FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

فہرست مضامین

قرآن کی تفہیم و تفسیر کی صلاحیت

آیۃ اللہ محمد تقی مصباح یزدی

 

 

 

 

یہ بات بدیہی ہے کہ قرآن کو سمجھنے اور اس کی تفسیر کرنے کی ہر شخص میں صلاحیت نہیں ہے۔ جیسا کہ ہر شعبہ میں دقیق و عمیق علمی مطالب سمجھنے کی صلاحیت ہر شخص نہیں رکھتا۔ ریاضی کے پیچیدہ مسائل یا تمام علوم کی باریکیاں سمجھنے کی صلاحیت صرف ان علوم کے ماہر و متبحر افراد ہی رکھتے ہیں اور غیر ماہر نہ صرف ان کے متعلق اظہار نظر کرنے سے عاجز ہیں بلکہ ان کا اظہار نظر کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔

قرآن مجید کی تفہیم و تفسیر کے متعلق بھی ا ن لوگوں کا اظہار نظر کوئی اعتبار نہیں رکھتا جو کہ دینی علوم و معارف سے ناآشنا ہیں۔ اگرچہ قرآن فصیح و بلیغ زبان میں نازل ہوا ہے تاکہ لوگ سمجھیں اور اس پر عمل کریں، لیکن ایسا نہیں ہے کہ اس کے معارف کی گہرائی ایک سطح میں تمام لوگوں کے لئے قابل فہم ہو۔ جو کچھ قرآن سے تمام لوگوں کے لئے قابل فہم ہے اس کے وہی معنی ہیں جو خود قرآن فرماتا ہے کہ ہم نے واضح و روشن بیان کے ساتھ قرآن کو نازل کیا ہے، یعنی قرآن اس طرح نازل ہوا ہے کہ جو شخص عربی زبان کے اصول و قواعد سے آشنا ہو اور بندگی کی روح اس پر غالب و حاکم ہو وہ قرآن سے استفادہ کرسکتا ہے اور اپنی فکر و معرفت کی حد میں اس سے بہرہ مند ہوسکتا ہے۔

لیکن قرآن کے معارف و معانی کی گہرائیوں تک پہنچنے کے لئے مقدمات اور تعقل و تدبر ضروری ہے۔ اس سلسلہ میں قرآن فرماتا ہے: (ِنَّا أَنزَلْنَاہُ قُرآنًا عَرَبِیًّا لَعَلَّکُم تَعقِلُونَ)۱  (ہم نے اسے عربی قرآن بنا کر نازل کیا ہے تاکہ تم لوگ سمجھو) یا (اِنَّا جَعَلْنَاہُ قُرآنًا عَرَبِیًّا لَعَلَّکُم تَعقِلُونَ)۲ (بے شک ہم نے اسے عربی قرآن قرار دیا ہے تاکہ تم لوگ سمجھو)۔

کلی طور سے جو آیتیں انسان کو قرآن اور اس کے معارف کے متعلق تدبر و تعقل کی دعوت دیتی ہیں وہ ہم سے کہتی ہیں کہ قرآن کے ظواہر پر اکتفا نہ کرو بلکہ تدبر و تعقل اور اہل بیت کے علوم و معارف سے استفادہ کے ذریعے معارف قرآن کے دقیق و عمیق مطالب کو حاصل کرو اور علم الٰہی کے اس خزانے سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرو۔

اس بنا پر قرآن کے سمجھنے اوراس کے بلند معارف کی تفسیر کرنے کی صلاحیت صرف علوم اہلبیت سے آشنا اور ماہر و متبحر افراد ہی رکھتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ جو بھی تھوڑی شُدبُد پیدا کر لے اس کو اظہار نظر کا حق بھی ہو جائے اور دینی معارف نیز تفسیر و توضیح کے اصول و قواعد کی تھوڑی سی بھی اطلاع رکھے بغیر، دین اور اس کے احکام و معارف کے بارے میں جدید قرأت کے عنوان سے بول سکے۔

…………………………………………………

(١) سورۂ یوسف، آیت ۲۔

(۲)سورۂ زخرف، آیت ۳۔

…………………………………………………

 

                معارف قرآن کے مفہوم کے مختلف مرتبے

 

بہت سی روایتوں میں یہ مضمون ملتا ہے کہ قرآن ظاہر و باطن رکھتا ہے اور ہر شخص قرآن کے علوم و معارف کی گہرائیاں سمجھنے پر قادر نہیں ہے۔ قرآن کوئی معمولی کتاب نہیں ہے کہ تمام انسان اس کے تمام معارف درک کرنے پر قادر ہوں۔ جیسا کہ اس کے پہلے اشارہ کیا جا چکا ہے کہ قرآن ایک ایسا اتھاہ اور نا پیدا کنار سمندر ہے کہ ہر شخص اپنی غواصی کی قدرت و توانائی کی مقدار بھر اس سے معرفت کے موتی حاصل کرتا ہے اور اپنی استعداد و صلاحیت کی مقدار بھر قرآن کے ظواہر سے آگے بڑھ کر اس کے معارف کی گہرائی تک رسائی پیدا کرتا ہے اور ایک آیت سے مختلف مطالب کو سمجھتا ہے جبکہ مذکورہ مطالب ایک دوسرے کے خلاف نہیں ہوتے، اور یہ خود قرآن کریم کا معجزہ ہے۔

مثال کے طور پر قرآن کریم فرماتا ہے: (یَا أَیُّہَا النَّاسُ أَنتُمُ الفُقَرآءُ اِلٰی اللّٰہِ وَ اللّٰہُ ہُوَ الغَنِیُّ الحَمِیدُ)۱  جو بات عام لوگ اس آیۂ کریمہ سے سمجھتے ہیں اور جو بات آیت کا ظاہر بیان کرتا ہے یہ ہے کہ اے لوگو! تم سب خداوند متعال کے محتاج ہو اور خداوند متعال بے نیاز اور قابل حمد و ثنا ہے۔

جو بات لفظ ”فقراء” سے عام لوگوں کے ذہن میں آتی ہے وہی امر معاش میں انسان کی احتیاجات اور ضروریات ہیں خواہ غذا ہو یا لباس یا مکان یا کوئی بھی چیز کہ خداوند متعال ان کے اسباب و علل کو ایجاد کر کے انسان کی نشو و نما، تکامل اور زندگی کی بقا کا وسیلہ فراہم کرتا ہے۔

…………………………………………………

(١) سورۂ فاطر، آیت ۱۵۔

…………………………………………………

 

معنی و مفہوم کے اس مرتبہ میں کہ جس کو ”مرتبۂ ظاہر” کہا جاتا ہے، قرآن کا ظاہر روشن، گویا اور واضح ہے اور تمام اہل زبان اسے بخوبی سمجھتے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ اس ظاہری معنی سے زیادہ گہرا کوئی اور دوسرا معنی اس سے حاصل نہ ہو اور مذکورہ آیۂ کریمہ اس عمومی فہم سے بالاتر اس سے زیادہ دقیق مطالب کی طرف اشارہ نہ رکھتی ہو۔ انسان جس قدر کلام کے زیر و بم اور زبان کے ادبی رموز و نکات سے واقف ہوگا اور دوسری طرف، جیسا کہ قرآن تاکید کرتا ہے آیات قرآن کی طرف رجوع کے وقت ان میں تدبر و تعقل کرے گا تو آیات کے ظواہر سے بھی بڑھ کر اور زیادہ دقیق و عمیق نکتے حاصل کرے گا۔

اگر ہم اس آیت کا کچھ غور سے مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ ہم خوراک، لباس، صحت اور مادی وسائل سے کہیں زیادہ خدا کے محتاج ہیں۔ ہم محض فقیر و محتاج ہیں اور خدا غنی مطلق ہے۔ ہم فقیر بالذات ہیں اور خدا غنی بالذات۔ فقیر لغت میں اس شخص کو کہتے ہیں کہ جس کے ”ستون فقرات” (ریڑھ کی ہڈیاں ) شکستہ ہوں اور کھڑے ہونے پر قادر نہ ہو۔ انسان فقیر ہے اس معنی میں کہ اگرچہ تمام مادی مکانات و وسائل اس کے لئے فراہم ہوں پھر بھی انسان کا وجود ناقص ہے۔

جس وقت ہم اس نظر سے اور اس نکتہ کی طرف توجہ کرتے ہوئے آیت پر غور کریں گے تو سمجھ لیں گے کہ ہم انسانوں کی احتیاج خدا سے خوراک، پوشاک اور تمام مسائل سے بڑھ کر ہے۔ ہم اصل وجود میں خدا کے محتاج ہیں۔ خداوند متعال ہی نے ہم کو پیدا کیا ہے اور اسی نے وجودی اسباب و علل کو ایجاد کر کے انسان کی نشو و نما، تکامل اور زندگی کی بقا کا وسیلہ مہیا کیا ہے۔ ہم اصل وجود میں اور بالذات محتاج و فقیر ہیں اور خداوند متعال غنی بالذات ہے۔

واضح ہے کہ دوسری نظر، پہلی نظر سے زیادہ گہری ہے۔ یہاں پر پہلے معنی کو ظاہر اور دوسرے معنی کو باطن سمجھا جاتا ہے۔ دوسرے معنی سے بھی زیادہ عمیق معنی یہ ہے کہ تم سب (اے لوگو!) نہ صرف اصل وجود میں فقیر و محتاج ہو بلکہ عین نیاز اور سراپا محتاج ہو۔ تمھارا وجود خداوند متعال کی نسبت عین ربط ہے۔ البتہ اس تیسرے معنی کی حقیقت کا درک کرنا عام عقول کی حد سے باہر ہے۔

بہرحال یہ بات قابل توجہ ہے کہ اس آیۂ کریمہ کے یہ تینوں معنی ایک دوسرے کے طول میں (یکے بعد دیگرے) ہیں یعنی تینوں معنی اور تفسیر درست اور صحیح ہیں، کوئی بھی دوسرے کے منافی نہیں ہے، لیکن گہرائی کے اعتبار سے مذکورہ معانی ایک سطح پر قرار نہیں پاتے اور ایسا نہیں ہے کہ قرآن کے تمام مرتبے سب کے لئے قابل فہم ہوں اور تمام افراد قرآن کریم کے تمام مراتب و بطون سمجھنے کی صلاحیت اور قدرت رکھتے ہوں۔ البتہ مذکورہ بیان کا مقصد اس مطلب کو آسانی سے سمجھانا ہے جو بعض روایتوں میں وارد ہوا ہے کہ قرآن ظاہر و باطن رکھتا ہے اور تمام لوگ اس الٰہی کتاب کے معارف کی گہرائیوں کو درک کرنے پر قادر نہیں ہیں۔

اس مطلب کی تاکید اور یاد دہانی بھی لازم ہے کہ وہ صرف ائمہ معصومین  ہیں جو الٰہی تعلیم کے ذریعہ قرآن کے علوم و معارف سے آگاہ ہیں اور اس عظیم آسمانی کتاب کے بطون کے عالم ہیں۔ اس سلسلہ میں ہم ایک روایت کا ایک حصہ ذکر کر رہے ہیں :

”عَن اَبِ جَعفَرٍ عَلَیہِ السَّلامُ قَال  : یَا جَابِرُ! اِنَّ لِلْقُرآنِ بَطنًا وَ لِلبَطنِ بَطن وَ لَہُ ظَہر وَ لِلظَّہرِ ظَہر یَاجَابِرُ! وَ لَیسَ شَیئ أَبعَدَ مِن عُقُولِ الرِّجَالِ مِن تَفسِیرِ القُرآنِ اِنَّ الآیَۃ یَکُونُ أَوَّلُہَا فِی شَیئٍ وَ آخِرُہَا فِی شَیئٍ وَ ہُوَ کَلام  مُتَّصِل یُتَصَرَّفُ عَلٰی وُجُوہٍ”۱

حضرت امام محمد باقر  ؓ جابر  کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں : ”قرآن باطن رکھتا ہے اور باطن کا  بھی باطن رکھتا ہے، نیز قرآن ظاہر رکھتا ہے اور ظاہر کا بھی ظاہر رکھتا ہے، اے جابر! اس نکتہ پر بھی توجہ رکھو کہ لوگوں کی عقلیں اس بات سے عاجز ہیں کہ قرآن کے باطن اور اس کی حقیقت کی تفسیر کرسکیں، اس لئے کہ ممکن ہے آیت کا پہلا حصہ کسی چیز کے بارے میں ہو اور آخری حصہ کسی دوسری چیز کے متعلق ہو، اور قرآن ایسا باہم متصل اور پیوستہ کلام ہے جو مختلف معانی رکھنے کی قابلیت رکھتا ہے اس کے معارف و معانی میں کسی قسم کا تعارض یا تنافی نہیں ہوتی ہے”۔

…………………………………………………

(۱) بحار الانوار، ج۹۲ص ۹۱۔

…………………………………………………

جو بات یہاں پر قابل تاکید ہے یہ ہے کہ معارف قرآن کے باطن اور دقیق مطالب کا سمجھنا سب کے بس کی بات نہیں ہے، البتہ اس بات کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قرآن صرف ائمہ  اور راسخون فی العلم کے لئے نازل ہوا ہے اور دوسرے لوگ حتی ظاہر قرآن کے سمجھنے سے بھی عاجز ہیں، بلکہ ظاہر قرآن ہر شخص کے لئے اس کی صلاحیت کے

مطابق قابل فہم ہے بشرطیکہ خود پسندی، کج فکری اور اپنے نفسانی میلانات و خواہشات کو چھوڑ دے اور تفسیر بالرائے سے پرہیز کرے۔ قرآن فہمی کے متعلق چند نکات قابل ذکر ہیں اور وہ یہ ہیں۔

 

                تفسیر قرآن یعنی تفصیل احکام، نبیﷺ ا ور ائمہ معصومین  سے مخصوص ہے

 

جیسا کہ اپنی جگہ پر بیان اور ثابت ہو چکا ہے کہ وحی کے حاصل کرنے اور پہنچانے کے علاوہ پیغمبر  ﷺ کا ایک عہدہ، وحی کی توضیح اور الٰہی احکام کی تفصیل بیان کرنا ہے۔ قرآن کریم احکام کے کلیات اور قوانین کے ایک مجموعہ کی صورت میں    پیغمبر  ﷺ پر نازل ہوا ہے اور خود ان کے جزئیات اور احکام کی تفصیل و توضیح نہیں بیان کی ہے اور چند موارد کے علاوہ ان کی تفصیل و توضیح پیغمبر  ﷺ اور ائمۂ  معصومین  ٪ کے ذمہ قرار دی ہے۔ مثال کے طور پر قرآن کلی صورت میں نماز کا حکم دیتا ہے اور مسلمانوں سے چاہتا ہے کہ نماز پڑھیں، لیکن یہ کہ نماز کیا ہے؟ کتنی رکعت ہے؟ اس کے پڑھنے کا طریقہ کیا ہے؟ اوراس کے شرائط و جزئیات کیا ہیں ؟ قرآن میں بیان نہیں ہوئے ہیں۔

اس کلی حکم اور اس جیسے بہت سے احکام کی تفصیل پیغمبر  ﷺ کے ذمہ چھوڑ دی ہے۔اس بنا پر احکام الٰہی کی تفسیر و توضیح پیغمبر  ﷺ کا فرض منصبی ہے۔

 

                قرآن کریم بھی وحی کی تفسیر و توضیح کے عہدہ کی طرف توجہ دلاتا ہے اور اسے  پیغمبر  ﷺ کے   فرائض میں سے شمار کرتا ہے

 

(وَ أَنْزَلْنَا اِلَیکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیہِم)١ ہم نے قرآن کو آپ پر نازل کیا تاکہ لوگوں کے لئے ان باتوں کو واضح کریں جو ان کی طرف نازل کی گئی ہیں۔

بعید نہیں ہے کہ سورۂ آل عمران کی آیت ١٦٤ جیسی آیتوں میں، کہ جن میں تعلیم کو تلاوت کے ساتھ استعمال کیا ہے، تعلیم سے مقصود وحی و قرآن کی تفسیر و توضیح کے متعلق پیغمبر  ﷺ کا عہدہ و منصب بیان کرنا ہو۔

حقیقت میں پیغمبر  ﷺ جس وقت وحی پہنچاتے تھے، اس وقت دو اہم فریضے آپ ﷺ کے ذمے ہوتے تھے، ایک یہ کہ کلام وحی کو لوگوں کے سامنے تلاوت کرتے تھے اور دوسرے یہ کہ آیتوں کے مقاصد و مضامین کی ان کے لئے تفسیر و توضیح فرماتے تھے اور ان کو قرآن کے احکام و معارف سے آشنا کرتے تھے۔

قرآن فرماتا ہے:

(لَقَد مَنَّ اللّٰہُ عَلٰی الْمُؤمِنِینَ اِذ بَعَثَ فِیہِمْ رَسُولاً مِن أَنفُسِہِم یَتلُوا عَلَیہِم آیَاتِہِ وَ یُزَکِّیہِم وَ یُعَلِّمُہُمُ الکِتَابَ وَ الْحِکمَۃ وَ اِنْ کَانُوْا مِنْ قَبلُ لَفِی ضَلالٍ مُبِینٍ)۲

”یقیناً خدا نے صاحبان ایمان پر احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا ہے جو ان پر آیات الٰہیہ کی تلاوت کرتا ہے انھیں پاکیزہ بناتا ہے اور کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگر چہ یہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں مبتلا تھے”۔

…………………………………………………

(۱) سورۂ نحل، آیت ۴۴۔

(۲)سورۂ آل عمران، آیت ۱۶۴

…………………………………………………

اس آیۂ مبارکہ اور اس کے مشابہ دوسری آیتوں میں پہلا فریضہ  یعنی آیات کی تلاوت و  قرأت ”یَتْلُوْا” کی تعبیر سے بیان ہوا ہے اور دوسرے فریضہ یعنی احکام و مطالب کی تفسیر و توضیح کے لئے ”تعلیم” کی تعبیر سے استفادہ کیا گیا ہے۔

خلاصہ یہ کہ وحی کی توضیح،احکام الٰہی کی تفصیل اور قرآن کریم کی تفسیر مذکورہ معنی میں ایسا کام ہے کہ جس کی صلاحیت پیغمبر  ﷺ اور ائمۂ معصومینؓ کے علاوہ کوئی نہیں رکھتا اس لئے کہ صرف یہی ہستیاں ہیں جو خدا داد علم کے ذریعے الٰہی علوم و معارف سے آشنا ہیں۔

 

                علوم اہلبیت  کا سمجھنا قرآن سمجھنے کا مقدمہ

 

اب مذکورہ نکتہ پر توجہ کرنے سے مفسرین کا فریضہ بخوبی واضح ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ بیان ہو چکا ہے وحی کی توضیح، احکام کی تفصیل اور آیات قرآن کی تفسیر کا عہدہ اور اس کی صلاحیت دراصل    پیغمبر  ﷺ کو حاصل ہے اور آنحضرت ﷺ نے اپنی مبارک زندگی کے زمانہ میں جہاں تک ممکن تھا لوگوں کو قرآن کے معارف سے آشنا کیا۔ اس زمانہ میں مفسرین کا بھی فریضہ ہے کہ ان روایات و احادیث کی طرف رجوع کریں جو صحیح اسناد کے ساتھ پیغمبر  ﷺ سے اس سلسلہ میں وارد ہوئی ہیں اور ان کی بنیاد پر مربوط آیتوں پر توجہ اور غور و فکر کریں اور اپنی فکر و نظر کو پیغمبر  ﷺ کی توضیح و تفسیر کے حدود ہی کے اندر رکھیں۔ اور جہاں آنحضرت ﷺ نے اس ثقل اکبر اور قرآن مستحکم کی تفسیر و توضیح نہ کی ہو وہاں ثقل اصغر یعنی اہلبیت  اور ائمہ معصومینؓ  سے تمسک کریں۔

