فہرست مضامین
- پرانی کروٹ کا نیا خواب
- اضافتوں سے عاری
- اَخبار معنی
- طلسم مرہم نایاب
- تدریج
- شکست شب کا قبضہ
- علامت
- جلوہ گاہ سے واپسی
- بے صدا آئے ہیں
- مصافحہ کار آنکھ
- سبھی بازار خالی ہیں ___ !!
- زمانے انتقاماً بولتے ہیں
- بیمار قیس
- اَور دریا ہنس رہا ہے !!!
- ’’کبھی کبھی‘‘ ضرور ہے !!
- اِسی کو نظم کہتے ہیں !!
- پرانی کروٹ کا نیا خواب
- دریچہ یوں نہیں کھلتا !!
- شام کا فیض اٹھاتے ہوئے
- سارا بدن تقسیم کرو !!!
- سرگوشی
- عدم اطمینان
- سب ’’ہم‘‘ میرے ہیں !!
- کاغذی پیرہن
- ’’مارا ماری‘‘
- شہر مشترک کر لے !!!
- سرخ وفا
- روزنامچہ
پرانی کروٹ کا نیا خواب
مرتب: ضیاء حسین ضیاء
ستیہ پال آنند
اضافتوں سے عاری
جو استعاروں کو موت آئے تو میں بھی
معنی کا رنگ دیکھوں !
اَلم کشائی میں دل کی حالت کا عکس دیکھوں
تو آئینے کی فضیلتوں کے کرم نہ بھگتوں
میں ڈوبنے پر محیط پانی کا ذکر چھیڑوں
کٹے کناروں،
جلے درختوں،
بھنور کے سارے ناگفتہ انداز
قاتلوں کے ہنر نہ جانوں،
کھلے بدن سے
اکہرے مطلب کی چال چل کر
بہت سی آسودہ رفعتوں کے مزاج پوچھوں،
لغات کی لغزشوں میں جھاتیں نہ مارنے کا
افادۂ عام مل سکے تو
سکون سے اپنے دل سے مل لوں،
وفا کو چوموں
جزا کو چا ہوں
میں ہجر اور وصل کی اس سزا کو دیکھوں
جسے لغات فدا کاری نے
استعاروں کی بھینٹ دے کر
بہت سے معنی چھڑا دیئے ہیں
بہت سے محسوس ذات اول
کے سبز دفتر جلا دیئے ہیں
جو استعاروں کو موت آئے تو میں بھی
معنی کا رنگ دیکھوں !
بنام تفہیم
اور کتنا کھلا زمانہ بنا سکو گے
بنام شرح متین
کتنا کھلا فسانہ سنا سکو گے
بنام تزئین حرف عالی
تعینات زماں کے کتنے
عظیم معبد گرا سکو گے
سفر کے ایسے نحیف و بیمار راستوں سے
پلٹ کے دیکھو
ستارہ وار
آسماں میں کتنے قمر الجھتے دکھائی دیں گے
اس آنکھ کو پشت پر اکہری نظر کے منظر
کو جھیلنے دو
ہوائے محسوس کو بیاں کے کھلے مکانوں سے
یوں گزرنے کا عندیہ دو
حواس کو اپنی ایک باری ہی کھیلنے دو
یہ زعم الفاظ،
اور تعبیر کا زمانہ
حصول معنی کی ایک ضد ہے
خدا کا نہ جاننا بھی آخر کو ایک حدّ ہے
جو استعاروں کو موت آئے تو میں بھی
معنی کا رنگ دیکھوں !
ذرا ٹھہر لو !
میں روح ابجدسے بات کر لوں
میں خوف الفاظ سے نکل لوں
میں شوق تعبیر سے بھی بچ کر
جو ہے، جہاں ہے
سے، اس کی مرضی کی بات کر لوں !
میں خالد و جاوداں سے لے کر
بقا، فنا کے سبھی قرینوں کا ڈھنگ دیکھوں
جو استعاروں کو موت آئے تو میں بھی
معنی کا رنگ دیکھوں !
٭٭٭
اَخبار معنی
جہاں بینی بے شمار تمنا
مگر خون کی پہچاں مقدم رہے !
ظہور نظر میں تمامی فلک سے
زمانوں میں الجھی ہوئی کائنات
اور
ا س سے بھی ہٹ کر بہت زندگی ہے
حرارت پذیر اور آتش خمار
مگر جو سند ہے وہ دُزدانہ روزن سے ہٹ کر
کشادہ معانی کی تشہیر میں ہے
جگر کا کوئی سوز و سودا نہیں ہے
تپیدہ حواسوں کی الجھن نہیں ہے
کوئی سادگی ہے
کوئی قافیہ جی کے گھبرائے کوچے سے
نکلا نہیں ہے
نہ تشبیہ باطن
نہ اندرون ظاہر
حیات اپنے جوبن پہ پھل پا رہی ہے
کشادہ یقین
اپنے اطراف کے بھید کو کھولنے کی بجائے
حریصانہ سی تالیاں پیٹتا ہے
زمانے کی چالیں سمجھ آ رہی ہیں
زمیں بچھ رہی ہے
فلک ہانپتا ہے
اگر لفظ اپنے محاکات کا ذکر چھیڑے
تو پھیلی نظر پھر تماشا دکھا دے !
اسی کو تو تخلیق کہتے ہیں بھائی
کہانی میں جو ماجرا بن رہا ہے
دل و نظر میں جو صدا آ رہی ہے
مظاہر کی فطرت کے غازے کی شاخ ہے
اُدھر شاعری کا جلوس آ رہا ہے
خیال و تصور
تخیل، بیانات
دل کے قصیدے
فراق فراواں کے بھو گے ہوئے دکھ کی کلکاریاں
نا تمام وصال
بے وضع لفظ کاری
کسی حکم نقاد کی منتظر ہے
اب ایسی شبوں میں
اگر شاعری کی ضرورت نہیں ہے
تو اخبار معنی کا پتلا جلا دو !!
٭٭٭
طلسم مرہم نایاب
آ،
ترے جی کی فصد کو کھول دوں
زخم پر
آواز کا مرہم رکھوں
پنبۂ نایاب سے خونیں فضا کو
صاف کر کے
بازوؤں کی ساری اکڑن پھینک دوں
آ کبھی میرے قریب
مجھ کو طبیب جاں سمجھ!
خود پر جو ہے اپنا بھروسہ
اسے یوں بانٹ دو
میں تری رگ رگ میں حکمت ساز آوازوں سے
خوں کے سالموں کو
بانسری کے زور پر
اتنا سبک سارانہ کر دوں
ساربانوں کا کوئی ہو قافلہ جیسے رواں !
آ،
طلسم مرہم نایاب تجھ پر پھونک دوں
روزن ہستی پہ تارِ عنکبوت بے یقیں کو
توڑ دوں !
چھت کے کونے میں چھپی چڑیا کی فصل نسل کو
اب جواں کر کے
اڑا دوں ان فضاؤں کی طرف
جو فضائیں حوصلوں سے دھت شرابی مانگتی ہیں
اور میخانہ چلاتی ہیں فلک کے پیر کا
آ۔ تری جی کی فصد کو کھول دوں !
تازہ انجاموں سے گزریں گے تو
بال و پر کے بیچ
حوصلے کی تازگی
اک آشیانہ اور بھی آباد رکھے گی
جسے آتے زمانوں کے لئے
پھر سے فصد تیار کرنے کے لئے
مرہمِ جاں کھینچنے کی آرزو ہو گی
زمانہ سب زمانوں کو مسلسل کھینچتا ہے
ہم کسی رستے سے تعبیریں گرا کر آ ہی جاتے ہیں
ٹوٹ جاتی ہے کسی نا چاہے صدمے سے بہت محکم سطر
اک نیا عنوان بن جانے کی خواہش میں
زمانہ بھوگتے ہیں
اور مسلسل سوچتے ہیں
کچی نیندوں سے پرانے خواب دہرانا نہیں اچھا !!
٭٭٭
تدریج
مرحلہ پہلا تو یہ ہوتا ہے
غم کی کونپلوں سے باغبانی آستیں سے
درد کا دریا بہے
اور دریاؤں سے دل کی بستیوں کو فیض ہو
کشت جاں میں وہ بھی منظر
سبزۂ نو رستہ سے تنویر ہو کر
آفتابی انکھڑی میں اک سنہرا گیت ہو
لوگ جس منظر سے آنکھوں کا شگوں
آزاد رکھتے ہیں
مرحلہ پہلا تو یہ ہوتا ہے
آنکھیں حرمت غم میں مکمل خود کفیلی راحتوں سے چور ہوں
مرحلہ _____
ہاں مرحلہ پھر وہ بھی آتا ہے کہ
مشکیزے میں کوئی تیر لگتا ہے
تو سب یادیں
جو آتی ہیں پرستاں کی پہیلی وادیوں سے
یا انہیں خون جگر ٹپکا کے جاتا ہے،
خون میں بہتی ہوئی تصویر سی جمنے کو آتی ہے
اک کھرنڈ جمنے کو آتا ہے
کہ زخم صد رسائی بے رسائی میں
کہیں اک زاویہ تبدیل کرتا ہے
یہاں پر غم کا پہلا مرحلہ تکمیل ہوتا ہے
زخم ہو یادوں کی بگھی میں سوار
راستہ ہموار ہو
سلگے ہوئے من کو کہیں اقرار ہو
ہم جہاں سے ٹوٹ کر گر آئے تھے
پھر وہاں پر
موسم داد بہار
ان درختوں پر نئی شالوں کو اوڑھے
موسموں سے عرصۂ تکرار میں ہے
وقت کے پانو کی یہی آخری رفتار ہے
غم کہیں آسیب ہے _____
اور گہہ زمانوں میں کہیں پہلے لگے زخموں کا بھی
ایسا مداوا _____ جو مسیحا کے لئے تیار ہے
یا الٰہی!
کونسا حصہ کروں میں اختیار
عمر کی دہلیز پر یہ دل دھڑکتا ہے کہیں
ہاں یہ خواہش ہے کہ دستک تیز پیمانے سے نہ ہو
شادی اسرارِ غم کیا ہے
اپنے قرینوں،
ساتھیوں سے یوں بچھڑ جانے سے نہ ہو
زخم بھرتا ہے تو بھرنے دو
زمانہ ٹھیک اندازے لگاتا ہے
صورتیں اتنی ہیں غم کی
اصل پہچانی نہیں جاتی
سبب بھی یہ محقق ہے
اس کارن ہمارے گھر سے
آنکھوں کی نگہ بانی نہیں جاتی !!!
٭٭٭
شکست شب کا قبضہ
(۵ مارچ، ۲۰۱۶ء)
موضوع ذات کا پہلا عنوان ہی
مجھ سے میری شبانہ روی پر تمسخر سے
باتیں بنانے کو بے چین ہے !
دن کے ڈھلتے ہی
شام ازل افتتاح کو کھڑی مل سکے گی
ابد تک کا پھیلا ہوا میرا سامان
مجھ سے بچھڑنے کو ہے
مجھے سب پتہ ،
ساری مجھ کو خبر ہے
پھر بھی مل جل کے میری اداسی
مکمل شجر سے ممسک ہوئے جا رہی ہے
تمسک میں بس ایک دھند ہے
کہ جس کی بڑی نیک نامی یہی ہے
کہ ابہام کی سر پہ تلوار ہے
آنکھ کی دسترس پر کوئی وار ہے
سب لپیٹو یہ قصہ
ہر اک رات کو
خود پہ انڈیل کر
کروٹوں کی نوا
خود سے ملنے سے عاری فضا
شب کے اک پہر میں
مقصد چشم کو پوچھتی ہے
میں انہی سلوٹوں میں مچل جاتا ہوں
میں نئی اک مہم پہ نکل جاتا ہوں
رات کی بات کو رات پر ٹالنا
ایک عادت بھی ہے
اور شہادت بھی ہے
جی میں آتا تو ہے
میں مظاہر کی کوئی قسم کھا سکوں
ہاں مگر، یاد رکھنے کو یہ بات کافی رہے
ہر قسم ہی کہاں
پوری ہونے کو پیدا ہوئی ہے !!
٭٭٭
علامت
دکھ علامت ہے
علامت گھنا جنگل بھی
جنگل کی ہوا اور فضا
تازہ غذا
آشفتہ سری کی ہے پَنہ
ایک دماغ
وہ ہے جو میسر تو رہ چشم کھلی ہے
تم جس میں بھی چل پاؤ مقدر کی گلی ہے
دشوار، مسافر کی گرہ کا ہے کوئی مال
گہہ روزن ماضی ہے تو
تو گہہ غرفۂ احوال
دَرزوں سے نکل آتی ہے سورج کی محبت
اک طرفہ تماشا ہے
مصیبت کی مصیبت
اوڑھے ہوئے منشور کی وابستہ اذیت
یا بے خبری کا کمال
ہر بار نہیں ہوتا
ہمہ اوست کا دَر وا
تخلیق _____
کوئی تازہ شجر ،
آویزۂ ہستی
اور فکر ______
بن گوش حواس خمسہ
اب ثمر کی تقسیم
تلذذ کی حقیقت
مژدہ ہے کہ بد خبری ایامِ دل دوست
میں خود سے خبر دار ہوا پچھلے جنم میں
پھر تاب تمنا میں بسا شوخ تخیل
تخلیق خجستہ کی نوا کا کوئی پیالا
دل نَے پہ اگر نغمہ سرا ہو بھی گیا تو
تسکین رہِ خواب میسر نہ ہوئی پھر
اک اور روش منتظر سیر و قدم تھی !
دل پھر سے مروج دل و رخسار سے نکلا
آئینہ سکھ چین سے جینے میں مگن ہے
تخلیق کوئی دکھ بھی نہیں ہے جو کہیں پر
تسکین پہ آمادہ ہو پرواز تخیل
اک بار عنایت جسے آگاہی کہیں ہم
صد سال زمانوں کے زمانے کی جزا ہے
یا یہ کہ اسے صورت اغیار جتائیں
یا یہ کہ اسے حلقۂ تخلیق بنائیں !!!
٭٭٭
جلوہ گاہ سے واپسی
ادھر کتنے زمانے
جلوۂ مشہود کی عینی سند سے بات کرنے میں
گزارے تھے
گزارے تھے۔ ۔ ۔
بِتائے تھے، کہ
بیتے تھے
یا گزرے تھے ؟
مکمل یاد ہی کب ہے _____!!۱
سناکرتے تھے روحوں پر اک ایسا موسم تخلیق آتا ہے کہ جب ان کو پروں سے
پاؤں سے
اور بازوؤں سے
دے کے تلواریں زمیں پر بھیج دیتے ہیں
خدا کے آخری نزدیک تر اعیان کھلتے ہیں
زمیں اک جنت حکمت نشاں ہے
جہاں پر بال و پر،
حرکت،
سکونِ جانفزا روحوں میں بھر کر
سوچ کے قابل بنایا جاتا ہے
بڑی فیاض قدرت ہے
بڑا انعام کرتی ہے
اگر تخلیق کی نعمت بھی صلب آدم خاکی
کی ایک تحریر کہلائے۔ ۔ !
جئے ہم اس زمانے میں
جئے ہم اس زمانے میں
________
زمانے دیکھ !
کہ ہم بھونچکے سے رہ گئے ہیں
ہمیں اچھا بھی لگتا ہے جہانِ نازنیں
مگر وجدان پر اک زخم کی آری بھی چلتی ہے
یہاں سے کوچ بھی چاہتے ہیں
نہ جانے پہ بھی ضد ہے
یہیں جینا بھی چاہتے ہیں
یہیں مرنا بھی چاہتے ہیں
بہت سی ڈوریاں ہاتھوں سے اکثر یوں پھسلتی ہیں
کہ جیسے ناؤ کو طوفان اپنے جوف میں
صید گرفتار بلا کر کے
بنام ساحل بے کس
کوئی جام فتح تجویز کرتا ہے
اسی آئندہ تقدیم و تاخر میں
ہم اپنے نقشۂ نایاب کو کھو کر
زمانے کے نشاں کو ڈھونڈتے ہیں
وہ نشاں
جو باطن شہر فراموشاں میں
اپنی ہی فراموشی کا پہلا جرم ہوتا ہے
جو اقرار الست آسمانی کا ثمر ٹھہرا !!
_______
ادھر ہم آئینے سے اس طرح مخلوط ہو بیٹھے
نہ اپنی شکل ملتی ہے
نہ خدوخال ملتے ہیں
نہ غازہ لب پہ سجتا ہے
نہ رہرو گرد میں پلتا ہوا رہوار بنتا ہے
کہیں الٹی پڑی شامت کے ہم کردار ٹھہرے ہیں
ہمیں خود میں پلٹ جانے کا تھوڑا حوصلہ درکار ہے
اور نیند بھی آنے لگی ہے
اور یہ سب ہست و بود
تجربات زیست کا کاٹھ و کباڑ
ہاں مگر اب جو بھی ہے
ہشیار باشی کی صدا میں
یا کسی مست و انا میں
ڈھونڈنی ہے مسکنی جنت
جسے کردار کہتے ہیں
کبھی دست مشیت کا کھلا دربار کہتے ہیں
یہ میں ہوں ______
عقل کا مارا
یہ میں تھا صلب کا ہارا
مری تقدیر میں چکر ہے
اور صبح
خرام نیستی کے ختم کرنے کو
مجھے چکر تو آتے ہیں
مگر !
اک ہوم ورک ___ نامکمل دفتر احساس
اسے کس کے سہارے چھوڑنا ہو گا !!!
٭٭٭
بے صدا آئے ہیں
مانگ بھر آئے ہیں
بے صدا آئے ہیں
اپنے خالی بدن کی ٹٹولی ہوئی
جیب کو پھر الٹ کر
پلٹ کر چلے آئے ہیں
چاند پر کن دنوں میں بھروسہ کیا
یہ زمیں روشنی سے منور نہیں
آخری عمر کی پھیلتی رات میں
کتنا گھٹ آئے ہیں
مانگ بھر آئے ہیں !
زندگی !
خود پہ اتری قیامت کو کیا نام دیں
اس محبت کی نا شستہ راحت کو کیا نام دیں
کیا بدلنے کو تھے
کیا بدل آئے ہیں ______ ؟
ہم ترے شوخ رنگوں کے امکان کو
حادثہ مانتے تھے
ترے خد و خال شگفتہ چمن کو
خزاں کی زباں کا ترس جانتے تھے
کہ معلوم تھا
خود کو سارا لٹا کر بھی
رہزن کا چہرہ چرا لائیں گے
چاند کی چودہویں رات کے جشن میں
جی سے لے کر
تمنا کے اگلے نظاروں تلک
ساراکٹ آئے ہیں
کتنا گھٹ آئے ہیں ______
بد زبونی اسی بخت کی ہے
یا پچھلے جنم کی ہوس باختہ
کوئی پاگل ہوا
سرسرانے کو ہے _______
آنچلوں کی قنات
اور رگ سائبان جنوں
اب طنابوں کے محفوظ نقطوں میں ہے
دل اگر مان جائے تو انکار سے
خود پہ اتری خزاؤں کا رخ موڑ دیں
آخری لفظ پر یہ قلم چھوڑ دیں !
شیشۂ جاں کی امکان بھر
یہ رجا توڑ دیں
خود سے منہ موڑ لیں
یہ مگر عشق کی اک بجھارت ہے جس کو ہمیں کھولنا ہے
نہیں بولنا ہے
کہ جیتے میں سوبار مر آئے ہیں
مانگ بھر آئے ہیں
بے صدا آئے ہیں
٭٭٭
مصافحہ کار آنکھ
ہم _____
اتر آنے لگے ہیں
خواب کی اس الگنی سے
جس میں صبح تند کو
لمبے سمے تک نیند کا بحران
اچھا ہی نہیں لگتا
نیند گہری نیند !
نیند کے مخصوص حصوں نے
مرے خوابوں کو دھو کر رکھ دیا ہے
آنکھ میں شمشان گھاٹی مردنی سی آ گئی ہے
الگنی پر سب ٹنگے خوابوں کو اگنی کھا گئی ہے
______
دھوپ کے اک ہفت روزے میں
خبر تو چھپ گئی لیکن
قدم الجھے زمانوں کی کسی تصویر پر پڑنے لگے ہیں
بارشیں، کچھ سازشیں کچھ خواہشیں
اعتبار جاں کا قصہ ماننے سے یوں گریزاں ہیں
کہ جیسے مشتبہ آیات پرایمان ٹھہرا ہو
یقیں کا سوت کاتیں تو
اجل مہلت نہ دیتی ہو !
مرے کانوں کا بالا
بالا خانے کی خبر لاتا نہیں ہے
ہم کہ اب منکر ہوئے ہیں شہر سے
دل وہیں پر خرچ کر آتے ہیں
حزن آرزو لاتے نہیں
_______
حالتیں
مکمل حالتیں ملنے کے کب ارمان
پورے ہو سکیں گے !
انگلیوں پر زائچوں کے سب نگینے
یوں سمٹ کر گول ہوتے ہیں
ہتھیلی کا کوئی صرفہ
یہاں بہتی ہوئی قسمت کو پاؤں پاؤں گرنے سے کبھی مانع نہیں ہوتا
فلک اک عارضی سی
کم نما سی مسکراہٹ میں مجھے یوں گھورتا ہے
جیسے خود میرے وجود ذات کے برگد کے سب
پتے اتارے گا_____
برہنہ تن مجھے آسیب سہنا ہے
فلک کی اس ہنسی سے جَو کی روٹی ہی نکلنی ہے
مجھے خود حلق مجنونانہ سے آتش ہی نگلنی ہے
ّّ_______
اُتر آنے لگے ہیں
خواب کے اِس رَس کشیدہ
جرعہ جرعہ خوابناکی فرغلے سے
جس میں بس بالشت بھر نشے کی
اک اَندھی مسافت ہے
ابھی منظر نہیں کھلتا
ابھی تک خواب کی چادر لٹکتی ہے
ّّ_______
ابھی چادر اترنے کا زمانہ اور ٹھہرے گا
ابھی اک حادثے کے
اور پاؤں دھو کے پینے ہیں
تجربات جہاں
دہلیز کی رونق نہیں ہوتے
تمہیں معلوم ہونا چاہیئے
کہ یوں
مصافحہ آنکھ کا ہر خواب سے
سچا نہیں ہوتا !!!
٭٭٭
سبھی بازار خالی ہیں ___ !!
اُترنے دے ہمیں زینہ
ہمیں خود ساختہ
یہ چرخ امید جہاں ہی
مار ڈالے گا
ہمیں وہ آئینہ اندر تلک تلوار مارے گا
جسے ہم کا کل و رخسار سے
ہر آرزو کے بعد دل کا غسل دیتے ہیں
کہانی سے نکلنے دے !
کہانی میں میری موجودگی
کردار کی معراج بنتی جا رہی ہے
ماجرے سلجھے الجھتے جا رہے ہیں
اور افسانہ کسی کے ہاتھ کی تسطیر سے
باہر نکلتا جا رہا ہے
ہمیں اب انگبیں سے لاگ آتی ہے
بہت سی تلخ کامی یا کہ شیریں کار مہمانی
سبھی چڑھتے ہوئے زینے ہیں
جن پر پاؤں پڑتا ہے تو لذت چیخ اٹھتی ہے
ہمیں اس آشیانے سے اترنے دے
ہمیں ادراک ہونے دے
کہ ہم ادراک کرنے کے بھی اب قابل نہیں ٹھہرے
ہم اپنی خود پہ اتری سلطنت کے نام پر
اس نفس کا زینہ بناتے ہیں
کبھی معراج کرتے ہیں
کبھی تنزیل کرتے ہیں
ہمیں انسان رہنے دے
ہمیں زینہ اترنے دے !
اترنے دے کوئی زینہ
کوئی چہرہ مقابل آ کے اپنی خستگی کی داد تو پائے
کوئی محمل غبار ناقہ کی رفتار سے آگے نکل جائے
بلندی کے سفر نے پستیوں کے بوجھ کو مشکل کیا ہے
ہمارے سامنے گاڑا گیا نیزہ
ہماری پشت سے باہر نکلتا ہے
کمیں پہلو کے بل پر آزمائی جا رہی ہے
اور ہم دستور میں
آگے نکلتے جا رہے ہیں
اور نظر اب بھی بلندی پر ہے
پاؤں کٹ رہے ہیں
کمیں گا ہوں پہ رکھے چیختے ہیں
سارے اندازے
کبھی زینہ بہ زینہ اور کبھی اس اونچی آہٹ سے
جسے آواز بننا تھا
مگر سرگوشیوں نے قاتلوں کے دل خریدے تھے
عجب زینہ _____؟
ترا زینہ _____مرا زینہ
کہانی موڑ کوئی ڈھونڈتی ہے
اور پستی کی حقیقت سے سبھی کردار
واقف ہیں
گنہ کے وار خالی ہیں
لب و رخسار خالی ہیں
سبھی بازار خالی ہیں ___ !!
٭٭٭
زمانے انتقاماً بولتے ہیں
زمانے انتقاماً بولتے ہیں
یہاں جو سرسراہٹ ہے
کہ جیسے سانپ
ماہ وسال کی گردش میں لپٹے چل رہے ہیں
وہ ہم کو آئینہ کی سرخ منڈی کا
سبھی بھاؤ بتاتے ہیں
فلک سے تاؤ کی تفسیر کرتے ہیں
کیلنڈر چپ ہے
دیواریں مسلسل بولتی ہیں
یہ نئے ابلاغ کی تعیین نو ہے
وہ ہاتھوں کی لکیروں سے نکلتا ہے
جسے ہم چھو نہیں پاتے
زمانے انتقاماً بولتے ہیں
کردہ، نکردہ سبھی اسرار خفتہ کھولتے ہیں
ہری شاخوں کوسانپوں نے نئی پوشاک پہنائی
دریچہ ریشمی سانپوں سے کیسے بھر گیا ہے
اُترنے کے لئے
اب بالا خانے سے کوئی زینہ نہیں آتا
سروں کے سوچ سے معمور کاسے
پھٹ رہے ہیں
جگر کے راستے
احساس نو سے کٹ رہے ہیں
دریچے میں یہ کنڈلی مار کر
عفریت زادے
اپنی اپنی دسترس پر ناز کرتے ہیں
جدھر زینہ پڑا ہے
اس طرف پاؤں نہیں جاتے
کہ نقش پا بنانے میں کبھی کاوش نہیں ڈالی
سو رستے اک تحیر ہیں
تحیر کو زمانوں کی نئی تعبیر سے جب آشنا کر لو
تماشا ہاتھ سے باہر نہیں جاتا
وگرنہ
چپ مسلسل عرصۂ تعذیب ہے
بیمار رہتی ہے۔
کوئی موسم صدائے نغمہ سنجی پر نہیں آتا
رفو گر
زخم کے سارے ارادے تولتے ہیں
اور زمانے انتقاماً بولتے ہیں
ابھی دستار کا اک پیچ باقی ہے
ابھی کرنے کے کاموں کا
اصولی بھید باقی ہے
زمانے انتقاماً بولتے ہیں
اور چپ آنسو بہاتی ہے !!
٭٭٭
بیمار قیس
پھلجڑی اب جلا ،
ما تھا ٹیکے ہوئے آہ و زاری گزار !
پاس سے جھانکتی آنکھ کو اپنا تیور دکھا
فکر سے دوستی
اب مداوا طلب مرض امراض ہے۔
اپنے دل سے نکل
آ منڈیروں پہ بیٹھ
کاگ سرکار کا راگ پھر سے سنا
وجہ مقصود نظم
تم سے پوچھے گا کون
حرف کی صوتیات
ذات کی ذاتیات
گل کی تقسیم کا خامہ خامہ بدن
تم سے پوچھے گا کون ؟
یہ اذیت کا ماتم سہے کون کون ؟
اب اکیلی دکاں کی پریشانیاں !
کون جانے گا
سب لوگ اٹھنے کو ہیں
کچھ کو ہجرت نے مارا تو کافی ہوئے
کچھ نئے زاویوں کی طرف چل دیئے
سونی سونی دکاں ہے
جو گاہک کی شکلوں کو پہچاننے میں مگن ہے
ابھی شہر میں میری پہچان ہے
بھوک رونق بنانے سے تائب ہوں میں
سیر شکمی سے ذوق نظر دور ہے
جنگلوں میں نکل جاؤں گا ایک دن
عرض ناشر لئے
رزق حاضر لیئے
حکم جابر لیئے
ذوق کی آخری شرط کا مرحلہ
تم بھی جیتے رہو
میں بھی جیتا رہوں
ذوق کی زندگی
اب حواسوں میں ہے
یا قیاسوں میں ہے
بالا خانوں میں ہے
شتربانوں میں ہے
تھوڑا جی کر زیادہ دکھا جائیں گے
ہم نئی نظم کو امر کر جائیں گے !!
٭٭٭
اَور دریا ہنس رہا ہے !!!
دیکھتے ہی دیکھتے
ہاتھوں سے جاں جانے لگی
سرمئی سانسوں کو
کالے پھیپھڑے آزاد کرتے ہی نہیں
چشم میں خوں بارگی ہے
سارے منظر
خون کی آوارگی میں دھت ہوئے
اور شفق کا تھال الٹا بہہ گیا
دیکھتے ہی دیکھتے دل
دھڑکنوں کی تیرگی کو سہہ گیا
آ،
مرے پاس آ
دل کے دروازے کی تنگی میں تنفس سرد ہے
آہ بھی اب گرم رو آتی نہیں
یہ شب مسموم سب کو آ رہے گی
کاگ کی آواز کا مہمان کون ؟
وقت کے پاگل سمے میں
ہوش کی آواز کو
سب سن رہے تھے
اور اداسی کے تھرکتے بول میں
آواز کا جوہر نہ تھا
جھونکا جھونکا خود فراموشی چلی
ہوش کے تیور گئے
سرکنڈوں میں
آگ کی خوشبو نے جادو کر دیا
زندگی پہنی مگر پوری نہ تھی
آستنیوں میں گھسے ہم رہ گئے
سرد موسم اپنی چالیں دیر تک چلتا رہا
آخرش
لرزیدہ پیروں میں تپک بڑھنے لگی
شام سے پہلے کوئی تو فیصلہ ہونے کو تھا
دل اچھل کر یوں ہتھیلی پر پڑا
موج نے جیسے کسی ناؤ کو دھکا دے دیا
دیکھتے ہی دیکھتے
ہاتھوں سے جاں جانے لگی
خود سے ملنے کے لیئے جانا تو ہے
یہ مگر
کیسا اندھیرا فاصلہ ہے
دشت میں کشتی گھسیٹے چل رہا ہوں
اور دریا ہنس رہا ہے !!!
٭٭٭
’’کبھی کبھی‘‘ ضرور ہے !!
(۱۶ مارچ ۲۰۱۶ء)
اِدھر اُدھر کے بعد بھی
وہیں پہ مرتکز ہیں ہم
کہ جس مقام نے نہ ناپ تول کم کیا
نہ ’’ کیف وکم‘‘ کو خم کیا
جہاں کی بات تھی وہیں جمی رہی
اِدھر ادھر نظارت مہ و نجوم
دل، نظر کی عاصیانہ مرضیوں سے ایک تھی
سو وقفۂ جمال نے
ادھورے خواب کی زمیں میں نیند گاڑ دی
ہری کچور آنکھ
وُسعتِ نظر کو پنکھ مار کے جلی رہی
اِدھر اُدھر کے بعد بھی
میں خود سے دور کب گیا _____؟
ہراس _____
زندگی کی قید کا فسون ہے
تو خواب _____
زندگی کے خوف کا زوال ہے
بس ایک سمت سے تو مہَ نشیں فلک نشست ہے
اسی نشست گاہ سے
حکم صد جمال سے
جہاں پرست ہو گئے
کبھی کے مست ہو گئے
مگر۔ ۔
اِدھر اُدھر کے بعد کوئی بُعد ہے
جو آنکھ کی زکواۃ میں فقیر حق کا نور ہے
کبھی کبھی تو دل کو سادھ اَور دھڑکنیں جئیں
کبھی کبھی تو خوف باندھ
آسماں کے دوسرے کنار تک بہے چلیں
کبھی خدا سے ہو معانقہ تو یہ کھلے
کہ کس کے دل میں
کس کی چاہ کا بھید آرزو میں تھا
لگن کے ساتھ کون کس نصیب کے جتن میں تھا
ملا نظر کہ شائبۂ قرب و بعد کھل سکے
’’اِدھر اُدھر ‘‘کے بعد تو
’’کبھی کبھی ‘‘ضرور ہے !!
٭٭٭
اِسی کو نظم کہتے ہیں !!
چلیں گھر سے تو اپنی ہی گلی کو بھولتے جائیں
نئی تشکیک میں ڈوبیں
نئے ابہام سے ابھریں
معاصر کو جھٹک ڈالیں
اَساطیری حوالوں سے
نئے انسان سے پور بدن کا ناپ لے کر
پورے قد کی لوح پر لکھیں
کہیں اَجداد پورے ہوں
کہیں پر نسل ناقص ہو
کسی پر خامشی پھینکیں
کسی پر زور سے چیخیں
عزیزو !
قصۂ ابجد کی پہلی خواندگی میں یہ تو طے کر لو
اسی کو نظم کہتے ہیں !!
اسی کو نظم کہتے ہیں۔ ۔
قبا پوری نہ آتی ہو چمن کے جس زمانے پر
وہیں پہ پھول کا سرمستیانہ رقص ملتا ہے
فقیری موسموں کو جب بہاریں روپ دیتی ہیں
وہیں پر نقش دل کا آستانہ رقص کرتا ہے
اگر مالی سے بارہ ہاتھ آگے کی طرف
روشن ہو
ہر جانب
خیابان تمنا
پھول سے آراستہ۔ ۔
آتے زمانوں کا کوئی رستہ
تو یوں سمجھو۔ ۔
نئے شبدوں میں کشت نظم میں
اک تخم پلتا ہے
جبیں پر زخم آتے ہیں
جگر آسودہ ہوتا ہے !!
ہمیشہ نظم کو تجریدیت آگے بڑھاتی ہے
وگرنہ
معنی جاں آستیں میں جا نکلتے ہیں
تمدن کی حقیقت
اور علامت کی قبا دوزی
اِسی فرہاد سے کوہ جتن کاراز پاتی ہے
نئی نظموں کے خوگر !
راز میں اک راز پیدا کر
کہیں فرہاد کی دستار پیدا کر
کہیں مجنوں سے مل کر
دشت کی ساری مسافت اوڑھ کر آؤ
کہیں بکھرے ارادوں میں پڑے
نا شستہ خوابوں کی حسیں تدوین لے آؤ
جہاں پر زخم پر اک زخم کا ہر بار خم آئے
اسی کو رَسم کہتے ہیں
اسی کو نظم کہتے ہیں۔ ۔ !!!
٭٭٭
پرانی کروٹ کا نیا خواب
اتر آؤ پہاڑوں سے
گمانوں کی بلندی سر خرو ہوتی نہیں
ہاں مگر
رخت سفر بڑھ جاتا ہے ایسے جھمیلوں سے
کہ جیسے ممکنات دہر کی زنجیر کھل جائے
نئی تعبیر جس پر وقت کا امضاء رہے ثابت
میسر ہی نہیں ہوتی
(نئی تشویش کھل جاتی ہے دل میں چھید پڑنے سے )
اُتر آؤ پہاڑوں سے۔ ۔
وہاں پر آسماں کچھ اور نیلے رنگ کی
تنہا کشادہ راہ میں
تنبو کو کھینچے،
مصرعۂ تسلیم جاں کو مانگتا جھکتا چلا آئے
زمانوں کے نمک کو جھاڑتے
ہنستا چلا جائے
اور ایسی بے بسی پر چشم بھرائے
تو کچھ بھی ہاتھ نہ آئے ۔ ۔ !!
اِدھر دیکھو،
زمیں پر یہ اُچھلتے، بھاگتے کردار
تم کو آستیں کا بھید لگتے ہیں _____ ؟
تمہیں کہہ کر نکلتے ہیں
تمہیں چھو کر گزرتے ہیں
یہی میداں ہے تیری اور میری رسم بازی کا
پرانی دشمنی کا
اور نئی، زانوں پہ رکھی
دوستی کا۔ ۔
عاشقی کا
زندگی کا
بس یہیں پر اپنے ہونے اور نہ ہونے کا سارا عندیہ
تقسیم کر ڈالو
یہاں پر جو بھی بازی ہے
اسے تسلیم کر ڈالو !
گماں کی سر فرازی دشت کی لمبی مسافت ہے
جدھر ہم ہانپنے کے ماسوا کچھ بھی نہیں پاتے
ادھر آؤ ______
پہاڑوں سے پیمبر لوگ آتے ہیں
تو روح آدمیت کو نئی پرواز دیتے ہیں
جو لوگاں بے تکلم ہیں
انہیں آواز دیتے ہیں
مقامِ روح کے اک تزکئے کو عام کرتے ہیں
کہ جیسے اہتمام روح کی تفسیر کرتے ہیں
کہ جیسے خالق کون و مکاں کے ’’کن‘‘ کی
نہ سمجھی ہوئی تعبیر کرتے ہیں
اُتر آؤ پہاڑوں سے۔ ۔
پہاڑ اَندر کی جانب بھی نکلتے ہیں
ندّی، نالے، سمندر
باطن جاں کے نگینے ہیں
انہی کے بھید بھی سمجھو
انہی کے راز بھی جانو
یہی ہوتا رہا ہے قصۂ معلوم کی کردار سازی میں !!!
٭٭٭
دریچہ یوں نہیں کھلتا !!
دریچہ یوں نہیں کھلتا کہ بند آنکھوں کو
وقف واقف دیوار و در رکھیں
کرن خورشید کی آنکھوں میں کوئی چھید نہ ڈالے
میرے، جاڑے کے پروردہ گلابوں کو
مرے خوابوں کو، بس تعمیر میں رکھے
کسی کاخ بدن کی اینٹ نہ چھیڑے
کوئی نیزہ سر میدان نہ ٹوٹے
غبار تیز سے دل کا نکلنا
چھوم چھو کا کھیل ہو جائے
دریچہ یوں نہیں کھلتا۔ ۔
نسیم ذات کا موجہ سر امکان یوں دستک نہیں دیتا
صبا آزاد ہو
جادہ پرست ہو
پھر بھی لازم ہے
سبھی دَر چھان کر اِک الگنی پر نیند کو ڈالو
کسی بھی دوست سے جب دل سے ملنا ہو
تو دستک تیز تر خوشبو مساوی ہو
کہ دل اندر تلک راضی
خیابان محبت کے کسی پر پھول کھلنے کو
دریچہ یوں نہیں کھلتا کہ بند آنکھوں کو
وقف واقف دیوار و در رکھیں _____ !!!
٭٭٭
شام کا فیض اٹھاتے ہوئے
آج کے دن میں بہت نیند اُتر آئی ہے
آج کے دن میں بہت خواب گلابی نکلے
آج دوپہر میں سورج نے بہت دھوپ بھری
اور پھر شام کو اک تیز ہوا کر لائی
اور پھر ابر کی پوشاک پہن کر بارش
موجہ موجہ
میری تسکین نظر تک برسی !
ایسی ہی شام تھی جب نظم اترتے دیکھی
ورنہ وجدان بہکتا ہوا سرمایہ تھا
پیرہن جس کا دھنک رنگ
مزاج آہستہ
اس سے پہلے کہ ’’توجہ ‘‘ پہ نکلتی آواز
دیر تک اپنے خیالوں سے چلی بات مری
نرم خوشیوں سے بہت ہاتھ ملایا میں نے
عشرت مژدۂ ایام اٹھایا میں نے
شام کا فیض اٹھاتے ہوئے محسوس ہوا
شب کے گریے سے
بلکتے ہوئے آئینے سے
اور پھر شام کے بپھرے ہوئے میخانے میں
ہم اگر نظم نگاری کی سواری نہ کریں
پھر تو وجدان بہکتا ہوا سرمایہ ہے !!!
٭٭٭
سارا بدن تقسیم کرو !!!
آنکھوں کو تماشا الجھن ہے
بے پیرویِ کرتب کاراں
رستے جو نظر سے اوجھل ہوں
پلکوں کے گھنیرے جنگل سے
گزران رہے تو
بات بنے !
ہرنوں کی ڈار چلے دل سے
ڈر پھوٹ پھٹک کر نکلیں تو
کوئی گھات بنے !!
رستہ جو صاحب منزل ہے
توقیر سے گرد اٹھاتا ہے
خم گردن تک تو آدھی بات
شانوں کی رہیں رہ جاتی ہے
تم پور جنوں سے وابستہ
زرخیز تمنا سے ابھرو
ساحل پہ سمندر جھاگ کرو
تم وصل کی یوں تعظیم کرو
کبھی _____
سارا بدن تقسیم کرو !!!
٭٭٭
سرگوشی
ہم نے جو عمر بھر کا غم سینچا
آرزو سازبھی نہیں نکلا
پیڑ بڑھتا رہا مگر صاحب
تارو پود نظر رہا خستہ
ہم نے خود پہ بھی شرط بازی کی
ہم نے خود سے بھی بے نیازی کی
ہم نے اپنے دراز کھولے نہیں
لاکروں سے نہیں نکالے راز
ہم نے تہہ باد اِن ہواؤں کے
پیرہن تک ابھی نہیں کھولے
تم سے کیسے وفاپرستوں کی
آتشیں زخم کی دکاں کھلتی
شب تمہید تھم گئی ہو گی
پھر تمہیں نیند آ گئی ہو گی ___؟
٭٭٭
عدم اطمینان
شب تمہید تھک گئی ہو گئی
ورنہ دل کے قرار کا رونا
ایسا آسان ہو نہیں سکتا
چند باتوں کے فیض سے یہ دھواں
آسماں گیر ہو نہیں سکتا
ایک تھکتے ہوئے قلم کے لیے
داستاں مختصر نہیں ہوتی
ابھی منظر کہاں گئے چھانے
آنکھ کی دید تھک گئی ہو گی
تم سے کب آگ کا جنوں اٹھا
دل کی ماچس کو
گیلی پوروں سے
کیسا راز و نیاز آیا ہے
دیر تک ہاتھ بھی مسلتی رہی
جرأت آتش شب رفتہ
پھر بھی شعلہ بھڑک نہیں پایا !
شب اُمید تھک گئی ہو گئی
ورنہ ۔ ۔
گیسودراز فرغل جاں
پانسہ پانسہ مچل گئی ہو گی
نشہ نشہ خجل گئی ہو گئی
حرف کی گوت جل گئی ہو گی
نطق کی ذات کھل گئی ہو گئی
اور ابجد کے نین و خط ہارے
لوح اظہار شل گئی ہو گئی
رات خود ہی گذر گئی ہو گی !!
٭٭٭
۱۷ جولائی ڈی۔ ایچ۔ اے لاہور۔ پہلی نظم
سب ’’ہم‘‘ میرے ہیں !!
میں سے ہی بات ہوئی اور بسر ہوتے گئے
’ہم‘ سے زیادہ نہیں، کم کم میری شنوائی تھی
لوگ ایسا ہی سمجھتے رہے پڑھ کر نظمیں
میری تعبیر سجھاتی نظمیں
اک نئی سڑک بناتی نظمیں
ہاں مگر،
سننے کو ملتا رہا مجھ کو اکثر
اپنے آسیب سے یہ شخص نکلتا ہی نہیں
اپنے اطراف میں رکھی ہی نہیں اس نے زمیں
اپنی پلکوں پہ ستارے تو بہت دور کی بات
تار افلاک سے باندھی ہی نہیں ہیں آنکھیں
اور رنگوں کا وہی شور مچا ڈالا ہے
جس کو اس شخص کی تنہائی نے تزئین کیا
اپنا غم پیارا ہے اس شخص کو اور ’’ میں ‘‘ میں چھپی
ساری تجرید نظر ایک شجر پر رکھی
کچھ پھلوں کو تو زمانوں نے کہا شیریں تر
ترش کہہ کرم میرے وجدان کو ٹھوکر بھی پڑی
میرے اوراق سے چھنتی ہوئی نظموں کا بدن
نہ میرے کام کا تھا
نہ ہی کسی اور کا تھا
ہاں مگر !
ایسی ہی اک رات تھی جس میں چھت پر
زور سے زخم کی تنہائی نے اک جست بھری
میرے نظموں کا جنوں چیخ رہا تھا پیہم
تم میری ’’میں ’’ سے ملے ہی کب ہو۔ ۔
تم نے دیکھی ہی نہیں ’’ہم‘‘ سے بغل گیر نوا
فیصلہ کارو !
یہی فیصلہ میرا ہو گا
مجھ کو اس غم کی بھڑکتی ہوئی پنچایت میں
فیصلہ اپنا سنانے کا ذرا وقت ملے
میں اگر ’’ہم ‘‘کو ارادہ بھی نہیں دے پایا
یوں تو پھر ’’ میں ‘‘ کی کھدائی سے بھی کچھ نہ نکلا
حرف مزدور کا بے اجر پسینہ بن کر
اک مہم کار کے ملفوظ بدن سے نکلا !!!
٭٭٭
کاغذی پیرہن
یہ چیزیں ہاتھ سے پھسلیں،
ہتھیلی پر رہیں
یا
صدمۂ دیوار میں شامل
بڑی چھوٹی صداؤں میں بدل جائیں
یا اپنے جسم کے
کم، کیف سے باہر نکل آئیں
مجھے انگیخت خورہ جان کر
مجھ پر معانی کا قرینہ کھولتی ہیں
اور فدا ہو کر مجھے بھی
نت نئے الفاظ و معنی کی اٹھنی پر نچاتی ہیں
بہت سے سوچ کے منظر جگاتی ہیں
مجھے بھی کاغذی پیراہنوں کے جو گیوں نے یہ بتایا ہے
یہاں جو ذات کا دربار لگتا ہے
وہاں زنجیر کا ہر شور الٹا ہے
یہاں موجود سے اس کی رسائی مانگی جاتی ہے
مکمل فیصلوں کی ہر سند مجروح ہوتی ہے
جو گھوڑے دوڑنے لائق تھے
وہ شطرنج کے تالاب میں بہنے لگے ہیں
پیادے،
فیل بانوں کے نئے ملبوس تیاری میں سرگرداں
وزیر
ہر چال کا آشوب شطرنجی مسافت کی کمی کی آڑ میں
آگے بڑھاتا ہے
سراپا اور تھا کوئی
سراپا اور لاتا ہے
فلک بانوں نے فیلوں، ہاتھیوں، پیادوں کے
پاؤں کاٹ ڈالے ہیں
یہاں پر لولا لنگڑا بادشہ اُس فیصلے پر
چال چلتا ہے
جہاں چھوٹی سے چھوٹی، خوردہ زینت جسم کی اشیاء
اندھیرے میں اترتی ہیں
اندھیرا زور کی آواز بنتا ہے
یا ناگہ
اک تصادم
خوردہ تصویروں کی اک بیٹھک سجاتا ہے
جہاں پر ذات کا دربار لگتا ہے
تو اکثر فیصلہ اپنے گوا ہوں کے نہ ہونے سے
ہمیشہ کاغذی ملبوس میں تدفین ہوتا ہے !!!
٭٭٭
جولائی ۲۰۱۶ء لاہور
’’مارا ماری‘‘
فلسفہ لکھتے رہے
ممدوح عقل و فکر بن کر
اور روش پامال کر ڈالی نہال عشق کی
بچھانا ہی نہیں آیا شب و روز محبت کا وسیع بستر
کہ ہجر ست رنگی کا زمانہ جبر سے ناپا
نئی عقلوں کے اگلے مو رچوں میں جست کاری کی
وصال یار کے موسم میں خود کو یوں چرایا
جیسے ابن رشد کا کوچہ سجانا تھا
کسی ’’صدرا‘‘ کی اس آواز میں آواز بھرنی تھی
جہاں پر سب تعقل تھا
مگر کچھ نام رکھنے کی سہولت ہی نہ ملتی تھی
فلسفہ لکھتے رہے
اور خود سے غداری کے ایسے جرم میں
ماخوذ ٹھہرے
جب تعقل پتھروں سا ہو گیا
سب قضایا خود سے ٹکرانے لگے
اور ممکنات دل کو بھی معقول کہنے سے گریزاں تھے
عزیزو کچھ نہ کچھ چوری ہوا
یا یوں کہو ڈاکہ پڑا
ہم نے اپنا آستان عشق لوٹا
تیر مارے،
تیغ کو برّاں کیا
یہ تو ہوتا ہی رہا
پر پھول سے رائے نہ مانگی
اور چمن سے یوں گزرنے میں مگن تھے
جیسے یہ بھی اک فکری قضیہ تھا !
عزیزو !
ہمارے دل ہمیں آباد رکھتے ہیں
گلاب و یاسمیں کی پتیاں ہم سے
ہمارا حال کہتی ہیں۔ ۔
دبستانوں سے گزرو تو مرے پیارو!
آنچلوں، اور چوڑیوں کا ذکر کرنا
دل کی سننا
پیار کرنا
ہجر اور وصل پریشاں کے نئے منشور پر
کوئی نویلی نظم لکھنا
غزل کی بینی میں دھاگے کو پرونا
تتلیوں کی آرزو میں دور تک جانا
مسلسل عشق کرنا اور۔ ۔
اور ابد آباد کی تختی پہ اپنا نام لکھنا
امر ہو جانا !
٭٭٭
شہر مشترک کر لے !!!
تیرے میرے شہروں کا ایک ہی تو موسم ہے
اُڑ رہی ہر جانب
میکدے سے بھی آگے
اِک گلال ہونٹوں پر
ہونٹ جن میں آہوں کا اک حسین خزانہ ہے
چارسو سے آتی ہیں
سوچ کی ہوائیں دوست
موسم آمرانہ ہے
اوراُداس شمع کا معبد اک پرانا ہے
تیرے میرے شہروں میں
راہِ بے دلی کیساتھ
دور تک روانہ ہیں
جس طرف تمنا کا دور تک خرابہ ہے
اور ہم کو چلنے کی
آشیاں کے جلنے کی،
اک خبر میں رہنا ہے
اور اداس شعلوں میں
زندگی پرکھنی ہے
ایک سانس کے اندر
زندگی کی دیوی سے
ہاتھ بھی ملانا ہے
اس حسین ناگن سے ہاتھ بھی چھڑانا ہے
دور ہٹتے جانا ہے
اَے مرے قریبی دوست !
تیرے میرے شہروں میں ایک سی اداسی ہے
ایک سا قہر روپوش
ایک سی ہے تنہائی
ایک ہی سا ہے تاوان
جس میں وصل کے معنی ہجر نے سنبھالے ہیں
اور ہجر کا تارہ آسماں سے ہٹنے کا نام ہی نہیں لیتا
اک عجب تماشا ہے
تیرے میرے شہروں میں
ایک سی ہیں سوغاتیں
ایک سے قرینے ہیں
ایک سابہا ؤ ہے
ایک سے سفینے ہیں
ایک سا کفن پہنے
ڈھونڈتے ہیں تربت کو
اَے نصیب کے ساتھی!
اس قدر جو یکساں ہے
اس قدر جو یکسو ہے
مشترک ہے سارا ہی
درد اپنے سینے کا
وحدت شعور دل ایک سی بھڑکتی ہے
مقتلوں کی جانب سے چاپ اِک نکلتی ہے
اس سے پیشتر کہ موت ہم کو چھین لے آ کر
دور دیس لے جائے
اور دل کہانی کا زاویہ بدل ڈالے
حسرتوں کو یکساں کر !
درد کو اکائی دے
زخم نارسائی کو ایکتا ئی میں بھر لے
ہاتھ تھام لے میرا
شہر مشترک کر لے !!!
٭٭٭
سرخ وفا
ہوتے ہیں طرفدار مگر ہو نہیں پاتے
ہم لوگ جنہیں
آئینہ مرغوب بہت ہے
آشوب محبت کا عتاب ایسے اٹھائے
چلتے ہیں کہ جیسے ہوں فرشتوں کو سنبھالے
ہم لوگ
کہ جو قسمیہ بزدل ہیں جنہیں موت
آتی ہے تو وہ موت کو آساں نہیں کرتے
ہر بار محبت نہیں مطعوم فلک ناز
ہر بار خزانہ نہیں اشکوں کا بہانا
ہر بار نہیں تکیۂ دیوار بنانا
ہر بار نہیں عزت اجداد گنوانا
الفت میں نبہ کا کوئی دستور اگر ہے
وہ پیار کسی شرط کا دھویا ہوا جادو
اور پیتے ہیں ہم لوگ اسے
ایسے مسلسل
جیسے کہ یہی ضبط کوئی ضبط وفا ہے
کئچھ اور ہے یہ چیز،
نہیں دست دعا ہے
یہ ذوق محبت ہے سزا کی کوئی تعبیر !!
ہر بار ہمیں بن کسی برسات رُلائے
جو حرف پڑھائے تھے
کتابوں کے جنوں نے
وہ باز نہ آئے
ہم لوگ نہیں بزدل ہستی
مگر ہیں بھی
جب نام کوئی برگ محبت کا اڑائے
جب شاخ کوئی ہجر کے بازو کی ہلائے
جو کٹنے کو تیار تھا وہ رشتۂ پیہم
اک شور میں ڈھل کر میری زنجیر رُلائے
زنجیر جو پاؤں میں بندھی آئی کہیں سے
اور ہم سے محبت کے لکھاتی رہی مضموں
ہم سادہ لباسی میں تو مجنوں سے اَٹل تھے
فرہاد تھے، پنوں تھے، مہینوال ہوئے تھے
کیا کیجئے اے عہد مروت کے حکیمو!
جاتا ہی نہیں ہم سے فسوں حسن کے زَر کا
اک خوف نہیں جاتا اُجڑتے ہوئے گھر کا
اک شام کا یہ ماجرا ہم پہ نہیں بیتا
جیون ہے اسی قہر کی افتاد میں ڈوبا
داتا !
میرے مفہوم محبت پہ نظر کر
آوارۂ مطلوب وفا کا کوئی گھر کر !!
٭٭٭
روزنامچہ
دل نکل جاتے ہیں ہاتھوں سے کئی رنگوں میں
اور ہم شام کے پاؤں میں جھکے سوچتے ہیں
گجر دم ہم پہ گئی رات کا سناٹا تھا
اور دوپہر کو پھٹکے ہوئے سورج سے ملے
دھوپ سے ہاتھ ملایا تو مقدر چونکا
ایک کشکول سے گزرے تو سر راہ گزر
سکہ سکہ کسی امید کی پوشاک میں تھے
ہاتھ سے ہاتھ ملاتے ہوئے محسوس ہوا
دل نکل جاتے ہیں ہاتھوں سے کئی رنگوں میں
رنگ اک جینے کے ماحول سے بھاگ اٹھا تھا
رنگ اک موت کے تہوار میں مصروف ہوا
رنگ اک اپنی گواہی میں مکرنے میں گیا
رنگ اک تیرے بھی اثبات میں مقتول ہوا
اتنے رنگوں کے گزرنے سے روش جھکتی گئی
ہاتھ کے ہاتھ اترتا گیا سرمایہ تمام
اور ہم شام کے پاؤں میں جھکے سوچتے ہیں
دل نکل جاتے ہیں ہاتھوں سے کئی رنگوں میں !!!
٭٭٭
تشکر: ستیہ پال آنند جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید