فہرست مضامین
پانی کے احکام
ابن بشیر الحسینوی
انتہائی اختصار کے ساتھ کتاب و سنت کی روشنی میں پانی کے احکام پیشِ خدمت ہیں:
۱: وہ پانی جو عام ہے ، پاک ہے اور پاک کرنے والا ہے اس کی کئی قسمیں ہیں
۱۔ بارش کا پانی: اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : "اور آسمان سے تم پر بارش برسا دی تاکہ تمہیں پاک کر دے ۔ ” (الانفال : ۱۱)
نیز فرمایا :”اور ہم نےآسمان سے پاک پانی نازل کیا ۔” (الفرقان : ۴۸)
رسول اللہ ﷺ بارش کو دیکھ کر دعا فرماتے :”اے اللہ ! فائدہ دینے والی بارش برسا۔” (صحیح بخاری: ۱۰۳۲)
۲۔ برف کا پانی : رسول اللہ ﷺ نے ایک صحابی کے جنازے پر دعا فرمائی :
اے اللہ …. اور اسے پانی ، برف اور اولوں سے دھو ڈال۔ (صحیح مسلم : ۹۶۳ و ترقیم دارالسلام: ۲۲۳۲)
۳۔ اَولوں کا پانی : دلیل برف کے پانی میں گزر چکی ہے ۔
۴۔ سمندروں (اور دریاؤں) کا پانی : رسول اللہ ﷺ نے سمندر اور دریا کے پانی کے متعلق فرمایا :”سمندر کا پانی پاک ہے اور اس کا مردار (مچھلی ) حلال ہے ” (مؤطا امام مالک : ۱۲، ابوداود : ۸۳ و سندہ صحیح )
امام ابن خزیمہ نے مذکورہ حدیث پر باب باندھا ہے کہ "سمندر کے پانی سے وضو اور غسل کرنا صحیح ہے کیونکہ اس کا پانی پاک ہے اور اس کا مردار (مچھلی ) حلال ہے ” (ح ۱۱۱)
اللہ ﷻ نے فرمایا :”دو طرح کے سمندر ایک جیسے نہیں ہوسکتے جن میں ایک کا پانی میٹھا پیاس بجھانے والا اور پینے میں خوشگوار اور دوسرا کھاری ہو، سخت کڑوا۔” (فاطر : ۱۲)
۵۔ نہروں کا پانی: ایک لمبی حدیث جس کا ایک حصہ یہ ہے کہ "اور اگر اس (گھوڑے) کا گزر کسی نہر سے ہوا، اس نے وہاں پانی پیا، گویا اس کے مالک کا ارادہ پانی پلانے کا نہ تھا ،تب بھی نیکیاں لکھ دی جائیں گی….” (صحیح بخاری: ۲۳۷۱)
امام بخاری نے اس پر باب قائم کیا ہے کہ "نہروں سے انسانوں اور چوپایوں کا پانی پینا درست ہے ”
۶۔ کنویں کا پانی : اللہ ﷻ نے فرمایا :”پھر جب وہ (موسیٰ علیہ السلام) مدین کے کنویں پر پہنچے تو دیکھا کہ بہت سے لوگ (اپنے جانوروں کو ) پانی پلا رہے ہیں۔” (القصص: ۲۳)
ایک شخص نے کنویں سے پانی پیا پھر پیاسے کتے کو بھی پلایا ۔ (صحیح بخاری: ۲۳۶۳، صحیح مسلم : ۲۲۴۴)
۱/۷۶ ح ۵۶۴ و سندہ حسن)
سیدنا ابن عباس سے روایت ہے کہ
"رسول اللہ ﷺ نے آب زمزم کھڑے ہو کر پیا” (صحیح بخاری: ۵۶۱۷)
اسی پانی سے رسول اللہ ﷺ کا معراج والی رات سینہ مبارک چاک کر کے دھویا گیا ۔ (صحیح بخاری: ۳۴۹)
اللہ ﷻ نے اس پانی میں بڑی برکات رکھی ہیں ۔ دیکھئے زاد المعاد (۴/۴۹۳۔ ۴۹۴)
۸۔ چشموں کا پانی: اللہ ﷻ نے فرمایا: "جب موسیٰؑنے اپنی قوم کے لئے پانی کی دعا کی تو ہم نے کہا کہ اپنی لاٹھی پتھر پر مارو چنانچہ اس پتھر سے بارہ چشمے پھوٹ پڑے اور (قومِ موسیٰ کے بارہ قبیلوں میں سے ) ہر قبیلے نے اپنا اپنا گھاٹ جان لیا ۔ ” (البقرۃ : ۶۰)
نیز فرمایا : "بے شک کچھ پتھر ایسے ہیں کہ ضرور پھوٹتی ہیں ان سے نہریں اور یقیناً ان میں سے (کچھ ایسے ہیں کہ ) جب وہ پھٹتے ہیں تو نکل پڑتا ہے ان سے پانی (چشمے کی صورت میں) (البقرۃ : ۷۴)
۹۔ سیلاب کا پانی : اللہ ﷻ نے ارشاد فرمایا : "کیا انہوں نے دیکھا نہیں کہ ہم پانی کو بنجر زمین کی طرف بہا لاتے ہیں جس سے ہم کھیتی پیدا کرتے ہیں تو اسی سے ان کے چوپائے بھی کھاتے ہیں اور وہ خود بھی کھاتے ہیں” (السجدۃ : ۲۷)
۲: وہ مستعمل پانی جو پاک ہے اور پاک کرنے والا ہے
۱۔ وضو کے بعد برتن کا بچا ہوا پانی پینا : "سیدنا سائب بن یزیدؓ سے روایت ہے کہ میری خالہ مجھے رسول اللہ ﷺ کے پاس لے کر گئی اس نے کہا ؛ یا رسول اللہ ! میرا بھانجا بیماری کی وجہ سے بےچین ہے آپ نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور میرے لئے برکت کی دعا کی پھر آپ نے وضو کیا میں نے آپ کے وضو سے بچا ہوا پانی پی لیا ۔” (صحیح بخاری : ۱۹۰)
سیدنا ابوجحیفہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن دوپہر کے وقت ہمارے ہاں تشریف لائے آپ کے پاس وضو کا پانی لایا گیا آپ نے وضو کیا پھر لوگ آپ کے وضو کا باقی ماندہ پانی پینے لگے اور بدن پر ملنے لگے…. (صحیح بخاری :۱۸۷)
۲۔ اس برتن کا پانی جس سے پہلے کوئی نہایا ہو : رسول اللہ ﷺ نے سیدہ میمونہ کے غسل کے بچے ہوئے پانی سے غسل کیا۔ (مسلم : ۳۲۳)
ازواج مطہرات میں سے کسی نے ٹپ (کے پانی ) سے غسل کیا پھر آپﷺ نے (بچے ہوئے پانی سے ) وضوکرنا چاہا تو انہوں نے رسول اللہ! میں تو جنبی تھی؟ آپ نے فرمایا: پانی جنبی (ناپاک) نہیں ہوتا ۔ (ابوداود : ۶۸،ابن ماجہ : ۳۷۰ امام ترمذی (۶۵) نے حسن اور ابن حبان (۱۲۶۵) نے صحیح کہا ۔ )
۳۔ میاں بیوی کا جنبی ہونے کی حالت میں اکٹھے ایک برتن سے پانی لے کر غسل کرنا صحیح ہے ۔ (مسلم : ۳۲۱)
تو جنابت کے علاوہ بالاولیٰ صحیح ہوا۔
۴۔ وہ پانی جس میں پاک چیز ملا دی گئی ہو : سیدہ ام عطیہ نے کہا ہم رسول اللہ ﷺ کی بیٹی کو نہلا رہی تھیں تو آپﷺ نے فرمایا کہ ” اس کو تین ، پانچ یا سات بار یا اس سے (بھی) زیادہ مرتبہ پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دو اور آخری بار (پانی میں ) کچھ کافور بھی ملا لو۔ ” (بخاری :۱۲۵۸، ۱۲۵۹ ، مسلم : ۹۳۹)
۵۔ مشرکوں کے برتنوں میں موجود پانی سے وضو اور غسل کرنا صحیح ہے ۔ (بخاری : ۳۴۴ و مسلم : ۶۸۲، صحیح ابن خزیمہ : ۱۱۳ و سندہ صحیح)
لہٰذا ان کے برتنوں میں پانی پینا اور انہیں استعمال کرنا بھی جائز ہے ۔ واضح رہے کہ یہ صرف عذر کی صورت میں ایک رخصت ہے وگرنہ حتی الوسع کوشش کرنی چاہئے کہ یہود و نصاریٰ اور مشرکین کے برتنوں کو استعمال نہ کیا جائے ۔ رسول اللہ ﷺ سے اہلِ کتاب کے برتنوں کو استعمال کرنے کی بابت پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : ((فلا تأکلوا فیھا وإن لم تجدوا فاغسلوھا ثم کلوا فیھا)) تم ان (کے برتنوں) میں نہ کھاؤ، اور اگر تم (ان برتنوں کے علاوہ کوئی اور برتن) نہ پاؤ تو اسے دھو کر پھر اس میں کھا سکتے ہو ۔ (صحیح بخاری : ۵۴۸۸ و مسلم : ۱۹۳۰)
۶۔ حلال جانور کے چمڑے میں جب پانی ہو اور وہ چمڑا رنگ کیا گیا ہو تو اس میں موجود پانی پاک ہے اور پاک کرنے والا ہے چاہے اسے ذبح کیا گیا ہو یا بغیر ذبح کے مردار ہو جائے ۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مشکیزے (کے پانی) سے وضو کرنے کا ارادہ فرمایا تو آپ سے کہا گیا کہ چمڑا تو مردار کا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : "اس کو رنگنا (دباغت کرنا ) چمڑے کی نجاست کو زائل کر دیتا ہے۔ ” (صحیح ابن خزیمہ : ۱۱۴، و سندہ صحیح )
فائدہ : پاک گرم پانی پاک ہے اور پاک کرنے والا ہے ۔
۷۔ وہ پانی (یا سیال ) جس میں مکھی گر جائے تو وہ پانی (یا سیال) پاک ہے اور مکھی کو غوطہ دے کر باہر نکال کر پھینک دینا چاہئے ۔ (صحیح بخاری : ۳۳۲۰)
تمام حشرات الارض کیڑوں مکوڑوں کا یہی حکم ہے جن میں بہنے والا خون نہیں ہے خواہ وہ پانی میں مر بھی جائیں تو پانی ناپاک نہیں ہوتا ۔ (دیکھئے کتاب الطہور للامام ابی عبید القاسم بن سلام تحت ح ۱۹۰)
۳: وہ پانی جو خود پاک ہے مگر پاک کرنے والا نہیں ہے
نبیذ: یہ پانی اور کھجوروں سے بنائی جاتی ہے ۔ پانی بھی پاک ہے کھجوریں بھی پاک ہیں مگر جب ان دونوں کو اکٹھا کیا جائے تو نبیذ بن جاتی ہے ۔ جو خود تو پاک ہے اسے پیا جا سکتا ہے مگر وہ پاک کرنے والی نہیں ہے کیونکہ پانی اب اپنی اصل حالت میں باقی نہیں رہا۔
امام بخاری نے باب قائم کیا ہے کہ "نبیذ کے ساتھ وضو جائز نہیں ہے ” (صحیح بخاری قبل ح ۲۴۲)
امام عطاء دودھ اور نبیذ سے وضو کرنے کو ناپسند سمجھتے تھے اور فرماتے تھے کہ "ان سے وضو کرنے کی بنسبت تیمّم مجھے زیادہ پسند ہے ” (ابوداود : ۸۶ وھو صحیح )
ابو خلدہ نے کہا کہ میں نے ابو العالیہ (تابعی) سے پوچھا کہ "ایک آدمی جنبی ہو گیا اس کے پاس پانی نہیں مگر نبیذ ہے ، کیا وہ نبیذ سے غسل کرے؟ تو انہوں نے فرمایا : نہیں ” (ابوداود : ۸۷ و سندہ صحیح)
قرآن مجید میں پانی کی عدم موجودگی میں تیمم کرنے کا ذکر ہے نہ کہ نبیذ سے وضو کرنے کا ۔
تنبیہ: نشہ دینے والی نبیذ ((کُلُّ مُسْکِرٍ حَرَامٌ)) کی رو سے حرام ہے ۔
۴: وہ پانی جو ناپاک ہے
۱۔ وہ پانی جو نجاست کی وجہ سے رنگ ، بو اور ذائقہ تبدیل کر چکا ہو ۔
۲۔ کتے کا جھوٹا پانی : سیدنا عبداللہ بن مغفل سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : "اگر کتا کسی کے برتن میں پانی (وغیرہ) پی لے تو برتن کو سات بار دھو ڈالے اور پہلی بار مٹی سے مانجھے ” (مسلم : ۲۷۹)
بعض روایتوں میں آخری بار مٹی سے مانجھنے کا ذکر آیا ہے لہٰذا دونوں طرح صحیح ہے ۔
جس برتن (میں کتے نے منہ مارا ہے اس ) میں اگر پانی (وغیرہ) ہو تو اسے بہا دینا چاہئے ۔ (مسلم : ۲۷۹، صحیح ابن خزیمہ : ۷۵ و تبویب)
اسی طرح وہ جانور جو نجس العین ہو اس کا جھوٹا بھی ناپاک ہے مثلاً خنزیر ۔ (صحیح ابن خزیمہ قبل ح ۱۰۲)
تنبیہ: اگر ناپاک پانی کپڑوں، جگہ یا بدن کو لگ جائے تو کپڑے، جگہ اور بدن ناپاک ہو جاتے ہیں ان کو پانی سے دھویا جائے تو پھر نماز پڑھی جائے۔
۵: پانی سے استنجا کرنا
سیدنا انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب قضائے حاجت کے لئے باہر جاتے تو میں اور ایک بچہ پانی کا ڈول اٹھاتے ، آپﷺ اسی سے استنجا کرتے ۔ ” (بخاری : ۱۵۰، ۱۵۲ ، مسلم : ۲۷۰)
سیدنا ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب بیت الخلاء (استنجاء کرنے کے لئے ) گئے ، ایک برتن میں پانی لایا گیا، آپ نے استنجا کیا پھر ایک اور برتن میں پانی لایا گیا آپ نے استنجاکیا پھر ایک اور برتن میں پانی لایا گیا آپ نے (اس سے ) وضو کیا۔ (ابوداود : ۴۵ و سندہ حسن)
معلوم ہوا کہ استنجاء کے لئے علیحدہ اور وضو کے لئے علیحدہ برتن استعمال کرنا چاہئے۔
چند اہم فوائد قابلِ ذکر ہیں:
۱۔ مٹی کے ڈھیلے سے بھی استنجا کرنا صحیح ہے ۔ (بخاری : ۱۵۵)
۲۔ رسول اللہ ﷺ نے تین (ڈھیلوں) سے استنجاء کرنے کا حکم دیا۔ (مسلم : ۲۶۲، ابوداود : ۷ و سندہ صحیح)
(اس سے استدلال کرتے ہوئے ) پانی بھی تین مرتبہ استعمال کرنا چاہئے کیونکہ یہ بھی پاکی حاصل کرنے میں ڈھیلے کے قائم مقام ہے یا پھر جس طرح ڈھیلے طاق استعمال کئے جاتے ہیں تو اسی طرح پانی بھی طاق مرتبہ استعمال کرنا چاہئے ۔ واللہ اعلم
۳۔ امام ترمذی ؒ فرماتے ہیں کہ "اگرچہ ڈھیلوں سے استنجاء کرنا جائز ہے تاہم (بعض علماء ) سفیان ثوری، ابن المبارک، شافعی ، احمد اور اسحاق (ابن راہویہ) کے نزدیک پانی سے استنجاء کرنا مستحب اور افضل ہے ۔ ” (ترمذی ۱/۱۱ ح ۱۹ درسی ط : ایچ ایم سعید کراچی)
نیز فرماتے ہیں کہ "صحابۂ کرام (رضوان اللہ علیہم اجمعین) اور بعد کے اکثر علماء کا یہی خیال ہے کہ صرف ڈھیلوں سے استنجاء کرنا جائز ہے اگرچہ ان کے بعد پانی استعمال نہ کریں بشرطیکہ پیشاب اور پاخانے کا اثر خوب زائل ہو جائے اور یہی قول سفیان ثوری ، عبداللہ بن مبارک ، شافعی ، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا ہے ” (ترمذی ۱/۱۰ ح ۱۵)
۴۔ استنجا کرنے کے لئے پانی ساتھ لے جانا چاہئے ۔ (بخاری : ۱۵۱)
۵۔ عام نجاستوں کو صرف پانی سے پاک کیا جاتا ہے ۔ دیکھئے الصحیحۃ (۱/۲۹۹، ۳۰۰)
۶: پیشاب پر پانی بہا دینے سے جگہ پاک ہو جاتی ہے ۔
ایک اعرابی نے مسجد کے کونے میں پیشاب کر دیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : "پانی کا ڈول اس (پیشاب) پر بہا دو ۔ ” (بخاری : ۲۱۹)
۷: بچہ اگر پیشاب کر دے۔
۱۔ اگر دودھ پیتا بچہ کپڑوں پر پیشاب کر دے تو اس پر پانی کے چھینٹے مار ے جائیں۔
سیدہ ام قیس بنت محصن اپنا چھوٹا بیٹا جو ابھی کھانا نہیں کھاتا تھا، رسول اللہ ﷺ کے پاس لائیں۔ آپﷺنے اس کو اپنی گود مبارک میں بٹھا لیا تو اس بچے نے آپﷺ کے کپڑوں پر پیشاب کر دیا ۔ آپ ﷺ نے پانی منگوایا اور اس پر چھینٹے مارے، اس کو دھویا نہیں۔ (بخاری : ۲۲۳، مسلم : ۲۸۷)
۲۔ اگر بچی کپڑوں پر پیشاب کر دے تو اسے پانی سے دھویا جائے ۔
سیدہ لبابہ بنت حارث سے روایت ہے کہ (سیدنا) حسین بن علی رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ ﷺ کی گود مبارک میں پیشاب کر دیا۔ میں نے کہا : کوئی اور کپڑا پہن لیں اور تہبند مجھے دے دیں تا کہ میں دھو ڈالوں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ "لڑکی کا پیشاب دھویا جاتا ہے اور لڑکے کے پیشاب پر چھینٹے مارے جاتے ہیں ” (ابوداود : ۳۷۵، ابن ماجہ : ۵۲۲، حسن)
۸: جب مرد یا عورت ناپاک ہو جائیں تو (غسل کے ذریعے سے ) پانی سے ہی طہارت حاصل کی جاتی ہے اور ہر طرح کی نجاست کو پانی سے ہی دور کیا جاتا ہے ۔
تنبیہ: پانی کی عدم موجودگی میں یا کسی شرعی عذر کی وجہ سے اگر پانی استعمال نہ کرنا ہو تو پھر نجاست یا جنابت کو پاک کرنے کے لئے مٹی سے کام لیا جائے گا۔ (النسآء: ۴۳)
۹: کھڑے پانی میں پیشاب کرنا منع ہے ۔ (بخاری : ۲۳۸)
ایسے پانی (جس میں پیشاب کیا گیا ہو) سے نہ وضو کرنا صحیح ہے اور نہ اسے پینا ہی صحیح ہے ۔ (صحیح ابن خزیمہ : ۹۴)
۱۰: کھڑے پانی میں جنبی آدمی کا نہانا منع ہے ۔ (مسلم : ۲۸۳)
البتہ پانی الگ لے کر نہانا صحیح ہے ۔
۱۱: اگر آدمی سو کر اٹھے تو ہاتھوں کو پانی (کے برتن ) میں داخل کرنے سے پہلے الگ پانی لے کر دھو لینا چاہئے کیونکہ اسے پتا نہیں کہ ہاتھوں نے رات کہاں گزاری ہے ۔ (بخاری: ۱۶۲۰، مسلم : ۲۷۸)
۱۲: پانی میں خود بخود مچھلی مر جائے تو وہ حلال ہے ۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :”دریائی اور سمندری پانی پاک کرنے والا ہے اور اس کا مردار (مچھلی) حلال ہے ” (مؤطا امام مالک : ۱۲، ابوداود: ۸۳ و سندہ صحیح)
ہمارے استاد حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ لکھتے ہیں کہ "اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ پانی میں خودبخود مرنے والی مچھلی حلال ہے یہی مسلک سیدنا ابوبکر الصدیق اور جمہور علمائے اسلام کا ہے ۔ دیکھئے صحیح بخاری "کتاب الذبائح و الصید باب قول اللہ تعالیٰ : أحل لکم صید البحر” (قبل ح ۵۴۹۳) و فتح الباری ج ۹ ص ۶۱۸ و غیرہما، اس مسلک کے خلاف کوئی دلیل ثابت نہیں ہے ۔” (تسہیل الوصول الیٰ تخریج و تعلیق صلوٰۃ الرسول ص ۴۲ حاشیہ :۳، نیز دیکھئے الصحیحۃ ح ۴۸۰)
۱۳: وضو کے پانی والے برتن کو ڈھانپنا چاہئے اور اس کے منہ کو باندھنا چاہئے۔ (مسند احمد ۲/۳۶۷ و سندہ صحیح )
۱۴: غسل بھی پانی ہی سے کیا جاتا ہے ۔
۱۵: عیسائیوں کے گھر کے پانی سے وضو کرنا۔
سیدنا عمر نے نصرانیہ عورت کے گھر سے وضو کیا ۔ (بخاری قبل ح ۱۹۳ تعلیقاً بالجزم تغلیق التعلیق علیٰ صحیح البخاری ۲/۱۳۱، ۱۳۲ و فتح الباری ۱/۲۹۹) ]تنبیہ: اس کی سند منقطع و معلول ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے ۔/زع[
۱۶: ستو کھا کر اگر نماز پڑھنی ہو تو پانی سے کلی کرنی چاہئے ۔ (صحیح بخاری : ۲۰۹)
۱۷: دودھ پی کر بھی پانی سے کلی کرنی چاہئے ۔ (صحیح بخاری : ۲۱۱)
امام ابن خزیمہ نے اس حدیث پر باب باندھا ہے کہ "دودھ پی کر کلی کرنا مستحب ہے تاکہ چکناہٹ ختم ہو جائے اور یہ واجب نہیں ہے ” (صحیح ابن خزیمہ قبل ح ۴۷)
۱۸: اگر آدمی بے ہوش ہو جائے تو اس پر پانی کے چھینٹے مار ے جائیں ۔ (صحیح بخاری: ۱۹۴)
۱۹: روزہ پانی سے افطار کرنا بھی صحیح ہے ۔ (صحیح بخاری: ۱۹۵۶)
۲۰: دودھ میں پانی ملا کر پینا جائز ہے ۔ (صحیح بخاری: ۵۶۱۲)
۲۱: میٹھا پانی یعنی شربت پینا رسول اللہ ﷺ کا محبوب عمل تھا۔ (صحیح بخاری: ۵۶۱۱)
تفصیل کے لئے دیکھئے فتح الباری (۱۰/۹۲)
۲۲: رات کا پڑا ہوا ( باسی) پانی پینا بھی درست ہے ۔ (صحیح بخاری : ۵۶۲۱)
۲۳: زائد پانی سے مسافر کو نہیں روکنا چاہئے۔
سیدنا ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ "تین آدمیوں کی طرف اللہ تعالیٰ (نظر رحمت سے) نہیں دیکھے گا نہ ان کو پاک کرے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے ۔ ایک وہ آدمی جس کے راستے میں پانی اضافی ہے (لیکن ) اس نے مسافر کو پانی (پینے یا استعمال کرنے ) سے روک دیا …..” (صحیح بخاری : ۲۳۵۸)
۲۴: زائد پانی کو بیچنا ممنوع ہے ۔ سیدنا جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ "رسول اللہ ﷺ نے زائد پانی کو بیچنے سے منع فرمایا ” (صحیح مسلم: ۱۵۶۵)
۲۵: جس کی زمین پانی کے قریب ہو گی وہ پہلے اپنی زمین کو سیراب کرے گا پھر دور زمین والے کا حق ہے ۔ (صحیح بخاری: ۲۳۶۱)
۲۶: کھیت والے کو اپنی کھیت میں اتنا پانی روکنے کا حق حاصل ہے کہ پانی منڈیروں تک پہنچ جائے (صحیح بخاری : ۲۳۶۱)
۲۷: اگر کنواں کھودتے ہوئے منڈیر کے گرنے کی وجہ سے آدمی مرگیا تو اس کی چَٹی اور دیت کنویں کے مالک پر نہیں بلکہ یہ چٹی معاف ہے ۔ (صحیح بخاری : ۲۳۵۵)
۲۸: بخار کو پانی سے ٹھنڈا کیا جا سکتا ہے ۔ (صحیح بخاری : ۵۷۲۵)
۲۹: پانی اور بیری کے پتے چمڑے کو پاک کر دیتے ہیں ۔ (سنن ابی داود : ۱۴۲۶ و سندہ حسن)
۳۰: گوشت پکاتے وقت پانی زیادہ ڈالنا چاہئے تاکہ سالن ہمسایوں کو بھی دیا جا سکے ۔ (صحیح مسلم : بعد ح ۲۶۲۵ و ترقیم دارالسلام : ۶۶۸۹)
۳۱: یہ اونٹنیوں کا حق ہے کہ اونٹنیوں کا دودھ پانی کے (چشموں ، کنوؤں کے ) قریب نکالا جائے ۔ (صحیح بخاری :۲۳۷۸) تاکہ وہاں پر موجود مساکین وغیرہ کو دودھ دیا جا سکے ۔ (فتح الباری ۵/۶۳)
۳۲: دم کر کے پانی پر پھونکنا۔
سیدنا ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پینے والی چیز میں پھونک مارنے سے منع کیا ، ایک آدمی نے کہا کہ اگر برتن میں تنکا دیکھوں تو ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ اس کو بہا دے ۔ ” (سنن الترمذی: ۱۸۸۷، وقال:”حسن صحیح” و سندہ صحیح، المؤطا ۲/۹۲۵ ح ۱۷۸۳)
۳۳: حائضہ عورت کا جھوٹا پانی پاک ہے اور پاک کرنے والا ہے ۔ (صحیح ابن خزیمہ : ۱۱۰)
۳۴: اگر کھیتی آسمانی پانی سے پکی ہے تو اس میں عشر ہے اگر نہری یا ٹیوب ویل وغیرہ کے پانی سے سیراب ہوئی ہے تو اس میں نصف عشر ہے ۔
سالم بن عبداللہ بن عمر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں،انہوں نے نبی کریم ﷺ سے بیان کیا ہے کہ آپ نے فرمایا : "جو زمین آسمانی بارش اور چشموں سے سیراب ہوتی ہو یا رطوبت والی ہو اس میں دسواں حصہ زکوٰۃ ہے (عشر ہے ) اور جو زمین پانی کھینچ کر سیراب کی جاتی ہو اس میں بیسواں حصہ (نصف عشر ) ہے ۔ (صحیح بخاری: ۱۴۸۳)
دارالسلام کی مطبوعہ بلوغ المرام میں لکھا ہوا ہے کہ "اس حدیث سے معلوم ہوا کہ زمین کو مختلف ذرائع و وسائل سے سیراب کرنے کی صورت میں زکوٰۃ (عشر) کی نوعیت بھی مختلف ہے۔ مثلاً جو زمین مشقت طلب ذریعے سے سیراب ہو جیسے اونٹ ، بیل یا آدمی پانی نکال کر یا لا کر سیراب کرتے ہوں تو اس زمین کی پیداوار پر نصف عشر (بیسواں) حصہ ہے ۔ اسی طرح اگر زمین کنویں کے پانی ، ٹیوب ویل کے پانی سے یا پانی خرید کر سیراب کی جاتی ہو جیسے نہر کا پانی ، ٹیوب ویل کا پانی خرید کر سیراب کی جاتی ہے تو ایسی صورت میں بھی نصف عشر (بیسواں) حصہ ہے آج کل آبیانہ دے کر زمین سیراب کی جاتی ہے ۔یہ آبیانہ مشقت و محنت کا قائم مقام ہے لہٰذا موجودہ نظام کے تحت نہری پانی سے سیراب کی جانے والی زمینوں کی پیداوار میں بھی بیسواں حصہ ہے ۔” (بلوغ المرام ۱/۴۰۴۔ ۴۰۵ اردو)
نہری پانی سے سیراب ہونے والی فصل پر بھی نصف عشر ہے ، یہی حق ہے اور میر ےاستاد حافظ شریف حفظہ اللہ بھی اسی کے قائل ہیں۔
پانی پینے کے آداب
1۔ پانی پینے سے پہلے بسم اللہ پڑھی جائے ۔ (الاوسط للطبرانی ۲/۳۵۱)
2۔ پانی دائیں ہاتھ سے پیا جائے ۔ (صحیح مسلم:۲۰۲۰)
3۔ پانی تین سانسوں میں پیا جائے ۔
سیدنا انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ پینے کی چیز (مشروب) تین سانسوں میں پیتے تھے ۔ (صحیح بخاری: ۵۶۳۱، و مسلم : ۲۰۲۸) یعنی پانی پیتے وقت تین بار سانس لیا جائے اور پھر سانس برتن سے منہ ہٹا کر لینا چاہئے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے برتن میں سانس لینے سے منع فرمایا ہے ۔ (صحیح بخاری: ۵۶۳۰، صحیح مسلم : ۲۶۷)
4۔ پانی بیٹھ کر پیا جائے۔
سیدنا انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کھڑے ہو کرپانی پینے سے منع فرمایا ہے ۔ قتادہ نے کہا : ہم نے سیدنا انس سے پوچھا کہ کھڑے ہو کر کھانا کھانے کا کیا حکم ہے ؟ انہوں نے فرمایا : یہ تو سب سے بدتر یا سب سے زیادہ خبیث (عمل) ہے ۔
اور مسلم کی روایت میں ہے کہ نبی ﷺ نے کھڑے ہو کر پانی پینے سے سختی سے منع فرمایا ہے ۔ (صحیح مسلم : ۲۰۲۴)
سیدنا ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ "تم میں سے کوئی شخص ہرگز کھڑے ہو کر نہ پیئے اور جو بھول کر پی لے تو اسے چاہئے کہ قے کر دے ۔ (صحیح مسلم : ۲۰۲۶)
علامہ نووی نے ان دونوں احادیث پر باب قائم کیا ہے کہ "کھڑے ہو کر پانی پینا مکروہ ہے ۔”
اہم فائدہ: یاد رہے کہ عام اور اکثر محدثین کی یہ عادت مبارکہ ہے کہ وہ اپنی کتاب صحیح مسلم میں خود ابواب بندی نہیں کی بلکہ مختلف علماء نے کی ہے جن میں علامہ نووی بھی ہیں۔ صحیح مسلم مع شرح النووی کا وہ متداول نسخہ جو مدارس دینیہ میں پڑھایا جاتا ہے ۔ اس میں ابواب اور عنوان علامہ نووی کے قائم کردہ ہیں اس بات کی صراحت درج ذیل علماء نے کی ہے :
۱۔ علامہ نووی (مقدمہ شرح صحیح مسلم للنووی ۱/۷ ط درسی)
۲۔ ڈاکٹر صبحی صالح (علوم الحدیث ص ۱۵۵، اردو)
۳۔ محدث العصر شیخنا ارشاد الحق الاثری حفظہ اللہ (ہفت روزہ الاعتصام ج ۵۸ شمارہ ۳۰ ص ۱۸)
۴۔ ہمارے استادِ محترم حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ (نصر الباری ص ۱۴۱)
]تنبیہ: کھڑے ہو کر پانی پینے سے منع والی روایات دوسرے دلائل کی رُو سے منسوخ ہیں یا کراہت و غیر اَولیٰ پر محمول ہیں۔/زع[
۳۶: بعض صورتوں میں کھڑے ہو کر پانی پینا جائز ہے ۔
۱۔ آبِ زمزم کھڑے ہو کر پینا
سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو زمزم کا پانی پلایا تو آپﷺ نے اسے نوش فرمایا حالانکہ آپ (سواری پر ) کھڑے تھے۔ (صحیح بخاری: ۱۶۳۷، صحیح مسلم : ۲۰۲۷ علامہ نووی نے اس پر باب قائم کیا ہے کہ آب زمزم کھڑے ہو کر پینا )
]مکہ سے مختلف اور دور دراز علاقوں میں زم زم لے کر جانا بالکل جائز ہے ۔ دیکھئے سنن الترمذی (۹۹۳ و سندہ صحیح) لیکن یہ زمزم دوسرے علاقوں میں لے جا کر کھڑے ہو کر یا قبلہ رخ ہو کر پینا قطعاً ثابت نہیں ہے ۔ [
۲۔ وضو کا بچا ہوا پانی کھڑے ہو کر پینا
نزال (بن سبرہ) سے روایت ہے ، فرماتے ہیں کہ سیدنا علی (مسجد کوفہ میں)بڑے چبوترے کے دروازے سے تشریف لائے اور کھڑے ہو کر پانی پیا، پھر فرمایا : "بعض لوگ کھڑے ہو کر پانی پینے کو ناپسند سمجھتے ہیں حالانکہ بلاشبہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اسی طرح (پانی پیتے ہوئے) دیکھا ہے ، جس طرح تم نے مجھے دیکھا کہ میں نے کیا ۔” (صحیح بخاری :۵۶۱۵)
یہ وضو کا بچا ہوا پانی تھا جس طرح کہ صحیح بخاری (۵۶۱۶) میں وضاحت ہے۔
امام بخاری نے عام پانی پینا مراد لیا ہے خواہ وہ زمزم ہو یا عام پانی ۔
۳۔ اگر پانی کا برتن لٹکا ہوا ہے تو بھی کھڑے کھڑے پانی پینا جائز ہے۔
سیدہ ام ثابت کبشہ بنت ثابت، ہمشیرۂ حسان بن ثابت رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے اور آپ نے کھڑے کھڑے ایک لٹکے ہوئے مشکیزے کے منہ سے پانی پیا پس میں اٹھی اور اس کے منہ والے حصے کو میں نے (بطورِ تبرک رکھنے کے لئے ) کاٹ لیا۔ (سنن الترمذی : ۱۸۹۲ وقال : حسن صحیح ، و سندہ حسن)
۴۔ بغیر کسی مجبوری کے بعض دفعہ کھڑے کھڑے پانی پینا
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ہم نبی کریم ﷺ کے زمانے میں چلتے پھرتے کھا لیتے اور کھڑے کھڑے پانی (بھی) پی لیتے تھے۔ (سنن الترمذی : ۱۸۸۰، صحیح)
عمرو بن شعیب اپنے والد (شعیب) سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو کھڑے اور بیٹھے (دونوں طرح پانی وغیرہ) پیتے ہوئے دیکھا ہے ۔ (سنن الترمذی : ۱۸۸۳ و سندہ حسن)
امام ترمذی نے ان حدیثوں پر باب باندھا ہے کہ "کھڑے ہو کر پانی پینے میں رخصت ہے”
علامہ نووی نے مذکورہ احادیث پر باب قائم کیا ہے کہ "کھڑے کھڑے پانی پینے کا جواز اور بیٹھ کر پینے کے افضل ہونے کا بیان ” (ریاض الصالحین ۱/۶۲۵ ط/ دارالسلام، اردو)
حافظ ابن حجر نے اس موقف (جن احادیث میں کھڑے ہو کر پانی پینے سے منع کیا گیا ہے ، ان کو کراہت تنزیہی پر محمول کیا جائے گا ) کو سب سے اچھا قرار دیا ہے ۔ (فتح الباری ۱۰/۸۶۔۸۷)
حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ لکھتے ہیں کہ "ابتداء میں (ریاض الصالحین میں وارد شدہ احادیث کی ترتیب پر از ناقل) ذکر کردہ احادیث سے اگرچہ کھڑے پانی پینے اور کھانے کا جواز ملتا ہے لیکن ان پر عمل بوقت ضرورت (یا مجبوری) ہی کیا جا سکتا ہے ورنہ اصل مسئلہ یہی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو بیٹھ کر ہی کھایا پیا جائے ، یہی افضل عمل ہے ۔ آج کل دعوتوں میں کھڑے کھڑے کھانے کا رواج عام ہو گیا ہے ۔ لوگ کہتے ہیں کہ اس میں سہولت ہے کہ بیک وقت سارے لوگ فارغ ہو جاتے ہیں لیکن دوسری طرف اس کی قباحتوں کو ،جو اس ایک سہولت کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں، نہیں دیکھتے۔ اس میں ایک تو مغرب نقالی ہے جو حرام ہے ، دوسرے نبی کریم ﷺ نے کھڑے کھڑے ہو کر کھانے پینے سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے تیسرے اس میں جو بھگڈر مچتی ہے وہ کسی با وقار اور شریف قو م کے شایانِ شان نہیں۔ چوتھے اس میں ڈھور ڈنگروں کےساتھ مشابہت ہے، گویا اشرف المخلوقات انسانوں کو ڈھور ڈنگروں کی طرح چارہ ڈال کر کھول دیا جاتا ہے ، پھر جو طوفانِ بدتمیزی برپا ہوتا ہے، اس پر جانور بھی شاید شرما جاتے ہوں۔ پانچویں، انسان نما جانوروں کو باڑے یا اصطبل میں جمع کرنے کے لئے وقت پر آنے والوں کو نہایت اذیت ناک انتظار کی زحمت میں مبتلا رکھا جاتا ہے جس سے ان کا قیمتی وقت بھی ضائع ہوتا ہےا ور انتظار کی شدید مشقت بھی برداشت کرنا پڑتی ہے ۔ ششم اس انتظار کی گھڑیوں میں یا تو فلمی ریکارڈنگ سننے پر انسان مجبور ہوتا ہے یا بھانڈ میراثیوں کی جگتیں یا میوزک کی دھنیں سننے پر ۔ ہفتم یہ کہ اس طرح کھانا ضائع بھی بہت ہوتا ہے ، بہرحال دعوتوں میں کھڑے کھڑے کھانے کا رواج یکسر غلط ہے اور مذکورہ سارے کام بھی شیطانی ہیں۔ اس لئے دعوتوں کا یہ انداز بالکل ناجائز اور حرام ہے ۔ اس کے جواز کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ (ریاض الصالحین ۱/۶۲۷، اردو)
پانی پینے کے بعد اللہ ﷻ کی حمد بیان کرنی چاہئے
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ایسے شخص سے راضی ہوتا ہے جو کھانا کھانے یا مشروب (پانی وغیرہ) پینے کے بعد اللہ کی حمد بیان کرتا ہے ۔ (صحیح مسلم : ۲۷۳۴)
۳۸: سونے اور چاندی کے برتن میں نہ پیا جائے ۔ (صحیح بخاری: ۵۶۳۳، صحیح مسلم : ۲۰۶۷)
۳۹: اگر پانی میں تنکا پڑا ہو تو اسے پھونک مار کر نہ گرائیں بلکہ برتن ٹیڑھا کر کے اسے بہا دیں۔ ( سنن الترمذی: ۱۸۸۷ و سندہ صحیح)
۴۰: پانی پلانے کے آداب
پانی پلانا بڑا اچھا عمل ہے اور اس میں بہت ثواب ہے ۔
ایک آدمی نے پیاسے کتے کو پانی پلایا تھا، اس وجہ سے اللہ ﷻ نے اس کو معاف کر دیا ۔ (صحیح بخاری: ۲۳۶۳)
جب جانوروں کو پانی پلانے کی اتنی فضیلت ہے تو پھر اشرف المخلوقات انسانوں کو پانی پلانے کی کیا فضیلت ہو گی؟
1۔ پانی پہلے دائیں طرف والے آدمی کو پلائیں۔ (صحیح بخاری: ۵۶۱۹)
2۔ پانی کا برتن دائیں ہاتھ سے دیا جائے اور دائیں ہاتھ سے ہی پکڑا جائے ۔ (صحیح مسلم : ۲۰۲۰)
3۔ پانی پلانے والا سب سے آخر میں پیئے۔ (صحیح مسلم : ۲۸۱)
4۔ پانی پلانے والے کو یہ دعا دی جائے "اللھم اطعم من أطعمني واسقِ من سقاني” (صحیح مسلم : ۲۰۵۵)
بعض لوگ خاص دنوں میں پانی کی سبیلیں لگاتے ہیں یہ بدعت ہے، اس سے بچا جائے ۔
٭٭٭