FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

نخلِ تمنا

 

معظمؔ علی اعوان

تشکر: کتاب ایپ، مرحوم

 

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں

 

 

ورڈ فائل

 

ای پب فائل

 

کنڈل فائل

 

انتساب

 

تری محبت میں بابا جانی!

یہ میرے حرفے ہیں نام تیرے

یہ میرے کندھے بھی ہیں جھکے سے

ہے تیری شفقت کا ہاتھ اِن پر

میں زندگی کی اداس رہ میں

یہ سر اٹھائے جو چل رہا ہوں

 

اک ایک لمحے میں اپنی ماں کی

دعا سے کندن میں ڈھل رہا ہوں

 

 

 

 

 

 

ایک شجر کی اُداس خود نوشت

 

نخلِ تمنا۔۔۔ اپنے عنوان کے مصداق چند جلتی بجھتی خواہشوں، الجھی سلجھی تدبیروں اور تشنہ کامیوں کی بنیاد پر ایستادہ ایک ایسے پیڑ کی شبیہ ہے جس کا تعلق زمین کی گہرائیوں سے استوار ہے اور اُٹھان فضائے رنگ و بو میں کشاں ہے۔ پیڑ سایہ کشا ہوتا ہے، دھوپ رسا بھی۔ وہ نہ صرف اپنے حصے کی، بلکہ اوروں کے حصے کی دھوپ اور تپش اپنے وجود پر لیتے ہوئے تناوری کا شوق پالتا ہے۔ موسم، بے آب و گیاہ دھرتی کی محرومی، سرد و گرم ہواؤں کا سامنا، بقا کی جنگ میں خود کفالت کا بوجھ۔۔۔ نہ جانے کتنے مسائل سے اُسے نمٹنا پڑتا ہے۔ بسا اوقات اپنی ہویت کا سوال بھی اُسے پریشان کیے رکھتا ہے۔ زیرِ مطالعہ مجموعہ کلام "نخلِ تمنا” بھی انہی دُکھوں، اضطراب اور درد سے گندھا ہوا ہے جس کی تعمیر میں معظم علی اعوان کی انگلیوں کی پوریں تک چھل گئی ہیں۔ رستا ہوا لہو، نہ جھیلی جانے والی جلن اور سینے پر رکھا ہوا انا کا بھاری پتھر۔۔۔ سیکڑوں اشعار کے خالق کو ہر آن اضطراب سے معمور فضا میں سانسیں لینے پر مجبور کیے رکھتے ہیں۔

معظم علی اعوان کی شاعری میں ہر وہ توانائی موجود ہے جو کسی بھی پختہ کار شاعر کے اولیں مجموعہ کلام میں بہ آسانی دیکھی جاتی ہے۔ بے باکی۔۔۔ گویا اس نے جو دیکھا اور سوچا، اس کا نتیجہ من و عن تحریر کر دیا۔ یہ اندیشہ اس کے نزدیک نہیں گیا تھا کہ پڑھنے والے اس کو کس میزان پر رکھیں گے اور کس معیار سے منسلک کرتے ہوئے اس کا کون سا مقام تجویز کریں گے۔

بے ساختگی۔۔۔ گویا اس نے اپنے دل کو ہی قلم تھما دیا تھا اور انگلیوں اور ذہن کو دل کے تابع کر دیا تھا۔ یہی بے ساختگی بچوں میں پائی جاتی ہے اور اسی کی بنیاد پر بچوں کو دنیا کی خوبصورت تخلیق کہا جاتا ہے۔ ملاوٹ ہمیشہ تصنع اور بناوٹ پر مائل کرتی ہے اور انسان کے ارتکاز کو کمزور کرتی ہے۔ معظم علی اعوان نے اپنے ارتکاز کو کہیں بھی کمزور نہیں ہونے دیا اور لفظوں کی بلیک میلنگ کو قبول نہ کرتے ہوئے اپنے لیے نئے راستے تلاش کیے۔

قدر شناسی۔۔۔ گویا معظم علی اعوان فہم خیز ادراک کا مالک ہے کہ اسے نہ صرف ادبی قدروں سے مکمل شناسائی ہے بلکہ وہ ان اقدار کو بہ خوشی قبول کرتے ہوئے نئی دنیاؤں کی کھوج میں نکلتا ہے۔ یہ آگہی اس کے اشعار میں ایک عجیب نوع کا تنوع بھی پیدا کرتی ہے اور فکر میں اپنائیت کا بھرپور لمس بھی۔ بجا طور پر یہ شناسائی کی تاب و تمکنت اقدار کے مطالعے کے بعد نصیب ہوتی ہے اور مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ معظم علی اعوان مطالعے کا شائق ہے۔ وہ لفظوں کے چناؤ میں احتیاط برتتے ہوئے بھی اپنی بے ساختہ روی پر ضرب نہیں لگنے دیتا۔

اُس نے اپنے شعری خزینے میں اپنی نوعمری کی تمام تر جذباتیت سمونے کے ساتھ ساتھ اپنے مشاہدات اور محسوسات کو بھی سخنے درمے قرطاس پر ثبت کیا ہے۔ انسانی معاشرے کی بدلتی ہوئی قدریں ہر عہد میں تخلیق کار پر اثر انداز ہوتی دکھائی دیتی ہیں۔ ان میں سے کچھ تغیرات کو تخلیق کار قبول کر لیتا ہے اور کچھ اس کے مزاج سے ہم آہنگ نہ ہونے کی بنیاد پر اس کے لیے ناقابلِ قبول ہوتے ہیں۔ ان میں سے بھی کچھ تبدیلیوں پر وہ سرخ دائرہ کھینچ کر اعلان کر دیتا ہے کہ اس کی بدلتی ہوئی سوچوں نے بھی ان کو تبدیل نہیں کیا۔ کچھ ایسی ہی وارداتیں زیر نظر مجموعہ کلام میں دکھائی دیتی ہیں جو شاعر کے بہترین تشخص کی تعمیر کرتی ہوئی اسلوب کا تعین کرتی ہیں۔

اس کی طبیعت میں خلوص، سادگی اور آگے بڑھنے کی تمنا پائی جاتی ہے۔ دھیما لہجہ اس کے مزاج کی پختہ کاری کا آئینہ ہے۔ یہ اوصاف جہاں اس کی شخصیت میں پائے جاتے ہیں، وہاں اس کی تخلیق میں بھی پوری آب و تاب سے موجود ہیں۔ منکسر المزاجی اور خود داری جیسے اوصاف کی طرف وہ اشارہ کناں ہے اور سوچتا ہے کہ جب تک ایک انسان دوسرے انسان سے محبت نہیں کرے گا، دوسرے کے حقوق اور آسانی کا خیال نہیں کرے گا، تب تک معاشرے میں امن کے قیام کا خواب دیکھنا بھی عبث ہے۔ وہ امن پسند ہے۔ دنیا کو پرامن اور رواں دواں دیکھنا چاہتا ہے اور اپنے یہی خیالات قرطاس پر بکھیر کر خود کو مطمئن کر لیتا ہے۔ اُسے یہی کرنا ہے مگر وہ اس سے بھی زیادہ کر دکھاتا ہے۔ وہ انسان کو غمزدہ، زخمی یا محروم دیکھ کر افسردہ ہوتا ہے، اپنی توانائیاں سمیٹ کر ہاتھ بڑھاتا ہے اور ہاتھ پکڑنے والے کو کنارے لگانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہیں پر وہ خود کو اپنے خیالات و خواہشات کے ہم آہنگ کرتا ہوا بہت خوبصورت نظر آتا ہے۔ اتفاق سے جس لمحے میں اس کے چہرے پر انسانی ہمدردی اور دوستی کا آفتاب اُترتا ہے، وہ لمحہ میں دیکھ چکا ہوں اور اُس لمحے میں بے چین معظم علی اعوان کے تعلق پر مجھے بے انتہا فخر محسوس ہوا۔

وہ اپنی جھولی میں گرے ہوئے آنسوؤں کو پلکوں سے چن کر مالا میں پروتا ہے اور ڈائری پر شعر کی صورت نقش کر دیتا ہے۔ اس جہت کو کسی عروضی پیمانوں پر پرکھنے کی چنداں ضرورت نہیں رہتی مگر وہ بحور، اوزان، قوافی، ردیف اور بیان کی ندرتوں اور ادبی لطافتوں کو نظر انداز نہیں کرتا بلکہ ہر انداز سے پرکھ کر پیش کرتا ہے۔ یہی یا ایسے ہی کچھ پیمانے اس نے اپنے روز و شب کے معمول پر بھی تعینات کر رکھے ہیں جن کی مدد سے وہ اچھی، پرسکون اور متوازن زندگی گزارنے کے لائق ہو چکا ہے۔ اُسے وطن کی یاد ستاتی ہے، اپنوں کے خاموش چہرے بلاتے ہیں اور احساسِ ذمہ داری نخلِ تمنا کی ثمر باری میں رکاوٹ ڈالتا ہے، وہ سرِ تسلیم خم سبھی کی رضا مندیوں کی تلاش میں ایک سیدھ میں چلا جا رہا ہے اور یہی اس کی بہترین حکمتِ عملی ہے۔ اس کی تخلیاتی دنیا اس کی موجودہ فضاؤں کے متصادم نہیں ہے بلکہ انہی فضاؤں سے راستہ نکالنے کی جد و جہد میں مصروف ہے۔

معظم علی اعوان۔۔۔ ایک خوبصورت انسان اور نفیس شاعر ہے۔ اُس کی شاعری اس کی شخصیت کی آئینہ دار ہے اس لیے میں ضروری نہیں سمجھتا کہ اس کے اشعار یہاں پیش کروں اور اس کے قارئین کو ایک مخصوص فکری ڈگر پر چلانے کی کوشش کروں۔ بس اتنا ہی کہوں گا کہ زیرِ مطالعہ مجموعہ کلام "نخلِ تمنا” میں قارئین کے لیے اچھے اشعار کی تسلی بخش تعداد موجود ہے جنہیں وہ اپنے ذوق کے مطابق چن سکتے ہیں۔

دُعا ہے کہ یہ خوب صورت انسان، اپنی دنیا کو معتبر اور خوبصورت کرنے میں کامیاب ہو جائے۔ آمین

ناصر ملک

اردو سخن ڈاٹ کام، پاکستان

 

 

 

 

 

نخلِ تمنا اور موسموں کا سفر

 

پہلا شعر کیا لکھا تھا؟ ۔۔۔ یہ تو یاد نہیں کہ خیالِ یار میں صرف یار یاد رہ جاتا ہے، خیال یاد نہیں رہتا۔

شعر لکھنے کا آغاز غالباً پندرہ سولہ سال کی عمر میں ہوا۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں نے کالج کے زمانے میں اردو کے پروفیسر صاحب کو شاعری کی ڈائری دکھائی تو ان کے بقول مونچھ داڑھی آنے سے پہلے کی عمر میں محبت کے فسانے کیسے بیان ہو سکتے ہیں؟ اور تقریباً کم و بیش ایسی ہی سوچ نے ہر جگہ لفظوں میں چھپے کرب کا استقبال کیا۔ یہی سوچ ہماری معاشرتی گھٹن ہے۔ ہم ایک بچے کو پہلی بار ٹوٹی پھوٹی زبان میں بولتے دیکھ کر بہت محظوظ ہوتے ہیں اور اسی بچے کو بڑا ہو کر کسی نئے کام کو ٹوٹے پھوٹے انداز میں کرنے پہ طنز کے چابک سے لہولہان کر ڈالتے ہیں۔

کسی نے ایک بار پوچھا کہ یار تم پیشے کے اعتبار سے انجنئیر ہو، شاعر کیسے بن گئے؟

اسے میں کیسے سمجھاتا کہ میَں تو انجینئیر بنا ہوں، شاعر نہیں بنا کیونکہ شاعر "بنا” نہیں جاتا بلکہ شاعر ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔

شعر گوئی کے سفر میں ایک عرصہ ایسا بھی آیا کہ زندگی مشینوں کے سانچے میں ایسی ڈھلی کہ دل کی زمین بنجر ہونے لگی۔ ایک دن آورد کے سلسلے کو بہ بحرِ خیال جاری کرنے کی کوشش کی مگر بے سود۔ خیالات تھے کہ آپس میں گتھم گتھا ہو کر رہ گئے۔ یوں کہ کسی بھی خیال کا سرا سرے سے ہاتھ ہی نہ آتا تھا۔ بے بسی اور غصے کے ملے جلے جذبات لئے قلم پھینک ڈالا اور روکر غبارِ خاطر محو کر لیا۔ اس دن مجھے احساس ہوا کہ عورت کی کوکھ بانجھ ہو جائے تو اس کا حسن ہی اسے ڈسنے لگ جاتا ہے۔

اس کتاب میں ایک نظم اپنے بیٹے محمد زیان اعوان کے لئے ہے۔ وہ اس وقت تو اسے نہیں پڑھ پائے گا مگر ایک دن آئے گا جب وہ اس قابل ہو جائے گا کہ ان الفاظ میں رچے لمس اور ان میں بسی محبت کو محسوس کرے گا اور اس دن مجھے ان الفاظ کی قیمت وصول ہو جائے گی۔

میَں خاص طور پہ اپنے ماموں اور دوست ملک اعظم شائیگان اعوان کی خدمت میں گلدستہ ہائے عقیدت پیش کروں گا کہ جن سے مجھے حقِ ننھیال سے سوا محبت اور خلوص ملا اور جنھوں نے ہمیشہ نخلِ تمنا کی آبیاری کا سامان کئے رکھا۔

آج کے دور میں متضاد النظریات اذہان کا قریب ہونا اور ایک دوسرے سے جڑے رہنا کسی معجزے سے کم نہیں کیونکہ ہم انسان سیاسی، سماجی اور فکری رویوں میں اس قدر کھوکھلے ہو چکے ہیں کہ متضاد رائے کا ہلکا سا چیر بھی رشتوں کے بخیئے ادھیڑ دیتا ہے۔ مگر میَں پیارے دوست علی رضا کا شکریہ ادا کروں گا کہ جس سے لاکھ نظریاتی اختلافات کے باوجود دوستی کا پودا پوری آب و تاب کے ساتھ تناوری اور بالیدگی کی طرف گامزن ہے۔

اپنے استادِ محترم جناب ناصر ملک صاحب کے سپاس کے لئے مجھے اپنی لفظی کم مائیگی اور کج علمی کا اقرار کرنے میں کوئی عار نہیں کہ میرے الفاظ شاید میرے احساسات اور محبتوں کی ترجمانی نہ کر سکیں۔ انھوں نے مجھے شاعری سے محبت کرنے کا سلیقہ سکھایا۔ محبت کرنے اور سلیقے سے محبت کرنے کے فرق کو ان کی ذاتِ شیریں نے بطریق احسن منکشف کیا۔ اس کتاب کی اشاعت میں ان کی کمال جانفشانی اور ذاتی توجہ مضاف ہے۔

آخر ش، ان تمام احباب کا شکریہ جو زندگی کے اس سفر میں میرے ساتھ ہیں اور ان کا بھی جو میرے ساتھ تھے۔ گو کہ ان میں سے کچھ نعمت اور کچھ عبرت بن کے ملے۔ مگر میَں سب کا دلی ممنون ہوں جن کی بدو لت زندگی کے صحرا میں نخل تمنا کا سراغ ملا۔

نخل تمنا زندگی کے سفر میں محسوس کئے ہوئے محسوسات کا مجموعہ ہے۔ اور آپ قارئین بھی اب اس سفر میں میرے ساتھ ہیں۔

 

معظم علی اعوان

ابو ظہبی – متحدہ عرب امارات

ای میل: moazamali83@yahoo.com

٭٭٭

 

 

 

نعت رسول مقبولﷺ

 

کوئی شغف نہ ہوتا مجھے بھی نمود سے

مجھ کو خدا ملا ہے نبی کے وجود سے

 

گلدستہ ہائے انس میں ہیں گل حروف کے

گر ہو قبول ہدیہ یہ قلمِ جمود سے

 

دولت جہاں کی بانٹی تمہارے ہی ذکر نے

میَں خوش وطن ہوا ہوں ترے ہی درود سے

 

تیرے ہی ایک قول سے مجھے مل گئی شفا

میں نے خدا کو مانگ لیا تھا سجود سے

 

رحمت ہیں آپ تو سبھی دنیاؤں کے لئے

آزاد کالی کملی ہے زماں کی قیود سے

 

تیرے بغیر تو نہ تھی مخلوق کی نمو

دنیا کو ماپا جائے گا تیری حدود سے

 

 

 

 

 

نفرتوں کے درمیاں چاہتوں کے درمیاں

ایک وہ جو رہتا ہے قربتوں کے درمیاں

 

خدمتِ جمہور کی فکر کیا ہے اُن کو جب

ہر گھڑی حاکم رہیں دعوتوں کے درمیاں

 

نفرتیں، تنہائیاں، مضطرب سوچوں کا جال

آج کا انسان تو ہے آفتوں کے درمیاں

 

جل بجھے سے لوگ ہیں، بجھی ہوئی تنہائیاں

نفرتیں حائل ہیں اب چاہتوں کے درمیاں

 

تین وقت کی غذا بھی دسترس سے دور ہے

مزدور پس گیا یہاں آجروں کے درمیاں

 

 

 

 

شام سے بادل چھائے ہوئے ہیں

لگتا ہے کہ وہ آئے ہوئے ہیں

 

ان کی یادوں کی خوشبو سے

یہ جیون مہکائے ہوئے ہیں

 

خالی ہنڈیا میں ڈال کے پانی

بچوں کو بہلائے ہوئے ہیں

 

میرے شہر کے اکثر لوگ

جھوٹ حرص کے کھائے ہوئے ہیں

 

میَں اور میری چاہت دونوں

انا کی لاش اُٹھائے ہوئے ہیں

 

تیری گلی کے پتھر تو ہم نے

سارے شہر سے کھائے ہوئے ہیں

 

اپنے ہاتھوں سے ہم دونوں جاناں

اپنے خواب جلائے ہوئے ہیں

 

بس کوئی آئے ٹھہرے اور جائے

ہم گویا سرائے ہوئے ہیں

 

تجھ سے بچھڑ کے ساری خوشیاں

ان پیروں سے ٹھکرائے ہوئے ہیں

 

تم میری دُکھتی رگ نہ چھیڑو

ان سے دھوکہ کھائے ہوئے ہیں

 

جاں سے جانا، شرطِ وفا تو

آیا یہ بھی نبھائے ہوئے ہیں

 

معظم ترے لئے اس دنیا کے تو

سارے درد اٹھائے ہوئے ہیں

 

 

 

 

 

کیا گلہ ان سے کروں جب رابطہ ہی ایسا تھا

تھامتا دامن مگر وہ فاصلہ ہی ایسا تھا

 

روکنے کے باوجود آنکھوں سے آنسو بہہ گئے

وقتِ رخصت اُس کا مجھ کو دیکھنا ہی ایسا تھا

 

لاکھ چہرے تھے مگر بزمِ وفا میں اُس گھڑی

یہ نظر اُس پر جمی، وہ دِل ربا ہی ایسا تھا

 

جو بہا تو ساری بستی کو بہا کر لے گیا

میری آنکھوں سے نکلتا قافلہ ہی ایسا تھا

 

جس گلی میں بھی گئے تحفے میں پتھر ہی ملے

نیک نامی کا معظم ماجرا ہی ایسا تھا

 

 

 

 

 

جا بجا راہوں میں ایسے حادثے ہونے لگے

لوگ اب بیداریوں کی گود میں سونے لگے

 

دوستو! ان کا محبت میں بھلا انجام کیا

وہ جو آغازِ محبت میں عدو بونے لگے

 

نام اب کیسے لبوں پر لاؤں، کیا آواز دوں

وہ مری آواز کی پہچان ہی کھونے لگے

 

جب خلوصِ دل سے میں نے یاد یزداں کو کیا

خود فرشتے آ کے میرا داغ دل دھونے لگے

 

دے رہے ہیں حضرتِ واعظ جو لالچ حور کا

یعنی سودے مسجدوں میں دین کے ہونے لگے

 

آج پھر مظلومیت کا خون بہنے لگ گیا

اپنے قامت سے تو رہبر ہی مجھے بونے لگے

 

بھوک کا منظر معظم کس قدر ہو کرب ناک

بچہ اپنی ماں کے سینے سے لگا رونے لگے

 

 

 

 

 

دھوپ بھی چھاؤں لگی ہے آج تیرے شہر میں

زندگی کی دلکشی ہے آج تیرے شہر میں

 

چاند اور تارے بھی ہیں، یہ پھول بھی شبنم بکف

ایک بس تیری کمی ہے آج تیرے شہر میں

 

چار سو تیرے مکمل حسن کا چرچا ہوا

کیا عجب سی تازگی ہے آج تیرے شہر میں

 

دیکھ! برکھا ہے پوَن ہے یا کہ خونِ آرزو

ہر بصارت شبنمی ہے آج تیرے شہر میں

 

لال پتھر بھر لئے ہیں آج اپنی جھولی میں

مجھ کو یہ دولت ملی ہے آج تیرے شہر میں

 

آخرش اس موت کے پرتو معظم کہہ گئے

زندگی ہی زندگی ہے، آج تیرے شہر میں

 

 

 

 

 

عجب سا میَں نے دیکھا چاند سا مکھڑا

مجھے سونے نہ دے گا چاند سا مکھڑا

 

یقیناً وہ مہِ کامل سے اُجلا ہے

سبھی تاروں سے پیارا چاند سا مکھڑا

 

لباسِ ابر میں چھپتا نکلتا تھا

بڑا ہی ضو فشاں تھا چاند سا مکھڑا

 

شبِ امید کا بھیگا ہوا دامن

بڑی شدت سے رویا چاند سا مکھڑا

 

کہر آلود شب تھی اور وہ بھی تھا

منور چاند سے تھا چاند سا مکھڑا

 

معظم کی ہتھیلی جگمگاتی ہے

کسی ریکھا میں ہو گا چاند سا مکھڑا

 

 

 

 

 

خدا کے پیار کی صورت وفائیں جاگتی ہیں

میَں سوتا ہوں مگر ماں کی دعائیں جاگتی ہیں

 

یزیدی فوج نے اک پردۂ زینب اُتارا

ابھی تک ہر جگہ کالی ردائیں جاگتی ہیں

 

ارادت ہو چکی تختِ تحیر کی مگر کیوں

ابھی بھی مسکرانے کی ادائیں جاگتی ہیں

 

پرندوں سے کہو پیڑوں کی عریانی چھپا لیں

بہاریں سو چکی ساری، خزائیں جاگتی ہیں

 

یہ نازک حوصلے لے کر کدھر آئے معظم

کہ اس شہرِ بغاوت میں بلائیں جاگتی ہیں

 

 

 

 

 

سارے کا سارا شہر ہی بکھر گیا ہے آج

یہ کون میکدے سے چپ گزر گیا ہے آج

 

کھیتی کے باب میں دعا ہوئی قبول تو

کچے مرے مکان سے دل ڈر گیا ہے آج

 

پھرتا تھا ساری رات جو تاروں کی بھیڑ میں

وہ دیکھو سرِ شام ہی اب گھر گیا ہے آج

 

جس پھول کو پسند ہی نہ تھا لباسِ خاک

آغوشِ زلفِ یار میں سنور گیا ہے آج

 

سب چھوڑ چھاڑ کے نکل گیا ہے دشت کو

دل شہرِ پر ہجوم سے جو بھر گیا ہے آج

 

 

سیاہ راتوں میں تارا، احمریں آنکھیں

فَروزاں تاج محل سی کلی بدیں آنکھیں

 

ذرا کو جو جھک گئیں تو رُک گیا عالَم

سمَے کی دھڑکنیں ہیں یہ نازنیں آنکھیں

 

کچی نیند سے جاگی، شفق کی لالی سی

اَگن بدن میں لگا دیں یہ آتشیں آنکھیں

 

گلاب عرق سے دھوئی ہوئی گھٹا زلفیں

اَبر میں نہائی ہوئی مہ جبیں آنکھیں

 

 

 

 

 

یہ کبھی سوچا نہ تھا کہ سانحہ ہو جائے گا

میں جسے چاہوں گا وہ میرا خدا ہو جائے گا

 

تیرا جلوہ دیکھ کر کوئی بھی رُک نہ سکے

جو بھی دیکھے گا تجھے، تجھ پر فدا ہو جائے گا

 

اس شجر نے خون دے کر جس کو پالا عمر بھر

آخرش پتہ خزاؤں میں جدا ہو جائے گا

 

اہلِ حب، اہلِ جنوں ہیں، ہم سے نہ اُلجھو کہ ہم

جس طرف بھی چل پڑیں گے، راستہ ہو جائے گا

 

جس کو چاہا تھا وفا کی انتہا کے ساتھ بھی

کیا پتا تھا ایک دن وہ بے وفا ہو جائے گا

 

 

 

 

 

تنہائیوں کے جال سے فرصت نہیں ملی

اس کربِ باکمال سے فرصت نہیں ملی

 

کرنے کو غم غلط کوئی حل سوچتے مگر

اندیشہ و ملال سے فرصت نہیں ملی

 

کیا عکس ہم بناتے سیہ مَست چشم کا

اس کے لبوں سے، گال سے فرصت نہیں ملی

 

رکتے کہیں جو پل کو تو منظر تراشتے

ہم کو تو اِرتحال سے فرصت نہیں ملی

 

ہم خستہ جاں سے کیا گلہ ہم کو کبھی کبھی

اپنی ہی دیکھ بھال سے فرصت نہیں ملی

 

 

نگر سارے پھراتی ہے، محبت کی یہ عادت ہے

نظر پتھر بناتی ہے، محبت کی یہ عادت ہے

 

محبت کے حسیں موسم کی نادانی پہ خفگی سے

اَنائیں ڈھونڈ لاتی ہے، محبت کی یہ عادت ہے

 

شبِ ہجراں سے لڑتی آنکھ کو حیران کرتی ہے

کہانی بھی سناتی ہے، محبت کی یہ عادت ہے

 

جہاں کے درد سہہ لے گی مگر شکی رویوں سے

اچانک ٹوٹ جاتی ہے، محبت کی یہ عادت ہے

 

خنک راتوں میں طفلِ مکتبِ ہجراں کو لوری سے

یہ جھولی میں سلاتی ہے، محبت کی یہ عادت ہے

 

کسی کی چاہتوں میں آسمانوں سے یہ پل بھر میں

ستارے توڑ لاتی ہے، محبت کی یہ عادت ہے

 

معظم! تھل میں یا دریا کی موجوں میں دلیری سے

یہ اکثر کود جاتی ہے، محبت کی یہ عادت ہے

 

 

 

 

 

شکستہ پا نہ گھبرا، لوگ باقی ہیں

پلٹ کر اپنے گھر جا، لوگ باقی ہیں

 

توسب کو لوٹ کر تھک کیوں گیا رہزن!

اِدھر بھی لوٹنے آ، لوگ باقی ہیں

 

تردد کی یہ لو تھوڑی سی اونچی کر

ذرا کم ہو اندھیرا، لوگ باقی ہیں

 

ذرا نظرِ کرم ساقی کہ رندوں میں

ابھی بھی بے تحاشا لوگ باقی ہیں

 

سرِ منزل پہنچ جاؤ اگر تم تو

بتانا پا پیادہ لوگ باقی ہیں

 

 

 

 

 

ویلنٹائینز ڈے

 

وہ اک دن کی محبت ہو

یا بس اک دن کا قصہ ہو

کہ ان دونوں شرائط پر

محبت تو نہیں ہو گی

 

 

 

 

 

اسے دل سے بھلانا بھی تو مشکل ہے

مگر دل سے لگانا بھی تو مشکل ہے

 

عجب سا زخم ہے دل میں جدائی کا

زمانے کو دکھانا بھی تو مشکل ہے

 

انا یہ کہہ رہی ہے اُس طرف مت دیکھ

مرا نظریں چرانا بھی تو مشکل ہے

 

ترے دکھ کے مقابل ہے غمِ دنیا

کہ حالِ دل بتانا بھی تو مشکل ہے

 

معظمؔ نے جو دیکھا ہے وطن سے دور

اُسے سب کو دکھانا بھی تو مشکل ہے

 

 

 

 

 

یہ دل میں رہنے والے بھی نگر نہیں بدل سکے

سخن شناس لوگ بھی اثر نہیں بدل سکے

 

میَں اب محبتوں میں اس مقام پر رُکا جہاں

سبھی سراجِ رہ گزر سحر نہیں بدل سکے

 

یہ جگنوؤں کا دیس ہے یہاں پہ آج تک کوئی

پرندگانِ عصر بال و پر نہیں بدل سکے

 

جسے امیر کہتے تھے اسے امیر رکھتے تھے

کہ رہزنوں کے ڈر سے ہم تو گھر نہیں بدل سکے

 

خزاں رگوں سے خون تک نچوڑ لے گئی مگر

وہ جاں بہ لب سے دل کبھی شجر نہیں بدل سکے

 

لگن بھری نگاہ سے طوافِ شہر کر لیا

کبھی مسافرانِ شب سفر نہیں بدل سکے

 

 

 

 

 

اپنے اپنے سائے میں

ہم سمٹ گئے سارے

 

جن کی ٹھنڈی چھاؤں تھی

پیڑ کٹ گئے سارے

 

 

دیوار سلگتی ہے کہ دَر کانپ رہے ہیں

پھر تیز ہواؤں میں شجر کانپ رہے ہیں

 

اب ایسا پڑا قحطِ سخن شہرِ وفا میں

گھبرائے ہوئے اہلِ ہنر کانپ رہے ہیں

 

بھونچال کوئی زیرِ زمیں کس نے چھپایا

ذی روح، سبھی کوہ و بحر کانپ رہے ہیں

 

تعزیر لگا دے گا زمانہ کبھی ہم پر

اس خوف سے ہم خاک بسر کانپ رہے ہیں

 

 

اس زخم کو بھرنے میں ذرا دیر لگے گی

دلدار کے آنے میں ذرا دیر لگے گی

 

قندیل سے پل بھر میں چراغاں نہیں ہو گا

وہ چاند نکلنے میں ذرا دیر لگے گی

 

آرام سے سو جاؤ شبِ ہجر کے تارو!

مرے بخت کے اُٹھنے میں ذرا دیر لگے گی

 

معلوم ہے مجھ کو بھی بھلا دو گے مگر اب

موسم کے بدلنے میں ذرا دیر لگے گی

 

مایوس نہ ہو جانا کبھی تم بھی معظم

یہ بوجھ اُترنے میں ذرا دیر لگے گی

 

 

 

 

آنکھ میں تشنہ نمی محسوس ہوتی ہے

اُس کی ساون میں کمی محسوس ہوتی ہے

 

تیرے آنے کی خبر کی بے قراری میں

سانس تک میری تھمی محسوس ہوتی ہے

 

اب معظم ہر گھڑی بے تاب رہتا ہے

جانے کس شئے کی کمی محسوس ہوتی ہے

 

 

 

 

 

چندا سے کبھی باتیں، تاروں سے کبھی کہنا

اس عشق کی سوغاتیں، تاروں سے کبھی کہنا

 

کہنا کہ وہ بارش میں بھیگے نہ گھڑی بھر کو

تڑپائیں گی برساتیں، تاروں سے کبھی کہنا

 

اب بگڑی سی رہتی ہیں مجھ سے یہ مرے ہمدم

ساون کی گھٹا راتیں، تاروں سے کبھی کہنا

 

یہ اتنی رفاقت بھی بیزار کرے دل کو

کم کر دو ملاقاتیں، تاروں سے کبھی کہنا

 

اب ان کے بنا سارے گمنام سے ہیں موسم

عیدیں، یہ شبراتیں، تاروں سے کبھی کہنا

 

 

 

 

 

اس محبت سے کنارہ کر لیں

 

 

تُو بھی تو سہہ رہی ہو گی اب

اس زمانے کی کھری باتوں کو

مجھ کو بھگتانا پڑا آج تلک

تیری سنگت کی سبھی راتوں کو

گو کہ دونوں ہیں کیے پر نادم

اور دامن میں اَلم، یاس اور غم

کیوں نہ اشکوں کو ستارا کر لیں

اس محبت سے کنارا کر لیں

اس سے پہلے کہ وفا پر اپنی

بجلیاں آنکھ چرانے سے گریں

اس سے پہلے کہ چھنے اپنا سبو

کرچیاں ہاتھ لگانے سے گریں

اس سے پہلے کہ شناسا نہ رہے

وقت کے پاس تماشا نہ رہے

رت بدلنے کا اشارہ کر لیں

اس محبت سے کنارہ کر لیں

اِس سے پہلے کہ مرا عزم یہاں

دشتِ وحشت کا اسیر ہو جائے

اِس سے پہلے کہ تری چشمِ نم

اک فقط آبی لکیر ہو جائے

قصہ بن جاؤں میَں افسانوں کا

اَور تو آج کی ہیر ہو جائے

اِس سے پہلے کہ معظم تیرا

عشق میں نکلے فقیر ہو جائے

ہم جدائی کو گوارا کر لیں

اس محبت سے کنارہ کر لیں

 

 

 

 

 

تنہا بیٹھ کے اپنے دل کو پرسا دینا

راس نہ آیا دکھ دردوں پر پہرا دینا

 

کتنا شوخ سا منظر تھا میری آنکھوں میں

زُلف ہٹا کر چشمِ تر کو بوسہ دینا

 

اپنی ذات میں صحرا ہوتا جاتا ہوں میَں

اپنی آنکھوں سے موسم کو بتلا دینا

 

مار گیا مجھ کو تیرا ہرجائی پن

اب تم اپنے ہاتھوں سے ہی دفنا دینا

 

شام ڈھلے ہی سو جاتا ہوں اکثر میں بھی

جب سے سیکھا ہے خواہش کو دھوکہ دینا

 

 

 

 

 

یومِ مزدور پہ ایک مکالمہ!

 

سنا ہے اب ہمارا یوم آیا ہے

سنا ہے اب وطن کے چپے چپے میں

حکومت نے دیا ہے حکم چھٹی کا

دفاتر بند ہیں سارے ادارے بند

وطن میں آج مزدوری نہیں ہو گی

جو مزدوری نہیں ہو گی تو پھر میرے

گھرانے کی کفالت کس طرح ہو گی

سنا ہے آج میرے چارہ گر سارے

کسی ہوٹل میں جا کر بیٹھ جائیں گے

بہت باتیں سنائیں گے زمانے کو

ہمارے کرب کی باتیں، ہمارے دُکھ

عیاں کر کے زمانے کو دکھائیں گے

بہت ماتم کریں گے اور روئیں گے

مگر ان سے ذرا تم یہ تو کہہ دینا

ہمارے ہاتھ میَلے ہیں مگر دامن

کبھی میلے نہیں ہو پائے رشوت سے

نہ ہم نے خون بچوں کو پلایا ہے

انھیں کہنا ہمارے درد کی خاطر

تماشا جب کیا جاتا ہے تو ہم کو

بڑی تکلیف ہوتی ہے کہ اب ہم کو

خدارا بخش دو، ہم کو معافی دو!

ہمیں مزدور رہنے دو! ہمیں مزدور رہنے دو!

بڑی مشکل سے پہلے ہی یہ مزدوری

ہمیں ملتی ہے اور ہم سانس لیتے ہیں

ہمارے نام پر محفل سجاتے ہو

ہمارے ہاتھ سے لقمے تلک تم چھین لیتے ہو

ہمیں "یومِ اجیراں” پر جلاتے ہو یا زندہ مار دیتے ہو

 

 

 

 

 

بے حسی

 

اس بھرے شہر کے ایک گوشے سے کل

جب دھواں اٹھ رہا تھا تو حیرت ہوئی

کہ خموشی سی طاری تھی بازار میں اور سارے مکیں

پرسکوں …پرسکوں …!

 

 

 

 

 

دل میں ان کی یادوں کی اک آگ جلائے بیٹھا ہوں

شاید وہ بھی آ ہی جائیں، آس لگائے بیٹھا ہوں

 

اس ڈر سے کہ میری باتوں پر خفگی بڑھ جائے گی

میَں ان کی الفت کو دل میں آج چھپائے بیٹھا ہوں

 

پھولوں کی یاری کا یہ انجام ہوا ہے کہ میَں اب

اپنے دل جیون کو کانٹوں میں اٹکائے بیٹھا ہوں

 

ممکن ہو تو اس دامن کو بھر دے قرب کی دولت سے

میں سائل ہوں اور در در کی ٹھوکر کھائے بیٹھا ہوں

 

 

 

 

 

عالموں سے بچ گئے تو عاقلوں نے لوٹا ہے

دشمنوں سے کیا گلہ جب دوستوں نے لوٹا ہے

 

حور کے لالچ میں سارے پھر رہے ہیں دربدر

زاہدوں کو ان کی سفلی نیتوں نے لوٹا ہے

 

میں کسی سے زندگی کا ماجرا بھی کیا کہوں

دوستوں نے، راہزنوں نے، رہبروں نے لوٹا ہے

 

اب مری چشمِ غریباں میں رہا کچھ بھی نہیں

رتجگوں نے تو کبھی ان بارشوں نے لوٹا ہے

 

اہلِ عقل و خرد مجھ پر ہنس رہے ہیں عمر سے

میں وہ دانش مند جس کو جاہلوں نے لوٹا ہے

 

 

 

 

 

نازک لڑکی

 

میرے شہر کی نازک لڑکی

آنکھوں میں کئی خواب سجاکے

پیاری پیاری پوروں سے وہ

ریت کے محل بنانے والی

اپنے آپ سے باتیں کر کے

روٹھ بھی جائے، مان بھی جائے

خفگی میں وہ اپنے محل گرانے والی

ورد پیا کا کرنے والی

چاہت کا دم بھرنے والی

پیار میں جگ سے لڑنے والی

خود سے لیکن ڈرنے والی

مرے شہر کی نازک لڑکی

 

 

 

 

 

درد کے شعلوں کی زد پر آشیانے ہو گئے

ان سے بچھڑے ہم کو بھی اب کئی زمانے ہو گئے

 

وقت بدلا ہے تو دنیا کی نظر پتھرا گئی

جو مرے اپنے تھے وہ اب کے بیگانے ہو گئے

 

ہجر کی تلخی میں کتنی شاعری لکھی گئی

اک غزل میں ہی بیاں کتنے فسانے ہو گئے

 

ایسا کیا جادو تھا اُس کی چشمِ حیراں میں نہاں

اس نے دیکھا پیار سے اور ہم دیوانے ہو گئے

 

میَں کہاں جاؤں معظم اس گلی کو چھوڑ کر

زندگی سے دور میرے سب ٹھکانے ہو گئے

 

 

 

 

 

میَں نے یہ کب کہا کہ وہ اچھا نہیں رہا

اس جیسا کوئی شہر میں دوجا نہیں رہا

 

یہ دنیا تیری کیسی ہے اے رب ذوالجلال

سب کچھ توہے مگر کوئی چہرا نہیں رہا

 

اے جگمگاتی کرنو! آؤ تم ذرا قریب

دل کے دریچے میں کوئی جھونکا نہیں رہا

 

یہ قحط کی عجیب سی حالت ہوئی یہاں

مفلس کو نان کا کوئی ٹکڑا نہیں رہا

 

دل ٹوٹنے سے وہ نظامِ زندگی گیا

میں جس طرح کا تھا کبھی ویسا نہیں رہا

 

جو ایک پل کا کہہ گیا تھا بھول کر کبھی

صدیوں کے بعد اب وہ میرا آسرا نہیں رہا

 

گڑیا کے ساتھ کھیلنے کی عمر آ گئی

بابا کی جیب میں مگر پیسہ نہیں رہا

 

اس میکدے سے اُٹھ کے تم جاؤ گے کس طرف

اس شہر میں کوئی بھی تو زندہ نہیں رہا

 

 

 

 

 

وصل کی بے ضرر دعا سے ہے

خوف مجھ کو مری وفا سے ہے

 

میری خاموشیاں مری قاتل

یہ مرا مسئلہ حیا سے ہے

 

میں تجھے کیا فریب دے لیتا

میرا رشتہ مرے خدا سے ہے

 

تیری خوشبو عذاب سے بڑھ کر

میری خواہش مری بقا سے ہے

 

ہر ستم جان پر سہا میں نے

یہ اُسی شدتِ وفا سے ہے

 

تیرے حصے کی ساری رسوائی

اے معظم! کسی ادا سے ہے

 

 

 

 

 

اک شاعر تھا اک بستی میں

 

ظلم کی آگ چار سو پھیلی

سچ کی لاشیں تڑپ رہی ہیں جو

یہ لٹیروں کی ہے کوئی بستی

اک شاعر تھا اس نگر میں بھی

اپنی سوچوں میں ہر گھڑی گم سم

درد کے ساز چھیڑ دیتا تھا

 

جب آتا تھا اپنی مستی میں

خوب لکھتا تھا خوب کہتا تھا

اپنی باتیں، جہان کے دکھڑے

اک شاعر تھا اس نگر میں بھی

رفتہ رفتہ سسکتی سانسوں کو

ہارتا ہی چلا گیا شاعر

 

 

 

 

 

شاعری کیا کروں، شاعری ہے بھی کیا؟

بے خودی ہے بری، بے خودی ہے بھی کیا؟

 

چاند بادل میں جا کر چھپا کس لیے

اے رخِ ضو فشاں! روشنی ہے بھی کیا؟

 

میں تجھے بھولنا چاہتا ہوں مگر

بے بسی بڑھ گئی، بے بسی ہے بھی کیا؟

 

چل دیے جس طرف یہ قدم لے گئے

اس سے بڑھ کر تو آوارگی ہے بھی کیا؟

 

اس محبت کو تم آخری نہ کہو

آخری ہی سہی، آخری ہے بھی کیا؟

 

 

 

 

 

ماورائی کتاب کے جیسا

اس کا ملنا سراب کے جیسا

 

یہ محبت ہے پیاس سے بڑھ کر

اس پہ برسے سحاب کے جیسا

 

نرم و نازک رُخ منور ہے

ایک تازہ گلاب کے جیسا

 

وہ بہت اہم ہو گیا صاحب!

زندگی کے نصاب کے جیسا

 

اپنی یادوں کی تابناکی میں

بولتا ہے رُباب کے جیسا

 

 

 

 

 

اس نے مجھے بھلا دیا، کیسے کہوں میں آپ سے

پتھر مجھے بنا دیا، کیسے کہوں میں آپ سے

 

اشکوں سے بن رہی ہے وہ تصویر دیکھیے کبھی

کس نے مجھے رلا دیا، کیسے کہوں میں آپ سے

 

جس کے لئے میں شہر میں رسوا ہوا تھا اور پھر

اس نے مجھے دغا دیا، کیسے کہوں میں آپ سے

 

شعلوں کا رونا روئیں گے اس گھر کو کون دیکھے گا

گل نے جسے جلا دیا، کیسے کہوں میں آپ سے

 

جانے یہ کیا ہوا کہ اس نے ڈائری سے سب مرے

اشعار کو مٹا دیا، کیسے کہوں میں آپ سے

 

میَں نے اسے دیا تھا کیا، سب جانتے تو ہیں مگر

اس نے بھی کچھ صلہ دیا، کیسے کہوں میں آپ سے

 

ایسی بھی کیا تھی بات جس نے بزمِ یار کو

ہنستے ہوئے رلا دیا، کیسے کہوں میں آپ سے

 

 

 

یادوں کے ہم دیپ جلائیں، مل بیٹھیں

اپنے اپنے گھر نہ جائیں، مل بیٹھیں

 

ہجر کا دکھ سینے میں پلتا رہتا ہے

آج مگر ہم جشن منائیں، مل بیٹھیں

 

انجانی راہوں سے ہم کو لینا کیا

آخر کب تک چلتے جائیں، مل بیٹھیں

 

تاروں کی چھاؤں میں چھپ کر دنیا سے

گیت خوشی کے ہم بھی گائیں، مل بیٹھیں

 

شام ہوئی ہے، کوئی نیکی کر دیکھیں

روتے ہوؤں کو ہم بھی ہنسائیں، مل بیٹھیں

 

 

 

 

 

ہمارا دل چراؤ تو تمھیں ہم مان جائیں گے

نیا سپنا دکھاؤ تو تمہیں ہم مان جائیں گے

 

یہ دیوانے تمہارے حسن کے چرچے کیے جائیں

کوئی بجلی گراؤ تو تمہیں ہم مان جائیں گے

 

وہ جس سے تار دل کا بھی دھڑک اٹھے اکیلے میں

اب ایسا گیت گاؤ تو تمہیں ہم مان جائیں گے

 

یہاں ہر شخص خوں کے اشک روتا ہے ہمیشہ سے

کسی کو چپ کراؤ تو تمہیں ہم مان جائیں گے

 

یہ گردابِ محبت ہے، شکنجہ ہے معظم جی!

جو اس سے جاں چھڑاؤ تو تمہیں ہم مان جائیں گے

 

 

 

استدعا

مجھے کچھ بھی نہ دو یارو

مجھے کچھ نہ کہو یارو

فریبِ زندگانی میں

مرے ہو کر رہو یارو

غمِ جاناں میں ڈوبا ہوں

مجھے ایسے ہی رہنا ہے

مجھے ایسے ہی رہنے دو

مجھے بس اتنا کہنا ہے

 

 

 

 

 

اک رشتہ تھا نازک سا دنیا سے اُس کا ٹوٹ گیا

لکھتے لکھتے شاعر کا بالآخر سپنا ٹوٹ گیا

 

میرے ہاتھ کی ریکھائیں تو ساری تیرے نام کی تھیں

جانے کیا تھا ہاتھوں میں ہی اپنا کتبہ ٹوٹ گیا

 

تم کو مجھ سے شکوے تھے، مجھ کو بھی تم سے شکوے تھے

کون مداوا کر پائے جب ہر اک ناتا ٹوٹ گیا

 

تیری جدائی کا وہ لمحہ کیسا کافر لمحہ تھا

مجھ سے حرف بھی روٹھ گئے اور تیرا لہجہ ٹوٹ گیا

 

تم کو سوچ رہے تھے بیٹھے سوچ کے بادہ خانے میں

اِن آنکھوں سے ایک دیوانہ آنسو چھلکا، ٹوٹ گیا

 

اور معظمؔ اپنی ذات کے ٹکڑوں کا کیا ماتم ہو

تیری آنکھوں پر بیٹھا تھا ضبط کا پہرا، ٹوٹ گیا

 

 

 

 

 

کی چیَن

 

یاد ہے تم کو

جس دن میں نے گاڑی لی تھی

تم نے کہا تھا از خود مجھ سے

آپ کو میَں اک تحفہ دوں گی

اس گاڑی پر آپ جہاں بھی جائیں گے

وہ پھر آپ کے ساتھ رہے گا

میری یاد دلائے گا! !

یاد ہے مجھ کو تم نے کافی سوچ سمجھ کے

وقت بتانے والے دل میں

پیارا سا کی چیَن دیا تھا

یاد ہے مجھ کو تم نے کہا تھا

یہ دل کی شکل میں دو سوئیوں کا

سادہ ساگھڑیال نہیں ہے

اس میں دیکھیں دو سوئیاں ہیں

دیکھیں! جیسے آپ اور میَں

کتنے پہر بھی دور گزاریں

آخر کو مل جاتے ہیں

دل میں کتنا میل ہی آئے

دل کو پھر کھل جانا ہے

اس دل میں ان سوئیوں پراک شیشہ ہے

جانے کب سے ٹوٹ چکا تھا

اور بیچاری سوئیاں خود بھی

اِک دوجے کو پا لینے کی آس لگائے

اک دوُجے کو ڈھونڈ رہی تھیں

اِن سوئیوں میں دیکھو جاناں!

وقت تو کب سے ٹھہر گیا تھا

جیسے اپنے وصل کے لمحے

اک دوجے کو ڈھونڈ رہے ہیں

میَں اور میری چاہت دونوں!

اک سولی پر لٹکے ہیں

دل کرتا ہے یاد کی ناگن اب نہ دل کو ڈسنے آئے

اتنا ٹوٹا ہوں کہ مجھ میَں

اب نہ کوئی بسنے آئے

اک گستاخی کر بیٹھا ہوں

تیری یاد کا محور میَں نے

آج سے جاناں توڑ دیا ہے

اپنی گاڑی کی چابی کو

بالکل تنہا ہی چھوڑ دیا ہے!!!

 

 

 

 

 

میں ہو گیا ہوں در بدر، ترے سبب، ترے سبب

نہ اپنی ہے کوئی خبر، ترے سبب، ترے سبب

 

ارادتاً میں جام و مے سے عمر بھر پرے رہا

میں پی رہا ہوں اب مگر، ترے سبب، ترے سبب

 

مرے بجائے تم پہ کوئی حرف اعتراض ہو

رُکا ہوا ہوں سوچ کر، ترے سبب ترے سبب

 

جہاں پہ کچی اینٹ کے سوا نہ کچھ ملے کبھی

ہوا ہوں اس طرح کھنڈر، ترے سبب، ترے سبب

 

ترے وجود کی مہک نفس نفس اُتارے

میں جاگوں تا دمِ سحر، ترے سبب، ترے سبب

 

ہزار ہا نصیحتیں زمانہ کر چکا مگر

نہیں ہوا کوئی اثر، ترے سبب، ترے سبب

 

 

 

 

 

تیری یادوں کے دریا میں اُترا ہے اک شخص

آ کر دیکھ ترے کوچے میں ٹھہرا ہے اک شخص

 

ممکن ہو تو قربت کے چند لمحے آ کر بخش

اک مدت سے اپنی ذات میں تنہا ہے اک شخص

 

روشن لمحوں کی سوغاتیں لے کر اس کو مل

جھیل کنارے غزلیں لکھنے بیٹھا ہے اک شخص

 

تم تو اس پاگل دیوانے سے منہ مت موڑو

تیرے نام کی مالا جپتا رہتا ہے اک شخص

 

میں نے اس کو من مندر میں اونچا تخت دیا

پھر یہ جانا اپنے قد سے چھوٹا ہے اک شخص

 

 

 

 

 

غزل

 

تیری یادوں کی اک پائل دھیرے سے

میری دھڑکن کو اکساتی رہتی ہے

میرے دل میں آس کا سرگم ہوتا ہے

جب بھی ہاتھوں میں اک لرزش آتی ہے

ایسے میں تم میرے خواب جگاتی ہو

جانے کس دنیا سے ہو کر آتی ہو

میرے پہلو میں تم بیٹھ کے چپکے سے

میٹھے سُر میں کوئی نغمہ گاتی ہو

میَں اس نغمے کو آنکھوں سے لکھتا ہوں

آدھے جملے، آدھی باتیں، ٹوٹے سُر

تیرے سنگ گزاری راتیں لکھتا ہوں

پیار کی چنچل سی برساتیں لکھتا ہوں

لکھتے لکھتے ہاتھ مرے جب رکتے ہیں

ایک غزل کا سندر مکھڑا بنتا ہے

کتنی آسانی سے تجھ کو لکھتا ہوں

لیکن جب تو پہلو میں نہ بیٹھے تو

حرف کی دنیا مجھ سے روٹھی رہتی ہے

 

 

 

جی کرتا ہے کچھ کر جائیں

ورنہ جیتے جی مر جائیں

 

میخانے کا رستا دیکھیں

یا پھر ہم تیرے گھر جائیں

 

رنگت ڈس کر مار بھی دے گی

گویا تتلی سے ڈر جائیں

 

انسانوں کی اس بستی میں

اونچے شملے اور سر جائیں

 

اُجڑا بکھرا حال معظمؔ

لوٹ کے اب اپنے گھر جائیں

 

 

 

 

 

کروٹ کروٹ جب کانٹوں پر رات گزرتی ہے

پلکوں سے پھر اشکوں کی بارات گزرتی ہے

 

عرش پہ بھی بادل، دل میں بھی طغیانی سی ہے

ہجرِ یار میں ایسی ہی برسات گزرتی ہے

 

تیرے ہجر میں تیری یادوں میں اے جانِ جاں!

یہ مت پوچھ کہ میری کیسی رات گزرتی ہے

 

 

 

 

 

خلد سے زمینوں تک، زندگی سفر میں ہے

مجھ کو ایسا لگتا ہے ہر کوئی سفر میں ہے

 

شکر ہے کہ میرا گھر بھی کسی کی منزل ہے

اہتمام ہی کر لوں، تیرگی سفر میں ہے

 

گردشِ کواکب کو جانا تو کھلا ہم پر

جو رُکا ہے صدیوں سے بس وہی سفر میں ہے

 

دونوں آرزوؤں کو مار دیں کہ اب تیرا

حاصلِ سفر، میری، تشنگی سفر میں ہے

 

صحرا گرد ہیں اب تک کھوج میں معظم ہم

خواب کوئی آنکھوں میں آج بھی سفر میں ہے

 

 

 

 

 

ارتحالِ عمر میں تارا تری آنکھیں

تیرگی میں کتنی آوارہ تری آنکھیں

 

باعثِ بد بختیِ دل بجھ گیا ہوں میں

اور روشن ہیں یہ مہ پارا تری آنکھیں

 

دیدِ چشمِ معتبر سے زندگی پھوٹے

دیکھنی ہیں مجھ کو دوبارہ تری آنکھیں

 

دشت میں بھٹکی ہوئی تھی وحشتِ دل بھی

جب دلِ کم بخت بھی ہارا تری آنکھیں

 

اس معظم کیلئے دنیا ہے بس اتنی

تو نظر ہے اور نظارہ تری آنکھیں

 

 

یہ سوچ کے میں ہوتا ہوں حیران مسلسل

کیا کرتا پھرے آج کا انسان مسلسل

 

اک یاد نے رکھا تھا مجھے زندہ ابھی تک

ورنہ تو شبِ ہجر تھی بے جان مسلسل

 

وہ آتے ہیں مخمور سی آنکھوں کے جلو میں

خطرے میں پڑا رہتا ہے ایمان مسلسل

 

وہ برسرِ پیکار تھا خواہش کے سفر میں

دلگیر معظمؔ علی اعوان مسلس

 

 

 

نفرت کروں کہ تجھ سے محبت کروں، بتا

دہلیزِ دل پہ کون سا جذبہ رکھوں، بتا

 

اب جب کہ اٹھ گیا سبھی لوگوں کا اعتبار

دنیا میں تیری اب میں جیوں یا مروں، بتا

 

مہکا کے چاندنی سا بدن اپنی سانس سے

رگ رگ میں تیری آج سرایت کروں، بتا

 

بکھرے ہیں ہر طرف ہی یہ لاشے حدِ نظر

اقدار سے بشر تری کیوں نا ڈروں، بتا

 

لوگوں کو میں نے بانٹ دیا ہے فساد سے

میں آج اس ہجوم کا رہبر بھی ہوں، بتا!

 

 

 

 

 

مخلوق تو ایسے ہی نہیں پیچھے پڑی تھی

لگتا ہے زمانے نے کوئی بات گھڑی تھی

 

اک طعنۂ اغیار پہ الزام بھی کیا ہے

یہ آنکھ شبِ ہجر میں کس کس سے لڑی تھی

 

ہم سوچ رہے تھے کہ تجھے راہ پہ لائیں

معلوم ہوا راہ میں دیوار کھڑی تھی

 

تو شہر کے یخ بستہ محلات کا باسی

اور جان مری گاؤں کے پیپل میں اڑی تھی

 

مخمور سا پھرتا ہوں سرِ شام معظم

آنکھوں سے تری پی تھی جو کمبخت چڑھی تھی

 

 

 

 

 

جب بھی ساون پون چلی تو یاد آیا

گاؤں کی جب یاد آئی تو یاد آیا

 

اس موسم میں ڈھیروں باتیں کرتے تھے

جب بھی پہلی بوند اُتری تو یاد آیا

 

ہر دن دنیا کے کاموں سے بہلا ہے

لیکن جب بھی شام ڈھلی تو یاد آیا

 

 

 

 

 

میں سپنوں کے محل بنانے نکلا ہوں

جاناں! سچ ہے، تجھ کو پانے نکلا ہوں

 

شہر میں جتنے غم خانے ہیں، سب دیکھے

آج مگر میں سب کو ڈھانے نکلا ہوں

 

کل جو روٹھ گئے میری نادانی سے

اُن لوگوں کو آج منانے نکلا ہوں

 

پہلو میں آ بیٹھو بس یہ خواہش ہے

میں پیاری سی نظم سنانے نکلا ہوں

 

دنیا سے ہو کے بیزار اس کوچے میں

اپنا ٹوٹا دل بہلانے نکلا ہوں

 

مجھ کو تو معلوم نہیں ہے کیا ہو گا

کیا کھونا ہے اور کیا پانے نکلا ہوں

 

 

 

 

 

دشتِ وفا میں لوگ شجر ڈھونڈتے رہے

یوں گم ہوئے کہ اپنا ہی گھر ڈھونڈتے رہے

 

فرصت ملے تو کرب اس شجر کے دیکھنا

 

عبرت شناس! شعلے اپنے گھر کے دیکھنا

 

الزام عجلتوں کا دے گلاب پر مگر

اک شام اس طرح کبھی بکھر کے دیکھنا

 

میَں شہرِ عبرتِ وفا رہِ وفا میں ہوں

جانے سے پہلے مجھ کو آنکھ بھر کے دیکھنا

 

میرے جنوں پہ پھر کبھی نہ مسکراؤ گے

اک بار آئینہ ذرا سنور کے دیکھنا

 

 

 

 

 

جو خواب میں نے دیکھے تھے، وہ سب سنبھال رکھے ہیں

وہ یاد کے فگار آئینے اُجال رکھے ہیں

 

یہ کیا ہوا کہ اپنے گھر میں آفتاب تک نہیں

مگر یہ روشنی کے رابطے بحال رکھے ہیں

 

اگرچہ زندگی میں تم کبھی پلٹ نہ پاؤ گے

مری وفا نے راستوں میں پھول ڈال رکھے ہیں

 

 

 

 

 

دونوں تنہا، میَں اور میری شاعری

اور پھر رُسوا، میَں اور میری شاعری

 

تینوں کرداروں نے لکھی داستاں

اک بیگانہ، میں اور میری شاعری

 

تنہا چاند، تھکی شبنم اور رات بجھی

مے خانہ تھا، میَں اور میری شاعری

 

تپتی دھوپ کے صحرا کو ہم چل نکلے

بھیگا لمحہ، میَں اور میری شاعری

 

کچھ تو بولو، تنہائی کی راتوں میں

کیا دیکھا تھا، میں اور میری شاعری؟

 

 

 

 

 

تابِ جنوں

 

سچے ہوں اگر جذبے

تخلیق کے رستے میں

لفظوں کا سہارا بھی

لینا ہی نہیں پڑتا

 

 

 

 

 

یاد میں آنسو بہائے، کیا ملا

چشمِ تر میں اُن کا ہی چہرہ ملا

 

اس کو ہم نے کھو دیا پاتے ہوئے

عشق میں ہر مرحلہ ایسا ملا

 

تشنگی کس کی بجھائی جائے گی

شہر ساراہی مجھے پیاسا ملا

 

جو معظمؔ جانِ محفل تھا سدا

آج وہ بھی راہ میں تنہا ملا

 

 

اس کا دیدار کہ موسم کو بدلتا جائے

دل کسی طور محبت میں سنبھلتا جائے

 

شہرِ ظلمات میں رکنے کا ارادہ بھی نہیں

کونساپاؤں مرا جسم کچلتا جائے

 

شام اُتری ہے کوئی درد انوکھا لے کر

زلف پھیلاؤ کہ یہ حشر بھی ٹلتا جائے

 

میری قربت میں اِن اشکوں کو چھپائے رکھنا

خوب رو لینا کہ جب جان نکل جائے

 

 

 

ہر چہرے میں تیرا چہرہ دیکھ رہا ہوں

اس عالم میں جانے کیا کیا دیکھ رہا ہوں

 

عشق پیاسا ہے اور میری یہ حالت

جنگل میں ہوں لیکن صحرا دیکھ رہا ہوں

 

 

 

 

 

دنیائے خرافات سزا دیتی ہے

انسان کو قامت سے بڑھا دیتی ہے

 

یہ کون مرے پاس صدا دینے لگا

کس شخص کی خوشبو یہ ہوا دیتی ہے

 

اس شہر سے گزرو تو نظر نیچی رکھو

وہ سامنے آتی ہے، جلا دیتی ہے

 

خاموش گزر تا ہے مرے قرب سے جب

اس کی یہ ادا حشر اُٹھا دیتی ہے

 

یہ پیار کا اظہار نہیں ہے کہ مجھے

ہر راز اکیلے میں بتا دیتی ہے

 

خوش بخت ہے اتنی کہ وہ لحظہ بھر میں

روتے ہوئے لوگوں کو ہنسا دیتی ہے

 

 

 

 

 

کسی سے دل لگایا تھا، ابھی تک یاد ہے مجھ کو

اسے اپنا بنایا تھا، ابھی تک یاد ہے مجھ کو

 

کوئی بھیگی سی شامِ وصل میں بھیگا تھا اشکوں میں

اُسے میں نے ہنسایا تھا، ابھی تک یاد ہے مجھ کو

 

یہ تندو تیز لہروں کی تباہی نے بتایا تھا

گھروندا کیوں بنایا تھا، ابھی تک یاد ہے مجھ کو

 

زباں پر قفل ہیں آنکھوں میں پرچھائیں محبت کی

فقط قصہ سنایا تھا، ابھی تک یاد ہے مجھ کو

 

کہ جس کی یاد میں ہم رات بھر جاگے معظم جی!

وہی ملنے نہیں آیا، ابھی تک یاد ہے مجھ کو

 

 

 

 

 

تارے میری تنہائی پر ہنستے ہیں

میری خاموشی پر طعنے کستے ہیں

 

اس بستی پر چاند کا پہرہ رہتا ہے

اس بستی میں کچھ دل والے بستے ہیں

 

غیروں میں کیا دم ہے مجھ سے لڑنے کا

مجھ کو آ کر میرے اپنے ڈستے ہیں

 

سوچ رہا ہوں کس منزل کو جاؤں مَیں

میرے چاروں جانب کتنے رستے ہیں

 

آدم کی پوشاک معظم مہنگی ہے

آدم زادے اس منڈی میں سستے ہیں

 

 

اس شخص کو میَں عہد کا عارف پکاروں گا

جو بچ گیا گنہ سے جوانی کے باوجود

 

 

 

 

 

"محمد زیان اعوان” کے لئے

 

زندگی کی شان ہو، تم مرے زیان ہو

میری آن بان ہو، تم مرے زیان ہو

پیار کے خمیر سے اٹھا ترا وجود تھا

عشق کے نشان ہو، تم مرے زیان ہو

علم ہے وفا کرو گے تم مثالِ حیدری

ذات کے "اعوان” ہو، تم مرے زیان ہو

اک ترے سہارے پر میں ہواؤں میں اڑوں

تم مری اڑان ہو، تم مرے زیان ہو

تم اگر ملو مجھے، سہہ چلوں ہر ایک دکھ

تم مری کمان ہو، تم مرے زیان ہو

ایک تم ہو بس معظم سے اور وہ تم سے ہے

زندگی ہو، جان ہو تم مرے زیان ہو

 

 

 

 

 

خواب زار

 

کاش! ایسا بھی ہو

یہ مری شاعری سامنے ہو ترے

تو پڑھے اس کو اور یہ تجھے دیکھ لے

مرے لفظوں کاعکس تیری آنکھوں میں ہو

ایک نشہ سا تری سانس میں لڑکھڑاتا رہے

اک ملاقات ہو

اس ملاقات میں خواب ہوں

جستجو کے نئے باب ہوں

ایک دوجے کی پلکوں پہ بیٹھے ہوئے

چند تارے چنیں

زندگی کا مزہ میٹھی باتوں میں ہو

ہاں مگر خواب تو خواب ہے

کاش! ایسا بھی ہو

یہ مری شاعری سامنے ہو ترے

تو پڑھے اس کو اور یہ تجھے دیکھ لے

 

 

 

 

 

آنکھیں سُرخ ہو جاتی ہیں، تم مت جاگو

یادیں بھی تڑپاتی ہیں، تم مت جاگو

 

اس کی خوشبو جیسی باتیں شام ڈھلے

دکھ کی مالا پہناتی ہیں، تم مت جاگو

 

چاند ستارے اور فلک تم مت دیکھو

دیکھو، آنکھیں جل جاتی ہیں، تم مت جاگو

 

رات معظمؔ ڈھل جاتی ہے چپکے سے

آوازیں تو دَر آتی ہیں، تم مت جاگو

 

 

 

ہر وقت سلیبس کی کتابوں میں پڑا ہوں

مالک! یہ میں اب کیسے عذابوں میں پڑا ہوں

 

 

 

 

 

آؤ ہم بھی پیار کی باتیں کریں

یعنی کاروبار کی باتیں کریں

 

ایک مدت سے جسے دیکھا نہیں

بیٹھ کر اُس یار کی باتیں کریں

 

کھو چکی ہیں زندگی کی نعمتیں

کیا گل و گلزار کی باتیں کریں

 

اس اُداسی سے ہمیں لینا بھی کیا

کیوں دلِ بیزار کی باتیں کریں

 

ساز چھیڑیں، گیت گائیں اور ہم

پھر کسی فنکار کی باتیں کریں

 

تذکرہ ہو اُس سخی کا آج بھی

سایۂ دیوار کی باتیں کریں

 

 

 

 

 

اشکوں کی برستی ہوئی برسات میں کیمپس

اب میری دعاؤں میں، مناجات میں کیمپس

 

حالات پہ بولیں یا غمِ یار پہ لکھیں

ہم کو تو ابھی یاد ہے ہر بات میں کیمپس

 

جس سمت بھی جاؤں مَیں وہی جلوے فروزاں

سمٹا ہے ابھی تک جو مری ذات میں کیمپس

 

 

 

 

 

عنایتیں بجا ہیں تو شکایتیں بہت

مجھے تو اُس سے مل گئیں محبتیں بہت

 

کسی بھی غیر کا میں کیوں کروں گا اب گلہ

کہ مجھ کو میرے یار کی ہیں سازشیں بہت

 

بھلا نہ پائے یہ الگ سی بات ہے مگر

قدم قدم پہ دل نے کی ہیں کوششیں بہت

 

جو سب کے سامنے رکھے گا دل کی بات کو

اُسی کی راہ میں کھڑی عداوتیں بہت

 

ہر انقلاب فاقہ کش اُٹھا کے لائے ہیں

ہیں آستینِ کرب میں بغاوتیں بہت

 

 

 

 

 

جو پلکوں پرستارے جھلملاتے ہیں

تو یادوں کے کئی جگنو ستاتے ہیں

 

گلے نخلِ تمنا کو لگا کر ہم

جدائی میں تری آنسو بہاتے ہیں

 

کبھی ان سے شناسائی نہ تھی لیکن

ہم اَب اُن کے سبھی نخرے اُٹھاتے ہیں

 

ابھی بستی کے غنچوں کو بہاروں میں

ہوا کے گرم جھونکے روند جاتے ہیں

 

پرانے موسموں کی یاد آ جائے

تو ہم رو کر زمانے کو رُلاتے ہیں

 

 

 

 

 

اب میری دعاؤں کا اثر بدلا ہوا ہے

پاکیزہ محبت کا ثمر بدلا ہوا ہے

 

اک عمر سے ٹوٹا ہے مرا اُس سے تعلق

وہ شہر، وہ گھر اور نگر بدلا ہوا ہے

 

جو صرف مجھے راس تھا، پیروں سے بندھا تھا

رستا ہے کوئی اور، سفر بدلا ہوا ہے

 

پیدا جو ہوئے موت کے اسباب عجب سے

ہر سانس سے لپٹا ہوا ڈر بدلا ہوا ہے

 

کس در سے معظم کو ملے دل کا سکوں اب

ہر شخص کوئی اور ہے گھر بدلا ہوا ہے

 

 

 

 

 

تنہائی میں جب بھی میری یاد آئے تو رونا

دیوانہ سا غم سینے میں بھر جائے تو رونا

 

ہجر کے غم کو چپ کر کے سہہ جانا دانش مندی

لیکن یادِ ماضی جب بھی تڑپائے تو رونا

 

وصل کے سارے لمحے اپنے دل میں رکھنے ہوں گے

اور جب اُتریں گے شام کے گہرے سائے تو رو نا

 

میرے تو سب شعر ہیں تیرے حسن کے ہی دیوانے

رات گئے کوئی میرا شعر سنائے تو رونا

 

بھول تو جانا عشق معظمؔ ماضی جان کے اپنا

دل یادوں کے بھی جب دیپ جلائے تو رونا

 

 

 

 

 

مجھے ہر سزا دو، گلہ تک نہیں ہے

مگر کچھ بتا دو، گلہ تک نہیں ہے

 

ملاقات کا ایک وعدہ عطا ہو

کوئی حوصلہ دو، گلہ تک نہیں ہے

 

کسی رہ گزر میں اُسے تم ملے تھے

فقط یہ بتا دو، گلہ تک نہیں ہے

 

یہ ظلمت کدے، شہرِ یاراں سلامت

مجھے بھی جگہ دو، گلہ تک نہیں ہے

 

صدائے معظم مخاطب ہے تم سے

کوئی آسرا دو، گلہ تک نہیں ہے

 

 

 

 

 

درد شعروں میں ڈھالے، نمایاں کیے

مرحلے ہم نے چاہت کے آساں کیے

 

ڈھونڈنے کی لگن میں تماشا بنے

ہم پہ تیری محبت نے احساں کیے

 

چھاؤں جھلسا رہی ہے بدن کو مرے

کیا ملا نخلِ جاں کو بیاباں کیے

 

لکھ دیے ہیں کتابِ وفا میں سبھی

میرے دُکھ درد کے جتنے درماں کیے

 

چور آنے سے پہلے جو خود لوٹ لیں

ہم نے ایسے معظمؔ ہیں نگراں کیے

 

 

 

 

 

بانہوں میں سمٹ جانے کو چاہے گا سدا دل

قربت میں تری آنے کو چاہے گا سدا دل

 

تجھ میں ہے کوئی ایسی کشش میرے لیے تو

ہر پل ہی تجھے پانے کو چاہے گا سدا دل

 

تُو بھی تو فقط کہہ دے تجھے پیار ہے مجھ سے

پھر کیسے بھلا جانے کو چاہے گا سدا دل

 

مد ہوش فضاؤں میں ترے رقص پہ جاناں

نغمہ تو وہی گانے کو چاہے گا سدا دل

 

غزلیں جو نشیلی سی لبِ یار سے پھوٹیں

اس طرح تو مے خانے کو چاہے گا سدا دل

 

 

 

 

 

مجبوری

 

دل تو میرا کرتا ہے کہ

اڑ کر اپنے گھر کو جاؤں

ہائے! یہ مجبوری کیسی

پَر ہیں نہ ہی مہلت مجھ کو

 

 

 

 

 

بے چین کر گیا وہی، اکیڈمی کا دوست

دل میں اتر گیا وہی، اکیڈمی کا دوست

 

میَں تو اسے سمیٹنا بھی چاہتا تھا اور

پل میں بکھر گیا وہی، اکیڈمی کا دوست

 

دیکھا اُسے تو ہو گیا میں مضطرب، اُداس

جادو سا کر گیا وہی، اکیڈمی کا دوست

 

چاہا تھا ہم سدارہیں گے ساتھ ساتھ پَر

دنیا سے ڈر گیا وہی، اکیڈمی کا دوست

 

حالِ دل و نظر نہ پوچھ ہم سے زندگی

آ کر گزر گیا وہی، اکیڈمی کا دوست

 

میں ڈھونڈتا ہوں اب گلی گلی میں اس کے نقش

جانے کدھر گیا وہی، اکیڈمی کا دوست

 

 

 

 

 

بارشوں کے موسم میں بارشیں تو ہوتی ہیں

دل بھلے غریب کا ہو خواہشیں تو ہوتی ہیں

 

 

 

 

 

بہاروں کے سبھی اُجلے نظاروں سے گلہ کرنا

مجھے تو یاد ہے تیرا اشاروں سے گلہ کرنا

 

تصور میں کہیں کھوئے ہوئے رہنا اکیلے میں

اُداسی میں ترا شب بھر ستاروں سے گلہ کرنا

 

ملا جو بھی مجھے اُس نے محبت کے دیے دھوکے

مگر اچھا نہیں لگتا ہے یاروں سے گلہ کرنا

 

میں اس کے ساتھ چلتا ہوں مگر کہتا نہیں کچھ بھی

کہ سیکھا ہی نہیں میں نے سہاروں سے گلہ کرنا

 

دلوں میں جو اتر جائیں گے ہم شفاف آئینے

گوارا ہو اگر ہجراں کے ماروں سے گلہ کرنا

 

فقط چہرے سے دُکھوں کی تپش محسوس کی جائے

بھلا موزوں کہاں ہے سوگواروں سے گلہ کرنا

 

مجھے اچھا نہیں لگتا شبِ ہجراں کے پہلو میں

معظمؔ عادتاً تیرا ستاروں سے گلہ کرنا

 

 

 

میں اس کے پاس جاتا ہوں، زمانہ بھول جاتا ہوں

میں اپنی زندگی اپنا ٹھکانہ بھول جاتا ہوں

 

بڑا مد ہوش سا رہتا ہوں میں اس کی رفاقت میں

میں اپنی چائے میں چینی ملانا بھول جاتا ہوں

 

مجھے اُس نے تحیر میں اُتارا ہے محبت سے

میں روتا ہوں مگر آنسو بہانا بھول جاتا ہوں

 

سیہ بختی بھلا اس سے زیادہ اور کیا ہو گی

میں اپنے ہاتھ سے لکھا فسانہ بھول جاتا ہوں

 

معظمؔ روٹھنا اُس کو ہمیشہ یاد رہتا ہے

بُرا میں ہوں کہ میں اُس کو منانا بھول جاتا ہوں

 

 

 

 

 

گلی میں چل رہا ہے ایک تنہا شخص دیکھو تو

کسی سوئے ہوئے سُر کو جگاتا شخص دیکھو تو

 

شبِ غم کی سحر نے روند ڈالا ہے اُسے گویا

زمیں سے کرچیاں اپنی اُٹھاتا شخص دیکھو تو

 

اُسے دیکھوں یا میں اپنے اُبھرتے نقش کو دیکھوں

مجھے بے کیف رنگوں سے بناتا شخص دیکھو تو

 

در و دیوار! تم میری محبت کی گواہی ہو

فصیلِ جاں کو لحظے میں گراتا شخص دیکھو تو

 

تمہارے گھر کی جانب اُس نے دیکھا ہی نہیں اب کے

معظمؔ اس گلی سے وہ گزرتا شخص دیکھو تو

 

 

 

 

 

خود کلامی کی مجھے اب بھی اذیت سی تو ہے

ہاں مجھے اب بھی محبت کی ضرورت سی تو ہے

 

مانگتے ہیں وصلِ یاراں تو ملا کرتا ہے ہجر

میری حالت سے دعاؤں کو عداوت سی تو ہے

 

ان دنوں آتے ہیں گھر میں وہ بہانوں سے مرے

دوستو! مجھ پر تواتر سے عنایت سی تو ہے

 

چھوڑ جائے گی کسی دن بے رخی سے ہاتھ کو

جانتا ہوں زندگی بھی بے مروت سی تو ہے

 

اے معظم! کوئی تو ہے جو بسا ہے اس میں بھی

دیکھتا ہوں میرے دل میں اک بغاوت سی تو ہے

 

 

 

 

 

حسن پردے میں چھپانا تو مناسب ہی نہیں

زخم دل کو بھی لگانا تو مناسب ہی نہیں

 

ساری دنیا پر کھلے گا یہ ترے دل کا جنوں

راز داں سب کو بنانا تو مناسب ہی نہیں

 

تیر جتنے بھی ہیں وہ میرا مقدر ہو گئے

اب مجھے ان سے بچانا تو مناسب بھی نہیں

 

جل کے مر مٹنا ہی پیمانہ وفاؤں کا ہوا

یوں مگر خود کو جلانا تو مناسب بھی نہیں

 

ہم نہ کہتے تھے کہ روؤ گے معظمؔ عمر بھر

اس طرح دل کو لگانا تو مناسب بھی نہیں

 

 

 

 

 

میَں نے اس کے چہرے پر سنجیدگی ہی دیکھی ہے

اس رخِ مہتاب کی اک چاندنی ہی دیکھی ہے

 

جانے وہ رہتا ہے کیوں خاموشیاں اوڑھے ہوئے

اُس کے چہرے پر مسلط خامشی ہی دیکھی ہے

 

اس کی کالی زلف پر ہیں یہ گھٹائیں بھی نثار

اُس کی آنکھوں میں حیا کی روشنی ہی دیکھی ہے

 

جی رہا ہوں اس لیے بھی کہ کھلی آنکھوں سے بس

اُس جبینِ ناز کی بس سادگی ہی دیکھی ہے

 

کس قدر بد بخت ہوں میں اے معظمؔ آج بھی

دن چڑھا ہے اور میں نے تیرگی ہی دیکھی ہے

 

 

 

 

 

فرق

 

محبت تو محبت تھی

محبت تو محبت ہے

مگر اب فرق ہے اتنا

ہوا کرتی تھی یہ پہلے

مگر اب کرنی پڑتی ہے

 

 

 

 

 

تیری یاد اور آدھی رات

ہم نے کاٹی کالی رات

 

تیرے شہر میں دوہی باتیں

اک تو اور اک تیری رات

 

ہجر کا دُکھڑا سنتے سنتے

بادل میں چھپ روئی رات

 

اندیشوں کے مارے جگنو

اُتری کتنی گہری رات

 

ان کی روٹھی آنکھوں میں

دیکھی آتی جاتی رات

 

 

 

جوازِ شکست

 

میرے محبوب مرے یا ر! مجھے جینے دے

مجھ کو سچائی کے ادراک میں کچھ لکھنے دے

جس حسیں جذبے کو تہذیب نے لکھا ہے گنہ

ایسی تہذیب کے اوراق میں کچھ لکھنے دے

یہ بھی مانا کہ مجھے جینا ہے تکلیفوں میں

سانس چلتی ہے تو سینے میں گھٹن ہوتی ہے

تیرے ہونٹوں پہ چمکتی ہوئی روشن سی کرن

مسکراہٹ کہ ضیا پاش لبوں پر اُترے

زندگی ما نگ رہی ہے، وہ کرن، ایک کرن

جو مداوا ہے غمِ دل کا، وہی ایک کرن

تیری یہ گرم لرزتی ہوئی سانسوں کا فسوں

روح میں اتری ہوئی ایک بہکتی سی نظر

میرے سینے میں جگاتی ہوئی سانسیں اک دم

پہلے ہی حدتِ احساس کی گرویدہ مہک

جلتے شعلوں کو ہوا دیتی ہوئی دفعتاً

کپکپاتے ہوئے ہونٹوں پہ محبت کی قسم!

تیرے عارض کی مہکتی ہوئی چھاؤں کا سکوت

ہاں! یہی مقتلِ شب ہے جو لہو مانگتا ہے

اپنی تہذیب کو بے بس ہی یہاں پایا ہے

زندگی مل، بھی گئی تووہ محبت پہ نثار

میری تہذیب و تمدن تیرے ہونٹوں پہ نثار

فطری جذبوں سے گندھے کرب کے ہاتھوں اکثر

صرف میَں ہی نہیں دنیا میں بہت سے مجنوں

اپنی تہذیب سے کٹ کر نہیں جیتے اکثر

نازنیں! مجھ کو یہ کہنے دے کہ مجھے جا نا ہے

زندگی مجھ کو ستاتی ہے کہ میں چپ ہی رہوں

میں فرشتہ بھی نہیں ہوں کہ نہ بہکوں شب بھر

میں ترے جسم کو چھو کر بھی سدا چپ ہی رہوں

میں ترے لمس کی حدت کو نہ محسوس کروں

 

 

 

 

 

خواہشوں کے خون میں نہائے ہوئے ہیں

اپنی اناؤں کوسب جلائے ہوئے ہیں

 

کاغذوں کو دیکھ کے ہی ناک دکھے گی

پیٹ کی خاطر اُنھیں اُٹھائے ہوئے ہیں

 

ایک تری بستی میں تھا گیان شبِ ہجر

دیپ جلے ہیں کہ یہ بجھائے ہوئے ہیں

 

شور کا ڈر ہے کہ سب کی دھڑکنیں چپ ہیں

لوگ تو دہشت سے ہی ڈرائے ہوئے ہیں

 

نیلگوں چپ ہے لبوں پہ خامشی سی کیوں

راز کئی دل میں ہی چھپائے ہوئے ہیں

 

 

 

 

 

بے بسی

 

وہی باتوں کا سچا پن، وہی شیریں بیاں لہجہ

وہی رنگت، وہی کلیوں کے جیسی ہے مہک خیزی

وہی آنکھیں، وہی باتیں، وہی لہجہ، تمھارا بھی

حسیں ہو تم، جواں ہو تم، بڑی ہی دل نشیں ہو تم

وہی انداز دیکھے ہیں تمہاری ذات میں جاناں

تمھاری بات سے مجھ کو بھلا انکار کب ہے کہ

سحر ہو، آسماں ہو تم، سراجِ رہ گزر ہو تم

 

مگر اے جاں! تمہاری ذات میں کچھ مختلف بھی ہے

کچھ ایسا ہے کہ تم تسخیر کر جاتی ہو لمحے میں

کچھ ایسا ہے کہ میں جیتے ہوئے لمحے میں آخر کار

تمہارے حسن کی باکیوں سے ہار جاتا ہوں

میں سب کچھ ہار جاتا ہوں

 

 

 

 

 

پیامِ محبت، سلامِ محبت

جواباً ہوا احترامِ محبت

 

یہ جی چاہتا ہے ترے نام کر دوں

وجودِ محبت، یہ نامِ محبت

 

یہ الزام جس پر لگا، مر گیا ہے

اترتی ہے ایسے ہی شامِ محبت

 

بہاروں سے اس کا تعلق بھی کیا ہے

یہ دل تو ہوا ہے غلامِ محبت

 

معظم! تمہاری رگوں میں سرکتا

لہو رُک گیا ہے بنامِ محبت

 

 

 

 

 

عید مبارک

 

مسرت سے بھرا تھا عید کا دن جو

نئی خوشیاں اٹھا لایا

کہ سب ہنستے ہوئے لوگوں میں خوشیوں کی

لہر جاگی

سبھی نے چاند دیکھا تو

خدا سے کچھ نہ کچھ مانگا

مگر پاگل سا اک شاعرکسی کونے میں بیٹھا تھا

وہ گہری سوچ میں گم تھا

کبھی وہ چاند پر نظریں جمائے خامشی کی جھیل میں

جا ڈوبتا تھا اور اُبھرتا تھا

مگر دستِ دعا اس نے اٹھایا ہی نہیں شاید

وہ مانگے بھی تو کیا مانگے؟

اسے معلوم تھا شاید

کہ اس کی ہر طلب تقدیر کے ہاتھوں میں گروی ہے

عید مبارک کے آوازے اُس کو چبھنے لگتے ہیں

خیر مبارک کا جملہ اس کے ہونٹوں پر رُک جاتا ہے

 

 

 

 

 

عالمِ قضا میں اک شور جو بپا سا ہے

مجھ کو اپنے ہونے کا یار واہمہ سا ہے

 

آج اس کی باتیں بھی کس طرح بیاں ہوں گی

آج اس کی باتوں سے میرا دل دکھا سا ہے

 

راستوں کی چھانیں گے خاک تو خبر ہو گی

منزلوں سے آگے بھی ایک راستا سا ہے

 

تیرے سنگ جڑ کے اب، میَں تو میَں نہیں لیکن

کون میرے اندر ہے جو برہنہ پا سا ہے

 

اب تو میرے کوچے کے لوگ مجھ پہ ہنستے ہیں

گویا یہ جدائی لطف خیز واقعہ سا ہے

 

 

 

 

 

ماضی کو جو سوچیں تو پھر نقصان سے ڈر جاتے ہیں

ہم اب نئے ہر خوش نما پیمان سے ڈر جاتے ہیں

 

انسانوں سے کچھ اس طرح کے زخم پائے ہیں کہ اب

انسانوں سے ملتے ہوئے انسان سے ڈر جاتے ہیں

 

شہرِ اَنا کے لوگ سارے نا خدا تو ہیں مگر

آفت پڑے تو مٹی کے بھگوان سے ڈر جاتے ہیں

 

کاٹی ہے تنہا رات اس گھر کے بیاباں میں تو اب

لکھتے ہوئے بھی دشت کے عنوان سے ڈر جاتے ہیں

 

جب دیکھتے ہیں بھیڑ ان اونچی دکانوں پر تو ہم

افلاس کے مارے ہوئے دہقان سے ڈر جاتے ہیں

 

دنیا جہاں کی جھوٹی سچی قسمیں کھاتے ہیں مگر

میرے قبیلے والے سب قرآن سے ڈر جاتے ہیں

 

یہ تو وفا داری میں اپنی جان بھی وارے گا، پَس

ہم بھی معظم سے، علی اعوان سے ڈر جاتے ہیں

 

 

 

 

 

دل غریب الدیار ہے صاحب

بے کسی کا مزار ہے صاحب

 

حسن ڈھلتی سی شام کا منظر

عشق چڑھتا خمار ہے صاحب

 

بِن لگاوٹ کے تم سے کہتے ہیں

ہم کو تم سے پیار ہے صاحب

 

ایک گوری نے ہم سے پوچھا ہے

میری قسمت میں پیار ہے صاحب؟

 

یہ جو دنیا کی سب ہے رنگینی

ساری تم پر نثار ہے صاحب

 

 

 

 

 

زندگی یوں بگاڑ لی ساری

جیسے ہم نے کباڑ لی ساری

 

لوگ کہتے تھے میَں نہیں عاشق

آستیں ایسے پھاڑ لی ساری

 

زندگی کی تلاش میں ہم نے

زندگی ہی اجاڑ لی ساری

 

میری گدڑی میں لعل چاہت کے

تو نے گدڑی ہی جھاڑ لی ساری

 

تیری یادوں کی تیغ تو ہم نے

دل کے اندر ہی گاڑ لی ساری

 

 

 

 

 

زندگی دَرجہ اَتم دُشوار ہو بھی سکتی ہے

اب ہمارے درمیاں دیوار ہو بھی سکتی ہے

 

گو محبت میں نہیں تکرار کا پہلو کوئی

پَر ترے لہجے پہ اب تکرار ہو بھی سکتی ہے

 

چھُو اگر جائے تیرے ہونٹوں کو یہ میرا کلام

پھر مری خستہ غزل شہکار ہو بھی سکتی ہے

 

اے دلِ ناداں! سمجھ! اِن چاہتوں کے کھیل میں

دل رُبا اِک پختہ سی فنکار ہو بھی سکتی ہے

 

ایک مدت سے سمٹ پایا نہیں دل کا فسوں

اب تری تالیف دل پہ بار ہو بھی سکتی ہے

 

چارہ گر! تو اِنتہائی سوچ کا تریاق کر

فکر بھی اِک جنس ہے، بیمار ہو بھی سکتی ہے

 

بیڑیاں جو کر رہی ہیں بَین میرے پاؤں میں

ایک دن اس شور میں چہکار ہو بھی سکتی ہے

 

اے معظمؔ! کشت و خوں سے عہدِ حاضر کو بچا

زندگی انسان کی بیزار ہو بھی سکتی ہے

 

 

 

 

 

کسی دَر پر اَنا کا سر جھکایا  جا چکا ہو گا

ثمر نخلِ تمنا سے گرایا  جا چکا ہو گا

 

کہیں ہنستی ہوئی آنکھیں بجھائی جا رہی ہوں گی

کہیں گرتا ہوا آنسو اُٹھایا  جا چکا ہو گا

 

یہ تیری آنکھ سے جب تک گرے گا حیف کا پانی

کہ تب تک اک نشیمن کو جلایا  جا چکا ہو گا

 

ادھر روشن سے مکھ پہ زلف گر جائے اکیلے میں

ادھر دل میں نیا جذبہ جگایا  جا چکا ہو گا

 

کسی کے پاس تو بس سوچ کا ہی اک خزانہ تھا

کسی کے واسطے وہ بھی لٹایا  جا چکا ہو گا

 

کہیں گوری کی تصویریں جلائی  جا چکی ہوں گی

کہیں شاعر کے شعروں کو مٹایا  جا چکا ہو گا

 

 

 

 

 

مرحلہ طے جو کر لیا ہم نے

ہجر آنکھوں میں بھر لیا ہم نے

 

آج گرنا تھا بجلیوں کو بھی

آج ہی تو یہ گھر لیا ہم نے

 

اس نے مانگا خراج یادوں کا

اس کو بانہوں میں بھر لیا ہم نے

 

کیسے ان سے بچھڑ کے جینا تھا

یہ عدو اپنے سر لیا ہم نے

 

 

 

 

 

صاعقے اک تو میرے اس گھر کو جلانے آ گئے

لوگ بچا کھچا یہ سامان اٹھانے آ گئے

 

بزمِ نگار میں چھڑا تذکرۂ منافقت

میری نظر میں لوگ تو اپنے بیگانے آ گئے

 

بھائی کے ہاتھ پہ ہے اپنے کسی بھائی کا خوں

رنگ بدلنے کے یہ اب کیسے زمانے آ گئے

 

رو پڑا تھا میں سوچ کر کوئی نہیں ہے غم کشا

سارے ہی در مجھے تو کمرے کے ہنسانے آ گئے

 

خلد کی ہم سے وہ سزا بھی تو ابھی کٹی نہیں

اور مجھے زمیں پہ پھر اب کے بھلانے آ گئے

 

 

 

 

 

وہ کہ اشکوں کی ڈھال رکھتا ہے

دکھ مرے سب اچھال رکھتا ہے

 

آدمی کا خیال مجھ کو ہے

مولا میرا خیال رکھتا ہے

 

زندگی کا اچھال کر سکہ

وسوسے دل کے ٹال رکھتا ہے

 

جی رہا ہے بچھڑ کے مجھ سے بھی

کس قدر وہ کمال رکھتا ہے

 

تیری چوکھٹ پہ سر جھکائے ہوئے

دل میں بوجھل سوال رکھتا ہے

 

ساغرِ جم پہ کوئی اِترائے

کوئی جامِ سفال رکھتا ہے

 

 

 

 

 

وحشت کی مرے سر سے یہ تلوار ہٹا دے

یہ روپ یہ بہروپ کی دیوار ہٹا دے

 

ہاں! بیچ یہ فرسودہ خیالات کہیں اور

یہ جھوٹی کہانی یہ اداکار ہٹا دے

 

یہ خبریں یہ منظر مجھے سونے نہیں دیتے

نظروں سے مری سال کے اخبار ہٹا دے

 

سر کٹنے سے میں اب بھی نہیں ڈرتا ہوں لیکن

توقیر بچانی ہے، یہ دستار ہٹا دے

 

تعمیل سلامت ہے کہ برباد ہوا ہوں

اب میرے نصابوں سے یہ افکار ہٹا دے

 

 

 

 

 

کچھ سر بدل گئے کہیں خنجر بدل گئے

آنکھیں کھلیں تو خواب کے منظر بدل گئے

 

تم بھی مجھے ٹٹول رہے ہو میں بھی تمھیں

کتنا ہم ایک سال کے اندر بدل گئے

 

یہ وہ وطن نہیں جسے چھوڑا تھا میں نے کل

یاں تو سبھی ہی خواب کے پیکر بدل گئے

 

کچھ پھر گئے تھے عشق سے پیشِ رسیدِ تن

اور جو بدل نہ پائے، وہ چھو کر بدل گئے

 

دفنا دیا قبور میں ہم زندگان کو

لاشیں وہی ہیں اپنی، مقابر بدل گئے

 

خوشبوئیں بیچتے تھے جو پھولوں کے ہاتھ پر

ایسی ہوا چلی کہ وہ تاجر بدل گئے

 

 

 

 

 

میں نے اُس کو دیکھا تھا

اپنے آپ میں تنہا تھا

 

اس نے جاتے جاتے بھی

مجھ کو مڑ کے دیکھا تھا

 

میَں نے ساری دنیا سے

اس کو بڑھ کے چاہا تھا

 

مے تھی اس کی آنکھوں میں

جب وہ سو کے جاگا تھا

 

پھولوں کی وہ ملکہ تھی

پھولوں کا میَں بھنورا تھا

 

سوچ نگر کے باسی کے

گھر کو جلتے دیکھا تھا

 

یا تو اس کی چاہت تھی

یا نظروں کا دھوکہ تھا

 

درد معظم خاک ہوا

جو وہ کھل کے رویا تھا

 

 

 

 

 

یہ طلسم ہیں تری آنکھ میں جو نقاب رُخ سے ہٹے تو کیا

میں تو پی رہا ہوں نگاہ سے یہ صبوئے مے جو گھٹے تو کیا

 

مرے جس قدر بھی تھے ہمسفر، وہ تو راستوں میں بھٹک گئے

روِ منزلاں میَں اکیلا ہوں یہ مرا سفر بھی کٹے تو کیا

 

مرے اجڑے اجڑے سے روپ سے، مری شخصیت کو نہ تو پرکھ

پسِ آئینہ ہیں نفیس تر، سرِ آئینہ جو اَٹے تو کیا

 

یہاں دفن مجھ میں کہانیاں ترے درد و غم کے شمار کی

مرے خواب نخلِ تمنا پہ جو اُگے ہوئے تھے، کٹے تو کیا

 

مری ذات تھی مرا آئینہ وہ تو کب سے سینہ فگار ہے

یہ غبار سا تیری آنکھ کا اب چھٹے چھٹے، نہ چھٹے تو کیا

 

 

 

 

 

چاند بھی میرے جیسا ہوا

اس گگن پر وہ تنہا ہوا

 

سچ کہوں مدتوں سے مرا

منظرِ شب ہے دیکھا ہوا

 

آج تو رات بھی بھیگی ہے

رو پڑا کھل کے رویا ہوا

 

ضبط کرتا رہا دیر تک

میرے شعروں کو پڑھتا ہوا

 

مجھ پر جیسے یہ سب ہنس دیے

وہ بھی گزرا ہے ہنستا ہوا

 

جیسے میَں کھویا کھویا سا ہوں

وہ بھی ایسے ہی کھویا ہوا

 

یہ معظم تو ہے میرا بھی

ایک مدت سے دیکھا ہوا

 

 

 

 

 

اس سے پہلے کہ شام ہو جائے

آرزو ہم کلام ہو جائے

 

وقت کو کون جان پایا ہے

کون کس کا غلام ہو جائے

 

ساقیا تیرے مست ہونٹوں سے

ایک انگوری جام ہو جائے

 

دیکھ لے گر تو آنکھ بھر کے مجھے

پارسائی تمام ہو جائے

 

زندگی ایک شامِ وصل کی ہو

اور وہ میرے نام ہو جائے

 

ایک شاعر کا شہرِ پروا کو

آخرِ شب سلام ہو جائے

 

 

 

 

تم کیا جانو اس جیون میں کتنے درد جھمیلے ہیں

تم نے دنیا دیکھی ہم نے دنیا والے جھیلے ہیں

٭٭٭

ماخذ:

www.idealideaz.com

www.kitaabapp.com

ای پب سے متن کا حصول، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

 

ای پب فائل

 

کنڈل فائل