 

گزشتہ دونوں فصلوں میں بیان کئے گئے مطالب کے تحت جس حد تک کہ کتاب کی غرض و غایت حاصل ہو، قرآن کی اہمیت و فضیلت کے متعلق، نیز کمال و سعادت کی طرف انسانوں کی ہدایت کے لئے نہج البلاغہ کی روشنی میں اس الٰہی کتاب کے نقش و اثر کے متعلق، کچھ توضیحات مختصر طور پر ذکر کی گئیں۔

اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا مذکورہ مطالب کی رعایت قرآن کریم سے استفادہ اور پیغمبر عظیم الشان  ﷺ کی اس عظیم میراث، ثقل اکبر سے تمسک کے لئے کافی ہے؟

ممکن ہے جواب دیا جائے کہ اگر ان تمام نکتوں کی رعایت کی جائے جو کہ قرآن کے صحیح سمجھنے میں مؤثر ہیں تو لازمی طور پر قرآن کے احکام و معارف جیسا کہ ہیں سمجھے جائیں گے اور معاشرہ کا کلچر قرآن کریم کی ہدایات کے مطابق وجود میں آئے گا اور دینی حکومت کے زیر سایہ لوگ قرآن کی پناہ میں انحراف و گمراہی کے خطرے سے محفوظ رہیں گے، اس لئے کہ قرآن سے تمسک اس کے معارف کا صحیح سمجھنا اور قرآنی ہدایات کی بنیاد پر عمل کرنا ہے۔

…………………………………………………

 

(۱) تضایف یعنی دوایسے وجود جن کا تعقل ایک ساتھ ہو اور وہ دونوں ایک موضوع میں ایک ہی جہت سے جمع نہ ہوسکتے ہوں لیکن دونوں کا ایک ساتھ مرتفع ہونا ممکن ہو جیسے باپ اور بیٹا، علت و معلول، تحت و فوق، تقدم و تاخر وغیرہ۔

مذکورہ جواب اگر چہ کچھ حد تک قرآن کی فردی ہدایت و رہنمائی کے لئے صحیح سمجھا جا سکتا ہے، لیکن اس مسئلہ کا مکمل تحقق اس صورت میں ہے جبکہ قرآن کے لازمی اثر کی طرف بڑے پیمانے پر نظر کی جائے نیز اس کی اہمیت اور عظمت پر، گمراہ کن افکار اور دینی ثقافت پر حملہ آور افراد کے مقابلہ میں توجہ دی جائے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ مخالفان قرآن کے گمراہ کن افکار کی شناخت کے بغیر، آشکارا طور پر ان کا مقابلہ کئے بغیر اور ان کی فکری سازشوں کو برملا کئے بغیر، معاشرہ کی ہدایت اور قرآن کے مکتب فکر کو حاکم کرنا دینی اعتقادات و اقدار کی بنیاد پر کچھ آسان کام نہیں ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس سے اکثر مواقع پر غفلت برتی جاتی ہے۔

اس بنا پر قرآن کے سمجھنے اور اس کی ہدایات پر عمل کرنے میں مسلسل کوشش کے ذریعہ کسی وقت بھی قرآن کے دشمنوں اور مخالفوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔

قرآن سے تمسک کرنا اوراس آسمانی کتاب کو حَکَم قرار دینا، قرآن کے خلاف گمراہ کن افکار کی شناخت اور ان سے مقابلہ کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

حق و باطل جس طرح کہ مقام شناخت میں متضایف ہیں اسی طرح مقام عمل میں بھی متضایف ہیں، یعنی آپ اگر حق کو پہچان لیں گے تو باطل کو بھی پہچان لیں گے، باطل کی شناخت آپ کو حق کی شناخت میں مدد دیتی ہے۔

قرآن کو عملی طور پر معاشرہ میں حاکم قرار دینا، مخالفین اور ان کے گمراہ کن افکار کی شناخت کے بغیر نیز لوگوں کے دینی کلچر کو کمزور کرنے میں ان کی شیطانی سازشوں سے مقابلہ کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

ہم اس سلسلہ میں پہلے نہج البلاغہ میں مذکور حضرت علی  ـ کے ارشاد کو پیش کر تے ہیں پھر معاشرہ کے افکار کو منحرف کرنے میں مخالفین قرآن کی کارستانیوں اور ملحدین کے شبہوں کو بیان کر کے تمام لوگوں کو خصوصاً معاشرہ کے جوان اور تعلیم یافتہ طبقہ کو دشمنوں کے شیطانی مکر و فریب سے آشنا کریں گے۔

قرآن اور دینی مکتب فکر کے مخالفین اور دشمنوں کی شناخت اس قدر اہم ہے کہ امیر المومنین حضرت علی  ـ ارشاد فرماتے ہیں :

”وَ اعْلَمُوْا اَنَّکُم لَن تَعرِفُوا الرُّشدَ حَتَّی تَعرِفُوا الَّذِی تَرَکَہُ، وَ لَن تَأخُذُوا بِمِیثَاقِ الکِتَابِ حَتَّی تَعرِفُوا الَّذِی نَقَضَہُ، وَ لَن تَمَسَّکُوا بِہِ حَتَّی تَعرِفُوا الَّذِی نَبَذَہُ فَالْتَمِسُوا ذٰلِکَ مِن عِندِ اَہلِہِ فَاِنَّہُم عیَشُ الْعِلمِ وَ مَوتُ الجَہلِ”۱

تم جان لو! کہ ہدایت کو اس وقت تک نہیں پہچان سکتے جب تک اسے چھوڑنے والوں کو نہ پہچان لو اور کتاب خدا کے عہد و پیمان کے پابند اس وقت تک نہیں ہوسکتے جب تک کہ اس کے توڑنے والوں کی شناخت نہ کر لو اور اس سے تمسک اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک اسے نظر انداز کرنے والوں کی معرفت حاصل نہ کر لو، پھر فرماتے ہیں : قرآن، اس کی تفسیر اور اس کے معارف کو اہل قرآن (اہلبیت طاہرین) سے حاصل کرو اس لئے کہ یہی حضرات الٰہی علوم و معارف کی زندگی اور جہل و نادانی کی موت ہیں۔

…………………………………………………

(۱) نہج البلاغہ، خطبہ ۱۴۷۔

…………………………………………………

امیر المومنین حضرت علیؓ   کا یہ روشن بیان جو کہ دشمن شناسی، گمراہ کن افکار سے آشنائی کے لزوم اور گمراہوں کے پہچاننے کی ضرورت پر مبنی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دینی علماء اور الٰہی علوم و معارف کے مبلغین کا فریضہ دوگنا ہے، اس لئے کہ گمراہ کن فکروں اور ملحدین کے شبہوں کو لوگوں کے افکار سے خصوصاً ان جوانوں کے افکار سے دور کرنا، جو کہ دینی علوم و معارف کے اعتبار سے کافی علمی سطح کے حامل نہیں ہیں، تبلیغ اور قرآنی و دینی مکتب فکر کو حاکمیت بخشنے کے بنیادی کاموں میں سے ہے اور اس کے بغیر مطلوب اور لازمی نتیجہ کی امید نہیں رکھی جا سکتی۔

اس بات کی وضاحت تین حصوں میں بیان کرتے ہیں : ١۔ مخالفین کے شبہات  ٢۔ مخالفین کی سازشیں  ٣۔ ان شبہات کے پیش کرنے کا مقصد۔

اگر چہ قرآن ایسی عظیم نعمت ہے جو خداوند متعال نے اپنے بندوں کو عطا فرمائی ہے اور اگرچہ خدا نے خود، شیطانوں کی دستبرد اور شیطان صفت انسانوں کی تحریف سے اس کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے، لیکن داستان یہیں پر ختم نہیں ہوتی، اولاد آدم  کا یہ قسم خوردہ دشمن، شیطان بھی ہر زمانہ میں ان لوگوں پر حاکم حالات، روحیات و نفسیات کے مطابق،جو کہ اجتماعی حیثیتوں کے اعتبار سے لوگوں کے ذہنوں پر اثر ڈالنے کی قدرت رکھتے ہیں، نفسانی خواہشات کے حصول کے لئے ان کے دلوں میں شک پیدا کر دیتا ہے تاکہ ان کے ذریعہ تمام لوگوں کو اپنے پیچھے کھینچ لے اور قرآن و دین سے منحرف کر دے، چونکہ قرآن انسانوں کی نجات، ہدایت اور سعادت کا سب سے بڑا وسیلہ ہے، اس لئے شیطان کی پوری آرزو لوگوں کو قرآن و دین سے جدا کرنا ہے۔

اس راستے میں شیطان کا ایک کام ان لوگوں کو بہکانا اور ان کے اندر وسوسہ پیدا کرنا ہے جو کہ دین و قرآن کے متعلق شک و شبہہ پیدا کر کے لوگوں کے ایمان و اعتقاد میں خلل پیدا کرسکتے ہیں۔

شیطان اور شیطان صفت افراد کی فعالیت قرآن کریم سے مقابلہ کرنے میں نزول قرآن کی ابتدا ہی سے پائی جاتی ہے یہ فعالیتیں آیات الٰہی کے سننے سے ممانعت اور کان میں روئی ڈالنے کی تاکید اور پیغمبر ﷺ پر تہمت و افترا پردازی سے شروع ہوئیں اور آج بھی کسی نہ کسی صورت میں جاری ہیں اور اس کے بعد بھی جاری رہیں گی۔

اس سلسلے میں پوری تاریخ میں قرآن سے مقابلہ کی روش کے جزئیات ذکر کرنے سے صرف نظر کرتے ہیں اور بحث کے طولانی ہونے کے خوف سے ان بعض شبہوں کو ذکر کر کے، جو کہ آج معاشرہ کے درمیان دینی مکتب فکر اور لوگوں، خصوصاً جوانوں کے مذہبی عقائد کو کمزور کرنے کے لئے پیش کئے جاتے ہیں، ہم کوشش کر رہے ہیں کہ قارئین اور جوانوں کے ذہنوں کو روشن کریں تاکہ ان شیطانی سازشوں سے آگاہ ہو کر دشمنوں کے ثقافتی حملوں کا مقابلہ کرسکیں۔

چونکہ قرآن سے مقابلہ کرنے میں شیاطین، اس کو نابود اور فنا کرنے سے مایوس ہوگئے، لہٰذا طے کرلیاکہ لوگوں کواس کے مطالب کی آشنائی سے محروم کر دیں۔

قرآن کے مخالفین کئی صدیوں سے مسلمانوں خصوصاً شیعوں کے درمیان ایسی تبلیغ کرتے رہے کہ ہمیں قرآن سے کوئی امید نہیں رکھنی چاہئے، اس لئے کہ قرآن ہمارے لئے قابل فہم نہیں ہے اور ہم قرآن کے باطن سے مطلع نہیں ہیں، اس بنا پر قرآن کے ظاہر سے استناد نہیں کیا جا سکتا۔

وہ یہ فکر ایجاد کر کے کہ ہم قرآن کے سمجھنے پر قادر نہیں ہیں، کوشش کرتے تھے کہ لوگوں کو قرآن کے استفادہ سے محروم کر دیں اور نتیجہ میں قرآن کو مسلمانوں کی زندگی سے نکال دیں۔

اس کے دوران اگر چہ قرآن کا ظاہری احترام، اس کی تلاوت و قرأت، اس کو بوسہ لینے اور مقدس و محترم سمجھنے کی صورت میں مسلمانوں کے درمیان رائج تھا، لیکن جو کچھ قرآن کے دشمنوں اور مخالفوں کا مقصد ہے وہ لوگوں کو قرآن کے مطالب سے اور اس آسمانی کتاب کی ہدایات پر عمل کرنے سے محروم کرنا ہے۔

آج روشن فکری کے دعویدار افراد جو کہ اسلامی علوم و معارف سے بالکل بے بہرہ ہیں سب سے زیادہ گمراہ کن ان شیطانی شبہات اور  افکار کو جو کہ صدیوں پہلے سے مغرب میں دوسرے ادیان کی تحریف شدہ کتابوں کے متعلق پیش کئے گئے ہیں، نئی فکر کے نام سے ثقافتی اور علمی معاشروں میں پیش کرتے ہیں، اور علم و دانش کے پیاسے نیز تحصیل علم میں مشغول طبقہ کو تحت تاثیر قرار دیکر اپنے خیال میں ان کے اعتقادی ستون کو کمزور کرتے ہیں۔ وہ اس بات سے غافل ہیں کہ مسلمان خصوصاً تحصیل علم میں مشغول جوان اور ذہین و زیرک تربیت یافتہ افراد، ان کے بے بنیاد، عاریتی اور عقل و منطق سے دور افکار کے بطلان کو جان لیں گے۔

مسلمان اور دیندار تربیت یافتہ افراد کے عقائد و افکار عقل و منطق پر مبنی اور   پیغمبر  ﷺ اور ائمۂ معصومینؓؓ  کے علوم سے اخذ شدہ ہیں ان کا سرچشمہ وحی الٰہی ہے اور جب بھی کوئی مسلمان فکری اور اعتقادی شعبوں میں گمراہ کن افکار سے روبرو ہوتا ہے تو سب سے پہلے ان کو دینی علوم و معارف کے ماہرین اور علماء کے سامنے پیش کرتا ہے تاکہ ان سے صحیح اور منطقی جواب دریافت کرے۔

 

                دین کی حقیقت حاصل نہ ہونے کا شبہہ

 

”حقیقت دین حاصل نہ ہونے” کا شبہہ نہایت شیطانی مقاصد کے تحت پیش کیا گیا ہے اور اس کے نتائج بہت ہی تباہ کن ہیں کہ جن کے بیان کرنے کی گنجائش فی الحال نہیں ہے، یہاں پر ہم اس کی وضاحت اور اس کے بعض پوشیدہ پہلوؤں اور لوازم کو صریح طور پر بیان کر کے فیصلہ خود آپ حضرات کے حوالے کرتے ہیں۔

چونکہ ہماری بحث خصوصاً قرآن کے بارے میں ہے لہٰذا مذکورہ شبہہ کے متعلق خصوصاً قرآن کے بارے میں بحث و تحقیق کریں گے۔ یہ شبہہ قرآن فہمی کے بارے میں طرح طرح کی شکلوں اور مختلف سطحوں میں پیش کیا جاتا ہے۔ کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ قرآن کریم کی بعض آیتوں کی مختلف تفسیریں ہیں اور مفسرین ان کی تفسیر و توضیح میں اتفاق رائے نہیں رکھتے اور ہم جس قدر بھی صحیح نظریہ حاصل کرنے کے لئے تحقیق کریں، جو کہ قرآن کے حقیقی مطلب کو بیان کرنے والی ہو، آخر کار صرف ایک مفسر کی تفسیر اور نظریہ ہی کو قبول کریں گے کہ جس کو دوسرے مفسرین قرآن کی تفسیر نہیں سمجھتے۔ اس بنا پر قرآن کے حقیقی مطلب کا حصول ممکن نہیں ہے۔

یقینا یہ شبہہ پیش کرنے والے چاہتے ہیں کہ مذکورہ نظریہ پیش کر کے ان لوگوں کو شک و شبہہ میں مبتلا کر دیں جو کہ قوی فکر و نظر کے حامل نہیں ہیں اور دینی معارف کا کافی مطالعہ، جواب دینے اور تجزیہ و تحقیق کی قدرت نہیں رکھتے۔ وہ لوگ غلط خیالات کی بنا پر یہ سوچتے ہیں کہ مسلمانوں کی فکری و اعتقادی بنیادیں اندھی تقلید کی بنیاد پر استوار ہیں کہ ان خیال آرائیوں سے وہ ویران و برباد ہو جائیں گی۔ چونکہ وہ لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ جس وقت فکر، عقل اور منطق کی بات آتی ہے تو صرف قرآن اوراس الٰہی کتاب کے معارف ہی کی تصدیق عقل سلیم اور صحیح منطق کرتی ہے، اور ہر حق پرست انسان صدق دل سے اس کو قبول کرتا ہے، لہٰذا کوشش کرتے ہیں کہ مذکورہ شبہہ اور زیادہ گہری صورت میں پیش کریں تاکہ اپنے خیال میں اور زیادہ کاری ضرب، دینی فکر پر لگائیں۔ وہ اس سے غافل ہیں کہ ذہین و زیرک مسلمان مفکرین ان کے نظریہ کا تجزیہ کر کے اس طرح کے نظریہ کے باطل نتائج و لوازم کو بھانپ لیں گے کہ جس کا انجام شکاکیت کے گڑھے میں گرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

بہرحال جیسا کہ مذکورہ شبہہ بیان کیا گیا اس سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ شبہہ پیش کرنے والے معتقد ہیں کہ قرآن کریم ثابت حقیقتوں کا مالک ہے لیکن چونکہ مفسرین قرآن کی تفسیر میں اتفاق رائے نہیں رکھتے، لہٰذا ہماری رسائی قرآن کے حقیقی مطالب تک نہیں ہوتی۔ اس بنا پر قرآن سے استفادہ ممکن نہیں ہے اور اسے بالائے طاق رکھ دینا چاہئے۔

لیکن جب قرآن کریم کی صریح و روشن آیتوں سے روبرو ہوتے ہیں اور ان کے ظہور اور واضح معنی میں کوئی خدشہ وارد نہیں کرسکتے نیز اپنے کو عقل و منطق اور قرآن کے محکمات کے سامنے عاجز پاتے ہیں تو قدم اور آگے بڑھا کر شبہہ دوسری طرح سے پیش کرتے ہیں۔ وہ لوگ اپنا مقصد حاصل کرنے یعنی قرآن اور دینی اعتقادات و اقدار کو بے اعتبار کرنے کے لئے اپنی پہلی بات سے، جو کہ قرآن اور دینی معارف سمجھنے کے عدم امکان پر مبنی ہے، پیترا بدل کر پھر مقابلہ میں آ جاتے ہیں۔ وہ لوگ اپنے پہلے موقف میں دینی معارف اور قرآن کے کلام کے لئے ذاتی اور حقیقی معنی قبول کرنے کے باوجود ان کو انسان کی دسترس سے مافوق سمجھتے تھے۔ لیکن اس نئے موقف میں قرآن اور دینی تعلیمات و ارشادات کو حقیقت سے خالی سمجھ کر دینی معارف و احکام کو آیات سے افراد کی ذہنی اپج بتاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نہ صرف قرآن بلکہ تمام آسمانی کتابیں اس طرح نازل ہوئی ہیں کہ جن کی تفسیر مختلف طریقوں سے ہوسکتی ہے اور وہ تمام مختلف تفسیریں اور متفاوت فکریں صحیح ہوسکتی ہیں۔

اگر سوال کیا جائے کہ اس صورت میں بھی ان تفسیروں میں آپس میں اتنا اختلاف کیوں ہے؟

وہ لوگ جواب دیں گے کہ تفسیروں کا اختلاف اگرچہ تضاد و تناقض کی حد تک ہو تو بھی اس سے کوئی مشکل پیدا نہیں ہوتی، اس لئے کہ اصلاً قرآن اور دین نے کوئی واقعیت و حقیقت بیان نہیں کی ہے، بلکہ صرف خالی الفاظ اور جملے، وحی الٰہی کے نام سے      پیغمبر  ﷺ پر نازل ہوئے ہیں اور ان کی طرف رجوع کے وقت ہر شخص کے ذہن میں ایک مطلب پیدا ہوتا ہے اور جو مطلب پیدا ہوتا ہے وہ خود انسان کی سمجھ ہے اور چونکہ انسان مختلف ذہنیتوں کے حامل ہیں نتیجہ میں ان کے افکار بھی مختلف ہیں۔انسان قرآن کی آیات و الفاظ اور دینی تعلیمات سے جو کچھ سمجھتے ہیں اسے دین کہتے ہیں۔ اور چونکہ قرآن اور دینی تعلیمات و ارشادات کسی واقعیت کو بیان کرنے والے نہیں ہیں، ان کی متفاوت تفسیریں بھی تصدیق و تکذیب کے قابل نہیں ہیں۔ لہٰذا تمام افکار صحیح ہیں، کیونکہ قرآن ایسے ثابت حقائق بیان نہیں کرتا کہ ان افہام اور تفسیروں میں سے صرف کوئی ایک ہی اس کے مطابق ہو۔

” سیدھے راستوں ” یا ”دین کی مختلف قرأتوں ” کا نظریہ رکھنے والے دین کی بنیاد و اساسی یعنی وحی پر حملہ کرنے کے لئے ایک قدم اور آگے بڑھاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ نہ صرف انسان، قرآن اور وحی الٰہی سے کوئی ثابت حقیقت درک نہیں کرتا اور ہر شخص اپنی ذہنیت کو وحی کے نام سے بیان اور تفسیر کرتا ہے، بلکہ پیغمبر  ﷺ نے بھی (معاذ اللہ) انسانی صفات کا حامل ہونے کے سبب اپنے درک اور فہم کو وحی کے نام سے لوگوں کے لئے بیان کیا ہے۔

اس بنا پر پیغمبر  ﷺ کی فہم بھی آنحضرت ﷺ کے زمانی و مکانی خاص حالات اور ذہنیت کے مطابق اور شخصی و ذاتی فہم تھی کہ جسے الفاظ و آیات کی صورت میں بیان کیا ہے۔ لہٰذا قرآن کو کلام خدا اور وحی الٰہی نہیں سمجھا جا سکتا، بلکہ کہنا چاہئے کہ قرآن     پیغمبر  ﷺ کا کلام ہے(نعوذ باللہ)۔

یقیناً آپ سوال کریں گے کہ مندرجہ ذیل آیات کے بارے میں کیا کہا جائے ؟

(وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الہَویٰ اِن ہُوَ ِلاَّ وَحْی یُّوحیٰ)۱

پیغمبر  ﷺ اپنی خواہش سے کبھی کلام نہیں کرتے، آپ کا کلام وحی ہے جو مسلسل نازل ہوتی رہتی ہے۔

یا (تَنزِیل مِن رَّبِّ العَالَمِینَ، وَ لَو َتقَوَّلَ عَلَینَا بَعضَ الأَقَاوِیلَ، لَأَخَذنَا مِنہُ بِالیَمِینِ، ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنہُ الوَتِیْنَ)۲

یہ قرآن رب العالمین کا نازل کردہ ہے، اور اگر یہ پیغمبر ہماری طرف سے کوئی بات گڑھ لیتے، تو ہم ان کے ہاتھ کو پکڑ لیتے، پھر ہم ان کی گردن کی شہ رگ کاٹ دیتے۔

اس نظریہ کے طرفدار جواب میں کہتے ہیں کہ یہ مضامین بھی خود پیغمبر  ﷺ کی ذہنی اپج ہیں نیز آپ کے احساسات کی غمّاز ہیں۔

واضح ہے کہ ایسا نظریہ، شکاکیت اور انکار حقیقت کے دلدل میں گرنے، عقل و منطق کو نظرانداز کرنے اور الفاظ کے ساتھ بازی کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے، یہ نظریہ پیش کرنے والے سب سے زیادہ روشن اور واضح معانی و مفاہیم کے مقابلہ میں کہیں گے کہ یہ آپ کا احساس اور آپ کی سمجھ ہے اور خود آپ کے ذہنی خیالات کے علاوہ کسی حقیقت کی نشاندہی کرنے والا نہیں ہے، اس بنا پر قرآن خود آپ کے لئے اچھا اور محترم ہے لیکن دوسروں کے لئے کوئی قیمت اور اعتبار نہیں رکھتا۔

بہرحال ہم دیکھتے ہیں کہ دین و قرآن کے متعلق ایسے نظریہ کی ترویج سب سے زیاد ہ ان ترقی یافتہ شیطانی جالوں میں سے ایک ہے جو اب تک حضرت آدم  ـ کی اولاد کو گمراہ کرنے اور فریب دینے کے لئے بچھائے گئے ہیں۔

…………………………………………………

(۱)سورۂ نجم، آیت ۳،۴ ۔

(۲) سورۂ حاقہ، آیت ۴۳ تا ۴۶۔

…………………………………………………

 

                تکرار وسوسہ شیطانوں کا اہم اسلحہ

 

شیطانوں کا ایک اسلحہ انسانوں کو گمراہ کرنے کے لئے ان کے اندر مسلسل وسوسہ ڈالنا اور ان کے ذہن و عقل میں نفوذ پیدا کرنا ہے۔ اسی وجہ سے قرآن ان کو وسواس اور خناس کے لقب سے یاد کرتا ہے اورانسانوں کو ہدایت کرتا ہے کہ جنّ و  انس  کے شیاطین کے شر سے خدا کی پناہ مانگیں، اس لئے کہ شیاطین، انسان کے دل پر مسلسل وسوسہ اندازی سے چاہتے ہیں کہ انسانوں کے ذہن و عقل کو اپنے تسلط میں لے لیں اور ان کے افکار کو ہلاکت و گمراہی کے گڑھے کی طرف موڑ دیں۔

شیطان اور شیطان صفت انسان خود جانتے ہیں کہ خدا پرست لوگوں کے اذہان میں شیطانی تخیلات کو جگہ دینے کے لئے ضروری ہے کہ اتنا بولیں، لکھیں اور تکرار کریں کہ اذہان کو اپنے باطل تخیلات سے مانوس کر کے دھیرے دھیرے ان کی فکر و عقل میں نفوذ کر جائیں۔ خود وہ لوگ کہتے ہیں کہ اس قدر بولنا، لکھنا اور تکرار کرنا چاہئے کہ لوگوں کو شک و شبہہ میں مبتلا کر دیں۔

وہ لوگ ابلیس کی وسوسہ اندازی سے سب سے پہلے طالب علموں اور تعلیم یافتہ طبقہ کو منحرف اور گمراہ کرنا چاہتے ہیں، کیوں کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کو فریب دیکر عام لوگوں کو اور زیادہ گمراہ کرسکیں گے۔ لیکن وہ اس بات سے غافل ہیں کہ خداوند متعال نے مسلمانوں اور شیعوں کی ہدایت کے لئے روشن مشعلیں قرار دی ہیں اور مسلمان لطف الٰہی اور دینی علوم و معارف سے الہام کے ذریعہ دشمنوں کی شیطانی سازشوں کو بھانپ لیں گے اور روز بروز قرآن کی پیروی میں پہلے سے زیادہ محکم و پائدار ہوتے جائیں گے۔

 

                متشابہات سے استناد، قرآن کے مقابلہ میں ایک دوسری سازش

 

اس کے پہلے اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا کہ پیغمبر  ﷺ اور ائمہ   معصومین ؓ کا ایک عہدہ وحی الٰہی کی تفسیر و توضیح ہے، چونکہ قرآن میں محکمات و متشابہات ہیں اور جیسا کہ اس کے پہلے اشارہ کیا گیا کہ اس میں ظاہر و باطن بھی ہیں کہ اس کے معارف کی گہرائیوں کا حصول پیغمبر ﷺ اور ائمہ معصومین  اور علوم الٰہی سے واقف حضرات کے علاوہ کسی کے لئے ممکن نہیں ہے اور اس کی تفسیر و توضیح مکتب اہلبیت  کے تعلیم یافتہ افراد کے علاوہ کوئی اور نہیں کرسکتا۔

چونکہ حکم عقل اور سیرۂ عقلاء کے مطابق جاہل کا عالم کی طرف رجوع کرنا لازم ہے، لہٰذا قرآن اور دین کے معارف سمجھنے کے لئے اس کتاب الٰہی کے لانے والے اور ائمہ معصومین اور ان حضرات کے مکتب کے تعلیم یافتہ افراد کی طرف رجوع کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ تمام انسان عقلائی سیرت و روش کی پیروی کریں یا اپنے کو عقل و فہم اور سمجھنے اور سمجھانے کے منطقی اصول کا پابند سمجھیں۔

ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو لوگوں کو صرف گمراہ کرنا چاہتے ہیں اور ان کا مقصد معاشرہ میں شبہہ اور فتنہ پیدا کرنے کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے۔ قرآن نے بھی اس بات کی پیشین گوئی کی ہے:

(وَ ہُوَ الَّذِی أَنزَلَ عَلَیکَ الکِتَابَ مِنہُ آیَات مُحکَمَات ہُنَّ أُمُّ الکِتَابِ وَ أُخَرُ مُتَشَابِہَات فَأَمَّا الَّذِینَ فِی قُلُوبِہِم زَیغ فَیَتَّبِعُونَ مَاتَشَابَہَ مِنہُ ابْتِغَائَ الْفِتنَۃ وَ ابْتِغَائَ تَأوِیْلِہِ وَ مَا یَعلَمُ تَأوِیلَہُ اِلاَّ اللّٰہُ وَ الرَّاسِخُونَ فِی العِلمِ یَقُولُونَ آمَنَّا بِہِ کُلّ مِن عِندِ رَبِّنَا وَ مَایَذَّکَّرُ اِلاَّ أُولُوا الأَلبَابِ)۱

یعنی ”اس (خدا) نے آپ (پیغمبرﷺ) پر وہ کتاب نازل کی ہے جس میں سے کچھ آیتیں محکم اور واضح ہیں جو اصل کتاب ہیں اور کچھ متشابہ ہیں، اب جن کے دلوں میں کجی ہے وہ انہیں متشابہات کے پیچھے لگ جاتے ہیں تاکہ فتنہ برپا کریں اور من مانی تاویلیں کریں حالانکہ اس کی تاویل کا علم صرف خدا کو ہے ا ور انھیں ہے جو علم میں رسوخ رکھنے والے ہیں، جن کا کہنا یہ ہے کہ ہم اس کتاب پر ایمان رکھتے ہیں اور یہ سب کی سب محکم و متشابہ آیات ہمارے پروردگار ہی کی طرف سے ہیں اور یہ بات سوائے صاحبان عقل کے کوئی نہیں سمجھ سکتا ہے”۔

اس آیۂ کریمہ نے قرآن کریم کو دو حصوں میں یعنی محکمات و متشابہات میں تقسیم کیا ہے اور محکمات کو ”ام الکتاب” (اصل کتاب) کے نام سے یاد کیا ہے۔ قرآن کا ایک حصہ آیات محکمات ہیں جو دوسرے حصہ یعنی متشابہات کی نسبت جڑ اور اصل ہیں۔

محکمات قرآن سے مراد وہ آیات ہیں کہ جن کے معانی واضح و روشن ہیں اور ان کے معارف قابل شک و شبہہ نہیں ہیں۔ یہ آیات، معارف قرآن کے اصول و امہات پر مشتمل ہیں۔ انھیں کے مقابل وہ آیات ہیں جو محکمات کا سہارا لئے بغیر قابل فہم نہیں ہیں اور ایسا نہیں ہے کہ تمام لوگ ان کے معنی کی گہرائی تک پہنچ جائیں۔ آیات قرآن کے اس حصہ کو متشابہات کہا جاتا ہے۔

…………………………………………………

(١) سورۂ آل عمران، آیت ۷۔

…………………………………………………

قرآن نے لوگوں کو متشابہات کی پیروی سے، محکمات نیز پیغمبر  ﷺ اور ائمہ معصومینؓ  کی تفسیر و توضیح کی طرف توجہ کئے بغیر منع کیا ہے۔ قرآن کریم متشابہات کی پیروی کو دل کے انحراف و کجی کی نشانی سمجھتا ہے اور فرماتا ہے کہ جو لوگ قرآن کے متشابہات کو اپنی فکر و فہم اور اپنے اعتقادات کا معیار قرار دیتے ہیں وہ قرآن کی من مانی تاویل و تحریف اور فتنہ برپا کرنا چاہتے ہیں۔ قرآن کے بقول، آیات متشابہات کی تاویل و تفسیر خدا، راسخون فی العلم اور ائمہ معصومینؓ کے علاوہ کوئی اور نہیں جانتا۔ علم میں راسخ وہ لوگ ہیں جنھوں نے دل و جان سے خدا کی بندگی کو قبول کیا ہے اور کہتے ہیں کہ ہم قرآن پر ایمان لائے ہیں، خواہ وہ قرآن کے محکمات ہوں یا متشابہات، سب پروردگار کی طرف سے ہیں۔

٭٭٭

ماخذ:

http://www.shianet.in/index.php

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید