پیار کا شہر
مستنصر حسین تارڑ
پیرس کا شمار یورپ کے قدیم ترین شہروں میں ہوتا ہے۔ ازمنہ قدیم میں جب یہ علاقہ چند دلدلوں اور جزیروں پر مشتمل تھا سیلٹ نسل کے لوگ یہاں آباد ہوئے۔پیرس کا اولین حوالہ جو لیس سیزر کی ایک کتاب میں ملتا ہے وہ لکھتا ہے کہ یہاں پر پارسی نامی قبیلہ آباد تھا۔ جس کے نام پر بعد میں اس نو آباد قصبے کو پیرس کہا جانے لگا۔ دور آیا جو خلیفہ ہارون الرشید کا ہم عصر تھا اور جو اندلس فتح کرنے کے شوق میں کوہ پیرانیز کے اس پار جا کر مسلمانوں کے ہاتھوں اپنی فوج کی گت بنوا کر ٹھنڈا ٹھنڈا واپس آ گیا۔ اس کے بعد کی تاریخ گڈ مڈ ہو جاتی ہے۔ لوئی اور فلپ نام کے درجنوں بادشاہ آئے جس کا سیریل نمبر ہمیشہ ذہن سے اتر جاتا ہے ۔آخر میں عظیم نپولین کا دور ہوا۔اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔
سنان دوسری صبح دیر تک سوتا رہا ۔ اس کے ذہن میں آج کے لئے کوئی واضح پروگرام موجود نہ تھا۔ اس کا خیال تھا کہ تمام دن اس تاریخی شہر کے گلی کوچوں میں بے مقصد گھومتے ہوئے گزار دے اور شام کو دریائے سین کے کنارے پاسکل کی تلاش کرے، پانی کے نل میں آج پانی بھی موجود تھا۔ میڈم زی نے حسب وعدہ نیچے سے پانی کی منقطع سپلائی بحال کر دی تھی۔ شیو بنانے اور کپڑے بدلنے سے فارغ ہو کر سنان دروازے کے پاس رکا۔ اندر بالکل خاموشی تھی۔ اور پھر سیڑھیوں سے نیچے اتر گیا۔ ہال میں میڈم زی یا اس کی بوڑھی ماں میں سے کوئی بھی موجود نہ تھا البتہ وہ گنجا طوطا مزے سے پنجرے میں بیٹھا آنکھیں جھپکا رہا تھا اور حسب سابق سنان کو دیکھتے ہی ٹیں ٹیں کرنے لگا۔ سنان نے چوروں کی طرح ادھر ادھر دیکھا اور پھر چپکے سے پنجرے کا دروازہ کھول کر طوطے کے گنجے سر پر ایک دھپ لگا دی طوطے نے ایک لمبی ٹیں کی اور پھر خاموش ہو گیا۔ سنان اپنے اس کارنامے پر بیحد مسرور ہوا اور ہاتھ ملتا ہوا مکان سے باہر نکل آیا۔وہ خاصی دیر یوں ہی بے مقصد گھومتا رہا۔ ایک گلی میں اس کی نظر اس قہوہ خانہ پر پڑی جہاں اس کی ملاقات طوطے والی بڑی اماں کے ساتھ ہوئی تھی۔
آج شام یہاں آ کر کافی پی جائے گی ، سنان نے اپنے آپ سے کہا اور آگے بڑھ گیا۔ پاسکل سے نہ ملنے کا غم پیرس کی حسین اور چمکتی ہوئی صبح نے قدرے ماند کر دیا تھا اور وہ ایک تجربہ کار سیاح کی مانند ہر شے، ہر عمارت اور شہر کے مکینوں کو بہ نظر غور دیکھتا چلا جا رہا تھا ۔ شہر کا یہ حصہ خاصا پسماندہ دکھائی دیتا ہے اکثر بالکونیوں کی حالت مخدوش ہے۔ چند مکان گرنے کو ہیں۔ گلیاں کھردرے پتھروں کی ہیں جانے وہ صوبیدار دلنواز نے شیشے کی سڑکیں کہاں دیکھی تھیں؟لوگ انگریزوں کی نسبت قدرے فربہ، چھوٹے قد کے اور سیاہ بالوں والے ہیں۔ اتنے صاف ستھرے بھی نہیں البتہ انگریزوں کے مقابلے میں زندگی سے بیزار دکھائی نہیں دیتے بلکہ ضرورت سے زیادہ مسرور ہیں۔ وہ یونہی تاکتا جھانکتا سیکرے کر کے کلیسا تک آ گیا جس کے خوبصورت گنبد اس کے کمرے سے دکھائی دیتے تھے۔ وہ صدر دروازے سے اندر داخل ہو گیا۔
کلیسا بیحد تاریک اور خشک تھا ۔ سامنے حضرت عیسی علیہ السلام اور حضرت مریم علیہ السلام کے درجنوں مجسموں کے نیچے سینکڑوں لمبی اور نازک موم بتیاں جھلملا رہی تھیں۔ چند لوگ جن میں اکثریت بوڑھی عورتوں کی تھی لکڑی کے سخت تختوں پر گھٹنے ٹیکے عبادت میں مصروف تھے۔ سنان کو خیال آیا کہ اگر اس عمارت میں روشنی کا انتظام قدرے بہتر ہو جائے تو طرزِ تعمیر کی باریکیاں اُجاگر ہو سکتی تھیں۔ سنان بھی سستانے کی خاطر ایک بنچ پر بیٹھ کر یونہی جلتی ہوئی موم بتیوں کو گھورتا رہا۔ اس سے کچھ دور سیاہ لباس میں ملبوس ایک بوڑھی عورت عبادت کر رہی تھی عورت سنان کو دیکھ کر مسکرا دی۔ یہ طوطے والی بڑی اماں تھیں۔ سنان کو خفت سی محسوس ہونے لگی۔ وہ اس بڑی اماں کے چہیتے طوطے کو چپت لگا کر آیا تھا۔ وہ جواباً مسکرا دیا اور پھر بنچ سے اٹھ کر جلدی سے باہر آ گیا۔ باہر کی تیز دھوپ نے اس کی آنکھیں چندھیاں دیں۔
کلیسا کے عین سامنے چوڑی اور خوبصورت سیڑھیاں نیچے بازار تک اترتی تھیں۔ ان سیڑھیوں پر بیحد رونق تھی۔فرانسیسی بوڑھے جو پائپ منہ میں اڑوسے اخبار پڑھنے میں مگن تھے یا دھوپ میں اونگھ رہے تھے۔ بوڑھی عورتیں ، بے شمار ننھے منے بچے، کچھ بچہ گاڑیوں میں کلبلاتے ہوئے اور ان سے عمر میں بڑے سیڑھیوں کے ساتھ باغیچے میں کیڑی کاڑا قسم کا کوئی کھیل کھیلتے ہوئے۔ سنان نے وہاں نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی کمی بری طرح محسوس کی پھر اسے یاد آیا کہ پیرس کے باشندوں کی اکثریت موسم گرما میں ساحلی مقامات کی جانب کوچ کر جاتی ہے اور بقول ایک گائیڈ بک کے وہاں صرف نکمے آوارہ گرد، فلاش مصور، غیر ملکی سیاح اور آوارہ کتے ہی رہ جاتے ہیں۔ یہاں پر کتے تو نظر نہیں آ رہے تھے البتہ مصوروں کی بہتات تھی جو ایزل سامنے رکھے ارد گرد کے شور سے لاتعلق سیکرے کر کے خوبصورت گنبدوں کو کینوس پر منتقل کر رہے تھے۔ سنان بھی وہیں سیڑھیوں پر بیٹھ گیا اورپیرس کی زندگی کے ان دلچسپ پہلوؤں سے لطف اندوز ہونے لگا۔
ابھی وہ وہاں کچھ ہی دیر بیٹھا ہوگا کہ ایک نوجوان مصور اس کے پاس آ کھڑا ہوا مصور کے گلے میں مختلف قسم کی درجنوں مالائیں، تسبیہیں اور مندروں میں بجائی جانے والی ایک بڑی گھنٹی لٹک رہی تھی۔مصور نے گھنٹی اٹھا کر سنان کے کان کے پاس لے جا کر زور زور سے بجائی اور مسکرانے لگا۔
صبح خیر سنان بھی مسکرا دیا۔مصور اس کے ساتھ ہی سیڑھیوں پر براجمان ہو گیا اور بغل میں دابی ہوئی متعدد تصویروں میں سے ایک نکال کر سنان کے گھٹنوں پر پھیلا دی۔ سنان تصویر کو دیکھ کر بیحد حیران ہوا۔ یہ اس کی اپنی ہی لگ رہی تھی۔آپ نے شاید دیکھا نہیں۔میں پچھلے دس منٹ سے آپ کی تصویر کشی میں مصروف تھا۔مصور نے نہایت ادب سے کہا۔ خوب ہے سنان نے کہا۔ تصویر واقعی عمدہ بنی تھی۔ میری طرف سے یہ بطور تحفہ قبول فرمائیے۔ مصور نے کھڑے ہو کر جھک کر کہا اور گلے میں بندھی گھنٹی ہلا دی ۔ ٹن ٹناٹن۔ سنان اس بے جا خلوص کے مظاہرے سے بیحد متاثر ہوا۔ نہیں نہیں یہ کیسے ہو سکتا ہے ۔ بہر حال آپ کا شکریہ ۔ شکریے کی کوئی بات نہیں ۔ آپ کے مشرقی خدو خال اتنے دلفریب ہیں کہ میرے اندر تخلیقی جذبات کا ایک سمندر ابل پڑا اور مجھے آپ کی تصویر بناتے ہی بنی۔
سنان سیدھا ہو کر بیٹھ گیا گویا وہ واقعی خوش شکل تھا۔ اس نے مصور کا دل توڑنا مناسب نہ سمجھا اور تصویر قبول کر لی۔ اسے تو ہمیشہ سے ہی تخلیقی جذبات کی سر پرستی کا خیال رہتا تھا۔ میں بیحد ممنون ہوں، سنان اس کے احسان تلے دبا جا رہا تھا۔ مصور نے جواباً صرف گھنٹی بجا دینے پر اکتفا کیا۔ ٹن ٹنا ٹن اور وہیں کھڑا رہا۔ سنان کچھ عرصہ تو اس کی طرف دیکھ دیکھ کر مسکرا تا رہا مگر جب اس کے جبڑے دکھنے شروع ہو گئے تو وہ سنجیدہ ہو گیا ۔آخر یہ مصور یہاں سے جاتا کیوں نہیں؟میں نے کہا کہ میں بیحد ممنون ہوں ۔ سنان نے ایک مرتبہ پھر مسکرانے کی کوشش کی۔ مصور نے بھی ایک مرتبہ پھر وہیں کھڑے کھڑے گلے میں بندھی گھنٹی بجا دی ۔ ٹن ٹناٹن۔ سنان جھلا گیا ۔آخر یہ حضرت چاہتے کیا ہیں؟اس نے اپنی تصویر سیڑھیوں پر رکھ دی اور جیب سے سگریٹ کا پیکٹ نکالا۔بہترین طریقہ یہی ہے کہ اسے نظر انداز کیا جائے خود بخود چلا جائے گا ۔ سنان پیکٹ میں سے سگریٹ نکالنے لگا تو مصور نے جھک کر اپنی مدد آپ کے اصول پر عمل کرتے ہوئے ایک سگریٹ اٹھا لیا۔ سنان خون کے گھونٹ پی کے رہ گیا۔ اپنا سگریٹ سلگانے لگا تو مصور نے بھی منہ میں دابا ہوا سگریٹ آگے کر دیا ۔ سنان کو طوعاً کرہاً سلگانا پڑا۔ سگریٹ سلگا کر مصور پھر کھڑا ہو گیا اور گلے میں لٹکتی ہوئی گھنٹی بجا دی۔ ٹن ٹنا ٹن۔ آخر تم چاہتے کیا ہو؟سنان نے تنگ آ کر پوچھا۔ بیس فرانک ۔بیس فرانک وہ کس بات کے؟تین فرانک کا کینوس اور ایک فرانک کے رنگ تصویر کشی میں صرف ہوئے اور سولہ فرانک میری اجرت ۔سنان میں تخلیقی جذبے کی سر پرستی کے ارفع اعلیٰ جذبات فوراً سرد پڑ گئے۔ ٹن ٹنا ٹن مصور نے پھر گھنٹی بجائی اور کہنا شروع کیا ،بیس فرانک کچھ زیادہ نہیں ، ہو سکتا ہے آج سے چند سو برس بعد میں ایک بہت بڑے مصور کی حیثیت سے پہچان لیا جاؤں اور یہی تصویر آپ بیس ہزار فرانک میں فروخت کر دیں۔چند برسوں بعد میں فروخت کر سکوں ۔۔؟سنان نے ’میں’ پر زور دیتے ہوئے حیرت سے پوچھا ۔ چلئے آپ کی اولاد ہی سہی۔ اب لائیے نا بیس فرانک مجھے کسی اور سیاح کی تصویر بھی بنانی ہے۔ سودا پندرہ میں طے پا گیا اور سنان قیمت ادا کر کے فوراً ہی اٹھ کھڑا ہوا مبادا کسی اور مصور کے دل میں اس کے مشرقی خد و خال دیکھ کر تخلیقی جذبات کا سمندر ابل پڑے۔
کلیسا کے پاس ہی ٹرام اسٹیشن بھی تھا۔ سنان اپنی پندرہ فرانک کی تصویر بغل میں دابے وہیں سے ایک ٹرام میں سوار ہو کر شہر کے مرکز میں اتر گیا جہاں سے نپولین کی تعمیر کردہ فتح کی محراب کھڑی تھی۔ محراب کے چاروں طرف نپولین کی مختلف جنگوں کے واقعات سنگ مر مر کے خوشنما مجسموں کی صورت میں ابھرے ہوئے تھے۔ اس محراب میں سے بارہ خوبصورت سڑکیں نکل کر پیرس کے سینے پر حیات آفرین شریانوں کی طرح پھیل گئی ہیں۔ انہی میں سے ایک مشہور زمانہ شائزے لیزے ہے جسے فرانسیسی دنیا کی خوبصورت ترین سڑک کا خطاب دیتے تھے۔ سنان اس میں تھوڑا سا رد و بدل کرنا چاہتا تھا ۔ شائز ے لیزے یقیناً دنیا کی دوسری خوبصورت ترین سڑک کہلانے کی مستحق تھی ۔ لاہور کی مال روڈ کو اس پر فوقیت حاصل تھی۔
شائز جیسا کہ اس سڑک کو اہلِ پیرس پیار سے پکارتے ہیں 1212 میں ماری ڈی میڈیکا کے بنائے ہوئے نقشے کے مطابق تعمیر ہوئی۔سڑک کے دونوں طرف پیدل چلنے والوں کے لئے وسیع فٹ پاتھ ہیں جن کے گرد ہرے بھرے درختوں کی قطاریں دور تک چلی گئی ہیں۔فٹ پاتھ کے پہلو میں پیرس کی بہترین فیشن کی دکانیں اور قہوہ خانے ہیں جہاں لوگ مشروب پینے کی خاطر کم اور فٹ پاتھ پر رواں فیشن پریڈ دیکھنے کے لئے زیادہ بیٹھتے ہیں۔ایک میل سے زیادہ طویل یہ سڑک کا نکورد چوک کے درجنوں عالیشان فواروں پر ختم ہوتی ہے جہاں انقلابِ فرانس کے دوران میں گلو ٹین گاڑ کر تین ہزار کے لگ بھگ لوگوں کے سر قلم کر دیئے گئے تھے۔ان میں لوئی سائز دہم کے علاوہ ملکہ ماری انتونیت، غریبوں کے پاس اگر روٹی نہیں تو وہ کیک کیوں نہیں کھاتے۔واتین اور گورے بھی شامل تھے۔
سنان بھی ایک عام سیاح کی مانند ایک قہوہ خانے کے باہر بیٹھ کر کافی پینے لگا اور فٹ پاتھ پر چلتے ہوئے لوگوں کا جائزہ لینے لگا۔تھوڑی دیر بعد وہ اس مشغلے سے اکتا گیا۔اس نے سوچا کہ کیوں نہ دنیا کے بہترین عجائب گھر لودر میں جا کر مصوری کا شاہکار مونا لیزا اور وینس کا خوبصورت مجسمہ دیکھا جائے۔چنانچہ اس نے ویٹر سے کافی کا بل لانے کو کہا بل کی آمد نے پیرس کی خوبصورتی میں زہر گھول دیا۔پانچ فرانک کافی کے دو فرانک سروس چارج یعنی مبلغ چودہ روپے پاکستانی کافی پہ اٹھ گئے۔
فتح کی محراب کے میٹرو اسٹیشن سے وہ گاڑی میں سوار ہو کر لودر عجائب گھر کے اسٹیشن اتر گیا۔یہ اسٹیشن یقیناً ماسکو کے زیرِ زمین اسٹیشنوں کے ہم پلہ تھا جنہیں دنیا میں خوبصورت ترین مانا جاتا ہے۔لودر اسٹیشن کا وسیع پلیٹ فارم ہلکی روشنی سے منور تھا۔ دیواروں میں جا بجا اطالوی اور یونانی مجسمے رکھے ہوئے تھے۔چھت سے درجنوں بیش قیمت جھاڑ اور فانوس لٹک رہے تھے۔وہ اس اسٹیش کی مسحُور کن خوبصورتی میں کھویا ہوا تھا کہ پیچھے کھڑے ہوئے ایک مسافر نے اسے کندھے سے پکڑ کر اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی۔اس نے مڑ کر دیکھا تو ایک پاکستانی حضرت جن کی صورت سے وہ قطعاً نا آشنا تھا کھڑے مسکرا رہے تھے۔
آپ کا نام سنان ہی ہے نا؟اس نے اثبات میں سر ہلایا۔آپ کسی زمانے میں لاہور کے نیشنل کالج آف آرٹس میں بڑی باقاعدگی سے آیا کرتے تھے۔سنان کو یاد آیا کہ وہ اس کالج میں ایک دوست تنویر کے پاس اپنے گھر کا نقشہ بنوانے کی غرض سے جایا کرتا تھا۔تنویر کو انہی دنوں لاہور کے چڑیا گھر کا نقشہ بنانے کا ٹھیکہ بھی مل گیا۔چنانچہ جب سنان کے گھر کا نقشہ مکمل ہوا تو تنویر کی غیر حاضر دماغی کی وجہ سے باورچی خانے کی بجائے وہاں ریچھوں کے پنجرے کا نقشہ بن گیا اور سنان کا باورچی خانہ چڑیا گھر کے نقشے میں منتقل ہو گیا۔اسی لئے تو شاید آج کل یہ کہا جا رہا ہے کہ لاہور کے چڑیا گھر میں جانوروں کو گھر کا سا ماحول میسر ہے۔بہر حال سنان یہ فیصلہ نہ کر سکا کہ ان حضرت کا نیشنل کالج آف آرٹس سے کیا تعلق ہو سکتا ہے؟
مجھے افسوس ہے کہ میں آپ کو پہچان نہیں پایا۔سنان نے شرمندہ ہو کر کہا۔مجھے کہاری کہتے ہیں ان صاحب نے نہایت انکساری سے اپنا تعارف کروایا ایک روز آرکی ٹیکچر کے لیکچرار تنویر صاحب کے کمرے میں آپ سے ملاقات ہوئی تھی۔آہا کہاری صاحب سنان نے بڑی گرمجوشی سے ہاتھ ملایا۔پہچان وہ اب بھی نہیں پایا تھا.بھئی بڑی خوشی ہوئی آپ سے مل کر، کہاری صاحب تو آپے سے باہر ہو رہے تھے مدتوں بعد کسی آشنا صورت سے واسطہ پڑا ہے.شاید یہ صاحب تنویر کے ہاں چڑیا گھر کی تعمیر نو کے ٹھیکے کے لئے آیا کرتے تھے۔ سنان کو یاد آ گیا۔اور سنائیے کہاری صاحب آپ کے چڑیا گھر کا کیا حال ہے؟سنان نے سوشل ہونے کی کوشس کی۔ چڑیا گھر؟کہاری صاحب نے حیرت زدہ ہو کر پوچھا۔جی ہاں چڑیا گھر۔بندروں اور ریچھوں کے پنجرے وغیرہ؟
بندروں ،کہاری صاحب باقاعدہ ہنسنے لگے آپ مجھے پہچان نہیں سکے میرا پیشہ تو مصوری ہے۔پچھلے چند ماہ سے پاکستان کے ایک صنعتی ادارے کے توسط سے پیرس میں مقیم ہوں اور یہاں پاکستانی دستکاریوں کو فروغ دینے کے لئے کوشاں ہوں۔سنان بے حد شرمندہ ہوا اور بھر پور معذرت کی۔کیا آپ بھی یہ مصوری وغیرہ کے سلسلے میں پیرس آئے ہیں؟کہاری صاحب نے سنان کے بغل میں دابی ہوئی تصویر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دریافت کیا۔اوہ یہ تصویر؟سنان نے ہنس کر کہا پندرہ فرانک اٹھے ہیں اس پر اور پھر اپنی سیاحت کے بارے میں بتایا۔اب کیا پروگرام ہے؟لودر کے عجائب گھر میں جانے کا خیال تھا۔
چھوڑئیے صاحب، کہاری صاحب نے خوشدلی سے کہا: پچھلے پہر تو عجاب گھر سیاحوں سے ٹھسا پڑا ہوتا ہے ہجوم کی وجہ سے آپ کو تصویروں کے فریم اور مجسموں کی ٹانگوں کے سوا کچھ نظر نہ آئے گا۔صبح سویرے جا کر دیکھئے اور اِس وقت میرے ساتھ چل کر میرے کمرے میں کافی کی ایک پیالی پیجئے۔
کہاری کی دعوت میں اتنا خلوص تھا کہ سنان انکار نہ کر سکا۔لودر بعد میں دیکھ لیں گے،اس نے سوچا اور کہاری کے ساتھ چل دیا۔کہاری کے چھوٹے سے کمرے پر اچھے خاصے عجائب گھر کا گمان ہوتا تھا۔پاکستانی دستکاریوں کے نمونے، مغل طرز مصوری کی لاتعداد تصاویر، پیرس کی تاریخی عمارتوں کے پنسل اسکیچ، رنگوں کے ڈبے خالی کینوس اور خالی بوتلیں۔
کہاری نے سنان کو اپنی بنائی ہوئی تصاویر اور مٹی کی نقش شدہ اینٹیں دکھائیں جنہیں پیرس کے فن پرست حلقوں نے بے حد سراہا تھا۔اس کام سے فارغ ہو کر اس نے ایک کونے میں رکھے ایک شوو پا کافی تیار کی اور وہ دونوں وہیں قالین پر بیٹھ کر باتیں کرنے لگے۔
آخر پیرس میں ایسی کونسی کشش ہے کہ دنیا جہاں کے مصور یہاں کھنچے چلے آتے ہیں؟مجھے تو ابھی تک اس شہر میں کوئی خاص بات نظر نہیں آتی۔سنان نے کافی کا گھونٹ بھرتے ہوئے کہاری سے پوچھا۔
فن کے بارے میں یہاں کے لوگوں کا خوشگوار رویہ، حکومت کی طرف سے مراعات اور سرپرستی، یہاں کا ماحول اور پھر پیرس کی تاریخی عمارتیں جو کینوس پر منتقل ہو کر اور بھی دیدہ زیب ہو جاتی ہیں۔مصور بھی ایک شاعر کی طرح ہوتا ہے – وہ چاہے اپنے فن کے ذریعے سے دو وقت کی روٹی کھانے میں ناکام ہو جائے مگر وہ داد ضرور چاہتا ہے۔اہلِ پیرس اس معاملے میں وسیع القلب واقع ہوتے ہیں اور یہی چیز مصوروں کو یہاں کھینچ لاتی ہے۔
کافی ختم کرنے کے بعد کہاری نے اسے پاکستانی موسیقی کے ریکارڈ سنوائے، کہ دوران میں یکدم دروازے پر دستک ہوئی اور ساتھ ہی ایک شوخ و شنگ قسم کی نوجوان فرانسیسی لڑکی مسکراتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی۔ اس نے سنان کو ایک نظر دیکھا اور پھر کہاری سے مخاطب ہو کر فرانسیسی میں کچھ کہا۔کہاری نے ہنستے ہوئے اسی زبان میں جواب دیا اور لڑکی اسی وقت باہر نکل گئی۔
آپ نے بھی رکھی ہے؟ سنان نے سنجیدگی سے پوچھا۔
کیا چیز؟
یہ لڑکی؟
لاحول ولا۔کہاری صاحب باقاعدہ شرما گئے۔آپ کو کیسے خیال آیا؟
میرا خیال تھا کہ پیرس میں رہنے والے تمام مصوروں کی بود و باش کا یہ لازمی حصہ ہے۔
نہیں صاحب یہ بیچاری تو مالک مکان کی لڑکی ہے۔پوچھنے آئی تھی کہ تمہارے دوست دوپہر کا کھانا تو کھائیں گے نا؟دوپہر کے کھانے کے بعد پھر کافی چلی اور پھر شام تک پاکستان اور پیرس کے بارے میں گپ شپ ہوتی رہی۔تقریباً چھ بجے کے قریب سنان کہاری صاحب کی مہمان نوازی کا شکریہ ادا کرنے کے بعد ٹرام کے ذریعے واپس مومارت آ گیا۔اس نے ان سے پیرس سے روانگی سے قبل ملاقات کا وعدہ بھی کیا۔اب اس کا ارادہ تھا کہ دریائے سین کے کنارے پاسکل کی تلاش میں نکلنے سے قبل اپنا کیمرہ کمرے میں رکھ آئے اور شام کی خنکی کے پیش نظر کوئی اونی چیز بھی پہن لے۔۔۔؟
اسے پیاس بھی محسوس ہو رہی تھی۔سنان قہوہ خانہ کے اندر چلا گیا اور اورنج اسکوائش کی ایک بوتل خرید کر کونے میں پڑی ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔نیم تاریک قہوہ خانے میں اسے بیحد سکون کا احساس ہوا۔وہاں اس کے علاوہ اور کوئی گاہک موجود نہ تھا۔مالک حسبِ معمول سفید جھاڑن سے کاؤنٹر کی سطح چمکانے میں مصروف تھا۔ماحول میں تازہ کافی اور وائن کی ملی جلی مہک حیرت انگیز طور پر خوشگوار تھی۔
موسیو ہوٹل؟قہوہ خانے کے مالک نے وہیں کھڑے کھڑے سنان سے پوچھا اسے شاید یاد آ گیا تھا کہ یہ وہی لڑکا ہے جو اس روز ہوٹل کے بارے میں دریافت کرنے آیا تھا۔
مل گیا، سنان نے سر ہلا کر خوش دلی سے کہا۔
ترے بیان مالک نے بھی سر ہلایا اور پھر الماری میں رکھے ہوئے شراب کے نازک اور پتلے گلاس نکال کر پونچھنے لگا۔
اتنے میں قہوہ خانہ کا دروازہ کھلا اور وہی مصور پال جسے میڈم ذی نے کرایہ نہ ادا کرنے کی پاداش میں کمرے سے نکال دیا تھا اندر داخل ہوا۔اس کی پشت چونکہ سنان کی جانب تھی اس لئے وہ ایک دوسرے کو دیکھ نہ پائے۔پال سیدھا کاؤنٹر پر گیا اور مالک سے سرخ شراب کا ایک گلاس خرید کر وہیں اسٹول پر بیٹھ کر چسکیاں لینے لگا۔
تقریباً آدھا گلاس شراب پی کر اس نے جیب سے ایک رنگ دار پنسل نکالی اور کاؤنٹر کی سطح پر آڑھی ترچھی لکیریں کھینچنے لگا۔سنان نے اورنج جوس کا آخری گھونٹ بھرا اور میز سے اٹھ کھڑا ہوا۔وہ پال سے مل کر یہ دریافت کرنا چاہتا تھا کہ کل کمرے سے نکلنے پر اس نے رات کہاں گزاری تھی اور آج کل کہاں رہتا ہے؟
اسی اثناء میں جب قہوہ خانے کے مالک نے شراب کے گلاسوں کو جھاڑ پونچھ کر الماری میں رکھ کر پیچھے مڑ کر دیکھا تو پال کو کاؤنٹر کی صاف اور چمکیلی سطح پر مشقِ مصوری بناتے دیکھ کر اس کا پارہ چڑھ گیا اور اس نے بڑی درشتگی سسے اسے کچھ کہا۔پال اسی طرح بڑے سکون سے کاؤنٹر پر لکیریں کھینچتا رہا۔مالک کچھ دیر تو وہاں کھڑا اس عمل سے باز رکھنے کی کوشش کرتا رہا مگر جب نتائج خاطر خواہ بر آمد نہ ہوئے تو اس نے پال کی جیکٹ پکڑ کر زور سے کھینچی۔اس کے بعد حالات ایک دم بگڑ گئے اور تھوڑی دیر بعد وہ ایک دوسرے کو دھما دھم پیٹ رہے تھے۔مالک چونکہ بھاری تنو توش کا مالک تھا اس لئے اس کا پلڑہ بھاری نظر آ رہا تھا۔سنان تھوڑی دیر تو انہیں یوں گتھم گتھا ہوتے دیکھتا رہا اور پھر صلح صفائی کرانے کی غر ض سے آگے بڑھا۔
اے بھائی موسیو۔یہ لڑائی۔۔
ابھی وہ اتنا ہی کہہ پایا تھا کہ ان میں سے کسی نے ایک زور دار گھونسہ اسے بھی جڑ دیا۔سنان لڑکھڑاتا ہوا واپس اسی میز کے پاس آ پہنچا جہاں وہ اس سے پہلے اورنج جوس پی رہا تھا۔اس کا جی چاہا کہ خالی بوتل اٹھا کر یونہی لڑھکا دے مگر پھر کچھ سوچ کر وہیں کرسی پر بیٹھ کر اپنا جبڑا سہلانے لگا۔اس نے کاؤنٹر کی طرف دیکھا تو اس کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی۔پال او قہوہ خانے کا مالک بڑی بے تکلفی سے بغل گیر ہو رہے تھے اور خوب قہقہے لگا رہے تھے۔فرانسیوں کی کھوپڑی ہی الٹی ہے۔سنان نے غصے سے منہ پھلایا لیکن اس حرکت سے اس کے جبڑے میں شدت کا درد اٹھا اور وہ پھر چپ کر کے بیٹھ گیا۔
مُکا شاید زور سے لگا ہے؟پال اس کے سامنے کھڑا مسکرا رہا تھا۔زور سے ہی لگا ہے، سنان نے رکھائی سے جواب دیا۔
پیرس میں آج کا دن واقعی ہنگامہ خیز گزرا تھا۔اب تک صرف مصوروں ہی سے ملاقات ہوتی رہی تھی۔صبح ایک صاحب پندرہ فرانک ہتیا کے لے گئے،دوپہر کو ایک مصور نے کافی پلائی اور کھانا کھلایا اور اب ایک اور مصور نے اس کے خوبصورت جبڑے کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا تھا۔
پرائے پھڈے میں خواہ مخواہ ٹانگ اڑا دی، پال اس کے سامنے کرسی پر بیٹھتے ہوئے مسکرا کر بولا :قہوہ خانے کا مالک میرا دوست ہے۔ہم اکثر کسی نہ کسی بات پر الجھتے رہتے ہیں۔ ویسے اب کی بار غلطی میری تھی جو اس کے صاف شفاف کاؤنٹر کا ستیاناس کر رہا تھا۔
تھوڑی دیر بعد جب جبڑے کا درد قدرے کم ہوا تو سنان کا موڈ بھی قدرے بحال ہو گیا۔
کل جب تمہیں میڈم زی نے کمرے سے نکال دیا تھا تو اس کے بعد شب بسری میں خاصی دقت ہوئی ہوگی؟اس نے پال سے پوچھا۔
ہاں قدرے پال نے لمبی داڑھی میں انگلیوں سے کنگھی کرتے ہوئے جواب دیا۔میں اپنی پہلی دوست لڑکی کے پاس گیا تو وہاں پیشگی بکنگ ہو چکی تھی۔اس کے ساتہ آج کل ایک انڈو نیشین مصور رہتا ہے۔بہر حال وہ رات تو فٹ پاتھ پر گزری اور دوسری صبح یہاں سے قریب ہی ایک اور جگہ رہائش کا بندوبست ہو گیا۔مجھے افسوس ہے کہ میری وجہ سے تمہیں اتنی پریشانی اٹھانی پڑی۔
کوئی بات نہیں ، بلکہ مجھے تو الٹا تمہارا شکر گزار ہونا چاہیئے۔ تم نے مجھے تین ماہ کے کرائے سے نجات دلا دی۔ وہ تمہاری پہلی بیوی جو قہوہ خانے میں کام کرتی تھی ۔ اس کا کیا ہوا۔سنان جاننا چاہتا تھا۔ اوہ لو ئیس؟ وہ بھی میرے ساتھ ہی ہے۔
پال نے اسے بتایا کہ وہ جرمنی کے شہر ہیمبرگ کا رہنے والا ہے ۔ ماں باپ جنگ عظیم کے بھینٹ چڑھ گئے اور وہ قصابوں کی دکانوں پر سور کاٹتا ۔ اسٹیشنوں پر جھاڑو دیتا اور غسل خانوں کی صفائی کرتا جوان ہو گیا۔ اس دوران میں اسے مصوری کی لت پڑ گئی اور وہ پیرس آ گیا۔ یہاں وہ پچھلے کئی برسوں سے مقیم تھا۔ آمدن نہ ہونے کے برابر تھی۔
تو پھر گزارا کیسے ہوتا ہے؟سنان نے پوچھا۔
نہیں ہوتا ، پال نے سر ہلایا۔ کبھی کبھار کوئی تصویر بک جاتی ہے تو چند روز اچھی طرح کٹ جاتے ہیں کسی نیک دل اور فن پرست خاتون سے تعارف ہو جائے تو کچھ عرصہ ہر شام وہاں کم از کم کھانے کے لئے کچھ نہ کچھ مل جاتا ہے اور مجھے وہاں صرف مصوری کے بارے میں گفتگو کرنی پڑتی ہے۔ خاتون اگر فن پرستی چھوڑ کر شخصیت پرستی پر اتر آئے تو چار پیسے بھی مل جاتے ہیں یا پھر اور کچھ نہ ملا تو سیکرے کر کلیسا کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر کسی سیاح کی تصویر بنا کر چار پانچ فرانک زبردستی وصول کر لیے۔
چار پانچ فرانک؟سنان کو اپنے پندرہ فرانک کا خیال آ گیا۔
جو بھی مل جائے غنیمت ہوتا ہے۔ کئی تو صرف ایک فرانک پر ہی ٹرخا دیتے ہیں۔ ایک ۔۔لیکن میں تو پندرہ فرانک دے کر چُھوٹا تھا۔
ہا ہا ہا ۔ پال نے بے تحاشا ہنسنا شروع کر دیا۔ گویا تم بھی پھنس گئے تھے؟پیرس کے قلاش مصوروں کا یہ پسندیدہ طریقہ ہے۔دس بارہ کینوس لے کر ان پر سیکرے کر کا پسِ منظر پہلے سے بنا لیا اور پھر چند لکیریں کھینچ کر کسی سیاح کو جا دبوچا۔ آپ کے خد و خال نے میرے دل میں۔۔۔
ہاں ہاں باقی کا حصہ مجھے معلوم ہے۔ سنان نے پشیمان ہو کر کہا۔
اسے یاد آ گیا کہ وہ تصویر تو کہاری کے کمرے میں ہی رہ گئی تھی کل سہی۔
اگر تمہیں اور کہیں نہیں جانا تو میرے اسٹوڈیو میں چلو۔ میرے پاس لمبی فرانسیسی ڈبل روٹی اور پنیر بھی ہے۔ پال نے میز سے اٹھتے ہوئے اسے دعوت دی۔
ابھی صرف سات بجے تھے۔ سنان نے سوچا وہ ایک ڈیڑھ گھنٹا اس دلچسپ شخصیت کے ساتھ گزارے گا اور بعد میں دریائے سین پر چلا جائے گا چنانچہ اس نے پال کے ساتھ اسٹوڈیو جانے کی حامی بھر لی۔
پال کا اسٹوڈیو یا وہ کمرہ جہاں وہ تصویریں بنانے کے ساتھ ساتھ سوتا بھی تھا قہوہ خانے سے کچھ فاصلے پر ایک نہایت بوسیدہ عمارت میں واقع تھا۔ حکومت کی طرف سے اس عمارت کو خطرناک قرار دے کر اسے مسمار کر دینے کے احکام جاری ہو چکے تھے۔ اس اثناء میں چند قلاش مصوروں اور آوارہ گردوں نے وہاں ڈیرے ڈال دیے۔ پال نے سنان کو بتایا کہ بلدیہ کے کارندے تقریباً ہر روز عمارت کو گرانے کے لئے آ دھمکتے ہیں مگر وہاں کے مکین منت سماجت کر کے چند روز کی مہلت لے لیتے ہیں۔ بہر حال یہاں پر کم از کم کرائے کی مصیبت نہ تھی۔
اسٹوڈیو میں سوائے ان رنگوں کے ڈبوں اور چند بوتلوں کے اور کچھ نہ تھا جو کل تک سنان کے کمرے کی زینت تھے۔ کمرے میں پلنگ بھی نہ تھا۔
تمہارا بستر کہاں ہیں؟
بستر؟پال نے حسب معمول داڑھی کھجائی۔ میں اپنی جیکٹ میں ہی سو رہتا ہوں کافی گرم ہے۔ اس نے اپنی ہلکی سی جیکٹ کا کونا انگلیوں میں مسلتے ہوئے کہا۔
پال نے چند پرانے اخبار فرش پر پھیلا دیئے مجھے افسوس ہے کہ میرے پاس بیٹھنے کے لئے کرسی وغیرہ نہیں ہے۔
کوئی بات نہیں سنان زمین پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا۔ یہ طریقہ سراسر مشرقی ہے ۔پال نے میلی جیکٹ کی ایک جیب میں سے اخبار کے کاغذ میں لپٹی ہوئی لمبی ڈبل روٹی نکالی اور دوسری میں سے پنیر کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا ۔ ڈبل روٹی درمیان میں سے توڑ کر اس نے آدھی سنان کو تھما دی اور پنیر فرش پر رکھ دیا۔ پال ابھی یہ پُر تکلف دسترخوان بچھانے کا تردُّد کر ہی رہا تھا کہ کمرے کا دروازہ یکدم کھلا اور ایک چپٹے ناک والی خوبصورت لڑکی کمرے میں داخل ہوئی۔
پال ڈارلنگ آج مجھے تنخواہ مل ہی گئی۔ اس نے اندر آتے ہی پال کے لمبے بال پیار سے کھینچے اور پھر اس کی داڑھی ایک طرف ہٹا کر اس کے لبوں پر بوسہ دیا۔ یہ ہے میری بیوی ۔۔آہم ۔۔میرا مطلب ہے اس کا نام لوئیس ہے۔ پال نے تعارف کروایا۔ اور یہ ہے میرا دوست۔ اور پھر قدرے رک کر سنا ن سے کہنے لگا ۔ بھائی نام کیا ہے تمہارا اور کیا کرتے ہو؟
سنان نے اپنا مکمل تعارف کروایا۔
آپ میرے پہلے پاکستانی ہیں۔ لوئیس نے ان دونوں کے پاس فرش پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ اس نے یہ فقرہ ایسے ادا کیا جیسے وہ کسی نادر الوجود پرنے کی نسل سے تعلق رکھتا ہو جو پہلی مرتبہ قابو آیا ہو۔
پنیر اور ڈبل روٹی؟لوئیس نے فرش پر رکھے طعام کے انتظامات کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہوئے دہائی دی۔میں پچھلے دس روز سے پنیر اور ڈبل روتی کھا رہی ہوں۔ آج مجھے تنخواہ ملی ہے اور ہم کسی قہوہ خانے میں جا کر مناسب قسم کا کھانا کھائیں گے مثلاً تلا ہوا مرغ اور اس کے ساتھ سرخ شراب۔
سرخ شراب؟پال کی باچھیں کھل گئیں، سنان تم بھی آؤ۔
بہت بہت شکریہ پال لیکن آج سارا دن پیرس میں گھومتا رہا ہوں اور اب اپنے کمرے میں جا کر آرام کرنا چاہتا ہوں سنان نے فرش سے اٹھتے ہوئے کہا۔ ملنے آؤ گے؟پال نے اس کا ہاتھ دبا کر بیحد خلوص سے کہا۔
ضرور جب بھی وقت ملا۔
سنان کمرے سے باہر نکلنے لگا تو پال نے ڈبل روٹی اور پنیر فرش سے اٹھا کر اس کی جیبوں میں ٹھونس دیا، کمرے میں جا کر کھا لینا۔ لوئیس کو جان ’کیوں‘ پسند نہیں۔ سنان نے اس کا دل رکھنے کے لئے دونوں چیزیں قبول کر لیں ورنہ اسے ڈبل روٹی اور پنیر سے کوئی خاص رغبت نہ تھی۔
پال اسے نیچے دروازے تک چھوڑنے آیا ۔ سنان باہر نکلنے لگا تو پال اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہنے لگا ۔ اور ہاں میڈم زی سے ذرا بچ کر رہنا۔
کیا مطلب؟سنان وہیں کھڑا ہو گیا۔
تمہارے جیسے لڑکوں کو تو آملیٹ بنا کر کھا جاتی ہیں موصوفہ۔ پال آنکھ میچ کر مسکرایا۔
پال تمہیں یہ کیسے معلوم ہوا؟اوپر سے لوئیس کی آواز آئی جو شاید ان کی باتیں سن رہی تھی۔
میں نے تو صرف سنا ہے لوئیس ڈارلنگ ۔پال نے منہ پر ہاتھ رکھ کر بلند آواز میں کہا اور پھر سنان کے پاس آ کر آہستہ سے کہنے لگا۔ مجھے نہ معلوم ہوگا تو اور کس کو ہوگا ۔بھلا تین ماہ کا کرایہ اس نے یونہی تو نہیں چھوڑ دیا تھا۔
وارننگ کا شکریہ۔ سنان نے پال سے ہاتھ ملا یا اور باہر آ گیا۔
مومات کے گلی کوچوں میں خوب رونق تھی۔ اکثر لوگ اپنی بالکونیوں میں بیٹھے گلی کے پار اپنے ہمسایوں سے محو گفتگو تھے۔ سنان نے دیکھا کہ جیسے اندرونِ لاہور میں پردہ نشین عورتیں سارا دن کھڑکیوں میں بیٹھی خوانچہ فروشوں کا انتظار کرتی رہتی ہیں۔ریوڑیوں والا آیا تو جھٹ ایک ٹوکری میں چونّی رکھی اور رسی سے نیچے لُڑھکا دی۔ گھر بیٹھے سبزی اور پھل وغیرہ کی بھی خرید اسی طریق سے کی جاتی ہے۔ کچھ اسی طرح کا نظام یہاں پیرس میں بھی رائج تھا۔ ریوڑیوں کی بجائے ڈبل روٹی یا وائن خریدی جا رہی تھی۔
قہوہ خانوں کے بر آمدوں میں بچھی ہوئی کرسیاں فٹ پاتھ پھلانگ کر سڑک تک آ پہنچی تھیں۔ ان پر بیٹھے ہوئے لوگ خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ قہوہ خانوں کے بر آمدوں میں سجاوٹ کی خاطر بانس کے ساتھ بندھی ہوئی رسیوں کے ساتھ رنگ برنگے قمقمے لٹک رہے تھے ۔ ہوا چلتی تو بلب جھولتے اور روشنیوں کا عکس بے فکر مصوروں، طالبعلموں اور جوان عورتوں کے چہروں پر پڑتا۔
ایک دم سنان کو خیال آیا جس مقصد کے لئے ایک روز سے زیادہ اس شہر میں ٹھہرا تھا وہ تو پورا ہی نہیں ہوا ، ابھی تو اسے دریائے سین کے کنارے پاسکل کی تلاش میں نکلنا تھا، وہ سارا دن کی آوارہ گردی سے بیحد تھک چکا تھا اور دریائے سین وہاں سے کافی فاصلے پر تھا، ایک موہوم امید پر وہ اس وقت اتنی دور جانے کے موڈ میں نہ تھا، اس لئے اس نے وہاں جانے کا ارادہ ملتوی کردیا اور اپنے مکان کی جانب چل دیا۔
مکان کا دروازہ کھلا تھا، وہ ہال میں داخل ہوا تو دائیں ہاتھ کے کمرے سے ہلکی سی روشنی آ رہی تھی۔
کون ہے؟اندر سے میڈم ثری کی آواز آئی جس نے شاید دروازہ کھلنے کی آواز سن لی تھی۔
میں ہوں آپ کا پاکستانی کرایہ دار۔ میڈم ثری نائیلون کے باریک نائٹ گاؤن میں ڈھکی باہر نکل آئی۔
اس کی سرخ آنکھوں سے ظاہر تھا، سنان کے ادا کئیے ہوئے پیشگی کرائے کی رقم کا استعمال ابھی تک جاری ہے، وہ ایک ہاتھ کولہے پر رکھ کر کواڑ کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑی ہو گئی، اس کے ہونٹوں پر عجیب سی مسکراہٹ تھی۔
شب بخیر، سنان نے جلدی سے کہا اور سیڑھیوں کے طرف بڑھا۔
اتنی جلدی کیا ہے؟میڈم ثری نے وہیں کھڑے کھڑے جھوم کر کہا: میرے کمرے میں آ جاؤ ذرا باتیں کریں گے، میں اکیلی بیٹھی بور ہو رہی تھی۔
ادھ کھلے کواڑ سے تپائی پر رکھی شراب کی گدلی سبز بوتل اور ایک گلاس نظر آ رہا تھا ۔
شکریہ لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں بے حد تھک چکا ہوں اب آرام کرنا پسند کروں گا۔
میرے کمرے میں بھی بے آرامی تو نہیں ہوگی، میڈم ثری نے شرارت بھرے لہجے میں کہا۔
ہلکی روشنی میں اس کے چہروں کی جھریاں ماند پڑ گئی تھیں اور وہ خاصی قبول صورت نظر آ رہی تھی۔
دراصل میں نے ابھی تک شام کا کھانا بھی نہیں کھایا اور یہ۔۔۔۔۔سنان نے جیکٹ کی جیب میں ٹھنسی ہوئی ڈبل روٹی کی طرف اشارہ کیا پنیر کے ساتھ کھاؤں گا۔
ڈبل روٹی اور پنیر بھی کوئی کھانے کی چیز ہے تم اندر کمرے میں آ جاؤ میں تمہیں آملیٹ بنا کر دوں گی۔ بالکل مفت آ۔۔۔۔ملیٹ؟سنان گھبرا گیا، اسے پال کی وارننگ یاد آ گئی، تمہارے جیسے لڑکوں کا تو وہ آملیٹ بنا کر ۔۔۔۔۔جی بالکل نہیں ۔۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔۔نہیں میرا مطلب ہے بہت بہت شکریہ ۔۔۔۔مجھے یہ ڈبل روٹی اور پنیر پال نے دیا تھا۔
وہ بد معاش تمہیں کہاں مل گیا؟میڈم ثری نے غصے میں کہا اور پھر کسی پرانی یاد نے اسے مسکرانے پر مجبور کر دیا، پال اچھا لڑکا تھا۔۔۔۔۔تمہاری طرح نہ نہ کی گردان نہیں کرتا تھا۔۔۔۔مان جاتا تھا، اس نے حسرت آمیز لہجے میں کہا اور پھر آنکھیں بند کر کے گنگنانے لگی۔
سنان نے یہ موقع غنیمت جانا اور جلدی سے سیڑھیوں پر چڑھنے لگا، اپنے کمرے کے دروازے کے پاس جا کر اسنے مڑ کر دیکھا تو میڈم ثری وہیں دروازے کے ساتھ کھڑی آنکھیں بند کرے مسکرائے جا رہی تھیں، کمرے میں داخل ہونے سے قبل اس کی نگاہیں غیر ارادی طور پر ساتھ والے کمرے کے دروازے پر اٹھ گئیں۔۔۔۔وہاں بالکل خاموشی تھی۔
سنان اپنے کمرے میں آیا اور کپڑے بدل کر بستر پر لیٹ گیا، پال کی دی ہوئی ڈبل روٹی تو مزیدار تھی البتہ پنیر میں سے ایک زرد کیڑا برآمد ہوا، سونے سے پہلے اس نے نل سے جی بھر کر پانی پیا اور بستر پر لیٹ گیا۔
پیرس میں اس کا پہلا دن بیحد ہنگامہ خیز گزرا تھا، دلچسپ لوگوں سے واسطہ پڑا اور اس مشہور زمانہ شہر کے کئی روپ نظروں کے سامنے آئے۔
یہ میڈم ثری بھی خوب ہیں، وہ دل میں مسکرایا، بے چاری اتنے میں سنان کے دروازے پر آہستہ سے دستک ہوئی۔
کون ہے؟سنان نے لیٹے لیٹے زور سے پکارا۔
کوئی جواب نہ آیا۔
تھوڑی دیر بعد پھر دستک ہوئی۔
سنان جو بڑے مزے سے سفری رضائی میں لپٹا ہوا تھا، بڑبڑاتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا، اسے شبہ تھا کہ کہیں میڈم ثری شراب کے دو چار گلاس اور چڑھانے کے بعد وہ آملیٹ والی دعوت دہرانے نہ آ گئی ہو۔
کیا مصیبت ہے؟سنان نے ایک لمبی سانس لی اور دروازہ کھول دیا۔
دہلیز پر ساتھ والے کمرے والی لڑکی تھی، اس کے کھلے ہوئے کالے بال شانوں پر بکھرے ہوئے تھے۔
میں نے تمہارے کمرے میں روشنی دیکھی تو چلی آئی، مُخل ہونے کی معافی چاہتی ہوں۔
فرمائیے، سنان نے اباسی لیتے ہوئے پوچھا۔
تمہارے پاس سرخ شراب ہوگی۔
شراب؟سنان نے منہ بنا لیا۔
ہاں انگوروں کی سرخ شراب، میں شام کو جلدی میں خریدنا بھول گئی، کل لوٹا دوں گی۔
میں شراب نہیں پیتا، سنان نے وہیں کھڑے کھڑے اکتاہٹ سے کہا۔
کافی تو ہوگی؟مجھے اس وقت کسی شراب کی شدت سے طلب ہے، لڑکی کے چہرے پر تھکن کے آثار تھے۔
سنان دروازے سے ہٹ کر پلنگ کے پاس آ گیا اور اس کے نیچے سے اپنا سفری تھیلا گھسیٹ کر باہر نکال لیا، تھیلے کی بیرونی جیب میں کھانے پکانے کا سامان تھا، اس نے کافی کا ڈبہ نکال کر لڑکی کے حوالے کر دیا۔
بہت بہت شکریہ، وہ بیحد ممنون نظر آ رہی تھی، میں صرف ایک پیالی بنا کر ابھی واپس کیے دیتی ہوں۔
اس کی ضرورت نہیں، سنان نے اخلاقاً مسکرا کر کہا، صبح واپس کر دیجئیے گا۔
ابھی وہ رضائی کو اپنے گرد اچھی طرح لپیٹنے بھی نہ پایا تھا کہ دروازے پر پھر دستک ہوئی۔
دروازہ کھلا ہے، سنان اٹھ کر بیٹھ گیا، اب ضرور میڈم ثری ہوگی، دروازہ کھلا تو پھر وہ ہی لڑکی تھی ، اس نے کافی کی دو پیالیاں اٹھا رکھی تھیں،
ایک تمہارے لیے اس نے بستر کے قریب آ کر ایک پیالی سنان کو تھما دی اور وہیں کھڑی ہو گئی، تم مخل تو ہو گے مگر کیا میں یہاں بیٹھ کر کافی پی سکتی ہوں؟میں اپنے کمرے میں اکیلی بور ہو رہی تھی اور یہ رہا تمہارا کافی کا ڈِبّا۔
یوں معلوم ہوتا تھا جیسے اس گھر میں عورتوں کی اکثریت بیٹھی بور ہو رہی تھی، پہلے میڈم ثری اور اب یہ محترمہ۔
ہاں ہاں ضرور، سنان رضائی میں سے نکل کر بستر کے سرے پر بیٹھ گیا کمرے میں تو کرسی ہے نہیں آپ پلنگ پر ہی بیٹھ جائیں۔
شکریہ، لڑکی نے پلنگ پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ سنان لاشعوری طور پر بالکل ہی کونے میں سمٹ گیا، اس کی آنکھیں بند ہو رہی تھیں۔
میرا نام جینا ہے، لڑکی نے اس کی طرف بڑی بے چارگی سے دیکھا۔
مجھے سنان کہتے ہیں، اس نے جلدی سے کہا اور پھر سر جھکا کر کافی پینے لگا، اسے بیحد الجھن ہو رہی تھی، وہ سوشل بات چیت کے موڈ میں نہیں تھا اور اب سونا چاہتا تھا۔
آپ کا خاوند ابھی کام سے نہیں لوٹا کیا؟سنان نے تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد اونگھتے ہوئے پوچھا، وہ نہیں چاہتا تھا کہ لڑکی کی موجودگی میں ہی وہ سوجائے۔
لڑکی ہنس دی: میں شادی شدہ نہیں ہوں۔
پچھلی شب آپ کے کمرے میں موسیقی کی بڑی خوبصورت دھنیں بج رہی تھیں۔
شاید کسی مرد کی آواز بھی آ رہی تھی۔
ہاں۔۔۔۔۔۔پچھلی شب ۔۔۔۔۔لڑکی۔۔۔۔۔نے فقرہ ادھورا چھوڑ دیا اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔
سنان کی کافی ختم ہو چکی تھی مگر وہ پیالی دونو ں ہاتھوں میں تھامے بستر کے سرے پر اکڑوں بیٹھا رہا، اب وہ کیسے غیر مہذب ہوئے بغیر اس لڑکی کو کمرے سے چلی جانے کو کہے، اس نے جان بوجھ کر ایک طویل جمائی لی۔
خوبصورت دھنیں تھیں نا؟لڑکی نے کھڑکی سے نظریں ہٹا کر سنان سے پوچھا۔
ہوں، سنان نے چونک کر کہا۔
تم کہہ رہے تھے کہ میرے کمرے میں پچھلی شب بڑی خوبصورت دھنیں بج رہی تھیں۔
ہاں ۔۔۔۔وہ ۔۔۔۔بالکل ۔۔۔۔۔۔ستار بہت اچھی تھی۔
میرے کمرے میں آ جاؤ دونوں بیٹھ کر موسیقی سنیں گے، لڑکی نے بڑے خلوص سے دعوت دی۔
ہوں، سنان پھر چونک گیا۔
میرے کمرے میں ۔۔۔۔۔۔۔
اچھا ۔۔۔۔میرا مطلب ہے پھر کبھی سہی، سنان نے بستر سے اٹھ کر پیالی لڑکی کو دی، میں بیحد تھکا ہوا ہوں اور اب سونا پسند کروں گا امید ہے کہ آپ برا نہیں مانیں گی۔
میں کسی بات کا برا نہیں مانتی، لڑکی نے بستر سے اٹھ کر دروازے کی طرف جاتے ہوئے کہا، اگر برا مناؤں تو کھاؤں کہاں سے؟۔۔
سنان کو پہلے سے ہی اس لڑکی کے بارے میں موہوم سی بے چینی تھی مگر اب وہ اس فقرے سے سب کچھ جان گیا وہ ایک فرانسیسی محاورے کے مطابق چنچل لڑکی تھی، ایک کاروباری عورت۔
سنان کو اس سے پہلے اس قسم کی لڑکی سے ملنے کا اتفاق نہ ہوا تھا اور وہ حیران ہو رہا تھا کہ شکل و صورت کے لحاظ سے وہ نہایت عام سی لڑکی لگ رہی تھی، اس نے اس کے لئے اپنے دل میں ہمدردی سی محسوس کی، ایک چنچل لڑکی ہوتے ہوئے بھی اس کی باتوں میں بے پناہ خلوص اور چہرے پر معصومیت تھی، اس میڈم ثری سے کہیں زیادہ جو شرافت کا لبادہ اوڑھے ہوئے بھی شاید اس لڑکی سے زیادہ گھناؤنے کردار کی مالک تھی۔
میرا خیال تھا کہ مجھے اتنی نیند بھی نہیں آ رہی تھی کہ ستار کی ایک دو دلکش دھنیں بھی نہ سن سکوں، سنان نے بیحد دھیمے انداز میں مسکراتے ہوئے کہا۔
جینا وہیں رک گئی اور جھجک کر کہنے لگی، میں مُخل نہیں ہونا چاہتی۔
ایسی کوئی بات نہیں، سنان نے سلیپنگ سوٹ کے اوپر جیکٹ پہنتے ہوئے کہا، کافی پینے سے نیند بالکل غائب ہو گئی ہے، میں ستار کی دھنیں ضرور سننا پسند کروں گا۔
جینا کا کمرہ سنان سے کہیں بہتر تھا، کھڑکی پر لیس کے باریک پردوں کو مخمل کے بھاری پردوں نے ڈھک رکھا تھا، کونے میں پڑا وسیع پلنگ اپنے متعدد گدوں اور شیل کے رضائی کی وجہ سے بیحد آرام دہ دکھائی دے رہا تھا، پلنگ کے چاروں طرف سفید لیس والے پردے جھول رہے تھے، ایک کونے میں ایک بڑی ڈریسنگ ٹیبل پر دنیا جہاں کا سامان بکھرا پڑا تھا، فرش پر ایک پرانا قالین تھا اور اس پر ایک گدا اور نرم صوفہ سیٹ، کمرے میں مختلف خوشبوؤں میں خوراک کی بھی خوشبو تھی جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ اپنا کھانا پکانا بھی وہیں کرتی ہے، کھڑکی کے ساتھ تپائی پر شراب کی ایک خالی بوتل اور دو گلاس دھرے تھے، ان کے پیچھے ایک بیحد خوبصورت گڑیا پڑی تھی گڑیا کے لبوں پر لپ اسٹک لگی ہوئی تھی۔
جینی نے کمرے میں داخل ہوتے ہی بستر کی شکنیں، درست کیں، کھڑکی کا پردہ آگے کھینچ دیا اور پھر بھاری صوفے پر رکھے گدے کو تھپتپا کر وہیں رکھتے ہوئے کہنے لگی۔
میر ا کمرہ زیاد آرام دہ نہیں۔۔۔۔۔۔۔پلیز بیٹھئے۔۔۔۔
سنان صوفے پر بیٹھ گیا۔
جانے کیوں وہ بیحد نروس محسوس کر رہی تھی، یوں لگتا تھا جیسے اس کے ہاں اس سے پہلے بھی کبھی کوئی مہمان نہ آیا ہو۔
بڑا اچھا کمرہ ہے۔سنان نے کمرے کا جائزہ لیتے ہوئے خوش اخلاقی سے کہا۔
جینی بڑی بے چینی سے ادھر ادھر دیکھ رہی تھی، جیسے وہ کمرے کی سجاوٹ سے مطمئن نہ ہو۔
آرام دہ بھی ہے، سنان نے پھر کہا۔
میری آمدن اس سے بہتر کمرے میں رہنے کی اجازت نہیں دیتی، بس گزارا ہے، جینی نے وہیں کھڑے کھڑے کہا اور مسکرانے لگی۔
اوہ۔۔۔۔۔اس نے ایکدم منہ پر یوں، ہتھیلی جمادی جیسے کوئی حادثہ ہو گیا ہو۔
مجھے افسوس ہے کہ میں تمہیں کوئی مشروب پیش نہیں کر سکتی اور پھر قدرے پشیمان ہو کر کہنے لگی تم کہو تو تمہارے کمرے سے وہ کافی کا ڈبہ اٹھا لاؤں اور تمہیں کافی بنا دوں؟؟
سنان نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلا دیا۔۔۔۔۔۔عجیب لڑکی ہے۔
جینی اسی بے قراری کے عالم میں دوڑتی ہوئی سنان کے کمرے میں سے کافی کا ڈبہ لے آئی اورڈریسنگ ٹیبل کے نیچے سے ایک اسٹو نکال کر اسے جلا دیا اور کافی کے لئے پانی رکھ دیا۔
علیحدہ باورچی خانے والا کمرہ بے حد مہنگا ملتا ہے۔ جینی نے معذرت بھرے لہجے میں کہا: میں اپنا کھانا یہیں اس اسٹو پر ہی بنا لیتی ہوں۔
کافی تیار ہو گئی تو اس نے ایک پیالی سنان کو دی اور خود اس کے پہلو میں ہی صوفے پر بیٹھ گئی۔
وہ اب بے چینی سے اِدھر اُدھر دیکھ رہی تھی۔
اوہ۔۔۔۔۔۔میں تو بھول گئی تھی، اس نے جلدی سے اٹھ کر پلنگ کے نیچے ایک پرانا ریکارڈ پلئیر گھسیٹ کر باہر نکال لیا میرے پاس جو ستار کا ریکارڈ ہے وہ ایک فرانسیسی موسیقار کا ہے۔
فضا میں پھیلی شب والی دلکش دھن پھر گونجنے لگی۔
جینی نے سنان کو بتایا کہ وہ رانس کے ساحلی شہر مار سلیز کی رہنے والی ہے، اس کی ماں فرانسیسی تھی اور باپ ایک الجزائری ملاح جواس کی پیدائش کے فورا بعد ان دونوں کو چھوڑ کر بھاگ گیا تھا، اس کی ماں نے بندرگاہ کے ساتھ ایک شراب خانے میں ویٹرس کی حیثیت سے نوکری کر لی، وہ سارا دن شراب خانے کے ایک کونے میں بیٹھی اپنی ماں کو تکتی رہتی جو گاہکوں کو بھگتانے کے ساتھ ساتھ اس پر بھی نظر رکھتی اور جب بھی فرصت ملتی تو جلدی سے اسے چاکلیٹ یا دودھ کا گلاس تھما دیتی، جینی اس شراب خانے میں جوان ہوئی اور پھر اَن پڑھ ہونے کی بناء پر چونکہ اسے اور کہیں نوکری نہیں مل سکتی تو اس نے بھی وہیں کام شروع کر دیا، اس دوران میں اس کی ماں چل بسی اور وہ اپنا مختصر اثاثہ سمیٹ کر ایک نئے مستقبل کی تلاش میں پیرس چلی آئی۔
پیرس میں مجھے نئے مستقبل کے بجائے صرف خوشگوار ماحول کی پیشکشیں ہوتی رہیں جن کی مدت کبھی بھی دو چار گھنٹے سے بڑھنے نہ پائی، جینی کے لہجے میں تلخی تھی، پہلے تو میں نے شریفانہ زندگی گزارنے کی بھر پور کوشش کی لیکن مجھے اس میں بری طرح ناکامی ہوئی اور پھر آخر کار۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ خاموش ہو گئی۔
اور پھر ۔۔۔۔؟سنان کے لہجے میں بے پناہ ہمدردی تھی۔
بس پھر کیا۔۔۔۔میں بھوکی نہیں رہ سکتی، میں اس معاملے میں بیحد کمزور واقع ہوئی ہوں۔۔۔۔۔۔اب تو یہ پیشہ زندگی کا معمول بن چکا ہے، جینی کی آنکھوں میں ہلکی ہلکی نمی تھی۔
سنان خاموش بیٹھا کافی پیتا رہا اور اس کی باتیں سنتا رہا۔
پاسکل ہی اپاہج نہیں، وہ سوچ رہا تھا، اس دنیا میں اکثر لوگ اپاہج ہیں ۔
معذوری جسمانی نہ بھی ہو تو کبھی مجبوری اور کبھی بھوک ان کو اپاہج کر دیتی ہے۔
پھر جینی اپنے بچپن کی باتیں کرنے لگی، کس طرح چھٹی کے دن اس کی ماں اسے مارسلیز سے باہر پکنک پر لے جایا کرتی تھی، جنوبی فرانس کا خوشگوار موسم اور چمکیلے دن جو اب ایک خواب ہو کر رہ گئے تھے۔
جینی آہستہ آہستہ باتیں کرتی رہی اور وہ خاموشی سے سنتا رہا اور پھر جینی کی آواز مدھم ہوتی گئی۔۔۔۔۔۔بالکل مدھم ۔۔۔۔۔جانے کب اسے گہری نیند نے آ لیا۔
٭٭٭
ماخذ:
http://www.urdulife.com/bsb/index.php?topic=4382.0
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
بزمِ اردو لائبریری کی کاوشیں لائقِ ستائش ہیں۔
پوچھنا یہ تھا کہ کیا یہ "پیار کا پہلا شہر” مکمل ناول ہے؟
اس کا نام اپ ڈیٹ کر دیا ہے۔ میری ’زنبیل‘ میں اردو لائد سے کاپی کیا ہوا اور ’پیار کا شہر‘ کے نام سے مدتوں سے پڑا تھا۔ اب تدوین کر کے پوسٹ کیا تو اس کا ٹائٹل نیٹ پر ڈھونڈھنے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ محض ’ہیار کا شہر‘ نہیں، ’ہیار کا پہلا شہر‘ تارڑ کے ناول کا نام ہے۔ تو میں نے عنوان میں ’پہلا‘ کا اضافہ کر دیا۔ اب واپس ’پیار کا شہر‘ کر دیا ہے جس نام سے اردو لائٖ میں اس وقت موجود تھا جب میں نے کاپی کیا تھا!