا کیئرنگ ہے

 

بڑا مہنگا لیدر ہے

دل میرا گھبرائے

یہ کیسا ویدر ہے

 

اب لگ گئی پنشن ہے

دُکھتا ہے سر میرا

مجھے ہائپر ٹینشن ہے

 

ذرا بتی جلا دینا

دل گھبراتا ہے

زی ٹی وی لگا دینا

 

برسات کا موسم ہے

ویزا نہیں لگتا

ملاقات کا موسم ہے

 

یہ کیسی الجھن ہے

سوشل ورکر تو

میری جان کی دشمن ہے

 

جی پی سے یارانہ ہے

نوکری کون کرے

سِک نوٹ بنانا ہے

 

ایسے نہ ہِل ماہیا

آنے والا ہے

اب فون کا بِل ماہیا

 

سردی ہے کڑاکے کی

منہ میں دانت نہیں

ہو خیر بڑھاپے کی

 

اب تن میں جان نہیں

ہوم میں آ بیٹھے

اولاد کا مان نہیں

 

بڑے اچھے فائٹر ہیں

اک دن مانو گے

یوکے کے رائٹر ہیں

 

بیڈ روم میں جاتے ہیں

نیند نہیں آتی

اب گولیاں کھاتے ہیں

 

کڑوے ہیں سُکھ ماہیا

کس کو سنائیں اب

انگلینڈ کے دُکھ ماہیا

٭٭٭

ماخذ:

http://punjnud.com/PageList.aspx?BookID=2949&BookTitle=Peepal%20ki%20Chhaon%20main

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید