فہرست مضامین
پانی کی سطح
مشرف عالم ذوقی
And the spirit of God moved upon the face of the waters
‘اور خدا کی روح پانی کی سطح پر جنبش کرتی تھی‘
—بائبل سے
(۱)
ایک برہمن تھا۔ ایک مسلمان، ایک دلت تھا۔
شہر میں درخت لگانے کے ساتھ ساتھ جانوروں کی حفاظت کے لئے ‘باڑ’ یا فارم بنائے جا رہے تھے۔ یہ کہانی وہیں سے نکلی، جہاں کانٹا چبھنے کے بعد ایک ننھا برہمن طیش میں آ گیا اور کانٹوں کی جڑ تک پہنچنے کی کوشش کرنے لگا۔ سال گزرے، صدیاں گزر گئیں۔ نہ کانٹے کم ہوئے نہ کانٹوں کی تلاش میں آنکھوں کی چبھن میں کوئی کمی آئی۔
وقت کو گواہ بنایا جائے تو یہ وہی وقت تھا، جب کانٹوں کی جڑوں تک پہنچنے اور غیر ضروری کانٹے نکالنے کا کام زور شور سے جاری تھا۔ سیاست کی سرخ زمین تھی اور زنگ آلود تلوار پر چمکتے ترشول بھاری پڑے تھے۔ یہ وہی وقت تھا جہاں انسانوں کے مقابلے جانوروں کی سیکورٹی بڑھا دی گئی تھی۔
وقت بہت سی باتوں کا گواہ تھا۔ زمین تپ رہی تھی۔ آسمان سے آگ کے شعلے برس رہے تھے۔ تلوار کے چلانے والے سہمے ہوئے تھے۔ جارج آرول کا اینمل فارم جاگ گیا تھا۔ گولیور کے، گھوڑوں کے ملک میں جشن منایا جا رہا تھا۔ الفاظ نے اقتدار کی حکمرانی قبول کر لی تھی۔ اور خدا کی روح پانی کی سطح پر جنبش کرتی تھی۔
٭٭
(۲)
پرجاپتی شکلا اور تارا شکلا
تارا شکلا کو پہلے پانی کی قوت کا اندازہ نہیں تھا۔ یہ سوچنا بھی دشوار تھا کہ ایک دن پانی بڑھتے بڑھتے پہلے گردن پھر سر تک آ جائے گا۔ یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ ایک دن اندر کی گھٹن اس حد تک بڑھ جائے گی کہ اس سے باہر نکلنے کے لیے اس کے پاس کوئی راستہ نہیں ہو گا۔
پرجاپتی شکلا کو پورا بھروسہ تھا اپنی بیٹی پر۔ ’میرے پر گئی ہے۔ بالکل اپنے باپ جیسی۔ خالصتاً پانی میں رچی بسی۔‘
’پانی‘
’ہاں بھئی ہاں، ذات تو پانی کی دیکھی جاتی ہے‘‘
’پانی مطلب کہاں کا پانی ہے بھائی؟ جیسا پانی، ویسی عقل‘
٭٭
پرجاپتی کہاں سے آئے تھے یا تشریف لائے تھے، کوئی نہیں جانتا تھا۔ پریاگ کا پانی راس آیا تو آباء و اجداد وہیں کے ہو رہے — پھر مل گئی ٹیچری۔ چلے آئے دلی۔ پرانا بھولتے دیر ہی کیا لگتی ہے۔ اب جب دیکھو پانی کی مالا جپتے رہتے ہیں۔ گنگا میلی ہو گئی۔ جمنا کے پانی میں گندگی آ گئی۔ بنارس کے گھاٹوں کا برا حال ہے۔ دلی کے بارے میں پرجاپتی کا اپنا خیال تھا۔ سمندر منتھن کے بعد دیوتاؤں کے کلش کے پیچھے راکشسوں کے گناہ کا گھڑا بھی آ رہا تھا جو درمیان میں ہی پھوٹ گیا اور ساری مصیبت دلی پر آ گری۔
راکشس دلی میں رہ گئے۔ دیوتا دلی سے بھاگ گئے۔
لیکن تب تک دیوتا دلی سے نہیں بھاگے تھے۔ پرجاپتی دلی میں رہ کر پریاگ کی یاد تازہ کرتے رہتے۔ جی میں آتا تو کوسنا بھی دیتے کہ وہیں اگر سب کچھ مل جاتا تو یہاں آنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ پھر آہستہ آہستہ پریاگ ان کے دل و دماغ سے نکلتا چلا گیا۔ پریاگ تو نکل گیا مگر اندر بیٹھا برہمن، معاشرے سے سیاست تک کی آلودگی پر آنسو بہاتا رہتا۔ کبھی کبھی تارا ٹوک دیتی۔ ’یہ کیا اونچی ذات اور نیچی ذات میں الجھے رہتے ہو بابا۔‘
پرجاپتی کے اندر کا پانی شعلہ بن جاتا۔ ’پاگل ہوئی ہے کیا۔ یا دلی آ کر مت ہی ماری گئی۔ اسی لئے تو دلی کا سروناش ہوا۔ بار بار لٹی یہ دلی۔ کہاں کہاں سے کمینے آ کر بس گئے دلی میں۔‘
’ایک کمینے ہم بھی‘ تارا شکلا نے قہقہہ لگایا۔
’ارے چپ کر۔ ہم ٹھہرے برہمن۔ دلی کو پاک کرنے آئے ہیں۔‘
’اور جو ہم ہی غلط ہو گئے تو ….؟‘
’کیا—؟‘ زور سے چیخے پرجاپتی۔ تارا ہنستی ہوئی بھاگ گئی تھی۔ لیکن تارا کی آواز دیر تک ان کے کانوں میں گونجتی رہی۔ بچپن یاد آ گیا۔ کتنی یادیں تازہ ہو گئیں۔ میلا ڈھونے والا کیشو اور اس کی عورت یاد آ گئی۔ بابا ان دونوں کو پشاچ کی اولاد کہتے تھے۔ جہنم برادری۔ ڈیوڑھی تک چھونے کی اجازت نہیں تھی۔ بابا کی نظر میلا ڈھوتے ہوئے پڑ جاتی تو دوبارہ غسل کرنا پڑتا۔ تب ٹائلیٹ ایسے پکے ہائی اسٹائلش کہاں ہوا کرتے تھے۔ میلا ڈھونے والا نہیں آتا تو باہر گلی میں پائخانہ بہتا رہتا تھا۔ ان گلیوں سے گزرنے والے، گندی گالیوں کا تحفہ دے کر جاتے لیکن بابا کو اس سے فرق نہیں پڑتا تھا۔ بابا کہتے تھے، وہ سب سے بہتر ہیں۔ وہ ویدوں کے جانکار ہیں۔ برہمن نہ ہوتے تو یہ سماج بھی نظر نہیں آتا۔ بابا کا خواب سارے جہاں میں شاستروں کے مذہب کو پھیلانے کا خواب تھا۔
پریاگ سے دلی تک دھند کی ایک گہری لکیر چلی گئی تھی۔ دلی تک آتے آتے مذہب، عقیدے، روحانیت پر لہراتے سیاست کے بادل تھے۔ وقت کے ساتھ پرجاپتی کو یہ نصیحت مل گئی تھی کہ بھگوان کا احساس کرنے کے لئے موہ کو قربان کرنا ہوتا ہے۔ موہ کو قربان کرنے کے لئے پریاگ کو چھوڑ دیں گے، یہ انہوں نے کبھی نہیں سوچا تھا۔
٭٭
وقت کی سیاہ یادوں میں وہ منظر اب بھی محفوظ ہے، جب انہوں نے روزگار کے لئے پریاگ چھوڑنے اور راکشسوں کی نگری دلی جانے کا فیصلہ کیا تھا۔ بیوی کی اچانک وفات کے بعد تارا کو ایک محفوظ زندگی دینے کا خواب تھا۔ دلی آ کر لگا کہ ورن اور گوتر کی رسمیں صرف سیاست تک محدود ہیں۔ ہے بھگوان۔ برہمن اور دلت ساتھ ساتھ وہ بھی ایک ہی ٹیبل پر بیٹھ کر کھان پان کرتے ہوئے۔ مذہب کو تباہ ہوتے ہوئے دیکھ کر بابا یاد آ گئے۔ اب اسی دلی میں آہستہ آہستہ ان کی جڑیں جمنے لگی تھیں۔ اسکول میں ٹیچری مل گئی۔ تارا بھی پڑھنے جانے لگی۔ وقت گزرا تو دل پر پتھر رکھ کر پریاگ والا مکان بیچ دیا۔ بین الاقوامی بینک سے لون لے کر دلی میں ایک اچھا سا فلیٹ خرید لیا۔ خواب تھا، تارا کو خوش دیکھنا۔
پرجاپتی شکلا کو تب تک پتہ نہیں تھا کہ خواب تک جانے والے راستے کبھی کبھی زخمی بھی کر دیتے ہیں۔ تارا نے ایم بی اے کیا پھر ایک پرائیویٹ کمپنی میں جاب کرنے لگی۔ وہیں تارا کی ملاقات حسن سے ہوئی تھی۔ حسن فرخ— اس دن بالکنی سے باہر گدھ کو منڈراتے دیکھ کر محسوس ہوا، کچھ انہونی ہونے والی ہے۔ دیوتا غائب تھے۔ منتھن سے نکلا ہوا زہر سامنے تھا۔
٭٭
تارا شکلا نے جو کچھ کہا، اس کے بعد ان کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔ وہ تھوڑا سا لڑکھڑائے۔ خود کو سنبھالا۔ تارا کی طرف دیکھا۔ دبی زبان میں بولے — ’زندگی کا فیصلہ ایسے ایک جھٹکے میں نہیں کیا جاتا بیٹی۔‘ تاہم وہ خود کو سنبھالنے کی پوری کوشش کر رہے تھے، لیکن حقیقت تھی کہ ان کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل چکی تھی۔ کشناگ علاقائی بادشاہ کوشامب نے گھرتاچی نام کی عورت سے سو کنیائیں پیدا کی تھیں۔ یہ کنیائیں وایو دوش سے کبڑی ہو گئیں۔ تارا اس وقت کبڑی لڑکی کے طور پر دکھائی دے رہی تھی۔
سیاست میں یہ وقت مسلمانوں کے لئے اتھل پتھل کا وقت تھا۔ پرجاپتی شکلا مسلمانوں کے سخت مخالف تھے۔ اس وقت مسلمان پوری دنیا میں مارے جا رہے تھے۔ پرجاپتی کو لگتا تھا، اچانک یہ پورا ملک بھی مسلمانوں کی مخالفت میں کھڑا ہو گیا ہے۔ وہ مسلمانوں کو کٹوا کہتے تھے۔ جانور کاٹنے والے، گوشت خور، بیویوں کو تین طلاق کہہ کر چھوڑنے والے، چار چار شادیاں کرنے والے۔ انہیں محسوس ہوا، یہ سب تارا کے ساتھ بھی ہو گا۔ وایو دوش کا اثر تارا کو کبڑی بنا دے گا۔
وہ اس خبر کو سن کر سناٹے میں آ گئے تھے۔ اس وقت انہیں ایسا لگ رہا تھا، جیسے ان کا سارا گھر سلاٹر ہاؤس بن گیا ہو۔ گھر سے مدر ڈیری جاتے ہوئے راستے میں حلال میٹ شاپ کی دکان نظر آتی تھی۔ وہ اس دکان سے آنکھیں بند کئے گزر جاتے۔ سن رکھا تھا، میٹ شاپ چلانے والا قریشی ہے۔ ہندو بھی اس کی دکان سے گوشت خریدتے ہیں۔ پڑوس کے لالہ جی، شکلا جی کی معصومیت پر قہقہہ لگا کر ہنسے تھے۔
’رام نومی کے دن قریشی دکان بند رکھتا ہے۔‘
’کیوں؟‘
’گوشت نہیں بکتا۔‘
’تو کیا مسلمان رام نومی میں گوشت نہیں کھاتے؟‘
’آپ بھی نا شکلا جی۔‘ لالہ جی زور سے ہنسے۔ ’مسلمان کیا گوشت خریدیں گے۔ قریشی بتاتا ہے کہ گوشت کی اصل فروخت ہندوؤں سے ہوتی ہے۔ ہندو سب کھاتے ہیں لالہ جی۔‘
٭٭
سلاٹر ہاؤس کے رجسٹریشن کو لے کر طوفان مچا تو قریشی کی دکان مہینوں بند رہی۔ وہ خوش تھے کہ اب اس جانب سے آنکھیں بند کر کے جانا نہیں پڑے گا۔ اچھا ہوا۔ کمبخت خود ہی چلا گیا۔ یہ ہندوستانی تاریخ کا بھی نیا موڑ تھا جہاں نئی سیاست کے سرخ صفحات کو دیکھنے اور پڑھنے کے باوجود بھی انہوں نے آنکھیں بند کر رکھی تھیں۔ کبھی کبھی تارا بٹیا کی بات سن کر چونک جاتے۔ راتوں کو دیکھتے، بٹیا خاموشی سے اندھیرے کمرے میں ٹہل رہی ہے۔ وہ بابا کے منہ سے تقسیم کی سینکڑوں کہانیاں سن چکے تھے۔ طاقت ہر بار اقتدار پر بھاری پڑتی ہے۔ اقتدار اس بار آٹھ سو برس کے طویل وقفے کے بعد انہیں حاوی ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی تھی۔ لہذا میڈیا سے اقتدار تک انہیں کہیں کوئی عیب نظر نہیں آ رہا تھا۔ لیکن تارا نے اچانک انہیں لہو لہان کر دیا تھا۔ اس وقت سارا گھر انہیں ہلتا ہوا نظر آ رہا تھا۔ اور اس سے بھی زیادہ، کیفیت یہ تھی کہ دھند میں گوشت کاٹتا ہوا قریشی ان کی نظروں کے سامنے تھا۔ گھر میں اچانک گوشت کی بدبو بھر گئی تھی۔ وہ اٹھے۔ وہی کیا جو ایسے موقع پر بابا کرتے تھے۔ جی بھر کر غسل کیا۔ واپس آئے تو تارا وہیں صوفے پر بیٹھی ہوئی تھی۔ وہ خاموشی سے آ کر پاس بیٹھ گئے۔ اس معاملے کو نظر انداز کرنا آسان نہیں تھا۔ ٹھیک یہی وقت تھا، جب مسجد سے لاؤڈ سپیکر پر اذان کی آواز انہیں سنائی دی۔ یہ آواز انہیں زہر لگتی تھی۔ ایک بار تارا سے اذان کا تذکرہ کیا تو تارا کاٹ کھانے کو دوڑی۔ ’تمہارا کوئی کام بغیر لاؤڈ اسپیکرز کے ہوتا ہے کیا؟ جاگرن کرتے ہو تو ساری رات لاؤڈ اسپیکر بجتا ہے۔ اب لگ رہا تھا، بابا کی طرح وہ گھر میں ایک محدود دائرہ کھینچنے میں ناکام رہے۔ بٹیا نے آسانی سے اپنی آزادی میں دوسرے مذہب کو جگہ دے دی اور انہیں پتہ بھی نہیں چلا۔ انہوں نے تارا کی طرف دیکھا، آہستہ سے بولے۔
’’تم نے سب سوچ لیا ہے؟‘‘
’سوچنا کیسا؟‘
’اوہ-‘ تارا کا یہ سوال انہیں مایوس کر رہا تھا۔ انہوں نے ہمت بٹوری۔ ‘تم اس کا انجام جانتی ہو نا؟’
’ہاں۔‘
انہوں نے سر کو جنبش دی- ‘نہیں جانتی ہو۔ یہ تو جانتی ہو نا، اس وقت کیسی ہوا چل رہی ہے؟ ‘وہ لو جہاد کا نام لیتے ہوئے ٹھہر گئے۔
بٹیا نے ان کی طرف دیکھا۔ ‘تو آپ ڈر رہے ہیں؟’
‘نہیں۔’
‘نہیں، آپ ڈر رہے ہیں’ وہ ہنسی- ‘آپ اپنے ہی لوگوں سے ڈر رہے ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ آپ کو بھی قتل کر دیں گے۔’
‘کیا؟’
پرجاپتی شکلا نے اس سے قبل مرنے والی بات نہیں سوچی تھی۔ لیکن یہ سچ تھا۔ اس وقت ملک میں ایسے کئی حادثے ہو چکے تھے۔ لیکن یہ حادثے پرجاپتی شکلا کو غلط نہیں لگتے تھے۔ وہ اسے ایک طرح کا رد عمل مانتے تھے۔ تاریخ کے صفحات پر ایسی کئی وحشتیں آباد تھیں۔ ان وحشتوں کی کہانیاں سنتے سنتے وہ بڑے ہوئے تھے۔ تغلق، خلجی سے لے کر بابر اور اورنگ زیب تک۔ ان کے پاس ایک تسلی تھی، کیا یہ سب صرف یہاں ہو رہا ہے؟ اس وقت ساری دنیا ان کے خلاف ہے۔ یہ عمل کے برعکس ایک رد عمل ہے۔ ایسا ہونا تھا، اور جو تشدد کرتے ہیں، تشدد ایک دن ان کے گھر کا راستہ بھی تلاش کر لیتی ہے۔ انہوں نے سر اٹھایا۔ بٹیا آنکھیں گڑائے ان کی طرف دیکھ رہی تھی۔
‘آپ نے جواب نہیں دیا۔ آپ دہشت گرد کیسے بن گئے؟’
‘رد عمل …. وہ کہتے ہوئے ٹھہرے۔ بٹیا نے انہیں بولنے کا موقع نہیں دیا۔ وہ غصے میں کہہ رہی تھی۔ ‘آخر آپ جیت گئے۔ تلوار کی جگہ ترشول اٹھا لیا۔ پہلے پیچھے سے وار کرتے تھے۔ اب آگے سے کرنے لگے۔ آپ جانتے بھی ہیں، اس وقت ملک میں تیزی سے ایک بدبو پھیل چکی ہے۔ آپ محسوس نہیں کریں گے۔ اخبار سے ٹی وی تک آپ نے ان سے سب کچھ چھین لیا ہے۔ جانتے بھی ہیں، وہ کیسی زندگی گزار رہے ہیں؟”
پرجاپتی شکلا اس بار غصے سے بولے۔ ‘طرفداری مت کرو۔ محبت پر نقاب مت چڑھاؤ۔’
‘نقاب؟’ تارا چونک گئی۔
وہ ہنسے -‘ایک دن تمہیں بھی نقاب پہننا ہو گا۔’
‘نہیں’
‘کیوں؟’
‘اسے نقاب پسند نہیں۔’
‘اچھا، گوشت کھانے والے کو نقاب پسند نہیں؟’
‘وہ گوشت نہیں کھاتا۔’
پرجاپتی شکلا اپنی جگہ غصے سے اچھلے – ‘کیا فالتو بات ہے۔ مسلمان ہو کر گوشت نہیں کھاتا؟’
‘بچپن میں اس کے گھر والوں نے ایک بکرا پالا تھا۔ بقر عید میں اس نے بکرے کو ذبح ہوتے ہوئے دیکھ لیا۔ اس کے بعد سے گوشت نہیں کھاتا۔’
‘وہی تو …. کٹوے۔۔ ۔ ایک کے نہیں کھانے سے کیا ہو گا؟’
پرجاپتی شکلا اس کی آنکھوں میں دیکھ رہے تھے۔ کشمکش کی حالت میں تھے۔ کھیل بگڑ چکا تھا۔ تارا نے فیصلہ کر لیا تھا۔ وہ اب کچھ زیادہ کہنے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔ پھر بھی جی سخت کر کے پوچھ ہی لیا۔
‘یہ سب ہوا کیسے؟’
‘مطلب؟’
‘محبت؟’ پرجاپتی شکلا نے سر جھکا لیا۔
‘اس کی وجہ پانی ہے۔’
‘پانی؟’ پرجاپتی پھر اپنی جگہ سے اچھل گئے۔ ‘وہ کیسے؟’
انہوں نے بیٹی کی طرف دیکھا۔ وہ گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی۔ پھر آہستہ آہستہ اس نے بولنا شروع کیا…. ‘میں پہلی بار اس کے گھر گئی تھی۔ اس نے مجھے ڈرائنگ روم میں بٹھایا۔ پھر میرے لئے پانی لایا۔ پانی کا گلاس میری طرف بڑھانے سے پہلے اس نے دونوں ہاتھوں کو جس عقیدت سے پھیلایا اور دائیں ہاتھ سے گلاس میری طرف بڑھا، یہ میرے لئے ایک حیرت انگیز لمحہ تھا۔ میں نے اس سے پوچھا، تم لوگ ایسے کسی کو پانی دیتے ہو؟ اس کا جواب تھا۔۔ ۔ جی ہاں، ہم مہمانوں کو پانی پیش کرتے ہوئے اپنی خوش قسمتی پر ناز کرتے ہیں۔’
‘بکواس’ پرجاپتی شکلا تیز آواز میں بولے۔ ‘سب ہم سے چھینا۔ سب ہم سے سیکھا۔ تم نے سنا نہیں۔ اتیتھی دے وو بھوا۔ ہمارے یہاں مہمان کو خدا کہا جاتا ہے۔’
پرجاپتی کچھ دیر تک کمرے میں ٹہلتے رہے۔ کمرے سے گوشت کی بدبو کسی حد تک ختم ہو چکی تھی۔ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ اس وقت ان کے انکار کا مطلب کیا ہو سکتا ہے، وہ آہستہ سے بولے۔
‘میری ایک شرط ہے۔ میں ملنا چاہوں گا۔’
‘منظور’
‘لڑکا مجھے پسند نہیں آیا تو؟’
‘جو آپ کہیں گے میں وہی کروں گی۔ لیکن میری بھی ایک شرط ہے۔’ اس نے بابا کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا ‘آپ دھوکہ نہیں دیں گے؟’
‘مطلب؟’
‘مطلب یہ کہ آپ پہلے سے یہ طے کر کے نہیں جائیں گے کہ آپ کو رشتے سے انکار کرنا ہے۔’
‘ایسا نہیں ہو گا۔ براہمن کی زبان ہے’
٭٭
تارا مطمئن تھی۔ حسن فرخ میں کوئی کمی نہیں۔ لہذا سوال ہی نہیں کہ حسن، بابا کو پسند نہ آئے۔ پرجاپتی مطمئن تھے، تارہ آج بھی سیاست کی چانکیہ پالیسی کو نہیں جانتی۔ برہمن کا جھوٹ بھی سچ ہوتا ہے۔ برہمن تو تمام مخلوقات میں اشرف ہے۔ کھڑکی کھولی۔ نیلا آسمان دھند میں کھو گیا تھا۔ تیز ہوا چل رہی تھی۔ بد نما خیالات کی اپنی جمالیات ہے۔ بدصورتی اگر برہمن کے چہرے کی ہے تب بھی اس سے دیوتاؤں کی چمک کا اندازہ ہوتا ہے۔ مذہب اور تعلقات میں ایک کو بچانا ہو تو تعلقات کی قربانی دی جا سکتی ہے۔ کھڑکی بند کی۔ پلٹے تو اندرونی بدصورتی کی چمک چہرے پر تھی۔ جسم میں خون کا دوران بڑھ گیا تھا۔ وہ اچانک چونکے۔ تارا کی پشت کا کوبڑ اب پہلے سے کہیں نمایاں تھا۔ پھر کئی مناظر آنکھوں میں رقص کر گئے۔ حجاب پہنے ہوئی تارا، جانماز پر بیٹھی ہوئی تارا، عبادت میں جذب تارا۔ گوشت خور تارا۔ لڑکا اگر دلت ہوتا تو؟ اس کے باوجود کسی بھی حالت میں اختلاف سے اتفاق کی طرف ان کا جھکاؤ نہیں ہوتا۔ اب صرف سیاست کا بھروسہ تھا۔ سیاست جو ننانوے پتھر مخالفت میں اچھالتی ہے۔ پھر سوواں پتھر زخموں کو سہلانے آ جاتا ہے۔ سیاست شفاعت اور مخالفت سے الگ ایک پیچیدہ داستان بن چکی تھی۔ پتھر چلانے اور سہلانے کا یہی کھیل اب پرجاپتی شکلا کو بھی کھیلنا تھا۔ اس رات ایک خواب آیا۔ ناگپور سے رسی تڑا کر ایک سانڈ پہلے لکھنؤ آیا، پھر چلتا ہوا اچانک ان کے کمرے آ گیا۔ آگ کی اٹھتی ہوئی شعلوں کے درمیان پرجاپتی شکلا تھے۔ وہ چونک کر، اٹھ کر بیٹھ گئے۔ خواب اکثر سچ ہوتے ہیں۔ مگر وہ سانڈ؟ وہ آگ کی لپٹیں؟ ان شعلوں سے بچنے کے لئے ان کو غیر معمولی برہمن اندام نہانی میں (برہمن یونی) داخلہ لینا تھا۔ پرجاپتی بابا کے اثر میں تھے اب۔ بابا جو کہا کرتے تھے، برہمن چاہے تو نیوگ فعل کے ذریعہ دلت عورت کو پاک کر سکتا ہے۔ مسلمان کو کیوں نہیں؟ اس وقت حسن فرخ ان کے سامنے تھا اور ہوا کی نجاست (وایو دوش) سے متاثر تارا شکلا کی پشت پر دوبارہ کوبڑ پیدا ہو گئے تھے۔ ابھی حسن فرخ سے ملنا باقی تھا۔
٭٭
‘تم معصوم جانوروں کو مارتے ہو؟’
اور اس وجہ سے آپ نے انسانوں کو مارنا شروع کر دیا؟’
"بکو مت، جانوروں کی قربانی دینے کا حق کس نے دیا؟’
‘آپ کو انسانوں میں بھید بھاؤ کرنے کا حق کس نے دیا؟’
"تم نے مندر توڑے؟’
‘تاریخ نہیں جانتا۔ جس نے توڑے گناہ کیا۔ لیکن یہی گناہ اب آپ کیوں کر رہے ہیں؟’
‘کچھ جانتے بھی ہو جزیہ کیا ہوتا ہے؟’
‘ہاں مغلوں کے بارے میں پڑھا ہے۔ یہ بھی ایک مذہبی اور ذہنی جفا کشی ہے۔ لیکن- آپ جزیہ لیجیے ہمیں تحفظ دیجئے؟’
‘مارے جاؤ گے؟’
‘کب؟’
حسن مسکرا رہا تھا۔
پرجاپتی شکلا کو یاد بھی نہیں رہا کہ وہ حسن کے گھر کب پہنچے۔ اور یہ مذاکرات کب کس طرح شروع ہو گئے۔
تارا نے حسن کو فون کر دیا تھا۔ حسن نے شام آٹھ بجے آنے کو کہا۔ ساؤتھ ایکس کے پوش علاقے میں ایک چھوٹا سا فلیٹ۔ پرجاپتی نے محسوس کر لیا تھا کہ اس علاقے میں مسلمان نہیں ہوں گے۔ حسن گھر کے باہر ہی مل گیا۔ ذرا فاصلے سے انہوں نے حسن کو دیکھا۔ گورا رنگ معصوم سا چہرہ، لمبا قد۔ جینس اور ٹی شرٹ میں۔ کیا مسلمان ایسے ہوتے ہیں؟ پاؤں نہیں چھوئے حسن نے۔ ہاتھ جوڑ دیئے۔ اندر قدم رکھنے سے پہلے ہی ان کی زبان چل پڑی تھی۔ حسن نے ڈرائنگ روم میں بیٹھنے کے لئے کہا۔ انہیں غصہ آ رہا تھا۔ اور حسن بس مسکرائے جا رہا تھا۔ انہوں نے پلٹ کر فلیٹ کا جائزہ لیا۔ چمکتی ہوئی دیواریں۔ دو جگہ دیوار پر پینٹنگ تھی۔ لیکن کہیں کوئی اسلامی پینٹنگ نظر نہیں آئی— کہیں ٹوپی یا جانماز نظر نہیں آیا۔
‘نماز پڑھتے ہو؟’
‘ہاں ‘
‘کب؟’
‘کبھی کبھی جمعہ کے دن’
ٹوپی؟ ‘
‘رو مال باندھ لیتا ہوں۔’
‘یہاں مذہبی کیلنڈر نہیں ہے؟’
‘مذہب دل میں ہوتا ہے۔’
‘اوہ- اچانک وہ چونکے۔ ایک دروازہ ذرا سا کھلا ہوا تھا۔ پرجاپتی شکلا نے اشارہ کیا۔ ‘وہاں کیا ہے؟’
‘ٹائلیٹ’
پرجاپتی چیخے – ‘ٹائلیٹ کا دروازہ کھول کر رکھتے ہو؟ تبھی سارے گھر میں پاخانے کی بو پھیلی ہے۔’
‘ساری، ابھی بند کرتا ہوں’
حسن نے آگے بڑھ کر دروازہ بند کر دیا۔ پھر تھوڑا آگے بڑھ کر پوچھا ‘آپ کے لئے پانی لاؤں؟’
‘اسی ہاتھ سے پانی لاؤ گے؟’
‘ہاں’
‘یعنی ٹوائلیٹ کا دروازہ بند کرنے کے بعد ہاتھ نہیں دھوؤ گے؟’
‘دروازہ بند کرنے پر ہاتھ دھونے کی کیا ضرورت ہے؟’
‘ہے؟’ پرجاپتی زور سے چیخے ‘یہی فرق ہے تم میں اور ہم میں۔ ہمارے یہاں کہیں بھی جاؤ، ٹائلیٹ کا دروازہ بند ملے گا۔ مگر تمہارے یہاں۔’
حسن ان کی بات سننے کے لئے رکا نہیں۔ باتھ روم سے لوٹ آیا۔ ان کی طرف بھیگا ہاتھ دکھایا۔ پھر فرج کھول کر پانی کی بوتل نکالی۔ پرجاپتی کو تارا شکلا کی بات یاد آ رہی تھی۔ ‘میں اس کے پانی لانے کے طریقوں پر فدا ہو گئی۔’ وہ زور سے چیخے۔
‘بوتل اور گلاس لے آؤ۔ پینا ہو گا تو میں خود لے لوں گا۔’
بوتل اور گلاس رکھنے کے بعد حسن ایک طرف صوفے پر بیٹھ گیا۔ وہ گہری نگاہوں سے حسن کی طرف دیکھ رہے تھے۔ اس وقت دماغ میں بہت کچھ چل رہا تھا۔ بدصورتی میں خوبصورتی ہے۔ وہ آہستہ سے مسکرائے۔ حسن کی طرف دیکھا۔
‘اگر میں اس رشتے سے انکار کر دوں تو؟’
‘آپ کو حق ہے، پھر بھی، ہم دونوں آپ کو سمجھانے کی پوری کوشش کریں گے۔ جو ملک میں ہو رہا ہے، وہ سیاست ہے۔ سب کچھ سیاست سے مت جوڑیے’
‘نہیں جوڑتا۔ کیا مذہب کے محافظ تم کو چھوڑ دیں گے؟’
‘اس پر ہم دونوں نے سوچا ہے۔ یہ شادی خاموشی سے ہو گی’
پرجاپتی چیخے – ‘برہمن ہمیں چھوڑ دیں گے؟’
‘بات آگے بڑھی تو سارا الزام میں اپنے سر لے لوں گا۔ تارا پر کوئی آنچ نہیں آنے دوں گا۔ راستے سے ہٹ جاؤں گا۔’
‘پھر ابھی کیوں نہیں؟’
حسن کے چہرے پر آنے والے تبدیلی کو پرجاپتی شکلا نے صاف محسوس کیا۔ ایک گھبراہٹ اس کے اندر بھی تھی۔ حسن جانتا تھا ایسا ہو سکتا ہے۔ اس وقت ملک میں یہی ہو رہا تھا۔ مذہب کی حفاظت کرنے والے مسلم عورتوں کو، ہندوؤں سے شادی کا مشورہ دے رہے تھے۔ ایسے بحران میں ایک برہمن لڑکی کا مسلم لڑکے کی طرف جھکاؤ خون خرابے کا سبب بن سکتا تھا۔ ادھیڑ بن دونوں طرف چل رہی تھی۔ زندگی کے ذاتی فیصلوں پر مذہب کا غلبہ تھا۔
‘پانی تو لیجئے۔’ حسن پوچھ رہا تھا۔
‘پہلی بار وہ محبت سے حسن کی جانب مڑے۔ ‘نہیں لے سکتا۔’
‘کیوں؟’
‘جانتے ہو یہاں آ کر کیا خیال پیدا ہوا؟’ بھڑکنا مت۔ بچپن سے ایسا لگتا رہا ہے۔ وہ ٹھہرے …. تم لوگ بڑی بڑی شمشیریں رکھتے ہو نا؟ یہ شمشیریں خون میں سنی نظر آتی ہیں۔ اب بھی ایسا لگ رہا ہے جیسے بوتل میں پانی کی جگہ خون بھرا ہو۔ معاف کرنا۔’
وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔
حسن انہیں چھوڑنے باہر تک آیا۔ دروازے پر وہ کچھ لمحے کھڑے رہے۔ خاموشی حاوی رہی۔ یہ صفر میں تیرنے والا ایک لمحہ تھا۔ لیکن اس لمحے کی گونج بہت زیادہ تھی۔ کچھ ایسی ہی گونج، تھرتھراہٹ کے درمیان حسن بھی تھا۔ پھر وہ ٹھہرے نہیں۔ تیزی سے آگے بڑھ گئے۔
٭٭
پرجاپتی جان رہے تھے کہ تارا بیتابی سے ان کے آنے کا انتظار کر رہی ہو گی۔ جواب انہوں نے سوچ رکھا تھا۔ بیل بجائی۔ دروازہ تارا نے کھولا— تارا کا چہرہ سہما ہوا تھا۔
‘کیا رہا؟’
‘پانی پسند نہیں آیا؟’
پرجاپتی شکلا کا مختصر جواب تھا۔ وہ تارا کا جواب سننے کے لئے ٹھہر گئے – ‘تمہیں کوئی شک؟’
‘نہیں۔’
‘پھر ٹھیک ہے۔’
اگرچہ اس وقت دونوں کے دل خدشات سے خالی نہیں تھے۔ پرجاپتی جانتے تھے، کہ تارا اس بات کو آرام سے قبول نہیں کرے گی۔ کوئی اور بات ہوتی تو اسے قبول کرنا آسان بھی ہوتا۔ لیکن یہ بات تو محبت سے منسلک تھی۔ پرجاپتی کو شک کا احساس اس لیے بھی ہوا کہ ان کی بات سن کر بھی تارا نے کسی رد عمل کا اظہار نہیں کیا تھا۔
٭٭
وہ تھک گئے تھے۔ پانی کے شفاف آبشار کے نیچے کھڑے ہو گئے۔ گورے گورے جسم پر تعریف کی نظر ڈالی۔ اچانک چونک گئے۔ پانی کی جگہ ایک سیاہ دھار آبشار کے درمیان سے گرتی دکھائی دی۔ ٹنکی کا پانی گندا تو نہیں ہو گیا؟ ابھی کچھ دن پہلے ہی تو ٹنکی صاف کروائی تھی؟ پھر خالص چمکتے پانی کے درمیان یہ سیاہ دھار؟ بہتے پانی کو روک کر خیالات میں گم وہ کچھ دیر تک کھڑے رہے۔ آئینے میں اپنے چہرے کو دیکھا۔ چہرے پر بچھی ہوئی جھریوں کے جال میں بھی سیاہ پن پھیل چکا تھا۔ اس وقت یہی سیاہی انہیں غسل خانے کی دیواروں پر بھی نظر آ رہی تھی۔ فوری طور پر، تولیے سے جسم کو پوچھا۔ نصف شاور سے وہ کبھی نہیں اٹھے تھے۔ لیکن اب دوبارہ غسل کا تصور انہیں خوفزدہ کر رہا تھا۔ آبشار سے ویسا ہی سیاہ پانی ٹپکا تو ….؟ آئینے میں اس وقت ان کا چہرہ تک سیاہ پڑ چکا تھا۔ وہ تیزی سے دروازہ کھول کر باہر نکل آئے۔
………..
واقعات کی پوشیدہ جھریاں
وہاں موسم بہار دیر سے پہنچتا ہے۔
وہاں چہرہ بننے سے قبل
جھریوں کا جال بچھ جاتا ہے۔
کچھ پوشیدہ واقعات ہیں۔ اور/
ایک سہمے ہوئے مستقبل کے پنجرے میں
وہ مردہ پڑے ہیں/
٭٭
یہ ماننے اور نہیں ماننے کی بات نہیں ہے۔ لیکن یہ جھریاں صاف دکھ جاتی ہیں۔ وہ نازک وقت کے ترشول پر ٹنگے ہیں۔ جہاں گوشت اور جانور کے نام پر انہیں مار بھی دیا جاتا ہے اور جانوروں کو پالنے کا مشورہ بھی دیا جاتا ہے۔ رشتے اور سیاست کے اسی نئے موڑ پر کھڑی تھی تارا شکلا— ڈسنے والی خاموشی میں ہزاروں طرح کے سوالات سے گزرتے ہوئے اس وقت اس کی موجودگی کسی بت کی مانند تھی۔ اگر وہ برہمن کے گھر پیدا نہیں ہوتی تو ….؟ اگر حسن کسی برہمن کے گھر جنم لیتا تو؟ برہمن کے گھر جنم لینے میں اس کا اپنا نصیب کیا ہے؟ جیسے حسن کا جرم صرف یہ کہ وہ مسلمان کے گھر میں پیدا ہوا۔ الہ آباد سے دلی تک کی سڑک پر پرچھائیوں کا ایک گھیرا تھا۔ اس کا تحمل جواب دے رہا تھا۔ اس نے حسن میں صرف حسن کو دیکھا تھا۔ کسی مسلمان کو نہیں دیکھا تھا۔ دل کے روشن آئینے میں محبت آ جائے تو مذہب کہیں دور رہ جاتا ہے۔ وقت اور حالات نے مذہب کو محبت پر حاوی کر دیا تھا۔
تارا شکلا اس دن ‘کیفیٹیریا’ میں حسن سے ملی۔ دونوں آمنے سامنے بیٹھ گئے۔ کافی کی چسکیاں لیتے ہوئے بھی ایک گہری خاموشی ماحول میں بنی ہوئی تھی۔ کافی دیر بعد اس خاموشی کو تارا نے ہی توڑا۔
‘تم لوگ ہمیشہ سے ایسے ہو؟’
‘مطلب؟’ حسن چونک گیا تھا۔
تارا، حسن کی آنکھوں میں غور سے دیکھ رہی تھی۔
’مطلب شمشیر والے۔ جیسا تمہارے بارے میں سوچا جاتا ہے۔‘
حسن اپنی جگہ سے اچھلا۔ ‘شمشیر؟ مطلب ٹیریرسٹ؟ ‘
‘شاید-‘ تارا کہتے ہوئے ٹھہری۔ ‘لیکن آپ کے چہرے پر کہیں خون کے داغ نہیں؟ لباس پر بھی نہیں؟’
‘اوہ۔۔ ۔’ حسن مسکرایا۔
‘سنو حسن’ تارا اب بھی اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ ‘تاریخ کا مطالعہ میں نے بھی کیا ہے۔ تم طاقتور گھوڑوں پر آئے۔ محمد بن قاسم، خلجی کبھی تغلق بن کر۔۔ ۔ کبھی تیمور کی اولاد بن کر۔۔ ۔ بس ایک کہانی گم کر دی گئی۔ آپ کو ایک سزا فخر کرنے کی بھی ملی ہے۔ مگر آدھے ادھورے نوابوں اور بادشاہوں کی تاریخ میں تمہاری اصل تاریخ کو دبا دیا گیا۔
‘مطلب’
‘تم حضرت خواجہ معین الدین چشتی بن کر بھی آئے تھے۔ حضرت علی ہجویری بن کر بھی۔ تمہاری تاریخ بلکہ بڑی تاریخ صوفی سنتوں کی بھی رہی ہے۔ تم شاہ ولی اللہ بن کر بھی آئے۔ مغلوں کی تاریخ میں تم اکبر اور دارا شکوہ بن کر بھی آئے۔ تم دوست بن کر آئے، مگر تاریخ نے چھل کیا تمہارے ساتھ۔ آج بھی کر رہی ہے۔ تاریخ نے تمہارے ہاتھوں میں محبت کے کاسہ کی جگہ شمشیر تھما دی۔’ تارا ٹھہر گئی۔ ‘اچھا سنو۔ تم مذہب مانتے ہو؟’
‘ہاں’
‘کتنا؟’
‘نہیں جانتا۔’
حسن نے پلٹ کر پوچھا۔ ‘تم مانتی ہو؟’
‘ہاں’
‘کتنا؟’
‘پتہ نہیں’
کافی سرد ہو گئی تھی۔
تارا پھر آہستہ سے بولی۔ ‘ہمارے درمیان مذہب آ گیا ہے۔’
‘ہاں’
میں اپنے والد کو جانتی ہوں۔ جانتی ہوں کہ برہمن ہونا کیا ہوتا ہے۔’
‘محبت میں خوف نہیں ہوتا’ حسن آہستہ سے بولا۔
‘شاید۔ مذہب نے پیار کو کمزور کر دیا’
‘کوئی راستہ ….’ حسن تارا کی آنکھوں میں جھانک رہا تھا۔
’محبت مذہب کا لباس پہن لے تو….؟‘
‘کس مذہب کا؟’
‘جو مذہب اکثریت کا مذہب ہو۔ جو مضبوط ہو؟’
‘پھر محبت کہاں رہی؟’
خاموش ماحول میں تارا کا قہقہہ گونجا۔ ‘پھر ایک دن محبت کرنے والوں کا کاسہ گم ہو جائے گا۔ وہ گھوڑوں پر آئیں گے۔ ہاتھوں میں اسلحے لے کر۔‘
‘شمشیر؟’
‘نہیں’
‘ترشول؟’
‘نہیں۔۔ ۔ اسلحے۔۔۔ ہم اکیسویں صدی کے جشن میں ڈوبے ہیں۔ شمشیر اور ترشول سے ورلڈ ٹریڈ ٹاور نہیں گرایا جاتا۔ شہر گجرات اور مظفر نگر نہیں بنتے۔
حسن کی آواز کمزور تھی۔ ‘بننے کے لئے تو جانور کا گوشت ہی کافی ہے۔’
تارا کی چمکتی آنکھوں میں اچانک چور دروازے سے خوف داخل ہو گیا تھا۔ وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
‘چلو کھیل دیکھتے ہیں۔’
وہ دونوں اب ویران سڑک پر نکل آئے۔ گرد اڑ رہی تھی۔ مئی کی گرمی اپنے شباب پر تھی۔ اس وقت ٹریفک بھی سہما ہوا تھا— آسمان پر گھوڑے اڑ رہے تھے۔ خلا میں ہزاروں کی فوج تیر رہی تھی۔ حسن فرخ کے کانوں میں اب بھی تارا کے لفظ گونج رہے تھے۔ تاریخ نے چھل کیا تمہارے ساتھ۔ وہ پتہ نہیں، شدید گرمی کی تپش میں کتنی دور تک پیدل چلتے رہے۔
تارا اچانک ٹھہر گئی۔ ‘سنو حسن۔ ہندی کے مشہور کوی کنور نارائن کی ایک نظم یاد آ رہی ہے۔ میں مسلمانوں سے نفرت کرنے چلا تو سامنے غالب آ گئے۔ عیسائیوں سے نفرت کرنے چلا تو شکسپئر آ گئے۔ ہم نفرت کرنا ہی کیوں چاہتے ہیں؟’
ٹھیک اسی وقت گرد اور دھول کی ایک آندھی گزر گئی۔ تارا کی آواز اس آندھی میں کھو گئی۔
٭٭
تارا نے صحیح کہا تھا۔ چلو کھیل دیکھتے ہیں۔ ایک نیا کھیل وقت نے پرجاپتی کے فلیٹ خریدنے کے ساتھ کھیلنا شروع کیا تھا۔ پرجاپتی نے فلیٹ خریدنے کے لئے بین الاقوامی بینک سے لون لیا تھا۔ اس کی قسطیں دو برس سے بھری نہیں گئی تھی۔ یہ دو برس معاشی اتار چڑھاؤ میں گزرے تھے۔ لہذا بینک سے آنے والے خطوط کو بھی پرجاپتی نظر انداز کرتے آئے تھے۔ سوچتے تھے کہ پیسہ ہو جائے گا تو ایک ساتھ بڑی رقم بھر دیں گے۔ بینک سے اچانک نوٹس آ گیا تو پرجاپتی شکلا کے ہوش اڑ گئے۔ یہ نئی مصیبت تھی۔ وہ بین الاقوامی بینکوں کا حال جانتے تھے۔ یہ مکان ہاتھ سے نکل سکتا تھا۔ لیکن یہ بھی جانتے تھے کہ ان کی حالت ایسی نہیں کہ کسی اچھے بڑے وکیل کی خدمات لے سکیں۔ مکان بحران میں تھا۔ تارا اور اپنے مستقبل کو لے کر وہ اندر تک ٹوٹ گئے تھے۔ محبت کے صفحات سے نکلے تو گھر کا جن سامنے آ گیا۔ مکان کے لئے ادھر ادھر ہاتھ بھٹکنے، وزراء کے دفتر کے چکر لگانے کے بعد احساس ہوا، کوئی حکومت اپنی نہیں ہوتی۔ دفتروں میں ان کا براہمن ہونا بھی کام نہیں آیا۔ برسوں سے رنگ و روغن نہ ہونے کی وجہ سے فلیٹ کی دیواریں خستہ ہو چکی تھی۔ اس رات وہ ایک ڈراؤنے خواب سے نکلے تھے۔ انہوں نے دیکھا کہ بین الاقوامی بینک نے ان سے ان کا فلیٹ چھین لیا ہے۔ وہ تارا کے ساتھ اس شدید گرمی میں سڑکوں پر بھٹک رہے ہیں۔ پرجاپتی شکلا کو غصہ تھا کہ یہ کیسی ہندوتو کی حکومت ہے۔ جو ایک برہمن سے اس کی زمین چھین رہی ہے۔ ان کی بات سن کر ان کے پڑوسی لالہ جی کھلکھلا کر ہنسے تھے۔
‘مذہب نہیں شکلا جی، پہلے مکان کو بچا لو۔’
‘کس طرح؟’
‘ایک بار میں بھی پھنس گیا تھا اس چکر میں۔ ایک قابل وکیل ہے۔ میں بات کروں گا تو پیسے بھی کم لے گا۔ میری مانو تو جلدی مل لو۔ مکان گیا تو برہمن کو لے کر کہاں کہاں بھٹکو گے شکلا جی؟’
‘نام کیا ہے اس وکیل کا؟’
‘چیت ڈومر’
‘ڈومر۔۔ ۔ ڈوم۔۔ ۔؟’ پرجاپتی شکلا اپنی جگہ سے اچھلے۔
‘ہاں ڈوم ذات کا ہے۔ مگر اب کہاں کے ڈوم اور ڈومن۔ سب پڑھ لکھ کر برہمن بن گئے ہیں۔ اور برہمنوں سے ان کی زمین چھن گئی ہے۔’
٭٭
پہلے حسن اور اب ڈوم— پرجاپتی شکلا کی پیشانی پر بل پڑ گئے تھے۔ لالہ جی نے فون نمبر دیا۔ بات کرائی۔ پہلی ملاقات پرجاپتی نے تارا کے ساتھ کی۔ کڑکڑڈوما کورٹ میں چیت ڈومر کسی کیس کے سلسلے میں آئے ہوئے تھے۔ وہیں کھڑے کھڑے کچھ دیر تک رسمی بات چیت ہوئی۔ لیکن چیت ڈومر کو دیکھ کر وہ چونک گئے تھے۔ سانولا رنگ، لیکن پرکشش چہرہ۔ عمر پے تس کے آس پاس۔ لب و لہجے سے بھی کوئی ڈوم نہیں کہہ سکتا تھا۔ پہلی بات تو یہی محسوس کہ ضرور کسی برہمن کی اولاد ہو گا۔ پرجاپتی نگاہوں کو پڑھنا جانتے تھے۔ بات چیت کے درمیان چیت ڈومر بار بار ان کی بیٹی تارا کو دیکھتا رہا تھا۔ اس نے ویزیٹنگ کارڈ نکال کر دیا۔ ‘موسم وہار میں میرا بنگلہ ہے۔ کل صبح نو بجے آ جائیں۔ اکیلے آئیے گا۔’
جاتے جاتے ڈومر نے پلٹ کر ان کی طرف دیکھا پھر اپنے ساتھیوں کے ساتھ آگے بڑھ گیا۔ ایک بڑی سی گاڑی تھی۔ پرجاپتی کے پاس نہ گاڑی تھی، نہ گاڑی کی پہچان رکھتے تھے۔ لیکن وہ اتنا جان گئے کہ چیت ڈومر ایک پہنچا ہوا وکیل ہے۔ اور یہ وہی ہے جو ان کے مکان کو بچا سکتا ہے۔
دوسرے دن آٹو سے چیت ڈومر کے گھر پہنچنے میں زیادہ پریشانی نہیں ہوئی۔ ایک چھوٹا سا خوبصورت سا بنگلہ تھا۔ بنگلے کے باہر پہرے دار تھے۔ استقبالیہ پر ایک خوبصورت سی لڑکی بیٹھی ہوئی تھی۔ لڑکی انہیں ایک ہال نما کمرے میں لے گئی۔ کمرے کی دیوار پر بڑے سائز کا ٹی وی لگا ہوا تھا۔ پرجاپتی کو احساس ہوا کہ یہ ضرور کانفرنس روم ہو گا۔ کانفرنس کے کمرے کے باہر شیشے کے گھیرے میں بہت سی میزیں لگی ہوئی تھی۔ جہاں نوجوان لڑکے -لڑکیاں کام کر رہے تھے۔ کچھ دیر بعد ایک لڑکی آئی، جو انہیں لے کر پہلے فلور پر چلی گئی۔ دروازہ کھلا ہوا تھا۔ سامنے ایک خوبصورت سا ڈرائنگ روم تھا۔ صوفے کے دائیں طرف اکیوریم کے رنگین پانی میں مچھلیاں رقص کر رہی تھیں۔ دیواروں پر ایبسٹریکٹ پینٹنگ قطار سے لگی تھی۔ وہ صوفے پر بیٹھ گئے۔ یہ یقین کرنا مشکل تھا کہ یہ کسی ڈوم کا گھر ہو سکتا ہے۔ وہی ڈوم، جس کو ان کے بابا دیکھ بھی لیتے تو انہیں نہانا پڑتا تھا۔ لمحے بھر رک کر انہوں نے ایکیوریم کی مچھلیوں کی طرف دیکھا۔ یہ احساس ہوا، وقت کے رقص میں بہت کچھ تبدیل کیا جا چکا ہے۔ بس، وہ ہی نہیں محسوس کر سکے۔ وقت کے گھومتے پہیے کے ساتھ بہت کچھ الٹا پلٹا ہو چکا ہے۔
تیز قدموں سے چلتا ہوا ڈومر ان کے پاس آ کر ٹھہر گیا۔ ہاتھ جوڑا۔ سامنے صوفے پر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر پرجاپتی کی طرف دیکھتا رہا۔ پھر زور سے ہنسا۔
‘مکان بچا کر کیا کریں گے آپ؟ دیکھتے نہیں، موسم میں تبدیلی آ رہی ہے۔ اسٹیفن ہاکنگ نے کہا ہے کہ ‘رسٹرائڈس کے ٹکرانے سے اگلے سو سال میں نئے سیارے پر بسنے کی تیاری ہو گی۔ آپ کو کیا لگتا ہے، نئے سیارے پر برہمن ہوں گے؟ وہ ہنسا، ‘ویسے کہاں رہتے ہیں آپ؟’
‘رہنے والا تو الہ آباد کا ہوں لیکن برسوں سے دلی میں ہوں۔’
‘اوہ-‘ چیت ڈومر سنجیدہ ہو گیا۔ ‘الہ آبادی برہمن۔ پھر تو میرے یہاں کا پانی تک نہیں لیں گے؟ اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ ‘یہ بنگلہ تین سال پہلے بیس کروڑ میں خریدا۔ آفس بھی یہیں سے ہینڈل کرتا ہوں۔ لالہ جی نے آپ کے کیس کے بارے میں بتا دیا تھا۔ کہیں بھی جائیں گے تو لٹ جائیں گے آپ۔ بین الاقوامی کمپنی ہے۔ مکان ہڑپ لے گی۔ میں بچا سکتا ہوں آپ کو۔ کیوں؟ بعد میں بتاؤں گا۔ پہلے کچھ میرے بارے میں جان لیجئے۔
‘جی’ پرجاپتی آہستہ سے بولے۔
‘ذات کا ڈوم ہوں۔ لہذا ڈومر اپنے نام کے ساتھ لگا رہنے دیا۔ کیوں ہٹاؤں؟ ماں باپ میلا ڈھوتے تھے۔ میں نے ترقی کی۔ یہ بنگلہ دیکھئے۔ مجھے دیکھئے — خود کو دیکھئے۔ ذات پیسوں کی ہوتی ہے، یہ بچپن میں ہی میری سمجھ میں آ گیا تھا۔ چھ ہزار ذاتوں میں برہمن سرو شریشٹھ اور بھنگی سب سے نیچے۔ کیا ایسا ہے اس وقت؟
‘نہیں’
‘منو سمرتی میں چانڈال، اپاتر ہمارے کتنے ہی نام تھے۔ مردار جلانے والا۔ مردوں کی اترن پہننے والے۔، اچھوت، جہنم کی برادری کا۔ پاخانہ اٹھانے والا۔ لیکن اتنا تو طے ہے کہ ہم نہ ہوتے تو آپ کا یہ معاشرہ بھی نہیں ہوتا۔’
پرجاپتی شکلا کے چہرے پر اس درمیان بہت سے رنگ آئے اور چلے گئے۔ وہ اصل میں بنگلے کی تڑک بھڑک دیکھ کر سہمے ہوئے تھے۔ آدھی کسر چیت ڈومر کے مکالمے نے نکال دی تھی۔ چیت ڈومر اب بھی ان کی طرف دیکھ رہا تھا۔
‘معاف کیجیے، یہ سمجھنا مشکل ہے کہ آپ اتنی نفرت ہمارے لئے کہاں سے لے کر آئے؟ اپنشد سے؟ وید پران سے؟ برا مت مانئے ہم ایک سڑے گلے ہوئے بدبو دار ماضی اور تاریخ کو دیکھتے پڑھتے بڑے ہوئے۔ آپ سمجھ رہے ہیں نا؟ ایک خوفناک تاریخ کے سائے میں جینا کیسا ہوتا ہے؟’ ڈومر نے گہرا سانس لیا۔ مسکرایا پھر ٹھہر کر بولا۔ ’تاریخ کا یہ سفر اب بھی چل رہا ہے۔ جی ہاں، کچھ لوگ اس تاریخ سے باہر نکل کر آپ کی برابری کرنے لگے۔ یا کچھ کے قد آپ سے بھی بڑے ہو گئے۔‘
‘جی’ پرجاپتی بولتے بولتے رک گئے۔
‘یقین نہیں ہوتا۔ اب، جبکہ یہ دنیا تیزی سے بدل رہی ہے، آپ اب بھی پرانی روایات سے لپٹے ہوئے ہیں؟ توڑ دیجئے ان روایات کو؟ پھر سب ٹھیک ہو جائے گا۔ سمجھ رہے ہیں نا؟’
چیت ڈومر نے اس بار گہری نظروں سے پرجاپتی کو دیکھا۔
‘دیکھئے۔ یہ بات بتا دوں۔ میں نے آپ کے کیس میں انٹریسٹ کیوں لیا؟ میں گھما پھرا کر بات نہیں کہتا۔ مجھے آپ کی بیٹی پسند آ گئی ہے۔ میں اکیلا ہوں۔ شادی کر کے گھر بسانا چاہتا ہوں آپ دیکھئے، مکمل گھر خالی ہے۔ میں آپ کے گھر کو بچا سکتا ہوں اور آپ سے اس کے عوض مجھے کچھ نہیں چاہیے۔ سوچ لیجئے، وقت ہے آپ کے پاس۔’
وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ پرجاپتی اندر تک ہل گئے۔ ایسا لگا، جیسے بابا اب جا کر مرے ہوں۔ شمسان میں ان کی چتا سلگ رہی ہو۔ چیت ڈومر کے بنگلے سے باہر آئے تو قدم لڑکھڑا رہے تھے۔ جی چاہا تھا، اس کے منہ پر تھپڑ مار دیں۔ لیکن کیا یہ جرأت وہ کر سکتے تھے؟ اور اگر ان کے منہ پر تھپڑ مارنے کی ہمت ایک ڈوم کرتا تو کیا وہ اسے روک سکتے تھے؟ سارے راستے وہ غور و فکر کرتے رہے۔ قریشی حلال گوشت کی دکان کھلی ہوئی تھی۔ قریشی انہیں پہچانتا تھا۔ اس نے ہیلو کیا تو بدلے میں کمزور لہجے میں انہوں نے بھی جواب دیا۔ یہ پہلی بار ہوا تھا۔ تاریخ کی ایک عمارت، پرانی ہو کر بوجھ ڈھوتے ڈھوتے کب گر پڑی، انہیں پتہ بھی نہیں چلا۔
٭٭
چیت ڈومر نے جو بھی کہا، وہ ممکن نہیں تھا۔ مذہبی تاریخ سے وابستگی اور ایک قدیم عمارت کے مسمار ہو جانے کے بعد بھی وہ ایسا نہیں کر سکتے تھے۔ یہ رات الجھنوں کی رات تھی۔ وہ پاگلوں کی طرح ٹہل رہے تھے۔ یہ ممکن نہیں۔ مگر دوسرا راستہ کیا تھا؟ ایک راستہ یہ تھا کہ مکان کا سودا کر لیں۔ ایڈوانس پیسہ لے کر بین الاقوامی بینک کا پیسہ واپس کر دیں۔ لیکن ’نوٹ بندی‘ کے دور نے یہ راستہ بھی بند کر رکھا تھا۔ سستی قیمت پر مکان فروخت کرنے کے بعد اور بین الاقوامی بینک کا قرض ادا کرنے کے بعد ان کے پاس پیسے ہی کتنے بچتے؟ پھر سستے فلیٹ بھی کہاں ملتے ہیں؟ حکومت ان کی ہو کر بھی ان کی نہیں تھی۔ ایک اچھوت تھا، جس نے مکان بچانے کے لئے رشتوں کی شرط رکھ دی تھی۔ ایک مسلمان تھا، جس سے ساری زندگی وہ فاصلہ رکھتے آئے تھے۔ دھند میں تیرتی پوشیدہ جھریوں میں ایک مکان تھا، جس کی بولی لگ رہی تھی۔ اور ایک وہ تھے۔ پرجاپتی شکلا۔ برہمن۔۔ ۔ سرو شریشٹھ (اشرف المخلوقات)۔۔ وہ گندگی اور گوشت کے درمیان کھڑے تھے۔ اس کے باوجود بھی راستہ گم تھا۔ بحران سے باہر نکلنے کا حتمی طریقہ چیت ڈومر تک جاتا تھا۔ وہ ایک لمحے کو زمین پر بیٹھ گئے۔ دیوتا کے مقام سے گر کر اب وہ نچلی پائیدان پر تھے، جسے معاہدہ کہتے ہیں۔ آنکھیں بند کیں۔ پتہ بھی نہیں چلا، کب تارا شکلا پاس میں آ کر بیٹھ گئی۔
‘کیا بات ہے؟’
وہ وہیں زمین پر خاموش بیٹھے رہے۔ تارا پاس آ کر بیٹھ گئی۔
پرجاپتی کی آواز کمزور تھی۔ ‘مکان کو بچانا چاہتا ہوں۔’
تارا شک سے ان کی طرف دیکھ رہی تھی۔ ‘آج آپ کسی وکیل سے ملنے بھی گئے تھے؟’
‘ہاں گیا تھا’- پرجاپتی کی آواز بوجھل تھی۔ آہستہ سے بولے ‘مذہب بحران میں ہے۔’
‘پہلے مکان کو بچائیں گے یا مذہب کو؟’
‘مذہب کو’
’فٹ پاتھ پر رہ لیں گے؟ مندر میں بھی جگہ نہیں ملے گی۔ گیارہ فیصد برہمن صرف سیاست میں مضبوط ہیں۔ باہر عام زندگی میں انہیں بھی کوئی جگہ نہیں دیتا۔ ‘
پرجاپتی کی آواز کمزور تھی۔ ‘مکان بچاتا ہوں تو مذہب جاتا ہے۔‘
‘مکان بچائیے۔ مذہب محفوظ رہے گا۔ ویسے بھی باہر سیکورٹی کے لئے آپ نے اوم اور سواستک کے نشانات تو بنا رکھے ہیں۔’
پرجاپتی بارود کے ڈھیر پر کھڑے تھے۔ ‘وہ بغیر پیسے مقدمہ لڑے گا لیکن، اس نے ایک شرط رکھ دی ہے ….’
پوشیدہ پرچھائیوں نے اس بار تارا شکلا کو نگل لیا تھا۔ تیز زلزلہ آیا اور گزر گیا۔ تارا نے ڈوبتی سانسوں کو برابر کیا۔ پرجاپتی کی طرف دیکھا پھر آہستہ سے کہا۔
‘میری بھی ایک شرط ہے۔ میں اس سے پہلے ملنا چاہوں گی۔’
٭٭٭
(۳)
اور خدا کی روح پانی کی سطح پر جنبش کرتی تھی۔
پرجاپتی شکلا مطمئن تھے کہ پرائیویٹ سیکٹر میں کام کرنے والی ان کی بیٹی مکان کی اہمیت سے ضرور واقف ہو گی۔ مکان کے چلے جانے کا درد، محبت میں بے وفائی کے درد سے زیادہ گہرا ہوتا ہے۔ صرف ایک رات میں پرجاپتی یقین اور ایمان کی کئی سیڑھیوں سے نیچے اتر آئے تھے۔ سب سے اوپر والی پائیدان پر مذہب کی حفاظت ان کے ہاتھ میں تھی۔ مذہب کے تحفظ سے چیت ڈومر تک آتے آتے صرف تسلیوں کا سہارا تھا۔ مذہب کے تباہ ہونے کا خیال اس وقت صرف ایک فرضی کہانی لگ رہی تھی۔ اندر کا برہمن کہیں کھو گیا تھا۔ پرجاپتی کو بابا یاد آ رہے تھے۔ کیا مذہب کا وجود صرف اتنا سا ہے؟ مذہب کی عمارت ایک سے کنڈ میں منہدم ہو جاتی ہے؟ اس دن کی صبح عام صبح سے الگ تھی۔ انہوں نے پوجا پاٹھ بھی نہیں کیا۔ ایک عام آدمی کی طرح غسل کر کے وہ باہر نکل آئے۔ نہ شلوک کا اچارن کیا نہ گھر کے مندر میں ما تھا ٹیکا۔ ایک ناراضگی تھی، جس نے اب تک کے اصول بدل ڈالے تھے۔
اس کے برعکس تارا شکلا کی سوچ الگ تھی۔ لیکن کسی بھی نتائج تک پہنچنے سے پہلے ایک بار وہ چیت ڈومر سے ملنا چاہتی تھی۔ پرجاپتی نے چیت سے پوچھ کر وقت مقرر کر دیا۔ اس کی اصل مخالفت اس ذہنیت سے تھی، جو آج بھی دروپدیوں کو داؤ پر لگا رہے ہیں۔
٭٭
یہ ایک عام سی صبح تھی۔ سڑک پر ٹریفک کا شور ہنگامہ شروع ہو گیا تھا۔
سامنے ایک چھوٹا سا خوبصورت سا بنگلہ تھا لیکن تارا کو اس بنگلے سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ پہرے داروں کو شاید تارا کے آنے کی پیشگی اطلاع دی جا چکی تھی۔ ایک چوکیدار تارا کو ساتھ لے کر ایک خوبصورت سے ڈرائنگ روم میں آ گیا۔ چیت پہلے ہی انتظار کر رہا تھا۔ اس نے گرمی کا سوٹ پہن رکھا تھا۔ دلکش شخصیت کا مالک تھا۔ چیت نے ہاتھ جوڑے پھر کہا۔
‘آئیے، آپ کو بنگلے کا دیدار کرا دوں۔’
تارا مسکرائی۔ ‘میری کوئی دلچسپی نہیں۔’
‘اوہ’ چیت نے اشارہ کیا۔ ‘بیٹھیے۔ پانی تو لیں گی؟ یا آپ بھی برہمن والد کی طرح اچھوت کے گھر پانی پینا پسند نہیں کرتیں؟’
تارا زور سے ہنس دی۔ ‘اچھوت؟ اس بنگلے میں رہنے والا اچھوت کب سے ہو گیا؟’
چیت ڈومر ایک دم سے چونک گیا۔ اسے احساس ہو چکا تھا کہ پرجاپتی اور تارا میں فرق ہے۔ یہ فرق بھی وقت کی دین ہے۔ تارا پر آسانی سے قابو نہیں پایا جا سکتا۔ اس نے مسکرانے کی کوشش کی۔ ‘بنگلہ آ جانے سے اچھوت بدل جاتا ہے کیا؟’
‘کیوں نہیں۔’ تارا ہنسی۔
‘کس طرح؟’
‘کمرے میں کون سی خوشبو استعمال کرتے ہیں آپ؟’ تارا نے بات ہی بدل دی۔
‘آپ نے بتایا نہیں، اچھوت تبدیل کس طرح ہوتا ہے؟’
‘جیسے برہمن بدل جاتا ہے۔’
‘برہمن کب بدلا؟’
‘برہمن پہلے بھی بھیک مانگتے تھے، اب بھی مانگتے ہیں۔’ اب مانگنے کے سٹائل تبدیل ہو گئے ہیں۔ پہلے بھیک کے لئے آپ کے پاس نہیں جاتے تھے۔ اب جانے لگے ہیں۔’ تارا ہنسی۔
‘اوہ۔’
آپ کیا پوورج (آباء و اجداد) جیسے ہو سکتے ہیں؟’
‘مطلب پاخانہ اٹھانے والا؟’ چیت ڈومر، تارا کی آنکھوں میں جھانکنے کی کوشش کر رہا تھا۔
‘یہی سمجھیں۔ اب آپ پرانے پیشے پر نہیں جا سکتے۔ کئی وجوہات ہیں۔ معیشت میں آپ بلند مقام پر چلے گئے۔ تعلیم یافتہ ہیں۔ پائیدان سے کھسکے تب بھی اپنے پیشے تک نہیں لوٹیں گے۔’
‘لیکن داغ تو رہ جاتا ہے۔ یہ ہاتھ دیکھئے’ چیت ڈومر نے اپنے ہاتھوں کو آگے کیا۔ ‘وقت گزرنے کے بعد بھی لگتا ہے ان ہاتھوں کی بدبو نہیں گئی۔ بدبو ختم ہونے میں دو ایک نسل تو نکل جائے گی’
‘اب کیا فرق پڑتا ہے آپ کو۔ سب کچھ تو ہے آپ کے پاس۔ پیسہ۔ بنگلہ۔۔ ۔ گاڑی’ تارا گہری آنکھوں سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ ہاں ایک چیز نہیں ہے۔ دو ایک نسل بعد آپ اس کے لئے بھی جھوٹا دعویٰ تو کر ہی سکتے ہیں۔’
چیت ڈومر اپنی جگہ سے اچھلا۔ ‘مطلب کیا ہے آپ کا؟’
تارا کا لہجہ سپاٹ تھا۔ ‘آپ کی دلچسپی مجھ میں ہے یا میرے برہمن ہونے میں ہے؟’
‘اوہ۔۔ ۔’ چیت ڈومر زور سے ہنسا۔ ‘اب سمجھا آپ کی بات— کتنی دور سے چلتی ہیں آپ؟ بھیگا کر مارتی ہیں۔ میری دلچسپی آپ میں ہے’
‘میرے ساتھ میرے برہمن ہونے میں بھی ہے’
‘ہو سکتا ہے۔’
تارا ایک لمحے کے لیے رکی پھر کہا ‘ابھی آپ اپنے داغ دکھا رہے تھے۔ ہاتھوں کے داغ۔۔ ۔ آپ کے ساتھ رہی تو یہ داغ مجھے بار بار محسوس ہوں گے۔ میں باپ کے اصولوں کو نہیں مانتی۔ میرا پانی پینے کا دل تھا۔ آپ نے داغ دکھا کر پانی پینے کی خواہش ختم کر دی۔ اچھا اب چلتی ہوں’
تارا اٹھ کھڑی ہوئی۔
‘آئیے میں گیٹ تک چھوڑ آؤں’
چیت ڈومر باہر گیٹ تک آیا۔ تارا کو دیکھ کر مسکرایا۔
‘میں وکیل ہوں۔ لیکن آج جرح میں آپ کی جیت ہو گئی۔ میں اپنا موقف نہیں رکھ پایا۔ کچھ داغ واقعی بہت گہرے ہوتے ہیں۔ نسلوں تک بھی ختم نہیں ہوتے۔ اچھا سنیے۔ آپ کو اپنی گاڑی سے چھڑوا دوں۔’
‘نہیں اس کی ضرورت نہیں’
چیت آہستہ سے بولا۔ ‘آپ نے میری خواہش کی لو تیز کر دی ہے۔ اچھا وکیل جلد ہار نہیں مانتا۔’
٭٭
پرجاپتی تارا کے انتظار میں ٹہل رہے تھے۔ تارا کے آتے ہی انہوں نے پوچھا۔
‘کیا ہوا؟’
تارا کا نپا تلا جواب تھا۔ ‘پانی پسند نہیں آیا۔ ‘
‘کیا؟’ پرجاپتی چونک گئے۔ ہم تو پانی تک ڈوب چکے ہیں۔ بٹیا، میں نے کئی وکلاء سے بات کی۔ جو فیس مانگی جاتی ہے وہ دینے کے ہم قابل نہیں ہیں۔ پانی کو پسند تو کرنا پڑے گا؟’
‘چاہے پانی زہریلا کیوں نہ ہو؟’
پرجاپتی نے کمزور لہجے میں کہا۔ ‘بین الاقوامی بینک سے کیا لڑنا آسان ہے؟ مکان بچانے کے لئے کچھ تو سوچنا ہو گا؟’
‘پھر آپ نے وہاں پانی پینے سے انکار کیوں کیا؟’
پرجاپتی اندرونی برہمن کو مارنے پر آمادہ تھے۔ تارا سے بولے — غلطی کی — ‘وقت کے ساتھ چلنا ہو گا بیٹی۔’
٭٭
لیکن پرجاپتی جان رہے تھے۔ تارا کو سمجھانا آسان نہیں۔ کیونکہ تارا کی راہ میں حسن بھی آتا ہے۔ تارا کے انکار کی ایک وجہ حسن بھی ہے۔ اس دن چیت ڈومر نے فون کیا تو انہوں نے ڈرتے ڈرتے حسن کے معاملے کو سامنے رکھ دیا۔ چیت نے سمجھایا، ڈرنے کی بات نہیں ہے۔ ایک بار میں کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ آپ بھی ہار مت مانیے۔ تارا سے کہیے، کہ حسن کو میرے پاس بھیجے۔
پرجاپتی ایک بار پھر آزمائش سے گزر رہے تھے۔ کیا تارا، ڈومر کے پاس جانے کے لئے حسن کو تیار کرے گی؟ فرض کرتے ہیں کہ تارا اس بات کا ذکر حسن سے کرتی ہے، تب بھی کیا ضروری ہے کہ حسن اس کی بات کو قبول کر لے؟ زندگی کے درمیان سیاست کا سانڈ آ گیا تھا۔ اس سانڈکو پرجاپتی پہچانتے تھے۔ اس سانڈ نے پہلے بھی پرجاپتی کو کئی مقام پر زخمی کیا تھا۔ ایک بار پھر یہ سانڈ غرّاتا ہوا ان کے سامنے تھا۔
تارا نے پرجاپتی کی بات سنی تو بلند آواز سے چیخی۔
‘حسن کیوں ملے گا؟ اس معاملے کا حسن سے کیا تعلق ہے۔؟’
‘ملنے میں کیا حرج ہے۔ ہو سکتا ہے، حسن کے ملنے سے مسئلہ کا حل نکل آئے۔’
تارا کے لئے اس نئے مسئلہ کو سمجھنا مشکل تھا۔ لیکن وہ اتنا جانتی تھی کہ حسن اس کی کسی بات سے انکار نہیں کرے گا۔ مخالف حالات سامنے تھے۔ ایک حسن تھا، جس سے وہ محبت کرتی تھی۔ ایک چیت ڈومر تھا جو اس سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ ایک برہمن والد تھے، جو دو اچھوت میں ایک اچھوت کے لئے کمزور ہوئے تھے۔ کمزور اس لیے ہوئے تھے کہ مکان کو بچانا تھا۔ ایک وہ تھی جو بابا کی طرح مکان تو بچانا چاہتی تھی، لیکن بابا کی شرطوں پر نہیں۔ زندگی میں پہلی بار اس نے بابا کو بے بس محسوس کیا تھا۔ واقعات کی غیر مرئی جھریوں میں اب ایک چہرہ بابا کا بھی تھا، جہاں چیت ڈومر کے طور پر وہ ایک محفوظ مستقبل کا خواب دیکھ رہے تھے۔ موسم بہار دیر سے آیا۔ تب آیا جب ایک ٹوٹتے پنجرے کا خوف ان کے چہرے پر پھیل چکا تھا۔
٭٭
اس دن کیفیٹیریا میں اس نے حسن کو ساری بات کھل کر بتا دی۔
حسن ہنسا۔ ‘تو تم چاہتی ہو، تمہارے لئے میں اس چیت ڈومر سے ملاقات کروں؟’
‘ہاں۔’
‘اور کہوں، تارا میری محبت ہے۔ لیکن اب اسے تمہارے حوالے کرتا ہوں۔
یہی چاہتی ہونا….‘
تارا ہنسی ‘ایسا میں نے کب کہا۔’
حسن ہنسا۔ ‘لیکن تمہاری بات سے مطلب تو یہی نکلتا ہے۔’
‘بالکل بھی نہیں’ تارا نے حسن کا ہاتھ تھام لیا۔ ‘لیکن میں چاہتی ہوں کہ تم ملو۔ اور تم معلوم کرو کہ اس کے دل میں کیا ہے؟
‘ٹھیک ہے۔’
حسن خاموش تھا۔ کیفیٹیریا کی سامنے والی کھڑکی سے سورج کا ٹکڑا غائب ہو گیا تھا۔ باہر ممکن ہے آسمان پر بادل چھا گئے ہوں۔ لیکن اس وقت دونوں خاموش تھے اور اس بات سے بے خبر بھی کہ اچانک راستے میں پرجاپتی کا سانڈ آ گیا تھا۔
٭٭٭
چیت ڈومر اور حسن
اس رات خواب میں پرجاپتی پر دوبارہ سانڈ نے حملہ کیا۔ صبح اٹھے تو چہرہ سوجا ہوا تھا۔ واش بیسن پر لگے آئینہ میں اپنے چہرے کو دیکھا تو چونک گئے۔ کچھ خراشیں تھیں جو چہرے پر ابھر آئی تھیں۔ خوفزدہ انداز میں پلٹے تو سامنے سے آئی ہوئی تارا نظر آئی۔ تارا کے چہرے کو غور سے دیکھا تو یہ خراشیں اس کے چہرے پر بھی موجود نظر آئیں۔ پرجاپتی کی آواز میں کپکپاہٹ تھی۔
’کیا تمہیں یقین ہے کہ حسن….‘
’ہاں۔ وہ ملنے ضرور جائے گا۔‘
’اتنا یقین کیسے ہے؟‘ پرجاپتی کو یہ سوال غیر ضروری محسوس ہوا۔ خاموش ہو گئے۔ تارا ان کی طرف دیکھ رہی تھی….لیکن یہ یقین نہیں کہ حسن، ڈومر کی بات مان ہی لے گا….‘
٭٭
حسن کو کئی الجھن نہیں تھی۔ ڈومر کے گھر آنے تک اس نے بہت کچھ سوچ رکھا تھا۔ ڈومر کے گھر پہنچ کر اسے بہت زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا۔ کچھ دیر بعد ہی وہ ڈومر کے خوبصورت ڈرائنگ روم کا حصہ تھا۔ ڈومر کے اندر ایک کشمکش چل رہی تھی۔ ماحول میں کچھ دیر تک سنّاٹا حاوی رہا۔ پھر گفتگو شروع ہوئی۔
٭٭
چیت ڈومر انتہائی مہذب انداز میں باتیں کر رہا تھا۔ گھر کی سجاوٹ قابل دید تھی۔ صرف ایک بات حسن کو کھٹک رہی تھی۔ ڈرائنگ روم میں دیوار پر ایک پینٹنگ تھی، اور جس میں ایک سور کی تصویر بنی ہوئی تھی۔ یہ پینٹنگ ڈرائنگ روم میں سلیقے اور صفائی سے رکھے مہنگے سامانوں سے میچ نہیں کر رہی تھی۔ چیت میں اتنی ذہانت تھی کہ حسن کے چہرے پر پیدا ہوئی لکیروں سے اس کے اندر کا حال جان گیا تھا۔ وہ زور سے ہنسا۔ اس پینٹنگ کو میں نے واشنگٹن کے ایک مال سے خریدا تھا۔ اچھی ہے نا؟
وہ حسن کی جانب مڑا ‘پہلی بار میں ہی یہ پینٹنگ مجھے پسند آ گئی تھی۔ یہ میری پہچان ہے۔ اتنا کہہ کر وہ زور سے ہنسا۔ آگے بڑھ کر حسن نے اس کو فریج کھولتے ہوئے دیکھا۔ دوسرے ہی لمحے ایک خوبصورت گلاس اور پانی کی بوتل کے ساتھ وہ اس کے سامنے تھا۔ اس نے حسن کی آنکھوں میں جھانکا اور ٹھہر-ٹھہر کر کہنا شروع کیا۔
‘اب دیکھئے یہ گلاس، یہ گلاس میرا نہیں ہے۔ اسے میں نے چائنا سے خریدا تھا۔ اور یہ پانی کی بوتل بسلیری ہے، یہ بھی میری نہیں۔ آپ کو اعتراض نہ ہو تو پانی پی سکتے ہیں۔ ویسے میرے پاس ہائی کوالٹی کا اے کوا گارڈ بھی ہے۔ کمپنی کی چیز ہماری کیسی ہو سکتی ہے؟ لیکن اس کے باوجود کچھ لوگ۔۔ ۔ آپ سمجھ رہے ہیں نا۔۔ ۔’
اتنی دیر میں پہلی بار حسن نے اس کے چہرے پر غصے کا عکس دیکھا تھا۔ لیکن کسی ماہر اداکار کی طرح چیت نے اپنے غصے پر فوراً قابو پا لیا۔ اب وہ مسکرا رہا تھا۔ ڈوم، بھنگی، کچھ بھی کہہ لیجئے۔ ہماری قدر تو مغلوں نے کی۔ مہتر کے نام سے پکارا۔ ایک مسلمان دوست تھا۔ اس نے بتایا کہ مہتر کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ اب آپ بتائیے۔ کتنی خوبصورت زبان ہے، یہ اردو بھی۔ انسانوں کی گندگی کا بوجھ ڈھونے والے، چاند سے بھی زیادہ خوبصورت ہو گئے۔
جہاں چیت ڈومر بیٹھا تھا، اس کے پشت پر کتابوں کی المیرا تھی۔ قانون سے متعلق موٹی موٹی کتابیں اس کے پیشے کا تعارف کرانے کے لئے کافی تھیں۔ حسن فرخ نے اس کا غور سے جائزہ لیا۔ اس وقت وہ نیلے رنگ کی سفاری میں تھا۔ اس نے شادی نہیں کی تھی۔ ذات پات کی سیاست اور نظام کو لے کر وہ اب بھی اپنے تاثرات چھپانے میں ناکام تھا۔ مگر اس کے باوجود اس کی کوشش جاری تھی۔ اچانک اس کے ہونٹوں پر ایک معنی خیز مسکراہٹ پیدا ہو گئی۔
‘آپ تو پانی پینے سے انکار نہیں کریں گے؟’
حسن نے ایک نظر چیت ڈومر پر ڈالی۔ اس کے ہاتھ سے پانی کی بوتل لی۔ گلاس میں پانی ڈھالا۔ ایک سانس میں پی گیا۔ پھر کچھ دیر تک چیت ڈومر کو دیکھتا رہا۔
‘اتنا بڑا بنگلہ۔ اتنے پیسے والے۔ پھر ان سب کے باوجود ماضی میں کیوں جیتے ہیں۔؟ ایک وقت تھا، جب ہندوؤں کے گھر میں مسلمانوں کے لئے بھی گلاس الگ ہوتے تھے۔ کیا آج ایسا ہے؟’
چیت ڈومر مسکرایا ‘آج بھی ایسا ہے۔ آج بھی وہی تاریخ ہے۔ ہم سے ہاتھ ملانے کے بعد ایسے لوگ بھی ہیں جو واش بیسن میں جا کر ہاتھ دھوتے ہیں۔ ایسے لوگ سیاست سے عام، زندگی تک موجود ہیں۔ آپ کے ساتھ بھی، اب بھی یہی ہو رہا ہے۔ برہمن آپ کے گھر پانی نہیں پئے گا۔ بہانا بنا دے گا۔’
چیت مسکرایا۔ ‘پانی تو ایک بہانہ ہے سر جی۔ میں پانی کے بہانے انسان کی سوچ کا اندازہ لگاتا ہوں۔ دور کیوں جائیں، ابھی حال ہی میں، ایک انتخابی ریلی میں ایک برہمن نے قطار میں کھڑے ایک دلت لیڈر کا ہاتھ جھٹک دیا۔ سائنس بڑھا ہے سر جی، آدمی نہیں بڑھا — آدمی اور چھوٹا ہوا ہے سر جی۔ جانتے ہیں، میں نے کیوں آپ کو ملنے کے لئے کہا؟’
‘نہیں’
‘ہم ہر طرف مارے جا رہے ہیں۔ پورے ملک میں۔ اس سچ سے آپ انکار تو نہیں کریں گے؟ دلت مہادلت، مسلمان، اگڑا، پسماندہ، او بی سی’ چیت ڈومر، حسن کی آنکھوں میں جھانک رہا تھا۔ ‘سیاست سے معاشرے تک ہمارا اتحاد ضروری ہے۔ جہاں آپ ہماری حمایت کر سکتے ہیں، وہاں آپ ضرور کریں۔ جہاں، ہم آپ کی حمایت کر سکتے ہیں، وہاں ہم سامنے آئیں گے۔’
حسن کشمکش کے عالم میں تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس وقت اس گفتگو کا جواز کیا ہے؟ وہ آہستہ آہستہ چیت ڈومر کو پڑھنے کی کوشش کر رہا تھا۔
چیت نے آگے کہا۔ ‘ہمارا ترقی کرنا اب بھی ایک بڑے معاشرے کو گوارا نہیں ہے۔ وہ ہمیں صدیوں میں نہیں اپنا سکے۔ اب کیا اپنائیں گے۔ آپ میری بات سمجھ رہے ہیں نا؟’
‘نہیں؟’ حسن کا جواب سپاٹ تھا۔ ‘بہتر ہو گا کہ آپ مقصد پر آ جائیں، سیاست کی کیا ضرورت ہے؟’
‘اوہ’ چیت ڈومر نے لمبا سانس کھینچا۔ ‘اسے سیاست مت کہئے۔ ابھی دیکھئے — اس کہانی میں کیا ہے؟ ایک برہمن کی بیٹی۔ ایک ڈوم۔۔ ۔ ایک مسلمان۔’
‘اوہ۔۔ ۔ یہ تو میں نے سوچا بھی نہیں تھا۔۔ ۔ محبت میں سیاست؟’
‘سیاست نہیں حمایت مانگ رہا ہوں۔’ چیت ڈومر کی آواز میں تلخی سرایت کر گئی تھی۔ ‘اب دیکھئے برہمن آپ کو گوارا نہیں کرے گا۔ آپ دوسرے مذہب کے ہیں۔ لیکن ہم ہندو ہیں۔ ہم اقتصادی مضبوطی کے ساتھ ان کے برابر میں کھڑے ہیں۔’
‘کیا واقعی برابر میں کھڑے ہیں۔؟’
چیت کی آنکھوں میں ناگواری سمٹ آئی۔ ‘ہم جہاں کھڑے ہیں، وہاں آ کر وہ بھی اپنی ذات پات بھول جاتے ہیں۔ یہاں اس کہانی میں آپ نہیں ہوتے تو مجھے ان کی مکمل حمایت حاصل تھی۔
‘تو آپ میرا نہیں، ایک مسلمان کی حمایت مانگ رہے ہیں؟’
‘ہاں، کیونکہ وہ آپ کو قبول نہیں کریں گے؟‘
‘پرجاپتی نہیں کریں گے۔ لیکن تارا نے تو مجھے ہی قبول کیا ہے۔’ حسن مسکرایا۔
پرجاپتی کچھ دیر کے لئے خاموش ہوا۔ اس کی آنکھیں اکیوریم کی طرف دیکھ رہی تھیں۔ وہ پھر حسن کی جانب پلٹا۔
‘یہ صورتحال نہ ہوتی تو آپ کو کیوں بلاتا؟’
حسن نے غور سے چیت ڈومر کو دیکھا۔
چیت پر مایوسی سوار تھی۔ وہ اچانک کرسی پر ہلنے لگا تھا۔ حسن نے غور سے اس کی طرف دیکھا۔
‘کیا آپ اسے محبت کہیں گے۔؟’
چیت نے کچھ دیر سوچنے کے بعد جواب دیا۔
‘نہیں۔’
حسن نے ٹھہر کر کہا ‘اچھا مان لیں میں آپ کے درمیان سے ہٹ جاتا ہوں۔ سوچ کر بتائیے۔ یہ شادی معاہدہ ہو گا یا انتقام؟’
چیت نے یہ جملہ سنا ہی نہیں۔ وہ کسی کو زور سے آواز دے رہا تھا۔ ایک خادم آیا تو اس نے غصے سے اکیوریم کی طرف اشارہ کیا۔ ‘اکیوریم کا پانی نہیں بدلا گیا۔ مجھے کتنی بار بتانا ہو گا کہ اندر کا پانی بدلا نہیں جائے تو پانی گندا ہو جاتا ہے۔ وہ زور سے چیخا۔ ‘لگتا ہے وہ سنہری مچھلی مر گئی۔’
اکیوریم کے رنگین پانی میں اس وقت جمود تھا۔ مچھلیاں نظر نہیں آ رہی تھیں۔ اندر جلتے بجھتے رہے رنگین قمقموں کی روشنی میں، شیشے کے چھوٹے سے اکیوریم میں اس وقت حسن کو گہرے سناٹے کا احساس ہوا— اب اسی سناٹے کی زد میں وہ خود بھی تھا۔
حسن خاموشی سے چیت ڈومر کے گھر سے باہر نکل گیا۔ دھوپ تیز تھی۔ آگ کی بارش ہو رہی تھی۔ سڑک پر ٹریفک زیادہ نہیں تھا۔ وہ جانتا تھا کہ پرجاپتی اور تارا کو اس بات کا انتظار ہو گا کہ چیت ڈومر سے اس کی کیا باتیں ہوئیں؟ رشتوں کی سیاست کے اس بوسیدہ صفحے پر ایسا اندھیرا سمٹا ہوا تھا، جس کے بارے میں وہ کچھ بھی کہنا یا بتانا نہیں چاہتا تھا۔ توجہ، ہٹانے کے لئے اس نے اکیوریم کی سنہری مچھلی کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا۔ کیا وہ واقعی تھی؟ کیا وہ واقعی گندے پانی میں مر گئی تھی؟
٭٭٭
پینٹنگ اور سور
پرجاپتی اس بات سے بے خبر تھے کہ حسن اور ڈومر کے درمیان کیا گفتگو ہوئی ہو گی۔ وہ مکان کے تحفظ کے لئے حسن کو اس پورے منظر نامے سے الگ کرنا چاہتے تھے ….اس دن انہوں نے دیر تک پوجا پاٹھ کی۔ پوجا پاٹھ کے بعد وہ کچھ دیر خاموشی سے اپنے کمرے میں گزارتے تھے۔ آنکھیں بند کیں تو احساس ہوا کمرے میں پانی بھر آیا ہے ….پانی کی سطح اس قدر اونچی ہو گئی کہ ان کے لئے سانس تک لینا دشوار ہو گیا۔ وہ اس بات سے واقف تھے کہ مقدمہ چلا تو مکان کو بچانا ان کے لئے دشوار ہو جائے گا….غرّاتا ہوا سانڈ ایک بار پھر ان کے سامنے تھا۔ ساتھ ہی پانی کی سطح کچھ اور اونچی ہو گئی تھی۔
اس درمیان تارا نے آ کر خبر دی کہ وہ حسن سے ملنے جا رہی ہے حسن کا فون آیا تھا۔ پرجاپتی نے کانپتی آواز میں کہا۔ معاملہ سلجھا لینا۔ محبت سے زیادہ مکان کا تحفظ ضروری ہے۔ تارا نے کوئی جواب نہیں دیا۔
٭٭
کھڑکی کے باہر دھوپ کی کرنوں کا رقص جاری تھا۔
چیت ڈومر سے ملاقات کے بعد حسن اور تارا ایک بار پھر کیفیٹیریا میں تھے۔ دونوں طرف بوجھل کر دینے والی خاموشی غالب تھی۔
آخر اس خاموشی کا اختتام حسن نے کیا۔ ‘بابا کہاں ہیں؟’
‘وہ ٹھیک ہیں۔’
‘یہ تم کیسے کہہ سکتی ہو؟’
‘کیوں کہ میں انہیں جانتی ہوں۔’ تارا نے ٹھہر کر حسن کی آنکھوں میں جھانکنے کی کوشش کی۔ ‘انسانی تاریخ کے المناک صفحات سے نکل کر اب وہ ایک نئے خواب کی فنٹاسی میں جی رہے ہیں۔’
حسن اپنی جگہ سے اچھلا۔ ‘تمہارا مطلب ہے۔۔ ۔’
تارا نے اس کی بات درمیان میں ہی کاٹ دی۔ ‘تم نہیں سمجھو گے۔ شکست خوردہ ہو کر بھی فتح کے ایک نئے باب کو کھولا جا سکتا ہے۔’
‘تو کیا اس نئے باب میں وہ سب کچھ بھول سکیں گے۔؟’
‘ہاں۔’
‘ماضی کو بھولنا آسان ہوتا ہے؟’
‘نئے خواب کو جگہ دینے کے لئے ماضی کو بھولنا ہوتا ہے۔’ تارا کا جواب تھا۔
‘پھر تم کیا کرو گی۔؟’
‘میں —‘ تارا ایک لمحے کے لیے سوچ میں ڈوب گئی۔ ‘پتہ نہیں — مکان درمیان میں نہیں آتا تو فیصلہ کرنے میں آسانی ہوتی۔’
اس بار حسن کے چہرے پر ایک شکست خوردہ مسکراہٹ تھی۔ ‘اچھا یہ بتاؤ، اب اس کہانی میں ‘میں’ کہاں ہوں؟’
کچھ دیر تک سناٹا چھایا جا رہا—
تارا اچانک زور سے ہنسی— ‘جہاں پہلے تھے۔ اپنی کرسی پر۔’
‘اور تم؟’ حسن کو یہ پوچھنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔
لیکن اسی لمحے ایک واقعہ پیش آیا۔ میز کے ٹھیک سامنے والی کھڑکی پر وہ پینٹنگ آ گئی، جو حسن نے چیت ڈومر کے ڈرائنگ روم میں دیکھی تھی۔ سور والی پینٹنگ- اور اسے تعجب ہوا تھا کہ یہ پینٹنگ اتنی خوبصورت دیوار پر آویزاں کیوں ہے؟ حسن نے آنکھیں مل کر دوبارہ دیکھا .کھڑکی سے سورج غائب تھا۔ سور پینٹنگ سے باہر آنے کی کوشش کر رہا تھا۔
٭٭٭
مصنف کی فیس بک پوسٹ سے ماخوذ
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں